پروفیسر خورشید احمد


نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے افسوس ناک خونیں حملوں کے بعد امریکا نے عملاً پوری دُنیا اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا لیا۔ پھر انسانیت سے عاری جس تباہ کن مہم کا آغاز ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے کیا، وہ مہم نہ منطقی تھی، نہ منصفانہ تھی، اور نہ انسانیت نواز تھی، بلکہ یہ خونیں مہم، خود اس یلغار کا حصہ بننے اور اس کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ہی پلٹ کر ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

نائن الیون کے محرکات اور معاملات کو بڑے حُسنِ تدبیر کے ساتھ سمجھنے، ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے اور یوں تشدد کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت تھی، ان اقدامات کے بجائے، دُنیابھر کی طاقتوں نے مجرمانہ حد تک آنکھیں بند کرکے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا اور افغانستان کی قانونی حکومت کو بلاجواز خوفناک حملوں کے ساتھ ختم کر دیا گیا (حالانکہ نائن الیون حملوں میں کوئی بھی افغان ملوث نہیں تھا)، اس بے صبری اور بے تدبیری کے نتیجے میں دُنیا کو جھنجھوڑنے والے المیوں نے جنم لیا:

  • آج کی دُنیا، نائن الیون سے پہلے کی دُنیا سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ بن کر رہ گئی ہے۔
  • بھارت نے کابل کی کٹھ پتلی امریکی حکومت کے زیرسایہ پاکستان کے خلاف سازشوں اور تخریب کاری کے لیے ۶۶تربیتی مراکز قائم کیے، جہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی ہوتی رہی۔ جس میں ایک لاکھ کے قریب پاکستان کے دفاعی جوان، افسر اور عوام جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
  • مسلم دنیا میں قیادت و سیادت کے سرچشموں پر مسلط غیرنمایندہ حکمرانوں نے، مسلم اُمہ کے بے پناہ مادی وسائل، اس قاتلانہ یلغار کے لیے یوں مختص کردیے کہ آج ان ممالک کی معیشتیں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں گروی بن چکی ہیں۔ ریاستی بجٹ خسارے سے دوچار ہیں۔ خلیج و عرب کی سطحی خوش حالی، کاغذ کے محلات کی صورت میں زمین پر آن گری ہے۔
  • بعض عرب ممالک تو اب باقاعدہ امریکی اور نیٹو افواج کی چھائونیوں کے لیے بڑے بڑے رقبے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیبیا، عراق اور شام جیسے باوسائل مسلم ممالک اور ان کی دفاعی صلاحیت بتاشے کی طرح بیٹھ گئی ہے۔ خون اور بارود کی بارش اور دلدل میں دھنسنے کے بعد ان تینوں ممالک کی حکومتوں اور سرحدوں کو پہچاننا ممکن نہیں رہا۔
  • بیس برس تک افغانستان کے جن طالبان کی بالفعل حکومت کو جبر کی قوت سے ملیامیٹ کیا گیا تھا، انھوں نے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی مدد اور پشتی بانی کے بغیر (پاکستان نے بہت محدود اخلاقی مدد کی) دُنیا کی عظیم ترین جارحانہ جنگی ٹکنالوجی کا مقابلہ کیا اور آخرکار جارح امریکا ۲۰۲۰ء میں مذاکرات کی میز پر آیا اور طالبان سے معاہدہ کیا، جس کے تحت ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان کو چھوڑ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم، سالِ رواں ۱۵؍اگست کو امریکی، بھارتی کٹھ پتلی حکومت بدحواسی میں پسپا ہوگئی اور اس طرح طالبان پندرہ روز پہلے ہی کابل میں داخلے پر مجبور ہوگئے۔
  • طالبان کی یہ کامیابی کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں ہے، اور کسی جائز حکومت کے خلاف بغاوت بھی نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنی حکومت کے ناجائز خاتمے کو ۲۰برس بعد مشیت الٰہی سے پلٹ دیا ہے، جس پر افغانوں کو اور اُمت مسلمہ کو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
  • طالبان حکومت کی طرف سے، اپنے ہم وطن غداروں، قاتلوں، اپنے خلاف لڑنے والے کرائے کے فوجیوں اور جاسوسوں کے لیے عام معافی کے اعلان نے، عصرحاضر کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش مثال قائم کی ہے۔ یہ روایت فتح مکہ کی اتباع سے وابستہ ایک عظیم الشان تہذیبی قدم ہے، جس کی پوری دُنیا کی طرف سے قدر کی جانی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، خود مسلم دُنیا پر مسلط حکمرانوں نے بھی اس کی قدر نہیں کی، جو باعث ِ ندامت ہے۔
  • پاکستان اور افغانستان، اسلام اور بھائی چارے کے جن گہرے رشتوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں، ان میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ترجیحات اور ذمہ داریاں، دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ اہم، حددرجہ نازک اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔
  • حکومتِ پاکستان کی یہ دینی، تہذیبی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کے عوام کی تاریخی جدوجہد کا احترام کرتے ہوئے، افغانستان میں امن و استحکام کو ترجیح اوّل قرار دے اور افغانستان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرے۔ اس ضمن میں حکومت ِ پاکستان کی تذبذب اور گومگو کی کیفیت قومی مفادات کے قطعی منافی ہے۔
  • طالبان کی حکومت بننے سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ مگر بھارت اور امریکا کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد یں مسلسل سلگتی رہیں، اور پاکستان بدامنی و اضطراب کے چنگل میں اُلجھا رہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی افغانستان میں نئی حکومت کو فوری تسلیم کرنا ضروری ہے۔
  • بھارت اور امریکا نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کا جو زہر گھولا ہے، اس کا حل بھی افغانستان میں امن و آسودگی پیدا کرنے کے لیے، رفاہی کاموں میں افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے سےممکن ہے۔
  • افغانستان کے مالی ذرائع پر امریکی پابندیوں اور عالمی سطح پر عملاً سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں افغانستان میں خوراک اور ادویات اور توانائی کی شدید کمی واقع ہوچکی ہے، جس نے روح فرسا انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کی بنیادوں پر خوراک، ادویات اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ممکن حد تک مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
  • پہلے اشتراکی روسی فوجوں نے اور پھر افغان تنظیموں کی خانہ جنگی نے اور اس کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کے بچے کھچے نظامِ زندگی اور ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے، تاکہ مواصلات، توانائی کے ذرائع، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیرو مرمت کا کام ہوسکے۔
  • سامراجی فوجوں کی واپسی کے بعد ، افغانستان کی نئی حکومت پر مختلف النوع ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے افغان قیادت کو اللہ پر بھروسا رکھتے اور مشاورت کی روح کو زند ہ کرتے ہوئے، اَن تھک محنت، تدبر، دُوراندیشی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔
  • افغانستان اور پاکستان میں امن ان دونوں ممالک کے باہمی تعلق اور اعتماد سے ممکن ہے۔ یہ ہونہیں سکتا کہ ان میں سے ایک ملک میں بدامنی ہو تو دوسرا ملک امن سے رہ سکے۔ اس لیے جس طرح طالبان نے ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے، اسی طرح حکومت ِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو عام معافی دے کر انھیں سماجی زندگی کا حصہ بننے کی اجازت دے، جنھوں نے ان ۲۰برسوں کے دوران غیرملکی فوجوں کے افغانستان پر قبضے کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی صورت حصہ لیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں بے چینی کا ایک سبب قائم رہے گا، جسے دشمن ممالک گمراہ کن انداز سے برت سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ اقدام ایسے خدشات اور امکانات کو ختم کرسکتا ہے۔
  • دُنیا بھر کے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں جو لوگ جنگ زدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور پُرامن شہری زندگی کے فروغ کے لیے دل و جان سے متحرک ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ بے لوث طریقے سے، سرزمین افغانستان کو امن و آسودگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے مشورے، فنی سہولیات اور اموال و اشیا کے ذریعے موجودہ افغان حکومت کو مدد فراہم کریں(ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ پاکستان کی ایک قابلِ قدر رفاہی تنظیم ’الخدمت فائونڈیشن‘ نے محدود وسائل کے باوجود افغانستان میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے مقدور بھر عملی قدم اُٹھایا۔ اور ’الخدمت‘ یتیم بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کوشاں ہے)۔
  • افغانستان خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہے، جس کے لیے تجارت کا سب سے بڑا اور سستا راستہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے اپنی بدترین مخالف افغان حکومتوں کے اَدوار میں بھی اس حق کو معطل نہیں کیا، مگر افسوس کہ آج یہ افغان تجارت بند ہے اور کروڑوں روپے کے پھل افغانستان میں تباہ ہورہے ہیں۔ جس سے افغان معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے اور تجارتی آمدورفت کو فی الفور بحال کرنا چاہیے۔
  • حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے کا کرایہ کو دو ڈھائی سو ڈالر سے بڑھا کر ڈھائی ہزار ڈالر تک کردیا گیا ہے جس نے بداعتمادی کو بڑھایا ہے۔ پھر یہ کہ طورخم بارڈر پر افغانستان سے آنے والے ٹرکوں اور ایمبولینسوں کی پندرہ پندرہ کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، جن میں مریض تڑپ رہے ہیں اور خوراک کو ترس رہے ہیں۔ معلوم نہیں قانونی طریقے سے آنے اور واپس جانے والے ان مستحق افراد کو کیوں خوار کیا جارہا ہے؟ حالانکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔
  • اسی طرح ہم بہت دل سوزی کے ساتھ دونوں برادر ملکوں کے سیکولر ہم وطنوں سے کہیں گے: (۱) اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان کوئی ایک باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ یہ عام افغان عوام کے جذبۂ حُریت و آزادی اور عزمِ دین و ترقی اور اجتماعی جدوجہد کا مظہر ہیں، پھر کسان، مزدور، نوجوان،تجارت پیشہ ،دینی تعلیم سے آراستہ اور جدید تعلیم یافتہ افغانوں کی ایک عظیم اکثریت ان کے ہم قدم ہے۔(۲) یہ کہ چالیس برس سے جنگ میں جھلستے اس ملک کے داخلی حالات خراب ہیں، اگر دین دار اور مغربی سامراجیوں کے خلاف لڑنے والوں کے گھر جلیں گے تو ان سامراجیوں کو خیر کی نظروں سے دیکھنے والوں کے گھر بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس لیے لبرل یا سیکولر ہم وطنوں کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان نے اپنے ملک پر قابض ایک ناجائز سامراجی ٹولے کی حکمرانی سے نجات حاصل کی ہے، اپنے ملک پر کوئی قبضہ نہیں کیا، بلکہ سامراجیوں سے قبضہ چھڑایا ہے، جس میں مقابلے اور مذاکرات دونوں کا کردار ہے۔ اس لیے، وہ طالبان کے خلاف گھنائونے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کا بے فیض کام چھوڑ کر، معقول طریقے سے قومی تعمیروترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
  • پاکستان کے اعلیٰ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ میڈیکل، انجینیرنگ، سائنس، ابلاغیات، انتظامیات، علومِ اسلامیہ اور سماجیات میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے افغانستان کے نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ پر نشستیں مخصوص کریں، جنھیں میرٹ پر داخلہ اور تربیت دی جائے۔یوں مستقبل میں بھائی چارے میں اضافہ ہوگا، اور افغانستان کی ترقی میں پاکستان کے کردار سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوتے جائیں گے۔
  • اس کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر ہم یہ امر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرزمینِ پاکستان یا پاکستان کی فضائی حدود، امریکا یا نیٹو افواج کو افغانستان پہ حملے کرنے کے لیے کسی صورت مہیا نہیں کی جانی چاہیے۔ امریکا کے دبائو پر افغانستان کے خلاف کسی قسم کی راہداری دینا، قوم کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا سے ہم مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکا کے اور ہمارے مفادات اس پورے خطے (Region) میں کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر علاقے اور اپنے ملک کے مفادات کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت سے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کی تقویت اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک اور یورپی ملکوں کو بھی امریکا کے دبائو سے نکلنے اور آزاد پالیسی بنانے پر متوجہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ترکی اور قطر کا کردار بڑا مثبت ہوسکتا ہے۔ انھیں بھی اس تزویراتی ربط و تعلق میں ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کو ان اُمور پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وقت گزرنے کے بعدکیے گئے اہم ترین اقدامات بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی دبائو اور بلیک میلنگ میں آکر افغانستان کے حوالے سے تاخیری حربوں سے کام لینا،اس خطے کے لوگوں اور تاریخ و تہذیب سے انتہا درجے کی بے وفائی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زندگی میں انسان بہت سے اُتارچڑھائو، صدمات اور خوشیوں کو قریب سے دیکھتا اور برداشت کرتا ہے۔ لیکن بعض واقعات اور حوادث اس قدر گہرے اور دُوررس اثرات کے حامل ہوتے ہیں کہ حیرت اور صدمے کے الفاظ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کیفیت میں بالخصوص اپنے دوستوں، رفیقوں اورمحترم شخصیتوں کی جدائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔

۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۱ء کو پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان جناب عبدالقدیرخاں کا انتقال ہوا تو لوحِ ذہن پر واقعات و حوادث کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اُبھر آیا۔

یہ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا۔ تب، کھوکھراپار کے راستے، بے سروسامانی کے عالم میں بھوپال سے ہجرت کرکے آنے والے ایک درازقامت طالب علم سے ملاقات ہوئی۔ جس کی شرافت، نجابت اور شائستگی کا نقش پہلی ملاقات ہی میں ثبت ہوگیا۔ یہ نوجوان طالب علم ڈی جے سائنس کالج میں ایف ایس سی میں زیرتعلیم تھا اور والدین و اساتذہ کی دینی تربیت کے باعث، جمعیت کے رفقا سے قریب تر ہوگیا۔ آگے چل کر یہی نوجوان ڈاکٹر اے کیوخاں کے نام سے پاکستان کے جوہری پروگرام کا سرتاج بنا۔

اُس زمانے میں عبدالقدیر خاں کی وابستگی جمعیت کے اجتماعات میں شرکت، ہمارے ترجمان Student's Voice کی اشاعت و ترویج، مستحق طالب علموں کی تعلیمی مدد اور سماجی سرگرمیوں میں ہم قدم ہونے تک تھی۔ اسی دوران ایک روز انھوں نے مجھ سے کہا: ’’میں جمعیت کا رُکن بننا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اُن کے ذوقِ مطالعہ کو جاننے کے باوجود یہ کہا کہ ’’نصاب رکنیت کی مزید کتب کا مطالعہ کرلیجیے‘‘۔ تاہم، بعد میں وہ تنظیم میں اور زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے، لیکن جمعیت کی اجتماعی سرگرمیوں سے اپنے زمانۂ طالب علمی میں وابستہ رہے۔ تعلیم مکمل کرکے پہلے مقامی طور پر کراچی میں ملازمت کی اور بعد میں بیرونِ پاکستان چلے گئے۔

ڈاکٹر عبدالقدیرخاں کے احوالِ زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ لیکن یہاں میں ان کے بارے میں ان کی زندگی کے چند ایسے اوراق پیش کرنا چاہتا ہوں ، جو لکھنے والوں کی نظروں سے بالعموم اوجھل رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سب سے پہلے ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر صاحب کو ایٹمی پروگرام سے متعلق قومی ادارے KRL کی سربراہی سے سبک دوش کرکے صدر کا مشیر مقرر کیا گیا۔ مگر ۳۱جنوری ۲۰۰۴ء کو انھیں اچانک اس منصب سے الگ کرکے نظربند کردیا گیا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں امریکا کے حوالے کیے جانے کی باتیں منظرعام پر آئیں۔

ڈاکٹرصاحب کو نظربند کرنے کے بعد، ان کے خلاف کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟ چونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے، اس لیے اپنی روایت سے ہٹ کر، سینیٹ آف پاکستان میں اپنی چند تقریروں کے اقتباسات، سینیٹ کے ریکارڈ سے پیش کر رہا ہوں، جن سے معاملے کی نزاکت کی تفہیم ممکن ہوسکے گی۔


  • ۱۶ فروری ۲۰۰۴ء کو سینیٹ میں تقریرکرتے ہوئے میں نے کہا تھا: ’’یہ معاملہ محض چارفروری (۲۰۰۴ء) کو ڈاکٹر اے کیو خان کے ٹیلی وژن پر ’اعترافی بیان‘ کے عمل تک محدود نہیں ہے۔ آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر اے کیو خان کو ان کے منصب سے فارغ کرکے صرف مشیر کی نمایشی حیثیت دی گئی۔ تب یہ پہلا اشارہ تھا کہ ہوا کا رُخ کیا ہے۔ درحقیقت نائن الیون کی مناسبت سے معاملہ صرف یہی نہیں ہوا کہ اس کے چند روز بعد ہم نے اپنے ایئرپورٹ، زمینیں اور فضائیں امریکا کے لیے کھول دی تھیں بلکہ ہم نے امریکا کو موقع دیا تھا کہ ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے میں وہ جو کچھ ہم سے کہلوانا چاہتا ہے یا جہاں لے جانا چاہتا ہے، اس کے لیے ہم پر دبائو ڈال سکے۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس سے قبل ’ڈی بریفنگ‘ (De-briefing) کا معاملہ شروع کیا گیا تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ڈی بریفنگ صرف جاسوسوں کی ہوتی ہے لیکن ہم نے اس اصطلاح کو اپنے ان محسنوں کے لیے استعمال کیا ہے، جو اس ملک کی سلامتی و خودمختاری اور اس کے دفاع کو مؤثر بنانے کے لیے ہرقیمت پر قربانی دیتے ہیں۔ پھر ’ڈی بریفنگ‘ کے اس نام نہاد عمل کو بھی ہم نے بالاقساط کیا۔ پہلے تو دو سائنس دانوں کو اُٹھایا اور کہا کہ ’’اے کیوخان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ لیکن پھر جس شخص نے اس ملک پر سب سے بڑا احسان کیا اور جس نے اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں، اس کو تسلسل سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ سارے اقدامات نہایت ہی اہانت اور ذلت آمیز طریقے سے کیے گئے۔ یہ مسئلہ اپوزیشن یا محض حکومت کا بھی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حکومت، فوج، پارلیمنٹ ہم سب کا مشترک معاملہ ہے۔ اس ملک کا تحفظ اور اس کی ایٹمی دفاعی صلاحیت کا تحفظ ہی نہیں اس صلاحیت کی ترقی بھی ہمارا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اس لیے کہ دفاعی صلاحیت ایک منجمد نہیں بلکہ متحرک تصور ہے۔ اس پر حالات کی مناسبت سے نظرثانی کرنی پڑتی ہے، وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے ہوئے اس کے لیے تحقیق و ترقی کا انتظام ناگزیر اور ضروری ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سائنس دانوں کا تعاون اور ضروری وسائل کی فراہمی اور وہ تمام طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں، جو دُنیا کی پابندیوں کے باوجود ہم نے اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ماضی میں بھی کیے ہیں اور آیندہ بھی کرنے پڑیں گے۔

یہ بڑی زیادتی اور بڑا ظلم ہے، جو آپ ان محترم سائنس دان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جو شخص باہر کی ایک بڑی تنخواہ چھوڑ کر اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ، اپنے ملک کو بچانے کے لیے آیا، وہ بلاشبہہ سائنس دانوں اور انجینیروں کی ایک ٹیم کا حصہ ہے۔ اس ٹیم میں جو جوہری قائد تھے، ان کا نام ڈاکٹر اے کیوخان ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آپ ایک طرف اس کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ میرا ’ہیرو‘ ہے۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟

میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں فوجی قیادت اور عوام کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ اے کیوخان اور ان کے ساتھی سائنس دان قوم کے ہیرو اور محسن ہیں۔ آج تک وژن یہ تھا کہ سائنس دان، اے کیوخان اور فوجی قیادت ساتھ ساتھ ہیں اور سب احترام کی نظر سے دیکھے جارہے تھے لیکن آج آپ نے ان کے درمیان ایک تصادم پیدا کرکے پوری قوم کے سامنے اس وژن کو منتشر کردیا ہے۔

  • ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کو سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا: ’’۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کے روزنامہ پاکستان آبزرور ،[اسلام آباد] میں ڈاکٹر اے کیوخان پر فالج کے حملے کی بڑی پریشان کن خبر شائع ہوئی ہے اور جو تفصیلات ہمارے سامنے آئی ہیں، وہ یہ ہیں کہ عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر اے کیوخان متعدد خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں اور گذشتہ سات ماہ سے اپنے گھر پر نظربند ہیں۔ انتہائی ہائی بلڈپریشر اور شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں اور ان کا ۳۲پونڈ وزن کم ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ایک قومی اثاثہ اور ہمارے محسن ہیں۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ان پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں اور ان الزامات کی حقیقت یا پس منظر کیا ہے اور کون کیا کھیل کھیل رہا ہے؟ اس وقت میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارا ایک بہت بڑا قومی اثاثہ ہیں اور اس کو اس طریقے سے نظربند رکھنا اور معقول علاج معالجے کی سہولتیں نہ دینا، ایک قومی جرم ہوگا۔اس لیے دردمندی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یہ مسئلہ پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر اُٹھائیں۔ بلکہ یہ کہوں گا کہ اسے پوری اُمت مسلمہ کے ایک مسئلے کے طور پر لیں، اس لیے کہ ڈاکٹر خان صرف پاکستان کا نہیں پوری اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔

ماضی میں جو کچھ ہوا ، وہ اپنی جگہ ، لیکن ان کی جان بچانا، ان کو مناسب سہولتیں دینا، اور حبس اور گھٹن کی کیفیت سے نکالنا جس میں وہ گرفتار ہیں، ہماری ذمہ داری ہے۔ میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور قوم کے جذبات کا احترام کرے۔ بیرونی حکومتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ جوہری افزدودگی کے حوالے سے کس کس نے کیا کیا ہے، یہ آپ کو معلوم ہے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ بھارت اس میں ملوث ہے۔ دوسری جانب آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جنوبی کوریا اپنے وسائل سے اس کام کو کر رہا ہے لیکن ایک خاص سیکنڈل کے ذریعے جنوبی کوریا کے ساتھ ہمیں ملوث کیا جارہا ہے۔ تاہم، میں مطالبہ کروں گا کہ حکومت اس ایوان میں ہمارے سامنے سارے حقائق رکھے۔

