اکتوبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

غیر سودی معیشت سے سو دی معیشت تک

منیراحمد | اکتوبر۲۰۲۰ | اسلامی معاشیات

Responsive image Responsive image

یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ ’’کیا معیشت سود کے بغیر چل سکتی ہے یا ماضی میں ایسے اَدوار گزرے ہیں جن میں سود کامعاشی جدو جہد میںکوئی عمل دخل نہ تھا ؟ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ غیر سودی معیشت کی پہلی منظم شکل ساتویں صدی کی ریاست مدینہ سے ملتی ہے، جس میں انسانیت کا پہلا غیر سودی معاشی نظام ساتویں سے گیارھویں صدی تک دنیا میں نافذ رہا۔گیارھویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی تک یورپ میں بھی سودپر کاروبارقانوناً جر م تھا ۔یہ سختی اس قدر تھی کہ اگر کوئی شخص چوری چھپے سود پر کاروبار کرنے کا مرتکب پایا جاتا تو اس پر عدالت میں مقدمہ چلتا، جرم ثابت ہونے پر سود کے طورپر لی گئی اضافی رقم عدالت کے حکم پر واپس کی جاتی ۔غیر سودی معیشت کی دوسری مثال بیسویں صدی کے اشتراکی روس سے ملتی ہے، جس میں غیر سودی معیشت نے پہلے ۵۰برسوں میں خو ب معاشی ترقی کی تھی۔ ان حوالوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معیشت نہ صر ف سود کے بغیر کام کر سکتی ہے بلکہ اس میں ترقی اوربڑھوتری بھی ممکن ہے۔سود پر مزید گفتگوسے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ انسانیت کے پہلے معاشی نظام کی مختصر روداد جسے آنے والے اوراق میں مدینہ اکنامکس کے نام سے بیان کیا جائے گا،قارئین کے سامنے رکھی جائے۔

مدینہ اکنامکس کی بنیاد قرآن کے تین الفاظــ صلٰوۃ  ، زکوٰۃ  اور یُنفِقُون پر ہے ۔صلوٰۃ اور زکوٰۃ سیاسی اور معاشی نظاموں کے قائم کرنے کے بارے میں ہے ۔ جب حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو آپؐ نے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر کی ۔انصار اور قریش میں ’مواخات کا نظام‘ قائم کیا اوراس کے بعد ’میثاقِ مدینہ‘ کیا ۔یہ صلوٰۃ کے نظام کاقیا م تھا ۔ صلوٰۃ صرف نماز کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام ہے، جو ایمانیات، اخلاقیا ت اور سیاست پر مشتمل ہے۔ زکوٰۃ معاشی نظام کا نام ہے جس کے تحت لو گ مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں اور اس قدر دولت کماتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے کے اہل ہوجائیں ۔ صلوٰۃ کے نظام کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی مارکیٹ قائم کی تاکہ معاشی نظام کو نافذ کر سکیں ۔ اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے چاربازار تھے مگر آپؐ کو اسلامی مارکیٹ کے قیام کی اس قدر جلدی تھی کہ یہ مارکیٹ ایک بڑے خیمہ میں لگائی گئی جس میں آپؐ نے تجارت پر ٹیکس ختم کردیا۔ بہت سے تاجر اور خریدار یہودیوں کی مارکیٹ سے نکل کر خیمہ والی مارکیٹ میںآگئے ۔اس مارکیٹ کی مقبولیت سے خائف ہوکر یہودی سردار کعب بن اشر ف نے اس خیمہ کی رسیا ں کاٹ دیں، جس کے نیچے مارکیٹ قائم تھی ۔اس پر  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مارکیٹ کے لیے ایک بڑامیدان تلاش کیا جائے جو یہودیوں کی مارکیٹ سے دور مگر مسجد نبوی ؐسے نزدیک ہو، یعنی وہی صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا نظام ۔معاشی نظام کے نفاذ کے باوجود کچھ لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔مدینہ میں ایک سوال آپ ؐ سے پوچھا گیا: مَاذَایُنْفِقُوْنَ، ہم کیا خرچ کریں ؟قرآن نے اس کا جواب دیا:قُلِ العفویعنی جو ضرورت سے زائد ہے۔ اس طر ح قرآن نے ایک مکمل معاشی نظام دیا۔

