اخبار اُمت


امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صومالوی نژاد مسلم رکن کانگرس الہان عمر (Ilhan Omer) نے چند روز قبل اپنے ٹویٹ میں لکھا:’ہم نے امریکا، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور ظلم و سفاکیت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے‘۔

اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے جو ویڈیو عوامی سطح پر پھیلائی، وہ امریکی ایوان نمایندگان کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکر ٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے ہونے والی ان کی گفتگو پر مبنی ہے۔ اس گفتگو میں انھوں نے انتھونی بلنکن کو چیلنج کرتے ہوئے سوالات کیے اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں افغان حکومت، افغان طالبان، حماس اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کومورد الزام ٹھیرایا۔ الہان عمر نے ان جرائم میں امریکا کے ملوث ہونے پر دانستہ کوئی بات نہیں کی، لیکن بعد ازاں ٹویٹ کرتے ہوئے اس میں امریکا کا نام بھی شامل کر لیا تاکہ عوام کے سامنے اپنی سیاسی ساکھ بچائی جاسکے۔

الہان عمر نے جب انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے انتھونی بلنکن سےسوالات کیے تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ انھوں نے فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے اور حماس کے بارے میں اسرائیلی موقف دُہرایا کہ ’’حماس، متشدد مزاحمتی تحریک ہے‘‘۔ دوسری طرف انتھونی بلنکن نے لبرل طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل میں عدل و انصاف مہیا ہوسکتا ہے‘‘۔ اس طرح اپنی منافقت اور بے ایمانی عیاں کردی۔

الہان عمر نے اپنی انتخابی مہم کے لیے درکار خطیر رقم فلسطین کی حمایت کے وعدوں پر اکٹھی کی تھی لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ فلسطینی حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی مزاحمت اور  دفاع کو’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور اسرائیلی جارحیت کو سامراجی تشدد قرار دے رہی ہیں۔ یہ طرزِبیان منافقانہ غیر جانب داری ظاہر کرنے کا ایک سستا،نسخہ ہے، جسے الہان عمر نے ان سینئر امریکی سیاست دانوں سے سیکھا ہے، جنھوں نےاسے مقامی امریکی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی نمایندگی کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ { FR 665 }

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک، بین الاقوامی سطح پر اپنے تسلیم شدہ حق مزاحمت استعمال کرتے ہوئے معمولی ذرائع و اسباب کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے مقابل اسرائیلی سامراجی اور ایٹمی قوت جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر لوگوں کو ناحق قتل اور غلام بنانے کے لیے تشدد کا ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان اخلاقی طور پر کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی لیکن مسلم آبادی سے آگے بڑھائی جانے والی لیڈر الہان عمر کو یہ سکھایا گیا ہے کہ ’’اصل حقیقت کو زبان پر لانے سےسیاسی مفادات حاصل نہیں کیے جا سکتے‘‘۔

حماس کی دفاعی اور مزاحمتی کارروائیوں کا اسرائیلی جارحیت کے ساتھ تعداد اور سیاق و سباق کے لحاظ سےموازنہ کرنا ہی ایک مضحکہ خیز حرکت ہے، لیکن اس سے زیادہ کج فہمی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطین کی نمایندگی کے نام پر مسلم سیاستدانوں کو اپنی سیاسی کمپنی میں بھرتی کرکے ان سے فلسطین کے خلاف بیان دلوا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم یعنی ۱۹۴۵ء کے بعد سے امریکا نے دنیا بھر میں ہلاکتوں اور تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افغانستان، عراق، لیبیا،گوئٹے مالا، نکاراگوا، ویت نام، کمبوڈیا، چلّی تک امریکا نے جنگی مہم جوئی، بغاوتوں اور مداخلتوں کے ذریعے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا، لیکن الہان عمر جیسی مصنوعی اور غلام قیادتوں کے ذریعے، دانستہ طورپر امریکا کا نام گول کرکے صرف حماس اور طالبان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔

حماس کے اندھا دھند راکٹوں کا واویلا

لبرل سیاستدانوں کی طرف سےاکثر کہا جاتا ہے کہ ’’حماس عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا قصور وار ہے، کیونکہ اس نے اسرائیلی شہروں کی طرف اندھا دھند ہزاروں راکٹ فائر کیے‘‘۔ مگر حقائق پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ اور یروشلم میں فلسطینیوں پر حملوں اور ان کی نسل کشی سے باز رکھنے اور ان اقدامات کی قیمت چکانے کے لیے یہ راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹوں کی شکل میں جوابی حملے اس لیے بھی کیے گئے تاکہ غزہ کو فلسطین سے الگ کرنے، فلسطین کے مزید ٹکڑے کرکے کمزور کرنے، زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے اور یہودی آبادکاری کے مزید منصوبوں پر عمل کرنے سے اسرائیل کو باز رکھا جاسکے‘‘۔

اس حوالے سے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار (Yahya Sinwar) نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے میزائلوں کا استعمال خوشی سے نہیں کیا جاتا۔ جب اسرائیل نے اپنے جدید اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور میزائل سے یہ واضح کردیا کہ اس کا مقصد ہمارے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے، تو ہمارے پاس ان راکٹوں کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر ہمارے پاس اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی، تو ہم ان مقامی ساخت کے راکٹوں کا اندھا دھند استعمال کبھی نہ کرتے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا: ’’ہمارے دفاعی اقدامات کا اسرائیل کے ان جارحانہ اقدامات سے موازنہ کرنا درست عمل نہیں ہے، جو ہر قسم کی صلاحیت رکھنے کے باجود عام شہریوں کو نشانہ بناتا رہا۔ جب اسرائیل نے ہمیں دیوار سے لگاکر مجبور کیا کہ ہم دفاع کی آخری حد تک جائیں تو ہمارے پاس جو کچھ موجود تھا، ہم نے اسے استعمال کیا۔ اگر انھیں فلسطین کے معمولی قسم کے، نشانوں پر فٹ نہ بیٹھنے والے راکٹوں سے مسئلہ ہے تو یہ امریکا اور یورپی یونین سے کیوں نہیں کہتے کہ جس طرح انھوں نے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، اسی طرح فلسطین کو بھی کم ازکم ایسے ہتھیاروں سے تولیس کریں جو فوجی تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘‘۔

بلاشبہہ معمولی قسم کے راکٹ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بجائے عام شہری آبادیوں پر بھی گر سکتے ہیں اور حماس کے راکٹوں سے اسرائیل میں ۱۱؍ افراد ہلاک ہوئے اور انٹی ٹینک بم داغنے سے ٹینک تباہ ہونےکے بجائے ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔ لیکن ہلاکتوں کی یہ کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ حماس نے نہ اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کیا اور نہ اس کے اقدامات اسرائیل میں کسی بڑی تباہی یا ہلاکتوں کا باعث بنے۔ یہ محض دفاعی مقصد کے حصول کے لیے کم سے کم طاقت کا استعمال تھا۔ مگر اس کے برعکس اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلنے کے لیے کئی دنوں تک رات، دن مسلسل بمباری کی اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ بم کسی فوجی ٹھکانے پر گر رہا ہے یا کسی رہایشی عمارت، دفتر، ہسپتال، میڈیا سنٹر، اخباری دفتر یا کارروباری عمارت پر۔ صرف چند دنوں میں ۲۵۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں ستّر کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ہر انسانی زندگی قیمتی ہوتی ہے لیکن الہان عمر کی طرف سے اسرائیلی نوآبادیاتی تشدد اور فلسطینی مزاحمت کو برابر اور یکساں قرار دینا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

ظلم کا آغاز ظلم سے ہی ہوتا ہے

یاد رہے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے اور مظالم سے تنگ آکر ہرقسم کی بیرونی امداد سے مایوسی کے عالم میں آخری رد عمل کے طورپر خودکش فدائی حملوں کا راستہ اختیار کیا تھا مگر حالات قدرے بہتر ہوتے ہی فلسطینی تنظیموں نے خود ہی اس راستے کو ترک کردیا۔ تاہم، استعماری جارحیت کے خلاف ہونے والی ہر جدوجہد میں ردعمل لازمی عنصر ہوتا ہے۔ جب مقامی مزاحمت کارروں کےپاس نوآبادیاتی طاقت کو روکنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا تو وہ آخری حربہ کے طورپر اسی طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا جسے مغرب نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیلی حمایت کرنے کے صلے میں بزرگ سیاسی رہنما کے طور پر قبول کر لیا تھا، انھوں نے بھی اپنی خودنوشت The Long Walk to Freedom میں ایسے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’مظلوم اپنی خواہش سے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے بلکہ یہ ظالم ہوتا ہے جو جدوجہد کی کسی مخصوص شکل کو اپنائے جانے کے حالات پیدا کرتا ہے۔ جب ظالم قوت، طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو مظلوم کے پاس پُرتشدد ردعمل کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور یہ آخری حربہ کے طور پر جائز عمل ہوتا ہے۔ اگر فرض کریں یہ ایک ناجائز حربہ ہے، توپہلے ظالم کو وحشیانہ تشدد سے دست بردار ہونا چاہیے۔ ظالم کے پاس تو ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنے کے انتخاب کی آزادی ہوتی ہے، جب کہ مظلوم کے پاس انتخاب کی آزادی نہیں ہوتی۔ اسے جو میسر آئے وہ وہی استعمال کرتا ہے‘۔

’مسلح جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں افریقی نیشنل کانگرس بھی ایسے اقدامات کرتی تھی، جس سے زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ ہو۔ لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان اقدامات سے سامراجی طاقت کو کوئی بڑانقصان نہیں پہنچ رہا، تو ہم اگلے مرحلے یعنی گوریلا جنگ اور دہشت گردی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوگئے‘۔

فلسطین میں رہایشی عمارتوں، بازاروں، ہوٹلوں، ہسپتالوں اور کارروباری مراکز پر اسرائیل نے بمباری اس لیے نہیں کی ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی جارحیت سے خطرہ تھا بلکہ یہ اسرائیلی استعماری ہتھکنڈہ تھا، جسے صیہونی ریاست کی توسیع کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیو ں پر جنگ مسلط کرکے انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے اورحق خودارادیت سے روکا جائے۔ اگر فلسطینیوں نے اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر ۱۹۹۰ء کے عشرے میں یا ۲۰۰۰ء کے عشرے کے اوائل میں خودکش دھماکے کیے تو وہ کوئی ایسے اقدامات نہیں تھے، جن کو الہان عمر مظالم کے نام سے پیش کرے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کو اب ترک کر دیا گیا، اور پھر یہ بھی ہے کہ دھماکے صرف حماس نے نہیں کیے تھے بلکہ اس میں محمود عباس کی الفتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی بھی شامل تھی، جس کے ساتھ گرم جوشی کے تعلقات قائم کرنے کے لیے بلنکن بے چین ہے۔

اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کی مخالف قوت اسرائیل کسی بے بسی کا شکار نہیں تھی کہ دنیا میں اس کی بات نہ سنی جائے یا ان کارروائیوں کا انتقام لینے کے لیے اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوں۔ اسرائیل نے ان کارروائیوں کے جواب میں بے شمار لوگوں کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔ ان میں حماس کے بانی لیڈرشیخ احمد یاسین بھی شامل تھے، جو بچپن سے نابینا ہونے کی وجہ سے وہیل چئیر پر تھے۔ انھیں مارنے سے قبل اسرائیل نے انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے جانے والے کو بھی ہلاک کیا۔ امریکا نے آج تک اسرائیل کی کسی ایسی کارروائی کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔

اسرائیل نے ۲۰۰۲ء کے بعد الفتح رہنما مروان بار گھوتی کو جیل بھیجتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’وہ دوسری انتفاضہ میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی رہنمائی کرتا تھا‘‘۔  اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں واضح طورپر جانب داری نظر آنے پر مروان گھوتی نے اپنے دفاع سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں دینے والے ججوں نے ان عدالتی فیصلوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں کئی جرائم میں عدم ثبوت کے باعث مروان گھوتی کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ایسے متعدد قوانین پاس کیے، جن میں انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکی عدالتوں میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے خلاف حماس سے ملتے جلتے الزامات لگا کر انھیں سزائیں دی گئیں۔ لیکن دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کبھی کوئی قانون پاس نہیں کیا۔

سچ بات یہ ہے کہ الہان عمر نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکی انتظامیہ کے دل کی ہی آواز ہے۔ امریکی دبائو میں نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے ہر قسم کی فلسطینی مزاحمت خواہ وہ مسلح ہو یا غیر مسلح اسے دہشت گردی سے جوڑ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

لبرل سیاستدان، جارح کی مذمت کے بجائے جارحیت کے شکار متاثرین کوخوش اخلاقی کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟

کئی مزاحمتی فلسطینی گروپوں کے درمیان صرف حماس کو جنگلی، مذہبی جنونی، اپنی موت کو دعوت اور تباہی کو آواز دینے والے، اور یہود کے بدترین دشمن قرار دینا، مغرب کے لبرل سیاست دانوں کا سب سے آسان سیاسی فارمولا ہے۔ مغربیوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کا یہ سالہا سال سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ’فلسطینی دہشت گرد‘ ہیں۔ اور ایسے آزاد خیال اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کا ارادی یا غیرارادی طور پر ذریعہ ہیں۔

گذشتہ دو عشروں سے حماس، فلسطینی قومی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مڑنے والی تنظیم ہے، جس نے اخوان المسلمون سے الگ راستہ اختیار کرکے ۱۹۶۷ء کی سرحد کو فلسطینی ریاست کی اساس کے طورپر قبول کیا تھا۔ اس نے ۲۰۱۷ء میں اپنے رہنما اصولوں کا جو خاکہ پیش کیا، وہ اس کی بدلی ہوئی پالیسی کا واضح دستاویزی ثبوت ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا:’’حماس تنظیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا تنازعہ صیہونی منصوبے سے ہے نہ کہ یہودیوں کے ساتھ کسی مذہبی دشمنی کی وجہ سے۔ حماس، یہودیوں کے خلاف محض ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ یہ جدوجہد صرف اس لیے ہے کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ جدوجہد ان صیہونی غاصبوں کے خلاف ہے، جو یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز طور پر بسا رہے ہیں اور غیر قانونی نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دے رہے ہیں‘‘۔