  • ۱۲مئی ۲۰۰۶ء کو سینیٹ میں مَیں نے یہ بیان دیا: ’’میں ایک نہایت ہی اہم قومی مسئلے کے بارے میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس مسئلے کا تعلق پاکستان اور اُمت مسلمہ کے محسن ڈاکٹر اے کیوخان سے ہے۔ اس سلسلے میں ان کو بار بار کی تفتیش، تذلیل اور سیکورٹی کے نام پر ان کے سماجی، خاندانی تعلقات، ان کی ملاقاتیں، حتیٰ کہ اپنی اولاد اور ان کی نواسیوں تک سے ملاقات کو روکا جارہاہے۔پھر یہ اطلاع آئی کہ ان کو دھمکایا گیا ہے کہ آپ کو قید تنہائی میں ڈال دیا جائے گا اور پھر گیسٹ ہائوس کے گیٹ کے پاس، ایک کمرہ خصوصیت سے اس طرح سے بنایا گیا کہ وہ کسی جیل خانہ سے کم نہیں۔ وہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتے۔ یہ ساری چیزیں ہورہی تھیں کہ پھر یہ اطلاع آئی کہ ان کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہم نے ڈاکٹر اے کیوخان کی رہایش کے باہر جو مشین لگائی ہے یہ ان کی حفاظت کے لیے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ان سے ملنے کے لیے کوئی نہیں آسکتا‘‘۔ مزید یہ کہ ’’بیوی اور شوہر وہاں رہ رہے ہیں اور ان سے صرف ان کی بیٹی مل سکتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ نواسی کو کیوں نہیں آنے دیا جاتا۔ کیا وہ اپنے نانا کو مارنے کے لیے کوئی اسلحہ، کوئی ہتھیار لائے گی؟ چلیے میں سیکورٹی کے لیے نگرانی کے ایک نظام کی ضرورت مان لیتا ہوں، لیکن مسئلہ ہے ملاقاتوں سے منع کرنے کا، ذہنی اذیت اور قید تنہائی کا اور طرح طرح کی ان دھمکیوں کا جو ڈاکٹر صاحب کو دی جارہی ہیں۔

یہاں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جناب جنرل پرویز مشرف نے دی گارڈین [لندن] کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سرعام یہ بات کہی ہے کہ ’’اے کیوخان کا مسئلہ ختم ہوگیا‘‘۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’ان پر صرف ملک سے باہر جانے پر پابندی ہے، ملک میں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔ [فوجی ترجمان]شوکت سلطان صاحب نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’’ان کے اعزہ ان سے مل سکتے ہیں‘‘ لیکن میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ان کے قریبی اعزہ، حتیٰ کہ ان کی بہن اور بھائی تک کو ملنے نہیں دیا گیا۔ گذشتہ دنوں جب ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فاروق کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت رہا کیا گیا ہے تو ان کو بھی اپنے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ’’اب یہ باب بند ہوچکا ہے‘‘، لیکن فی الحقیقت جو دبائو، اذیت اور جوسلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ ایک قومی ذلّت ہے۔

بلاشبہہ ایٹمی ہتھیار کی تیاری ایک ٹیم کا کام تھا۔ اس میں کسی کو انکار نہیں ہے، سب کا حصہ ہے اور اسی لیے ہم تمام سائنس دانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کارنامہ ڈاکٹر اے کیوخان کی سربراہی میں ہوا ہے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ کس نے وہ نیا طریقہ ڈیزائن کیا اور اس ملک کو دیا۔ جس پروسیس کو امریکا نے اکیس سال میں حاصل کیا تھا، اس کی ٹیم نے سات سال میں کرکے اس قوم کو دے دیا۔ ایسے فرد اور اس جیسے افراد کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے اور کل بھی ہوگی۔

خدا کے لیے امریکا پربھروسا نہ کیجیے۔ امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے اپنے بیان کے اندر صاف الفاظ میں یہ کہا کہ ’’ہم نے یہ یقین کرلیا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے کبھی بھی کسی ایسے ہاتھ میں نہیں جاسکتے، جو اسے غلط استعمال کرسکے‘‘۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ امریکا کو کیا حق ہے اس بات کا اور امریکا کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم نے یہ یقینی بنایا‘‘۔ پاکستان کا اپنا ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم‘ ہے اور وہ اچھا ہے اور اسے آیندہ بھی محفوظ ترین ہونا چاہیے لیکن امریکا کا یہ دعویٰ کرنا، بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ ان حالات کے اندر میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اے کیوخان کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ خدا کے لیے وہ راستہ اختیار کیجیے جو قومی غیرت ہی نہیں قومی تحفظ اور سلامتی کا تقاضا ہے۔

میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اے کیوخان کو دی جانے والی سہولتوں کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اخبار میں جو خبر آئی ہے وہ کچھ اور بتاتی ہے۔ آج کے نوائے وقت میں حکومت کی طرف سے جو ایک سطری تردید دی گئی ہے کہ اے کیوخان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، میں اس کو چیلنج کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین! کہ آپ کی سربراہی میں یا ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں وسیم سجاد، ایس ایم ظفر، میاںرضا ربانی اور مجھے موقع دیا جائے کہ ایک وفد کی صورت میں ہم جاکر اے کیوخان سے ملیں اور پوچھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، اور اس ہائوس کو آکر بتائیں کہ صورتِ حال کیا ہے؟خبر کی جھوٹی تردید اسی طرح کی جارہی ہے، جس طرح امریکا نے وزیرستان پر حملہ کیا اور ہمارے ترجمان نے تحقیق کے بغیر یہ کہتے ہوئے تردید کردی کہ نہیں یہ پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہوا، جب کہ پولیٹیکل ایجنٹ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستان کی سرزمین پر ہوا ہے۔

یہی معاملہ اے کیوخان کے حوالےسے بھی ہورہا ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ تردید غلط ہے اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین، کہ آپ کی سربراہی میں ہم جانا چاہتے ہیں تاکہ انھیں ملیں اور دیکھیں کہ کیا پوزیشن ہے اور ایوان کو بتائیں اور اس طریقے سے اپنے ملک میں اپنے محسنین، اپنے سائنس دان جو پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ ہیں، ان کی حفاظت میں اپنا کردارادا کریں۔

  • ۲ جون ۲۰۰۶ء کو سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا: جناب چیئرمین! آپ کی اجازت سے میں اس اہم قرارداد کو پیش کر رہا ہوں۔ یہ قرارداد مشترکہ طورپر سینیٹر سعدیہ عباسی، سینیٹروسیم سجاد، سینیٹرمشاہد حسین، سینیٹر میاں رضا ربانی، سینیٹرلیاقت بنگلزئی، اور میری [خورشیداحمد] طرف سے پیش کی جارہی ہے:

یہ ایوان امریکی ایوانِ نمایندگان کے بعض ممبروں کی اس غیرضروری رائے زنی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس میں انھوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پوچھ گچھ اور تفتیش کے لیے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو امریکا کے حوالے کیا جائے۔

ہم اس اقدام کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور اپنے معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ہمارے دفاع کے لیے انتہائی ضروری ہے اور کسی کے خلاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان اوردیگر سائنس دانوں کی کردارکشی کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستانی قوم ایٹمی ٹکنالوجی، ہتھیاروں کی تیاری اور توانائی کی سیکورٹی کے میدان میں قابلِ ذکر پیش رفت کے لیے اپنے سائنس دانوں کی مقروض ہے۔ تمام پاکستانی، اپنے سائنس دانوں کو احترام اورقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

یہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات ہیں اور میں اپنے تمام ساتھیوں کا بے حد ممنون ہوں کہ سینیٹ قوم کے ان جذبات کو زبان دے رہی ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی اور تعاون کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں لیکن عزّت کے ساتھ اور اپنی آزادی اور اپنی ریاست کی خودمختاری کے مکمل تحفظ کے ساتھ۔

امریکا نے جو یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ جس کی چاہتا ہے ٹانگ کھینچتا ہے، جس کی چاہتا ہے بے عزّتی کرتا ہے، جس ملک کی چاہتا ہے، خودمختاری کے خلاف اقدامات کرتا ہے اور پاکستان میں باجوڑ ہو یا ہمارے دوسرے علاقے ہوں، ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے۔

اس قرارداد کی صورت میں سینیٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ یہ اپنے سائنس دانوں کی عزّت، حفاظت اور اپنی خودمختاری کی حفاظت اور اعلان ہے کہ ہم ان معاملات کے اندر کسی کو مداخلت کرنے یا اپنے حقوق میں دست اندازی کرنے کا موقع نہیں دیں گے اور پوری دنیا کے مسلمان بلکہ پوری دنیا کے عوام اس استعماری کوشش کی مزاحمت کریں گے۔

سینیٹ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے، بلکہ میں کہوں گا کہ پورے ملک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے میں نے اس قرارداد کو پیش کیا ہے۔

  • ۹؍اگست ۲۰۰۶ء کو سینیٹ میں، مَیں نے پھر توجہ دلائی:’’آج جس طرح امریکا کے کہنے پر ہم نے اپنے نیوکلیئر سائنس دانوں کو تنگ کیا ہے، وہ شرمناک حرکت ہے۔ ڈاکٹر اے کیوخان کے ساتھ جو مظالم کیے جارہے ہیں، یہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ اور جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ اسی ایوان میں، مَیں نے اور میرے ساتھیوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے وفد کو ڈاکٹر اے کیوخان سے ملنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن آج تک یہ موقع نہیں دیا گیا۔ اس دوران اگرچہ دوبار میں اس کے لیے خط بھی تحریر کرچکا ہوں۔ اسی طرح ایران کو تنگ کیا جارہا ہے۔ یہ سارے کا سارا سامراجی کھیل ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ آج پوری دنیا میں امن کی جو تحریک ہے، وہ مکمل طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک ہے۔ اس پر عمل نہ ہو تو سب کو مواقع ملنے چاہییں اور کسی کی بالادستی اور اجارہ داری برقرار نہیں رہنی چاہیے۔
  • ۱۸ستمبر۲۰۰۶ء کو سینیٹ کے اجلاس میں، مَیں نے یہ اذیت ناک صورتِ حال بیان کی: ’’آغاخان ہسپتال کراچی میں، جہاں ڈاکٹر اے کیوخان کا آپریشن ہوا ہے، وہاں مجھے انھیں دیکھنے کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں نے اجازت دینے سے انکار کیا۔ اگرچہ یقین دلایا گیا تھا کہ ڈاکٹرخان کو دیکھنے اور اپنی اور سینیٹ میں میرے ساتھیوں کی جانب سے دُعائیں اور نیک تمنائیں پہنچانے کے لیے خصوصی اجازت دے دی گئی ہے۔ اور یہ کہ میں ۱۴ستمبر کو صبح گیارہ بجے ڈاکٹرخان سے مل سکتا ہوں۔ میں گیارہ بجے سے دس منٹ قبل ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ یہاں استقبالیہ میں ایک گھنٹہ ۲۵منٹ میں نے انتظار کیا، لیکن اس عرصے میں سینیٹ سیکرٹریٹ کی کوششوں کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوا، اور مجھے ڈاکٹر خان کو محض پھولوں کا گلدستہ بھجوانے کے بعد واپس آنا پڑا۔بہرحال، میں نے ڈاکٹر خاں کی صاحبزادی سے ملاقات کرکے ان تک اپنی دُعائیں اور ساتھیوں کی نیک تمنائیں ڈاکٹر خان کے لیے پہنچائیں۔ ڈاکٹر خان کی صاحبزادی اور خود ڈاکٹرخان مایوس تھے، کیونکہ وہ مجھ سے ملاقات کی توقع کر رہے تھے۔یہ سلوک نہ صرف ایک ذہنی اذیت کا باعث ہے بلکہ اس کے ذریعے ان تمام انتظامات کو سبوتاژ کیا گیا، جو اس ملاقات کے لیے کسی اور کے نہیں بلکہ ملک کے قائم مقام صدر [محمدمیاں سومرو]کے تعاون سے کیے گئے تھے۔

جناب چیئرمین! میں اپنی اس تحریک استحقاق میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ڈاکٹر اے کیوخان میرے ذاتی دوست ہیں اور میرے ان کے اُس وقت سےروابط ہیں، جب وہ طالب علم تھے اور ہندستان سے آنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے ڈی جے کالج میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے یورپ میں قیام، پاکستان واپسی اور پھر آنے والے دنوں میں اس ملک کے لیے انھوں نے جو عظیم خدمات انجام دیں، اس پورے زمانے میں ہمارے بڑے گہرے اور اعتماد کے مراسم رہے۔ اگر آپ نے آج کے اخبار The Nation میں جنرل زاہد کا مضمون پڑھا ہو تو انھوں نے ہماری ایٹمی صلاحیت کی پوری کہانی بیان کی ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں یہ جو استعداد حاصل ہوئی ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یہ توفیق نہ دیتا تو ہم کبھی حاصل نہیں کرسکتے تھے‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں (جنرل زاہد) اس پورے معاملے میں شروع سے لے کر آخر تک وابستہ رہا ہوں اور ان (ڈاکٹر عبدالقدیرخاں) پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ، ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس ساری بات کو ہرہرمرحلے پر پیش نظر رکھنا انتہائی اہم ہے‘‘۔

اس وقت ہمارا وہ محسن [اے کیوخاں] کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس ایوان نے ایک بار نہیں، کئی بار ان کی رہائی کا مطالبہ اور اس کی صحت یابی کے لیے دُعا بھی کی ہے۔ اسی پس منظر میں آپریشن کے بعد میں ان سے ملنے کے لیے جانا چاہتا تھا۔ میں چیئرمین سینیٹ،جناب محمد سومرو صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس سلسلے میں ذاتی دلچسپی لی اور خود ٹیلی فون کیا۔ لیکن جناب والا! اس موقع پر یہ سوا ل اُٹھانا ضروری ہے کہ ملک میں کس کی حکومت ہے؟ صدر کی یا ایجنسیوں کی؟ میری جانب سے درخواست کے بعد سینیٹ کا سٹاف چوبیس گھنٹے کوشش کرتا رہا اور یہ ایک اُمیدوبیم کی کیفیت تھی۔ بالآخر، رات سوا بارہ بجے مجھے ٹیلی فون آیا کہ ہم آپ کو ناوقت تکلیف دے رہے ہیں، ہمیں ابھی اطلاع ملی ہے کہ اجازت مل گئی ہے۔ آپ صبح چلے جایئے اور گیارہ بجے کے بعد آپ کی ملاقات ہوجائے گی۔ اور جیساکہ پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ میں دس منٹ کم گیارہ پر وہاں پہنچ گیا اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کیا۔ دوسری جانب یہ اطلاع بھی موجود تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخاں میرا انتظار کر رہے تھے۔ان کی بیٹی میرے انتظار میں وہیں موجود تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنرل چوہان بھی ان کے پاس بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان متعلقہ ذمہ داران اور ان کے عملے نے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرا کر بھی مجھے ملنے کا موقع نہیں دیا۔

جناب والا! میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنی سولہ سال کی سینیٹ کی ممبرشپ میں کبھی بھی میں نے کوئی تحریکِ استحقاق پیش نہیں کی ہے۔ اگر تحریکِ استحقاق پیش کی ہیں تو مسائل پر کی ہیں اور ان پر کی ہیں جن کی وجہ سے سینیٹ کے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آج میں سینیٹ کے ساتھ ساتھ یہ ذاتی استحقاق کی خلاف ورزی بھی پیش کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ سینیٹ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ اس ایوان کی خودمختاری، اس کے وقار اور اس کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں یا ان کے بڑے ہوں یا چھوٹے، میں سب کی عزّت کرتا ہوں، لیکن اگر ان کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے احکام کو نہ مانیں، اجازت دینے کے بعد اس پر عمل نہ کریں، تو پھر کون کہاں سے انصاف حاصل کرے گا؟


سینیٹ کے ریکارڈ سے یہ جو چند اوراق پیش کیے گئے ہیں، ان میں جنرل پرویز مشرف کے عہد ِ حکومت کے کچھ پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی، اور اتنی حساس ذمہ داری کی ادائیگی کے نتیجے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہونا پسند کرلیا، مگر قوم کی آزادی کے تحفظ کے لیے ایٹمی پروگرام کو ایک رُخ دینے میں کامران رہے۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک المیہ تو یہ بھی ہوا کہ جب مئی ۱۹۹۸ء میں کامیاب ایٹمی دھماکے کیے گئے تو اُس وقت وزیراعظم محمدنواز شریف صاحب نے اچانک انھیں پس پردہ دھکیل دیا، جس کا سبب ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ نواز شریف صاحب نے محسوس کیا ہوگا یا اُن کے کسی مشیر نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہوگی کہ قوم مجھے متبادل لیڈر کے طور پر کہیں قبول نہ کربیٹھے۔ اسی حفظِ ماتقدم کے طور پر نوازشریف صاحب نے اچانک ڈاکٹر صاحب کا بلیک آئوٹ شروع کر دیا، جس پر قوم، ذرائع ابلاغ اور ہرسوچنے سمجھنے والا فرد حیران و پریشان تھا۔ بعدازاں، فوجی حاکم پرویز مشرف صاحب نے جو کچھ کیا، اس کا احوال اُوپر اشاروں کنایوں میں بیان کیا جاچکا ہے۔

زندگی کے آخری زمانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی پوری توجہ تعلیم، صحت اور رفاہِ عامہ کے کاموں کے لیے مختص کردی تھی۔ پھر حددرجہ افسوس ناک یہ منظر ہم نے دیکھا کہ اُن کے دمِ واپسیں صدر، وزیراعظم اور مسلح افواج کے چیف تک جنازے میں نہ آئے۔ اس طرزِعمل کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ یہ کس کی ہدایت تھی یا کس کا خوف تھا؟

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ___ میرے نہایت ہی عزیز اور محترم بھائی سیّد علی شاہ گیلانی کا یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال ایک عظیم سانحہ ہے۔ موت ہرشخص کا مقدر ہے، لیکن کچھ افراد کی موت زندگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور گیلانی صاحب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔

سیّد علی شاہ گیلانی کی زندگی کا سب سے اہم پہلو مقصدیت اور یکسوئی ہے۔ جس چیز کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا، یعنی اسلام سے شعوری و عملی وابستگی، اس کی دعوت اور اقامت، کشمیر کی آزادی، اسلام کی تقویت کے لیے پاکستان اور کشمیر کی یک جہتی اور پھر جس یکسوئی،جس   بالغ نظری اور جس اعتماد کے ساتھ، عملی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے انھوں نے اس مقصد کے لیے کام کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پوری زندگی پر پھیلی اس طویل اور جان لیوا جدوجہد کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، برسوں جیل اور نظربندی میں گزارے۔ علاوہ ازیں انھوں نے صحافتی، تدریسی، پارلیمانی اور سیاسی محاذ پر بھرپور خدمات انجام دیں۔

پاکستان اور کشمیر کو وہ یک جان سمجھتے تھے۔ کشمیر کا مستقبل پاکستان اور صرف پاکستان سے وابستگی میں دیکھتے تھے، لیکن اس کی بنیاد علاقائیت نہیں بلکہ اسلام اور دو قومی نظریہ تھا۔ جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کو جس شخص نے سب سے زیادہ ہمت اور جرأت کے ساتھ چیلنج کیا، اور پھر اس کی آواز پر کشمیر کے نوجوانوں اور عوام نے اس کا ساتھ دیا، وہ علی گیلانی ہی تھے۔ یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں سیّد علی گیلانی سے بڑا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک زمانے میں شیخ عبداللہ کشمیر میں مقبول قائد تھے، لیکن بالآخر انھوں نے اپنی ذات، اپنی شہرت اور مناصب اور خاندان کے دُنیوی مستقبل کی خاطر ہندستان کے آگے سپر ڈال دی۔ شیخ صاحب نے جن کم سے کم مطالبات پر ہندستان سے معاملہ فہمی کی تھی، بعد میں خود ہی ان سب کو ترک کر دیا۔ اس طرح وہ ایک ناکام شخص کی حیثیت سے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ سیّد علی گیلانی اگرچہ اپنے خواب کی حتمی تعبیر تو نہ دیکھ سکے، لیکن اس حیثیت سے وہ ایک کامیاب انسان کی طرح سے دُنیا سے رخصت ہوئے کہ انھوں نے آخری لمحے تک جس چیز کو مقصد ِ زندگی بنایا تھا، اس کے لیے جدوجہد کی ، قربانیاں دیں اور کبھی کمزوری نہیں دکھائی اور اس مقصد سے وابستگان کی ایک مستعد اور متحرک نسل چھوڑ کر گئے ہیں۔

اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ بھی ان کے تعلق کی نسبت جرأت اور مقصدیت پر مبنی تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ مل کر استصواب رائے (Plebiscite) کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول سے ہٹ کراپنے ایک منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو اس کو روکنے کے لیے سب سے جان دار آواز سیّد علی گیلانی کی بلند ہوئی تھی۔ یہ شکر کا مقام ہے کہ جنرل مشرف سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جلد نجات دلا دی اوروہ نامراد منصوبہ خاک میں مل گیا۔ سیّد علی گیلانی نے محض اس لیے کہ وہ پاکستان کے سربرا ہ تھے، ان کے رُوبرو کلمۂ حق بلند کرنے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ مراد یہ کہ جس طرح انھوں نے بھارت کی حکومت و قیادت کو چیلنج کیا، اسی طرح پاکستان کی قیادت کے پایۂ ثبات میں تزلزل پر اسے بھی برملا چیلنج کیا اور کشمیری عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کی۔

سیّد علی گیلانی  __ ایک نظریہ، ایک تحریک

آج سیّد علی گیلانی محض ایک شخص کا نام نہیں، وہ سوا کروڑ مظلوم انسانوں کی پون صدی پر پھیلی ہوئی تاریخی جدوجہد کا عنوان اور سنہری علامت ہیں۔ انھوں نے ایک سرفروش قوم کی رہنمائی، اپنی آزادی کے حصول اور اپنے دین و ایمان اور اپنی روحانی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک ایسی وحشی اور قابض قوت کے خلاف کم از کم ۷۶ برس سے پوری استقامت کے ساتھ یہ جدوجہد کی۔ ایسی قوت کہ جس نے عسکری یلغار اور سیاسی عیاری کے بل پر اہل جموں و کشمیر کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی، اور خود اپنے عہدوپیماں کو تار تار کرکے ان پر اپنا ظالمانہ تسلط قائم کر رکھا ہے۔

اس استبداد کے نتیجے میں کشمیری صرف اپنی آزادی اور حق خود ارادیت ہی سے محروم نہیں کردیے گئے، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے جان ، مال، آبرو، اقدارِ حیات، تہذیبی اور نظریاتی تشخص، غرض ہرشے کو تہس نہس اور برباد کیا جارہا ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی اور بستیوں اور کھیتوں اور کھلیانوں کی تباہی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔  جموں و کشمیر کی سرزمین پر مسلمانوں کے خون کی اس ارزانی کی کیفیت کو نسل کشی (Genocide) کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ایک طرف ظلم کی نہ ختم ہونے والی خوں چکاں داستان ہے تو الحمدللہ، دوسری طرف ظلم کے اس نظام کو چیلنج کرنے اور تاریکیوں کا سینہ چاک کرکے آزادی کا پرچم لہرانے اور سرفروشی کے چراغوں کو روشن کرنے کی تابناک اور روزافزوں جدوجہد بھی جاری ہے، جو صبحِ نو کی آمد کی نوید دے رہی ہے۔

اس تاریکی میں علم و عمل کا نُور بکھیرتے رہنا سیّد علی گیلانی کی زندگی اور عصرِحاضر کا ایک جذبہ انگیز باب ہے، جس سے واقفیت پاکر ہر دل اپنے اندر ایک اُمنگ موج زن پاتا ہے۔ اس ضمن میں گیلانی صاحب کی خودنوشت ولّر کنارے میرے نزدیک ایک ایسی سوانح حیات ہے، جس میں سیّد علی گیلانی کی مقصدیت سے بھرپور مگر ہنگامہ خیز زندگی کی داستان رقم ہے۔ اس آئینے میں پوری کشمیری قوم کی روح پرور اور ایمان افروز مگر نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے ہمیں اپنی زندگی سے روشناس کراتے ہوئے درس دیا ہے کہ :