مسلم دنیا میں سود پر بحث حلال اور حرام سے آگے نہیں بڑھتی، حالانکہ قرآن نے سرمایہ کے استعما ل کے دو طریقے اور ان کے اثرات کی عقلی وضاحت کر دی تھی ۔ساتویں صدی کو ’ایمان کا دور‘ (Age of Faith)کہا جاتا ہے ۔عرب کے مسلمانوںنے قرآنی احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے سودکو چھو ڑ دیا ۔انھوں نے یہودیوں کی طر ح سوال نہیں کیے ۔۹ ذوالحج ۱۰ ہجری کو جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے سودکو قطعیت کے ساتھ منع کیا،تو مدینہ کے انصارآپ ؐکے پاس آئے اور پوچھا کہ باغات کی کاشتکاری کے لیے وہ یہودیوں سے سود پر قرض لیتے تھے۔ اب کیا کریں ؟ آپ ؐنے فرما یا کہ ’’سلم پر پیسے لے لو‘‘۔’سلم‘ ایک ایسا معاہد ہ ہے، جس میں رقم پیشگی دی جاتی ہے اور فصل اور اشیا وغیر ہ بعد میں رقم مہیاکرنے والے کے حوالے کی جاتی ہیں۔انصار نے سود کو ترک کرکے سلم کے تحت رقم لینی شروع کردی۔

تقریباً آٹھ سو سال تک معیشت بڑی حد تک غیر سود ی رہی۔سولھویں صدی سے یورپ میں ’عقلیت کے دور‘(Age of Reason)کا آغاز ہوتا ہے ۔جس میں سود نے آہستہ آہستہ معاشی امور میں اپنا عمل دخل بڑھالیا۔انیسویںصدی میںاشتراکی نظام کے بانی کارل مارکس نے سود ی نظام کی فلسفیانہ انداز میں مذمت کرتے ہوئے مدینہ اکنامکس کی طرح سود کو ہر طر ح کے معاشی عمل سے نکال دیا۔بیسویں صدی میں علامہ محمد اقبال نے قرآنی آیات کی وضاحت کر تے ہوئے سود ی کاروبار کو جوئے کے مترادف قرار دیا۔ فارسی نظم میں انھوں نے سود کے بارے میں ایسی بات کہی جس کا ابھی تک ذکر نہیںہواتھا۔انھوں نے کہاکہ سود پرکام کرنے والے لوگوں کے سینے سے نور حق، یعنی ہرطرح کی اچھائی ور نیکی ختم ہو جاتی ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے دونو ں شعر درج ہیں:

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جواہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

ایں بنوک ، ایں فکرِ چالاک یہود

نورِ حق ازسینۂ آدم ربود

اقبال کا کہنا ہے کہ بنکاری چالاک یہودیوں کی سوچ کی موجودگی میں عقل و دانش اور تہذیب دین محض خالی اور کھوکھلے الفاظ بن کے رہ جاتے ہیں۔ مارکس اور علامہ اقبال کے سود کے بارے میں بیان اگرچہ دل چسپ ہیں، مگر یہ ایک قسم کا بیانیہ (Narrative) ہے۔ اس کی صداقت کو پر کھنے کے لیے اب معاشی اعداد و شمار دستیاب ہیں۔پوری دنیا میں سودی معیشت ہے۔ ذہن میں ایک سوال آتاہے کہ سرمایہ کا استعمال بطور سود کے اثرات کو قرآن کی روشنی میں جانچا جاسکتاہے؟ یعنی ایک قسم کی عددی شہادت (statistical evidence)کی ضرورت ہے کہ سود کے کاروبار میں تباہی اور ہلاکت کیونکر اور کیسے ہے؟۲۰۰۸ء میں یورپ اورامریکا میں برپا ہونے والے مالی بحران نے قرآن کی بیان کر دہ وضاحت کو یہ شہاد ت فراہم کر دی۔ بقول اقبال:’پاسبان مل گئے کعبے کوصنم خانے سے‘۔اس موضوع کو ہم تفصیل کے ساتھ خالصتاًمعاشی انداز میں بیان کریں گے۔

