دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

انسداد گھریلو تشدد کا بل

امجد عباسی | دسمبر ۲۰۰۳ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے انسداد کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ’’مسودہ قانون انسداد گھریلو تشدد پنجاب مصدرہ ۲۰۰۳ئ‘‘ پیش کیا گیا ہے تاکہ شادی کے تقدس اور عورتوں اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور متاثرہ فرد کے لیے کوئی کارگر قانونی دادرسی کی صورت نکل سکے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ آئے دن اخبارات میں اس حوالے سے خبریں دیکھنے میں آتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا‘ گالم گلوچ‘ تضحیک‘ مارپیٹ‘ روز مرہ استعمال کی ضروریات کو پورا نہ کرنا یا ہاتھ تنگ رکھنا ‘ مرضی کے بغیر یا کم عمری میںشادی کرنا‘دولت اور جایداد کے لیے بڑی عمر کے مرد سے نکاح‘ غیرت کے نام پر قتل‘ کاروکاری‘ قرآن سے شادی‘ وراثت سے محروم رکھنا--- ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک کرب ناک پہلو ہے‘ اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ خواتین پر روا رکھا جانے والا یہ تشدد اسلام کی تعلیمات کے بھی صریحاً خلاف ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں۔ گھریلو تشدد کے انسداد کے بل کا بنیادی محرک بھی غالباً یہی جذبہ ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر اخلاقی رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ گھریلو تشدد کا ایک پہلو خواتین کے ہاتھوں مردوں کو مختلف قسم کے معاشی و ذہنی دبائو کا سامنا بھی ہے جو ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو طریق کار وضع کیا جا رہا ہے وہ کس حد تک قابلِ عمل ہے اور آیا اس کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا خاتمہ ہو سکے گا اور گھریلو اور ازدواجی زندگی سکون کا باعث بن سکے گی‘ یا ایک مسئلے کا حل نکالتے نکالتے کوئی نیا بگاڑ یا انتشار پیدا ہوجائے گا۔

یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ محض قانون سازی سے اگر معاشرتی فساد کا خاتمہ ہو سکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک یورپ اور امریکہ میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا جہاں خواندگی کی شرح تقریباً۱۰۰ فی صد اور قانون کی بالادستی معاشرے کا شعار ہے۔ عملاً صورت حال کیا ہے؟ اس کا اندازہ امریکہ کے محکمہ سراغ رسانی کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ہر تیسری بیوی شوہر سے مار کھاتی ہے۔یہاں تک کہ حاملہ بیوی کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ ہر دوسری حاملہ عورت پٹتی ہے اور ایک تہائی بچے مار کا اثر لیے پیدا ہوتے ہیں (نواے وقت‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۳ئ)۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ایک ٹیلی فون کال پر پولیس گھرپہنچ کر خاوند کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے‘ جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا انسداد گھریلو تشدد بل بھی کچھ اسی نوعیت کی قانون سازی چاہتا ہے۔ اس بل کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ ہر تھانے کی سطح پر پروٹیکشن افسر کی تعیناتی کی جائے جس کا عہدہ پولیس انسپکٹر یا گزٹیڈ افسر کے برابر ہو۔ دیہی اور شہری علاقوں کے لیے فیملی مصالحتی کونسل تشکیل دی جائے گی جو پانچ ممبران پر مشتمل ہوگی جن میں سے ایک ممبرخاتون ہوگی۔ گھریلو تشدد کی اطلاع ملنے پر یا ازخود پروٹیکشن افسر فوری طور پر موقع پر پہنچے گا۔ اسے اختیار حاصل ہوگا کہ متاثرہ فرد کو کسی ’’محفوظ جگہ‘‘ (رشتے دار‘ فیملی فرینڈ یا خدمات فراہم کنندہ کی طرف سے تیار کردہ محفوظ مقام یا دارالامان) منتقل کر دے۔ خیال رہے کہ ازخود اقدام کا اختیار تو مغرب میں بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نجی زندگی کا تصور بری طرح مجروح ہوجائے گا۔