جو غم ہمیں ملا ، غمِ دوراں بنا دیا

سیّد علی گیلانی ۳۳کتابوں کے مصنف ہیں، لیکن ان کی خود نوشت ایک منفرد علمی اور ادبی کاوش ہے۔امرواقعہ ہے کہ خود نوشت ایک سب سے زیادہ نازک ، حساس اور مشکل صنف ہے کہ اس میں کہیں پوری داستان ’در مَدح خود می گوید‘ کی گردان بن جاتی ہے اور کہیں کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں سب کچھ ہوتا ہے، مگر شخصیت کی اصل تصویر گم ہی رہتی ہے۔ لیکن سیّد علی گیلانی کی خودنوشت میں ان کی اصل شخصیت اپنی تمام تر تابانی کے ساتھ چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے۔  صرف ان کا ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن بھی کسی تصنع اور پردہ داری کے بغیر دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی داستان کا اصل محور ان کی اپنی ذات نہیں بلکہ وہ مقصد ِ حیات ہے جس نے ان کی زندگی کو معنویت دی ہے۔ اس داستان کی بے ساختگی، ان کی زندگی کی سادگی، ظاہر اور باطن کی یکسانی، مصائب اور مشکلات پر صبرواستقامت، ورق ورق پر ثبت ہے۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے مقصد ِ حیات کی خدمت، اور زمانے کے تمام نشیب و فراز کا حکمت، دیانت، حلم اور توازن کے ساتھ سامنا ان کی شخصیت اور جدوجہد کو ایسا حُسن عطا کرتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام کہا جا سکتا ہے۔ خودپسندی، نفس کی پرستش، انتقام اور حُب ِ دُنیا کا کوئی شائبہ اس زندگی میں نظر نہیں آتا۔

ع        مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

مجھے محترم سیّد علی گیلانی سے صرف تین بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ ایک بار کھٹمنڈو، نیپال میں ملا تھا۔ دوبار یہ سعادت حرمِ کعبہ کے زیرسایہ حاصل ہوئی، جس میں ایک مرتبہ عمرہ کے دوران اور دوسری بار حج بیت اللہ کے موقعے پر۔ ان ملاقاتوں میں گھنٹوں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ان گفتگوئوں میں مَیں نے انھیں ایک بندۂ مومن، سچا انسان اور ایک مخلص رہنما پایا۔ ان کی تحریروں کا خاصا حصہ میری نظر سے گزرا ہے۔ اگرچہ ان کی تحریر اور تقریر دونوں اس پہلو سے متأثّر کن رہی ہیں کہ وہ فکری صحت کے ساتھ ساتھ حُسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا بہترین مرقع ہیں۔ درحقیقت گیلانی صاحب کی زندگی ایک شخص کی زندگی کے آئینے میں ایک عہداور ایک عہدآفریں جدوجہد کی داستان ہے۔

دعوت اور داعی کی زندہ مثال

ان کی سادہ زندگی، اہلِ خانہ سے گہری محبت، خوش کن لمحات میں تشکر اور مصیبت اور رنج و غم کے موقعوں پر صبروتحمل، وسائل کی تنگی اور مشکلات کی یلغار کی صورت میں بھی مایوسی، غصے اور فرار سے گریز، اوقاتِ کار میں ڈسپلن اور تحریکی اور سیاسی مصروفیات کے ازدحام کے باوجود نجی معاملات میں دل چسپی اور ذمہ داری اور تعلقات کو نبھانے کی مسلسل سعی ___ یہ کردار کے وہ پہلو ہیں جو مسلم معاشرے کا طرئہ امتیاز رہے ہیں اور نئی نسلوں کی طرف ان کو منتقل کرنا گیلانی صاحب کی نسل کی ذمہ داری تھی، جسے انھوں نے بڑے سلیقے سے اس طرح پورا کیا ہے کہ وہ بہت کچھ جو ’حجاب‘ تھا ’پردہ ساز‘ بن کر جلوہ گر ہے۔

گیلانی صاحب کی شخصیت کا ایک بڑا متاثر کن پہلو ذاتی تعلقات اور انسانی بنیادوں پر دوست اور دشمن سبھی سے تعلق خاطر اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا خاص اہتمام ہے۔ مخالفین کی خوبیوں کا اعتراف اور اپنوں کی کمزوریوں پر بے جا پردہ ڈالنے یا ان کے دفاع کی کوشش سے اجتناب بڑا جان دار پہلو ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بے جا تجسس، چغلی، غیبت اور دوسروں پر اپنی برتری کے اظہار سے بھی ان کا دامن پاک رہا ہے۔

شیخ عبداللہ سے سیاسی اختلاف کو انھوں نے ذاتی مراسم میں بگاڑ کا سبب نہیں بننے دیا۔ گیلانی صاحب نے سیاسی اور نظریاتی میدان میں شیخ صاحب پر بھرپور تنقید کی ہے، مگر ان کے مثبت رویوں، ان کے ہاں مشرقی اور خاندانی روایات کے اہتمام کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح سخت شدید مخالفین کے غم اور دُکھ درد میں شرکت سے اپنے کردار کی عظمت کا ثبوت دیا ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس کی خود قرآن نے تلقین کی ہے، یعنی اخلاقِ نبویؐ ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

قرآن سے گیلانی صاحب کا گہرا تعلق اور زندگی کے ہرمرحلے اور ہرموقعے پر قرآن کریم سے استشہاد کا نقش ان کی تحریر اور تقریر پر بڑا نمایاں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں مولانا سیّد سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ الہلال نے ہم پر یہ راز فاش کیا کہ قرآن ہمارے دور کے ہر مسئلے کے بارے میں بھی ایسی رہنمائی دیتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ ہدایت آج ہی نازل ہورہی ہے۔ گیلانی صاحب کی تحریر اور تقریر کا یہ کرشمہ ہے کہ ان میں ہرموقعے پر قرآن کی روشنی کا ہالہ نظر آتا ہے اور تفہیم القرآن کی تشریح اس کونُورٌ علٰی نُور کا رنگ دے دیتی ہے۔

فکری ترجمانی

سیّد علی گیلانی کی زندگی پر جن دو شخصیات کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں، وہ علّامہ محمد اقبالؒ اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ بجاطور پر یہ دونوں حضرات بیسویں صدی میں اسلامی احیا کے صورت گر ہیں۔ اقبالؒ نے فکر اور جذبہ دونوں کو صحیح راہ پر لانے کی تاریخ ساز کوشش کی اور سیّد مودودیؒ نے اسلام کے حقیقی وژن کو مسکت عصری دلائل کے ساتھ پیش کرکے نئی نسل کو اسلام کا صحیح شعور دیا اور اُن کو اسلام کے قیام کی جدوجہد کی انقلابی راہ بھی دکھائی۔ اس طرح نہ صرف فکری اور نظریاتی رہنمائی فراہم کی بلکہ اسلامی احیا کی جدوجہد کو برپا کرکے پوری اُمت کے لیے ایک روشن اور کشادہ شاہراہ کھول دی۔ سیّد مودودیؒ کی تحریریں زندہ اور جاوید اس لیے ہیں کہ ان کے پیچھے صرف فکر کی پختگی اور حُسنِ خیال کے ساتھ بلاغت اور اعجاز کا کمال ہی نہیں بلکہ کردار کی عظمت اور قول و فعل کی یکسانی بھی کارفرما ہے۔ ایسی تحریر اور تقریر نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ دوسروں کو زندگی دیتی ہے اور مخالفت کے طوفان بھی نہ اسے محو کرسکتے ہیں اور نہ محدود۔

ایک روشن تحریکی زندگی

گیلانی صاحب کی زندگی کا ایک اور بڑا روشن پہلو یہ ہے کہ ان کے ہاں دعوتی اور تحریکی زندگی اور اس کے تقاضوں کا بڑا حسین امتزاج ہے۔ دعوتِ حق کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے اور تحریک کے نظم سے رشتہ استوار کرنے کے بعد انسان میں کیا تبدیلی آنی چاہیےاور اسے کس طرح زندگی کے پورے طول وعرض میں جاری و ساری ہونا چاہیے، خواہ وہ ایک کارکن کی ذمہ داری ادا کررہا ہو یا قائد کی۔ اس کے چار پہلو سیّد علی گیلانی صاحب کی زندگی اور جدوجہد میں نمایاں ہیں:

  • حصولِ علم کی نہ ختم ہو نے والی لگن جسے ذاتی تعمیروترقی بھی کہا جاتا ہے۔
  • ابلاغ اور دعوت کا اہتمام، خواہ کہیں بھی ہو اور موقع و محل کی مناسبت سے اپنے پیغام کو حکمت اور جرأت کے ساتھ بیان کرنا اور اس کا موقع نکالنا۔
  • حصولِ علم اور ابلاغ کے ساتھ خوش خُلقی، انسانی خدمت، دوسروں کے دُکھ درد میں شرکت اور ان کو مادی اور اخلاقی ہردواعتبار سے اُوپر اُٹھانے کی جدوجہد کی فکر اور اس میں انہماک۔
  • نوجوانوں میں دعوت و تربیت پر خصوصی توجہ کہ مستقبل کی طاقت کا وہی سرچشمہ ہیں۔

یہ چارعناصر انسان کو داعی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے پشتی بان

گیلانی صاحب نے اپنی ساری زندگی میں کشمیر کے مقدمے کو بڑے سلیقے اور محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کا سیاسی اور دینی پہلو ان کے یہاں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

کشمیر کے مقدمے کا بہترین مرقع گیلانی صاحب کا وہ خط ہے، جو انھوں نے بھارت کے ایک وزیراعظم وی پی سنگھ کو ۳۱دسمبر ۱۹۸۹ء کو لکھا تھا۔ یہ خط سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہے۔ کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے سے پہلے انھوں نے اسلام کی دعوت اور پیغام کو اختصار لیکن پوری دیانت اور حکمت سے بیان کیا ہے۔ اس میں بالکل وہی طریقہ اختیار کیا، جو حضرت یوسفؑ نے جیل میں خواب کی تعبیر بیان کرنے سے پہلے ربّ کی عظمت اور بندگی کی دعوت دی تھی۔ اسی طرح کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے نمایندے کے طور پر اپنے رفقا کے ساتھ جو استعفا انھوں نے ۳۰؍اگست ۱۹۸۹ء کو دیا تھا، وہ بھی ان کے موقف کی ترجمانی کا شاہ کار ہے۔ سیاسی میدان میں گیلانی صاحب نے جس حکمت اور فراست سے نازک ترین معاملات کو نبھایا ہے، اس کے اجروثواب کے لیے دل سے بہترین دُعائیں نکلتی ہیں۔

مقصد کی لگن اور ترجیحات کا صحیح ادراک کامیاب قیادت اور سیاست کے لیے ضروری ہے۔ مخالفین سے معاملہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ان لوگوں کے ساتھ چلنا اور ان کو اپنے ساتھ چلانا ہے، جو جزوی اتفاق کے ساتھ بڑے بڑے معاملات پر اختلافی رائے رکھتے ہیں۔ اس میں گیلانی صاحب ہراچھے سیاست دان کی طرح کبھی کامیاب ہوئے اور کبھی ناکام، لیکن جس طرح انھوں نے مشترکات کی خاطر دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ، وہ ایک قابلِ تقلید اور روشن مثال ہے۔

جمہوری عمل کی ناکامی کے بعد تحریکاتِ آزادی کا تحریک ِ مزاحمت میں تبدیل ہونا ایک بڑا نازک مسئلہ ہے۔ بنددروازوں کو توڑنے کے لیے قوت کے ناقابلِ تصور عدم تناسب کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں متوازی قوت کا استعمال ایک حددرجہ حساس معاملہ ہے۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں کم از کم دوسوسال کی تاریخ گواہ ہے کہ مغربی سامراج کے مقابلے میں ایک خاص مرحلے پر معروف جمہوری قوتوں اور تحریکات نے بھی مجبور ہوکر جمہوری طریقوں سے ہٹ کر ایک صحیح کاز اور حصولِ آزادی کے لیے راست اقدام اُٹھائے ہیں۔ خود برعظیم میں بھگت سنگھ [م: ۱۹۳۱ء]اور سبھاس چندر بوس [م: ۱۹۴۵ء]کی مثالیں آج بھی کانگریس کی تحریک ِ آزادی کی جدوجہد کا قابلِ فخر حصہ قرار دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سو سے زیادہ رکن ریاستیں وہ ہیں، جن کی آزادی میں عسکری جدوجہدکا بھی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری غلبے کے خلاف عسکری جدوجہد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’دہشت گردی‘ (Terrorism) تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔لیکن حالیہ دور میں اور خصوصیت سے نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے بعد اس سلسلے میں جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے درمیان تسلیم شدہ فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

گیلانی صاحب نے کشمیر کی جدوجہد کے پس منظر میں اس نازک مسئلے پر بڑے اعتدال اور دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ دونوں کے جوہری فرق کو دلیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جائز اور ناجائز حدود کی وضاحت کی ہے۔ ان اسباب کی نشان دہی کی ہے، جن کی وجہ سے آزادی کے متوالے دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر ان حدود کو بھی نمایاں کیا ہے جن کا احترام اس پُرخار راستے کو اختیار کرنے کے باوجود ازبس ضروری ہے۔ انھوں نے یہ سب اسلام کے تصورِجہاد اور آدابِ جہاد کے نظامِ فکر کی روشنی میں نمایاں کیا ہے، جس کا ادراک گیلانی صاحب کو نوجوانی ہی سے ہوگیا تھااور جس کا اظہار طالب ِ علمی کے دور میں ہی گاندھی جی کے عدم تشدد کے موضوع پر سری نگر میں منعقدہ ایک مباحثے میں انھوں نے کیا تھا۔

قیدوبند کی آزمایش

محترم گیلانی صاحب کو اپنی طویل تحریکی اور سیاسی جدوجہد میں مخالفت و مخاصمت، قیدوبند، تشدد اور تعذیب کے جن مراحل سے گزرنا پڑا، ان سب آزمایشوں میں اللہ کے فضل و کرم سے وہ جس صبروثبات سے اپنے موقف پر قائم رہے، حددرجہ ناسازگار حالات میں بھی دعوت کے لیے راستے تلاش کرتے رہے، وہ سیاست اور دعوت کے تمام طالب علموں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کے خلاف جسمانی تشدد سے لے کر نفسیاتی دہشت گردی تک کے تمام حربے اربابِ وقت اور سیاسی مخالفین نے آزما لیے۔ جب ظلم کے ہتھیار کارگر نہ ہوئے تو ترغیب کے حربے بھی استعمال کیے گئے اور وزارت اور ایک موقعے پر وزارتِ اعلیٰ تک کا لالچ بھی دیا گیا، مگر الحمدللہ، پوری زندگی میں ان کے پایۂ ثبات و استقلال میں کوئی ضُعف نہیں آیا۔

نئی نسل کے لیے ایک مثالی کردار

نئی نسل کے لیے گیلانی صاحب ایک رول ماڈل ہیں۔ تحریک ِ اسلامی کی نئی نسل کو دعوتِ حق کے مقاصد، مشن اور اس کے لائحۂ عمل اور مزاج سے روشناس کرانے کے لیے گیلانی صاحب کی حیات و خدمات کا مطالعہ ایک بہترین عملی ذریعہ ہے۔

ہمارے لیے زندگی گزارنے کا اصل نمونہ صرف رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور آپؐ کا اسوئہ مطہرہ ہے،لیکن یہ بھی اسی اسوۂ حسنہ کا کمال ہے کہ جس دور میں بھی جس نے آپؐ کے دامن سے نسبت کرلی، وہ خود بھی ایک روشن چراغ بن جاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں کبھی کبھی بڑے نازک مقامات بھی آتے ہیں، ان میں کوئی بھی انسان سہووخطا سے پاک نہیں ہوسکتا لیکن بحیثیت مجموعی محترم گیلانی صاحب کی زندگی پوری یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ، مقصد سے لگن اور وفاداری کے ساتھ بندھی نظر آتی ہے۔ اگر کہیں کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو انھوں نے اسے درست کرنے کی مخلصانہ کوشش کی۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندے سیّد علی گیلانی صاحب کی مغفرت فرمائے۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اُس کے پُر ہونے کا کوئی سامان پیدا کرے۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ جدوجہد جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی قربان کردی، وہ جدوجہد کامیاب ہو۔میں نے تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس بنا پر میں کَہ سکتا ہوں کہ خصوصیت سے ۱۹۸۰ء کے بعد سے تحریکِ آزادیِ کشمیر جس طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے، وہ ان شاء اللہ کامیاب و کامران ہوگی اور بھارت کے تسلط سے ہمارے کشمیری بہن بھائی نجات پائیں گے اور پاکستان اور کشمیر یک جان ہوں گے۔

عالمِ اسلام میں ایک شدید کش مکش برپا ہے۔ مغربی تہذیب کے تین سو سالہ اثرات کے نتیجے میں دُنیا کے ہرخطّے میں ایک ایسا طبقہ رُونما ہوگیا ہے، جو ذہنی طور پر مغرب سے شکست کھاچکا ہے اور عملی طور پر اپنا اور اپنے گروہ کا مفاد مغربی طرزِ زندگی کی تقلید میں محفوظ سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ طبقہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اثرواقتدار کا مقام رکھتا ہے اور اپنے باطل تصورات کو پوری سوسائٹی پر مسلط کرنے کی جارحانہ کوشش میں مصروف ہے۔

دوسری طرف، آج اسلامی دنیا کے بعض اہم مراکز میں تحریک ِ اسلامی، ایک منظم طریقے پر دعوتِ دین اور تعمیر کردار سے منسوب خدمت انجام دے رہی ہے۔ وہ ممالک جہاں ریاستی جبروزیادتی اور پابندیاں اسے باقاعدہ نظم کے ساتھ کام کا موقع نہیں دیتیں، وہاں بھی فکری اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کے یہ داعی: آزادی، مال، مستقبل، آبرو اور جان کی قربانی دے کر سرگرمِ عمل ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں تحریک اسلامی، ایک تنظیم کی صورت میں کھلے بندوں کام کر رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیرنو کرنے میں مصروف ہے۔یہ ایک ایسی سعادت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، اور جس کا حق ادا کرنا پوری ملّت پر فرض ہے۔

تحریک اسلامی کا وجود، جہاں بہت بڑی سعادت ہے، وہیں ایک عظیم آزمایش بھی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان سے ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ لیکن جو اس تحریک کو حق اور خیر کا داعی سمجھتے ہیں، ان سے ہم ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آج کے حالات میں، جب کہ زندگی کے ہر میدان میں معرکۂ حق و باطل برپا ہے، اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ عملاً صرف خاموش تماشائی بن کر تو نہیں رہ گئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ محض دُور ہی سے ’داد‘ دینے اور ’اتفاق‘ کا اظہار کرنے پر قانع ہوگئے ہیں، اور عالم یہ ہے کہ:

ع  دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیروشر!

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دُور رس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی  اسلام کے اصولوںاور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تلخیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔

ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سُکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی، اور اگر ہم کوتاہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے، ارکان اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں:

  • کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟
  • اس قافلۂ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصہ کتنا ہے؟
  • کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلّے، گائوں اور شہر میں اس دعوتِ حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
  • کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہرموڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
  • کیا اس کش مکش کی وسعت، گرفت، گہرائی اور اثرپذیری کا واقعی ہمیں احساس ہے؟
  • کیا ہم نے اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق پیش نظر چیلنج کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری سطح پر، پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ تیاری کی ہے اور تیاری کر رہے ہیں؟
  • کیا ہم معاشرے کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور عملی مسائل و معاملات میں اسلام اور کفر و جاہلیت کے تضادات کو سمجھنے کا شعور پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں؟
  • کیا ہم دینِ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرنے میں، معاشرے میں کردار کی بلندی کی جانب گامزن، ظلم و زیادتی کے بالمقابل برملا اور ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کے تاثر کو حقیقی اور منفرد شان دینے میں کامیاب ہیں؟
  • کیا ہماری معاشی زندگی اور منصبی ذمہ داریاں، واقعی اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احساسِ بندگی اور اجتماعی فلاح کے لیے عطا کردہ رہنمائی اور ہدایت کے تحت استوار ہیں؟
  • کیا ہمارا دل، مسلم اُمت کی تکلیفوں پر تڑپتا اور حق کے داعیوں کی تکالیف پر لرزتا ہے، یا  ہم ان اُمور سے لاتعلق ہیں؟
  • کیا تحریک کے نمایاں افراد اور متحرک کارکنان، روز مرہ زندگی میں درپیش سوالوں کا  شافی اور متوازن جواب دینے کے لیے دلیل اور علم کی قوت و صلاحیت پیدا کررہے ہیں؟
  • کیا تحریک کی صفوں میں نئی نسل کی قابلِ لحاظ تعداد شانہ بشانہ شامل ہو رہی ہے؟ اور انھیں تربیت اور ترقی کے مراحل سے منظم انداز میں گزارنے کے مواقع حاصل ہورہےہیں؟ کامیاب قیادت وہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں ادا کرکے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جگہ لینے والے تیار کرسکے، اورجو بارِ امانت ان کے ہاتھوں میں ہے، اسے نئی نسلوں کی طرف منتقل کرسکے۔ دیکھنا اور جائزہ لینا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا کتنا اہتمام کررہے ہیں؟

اگرواقعی ہمارا دل مطمئن ہے کہ شہادتِ حق کی ادائیگی، غلبۂ حق کی جدوجہد اور خدمت ِ انسانی کے کاموں میں اپنی قوت کی ہررمق جھونک دی ہے، تو اس کے لیے ربِّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر شکر بجا لانا چاہیے۔ اور اگر ہمارا ضمیر یہ چبھن محسوس کر رہا ہے کہ ہم اپنا حق ادا نہیں کر رہے ہیں تو ابھی وقت ہے۔ آیئے اور حق کے لیے اپنی جان، مال، قوت، صلاحیت اور وقت کی بازی لگا دیجیے۔ موقع سے فائدہ اُٹھایئے، قبل اس کے کہ موقعے سے محروم کر دیے جائیں:

 ع   کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

ایک اچھی حکومت اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص انتظامیہ، کسی قوم کے لیے قدرت کا قیمتی عطیہ ہوتی ہے۔ اچھی حکومت اسے کہتے ہیں جسے اپنے منصب اور منصبی ذمہ داریوں کا احساس ہو، جس میں قوم کو ساتھ لے کر چلنے اور قوم کے تمام طبقوں کی دست گیری کا احساس دامن گیر ہو۔یوں تو ہماری قومی زندگی بے شمار مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، مگر یہاں ہم چندبنیادی اُمور کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے، جن پر قرارواقعی توجہ دے کر قومی مشکلات کو کسی حد تک کم کرتے ہوئے درست سمت کی طرف سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے:

معاشی بحران

  • سب سے پہلا مسئلہ ہماری قومی معاشی صورتِ حال کی ابتری کا ہے۔ بدقسمتی سے افراطِ زر پر قابو پانے کی اوّل تو کوئی بامعنی کوششیں دکھائی نہیں دیتیں، اگر کچھ کیا جاتا ہے تو وہ بھی پانی پر لکیر کھینچنے کی کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

