اخبار اُمت


حالیہ عرصے میں کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سویلین افراد کی ہلاکتوںکا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک ۲۸؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں گیارہ غیرمسلم ہیں۔ ان میں تین کشمیری پنڈت، ایک سکھ خاتون اور دیگر غیر کشمیری مزدور ہیں۔ وادی کشمیر میں ہرسال بھارت کے مشرقی صوبہ بہار سے تین لاکھ کے قریب مزدود کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ان میں سے ۱۰ سے ۲۰ہزار تک واپس چلے گئے ہیں۔

۱۹۹۰ میں عسکری سرگرمیوں کی ابتداء میں ہی کشمیری ہندوؤں جنھیں ’پنڈت‘ کہا جاتا ہے، کی ایک بھاری تعداد نے جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۶۰ہزار خاندانوںنے ہجرت کی تھی۔ ان میں ایک لاکھ ۳۵ہزار ہندو،۱۲ ہزار ایک سو۲۱ سکھ، ۶ہزار۶سو۶۹ مسلمان اور ۱۹دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔بھارت میں لیڈران اور صحافی ان اعداد و شمار کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تقریباً ۸۰۰کے قریب پنڈت خاندانوں نے وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں نے  پورے بھارت میں ایک طوفان سا برپا کردیا ہے۔

بھارت کے کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں، کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو ایک بھارتی خفیہ افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سید علی شاہ گیلانی زندہ اور سرگرم ہوتے، تو اس طرح کی ہلاکتوں کی وہ فوری طور پر روک تھام کرلیتے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی طبقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟

اگرچہ ان تمام مقتدر افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرکے اکثریتی طبقے کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی ہے، مگر و ہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کے لیے اننت ناگ میں ۷؍ اکتوبر کو ریاستی آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان کے لیے کسی ہمدردی کا ایک لفظ موجود نہیں ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد پرویز خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا ۔ ان کے والدین کو اس کی لاش پر آنسو بھی بہانے نہیں دیئے گئے ۔ کشمیر کی سبھی جماعتیں ، کشمیری پنڈتوں کی وادیِ کشمیر میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ مگر اس دوران جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اب اکسایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ پچھلے کئی ماہ سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انھوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو ریاست کو جارحانہ انداز سے بھارتی یونین میں ضم کرنے اور بعد میں کووڈ وباء کے نام پر جہاںتما م بڑی مساجد اور درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی ، وہیں ۱۵؍ اگست کی بھارت کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر مقامی آبادی کا سوالات اٹھانا لازمی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ خاتون کے قتل کی وجہ سے کشمیر میں اضطراب تو ہے ہی، مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے مسلمانوں کی زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔

اسی سال مارچ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ کے نام سے جب کشمیر کا دورہ کیا، تو وہاں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے ان سے اس خدشے کا اظہارکیا تھا: ’’ بھارت میں عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر بھارت میں ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے شہریوں پرجو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور جس طرح نریندرا مودی کی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ، ا س پر ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اُوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے بااثر طبقے نے ، جو ہندو انتہاپسند گروپ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (RSS)کے ایک بازو کے بطور کام کرتا ہے، اس پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ وہ کشمیر کو بھول کر مذہبی اور نسلی تقسیم کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے‘‘۔ آخر مبینہ طور پر چند مجرموں کے انسانیت کش اقدام کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی فوجی، سیاسی اور انتظامی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔

اب ہم ذرا پیچھے جاکر ۱۹۹۰ء کو ہی یاد کرلیں۔جھیل ولرکے مغربی سرے پر واقع وادیِ کشمیر کے سوپور قصبہ سے دریائے جہلم نئی آب وتاب کے ساتھ جھیل ولر سے نئی توانائی لے کر اپنا سفر پھر شروع کرتا ہے۔پرانے شہر میں برلب دریا میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے متصل میرے محلے کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح، کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں طبقے مل جل کر رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے مشرقی سرے پر جامع قدیم میں آسودہ حال پنڈت آباد تھے۔   ان میںاکثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے، جو سردیوں میں جموں منتقل ہوجاتے تھے۔ مگر مغربی سرے پر صوفی حمام محلہ میں جو پنڈت رہتے تھے، وہ ہمسایہ مسلمانوں کی طرح ہی پس ماندہ اور معمولی درجے کے ملازم تھے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ عسکریت پسندی پر کسی مرکزی کنٹرول کے نہ ہونے کے باعث، بعض غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد تو تحریک آزادی سے وابستگی کے بغیر محض کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت پسندوں میںشامل ہوگئے۔ حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری گروہ متحرک تھے۔

اس الائو کو مزید ہوا دینے میں بھارتی سرکار کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ محض کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ۳۰ برسوں میں ۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔مگر اسی دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں۱۵۰۰ کے قریب غیرپنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان افسوس ناک واقعات کے باوجود ان خطوں میں آبادی کا انخلا نہیں ہوا۔

جموں و کشمیر میں گورنر جگ موہن نے حالات ہی ایسے پیدا کردیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ یادرہے جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا کہ ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ سردیوں کے آتے ہی دارالحکومت سری نگر سے جموں منتقل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس بار سردیوں میں جونہی دارالحکومت جموں منتقل ہوا‘ میرے محلے کے اطراف کے آسودہ حال ہندو بھی معمول کے مطابق جموں چلے گئے۔ مگر صوفی حمام کے ہندو وہیں مقیم رہے۔ ایک د ن بھارت کی نیم فوجی تنظیم ’انڈیا تبت بارڈر پولیس‘ (ITBP) کے ایک کمانڈنٹ مقامی پولیس افسران کے ساتھ محلے میں آئے، اور پنڈتوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیا۔ مگرپنڈتوں نے کمانڈنٹ سے کہا کہ ’’ہماری سکیورٹی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے پڑوسی (مسلمان) ہی ہماری سکیورٹی ہیں‘‘۔ محلے کے مقتدر افراد نے بھی افسر کو یقین دلایا کہ ’’اقلیتی افراد کی حفاظت کرنا ان کافرض ہے اور وہ یہ فرض نبھائیں گے‘‘۔

مگر دو دن بعد ہی آدھی رات کے لگ بھگ لائوڈ سپیکروں سے کرفیو کا اعلان ہو گیا۔ سڑک پر فوجی بوٹوں کی ٹاپوں اور ٹرکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پنڈت مکانوں سے بھی چیخ پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ گھپ اندھیرے میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ لگ یہی رہا تھا کہ شاید فوجی آپریشن شروع ہو گیا ہے۔ اسی دوران میں گلی میں کوئی سایہ نمودار ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا۔ میرے والد نے دروازہ کھولا تو سامنے ان کے دیرینہ بے تکلف پنڈت دوست اور آفس کے ساتھی امر ناتھ بھٹ کہہ رہے تھے کہ ’’نیم فوجی تنظیم کا افسر پورے لائو لشکر اور ٹرکوں کے ساتھ وارد ہو ا ہے، اور سبھی پنڈت برادری کو جموں لے جارہا ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند روز کے اند ر کوئی بڑا آپریشن ہونے والا ہے۔ہوسکتا ہے کہ فضائی بمباری بھی ہو‘‘۔ امرناتھ بضد تھا، کہ ہم بھی اس کے ساتھ منتقل ہوجائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اس سلسلے میں افسر سے بات کی ہے‘‘۔ مگر جب میرے والد نے انکار کیا، تو امر ناتھ نے میرا ہاتھ پکڑکر ’’میرے والد سے فریاد کی کہ 'اگر تمھیں مرنا ہی ہے، تو کم از کم اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ روانہ کردو‘ اسے تو زندہ رہنے دو‘‘۔ مگرمیرے والد کے مسلسل انکار کے بعد امر ناتھ روتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگیا۔ اگلے دن صبح یہ عقدہ کھلا ، کہ پوری پنڈت برادری کو ٹرکوں میں ساز و سامان کے ساتھ زبردستی بٹھا کر جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ امرناتھ کا اب انتقال ہوچکا ہے‘ مگر میرے والد جب تک دہلی میں میرے پاس آتے رہے، وہ راستے میں جموں میں ٹھیر کر امرناتھ کے پاس ضرور رُکتے تھے۔

بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کا ایک بااثر حلقہ جہاں کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر اکثریتی طبقہ کے جذبات واحساسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے مخصوص بندوق بردار جب ’تائب‘ ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سرآنکھوں پر بٹھایا۔کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پراب کھلے عام ’ہوم لینڈ‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ’’پنڈت ہوم لینڈ کے لیے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیحدہ ہوگا‘‘۔ ان کے بعض بااثر لوگ برملا کہتے ہیں کہ ’’تین فی صد آبادی ۹۷فی صد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لیے پنڈتوں کے لیے الگ سے ’سمارٹ زون‘ بنایا جائے‘‘۔

کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر [م:۱۶۰۵ء]نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک [م:۱۵۹۲ء] کو قید اورجلا وطن کیا، تو اگرچہ مغل حاکم مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے مغلوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے انھیں اْبھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔

 بقول شیخ محمد عبداللہ ’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق ’’مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دُور رکھا گیا‘‘۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابلِ اعتماد ضمیرفروش، گھر کا بھیدی طبقہ پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند، مگرپنڈتوں کے لیے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگرانِ اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہی بالا دستی اورنگ زیب تک کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر و رُسوخ تھا۔

افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ہندو ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’ در‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاوٗکشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک۱۹کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بُننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی بھرمار نے ۱۸۶۵ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دْنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔

بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ’’ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسایش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کیں، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علاحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کیے۔ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈا کیا کہ  یہ دراصل ہندو مہاراجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو ’کشمیری مسلمان بنام پنڈت‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’روٹی ایجی ٹیشن ‘ شروع کی۔ انھوں نے مہاراجا کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ ’’کولگام علاقے میں ہمارے لیے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے‘‘۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو کشمیری پنڈت آج کل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’ پنن کشمیر ‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجا کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔اسی مہاراجا نے ۱۹۴۷ءمیں قبائلی حملوں سے خوف زدہ ہوکر رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنھوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔

پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا۔ سبھی گاؤں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔

 خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ندامت سے میرے پاوٗں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے اور کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ مگراس کے باوجود مسلمانوں نے پنڈتوں کے لیے اس حفاظتی طرزِعمل کو اختیار کیا جس پر گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا مگر کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی‘‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا ’گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جو نہ تو پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ کشمیر کی اکثریت کے لیے بہتر ہے، جس اکثریت نے پنڈت اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند، اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا، یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا، جو اکثریتی شاہراہ سے قدرے دور رہا۔اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کے لیے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے ففتھ کالم کا کردار ادا کرکے انھوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زِک پہنچائی۔ چند کشمیری پنڈتوں کو چھوڑ کربلعموم انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا کندھا پیش کرکے سبھی کا نقصان کیا ہے۔جس نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔

پنڈتوں کو اپنا دامن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ آخر ان میں اور مسلمانوں دونوں کے درمیان نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ جس کی وجہ سے آج کشمیر آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔وہ تو فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزاررہا ہے۔

اگست ۲۰۱۹ء کو بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئے گی اور نظم و نسق بہتر ہو جائے گا۔ مگر یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔انتہائی جدید ٹکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود حکومت مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ حکومت اسے ایک سلامتی کے مسئلے کے طور پر پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا کشمیر کے سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ حکومت کشمیر میں ایک قبرستان جیسی خامشی پیدا کر نے میں کامیاب تو ہوئی ہے، مگر مُردوں کو بھی زیادہ دیر تک خاموش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ کب تک معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھیں گے؟ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں؟ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف مسئلہ کا دیرپا حل نکل سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں یقینا جموں و کشمیر کے تمام شہری ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے۔

مغرب ایک بار پھر افغان بحران کے بارے میں اپنے تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ یہ مضمون ماضی اور حال کی ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ طالبان کی قیادت سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔

افراتفری کے عالم میں افغانستان سے ہونے والے امریکی فوجی انخلا کی اڑائی گئی دھول اب بہت حد تک بیٹھ چکی ہے۔اس کا آغاز اس ناقص امریکی پیش گوئی سے ہوا کہ وہاں پر اشرف غنی کی حکومت کم ازکم اٹھارہ ماہ تک توطالبان کو کابل میں داخل نہیں ہونے دے گی، اور اختتام اس ڈرون حملے پر ہوا، جس میں دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے ایک معصوم افغان شہری کو بچوں سمیت ہلاک کیا گیا۔

امریکا اور نیٹو پر طویل عرصے سے گہری نظر رکھنے والے مبصرین کے لیے اس بات میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ انخلا کے حوالے سے باربار نئے شیڈول کا اعلان کیوں کرتے رہے اورپھر اپنے ہی دیے ہوئے اوقات میں تبدیلی پر اصرار کیوں کرتے تھے؟ افغانستان کے بارے میں اعداد و شمار و معلومات کا بڑا ذخیرہ جمع کرنے اور وسیع پیمانے پر تجزیہ کاروں ،سہولت کاروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) اپنے دشمن کی پیش قدمی کی نوعیت کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

القاعدہ کی واپسی

کابل سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس (Ben Wallace) نے اعلان کیا کہ ’’افغانستان ایک بارپھر خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ افغانستان کی بکھری ہوئی تاریخ اور طالبان کی جنگجویانہ فطرت اس بات کے اشارے دے رہی ہے کہ شاید القاعدہ ایک بار پھر واپس آجائے‘‘۔ سابق امریکی سفیر ریان کروکر(Ryan Crocker)، امریکی ری پبلک پارٹی کے سینیٹر لینسے گراہم (Linsey Graham) اور بہت سے دیگر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی زبان سے بھی انھی خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر   سی آئی اے ڈیوڈ کوہن اورڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس اسکاٹ بیرئیر نے بھی انھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’القاعدہ اگلے چند برسوں میں امریکا پر ایک اور حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے اور افغانستان میں اس کی نقل و حرکت کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں‘‘۔

اس طرح کے پے درپے بیانات افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کے بارے میں فرسودہ سوچ اور خیالات پر مبنی ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ القاعدہ کو صرف افغانستان تک ہی محدود کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ۲۰۰۱ء کے بعد القاعدہ کو افغانستان کے علاوہ کئی ممالک میں پروان چڑھنے کے مواقع ملے، خاص طورپر ان ممالک میں جہاں امریکی بمباری اور مہمات کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہوئیں اور عوام میں امریکا کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا ہوا مثلاً عراق، یمن اور لیبیا وغیرہ۔ ان ممالک میں امریکی موجودگی اوراس کی پُرتشدد کارروائیاں ہی ان تنظیموں کے لیے عوام میں حمایت پیدا کرتی رہیں۔ درایں اثنا، داعش (ISIS) جیسی انتہا پسند تنظیموں نے تو القاعدہ کو امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کی اہمیت اور صلاحیت رکھنےکے باوجود بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

ان کے برعکس طالبان نے بہت سے مواقع مہیا ہونے کے باوجود افغان سرحدوں سے باہر اپنی جنگ لڑنے کی طرف کوئی جھکائو ظاہر نہیں کیا اور وہ افغانستان میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرکے ایک طرح سے امریکی افواج کے ساتھ خاموش تعاون بھی کر رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں دُنیا کی کوئی بھی حکومت اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ اس کا کوئی بھی شہری کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی حملے میں ملوث نہیں پایا جائے گا۔افغانستان میں پُرامن نظم قائم کرنے میں طالبان کی واضح دلچسپی کو سنجیدہ نہ لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کابل ہوائی اڈے پر داعش کا اندوہناک حملہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ طالبان حکومت پراعتماد کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں داعش اور اس نوعیت کی دیگر تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کریں۔

طالبان میں دھڑے بندی

طالبان کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’وہ اندر سے متحد نہیں اور کسی بھی وقت متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے‘‘ ،غلط فہمی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اشتراکی روس کے قبضے کے خلاف منقسم مجاہدین گروہوں کی شورش اور طالبان جدوجہدکے درمیان مشابہت تلاش کرنا کسی طورپر درست نہیں۔ مغرب اس طرح کے غلط دعوے کئی بار دہراتا رہا ۔خاص طورپر اوباما کی صدارت کے دوران سنجیدہ مذاکرات سے بچنے کے لیے اس دعوے کوبہانے کے طورپر استعمال کیا گیا کہ’’ طالبان قیادت کا اپنے کمانڈروں پر کوئی کنٹرول ہی نہیں تو ہم مذاکرات کس سے کریں؟‘‘ اس طرح کے مفروضوں کی وجہ سے ہی اوباما حکومت کبھی مذاکرات شروع کرتی اور کبھی ختم کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی جاری رکھتی ۔ اپنے مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لیے امریکی کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ کمانڈروں کے درمیان اختلاف اور تقسیم پیدا کرکے انھیں انفرادی طورپر ختم کیا جائے، لیکن اس سلسلے میں انھیں نہ کوئی پائیدار عسکری فائدہ ہوا اور نہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل ہو سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ طالبان کئی برسوں سے مشاورتی قیادت اور طاقت کے متعدد مراکز کے ساتھ ایک مربوط مزاحمتی تحریک کے طورپر کام کررہے تھے۔بعض اوقات ان کے درمیان کشیدگی اور پُرتشدد کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، لیکن مجموعی طورپر طالبان تحریک نے ان تنازعات سے نمٹنے اوراپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کی صلاحیت ظاہر کی۔امریکا کے ساتھ امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے گذشتہ سال اس ہم آہنگی اور اندرونی نظم و ضبط کا شان دار مظاہرہ کیا گیا۔اپنے عوامی وعدوں کے مطابق انھوں نے افغان حکومت کے ساتھ بھی امن مذاکرات کا آغاز کیا اور ان کی افواج پر حملے بھی جاری رکھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے افغان فورسز کے ٹھکانوں کو داعش کے حملوں سے بچانے کے لیے سیکورٹی کا ایک حلقہ بھی قائم کیے رکھا۔

