دسمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| دسمبر ۲۰۱۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

بے ہودہ گوئی کی ممانعت

[قرآن کریم میں پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کرنے کے ] حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں، کیوںکہ اس سے بے شمار بُرائیاں پھیلتی ہیں، اور اُن میں سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ اس طرح غیرمحسوس طریقے پر ایک عام زناکارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط، گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے، اس میں نمک مرچ لگا کر اورلوگوں تک انھیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی ’معلومات‘ یا بدگمانیاں بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے ، بلکہ بُرے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ، معاشرے میں  کہاں کہاں اُن کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سدّباب پہلے ہی قدم پر کردینا چاہتی ہے۔

ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو، جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے، وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر ۸۰ کوڑے برسا دو تاکہ آیندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلاثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بدکاری کرتے دیکھ لیا ہو، تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے، وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بے ہودہ چرچے کرنے کے بجاے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کرکے اسے سزا دلوا دے۔ (ابوالاعلیٰ مودودی، سورۃ النور، حاشیہ۶، ترجمان القرآن، جلد۴۵،عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ، دسمبر۱۹۵۵ئ، ص۱۷-۱۸)

______________