اپریل ۲۰۱۶

فہرست مضامین

قومی قیادت میں فکری اساس کا فقدان

ڈاکٹر صفدر محمودo | اپریل ۲۰۱۶ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

ایک ہوتی ہے فکری اساس اور دوسری ہوتی ہے روزمرہ کی سوچ، یعنی روزمرہ کے زندگی کے مسائل کا ادراک___ فکری اساس مستقل اثاثہ ہوتی ہے جو تربیت، مطالعے اور گہرے غوروفکر سے تشکیل پاتی ہے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے اور غوروفکر اسے مستقل چمکاتا رہتا ہے۔ روزمرہ کی سوچ یا وقتی سوچ حالات کے تابع ہوتی ہے اور روزمرہ کی زندگی کے مسائل اور چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کا راستہ دکھاتی ہے۔ سیاست دانوں کے حوالے سے آپ اسے سیاسی سوچ بھی کہہ سکتے ہیں، جب کہ فکری اساس ایک ایسے فلسفے اور فکر کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف غوروفکر کا منبع اور سرچشمہ ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی ہے۔

فکری اساس تربیت اور گہرے مطالعے سے بنتی ہے۔ تربیت سے مراد گھریلو تربیت اور سکول کی تربیت ہے، جو اساتذہ کی ذاتی توجہ کی محتاج ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ استاد خود بھی صاحب ِ فکر ہو اور اپنی سوچ اور مطالعے کو شاگردوں میں منتقل کرنے کا فن جانتا ہو۔ اگر استاد محض دیہاڑی دار مزدور ہو، مطالعے اور فکر سے محروم ہو، جذبے سے تہی دامن ہو، تو وہ محض رٹ رٹا کر کورس پڑھاتا رہے گا، جس سے شاگرد شدید محنت کر کے امتحانات میں اچھے نمبر تو لے لیں گے، لیکن وہ فکری اساس یا نظریاتی محور سے محروم رہیں گے۔ گھریلو تربیت بھی صرف ان گھروں میں ملتی ہے جہاں والدین کو بچوں کی تربیت کا خیال ہو، والدین اخلاقی قدروں کے عملی نمونہ ہوں اور بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔ جن گھرانوں میں ماں باپ خود اخلاقی قدروں سے بے نیاز ہوں اور عدیم الفرصت ہوں، وہاں بچے کٹی پتنگ کی مانند ہوتے ہیں جن کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اور وہ ہوا میں اُڑتے کسی درخت کی ٹہنی سے اُلجھ جاتے ہیں۔

میرے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے مطابق بچوں کی فکری اساس یا بنیاد ۱۸،۲۰سال کی عمر تک تعمیروتشکیل کے مراحل سے گزرتی ہے اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہیں تو وہ بنیاد مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ کالجوں، یونی ورسٹیوں کے آزاد ماحول میں کسی خاص گروہ کے ہتھے چڑھ جائیں، تو وہ عام طور پر پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ بعدازاں اپنے محور و مرکز کی جانب    لوٹ آتے ہیں، بشرطیکہ ان کی فکری و اخلاقی اساس مضبوطی سے تعمیر کی گئی ہو۔ لیکن اگر اس میں کمزوریاں اور خامیاں زیادہ ہوں، تو وہ اپنے حلقے، دوستوں اور ساتھیوں کے زیراثر اپنے نظریات بدل لیتے ہیں۔ میرے سامنے کتنی ہی مثالیں ہیں کہ جن بچوں کی جوانی تک تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی، جہاں گھر کی فضا پر مذہب کا راج تھا اور والدین کی سخت گیری کی حکمرانی تھی، وہ عام طور پر یونی ورسٹی کی آزاد فضا یا آزاد منش دوستوں کے زیراثر چند ہی برسوں میں مذہب ہی سے باغی ہوگئے۔