گذشتہ ماہ قومی پارلیمان میں ۲۰۲۱ء-۲۰۲۲ء کا سالانہ معاشی میزانیہ (بجٹ) پیش کیا گیا، لیکن جس انداز سے بجٹ پیش کرنے کی یہ مشق کی گئی اور خود پارلیمنٹ نے جس انداز سے بجٹ سیشن کو چلایا، واقعہ یہ ہے کہ اس نے صدمے اور شرمندگی کے احساس کو زیادہ گہرا کردیا۔ بجٹ قومی زندگی کی نہایت اہم دستاویز ہوتی ہے، جو محض حکومت کی کتاب نہیں ہوتی، بلکہ وہ پوری قوم کی زندگی کے نہایت اہم اُمور کو چلانے کا نقشۂ کار ہوتی ہے۔اسے پیش کرتے وقت اعداد و شمار میں صحت اور دیانت کو پیش نظر رکھنا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ قوم کو دھوکے میں رکھ کر کوئی کھیل کھیلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی ذمّہ داری ہے کہ وہ سارا سال جس انداز سے سیاسی جنگ میں حکومت کے حملے اور زیادتیاں برداشت کرتی اور ان کا جواب دیتی رہی ہے، اسے بجٹ سیشن کو اس جنگ سے الگ رکھ کر، غیرمتعلق چیزوں کے ساتھ اس سیشن کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ نہایت دل سوزی سے حکومتی معاشی پالیسی اور معاشی احوال پر تعمیری تنقید و رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ مگر گذشتہ کئی برسوں سے یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ سیشن شدید ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی اور ذاتی حملوں کی نذر ہو جاتا ہے، اور حکومت جلد از جلد بجٹ منظور کرا لیتی ہے۔

موجودہ بجٹ کو پیش کرتے وقت حکومت کی جانب سے جس معمولی معاشی استحکام پر بڑے فخر کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی بنیاد بہت کمزور ہے۔ اگر معاشی استحکام کے دیگر پہلو صحیح طریقے سے رُوبہ عمل نہیں آئیں گے، تو معاشی صورت حال مستحکم ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں تمام کوشش کے باوجود برآمدات (Exports) میں کمی اور درآمدات (Imports) میں اضافے نے بہتری کے امکانات کو مسلسل کمزور ہی رکھا ہے۔

بلاشبہہ، کورونا کے باعث دیگر ممالک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے سے پاکستان کو ٹیکسٹائل کی صنعت میں خاطر خواہ سہارا ملاہے، مگر اس معاشی بہتری کی بنیاد بالکل عارضی ہے۔ چونکہ اس کے پس منظر میں مضبوط معاشی ، فلاحی، فنی اور پیداواری سہارا موجود نہیں، اس لیے یہ علامتی ترقی کسی بھی وقت انہدام سے دوچار ہوسکتی ہے۔ کپاس کی فصل میں خطرناک حد تک کمی نے کپڑے کی تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، ایک ڈیڑھ درجن سیاسی اور معاشی اجارہ داروں پر مشتمل ’شوگر مافیا‘ نے کپاس کی پیداوار کے علاقے میں گنے کی کاشت سے، ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ کے امکانات کو مسدود کرکے رکھ دیا ہے۔ گویا کہ سپریم کورٹ بے اثر اور سیاسی و معاشی سیٹھ، ناجائز معاشی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کا یہ رویہ ا ب ایک ضدّی بچے کی سی صورت اختیار کرچکا ہے کہ موجودہ صورتِ حال پر بات کرنے کے بجائے سارا وقت رونے دھونے پر صرف کرتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کو تمام مسائل کا سبب اور ذمّہ دار قرار دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ اُن حکومتوں کی بُری معاشی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تین برس گزارنے کے بعد اب ذمّہ داری لینے اور بہتر  حکمت عملی پیش کرنے کا دور شروع ہونا چاہیے تھا۔ مگر اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ قرضوں کے حصول میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ایئرپورٹ اور موٹرویز تک گروی رکھنے کی نوبت آگئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کی مرضی اور حکم کے مطابق قومی معاشی زندگی کی ترجیحات طے کرنے کے کھیل نے ملک کی آزادی اور مستقبل کو گہرے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

ملک کی معاشی ترقی میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے فروغ کے لیے مربوط اور مؤثر ٹکنالوجی کا فروغ،دیہی سطح پر زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات، کاشت کاری میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے شعور کی بیداری ، کھادوں اور اچھے بارآور بیجوں (seeds)کی بروقت فراہمی اور سہولیات دینے سے زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ عملاً صورتِ حال  یہ ہے کہ گھریلو اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے حد اضافے کی طرح زرعی آلات و ضروریات کی قیمتوں میں بھی سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح ایک متعین وقت مقرر کرکے کمیشن بنایا جائے، جو پاکستان میں زرعی تحقیق کے اداروں کی کارکردگی اور قومی ضروریات پر بے لاگ تحقیقات کرکے قوم کو بتائے کہ یہ ادارے قوم کو کیا دے رہے ہیں؟ یہاں یہ حوالہ شاید زراعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مفید ہوگا کہ اسرائیل نامی چھوٹے رقبے کی ناجائز ریاست نے ریگستانی اور پتھریلی زمینوں کے باوجود زراعت، پھلوں اور پھولوں میں حیران کن تحقیق و ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس وسیع رقبے اور نہایت قیمتی آبی و پیداواری وسائل ہونے کے باوجود، آئے روز سبزیوں اور اناج کی پیداوار میں کمی کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر خوردنی اشیا کی کمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے، حالانکہ ہمیں یہ زرعی اشیا برآمد کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ ان قومی، زرعی اور معدنی وسائل کا درست استعمال ہی ترقی سے ہم آہنگ مستقبل دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری کو کم کیا جاسکتا ہے اور خودانحصاری پر مبنی معاشی و سماجی ترقی کو استحکام بخشا جاسکتا ہے۔

ملک کی معاشی زندگی میں ایک نہایت خطرناک مرض ضمنی بجٹ پر بڑا انحصار کرنا ہے۔  اب تو بدقسمتی سے عملاً سال بھر میں دو تین بجٹ بنانے کا کلچر رواج پکڑ رہا ہے۔ یہ چیز شہریوں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بُری طرح پامال کر رہی ہے، مگر افسوس کہ کوئی اس غیراخلاقی رویے اور چلن سے چھٹکارے کی فکر نہیں کر رہا۔

سود پر مبنی معیشت نے ریاست کو قول و فعل کے تضاد سے دوچار کررکھا ہے۔ اس ظالمانہ نظامِ معیشت سے فائدہ طاقت وَر طبقوں کو پہنچ رہا ہے اور نقصان کروڑوں ہم وطنوں کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ سود کے مسئلے پر گذشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا رویہ بھی تذبذب اور سودی معیشت کے حق میں ہے۔ یہ پالیسی ناقابلِ برداشت ہے۔سود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، نہ کہ عدالتوں میں معاملات اُلجھا کر اسے طول دینے کے حیلے تلاش کرنے کا رویہ اختیار کرنا۔

سیاسی انتشار

  • دوسرا بڑا ہی اہم مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے۔ سیاسی قیادت میں حکمران جماعتیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں شامل ہیں، مگر افسوس کہ یہ دونوں سیاسی گروہ جس غیرذمّہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کلام و بیان کی جس گراوٹ کا شکار ہیں،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے  تباہی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ پارلیمنٹ، قوم کے ضمیر اور فکر کی آئینہ دار ہوتی ہے، لیکن سچ بات ہے کہ ۲۰۰۸ء سے جمہوری عمل کی بحالی کے بعد، پارلیمان اپنی بلوغت اور وقار میں ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے ہرسال تنزلی کے اُلٹے سفر پر بھاگتی نظر آتی ہے۔قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے اور آرڈی ننس نافذ کرنے کی دھونس عروج پر ہے۔

 قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اقتدار کا غیردانش مندانہ بلکہ کلامی فسطائیت پر مبنی رویہ اور جواب میں اپوزیشن کے رَدِّعمل پر مشتمل طریق کار، کسی اچھے مستقبل کی نوید نہیں دیتا۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف جو غیرمعیاری بلکہ گندی زبان استعمال کرنے کے عادی (adict) ہوچکے ہیں، اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوگا کہ یہ رَدِّعمل ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ دوسرے یہ کہ خود عوام میں بدقسمتی سے پارلیمنٹ کا وقار جو پہلے ہی کم ہے، بالکل ختم ہوکر رہ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ اس سسکتے جمہوری عمل کی زندگی کے خاتمے اور غیرجمہوری قوتوں کی پیش قدمی کا سبب بنے گا جس کے ذمّہ دار بنیادی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف ہوں گے۔

اخلاقی انحطاط

  • تیسرا اہم مسئلہ معاشرتی بگاڑ ہے، جو دھوکے، فریب، ملاوٹ اور بددیانتی میں پورے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ اب بداخلاقی اور اخلاقی بے راہ روی کی گہرائیوں میں اُترتا نظر آرہا ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتی اور بالجبر زیادتی کے گھنائونے واقعات، ملک کے تمام حصوں میں بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حیا اور شرم کا پردہ بالکل ہی چاک ہوا چاہتا ہے۔

اس بحرانی صورتِ حال میں سب سے بنیادی رہنمائی اور مؤثر عملی منصوبہ تو قرآن کریم، حدیث پاک اور سنت ِ نبوی سے ملتا ہے۔ کاش، ہمارے حاکم اور انتظامی افسران اس پر توجہ دیں اور اپنی ذمّہ داری ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ اس ذمّہ داری کی ادائیگی کے لیے خود سیاسی اور دینی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی ذمّہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ ہرفرد کو سمجھناچاہیے کہ یہ آگ محض دوسرے کے گھر کو نہیں جلائے گی، بلکہ آج یا کل، یہ خود ہمارے  گھر کو بھی جلاکر راکھ کردے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان تین بنیادی اُمور پر سوچ بچار کے لیے قوم کے تمام بااثر طبقوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور عملی طور پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔

اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

  • اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
  • یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
  • ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
  • کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
  • کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
  • اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
  • اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
  • بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
  • یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
  • ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
  • پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔

ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔

گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]

  • میاں طفیل محمد

ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘

ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔

پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘

نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔

پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:

آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:

’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔

جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔

مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘

انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔

چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔

سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔

مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔

ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟

یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔

اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔

  • مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی

[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:

۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔

اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔

جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....

  • نعیم صدیقی

رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟

مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔

یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔

  • صادق حسین

[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:

’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔

  • سیّد عمر فاروق مودودی

۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔

محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔

مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔

  • پروفیسر خورشید احمد

میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die

میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔

کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘

انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔

کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:

یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی

خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی

سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی

مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی

اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔

ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘

  • مولانا عبدالرحیم

میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔

 منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔

اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔

اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔

عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔

چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔

  • سیّد صدیق الحسن گیلانی

مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔  دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘

پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:

جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔

ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘

  • پروفیسر غلام اعظم

کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔  میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔

جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔

ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے،  مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔

رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔

لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:

پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘

مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد  ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔

اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:

’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔

نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے  کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔

۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔

مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔

جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔

مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ  مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔

  • سیّد اسعد گیلانی

یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔

اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟

آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔

ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:

’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔

’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔

اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

___  کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔

___  کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟

ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔

اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟  کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔

لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:

’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔

یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:

’’جمہوریت کا خون ___  بند کرو‘‘

 ’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:

یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔

طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:

’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔

پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔

ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:

ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘

دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔

یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔

پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔

طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:

’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔

اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔

 پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔

  _______________

حواشی

[۱]   l  ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l  ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l  ۷مئی  کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l  ۹مئی  کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l  ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب

جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں جو جدوجہد ہورہی ہے، وہ صرف جموں و کشمیر کے عوام اور ان کے مستقبل کی نہیں، خود پاکستان کی بقا اور ترقی کی جنگ ہے۔ کشمیری بہنیں، بھائی، بچّے اور نوجوان اس جدوجہد میں اپنی جان، مال، مستقبل اور آبرو تک کی قربانی محض ایک خطۂ زمین کے لیے نہیں دے رہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی، نظریاتی، تاریخی، معاشی اور تہذیبی بنیادیں رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اہلِ کشمیر بالکل واضح ذہن اور بڑی صاف سمت اپنے سامنے رکھتے ہیں۔اسی طرح اس معاملے میں پاکستانی قوم کا موقف پہلے روز سے بڑا واضح اور نہایت مضبوط دلائل پر استوار ہے۔ تاہم، افسوس ناک صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہی ہے کہ بعض اوقات، بعض حکومتوں یا بعض مقتدر افراد نے کمزوری دکھائی، مگر قوم نے ایسی کسی عاقبت نااندیشی کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ، اور خود پاکستان میں ایک نوعیت کی سرگرمیوں سے مسئلہ کشمیر پر جو اشارے مل رہے ہیں، وہ سخت تشویش ناک ہیں۔ ان پر بجاطور پر ہرسنجیدہ اور دُور اندیش پاکستانی پریشان ہے۔ بعض عرب ممالک، بھارت اور امریکا مل جل کر، پاکستان پر دبائو ڈال کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر، بھارت سے تجارتی و ثقافتی راہ و رسم کے دروازے کھولے جائیں۔ اسی ضمن میں ’قومی سلامتی‘ کے نام پر اشاروں، کنایوں میں تاریخ کو دفن کرکے یا تاریخ کو بھلا کر آگے بڑھنے کا غیرمنطقی اسلوبِ بیان اور قومی موقف سے ٹکراتا طرزِتکلّم بھی ہمارے ہاں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ طرزِعمل خطرناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے، جس پر حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو دوٹوک الفاظ میں اپنے تاریخی موقف کا اعادہ کرنا چاہیے اور ایسی کسی بھی مہم جوئی سے لاتعلقی کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ اور وہ اعلان یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ، جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت کے تحت حل کیا جاناہے۔ کسی قسم کی ثالثی کی باتیں بھی پوری جدوجہد کو گہرے اندھے کنویں میں دھکیل دیں گی۔ بات چیت، رائے شماری کے انعقاد کے انتظامات کی تفصیلات پر ہونی چاہیے۔

یہ کہنا کہ ’’بھارت اور چین ، سرحدی تنازعات کے باوجود اتنے سو بلین ڈالر کی تجارت کرتے ہیں‘‘، ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ اس مثال کا کوئی موازنہ، مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات سے نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ملکوں کے سرحدی تنازعات اور کشمیر کے سوا کروڑ لوگوں کے مستقبل کے فیصلے کو ایک ترازو میں رکھنانہایت سنگ دلی اور تاریخ کے ساتھ سنگین کھیل کھیلنا ہے۔

یاد رکھیے، جس نے تاریخ سے کھیل کھیلنے کی کوشش کی، وہ عبرت کا نشان بنا ہے۔ وزارت، حکومت اور ملازمت چند برسوں کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شخصی کروفر کی حیثیت محض پرچھائیں کے برابر ہے مگر غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کے فیصلوں کی سزا قوم مدتوں بھگتتی ہے، اور تاریخ سے بے وفائی کے مرتکب لوگوں کو تاریخ کبھی کسی اچھے نام سے یاد نہیں کرتی۔

ہونا یہ چاہیے کہ کشمیر کے مظلوم عوام کی ہمہ جہت سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی جائے، ان سے ہرسطح پر تعاون کیا جائے۔ اس ضمن میں محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بہت بروقت انتباہ کیا ہے۔

ہم پاکستان کے سیاسی، دینی، صحافتی، حکومتی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قومی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ کسی بھی مہم جوئی اور پس پردہ نامہ و پیام (بیک ڈور ڈپلومیسی)سے پرہیز کریں۔ جو معاملہ ہو، وہ کھلاہو اور اس میں کشمیر کے عوام کا اعتماد شامل ہو، اور عالمی مسلّمہ اصولوں کے مطابق ہو۔

اسی طرح پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ اس کے غیرسنجیدہ چیئرمین کو تبدیل کیا جائے۔ ذمہ دار، فرض شناس اور کسی مردِ معقول کو کمیٹی کا سربراہ بنایا اور کمیٹی کو متحرک کیا جائے۔ عالمی سطح پر ایک مہم چلائی جائے، جس میں خاص طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے بھارتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔

اس حوالے سے حکومت ِ پاکستان، پارلیمنٹ اور پاکستان کی مسلح افواج کو تاریخی موقف پر جم کر کھڑے ہونا چاہیے۔

 یہاں پر سیّد علی گیلانی صاحب کا موقف اور انتباہ پوری تائید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

حوصلہ بلند رکھیں، فتح حق کی ہوگی: سیّد علی گیلانی

’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر مجھے آپ لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔

ہم سب کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ آج ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایک انتہائی مخدوش اور صبر آزما صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بھارت ظلم و جَور کے نت نئے ہتھکنڈے اپنا کر ہماری قوم کا قافیۂ حیات تنگ کرنے اور ہمیںا پنی ہی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور دوسری طرف عالمی برادری کے ضمیر پر کشمیر کے تعلق سے چھائی مردنی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، اور بھارت کو کشمیر میں کچھ بھی کرگزرنے کی گویا چھوٹ سی مل گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رُونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا بھی صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے:

  • سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے کسی قوم کو سابقہ پیش آئے تو اس کے افراد میں کسی قدر بددلی یا مایوسی پیدا ہو جانا اگرچہ ایک فطری چیز ہے لیکن میں آپ کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم الحمدللہ ،مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے انتہا قدرت اور رحمت پر ایمان اور یقین ہو، ان کے لیے مایوسی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔
  • دوسری چیز جس کی طرف مَیں آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہماری جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ہم کسی سے نہ تو کوئی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ ہم صرف اپنے ان غصب شدہ حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
  • تیسری چیز جس کو نظرانداز کرنے یا بھولنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کی اس مبنی برحق و انصاف جدوجہد میں ہم نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے لاکھوں نوجوانوں، بزرگوں، اور بچوں نے اپنا خون بہاکر اور ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹا کر، اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ یہ سبھی قربانیاں ہمارے لیے ایک مقدس قومی امانت ہیں اورہم سب اس کے امین اور اس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اور عہد کے پابند ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہداکی بیوائیں، یتیم اور ہمارے محبوسین اور ان کے اہلِ خانہ بھی ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہرطرح سے ان کا خیال رکھنا اور ان کی دل جوئی کرتے رہنا، ہمارا ایک قومی فریضہ ہے۔

اُتار اور چڑھائو کے مراحل ہر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی جدوجہد ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان کٹھن مراحل سے گزر کر ہی تحریکیں مزید سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جدوجہد کا دورانیہ جب زیادہ طویل ہوجائے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن پر اگر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہ جدوجہد کا حلیہ اور سمت دونوں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر کے ایک گروہ کا ظہورہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہماری صفوں میں بھی نہ صرف پیدا ہوچکا ہے بلکہ انتہائی سرگرم بھی ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی وقت اپنے حقیر مفادات کے لیے کسی بھی قسم کی سازباز کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔

جیساکہ مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے درپردہ کچھ سرگرمیوں کے عندیے مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ انھیں الگ تھلگ رکھ کر کیا کچھ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے، یہ سب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کا حصول ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ اور کشمیری عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قیامِ امن کی خواہش رکھنے والوں کو اس زمینی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بدامنی کی وجہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نہیں بلکہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور تسلط ہے۔ اور جب تک اس وجہ کو دُور نہیں کیا جاتا، تب تک قیامِ امن کی کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ہم سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہی ہوتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی بحالی کے نام پر اگر مسئلۂ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کی بات ہو تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات کو استوار کرنا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکّی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

ہرقوم اورملک کی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے اور ان کا تحفظ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے، اور ہمارا مفاد اس کے سوا کسی اور چیز میں نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اور یہ کام ہم سب کشمیریوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔

یہ تحریک جتنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کی ہے، اتنی ہی آزادکشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، کشتواڑ، ڈوڈہ، غرض کشمیر کے ہرحصے میں رہنے والوں کی ہے، اور اس میں سب کا یکساں تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جس طرح بھارتی مظالم کے سب سے زیادہ شکار مقبوضہ وادی کے لوگ رہے، اسی طرح اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھی مقبوضہ وادی کے لوگوں کا ہی رہا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا تبدیل ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے ہرحصے کے لوگ اس میں یکساں طورپر شامل ہوں اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کرکے اس کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔

یاد رکھیں! جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلوں اور ہمتوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہٰذا، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حق اور باطل کی لڑائی میں فتح آخرکار حق کی ہی ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!‘‘ [۲۲مارچ ۲۰۲۱ء، سری نگر]

بیسویں صدی کی عالمی تاریخ میں پاکستان کا قیام، ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ایک نیا ملک دُنیا کے جغرافیائی نقشے پرنمودار ہوا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ نیا ملک نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور اس کا وجود مغرب کی قوم پرستانہ فکر کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس ملک نے نظریاتی سیاست کا علَم بلند کیا تھا اور تنگ نظر قوم پرستی (Narrow Nationalism)کی ستم زدہ دُنیا کے سامنے ایک نئی راہ پیش کی تھی۔

تحریک ِ پاکستان کی اصل بنیاد یہ تھی کہ:

چونکہ مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے ایک قوم اور ایک ملّت ہیں۔

اور ___

چونکہ مسلمان اپنی آئیڈیالوجی ، اپنی تہذیب، اپنی معاشرت اور اپنا نظامِ قانون رکھتے ہیں، جسے وہ اجتماعی زندگی میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اس لیے جن علاقوں میں ان کی اکثریت ہے، ان پر مشتمل ایک ریاست قائم کی جائے، تاکہ وہ اپنی جداگانہ قومیت کی بنیاد پراپنی تہذیب اور اپنی آئیڈیالوجی کو قائم کرسکیں۔

یہ وہ انقلابی اعلان تھا، جس نے ایک طرف مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور دوسری طرف دُنیا کے تمام باطل تصورات کو چیلنج کیا۔ مسلمانوں نے بہت بڑی قربانی دے کرسات سال تک اَن تھک جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں ان کی اپنی الگ ریاست اُبھری۔مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ عام مسلمانوں کو اسلام کے علاوہ کسی اور مقصد نے کبھی اپیل ہی نہیں کیا۔ ظالم بادشاہ بہت سے ہوئے، اسلام سے انحراف کرنے والے بھی بیسیوں گزرے، لیکن اُمت نے کبھی انھیں اپنی آنکھوں کا تارا نہ بنایا۔ کبھی ان کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ ان میں سے بہتوں کے طرزِ حکمرانی کی بنا پر اکثر لعنت ہی بھیجی۔ اس اُمت نے بہت مظالم برداشت کیے، بڑی مشقتیں جھیلیں، بے پناہ مصائب کوانگیز کیا، مگر اسلام کے علاوہ کسی اورمقصد کی خاطر دل و جان سے قربانی کے لیے کبھی تیار نہ ہوئی۔