اس سال موسم گرما میں طالبان کی انتہائی مربوط فوجی مہمات کا اگر ۱۹۸۹ء میں سویت انخلا کے بعد کی مجاہدین کی مہم سے تقابل کیا جائے تو ان میں ایک بڑا واضح فرق نظر آئے گا۔مجاہدین اپنی انتہائی کوشش کے باوجود جلال آباد پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی اس ناکامی نے صدر نجیب اللہ کی غیر مقبول کمیونسٹ حکومت کو اگلےتین سال تک زندہ رہنے کے قابل بنا دیا تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری انتہا پر جا کر یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ طالبان مکمل طور پرایک متحد فورس ہیں۔ تحریک میں ہمیشہ ڈھیلی ڈھالی مرکزیت اور انفرادی کمانڈروں کی ایک حد تک خودمختاری پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ طالبان کے جنگی ضابطۂ اخلاق میں بھی ناہمواری پائی جاتی رہی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ ان کی لیڈرشپ نے تحریک کے لیے ایک واضح سرخ لائن اور اپنی پالیسیوں کے اردگرد ایک اتفاق رائے قائم کررکھا تھا۔ مجموعی طورپر تحریک بڑے پیمانے پران پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔

طالبان کی فتح میں غیر ملکی کردار

انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس(ISAF) اور افغان حکومت کئی برسوں کی ناکامیوں کے ساتھ ہمیشہ ’پاکستان کوقربانی کا بکرا بنانے‘ کے بیانیے پر قائم رہے اور یہ الزام عائد کرتے رہے کہ ’پاکستان طالبان کو مدد فراہم کرتا ہے‘۔ بغاوت اور رد بغاوت کی تاریخ کے طالب علموں کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ حکومتیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے مزاحمت اوربغاوت کرنے والے گروہوں کی کارروائیوں کو باقاعدگی سے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، ان کا تعلق غیر ملکی ایجنسیوں اور پشت پناہوں سے جوڑتی رہتی ہیں ۔

امریکا کی نظر میں ویت نام کے حُریت پسند ’ویت کانگ‘ اشتراکی روس اور شمالی ویت نام کے کٹھ پتلی تھے۔ فرانس کی نظر میں الجزائر کے قوم پرست مصر اور اشتراکی روس کے کٹھ پتلی تھے۔ اشتراکی روس کی نظر میں مجاہدین امریکا اور پاکستان کے کٹھ پتلی تھے اور آج امریکا، مغرب اور بھارت کی نظر میں ’طالبان پاکستان کے کٹھ پتلی ہیں‘۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہرگروہ کو کسی نہ کسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے اورطالبان کو صرف پاکستان ہی نہیں خطے کی دیگر طاقتوں مثلاً ایران، چین، روس اور کئی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جنھوں نے گذشتہ عشروں میں طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے اور اس کے ساتھ امریکا ،اس کے اتحادیوں اور افغان حکومت کی حمایت بھی جاری رکھی۔ ہتھیار اور مالی معاونت، بلیک مارکیٹ میں ہر کسی کو ریاستی یا غیر ریاستی مدد کے ذریعے میسرآجاتے ہیں، لیکن طالبان کے ہتھیاروں اورفوجی سازوسامان کا سب سے بڑا ذریعہ خود افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی فورسز کا چھوڑا یا اُن سے لُوٹا اسلحہ ہی رہا ہے۔ نیٹو فورسز کواپنی ناکامی کا ملبہ غیر ملکی ایجنسیوں پر ڈالنے سے قبل اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ اگر غیر ملکی حمایت ہی فتح میں فیصلہ کُن کردار ادا کرسکتی، تو پھر افغان حکومت کو فتح سے ہم کنار ہونا چاہیے تھا کیونکہ انھیں طالبان کی نسبت بہت بڑے پیمانے پر بیرونی فوجی اور مالی حمایت حاصل رہی لیکن اس کے باوجود وہ چند روز تک بھی طالبان کے سامنے ٹھیر نہیں سکے۔ بُری طرح شکست کھاکر اپنے انجام کو پہنچے۔

بیرونی حمایت دودھاری تلوار کی مانند ہوتی ہے۔ دوسروں پر انحصار کرنے والی باغی تحریک یا حکومت، نہ صرف اپنی مزاحمتی اور عسکری صلاحیتیں کھو دیتی ہے بلکہ بیرونی امداداسے مقامی قوت کے طورپر غیر اہم بنانے کی بھی بھاری قیمت چکاتی ہے۔ افغان حکومت کو اپنےبجٹ کا چار یا پانچ گنا بیرونی امداد کے ذریعے حاصل ہوتا رہا۔ یہ حکومت طالبان کی نسبت کئی گنا بڑی فوج اوربیوروکریسی چلا رہی تھی، جسے یہ صرف اپنے اوپر انحصار کرکے چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اس سارے پاور شو کو چلانے والے افسران کی ناکامی نے یہ ثابت کیا کہ وہ طالبان کی نسبت بیرونی امداد پر کہیں زیادہ انحصار کرتے تھے۔

جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، اس بات کا صحیح طورپر اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ وہ افغانستان میں مقامی طوپر عوام میں کس قدرمقبول ہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ کئی شہروں میں جب وہ داخل ہوئے تو لوگوں نے انھیں خوش آمدید کہا ، افغان فوجی اہل کاروں نے بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈالے اور بہت سےشہر بغیر لڑائی کے فتح ہوگئے اور ابھی ان کی حکومت کو کابل کی سابقہ حکومت پر بھی ترجیح دی جارہی ہے۔ طالبان کے اس بیانیے نے بھی بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی کہ غیر ملکی طاقتوں کے بل بوتے پر کابل میں ایک بدعنوان حکومت مسلط تھی۔ ان حکومتی عناصر نے ’غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر پورے ملک میں ایک ایسی جنگ مسلط کی، جس سے افغانستان کی اسلامی اقدار، ثقافت، یکجہتی ،خودمختاری اورسالمیت کو بری طرح نقصان پہنچا۔ طالبان کے بیانیے نے ان لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، جنھوں نے برطانوی حملوں کی تاریخ پڑھی تھی،جو اشتراکی روسی قبضے سے بُری طرح متاثر ہوئے تھے اور جو ۲۰۰۱ء میں نیٹو افواج کے قبضے کے بعد ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی طالبان بیانیے کی حمایت کی، جنھیں خود یا ان کے رشتہ داروں کو نیٹو فضائی حملوں میں نقصان پہنچا، جنھوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں یا جوآئے روز سرکاری افسران کی بدعنوانی اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہے۔

پچھلے بیس برسوں میں نظر آنے والے بے شمار عسکری گروہوں میں سے طالبان وہ واحد گروہ ہے، جنھوں نے اپنے بیانیے کا قابل اعتماد طریقے سے دفاع کیا اور اس کی خاطر بےشمار قربانیاں پیش کیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ انھیں ذہنی اور مالی کمک فراہم کرنے کے لیے بے شمار ہمدرد میسر آتے رہے اور میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کے خلا کو پر کرنے کے لیے نیا جوان خون بھی میسر آتا رہا۔

جلدبازی اور افراتفری میں امریکی انخلا

افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن کو ری پبلکن پارٹی، جنگ کے حامی ذرائع ابلاغ، امریکی خارجہ پالیسی اور مسلح امریکی افواج اور برطانیہ جیسے اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔بائیڈن حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ’انھوں نے فوجی انخلا افراتفری کےماحول میں کیا اوراسے مشروط نہ بنا کر امریکی فوج اور اتحادیوں کی قربانیوں کو ضائع کیاجو قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے‘۔ لیکن دوسری طرف یہ ناقدین اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ انخلا کب انجام پذیر ہونا چاہیے تھا؟اس کا صحیح وقت اور شرائط کیا ہونی چاہیے تھیں؟جس انخلا کو جلد بازی کا نام دیا جا رہا ہے، اس کاآغاز تو ۲۰۱۴ء میں ہوا، جب آئی ایس اےایف کی اکثریت افغانستان سے نکل گئی۔فوجی انخلا کا یہ سلسلہ امریکی صدربارک اوباما کی طرف سے کیے گئے بے مقصد اضافے کے پانچ سال بعد شروع ہوا تھا۔ ۱۰،۱۵ ہزار فوج جو افغانستان میں رہ گئی تھی، اور اس کا مقصد طالبان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کرنا تو نہیں تھا بلکہ اس کا بڑا مقصد تو افغان سیکورٹی فورس کی مدد اور تربیت کرنا تھا، تاکہ اس میں خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ لیکن پچھلے سات برسوں میں بھی یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔

آئی ایس اے ایف مشن پر ہونے والی ایک تحقیق نے اپنا نتیجہ ان الفاظ میں بیان کیا کہ '’اصل تجزیاتی مسئلہ اس بات کی وضاحت ہے کہ ۲۰۰۱ءکے بعد کی کوششیں ایسے راستے پر کیوں قائم رہیں، جو افغان ریاست کو دوسروں پر انحصار کرنے کی طرف لے جارہا تھا …ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان کے حوالے سے جس مشن کا حصول مقصود تھا، بالکل وہی مشن حاصل کر لیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں افغانستان میں مغربی طاقتوں کی سیاست اورسفار ت کاری میں تیزی سے تبدیلی آئی، حالانکہ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ افغانستان کی ریاست کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاتا، مگر اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔

صدر بائیڈن اپنے اس دعوے میں بالکل درست ہے کہ ’انخلا کے فیصلے میں تاخیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوتا‘۔ اسی طرح بائیڈن صاحب اپنے کمانڈروں کے مزید فوج اور وقت کے بے مقصد مطالبات کے خلاف مزاحمت کرنے پر بھی کچھ نہ کچھ داد کے مستحق ہیں۔ سب لوگ ان پر یہ تنقید تو کر رہے ہیں کہ افراتفری کے عالم میں انخلا کیا، لیکن اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں کہ اٖمریکا نے افغانستان میں بری طرح شکست کھائی اور اس کا فرض بنتا تھا کہ آخری انخلا سے قبل وہ طالبان کے زیر قیادت نئےسیٹ اپ کو باقاعدہ طورپر اقتدار منتقل کرتا۔

مستقبل کے امکانات

افغانستان میں نیٹو کی طرف سے مسلط کردہ بیس سالہ جنگ بالآخر اختتام کو پہنچی ۔ اس میں  ۲لاکھ۴۳ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر افغان تھے۔ اس جنگ میں طالبان فاتح قرار پائے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ فتح کس قسم کی ہوگی؟ اب تک تو کچھ امید افزا علامات دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر کابل تک کی طالبان نے پیش قدمی کے دوران خواہ مخواہ خون نہیں بہایا۔بہت سے شہروں کی انتظامیہ اور فورسز نے مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار ڈالے۔ سابق افغان صدرحامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ سمیت کسی مخالف لیڈر کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی۔ کابل کی فتح کے بعد پنج شیرمیں ہونے والی بغاوت کو بھی صرف طاقت کے زور پر کچلنے کے بجائے افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ختم کیا گیا اور صرف چند جگہوں پر ناگزیر فوجی کارروائیاں کی گئیں۔

۱۹۹۴ءمیں جب طالبان تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں صرف پختونوں کے مختلف قبائل کے لوگ شامل تھے۔ ۲۰۰۹ءکے اوائل میں طالبان کی ’پشاور شوریٰ ‘نے ایک ایسا محاذ قائم کیا، جو خصوصی طورپر غیر پشتونوں کے لیے مختص تھا۔ حالیہ برسوں میں تاجک،ترکمان،ازبک اورہزارہ قبائل کے لوگ بھی طالبان کی صفوں میں شامل ہوئے۔ اس تحریک میں جزوی طورپران قبائل کی شمولیت کی وجہ سے ہی طالبان اس قابل ہوئے کہ اوباما حکومت کے فوجی اضافے کے خلاف انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس حقیقت کو ان کی حالیہ پیش قدمی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں شمالی صوبوں نے تیزی سے ان کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈالے۔حالیہ برسوں میں شیعہ ہزارہ برادریوں نے بھی داعش کے حملوں کے خلاف طالبان سے تحفظ مانگا اوران کے تحفظ کے بعد ہی شیعہ برادری کابل میں محرم کے جلوس نکالنے کے قابل ہوئی۔بہرحال، افغانستان میں دیگر حکمرانوں کی طرح طالبان بھی سنی اور پشتون اکثریتی حکمران ہیں اور ان کی اعلان کردہ عبوری حکومت، فاتحین کی حکومت کا تاثر دیتی ہے۔لیکن یہ کھلا سچ ہے کہ یہ فاتحین مبینہ طورپر شکست خوردہ امریکا سے زیادہ کھلے دل کے ہیں اور اپنے تمام مخالفین سے بات چیت کے لیے آمادہ ہیں۔

طالبان کو بہرحال اس بات کی عکاسی کرنے کی ضرورت ہوگی کہ جب تک وہ افغانستان کی اقلیتوں کو حکومت میں شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انھیں وسیع قانونی جواز کے حصول میں مشکل پیش آتی رہے گی۔ان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت نے بھی بجا طورپر خدشات کو جنم دیا ہے۔انھوں نے اسلامی فریم ورک کے اندر یونی ورسٹی کی سطح پر خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کی حمایت کی ہے، لیکن ابھی اس میں ابہام باقی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس سے متعلقہ جزئیات کے بارے میں ان کی کیا پالیسی ہوگی؟

تاہم، افغانستان میں خواتین کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی ایماندارانہ تجزیے کے لیے درج ذیل قابلیتوں کا نوٹس لینا ہوگا: پچھلے بیس برسوں میں اگر خواتین کے حوالے سے کوئی فوائد حاصل ہوئے ہیں تو وہ صرف افغانستان کے چند بڑے شہروں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک اقلیت ہی کو حاصل ہوئے ہیں، لیکن اگر سفاکانہ جنگ کے منفی اثرات کی بات کی جائے تو خود نیٹو افواج کے ہاتھوں افغان خواتین نے وسیع پیمانے پر اموات، صدمے، چوٹیں ،عدم تحفظ اور معاشی نقصانات برداشت کیے۔دوسری بات یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے جنگ جاری رکھنے کے جواز کے طورپر عورتوں کے حقوق کی وجہ کو نمایاں طورپر استعمال کیا اور اس طرح خواتین کے حقوق کو قبضے کے ساتھ جوڑ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ جب لوگ امریکی قبضے کے خلاف اٹھیں تو خواتین کے حقوق کا مسئلہ بھی متنازعہ بنے اوروہ متاثر نظر آئیں، تاکہ اس مسئلے کو مزید اچھالا جا سکے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ قدامت پسندانہ رویہ نہ طالبان کی وجہ سے شروع ہوا اور نہ صرف ان تک محدود ہے۔ بہت سے علاقوں میں ثقافتی معیارقبائلی روایات کے مطابق ہیں اور ان کو تبدیل کرنا آسان نہیں۔ مجموعی طورپر ثقافتی تبدیلی ایک مشکل عمل ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہی تبدیلی آ سکتی ہے۔

اگر بیانیے کو دیکھا جائے تو بلاشبہہ آج کی طالبان تحریک ماضی سے مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی قیادت کی صفوں میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوے کے عشرے میں انھوں نے جس طرح کی حکومت قائم کی تھی، وہ پایدار خطوط پر استوار نہیں تھی اورموجودہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اسےبین الاقوامی سطح پر جواز حاصل ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ طالبان ہر لحاظ سے کوئی متحدہ قوت (unitary actor) نہیں۔ اس کے بیانات اور عمل میں ہم آہنگی کا امتحان اس کے طرزِ حکومت سے ہوگا ، جنگ کے دوران اس طرح کی جانچ نہیں ہوسکتی۔اس مرحلے پر بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں اس غالب طاقت کی حکومت کو تسلیم کرے، افغان ریاست کو منجمد اثاثوں تک رسائی دے، تاکہ وہ معاشی حوالے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ ایسا کرتے ہوئے ایک جامع حکومت کے قیام، شہری حقو ق کی ضمانت کے عوامی وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ پابندیوں یا زیادہ جارحانہ مداخلت کی وکالت کرتے ہیں، ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس عمل سے افغان عوام کی کس طرح مدد ہوگی؟ اس طرح شاید وہ اپنے غصے، غضب اوراَنا کی تسکین کا سامان تو کر سکیں گے، لیکن افغانستان میں گذشتہ چالیس برسوں کی بیرونی مداخلت کی تاریخ اس کے بالکل برعکس حقائق پیش کرتی ہے۔(الجزیرہ، انگریزی، ۱۲ستمبر۲۰۲۱ء)

ایک ایسی سیاست جو لوگوں کو خوف میں مبتلا کردے، چاہے اس خوف کی بنیاد جھوٹ پر ہی رکھی ہو، کسی بھی معاشرے کے رائے دہندگان کو متاثر کرتی ہے۔ تاریخ میں اس حکمت عملی پر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کے چاروں صدور نے بھرپور عمل کیا ہے۔ انھوں نے ’القاعدہ‘ کے دیو کو  کھڑا کرکے اسامہ بن لادن کو کچھ ایسی دیومالائی شخصیت بناکر پیش کیا کہ عوام الناس کے پاس اس بیانیے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

