مئی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

حقوقِ نسواں اور چند معاشرتی حقائق

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مئی ۲۰۱۶ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات میں مسلم معاشروں میں عورت کا مقام و کردار ایک مرکزی موضوع کا مقام اختیار کرگیا ہے اوربعض غلط العام تاثرات کی تکرار نے بہت سے مسلم اہل قلم کو مدافعانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ کسی بھی عصری مسئلے کا علمی جائزہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب اوراس سے نکلنے والے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے معروضی طورپر یہ دیکھا جائے کہ جس بنیادپر دلائل کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، کیا وہ درست ہے یا اس کی ٹیڑھ پوری عمار ت کے ایک جانب جھک جانے کاسبب ہے اورکیا واقعی مقصود ایک ٹیڑھی عمارت ہے یا سیدھی تعمیر۔

تقابلی مطالعوں میں عموماً ایک محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مواد کو یک جا کردے جو تحقیقی مفروضے سے مطابقت رکھتاہو اور منطقی طور پر وہ نتیجہ حاصل کرلے جو پہلے قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اکثر مغربی تجزیوں کا آغاز مسلم دنیا میں پائی جانے والی چند بے ضابطگیوں سے ہوتا ہے جنھیں عموم کا مقام دے کر وہ نتیجہ حاصل کرلیا جاتاہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے مواد جمع کیا گیا تھا۔مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ کوئی انسان جو کسی معاشرے اورکسی علمی روایت سے وابستہ ہو مکمل طورپر اپنے آپ کو اپنے ثقافتی ماحول سے آزاد نہیں کرسکتا، لیکن اگرایک محقق کو اپنی محدودیت اوراپنے تصورات کا پورا اِدراک ہو اورساتھ ہی وہ دیگر نظریات کو عادلانہ نظر سے دیکھے جس کا حکم قرآن کریم نے شہادت کے حوالے سے دیا ہے کہ چاہے وہ شہادت ایک فرد کے خونی رشتہ دار ہی سے تعلق رکھتی ہو، شہادت حق ہی ہو اوراس میں رشتے کا تعصب نہ آنے پائے۔ چنانچہ علمی جائزے میں بھی اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ ایک مسلمان محقق اسلامی نظام حیات کی حقانیت پر ایمان رکھتاہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور دیگر تصورات کو معروضی طورپر ایک کھلے ذہن کے ساتھ اورپہلے سے تصورکردہ مفروضوں سے نکل کر جائزہ لینے کے بعدایک قول ِفیصل تک پہنچے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرحاضرمیںمغربی فکر اورمغرب زدہ مفکرین جن امور پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں انھیںاسلام میں خواتین کے حقوق خصوصی دل چسپی کا باعث نظر آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیونکہ خود مسلم اہل فکر نے اس موضوع پر یا توفقہی نقطۂ نظر سے فقہی احکام کی تشریح کرتے ہوئے عورت اورمرد یا شوہر اوربیوی کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی ہے، یا بعض اختلافی مسائل میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قانون اورفقہی آرا کا دفاع کیا ہے۔ چنانچہ حدود اورقصاص ودیت کے معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی حیثیت کیا ہوگی، وراثت میں تقسیم کا جو تناسب اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے اس پر کوئی ’نظرثانی‘ ہوگی یا نہیں، ایک شادی شدہ شخص کو دوسری شادی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اورریاست اس سلسلے میں کیا قدغن لگا سکتی ہے___ وہ موضوعات ہیں جو توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اسلامی قانون کے حوالے سے بحث کرتے وقت عموماً جو رویہ اختیار کیا جاتاہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ اکثر مغربی جامعات سے فارغ التحصیل مسلم مفکرین، مغربی فلسفۂ قانون کے مطالعے اور اس کے بنیادی مفروضوں پر ایمان لانے کے بعد اسلامی فقہ اورقانون کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ فکری بنیاد مغربی فلسفۂ قانون ہوتا ہے، اس لیے بار بار وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو نئے ہیں اورنہ منطقی طورپر صحت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قانون جو ساتویں صدی عیسوی میں یا نویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا، آخر کس طرح اکیسویں صدی کے تغیر شدہ ماحول و حالات میں قابل عمل ہو سکتاہے، یا یہ کہ قرآن کے احکامات جو خواتین سے متعلق ہوں یا مردوں سے یا معاشرے کے مسائل سے ، آج کس طرح نافذ ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم ’بدوی‘ معاشرے سے آگے نکل چکے ہیں!

