دسمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

نوجوان نسل کی ’سیکولرائزیشن‘

منعم ظفر خاں، سمیع اللہ حسینی o | دسمبر ۲۰۱۵ | تعلیم و تعلّم

Responsive image Responsive image

پاکستان بجا طور پر اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، جس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ ان میں خاص طور پر نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل آبادی بھی ہے۔ راے عامہ کے جائزوں اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا حصہ ۶۲فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان ۲۰۴۵ء تک ’ینگستان‘ یا ’جوانستان‘ رہے گا۔

نوجوانوں پر مشتمل آبادی، جہاں پاکستان کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، وہیں ایک چیلنج بھی۔ امکانات پر مشتمل مستقبل بھی سامنے ہے اور فکرمندی کے کئی پہلو بھی۔ اصل چیلنج نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کو پاکستان اور اسلام کے ساتھ جوڑے رکھنا ہے۔ پس ماندگی، کم علمی، مایوسی، بے روزگاری،  بے عملی، دین سے دُوری، دہشت گردی، بے سمت زندگی اور کسی نظریاتی تحریک کا نچلی سطح پر رہنمائی اور مشاورت کا مضبوط و وسیع نیٹ ورک نہ ہونا ہر دردمند دل کو پریشان کیے ہوئے ہے۔

پاکستان کے نوجوان، مغرب کا خاص ہدف ہیں۔ مغربی ادارے، این جی اوز اور سفارت خانے ان نوجوانوں کے بارے میں مسلسل تحقیق اور جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح آبادی کا یہ حصہ ’سیکولر‘ (بے دین یا دین سے لاپروا) اور ’لبرل‘ یعنی اخلاق و اقدار سے آزاد اور مادر پدر آزادی کا خوگر ہوجائے۔ پھر مزید آگے بڑھ کر مغربی تہذیب کے ایجنڈے کے اپنے معاشرے میں نفاذ کے عمل میں شامل ہوجائے۔ اس کام کے لیے کچھ اندازوں کے مطابق اربوں روپے سے ’کوششوں‘ کا آغاز ہوچکا ہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی اس ’ذہنی تطہیر‘ کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں یو-ایس ایڈ، برٹش کونسل، جرمن، یورپی یونین، فرانس اور اٹلی کے ادارے خاص طور پر نمایاں ہیں۔ یہ ادارے جان دار منصوبہ بندی، کارگر حکمت عملی، دیرپا اور تسلسل سے کام اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔یہ عموماً غیر سیاسی اور غیر مذہبی لبادہ اُوڑھ لیتے ہیں۔ معاشرتی سدھار اور علاج معالجے میں مدد کی فراہمی کا بینر تھام لیتے ہیں۔

برٹش کونسل کا مطالعہ اور نتائج

ان منصوبوں پر کام کرنے والوں میں ’برٹش کونسل‘ بھی شامل ہے، جس نے ۲۰۰۹ء میں پاکستان کے نوجوانوں کے حالات جانچنے کے لیے ایک سروے کروایا تھا۔ اُس سروے کے نتائج سے پاکستانی نوجوانوں کے بارے میں درج ذیل نکات واضح طور پر سامنے آئے ہیں:

                ۱-            پاکستان کے نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں،

                ۲-            وہ اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں،

                ۳-            وہ آگے بڑھنا اور کچھ کرنا تو چاہتے ہیں، مگر انھیں رہنمائی کرنے والے نہیں ملتے،

                ۴-            وہ مختلف مہارتیں (skills) سیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن رہنمائی اور مناسب تربیت کے لیے ادارے موجود نہیں،

                ۵-            وہ اپنی شخصی تربیت اور اچھی نشوونما سے دل چسپی رکھتے ہیں،

                ۶-            وہ معاشرے کی بہبود (بھلائی اور رفاہِ عام) پر یقین رکھتے ہیں۔

ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے برٹش کونسل نے پاکستان بھر سے ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل مختلف کمیٹیاں بنائیں اور اُن سے پاکستانی نوجوانوں میں اثرونفوذ کے لیے تجاویز طلب کیں۔ اُن ماہرین کی تجاویز پر برٹش کونسل نے ایک پروگرام ترتیب دیا، جس کا ایک بے ضرر اور بھلا سا نام ’فعال شہری‘ (Active Citizen) پروگرام رکھا۔ یہ پروگرام عام نوجوانوں کے لیے اکتوبر ۲۰۱۴ء سے جاری ہوچکا ہے۔ اِس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نوجوان کو خوب صورت انداز میں ان کی ’شخصی ترقی‘ (پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ) کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور آخرکار انھیں سیکولر بنا دیتا ہے۔ تقریباً ۸۰ہزار سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملک کے ہرعلاقے سے اس پروگرام میں اب تک شرکت کرچکے ہیں۔

برٹش کونسل ’فعال شہری‘ پروگرام کو پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی اور سیکولر ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ مل کر آگے بڑھا رہی ہے۔ اِن این جی اوز کی اکثریت، غیرملکی کثیر عطیات کے ذریعے نوجوانوں میں اپنی اقدار سے بے پروائی، مخلوط ماحول کی پسندیدگی، حیاوحجاب سے دُوری اور دین بیزاری پیدا کر رہی ہیں۔