جب امریکا نے بن لادن کو قتل [۲مئی ۲۰۱۱ء]کیا تو اسے وہاں سے ملنے والی دستاویزات میں ۲۰۰۲ء کے القاعدہ کے اراکین کی ایک فہرست ملی، جس میں صرف ۱۷۰ نام تھے۔اسامہ نے ان میں سے ۲۰ کی اموات کا ذکر کر رکھا تھا۔ ان میں سے صرف سات نے مقابلے میں جان گنوائی اور گیارہ کو حکام نے گرفتار کرلیا، جب کہ ۱۹؍افراد تنظیم کو چھوڑ چکے تھے۔ بن لادن اپنے منصوبے پر کئی برسوں سے کام کر رہے تھے، لیکن اپنے افرادکار کی قلیل تعداد کو ۱۰۰ سے زیادہ دکھانے کے لیے اسامہ نے اس میں اپنے ۵۰بیٹوں کا بھی اضافہ کیا۔ ان میں عمر بن لادن بھی شامل تھا جو ۲۰۰۰ء میں تنظیم چھوڑ کر فرانس کے شہر نورمنڈی میں اپنی فرانسیسی بیوی جین فیکس برائون کے ساتھ پُرآسایش زندگی بسر کر رہا تھا۔

یہ القاعدہ کے افرادِ کار کی مکمل فہرست تھی یا نہیں، لیکن ۱۰ستمبر ۲۰۰۱ء کو یہ فہرست ایک مختصر  تنظیم کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ایسی تنظیم کہ جس سے منسوب ہے: ’ اس نے انسانی تاریخ کے ایک عظیم جرم کا ارتکاب کیا‘‘۔

اس واقعے کے بیس برس گزرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ چیلنج اُبھر کر آتا ہے کہ امریکا جیسی سوپرپاور نے اس چھوٹے سے گروہ کو کیوں اپنے حریف کے طور پر چُنا؟

غور طلب بات یہ ہے کہ کیا القاعدہ حقیقت میں ۱۲ستمبر ۲۰۰۱ء کو دُنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ تھی؟ لیکن اس واقعے کے علاوہ بھی انسانی امن کے لیے دیگر اور بہت بڑے چیلنج موجود چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے عمر کا ایک بڑاحصہ ایٹمی جنگ کے خوف میں گزارا ہے۔

آج کے انسان کے سامنے اس کے علاوہ ایک اور یومِ بربادی موجود ہے۔ آج ہم اپنے کرئہ ارضی کو مادی اور سیاسی ہوس اور موسمی تبدیلی کے ذریعے تباہ کرنے کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ ۲۰۲۱ء تک تقریباً ۶۰ لاکھ افراد بھوک سے اور ۴۶ لاکھ ۷۰ ہزار افراد کووڈ سے وفات پاچکے ہیں۔

۱۱ستمبر کے المیے کو اس کی اصل حقیقت سے بڑھا کر پیش کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ امریکا میں پیش آیا، لیکن نوعِ انسانی کو درپیش خطرات کے سامنے اس حادثے کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم سفیدفام امریکی دوسری نسلوں کی اموات میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے، لیکن ۲۰۲۰ء میں صرف افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں ۱۹ ہزار ۴سو ۴۴ ؍ اموات ہوئیں اور یمن میں ۱۹ہزار ۵۶۔

۱۱؍ستمبر اس حوالے سے بھی کوئی بڑا نادر واقعہ نہیں ہے کہ ایک چھوٹے سے ٹولے نے اتنی بڑی تباہی برپا کی۔ ۱۹۹۵ء میں ٹموتھی مک ویج ایک اکیلا فرد تھا جس نے اوکلاہوما میں ۱۶۸؍افراد کہ جن میں ۱۹ بچے بھی شامل تھے، ان کو قتل کیا اور تقریباً ۶۸۰ افراد کو شدید زخمی۔اس طرح کے شدت پسند عناصر صرف مسلمانوں ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دوسری قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بھی خودکفیل ہیں۔ مسٹر ٹموتھی ویج ایک شدت پسند تنظیم Patriot Movement کا رکن تھا، جوکہ مغرب میں دائیں بازو کی تقریباً ۱۰۰۰ ذیلی تنظیموں کا مجموعہ ہے۔  یہ تنظیم صرف امریکا کے امن کے لیے خطرہ نہیں ہے،بلکہ اسی تنظیم نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر امریکا کو بطور تحفہ دیا ہے۔

حقیقی چیلنج

۲۰۱۷ء میں Investigative Fund of The Nation Institute کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان دہشت گردی کے تقریباً ۲۰۱ واقعات ہوئے۔ ان میں سے ۱۱۵ واقعات دائیں بازو کی امریکی تنظیموں نے کیے، جن میں ۳۳ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی انتہاپسندوں سے منسوب ۶۳ واقعات ہوئے، جن میں آٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس کا موازنہ ہرسال امریکا میں ۲۰ہزار قتل کے واقعات سے کیجیے، جس میں پچھلے نو برسوں کے دوران تقریباً ایک لاکھ ۸۰ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس لیے جہاں ۱۱ستمبر کی ہولناکی کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے، وہیں اس بات کی مبالغہ آرائی میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مبینہ اسلامی انتہاپسندی ۳۳کروڑ ۳۰لاکھ کے اس ملک کے لیے کوئی حقیقی خطرہ ہے۔

عام افراد کے ہاتھوں میں اسلحہ تو ہمارے لیے ایک خطرہ ہوسکتا ہے اور موسمی تبدیلی بھی یقینا ایک بڑا خطرہ ہے لیکن ایک مجنون قسم کا مسلمان ہمارے ملک کے لیے کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پہ سوچ بچار کرنا چاہیے کہ اسلامی انتہاپسندی ہی امریکا کی خارجہ پالیسی کا کلیدی رکن چلی آرہی ہے ، جب کہ اس مسئلے کو ایک فوجداری مقدمے کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں ہم یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ’اسامہ بن لادن، ایک قتل عام کے ذریعے کوئی مثالی معاشرہ قائم کرنے میں کتنا برحق ہے؟ وہیں یہ سوال بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ ’وہ سب نقشہ اور لائحہ عمل جو امریکی جرنیلوں نے اس کے جواب میں تشکیل دیا ہے، کیا اس کے نتیجے میں بھی کوئی خیر برآمد ہوسکتا ہے؟‘

میں اپنے بچے کے اسکول کے ہیڈماسٹر سے محو گفتگو تھا۔ اس نے تقریباً دو عشرے برطانوی بحری بیڑے میں صرف کیے تھے ۔ میں نے اس سے معلوم کیا کہ تمھارے نزدیک ’جنگی مہم جوئی‘ کی کیا افادیت تھی؟ اس نے جواب دیا کہ جنگ ِ عظیم دوم کے علاوہ تمام جنگی مہم جوئیاں لاحاصل تھیں۔ ہاں، ہمیں ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کا تو ساتھ دینا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان کے ملکوں میں گھس کر ان کی حکومت گرا دیں۔ پچھلے دو عشروں میں ہم نے بالکل یہی کیا ہے۔

افغانستان کی حالیہ جنگ سیکولرزم کی ایک زندہ مثال ہے۔ اپریل ۲۰۲۱ء تک صرف افغانستان میں تقریباً ۲لاکھ ۴۱ہزار افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود آج ہم وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ طالبان حکومت میں واپس آچکے ہیں۔ وہ ہیجان جو ہم نے مشرق وسطیٰ میں عراق سے لیبیا تک برپا کیا تھا، وہ اپنے عروج پر ہے۔ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ ہماری حکومتوں نے آزادی کی بہار جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ کہاں ہے؟

یہ صرف ہماری مہم جوئی ہی نہیں ہے، جس نے ہم کو عام مسلمانوں کی نفرت کا ہدف بنایا ہے۔ ۱۷۷۶ء سے اب تک صرف ۲۰ سال ایسے گزرے ہیں، جس میں ہم [اہلِ امریکا]کسی جنگ میں مصروف نہیں تھے۔ یہاں پر ہمیں بطور امریکی اپنے بہت سے سوالوں کے جواب ان حکمت عملیوں میں تلاش کرنے چاہییں، جو امریکا دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال کرتاہے۔ امریکا جب کسی جنگ کا آغاز کرتاہے تو وہ اس کا ہدف ’جمہوریت کے فروغ‘ کو قرار دیتا ہے۔ لیکن ۲۰۰۱ء کی جنگ میں سب سے پہلے جو اصول قربان ہوا وہ قانون کی بالادستی کا اصول تھا۔ ہم بہت جلدبازی میں ایک جنگ میں کود گئے، حالانکہ اس وقت ہمیں ۱۱ستمبرکے جرم کی تحقیقات پر زور دینا چاہیے تھا۔ ہمدردی کی اس لہر سے جو اس واقعے کے نتیجے میں امریکا کو حاصل ہوئی تھی، اسے اپنی حکمت عملی کے فروغ کے لیے استعما ل کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ کہاں کی عقل مندی تھی کہ جو گروہ شہادت [موت] کو اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتا ہے، آپ خود اس کو اس اعزاز تک پہنچا دیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ گوانتاناموبے کے قیام پر ہم نے بڑے فخریہ ڈھول پیٹے، لیکن ہم شاید یہ بھول گئے کہ قانونی چارہ جوئی سے طویل مدت تک محرومی کسی بھی طرح امریکا کے امن کی ضامن نہیں بن سکتی۔ اس ضمن میں وہ تمام اصول جو ۱۲۱۵ء میں Magna Carta کے زمانے سے ہمارے لیے مشعل راہ تھے، انھیں ہم نے اس منطق کے تحت پسِ پشت ڈال دیا اور کہا کہ ’’جنگ میں گرفتار ہونے والے مسلمان عالمی قانونی ضمانتوں سے محروم قرار دیئے جائیں گے، کیونکہ وہ ہمارے اصولِ جنگ کو نہیں مانتے‘‘۔

اسی طرح گذشتہ کئی صدیوں سے دُنیا تشدد سے دُور ہونے کی شاہراہ پر چل رہی ہے اور اس تحریک کی انتہا ۱۹۸۵ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے تشدد کے خلاف قانون UN Convention Against Torture  کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن ہم نے ۱۱ستمبرکے بعد پلک جھپکنے میں اس سب کو فراموش کر دیا، جس وقت ہم نے اس بات کا اعلان کیا کہ ’’تشدد کی کارروائیاں ہی ایک ’مستحکم تفتیشی عمل‘ ہے‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ اصطلاح ہم نے ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ’گسٹاپو‘ سے اُدھار لی، جب کہ قرونِ وسطیٰ میں اس کو ’پانی میں ڈبونے کے تشدد‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم نے اس جنرل کو، جس نے گوانتاناموبے میں اپنی سفاکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی کو ہم نے ابوغریب کے افراد کو ’جمہوریت کا سبق‘ سکھانے پر مامور کر دیا۔

اسی دوران میں ہم [۲۰۰۳ء میں]عراق پر حملہ آور ہوچکے تھے۔ جب ’بہارِ عرب‘ کی لہر نے روشنی کی ایک نئی کرن پیدا کی تو ہم نے یا تو ان نومولود اکائیوں کی پشت میں خنجر پیوست کیا جیساکہ مصر میں ہم نے ایک عسکری انقلاب کی صورت میں جمہوریت کی پھوٹتی کونپل کو جڑ ہی سے کاٹ کر رکھ دیا۔

اسی دوران دستوری قانون کے پروفیسر بارک اوباما، امریکی صدر بنے تو انھوں نے تشدد کی جگہ قتلِ ناحق اور حقِ دفاع کے لیے ڈرون کا بے دریغ استعمال کیا۔ گویا کہ ایک انسان کو لمحہ بھرمیں قیمے کا ایک ڈھیر بنا دینا، گوانتاناموبے میں کئی سال سڑنے سے بہترلائحہ عمل اختیار کیا گیا۔

ہم یہ کہنے کی کب کوشش کریں گے کہ ’’منافقت وہ خمیر ہے جس سے نفرت جنم لیتی ہے، اور اس سے بڑھ کر منافقت کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ایک مہم برائے فروغ جمہوریت کا آغاز، لوگوں پر تشدداور اذیت ناک سزائوں کے ذریعے کریں‘‘۔ ان تمام غیرانسانی، غیراخلاقی اور غیرقانونی کارروائیوں کا وہی نتیجہ نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا۔ جن لوگوں کو ہم نے اپنا گرویدہ بنانا تھا، ان تمام لوگوں کو ہم نے اپنے آپ سے دُور کر دیا۔

صدر بائیڈن نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم نے تقریباً دو کھرب ڈالر یا تقریباً ۵۰ہزار ڈالر ہر افغان فرد پر خرچ کیے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق اس غریب ملک کے فرد کی سالانہ آمدن تقریباً ۵۰۰ ڈالر ہے۔ گویا میرے ٹیکس سے حاصل افغانستان کی سوسال کی آمدن کے برابر ہے لیکن اتنی بڑی رقم سے ہم نے کیا حاصل کیا؟ ہم نے یہ خطیر رقم اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کے کاروبار اور افغان حکومت کے بددیانت افراد پر خرچ کی۔ افغانوں کو اس دولت سے کیا حاصل ہوا؟ [الجزیرہ، انگریزی، ۱۱ستمبر ۲۰۲۱ء]

افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کس طرح سے حملہ کیا؟ اس کے بارے میں ٍمعروف ابلاغی مراکز بشمول بی بی سی ہمیں سچی کہانی نہیں سناتے۔ میڈابنجمن اور نکولس جے ڈویز نے افغانستان پر حملے سے متعلق ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے تھوڑی ہی دیر بعد پینٹاگون کے ایک محفوظ حصے میں، ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ایک نشست میں کہا: ’’اس بات کا جائزہ لیں کہ عراقی صدر صدام حسین پر اسی وقت حملے کے لیے کافی معلومات موجود ہیں نہ کہ اسامہ بن لادن پر حملے کے لیے۔ یہ معلومات تیزی سے جمع کی جائیں خواہ وہ متعلقہ ہوں یا غیرمتعلقہ‘‘۔ چنانچہ نائن الیون کے چند ہی گھنٹوں بعد ملٹری لیڈر عالمی سطح پر جنگ کے جواز کے لیے متحرک ہوگئے۔

  • طالبان کی پیش کش: افغانستان پر امریکی قیادت میں حملہ نہ صرف مجرمانہ فعل تھا بلکہ مکمل طور پر غیرضروری تھا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی کہ اگر نائن الیون حملوں میں اس کی شمولیت کے ثبوت فراہم کر دیئے جائیں۔ مگر اس پیش کش کو نظرانداز کردیا گیا اور افغانی عوام پر بمباری شروع کر دی گئی اور اس مقصد کے لیے جھوٹ کا بھرپور سہارا لیا گیا۔

نیویارک میں نائن الیون حملوں کے بارے میں سچ کیا ہے؟ سی آئی اے کے ایک اندرونی کارکن سوسن لنڈیئر کے فراہم کردہ ثبوت کے مطابق، سی آئی اے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی منصوبہ بندی سے اپریل ۲۰۰۱ء سے بھی قبل آگاہ تھا۔ لنڈیئر کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ عمارت سے جہازوں کے ٹکرانے سے یہ منہدم نہ ہوگی، اس لیے حادثے کو جانتے بوجھتے تباہ کن بنایا گیا اور امریکی خفیہ کارندوں نے دھماکے سے اُڑ جانے والے دھماکا خیز مادے کو نصب کیا۔

دیگر شہادتیں بھی لنڈیئر کے دعوے کی تائید کرتی ہیں۔ نیویارک میں بہت سے لوگوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارت کے ٹکڑوں کو بطورِ نمونہ محفوظ کرلیا تھا۔ ان کے کیمیائی تجزیے سے ایک عنصر Nanothermite کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، جو بڑی شدت سے حرارت پیدا کرتا ہے، اور مضبوط اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کے سٹیل کے ڈھانچے کو پگھلانے میں استعمال کیا گیا۔ عمارت کے انہدام کی وڈیوز سے یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے دونوں عمارتیں کسی ’کنٹرول سسٹم‘ کے تحت گرر ہی ہوں۔ وڈیوز میں عمارتوں سے پگھلا ہوا سٹیل باہر نکلتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ مزید برآں کھنڈرات میں تازہ تازہ پگھلے ہوئے سٹیل کے تالاب بنے ہوئے پائے گئےمگر فی الفور عوام کو دیکھنے پر  پابندی عائد کر دی گئی۔عمومی آگ سے درجۂ حرارت اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ لوہا پگھل جائے۔ نیویارک فائرڈیپارٹمنٹ کے کارکنوں نے بتایا کہ ’’انھوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے انہدام سے قبل بہت سے دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں‘‘۔

اس طرح امرواقعہ ہے کہ نائن الیون کے بارے میں سرکاری موقف جھوٹ پر مبنی ہے اور امریکی حکومت نے خود آگے بڑھ کر تباہی کو بدترین بنایا، تاکہ ایک نہ ختم ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے لیے جواز پیدا کیا جاسکے اور امریکا میں شہری آزادیوں پر قدغن لگائی جاسکے۔ حیرت کی بات ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملے کے سرکاری موقف کو بہت کم لوگ چیلنج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور جو اسے چیلنج کرتے ہیں وہ ’لیفٹسٹ‘ہیں یا ’دہشت گردوں کے ہمدرد‘۔ جیساکہ امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا: ’’آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں‘‘۔

  • عالمی تجارتی مرکز کی تباہی - چند حقائق: ۲۰۱۵ء میں، نائن الیون کے بارے میں ماہر تعمیرات اور انجنیروں کی تنظیم ’نائن الیون کا سچ‘ نے Beyond Misinformation (غلط معلومات سے ماورا) کے عنوان سے ۵۲صفحات کی ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ سے کچھ اقتباسات پیش ہیں:

’’سٹیل فریم کی بنی ہوئی بلندوبالا عمارتوں کے مکمل انہدام کو ’کنٹرول سسٹم‘ کے ذریعے ہی ممکن بنایا گیا ہے۔ آگ سے کبھی بلندوبالا عمارتوں کا مکمل انہدام نہیں ہوتا، اگرچہ بلند عمارتوں میں بکثرت آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں۔