اسی سے متعلق ایک دوسری قسم بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مذہبی ماحول اور نظریاتی و تنظیمی گروہ سے فکری اساس لے کر باصلاحیت نوجوان جب عملی زندگی کی دوڑ میں شریک ہوئے، تو کچھ عرصے تک اپنے نظریاتی اصولوں پر قائم رہے۔ اپنے اصولوں کے لیے ایثار بھی کرتے رہے اور اپنے آئیڈیلز کے حصول کے لیے، اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قیدوبند بھی مستقل مزاجی اور جرأت سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن جوں جوں وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھے اور انھیں معاشی دبائو کا سامنا ہوا، تو ان میں سے قلیل تعداد اپنے اصولوں پر قائم رہی، جب کہ اکثریت نے دھیرے دھیرے ’عملیت پسندی‘ کی پالیسی اپنا لی۔ بظاہر آئیڈیلز اور اعلیٰ مقاصد کا دامن بھی تھامے رکھا لیکن معاشی مفادات، حکومتی اثرورسوخ، معاشرے میں اہمیت کے حصول اور دوسرے دنیاداری کے تقاضوںکے تحت سمجھوتے کرنے بھی شروع کر دیے۔

جوانی میں جو باغی بن کر اُبھرے، جوانی ہی میں عملیت پسند بن کر دولت اور شہرت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور بعض تو اس دوڑ کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے خاصی تعداد ان حضرات کی ہے جو صحافت، قلم یا سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور ہماری نگاہوں کے سامنے حق گوئی کا علَم اُٹھائے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر مفادپرستی کی علامت   بن گئے۔ نظریاتی بنیادوں پر حکمرانوں یا جماعتوں پر تنقید کرتے کرتے مفادات کی خاطر انھی کے غیرسرکاری مشیر بن گئے اور دولت میں کھیلنے لگے۔

تاہم، اس کاررواں کے وہ لوگ جو آئیڈیلز، اصولوں اور خوابوں سے وابستہ رہے، عشروں کا سفر طے کرنے کے باوجود مادی پس ماندگی کا شکار رہے یا مالی آسودگی سے محروم رہے۔ گویا مضبوط فکری اساس کے لیے محض گھریلو یا جماعتی اور تنظیمی تربیت ہی کافی نہیں، زندگی کے سفر کے دوران راستہ طے کرنے میں ذاتی کردار اہم ترین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو استقامت، جواں مردی اور عزم کی کتنی دولت ملی ہے، آپ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت اور استقامت ہے، یہ سارے عناصر عملی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

میرے سامنے ایسے لاتعداد محترم حضرات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھوں نے صحافت، سیاست، قلم اور تدریس کے شعبے میں ایک خاص نظریاتی پس منظر یا حوالے سے قدم رکھا۔کچھ پر مذہب کا غلبہ تھا، کچھ اسلامی تنظیموں سے تربیت لے کر آئے تھے اور نظریاتی حوالوں سے دائیں بازو کے زیراثر تھے، اور کچھ لبرل ازم کے ’پروردہ‘ ذاتی زندگی میں ہرقسم کی اخلاقی قدروں سے آزاد تھے، لیکن میری گنہگار آنکھوں نے ان میں سے اکثریت کو بدلتے دیکھا لیکن اقلیت بہرحال اپنے اصولوں اور نظریات پر قائم و دائم رہی۔ جب میں کہتا ہوں ’بدلتے دیکھا‘ تو سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے حق گوئی و بے باکی کے علَم بردار صحافیوں، اہلِ قلم اور سیاسی کارکنوں کو حکومتوں، سیاست دانوں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے کارندے بنتے دیکھا۔ بالآخر دولت کو نظریات پر غالب آتے دیکھا۔ بس فرق صرف ڈگری کا رہا قِسم کا نہیں۔ مراد یہ ہے کہ فرق تھوڑے بہت کا رہا، قسم ایک ہی تھی۔ دیوانے تو فرزانے بنتے رہے لیکن فرزانوں میں سے کسی کو دیوانہ بنتے نہ دیکھا۔ میں نے ایسے نظریاتی حضرات بھی دیکھے جو بعض نظریات، آئیڈیالوجی یافلسفۂ حیات کے پرچارک تھے لیکن ان کی عملی زندگی یا اپنی شخصیت پر ان نظریات کی پرچھائیں بھی موجود نہیں تھی۔