خواتین کی قانونی شہادت ، وراثت میں تناسب، تعلیم کا حصول ، گھرمیں فیصلہ کن معاملات میں مقام، سیاسی کردار، معاشی میدان میں عمل دخل، فوج اورپولیس میں یکساں نمایندگی، نکاح میں مرد کی طرح ایک سے زائد شوہروں سے زواج قائم کرنا، نماز میں امامت اورجمعہ کا خطبہ دینا وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر اس انداز سے بات کی جاتی ہے گویا یہ مسائل اچانک دریافت کرلیے گئے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورشارع اعظم کے علم میں ان کا کہیں آس پاس بھی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان مسائل سے لاعلمی پر مبنی ایک شریعت ہمارے حوالے کردی گئی، اوراب چونکہ یہ مسائل یکایک دریافت ہوگئے ہیں اس لیے وہ شریعت جو ان سے لاعلمی کی بناپربنی تھی خود بخوداپنی قانونی قوت کھوبیٹھی ہے!

علمی اورمعروضی تحقیقی حکمت عملی کا بنیادی مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بات طے کرلی جائے کہ شریعت ہے کیا؟کیا یہ ایک مردانہ ذہن کے پیداکردہ تصورات اورحدود و قیود پر مبنی ہے، یا اسے خالق کائنات اورصانعِ انسان نے انسان اورانسانی معاشرے کی ضروریات، مستقبل کے مطالبات اورضروریات کے پیش نظر نازل کیا ہے؟ اگر شریعت زمان و مکان کی قید میں ہے تو لازماً اسے   تغیر و تبدیلی سے گزرنا ہوگا لیکن اگر شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد اُن آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جن پر انسانی خمیر کی تعمیر کی گئی ہے، تو اس میں آفاقیت ہوگی اورتبدیلیِ زمان و مکان سے اس کی قانونی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔

مرد اورعورت سے متعلق جو ہدایت نامہ قرآن کریم کی شکل میں اور اس کا عملی نمونہ حیاتِ مبارکہ سید الانبیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، ان دونوں میں  عدم تغیر، آفاقیت اورعالم گیریت کو اپنی مکمل شکل میں رکھ دیا گیا ہے ۔اس بنا پر قرآن کریم نے سنت کو تشریعی مقام دیا ہے۔ سنت، مدینہ اورمکہ کی زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ محض اخلاقی نصائح تک محدود نہیں ہے۔ یہ حدود کے اجرا، بین الاقوامی معاہدات، سفرا کے تقرر، قاضیوں اورمفتیوں کی نامزدگی، زکوٰۃ کے نصاب، مرتدین کے خلاف قتال، معاندین زکوٰۃ کی سرکوبی، غرض ان تمام معاشرتی ، معاشی ،سیاسی اورقانونی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو منصب ِنبوت کے فرائض میں شامل تھے۔

