دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن حقائق اور مضمرات

ڈاکٹر محمد ساعد | دسمبر ۲۰۰۳ | حالات حاضرہ

Responsive image Responsive image

وزیرستان قبا ئلی علاقہ جات کاسب سے جنوبی علاقہ ہے۔ یہاں وزیر‘ مسعود اور داوڑ قبائل آباد ہیں جن کی کل آبادی ۸لاکھ ہے۔ انتظامی لحاظ سے اس کو شمالی اورجنوبی وزیرستان کی ایجنسیوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ میران شاہ‘ شمالی وزیرستان اور وانا‘ جنوبی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔ چونکہ یہ علاقہ وفاق کے زیرانتظام ہے اس لیے امن وامان اور ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داری گورنرصوبہ سرحد کی ہے۔وزیرستان کی سرحد ۲۶۰کلومیٹر تک افغانستان سے ملتی ہے۔ سرحدکے مغرب میں افغانستان کا صوبہ پکتیکاواقع ہے جو انتہائی دشوارگزار پہاڑی علاقہ ہے۔یہاں امریکی افواج کے خلاف زبردست مزاحمت جاری ہے۔اب تک خوست‘ اُرزگان‘شکین اور سروبی کے مقامات پر افغان مجاہدین کا مکمل قبضہ ہے۔

وزیرستان کے قبائل حریت پسند ہیں۔وزیر اور مسعود قبائل۱۸۵۰ء سے ۱۹۴۷ء تک انگریزی راج کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔۱۸۵۲ء میں میجر نکلسن‘ ۱۸۶۰ء میں بریگیڈیر جنرل چیمبرلین‘۱۸۷۸ء میں کرنل بویس راگن‘ ۱۸۸۱ء میں بریگیڈیرکینڈی کے زیر کمان قبائل کو دبانے کے لیے فوج کشی کی گئی لیکن ناکام رہی۔۱۸۹۷ء میںمُلا پاوندھ نے انگریز کی فارورڈ پالیسی کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ایک طویل عرصے تک انگریزوں سے برسر پیکاررہے۔ مُلاپاوندھ کی وفات کے بعدمُلا فضل دین اور مُلا عبدالحکیم نے انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔اس جہاد میں فقیر ایپی نے بھی نمایاں کردار ادا کیا جو ۱۹۴۷ء تک تحریک جہاد کے قائداور روح رواں رہے۔ انگریزی افواج جتنا عرصہ وزیرستان میں رہیں جہادی قوتوں نے ان کو آرام واطمینان سے رہنے نہیں دیا۔وزیرستان پر مستقل قبضہ جمانے اور قبائل پر قابو پانے کی غرض سے انگریزوں نے یہاں بڑی تعداد میں چھائونیاں قائم کیں‘ جن میں دو ڈویژن فوج ہر وقت قیام پذیر رہتی تھی۔ اسی طرح میران شاہ اور رزمک میں ایرفورس کے بڑے اڈے تعمیر کیے گئے جن میں ایک ایک اسکوارڈن ایرفورس متعین رہتی تھی۔ غیرمنقسم ہندستان میں وزیر ستان کمانڈ برطانوی دفاعی سسٹم کا ایک بہت اہم حصہ تھا جس پر کل ہندستان کے دفاعی بجٹ کا کثیر حصہ خرچ ہوتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے پاکستان کے کئی ایک اعلیٰ فوجی جرنیل بشمول ایوب خان اور یحییٰ خان وزیرستان کمانڈ میں تحریک مجاہدین کے خلاف آپریشن میں شریک رہے ہیں۔اِن’’نوآبادِیاتی خدمات‘‘کے عوض ان کو’’تمغہ وزیرستان‘‘ (Waziristan Medal) سے بھی نوازاگیا۔

تحریک آزادی میں سرحد کے قبائل نے جو خدمات سر انجام دی تھیں‘ ان کے اعتراف میں قائداعظمؒ نے قبائلی علاقہ جات سے فوج کو واپس بلایا۔اُس وقت سے یہاںپر مکمل امن وامان رہاہے۔ مقامی آبادی نے امن وامان اور ترقیاتی کاموں میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایسے وقت میں‘ جب کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ تھے اور وزیرستان کی سرحد پر افغانی فوج کی دراندازی روزمرہ کا معمول تھا ‘قبائلی عوام خود ان سرحدات کی حفاظت کرتے رہے اورپاکستانی فوج کو کبھی بھی مداخلت کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔

افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد غزنی اور پکتیکا کے علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی جو گذشتہ۲۰ سال سے امن وامان کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ زیادہ تر خانہ بدوش ہیںاور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے یہ افراد سردی کے موسم میںٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے میدانی علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں وزیرستان کی پہاڑی چراگاہوں میںآ جاتے ہیں۔افغان مہاجرگلہ بانی کے علاوہ محنت مزدوری  اور تجارتی کاروبار بھی کرتے ہیں۔

۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے ۵۰کلومیٹر دور انگور اڈا کے قریب ایک بہت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ انگور اڈا سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر چند گھروں پر مشتمل باغر گائوں کی آبادی ہے۔ اس میں تین چار گھروں میں ۲۰ سال سے زیادہ عرصے سے سلیمان زئی قبیلے کے افغان مہاجر آباد ہیں۔ مردجنگل کی کٹائی کا کام کرتے ہیں اورعورتیں اور بچے چیڑ کے درختوں سے چلغوزے اکٹھا کرتے ہیں۔ علی الصباح اس بستی کو مسلح افواج نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ سارے راستوں میں رُکاوٹیںکھڑی کر دی گئیں۔صرف خواتین اوربچے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد ان پر پاکستانی فوج کے کمانڈوز‘ سکائوٹ ملیشیا‘ خاصہ داروں اور ایف بی آئی کے کمانڈوزنے حملہ کیا۔ اس فوجی کشی کو ۱۶ہیلی کاپٹروں کی معاونت بھی حاصل تھی۔ پورے دن ان گھروں پر شدید گولہ باری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔شام کے وقت تک یہ ہنستے خوشحال گھرملبے کا ڈھیر تھے۔ ان سے ۱۸مکینوں کی لاشیں نکالی گئیں‘      جب کہ۲۲افراد زندہ نکالے گئے۔ ان میں ۱۴شدید زخمی تھے‘جن کو طبی امداد فراہم کرنے کے بجاے ہتھکڑیاں پہنائی گئیںاور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیے گئے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکینوں نے گھروں کے اندر نہ باہر کوئی مورچہ بندی کی تھی اور نہ ان کے پاس اپنے دفاع یا جوابی حملے کے لیے کوئی بھاری اسلحہ تھا۔ صرف روایتی بندوق اور کارتوس تھے جو کہ ہر ایک قبائلی اپنے گھر میں ذاتی حفاظت کے لیے رکھتاہے۔

اس کارروائی میں جو افراد جاںبحق ہوئے فوجی ترجمان کے مطابق یہ’’القاعدہ کے مشتبہ ارکان‘‘تھے۔یہ افسوس کی بات ہے کہ بے حد اصرار کے باوجودان کے رشتے داروں کو مقتولین کی نماز جنازہ ادا کرنے اور دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ لاشوں کو ہیلی کاپٹروں سے نامعلوم مقام لے جایا گیا۔مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا کہ اگر مقتولین رشتے داروں کے ہاتھوں دفن ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ غیر ملکی جنگجو افراد نہیں ‘ بلکہ اپنی بستی کے مہاجر بھائی ہیں۔ فوجی ترجمان‘ جنرل شوکت سلطان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’دہشت گردوں کے بارے میں فوری طور پر نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ کون ہیں‘‘۔اس خونی ڈرامے کو جس انداز سے کھیلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد صرف بیرونی آقائوں کوخوش کرنا اور اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنا تھا‘ ورنہ اگر کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنا پیش نظر تھا تو اس کو رائج قبائلی قوانین کے تحت آسانی سے اور بغیر کسی مزاحمت اور خون خرابے کے قابو کیا جا سکتا تھا۔

اس بے جا قتل وغارت کے بعد حکومت نے مطالبہ کیا کہ جن قبائل نے افغان مہاجرین کوکرایے پرمکانات دیے ہیں ان کے ۱۲افراد کو حکومت کے حوالے کیاجائے۔اس کے نتیجے میں یارگل خیل‘ کارے خیل اور ڈسی خیل قبائل کی ہزاروں دوکانوںاوربے شمارپیٹرول پمپوں کو سیل کیاگیا۔ ان کی درجنوں گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئیں۔ آپریشن کا دائرہ وسیع کر کے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان تک بڑھا دِیا گیا جو سراسر خلاف قانون تھا‘ اس لیے کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا دائرہ اختیار صرف قبائلی علاقے تک محدود ہے۔ پکڑ دھکڑ کی یہ کارروائی تین ہفتے تک جاری رہی جس کے دوران بے شماربے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا اوران کی تجارت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔

یہ آپریشن ایسے وقت میں کیا گیاجب قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ لہٰذا اُصولی طورپراس کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینا چاہیے تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے اراکین پارلیمنٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی اور قومی وحدت کے منافی قرار دیااور سرکاری ترجمان نے آپریشن کے متعلق جو حقائق پیش کیے تھے ان کو غیر تسلی بخش قرار دیا ۔ حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک پارلیمانی وفد تشکیل دیا گیا ‘جو وزیرستان جاکر موقع پر اس افسوسناک آپریشن کے متعلق حقائق معلوم کرتا لیکن جب یہ وفد۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو وزیر ستان کی جنڈولہ چیک پوسٹ پہنچا تواِسے ایجنسی کے حکام نے آگے جانے سے روک دِیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ فوجی یلغار سے متعلق اصل حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔

یہ بات وزیرستان میںہر شخص کی زبان پر ہے کہ یہ آپریشن غیر ملکی اشارے پر کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج  اوردیگر ایجنسیوں کو امریکی مقاصد کے لیے برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے شمال مغربی سرحد کی دفاعی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟  وزیرستان کے قبائل کے اعتمادکو جو ٹھیس پہنچی ہے اور ان کو جو مالی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ وزیر ستان میں اگرریگولر آرمی کی تعیناتی کی ضرورت پڑی توملک کی سالمیت پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے اور ملکی خزانے پراس کا کتنا بوجھ پڑے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔صاف بات ہے کہ پاکستانی فوج اور قبائل کے تصادم سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور نفرت کی جو فضا جنم لے رہی ہے‘ امریکی حکومت کواس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ اس کا مسئلہ نہیں۔ لیکن ہمارا تو ہونا چاہیے۔ امریکہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ وقتی طور پر جومعمولی فوجی سازوسامان پاکستان کومہیا کیا گیا ہے اُس کو القاعدہ اور طالبان کی گرفتاری میں استعمال کیا جائے اورجلد از جلد کوئی ٹھوس کارکردگی دکھائی جائے۔

ایک عرصے سے بھارت کی یہ خواہش رہی ہے کہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پر دبائو کم کرنے کے لیے شمال مغربی سرحد پر پاکستانی فوج کے لیے ایک نیا فرنٹ کھولا جائے ۔ کوششِ بسیار کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔اس وقت امریکی دبائو کے نتیجے میں تقریباً ۶۰ ہزار پاکستانی فوج‘پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کے لیے تعینات کی گئی ہے۔ اس طرح افغانستان اور امریکہ کے تعاون سے بھارت کا یہ دیرینہ خواب بالآخرشرمندہ تعبیرہو رہا ہے۔اس وقت وزیرستان آپریشن نے ملک کو ایک نئی اور سنگین دفاعی صورت حال سے دو چار کر دیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے لیے لازم ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں امریکہ کی ایما پر گھر گھر تلاشی اورہر قسم کے فوجی آپریشن کو فوراً بند کیا جائے اورکوشش کی جائے کہ تنازعات نوآبادیاتی دور کے’’گولہ بارود‘‘اور’’پکڑ دھکڑ‘‘کی پالیسی کے بجاے افہام وتفہیم سے طے کیے جائیں۔ قبائل علاقہ جات میں محب وطن افراد کی کمی نہیں ہے۔ ان کو اعتماد میں لے کر بہت سے مسائل پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