مصالحتی کونسل مصالحت کے لیے اقدام کرے گی اور معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کے سپرد کرسکتی ہے۔ مجسٹریٹ دیگر اقدامات کے علاوہ‘ مجوزہ بل کی شق ۶-ii اور ۶-iii کے تحت اگر وہ گھریلوتشدد کا محض شائبہ پائے تو ضمانت طلب کر سکتا ہے اور پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے مجرم کو اپنی ہی رہایش گاہ یا کسی دیگر حصے میں داخل ہونے سے منع کر سکتا ہے اور متاثرہ فرد کو گھر اور گھریلو اشیا کے استعمال کا حق دلوائے گا۔ اس قسم کے ’’محفوظ مقام‘‘ کا تعین اور اس پر عمل درآمد کی نوعیت‘ جھگڑے کے تصفیے کے دوران اہلِ خانہ کی ضروریات پورا کرنا یا بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات وغیرہ جیسے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ یہ اقدامات بجاے بہتری کے گھرکے انتشار کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بل اسلام کے قانون ازدواج اور اس کی روح مودت و رحمت سے بھی کئی حوالوں سے متصادم ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کا تعین بھی ایک اہم پہلو ہے۔البتہ بظاہر یہ تشدد سے بچائو کے لیے ایک اچھا اقدام لگتا ہے لیکن اس کے دُور رس اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

دُور جانے کی ضرورت نہیں خود مغرب کا تجربہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و عورت کی مساوات‘ عورت کے معاشی استقلال‘ مردوزن کا آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے بکھر کر رہ گیا ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اس کے باوجود خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پٹنا‘ طلاق کی کثرت‘ جنسی تشدد‘ فواحش کی کثرت‘ شہوانیت اور بے حیائی کا فروغ‘ سرے سے نکاح کرنے سے اجتناب اور بلانکاح ساتھ رہنے کا رجحان‘ نسل کشی اور تحدید آبادی‘ بچوں اور نئی نسل کی بے راہ روی‘ جسمانی قوتوں کا انحطاط‘ ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ جیسے مسائل کا مغرب کو سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق یا قانون ازدواج کی بے اعتدالی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مادیت کے اثرات اور دیگر عوامل کی بنا پر رشتۂ ازدواج متاثر ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ فیملی کورٹس میں طلاق‘ خلع اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے پیش ہونے والے مقدمات میں روز افزوں اضافے سے لگایا جا سکتاہے۔    انسدادِ گھریلوتشدد کے اس بل کے حوالے سے معاشرتی انتشار کا یہ پہلو خاص طور پر غورطلب ہے۔

معاشرے کی پایدار بنیادوں پر اصلاح کے لیے ایک ٹھوس اساس و بنیاد اور متوازن و معتدل نظریۂ حیات اور لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس کو معاشرے کا چلن بننا چاہیے اور ان اصول و ضوابط سے انحراف کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ امیروغریب سب کے لیے اصول ایک ہو‘ خلاف ورزی تادیب کی مستحق ٹھیرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ ؐ نے جب اصلاح معاشرہ کی تحریک کا آغاز کیا تو قانون سازی کو بنیاد نہیں بنایا تھا بلکہ ایک کلمے کے اقرار کو بنیاد بنایا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ ایک خدا کے سوا ہم کسی کی اطاعت نہ کریں گے۔ پسند وناپسند کا معیار اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد خدا کی ذات اور رسولؐ اللہ کا طریقہ ہوگا۔ یہ محض ایک اعلان نہیں تھا بلکہ ایک عہد وپیمان تھا کہ اگر کوئی معیار یا اصول ہے تو وہ قرآن و سنت ہیں۔ یہ وہ اصول اور ضابطہ تھا جس پر آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد رکھی‘ اور اسلام کی متوازن اور ابدی تعلیمات وہ لائحہ عمل تھا جس پر عمل کرنا ایمان‘ حبِ رسولؐ اور قانون ٹھیرا۔

اس کے نتیجے میں وہ معاشرہ قائم ہوا جہاں گھر کی بنیاد مودت و رحمت تھی نہ کہ ظلم و تشدد اور جبر۔ اچھا خاوند وہ شمار ہوتا جو اہل خانہ کے ساتھ بہتر رویہ رکھتا ہو‘ ان کے جذبات کا احترام کرتا ہو اور ان کی ضروریات کو اپنا فرض جان کر پورا کرتا ہو۔خاوند اپنے فرائض خوشدلی سے ادا کرے اور بیوی خاوند کے حقوق۔ اگر کسی کو فکر تھی تو یہ کہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوکر خدا کے ہاں پکڑ نہ ہو جائے۔ میاں بیوی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک منصفانہ اورمعتدل قانون ازدواج تھا۔ زوجین ہزار کوشش کے باوجود ساتھ نہ رہ سکیں اور حدود اللہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا تو خوشدلی سے الگ ہو جاتے اور عدالتی چارہ جوئی کے لیے مواقع یکساں تھے۔ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس ہی وہ محرک تھا جو لوگوں کو حدود کا پابند بناتا تھا نہ کہ محض پولیس مداخلت یا قانون سازی۔