سرمایہ کا ارتقا

معاشی ترقی کی پہلی شکل کو ہم ’شکارچی دور‘(Hunter Gatherer Age) کے نام سے جانتے ہیں ۔اس دور میں سرمایہ ان چند نوکیلے پتھروں اور درختوں کی ہتھیار نما شاخوں پر مشتمل تھا جو جانوروں کے شکارکے لیے استعمال ہوتی تھیں ۔اگلے دور میں جسے ’نیولتھک دور‘ (Neolithic Age) کہتے ہیں ،انسان نےفصلیں اگانا اور جانوروں کوسدھاناسیکھ لیا تھا۔ اب سرمایہ آلاتِ زراعت،بیج اور جانوروں کی شکل میں تھا۔ کہاجاتاہے کہ دنیا کا پہلا سود اس دور میں وجود میں آیا جب ایک کسان نے اپنے دوسرے کسان کو فصل اُگانے کے لیے بیج ایک خاص مقدار میں اُدھار دیااور فصل کاٹنے پر ادھار دیے گئے بیج سے زیادہ کا مطالبہ کیا۔یہ جنس کے بدلے جنس کاسودی تبادلہ تھا۔اس میں دورِحاضر کے سود کی دونوں باتیں موجود تھیں، یعنی زائد اورمؤ خر ادائیگی۔ تاریخ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ فصل نہ اگنے کی صورت میں سودی معاملات کیسے طے ہوئے ہوںگے ۔شاید ادھار دینے والے کسان نے کوئی مطالبہ ہی نہ کیا ہو۔کیونکہ فصل توپیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسرے سال فصل کی کٹائی کے بعد ادھار لینے والے کسان نے خود اپنی مرضی سے طے شدہ مقدارسے بھی زیادہ بیج واپس کردیاہو کیونکہ ادھار دینے والے کسان نے فصل نہ ہونے کی صورت میں بیج کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔دراصل یہ لین دین کی خوب صورتی ہے جواشیا کے بدلے اشیا  کے تبادلے کے دور (Bartar Age)میں موجود تھی ۔

زر کی ایجاد (Advent of Money  ) نے کاروبار میں تو آسانی پیداکی مگر سودی کاروبار کی راہ بھی ہموار کر دی۔ اب سرمایے کے دواستعمال ہوگئے ۔ایک زر کا بطور تبادلہ (Medium of Exchange)استعمال جس سے اشیا مثلاً گندم ،چاول اور دوسری چیزوں کا تبادلہ (Exchange) ممکن ہو مگر ساتھ ہی زر کو اشیا کی طر ح (چاول ،گندم کی طر ح )بیچااور خریدا جانے لگا، یعنی Use of money as commodity ۔ ساتویں صدی کے عرب میں سرمایہ کے یہ دونوں استعمال موجود تھے۔ سرمایہ والے افراد کے پاس دوراستے تھے ۔یا تو وہ خود سرمایہ کو اشیا کی خرید و فروخت میں استعما ل کرے اور نفع اور نقصان کی ذمہ داری لے جسے عربی میں ’بیع‘ کہتے ہیں یا پھر اس سرمایہ کی کسی دوسرے کو مخصوص عرصہ کے لیے اور اضافی ادائیگی پر قرض دے کر یقینی منافع کما لے۔عربی میں اسے ’ربوٰ‘ کہتے ہیں ۔قرآن نے سرمایہ کے استعما ل بطور بیع کو حلال اور ربوٰکو حرام قراردیا جس پر مدینہ کے یہودیوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیع‘ اور ’ربوٰ‘ تو تجارت کی دو شکلیں ہیں اور ایک دوسرے کی مانند ہیں۔قرآن کا ایک انداز فرقان کا بھی ہے جس میں صورت حال کو حتمی طور پر واضح کر دیا جاتا ہے ۔قرآن نے وضاحت کی کہ بیع کے استعما ل میں فلاح ہے اور سود میں ہلاکت اور تباہی ہے۔ سادہ الفاظ میں سود کا معاشی عمل میں کوئی کردار نہیں ہے ۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکاہے کہ ساتویں صد ی سے لے کر پندرھویں صدی تک اقوام عالم کی معیشتیں بڑ ی حد تک غیر سودی تھیں۔ سود افرادی سطح پر موجود تو تھا مگرمعاشی جدوجہد میں اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ تھی۔

