دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سمیع اللّٰہ بٹ   ‘  لاہور

ایک موثر‘ دل چسپ ‘ معلومات افزا اور یادگار اشاعت۔ پڑھ کر تشنگی میں کمی نہیں ہوئی ‘ بلکہ پیاس اور زیادہ بڑھی۔


محمد خاں منہاس ‘  اسلام آباد ۔محمد حسین شمیم ‘ لالہ موسیٰ۔ پروفیسر ریاض حسین‘ لاہور

’’اشاعت ِ خاص‘‘مولانا مودودی کی زندگی ‘ سیرت و کردار‘ ان کے دین اسلام سے گہرے اخلاص و محبت‘ اسلام کے احیا کی عملی جدوجہد اور غلبۂ دین کی تمنائوں کی حسین تصاویر کا مرقع ہے--- تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال نے قرآن پر اجتہاد کے دائرے اپنی مرضی تک وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کرکے نہایت افسوس ناک جسارت کا ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ اُن کا یہ قول کفر‘ کفرنہ با شد کے ہم معنی ہے کہ وہی اپنے کہے کے ذمہ دار ہیں‘ تاہم ایسی بات پڑھ کر صدمہ ہوا۔


عبدالحی ابڑو   ‘  اسلام آباد

ترجمان کا خاص نمبر ملا۔ بہت عمدہ ہے۔ سلیقے سے مواد ترتیب دیا گیا ہے‘ حتیٰ کہ لفافے تک میں عمدگیِ ذوق کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ خورشید صاحب کا مضمون کیا خوب ہے۔ رضوان ندوی صاحب کا مضمون اچھا ہے‘ نئی چیزیں بھی ہیں‘ مگر تشنہ ہے۔


ایاز احمد حقانی  ‘ پشاور

خلیل الرحمن چشتی کا مضمون :’’تحریک احیاے دین کے قافلہ سالار‘‘ علمی اور تحقیقی ہے۔ موصوف نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔


عمران ظہور غازی ‘  لاہور

اپنے ظاہری حسن اور ضخامت و وجاہت کے اعتبار سے تو یہ نمبر بہت بھاری بھرکم نظر آیا مگر میرا تاثر ہے کہ اس میں جس سطح کا علمی و فکری مواد ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔


عبداللّٰہ گوہر ، عمر گوہر ، خبیب انس ، یاسر انس ‘ کراچی

سید مودودی نمبر میں مضامین تو ابھی نہیں پڑھے‘ لیکن مولانا کی کتابوں کے اشتہارات نے دل خوش کر دیا۔ انھوں نے اشاعت کو ایک معنی اور پیغام دیا ہے۔ یہ’’ اشاعت خاص‘‘ پڑھنے والے کا تعلق مولانا کی شخصیت سے قائم کرتی ہے لیکن اس کی آبیاری ان کتابوں سے ہی ہوگی جس کی اطلاع ان اشتہارات سے ملتی ہے۔ ہم نے مولانا کو نہیں دیکھا‘ ہمارے لیے تو ان کا لٹریچر ہی سب کچھ ہے۔ بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ کوئی مضمون پڑھا‘ اور پھر ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ تفہیم القرآن کا مختصر اشتہار بھی خوب ہے۔


نصیرخاں  ‘  نوشہرہ کلاں

’’تحقیق میں جامعات کا کردار‘‘ (ستمبر ۲۰۰۳ئ) حقیقت پر مبنی ایک چشم کشا مطالعہ ہے۔ پاکستانی جامعات میں پی ایچ ڈی کا موضوع منظور کروانے اور داخلہ لینے میں کم از کم ایک سال ضائع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اتنے عرصے میں بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر جمع بھی کروا دیا جاتاہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جرمنی سے نو ماہ میں پی ایچ ڈی مکمل کر لی تھی۔ اگر جامعات مالی امداد نہیں بھی کرسکتیں تو   کم از کم بھاری فیسیں تو ختم کر سکتی ہیں۔


احمد اقبال قاسمی  ‘ کراچی

رمضان آتا ہے تو زکوٰۃ بھی موضوع بن جاتا ہے۔ پی ٹی وی نے ایک مذاکرہ زکوٰۃ کی کٹوتی اور اس کی تقسیم پر کیا جس میں بتایا گیا کہ زکوٰۃ تو وصول ہوتی ہے لیکن قانون کے تحت عشر کی وصولی صوبائی حکومتوں کے سپرد ہے اور نہ ہونے کے برابر اس پر عمل ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح     غربا و مساکین کی انتہائی حق تلفی ہو رہی ہے اور ان کا استحقاق مجروح ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ صوبائی حکومتیں جاگیرداروں کے دبائو میں آکر حکمِ الٰہی کو     پس پشت ڈال رہی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء میں نصف عشرکی رقم ۲۵ ارب روپے سے زائدہوجاتی ہے۔ یہ مستحقوں کا حق تھا جو وصول نہیں کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں اس میں پیش قدمی کریں‘ اورغریبوں کے لیے اتنے کام کریں کہ دوسرے صوبوں کے لیے نمونہ ہو۔ آج کل ’’غربت مٹائو‘‘ ایک نعرہ ہے جس کے نام پر بیرونی ممالک سے امداد لی جاتی ہے لیکن جو نظام اسلام نے دیا ہے اسے بروے کار نہیں لایا جاتا۔