فکری اساس کے حوالے سے یاد رکھیں کہ فکری اساس مکتب کی کرامت، والدین کی بھرپور توجہ سے مزین تربیت اور اپنے طور پر گہرے مطالعے اور غوروخوض سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ نہ تو وراثت میں ملتی ہے اور نہ آسمانوں سے اُترتی ہے۔ ملکوں اور قوموں میں جتنے بھی قابلِ ذکر یا تاریخی انقلابات رُونما ہوئے، وہ سب کے سب اُن لیڈروں کے مرہونِ منت تھے جن کی فکری اساس گہری اور مستحکم تھی۔ مائوزے تنگ ہوں یا چواین لائی، گاندھی ہوں یا ڈاکٹر مارٹن لوتھر، اقبال ہوں یا قائداعظم محمدعلی جناح، ملایشیا کے مہاتیر ہوں یا سنگاپور کے مسٹرلی___ ان سب حضرات کی فکری اساس نہایت مستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر قائم تھی اور فکری، سماجی یا سیاسی انقلاب برپا کرنے میں ان کی فکری اساس یا فلسفے کا اہم کردار تھا۔ فکری اساس سے محروم قیادت ایڈہاک اور وقت گزارنے کی پالیسیوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے۔ اپنے تجربے اور ساتھیوں کے مشورے سے بعض اچھی پالیسیاں بھی بنالیتی ہے لیکن کوئی بنیادی تبدیلی یا ملک و قوم کی زندگی میں انقلاب لانے کی اہل نہیں ہوتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے بعد پاکستان کو ایسی قیادت نصیب نہ ہوئی، جو مضبوط اور بے لوث فکری اساس کی بنیاد پر ملک و قوم کی زندگی میں وہ انقلاب لاسکتی ہو، جس کا سلسلہ اقبال کی شاعری اور پیغام سے شروع ہوا تھا اور جسے قائداعظم نے پروان چڑھایا تھا۔ نتیجے کے طور پر معاشرتی، ذہنی اور سیاسی انقلاب کا وہ سلسلہ جاری نہ رہا جو ارتقائی منازل طے کرتا ہوا پایۂ تکمیل تک پہنچتا۔

اندازِ حکمرانی یا گورننس کے سوتے فکری اساس، نظریات، ذہنی پس منظر اور غوروفکر سے پھوٹتے ہیں لیکن جہاں نہ تو فکری اساس ہو اور نہ پختہ نظریات، وہاں اندازِ حکمرانی ناپاے دار ہونے کے سبب بدلتا رہتا ہے۔ آج ان کا انداز ایک اسلامی ذہن رکھنے والے فرد کے مانند ہے تو     کل روایات سے انحراف کرتے ہوئے نظریاتی تقاضوں سے باغی ہونے کا ثبوت دینے لگے گا۔  گویا آج گورننس کو اسلامی لبادہ اوڑھایا جارہا ہے تو کل گورننس کو لبرل ازم کی خلعت پہنائی جارہی ہوگی۔ یہ رویہ ذہنی و نظریاتی ناپختگی کی چغلی کھاتا ہے۔ سیاست میں ارتقا اور بات ہے اور نظریات سے انحراف بالکل مختلف امر ہے۔ سیاسی ارتقا قائداعظم کی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا علیحدہ وطن کا مطالبہ اسی سیاسی ارتقا کا کرشمہ تھا۔ لیکن فکری اساس اتنی پختہ تھی کہ شروع سے      آخر تک اس میں دراڑیں پڑیں اور نہ وہ اس راستے ہی سے ہٹے۔ بھلا ان کی فکری اساس تھی کیا؟ اول آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنا، اور دوم اسلامی روایات کی پابندی اور یہ پابندی   ان معنوں میں کہ اپنی سیاست اور عوامی زندگی کو اسلام کے اصولوں کا تابع رکھنا۔

اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم نے انگلستان سے واپسی پر سب سے پہلے جن جلسوں میں شرکت کی، وہ عید میلادالنبیؐ کی تقریبات تھیں۔ یاد رہے وہ اس وقت ایک نوجوان تھے۔ دوسرا ثبوت قانون ساز ادارے کا رکن بننے کے بعد مسلمانوں کے لیے وقف الاولاد کی قانون سازی تھی۔ اسی طرح نواب صدیق علی خان لکھتے ہیں: جارج ششم انگلستان کا بادشاہ تھا۔ قائداعظم مذاکرات کے سلسلے میں لندن میں موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ انگلستان کا بادشاہ اپنی کالونی ہندستان کا بھی بادشاہ تصور ہوتا تھا۔بادشاہ کی طرف سے قائداعظم کو ظہرانے کی دعوت موصول ہوئی، جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ قائداعظم نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ آج کل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ یہ رویہ تھا ایک مسلمان کا، جس کی فکری و نظریاتی اساس مستحکم تھی۔ ورنہ کوئی اور مسلمان لیڈر ہوتا تو روزہ قضا کرکے یہ اعزاز حاصل کرنے پہنچ جاتا۔

قائداعظم آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔سیاسی زندگی میں صرف ایک بار ان کو احتجاج کی کال دینا پڑی کیوںکہ یہ گاندھی کی احتجاجی سیاست نے ناگزیر بنادی تھی اور ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے زندگی و موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ بات ہے مائنڈسیٹ کی، لیکن افسوس کہ مجھے پاکستان کی کئی عشروں کی سیاست پر آئینی سوچ کے بجاے احتجاجی اور ہڑتالی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ قانونی و آئینی طریقے اختیار کرنے کے بجاے ہڑتالیں، توڑپھوڑکی ترجیح نظر آتی ہے۔ ایک اور تضاد بھی قابلِ غور ہے: حکومت میں ہوں تو قانون اور ضابطے کی باتیں کرتے ہیں اور اپوزیشن میں ہوں تو ہڑتالوں اور احتجاجی حربوں سے تخت اُلٹنے کی سیاست۔

قائداعظم کی شخصیت کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ وہ اپوزیشن میں بھی قانون اور ضابطے کی تلقین کرتے تھے اور اقتدار میں بھی اسی اصول پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں نے قائداعظم کے سیاسی ورثے سے انحراف یا بغاوت کیوں کی؟ مجھے تو یہ مسئلہ کردار، ذہنی ساخت اور فکری اساس کا لگتا ہے۔ ہماری سیاست میں باتیں اور دعوے کچھ اور کیے جاتے ہیں لیکن عمل بالکل متضاد، یعنی کہ منافقت۔ انتخابی مہم میں سادگی اور حکومتی خرچے گھٹانے کی نوید سنائی جاتی ہے، لیکن اقتدار میں آکر ہمارے حکمران مغل بادشاہوں کے طرزِ حیات کو بھی شرما دیتے ہیں۔ قائداعظم کا کردار ایسی منافقت سے پاک تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

ہمارے وزراے اعظم اور وزرا ہر سال غیرملکی دوروں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ قائداعظم کی قومی خزانے سے محبت، سادگی اور بچت کا کون سا واقعہ سنایا جائے۔ ان کے اے ڈی سی حضرات اور سٹاف کی کتابیں، یادیں اور انٹرویو ہی پڑھ لیجیے۔ فی الحال اتنا ہی سن لیجیے کہ قائداعظم بیمار تھے اور مشرقی پاکستان میں بے چینی کے پیش نظر وہاں جانا چاہتے تھے۔ گورنرجنرل کا سرکاری جہاز ڈیکوٹا نہایت چھوٹا تھا اور اس سفر میں تکلیف دہ تھا۔فائل پر تجویز کیا گیا کہ گورنر جنرل کے دورے کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی سے جہاز کرایے پر لیا جائے۔ اس پر ۵ہزار پونڈ صرف ہوں گے، جو اس وقت کوئی ۸، ۱۰ ہزار روپوں کے برابر تھے۔ قائداعظمؒ نے لکھا: ’’غریب ملک کا خزانہ اتنے خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں گورنر جنرل کے چھوٹے طیارے ہی پر جائوں گا‘‘۔ آج کل ہمارے وزیراعظم اور صدرہائوس کا روزانہ خرچہ لاکھوں اور سالانہ اربوں میں ہے۔