سودی کاروبار کا عروج

اٹھارھویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کی بہت ضرورت تھی ۔اسی دور ( ۱۷۷۶ء) میں ایڈم سمتھ نے انسانیت کے دوسرے معاشی نظام، یعنی ’سرمایہ داری‘ کی داغ بیل ڈالی، جس میں محض سرمایے کو بڑھانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے اشیا کی پیداوار اور مارکیٹ میں اشیا کے تبادلے( Exchange)کے لیے استعمال کیا جائے۔ سرمایے کی بڑھوتری کے اس نظام میں ایڈم سمتھ نے اسلام کی طرح سو د کے کاروبار کو منع نہیں کیا ۔صنعتی انقلاب کے دوران سرمایہ کا استعمال بطور سود بھی فروغ پاگیا،جس نے ایک سو سال کے عرصے میں معاشی امور میں اپنا عمل دخل بڑھالیا۔اب سود افرادی سطح سے اداراتی شکل میں آگیاہے۔کیونکہ بنکو ں کا بنیادی کام ہی زر کی خریدو فروخت تھا۔ انیسویں صدی کے آخری دو دہائیوں میں سود نے تقریباً ساری دنیامیں عالم گیر حیثیت حاصل کر لی تھی اور سود کے استحصالی اثرات نمایاں طور پر واضح تھے۔ سرمایہ کے دوگونہ استعمال (بیع اور ربوٰ)سے ترقی ضرور ہوئی تھی، مگر معاشرے میں امیر اور غریب کی تقسیم نہایت گہری ہوگئی جس میں غریب مزدور کی حالت خراب سے خراب تر ہوکر رہ گئی ۔ اسی استحصال نے انسانیت کے تیسرے معاشی نظام: اشتراکیت کو جنم دیا۔

یہاں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ مدینہ اکنامکس کے چارسوسال میں معاشی نظام بیع پر مبنی تھا، جس سے ہونے والی ترقی کے باعث معاشرے میں مشترکہ خوش حالی (Shared prosperity)آئی تھی مگر سود ی کاروبار نے ۱۰۰سو سال کے عرصے میں ہی قرآنی احکامات کی صداقت کی نشان دہی شروع کر دی تھی۔اشتراکیت کی بنیاداس دور کا استحصالی معاشی نظام تھا۔ کارل مارکس نے بھی سرمایہ کو اشیا کے پیداکرنے (بیع) کی حمایت اور سودی استعما ل کی شدید مذمت کی۔ کارل مارکس نے کہا کہ جب سرمایہ اشیا پیداکرنے میں استعمال ہوتاہے تو اس سے قدر (value) پیدا ہوتی ہے، جب کہ سودی سرمایہ کے استعمال سے منفی قدر (Anti value) جنم لیتی ہے جو معاشی استحصال کا باعث بنتی ہے ۔ اس لیے اشتراکیت میں سودی کاروبار کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔کارل مارکس کا ’نظر یہ قدرِز‘ سرمایے کو بیع کے طور پر استعمال کے بارے میں ہے جس کے مطابق پیداواری عمل میں محنت (مزدور)کا معاوضہ کم دیاجاتاہے ۔سادہ الفاظ میں پیداواری عمل کے باعث قدرِ زائد (Surplus value)پیداہوتی ہے، جس کا بڑاحصہ سرمایہ دار لے جاتاہے اور مزدور جس کا قدر ِ زائد کے پیداکرنے میں بڑاہاتھ ہوتاہے اپنے حق سے محروم ہوجاتاہے۔