’’اگر عالمی تجارتی مرکز کی عمارت نمبر ایک، دو اور ساتویں کی تباہی کا سبب آگ لگنا ہے تو یہ اس نوعیت کی بلندوبالا سٹیل فریم عمارتوں کے مکمل طور پر انہدام کا تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے (بشمول پہلی اور دوسری عمارت کو جہاز کے ذریعے پہنچنے والا نقصان)، جب کہ آگ لگنے سے انہدام کی کوئی علامت نہیں نظر آتی ہے۔

’’ایڈورڈ منیاک، آگ سے محفوظ رکھنے والا انجنیرکہتا ہے:انہدام کا واقعہ ہونا ہی غیرمعمولی ہے، لیکن تین واقعات کا ایک ہی دن میں رُونما ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔

’’ ایک دوسرے ادارے کی رپورٹ میں عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے تیزی سے انہدام (free fall) کی وضاحت صرف نصف صفحے پر مبنی تھی، جب کہ مکمل رپورٹ ۱۰ہزارصفحات پر مشتمل ہے جس کا عنوان: ’انہدام کی ابتدا سے متعلق واقعات‘ہے‘‘۔اس رپورٹ میں انہدام کی رفتار پر صرف یہ کہا گیا ہے: ’’نیچے کے فرش اسے نہ روک سکے۔ اس لیے ہم نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی اعداد و شمار جمع نہیں کیے… عالمی تجارتی مرکز کی دوسری عمارت سے پگھلا ہوا لوہا نہ صرف نظر آرہا تھا بلکہ درجنوں عینی شاہدوں نے تینوں عمارتوں کے ملبے میں انھیں دیکھا‘‘۔

شکوک و شبہات کو پرکھنا چاہیے:سیاسی قائدین عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بکثرت جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم ہٹلر کے جھوٹ اور false flag  واقعات کو جو دوسری جنگ ِ عظیم کے آغاز پر پولینڈ پر حملہ آور ہونے کے لیے پیش آئے یاد کرسکتے ہیں۔ پنٹاگون کی دستاویزات کو ڈینیل ایلزبرگ نے بڑی جرأت سے شائع کیا ہے، جن سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کی بنیاد بھی جھوٹ پر مبنی تھی۔ عراق پر مارچ ۲۰۰۳ء میں حملے سے قبل بھی جھوٹ بولے گئے۔ غالباً یہ درست ہے کہ عوام کو ہرجنگ سے قبل، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد میں جھوٹ بول کر ورغلایاجاتا ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی قائدین اور ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ شکوک و شبہات سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ (کاؤنٹر پنچ، ۲ستمبر ۲۰۲۱ء)

گذشتہ پانچ صدیوں میں اور سقوط غرناطہ کے تھوڑے ہی عرصے بعد دنیا نے بہت بڑی بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔اسی عرصے میں یورپ اپنے عافیت کدے سے نکلا اور عالمی وسائل پر قبضہ جمانے اور انھیں اپنے ہاں منتقل کرنے کے لیےاپنے وقت کی مہذب دنیا پر درندےکی مانند ٹوٹ پڑا۔ مسلم مشرق پر براہِ راست یہ حملہ دو عنوان سے تھا:صلیبی فوجی حملوں کا تسلسل اور عالمی تجارت پر غلبہ ۔ نئی جغرافیائی دریافتوں نے یورپ کو مہمیز دی اور استعماری قبضہ بڑھانے کے لیے انھی کو یورپ نے وجۂ جواز بھی بنایا ۔’نئی دنیا‘یعنی شمالی امریکا کی دریافت بھی دراصل مشرق (خصوصاً مسلم ہندستان) تک رسائی ہی کی ایک کوشش تھی۔یورپی اقوام میں سخت مقابلہ تھا کہ نئے دریافت شدہ خطوں کے وسائل پر تسلط جما کر انھیں اپنے ہم عصر وں اور پرانی دنیا پر اپنی دھاک، دھونس جمانے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔

اس دوران مسلم دُنیا کے اوّلین دفاعی مورچے اور مشرق کی طرف یورپی اقوام کے پہلے پڑاؤ، شمالی افریقہ(تیونس ،الجزائر ،مراکش اور لیبیا) پر کیا گزری ؟ خطے کی تاریخ کا یہ عرصہ جن اہم حوادث اور واقعات سے پُر ہے، اسے سمجھے بغیر خطے کے موجودہ حالات کو سمجھنا مشکل ہے ۔

سقوط غرناطہ اور اندلس سے مسلمانوں کو کھرچ کر نکالنے کا سلسلہ کم و بیش ایک سو برس تک جاری رہا۔ اس دوران اسپین اور پرتگال کی فوجیں مسلسل شمالی افریقہ کے ساحلوں کو تاراج کرتی رہیں۔ مراکش کے شہر سبتہ سے ملیلہ تک ،الجزائر اور تیونس کے ساحلوں سے لے کر طرابلس الغرب،   یعنی لیبیا کے ساحل تک، یہ سارا علاقہ ان ابھرتی ہوئی یورپی استعماری طاقتوں اور مقامی مسلمان حکمرانوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ۔جلد ہی خطے کے مسلم حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا کہ اس بڑھتے صلیبی حملے کو روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے خلافت عثمانیہ سے مدد کی اپیل کی ۔خلافت کی مداخلت اور عملی فوجی مدد ہی کے نتیجے میں تیونس اور الجزائر اس ہلاکت خیز یورپی استعماری یلغار سے بچنے میں کامیاب رہے ۔ چنانچہ مراکش نے بھی عثمانیوں سے دفاعی معاہدہ کیا اور یوں شمالی افریقہ، یورپی سیلاب کے آگے بند باندھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ۔مراکش کے صرف دو شہر سبتہ اور ملیلہ یورپیوں کے قبضے میں رہ گئے تھے ۔

اسپین اور پرتگال کے کمزور پڑجانے پر شمالی افریقہ کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی اورانتظامِ حکومت مقامی لوگوں کے ذریعے چلایاجانے لگا۔ اس نئے انتظام کی سربراہی، سرپرست کے طور پر عملی یا رسمی خلافت عثمانیہ کرتی تھی۔

انقلاب فرانس کے بعد اور نپولین بونا پارٹ کے یورپ اور پوری دُنیا پر تسلط جمانے کے عزم نے مصر اور شمالی افریقہ کو ایک بار پھر فرانس کی سامراجی ریشہ دوانیوں کا شکار کردیا۔ ۱۹ویں صدی کےصنعتی انقلاب نے جارح یورپ کی طاقت میں بے تحاشا اضافہ کردیاتھا۔اب پورے  شمالی افریقہ پر قبضہ کا پرانافرانسیسی خواب پھر انگڑائی لینے لگا۔ یوں ۱۸۸۱ءتک تیونس اور الجزائر، فرانسیسی قبضے تلے سسک رہے تھے ۔

یورپی سامراج نے دونوں ملکوں پر تسلط جمانے کے لیے دو مختلف انداز اختیار کیے تھے۔ تیونس اور پھر مصر کو بھی بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑاگیا۔ سرکاری سطح پر بے تحاشا اسراف، اشرافیہ کی شاہانہ زندگی اور ظاہری نمود ونمایش پر بے اندازہ خرچ کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی رہی، بلکہ ہر سطح پر اس کے فروغ میں فعال کردار اداکیا گیا ۔دونوں ملک جب مالیاتی دیوالیہ پن کا شکار ہوئے تو قرض خواہوں کے حقوق کے نام پر دونوں ملکوں کو مالیاتی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا، جو آگے چل کر سیاسی غلبے اور پھر فرانس کےمکمل قبضے پر منتج ہوا ۔اس عرصے میں خلافت عثمانیہ پر جب بھی کڑا وقت آیا، ان قابض سامراجی طاقتوں نے اسے خطے میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے سنہری موقعے کے طور پرلیااور اپنا استبدادی پنجہ محکوموں کی گردن پر گاڑتے چلے گئے ۔

تاہم، الجزائر کی مقامی حکومت نے شاہِ فرانس نپولین کے دور میں ہونے والےفرانس کے محاصرے سے فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اقتصادی طور پر کچھ مضبوط کرلیا ۔ مگر فرانس نے جنگ چھیڑنے کے لیے یہاں پر بھی بہانہ انھی پرانے قرضوں کو بنا یا، جو الجزائر کے ذمے واجب الادا تھے ۔جنگ بلقان کے دوران ایک ہی ہلے میں ایک طرف سربیا،یونان اور دوسری طرف الجزائر پر ہاتھ صاف کرلیے ۔یوں شمالی افریقہ کے یہ مسلم ملک طویل دور ظلمات میں دھکیل دیئے گئے۔ ایک ایسا تاریک عہد کہ جس میں استعمار ی قبضہ تھا،فرنچ تہذیب کا غلبہ تھا ،تیونس اور الجزائر کی اسلامی شناخت مٹانے اور جغرافیائی خدوخال بگاڑنے کے منصوبے تھے ۔

۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو شمالی افریقہ کی ان محکوم اقوام کو جنگ کی تپتی بھٹی  میں جھونک دیا گیا ۔اس بھٹی میں الجزائر اور سینی گال جیسے بڑے ملکوں کے باشندے ایک بڑی تعداد میں جل مر ے ۔ مارے جانے والے کتنی بڑی تعداد میں تھے ؟ اس کا اندازہ تیونس جیسے چھوٹے ملک کے ہلاک شدگان کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم میں تیونس کے ۸۰ ہزار مسلمان، فرانسیسی پرچم کی سربلندی کے لیے اپنی جان کی بازی ہارگئے۔

جنگ کے خاتمے پر اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ’انجمن اقوام‘ (League of Nations) کی چھتری تلے نوآبادیاتی یورپی طاقتوں نے ’انتداب‘ (mandate)کا ڈول ڈالا ۔ انتداب کے اس نام نہاد نظام کے تحت قابض طاقت ہی کو یہ قانونی حق دے دیا گیا کہ وہ مغلوب قوم پر اپنا سامراجی شکنجہ مضبوط کرے اور اس کی اجتماعی زندگی ،سیاسی اداروں اور جغرافیے کی تشکیلِ نو کرے۔ اقبالؒ بالادست یورپی طاقتوں کی ان چیرہ دستیوں کی بہترین تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

’نظام انتداب‘ کے بعد داخلی خود مختاری کا ڈول ڈالاگیا ۔مقصدتھا مقامی چہروں مہروں کے ساتھ استبداد ی نظام قائم رکھنا ۔ تیونس میں سیاسی ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی تھیں، لیکن سب کا اختیار و اقتدار انتہائی محدود ۔ملک اقتصادی اور ثقافتی طور پر پوری طرح فرانس کا محکوم اور باج گزار بنادیا گیاتھا۔جس نے رفتہ رفتہ تیونس کی اپنی شناخت، عقیدے ، اصول ،اس کی تہذیب و ثقافت ، زبان و تمدن سب کچھ کو مکمل بدل کر رکھ دیا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا درمیانی عرصہ نیشنل از م کے علَم برداروں کے لیے انتہائی مایوس کن تھا ۔ پہلی جنگ عظیم میں فرانس دنیا کی سپر پاور بن کر ابھرا  تھا۔اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بَری فوج تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ رکھی ۔اس کی سنت اس میں ہر دم جاری و ساری رہتی ہے: وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ  لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ(البقرہ ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ، انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑجاتا‘‘۔

دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوتے ہی نازی جرمنی کے ہٹلر نے فرانس پر قبضہ کرلیا ۔یہ فرانسیسی غرور اور نخوت کے لیے ذلت کا مقام تھا اور اسی سے فرانس کا اپنے طبیعی جغرافیائی حدود کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ پھر فرانس کو ۱۹۵۴ء کی ویت نام جنگ میں بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تھے وہ حالات جن میں الجزائر اور تیونس  میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ ا ۔یوں خطے میں سیاسی ،انقلابی اور فوجی جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔فرانس نے اپنے نقصان کو کم سے کم رکھنے  کے لیے سیاسی تدبیروں کا آغاز کیا ۔ سب سے پہلے محکوم قوموں کو داخلی خود مختاری کی نوید سنائی گئی۔ لیکن کس نخوت کے ساتھ ؟ اس کے لیے فرانسیسی وزیر اعظم کا وہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے، جو تیونس کے محمد الامین کے سامنےکیا گیا تھا:’’تیونسی قوم جس حد تک ترقی کرچکی ہے، ہمیں اس پر خوشی منانے کا پورا حق ہے، خصوصاً اس لیے کہ ہم نے ہی تیونس کو ترقی دینے میں اصل کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کی بالغ نظری قابلِ تحسین ہے اورجواز فراہم کرتی ہے کہ تیونسی قوم اپنے امور خود سنبھالے ۔اس لیے ہم تیار ہیں کہ داخلی امور تیونسی افراد اور اداروں کے سپرد کردیں‘‘۔

حبیب بورقیبہ نےبطور سربراہ دستوری فریڈم پارٹی مجوزہ داخلی خود مختاری کے لیے فرانس تیونس مذاکرات کی فوری تائید کردی۔مجاہدین آزادی اور مزاحمت کاروں کو پہاڑوں سے اتر آنے اور ہتھیارسپرد کردینے کا مشورہ دیا ۔تاہم، سویزر لینڈ میں مقیم پارٹی کے سیکرٹری جنرل صالح بن یوسف نے کھل کر حبیب بورقیبہ سے اختلاف کیا اوراس پر وطن سے غداری کا الزام عائد کیا ۔ مسلح مجاہدین کو نہ صرف تیونس بلکہ پورے شمالی افریقہ کی مکمل آزادی تک مزاحمت جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

تاہم، جنگ عظیم میں زخم خوردہ فرانسیسی حکومت نے منصوبے کے مطابق مئی ۱۹۵۵ء میں داخلی خود مختاری کے قانون پر دستخط کردئیے ۔جلا وطن بورقیبہ واپس وطن لوٹ آئے اور انھیں آزادی کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اورپھر مراکش کےبعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو تیونس کو بھی مکمل آزادی دے دی گئی۔

۲۵جولائی ۱۹۵۷ء کو پارلیمان کی تائید سے بورقیبہ نے بادشاہت ختم کردی اور خود تیونس کے صدر بن گئے ۔بورقیبہ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں سے ہی، تیونسی معاشرے کو فرانسیسی مقتدرہ کے حسب منشا ڈھالنے پر کام شروع کردیا تھا۔ اگست ۱۹۵۶ء کو سرکاری گزٹ میں ’نیاپرسنل لا‘ شائع ہوا، جس کے تحت دوسری اور تیسری شادی پر قانوناً پابندی عائد کردی گئی اور سول کورٹس کو طلاق کے معاملات پر نظرثانی کا اختیار دے دیا گیا۔اوقاف تحلیل کردئیے گئے اورشرعی عدالتوں کو ختم کرتے ہوئے فرنچ جوڈیشل سسٹم نافذ کردیا گیا ۔

۱۹۵۸ء میں جامعہ زیتونہ کے نظام تعلیم اور اس تاریخی اسلامی یونی ورسٹی کے زیر انتظام اداروں کو تعلیم کے عمومی سیکولر نظامِ تعلیم میں ضم کردیا گیا۔ اسی مہینے میں تیونس کی نیشنل آرمی تشکیل دی گئی اور اپریل ۱۹۵۶ء میں سکیورٹی سسٹم کو مکمل طور پر سیکولر تیونسی رنگ میں رنگ دیا گیا ۔

جون ۱۹۵۹ء میں جمہوریہ تیونس کا پہلا آئین نافذہوا اور اسی سال نومبر میں ایک مضحکہ خیز الیکشن میں بورقیبہ ۹۹ فی صد ووٹ لے کر پانچ برس کے لیے جمہوریہ کے پہلے صدر بن گئے اور ان کی فریڈم پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلیں ۔

سیاسی محاذ پر صالح بن یوسف کے حامیوں کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ۔ان کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے مخالفین کو پھانسیوں کی سزائیں سنانا شروع کردیں۔ حتیٰ کہ ۱۹۶۱ء میں صالح بن یوسف قتل کردئیے گئے۔

۱۹۶۲ء میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ سرکاری طور پر تجویز یہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم اپنے روزوں کی قضا ریٹائرمنٹ پر ایک ساتھ یا دیگر مناسب اوقات میں اپنی مرضی سے پوری کرلے ۔بورقیبہ نے کوشش کی کہ تیونسی شہریوں کو مقدس مقامات کی زیارت خصوصاً حج بیت اللہ سے روکا جائے ۔دلیل یہ دی گئی کہ ’’حج پر جانے سے ملک کا قیمتی زر مبادلہ صرف ہوتا ہے‘‘۔ سرکاری سطح پر متبادل یہ تجویز کیا گیا کہ ’’حج کے بجائے اولیاء اللہ اور صالحین کے مقامی مزاروں سے خیر و برکت حاصل کرلی جائے ۔ابو زمعۃ البلوی یاابولبابۃ الانصاری کے مزار اقدس پر حاضری دے لی جائے ‘‘۔ یہ تجویز کسی ادنیٰ سرکاری ملازم کی نہیں تھی بلکہ جمہوریہ تیونس کے صدر حبیب بورقیبہ نے خود صفاقس شہر میں ۲۹؍اپریل ۱۹۶۴ء کو اپنے خطاب میں دی تھی ۔