لہٰذا اصلاحِ معاشرہ کے لیے اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے ہمارے لیے بھی بنیاد اسی اصول کو بننا چاہیے‘ یعنی خدا کی اطاعت‘ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس!

پہلی ضرورت شعور کی بیداری ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور ایک مسلمان مرد اور عورت کے یہ یہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جنھیں ادا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے وسیع پیمانے پر ’’اصلاح اخلاق‘‘ کی مہم چلائی جانی چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد‘ سماجی تنظیمیں‘ سب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اُبھارا جانا چاہیے۔   نظامِ تعلیم اسی فکر کو پروان چڑھانے اور تربیت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے۔ معاملات کی بنیاد ذاتی پسند ناپسند نہیں بلکہ قرآن و سنت اور دین کی تعلیمات کو ٹھیرایا جانا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط بنیاد ہے۔

اسلام چاہتا ہے کہ گھریلو تنازعات گھر کی سطح پر ہی حل ہوں۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں اور بڑے بوڑھوں کو اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھانا چاہیے۔ اس کا احساس اُجاگر کرنے‘ نیز بزرگوں کے احترام کی معاشرتی قدر کو بھی مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

محلے کی سطح پر کمیٹی یا معززین کی پنچایت کے ذریعے محلے اور علاقے کے تنازعات کوحل کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ بلدیاتی سطح پر مصالحتی عدالت ایک منتخب فورم ہونے اور اہلِ علاقہ کے معاملات سے باخبر ہونے کے لحاظ سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور پولیس تھانے میں جانے سے پہلے مصالحت کی بنا پر معاملات بخوبی نمٹائے جا سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو قانونی حیثیت دی جانی چاہیے اور عدالت ان کو تسلیم کرے تو عدلیہ پر بڑھتا ہوا دبائو بھی کم ہو سکتا ہے۔ مصالحتی عدالت کے ہوتے ہوئے مجوزہ بل کے تحت ’’فیملی مصالحتی کونسل‘‘ کا قیام اضافی امرہے۔

سب سے اہم پہلو جو توجہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بے حسی ختم ہونا چاہیے۔ اگر کہیں بھی کسی کی حق تلفی ہو‘ کسی قسم کی زیادتی کی جائے ‘ تو اس پر خاموش تماشائی نہ بنا جائے۔ گھر کے افراد‘ خاندان کے بزرگ‘ برادری‘ ہمسایہ‘ اہلِ محلہ و علاقہ‘ معززین علاقہ‘ منتخب کونسلر‘ سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران‘ سب سماجی و اخلاقی دبائو کے تحت زیادتی کرنے والے کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکیں اور اس کو اخلاقی ذمہ داری اور فرائض سے کوتاہی کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کی بھرپور کوشش کریں۔ ماضی کی طرح آج بھی یہ سماجی دبائو بہت سی اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلام برائی کو دیکھ کر اسے برداشت کرنے کی نہیں بلکہ حسب ِ استطاعت قوت کے ذریعے مٹانے پر زور دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود اگر گھریلو تشدد کا راستہ نہ رکے تو پھر قانون ازدواج کے تحت عدالت کا دروازہ بھی کھلا ہے۔

جس معاشرے میں خرابی اور بگاڑکا سدّباب نہ ہو اور بہتری کی کوشش ساتھ ساتھ جاری نہ رہے تو بگاڑ بالآخر انحطاط اور اجتماعی خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے جہاں قانونی اقدامات کو موثر بنانے کی ضرورت ہے‘وہاں عوامی سطح پر شعور کی بیداری اور اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کی فکر اور تڑپ کے چلن کو عام کرنا بھی ناگزیرہے۔ حکومت کو اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کرنا چاہیے۔