قائداعظمؒ ایک ایک آنے کے خرچ پر نگاہ رکھتے تھے۔ گورنر جنرل کے لیے کراچی کی ایک بیکری سے روزانہ تازہ ڈبل روٹی آتی تھی۔ ایک دن بیکری کے مالک کو محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے فون موصول ہوا کہ آپ ڈبل روٹی بڑی بھیجتے ہیں۔ ہم ایک چوتھائی استعمال کرتے ہیں باقی ضائع ہوجاتی ہے، آیندہ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں۔ بیکری کے مالک نے مؤدبانہ عرض کیا: ’’ہمارے پاس اس سے چھوٹا سانچہ نہیں ہے‘‘۔ مادرِ ملّت نے تجویز کیا کہ: ’’نیا بنوائیں، آپ کے کام آئے گا‘‘۔ اس کے بعد سے گورنر جنرل کو چھوٹی ڈبل روٹی کی سپلائی شروع ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں کے کھانوں، باورچیوں اور متنوع کھانوں کی خواہشات بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں۔ میزپر سجے لاتعداد کھانوں سے پیٹ تو بھر جاتے ہیں لیکن آنکھیں نہیں بھرتیں۔ قائداعظمؒ زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے، ہمارے لیڈر کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔

گورنر جنرل پاکستان کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی کے بقول: قائداعظمؒ نے اپنے لیے ریلوے پھاٹک کھلوانے سے انکار کر دیا، حالانکہ ٹرین آنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور وہ آسانی سے گزر سکتے تھے۔ لیکن قائداعظمؒ نے کہا: قانون سب کے لیے برابر ہے۔ میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔ ہمارے حکمران جدھر جاتے ہیں، خلقِ خدا کی زندگی اجیرن بنادیتے ہیں۔ مریض گاڑیوں میں تڑپتے اور طلبہ اسکولوں سے لیٹ ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ سالانہ امتحان دینے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ ان ’اعلیٰ حاکموں‘کی آمد پر ہر قانون پامال ہوتا ہے۔ قانون کی پامالی قومی رویہ بن گیا ہے۔ کیا آپ ہر طرف افراتفری اور انتشار نہیں دیکھتے؟

مختصر یہ کہ ہماری قوم کئی المیوں کا شکار ہے اور ان میں ایک اہم المیہ، یعنی ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ قوم قائداعظم کے بعد ایسی کرشمہ ساز قیادت سے محروم ہے، جو مستحکم اور گہری فکری اور فلسفے کی مالک ہو اور جو قومی زندگی میں فکری تبدیلی یا انقلاب لانے کی اہل ہو۔ قومی انقلاب ہمیشہ لیڈروں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ قیادت اہل اور مخلص ہو تو قوم کو پستی سے نکال کر بلندی پر لے جاتی ہے اور نہ صرف معاشی بلکہ ذہنی انقلاب بھی برپا کردیتی ہے۔ ہماری قومی زندگی میں اقبال کی شاعری اور قائداعظم کی سیاست نے جس فکری آگہی، بیداری اور تحریک کا آغاز کیا تھا وہ قیامِ پاکستان پر منتج ہوکر پس پردہ چلی گئی، اور ان کے بعد ایسی قیادت نصیب نہ ہوسکی جو اس انقلابی تحریک کو  آگے بڑھا سکتی اور قوم کی ذہنی سمت متعین کرسکتی۔ اس المیے کی بنیادی وجہ وہی تھی کہ ہماری قیادت کسی ٹھوس فکری اساس سے تہی دامن تھی اور آج بھی تہی دامن ہے۔