یہاں ہم پھر ایک بار ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کی طرف لوٹتے ہیں جس میں سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ بیع کے کاروبار میں اخلاقی اور قانونی ضوابط ہیں، جس کے باعث معاشی تگ و دو معاشرے میں سماجی اور اخلاقی ہم آہنگی کا باعث بنتی ہے جس کی بنیاد قرآن کے الفاظ  قُلِ العفو میں پوشیدہ ہے ۔ یعنی محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اگر ایک فرد کی ضروریا ت سے زائد ہے توان لوگوں کو دے دی جائے جو معاشی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں ۔اگر مارکس، دانشِ بُرہان پر مبنی مدینہ اکنامکس سے واقف ہوتاتو شاید اشتراکیت کی شکل کچھ اور ہوتی ۔بہرحال مارکس کی سودی کاروبار کی شدید مخالفت کے باوجود نظام بنکاری نے سودی کاروبار کوچار چاند لگادیے۔ کارل مارکس ۱۸۸۲ء میں فوت ہوا۔اس سے پہلے اس نے سرمایہ داری کے سفینے کے ڈوبنے کی بات کی جو لوگو ں کو سمجھ نہ آئی،تاہم انسانیت، سودی کاروبار کو اپنے ماتھے پر سجا کر بیسویں صدی میں داخل ہوئی ۔اس صدی میں شاعرو فلاسفر علامہ اقبال نے سود کو آڑے ہاتھوں لیا اور پوری مغربی تہذیب کی اپنے ہی خنجر سے خود کشی کی پیش گوئی کر دی۔ مارکس کی طرح علامہ اقبال کی بات بھی  اس دور کے حالات کے تناظر میں درست نہیں لگتی تھی۔۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی نظام قائم ہوچکا تھا اور مغر بی دنیا میں سود کا جادو سر چڑ ھ کے بول رہا تھا، مگر علامہ اقبال نظام سر مایہ داری پر مبنی مغربی تہذیب کی خود اپنے ہاتھوں تباہی کا پیغام دے رہے تھے۔

سودی کاروبار کے مضر اثرات

۱۹۲۰ء کے عشرے کو مغربی معاشی ادب میں Roaring Twenties کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس دس سالہ دور میں معاشی ترقی نے سابقہ ریکارڈتوڑ ڈالے۔اس کمال میں سودی سرمایہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد منافع (سود ) کی تلاش میں شترِبے مہار کی طر ح ہر طرف سرگرداں تھا۔ ۱۹۳۰ء میں یورپ اور امریکا ’عظیم معاشی بحران‘ (Great Depression ) سے دوچار ہوئے۔ اس بحران کی بڑی وجہ سود پر مبنی مالیاتی اداروں کو قرار دیاگیا۔شکا گو یونی ورسٹی نے محدود بنکاری کا نظریہ دیاتاکہ سودکی تباہ کاریوں سے بچا جائے ۔۱۹۳۶ء میں ’گلاس سٹیگل ایکٹ‘ پاس ہواجس کے تحت امریکا میں انوسٹمنٹ بنکوں کو تجارتی بنکو ں سے قانون کے ذریعے الگ کر دیا گیا۔اس علیحدگی کاحقیقی مقصد یہ تھا کہ حقیقی شعبہ (Real Sector  )،یعنی بیع کے کاروبار کوسودی کاروبار کی ہلاکت سے دور رکھا جائے۔ ۱۹۴۰ء کے عشرے کے چارسال دوسری جنگِ عظیم لے گئی اور بعد کے ۱۵سال میں یورپ اور امریکا جنگ کی تبا ہ کاریوں سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کی اصلاح میں لگے رہے، جب کہ اس دوران روس کی غیر سودی معیشت نے خوب ترقی کی۔ ۱۹۷۰ء سے مغر بی ممالک میں معاشی ترقی کا دوسرادور شروع ہوتاہے ۔جو ۱۹۸۰ء کے عشرے میں مزید بہتر ہوگیا۔اس اثنا میں روس کی غیرسودی معیشت شدید دباؤ اور گمبھیر مسائل کاشکار ہو کر ۱۹۹۰ء کے آغاز میں مکمل طور پر منہدم ہوگئی۔