اس دستاویز میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی توثیق کی گئی ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’فوجی کارروائی، قومی و سیاسی اہداف کےحصول کا ذریعہ ہے نہ کہ بذاتِ خود کوئی مقصد یا ترجیحی اقدام‘‘۔ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے اس کی وضاحت اپنے انٹرویو میں اس طرح کی کہ ‘ہم جنگ یا لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے عوامی اور سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ عالمی برادری اسرائیل کے جرائم اور قتل عام کو عملی طور پر روکنے کے بجائے صرف تماشا دیکھ رہی ہے اور اسرائیلی جنگی مشینیں ہمارے نوجوانوں کو قتل کیے جارہی ہیں۔ کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمارے پیارے مرتے رہیں اور ہم رونے دھونے کے ساتھ صرف انھیں دفنانے پر توجہ مرکوز رکھیں؟ کیا خوش اخلاق شکار (victim) ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ذبح ہوتے وقت خاموشی سے درد سہا جائے اور تڑپنے کا شور بھی نہ مچایا جائے؟ حماس پر دہشت گرد ی، خونخواری، بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنےیا یہود دشمنی کے الزامات لگانا اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ ہے، کیونکہ حماس کی پالیسی اسرائیلی کے نسل پرستانہ نظریات کے خلاف اور توسیعی کارروائیوں سے متصادم ہے‘‘۔

امریکا اور اسرائیل حماس کو کیوں مسترد کرتے ہیں؟

حماس کی قومی، عسکری و سیاسی حکمت عملی دیگر سامراج مخالف حریت پسند تحریکوں مثلاً سن فین (Sinn Fein) یا آئرش ری پبلکن آرمی کی طرح سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کی طرف سے طویل عرصے تک آئرش گروپوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا رہا، لیکن پھر انھیں ان مذکرات کا حصہ بھی بنایا گیا، جو ۱۹۹۸ء کے ’بیلفاسٹ معاہدے‘ کے سلسلے میں ہوئے اور بالآخر آئرلینڈ کے شمالی علاقوں میں کئی عشروں کے بعد تشدد کا خاتمہ ہوا۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے فوجی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی تمام فراخ دلانہ پیش کشوں کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ حماس نے تو پیچھے ہٹ کر نام نہاد دو ریاستی حل سے بھی اتفاق کر لیا تھا، جس میں فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک کے صرف ۲۲فی صد حصے پر فلسطینی ریاست تک محدود کر دیا گیا۔ اسرائیل اس پر بھی خوش نہیں، اس کا اصرار ہے کہ اسے دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان تمام زمین پر مستقل قبضہ اور بالادستی چاہیے۔

امریکا، حماس کو سخت بے رحمی سے مسترد کرتا ہے اور اس سے بات چیت کے لیے تیار نہیں، حالانکہ وہ طالبان مزاحمت کارروں سے تو براہ راست مذاکرات  کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ افغانستان میں بیس سال سے جنگ ہو رہی ہے۔ حماس نے آج تک امریکا سے براہ راست کوئی جنگ نہیں کی، لیکن اس کے باوجود امریکا ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ گذشتہ برس امریکی ایما پر اسرائیل اور خلیجی عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاہدات ہی نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ یروشلم میں مزید علاقوں پر قبضے کرکے یہودی آبادیاں بسائے۔ اسی سفاکیت نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو یروشلم میں فلسطینیوں کے دفاع کے سلسلے میں ایک بار پھر عسکری کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا۔

حماس کے خلاف لبرل سیاستدانوں کا یہ عمل بالکل ویسے ہی تعصب پر مبنی ہے، جیسے امریکا میں سیاہ فام لوگ جب اپنے حقوق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں کہ ‘ہر جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے’ تو ریاستی ادارے نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ان پر ہر قسم کا جبر اور تشدد مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’ہر انسانی جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن کیسا سنگین مذاق ہے کہ انسانی جان لینے والے ریاستی تشدد اور مظلوموں کی مزاحمت پر برابر کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ جرم کی نوعیت، واضح تشخیص اور تاریخی پس منظر جانے بغیر دونوں فریقوں پر یکساں ذمہ داری ڈالنا امن کی طرف بڑھتا ہوا قدم نہیں بلکہ ظلم اور جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فلسطین میں ہر قسم کےتشدد کی اصل وجہ صیہونی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ منصوبہ ہے اور اس کا راستہ روکے بغیر عدل، انصاف اور امن کی کوئی امید پوری نہیں ہو سکتی۔

مسلسل گیارہ روز فلسطینی عوام پر آتش وآہن کی بارش کرنے اور غزہ کو موت کی وادی بنانے کی کوشش کے بعد اسرائیل پینترا بدل کر جنگ بندی کا اعلان کر چکا ہے۔ اسرائیل نے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے گنجان ترین شہر غزہ کو خون میں نہلانے کے لیے کیوں چنا، اور عالمی رائے عامہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے کے بعد اسرائیل کو بالآخر خود ہی جنگ بندی کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں کہ جو اسرائیل میں تین برسوں کے دوران پانچویں انتخابی معرکے سے پہلے ہی غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

لیکن ان دو سوالوں کے ساتھ ہی اس معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا، جب عالمی برادری پہلے سے جاری فوجی جارحیتوں سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے؟ ضروری ہے کہ ناجائز قبضے اور توسیع پسندیت کے حوالے سے اسرائیلی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے۔

  • اسرائیلی توسیع پسندی کا  پس منظر: بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی استعمار نے عربوں کے ساتھ فلسطین کے حوالے سے ایک عرب ریاست کے قیام کے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ جاری کیا۔ گویا ’اعلان بالفور‘ یہودیوں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ وہ فلسطین میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے متحرک ہو جائیں تاکہ صہیونی ایجنڈے کے مطابق فلسطین میں ایک ناجائز یہودی ریاست کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔

برطانیہ کی جانب سے ’اعلان بالفور‘ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب فلسطین میں ۱۹۱۷ء میں یہودی کل آبادی کا صرف آٹھ فی صد تھے۔ یہودیوں نے ’اعلان بالفور‘ کے بعد مشرقی یورپ، روس اور جرمنی وغیرہ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ یوں ۱۹۳۹ء میں فلسطین میں یہودی آبادی آٹھ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہو گئی۔ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو امریکا اور مغربی ممالک کے اسٹرے ٹیجک ملاپ سے جنم لینے والی ناجائز اسرائیلی ریاست کو فلسطین کا ۵۳ فی صد رقبہ دے دیا گیا، جب کہ اکثریتی آبادی کے حامل فلسطینی عوام کو صرف ۴۷ فی صد علاقے کا مالک تسلیم کیا گیا۔

ناجائز اسرائیلی ریاست نے صرف اسی پر بس نہ کیا اور عالمی سامراج کی سرپرستی حاصل ہونے کے نشے میں ۱۹۴۸ء میں ہی فلسطینیوں کے مزید ۲۱فی صد علاقے پر فوجی طاقت سے قبضہ کر لیا اور ۸ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ۶۰لاکھ فلسطینی مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ناجائز ریاست کے توسیع پسندانہ حربے جاری رہے اور جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پر بھی ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی قبضہ ہو گیا، جو اس نے بزور طاقت ۲۰۰۵ء تک جاری رکھا۔

  • بھیڑیـے کا عذر لنگ :اسرائیل کا کہنا ہے کہ ’’غزہ پر جنگ، القسام بریگیڈ کے راکٹ حملے روکنے کے لیے مسلط کی گئی‘‘۔ اس دعوے کی عذر لنگ سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اسرائیل کے اس بہانے کو صرف اسرائیل کی اندھی حمایت کرنے والا امریکا یا اس کے حواری ہی سچ مان سکتے ہیں۔ کیونکہ تھوڑی سی فہم رکھنے والے ہر آزاد شہری یہ ضرور سوچ سکتا ہے کہ اسرائیل جن راکٹ حملوں کو اپنی طرف سے مسلط کردہ تباہ کن جنگ کا سبب قرار دے رہا ہے، کیا ان راکٹ حملوں نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات، اداروں اور شہری آبادیوں کو ماضی میں غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگوں کے دوران، یا کم از کم ۱۰مئی ۲۰۲۱ء کے بعد کیا ایسا کوئی نقصان پہنچایا ہے، جس طرح اسرائیل نے غزہ میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مساجد، میڈیا ہاؤسسز اور رفاہی اداروں کو تباہ کیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان فوجی قوت کا فرق یہ ہے کہ ایف سولہ طیارے، مہلک ڈرون، فاسفورس بم، جدید ٹینک اور توپ و تفنگ سب کچھ اسرائیل کے پاس ہے۔ مگر دوسری طرف زیر محاصرہ فاقہ کش اہل غزہ پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ ناجائز ریاست کے باسی اور ناجائز قبضوں کی تاریخ رکھنے والے صہیونی غزہ پر حملہ آور ہوئے، تو صرف امریکا کی ہٹ دھرمی ہی ان کی پشت پناہ بنی۔ اہلِ غزہ پر جارحیت کا الزام وہ ریاست لگا رہی تھی، جس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر توسیع پسندی ریاستی نصب العین کی صورت ان الفاظ میں نقش ہے۔ ترجمہ: ’’اے وطن اسرائیل! تیری سرحدیں فرات سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔

دنیا کا واحد ملک اسرائیل ہے، جس نے اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا نقشوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حدود کی تکمیل تب ہو گی، جب اردن، شام، عراق، ایران، آدھا سعودی عرب اور ترکی ومصر کے کئی علاقے ریاست اسرائیل کے قبضے میں آئیں گے۔

کیا یہ مسلم ریاستوں کے خلاف ’اسرائیل اور اسرائیلی مداخلت کاروں‘ کی کھلی جارحیت اور دہشت گردی کا ایجنڈا نہیں ہے؟ اور کیا نصف درجن سے زائد مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کے لیے غزہ کی تھوڑی سی پٹی کی نیم، خودمختاری اور ظالمانہ پابندیوں سے بندھی نام نہاد ’آزادی‘ بھی قابلِ قبول نہیں ہے؟ خصوصاً جہاں پر حماس جیسی مضبوط، منظم اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے لڑ مر جانے والی سیاسی قوت بھی موجود ہو۔ اسرائیل نے ۱۵ برسوں سے اس کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تین جنگیں بھی مسلط کی جا چکی ہیں۔

  • حماس کو کچلنے کا ہدف : ۲۰۰۵ء میں اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ایک معاہدے کے تحت چھوڑنا پڑا۔ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں حماس نے جمہوری طریقے سے ’الفتح‘ کو شکست دے دی اور غزہ حماس کے سیاسی گڑھ کے طور پر سامنے آیا۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کی ۱۳۲ نشستوں میں سے ۷۴ نشستیں حماس نے جیت کر فلسطین کی سب سے بڑی جمہوری اور پارلیمانی جماعت کا اعزاز حاصل کیا۔ اسرائیل، امریکا اور برطانیہ نے حماس کے حق میں جمہور کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ البتہ ’الفتح‘ تنظیم نے عوامی غیظ وغضب کے خوف سے عوامی فیصلے کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا، لیکن حماس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، اور دوسری طرف حماس سے تعلق رکھنے والے مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک سمیت ۴۲ منتخب ارکان کو جیلوں میں قید کرکے حماس کی حکومت ختم کر دی گئی۔ تاہم، غزہ میں حماس کی عوامی حمایت ’الفتح‘ کے لیے ایک چیلنج رہی۔ اسی لیے غزہ میں حماس کی عمل داری ختم نہ کی جا سکی۔ یہ صورت حال اسرائیل اور ’افتح‘ دونوں کے لیے قابل قبول نہ تھی۔۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں غزہ پر جو جنگ مسلط کی گئی، اس کا سیاسی پس منظر، ریکارڈ کی درستی کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔

محمود عباس کی مدت صدارت ۹ جنوری ۲۰۰۹ءکو ختم ہونے کے بعد حماس اپنی سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے جیل میں قید سپیکر ڈاکٹر عزیر دویک کو قائم مقام صدر بنانے کا آئینی مطالبہ کر سکتی تھی اور فلسطینی آئین کے مطابق نئے صدارتی انتخاب کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بات ’الفتح‘ کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ اس صورتِ حال کو اسرائیل نے غزہ پر ۲۰۰۸ء کے اواخر میں  کھلی جنگ مسلط کر کے دنیا کے ذہن سے محو کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کے خلاف کی جانے والی جارحیت کا بھی کچھ ایسا ہی پس منظر رہا ہے۔

  • اسرائیلی جارحیت: زیر محاصرہ اور فاقہ زدہ اہل غزہ کے خلاف گیارہ دنوں تک جاری رہنے والی اسرائیل کی حالیہ اندھی اور عریاں جارحیت کا ہدف غزہ کے اندر شہری زندگی کے بنیادی ڈھانچے کا خاتمہ، حماس کی تنظیم اور عوامی حکومت کو کمزور کرنا اور اہل غزہ کو نفسیاتی اعتبار سے شکست وریخت میں مبتلا کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔

اسرائیلی ایف سولہ طیاروں سے شروع کی گئی بمباری نے عام آبادیوں کو ہدف بنایا جس کے نتیجے میں غزہ میں ۶۵ بچوں اور ۳۹ خواتین سمیت ۲۳۲ فلسطینی شہید اور ۱۹۱۰ زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ۵۶۰ بچے اور ۳۸۰ خواتین شامل ہیں، جب کہ ۹۱معمر فلسطینی بھی زخموں سے چور ہیں۔ اس کے مقابلے میں غزہ میں حماس کے راکٹ حملوں میں صرف ۱۲ صہیونی ہلاک اور ۳۳۵زخمی ہوئے۔

’اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ '(UNRWA') کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ۷۵ ہزار فلسطینی بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۲۸ہزار ۷۰۰فلسطینی 'UNRWA' کے اسکولوں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے صنعتی سیکٹر کو ۴۰ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، جب کہ توانائی کے شعبے کو ۲۲ ملین ڈالر، زراعت کو ۲۷ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ حملوں میں ۴۰تعلیمی ادارے جن میں سکول اور یونی ورسٹیاں، کووڈ-۱۹ کی واحد لیب تک شامل تھی تباہ کر ڈالے گئے۔ شہر کے بڑے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایک ایسے ماحول میں جب امریکا اور اقوام متحدہ نام نہاد بین المذاہب ہم آہنگی کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں، اسرائیل نے غزہ کی متعدد مساجد شہید کر دیں۔ خوراک کے ایسے گودام جو اقوام متحدہ کے زیر انتظام تھے اور اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ادارے (UNRWA) کے دفاتر بھی اسرائیل نے تباہ کر دیے، حتیٰ کہ شہر کے اندر کی سڑکیں اور پل تک تباہ کر دیے گئے۔ گویا اسرائیل نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا تہہ کر رکھا تھا اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

  • اسرائیلی جنگ بندی یا پسپائی: اگرچہ امریکا کی کوشش رہی کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف تینوں مسلح افواج کو جارحانہ استعمال کرنے والے اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل سے کوئی قرارداد منظور نہ ہونے پائے اور اگر قرارداد کی منظوری اشک شوئی کے حوالے سے ضروری ہوجائے تو ٹال مٹول سے اتنا وقت ضرور گزر چکا ہو کہ اسرائیل غزہ کو تباہ کرنے کا ہدف پورا کر لے۔

دو ہفتے ضائع کرنے کے بعد سلامتی کونسل ایک لولی لنگڑی قرارداد لائی تو امریکا نے اپنے دامن پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا دھبہ نہ لگنے دیا۔ سلامتی کونسل میں قرارداد تو عملاً اقوام متحدہ کی بے اثری اور دوہرے معیار کے اسی سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے، جس میں پہلے بھی شرق اوسط کے بارے میں اسی نوع کی اور بہت سی قراردادیں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔

عالمی رائے عامہ، جسے جمہور کی آواز کہنا چاہیے، امریکی جارحیت کے بعد اب کی بار اسرائیلی جارحیت کے مقابل سامنے آئی۔ جمہور کی یہ عالمی آواز، عالمی طاقتوں کے سنگ دلانہ رویے اور دوہرے معیار سے بیزاری بھی ہے۔  گویا یہ علَم بغاوت ہے، جو ننھے بچوں، خواتین، وکلا، صحافیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے تھام رکھا ہے۔

اسی کی بدولت اسرائیل ایسی سرکش اور ’روگ اسٹیٹ‘ کو بالآخر خود جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ اعلان جنگ بندی اس وقت تک محض ایک ڈھونگ رہے گا، جب تک اسرائیل کی فوج غزہ اور اہل غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں حماس نے بجا طور پر راکٹ فائر نہ کرنے کو اس بات سے مشروط کرتے ہوئے اسرائیل کو انتباہ کیا ہے کہ الشیخ جراح کالونی اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی افراط وتفریط ہوئی تو ہم کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے۔

بلا شبہہ اسرائیلی طیاروں، ٹینکوں اور توپوں نے غزہ کو تباہی سے دوچار کیا، لیکن جس حالت میں اسرائیلی فوج کو واپس جانا پڑا ہے، اس کے پاس ایسا کوئی تمغہ نہیں ہے جسے وہ حماس کو کمزور کرنے، ختم کرنے کے حوالے سے اپنے سینے پر سجا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

اس میں دو رائیں نہیں کہ سوشل میڈیا اور شہری صحافت کے توسط سے غزہ کے شہریوں پر فاسفورس بموں سے حملوں کے مناظر سامنے آنے کے بعد، اسرائیلی فوج کا تشخص ‘روگ آرمی‘ اور خود اسرائیل کا تعارف ایک ’روگ سٹیٹ‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ خصوصاً اسرائیل فوج کی بمباری سے جس طرح معصوم بچوں کے لاشے غزہ کی گلیوں اور ملبے تلے تڑپتے رہے، ہستپال، تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنتے رہے اور اسرائیلی فوج شہدا کی نماز جنازہ پر ہی نہیں قبرستانوں پر بھی بمباری کرتی رہی۔ان میں اکثر مناظر تصویروں اور ویڈیو فوٹیج کے ذریعے دُنیا بھر میں دیکھے گئے۔

یہ سفاکانہ بم باری جنیوا کنونشن کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو اسرائیلی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے خلاف کرپشن مقدمات سے بریت کے جو خواب دیکھ رہے ہیں، غزہ میں بہائے جانے والے خون کو اقتدار کی اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد مسترد کرکے بعد میں خود ہی جنگ بندی کا اعلان کر کے سو پیاز اور سو جوتوں والی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

  • بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست: ہم اس مختصر مضمون کے اختتام پر تاریخ کی ایک اہم گواہی پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اور وہ ۱۸جنوری کے ۲۰۰۹ء کے اخبار گارڈین ،لندن کا اداریہ ہے جس کا عنوان ہے: ’’ایک بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست‘‘۔

اس ادارتی نوٹ میں اخبار نے جو نکات ۲۰۰۹ء میں بیان کیے تھے، آج ۲۰۲۱ء یعنی ساڑھے بارہ برس بعد بھی المیے کا دُہرانا ثابت ہورہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: تاریخی طور پر اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جارحیت کوتنازع کے دیرینہ بیانیے اور خطے میں پائی جانے والی باہمی ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

جغرافیائی پہلو سے بات کی جائے تو ایک مختصرقطع اراضی کے خلاف جنگ کودوسرے ممالک؛ جیسے شام ، مصر ، امریکا اور ایران وغیرہ کی وسیع ترشرکت اور تزویراتی مفادات سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔یہ حقیقت خود ہی اس امر کی وضاحت کردیتی ہے کہ یہ آپریشن اسرائیل کی شکست کا کیوں غماز ہے؟کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔یہ نعرہ تو اسرائیلی سیاست دانوں کا ایک مستقل مخمصہ ہےکہ ’’اس ملک (اسرائیل) کی سلامتی سے متعلق مسائل کوطاقت کے بے مہابا استعمال کے ذریعے یک طرفہ طورپرحل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس معاملے میں جنوبی اسرائیل کی جانب حماس کے راکٹ حملوں کا حل یہ نکالا گیا کہ حماس کے خلاف جنگ مسلط کردی جائے۔اسرائیلیوں نے اس ضمن میں وسیع ترانسانی پہلو کو ملحوظ نہیں رکھا کہ ایک گنجان آباد غزہ میں حماس کے خلاف ایک مکمل جنگ کا لازمی نتیجہ شہری آبادی کے خلاف ایک حملہ ہی متصور ہوگا۔

اسرائیل کی اگر اپنی ہی شرائط کی بات کی جائے تو اس کی یہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔اسرائیلی حکام اب اس بات پر اصرار کرسکتے ہیں کہ انھوں نے حماس کی راکٹ حملوں کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے لیکن اس جنگ کا بظاہر مقصد تو یہ بتایا گیا تھا کہ حماس کی راکٹ داغنے کی صلاحیت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے گا۔

اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی اس جنگی مہم جوئی نے بہت سے عرب دارالحکومتوں میں حماس کے لیے ناکافی حمایت کو بھی بے نقاب کردیاہے۔غزہ میں حماس کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاامتیاز [اسرائیل کی]سفاکانہ فوجی جارحیت نے حماس کے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمتی حیثیت کو ایک اہم اور ترجیحی کردار کے طور پر اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔

’’نیز اسرائیلی فورسز نے جس طرح فلسطینی شہریوں کے زندگیوں کے بارے غیرمعمولی بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے،ان کے خلاف فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور اس کے خلاف جو عالمی ردعمل آیا ہے.... جیسا کہ اخبار آبزرور نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی فردِجُرم عاید کی جاسکتی ہے۔جنگی جرائم کے ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے‘‘۔

۲۰۰۹ء میں اخبار گارڈین کے اس اداریے کو مئی ۲۰۲۱ء میں پڑھیں تو یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے اور ظلم اسی طرح وحشت بار ہے!

امریکا نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرکے فی الحال امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکہ ترکی کے سپرد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ۲۴؍اپریل ۲۰۲۱ءکو استنبول میں مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا، مگر طالبان نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور زمینی صورتِ حال کو جوں کا توں رکھا جائے ۔ گویا جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر  چھوڑ دیاجائے ۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ ’’کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس ۳۳ فی صد علاقے کا کنٹرول ہے، ۱۹ فی صد علاقہ طالبان کے براہِ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ ۴۸ فی صد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے تنازعے کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے‘‘۔

فی الحال امریکا اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس حقیقت کا ادراک امریکا کو ۲۰۱۹ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی ہوگیا تھا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا تھا کہ ’’ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیاد یا غیر جانب دار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرے گی‘‘ ۔تاہم دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے صرف ۱۰روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ۱۸ فروری ۲۰۲۰ءکو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا۔ اس سے پانچ روز قبل بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اچانک ایک خصوصی طیارے سے کابل پہنچے تھے۔ انھوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال سے آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد آپ کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجائے گا ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے ، تاکہ آپ کی حکومت کی آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔

اشرف غنی کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے ، مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ تاہم، ۳کروڑ ۵۰ لاکھ آبادی والے ملک میں جہاں صرف ۹۶ لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی ۱۹ فی صد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں۔ اس سے ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

 چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے۶۰۰ فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لے کر بھارت تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقعے پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ’’ہمارے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے‘‘۔ فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک انقرہ میں ایسی ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے ، کہ کہیں ہمارا حشر ۱۹۸۷ء میں بھارت کی اُس امن فوج جیسا نہ ہو، جو ۱۹۸۷ء میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرِپیکار ہو گئی ۔

مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ، اس لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کرلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنمائوں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ اشرف غنی، بھارت اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں ، تاکہ وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں ہی امریکا کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو ۲۰۲۱ءتک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا؟ کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟ ;

ان سوالات کا جواب یہی ہے کہ ۱۸۳۹ء سے ہی افغانستان میں یہی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔

کسی غیر جانب دار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا  سے۱۹۸۸ء کے ’جنیوا معاہدے‘ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سوویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ ’’کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کو بے دخل کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سوویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مگر امریکا بھی اس وقت افغانستان میں ’جنیوامعاہدے‘ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا۔ اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بنیاد بنا کروسطی ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دیں ، کیونکہ جلد ہی سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور وسطی ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےلیے امریکا نے ۱۲۰دن تک امداد پر پابندی بھی لگائی تھی۔

پاکستان چونکہ اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ اسی دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۸۸ء کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں خوفناک دھماکا ہوا ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہوئی، جس میں کم از کم۱۰۰؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد، یعنی ۱۴؍اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکا،سوویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے معاہدے پر دستخط کرکے سوویت فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی ۔

صدر ضیاء الحق نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ  کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ اپنی ناراضی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں؟‘‘ دستاویزات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے قیام کے بعد ہی ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط ہونے چاہییں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدین حکمت یار نے بڑے اصرار سے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا، مگر پاکستانی افسر بتاتے ہیں کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے آخرکار نرمی دکھائی تھی۔

’جنیوامعاہدے‘ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد، یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خودجنرل ضیاء الحق  طیارہ حادثے میں پُراسرار موت سے دوچار ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا، مگر اس کے بعد وہ اگست ۱۹۹۴ء تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گروپوں کو شکست دیتے ہوئے کابل پر قبضہ کرلیا ۔

اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ۱۸ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدین حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت سنبھا ل لیں گے ۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ، اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے پایا ہے، اسی لیے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘۔ مگر اس معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں ایک بار پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ءکے پہلے چھے ماہ میں ہی کابل میں ۲۵ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست ۱۹۹۴ءکو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم سکی ۔ ۲۰۰۱ء کے آخر میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً ۱۹سال قبل اپریل ۱۹۹۸ء کو امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔ رائے گٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban, and the Hijacking of Afghanistan میں درج ہے کہ’’ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔ پاکستانی سفیر کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان سے منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں‘‘ ۔ اور اب ۱۹ سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افغانوں کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور دو اعشاریہ ۲۶۱کھرب ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً انھی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔

افغانستان میں یہ تاریخ دُہرانے کی شروعات ۱۸۳۹ءکی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی آمد پر افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ برطانوی فوجوں نے کمک بلاکر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اس کے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ مؤرخ ولیم ڈال رمپل اپنی کتاب Return of a King: The Battle for Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کردیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلیے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ ۲۰ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سوویت یونین کے قبضے اور پھر امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلا کسی قدیم یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی داستان معلوم ہوتی ہے۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلا سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا یا یہ بدنصیب ملک مزید گرداب میں گھر جائے گا؟ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر گھوم کر اسی نکتے پر لوٹ آتی ہیں؟ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ; ان کی اس حکمت عملی نے ایشیا کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلالحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید یہ کہ پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا کے عروج کا نقیب ہوگا ۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے۔ اس پر سیّد علی شاہ گیلانی کے پاکستان میں نمایندے کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ’’اس سے کشمیری جدوجہد کو کافی نقصان پہنچےگا‘‘۔ اس کے بعد پاکستان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے منسوب ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ ’’اس معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کے بارے اس دانش وری پر کیا کہا جائے، یہ بہت عجیب بات کہی گئی ہے۔ شہریارآفریدی صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا بات کہنے کی ہے اور کن الفاظ میں کہنے کی ہے اور کیا بات کہنے کی نہیں۔