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی فوجیں ۱۹۶۳ء تک تیونس میں تھیں تو ہمیں پے درپے لوگوں کے عقیدے اور ایمان کے خلاف کیے گئے ان فیصلوں کی اصل وجہ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ فرانس کامنصوبہ تھا کہ کہ تیونس پر اس کا غلبہ کمزور نہ ہو، بلکہ مقامی باشندوں کے بھیس میں اس کا اثر و نفوذ برقرار رہے ۔یوں بظاہر تیونس آزاد توہوا لیکن بورقیبہ کی وحشت انگیز ڈکٹیٹر شپ کے زیر سایہ چلاگیا۔ ۳۰ برس بعد بورقیبہ ڈکٹیٹر شپ اس عوامی انقلاب کے نتیجے میں ختم ہوئی جسے آج روٹی کا انقلاب کہا جاتا ہے ۔ تاہم، اس انقلاب کے بعد بھی تیونس، فرانس کے پروردہ گماشتوں کے پنجہ سے نہ نکل سکا کہ  نیا حکمران بن علی تھا، مکمل طور پر بورقیبہ کی فوٹو کاپی ۔

۲۰۱۱ءمیں پھر تیونس کے دبے ہوئے ،زیر دست ،مفلوک الحال عوام میں سے ایک، ریڑھی بان ،بوعزیزی کی خود سوزی نے ایک اور عوامی انقلاب کو جنم دیا۔بوعزیزی کے راکھ میں دبے شراروں سے اٹھے اس انقلاب نے جلد ہی پوری عرب دنیا کو ربیع عربی (عرب بہار ) کی لپیٹ میں لے لیا اور عشروں سے جمے عرب آمروں کے تخت الٹ گئے ۔

تیونس کا پھر ایک اور دستور بنا۔ اس نئے دستور اورنئے انتظام کے تحت ملک بظاہر جمہوری دور میں داخل ہوچکا تھا، لیکن صدر قیس سعید کے حالیہ ا قدامات سے ایسے لگتا ہے کہ تیونس پر ایک نیا بورقیبہ مسلط ہوچکا ہے ۔جو اگرچہ فصیح عربی بولتا ہے لیکن اپنے حقیقی خیالات کا اظہار اپنے آقاؤں کی زبان فرانسیسی میں کرتا ہے ۔ ایمرجنسی لگانے اور دستور کو معطل کرنے کے اقدامات سے دراصل یہ زمانے کے پہیے کو پھر سے الٹاگھمانے کا خواہش مند ہے ۔چاہتا ہےملک کو پھر سے واپس فرانسیسی دور میں لے جائے ۔

اگرچہ تیونس میں یہ بحث ابھی جاری ہے کہ صدر کا اقدام بغاوت تھی یا صحیح راستے کی طرف واپسی؟ تاہم، اطلاعات ہیں کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ نے فون کرکے مطالبہ کیا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل اور معطل پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے ۔ باالفاظ دیگر صدر کے نام مغربی آقائوں کا پیغام یہ ہے کہ تم نے ایمرجنسی لگاکر اچھا کیا ہے لیکن ہمیں تمھاری کامیابی کا یقین نہیں ہے۔

تیونس میں لگی حالیہ ایمرجنسی کے دوران قصر صدارت میں یہ واقعہ بھی پیش آیا ہے کہ  یہاں کے دورے پر آئے ہوئے چند امریکی صحافی گرفتار ہوئے۔پھر انھیں صدارتی مہمان بناکر شرف ملاقات بخشا گیا۔ ملاقات میں صدر تیونس یقین دلاتے رہے کہ ’’میں ڈکٹیٹر نہیں ہوں‘‘ اور مہمانوں کو فرانسیسی زبان میں امریکی دستور کے اقتباسات سناتے رہے۔آخر میں جب ان صحافیوں نے اپنے سوالات صدر کے سامنے رکھنا چاہے تو انھیں نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کردیا گیا ۔

غالباً یہ صدارتی مہمان اپنے میزبان سے وہی سولات کرنا چاہتے تھے، جو آج کل تیونس میں زبان زد عام ہیں: کیا واقعی فرانس تیونس سے دست بردار ہوچکا ہے یا ہمیں آزاد ہونے کا صرف وہم لاحق ہے ؟

مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔

پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔

ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟

 مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔

اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔

۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟

اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔

سنجے پانڈا ترکی میں بھارتی سفیر ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے مخصوص بھارتی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے: ’’مسئلہ کشمیر کا سارا کھیل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بدلے ہوئے حالات ہی حقیقت ہیں۔ یہ ان لوگو ں کے لیے ضروری ہے جو اس تنازعہ کا ہمیشہ کے لیے حل چاہتے ہیں‘‘۔

بھارتی سفیر سے سوال کیا گیا کہ ’’استصواب رائے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کا پہلا حصہ بلاشبہہ استصواب رائے کے بارے میں ہے۔ اور یہ استصواب صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان ان تمام علاقوں سے افواج واپس بلالے ، جن پر اس نے قوت کے بل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جموں و کشمیر کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورتِ حال میں واپس جانا ہوگا۔ تب ہی استصواب رائے ہو سکے گا‘‘۔

بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر جوزف کوربل نے اپنے آرٹیکل میں اس سوال کا جواب دیا تھا (ان کا آرٹیکل The UN, Kashmir and Nehru دیکھا جاسکتا ہے)۔ یہ آرٹیکل ۴مارچ ۱۹۵۷ء کے The New Leaderمیں شائع ہو ا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’بھارتی وفد کے مطابق استصواب رائے کے بارے میں قرارداد پر عمل درآمد پاکستان نے روک دیا تھا۔ ایسا اس نے کشمیر کے دوسرے حصہ (آزاد کشمیر) سے اپنی فوج نکالنے سے انکار کی صورت میں کیا تھا‘‘۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہے۔پاکستان فوجیں نکالنے کا اس وقت تک ہرگز پابند  نہیں ہے ،جب تک بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر سےفوجیں نہ نکال لے۔

بھارتی سفیر سنجے پانڈا نے مزید کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں پر واقعات کی گرد پڑ چکی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ۱۹۷۲ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں یہ اصول طے پاگیا تھا کہ دونوں ممالک اپنےباہمی امور دو طرفہ طریقے سے حل کریں گے، جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا‘‘۔

اس نکتے پر غیر جذباتی انداز میں غور کرنا ضروری ہے۔ پانڈا خود کہہ چکےہیںکہ کشمیر پر قراردادیں منظورہوئے ۷۳برس گزر چکے ہیں۔وہ ترکی کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اب ان قراردادوں کو بھول جاناہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض وقت گزرنےسےتنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں اور عمل درآمد کی منتظرہیں۔ دوسرے ، یہ قراردادیں نہ کبھی متروک ہو سکتی ہیں اور نہ متروک قرار دی جاسکتی ہیں۔ حادثات کی پڑی گرد بھی نہ ان کی حیثیت تبدیل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی۔ وقت گزرنے سے کسی بھی اصول کو غیر مؤثر سمجھا نہیں جاسکتا۔یہ جموں و کشمیر کے عوام کا انمٹ اور ناگزیر حق ہےکہ وہ استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاہدوں کو وقت ختم کر سکتا ہوتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر عدم عمل درآمد سے کسی معاہدے کو غیرمؤثر یا متروک سمجھ لیا جائے تو بہت سے ممالک میں جنیوا کنونشن بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔

 شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان اور بھارت تنازعات باہمی پلیٹ فارم پر حل کرنے کے مفروضے کو اگر چند لمحوں کے لیے درست مان بھی لیں تو پھر ہم اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس ٹائرو مورچو کے ۲؍اگست ۲۰۲۱ء کے خطاب پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا اٹوٹ اَنگ ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حیثیت ہے‘۔ اگر رٹی رٹائی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے تو پھر شملہ معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان سے کس معاملے پر بات کرنا چاہتاہے؟

دوسرے، شملہ معاہدہ میں ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ:’’مسئلہ کشمیر کا حل دو پارٹیوں(بھارت اور پاکستان) کے مقاصد میں سے ہے۔ اس صورت میں ٹی ایس ٹائرو کا یہ موقف تو اپنی جگہ شملہ معاہدے کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی باری تو بعد میں آئے گی۔

سنجے پانڈا جانتے ہیںکہ شملہ معاہدہ قرار دیتاہےکہ:کسی بھی مسئلہ کا حتمی حل نکلنےتک پاکستان یا بھارت اس کی حیثیت یک طرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے آرٹیکل۳۷۰، اور ۳۵-اے، ڈومی سائل قانون، سب کی منسوخی نہ صرف شملہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۲۲کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیاگیا ہے کہ ۱۹۵۱ء کی قرارداد کے مطابق نیشنل کانفرنس کی طرف سے سفارش کردہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایاجائے،تاکہ پوری ریاست یا اس کے کئی حصوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکتے کہ جن سےریاستی عوام کی رائے پوری طرح عمل میں نہ آتی ہو۔

اگر بھارت جرأت سے کام لے، وہ ایسے آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، جو کشمیری عوام کی صحیح اُمنگوں کے ترجمان ہوں، جیسا کہ سفیر پانڈا کہہ رہےہیں، تب یہ امکان نظر آسکتا ہے کہ ۷۳سال سے حل کے منتظر کشمیر کا کوئی فیصلہ ہو سکے۔

لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے نو آبادیاتی طرز کے غیر جمہوری رویوں ہی کو ’جمہوری‘ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں برطانوی مؤرخ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’بھارت کا سارا بلندترین آئیڈیلزم دھڑام سے ڈھے جاتاہے، جب اس کا نفاذ کشمیر کے سوال پر کیا جاتاہے‘‘۔

بھارت کے دوسرے گاندھی کا درجہ پانے والے جے پرکاش نرائن نے ۱۹۶۰ء میں اندراگاندھی سے کہا تھا: ’’ہم جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن کشمیر میں ہماری حکمرانی قوت کے بل پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا، وہ کشمیر کو ہڑپ کرنا نہیں چاہتا۔ وہاں کے عوام ہمارے بارے میں سیاسی طور پر گہرے اور ان مٹ عدم اطمینان سے دوچارہیں‘‘۔

حکومت جموں وکشمیرکے سابق سیکرٹری بی کے دیو نے ۱۹۹۱ء میں اعتراف کیا تھا: ’’بھارتی جموں و کشمیر میں شروع سے انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں‘‘۔ ارون دھتی رائے بوکرانعام یافتہ ہیں۔ انھوں نے ۲۷ستمبر۲۰۰۹ء میں واشگاف لفظوں میں کہہ دیا تھا: کشمیر میں انتخابات کی طویل حیران کن تاریخ ہے۔۱۹۸۷ء میں بڑے دھڑلے سے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کی وجہ سے ہی اشتعال پھیلا اورمسلح تحریک نے جنم لیا‘‘۔یہ تحریک ۱۹۹۰ء میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر میں دھاندلی زدہ اور غیرنمایندہ انتخابات فوجی قبضے کے ہتھیار کے طور پر ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی ڈیپ سٹیٹ کے مکروہ عزائم کا اصل چہرہ ہیں۔ ایسے ہر نام نہاد انتخاب کے بعد بھارتی مقتدرہ یہ جھوٹا اعلان کرتی ہے کہ ’کشمیری عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘۔

ڈاکٹر شری پرکاش نے اپنی کتاب Twenty Tumultuous Years Insight into Indian Polityکے صفحہ ۵۶۸پر لکھا تھا: ’’کشمیری غم و غصے کی اصل وجہ ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو لاش کی صورت میں ہو۔ فاروق عبداللہ سے لے کر نیچے تک کشمیری لیڈر اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح سے مسئلہ کشمیر سے اب متعلق نہیں رہے‘‘۔ایمی والڈمین نے ۲۴؍اگست ۲۰۰۲ء کے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا: ’’۱۹۸۹ء کے دھاندلی زدہ انتخابات نے مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی‘‘۔

چنانچہ ، ہمیں یقین ہےکہ ایسے بےمعنی اور خودفریبی پر مبنی انتخابات سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل جمہوری اصول کی پاسداری ہے۔کشمیری عوام اب صرف ایسے انتخابی عمل کا خوشی سے حصہ بننے پر تیار ہوں گے، جن کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ یہ آزادانہ، منصفانہ رائے دہی کے لیے ہوں گے، اور ان کو منعقدکرانے کے لیے اقوام متحدہ جیساغیر جانب دار ادارہ کام کرے۔

سلامتی کونسل میں پاک بھارت تنازعات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ لیکن استصواب رائے کا سوال بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسے حل کے طور پر طے بھی کیا گیا ہے۔ اس کا واضح اعتراف اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی آیان گر نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا: ’’کشمیر کاسوال___ ریاست کےلوگ بھارت سے الحاق ختم کر دیں یا پاکستان سے مل جائیں یاپھر وہ الگ رہنے کا فیصلہ کریںاور اقوام متحدہ کے ایک رکن کی حیثیت اختیار کرلیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے‘‘۔

لیکن بھارتی حکومت اپنے کسی قول پر کھڑا ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کا گُر اختیار کیے ہوئے ہے۔

گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں نئی دہلی میں کشمیر سے متعلق خبروں کی ترسیل کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباؤ کا شکار تھا۔ مارچ ۱۹۹۴ءمیں کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائونے ’چانکیائی شاطرانہ چال‘ کااستعمال کرکے ایران کو جھانسہ دے کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے وعدہ بھی کیا کہ ’’کشمیر پر پیش رفت کریں گے‘‘۔ یادرہے کمیشن میں قرار داد پاس ہونے کی صورت میں یہ براہِ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے میں مصروف تھا۔

ایران سے کیے گئے وعدے کے پیش نظر، غالباً ۱۹۹۵ءمیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے ایک مفصل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے سپرد کیا، جس میں ۱۹۵۰ءمیں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کو قانونی شکل دینے، اس کو بھارتی پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی ۱۹۵۳ءسے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر یہ میمورنڈم کس نے لکھا تھا، یہ بات تاحال سربستہ راز ہے۔ اس کے چند روز بعد ہی ۴نومبر ۱۹۹۵ءکو نرسمہا راؤ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانے کا عندیہ دیا، اور یہ کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘‘۔ اس دوران بھارت کے ریاستی ادارے، مئی ۱۹۹۶ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کررہے تھے، مگر اس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمایندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مَس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ: ’’پہلے اٹانومی یاکوئی سیاسی فارمولا ہمارے حوالے کیاجائے، جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔ کوئی واضح یقین دہانی نہ ملنے پر ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔  ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر ’جنتا دل‘ کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمارگجرال کی قیادت میں کانگریس ہی کی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔

وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ گفت وشنید میں وعدہ کیا: ’’جموں و کشمیر اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثریت دلانے میں مدد کی جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہ نرسمہا راؤ کو دیئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائے گا‘‘۔ ۸۷رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو ۵۷، کانگریس کو ۲۶ اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو محض دونشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں۔ لیکن جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، خود جنتا دل حکومت ختم ہوچکی تھی، اور سارے وعدے ہوا میں بکھر کر رہ گئے تھے۔ تاہم، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر عالمی دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

 پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے، جو کام ۲۴جون کو دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہایش گاہ پر لی گئی اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کی بغل میں یہ لیڈر صاحبان شیروشکر ہورہے تھے، جس طرح ۱۹۴۷ءمیں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور ہندستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حیران کن معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی، اور بھارتی وزارت داخلہ کے اہلکار اندازہ لگارہے تھے کہ اس طرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، تو نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کے لیے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں اگرچہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو بھارتی وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ: ’’دفعہ ۳۷۰ ،اور ۳۵-اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے‘‘۔البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے امیت شا نے ایک غیرواضح روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔

اس سے قبل جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جو اسمبلی حلقوں کی اَز سرِ نو حد بندی کرے گا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کہے گی۔ جس کے بعد وزرات داخلہ قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔

مودی حکومت نے اس اجلاس میں سب سے بڑی یہ چیز حاصل کی کہ نیشنل کانفرنس نے مذکورہ حدبندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے بربنائے عہدہ ممبران ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اس کے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی بھی شامل تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اس کی مدت ایک سال اور بڑھا دی گئی، تو اس کے دائرۂ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟

اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے، یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر کی آبادی ۶۸ء۸ لاکھ اور جموں کی ۵۳ء۷ لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد ۴۶  اورجموں کی ۳۶تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ ۲۶,۲۹۳  مربع کلومیٹر اور کشمیر کا ۱۵,۵۲۰ مربع کلومیٹر ہے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ نئی اسمبلی میں اب ۹۰نشستیں ہوں گی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیں گی ، مگر اس سے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ ’مجرم بھی خود، مدعی بھی خود اور منصف بھی خود‘ کے مصداق اب نئے فارمولا کے تحت کل ۹۰نشستوں میں ۱۸سیٹیں دلتوں اور قبائل کے لیے مختص ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر ۴۵سیٹیں دی جائے گی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہوں گی، تاکہ وادیِ کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۸ء۵ فی صد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب ۵۰ فی صد تک رہ جائے گا۔

۲۰۰۵ء میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر ’سچر کمیٹی‘ نے اس پر خوب بحث کی ہے کہ جن سیٹوں سے مسلم اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کے لیے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کردیئے گئے ہیں۔ اترپردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب ۲۱ء۴۳ فی صد اور دلتوں کا ۵ء۲۲ فی صد ہے، مگر اس کو دلتوں کے لیے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت ۳۰فی صد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، انھیں جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دلتوں کے لیے انھی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی ۳۰فی صد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولا کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمایندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفین کے طور پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔

جموں خطے میں مسلمان ۳۱فی صد، دلت ۱۸فی صد، برہمن ۲۵فی صد، راجپوت یا ڈوگرہ ۱۲فی صد ، ویشیا، یعنی بنیا ۵فی صد اور دیگر، یعنی سکھ وغیرہ ۹فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ صاف ہوچکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۴سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ ۵۸؍اعلیٰ سرکاری افسران میں بس ۱۲مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران، یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ۴۲فی صد مسلمان ہیں، جب کہ ان کی آبادی  ۶۸فی صد سے زائد ہے۔ پولیس کے ۶۶؍اعلیٰ افسران میں صرف سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا، چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے رُوپ میں پیش کرے‘‘۔ ۲۴جون کی مذکورہ میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ ۷کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نریندرا مودی نے بھارت کو ’جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ‘ قرار دیا۔ یہ مذاق ہی سہی، مگر اس مذاق کو حقیقت کا رُوپ ڈھالنے کے لیے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا کہ ’’وہ ان جمہوری اقدار اور جمہوری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائے‘‘۔ شاید ۲۴جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں خود پاکستان اس کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں مسلم نمایندگی کرنے والے، حیران کن جلدبازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

’’عرب مُردہ باد‘‘، ’’عربوں کے گائوں جلتے رہیں، جلتے رہیں‘‘۔ یہ وہ نعرے ہیں، جو اسرائیلی آبادکاروں کا ’پرچم مارچ‘ قدیم مقبوضہ بیت المقدس کی گلیوں میں لگاتاہوا ۱۵ جون ۲۰۲۱ءکو گزر رہا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد انتہا پسندوں کی تھی۔ یہ انتہاپسند ،نسل پرست صہیونیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ’گوری بالادستی‘ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا کے ممالک، امریکا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں ان کی قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔

اسرائیلی آبادکاروں کی اکثریت دراصل انھی انتہاپسند صہیونیت سے تعلق رکھنے والے صہیونی آبادکاروں پر مشتمل ہے، جنھیں دوسرے ممالک سے لاکر یہاں آباد کیا گیا ہے اور ان کی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقوں میں جا بجا یہ بستیاں اپنے طرزِ تعمیر سے الگ تھلگ مقامات پر موجود ہیں۔

صہیونی، عرب مقبوضات پر اسرائیلی قبضے کی سالگرہ ہر بار ’پرچم مارچ‘ کے ذریعے مناتے ہیں۔ جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ان علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا۔ یاد رہے مشرقی بیت المقدس بھی مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس سال جب یہ مارچ نکالا گیا تو جلوس وہاں کے فلسطینی علاقوں سے گزرا اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال بھرے نعرے لگاتا رہا۔

اس مارچ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک صدی پہلے کے اس ’نازی مارچ‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے، جو پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد یورپ میں نکالا جاتا تھا۔ اس کی حالیہ مماثلت امریکا میں نکالے جانے والے مارچ سے بھی ہے، جو نسلی منافرت اور گوری بالادستی کے پیروکار نکالتے رہتے ہیں کہ ’’امریکا سے کالوں اور رنگ دارنسل والوں کو نکالو‘‘۔

مقبوضہ بیت المقدس میں نکالا گیا یہ مارچ، سفیدفام امریکی قوم پرستوں کے ۲۰۱۷ء کے مارچ سے بھی ملتا جلتا ہے۔ یہ مارچ شارلو ٹزویل (ورجینیا) میں نکلا تھا، جو ’گوری بالادستی‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ ان کے نعروں میں صدیوں سے آباد امریکیوں ہی سے کہا گیا تھا کہ ’تم ہماری جگہ نہیں لے سکتے‘۔ شارلو ٹزویل اور مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے جانے والے مارچوں میں صرف ایک فرق یہ تھا کہ اسرائیل میں مارچ کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ مگر اس کے برعکس فلسطینیوں کو اس مارچ کے راستے میں آنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ امریکی اور صہیونی مارچوں میں مماثلت یہ تھی کہ یہ مخالفین کے قتل عام اور شدید نسلی منافرت کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوںاور گلیوں میں ہرطرف فلسطینیوں سے نفرت اور ان کو بے دریغ قتل کرنے کے عزائم ظاہر کیے جارہے تھے۔

 امریکی ’گوری بالادستی‘ اور ’صہیونی منافرت‘ کے ان مارچوں میں یہ مماثلت کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ ان میں مخالف کے لیے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس کے مارچ سے امریکی استعماریت سے گہری وابستگی کا بھی اظہار کیا گیا۔ یہ امریکی استعماریت، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب مسلمانوں کے خلاف مسلسل روا رکھی جانے والی پالیسی ہے۔

  • امریکی استعماریت:مئی ۲۰۲۱ء میں ’شیخ جراح‘ کے علاقے میں مقیم نوجوان فلسطینی خاتون مونا الکرد نے بتایا کہ ’’میرے ایک پڑوسی صہیونی آبادکار جیکب نے مجھے بے دخل کر کے میرے گھر پر قبضہ جمالیا۔ میں نے اسے کہابھی کہ تم جانتے ہو کہ یہ تمھارا گھر نہیں ہے۔ مگر اس صہیونی نے جواب دیا: ’’میں تمھارے گھر آ گیا ہوں۔ اب تم واپس نہیں آسکتی۔ یہاں سے چلی جائو اور مجھے گھور کر مت دیکھو‘‘۔

اس واقعے کی وڈیو بنی اور دُنیا بھر نے صہیونی نسل پرستوں پر لعن طعن کی۔ بعد میں یہ بات کھلی کہ وہ نیویارک سے یہاں آیا تھا اور پچھلے امریکی صدر ٹرمپ کا پُرجوش حامی و مددگار رہا تھا۔ اس کا تعلق امریکا میں آبادکار تنظیم ’نہالات شمعون‘ سے تھا۔ کسی کو بھی اس انکشاف پر حیرت نہ تھی کہ وہ امریکا سے آیا آبادکار تھا اور اس نے یہ حرکت کی تھی۔ یاد رہے تنظیم نہالات بھی ’گوری بالادستی‘ کے لیے کام کرتی ہے۔

امریکا سے آئے ایسے ہی آبادکار برسوں سے ایسی اشتعال انگیز اور انسانیت کُش کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی جائیداد اور گھر یا کاروبار سے بے دخل کرکے ان پر قابض ہوجاتے ہیں۔ انھیں اسرائیلی حکومت اور سپریم کورٹ کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

یہ نئے اسرائیلی آبادکار اپنے جرائم کی وجہ یا جواز یوں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہم اس سرزمین کے اصل وارث ہیں۔ ہم یہاں کے مقامی لوگوں سے تہذیبی اعتبار سے بہتر ہیں۔ ہم صرف اور صرف خود اپنا دفاع کر رہے ہیں‘‘۔

اس سیاست اور جرم کو سمجھنے کے لیے اسرائیل کے نئے وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی اب تک کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ اسرائیل اور امریکا کے ’گوری بالادستی‘ کے مقاصد اور طریقہ ہائے کار میں کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔

موجودہ وزیراعظم کے والدین بھی سان فرانسسکو سے نقل مکانی کرکے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین آئے تھے۔ وہ آبادکاروں کی تنظیم ’یشا کونسل‘ (Yesha Council) کے سربراہ بھی رہے۔ یہ تنظیم امریکا میں اسرائیل کے تزویراتی مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتی ہے۔ یہ تنظیم دریائے اُردن اور بحیرئہ روم کے درمیان آبادکاروں کے معاشی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز بنجمن نیتن یاہو کے کٹھ پتلی کے طور پر کیا۔ وہ اس بات پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ یاہو سے بڑے نسل پرست سیاست کے علَم بردار ہیں۔

نیفتالی، مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ موصوف کا برملا یہ دعویٰ ہے کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں بے شمار عرب قتل کیے ہیں‘‘۔  ان کے خیال میں فلسطینی کم تر درجے کے انسان ہیں۔ وہ انھیں Sub-Human قرار دیتے ہیں، اور یہ عزم ظاہر کرچکے ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ انھیں قیدکرنے، ان کی توہین کرنے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نئے اسرائیلی وزیراعظم کی پوری زندگی ایک ایسے نسلی قوم پرست کی رہی ہے، جو فلسطینی خون بہانے اور ان کی زمین ہتھیانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

  • امریکی استعمار کا یہودی چہرہ: فلسطینی امریکی دانش ور ایڈورڈ سعید نے استعماریت اور یہودیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا:

اس اتفاق میں ذرہ برابر مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صہیونیت کے ستائے فلسطینیوں اور امریکا کے کالے، پیلے اور برائون لوگوں کے تجربات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان سب انسانوں کو کم تر انسانوں سے بھی کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کو انیسویں صدی کے استعماریوں کے ہاتھوں ایک جیسے حالات کا سامنا رہا ہے۔

ایڈورڈ سعید نے ۱۹۷۹ء میںایک مضمون لکھا تھا کہ ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی ہوس ناکی نے سمندرپار علاقوں پر قبضہ جمانے کی راہ اختیار کیے رکھی اور صہیونیت بھی کسی طرح سے پیچھے نہ رہی۔ صہیونیت نے خود تو کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ یہودیوں کی تحریک ِ آزادی کا ہی تسلسل ہے بلکہ اس نے اپنا عملی تعارف یہود کی آبادکاری کی تنظیم کے طور پر کرایا ہے‘‘۔

سعید کا مزید کہنا ہے کہ ’’مقامی آبادیوں اور ثقافتوں کے خلاف کارروائیوں سے یہودی بستیاں بسانے کی ایسی ہی پالیسیاں اور پروگرام جاری رکھے گئے ہیں۔ انھی تصورات پر مبنی امریکی قوم پرستی اور استعماریت کو کھڑا کیا گیا تھا۔ یہی سب کچھ صہیونیت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے ذریعے ہی اب فلسطینیوں کو ان کی املاک سے محروم کیا اور خود ان کی زندگی کو ختم کیا جارہا ہے‘‘۔

آج بظاہر دُنیا پر امریکی بالادستی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونیت، اسرائیل میں امریکی استعماریت کا ہی تسلسل ہے اور فلسطینی ان کا ہدف ہیں۔

  • یہودیوں کا کردار:یہودی سیاسی ورکر اپریل روزن یلم نے ۲۰۰۷ء میں اپنے پمفلٹ ماضی کہیں نہیں جاتا [The Past Did'nt Go Any Where] میں لکھا تھا کہ یہود مخالف نکتہ یہ ہے کہ ’’یہودی چہرہ سامنے رکھا جائے تاکہ صہیونی حکمران طبقات کے بجائے یہودی عوام کے غصے کا نشانہ بنتے رہیں‘‘۔

روزن بلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حکمران طبقات نے صدیوں سے یہودیوں کو مڈل مین کے کردار میں پیش اور استعمال کیا۔ یہودی کسان بھی حکمرانوں کی غیرمنصفانہ پالیسیوں کا براہِ راست نشانہ بنتے رہے ہیں اور آج بھی امریکی استعماریوں اور صہیونیوں نے اپنے ہم مذہب یہودیوں کو بفر کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔

درحقیقت، یورپ اور اس کے علاوہ صدیوں سے حکمران طبقات نے یہود سے نفرت کا بیج بویا ہے۔ یہودیوں کو اپنی ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنے والا قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اب وہ وہی کچھ کر رہے ہیں اور سیاسی و تہذیبی طور پر اسے آگے بڑھا رہے ہیں، جو ان کی مطلوب پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔

امریکا نے مقبوضہ فلسطین میں ان آباد کاریوں کے خلاف مصنوعات کے بائیکاٹ کی فلسطینی مہم کو کئی ریاستوں میں خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن حکومت میں بھی ایسے قوانین نافذ ہیں، جو اس مہم کو روکنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔مغرب کا میڈیا ایک معمول کے طور پر اسرائیل کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جارہا ہے۔ وہ اسرئیلی ریاست اور یہودیوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔

امریکا بظاہر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں یہودیوں کا دفاع کررہا ہے۔ مگر دراصل وہ اسرائیل میں اپنے مفادات کو فروغ دے رہا ہے، جس سے اس کی اپنی سامراجیت قائم رہے۔  یہ امریکا میں سرگرم ’گوری بالادستی‘ کی تحریک ہی کا ایک بدنُما اور خونیں عکس ہے۔

آج یہودی آبادکاروں کی نسلی تشدد کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے خلاف غم و غصے کی لہریں توانا ہورہی ہیں۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی استعماریوں اور صہیونیوں کو اسرائیل میں بے اثر کیا جائے تاکہ وہ قتل عام کی کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کے خلاف جاری مہمات روکیں۔ (الجزیرہ، انگریزی، ۸جولائی ۲۰۲۱ء)

بیسویں صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں، لیکن قید وبند اور شہادت کی آزمایشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشدعام حسن البنا کو سربازار گولی مار کر شہید [۱۲فروری ۱۹۴۹ء]کردیا گیا۔ تنظیم کے متعدد رہنماؤں، جن میں جسٹس عبدالقادر عودہ، محمدفرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب اور ہنداوی دویر شامل تھے، ان کو ۸دسمبر ۱۹۵۴ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ہزاروں کارکنوں کو کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان آزمایشوں کا شکار ہونے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، الحمدللہ، سبھی ثابت قدم رہے۔ پھر، سیّد قطب رحمہ اللہ کے پھانسی [۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء] دیے جانے کے بعد، اخوان المسلمون پر مصائب کا ایک طویل دور شروع ہوا، مگر اس آزمایش کے باوجود اس کا دائرۂ کار پوری عرب دُنیا میں پھیل گیا۔

۱۹۷۰ء میں سفاک مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انوار السادات مصر کے صدر بنے، جو کسی زمانے میں صدر ناصر اور اخوان المسلمون کے درمیان رابطہ کار تھے۔ اس پرانے تعلق کی بنا پر اخوان المسلمون نے ابتدا میں انوار السادات کی حکومت کی حمایت کی مگر بہت جلد یہ تعلقات خراب ہوتے گئے۔ اکتوبر ۱۹۸۱ء میں انوار السادات قتل کر دیے گئے اور حسنی مبارک مصر کے صدر بن گئے جو ۳۲ سال تک مصر کے سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ ۲۰۱۱ء میں اخوان المسلمون کی عوامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

۲۰۱۲ء میں اخوان المسلمون کی حمایت سے وجود میں آنے والی الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) نے مصر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اخوان المسلمون محمد خیرت سعد الشاطر کو صدر بنانا چاہتی تھی، مگرحسنی مبارک کی باقیات کے ہاتھوں جناب محمدخیرت کو ’نااہل‘ قرار دیے جانے کے بعد اس جماعت کے بانی چیئرمین محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہو گئے۔

محمد مرسی کو مصر کے مشہور عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل تھی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یاد رہے محمد مرسی، نائن الیون کے واقعے کو امریکی سازش قرار دیتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سازش کا مقصد افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ امریکا اس حوالے سے مرسی کے ان نظریات کا پُرزور مخالف تھا۔ محمد مرسی مصر کے نئے آئین پر شریعت کا رنگ غالب کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی اسی خواہش پر ان کے اور مصری مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ یوں محمد مرسی کو برسرِاقتدار آئے ہوئے صرف ایک سال گزرا تھا کہ انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل عبدالفتاح السیسی مصر کے حکمران بن گئے۔

محمد مرسی گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر کئی دیگر جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا گیا جن میں توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ۲۰،۲۰ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اس کے بعد محمد مرسی مسلسل قید میں ہی رہے۔۱۷ جون ۲۰۱۹ء کواس وقت جب کہ وہ عدالت میں پیش کیے گئے تھے، عدالت ہی میں گر کر بے ہوش ہوگئے اور اسی بے ہوشی میں خالق حقیقی سے جاملے: انا للہ   وانا  الیہ  رٰجعون۔

اخوان المسلمون کے حامیوں نے محمد مرسی کی اس موت کو ریاستی قتل قرار دیا اور کہا کہ محمدمرسی ملک کے منتخب صدر تھے، انھیں بلا جواز قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ انھیں دانستہ طورپر مناسب طبّی سہولیات سے محروم رکھ کر موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔

  • رابعہ العدویہ کا مقتل: اخوان المسلمون پر آزمایش کا ایک دور محمد مرسی کی اس برطرفی کے ساتھ چلا، جب احتجاج کرنے والے کئی ہزار اخوان مردوں، عورتوں، بچوں اور بچیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے مصری فوج نے جس طرح وحشیانہ کارروائی کی، تاریخ میں ایسی مثال خال خال ملتی ہے۔

سب سے بڑا قتل عام رابعہ العدویہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد النہضہ چوک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق مرسی کے حامی ۴ہزار ۷سو ۱۲ مظاہرین کو تین گھنٹے کی جارحانہ کارروائی میں فوج نے بے دریغ قتل کیا ۔رابعہ عدویہ کا چاروں طرف سے محاصرہ کرکے گھناؤنا قتل عام انجام دیا گیا۔اس دوران جو کوئی اپنی جان بچا کر قریب کی مسجد میں پناہ گزیں ہوئے،  ان پر بھی دھاوا بول کر قتل عام کا ایندھن بنایا۔ رابعہ عدویہ مسجد کی جلی ہوئی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں پناہ گزینوں پر کیا گزری ہوگی۔

  • پھانسیوں کا نیا سلسلہ: ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی تیسری برسی سے تین دن پہلے یعنی ۱۴ جون ۲۰۲۱ء کو مصر کی اعلیٰ سول عدالت نے سابق حکمران مگر اب کالعدم جماعت   اخوان المسلمون کے ۱۲ سینئر رہنماؤں کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا۔

ان کی پھانسی کے اس موجودہ فیصلے کے خلاف اب مزید اپیل نہیں کی جا سکتی، اور اس پر مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے دستخط ہوتے ہی اخوان کے ان رہنماؤں کو پھانسی دے دی جائے گی۔اخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزائے موت سنائی گئی ان میں: سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد البلتاجی، ڈاکٹر صفوت حجازی، مفتی ڈاکٹر عبدالرحمن البر، ، ڈاکٹر احمد عارف اور سابق وزیر ڈاکٹر اسامہ یٰسین شامل ہیں۔