اشتراکیت کے خاتمے پر اہلِ مغر ب نے سود پر مبنی نظام سرمایہ داری کی افادیت اور فعالیت کے خوب شادیا ے بجائے ۔گویا ساری دنیا سرمایہ داری کے معاشی نظام کے تحت آگئی اور یہ توقع ظاہر کی گئی کہ ساری انسانیت کا اب یہ معاشی نظام ہے کیونکہ ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس ماضی کے دھندلکوں میں اس قدر پوشیدہ اور گم ہوئی تھی کہ کسی نے اس کو تلاش کر نے کی کوشش نہیں کی۔ ۱۹۹۰ ء کا عشرہ دراصل سود کی فتح اور کامرانی کا دور ہے مگر ایک رکاوٹ ابھی تک موجود تھی۔  ’گلاس سٹیگل ایکٹ‘ کے تحت انوسٹمنٹ بنک اور تجارتی بنک ایک دوسرے سے دور تھے، جس کے باعث سودی کاروبار اپنے کاٹنے والے حقیقی دانت دکھانے سے قاصر تھا۔ ۱۹۹۹ء میں یہ آخری دیوار بھی ہٹا دی گئی تا کہ سودی نظام اکیسویں صدی میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوسکے۔اکیسویں صدی کے پہلے چھے سال سودی کاروبار کے عروج و کمال کی داستان بیان کر تے ہیں ۔معاشی ترقی کو اس قدر طویل کامیابی کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی ۔انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب نے معاشی استحکام کو مزید طاقت بخشی۔اس دور کا معاشی منظر نامہ واقعی دلفریب تھا۔ معاشیات کا مضمون جو پچھلے سو سال سے مغرب کی یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جارہا تھا،نئے نئے نظریات اور عملی منصوبے، معاشی فلاح کے لیے پیش کررہا تھا۔ سائنس کامیابی اور فعالّیت کے حصول کے لیے پروگرام پیش کررہی تھی ۔ سودی نظام کی افادیت پر اس قدر یقین تھا کہ اس کے خلاف کسی قسم کی شکایت سننا بھی گوارانہ تھا۔ مالیاتی ادارے (تجارتی بنک اور دوسرے غیر بنک ادارے ) سود پر کام کر رہے تھے اور مرکزی بنک سود کے ادارے کو تحفظ فراہم کر رہا تھا ۔سر مایہ کا استعما ل بطور سود ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد تھا۔ معاشی تاریخ میں سودی کاروبار کو ایسی آزادی اور توقیر پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔اسی دور میں مشہور معاشی جریدے The Economist  نے ایک شمارے میں مر کزی بنکوں  اور بنکاروں کو خداسے تشبیہ دیتے ہوئےCentral Bankers as God کے عنوان سے مضمون لکھا۔

ان سب باتوں کے باوجود اہل نظر کچھ اور ہی دیکھ رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ فطرت عقل و دانش کے دل دادہ حضر ت انسان پر ساتویں صدی میں بیا ن کیے گئے قرآنی فرمودات کی صداقت ظاہر کرنا چاہتی تھی اور ۲۰۰۷ء میں ایسا ہی ہوا۔ مغربی ترقی یافتہ معیشتوں میں ایسا مالیاتی بھونچال آیا، جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور صرف دوسال کے عرصے میں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۱۰سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا مگر اس کی ’صدماتی لہریں‘ (Shock waves) ابھی تک قوت پکڑ رہی ہیں۔۱۹۳۰ء کے’عظیم معاشی بحران‘ کے بعد یہ ’دوسرا عظیم معاشی بحران‘ ہے، جسے ’عالمی مالیاتی بحران‘ (Global Financial Crisis)کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔

مالی بحران کے بعد کی دنیا

بیسویں صدی میں مغربی بنکوں نے افریقہ اور ایشیا میں بھی ایسے ہی بحران پیداکیے تھے جن کے باعث سودی بنکاری پر اعتراض کیے گئے، خاص طو ر پر۹۸- ۱۹۹۷ء کے ایسٹ ایشیا کے مالیاتی بحران میں ’ایشیا ئی شیر‘ (Asian Tigers)غیر ملکی بنکو ں کی کارکردگی پر بہت غرّــاتے اور چنگھاڑتے تھے مگر مغر بی معاشی جغادریوں نے ان کی ایک نہ سنی اوربحران کی وجہ ایشائی ممالک میں رائج Crony Capitalismقرار پائی۔ ۲۰۰۸ء کا مالی بحران مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میںبرپا ہوا۔اب اہلِ مغر ب بے بس اور لاجواب ہیں۔بعض لوگوں نے مغر ب میں رائج نظام سرمایہ داری کو ’جواری سرمایہ داری‘ (Casino Capitalism) کہا ہے ۔اس سے علامہ اقبال کی ’ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میںجوا ہے‘ والی بات ثابت ہوگئی ۔ اس بحرا ن سے سب سے بڑا دھچکاسودی کاروبار کی نظریاتی بنیاد کو لگا۔سود کی الفت میں گرفتار مغرب میں لوگوں کا سود کی افادیت سے یقین اُٹھ گیا ہے۔اس کا ثبوت بحران کے بعد مغرب میں شائع ہونے والا وہ معاشی ادب ہے، جس کی چند مثالیں ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