یہ ٹویٹ چونکہ گیلانی صاحب کے پریس ریلیز کے فوراً بعد آیا تھا، اس لیے پریس نے، خاص طور پر کشمیر اور بھارت کے اخبارات نے اسی پیرایے میں لیا کہ کشمیر کمیٹی نے گیلانی صاحب کی رائے کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، کشمیر کمیٹی کی طرف سے فوراً وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ بیرونِ کشمیر رہنے والے نہیں لگاسکتے۔ اہلِ جموں و کشمیر ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ایک دن کی کمائی نہیں۔ اس میں عشرے لگتے ہیں۔گیلانی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت اور زندگی دے، انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح سے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کھڑے چلے آرہے ہیں، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مردو زن کھڑے رہے ہیں اورآج بھی کھڑے ہیں۔وہ سب بھارت کی جبرواستبداد کی پالیسی کے خلاف عزم و ہمت کی مثال ہیں۔

اگرچہ فائربندی معاہدے پرمعاملہ فہمی ۲۰۰۳ء سے چل رہی تھی۔ اس وقت تک تو یہ چیزیں ٹھیک تھیں، لیکن شاید آج یوں جلدبازی میں ٹھیک نہیں کہ آج معاملات نہایت تباہ کن صورتِ حال کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔

بنیادی طور پردیکھنا ہوگا کہ یہ initiative [پہلا قدم]کہاں سے آیا ہے؟ ہم نے دیا، یا بھارت کی طرف سے آیا؟ بلاشبہہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوں، لیکن کشمیر کے تنازعے کو حل کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔

دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں چین اور امریکا کا کیا کردار تھا؟ بھارت کو بھی اس وقت ایک راستہ چاہیے تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ سفارتی مذاکرات میں اردگرد کی صورتِ حال کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے یہ قدم درست نہیں لگتا۔ سیّدعلی گیلانی صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ کشمیری خواہ مقبوضہ کشمیر سے ہوں یا آزاد کشمیر سے، یہ انھی کی قربانیوںکا نتیجہ ہے کہ آج تک کشمیر کا تنازعہ زندہ ہے۔ اگر کشمیری قربانیاں نہ دیتے تو یہ معاملہ کب کا ختم ہوچکاہوتا۔

یہ کہنا کہ’ ’ہم نے یہ کشمیریوں کے مفاد میں کیا ہے‘‘۔ چلیے ایک محدود حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن سفارت کاری میں پیش رفت، اقدام اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا انتخاب(timing) بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت کا صحیح تعین نہیں کرتے تو آپ مذاکرات سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرپاتے۔مگر دوسرا فریق اپنے حساب سے اس وقت کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سنگین اور تلخ باب ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دوطرفہ مذاکرات میں اُلجھایا ہے اور ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔

کنٹرول لائن پر فائربندی کے معاہدے کی تجدید کے بعد کچھ ہمارے اور بہت سے بھارتی چینلوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ (break through)  ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی خوش فہمی کا اظہار کرنے والوں میں یہاں سے بھی متعدد معتبر لوگ شامل ہیں۔  سچ پوچھیں تو خوش فہمی، غلط فہمی یا عجلت پسندی پر مشتمل یہ طرزِ بیان پریشان کن ہے۔ مذاکرات کے طریق کار کو دیکھ کر بظاہر لگتا ہے کہ ہم اصولی بنیادوں سے ہٹ رہے ہیں۔

پچھلے سال ایک ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹیز اسٹڈیز کے تحت اسلام آباد میں کشمیر پر ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیرڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے بھارت سے مذاکرات کے لیے جوشرائط رکھی ہیں، آپ ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے؟‘‘ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ان حالات میں ہم بھارت سے مذاکرات کریں کہ جب تک ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے والی صورتِ حال بحال نہ ہوجائے‘‘۔

بعض دانش ور قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب ہمارے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرحدی جنگ بندی معاہدہ ایک محدود معاہدہ ہے۔ مگر دونوں ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی جانب سے جوبیان جاری ہوا ہے، اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ ’’بنیادی اُمور (core issues)پر بھی مذاکرات کریں گے‘‘۔یہ مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کون اسے لے کر آگے چلے گا؟ یوں لگتا ہے کہ پس پردہ، یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی چینل اس میں شامل ہوں گے۔

بھارت بڑی شاطرانہ چالوں سے ہمیں انھی چیزوں میں اُلجھاتا رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہمیں ان بے معنی مذاکرات میں اُلجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن تعلقات بہتر ہونےکی ذمہ داری صرف پاکستان ہی کی تو نہیں ہے۔پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے تعلقات خراب کیوں ہیں؟___ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ جب تک یہ تنازعہ رہے گا، اس وقت تک یہاں پائیدار امن ناممکن ہے۔

پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم اسے بھارت کی شرائط پر حل کرنا چاہتے ہیں یا کچھ تجاویز ہمارے ذہن میں بھی ہیں؟ یا پھر وہ تجاویز صدرجنرل مشرف کے فارمولے کے حساب سےہیں؟ جب تک ہم پوری طرح اس ضمن میں واضح نہیں ہوں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم اس بے مقصد مذاکراتی جال میں پھنس کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے رہیں گے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں، وہ سوبار سوچ سمجھ کر کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے جائیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ حکمت عملی بنانے والے (Lobbyists) ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ بس جیسے بھی ہو، اب اس مسئلے کو ختم کریں اور بے معنی مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع کریں۔

نریندرا مودی حکومت ہی کی پالیسی کو ہم دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں نہ جانے اتنی بے چینی اور اتنی بے صبری کیوں لاحق ہوئی ہے؟ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خطے میں کیا ہورہا ہے؟ دنیابھر میں کیا ہورہا ہے؟ بلاشبہہ دُنیا کا دبائو ہم پر ہوگا۔ حکومت سے ہماری یہی گزارش ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لیں۔ بھارت کا جو رویہ اور پالیسی ہے اور اس نے آئین میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں،  ان میں خصوصاً آرٹیکل ۳۵-اے، کا خاتمہ تباہ کن ہے۔ ہم شاید اسٹیٹس کو (جوں کا توں) حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ غالباً اسی لیے گلگت و بلتستان کو بھی عارضی صوبہ بنایا جارہا ہے۔ اس پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموںو کشمیر میں بھی لوگوں کو بجاطور پر اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری کے دوران ہرمعاملے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ ہم سب کے لیے ریاست پاکستان کے مفادات مقدم اور اہم ہیں، تاہم چیزوں کو تاریخی اعتبار سے اور آنے والے وقت کے لحاظ سے دیکھنا ازبس ضروری ہے۔

ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔

اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution  (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا   پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔

 ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔

پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔

       ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔

ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟

نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ  ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸  نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ  ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔

۱۳مارچ ۲۰۲۱ء کو افغان رہنما گلبدین حکمت یار نے منصورہ میں پشتو میں خطاب کیا اور پروفیسر محمدابراہیم صاحب نے رواں اُردو ترجمہ کیا۔ اس سے قبل ہم ترجمان کے شماروں(جون،اکتوبر۲۰۲۰ء) میں افغان طالبان کا موقف شائع کرچکے ہیں۔ یہ خطاب حبیب الرحمٰن چترالی صاحب (اسلام آباد) نے قلم بند کیا۔ (ادارہ)

میں بہت عرصے بعد ان حالات میں پاکستان کے دورے پر ہوں کہ ہم ایک اور جنگ سے دوچار ہیں، جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ہمارا دشمن افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگا۔ ہمارے بزرگ اور ساتھی جان و مال کی لازوال قربانی دے کر اور سروں کے نذرانے پیش کرکے امر ہوگئے۔ آج وہ موجود نہیں، مگر ان شاء اللہ اُن کے ارمان ضرور پورے ہوں گے اور اُمت مسلمہ کو عروج نصیب ہوگا۔

قرآنِ عظیم میں واضح حکم موجود ہے کہ جہاد سے جی چُرانا جرمِ عظیم ہے اور اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ جہاد کے راستے پر چلنے والے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہم اُن نتائج اور اس راستے کے مسافر ہیں۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کے اندر حجاز پر غلبہ حاصل کرلیا اور پھر چند ہی برسوں میں اسلامی سرحدات کی حدود روم اور فارس تک پہنچ گئیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اسلامی ریاست کی سرحدیں مشرق میں ہندستان اور چین و ترکستان اور شمال میں ہسپانیہ اور جنوب میں یمن تک اور مغرب میں مراکش تک پہنچ گئیں۔ اسی دوران مسلمانوں کو علم کے میدان میں بھی برتری حاصل ہوگئی۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائی بھی مسلمانوںکے ہاتھ میں آگئی اور عسکری فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کا کوئی مدمقابل نہ رہا، یوں مکمل تہذیبی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔

 تاریخ انسا نی میں ایسی اُمت کی مثال نہیں ملتی کہ اقتصادی میدان میں بھی وہ خوش حالی کی زندگی ایسی گزارنے لگے کہ زکوٰۃ دینے والے افراد کی تلاش میں ہوتے تھے اور زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا، یعنی ہرطرف خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ہزاروں قومیں، قبائل اور اُمتیں اُمت مسلمہ میں جذب ہوگئیں۔ وہ آپس میں جڑے ہوئے انسان تھے اور اُن کے اندر کوئی اجنبیت نہ تھی۔ یہ مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ گھروں، بستیوں اور مملکتوں پر مجاہدین کے پرچم لہراتے تھے اور مجاہدین ہی دُنیا کی قیادت کر رہے تھے یعنی، حافظ بھی مجاہد اور عالم بھی مجاہد۔ اُن کے لیے دُنیا ایک میدانِ جہاد تھا اور ہر کوئی منزل کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھا۔ وہ دین کو دُنیا کے حصول کا وسیلہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ فرقہ واریت میں مبتلا نہ تھے بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ مسجد کا امام بھی ریاست کا امام ہوتا تھا، یعنی ہرمسجد اور ہربستی حرب گاہ اور جنگی مورچہ تھا۔ گھراور مسجد ایک ہی مقصد کا عنوان تھے۔ ان میں کوئی تضاد اور ٹکرائو نہیں تھا۔یوں ہمارا دورِ عروج تاریخ کے اَوراق پر پھیلاہوا تھا: تہذیب بھی ہماری اورتمدن بھی ہمارا اور دُنیاپر حاوی عالمی نظام بھی اُمت مسلمہ کا۔ اس میں ہمارا حریف کوئی نہ تھا جو سیاسی، عسکری اور اقتصادی میدان میں ہمیں چیلنج کرسکے۔

اب سے ایک سو سال پہلے یہ عظیم سلطنت ہم سے چھن گئی اور ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں خلافت کے حصے بخرے کیے گئے۔ یہ عظیم سائبان ہم سے چھین لیا گیا اور وہ بھی ہمیں شکست دے کر نہیں، بلکہ ایک سازش کے ذریعے ہم سے چھین لیا گیا۔ اس سازش میں اندر اور باہر کے دشمن ملےہوئے تھے اور اندرونِ خانہ منافقین نے دشمنوں کا ساتھ دیا اور اُن کے دست و بازو بن گئے۔ یہ اُمت مسلمہ کا ایک المیہ ہے کہ دشمن اسلام پرغالب نہیں آسکتا، تو وہ آستین کے سانپوں کو پالتا ہے۔ اسی لیے خلافت کے خاتمہ کے لیے ترکوں اور عربوں کو لڑایا گیا۔ شیعوں اور سنیوں کو لڑایا گیا۔ آج وہ عظیم اُمت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔سامراجی قوتوں نے اس طرح اُمت کو تقسیم کر دیا اور مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک وجود میں آگئے۔ پھر اُن پر حکمرانی کے لیے سیاسی حاکم اور فوجی جرنیل بٹھا دیئے گئے۔ ہمارے بازار، اُن کی تجارتی کمپنیوں کی مارکیٹ بن گئے۔ ہماری معدنیات اور خام قدرتی وسائل اُن کی خوش حالی و استحکام اور اُلٹا ہم پر حکمرانی کا ذریعہ بن گئے۔ یوں براہِ راست یا بالواسطہ انداز سے داخلی اور خارجی سیاست مکمل طور پر اُن کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مسلم ممالک پر پھر جنگیں مسلط کی گئیں،تا کہ وہ آپس میں لڑبھڑ کر اپنی مادی، افرادی، عسکری اور سیاسی قوت سے محروم ہوجائیں۔ اِن تمام جنگوں میں مسلمان ہی کشتۂ اجل بنے۔ ہجرتیں ہوئیں اور آج بھی ۹۵ فی صد مہاجرین دُنیا میں مسلمانوں پر ہی مشتمل ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اُن کے ہاتھ میںہے۔ یہ دونوں مغرب کی طاقت کا ذریعہ ہیں۔ فساد پھیلاتے ہیں، نوجوانوں کوگمراہ کرتے ہیں اور اُمت کو بے راہ روی کے راستے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ان کے شکارافراد اپنے شان دارماضی سے کٹے ہوئے پتنگ ہیں۔

ان گذشتہ سو برسوں میں مغرب اپنے مشن میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہماری نسلیں سیکولر ہوگئیں جو دین اور دُنیا کو الگ الگ اور سیاست کو دین سے جدا سمجھتی ہیں۔تاریخ انبیاء علیہم السلام نے کوئی غیرسیاسی دین نہیں دیکھا۔ [کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ  نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ (متفق علیہ) بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے۔ ایک نبی ؑ وفات پاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میرے بعد خلفاء ہوں گے، اور زیادہ تعداد میں ہوں گے]۔