برٹش کونسل نے یہ پروگرام دنیا بھر میں اُن ممالک میں شروع کیا ہے، جہاں وہ امریکا کے ساتھ مل کر ذہنی و معاشرتی تبدیلی، عسکری و اقتصادی مفادات کے حصول اور مغربی تہذیب کے فروغ اور آبیاری کا مشترکہ ایجنڈا رکھتی ہے۔ اِس پروگرام میں شامل ممالک میں تنزانیہ، سری لنکا، یوکرین، ترکی، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور مصر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ’نوجوان آبادی‘ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہ منصوبہ طویل المیعاد بھی ہے اور وسیع الاطراف بھی۔ اس کے اثرات اِن معاشروں پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔ کہیں زیادہ، کہیں کم۔

عام نوجوانوں میں ’فعال شہری‘ پروگرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے برٹش کونسل نے سال ۲۰۱۲ء میں اسے پاکستان کی دو جامعات میں ایک پائلٹ (آزمایشی) پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا۔ یہ دو یونی ورسٹیاں ، کراچی کی ’بحریہ یونی ورسٹی‘ اور لاہور کی ’لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی‘ تھیں۔

برٹش کونسل اور ھائر ایجوکیشن کمیشن

برٹش کونسل کے مطابق یہ پروگرام ان دونوں یونی ورسٹیوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے برٹش کونسل نے ’فعال شہری‘ پروگرام کو پاکستان کی تمام جامعات میں بطور لازمی کورس پڑھانے کے لیے پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو شیشے میں اُتارا۔ ہمارے ملک کی بدنصیبی کہ ایچ ای سی نے اس پروگرام کے مواد، نتائج اور پاکستانی طلبہ پر اس کے ممکنہ اثرات سے بے نیازی برتتے ہوئے (یا پھر گورے کی عنایت سمجھتے ہوئے) ان سفارشات کو منظور کرلیا۔ اب یہ پروگرام برٹش کونسل ، ایچ ای سی کے ساتھ مل کر پاکستان کی تمام جامعات میں بطور کورس پڑھوائے گی۔ ایچ ای سی کی عاقبت نااندیش انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے، پاکستان کے لاکھوں طلبہ و طالبات اور ہزاروں اساتذہ کا طرزِفکر اور معیارِ ردّ و قبول تبدیلی کے دوراہے پر آن کھڑا ہوگا۔ جس میں مطلوب یہ ہے کہ دنیا کو اُس رنگین عینک سے دیکھنے کا خوگر بنایاجائے جو چشمہ اُن کی آنکھوں پر لگایا جانے والا ہے ، بلکہ لگایا جا رہا ہے۔

ذرا ہاتھ کی صفائی دیکھیے کہ ’فعال شہری‘ کے ظاہری مقاصد کتنے پُرکشش ہیں:

                ۱-            نوجوانوں کو مثبت، مفید اور متحرک شہری بنانا۔

                ۲-            طلبہ میں ایسی بیداری پیدا کرنا کہ وہ خود کو ہیجانی یا اشتعالی یا جذباتی کیفیات سے نکال کر اپنے مسائل خود حل کرسکیں۔

                ۳-            دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے افراد کے ساتھ رہنے کے لیے اپنے اندر برداشت و رواداری پیدا کرسکیں۔

                ۴-            آگے بڑھ کر اپنی برادری (کمیونٹی) کے سماجی مسائل کو حل کرسکیں۔

مگر اس پروگرام پر گہری نگاہ ڈالنے والے اس کے چھپے ہوئے اہداف تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں۔

اھداف

                ۱-            غیرملکی این جی اوز اور سفارت خانے یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ وہ ہمارے تعلیمی نصاب میں کوئی بڑی تبدیلی بیک وقت نہیں کرا سکتے۔ نصابِ تعلیم تبدیل کرا کے اسے سیکولر بنانے کے اُن کے بیش تر حربے ، محب وطن اور اسلام پسند حلقوں کی شدید تنقید اور مزاحمت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپائے۔ اب انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں تبدیلیوں کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ اپنا ایک مخصوص کورس، تعلیمی اداروں، جامعات اور بالخصوص ٹیچرز ٹریننگ اور تعلیمی و تدریسی افرادی قوت پیدا کرنے والے شعبوں میں پڑھائیں گے۔ ’فعال شہری‘ پروگرام اس سلسلے کی پہلی کوشش ہے جو شروع کی جاچکی ہے۔

                ۲-            برٹش کونسل کا ہدف ہے کہ: ’پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ کی سرپرستی میں اگلے پانچ برسوں میں جامعات میں پڑھنے والے تمام طلبہ و طالبات کو ’فعال شہری‘ پروگرام سے گزاریں۔

                ۳-            اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں جامعات کے ہزاروں اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے، جو آگے چل کر طلبہ کو یہ کورس پڑھائیں گے۔ جامعات کے اساتذہ اُن کا خاص ہدف ہیں۔ انھیں ٹریننگ ورکشاپس کے ذریعے اس تربیتی عمل سے گزارا جارہا ہے۔