۲۰۱۳ء میں یونانی ماہر معاشیات کوسٹس لیپاویٹس نے اپنی کتاب Profiting without Producing  میں Financializaion  کی اصلاح استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ سودی نظام نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جس کے باعث لوگوں کی سوچ ، اخلاقیات اور اقدار متاثر ہوئی ہیں۔یہی بات علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں کہی تھی کہ سود پر کام کرنے سے سینۂ آدم سے نور حق ختم ہوجاتاہے۔ یونانی معیشت دان نے مزید کہا کہ سود کے کاروبار میں کوئی چیز پیدا کیے بغیر نفع کمایا جاتا ہے جیسے کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے۔ ۲۰۱۴ء میں دوسری کتاب پاکستان کے دو معیشت دانوں عاطف میا ں اور عامر صوفی کی ہے جس کا نام House of Debt  ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب قرض کی مقدار ایک حد سے بڑ ھ جائے تو اکا نومی میں بحران آجاتاہے ۔ان کے مطابق اس وقت پوری مغربی دنیاقرضے کا گھر ہے ۔

۲۰۱۴ء میںایک اور کتاب فرانسیسی معاشیات دان تھامس پِکٹی کی ہے۔ اس کتاب کا نام بھی بڑا دل چسپ ہے:Capital in the Twenty First Century  ۔ اس کتاب کی بازگشت آج بھی امریکا اور یورپ میں گونج رہی ہے کیونکہ انھوں نے وہ کام کیا ہے، جو کسی مسلمان مذہبی اسکالریا اکانومسٹ کو کرنا چاہیے تھا ۔تھامس پِکٹی نے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کا ۲۵۰ سال کے معاشی اعدادوشما ر(Economic Data )حاصل کر کے ایک مساوی معیشت بنائی ہے، جس میں شماریاتی طور پر ثابت کیا کہ سرمایہ کا معاوضہ بطور سود دوسرے عاملینِ پیداوار (زمین ،محنت اور آجر) سے زیادہ ہے اور جب سود کا کاروبار بڑھ جائے تومعاشرے میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہموار ہوجاتی ہے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال سے ظاہر ہے ۔یہ کتاب ایک طرح سے سود کے بارے میں قرآنی احکامات کی صداقت پرعددی شہادت ہے، جو جدید لٹریچر میں پیش نہ کی گئی تھی اور جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

سود کے خلاف یورپ اور امریکا میں علمی یلغار جارہی ہے ۔۲۰۱۵ء ایڈایر ٹرنر کی کتاب کے عنوان Between Debt and Devil  [قرض اور شیطان کے درمیان]نے تو سب کو حیران کردیا، یعنی ایک طرف قرض ہے اور دوسری طرف شیطان۔ ۲۰۱۵ء ہی میں لکھی گئی کتاب Re-Writing Rules of American Economy کی بات کرتے ہیں، جو IMF کے سابق  چیف اکانومسٹ جوزف سٹگ لٹز نے تحریر کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’امریکی معیشت کے قوانین کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے جس میں زیادہ زور سود پر مبنی مالیاتی اداروں بشمول بنک کی اصلاح پر ہے‘‘۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اہلِ مغرب کا رویہ سود کے بارے میں ہمیشہ جارحانہ (Extreme Side ) رہا ہے ۔ایک وقت تھا کہ وہ سود کا کاروبار کرنے والے کے منہ پر تھوکتے تھے۔ (دیکھیے:شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء]کا ڈراما،مرچنٹ آف وینس)۔ پچھلے ۵۰۰ سال سے مغربی دنیا سود کی شدید اُلفت میں گرفتار ہے۔ شاید یہ نئی سوچ پھر اس افلاطونی محبت کو نفرت میں بد ل دے۔

