دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

آباد شاہ پوری مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۳ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

آباد صاحب بیمار تو ایک عرصے سے تھے اور اسی سال فروری میں ان کی اہلیہ کے انتقال نے ان کی صحت اور ہمت دونوں ہی کو متاثر کیا تھا لیکن سارے مصائب کے باوجود وہ مرد درویش اس مقصد کی خدمت کے لیے بے چین تھا جس کے عشق نے اس کی جوانی اور بڑھاپے کے  شب و روز اپنا لیے تھے۔ تحریک اسلامی کا یہ بوڑھا سپاہی جماعت اسلامی کی تاریخ اور      مولانا مودودی کی سوانح لکھنے کے لیے بے چین تھا اور اپنا یہ کام اُدھورا چھوڑ کر ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جاملا۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

آباد شاہ پوری صاحب سے میرا پہلا تعارف اس زمانے میں ہوا جب وہ اُردوڈائجسٹ سے وابستہ تھے (۱۹۶۴ئ-۱۹۸۰ئ)۔ اس سے پہلے وہ کوثراور تسنیم سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں میرا ان سے کوئی ربط نہ تھا۔ اُردو ڈائجسٹ میں ان کے مضامین نے چونکا دیا--- خصوصیت سے تاریخ‘ سیرت اور شخصیت نگاری کے میدان میں ان کی تحریریں بڑی دل نشیں‘ ایمان افروز اور آرزو کو بیدار کرنے والی تھیں۔ ان کی کتابوں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز سید بادشاہ کا قافلہ ، پہاڑی کے چراغ اور اسلامی زندگی کی کہکشاں تھیں۔ تحریکی ادب میں آباد شاہ پوری کی یہ اہم خدمت ہے کہ انھوں نے دماغ کے ساتھ دل کی غذا کا بندوبست کیا اور نوجوانوں کو ولولۂ تازہ دینے کا کام انجام دیا۔

آباد شاہ پوری مرحوم کا اصل نام محمد خورشید الزماں تھا اور وہ تحصیل و ضلع خوشاب میں ۴جون ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ پہلے منشی فاضل‘ پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کی سند حاصل کی۔ اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی پر عبور تھا اور صحافت‘ شعروادب‘ تاریخ و سوانح اور تحقیق و تصنیف کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ عالمِ اسلام کے مسائل اور مسلمانوں کے حالات سے خصوصی دل چسپی تھی اور ان کی تحریر کے جس پہلو نے مجھے متاثر کیا‘ وہ تاریخی شعور کی روشنی‘ ادب کی چاشنی اور سب سے بڑھ کر امید اور جذبۂ کار کو بیدار کرنے والا ولولہ تھا۔ اس میں زندگی ہی زندگی اور جدوجہد ہی جدوجہد کا سماں نظر آتا تھا۔ آباد شاہ پوری زبان کی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان کی زبان اُردوے معلی کا بہترین نمونہ تھی۔ الحمدللہ وہ کسی لسانی تعصب میں مبتلا نہیں تھے لیکن میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پنجاب کے اُردو کے ان خادموں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی تحریر پر مقامی محاورے کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیا اور ان کی نگارشات کے مطالعے سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ صاحب ِ نگارش کا تعلق کس خطے سے ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے پطرس کا ایک قول بطور جملۂ معترضہ کے لکھ دوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اہل زبان میں بحث ہو رہی تھی کہ ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ اور ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ دونوںمیں سے صحیح یا یوں کہہ لیجیے کہ فصیح کیا ہے تو پطرس نے کہا: فصیح تو ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ ہی ہے مگر ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ لکھنے والے کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ آکہاں سے رہا ہے۔

مجھے آباد صاحب سے ۱۹۸۰ء کے بعد بہت قریب سے معاملہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک عرصہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ رہے اور اس کے بعد بھی اگرچہ ادارہ معارف اسلامی لاہور سے وابستہ تھے مگر واسطہ انسٹی ٹیوٹ ہی تھا۔ میں نے ان کو ایک بلند پایہ محقق‘ ایک بے لاگ نقاد‘ ایک روشن خیال ادیب‘ ایک مخلص ساتھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان پایا۔ دنیاطلبی کی کوئی جھلک ان کی زندگی میں نہ تھی اور آخری ایام میں جب وہ کام کرنے سے اپنے کو معذور پا رہے تھے تو یہ کہہ کر اعزازیہ لینے سے انکار کر دیا کہ میں کام نہیں کر پا رہا ہوں    ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

آباد صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ۲۰ سال جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح حیات لکھنے کے لیے وقف کر دیے تھے۔ انھوں نے تحقیق کا حق ادا کیا اور لاکھوں صفحات کھنگال کر نوٹس تیار کیے۔ جماعت کی تاریخ کی وہ صرف دو جلدیں مرتب کرسکے۔ افسوس کہ پوری تیاری کے باوجود مولانا کی سوانح وہ ضبط ِ تحریر میں نہ لا سکے اور اپنی ساری تخلیق کا حاصل اپنے ساتھ ہی لے گئے جو اہلِ علم کے لیے بڑی محرومی ہے۔ اگر انھیں مولانا کی سوانح لکھنے کی مہلت مل جاتی تو یہ تحریکی ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوتا۔ لیکن امرربی کے آگے کسی کو کیا مجال!

آباد صاحب شاعر بھی تھے لیکن میں اس راز سے ان کے انتقال کے بعد ہی واقف ہوسکا۔ ان کی جو چند نظمیں اب دیکھی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس میدان میں آگے بڑھتے تو خاصے کی چیزیں پیش کر سکتے تھے۔

آباد شاہ پوری ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جس چیز کو مقصدِ زندگی کے طور پر اختیار کیا‘ اس کے لیے پوری زندگی وقف کر دی اور آخری لمحے تک وفاداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سادہ‘ ان کی مصروفیات بہت متعین اور محدود‘ ان کے تعلقات وسیع مگر ان کے معمولات وقت گزاری اور یارباشی سے پاک۔ خاندانی اور تحریکی معاملات میں‘ مَیں نے ان کو بہت معاملہ فہم پایا اور انسانی تعلقات کے باب میں تو وہ اس پہلو سے منفرد تھے کہ اپنے اور پرائے ان سے مشورہ کرتے اور تنازعات میں ان کو ثالث بناتے اور وہ ہمیشہ حق و انصاف اور ہمدردی کے ساتھ معاملات کو نمٹاتے۔ کم گو تو وہ شاید ہمیشہ ہی سے تھے لیکن آخری عمر میں کچھ زیادہ ہی اپنے کاموں میں مگن ہوگئے تھے لیکن انسانی تعلقات اور حقوق کی ادایگی سے کبھی غافل نہ رہے۔ یہ وہ روایت ہے جو اب اٹھتی جا رہی ہے حالانکہ آج کے انسان کو اس کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آباد صاحب برعظیم کی جس علمی‘ صحافتی اور ادبی روایت کا نمونہ تھے‘ وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک خلا محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کوقبول فرمائے اور انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!

؎   جو بادہ کش تھے پرانے‘ وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آبِ بقاے دوام لے ساقی