یاد رہے ستمبر ۲۰۱۸ء میں نام نہاد مصری عدالت نے اخوان کے ۷۵ کارکنوں کو پھانسی اور ۷۳۵؍ افراد کو ۱۵ سے ۳۰برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں سے ۴۴؍افراد نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی، جن میں سے۳۱ کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا،جب کہ ۱۲کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔

دنیا بھر میں انصاف کی خاطر شمعیں روشن کرنے والوں کو شاید یہ تلخ حقیقت یاد نہیں ہے کہ اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف، مرکزی رہنما عصام الدين محمد حسين العريان‎ کا اگست ۲۰۲۰ء میں جیل میں غیرقانونی اور فسطائی قید کے دوران ہی انتقال ہوچکا ہے اور اس سے قبل جیساکہ بتایا جاچکا ہے،مصر کے جمہوری طور پر پہلے منتخب صدر محمد مرسی نے ۲۰۱۹ء میں کمرۂ عدالت کی ایک پنجرہ نما جیل میں جام شہادت نوش کیا۔

۱۴ جون کو عدالت نے دیگر ملزمان کی قید کی سزائیں بھی برقرار رکھیں، جن میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع کی عمر قید اور محمد مرسی کے بیٹے اسامہ کی ۱۰ سال قید کی سزا بھی شامل ہے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کو ۲۰۱۳ء میں دارالحکومت قاہرہ میں رابعہ چوک پر دھرنے میں شرکت پر پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے لوگوں کو اس دھرنے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ دھرنا ۲۰۱۳ء میں فوج کی جانب سے بغاوت کرکے منتخب صدر محمدمرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔

یہاں پر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے قبل اخوان کے متعدد رہنماؤں کو فوج کے خلاف احتجاج پر پھانسی دی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر تشویش کا اظہار کرتے  ہوئےکہا ہے کہ ’’اس سال ۵۱؍ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے‘‘۔

  • انسانی حقوق انجمنوں کی مذمت:انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے شرق اوسط اور شمالی افریقہ [مینا] کے لیے ڈائریکٹر تحقیق اور ایڈوکیسی فلپ لوتھر نے مصر میں اخوان المسلمون کے ارکان کو سنائی جانے والی پھانسی کی حالیہ سزاؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’۲۰۱۸ء میں ناانصافی پر مبنی اجتماعی مقدمات کی سماعت کے دوران مصر کی اعلیٰ ترین سول عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی بے رحمانہ سزائیں مصر کی شہرت پر ایک بدنما داغ ہیں، جس کا پرتو پورے ملک کے عدالتی نظام پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے‘‘۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے مصری عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مصری حکومت سے سزائے موت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان پھانسیوں کو الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ گروپ نے بھی ’خوفناک‘ قرار دیا۔

  • سول سوسائٹی کی تشویش:جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو مصری آمر ٹولہ مصر میں تمام جمہوری قوتوں کو ملیامیٹ کردے گا۔ اور ان ظالمانہ سزائوں پر عمل سے نوجوانوں کو خطرناک پیغام ملے گا‘‘۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سیّدسعادت اللہ حسینی نے ایک بیان میں اجتماعی مقدمے میں اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ’’وہ عدلیہ کی آڑ میں وحشت کا بازار گرم کرنے کی مصری حکومتی کوششوں کی مذمت کرے اور اس فوجی حکومت کو غیر انسانی اقدامات سے روکا جائے‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’دنیا بھر کے علما، سول سوسائٹی، مغربی دنیا میں سرگرم انسانی حقوق کی انجمنیں اپنے اپنے ملکوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس غیر منصفانہ اقدام پر عمل درآمد کی راہ روکنے کی خاطر اپنا مؤثر کردار ادا کریں‘‘۔

مصری حکومت کا اپنی کینگرو عدالتوں کے ذریعے پہاڑی کے ان چراغوں کو سزائیں دلوانا کوئی نئی اور عجیب بات نہیں۔ ماضی میں انھی عدالتوں سے حریت کے متوالوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں، جن میں دسیوں پر عمل درآمد بھی کرایا جا چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سزائیں آخری نہیں کیونکہ عدالتوں میں انصاف کے بجائے گھنائونی سیاست ہورہی ہے۔ ججوں کو حکومت وقت نے اپنا آلہ کار بنا کر سیاسی مخالفین کو کچلنے کا جو مذموم منصوبہ بنا رکھا ہے، اس کی قلعی کھل چکی ہے۔

قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر سرسری سماعت کے بعد سزائیں کسی فوجی حکومت کا خاصہ تو ہو سکتی ہیں، جمہوریت کے دعوے داروں کو یہ حربے زیب نہیں دیتے۔ مقدموں میں گواہیاں پیش کرنے کے بجائے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں ہی کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو مجرم ثابت کرنے کے لیے مسلسل یہ خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

  • قومی رہنماوں کی بے قدری کیوں؟! :مصر کی قومی زندگی کے ان جگمگاتے چراغوں کی زندگی کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصر میں برسراقتدار ۲۱ویں صدی کے نئے فرعون اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اخوان المسلمون نے نامساعد حالات کے اندر عرب دنیا میں جس طرح اپنی مقبولیت کا  لوہا منوایا، وہ عرب حکمرانوں اور رجواڑوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ آج اگر عرب دنیا میں آزاد انتخاب کا ڈول ڈالا گیا تو ان کے خاندانی اقتدار دھڑام سے زمین پر آ رہیں گے۔

  • یہ روشن چراغ کون ہیں؟: یہاں پر ہم ان عظیم انسانوں کے تعارف کے طور پر چند سطور رقم کر رہے ہیں:

 

  • ڈاکٹر محمد البلتاجی: البحیرہ گورنری کے کفر الدوار شہر میں ۱۹۶۳ء میں پیدا ہوئے، قاہرہ کے علاقے شبرا میں پروان چڑھے۔ انھوں نے الازہر یونی ورسٹی سے میڈیکل کے پہلے بیج ۱۹۸۷ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان رول آف آنر کے ساتھ پاس کیا۔

دو برس الحسین یونی ورسٹی ہسپتال میں بہترین ڈاکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور وہیں سے ناک، کان اور گلہ کے شعبوں میں تخصص کے بعد الازہر کے کالج آف میڈیسن میں  استاد مقرر ہوئے۔ پھر ترقی کرتے ہوئے آپ اسی شعبے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

محمدالبلتاجی اوائل عمری سے دعوتِ دین اور خدمت عامہ کے کاموں میں سراپا متحرک رہنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی آبائی میونسپلٹی کفرالدوار میں بھلائی اور خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں الازہر کالج آف میڈیسن کی طلبہ انجمن کے صدر بھی رہے۔  وہ ڈاکٹروں کی انجمن کے نمایندے کے طور پر متعدد خیراتی میڈیکل کیمپوں اور قافلوں کے ہمراہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرتے رہے، جہاں انھوں نے غریبوں اور یتیموں کا مفت علاج کیا۔ اپنے علم اور اخلاق میں نمایاں مقام رکھنے اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے کے باعث ہردل عزیز شخصیت ہیں۔

محمد البلتاجی، اخوان المسلمون کے وہ حوصلہ مند قائد ہیں ،جن کی بیٹی کو رابعہ العدویہ میں ان کی آنکھوں کے سامنے تیزدھار آلے سے شہید کر دیا گیا اور ڈاکٹر البلتا کو اپنی شہید بیٹی کے جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہ ملی۔ اخوان المسلمون نے انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت کا ٹکٹ دیا، جس پر وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھوں نے قاہرہ کے علاقے شبرا الخیمہ میں پرائیویٹ ہسپتال قائم کیا۔ مصری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے بعد آپ پارلیمنٹ میں دفاع اور قومی سلامتی کی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔انھوں نے اسلامی پارلیمنٹرینز کے بین الاقوامی کلب کی داغ بیل ڈالی، اور اسلامی نیشنل کانفرنس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب نے قضیۂ فلسطین کا ہمیشہ مذہبی جوش وجذبے سے کیس پیش کیا اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی۔ البلتاجی مئی ۲۰۱۰ء میں غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے ترکی سے بھیجے گئے ’فریڈیم فلوٹیلا‘ میں سوار تھے، جس پر اسرائیل نے غزہ پہنچنے سے قبل کھلے سمندر میں کمانڈوز کے ذریعے حملہ کر دیا تھا۔

ڈاکٹر البلتاجی نے ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے عوامی انقلاب میں بھی شرکت کی۔ آپ کو انقلاب کے ٹرسٹیوں کی مجلس کا رکن منتخب کیا گیا۔پھر وہ فوجی حکام کو سب سے زیادہ مطلوب شخص قرار دیئے گئے۔

 ان کے دو بیٹوں انس اور خالد کو بھی گرفتار کیا گیا اور تیسرا بیٹا فوج کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرگیا۔ اس دوران ان کی بیوی کو جیل میں ملاقات کے دوران جیل کے پہرہ دار پر حملہ کرنے کے بے بنیاد الزام میں چھے ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔یہاں تک کہ ان کی والدہ نے بھی انھیں ۲۰۱۳ء سے ان کی گرفتاری کے بعد صرف ایک بار دیکھا، اور اس کے چھے سال بعد جب ان کا انتقال ہوا تو محمد البلتاجی کو اپنی والدہ مرحومہ کی تدفین میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت نے عوام کے سامنے انھیں مجرم ثابت کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔لیکن ان کی بے گناہی کا سچ تو اس مسکراہٹ کی طرح بالکل واضح ہے، جو ان کے چہرے سے کبھی غائب نہیں ہوتی تھی۔

  • ڈاکٹر صفوت حجازی: مصر کی گورنری کفر الشیخ کے وسطی علاقے سیدی سالم میں ۱۹۶۳ء کو ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد الشیخ حمودہ حجازی الازہر یونی ورسٹی کی فکلیٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے گریجویٹ تھے، جس کا ان کی زندگی اور تربیت پر گہرا اثر رہا، کیونکہ ان کے گھر اسلامی مفکرین اور علما کا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔

انھوں نے پرائمری تعلیم سے پہلے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ تعلیم کے مختلف مراحل مکمل کرتے ہوئے، وہ الجیزہ گورنری کے احمد السید ملٹری سیکنڈری اسکول میں داخل ہو ئے۔ڈاکٹر حجازی نے اسکندریہ یونی ورسٹی کے شعبہ مساحت اور نقشہ جات سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد مدینہ، سعودی عرب میں ملازم ہوگئے، جہاں فارغ اوقات میں وہ مسجد نبوی کے دروس سرکل اور دارالحدیث میں جید علما کے سامنے زنوائے تلمذ طے کرتے رہے۔ چونکہ مسجد نبوی کے حلقہ درس میں آٹھ (۱۹۹۰ء-۱۹۹۸ء) برس تک حدیث کی تعلیم پائی، اس لیے حجازی کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ قاہرہ لوٹ آئے، جہاں انھوں نے مسجدوں میں درس کے حلقے قائم کر کے دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نیز مختلف چینلز پر دینی پروگرام اور دروس بھی ان کی اہم مصروفیات تھیں۔

انھوں نے ’اربن پلاننگ‘ کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا عنوان ’مدینہ منورہ کی تعمیراتی اسکیم‘ تھا۔ انھوں نے حدیث میں ڈپلومہ فرانس کی ڈیجون یونی ورسٹی سے حاصل کیا۔ ڈیجون یونی ورسٹی ہی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’انبیا و رُسل، اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے ہاں: تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے دقیق مقالہ تحریر کرکے حاصل کی۔

۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب میں آپ ہراول دستے کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے انھیں ’میدان کا شیر‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ انھیں ۲۱؍ اگست ۲۰۱۳ء کو مرسی مطروح گورنری سے حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف متعدد الزامات میں مقدمات درج کر دیے گئے۔ بعد ازاں کٹھ پتلی مصری عدالتوں نے انھیں عمر قید سے سزائے موت تک کی سزائیں دلوائیں۔

  • ڈاکٹر اسامہ یاسین نے ۱۹۶۴ء میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے عین شمس یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا، پھر ۱۹۹۵ء میں بطور ماہر اطفال ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری انھوں نے ۲۰۰۸ء میں حاصل کی۔ آپ ۲۰۱۲ء میں مصری پارلیمنٹ کی یوتھ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور  بعد میں امور نوجوانان کے وزیر بنے۔ انقلاب ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کی سرگرمیوں کے دوران آپ اخوان المسلمون کے فیلڈ کوارڈی نیٹر مقرر ہوئے۔ آپ مصری انقلاب کے اواخر میں ’کوارڈنیشن ری پبلکن کمیٹی‘ میں اخوان المسلمون کی نمایندگی بھی کرتے رہے ہیں۔
  • ڈاکٹر عبد الرحمٰن البر، الازہر یونی ورسٹی میں علوم حدیث کے پروفیسر تھے۔ بخاری شریف کے شارح، مستند محدث اور ۲۲ کتب کے مصنف، جو سعودی جامعات میں حدیث پر پی ایچ ڈی کے مقالوں کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔ الازہر یونی ورسٹی میں سرکردہ علما کمیٹی کے رکن تھے۔ مگر یہ سب علما ’دہشت گرد‘ قرار پا کر قابل گردن زدنی قرار پائے۔
  •  ڈاکٹر احمد عارف: ماہر دندان ساز ہیں، جنھوں نے اپنے شوق اور علمی ذوق کی تسکین کی خاطر علوم شریعہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ ایک شعلہ بیان مقرر ہیں، جو انقلاب کے بعد اخوان المسلمون کی ترجمانی کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر احمد ماہر ڈاکٹروں کی پیشہ وارنہ یونین کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے منتظر مصر کے ان عظیم قومی رہنماؤں اور خادموں کی جدوجہد سے عبارت زندگی کا مختصر جائزہ دنیا کے انصاف پسند اور باضمیر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے دسیوں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان مصر کی جیلوں اور کال کوٹھریوں میں گذشتہ نوبرس سے قید ہیں۔

عدل وانصاف کسی ملک کی بنیاد ہوتے ہیں اور ظلم کا نظام کسی ملک کی شہری زندگی کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ یہ اصول مختلف طرح اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ تہذیب وتمدن اور ملک اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع چلتے ہیں اور یہ دنیا انھی کے تابع رہ کر خیر کا نمونہ بن سکتی ہے۔ناانصافی ایک خوفناک ردعمل جنم دیتی ہے۔ جس کے نتائج ملکوں اور عوام کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ جب ظلم کسی معاشرے میں پھیلتا ہے تو اسے برباد کر دیتا ہے ۔ جب یہ کسی قصبے میں پنجے گاڑتا ہے تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ  (الشعراء ۲۶: ۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

ظلم اور ظالموں کی سرکشی پر خاموشی یا مجرمانہ غیرجانب داری اختیار کرنے کا نتیجہ، نیک وبد سب کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۵ (الانفال۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے، جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو، اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔

حدیث مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو بعید نہیں کہ ان پر بھی اسی ظالم جیسا عذاب آ جائے۔ اِنَّ النَّاس اِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلٰى يَدَيهِ أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ  بِعِقَابٍ  مِنْہُ۔

حیدر علی آتش [۱۷۷۷ء-۱۸۴۶ء]کا شعر ہے  ؎

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے

آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ دی نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا‘‘۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔

تاہم، اُس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ’’آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی ۱۹۹۶ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ  وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے‘‘۔

لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ’’افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا ‘‘۔ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دُنیا ۱۹۹۶ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرےگی۔  اس لیے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔

 ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکا نے بھی طالبان سے روابط قائم کیے اور  پھر ان روابط کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔

مثال کے طور پر ۳جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسےمعاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ ۳جون ۲۰۲۱ءکو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتےہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟

دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئےگی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد  امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آئوٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ’’جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔

چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لیے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانب دار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟

ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ  اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے ۴جون ۲۰۲۱ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی۔ ہماری افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں وہاں اسٹرے ٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیںہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں ہماری دوست حکومت آئے‘‘۔

بلاشبہہ یہ درست بات ہے کہ مغربی سرحد پر ہمیں افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو، جو ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نےپچھلے ۱۶ برسوں میں وہاں کافی جگہ بنائی ہے اور ہماری قیمت پر یہ جگہ بنائی ہے اور اس طرح ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور پھر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو سب جانتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں اب کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس سے طالبان یہ تاثر لیں کہ ہم ان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ طالبان کی کسی پالیسی پر اگر ہم اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح سے عوامی سطح پر بیانات جاری کریں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو سختی سے سنادیا کہ ’’آپ نے پاکستان کے خلاف بڑی ناروا باتیں کی ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے، یہ بات کہنا بنتا بھی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ پورا افغانستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ اب آنے والا ہے۔ یہ مرحلہ ایک سال میں آتا ہے یادو سال میں، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں بالآخر طالبان حاوی ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ انھیں کابل پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، متعین طور پر بتانا ممکن نہیں ہے، لیکن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح پوزیشن میں رکھے۔ طالبان میں ہم جو تھوڑا بہت اعتماد اور رسوخ رکھتے ہیں، اس کا یوں احساسِ برتری کے ساتھ اظہار کرکے بھی ہم غلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیرخارجہ نے حمداللہ محب کو یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے بغیر کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘۔ جب ہم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو پھر واضح سی بات ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو بھی موردِ الزام ٹھیرائیں گے، کہ ’’آپ مسائل کھڑے کررہے ہیں‘‘۔ اگر بے جا طور پر آپ کریڈٹ لینا چاہیں گے تو پھر آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے بیانات سےگریز کرنا چاہیے۔

آنے والے دنوں میں افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ طے شدہ الفاظ میں کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال ایک لحاظ سے بہتر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ نیٹو افواج کے آتے ہی ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آنے سے کون سا امن آگیا تھا۔ اگرچہ آج افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل مکمل ہونے کو ہے، لیکن افغان مہاجرین اور دیگر مسائل بھی آئیں گے۔ البتہ جب ایک دفعہ معاملات طے پاگئے تو پھر حالات بہتر ہوجائیں گے۔