  لہٰذا اس دردناک اور المناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں دوبارہ دین کی طرف پلٹنا ہوگا۔ برادری اور اخوت و بھائی چارگی کواپنانا ہوگا۔ فروعی اختلافات کو ترک کرنا ہوگا۔ دوسروں کو کافر بنانے کا سلسلہ دریا بُرد کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دین کا فہم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر بنائیں؟ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ’کافر سازی‘ تو شوق سے کرتے ہیں مگر فکرمندی سے ’مسلمان سازی‘ نہیں کرتے۔ ہمیں دین اس لیے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے۔ معرفت ِ خدا اور معرفت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ بن جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے دین کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے ضرور اُن کی مدد کی ہے۔

افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جو جنگ زدہ ہے، بدحال اور ناگفتہ بہ ہے، مگر جہاد کی برکتوں سے اللہ نے ان افغانیوں کی بھرپور مدد کی۔ گذشتہ دس عشروں یا ایک صدی کے دوران انھوں نے تین بڑی سامراجی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ برطانیہ جس کا سورج کبھی دُنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے طمطراق سے افغانستان پر جارحیت کی اور بار بار شکست کھائی۔آج وہ سلطنت دُنیا کے نقشے میں ایک انگوٹھے میں سما جاتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں تاجِ برطانیہ مشرق میں آسٹریلیا اور مغرب میں امریکا تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور سوویت یونین (کمیونسٹ روس) نے افغانستان پر جارحیت کی۔کیا آج شکست کھانے کے بعد دُنیا کے نقشے میں سوویت یونین نام کی کوئی ریاست وجود رکھتی ہے؟ اب آپ دیکھیں امریکی سربراہی میں ناٹو نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور ہزیمت اُٹھا کر افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۹۵ فی صد اُن کی فوجیں نکل چکی ہیں، پانچ فی صد نکلنے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ سوپرپاور کا دعوے دار امریکا اس جلدی میں ہے کہ افغانستان سے نکل جائے اور اپنی افواج کو باعزّت طریقے سے نکال لے۔

افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے دو بڑے عوامل تھے: ایک افغانستان پر قبضہ اور دوسرا ایک غلام کٹھ پتلی حکومت کی تشکیل۔مگر افغان عوام نے ان دونوں عوامل کو مسترد کر دیا ہے۔اب ترکی اور مسقط میںافغانستان کے مستقبل میں اقتدارکی منتقلی کے مسئلے پر مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان کے ساتھ افغان احزاب سمیت چھے ممالک ان مذاکرات میں شامل ہیں۔ عنقریب ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے تاکہ صلح کی بنیاد پر وسیع البنیاد حکومت تشکیل پائے۔ ہم دونوں عالمی کانفرنسوں کی تائید کرتے ہیں۔ افغانستان سے آٹھ آٹھ قائدین اور سیاسی جماعتوں کے نمایندے اِن مذاکرات میں شرکت کریں گے تاکہ افغان عوام کی لازوال قربانیاں رنگ لائیں۔ ان شاء اللہ افغانستان میں اسلامیانِ افغانستان کو کامیابیاں حاصل ہوں گی اور اسلام سربلند ہوگا:

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

ان شاء اللہ وہ دن بہت جلد آئے گا کہ جب افغانستان کے غیور عوام کی اُمنگوں کے مطابق افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی، اور ایک پُرامن اسلامی مملکت ِافغانستان وجود میں آئےگی۔

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کی پالیسی سازی، عمل درآمد اور اثرات سے نسلی تعصب صاف جھلکتا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا (Covid-19)کی وبا نے ممالک اور اقوام میں یک جہتی کے مظاہرے دکھائے ہیں۔اس وبا کے سدِباب کے لیے دولت مند ممالک نے کورونا ویکسین کے اپنے ہاں ڈھیر لگا دیئے ہیں اور عوام کو وبا سے بچائو کے لیے و یکسی نیشن پروگرامات بھی شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کو اپنی قوم کو ویکسی نیشن کے عمل سے گزارنے والا پہلا ملک قرار دیا گیا ہے۔

۱۹؍دسمبر کو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یا ہو نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں فائزر بائیو ٹیک کوویڈ-۱۹  ویکسین وصول کی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں قومی ویکسی نیشن پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ اس پروگرام کے ذریعے دو ہفتوں میں دس لاکھ سے زیادہ اسرائیلیوں کو یہ ویکسی نیشن لگا دی گئی۔ یوں آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک چھوٹے سے ملک کی کم و بیش ۱۲فی صد آبادی کو کوویڈ -19کی ویکسی نیشن دینے والا سب سے پہلا ملک اسرائیل بن گیا۔ لیکن یہ سب کیسے ہوا ، یہ بھی نسلی منافرت کی انوکھی مثال ہے۔

دنیا بھر میں سب ممالک پر سبقت لے جانے میں اسرائیل کئی وجوہ کی بنا پر پہلا ملک کس طرح بنا؟ اس کے لیے مختصر سا جائزہ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسرائیل ڈیجیٹل دنیا میں قومی صحت کے پروگرام کے تحت اپنے شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ خود کو اس پروگرام میں رجسٹر بھی کرائیں اور اس کے حصہ دار بھی بنیں۔ دوسرے ممالک کے برعکس اسرائیلی فوج پابندہے کہ وہ ایسے ہر پروگرام میں شرکت سے کسی بھی نوعیت کی تاخیر کے بغیر کام کرے، بلکہ کسی بھی ویکسین کی رجسٹریشن اور تقسیم کے عمل میں وہ انتظامی طور پر متحرک کردار ادا کرتی رہے۔

 ان دنوں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ویکسین کی دوڑ میں کامیابی ممکنہ طور پر ان کے حق میں بہتر نتائج سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور انتخابات میں قدرے سیاسی توازن ان کی پارٹی کے حق میں پیدا کرسکتی ہے۔

بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں چرچے ہیں کہ اپنے عوام کو ویکسی نیشن فراہم کرنے میں اسرائیل دیگر ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ ایک طرف دھوم ہے کہ اسرائیل نے بڑی تیزی سے اپنے عوام کو اس عالمی وبا کے خلاف مزاحمت حاصل کرنے کے لیے ویکسی نیشن پروگرام مکمل کر لیا ہے، دوسری طرف اسی حکومت نے ان لاکھوںفلسطینیوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت اس پروگرام سے قطعی محروم رکھا ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں ،جو سال ہا سال سے اس کے قبضے میں کسم پرسی کی زندگی گزا رنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ اس ویکسین کی بہت بڑی مقدار مبینہ طور پرمحض اس لیے ضائع کر دی گئی ہے کہ یہ فلسطینی عوام کی رسائی میں نہ چلی جائے۔ اس مقدار کو مبینہ طور پر اس طرح سے ضائع کیا گیا ہے کہ استعمال کی مدت گزر جانے دی گئی تھی۔ کسی ایک فلسطینی کو بھی یہ ویکسین لگائی نہیں گئی۔ اسرائیل کے طبی مراکز پر جانے والے فلسطینیوں کو یہ ویکسین فراہم کرنے یا لگانے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔اسے صریحاً ظلم اور نسل پرستی نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے۔

غزہ اور مغربی کنارے کی دو بستیاں ۱۹۶۷ء سے ہی ایسے تعصب کا نشانہ بن رہی ہیں۔ غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے مسلسل اسرائیلی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔بہت سی بنیادی سہولتو ں سے مسلسل محرومی کے ساتھ ساتھ صحت کی نہایت اہم ضرورت سے تسلسل سے انکار نے ایسی کیفیات پیدا کر دی ہیں، جو مستقل خطرے کا الارم بجا رہی ہیں۔

اسرائیل کے قبضے نے فلسطینیوں کے اپنے صحت کے نظام کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ بنیادی ضروریات کی شدید کمی، طبی سازوسامان اور ادویات کی قلت ہے۔ اس قلت نے ان کو اس حال سے دوچار کر دیا ہے کہ مغربی کنارے میں رہنے والی فلسطینی آبادی کئی برسوں سے اِردگرد سے مانگ تانگ کر ان ضروریات کو پورا کرتی ہے۔

کورونا نے ساری دنیا پر اچانک گذشتہ سال یلغار کی تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس کسی نوعیت کے انتظامات نہیں تھے کہ وہ اس عالمی وبا (Pandemic)کا مقابلہ کر سکے۔

عالمی ادارہ صحت کےپروگرام سے بھی اتنی مدد نہ مل سکی جس سے کوویڈ- 19 کی ویکسین تمام غریب ممالک کو فراہم کی جا سکتی۔ ابھی تک عالمی ادارہ صحت نےکوویکس (COVAX) پروگرام کی ہنگامی فراہمی کی منظوری بھی نہیں دی ہے۔

گذشتہ دسمبر کے آغاز میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ اس نے روس سے ’سپوتنک فائیو‘ (Sputnik V) کی ۴۰لاکھ خوراکیں حاصل کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے اور   یہ آیندہ چند ہفتوں میں مل جائیں گی۔ حال ہی میں روسی حکام نے اس طرح کے معاہدے کی توثیق ضرور کی ہے، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ ’’ابھی روس اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ غیر ممالک میں یہ ویکسین فراہم کر سکے‘‘۔

اسرائیل نے اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو فلسطینیوں کو یوں دربدر پھرنا ہی نہ پڑتا۔ اسرائیلی حکام اتنی بات کہہ کر خود کو ان تمام ذمہ داریوں سے مبّرا قرار دے لیتے ہیں کہ ’’فلسطینی اتھارٹی نے ہم سے مدد طلب کی ہوتی تو اور بات تھی‘‘۔ حالانکہ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اس ذمہ داری کی ادایگی کا پابند تھا۔ لیکن اوسلو معاہدہ کے نتیجے میں کسی نوعیت کی خیر فلسطینی اتھارٹی کے حق میں نہیں مل سکی۔ غزہ اور مغربی کنارے میں ہر طرح کی ویکسی نیشن فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے ہی سر انجام پانا تھی، جو نہ مل سکی۔

 چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل۵۶ کے تحت یہ لازمی ہے کہ ’’کسی بھی قابض (جیسے اسرائیل) پر لازم ہے کہ وہ ہر طرح کے اقدامات کرے، جن سے وبائی یا متعدی امراض کو مقبوضہ علاقے میں پھیلنے سے روکا جاسکے اور وبائی امراض کے خاتمے اور روک تھام کے لیے پورے اقدامات بھی ممکن بنائے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیلی انتظامیہ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قبضہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے کووڈ -۱۹ سے بچائو کی ویکسین مناسب مقدار میں فراہم کرے۔

اسرائیل نے پوری طرح سے فلسطینی اتھارٹی کے صحت کے نظام کو ہر طرح سے مفلوج کر رکھا ہے۔ اس نے کئی عشروں سے فوجی قوت کے بے دریغ استعمال سے قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس نے محض گنتی کی چند میڈیکل سہولیات غزہ جانے دی تھیں جو بین الاقوامی اداروں نے فراہم کی تھیں۔ یہ بھی اس لیے فراہم کرنے کی اجازت دی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت وہ ان سہولیات کی فراہمی کا پابند تھا۔

اسرائیل نے باربار یہ تاثر پیدا کیے رکھا کہ وہ فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔  بین الاقوامی برادری اور میڈیا اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس نے شدید بیمار فلسطینی مریضوں کو تل ابیب کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی اجازت دی ہے۔ اس نوعیت کی کہانیوں کے عام کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ شدید نوعیت کے فوجی محاصرے اور ناکہ بندی سے مقامی ہسپتالوں میں ضروری طبی آلات اسرائیل نے غزہ کے ہسپتالوں اور طبی سہولیات کے مراکز پر عشروں پر محیط بم باری سے تباہ کر دیے تھے۔ ان حملوں نے فلسطینی مراکز اور نظام صحت ہر طرح سے مفلوج کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیلی انتظامیہ چاہتی تھی کہ بین الاقوامی ڈونرز کے ایک گروہ کی جانب سے چند سہولیات غزہ لے جانے کی اجازت دینے پر اس کی تعریف کی جائے۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اس کی اپنی ذمہ داری تھی کہ قابض قوت ہونے کی وجہ سے اسرائیل خود یہ سہولیات غزہ پہنچاتا۔

ویکسین کے حصول کی دوڑ سے یقیناً فلسطینی اکیلے باہر نہیں ہیں۔ گلوبل سائوتھ کے بہت سے ممالک اور بھی ہیں جو اس دوڑ سے الگ کر دیے گئے ہیں۔ ویکسین کی بڑی مقدار ایسی بھی ہے جو امیر ممالک کو مختصر نوٹس پر فراہم کی جائے گی مگر مغربی کنارے اور غزہ میں چیلنج اور طرح کا ہے۔ اسرائیل کے پاس فوجی قوت ہے اور فلسطینی عوام پر بے پناہ کنٹرول حاصل ہے۔ یہ دونوں عوامل مقابلے کو فلسطینیوں کے لیے سنگین تر بناتے رہے ہیں۔

دنیا اسرائیل کے تیز رفتار ویکسی نیشن پروگرام کو تو دیکھ رہی ہے لیکن اسے اس بڑی تصویر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل ان لاکھوں فلسطینی عوام کو ویکسین حاصل کرنے سے بزورِ قوت روک رہا ہے۔[الجزیرہ، ۱۱جنوری۲۰۲۱ء]

نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے اپنے طور پر مسئلہ کشمیر ختم کرنے کے لیے آخری وار کردیا۔ ان کے وزیرداخلہ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵- اے کو ختم کردیا۔اس طرح ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کو تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تبدیل کرنے کا قانون بھی پاس کیا۔ اب لداخ ، جو مسلم اکثریتی ضلع کرگل اور بودھ اکثریتی لیہ اضلاع پر مشتمل ہے، وہاں اسمبلی نہیں ہوگی۔ ۹۰کے عشرے میں اس خطے کی۶۵ء۳۹ فی صد بود ھ آبادی  نے لداخ کو مرکز کے زیر انتظا م علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس خطے میں آباد۴۰ء۴۶ فی صد مسلم آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جب دانش وَر حضرات اور میڈیا جس میں پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، بے خبری میں لداخ کو بودھ اکثریتی علاقہ تصور کرتے ہیں۔

 جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیرانتظام ہوگا، جس میں اسمبلی تو ہوگی ،مگر وہ دہلی و پانڈیچری اسمبلی کی طرز پر ایک میونسپل کارپوریشن کی طرح کام کرے گی۔ تمام تر اختیارات مرکز کے نمایندے گورنر کے پاس ہوں گے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اور بیوروکریسی کا تعین مرکز حکومت کرے گا۔ معروف دانش ور مزمل جمیل کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر میں تاریخ کا پہیہ واپس ۱۸۴۶ء میں پہنچ گیا ہے، جب ’بیع نامہ امرتسر‘ کے بعد ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے سرینگر کی باگ ڈور سنبھالی‘‘۔ 
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اس کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے حکم نامے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈروں بشمو ل ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے اعلان کیا: ’’بھارت کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے طنز آمیز آوارگی ، جنسی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے جملے بھارت کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی ساہوکار اور بنیے تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوںمیں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔ 
۱۹۹۰ء کے عشرے کے شروع میں تعلیم اور روزگار کے لیے میں جب میں دہلی وارد ہوا،  تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم  سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (ABVP) کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی وہاں چلاگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعتدال پسند لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کیے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اس لیے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ: ’’پچھلے ۵۰برسوں میں مرکزی حکومتوں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر ہندستان کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی، اور اس کی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دُور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ اسی طرح کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور ہندستان میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں‘‘۔ 

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ کانگریسی رہنما من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ تب بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیمنٹ کمپلیکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ: ’’آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا‘‘۔
یوگی جی نے مسکرا کر مجھے کہا کہ: ’’اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی‘‘۔

 میں نے پوچھا کہ ’’ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیمان بھڑک جاتے؟‘‘  

آدتیہ ناتھ یوگی نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ :’’مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کے لیے خطرہ ہوتے ہیں‘‘۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ: ’’مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرے میں ۵ فی صد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ اس لیے ہندستان اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈنے چاہیے۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزایش نسل پر پابندی لگاکر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔وہاں کی آبادی کو پورے ملک میں بکھیر کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے‘‘۔
آج ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد بھارت کے تخت پر برا جمان ہیں۔بھارت میں اس وقت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈے پر انتخابات لڑتی آئی ہے:

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر , یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ اگرچہ اس سے قبل    بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر اس نے عددی قوت کی کمی کے باعث ان تین ایشوز کو   عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اب ۲۰۱۹ء میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تو بی جے پی کے لیڈروں نے کہا کہ: ’’ہمارے کور ایجنڈے کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔ ۲۰۱۴ء میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی سعید کی حکومت بنی، تو کہا گیا تھا کہ: ’’بی جے پی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوعِ بحث نہیں بنائے گی‘‘۔

اور پھر دفعہ ۳۷۰ کے ساتھ دفعہ ۳۵- اے کو نشانہ بنا دیا گیا۔ دفعہ ۳۵-اے کے تحت غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جایداد خریدنے پر پابندی عائد تھی۔ اس دفعہ کے ختم ہونے کے نتائج دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔
 مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کوآئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں، جو بھارت کے دیگر علاقوں، یعنی ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں۔ ان کے تحت وہاں بھی دیگر شہریوں کو غیر منقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • ایک پُراسرار کردار: ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو دستور سے خارج کرنے کے موجودہ فیصلے سے قبل، آر ایس ایس نے ان دونوں دفعات کو الگ الگ ہائی کورٹوں میں چیلنج کیا تھا۔ بی جے پی کے جس عہدے دار نے جموں و کشمیر کے جموں بینچ کے سامنے دفعہ ۳۷۰کو چیلنج کیا تھا، وہ صاحب اس وقت گورنر جموں و کشمیر کے مشیر فاروق خان ہیں۔ موصوف نے پولیس سے ریٹائر ہونے کے بعد بی جے پی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے۔ 

یاد رہے مارچ ۲۰۰۸ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا تو جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ۳۶ سکھوں کا قتل عام ہوا تھا۔ فاروق خان ان دنوں پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ میں ایس ایس پی تھے اور عمومی تاثر یہ تھا کہ  واردات کے ذمہ دار یہی صاحب ہیں۔ کلنٹن کی بھارت موجودگی کے دوران اعلان کر دیا کہ ’’اس قتل عام کے ذمے دار لشکر طیبہ کے چاروں حملہ آور مار دیے گئے ہیں‘‘۔ فاروق عبداللہ حکومت نے فاروق خان کو معطل کرکے جسٹس پانڈیان پر مشتمل عدالتی کمیشن کو سکھوں کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا۔مگر وہ اس بارے میں تو پوری طرح کام نہ کرسکے۔ تاہم جسٹس پانڈیان نے فاروق خان کو اُن چار افراد کے قتل کا حصہ دار بتایا، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔مگر پانڈان کی ہدایت کے باوجود فاروق خان کو نہ تو الزام لگا کر قتل کیے جانے والے مقدمے میں ماخوذ کیا گیا، اور نہ سکھوں کے قتل عام کے ضمن میں تفتیش کی گئی۔۲۰۰۳ء میں مفتی سعید حکومت نے بھی ان کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی، لیکن  جب ۲۰۰۸ء میں غلام نبی آزاد نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، تو نئی دہلی کے حکم پر فاروق خان کو بحال کر دیا گیا۔ فاروق خان کے خلاف سکھوں میں آج بھی شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

دفعہ ۳۵- اے کا معاملہ

۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کشمیرکے ہندوحکمران ہری سنگھ نے ایک  حکم نامے کے تحت: ’’شہریت اور غیرمنقولہ جایداد کی خرید کے علاوہ ریاستی حکومت میں ’غیرملکیوں‘ پر پابندی عائد کر دی تھی‘‘۔ ۲۰؍اپریل۱۹۲۷ء کے ایک نوٹیفیکیشن میں راجا ہری سنگھ نے ’ریاستی عوام‘ کی وضاحت کی تھی اور اسی قانون کو بعدازاں کشمیری اوربھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری ہندو جنھیں ’پنڈت‘کہتے ہیں، یہ قانون ان کے احتجاج کے ردعمل میں منظور کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس وقت ’کشمیر،کشمیریوں کا ہے‘کا نعرہ بلند کیا تھا، کیونکہ پنجابی مسلمان انتظامیہ میں رسوخ حاصل اور زمینیں خرید رہے تھے۔لیکن،ایک صدی گزرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو وہی خدشات لاحق ہیں، جو۱۹۲۰ءکے عشرے میں ہندئووں کولاحق تھے۔۱۹۲۰ء ہی کے عشرے میں،ہندوؤںنے راجا ہری سنگھ کو اس قانون میں ایک اور دفعہ شامل کرنے پر زور دیا تھا کہ: ’’اگر ایک کشمیری خاتون،کسی غیرکشمیری سے شادی کرے تو وہ وراثت کے حق سے محروم ہو جائے گی‘‘۔ 
مؤرخ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب Kashmir Saga (داستانِ کشمیر ) میں لکھا ہے:’’کشمیر کے اندر’غیرملکیوں کا داخلہ بند ہے‘ کا شوروغوغا بذات خود کشمیری پنڈتوں نے بلند کیا تھا۔مسلمانوں کی راے کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ ہندوحکمران نے انھیںریاستی ملازمتوں سے بے دخل کر دیا تھا اور وہ اس قدرغریب تھے کہ اپنے ہی وطن میں زمین کا ٹکڑا بھی نہیںخرید سکتے تھے۔مسلمان اکثریت غربت میں ہولناک زندگی گزار رہی تھی۔ چیتھڑوں میں ملبوس،جن سے وہ بمشکل ہی اپنا بدن ڈھانپ سکتے تھے اور ننگے پائوں۔ ایک مسلم کسان کا حلیہ ،ریاستی خزانے کے بھرنے والے ایک فرد کے بجاے محض ایک فاقہ زدہ بھکاری ہی کا نظر آرہا تھا،جب کہ ہری سنگھ ہندونواز پالیسی کا علَم بردار تھا۔ جموں کے عوام، خاص طور پر راجپوت ہندووں نے زیادہ تر ملازمتیں حاصل کیں،جب کہ پنڈتوں کو پنجابیوں کی جگہ دفاتر میں کلرکوں کی حیثیت سے بھرتی کیاگیا۔ایک حکم نامے کے ذریعے پنجابیوں کی ہرسطح پر بھرتی روک دی گئی‘‘۔

پنڈت پریم ناتھ بزاز کا کہنا ہے کہ: ’’اس پورے قضیے میں کشمیر ی مسلمانوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، اور نہ کوئی ان سے راے لی جاتی تھی، ملازمت کے دروازے کشمیری مسلمان پر بند تھے۔ انتہائی خستہ حال اور غریب کشمیری مسلمان زیادہ تر کاریگر یا زرعی مزدور تھے۔ سوسائٹی میں ہندو ہونا عزت و توقیر کی علامت تھی۔ مسلمان کوصرف اپنے مذہب کی بنیاد پر حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا‘‘۔ جب ۳۵-اے کا یہ قانون بنایا گیا تھا، تو اس وقت کسی کو مسلم خواتین کے حقوق یاد نہیں تھے۔ ایک صدی بعد انھی کشمیری پنڈتوں نے اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ اب کشمیری مسلمان تعلیم یافتہ اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ یہ قانون جو ایک صدی قبل تک تو ٹھیک نظر آتا تھا ،مگر اب پنڈتوںکی آنکھوں میں کھٹکنے لگا‘‘۔ 
’بھارت کے تکثیری کلچر اور تنوع میں اتحاد‘ جیسے نعرے مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو، اور   ان کے پیروکار، دنیا میںبھارت بیچا کرتے تھے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ ۳۷۰ کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ان کی نیشنل کانفرنس کا کشمیر میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھا :’’ازء ہوند عزت فضء ہوند عزت، ترہت ستت ترہت ستت‘‘ ۔ ازء اور فضء کشمیر میں خواتین کے مقبول نام ہیں۔ اس نعر ے کا مفہوم تھا کہ ’’خواتین کی عزت و آبرو ۳۷۰ میں ہے‘‘۔ شیخ عبداللہ صاحب سے تو میری ملاقات نہیں ہوسکی، تاہم ان کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جب بھی مکالمہ ہوا تووہ آزادی پسند جماعتوں پر طنز یہ جملے کستے تھے کہ: ’’مسلم اکثریتی پاکستان میں ہم کشمیریوں کی انفرادیت کبھی کی ضم ہوگئی ہوتی، جب کہ بھارت کا جمہور ی اور آئینی تکثیری معاشرہ ہی ریاست جموں وکشمیر کی وحدت اور ہماری کشمیری انفرادیت کا ضامن ہے‘‘۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو امیت شا نے پارلیمان کے ایوان بالا، یعنی راجیہ سبھا میں صبح ۱۱بجے کشمیریوں کے تن بدن سے یہ زیرجامہ اُتار کر ان کو سر عام برہنہ کردیا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دُور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بھرے بازار میں میر ی عزت بھی تار تار کر دی گئی ہو۔

دفعہ ۳۷۰، ممتاز قانون دان کی نظر میں

ممتاز قانون دان اور اُمورِ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور جناب اے جی نورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا، کیوںکہ حکومت ہند کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ء میں جموں و کشمیر پر حکومت کے وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔
اے جی نورانی صاحب کے بقول:’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی ’جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالا کرتی ہے‘  انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ اس خلط مبحث کے برعکس کشمیر واحد ریاست تھی، جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ ہندستان میں  ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت اور ریاست کے مطابق آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔ جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔ تاہم، ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی’خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کو پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی۔ جیسے ہی  شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا، وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا، جو افسوس ناک اعتماد شکنی اور بداعتمادی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا‘‘۔

ترکی کی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’سپریم کورٹ میں اس اقدام کو چیلنج کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے دورانیے اور وقت کے لحاظ سے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کی رفتارِ کار کے مشکوک ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مودی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی تمام دفعات کو منسوخ کرتے ہوئے دنیا کو حیران وششدر کر دیا تھا جو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کاضامن ہونے کے علاوہ ہندواکثریت میں اس کی مسلم شناخت کی حفاظت کرنے کا تحفظ بھی کر رہا تھا۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے ساتھ خطے کے پیچیدہ تعلق کی بھی وضاحت کی گئی تھی۔ ان حالات میں اپنی اعتباریت اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر بادی النظر میں بھارتی سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے ‘‘۔
نورانی کے خیال کے مطابق: ’’ان دفعات کی منسوخی نے کشمیری آبادی کی بقا کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کابھارتی اختیار تو ۱۹۵۶ء میں کشمیر کی آئین سازاسمبلی کی تحلیل کے بعد ختم ہو گیا تھا۔خصوصی حالات میں دفعہ۳۷۰ سے مرادجموں وکشمیر کی شناخت کا اظہار تھا کہ جس میں اس کے بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیا گیا تھا۔  اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے ذریعے ہندوقوم پرست حکومت کا مقصد یہ نہیں کہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ متحدکیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری عوام کی شناخت ختم کی جائے‘‘۔
نورانی نے کہا: ’’قانونی لحاظ سے بھارتی پارلیمان کو یہ دفعہ منسوخ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اس مقصد کی خاطرریاست جموںوکشمیر کی آئین سازاسمبلی کی منظوری ضروری تھی۔ریاستی حکومت کی طرف سے کوئی بھی منظوری ہمیشہ سے منتخب اسمبلی کی حتمی منظوری سے مشروط رہی ہے۔ جب ریاست گورنر یا صدر راج کے تحت ہو،کوئی بھی یہ رضامندی نہیں دے سکتا۔ اس لیے مرکزی حکومت اپنے کٹھ پتلی نامزدفرد کے ذریعے یہ منظوری حاصل نہیں کر سکتی اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت جموں و کشمیر پر صدر راج نافذ ہے۔ حالانکہ بھارتی آئین نے از خود یہ وضاحت کر دی ہے کہ ریاستی حکومت سے مراد ریاست میں وزرا کی ایک کونسل ہے۔اور اس وقت تو کشمیرکے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں وزرا کی کسی بھی قسم کی کوئی کونسل بھی موجودنہیں‘‘۔
نورانی صاحب نے مزید بتایا: ’’کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال پر سری لنکا کی سپریم کورٹ کے نومبر ۲۰۱۲ء کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے، جس میں سری لنکا حکومت کا یہ فیصلہ مسترد کر دیاتھا، جسے صوبائی کونسل کی توثیق حاصل نہیں تھی۔ اُس وقت دو درخواستوں کے ذریعے Divineguma Bill کو سری لنکا سپریم کورٹ کے روبرو چیلنج کیا گیا تھا کہ شمالی سری لنکا میں کسی صوبائی کونسل کی غیرموجودگی میں،گورنر نے شمالی صوبے کی طرف سے قانون کی توثیق کی تھی۔ یہ درخواستیں ’تامل نیشنل الائنس‘ نے کی تھیں۔ یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گورنر، صوبائی کونسل کی جگہ اس قانون کی توثیق نہیں کر سکتا‘‘۔