ہمیشہ اس کے ہیرو،امام ابوحنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالک بن انسؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، مجدد الف ثانی ؒاور سیّد احمد شہیدؒ وغیرہم ہی رہے۔ کسی حسن بن صباح اور اکبر کو اس اُمت نے اپناہیرو اور آئیڈیل نہیں بنایا، اور اسلام کے علاوہ کوئی اور نصب العین اس کی وفاداریوں کا مرکز نہ بن سکا۔  یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا اپنے اورپرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں، حتیٰ کہ بیسویں صدی کے ممتاز مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ (۱۹۱۶ء-۲۰۰۰ء) نے اپنی تصنیف Islam in Modern History [دورِجدید میں اسلام : ۱۹۵۷ء] میں لکھا ہے: ’’ماضی میں صرف اسلام ہی ان لوگوں (یعنی مسلمانوں) کا اجتماعی ضابطہ، اصل محرک اور کارفرما قوت رہا ہے۔ اور یہ کہ مسلمانوں کے کسی گروہ نے بھی اپنے میں ایسے قومی اور وطنی جذبات پیدا نہیں کیے،جس کی وفاداری اور تعلق کا مرکز اسلام سے ہٹ کر کوئی اور شے یا مسلم ملّت کے دائرے سے باہر کی کوئی چیز ہو‘‘۔

بلاشبہہ یہ مسلمانوں کی قابلِ فخر قومی اور ملّی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریۂ پاکستان نے مسلمانوں کو اسی بنیاد پر اپیل کیا تھا کہ یہ ان کی روح کی آواز، ان کے ایمان کی پکار، اور ان کی ملّی تمنائوں کا آئینہ دار تھا۔ اور پاکستان کے مستقبل کی تعمیر میں بھی مسلمانوں کا حقیقی تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ دیکھیں کہ یہ اسلامی نظریے کے لیے وقف ہے۔ کوئی اور محرک ایسا نہیں ہوسکتا، جو ملّت اسلامیہ پاکستان کو کسی عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لیے تیارکرسکے۔ یہ صلاحیت اسلام اور صرف اسلام میں ہے۔

اسلامی نظریے کی ضرورت و اہمیت

اسلامی نظریے کی بنیاد پر سیاست اور ریاست کے معاملات چلانے، اور تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کی ضرورت محض اس لیے ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں اس کے بغیر جذبۂ عمل و قربانی پیدا نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں تربیت کی ہے۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں سے دین ودُنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے باطل نظریات کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا ہے، اور ان کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین کو زندگی کے ہرشعبے پر غالب کریں۔

اس پس منظر کی وجہ سے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک معاملے میں دین کا تقاضا کچھ اور ہے اورمروجہ نظام کا اندازِکار کچھ اور، تو وہ اس تناقض (contradiction)کو نظرانداز نہیں کرسکتے___ ایک عیسائی کے لیے غالباً یہ ممکن ہے کہ وہ اس تناقض کو برداشت کرلے۔ ایک ہندو کے لیے شاید آسان ہو کہ وہ اس سے صرفِ نظر کرلے کہ ان کے مذاہب نے اجتماعی زندگی میں دین کو قائم کرنے کی کوئی روایت پیش نہیں کی ہے۔ لیکن اسلام کی روایت ان مذاہب سے بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس تناقض کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں فرمایا ہے:

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴ (المائدہ ۵:۴۴) اور جو خدا کے نازل کردہ قانونِ حیات کے مطابق اپنےفیصلے نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں جتنی اجتماعی بے اطمینانی پیدا ہوئی ہے، اور انقلابی تحریکات اُٹھی ہیں، ان سب کا جذبۂ محرکہ اسی تناقض اور تضاد کو دُور کرنا تھا۔

اگر اس نظریے کو نظرانداز کیا گیا، تو اس سے ایک طرف ملّت میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگی، دوسری طرف مروجہ نظام سے مایوسی___ اور یہ دونوں چیزیں ایک قوم کے لیے بہت مہلک ہیں۔ اپنی قومی صحت کی درستی اور اجتماعی زندگی کے سکون کو قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ   ہم جلدا ز جلد اسلامی نظریے کی بنیاد پر اپنی ریاست کو تعمیر کریں تاکہ قوم کی تمام قوتیں، تعمیرنو کے لیے استعمال ہوں اورکوئی اندرونی کش مکش رُونما نہ ہو۔

پھر خود ملک جن مشکلات اور جن معاشی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے، ان کا حل بھی صرف اسلامی نظریے میں مضمر ہے۔ مغرب کی ہوش ربا ٹکنالوجیکل ترقی اور بے پناہ مادی تجربات کی سلسلہ وار روایت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ محض مادی ترقی سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

اسی طرح تیل پیدا کرنے اور اس بے اندازہ دولت کو گاڑیوں، عمارتوں کی تعمیر، بنکوں میں تجوریاں بھرنے یا لہوولعب میں اُڑانے والے بعض مسلم ممالک کے تجربات نے بھی یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ مسلمان دین کے مقتضیات کو چھوڑ کر محض مادی ترقی بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے مصائب کا حل اسلامی نظامِ حیات میں ہے، جو: ایک طرف فرد میں تقویٰ، ایمان اور خدا کا خوف پیداکرتا ہے، اور دوسری طرف معاشرے کو صحت مند بنیادوں پر قائم کرتا ہے۔ تیسری جانب سیاست کو اخلاق کے تابع کرتا ہے۔ چوتھی طرف معیشت کو عادلانہ معاشی انصاف کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور پانچویں جانب قومی پالیسی کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول پر استوارکرتا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد

ہمیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں صرف مادی اسباب و وسائل ہی کارفرما نہیں ہیں۔ یہ دُنیا اخلاقی قوانین کے بھی تابع ہے۔ انسان نے بارہا مادی ترقی کی بلندیوں کو حاصل کیا ہے،لیکن اخلاقی ضوابط سے بغاوت کی وجہ سے وہ اپنی مادی ترقی کو قائم نہ رکھ سکا۔

سلطنت روما اور سلطنت ِ فارس کے پاس کس چیز کی کمی تھی، لیکن وہ تباہی سے بچ نہ سکیں۔ تمام تہذیبیں جو آج تک اُبھری اور تباہ ہوئی ہیں، اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ مادی قوانین کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ اخلاقی قوانین بھی کارفرما ہیں اور ان کونظرانداز کرکے کوئی قوم حقیقی ترقی حاصل نہیں کرسکتی۔ اسلامی نظریہ، ترقی کے مادی اور معاشی قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقی قوانین کی ترقی کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ایک متوازن اور مبنی بر عدل تہذیب کے فروغ کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ دوسرے تمام نظام ہائے زندگی اس تعلق کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اسی لیے ناکام ہیں۔ مادی اور اخلاقی زندگی کے گہرے تعلق کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

  • کسی قوم میں جب بدکاری پھیل کر عام ہوجائے اور وہ اسے کھلم کھلا کرنے لگے تو ایسی قوم طاعون اوردوسری بیماریوں کی مصیبت میں گرفتار ہوگی اور ایسے دُکھ درد سے دوچار ہوگی جس سے اس کے اسلاف ناآشنا تھے۔
  • اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرے گی تووہ قحط سالی اور حکمرانوں کے ظلم و جور کا شکار ہوگی۔
  • اور جب کوئی قوم زکوٰۃ دینا بند کردے گی تو اس پر بارش (خدا کی چھت) بند ہوجائے گی اور اگر ہوگی بھی تو(انسانوں کی وجہ سے نہیں) بلکہ دوسرے حیوانوں کی وجہ سے۔
  • جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوپیمان توڑ دےگی، تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردے گا، جو ان کے قبضے کی بعض چیزیں چھین لے گا۔
  • اور جب ان کے ائمہ اور قائدین کتاب اللہ پر فیصلے کرنا ترک کردیں گے اور اپنی مرضی  کے احکام اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے پیدا فرما دے گا۔[ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات،حدیث: ۴۰۱۷]

اس طرح پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق؄ نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں فرمایا تھا:

  • اے لوگو! جس قوم نے بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چھوڑ دیا، اللہ نے اسے ذلیل کیا اور جس قوم میں بھی بدکاری پھیل جائے، تو اللہ اس میں مصیبت کو بھی پھیلادیتا ہے۔ [سیرت ابن ہشام، ج۴،ص ۳۱۲، دارالکتاب، العربی، بیروت]

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی نظریے کا قیام خود ہماری مادی اور قومی زندگی کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور نہ اپنی تعمیرنو کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرسکتے ہیں۔

آج دُنیا میں جو کش مکش برپاہے، اس سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اب مقابلہ محض چند افراد، کچھ قوموں اور بعض ملکوں میں نہیںبلکہ دراصل مقابلہ ’الٰہی ہدایت‘ سے رہنمائی و طاعت اور ہدایتِ الٰہی سے بغاوت و طاغوت کی پیروی کے درمیان ہے۔ مغرب کے پاس کوئی مثبت آئیڈیالوجی نہیں ہے، اور وہ جمہوریت، سیکولرزم، لبرلزم، آزادیٔ حقوقِ انسانی اور تحفظ فرد کے نعروں سے اپنا کام نکالنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ ہمارے عہد میں مسلط عالمی سامراج، مادہ پرست تہذیب کی پیداوار ہے اور ہم مغرب کی نقالی کرکے فائدے میں نہیں خسارے میں ہیں۔ ہمارے پاس اسلام کی صورت میں ایسا عادلانہ نظریہ ہے، جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہم خود سیکولر فسطائیت کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی ایک نئی راہ دکھا سکتے ہیں لیکن افسوس  ؎

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

مسلمانوں پر مسلط کردہ موجودہ سیاسی و تہذیبی جنگ اور جدید مالی کش مکش پر نگاہ رکھنے والے افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم اگردُنیا کی سیاست میں کوئی تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں تو وہ نقالی کرکے نہیں کرسکتے بلکہ اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جب ہم اسلام کے عادلانہ نظریے کو بالفعل  قائم کریں اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنادیں۔ نقالی کرکے ہم شاگرد بن سکتے ہیں، بہت سے بہت شاگردِ رشید بن سکتے ہیں، لیکن کوئی تخلیقی اور قائدانہ کارنامہ اسی وقت انجام دے سکتے ہیں کہ جب تک ہم خود ایک عالمی آئیڈیالوجی کے علَم بردار نہ بنیں۔

خدا سے عہد شکنی کا نتیجہ

پھر سب سے بڑھ کر دُنیاوی اور ملکی مفاد سے ہٹ کر ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔

ہم نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے موقعے پر اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ’’اے مالک، تو ہمیں کامیابی عطا کر اور ہم تیری زمین پر تیری نازل کردہ ہدایت قائم کریں گے‘‘۔ کیا اس نظریے کو ترک یا نظرانداز کرنے کے معنی خدا کے غضب کو دعوت دینے کے نہ ہوں گے؟ ہم اپنے آپ کو خدا کی عنایت اور اِکرام کا اسی وقت مستحق بناسکتے ہیں، جب ہم اس مقصد اور اس وعدے پر قائم رہیں، جو ہم نے زمین و آسمان کے مالک و خالق سے کیا تھا۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو توڑ دیتے ہیں تو لازماً ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے بھی محروم کرلیں گے۔ اور اس سے زیادہ بدبخت کون ہوگا جو اپنے کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم کرلے!

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو دی ہے، اس وقت تک بدلنے والا نہیں جب تک وہ خود اپنے کو نہ بدل لے [یعنی اپنے اعتقاد اور اپنے مقاصد سے منحرف نہ ہوجائے]۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ:

یَا مَعشَرَ  قُرَیْشٍ  ، فَاِنَّکُمْ  اَھْلُ  ھٰذَا  الأَمْرِ، مَا لَمْ  تَعْصُوا اللہَ   فَاِذَا عَصَیْتُمُوْہُ  بَعَثَ  عَلَیْکُمْ  مَن  یَلْحَاکُمْ  ، کَمَا  یُلْحَی  ھٰذَا  القَضِیْبُ  لِقضِیبٍ فِی یَدِہ ثُمَّ  لَحَا قَضیہَ  [مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث:۴۲۳۱] اے اہلِ قریش،تم اس وقت تک لطف و کرم کے مستحق رہو گے، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کروگے اور جب تم گناہ کی زندگی پراُتر آئو گے، تو وہ تم پر ان لوگوں کو بھیجے گا، جو تمھاری کھال ادھیڑ ڈالیںگے جیسے اس شاخ کی چھال چھیل دی جاتی ہے۔ آپؐ کے دست مبارک میں ایک شاخ تھی، جسے آپؐ نے چھیل کربتایا۔

اور قرآنِ پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہِ راست ہم ہی سے خطاب ہے:

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ  اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۲۶ (انفال ۸:۲۶) اور وہ وقت یاد کرو جب تمھاری تعداد بہت تھوڑی تھی اور تم زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے۔ تم اس وقت ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو اُچک نہ لیں۔ پھر اللہ نے تمھیں ٹھکانادیا، اپنی مددگاری سے قوت بخشی، اور اچھی چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کردیا تاکہ تم شکرگزاربنو۔

شکرگزاری کا راستہ، اللہ کے دین کو اختیار کرنے اوراسلامی نظریے کو قائم کرنے میں ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو سخت ناشکرے ہوں گے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیں گے۔ اس لیے ہمارے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ ہم اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب و معاشرت اور اسلامی معاشی نظامِ عدل کو خلوص اور ایمان داری کے ساتھ اختیار کریں اوراس کے دیے ہوئے پروگرام پرعمل کریں۔

دو غلط نقطہ ہائے نظر

اسلامی نظریے کی تنفیذ کے سلسلے میں دو نقطہ ہائے نظر کے جائزے کی ضرورت ہے:

ایک نظریہ تو یہ ہے کہ ’’اصل چیز پروگرام ہے، نام نہیں، اس لیے اسلام کا نام لیے بغیر ہی اس کے اصلاحی پروگرام پر عمل کرناچاہیے‘‘۔

دوسرا نقطۂ نظر متجددین کاہے جو اسلام کا نام تو برقراررکھتے ہیں، لیکن ’تعبیرات‘ کے ایک نہ ختم ہونےوالے سلسلے سے ان اسلامی اصطلاحات کے معنی بدل دیتے ہیں، اوراسلام کے نام کی پرانی بوتلوں میں جدید مغربی فکروتمدن کا زہر بھر دیتے ہیں۔

ہم ان دونوں نقطۂ ہائے نظر کو غلط سمجھتے ہیں اور نظریۂ پاکستان کے منافی قرار دیتے ہیں۔

اسلام کا نام لینے سےگریز

  • اوّل الذکر کے سلسلے میں پہلاسوال تو یہ ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ’اسلام کا نام نہ لیا جائے؟‘ درحقیقت اس کا اصل محرک واقعاتی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔ یہ ایک قسم کے چھپے ہوئے احساسِ کمتری کی پیداوارہے اور ہرگز ہمت افزائی کے لائق نہیں ہے۔ جو لوگ اسلام پر فخر محسوس کرنے کے بجائے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وہی بالعموم اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسلام کے نام کو جان بوجھ کر استعمال نہ کریں اور پھر جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں وہ اس کے پروگرام پر کیا عمل کریں گے؟
  • دوسری چیز یہ ہے کہ نام کی خود اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ وہ ایک زائد از ضرورت شے نہیں ہے۔ دراصل نام کے ذریعےکسی چیز کی حقیقت، اس کے اصل آئیڈیل اور منزل کو متعین کیا جاتا ہے۔ پھر نام کے ذریعے اس اصل مقصود کی مسلسل تذکیر بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح اصل مقصد کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ایک مسلمان بچے کو سب سے پہلے مسلمانوں کاسا نام اسی لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو جان لے، اور اس میں بھی اچھے سے اچھا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اس نام سے جو شخصیات اور جوتصورات وابستہ ہیں، وہ ان کو اپنا آئیڈیل اور مقصود بنالے۔
    نام اصل شے سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ اس کی حقیقت کا اظہار ہے اور یہی تصور قرآن کریم سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ تخلیق انسان کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ آدمؑ کو  اشیا کے نام بتائے گئے (عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا) یعنی ان کی حقیقت سے آدمؑ کو مطلع کیا گیا۔ نام کا اصل شے سے ہٹ کر کوئی وجود نہیں اور اصل شے کا نام کے بغیر کوئی اثر نہیں!
  • تیسرے یہ کہ اسلام میں نام کی بڑی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اسلام اپنے پورے پروگرام کو کفر کے پروگرام سے ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے جداگانہ تشخص اور مزاج کا اظہار منجملہ اور چیزوں کے، جداگانہ نام سے بھی ہوتا ہے۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کواس سے منع فرمایا ہے کہ وہ کفّار کے ساتھ ظاہری مشابہت بھی پیدا کریں: مَنْ تَشَبَّہَ  بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ اس حکم میں نام کا مسئلہ بھی آتا ہے اور اس کی روشنی میں ہمیں اپناعلیحدہ تشخص ضرور ظاہرکرنا چاہیے، تاکہ ہمارے طریقے اور اہلِ کفر کے طریقے کا فرق نمایاں ہوسکے۔
  • پھر مسلمانوں کو ترغیب دینے ان میں عمل اور قربانی کے جذبات بیدار کرنے، ان میں تحریک و حرکت رُونما کرنے اور جدوجہدکا ولولہ اور شوق پیدا کرنے کے لیے اسلام کا نام بے حد ضروری ہے۔ ’جہاد‘کے لیے جو جذبہ مسلمانوں میں پیداہوگا وہ کبھی محض جنگ کے لیے نہیں ہوگا بلکہ جہاد کی تمام علمی، قلمی، دعوتی شکلوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا کلچر بھی ہوگا۔زکوٰۃ اور انفاق کے لیے جو جذبہ و شوق رُونما ہوگا، وہ صرف محصول اکٹھا کرنے کے لیے نہیں ہوسکتا۔
  • ’عبادت‘ کے لیے جو ولولہ ہوگا وہ ورزش کے لیے نہیں ہوسکتا۔ ’شہادتِ حق‘ کے لیے جو قربانی وہ دیں گے، وہ پروپیگنڈے کے لیے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے عملی نقطۂ نظر سے بھی نام کی بڑی اہمیت ہے۔
  • نیز ہم اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اپنے کام میں برکت پیدا کرنے اور اللہ کی مدد و استعانت طلب کرنے کے لیے بھی لازم ہے کہ ہم اسلام کا اور اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام لیں۔ اس کے بغیر ہم اُس برکت کے مستحق نہیں ہوسکتے، جس کے بغیر ہماری ساری مساعی بیکار ہیں۔
  • اور پھر جب قرآن کریم ہمیں اصل کام کے ساتھ ساتھ نام کے اظہار کا بھی صاف صاف حکم دیتا ہے تو ہم اس سے رُوگردانی کرنے والے کون ہیں؟ اسلام کی مصلحتوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ تو ہم نہیں جانتے۔ جب وہ خود ہمیں ’مسلم‘ کا نام دیتے ہیں اور اس کے اظہار کا بھی حکم دیتے ہیں تو ہم اس نام کی ’شدھی‘ کرنے والے کون ہیں؟ قرآن کا ارشاد ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ مَیں مسلمان ہوں۔

یہاں صاف ارشاد ربانی ہے کہ ’’اللہ کی طرف بلائے‘‘ اور کہے کہ ’’میں مسلمان ہوں‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے پروگرام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اصل پروگرام کو چھوڑ کر صرف’نام‘ پر انحصار کرنا غلط اور اسلام کے منشا کے خلاف ہے، اسی طرح نام کے بغیر پروگرام کو پیش کرنا بھی اس کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ’نام‘ اور ’پروگرام‘ دونوں کو ساتھ ساتھ ہونا چاہیے اور یہی راہِ صواب ہے۔

اجتہاد کے نام پر مغربی اقدار کا فروغ

جہاں ایک گروہ نام پر معترض ہے وہاں ایک دوسرا گروہ ہے، جو نام کو باقی رکھ کر معنی بدل دینا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ ’’جدید مغربی تہذیب نے جو بھی اقدار (values) دی ہیں اور تہذیب وتمدن کا جو بھی ڈھنگ بنایا ہے، اسے اسلام سے درست ثابت کردے‘‘۔ اسلام کی اصطلاحات کو اور اس کے الفاظ کو تو باقی رکھے، لیکن ’معنوی تحریف‘ (falsification) کے ذریعے  اللہ کے دین کو مغرب کا چربہ بنادے۔ اگر مغرب میں سود جائز ہے تو یہ اسلام میں بھی سود کے لیے جواز نکال لیتے ہیں۔ اگر مغرب میں موسیقی اور مجسمہ سازی، کلچر کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں، تو ہمارے متجددین بھی انھیں اسلامی ثقافت کی عین ’روح‘ ثابت کرتے ہیں۔ اگر مغرب ’حجاب‘ اور ’تعدداَزدواج‘ کو غلط سمجھتا ہے تو یہ ’دانش ور‘ باادب عرض کرتے ہیں کہ ’بھلا ان چیزوں کا اسلام سے کیا تعلق؟ یہ سب مُلّا کی ایجادات ہیں‘۔ اگر مغرب، اسلام پرتشدد کی پھبتی کستا ہے تو یہ جہاد کو یک سر منسوخ کردیتے ہیں۔ اگر مغرب نماز ، روزہ اور قربانی کو لغو سمجھتا ہے تو یہ بزعمِ خود اسلامی نقطۂ نظرسے بھی ان کی ’لغویت‘ بیان فرماتے ہیں۔ اور یہ سارا کارنامہ ’اجتہاد‘ کے نام پر اسلام کی ’تعبیر نو اور تشکیل نو‘ کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگر پہلا فساد ’نام نہ استعمال کرنا‘ تھا، تو یہ فساد ’فتنۂ تعبیر ‘ کے ذریعے ہے۔

ان حضرات نے اس بات کو تو محسوس کرلیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام کے بغیر عمل پر نہیں اُکسایا جاسکتا اور جب تک کسی چیز پر اسلام کا لیبل نہ ہو مسلمان اسے کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ اس کوبھول گئے ہیں کہ اسلام محض ایک خالی خولی نظریہ نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہیں، اسے مسخ کریں اور جو شکل چاہیں اسے دے دیں۔ اسلامی نظریے کو خود خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے میدان میں قائم کیا تھا اور اسلامی تہذیب ومعاشرت کے آثار گذشتہ چودہ سو برسوں سے اس سرزمین پر قائم ہیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کی حیثیت کوئی ایک کتابی شے کی سی نہیں، ایک عملی حقیقت کے طور پر ہے۔ تواتر کے ساتھ اس پرعمل ہورہا ہے اور جن معاملات میں عمل نہیں ہورہا، وہاں بھی اسلامی اقدار موجود اور محفوظ ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات، علمی اورعملی دونوں طریقوں سے پہنچی ہیں۔ اسلام کوئی معما نہیں ہے۔ اسلام تو ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور اسے مسخ کرناآسان کام نہیں ہے۔

یورپ میں عیسائی پادریوں نے یہ کام ضرور کیا تھا کہ جب چاہا، مسیحیت کی من مانی تعبیر کردی ،اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ وہاں خدا کی اصل ہدایت محفوظ تھی، نہ وہ زبان محفوظ تھی کہ جس میں خدا کی ہدایت نازل ہوئی تھی۔ اور نہ کوئی زندہ روایت موجود تھی، جو اس ہدایت کی عملی شکل پیش کرتی ہو۔ لیکن جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے تو ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔

یہاں خدا کی کتاب اور اس کےرسولؐ کی سنت پوری طرح محفوظ ہیں۔ ان میں ’سرِمُو‘ بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قرآن اور سنت کی زبان ایک زندہ زبان ہے، جس کے الفاظ و معانی متعین ہیں اور من مانی تاویلات کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اسلامی لٹریچر کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے، جس میں ہرہردور کا فکری وعملی سرمایہ محفوظ ہے۔ ایک معاشرہ اس نظریے پر قائم ہے اور پورے تسلسل کے ساتھ گذشتہ چودہ سو سالوں سے وہ اس پر عامل ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں’تعبیر کے فتنے‘ کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اپنے تمام جہل، کج روی، کم علمی اورکوتاہ عملی کے باوجود آج بھی مسلمانوں کا بچہ بچہ بتاسکتا ہے کہ نماز اور روزہ فرض ہیں۔ قربانی ضروری ہے، زکوٰۃ لازم ہے، بے حیائی منع اور حجاب و ستر پوشی لازم ہے ،سود حرام ہے، مجسمہ سازی ناجائز ہے، موسیقی ناپسندیدہ ہے۔ اسلام کوئی ’کتابِ گم شدہ‘ نہیں کہ آپ اپنی پٹاری سے جو چاہیں نکال لیں اور اسلام کے نام پر پیش کردیں۔ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے اورہر تحریف کا پردہ پہلے قدم پر ہی چاک ہوجائے گا، اور ان شاء اللہ ہماری سوسائٹی میں ’فتنۂ تعبیر‘ کے کھوٹے سکّے نہ چل سکیں گے۔

پھراپنی تمام کمزوریوں کے باوجود فتنۂ تعبیرو تحریف کو ملّت اسلامیہ کے ضمیر نے کبھی قبول نہیں کیا ۔ آج سے پہلے ’معتزلہ‘ نے یہی کام کیا تھا، لیکن ملت اسلامیہ نے اس گروہ کو اس طرح فراموش کردیا کہ دنیا اس کے نام تک کو بھول گئی۔سرسید احمد خاں مرحوم کی قومی خدمات اپنی جگہ ، لیکن انھوں نے بے جا طور پر دینی اُمور اور افکار میں تحریف یا من مانی تعبیر کی کوشش کی تھی مگر ملّت میں ایک دن کے لیے بھی ان کے مذہبی نظریات جگہ نہ بناسکے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ مسلم سوسائٹی میں بہت سی خرابیاں اور کمزوریاں رہی ہیں، اور آج بھی موجود ہیں، لیکن آج تک اس نے اپنے آئیڈیل کونہیں بدلا اور نہ کسی کو بدلنے دیاہے۔  یہی وجہ ہےکہ فتنۂ تجدد نے بارہاسر اُٹھایا لیکن ہمیشہ ناکام رہا۔ کبھی یہ ’اعتزال‘ کی شکل میں رونما ہوا، کبھی ’باطنیت‘ کے رُوپ میں،کبھی دین اکبر کی صورت میں نمودار ہوا تو کبھی نیچریت کے پیکر میں۔ کبھی پہلوی ازم بنا، کبھی کمال ازم اور انکارِ سنت و انکارِ ختم نبوت کے رُوپ میں۔ لیکن ہمیشہ ایمان، دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت سے ایسے فتنوں کا سر کچل دیا گیا۔ آج بھی ملت کاضمیر ایسی کسی حرکت کو قبول نہیں کرسکتا۔

پروفیسر ولفریڈکینٹ ول اسمتھ نے اس رجحان پر ’فکرمندی‘ کااظہار کرتے ہوئے لکھا:

یہ ایک ہمہ گیر حقیقت ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں اسلام میں لبرلزم کا رجحان بڑی نمایاں حد تک کم ہوگیا ہے بلکہ بعض علاقوں کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بالکل ہی غائب ہوگیا ہے۔

استحکام کے بجائے انتشار کا خدشہ

جو کچھ ہم نے اُوپر عرض کیا اس کےعلاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس نوعیت کی تعبیرات اور تشریحات کبھی مسلمانوں میں جذبۂ عمل اور ذوقِ قربانی پیدا نہیں کرسکتیں۔ اگر آدمی اخلاص کے ساتھ اسلام کاہوجائے تو بڑے سے بڑاکارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ اور اگر اخلاص کے ساتھ بالکل مغرب کا ہوجائے تو بھی کم از کم مغربیت کے اتباع میں تو ممکن ہے کچھ جوش دکھا سکتا ہے، لیکن آدھے تیتر اور آدھے بٹیروالی پالیسی کبھی بھی عملاً کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے نتیجے میں زندگی سے فرار تورُونما ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیبی روایت سے انحراف بھی واقع ہوسکتا ہے، لیکن زندگی کی تعمیروتشکیل کا جذبہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اوراگر ہم خدانخواستہ کسی ایسے فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھر یہ احمقانہ رویہ پوری قوم کوجذبۂ عمل سے محروم کر دے گا۔

اسی طرح ہمارے ہاں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے یا پروان چڑھائے جانے والے متجددین کی ان کوششوں سے قوم میں فکری ژولیدگی پیدا ہورہی ہے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کی اب تک کی روایات کو منہدم کررہے ہیں،جس سے ایک طرف تو ’جدید‘ اور ’قدیم‘ کی کش مکش پیدا ہورہی ہے اور دوسری طرف قوم میں ذہنی انتشار فروغ پارہا ہے اور جس قوم میں ذہنی انتشار ہو، وہ کبھی اچھادفترِ عمل پیش نہیں کرسکتی۔

ماضی سے اندھی بہری بغاوت کا رجحان خود اپنے اندر بڑے مفسدات رکھتا ہے۔ہماری ترقی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اپنے تاریخی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اگر ہم نے وہ سب کچھ دریابرد کرنے کی کوشش کی، جو آج تک مسلمانوں نے حاصل کیا ہے تو ہماری قوتیں ایک اندرونی کش مکش کی نذر ہوجائیں گی اورمجموعی طور پر قوم کوکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ’ تجدد‘ کا فتنہ ملک کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے اور اس کی ہرکوشش نظریۂ پاکستان کی بنیادوں پر ایک ضربِ کاری ہے۔

تعمیرِ ملّت کی اساس

ہماری نگاہ میں مذکورہ بالا دونوں راستے گمراہی کے راستے ہیں۔ سیدھی راہ یہ ہے کہ اسلامی آئیڈیالوجی پر اس کے اصل رنگ میںعمل ہو اور آزادی کے ہرپہلو پر اس کی حکمرانی قائم ہو۔

اس کےلیے ایسا پروگرام بنانا ہوگا، جو ایک طرف فرد کی اصلاح کرے اور اس میں حقیقی ایمان پیدا کرے۔ اللہ کے خوف سے اس کے دل کو معمورکرے اورعمل صالح کی راہ پر اسے گامزن کردے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تشکیل نو کا کام انجام دے۔جب تک ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کام نہ ہوگا، نظریۂ پاکستان کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نہیں کیا جاسکے گا۔یہ کام کسی ایک فرد، ادارے، جماعت یا صرف حکومت کے کرنے کا نہیں ہے۔ یہ سب کا کام ہے اور پوری اُمت کی ذمہ داری ہے:

کُلُکُمْ رَاعٍ  وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ  عَنْ رَعِیَّتِہٖ [صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المرأۃ، راعیۃ فی بیت زوجھا، حدیث:۴۹۰۸] تم میں سے سب کے سب نگران ہیں اور تم میں سے ہرایک سے اپنی اپنی رعیت کے بارےمیں سوال کیا جائے گا۔

یہ ذمہ داری ہرفرد کی ہے ، ہر ادارے اور جماعت کی ہے اور سب سے بڑھ کر حکومت کی ہے کہ وہ زندگی کے ہرشعبے میں اس نظریے کو قائم کرے۔ ہر ایک کو سب سے پہلے، اسے اپنے اُوپر قائم کرنا چاہیے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اسے دوسروں پر اورپورے نظامِ زندگی پر نافذ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے:

اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔

اصلاح اور تعمیرِ نو کی ذمہ داری، پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہرفرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس نظریے کا پرچار کرے اور جس دائرے میں بھی اسے اختیار حاصل ہے، اس میں اسے قائم کرے۔ ہرادارے اور جماعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی علَم بردار بنے اور اپنے دائرۂ اختیار میں اسے نافذکرے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی داعی بنے اور ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، قانونی اور بین الاقوامی پالیسی کو اس کی روشنی میں مرتب کرے، تاکہ یہ نظریہ زندگی کے ہرشعبے میں جلوہ گر ہو اور اس طرح پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہوسکے۔

ملک کو درپیش مسائل

پاکستان کے نظریاتی پہلو پر زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روز مرہ زندگی اور ریاست میں پیدا ہونے والے سماجی و معاشی چیلنجوں کا جواب نہ دیا جائے۔ آج وطن عزیز درج ذیل حوالوں سے دہکتے انگاروں کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:

       ۱-    پاکستان عمومی طور پر شدید نوعیت کی معاشی مشکلات، تضادات اور تصادمات کی زد میں ہے۔ جس کا بنیادی سبب معاشی بدانتظامی، سودی معیشت پر اصرار اور ناپائدار معاشی پالیسیاں ہیں۔

       ۲-    قومی بجٹ اور ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کے ساتھ سالانہ عہدوپیمان (بجٹ) کے بجائے، عملاً سال کے دوران چار، پانچ بجٹ لانے کی شرانگیزی ہے۔ پہلے ہریکم تاریخ کو تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا اور اب ہرماہ کی یکم اور ۱۵تاریخ کو بھی قیمتوں میں رد و بدل کرکے سارے معاشی منظرنامے کو بدترین صورتِ حال سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر فرد، کارپوریشن اور ادارہ معاشی منصوبہ تیار کرنے کی صلاحیت اور اختیار کھوبیٹھا ہے۔ ایسی معاشی بدانتظامی کا یہ اثر ہے کہ افراطِ زر، مہنگائی اور حد سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے اس ریاستی اداراتی بے راہ روی کے منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے نہ سیاسی پارٹیاں تیار ہیں اور نہ دُور دُور تک اعلیٰ تعلیمی ادارے، دانش وَر اور تجزیہ کار بند باندھنے کے لیے آمادہ کار ہیں۔

       ۳-    اس معاشی اور طبقاتی فساد نے سماجی فاصلے گہرے کر دیے ہیں۔ شہریوں میں جسمانی بیماریاں تو ایک طرف رہیں، ذہنی بیماریوں کا نہ ختم ہونے والا جنگل بڑھتا جارہا ہے۔ ہرسال خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات، طلاق اور خلع کی تعداد میں ناقابلِ تصور اضافے کا رجحان، بات بات پر لوگوں کا توڑ پھوڑ پر آمادہ ہو جانا (جس کی ایک مثال تو وکیلوں کی جانب سے معزز ججوں پر حملے، پولیس اور ڈاکٹروں پر تشدد وغیرہ کی صورت میں بھی سامنے آتی رہتی ہے) اور اس نوعیت کے مریضانہ رویے، جنگل کے معاشرے کی یاد دلاتے ہیں۔

       ۴-    پولیس کے نظام کی بدانتظامی اور عدالتی عمل کے غیرمؤثر ہونے کی کیفیت نے لوگوں کو عدم تحفظ، خوف اور مایوسی سے دوچار کیا ہے۔

       ۵-    زراعت کے پیشے میں سہولیات کی فراہمی کے نظام کی بدنظمی، اور زراعت کے بارے میں ریاستی مشینری کی کم فہمی اور کسانوں کے معاملات کو سمجھنے اور ان کے بالکل جائز مسائل حل کرنے سے لاتعلقی نے زراعت و خوراک جیسی بنیادی صنعت کو شدید دھچکا پہنچایاہے۔

       ۶-    صنعت و حرفت اور درآمد و برآمد تجارت کے معاملات میں غیر متوازن رویوں نے لوگوں کو سرمایہ کاری سے ہٹاکر، بیرونِ ملک جائدادوں کی خریداری کی طرف دھکیل دیا ہے، یا پھر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ دکھائی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بے روزگاری کو فروغ ملا۔ اس صورتِ حال میں جرائم میں اضافہ فطری بات ہے۔

       ۷-    دوسری طرف کثیر قومی کمپنیوں کے لیے سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے کا اور انھیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دینے کا رویہ ظاہر کرتاہے کہ اہلِ حل وعقد (نوکرشاہی اور سیاسی قیادت) کے گٹھ جوڑ کو ملک اور ملک کے شہریوں کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں اور ادویات ساز کمپنیوں کی مثالیں اس معاملے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

       ۸-    اور سب سے زیادہ لرزا دینے والا معاملہ تعلیم کی فروخت سے منسوب کاروبار ہے۔ بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی، لیکن تعلیمی تاجر دونوں ہاتھوں سے، پسے ہوئے غریب شہریوں کو لُوٹ رہے ہیں۔ درس گاہیں علم کی شمع روشن کرنے کے بجائے فیشن پریڈ کے مراکز میں تبدیل ہورہی ہیں۔ روز افزوں اخلاقی بے راہ روی الگ مسئلہ ہے، اور دی جانے والی تعلیم کے معیار کو جانچنے کا سوال اس سے بھی زیادہ الم ناک کیفیت سامنے لاتا ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے نام پر قومی تعلیمی پالیسی میں غیرمنطقی اور متصادم تبدیلیوں کا ڈراما مضحکہ خیز منظر دکھاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی شعبہ زبوں حالی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ سرکاری شعبۂ تعلیم کی اس بدانتظامی نے نجی شعبے کو من مانی کرنے کا کھلا لائسنس عطا کر دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موضوع کو کوئی زیربحث لاتا ہی نہیں۔ نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا، نہ سیاست دان اور نہ اخبارات۔

       ۹-    مختلف آئینی اداروں کا ایک دوسرے کے معاملات اور منصبی ذمہ داریوں میں بے جا مداخلت کرنا بلکہ زور زبردستی کرنا، ایسا بدنُما طرزِ عمل ہے، جس نے ریاستی انتظامی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

       ۱۰-  معاشرے کی تعمیر حددرجہ بنیادی فریضہ ہے۔ عصرحاضر نے معاشرتی تعمیر کا کم و بیش خاصا حصہ ذرائع ابلاغ کے سپرد کردیا ہے، جو دل، دماغ، مشاہدے اور تعلقات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کے بیش تر ذرائع ابلاغ، اس حوالے سے مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ مایوسی، تصادم، مبالغہ، گاہے تاریخی عوامل کی جھوٹی منظرکشی اور اخلاقی قدروں کی پامالی کی بہت سی مثالیں ہمار ےذرائع ابلاغ پیش کر رہے ہیں۔

       ۱۱-  سب سے نازک معاملہ یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر پر قومی یکسوئی کو متاثر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں، جن سے پوری جدوجہد کو شدیدصدمہ پہنچتا ہے۔ پھر    محکمہ خار جہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے قرار واقعی توجہ نہ دینا، مسئلۂ کشمیر کی ماہیت پر شدید منفی اثرڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔

نظریاتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، اُوپر مذکورہ جن گیارہ نکات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، انھیں درست کرنا کسی بین الاقوامی ادارے کی نہیں خود ہمارے اہل حل وعقد کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے بااثر لوگ یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کرنے سے حددرجہ غافل دکھائی دیتے ہیں۔ اگر انھوں نے یوں ہی فرار کی راہ اختیار کیے رکھی تو ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچے گا اور آیندہ نسلیں اُنھیں معاف نہیں کریں گی۔

ایک امریکی یونی ورسٹی کے ایک ممتاز پروفیسر نے خطے میں مذہبی فکر اور اس کے اثرات اور جوابی اثرات کا مطالعہ کرنے کی خاطر برعظیم پاک وہند کاد ورہ کیا۔فطری طور پر اسے اقبال کے متعلق جاننے کے لیے خاصا وقت صرف کرنا پڑا۔اس سفر کے دوران موصوف نے راقم کے ساتھ مفصل گفتگوکی۔ اقبال کے متعلق اس پروفیسر کاایک بنیادی اعتراض یہ تھا کہ ’’اقبال حقیقت پسند نہیں تھے۔ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی کی حیثیت سے،انھوں نے قیاس کی طرف بہت زیادہ توجہ کی، اور ’’جس معاشرے کا اقبال نے تصور کیاتھا،وہ انسانوں کے بجاے ولیوں کا معاشرہ تھا‘‘۔ یہ ایک امریکی پروفیسر ہی نہیں ہے،بلکہ اکثر مغربی مفکر، اقبال کے بارے میں اسی طرح سوچتے ہیں۔ ہم یہاں ان لوگوں کے نظریات پر نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے، جو اس اعتراض کے علَم بردار ہیں۔

اقبال کیاچاہتے تھے؟

اس سے پہلے کہ مذکورہ اعتراض کو پرکھیں، یہ بہتر ہو گا کہ ہم یہ امر واضح کر لیں کہ دراصل اقبال چاہتے کیا تھے؟ اور مسلمانوں کا اعتماد کس پر تھا؟___ اقبال بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانیوں میں سرفہرست تھے۔انھوںنے مسلم تاریخ کے عصری دور کاناقدانہ مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے: ’’مسلمان جوں جوں اسلام سے دُور ہوتے گئے، تو وہ بتدریج زوال پذیرہوتے گئے۔ اب ان کا احیا صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام کے اصولوںکے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ازسرنو تشکیل کریں‘‘۔ اقبال نے مغرب کی اندھادھند تقلید کا نظریہ مسترد کردیا اور اُمیددلائی کہ: ’’مسلمان اسلامی نشاتِ ثانیہ لانے کے ذریعے مغرب کی استعماری قوتوں کو بھی مات دے سکتے ہیں، جو انسانیت کی زندگی میں ایک نیا باب کھولنے کا باعث ہوسکتی ہے‘‘۔وہ مغرب کے روحانی بحران پر بہت زیادہ مضطرب تھے اور اس کا حل انھیں صرف اسلامی احیا ہی کی صورت میں نظر آتا تھا۔ان کا تجویزکردہ حل درج ذیل ہے:

  • گویا عصرِحاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اُٹھا سکے گا، جو علومِ جدید (سائنس) کے نشوونما نے اس پر ڈال رکھی ہے، تو صرف مذہب کی بدولت۔ یوں ہی اس کے اندر ایمان اور یقین کی اس کیفیت کا احیا ہوگا، جس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک شخصیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ اس لیے کہ مذہب، یعنی جہاں تک مذہب کے مدارجِ عالیہ کا تعلق ہے، نہ تو محض عقیدہ ہے، نہ کلیسا، نہ رسوم و ظواہر۔ لہٰذا، جب تک انسان کو اپنے آغاز اور انجام، یا دوسرے لفظوں میں اپنی ابتدا اور انتہا کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی، وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آسکتا۔ جس میں باہم دگر مقابلے اور مسابقت نے ایک بڑی غیرانسانی شکل اختیار کر رکھی ہے، نہ اس تہذیب و تمدن پر، جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہوچکی ہے۔(محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam، [پیش لفظ: جاوید مجید، مرتب:  ایم سعید شیخ] اسٹن فرڈ یونی ورسٹی پریس، امریکا، بہ اشتراک اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۲۰۱۲ء، ص ۱۴۹)

اس لیے انھوںنے انسانی معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پر اَزسرنوتشکیل اور باطل پر حق اور بُرائی پر نیکی کے غلبے کی کوشش کی۔یہ محمد اقبال کے اثرات ہی ہیں کہ اسلام کی مزاحتمی قوتیں [اور تحریکیں] فرد کی اصلاح، سماجی تنظیم اور ریاست کی اصلاح کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ لالچ اور طاقت ، سماجی عداوت اور معاشی استحصال کے بجاے اخلاقی اقدار ہی برتر اور غالب ہوں، نیز انفرادی اور اجتماعی زندگی کو محبت،سچائی،انسانی اخوت،سماجی ہم آہنگی اور سیاسی تعاون کی بنیادوں پر منظم کیا جائے۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آنکھ جھپکنے میں حالات تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اصلاح بتدریج اور یقینی طور پر واقع ہوگی۔یہ ایک انتہائی منطقی اور اخلاقی نظریہ ہے اور اس کے داعی، امید، حوصلے اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں۔
اب، وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ایک خیالی جنت ہے، جو ناممکن امراور لاحاصل امید ہے، درحقیقت وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان بُرائی کا مظہر ہےاور اس میں معقولیت نہیں ہے۔ ان کاالزام ہے کہ انسان کبھی استدلال کی حقیقی روشنی میں نہ عمل کر سکتا ہے اور نہ کرے گا،اور یہ کہ انسانی فطرت میں مکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اور اس کے غیراخلاقی جذبات انسان کی فطرتِ سلیم پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ وہ شائستہ اور اخلاقی اقدار کے مطابق اپنی زندگی کو منظم نہیں کر سکتا‘‘۔ وہ انسان، اس کے اخلاقی طرزِعمل اور صلاحیت،اس کی تخلیقی صلاحیتوں،استدلال کرنے کی اس کی قوتوں اور اس کی نیک فطرت پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ ان کا مایوسی زدہ طرزِعمل ہی ہے جو انھیں دائمی قنوطیت کا مجسم نمونہ بنا دیتا ہے۔اور بدقسمتی سے متعدد مغربی مفکر مایوسی کے اسی گرداب کا شکار ہیں۔