بھارت کی طالبان سے رابطہ کاری

۹مئی ۲۰۲۱ء کے روزنامہ ہندستان ٹائمز  میں خبر شائع ہوئی کہ’’ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ رابطے پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں‘‘۔ مجھے اس خبر پر کچھ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ بھارت سرکار کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں نے ہی یہ خبر جاری کی ہے۔ اجیت دوول بھارتی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ ان سے میری کچھ ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس بنا پر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کے طالبان سے رابطے میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے۔ یہ بھارت کی مجبوری ہے اور اسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہوجائے گا تو پھر افغانستان پر حکمرانی کی دعوے دار ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ اور وجود کو خود کابل شہر میں بھی برقرار رکھ سکے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ جو کابل حکومت کاحصہ ہیں، وہ آہستہ آہستہ کابل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جاتے ہوئے نظرآئیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ بھارت میں یا مغربی ممالک میں پناہ لیں گے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء کے موسم سرما میں جب سے طالبان کی حکومت ختم کی گئی، بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری بھی کی ہے، تقریباً تین ارب ڈالر۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں جیسے ڈیمز،افغان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر اور کچھ یونی ورسٹیاں بھی تعمیر کیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو پاکستان نے بھی افغانستان میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن ہماری سرمایہ کاری اس پیمانے پر نہیں ہے اور ہماری رفتار بھی سُست رہی ہے۔ بہرحال بھارت نے افغانستان میں انوسٹ کیا اور خاص طور پر نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ، جو انٹیلی جنس ادارہ ہے اس میں بہت سرمایہ اور مہارت صرف کی ہے۔ اس بھارتی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ایسی صورتِ حال برقرار رہے، جس سے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے، اور بھارت نے عملاً ایسا کیا بھی ہے۔ یہ بات اوپن سیکرٹ اور کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ ( TTP)کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور بہت سی کالعدم بلوچ تنظیموں کو بھی استعمال کیا۔

بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اب زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ ماہرین اور دفاعی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ حکومت چلی جائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ رابطہ کررہا ہے اوران کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور بہت سے دوسرے ممالک طالبان سے رابطے میں ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات بھی اسی بات میں مضمر ہیں کہ جو بھی اگلی حکومت آئے، اس کے روابط اس کے ساتھ ہونے چاہییں، تاکہ وہ اس کھیل سے بالکل ہی باہر نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بات افغان طالبان کو بھی مفید مطلب لگتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جہاں تعلقات ہوں، وہاں وہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں تاکہ پاکستان پربھی ان کا دبائو رہے۔ یہ طالبان کی بہت زبردست حکمت عملی ہے کہ وہ تمام ممالک سے رابطہ رکھیں۔ اگر وہ حکومت میں آجاتے ہیں یا افغانستان پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ دنیا کے اہم ممالک ان کی حکو مت کو تسلیم بھی کریں۔ اس لیے کہ پچھلی مرتبہ ۱۹۹۶ء میں جب ان کی حکومت بنی تھی تو صرف تین ممالک: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم، اس دفعہ وہ چاہیں گے کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو ان کو زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص بڑے ممالک ان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس لیے بھارت کا طالبان سے رابطہ اس کے نقطۂ نظر سےبھی ٹھیک ہے اور طالبان کو بھی یہ مناسب لگتا ہے۔ لہٰذا ، کچھ عرصے کے بعد اگر یہ اطلاع بھی مل جائے کہ اجیت دوول کی مُلا برادر سے ملاقات ہوگئی ہے تو یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہوجائےگا تو ترکی، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رُکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرےگا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھیے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔

دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے نکلنے کےبعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہیے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالامال (resource rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکا کے لیےبھی بہت اہم ہے۔ اس لیے امریکا، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔

پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ’’ جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور تقدس نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولیات کس کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔

بہرحال، اگر ہم نے امریکا کو یہ سہولیات دیں تو طالبان اسے ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے وثوق سے کہا کہ ’’پاکستان کوئی ایسی سہولیات نہیں دے رہا‘‘۔ لیکن اس تردید کے باوجود کچھ خبریں مل رہی ہیں کہ شاید ہم کچھ شرائط کے تحت یہ مان بھی لیں۔ اس لیے اس موضوع پر حتمی بات کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ امریکا کو اڈے دینا، پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لیے درست نہیں ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دُہرانی چاہییں، جن سے پاکستان کے مفاد کو پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور آیندہ شاید اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امن مذاکرات کا مستقبل

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمایندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: Stepping into the Future Peace Partnership Progress۔

یہ کانفرنس ’چیٹن ہائوس رُول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہائوس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ’’مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔

کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ’’ایک عبوری نظام بننا چاہیے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہیے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہییں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لیے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟‘‘

میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ’’طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟‘‘ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکا کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکا کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔

افغان وفود کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دبائو رکھنا چاہیے‘‘۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ’’یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دبائو ہوسکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لیے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ’’وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔

کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ’’طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟‘‘ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ’’طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی‘‘۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں، جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں،  وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ’’طالبان غیرسنجیدہ ہیں‘‘۔

ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ’’اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟‘‘ کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ’’اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں‘‘۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں‘‘۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رُکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکا کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔

افغان تجارتی معاملات کا مسئلہ

ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خودانحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے‘‘۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لیے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دی گئی ہے۔

افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ’’اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ’’افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کرسکے؟ آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے، اسے بھارت استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لیے اصرار نہ کرے، جو اس کے لیے ممکن نہ ہو‘‘۔

پھر یہ بھی کہا: ’’اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کردیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ’’وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہیے‘‘۔

یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹروہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکورٹی کنسرن ) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔

افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لیے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی، جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے،اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ اُن چیزوں پر دبائو نہ ڈالے جو پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دبائو میں آکر کیے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

یہاں ہم جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ پیش کریں گے کہ خود بھارتی دانش ور اس صورتِ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں نئی دہلی حکومت جس انداز سے اپنے آپ کو مسلط کیے ہوئے، اس کا اثر کشمیر کے بے بس اور مجبور شہریوں پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔

جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان فائربندی فروری ۲۰۲۱ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔  اس دوران دو افسوس ناک واقعات کے علاوہ عمومی طور پر فائربندی پر دونوں افواج نے عمل کیا۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں خوفناک فائرنگ، مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان چار ماہ کے دوران وادیٔ کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ۵۷؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی عرصے میں بھارتی سیکورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران ۲۰سے زائد مکانات کو جلاکر راکھ کر دیا، یا زمین بوس کرکے اس کے مکینوں کوبے گھر کر دیا ہے۔

سرزمین کشمیر کی صورتِ حال

حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ نے مارچ، اپریل ۲۰۲۱ء میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا (یاد رہے یہ گروپ غیرسرکاری سطح پر رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تمام ارکان اپنے سفرخرچ اور قیام و طعام کے اخراجات ذاتی جیب سے کرتے ہیں)۔ نئی دہلی واپسی پر انھوں نے اپنی آٹھویں رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ’’خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سیکورٹی فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں گشت کرتے نظر آئے، مگر احساسِ شکست اور اس کے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘‘۔

یہ امرواقعہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ خطۂ کشمیر ’عالمی کورونا وبا‘ پھوٹنے سے قبل ہی جبری لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے کاروباری اور دیگر اجتماعی خدمت کے ادارے تہس نہس ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو اپنی کامیابی و سرشاری کا لطف اُٹھانے کا موقع عطا کررہی ہے۔ کشمیر  کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو برسوں میں ہم نے اس قدر ذلّت و رُسوائی کا سامنا کیا ہے کہ ۷۰برسوں میں کبھی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ‘‘۔

یکے بعد دیگرے احکامات: ’روشنی ایکٹ‘ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا، جیسے اقدامات کشمیریوں کی نفسیات کو گہری ضرب لگانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات و اقدامات کی حالیہ مثال ’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فہرست خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے، اپنے صواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنے صواب دیدی اختیارات کا استعمال تو کردیا، مگر دوسری طرف خود پولیس کا کہنا ہے کہ ان عتاب زدہ یا برطرف کردہ افراد کا ہمارے پاس کوئی ’مجرمانہ ‘ ریکارڈ نہیں ہے۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہے۔ یہاں نئی دہلی سرکار کے مقرر کردہ حکمران، مقامی لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کے جہنّم میں دھکیلنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔

حکومت کے کسی بھی اقدام سے اختلاف کا اظہار کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں طباعتی و ابلاغی صحافت کا وجود اور اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کرنے پر مجبور ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ ’فیس بک‘ تو دُور کی بات ’وٹس ایپ گروپس‘ پر معمولی سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر کئی افراد کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ بہت سوں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

ایک کشمیری دانش ور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی اپنے آپ کو اس قدر بے بس، بے زبان اور یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ بھارت نواز اور آزادی نواز قیادتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز کشمیری لیڈروں یا مقامی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور بیش تر حریت لیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا گھروں میں نظربند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی سیکولر لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اُمید رکھتے تھے کہ شاید وہ مودی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ مگر وہ تو اپنے مقامی اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی بھی مدد نہیں کر پائے‘‘۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے کر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’’ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا‘‘۔ مقامی لوگ اس الزام کو ایک بے پر کا بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک وحیدپرہ، بھارتی حکومت اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اس کو متعدد کانفرنسوں، مباحثوں اور سیمیناروں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اس کو ’’کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا‘‘۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیتے ہوئے دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا‘‘۔

ایک مقامی تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ ’’۱۹۵۳ءکے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو مؤثرانداز سے تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پُل کا کام کرتا تھا اور آڑے وقت میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے‘‘۔ گروپ کے مطابق ’’کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ معیاری رویے کی آئینہ دار نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کررہی تھیں۔ کشمیر کو اب ’حکم ناموں‘ (Orders)کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لے کر آتا ہے‘‘۔

پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’ہمیں توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے گی، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے‘‘۔ کشمیری آبادی میں پاکستانی قیادت کے لیے یہ رجحان لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام، بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آج کل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے بیگانہ ہی رہتے تھے۔

 اس گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو برسوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں (ڈی ڈی سی) کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں  نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ مگر یہ انتخابات ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابا ت کا بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب چرچا کر رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی اراکین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ ’’انھیں عوام سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں ان کو محصور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بات کرتے ہوئے ڈرتے، جھجکتے اور بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹرانسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کرپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ نظام بھی ٹوٹ چکا ہے‘‘۔

ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ ’’مجھ کو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آج کل ٹھوکروں کی زد میں ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے علاقے کے  کئی نوجوانوں کو حراست میں لے کر بھارت کی دُور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص کو، جس کو اس کی بھاری بھرکم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ ’کرنل ستار‘ کے نام سے پکارتے تھے، حراست میں لے کر اترپردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس شخص کا کسی عسکریت سے دُور دُور تک کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے حفاظت کے لیے جو سیکورٹی اہلکار دیے گئے ہیں، و ہ میری جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں‘‘۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ’’ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے‘‘۔ جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومتی اہلکاروں نے بتایا: ’’حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق گھر میں نظربند نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ مگر جب اگلے روز یہ گروپ ان کی رہایش گا ہ پر پہنچا، تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر میں ۸۰۸کشمیری ہندو، یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ۱۹۹۰ءمیں دیگر پنڈتوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا: ’’۲۰۱۱ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر ۶۴ خاندان ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ۳۹۰۰  ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنھیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے‘‘۔ سنجے تکو کے مطابق: ’’کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آرایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں (Global Kashmiri Pandit Diaspora - GKPD) کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے، تاکہ اس کو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورموں اور انتخابات کے موقعے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین پنڈتوں کا نام خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔

وادیٔ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے مذکورہ گروپ کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

گروپ کے مطابق: ’’آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں‘‘۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: ’’چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دُور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے‘‘۔

 فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟

کشمیر پر افواہوں کی یلغار یا کشمیریوں کا نفسیاتی قتل عام؟

اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سُکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دُہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً ۳۰۰ مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ ’’کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟‘‘

 شاید کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا رُوپ بھی دھار لیتی ہیں۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی توکرائی ہے،مگر ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے ’سیکورٹی یا سلامتی‘ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ [یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے] نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ’’دفعہ ۳۷۰، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا‘‘۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیےراہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔

  • پہلی افواہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اس کو ’جموں پردیش‘ رکھا جائے گا، یعنی اس سے لفظ کشمیر حذف کر دیا جائے گا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریںگے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائے گی، جس کا حوالہ دے کر کشمیر کو ’ہندوتوا‘ کے وسیع ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
  • دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر ، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً ۳۵فی صد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں ۱۵سے ۲۰لاکھ تک مزید مسلمان ساتھ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کی سرپرستی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت، ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی علاقے پیر پنچال اور چناب ویلی پہلے ہی سے ہندو  نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت کے سیکولر رہنماؤں نے بھی پچھلے ۷۰ برسوں سے ان علاقوں کو وادیٔ کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار ۲۰۰۴ء کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دورِ حکومت میں پونچھ اور شوپیاں کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیرات نے ملانے کا کام کیا تھا۔
  • تیسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قدم اُٹھانے سے مجوزہ لداخ صوبہ میں ۲۵لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔
  • چوتھی افواہ یہ ہے کہ جموں کو موجودہ صورت میں ہی الگ صوبہ کا درجہ دیا جائے گا۔ خودبخود یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر جموں میں کئی گروپ آج کل ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے فی الحال اس کو مسترد کر دیا ہے۔ بلاشبہہ جموں کو الگ صوبے کی حیثیت دینا اور وادیٔ کشمیر کو الگ تھلگ کرناہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا پرانا ایجنڈا رہا ہے۔ ایک نسل پرست لیڈر بلراج مدھوک [م: ۲۰۱۶ء] اس مطالبے کے پُرزور حمایتی تھے۔ ۵؍اگست۲۰۱۹ء سے قبل جب پارلیمنٹ میں ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا، تو اس وقت بھی ریاست کے دوکے بجائے تین حصے کرنے کی تجویز پر وزارت داخلہ اور وزارت عظمیٰ کے دفتر میں خاصی بحث ہوئی تھی۔ مگر مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد جموں کو الگ حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ ’’شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا‘‘۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار رہا ہے کہ ’’ایسا ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا‘‘۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ۲۴ جون کو بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی رہایش گاہ پر نئی دہلی نواز آٹھ پارٹیوں کے چودہ رہنمائوں سے ملاقات کی۔ جس میں مودی نے ریاست بحال کرنے کے بجائے یہ کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کریں گے مگر کب؟ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ آپ سب مل کر کام کریں۔ ہم انتخابی حلقہ جات کی نئی حدبندی کرکے انتخاب کرائیں گے‘‘۔ اس طرح عملاً  یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی۔ موجودہ حالات میں بی جے پی حکومت اگرچہ ریاستی اسمبلی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵-اےکو واپس تو نہیں لے گی، مگرڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا محبوبہ مفتی کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں، کئی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا ، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاںکے وزیراعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی ہے۔

  • پانچویں افواہ جس نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلایا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کے کل رقبہ ۱۵۵۲۰ مربع کلومیٹر میں سے ۸۶۰۰مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوںکو بسا کر مرکز کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز ہے، جس کا نام ’پنن کشمیر‘ ہوگا۔ یعنی وادیٔ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے‘‘۔ ’پنن کشمیر‘ کے زیرگردش نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اس کی زد میں آئے گا، لیکن محض ٹونگ ڈار، اوڑی اور پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو ’غزہ‘ کی طرح بسنے دیاجائے گا۔

اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے ایک باضابطہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کے اندر اسرائیل طرز کا ایک خطہ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھے،کہ مودی حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے‘‘۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اَپ کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔ ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ ’’مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں ،بلکہ ہندو احیاے نو کے لیے ملاہے‘‘۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو اس وجہ سے آڑ ے ہاتھوں لیا ،کیونکہ ’’وہ کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے‘‘۔للت امبردار ہی کا کہنا تھا کہ ’’لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی تک غلام ہے‘‘۔ کئی مقررین نے ’’اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کی طرز پر وادیٔ کشمیر کے اندر ’پنن کشمیر‘ تشکیل دینے اور اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی‘‘۔

اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون اور چین چھین رہا ہے ، کہ جب دوسری طرف پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان خاموش اور پس پردہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں موجودہ بھارتی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور براہِ راست نشانہ بنانے سے کچھ عرصے سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔ جس سے آر ایس ایس کو امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں خاصا سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔

مگر یہاں پر ایک بہت بڑا اور نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’اعتماد سازی‘ کے یہ سب اقدامات صرف پاکستان کی طرف سے یک طرفہ ہیں یا بھارت کی طرف سے بھی کچھ بامعنی پیش رفت ہورہی ہے؟ یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران ، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض بھارت نے کشمیریوں کو مثبت طور پر کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ ہم نے یہاں جن پانچ افواہوں کا ذکر کیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس سے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے کون کردار اداکرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ کیا یہ دردناک انسانی ، تہذیبی اور تاریخی سوال، غفلت میں ڈوبے اور ہرآن دھوکا کھانے والوں کو کچھ جھنجھوڑ سکتا ہے؟ کیا عالمی ضمیر اور مسلم اُمہ کے دل و دماغ میں انسانی شرف و حُرمت کی کوئی علامت نمودار ہوسکتی ہے؟