اے جی نورانی کہتے ہیں کہ:’’ آئین کی دفعہ ۲۴۹ کے تحت جاری کردہ ’صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا، اس کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا اور مرکز کے مقرر کردہ گورنر نے اس کی توثیق کی تھی۔ یہ چالاکی لا سکریٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے انعقاد سے کشمیر میں بھارت کے جمہوری دعووں کی قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار ’بلامقابلہ‘منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی ’توثیق‘ کی تھی۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی:’’ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی مبینہ دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی‘‘۔
یاد رہے امیت شا ایک اور منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے براے نام اسمبلی کے لیے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے، اور ساتھ ہی وادیِ کشمیر کی مطلوب نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، جن پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے، تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب ۸۲ نشستیں رہ گئی ہیں۔ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے وقت بتایا ہے کہ: ’’اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی‘‘۔فی الحال ۳۷ نشستیں جموں، ۴۵ نشستیں وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں ۲۴مزید نشستیں آزاد کشمیر و گلگت کے لیے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہیں گی۔ ان میں سے آٹھ نشستیں پاکستان سے ۱۹۴۷ء، ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں آئے ہندو پناہ گزینوں کے لیے وقف کی جائیں گی، تاکہ اسمبلی میں ان کی نمایندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی نظروں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ اس پارٹی نے صوبوں و مرکز کے اختیارات کے تعین کرنے والے سرکاری کمیشن کے سامنے صوبوں کو انتہائی حساس سکیورٹی کے علاوہ بقیہ سبھی اختیارات تفویض کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں جنیوا میں بھارت کے سفیر نے سر ی لنکا کو مشورہ دیا تھا کہ: ’’وہ اپنے آئین کی ۱۳ویں ترمیم کو جلد از جلد لاگو کرکے شمالی سری لنکا میں مقیم تامل ہندو اکثریت کو تحفظ اور پاور فراہم کرے‘‘۔یعنی اورں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت ۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے، اس لیے بھارتی حکمرانوں کے نزدیک انسانی حقوق وہاں لاگو نہیں ہوتے۔ 

چین سے بھارتی سفارت کاری

چین کے عالمی امور میں رویے اور بین الاقوامی میڈیا کی کوریج کی وجہ سے، اپنی تمام تر معاشی قوت کے باوجود سفارتی محاذ پر بھارت ایک طرح سے دبی دبی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ اس لیے اب بھارت کی کوشش ہے کہ ستمبر۲۰۱۹ء میں سرحدی تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں، چین کو کوئی بھاری پیش کش کرے۔ سرحدی تنازعے سے متعلق دونوں ممالک کے خصوصی نمایندوں اجیت دوبال اور چینی وزیر خارجہ وانگ ہی کے درمیان اس ملاقات میں، بھارت ، چین کو بتاسکتا ہے کہ: ’’ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ ۳۷۰کی وجہ سے ہی وہ لداخ خطے میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو سلجھا نہیں پارہا تھا ۔ جموں و کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اب چونکہ بھارتی آئین کی سبھی دفعات کا اطلاق جموں و کشمیر پر ہوتا ہے، نیز لداخ اب براہِ راست نئی دہلی کے زیر انتظام آگیا ہے، اس لیے اب چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کو سلجھانا بھارت کے لیے آسان ہو گیا ہے‘‘۔
 چین کے سابق خصوصی نمایندے دائی بینگو نے ایک عشرہ قبل تجویز پیش کی تھی:’’ بھارت اگر لداخ کے علاقے میں ’اکسائی چن‘ کے دعوے سے دست بردار ہوجائے، تو چین بھی مشرقی بھارت میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ واپس لے سکتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھارت، گلگت اور ’سی پیک‘ کے حوالے سے اپنے اعتراضات کو بھی ختم کرنے پر تیار ہوسکتا ہے، تاکہ اس تجارتی راستے کو چین بھارت تجارت کے لیے برتا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے اور چین، کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف کو لچک دار بناکر بھارت سے مادی مفادات کو دو تین گنا بڑھا لیتا ہے، تو پھر اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان سے چینی تعلقات کا وہ بلند مقام متاثر ہو، جو گذشتہ ۶۰برسوں سے بلند معیار پر چلا آرہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارت کاری کے میدان میں بڑی محنت اور حددرجہ ہوشیاری سے کام لینا ہوگا، جب کہ بھارت پہلے ہی مسلم دنیا میں سفارتی اور مضبوط معاشی پیش رفت کرچکا ہے۔

کشمیر کا مستقبل

آج کشمیر ی قوم کا تشخص اور اس کی انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔ امن عالم کے دعوے دار ایک طرف افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، دوسر ی طرف خطے میں افغانستان سے زیادہ خطرناک ماحول پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم ، فلسطین میں اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔  
ان کے برعکس کشمیر میں تو مقامی مسلمانوں کا مقابلہ ایک ارب ۱۰ کروڑ بھارتی غیرمسلموں کی آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک دلیل یہ بھی دی، کہ: ’’بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں‘‘۔ جب بھارت، برطانوی سامراجی تسلط سے آزادی مانگ رہا تھا، تو ایک بار برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کانگریسی لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا:’’ تم کو آزادی اس لیے چاہیے کہ دبے کچلے طبقوں اور مظلوموں پر حکومت کرکے ان کو دبادو‘‘۔
کشمیر ایک شدید صدمے سے دوچار ہے، اور ابھی شاید ویسے ردعمل کا اظہار نہیں کرپائے گا، جس کی بظاہر توقع کی جارہی ہے۔ یہ ایک پُرفریب آتش فشاں کی سی خاموشی ہے۔ ۱۹۸۷ء کے انتخابی دھاندلی زدہ انتخابات کا بدلہ کشمیریوں نے ۱۹۸۹ء میں چکایا۔ کشمیر میں نئے مزاحمتی کلچر کا آغاز تو ہوچکا ہے، جس میں فکری مزاحمت کا مرکز مظلومیت کے بجاے تخلیقی سطح پریادوں کو اُجاگر کرکے باوقار طور پر اُبھرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰  اور دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کے ساتھ بظاہر کاغذوں میں ریاست جموں و کشمیر تحلیل ہو گئی ہے، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے ، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ ۱۹۸۴ء میں تہاڑ جیل میں پھانسی سے قبل مقبول بٹ نے کہا تھا کہ: ’’میری بے بسی پر مت مسکرائو ، تم اپنی خیر منائو ، کہ ظلم کی سیاہ رات جاتی ہے‘‘۔ اور صرف چھے سال بعد ۱۹۸۹ء میں کشمیر نے کروٹ لی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا!

قائداعظم محمد علی جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے چندجملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار کو سمو دیا۔ لکھتے ہیں:’’دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘ ۔والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔

ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل شروع ہوتاہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی، جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ   محمدعلی جناح غالباً ۱۹۲۶ء اور۱۹۲۸ء کے عرصے میںراولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دورانِ سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پُربہار فضاؤں نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی رُوداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔

۱۹۳۶ءمیں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے، لیکن شیخ محمدعبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔اسی دورے میںمسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کاتفصیل سے ذکر کیا۔

قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے ۲۴گھنٹے جدوجہد کرتا ہے، لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔

 شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے تال میل کی انھیں خبر تھی۔چنانچہ انھوں نے ’مسلم کانفرنس‘ کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک مقبول لیڈر تھے، مگر ان کی راہیں مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھیں۔وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور تائید شروع کی۔ اسی دوران میں ہندستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کش مکش، سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی، جو آج تک برپا ہے۔

۱۹۴۴ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انھیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے [مسلم] لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان، بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہو ا،اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔

قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ۱۹۴۴ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک ۱۸کلو میڑ کا فاصلہ انھوں نے کھلی کار میں طے کیا۔چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا :

جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب ،سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔

اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندستان کے۱۰ کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔

شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا :یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔

سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انھوں نے بہت کوشش کی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ کہ شیخ عبداللہ، قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کو کہیں زیادہ سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان اور پٹھانستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے۔

ممتاز مؤرخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معاً بعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجا ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجا بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔

 اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجا کے اصل ارادوں کا پتا لگانے اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریباً چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے سری نگر سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ ’’مہاراجا پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اور انھوں نے تجویزدی: ’’پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔

کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ۱۳ ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے۔ اس وقت تک گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی زندگی میں گورنر جنرل ہاؤس میںکےایچ خورشید کی اسامی خالی رہی مگر ان کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا، جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انھوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔

ستمبر۱۹۴۷ء کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا، تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔    میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے منیجر     ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر کہ جنھیں پاکستان میں لوگ ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں (جو سلمان تاثیر کے والد تھے) کے ساتھ تبادلۂ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو اَزسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ ان مذاکرات میں   شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے وہ ٹھوس یقین دہانی چاہتے تھے۔تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں۔ بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ مگر پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر  دہلی میںٹھیرائے گئے، جہاں انھوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی اور پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔

چودھری محمد علی [م:۲دسمبر ۱۹۸۲ء] جو ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے، اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Emergence of Pakistan  میں لکھتے ہیں: حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو ۱۵؍اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پُرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی، جسے ضائع کردیا گیا۔

 بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بہ قدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے، جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالآخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوش حالی کو یرغمال بنادیا۔

۲۷؍اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڈ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدود ہوجاتا۔

 جنرل گریسی نے بہانہ بنایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترک کمانڈر انچیف سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا۔  ٹھیک چھے ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں، اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فورسز نے کشمیر کے دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔

چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں: چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔ 

شیخ عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ برس ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کئی بار قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب ِبصیرت رہبر تھے، جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انھیں یاد آتی ہیں۔

فاروق عبداللہ کی اس نوحہ گری پر ۱۰-اورنگ زیب روڑ دہلی میں قائداعظم کی شیخ عبداللہ سے گفتگو یاد آتی ہے، جسے انھوں نے اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں درج کیا ہے:  میں نے   جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں، لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے  کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔  میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی، لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا، جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔

۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر  بے ہوشی کا غلبہ ہوا، اور اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے: ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا… بہت جلد… مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد دو…پاکستان…‘۔

انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow  میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔

اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ 

خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔

پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔

اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔

سری لنکا تامل ناڈواور کشمیر

یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔  تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔

 سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔

بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر  تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ  بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔

جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔

یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔

دستورِ ہند میں دفعہ ۳۷۱ اور ۳۵-اے ختم کرنے کے بعد اگست۲۰۱۹ء سے تاحال وادیِ کشمیر میں محصور کشمیریوں پر بھارتی مسلح افواج کے ظلم کی نئی نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مسلح فورسز کے ہاتھوں مقامی نہتے شہریوں پر تشدد روز کا معمول ہے۔ مختلف دیہاتی باشندے بتاتے ہیں کہ انھیں لاٹھیوں اور موٹی تاروں سے مارا گیا اور انھیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ یہ رپورٹ بی بی سی لندن پر معروف صحافی سمیر ہاشمی نے پیش کی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے جموں و کشمیر کے جنوبی اضلاع میں کم از کم نصف درجن دیہات کا دورہ کیا، جہاں مجھے ان دیہات کے لوگوں کی زبانی راتوں کو چھاپے، مارپیٹ اور تشدد کے بارے میں تفصیلات سننے کو ملیں۔ 'ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے حکام، بیماریوں سے قطع نظر کسی بھی مریض سے متعلق صحافیوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

بی بی سی کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک گاؤں کے رہایشیوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عشروں پرانے انتظام کو ختم کرنے کے متنازعہ فیصلے کے اعلان کے کچھ ہی گھنٹوں بعد بھارتی فوج گھر، گھر پہنچ گئی۔ایک مظلوم نے بتایا کہ میرے جسم کے ایک ایک حصے پر تشدد کیا گیا‘‘۔

دو بھائیوں نے بتایا کہ ’’ہم صبح سویرے اُٹھے تو ہم کو باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا، جہاں گاؤں کے تقریباً نصف درجن مرد شناخت پریڈ کے لیے موجود تھے۔ بھارتی فوجیوں نے ہم سب کو مارا پیٹا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے کہ 'ہمارا قصور کیا ہے؟ لیکن انھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی،اور بس وہ ہمیں مارتے رہے‘‘۔