بعض سادہ لوح افراد قرآن فہمی کے دعووں کے ساتھ جب یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ’رجم‘ کا ذکر نہیں پایا جاتاتو یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم شارع اعظم کو حکماً یہ اختیاردیتاہے کہ وہ تحلیل و تحریم کریں۔ نتیجتاً ان کے تحکیم کردہ معاملات کو حتمی مقام حاصل ہوجاتاہے:’’(پس آج   یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسول نبی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتاہے۔ وہ انھیں نیکی کاحکم دیتا ہے بدی سے روکتاہے۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتاہے، اوران پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اوروہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف ۷:۱۵۷)۔ یہاں پر براہِ راست رسولؐ کو تحریم و تحلیل کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؐ کافیصلہ اللہ کے فیصلے کی طرح ہے اورجو اس فیصلے کو قرآن کے احکامات سے الگ سمجھتا ہے اس کا مقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ایمان کی شرائط میں سے یہ شرط قرآن کریم خود بیان کرتاہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورفیصلے کو کشادہ دلی کے ساتھ، بلا کسی تردد کے نہ مانا جائے، اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتاہے: ’’ نہیں، (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘(النساء ۴:۶۵)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ سبحانہ کی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرقانِ حکیم فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ،اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اورجو منہ موڑ گیا، تو بہر حال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘(النسائ۴:۸۰)۔ اس سلسلے میںحرف ِآخر وہ فرامین ہیں جو یہ کہتے ہیں:’’مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسولؐ کی اطاعت کرو اوراپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو‘‘ (محمد۴۷:۳۳)۔ مزید یہ کہ ’’اورجب ان سے کہا جاتاہے کہ آئو اس چیزکی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے تو ان منافقوں کو    تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء ۴:۶۱)

اس ضمنی توضیح سے قطع نظر، جو بات بلاجھجک کہنے کی ضرورت ہے وہ بہت آسان ہے۔    وہ یہ کہ اسلام اپنے تصورِ عدل کی بناپر مرد اورعورت دونوں کے حوالے سے جوہدایات دیتا ہے ان کی بنیاد جنسی تفریق نہیں ہے، جب کہ مغربی اورمشرقی فکر چاہے وہ مذہبی مصادر میں ہو یا معاشرتی علوم میںاس کی بنیاد جنس(gender)کی تفریق (discrimination)پرہے۔ چنانچہ اسلام نے جو حق خواتین کو ساتویں صدی عیسوی میں دیا کہ وہ ریاستی امور میں اپنی راے خلیفہ کے انتخاب کے موقعے پر دیں (حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقعے پر مدینہ کے ہر گھر کی خواتین سے ان کی راے سرکاری طور پر لی گئی )، وہ حق یورپ میں ۱۸۹۲ء میںصرف اصولی طور پر تسلیم کیاگیا، جب کہ اس پر عمل بیسویں صدی میں ہوا۔

آج بھی مغرب اورمشرق میں خواتین کاغذی حد تک تو بعض حقوق رکھتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔

اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ ’عدل‘ ہے۔ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک فرد پر اس کی برداشت اوراستعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کی وسعت کے لحاظ سے اس کی  جواب دہی ہو۔ یہ قرآنی اصول کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)، ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔

چونکہ اسلام ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قرار دیتا ہے اورمذاہب عالم کے تمام تصوراتِ ’تقویٰ و پاک بازی‘ کے بر خلاف رشتۂ ازدواج اورشوہر اوربیوی کے صحت مندانہ اخلاقی تعلق کو تقویٰ اورایمان کی علامت سمجھتا ہے، اس بنا پر عدل کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی سیاسی، معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کو خاندان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے شریعت کے بنیادی مقاصد اور ’مصلحت‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک ’کمائو بیوی‘کا حصول نہیںہے بلکہ آنے والی نسلوں کی معمار اورگھر کے اندر سکون، رحمت اورموّدت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔

اسلام کا تصورِ اجتماعیت اس کے عدلِ اجتماعی سے منطقی طور پر وابستہ و پیوستہ ہے اور یہ تصور مغربی اور مشرقی تصورِ انفرادیت کی مکمل ضد ہے۔ اس میں فرد کو جائز قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مقام کا تحفظ دیتے ہوئے معاشرتی رشتے میں جوڑا گیا ہے، جب کہ دیگر نظاموں میں، وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فرد کو عبادات میں محض اپنے خدا سے رشتہ جوڑنے کا تصور اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی تصورِ عبادت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان ایک نجی (private)اور ذاتی(personal) رشتہ ہے۔ اسلام اس کی تردید کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ نماز جماعت کی شکل میں قائم کرو اور اجتماعی طورپر نہ صرف نماز بلکہ صیام ،حج اور زکوٰۃ کو ادا کرو۔ قرآن کریم ان عبادات کے لیے ریاست کو ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ ان کے قیام اور تحفظ کے لیے اپنی قوت نافذ ہ کا استعمال کرے۔ یہ بنیادی نظریاتی فرق اگر سامنے نہ رکھا جائے تو پھر اہلِ علم بھی اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب یا مشرق عورت کو کون سے ’انفرادی حقوق‘ دیتا ہے اور مقابلتاً اسلام کون سے ایسے حقوق دیتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیںہے کہ انفرادی حقوق کی دوڑ میں کون کس سے آگے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عدل کس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ عدل ہوگا کہ ایک خاتون سے یہ کہا جائے کہ وہ اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرے،ایمان کی تکمیل کے لیے شادی کرے اور اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو جو وہ ایک سماجی معاہدے کے ذریعے اختیار کرتی ہے، پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک کم از کم ۸گھنٹے ایک معاشی کارکن کے طور پر کام کرے، اور جب گھر واپس آئے تو پھر اپنے خاندانی وظائف میں مصروف ہوجائے اور اس بات پر فخر کرے کہ وہ ’مرد کے شانہ بہ شانہ‘ ، ’معاشی دوڑ‘ میں اپنا کردار ادا کررہی ہے! چاہے اسے اس دوڑ کے لیے اپنے اعصابی تنائو کو قابو میں رکھنے کے لیے صبح شام ادویات کا استعمال کرنا پڑے، ہر روز کام پر جانے کے لیے دو گھنٹے سخت ہجوم میں ٹیکسی،بس یااپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرنا پڑے اور دفتر میں جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑے، لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے کرے کہ مغربی اور مشرقی تہذیب ایک کارکن خاتون کو زیادہ پیداآور (productive) کہتی ہے ! اگر معروضی طور پر صرف اس آمدنی اور اس خرچ کا ایک میزانیہ تیار  کرلیا جائے جو ایک ’کارکن عورت‘ اپنی ’دفتری ضرورت‘ کے طور پر ذاتی تزئین پر خرچ کرتی ہے تو ـ’معاشی ترقی‘ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اندازہ ہو جائے گا کہ جو آمدنی گھر لائی جا رہی ہے اور جس کا تذکرہ بطور ’دو تنخواہوں‘ کے ہر صحافیانہ تحریر میں پایا جاتا ہے وہ اصلاً کتنی آمدنی ہے۔

مسئلہ آسان ہے۔ مغرب و مشرق کا ذہنی سانچہ جنسی تقسیم اور استحصال پر مبنی ہے۔ مغرب کی پوری تہذیب میں، جواب مشرق میں بھی عام ہے، عورت ایک ’شے‘ (commodity)سے زیادہ مقام نہیں رکھتی اور وہ بھی ایسی شے جس کااستحصال کر کے ایک مرد انہ معاشرہ اپنے مقاصد حاصل کرے ۔ اس کے بر خلاف اسلامی شریعت کی بنیاد عدل کے اصول پر ہے جو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ  کسی فرد پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اوراسے اس کی ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔

مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی شریعت کے آفاقی پہلو کو اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کو، جو عدل اجتماعی پر مبنی ہو، مرکزِگفتگو بناتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ اطلاقی سطح پریہ اصول کہاں تک مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ مغربی معاشرے میں عورت کا استحصال، اس کی عصمت وعفت پر حملے، اس کے حقوق کی پامالی کی داستان ایک اذیت ناک کہانی ہے لیکن مسئلے کا حل محض یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ مغرب خواتین کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ ہمیں خود اپنے معاشروں میں ہونے والے مظالم کو ختم کرنا ہوگاجن کی بنیاد وہ جاگیر دارانہ ذہن ہے، جس کے لیے یہ شرط نہیںہے کہ کوئی فرد جاگیردار ہی ہو۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو ایک مزدور میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاسکتی ہے جتنی ایک لاکھوں ایکڑکے مالک وڈیرے یا سردار میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اوردین کے نام پر دوانتہائوں کا پایا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ایک جانب یہ ایسی شدت پیدا کرتی ہے کہ ایک خاتون اپنے گھر میں اجنبی اور ایک کمرے میں مقید ہو کررہ جائے اور وہ صرف شوہر اور حقیقی اولاد کے ساتھ تو بات چیت کر سکے، بلاتکلف کھانے میں شریک ہو سکے لیکن ان کے علاوہ اقربا اور رشتہ داروں سے مکمل قطع رحمی پر مجبور کرد ی جائے۔ دوسری طرف وہ انتہا بھی ہے کہ حجاب کو محض نگاہ تک محدود کردیاجائے اور جسم کی عریانی کو معاشرتی ضرورت قرار دے دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں انتہائوں سے نکلنا ہوگا اور    مدینہ منورہ کے معاشرے میں صحابیاتؓ کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اور اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا۔ وہ معاشرہ جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں، شرم و حیا، عفت و عصمت، پاک بازی اور تقویٰ کو عملی زندگی میں ڈھال کر پیش کرسکے۔

اس سلسلے میں تعلیمی حکمت ِعملی ، معاشرتی رسوم و رواج کی تبدیلی، اور سب سے بڑھ کر افراط و تفریط والے ذہن کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پوری دیانت اور نفس کے تجزیے و احتساب کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے دائرے میں لانا ہوگا۔

شریعت کادائرہ نہ قیدو بند پر مبنی ہے نہ مادرپدر آزادی پر۔ یہ وہ حد و دہیں جو معروف پر مبنی ہیں۔ یہ معروف وہ ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی و ارتقا کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن و سنت کی طرح سے آفاقیت اور عالم گیریت کا حامل ہے۔ اگر گفتگو معروف ہو، اگر معاشرت معروف ہو، اگرمہر معروف ہو، اگر رخصتی بھی معروف ہو، اگر معیشت معروف ہو تو پھر عدل کا قائم ہونا ایک منطقی عمل ہے۔

اس قیامِ عدل کے لیے راستہ صرف ایک ہے: قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق، اس کی تعلیمات و احکامات کا کسی حیل و حجت کے بغیر اور مغرب و مشرق کی فکری غلامی سے آزادی کے ساتھ اس کا نفاذ۔

اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے نہ رنگ و نسل اور زبان کی تفریق ۔ یہ آفاقی اور عالمی حیثیت کے اصولوں پر مبنی وہ شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے اصولِ حکمرانی فراہم کرتی ہے اور وعدہ کرتی ہے کہ کسی متنفس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حقوق کی علَم بردار اور ان کے عملی نفاذ کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ انسان کو وقار، عزت، اکرام اور معاشرتی وجود سے نوازتی ہے۔ یہ محض مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس پر عمل کیا جائے گا ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ و امریکا کے وہ بے شمار متلاشیانِ حق جو اپنے معاشروں کے ظلم و استحصال سے بے زار ہیں   یہ جاننے کے باوجود کہ یہ زریں اصولِ شریعت بہت سے مسلم ممالک میں بھی ابھی تک اجنبی ہیں اور مسلم ممالک کے غلام ذہن رکھنے والے فرماںرواان اصولوں کے مفید اور قابل عمل ہونے کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ متلاشیِ حق بادِ مخالف کے باوجود اسلام کے سچا اور برحق دین ہونے اور اس دور میں قابلِ عمل ہونے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اسلام کی کامیابی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اپنی معاشرتی مثال کا کوئی دخل نہیں۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں بھی اسلام کو وہ مقام حاصل ہو جائے جو ان متلاشیانِ حق کے دلوں میں اسلام کو حاصل ہے، تو پھر پوری انسانیت کو اس عدل کو دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے جوقیامت تک کے لیے صرف اورصرف حق و صداقت ہے اور انسانیت کو معراج پر لے جانے کا واحدراستہ ہے۔