یہ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ اپنے طے شدہ نصاب سے ہٹ کر غیرملکی ایجنڈے کے مطابق تیار کردہ ایک نصاب بھی جامعات میں پڑھایا جائے گا۔

ذھنی تشکیل کے بنیادی نکات

’فعال شہری‘ پروگرام پر نظر ڈالنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں دراصل درج ذیل سوچ و فکر بلکہ طرزِ فکر کو پروان چڑھانا مقصود ہے:

                ۱-            آپ کا مسلمان ہونا ثقافت (کلچر) کی وجہ سے ہے اور ثقافت تبدیل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا، مسلم شناخت کوئی مستقل چیز نہیں، یہ تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ مذہب بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ گویا اقدار، نظریات، شناخت اور ثقافت قابلِ تغیر ہیں، کوئی مستقل شے نہیں۔

                ۲-            آپ کی سوچ اور فکر بنانے میں ثقافت کا بڑا حصہ ہے۔ اگر ثقافت تبدیل ہوگی تو سوچ و فکر بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ یعنی آپ کو اگر سیکولر ملک جانا پڑے تو آپ کا سیکولر بننا کوئی عیب نہیں، بلکہ بن جانا ہی بہتر ہے۔

                ۳-            جن افکار و اقدار پر مسلم نوجوانوں کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اُن کے بارے میں شکوک یا عدم یکسوئی پیدا کرنا، تاکہ لوگ سوچیں کہ مسلمان بننا ثقافت کی ضرورت تھی یا محض ایک پیدایشی اتفاق تھا۔ یہ میری اپنی راے، پسند اور انتخاب نہیں۔

                ۴-            دوسروں کے مذاہب تبدیل کرانا ٹھیک نہیں۔ اُنھیں اُسی طرح قبول کریں جیسے وہ ہیں (یعنی مسلمان ’دعوتی‘ کام کرکے دوسروں کی شخصیت کو نہ بگاڑیں)۔ دوسروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اُن سے ہم آہنگ ہونے کے لیے خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی جانب سے ایک طرف تو یہ تربیت اور ذہن سازی ہے، جب کہ دوسری طرف یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان میں دوسرے مذاہب کو تبلیغ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ تبلیغ کرنا ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔

                ۵-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنا کہ پاکستان بیک وقت اسلامی اور جمہوری ملک نہیں رہ سکتا کیوںکہ ’اسلامی‘ غیرواضح بھی ہے اور متنازع بھی۔ پھر یہ کہ اسلام میں جمہوریت کہاں ہے؟ (یہی بات مخالف کیمپ کے بعض لوگوں سے بھی کہلوائی جارہی ہے)۔

                ۶-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال ڈال دیا جائے کہ مذہبی لوگ آپ کے فیصلے کیوں کرتے ہیں؟ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ دوسروں کے معاملات میں حتمی اور دوٹوک فیصلہ دے۔

                ۷-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ نہ شادی ضروری ہے اور نہ شادی کے لیے مخالف صنف سے بندھن ضروری ہے، بلکہ ہم جنسی بھی ایک معمول کا سماجی عمل ہے، جس سے بدکنا دقیانوسیت ہے۔

                ۸-            موسیقی، ناچ گانا، مخلوط ماحول، آزادانہ دوستی وغیرہ کے بارے میں پسندیدگی بڑھائی جائے اور ان کا چلن عام کردیا جائے۔

                ۹-            عورت اور مرد میں جنس کے علاوہ کوئی فرق نہیں اور یہ جنسی فرق بھی بے معنی ہے۔

                ۱۰-         آپ کی زندگی کے فیصلے مذہب، رواج، اخلاق کی بنیاد پر کیوں کیے جاتے ہیں؟ پڑھا لکھا اور روشن خیال ثابت ہونے کے لیے اس روایت اور سوچ سے بغاوت ضروری ہے۔

پہلے مرحلے میں یہ پروگرام طلبہ و طالبات کو اُلجھن کا شکار اور اپنے مذہب و ثقافت اور اقدار کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بہت نرم روی سے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ: ’’وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کم تر ہیں۔ انھیں ایک ایسا فرد ہونا چاہیے جو ہر معاشرے میں قابلِ قبول ہو، ہرمعاشرے میں چل سکے، جس کی کوئی مستقل شناخت نہ ہو، مستقل اقدار نہ ہوں۔ ایک سیکولر طرزِ فکر اور ایک مادرپدر آزاد (لبرل) طرزِ زندگی ہی نوجوانوں کی ضرورت اور ان کے لیے مفید ہے۔

اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام باتیں، سوچ و فکر اور رویے، مختلف سرگرمیوں کے ذریعے سکھائے جاتے ہیں۔ کچھ زیادہ پڑھایا نہیں جاتا۔ طلبہ اور طالبات اس طرزِ زندگی کو مختلف سرگرمیوں کے دوران باقاعدہ برت کر دکھاتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کے لیے صرف سہولت کار ہیں اور یہ کہ طلبہ میں یہ تمام تبدیلیاں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے پیدا کی جائیں۔