اپنی رُوداد ظلم سناتے ہوئے ایک فرد نے بتایا کہ ’’انھوں نے ہمارے جسم کے ہر حصے پر شدید ضربیں لگائیں۔ انھوں نے لاتیں ماریں، ہمیں لاٹھیوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے اور تاروں سے مارا۔ انھوں نے ہماری ٹانگوں کے پیچھے مارا اور جب ہم بےہوش ہوجاتے تو وہ ہمیں اٹھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیتے۔ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے اور ہم چیختے تو ہمارے منہ کو مٹی سے بھر دیا جاتا‘‘۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم انھیں کہتے کہ ہم بے قصور ہیں، آپ ہمارے ساتھ کیوں یہ کر رہے ہیں؟ مسلح کارندوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی۔ ہم نے انھیں کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں بس ہمیں گولی ماردیں۔ ایسا کہنے کا سبب یہ تھا کہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا‘‘۔

اس رپورٹ کے مطابق ایک نوجوان نے بتایا کہ ’’سیکورٹی فورسز مسلسل مجھ سے پوچھتی رہیں کہ 'پتھر پھینکنے والوں کے نام بتاؤ۔ میں نے اہلکاروں کو کہا کہ مجھے کسی کا نہیں پتا، جس کے بعد انھوں نے مجھے اپنی نظر کی عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کا حکم دیا۔جب میں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تو انھوں نے مجھے دو گھنٹوں تک ڈنڈوں اور سلاخوں سے بے رحمی سے مارا ،اور جب میں بے ہوش ہوگیا تو مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے‘‘۔

اس نوجوان لڑکے نے کہا کہ’’ 'اگر ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ ظلم دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا کیونکہ میں روز روز کا یہ ظلم اور ذلّت برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔ رُوداد بتاتے ہوئے اس نوجوان نے کہا کہ’’ 'اہلکاروں نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں میں ہرایک کو خبردار کردو کہ اگر کسی نے فورسز کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تو وہ بھی اسی طرح کے نتائج کا سامنا کریں گے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ’’جن لوگوں نے بھی ہم سے بات کی وہ سمجھتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز نے دیہاتیوں کو ڈرانے کے لیے یہ سب حربے اختیار کیے ہیں تاکہ وہ احتجاج سے خوف زدہ رہیں‘‘۔

بی بی سی سے گفتگو کے دوران ایک ۲۰ سال کے نوعمر لڑکے نے کہا کہ’’ فوج نے دھمکی دی کہ اگر میں کشمیری فائٹرز کے خلاف مخبر نہ بنا تو مجھے پھنسا دیا جائے گا۔ لیکن جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو انھوں نے مجھ پر بدترین تشدد کیا کہ دو ہفتوں بعد بھی میں کمر کے بل نہیں لیٹ سکتا۔ اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے ہم کوئی جانور ہیں۔ وہ ہمیں انسان تصور نہیں کرتے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ایک اور شخص نے اپنے جسم پر متعدد گہرے زخم بھی دکھائے اور کہا کہ ’’مجھے زمین پر گرایا گیا اور پھر ۱۵،۱۶ سپاہیوں نے تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا‘‘۔ میں نیم بے ہوش تھا کہ انھوں نے میری داڑھی کو اتنے بُرے طریقے سے کھینچا، جس سے مجھے لگا کہ میرا جبڑا ٹوٹ جائے گا اور میرے دانت باہر نکل کر گر جائیں گے‘‘۔

اس نوعیت کے مظالم ڈھانے کا انداز کچھ اس طرح سے ہے کہ کبھی تشدد اورظلم کا یہ وحشیانہ طوفان ضلع کے ایک حصے میں اُٹھایا جاتا ہے ، اورپھر چند روز بعد کسی دوسرےعلاقے میں یہ درندگی مسلط کی جاتی ہے۔ ان ہولناک واقعات نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے۔ افسوس کہ مسلم اُمت سورہی ہے۔

۲۹دسمبر ۲۰۲۰ء بدھ کی شام کوحسب معمول سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر ایک خبر آئی کہ لاوے پورہ سرینگر’ ہو کر سر‘ میں عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی ہے۔ اورپھر ۳۰ دسمبر کو فوج نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ تین عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد ان مبینہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے پولیس کنٹرول روم کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ تینوں عسکریت پسند نہیں ہیں اور ان کا قتل فوج کی جانب سے جان بوجھ کر کیا گیا ہے ۔ اسی دوران پولیس کا ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں کہاگیا کہ ’’اگرچہ ہلاک شدگان میں کوئی بھی جنگجوئوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن ان میں سے دو نوجوان جنگجوئوں کے معاونین تھے، ہو سکتا ہے کہ تیسرا حال ہی میں شامل عسکریت ہو اہو‘‘۔

ان تینوں کو گھر سے دُور ایک دوسرے ضلع بانڈی پورہ میں دفن کر دیا گیا، جہاں پہلے غیرمقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مرحومین کے لواحقین تا دمِ تحریر احتجاج اور مطالبہ کررہے ہیں کہ’’ہمارے بچوں کو جُرم بے گناہی میں مارا گیا ہے۔ان کی لاشیں ہمیں واپس کی جائیں تاکہ ہم اسلامی طریقے سے ان کی تدفین عمل میں لائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ان نوجوانوں میں سے اطہر کے والد نے اپنے مقتول بچے کی قبر خود کھود رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جب تک میرے ۱۶سالہ اکلوتے بیٹے کی نعش نہیں ملتی تب تک میں انتظار میں رہوں گا۔

اس جھڑپ کے حوالے سے پوری وادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ پہلے بھی یہاں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کومار کر گمنام قبروں میں دفن کردیا گیا، جن میں سے چند بے گناہوں کی بے گناہی بھی ثابت ہوگئی ہے جس کی مثال ۲۰۱۰ء میں مژھل فرضی جھڑپ ،۲۰۲۰ ء میں شوپیاں میں تین معصوموں کا قتل اور ۲۰۰۱ء میں پتھری بل فرضی انکاؤنٹر شامل ہیں ۔۲۰۱۰ء میں بھی اسی طرح کی ایک فرضی کہانی گھڑی گئی، جس میں ۳۰؍اپریل۲۰۱۰ء کو ریگولر آرمی کے چار راجپوت یونٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا‘‘۔ حالاں کہ واقعہ یہ تھا کہ مژھل سے دُور دوسرے ضلع بارہمولہ کے نادی ہل علاقے میں تین نوجوان (شہزاد احمد خان ، ریاض احمد لون اور محمد شفیع لون) اچانک غائب ہوگئے، یا غائب کردیے گئے۔ اُن کے گھر والوں کو اُن کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ۱۰مئی کو گھر والوں نے تینوں نوجواان کی گمشدگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لئے احتجاج بھی کیا۔ اس احتجاج سے پولیس کے کان کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اس کیس میں دل چسپی لینی شروع کردی اور گھر والوں سے پوچھ گچھ کر کے اس بات کا سراغ لگا لیا کہ نوجوانوں کا اغوا ہوا ہے۔تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس کے سامنے ایک مقامی سابق اسپیشل پولیس افسر پر شک ظاہر کیا اور مذکورہ ایس پی اونے پولیس والوں کے سامنے اعتراف کیا کہ ان تینوں نوجوانوں کے اغوا میں اُس کا ہاتھ ہے ۔اس کے بعد اس کہانی میں ایسی باتیں اخبارات میں سامنے آئیں، جن سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح سے ایک انسان ’انعام‘ کی خاطر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل کرنے سے گُریز نہیں کرتا اور پھر بارہمولا سے مژھل سیکٹر میں ان کو گولی مار کرقتل کردیا گیا۔

اسی طرح کا ایک اور فرضی انکاؤنٹر ۲۰۲۰ء میں شوپیان میں رچایا گیا، جس میں راجوری کے تین معصوم نوجوان مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد فوج نے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے تین پاکستانی دہشت گردوں کو مار گرا یا اورجن سے فلاں فلاں قسم کے ہتھیار بھی ضبط کیے گئے ہیں۔ اس درد انگیز کہانی کا تذکرہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ ’’۱۸؍جولائی کی رات کو کیپٹن بوپیندر سنگھ عرف میجر ’بشیر احمد خان‘ اور دو مقامی افراد تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کے خلاف ۱۴۰۰ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ شوپیان سیشن کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چارج شیٹ میں پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ۱۸ جولائی کی رات کیپٹن بوپیندر سنگھ نے ان دو مقامی افراد کی مدد سے چوگام علاقے سے راجوری کے تین نوجوانوں کو اُن کے کرائے کے گھر سے اغوا کیا۔ اس کے بعد دلی کے نمبر پلیٹ والی کار میں ان تینوں نوجوانوں کو بٹھا کرامشی پورہ، شوپیاں لے جایا گیا۔ جہاں ایک باغ میں ان تینوں کو کیپٹن نے پیچھے سے گولیاں مار دیں۔ اس کے بعد ان نوجوانوں کی نعشوں پروہ ہتھیار بھی رکھے گئے جو وہ گاڑی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔تب کیپٹن نے انھیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ پھر انھیں بارہمولہ کے گانٹھ مولہ کے قبرستان میں دفنایا گیا جہاں عموماً غیر مقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا ہے ( واضح رہے کرونا وائرس کی بیماری پھوٹنے کے بعد سے اب تک مقامی عسکریت پسندوں کو بھی غیرمقامی قبرستانوں میں دفن کیا جا رہا ہے)۔

 اس فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت بعد میں ابرار احمد ۱۶سال، امتیاز احمد۲۵سال اور ۲۰سالہ محمدابرار کے طورپر ہوئی تھی، جو ایک روز قبل ہی راجوری سے شوپیاں مزدوری کے لیے آئے تھے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد چونکہ ان تینوں نوجوانوں کا رابطہ گھر والوں سے منقطع تھا، تو ان کے لواحقین نے مقامی تھانے میں ایک رپورٹ درج کرائی اور میڈیا میں بھی یہ خبر پھیل گئی جس کی وجہ سے ان کے لواحقین چند ثبوتوں کی مدد سے انتظامیہ پر دبائو ڈانے میں کامیاب ہوگئے اور تب انتظامیہ نے مکمل انکوائری کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد شوپیاں پولیس نے مقتولین کے رشتہ داروں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے تو ان کے ڈی این اے ان تینوں نوجوانوں سے جاملے پھر کہیں ان کی قبر کُشائی کی گئی اور اُن کی میتیں وارثوں کو سونپی گئیں۔

کشمیر میں اسی ’افسپا‘ کی آڑ میں کئی عشروں سے فرضی انکاؤنٹر ہوتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء میں پتھری بل میں بھی ایک فرضی انکاؤنٹررچایا گیا، جس میں پانچ بے گناہ افراد کو اسی کالے قانون کی آڑ میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔یہ ایک ایسا وحشی قانون ہے جس نے کشمیر کے ہزاروں گھر برباد کر دیے، ہزاردں بچوں کویتیم کر دیا اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے سہاروں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔اسی قانون کی آڑ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بڑے الم ناک ریکارڈ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوگئے۔

اس صورتِ حال کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اُتارکر شہرت اور تمغے حاصل کرنے کا یہ ایک نشہ ہے، جس کو فوجی ’افسپا‘ کو استعمال کر کے ایسے گھنائونے واقعات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور معروف ماہر قانون کا کہنا ہے کہ آئے روز کے فرضی انکاؤنٹر کشمیر میں مزاحمتی تحریک کو عبرت کا نشان بنانے کی ایک کوشش ہے۔بہر حال معصوم انسانوں کا قتل کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہے وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی ذات اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہو۔ ۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے تسلیم کیا کہ ’افسپا‘ قانون کے تحت سب سے زیادہ خلاف ورزی جموں و کشمیر میں ہوتی ہے ۔۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارت دفاع نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں کہا کہ پچھلے تین عشروں میں وزارت نے کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کارروائی کا کوئی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔

یاد رہے ’افسپا‘ بھارت میں اس وقت جموں و کشمیر کے علاوہ شمال مشرق کی چھے ریاستوں میں بھی لاگو ہے ۔یہ قانون شورش زدہ علاقوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔جموں وکشمیر میں ۱۹۸۹ء میں شروع ہونے والی عسکری تحریک کے بعد اسے یہاں لاگو کیا گیا۔یہ ایک ایسا کالا قانون ہے جس کے تحت بھارتی فوج جموں وکشمیر میں کسی بھی جگہ آپریشن انجام دینے کے علاوہ کسی بھی شخص کو شک کی بُنیاد پر بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔ اس قانون سے کشمیر میں فوجیوںکو انسانی جانوں سے کھیلنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں جتنی بھی زیادتیاں یا فرضی انکاؤنٹر انجام پاتے ہیں اس سب کے پیچھے یہی کالا قانون ’افسپا‘ ہے، جس کو بھارتی فورسز ڈھال کے طور پر استعمال میں لاکر زیادتیوں کی مرتکب ہورہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور انسانی حقوق کی علَم بردار عالمی تنظیمیں، کشمیر میں اس قانون کے تسلسل و تواتر پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانش ور بھی اس قانون کو جمہوری اور انسانی اقدار کے خلاف قراردے چُکے ہیں۔

 جتنا جلد ہو سکے اس کالے قانون کو جموں و کشمیر سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ جو کوئی بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف عبرتناک کارروائی کی جانی چاہیے، تب نوجوانوں کا بے گناہی کی پاداش میں اپنی انمول زندگیوں سے ہاتھ دھونا بند ہو سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے معاملات میں اگرچہ تحقیقات وغیرہ کی باتیں دہرائی جاتی ہیں، مگر عملاً وہ وقت گزاری کا بہانہ ہیں۔