تاریخی پس منظر

اس طرزِ عمل اور رویّے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔جب یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا آغاز ہوا، تو دراصل یہ انسان کی صلاحیتوں پر ایک نئے اعتماد کا اظہار تھا۔ مگر پھر جدید انسان خدا کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا اور اس نے انسانی اور الوہی طاقتوں کا بے جا دعویٰ کر دیا۔ایک نئے سماجی فلسفے، انسان دوستی(مذہب انسانیت) کے فلسفے نے جنم لیا، جس کے حسب ذیل تین اہم اجزاے ترکیبی یہ ہیں:
    ۱-    ہر اس چیز کی پذیرائی، جو انسان اور فطرت کے کام میں اچھی اور دل کش ہے۔
    ۲-    علم(سائنس) کی قوتوں پرکامل بھروسا اور یہ اعتماد کہ محض تعلیم ہی ایک نیا اور کامل ضابطۂ حیات تشکیل دے سکتی ہے؛ اور
    ۳-    ترقی کی ناگزیریت ۔
انسان دوستی سے یہ مراد لی گئی کہ دنیا اور اس کے تمام مکین نسل درنسل بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے اور بالآخر بین الاقوامی انصاف کی بنیاد پر ایک کامل معاشرہ تشکیل دے لیں گے۔ فریڈرک ہیگل [م: ۱۸۳۱ء]کا Dialectical Idealism[جدلیاتی خیال اندیشی]، کارل مارکس [م:۱۸۸۳ء] کی تاریخی مادیت پرستی، چارلس ڈارون [م:۱۸۸۲ء]اور ہربرٹ سپنسر [م:۱۹۰۳ء] کے ارتقائی نظریات___ ان سب نے مل کر انسانیت کے مسلسل ترقی کے اعتقاد کو تقویت بخشی کہ جس طرح ہربرٹ سپنسر نے کھلے عام اعلان کیا کہ:’’ترقی محض کوئی اتفاق نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ یہ یقینی ہے کہ انسان کو لازمی طور پر پورا انسان ہونا چاہیے‘‘۔
مؤرخ ایچ جی ویلز [م:۱۹۴۶ء]نے یوں للکارا ہے:’’انسان زمان و مکان میں اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے پیدا ہوئے کہ جیسے وہ انسان ہی کی عظمت کو بیدا رکرنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔
اسی جذبے کے تحت مارکیس کنڈورسٹ [م: ۱۷۹۴ء] نے لکھا:’’جب تک یہ کرۂ ارض اس نظام شمسی میں قائم ہے،انسان کبھی فنا نہیں ہوگا۔ترقی،علم طب کا ایک فن ہے جو زندگی میں اس قدر اضافہ کر دے گا کہ موت کااصول بھی مستثنیٰ ہو جائے گا‘‘۔
اور ولیم ورڈزورتھ [م:۱۸۵۰ء]نے رجائیت پسندانہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا:’’کیمیا کی اپنی کتابیں نذرِ آتش کر دو اور ضرورت محسوس ہونے پر ولیم گوڈون [م: ۱۸۳۶ء]کا مطالعہ کرو‘‘۔
ترقی کی یہ ناگزیریت، جدید انسان کے اعتقاد کا ایک جزوبن گئی لیکن تاریخ نے سفر کرتے ہوئے ان بھڑکیلے تخیلات کی پیروی نہیں کی۔انسان پُراعتماد تھا کہ وہ کرۂ ارض پر ایک جنت تخلیق کررہا ہے اور اس نے اپنی تدبیروچال سے خدا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؛ لیکن کوئی ایسی چیز تھی جو اس کی بے خبر آنکھوں کے رُوبرو منکشف ہوئی [لیکن پھر اُسے اچانک احساس ہوا کہ] اس کی ناکام تہذیب وثقافت، جنگیں، انسانوں کا اجتماعی قتل عام،کسادبازاری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، بھوکے اور ناکافی غذا کے حامل انسانوں کی آہ وبکا،سماجی تضاد،طبقاتی جنگ،جرم اور عدم رواداری کی بڑھتی ہوئی لہریں___ یہ تمام عناصر اس کی خودکار ترقی کی خیالی جنت کی ہوا کواڑا کر لے گئے۔ اس کا اعتماد منتشر ہو گیا،اس کا اعتقاد تحلیل ہو گیا اور سراب اور فریب کا ایک عمومی احساس چھاگیا۔ مایوسی اور محرومی کا احساس آج  پہلے سے کہیں زیادہ اُفق پر غالب ہے۔
اس موقف کی تائید کے لیے ہم یہاں مغرب کے جدید فکری رجحانا ت کی چند جھلکیاں پیش کررہے ہیں۔جن سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ مغربی نقاد جو کچھ کہتے ہیں،وہ کیوں کہتے ہیں:

جدید رجحانات

لیوس ممفورڈ [م:۱۹۹۰ء] عصرِحاضر کا ایک معروف مؤرخ ہے۔وہ کہتا ہے:’’آج کا انسان تشدد کے بھیانک دور میں زندگی گزار رہا ہے۔اب،انسانی تاریخ میں پہلی بار زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں رہی کہ جہاں ایک معصوم اور بے گناہ شخص پناہ حاصل کر سکے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جوہماری بے خبر آنکھوں کے رُوبرو منکشف ہوئی ہے۔بذات خود ہماری اپنی تہذیب وثقافت کی تباہی۔ اگر خام تہذیب وثقافت تباہ ہو سکتی ہے، تو پھر یہ عمل بتدریج واقع ہوناچاہیے کیونکہ یہ زندہ رہنے کے لیے اچھا نہیں‘‘۔
پروفیسر لزی سوسن سٹیبنگ [م: ۱۹۴۳ء] نے  Ideals and Illusions  [۱۹۴۸ء] میں کہا ہے: ’’میرے وطن [برطانیہ] کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میں اس قدر انسان، مرد، عورت اور بچے، تکلیف، دلی صدمہ، روحانی تلخی اور غیرضروری موت میں مبتلا نہیں ہوئے‘‘۔
ڈاکٹرآرنلڈجے ٹوائن بی [م:۱۹۷۵ء] نے جدید انسان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بیسویں صدی کی تہذیب وثقافت پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر انسان نے اپناہدف محض دنیاوی مقاصد کوبنائے رکھا، تو مجھے اُمید نہیںکہ وہ ایک اچھا اخلاقی فیصلہ کر سکے گا‘‘۔
علمِ تاریخ کا ایک نامور مؤرخ البرٹ شیواٹزر[م:۱۹۶۵ء]  نے یہ اعلان کیا ہے :’’ ہم تاریکی کے عہد میں ایک تاریک سفر میں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔
جان جوزف سینڈرز [م:۱۹۷۲ء]نے انتہائی معقول انداز میں اس صورتِ حال کا مختصر احوال بیان کیا ہے: ’’اٹلی میں تہذیب وثفافت کی ازسرنو بیداری کو اب تک پانچ صدیاں گزر چکی ہیں، جسے ہم نشاتِ ثانیہ کے نام سے جانتے ہیں، جو مغربی یورپی تاریخ کے ایک انتہائی شان دار اور مفید دور میں واقع ہوئی۔ آج، سائنس، فکر، فن اور ادب میں عالم گیر مہارت کو جوہمارے براعظم نے انیسویں صدی میں حاصل کی، اندر سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ لامحدود اور بلارکاوٹ ترقی کا اعتقاد معدوم ہو چکا ہے، عالمی جنگ نے پاے دار امن اور خوش حالی کی امیدیں ملیامیٹ کر دی ہیں،  قومی نفرتیں اور مسابقتیں،کم ہونے کی بجاے کہیں زیادہ ہو گئی ہیں، جب کہ ’مغرب کے زوال‘کی مایوس کن پیش گوئیاں، چند خبطی فلسفیوں کے تخیلات کی نسبت کہیں زیادہ پُراثر ہیں‘‘۔

اپنی فراست پر مبنی فلسفیوں کا موقف

بے چینی اور محرومی ومایوسی کا یہ ایک عمومی احساس ہے، جس نے عین اسی طرح جدید دنیا کو بھر دیا ہے، جس طرح پانی،سمندروں کو بھر دیتا ہے۔ انسانی و تہذیبی ترقی کے علَم بردار اور نغمے الاپتے  فلسفی، اب مایوسی کے فلسفی بن چکے ہیں۔ نکولس برڈیف [م:۱۹۴۸ء]ہمارے عہد کا ایک عظیم فلسفی ہے۔ وہ کہتا ہے:’’آفاقی تاریخ کے ہاتھ ایک خطرناک لمحے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، ایک دھندلکے کی طرف، حالاں کہ اس وقت تو ہمیں اپنے چراغ روشن اور رات کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔ وہ جدید دور کی میکانکیت کو ’انسانی تشخص کا انتشار‘اور انسان کا بکھرائو قرار دیتا ہے۔
 ڈنمارک کے مشہور فلسفی سورین کرکے گارڈ [م:۱۸۵۵ء] نے انتہائی ہیجان کے عالم میں کہا تھا:’’جب میں اس [یعنی مسرت اور سکون]کی خواہش کرتا ہوں،تو درحقیقت میں اپنے منہ پرتھوکتا ہوںــــ‘‘۔
حتیٰ کہ الفرڈ این وہایٹ ہیڈ [م:۱۹۴۷ء] نے Adventures of Ideas میں اعلان کیا: ’’انیسویں صدی،تہذیبی ترقی کا ایک عہد تھی لیکن مجموعی طور پر انحطاط کی صدی تھی۔ زندگی کی اقدار بہ تدریج ختم ہو رہی ہیں۔اب محض تہذیب کی چمک ہی باقی رہ گئی ہے، جب کہ اس کی اصل موجود نہیں اور اس کی حقیقت معدوم ہوچکی ہے‘‘۔
خوش حالی اور بحران کے مستقل ادوار اورترقی کے دوران غربت کی موجودگی کی استہزائی صورت نے ماہرینِ معیشت کوپریشان کر دیا ہے۔ماہرینِ نفسیات،اعصابی خلل کے حامل انسان کے حالات پر متفکر ہیں، جب کہ مضطرب نفسیات کا مطالعہ نفسیات کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔سگمنڈفرائڈ [م:۱۹۳۹ء] کے نظریات مایوسی کے عہد کی پیداوار ہیں۔ ڈاکٹر کارل یونگ [م:۱۹۶۱ء] کی کتاب Modern Man in Search of a Soul پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جدید ماہر نفسیات کو کون سی چیز مضطرب کرتی ہے۔جدید ادب بھی مایوس آدمی اور اس کی پژمردہ خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
مشہور امریکی نژاد دانش ور اور ادیب ٹی ایس ایلٹ [م:۱۹۶۵ء] نے لکھا ہے:

ہمارا تمام علم ہمیں ہماری جہالت کے قریب تر لے آتا ہے، 
اور ہماری تمام ترجہالت ہمیں موت کے قریب تر لے آتی ہے۔
لیکن موت سے قربت،خدا کی قربت نہیں۔
زندگی کہاں ہے، جسے ہم اپنی معاشرت میں گنوا چکے ہیں؟
فراست کہاںہے،ہم اسے علم میں کھو چکے ہیں؟
علم کہاں ہے،ہم اسے معلومات میں گم کر چکے ہیں؟
بیس صدیوں میں آسمانوں کا سلسلہ
ہمیں خدا سے مزید دور اور دھول سے نزدیک تر کر سکتا ہے۔
اور یہ کہ:
ہم کھوکھلے انسان ہیں،ہم میں بھس بھرا ہوا ہے 
اور باہم مل کر اپنے وہ سرجھکاتے ہیں جو گھاس پھوس سے پُرہیں۔
افسوس!ہمار ی خشک آوازیں،جب ہم سرگوشی کریں،خاموش اوربے معنی ہوتی ہیں
اور جیسے خالی گلاس میں ہوا ہوتی ہے
ہمارے خشک تہ خانے میں
چوہے ہمارے ٹوٹے ہوئے گلاس پر پھدکتے پھرتے ہیں
بے صورت،بے رنگ سایے، مفلوج،بے حس وحرکت
ہمیں یہ سب نظر آئے
ہم نے اپنی آنکھوںسے دوسری سلطنت کی موت دیکھی
ہمیں یاد رکھو ___اگر یقینی رکھ سکتے ہو___اگر ہم معدوم نہیں ہوئے
متشدد روحیںہیں، اور کھوکھلے انسان،بھس بھرے انسان۔
ڈبلیو ایچ آڈن [م:۱۹۷۳ء]نے ، یوں لگتا ہے کہ کراہتے ہوئے بیان کیا ہے:
مجھے یہ ثابت کرنے کے لیے بہت دور آنا پڑا،
کہ نہ زمین ہے،نہ پانی ہے اورنہ محبت ہے۔
میںیہاں ہوں،تم بھی یہیں ہو،

لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ہم کیا کرنے کو ہیں؟

الڈوس ہکسلے [م:۱۹۶۳ء]کے ادبی شاہکارApe and EssenceاورTime  Must Have a Stop،مایوسی کی بھرپور نقشہ گری کرتے ہیں۔جیمزجوائس [م:۱۹۴۱ء] نے بھی ایک مایوس انسان کو ادبی اسلوب میں پیش کیا ہے، اور ٹی ایف پوئز [م:۱۹۵۳ء]نے بھی اسی دھن پر نغمہ سرائی کی ہے۔ اس سے پہلے، فریڈرک نطشے [م:۱۹۰۰ء] اور دوستووسکی [م:۱۸۸۱ء] مایوس آدمی کے دوعظیم داعی تھے۔ دوستووسکی کی The Possessed، (خاص طور پر Kirilov کا کردار)، An Author's Diary اور Pages from Journal of an Author  اپنے عہد کی مایوسی کی واضح عکاس ہیں۔ معروف فرانسیسی ادیب، البرٹ کیمس [م:۱۹۶۰ء] اس نئے رجحان کا بہترین نمایندہ ہے۔ اس کا ناول The Outsider مایوسی کے ادب کا ایک شاہکار بن چکا ہے۔اس کے مرکزی خیالات،موت اور خودکشی ہیں۔انگریزی کے Angry Youngmenاور عصری ادب بھی اسی رجحان کی نمایندگی کرتا ہے۔کولن ولسن،انگریزی،فرانسیسی اور جرمن ادب (The Outsider) کے ماہرانہ جائزے میں یہ دکھاتا ہے کہ جدید ناول کا ہیرو ایک ایسا شخص ہے، جو زندگی،ا قدار اور خوداپنی ذات سے لاپروا ہوتا ہے۔وہ خود کو اپنے معاشرے میں ایک اجنبی اورایک بدیسی محسوس کرتا ہے۔
ایچ جی ویلز نے، پہلی جنگ عظیم [۱۸-۱۹۱۴ء] سے پہلے انسانیت کےمستقبل کو بڑے خوش رنگ انداز میں پیش کیا تھا، مگر اپنی زندگی کے آخری ایام میں مایوسی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے تصور کا چراغ Fate  of Homo Sapiens  میں اس وقت گُل ہو گیا، اور اس نے یہ لکھا: ’’میری ہر قسم کی کوشش کے باوجود کہ میں دلیرانہ طور پر رجائیت پسند نظر آئوں، میں سمجھتا ہوں کہ کائنات اس(انسان )سے اکتا چکی ہے،اس پر مشکلات کا بوجھ لاد رہی ہے، اور میں دیکھ رہا ہوں کہ انسان کم از کم ذہانت اور زیادہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ انحطاط،مصیبت اور موت کی طرف رواں ہے‘‘۔ اور بنی نوع انسان کے لیے اس کا آخری وصیت نامہ اس کی دل سوز اور جذباتی کتاب Mind at the End of Its Tether  [۱۹۴۵ء]ہے، جس میں اس نے کہا ہے:’’اس مصیبت اور پریشانی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں،اب یہی انجام ہے‘‘۔

قنوطیت و مایوسی کیوں؟

اب، یہ ایک عقلی او رثقافتی تناظر ہے جس میں ہمارا جدید نقاد رہتا اور سانس لیتا ہے۔ وہ یہ دھچکا برداشت کرنے پرمجبور ہے کہ انسان پر اس کا اعتماد منتشر ہو چکا ہے۔وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ انسان نیک بن سکتا ہے اور معاشرے کو اخلاقی اقدار کی بنیاد پر منظم کیا جا سکتا ہے۔اس کی یادداشت اس قدر تلخ ہے کہ ایک بہتر معاشرے کا تصور اسے پریشان اور مضطرب کردیتا ہے اور وہ تعجب کے عالم میں یوں آہ و بکا کرتا ہے:’’تم تو ولیوں کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہو!‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں انسان اور خدا پر بھروسا اور یقین ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آفت جس نے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،اس کی اپنی پیدا کردہ ہے۔جدید انسان کی اُٹھان اور اس کا آغاز مذہب سے بغاوت اور محض عقل و تجربے پر اندھے بھروسے سے ہوا، لیکن اس کا انجام مایوسی پر ۔اگر وہ کائنات میں اپنی درست حیثیت کا ادراک کرلیتا، وہ یوں جوکھم میں نہ پڑتا اور نہ تباہ ہی ہوتا۔ یہ مسئلے کا بنیادی نکتہ ہے۔
اقبال عصرحاضر کے انسان کی نشاتِ ثانیہ کے علَم بردار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسان منطقی طور پر اس قابل ہے کہ بھوسے سے کچھ تلاش کر سکے اور ایک نئی اور خوش حال تہذیب کی پرداخت کرسکے۔ہم دوسروں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم پُرعزم ہیں کہ مطلوب نشاتِ ثانیہ کے حصول کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کریں۔اقبال نے اپنے معرکہ آرا  فکری خطبات میں اس تمام صورت حال کا مختصر اور مؤثر الفاظ میں یوں احاطہ کیا ہے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید یورپ نے اسی نہج پر متعدد عینی نظامات قائم کیے، لیکن تجربہ کہتا ہے کہ جس حق و صداقت کا انکشاف عقلِ محض کی وساطت سے ہو، اس سے ایمان و یقین میں وہ حرارت پیدا نہیں ہوتی، جو وحی و تنزیل کی بدولت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلِ محض نے انسان کو بہت کم متاثر کیا۔ برعکس اس کے، مذہب کو دیکھیے تو اس نے افراد میں اضافۂ مراتب کے ساتھ ساتھ، معاشروں تک کو بدل ڈالا۔ لہٰذا، یورپ کے عینی فلسفے کو کبھی یہ درجہ حاصل نہیں ہوا کہ زندگی کا کوئی مؤثر جزو بن سکے، اور اس لیے اب حالت یہ ہے کہ یورپ کی فساد زدہ خودی باہم دگر حریف جمہوریتوں کی شکل میں، جن کا مقصد وحید ہی یہ ہے کہ دولت مندوں کی خاطر ناداروں کا حق چھینے، اپنے تقاضے پورا کر رہی ہے۔ یقین کیجیے، یورپ سے بڑھ کر آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں۔ برعکس اس کے مسلمانوں کے نزدیک ان بنیادی تصورات کی اساس چونکہ وحی و تنزیل پر ہے، جس کا صدور ہی زندگی کی انتہائی گہرائیوں سے ہوتا ہے۔(محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam، ص ۱۴۲)
اگر اس ضمن میں مغرب، اقبال اور ان کی تجدیدی فکر کو سمجھ نہیں سکتا تو پھر قصور سراسر تعلیم یافتہ ناقد کی نفسیاتی اور ثقافتی تشکیل کا ہی ہے اور بہتر یہی ہوگا کہ مغرب اس کا جلداز جلدادراک کرلے۔(خورشید احمد، The Frustrated Man، اقبال ریویو، کراچی، اپریل ۱۹۶۳ء)
 [انگریزی سے ترجمہ: ریاض محمود انجم/ س م خ]

مسئلۂ کشمیر کی حیثیت،پاکستان کو درپیش بے شمار مسائل میں سے ، محض ایک مسئلے جیسی نہیں ہے۔اس کا تعلق پاکستان کے وجود، اس کی شناخت، اس کی علاقائی حیثیت، اس کے معاشی، نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی استحکام اور ترقی سے ہے۔ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح نے صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ’’کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘‘۔

قائداعظم مرحوم نے زیارت کے قیام کے دوران اپنے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا:
کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ اپنے دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسےپاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ (قائداعظم کے آخری ایام، ڈاکٹر الٰہی بخش)

یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا لازمی حصہ ہے، اور جب تک یہ پاکستان، بھارت، کشمیری عوام کی منشا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا،جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کی فضا قائم نہیں ہوسکتی۔ کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے اور مستقبل میں اپنے دین، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنے جغرافیہ اور اپنے نظریاتی عزائم کی بقا کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ پاکستانی بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور پاکستان کا حصہ بننے کے لیے جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہی جذبہ پاکستانی قوم کا ہے۔ جو حصہ آج آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کی حیثیت سے پاکستان سے منسلک ہے، وہ کشمیری عوام اور پاکستان کے مجاہدین کی عسکری جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوا ہے۔ جو حصہ اس وقت بھارت کے قبضے میں ہے، اس پر بھارت اپنا تسلط مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ۱۰لاکھ فوجیوں اور جن سنگھی دہشت گردوں کی ظالمانہ کارروائیوں اور بھارت کی ہرقسم کی آمرانہ کارروائیوں کے باوجود وہ ان کے دلوں کو فتح نہیں کر پارہا۔
جموں و کشمیر کے عوام کی عظیم اکثریت سیاسی اور دفاعی ہرقوت کو استعمال کرکے بھارتی استعمار سے نجات پانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ بھارت میں بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو اقدام کیے ہیں، ان کے نتیجے میں تحریک ِ مزاحمت اور بھی وسیع اور مؤثر ہوگئی ہے۔ وہ جو بھارت سے کسی خیر کی توقع رکھتے تھے، وہ جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ بھی مایوس اور برگشتہ ہوکر مزاحمت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی بھارتی قیادت کو ’ڈاکو‘ (Robbers) کہہ رہے ہیں اور پاکستان کو ایک فیصلہ کن فریق کی حیثیت سے مذاکرات میں شریک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت کے دانش ور بھی صاف الفاظ میں یہ انتباہ کر رہے ہیں کہ جبر اور تسلط کا یہ نظام اب نہیں چل سکتا اور کشمیر کی پوری آبادی مزاحمت اور بغاوت کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کے مشہور قانون دان اے جے نورانی اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھتے ہیں:
کشمیر کے سلسلے میں ۱۹۴۸ء میں آزادانہ اور شفاف رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا، جس کو کئی باردُہرایا گیا، جس کے تحت عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں، مگر بدنیتی سے اس دعوے کو بروئے کار لانے سے مسلسل انحراف کیا گیا۔ستم زدہ کشمیری اس المیے کو یاد کرتے ہیں۔ آپ دباؤ، دھونس اورجھوٹ کے بل بوتے پر تو انھیں زیرنہیں کرسکتے۔ (Written in Blood، ڈان، ۷نومبر ۲۰۲۰ء)

اصل مسئلہ بنیادی طور پر ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے: ’حق خود ارادیت‘ (Right of self determination)۔یہی اصل ایشو ہے، یہی پاکستان کا موقف ہے، یہی کشمیری عوام کا مطالبہ ہے، یہی اقوام متحدہ اور ہندستان کا معاہدہ ہے اور اس کے سوا مسئلے کا کوئی حل نہ تھا اور نہ ہوسکتا ہے۔چنانچہ بھارت، پاکستان اور اقوام متحدہ کے عہد کے مطابق، کشمیری عوام ہی کو اپنی آزادانہ مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔

اُوپر ہم نے دو بنیادی باتیں عرض کی ہیں: ایک یہ کہ پاکستان کے لیے کشمیر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان اور کشمیری عوام حق خود ارادیت کے سوا کسی اور صورت کو کسی شکل میں قبول نہیں کرسکتے۔ اس بات کو ایک بار پھر پوری قوت سے کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گذشتہ چند ہفتوں میں حکومت کے اہم ترجمانوں نے ایسی باتیں کہی ہیں، جو سخت پریشان کن ہیں اور جن پر فی الفور گرفت ازبس ضروری ہے۔ ایک طرف گلگت اور بلتستان کو دستوری ترمیم کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنانے کے دعوؤں اور اقدام کا بہ تکرار ذکر کیا گیا۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات کے پس منظر میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے بیانات میں کسی قسم کی صوبائی خودمختاری (State Autonomy) کی بحالی کی شکل کو مسئلۂ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی قرار دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف اور عادل نجم کا میڈیا میں پیش کردہ وہ موقف تشویش کا باعث ہے، جس میں مسئلۂ کشمیر کے ممکنہ حل کے باب میں ’استصواب اور حق خود ارادیت‘ سے ہٹ کر داخلی خوداختیاری کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ پھر اسی موضوع پر نومبر ہی میں اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل میں کسی تھنک ٹینک کی طرف سے سیمی نار کا انعقاد تشویش ناک امر ہے۔