سود کے بارے میں مغرب میں تو سوچ بدل رہی ہے مگر مسلم دنیا بشمول پاکستان میں صورتِ حال بے حسی اور جمود کاشکار ہے۔اس سلسلے میں پاکستانی معاشرے کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے: پہلا طبقہ مذہبی سکالراور مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں پر مشتمل ہے۔ ان کے ہاںسود کی شدید مخالفت ہے مگر یہ دور ِ حاضر کے اداراتی سود کی پیچیدگی اورگہرائی سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں ۔۲۰۰۸ء کے مالی بحران اور اس کے بعد ہونے والے واقعات اور معاشی ادب سے بے خبری عام ہے۔دوسرا طبقہ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کا ہے۔ ان کے ہاں بڑی حد تک سود اور اسلامی روایات کے بارے میں سردمہر ی اور بے اعتناعی ہے۔ان میں کوئی جوش و جذ بہ اور سوچ نہیں ہے کہ ملک میں اسلام نظام کا نفاذ کرناہے۔یہ لوگ مغربی اکنامکس اور سود ی بنکاری کی پیچید گیوں اور گہرائی سے بخوبی واقف ہیں۔۲۰۰۸ء کے بعد شائع ہوئے معاشی ادب کو بھی انھوں نے پڑھاہے، مگر اسلامی معاشی نظام کوجاننے یا تلاش کرنے کی کوئی تحریک یا جستجو ان میں موجود نہیں ہے۔تیسرا طبقہ عوام اور بالخصوص تاجروں کا ہے۔یہ لوگ اکثر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات تو کرتے ہیں،مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیںہوئی۔یہ طبقہ اکثر وبیشتر سودی بنکاری کی مخالفت توکرتاہے مگر ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں کچھ لوگ سود کا کاروبارکھلے عام کرتے ہیںاور ان کے سود کی شرح بنکوں کے سود سے دو تین گنازیادہ ہے ۔پہلے اور تیسرے طبقے کی طرف سے ’سودی بنکوں کی نوکری کے حلال یا حرام‘ ہونے کے بارے میں اکثر سوال کیا جاتاہے مگر کسی نے کبھی بھی یہ نہیں پو چھا کہ جو تاجر سود کی کھلی تجارت کررہے ہیں ان کاسماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنا چاہیے یا نہیں؟‘‘

’اسلامی بنکاری‘ کے خوش نما نام اور آغاز سے ہم بہت خوش ہیں، مگر اس حقیقت کے بارے میں بے خبر ی ہے کہ سودی نظام کا اصل محافظ اور پاسبان تو مرکزی بنک ہی ہے۔پاکستان میں ایک طرف سٹیٹ بنک آف پاکستان اسلامی نظام کی ترقی کے لیے کام کررہاہے، مگر خود یہ ادارہ سر سے پاؤں تک سود میں شرابور ہے۔ہر دو ماہ بعد شائع ہونے والی سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مالیاتی پالیسی بیان (MPS) میں مرکزی سطح پر سود کی شرح میں ردوبدل ہی ہوتی ہے۔دراصل سودی تجارتی بنکوں سے پہلے مرکزی بنک کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

    ۱۵نومبر ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والے جریدے اکانومسٹ کے مطابق سرمایہ داری کی شہرت کو پچھلے عشرے میں بہت زیادہ نقصان ہواہے۔ آدھے سے زیادہ امریکی اب سرمایہ داری کی حمایت نہیں کرتے۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں دونوں جانے پہچانے معاشی نظام (اشتراکیت اور سرمایہ داری ) اپنی چکا چوند کھو بیٹھے ہیں ۔انسانیت اب اپنے پہلے معاشی نظام کی منتظر ہے، جس کی بنیاد دانشِ برہان پر ہے۔اس وقت زیادہ ذمہ داری مدرسہ کے مذہبی اسکالرز اوراکنامکس کے یونی ورسٹی پروفیسروں پر ہے جو مل کر مدینہ اکنامکس کو ڈھونڈیں، جس کا نزول قرآن میں ہوا اور جس کا نفاذ ساتویں صدی کی ریاست مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔اس سلسلے میں ’مدرسہ سکول اتحاد‘ کی ضرورت ہے۔ ایساہی اتحاد انگریز دور کے ہندستان میں دیوبند مدرسہ اور علی گڑھ سکول کے درمیان ہواتھا۔ دورِ حاضر کی سودی معیشت کودوبارہ غیر سودی معیشت میںتبدیل کرنا آسان کام نہیں مگر ممکن ضرور ہے ۔اگر ہم حامل قرآن ہو جائیں تو اسلام کی گم گشتہ معاشی جنت کا حصول ممکن ہوسکتاہے    ؎

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا