دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

راونڈا: ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

جب ہر طرف سے بری خبریں آ رہی ہوں تو ایسے میں اگر کوئی اچھی خبر ملے تودل خوشی اور استعجاب کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ راونڈا سے حال ہی میں موصول ہوئی ہے جو تاریکیوں میں روشنی کی کرن ہی نہیں‘ اسلام کی ناقابلِ تسخیر صلاحیت کا ایک نیا مظہر بھی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ راونڈا ان مظلوم ممالک میں سے ہے جو ۱۰ سال قبل کی خانہ جنگی کے باعث زبوں حال ہے اور وہاں کی دونوں بڑی قوموں ٹٹسی (Tutsi) اور ہوٹو (Hutu)کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ افراد قبائلی آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘ غربت و افلاس کا طوفان بپا ہے اور جہالت اور انتقام کی اس جنگ میں عالم اور عامی‘ حکمران اور عوام‘ فوج اور پولیس‘ حتیٰ کہ پادری اور عیسائی مذہبی سب ہی شریک ہوگئے اور ایک دوسرے کا سر قلم کرنے‘ مال و دولت لوٹنے اور عزت و عصمت کو تار تار کر دینے کے وحشیانہ کھیل میں شریک ہو گئے۔

راونڈا میں مسلمان ایک معمولی اقلیت تھے بمشکل ۲.۱ فی صد۔ لیکن خانہ جنگی کے اس خونی دور میں ان کا کردار منفرد رہا۔ انھوں نے کسی قبیلے کا ساتھ نہ دیا‘ کسی ظلم میں شریک نہ ہوئے بلکہ اپنی ساری قوت اس آگ کو بجھانے اور مظلوم انسانوں کو پناہ دینے کے لیے وقف کر دی‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس نسل اور قبیلے سے ہے۔ چند سال کی اس کوشش کے حیران کن نتائج رونما ہوئے۔ ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا اور لاکھوں کا تصور اسلام کے بارے میں بالکل بدل گیا۔ مسلمان غریب ہیں اور تعلیم کے میدان میں پیچھے۔ لیکن اپنے اخلاق اور خدمت کے ذریعے انھوں نے اسلام کے لیے بند راستوں کو کھول دیا اور اب عزت و احترام کے ساتھ ان کو ایسے اعوان و انصار میسر آگئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے اور خصوصیت سے نئی فوج اور انتظامیہ میں اسلام کے دوستی اور اخوت کے پیغام کے علم بردار بن گئے ہیں۔ اس وقت اے ایف پی کے ایک جائزے (دی نیوز‘ ۱۱نومبر ۲۰۰۳ئ) کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کے نتیجے میں ملک کی آبادی کا تقریباً ۱۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اے ایف پی کی اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش ہیں۔ Rawanda Patriotic Front کا ایک سپاہی جس کا اب اسلامی نام اسحق ہے‘ اپنے تاثرات یوں بتاتا ہے:

جب میری یونٹ کگالی میں آئی اور میں نے دیکھا کہ میرے کتنے ہی ساتھیوں کو مسلمانوں نے چھپایا اور اس طرح ان کی زندگی بچائی تو میں مسلمان ہوگیا۔

ایک رومن کیتھولک ژان پیرے سگاہاٹھ نے جس نے اسلام قبول کرلیا اور اب ایک ٹیکسی چلاتا ہے‘ اے ایف پی کو بتایا:

میں ایک مسلمان ادریس کے گھر کے پیچھے زیرزمین ٹینک میں چھپا ہوا تھا۔ صرف اسی کو معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ اگر وہ دھوکا دیتا تو میں قتل کر دیا جاتا لیکن اس نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔

راونڈا کے سیکڑوں باسی یہی داستان سناتے ہیں اور اپنے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو اس کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق:

جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی وہ عام طور پر اس ملیشیا اور فوجیوں سے محفوظ رہے جو ٹٹسیوں کو تلاش کر کے قتل کر رہے تھے۔اس کے مقابلے میں کلیسائوں کا ریکارڈ افسوس ناک ہے۔

اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ۱۹۹۴ء میں جب ۱۰۰ دن کے اندر ۱۰ لاکھ افراد ہلاک کر دیے گئے تھے اس کے فوراً بعد اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا اور ٹٹسی ہی نہیں خود ہوٹو کی بھی ایک تعداد نے اسلام قبول کیا۔ کچھ نے مسلمانوں کے انصاف پسند اور رحم دلانہ رویے سے متاثر ہو کر اور کچھ نے نئے حالات میں ٹٹسیوں کے انتقام سے بچنے کے لیے‘ جب کہ ٹٹسی  بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام اس لیے ہوئے کہ مسلمانوں نے ان کو تحفظ فراہم کیا اور انسانی ہمدردی اور خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

آج راونڈا میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے‘ ہر طبقہ ان کی عزت کرتا ہے۔ راونڈا کے طول و عرض میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کے سبز گنبد اور سفید   مینار آزادی اور انسانیت کی علامت بن گئے ہیں۔ راونڈا کے مسلمان غریب ہیں۔ مگر انھیں فخر ہے کہ وہ اپنے معاملات کسی بیرونی امداد کے بغیر اپنے ہی محدود وسائل سے چلا رہے ہیں بقول اے ایف پی: مسلمان کمیونٹی رواداری کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے اور تمام مذاہب اور قبائل سے ان کے تعلقات نہایت دوستانہ ہیں جو باہمی احترام اور عزت انسانی کی اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ کیا پاکستان اور دوسرے روایتی ’عظیم‘ مسلمان ممالک کے لیے راونڈا کے غریب مسلمانوں کے اسوے میں کوئی سبق ہے؟