یہ تمام خطرے کی علامات ہیں اوران پر بجاطور پر کشمیری رہنماؤں اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری اہلِ فکر نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ہم خود ان بیانات کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں اور واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ محض انتظامی اختیارات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور بھارت کے ظالمانہ تسلط سے مکمل آزادی کے حصول کا مسئلہ ہے۔ بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی ایک حقیقت ہے۔ پورا مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ بن گیا ہے۔وہاں رہنے والوں کے جان، مال، آبرو سب داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کشمیر ہی کی نہیں، بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھری پڑی ہیں۔ ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزّتیں پامال ہوگئی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اصل مسئلہ وہ نظام اور غاصبانہ انتظام ہے جس کے نتیجے میں یہ صورتِ حال رُونما ہورہی ہے۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی قومی پالیسی پوری وضاحت کے ساتھ ہرسطح پر بیان کی جائے، تاکہ قومی اور بین الاقوامی ہرمیدان میں اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے چار نکاتی پروگرام میں یہی ہمالیائی غلطی کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک لابی آج پھر ایک دوسرے انداز میں ایسے فتنے اُٹھا رہی ہے۔ اس فتنے کو بروقت ختم کرنا ضروری ہے۔

کشمیر پر اصولی موقف:

کشمیر کے سلسلہ میں ہمارا قومی موقف مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ:
    ۱-    جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے، اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔
    ۲-    کشمیر کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور صریح دھوکا ہے، جسے کوئی دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
    ۳-    ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے، جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب رائے کرانا ایک طے شدہ امر ہے۔
    ۴-    کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا جھگڑا ہے، نہ کسی سرحد کی نشان بندی کا معاملہ ہے ، اور نہ پاکستان اور بھارت میں کوئی تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: جموں و کشمیر کے عوام، پاکستان اور بھارت___ جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام یہ طے کریں گے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں یا بھارت کا۔ پاکستان نے اپنے دستور میں دفعہ ۲۵۱میں صاف الفاظ میں یہ لکھا ہے:
جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیے جائیں گے۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کو پاکستان یا بھارت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے اور پھر یہ پاکستان کا وعدہ ہے کہ پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان تعلق اور اس کی حدودکار کشمیری عوام کی منشا اور مرضی کے مطابق متعین ہوں گے۔ یہ اس لیے ہے کہ اگر تین آپشن دیے جائیں اور ’آزاد ریاست‘ بھی ایک آپشن ہو تو اس صورت میں خطرہ ہے کہ کشمیر کی غیرمسلم آبادی کے کردار کی وجہ سے ووٹ بٹ نہ جائیں اور مسلمانانِ کشمیر اپنے حق سے محروم نہ ہوجائیں۔ان تمام نزاکتوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کی حکومت کو پوری یکسوئی کے ساتھ قومی کشمیر پالیسی کو واضح کر دینا چاہیے۔

گلگت بلتستان کا مسئلہ:

اسی پس منظر میں گلگت اور بلتستان کے مسئلے کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ہم اصولی طور پر ضروری گزارشات ترجمان القرآن (اکتوبر ۲۰۲۰ء )میں پیش کرچکے ہیں، لیکن گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران جو وعدے ہوئے ہیں،  ان کی روشنی میں ایک بار پھر یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ:
۱- گلگت اور بلتستان، ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور ہے۔یہ صحیح ہے کہ انتظامی اعتبار سے مہاراجا کے دور میں بھی اسے خصوصی حیثیت حاصل تھی اور پاکستان کے دور سے بھی اسے آزادکشمیر کی ریاست سے الگ حیثیت دی گئی ہے، لیکن قانونی اور انتظامی ہردواعتبار سے وہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور یہی پوزیشن اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسے حاصل ہے۔ اس لیے کوئی ایسی تجویز جو اس حیثیت کو کسی پہلو سے بھی متاثر کرے، اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔
۲- ۱۹۴۹ء میں حکومت ِ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر کی قیادت کے مشورے سے جو راستہ اختیار کیا، اس کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں، لیکن اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں۔ اس میں دونوں کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے البتہ انتظامی طور پر آزاد جموں و کشمیر کی ریاست کا نظام ایک خاص دستور کے تحت قائم کیا گیا ہے اور گلگت بلتستان بلاواسطہ حکومت ِ پاکستان کے تحت تھا اور عملاً وہ انتظام نہایت ناقص بلکہ ظالمانہ تھا کیونکہ اس پورے علاقے کو شمالی علاقہ جات کا حصہ بنادیا گیا اور دورِ استعمار کے ایف سی آر نافذ کر دیے گئے، جو ہر جمہوری اصول و روایت سے متصادم تھے۔ فطری طور پر اس کے خلاف تحریکیں اُٹھیں اور بالآخر وہاں کے لوگوں کے   انسانی حقوق اور انتظامی معاملات و فیصلہ سازی کے لیے ایک نظام وجود میں آیا، جس میں اب بھی بہت سی سنجیدہ خامیاں ہیں کہ جن کی اصلاح درکار ہے۔ لیکن گلگت اور بلتستان کو ’صوبہ‘ یا ’عارضی صوبہ‘ قرار دینا ہراعتبار سے ایک بڑی غلطی ہوگا، جس سے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی پوزیشن مجروح ہوگی اور بھارت نے جو کچھ کیا ہے، کر رہا ہے اور جس پر ہم نے بجاطور پر تنقید کی ہے اور ہم نے ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی جس پر گرفت کی جارہی ہے، اس سے اس غلط قدم کو تائید میسر آئے گی۔ اس سے بڑا ظلم مسئلۂ کشمیر پر نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے ہم پوری قوت سے عرض کریں گے کہ جہاں گلگت اور بلتستان کے لوگوں کو ان کے حقوق اور تمام سیاسی اور انتظامی مطالبات اور اپنے معاملات کا ذمہ دار بنانا اوّلین ترجیح ہونا چاہیے، وہیں دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہے، وہ بھارت کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ اس سے سرموانحراف، غیردستوری، غیرسیاسی اور غیراخلاقی فعل ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ۲۰۱۹ء کے تاریخی فیصلے میں بڑی احتیاط سے اس مسئلے پر کلام کیا ہے اور کم از کم سات بار متنبہ کیا ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے، جس سے مسئلۂ کشمیر اور اس پر استصواب رائے کے پاکستانی موقف پر کوئی پرچھائیں پڑیں۔ کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک مناسب شکل میں حکومت پاکستان کے جاری کردہ جنوری ۲۰۱۹ء کے آرڈر میں کچھ ترامیم مطلوب ہیں، جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جاسکتی ہیں۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں علاقوں میں مکمل خودمختاری، عوام کی ہرسطح پر حکمرانی میں شمولیت اور عوام کے حقوق کی مکمل حفاظت ہو۔ عدلیہ آزاد ہو اور عملاً ہم ایک نمونہ پیش کرسکیں، جس کے آئینے میں پاکستان سے منسلک جموں و کشمیر اور بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر کا فرق سب کے سامنے آسکے۔ لیکن اس کے لیے کسی علاقے کو پاکستان کا صوبہ بنانا ضروری نہیں۔ دونوں آزاد انتظامیہ کی حیثیت سے کام کریں اور یہی بہترین نمونہ ہے اس وقت تک کے لیے، جب تک استصواب رائے ہو اور پھر ایک مستقل نظام وضع کیا جاسکے۔

فوری اور لازمی حکمتِ کار:ہم دو باتیں مزید عرض کرنا چاہتے ہیں:
r  پہلی یہ کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کوئی ابہام کسی صورت میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔ تمام جماعتیں اپنے دوسرے اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک قومی پالیسی پر قائم و دائم ہوں، اسے ملک اور عالمی سطح پر دلیل کی قوت سے پیش کیا جائے۔ تعلیمی نصاب سے لے کر میڈیا اور سوشل میڈیا ، ہرسطح پر اسی پالیسی کا ابلاغ ہو۔موجودہ حکومت نے چند اقدامات کے سوا اس سلسلے میں کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دی ہے۔ کشمیر کمیٹی بھی ماضی کی طرح غیرفعال ہے اور اُمورِکشمیر کے وزیرصاحب کا انتخاب بھی لاجواب کہ وہ کشمیر کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہیں اوراس باب میں بھی سوچتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں مناسب انداز میں کشمیر کے معاملے کو پیش کیا مگر محض ایک تقریر سے کیا حاصل ہوسکے گا؟ اس کے لیے بڑی مؤثر اور ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لائق سابق سفارت کاروں میں سے کسی جہاں دیدہ، زیرک اور ہمہ تن متحرک فرد کو کشمیر پر ’ایمبسڈر ایٹ لارج‘ بنایا جائے۔ وزارتِ خارجہ کشمیر کے مسئلے پر تحقیق اور ترجمانی کا مؤثر نظام بنائے۔ ہراہم سفارت خانے میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جائے۔ کشمیر کمیٹی عالمی سطح پر لائق اور تجربہ کار افراد کو بھیجے۔ دنیا کے پانچ چھے بڑے بڑے سیاسی مراکز پر باقاعدہ کشمیر آفس قائم کیے جائیں۔ پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے تعاون سے اس مسئلے کو اُجاگر کرنے اور رائے عامہ کو متحرک کرکے ہندستان کو بے نقاب کیا جائے اور عالمی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہمارے پاس بے پناہ وسائل اور انسانی سرمایہ ہے لیکن افسوس ہے کہ اسے منظم کرنے اور مسئلہ کشمیر کو دنیاکے سامنے مؤثرانداز میں پیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ حکومت کو اس مسئلے کو اوّلیت دینی چاہیے ۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا اس میں اصل مسئلہ بھارتی غاصبانہ قبضہ اور کشمیریوں کی آزادی اور حق خود اختیاری کے حصول کو حاصل ہونا چاہیے۔ باقی تمام اُمور اس کے گرد اور اس کے تحت آتے ہیں۔پاکستان کے دیگر تمام مسائل میں سے کوئی مسئلہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہی سب سے بڑا، اہم اور مرکزی نکتہ ہے۔
r  دوسری بات ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کو ایک مستقل بالذات مسئلے کے طور پر ہماری اسٹرے ٹیجی کا مرکزی موضوع ہونا چاہیے۔ بھارت سے دوسرے مسائل اور معاملات پر بحث ضرور کی جائے، مگر اس طرح نہیں کہ کشمیر کی مرکزیت متاثر ہوجائے۔
ہمارا فرض ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کریں ۔ بھارت میں ہندوفسطائیت جس طرح غلبہ پارہی ہے، اس پر تنقید بھی ضروری ہے۔ لیکن ہماری اسٹرےٹیجی میں کشمیر اور ان تمام مسائل کو الگ الگ رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری تحقیق کے ساتھ دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ پیش کیاجائے، لیکن ترجیحات کا پورا پورا لحاظ رکھ کر۔
ہماری نگاہ میں کئی عشروں کے بعد عالمی سطح پر اور خود بھارت میں ایسے حالات رُونما ہوئے ہیں کہ بھارت پر تنقید اور اس کے احتساب کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جو پہلے خاموش تھے، اب بولنے لگے ہیں۔ جو بھارت کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں تھے، وہ اب بھارت پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے ادارے اور مراکزِ فکرودانش، حتیٰ کہ وہ اخبارات اور رسائل جو پہلے بھارت کے خلاف زبان نہیں کھولتے تھے اب اختلافی بات شائع کررہے ہیں۔
ہمیں اس موقعے سے پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور محض پروپیگنڈے کے انداز میں نہیں بلکہ دلیل کے ساتھ، تحقیق کی بنیاد پر اور شواہد کی روشنی میں بات کرنی چاہیے۔ اس کے لیے پوری تیاری سے، مؤثر اور مناسب انداز میں ابلاغ کیا جائے۔ کوئی وجہ نہیں کہ منظم کوشش کرکے بھارت پر ہم مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوں۔ اس سلسلے میں بھارت کے معاشی بائیکاٹ کی بات بھی اُٹھائی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ دنیا اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے، لیکن عالمی ضمیر بھی ایک شے ہے اور مسلسل کوشش سے وہ بیدار ہوتا ہے اور اس کے اثرات پالیسی سازی پر پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ظلم کا نظام اگر ایک بار غالب آجائے تو پھر کبھی نہ ہٹے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظلم کی بنیاد کمزور ہوتی ہے اور بالآخر انسان ظلم کے نظام کو زمین بوس کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تاریخ بڑی بڑی ایمپائرز کا قبرستان ہے۔

 

زندگی کے سفر میں گزرنے والا ہرماہ و سال، جانے والے عزیزوں ، دوستوں اور حددرجہ قیمتی انسانوں کی جدائی کا دُکھ دیتا ہےاور باربار زندگی کی ناپایداری کا احساس دلاتا ہے۔ ہرجدائی ایک زخم ہے لیکن کچھ تو اتنے گہرے ہیں کہ ان کی ٹیسیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور گاہے مایوسی کے سائے بھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جلد ہی خالق کائنات کا حکم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی قدم جما دیتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ ہرفرد نے جانا ہے۔ وہ آیا بھی حکمِ الٰہی سے تھا اور گیا بھی خالق کی مرضی سے ہے۔ اللہ کی حکمت ہی غالب ہے، لیکن چشم کا اَشک بار ہونا بھی انسان کی فطری مجبوری ہے۔

ایسے قیمتی افراد میں بہت سی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ تاہم، چودھری غلام محمد صاحب مرحوم [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء]کی یاد ہروقت ساتھ رہتی ہے، جنھوں نے تحریک ِ اسلامی کی دعوت کودنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے افریقہ، عالمِ عرب، جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ و امریکا کے لیے بامعنی منصوبہ سازی کی، حالانکہ ا ن کے چوبیس گھنٹے کراچی میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص تھے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جن حضرات نے، ان کے دست و بازو کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے پیغام کو دُنیابھر میں پھیلایا، ان کے تذکرے میں محترم مسعود عالم ندوی [م: ۱۶مارچ ۱۹۵۴ء]، محترم عاصم الحداد [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۹ء]اور جناب خلیل احمد حامدی [م: ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء] نمایاں ہیں۔ ان حضراتِ گرامی کی پے درپے جدائی نے دل توڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانۂ غیب سے کوئی نہ کوئی بندوبست فرما دیا۔ اسی ضمن میں میرے لیے چھوٹے بھائی اور عزیز بیٹے کی مانند عبدالغفار عزیز اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے۔ ان سے رفاقت کا ۳۰برسوں پر پھیلا زمانہ یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے میں سمٹ گیا اور وہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اپنے ربّ کے بلاوے پر ہمیں چھوڑ کر، اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

عبدالغفارعزیز بھائی کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کا خوب صورت، صحت مند اور توانا سراپا اُبھرتا ہے۔ ایساسراپا جو خوش خلقی، حُسنِ اخلاق، فروتنی، ہمدردی، لگن، اپنائیت اور جذبۂ دعوت سے سرشار ہے۔ان کی زندگی، خدمات اور کارکردگی پر نظر ڈالتا ہوں تو سورہ آل عمران کی آخری آیت نظروں کے سامنے آجاتی ہے:
 ترجمہ:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے‘‘۔

اس میں اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی خوش خبری ہے، مگر چار شرائط کے ساتھ، یعنی صبر، ثابت قدمی، دین کی خدمت کے لیے کمربستہ رہنا اور تقویٰ جو نام ہے مقصد زندگی اور دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے استقامت اور استمرار کا۔ باطل کے مقابلے میں ہم قدم رفقا کے ساتھ مل کر، ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے عبدالغفار عزیز کو صبر، ثابت قدمی، خدمت ِدین کے لیے کمر بستگی، اور تقویٰ___ ان چاروں خصوصیات کے اعتبار سے اللہ کا سچا بندہ اور دین کا مخلص خادم پایا۔

دعوتِ حق اور ایک بندئہ مومن کی کامیابی کی یہ چاروں صفات بے حد اہم ہیں۔ تاہم مَیں دیگر تین اعلیٰ صفات کے ساتھ دعوتِ دین کے کاموں کے لیے کمربستہ رہنے پر خصوصی توجہ کو بہت اہم سمجھتا ہوں، جنھیں بدقسمتی سے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مطالعہ، تحقیق، محنت، تیاری اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات شامل ہیں۔ اس پہلو سے میں نےعزیزی عبدالغفار میں وہ کیفیت دیکھی، جو تحریک کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ آج مطالعے، تحقیق، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جو قرآن کا تقاضا اور تاریخ کا مطالبہ ہے۔ مجھے حالیہ تحریکی زندگی میں عزیزی حسن صہیب مراد [م: ۱۰ستمبر ۲۰۱۸ء] اور عزیزی عبدالغفار عزیز میں یہ کیفیت نظرآئی اور مجھے توقع تھی اور ہرلمحہ یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خالق و مالک کو مطلوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ تحریک کی قیادت، نوجوان کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو اس سلسلے میں بڑی فکرمندی اور عملی کاوش کی ضرورت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ توکّل اور صبرومصابرت کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور تحقیق و جستجو اور مخالف پر علمی اور عملی برتری کو بھی جدوجہد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرف پوری توجہ دیں۔ عبدالغفار عزیز نے اس سلسلے میں ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔

انھوں نے نوجوانی ہی میں، بہت سے روشن معاشی امکانات کو چھوڑتے ہوئے، اور کیرئیر کی قربانی دے کر، اپنا پورا مستقبل تحریک اسلامی کے سپرد کردیا کہ تحریک دین حق کی جدوجہد میں انھیں جہاں اور جس طرح کام کرنے کی ہدایت کرے گی، وہ پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے اس عابد و زاہدبھائی نے واقعی پلٹ کر نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی کے بڑے مخلص رہنما حکیم عبدالرحمان عزیز مرحوم (سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ) کے صاحبزادے تھے۔ گویا کہ انھوں نے تحریک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، لیکن عملاً ان کی ابتدائی تربیت میں براہِ راست جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ ثانوی درجۂ تعلیم کے بعد ان کی فکری، دینی اور تعلیمی تربیت الاخوان المسلمون کے دامنِ محبت میں ہوئی، جب وہ علّامہ محمدیوسف القرضاوی صاحب کے   حلقۂ اثر میں زیرتعلیم تھے اور قطر کی درس گاہوں میں پڑھ رہے تھے۔ اخوان سے گہرے ربط نے ان کی شخصی تعمیر اور صلاحیتوں میں نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن کریم سے گہرا تعلق اور اذکار و اوراد سے عملی وابستگی ایسی کہ جیسے سانسوں کی آمدورفت، اللہ کی کبریائی اور احسانات کے اعتراف سے بندھی ہو۔ یہ چیز بھی اخوان سے تعلق کا عظیم عطیہ تھا، جسے انھوں نے اپنایا۔ اُردو زبان کا بہترین ذوق، انگریزی پر اچھی قدرت اور عربی زبان وادب سے عشق کی حد تک وابستگی نے ان میں اظہاروبیان کی قدرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔

عزیزی عبدالغفار کی شخصیت کے تحریک اسلامی اور اس کی قیادت سے تعلق کا ایک یادگار واقعہ اس وقت رُونما ہوا، جب بے نظیر صاحبہ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ اور جناب نصیراللہ بابر کے  زمانۂ وزارتِ داخلہ میں، بحالی جمہوریت تحریک کے دوران، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پُرامن ریلی ہوئی۔ ریلی کے بعد میرے گھرسے اسلام آباد پولیس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں، محترم امیرجماعت قاضی حسین احمد صاحب اور مجھے گرفتار کیا۔ عجیب منظر تھا کہ ہم نہتے افراد کو گرفتار کرنے کے لیے سو کے قریب مسلح پولیس اہل کار، ہمارے گھر اور گھر کی عقبی گلیوں پر قابض تھے۔ جب پولیس ہمیں لے جانے لگی تو عبدالغفار عزیز نے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ محترم امیرجماعت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کی خدمت کے لیے اختیاری گرفتاری پیش کرتا ہوں‘‘۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عبدالغفار عزیز کو ہمارے ساتھ لے جانے کا حکم دے دیا اور ہمیں سملی ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا ، جہاں ہم نے مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نصف شب کے بعد ہمیں رہا کردیا گیا، لیکن جس طرح عبدالغفارعزیز نے امیر جماعت کی رفاقت کا حق ادا کیا، اس کا نقش کبھی دل سے محو نہیں ہوسکتا۔

ملّت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات، اسلامی تحریکوں کے معاملات اور کارکردگی پر گہری نظر نے، انھیں ملکوں اور قوموں کی تقسیم سے بالاتر حیثیت دے کر ملّت کا عزیز، ہمدرد اور مددگار بنا دیا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ شیشان ہو یا تقسیم سوڈان کا المیہ، مشرقی تیمور کی مسیحی تخلیق ہو یااراکان، بوسنیا، کوسووا ، سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی، بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کے رفقا کے لیے پھانسیوں اور قیدوجبر کی کالی آندھی ہو یا بھارت میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین، مصرمیں اخوان المسلمون کی جدوجہد، تحریک و انتخابات میں کامیابی اور داروگیر کا سلسلہ ہو یا شام میں  قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، تاجکستان، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر اور صومالیہ میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ہو یا یورپ میں پھیلی ہوئی تحریک اسلامی کی تنظیموں میں رابطہ کاری، ہرجگہ عبدالغفار عزیز ایک تازہ دم، ہمہ تن اور اَن تھک رہبراور مددگار کی حیثیت سے یوں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دکھائی دیتے، کہ جیسے وہ انھی ہم مقصد ساتھیوں کے ساتھ مدتوں سے سرگرمِ کار چلے آرہے ہیں۔
اس ضمن میں وہ قلم سے، تقریر سے، ملاقاتوں سے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مکالموں اور مذاکروں کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر تائید و ہمدردی اور ظالم کی مذمت کے لیے میدان میں ہروقت چوکس کھڑے رہتے اور درست موقف پوری قوت سے بیان کرتے ہوئے منظر پر چھا جاتے۔ عالمِ اسلام سے ان کی کمٹ منٹ رسمی نوعیت سے بالاتر اور جسم میں دوڑتے لہو کی مانند تھی۔

عالمِ اسلام کے مسائل اوربحرانوں پر انھوں نے ترجمان القرآن میں نہایت قیمتی مضامین لکھے، جو مصدقہ معلومات اور لکھنے والے کی براہِ راست معاملات کی جڑوں تک رسائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ مضامین مجرد معلومات سے آگے بڑھ کر جذبات کی گرمی اور عمل کی لگن کو بھی انگیخت کرتے۔ وہ مختلف ممالک میں بروئے کار اسلامی تحریکوں کے اندرونی بحرانوں اور تنظیمی مناقشوں کو حل کرنے کی صلاحیت اور بصیرت رکھتے تھے۔ میں نے انھیں مختلف درجات اور حلقوں میں مشاورت کے دوران بے لاگ اور صاف صاف راہِ عمل کی نشان دہی کرتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  وہ حفظ ِ راز اور حفظ ِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

عالمی محاذ پر پاکستان کے قومی موقف کو پیش کرنے اور پاکستان کے نظریے کا دفاع کرنے اور تاریخ کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کے میدان میں ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے پاکستان کے ایک رضاکار سفیر کا کردار ادا کیا۔
نہ صرف ماہ نامہ ترجمان القرآن ، بلکہ تحریک اسلامی نے عالمی سطح پر ان کی شخصیت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ اللہ کی مرضی کہ عبدالغفار عزیز بھائی ربّ کے بلاوےپر لبیک کہتے ہوئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے، اسے پُر کرنے کا انتظام فرمائے، آمین!