؍اپریل ۲۰۲۲ءکو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، باقی مدت کے لیے شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان مبارک باد کے برقی پیغامات کے بعد باضابط خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں لیڈروں نے پُرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ایسا پُرامن اور بااعتماد اشتراک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے پُر عزم ہے‘‘۔ اس سے قبل نریندرا مودی نے اپنے خط میں اُمید ظاہر کی کہ ’’پاکستان کے نئے حکمران بھارت کے مرکزی ایشو، یعنی دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے میں مدد کریں گے‘‘۔ خطوط کے ان تبادلوں کو نئی دہلی کے حکومتی حلقے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ چندر شیکھر ، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت بھارت کے سبھی وزرائے اعظم کے دلوں میں نواز شریف کے لیے ہمیشہ ایک نرم گوشہ رہا ہے، جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفد گجرال صاحب سے ملا، تو انھوں نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر ان کو خوب سنائیں اور ناراضی کا اظہار کیا۔
واجپائی نے بھی ایک بار بتایا تھا کہ ’’۱۹۹۸ءمیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے مجھ کو بتایا تھا کہ ’’پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں‘‘۔ ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان کے جوابی طور پر جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کے اسی یقین نے واجپائی کو لاہور بس سے سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمدسعید ملک، گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں ۱۹۹۷ء میں ملاقات کے وقت بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔انھوں نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ــ’’ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں ہم صحافیوں نے گجرال صاحب سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ایک مطالبہ جو نواز شریف صاحب نے نہایت ہی زورو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو‘‘۔اس جواب کا سننا تھا کہ کسی بھی صحافی نے بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر کوئی مزید سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکی، جب کہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘‘۔
خود نریندرا مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’’۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں میری بطور وزیراعظم ہند کی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کرکے نوازشریف نے اعتماد سازی میں پہل قدمی کی‘‘۔ بلکہ بعد میں ۲۰۱۵ء میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا، تو اس میں پہلی باربھارت اور پاکستان کی کسی دستاویز سے ’کشمیر‘ غائب تھا۔ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ ’’نریندرا مودی کو سکون دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد ان کو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے‘‘ ۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں لیڈروں نے پیرس میں اور پھر لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔
اس کے برعکس، بھارتی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، اگرچہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور ان کی فیملی کے ساتھ سماجی تعلقات بڑھانے کی بہت کوششیں بھی کی تھیں۔ ’بھٹو،زرداری خاندان‘ اپنے آپ کو ایک طرح سے بھارت کی’ نہرو،گاندھی فیملی‘ کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر بھارت میں کوئی بھی سیاسی رہنما، اپنے دفترخارجہ اور دفاعی اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔
دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران بے نظیربھٹو کو بھارت کے حوالے سے کبھی معاف نہیں کیا ہے۔ وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا پاکستان کے دورے پر آئے بھارتی خارجہ سیکرٹری جے این ڈکشت کو ملاقات کے لیے وقت نہ دینا اور پھر ۱۹۹۵ء میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی عدم شمولیت ایسے گہرے زخم ہیں، جن کے لیے بھارتی قومی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔ بے نظیر نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انھوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کی، اس طرح بھارت پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر کے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈالنے کا جرأت آمیز قدم اُٹھایا۔
۲۰۰۷ء میں ’انڈیا ٹوڈے سمٹ‘ کے موقعے پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی، تو ذرائع کے مطابق انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’آمریت کے خلاف پیپلزپارٹی کی جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا ہے، جب کہ بھارت خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے‘‘۔ بعد میں اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’پیپلز پارٹی، حزبِ اختلاف میں ہو؟ تو بھارت سے خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر بھارت مخالف ایجنڈے کو ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ تنائو رہتا ہے، اسی لیے پیش رفت بھی نہیں کرپاتی ہے‘‘۔
خیر، پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ کا بھارت میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کو کشمیری عوام کی مشکلات آسان کرنے کے لیے استعمال کریں، تو بہت اچھا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل ’فکر مند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group)نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے، جس میں لوگ آپس میں سرگوشی تک کرنے سے بھی گھبراتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر اس وقت جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ءاورآرتھر کوسٹلر کے ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میںاس گروپ کو بتایا کہ ’’کشمیر کی نئی نسل کے سامنے بھارتی جمہوریت کے گن گنوانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے‘‘۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات روز بروز مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب معاشرے میں پھیلا دی گئی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔
اگرچہ بھارتی سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۰ سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے ساتھی مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ ’’وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں‘‘۔ ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ ’’ہم کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کیفیت کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے‘‘۔
کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی زمینی حقائق کے بالکل برعکس فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بارے میں وادیٔ کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ ’’اس فلم سے ان کو فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصا ن ہورہا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے بھارت میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہے ہیں، نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں ۱۹۹۰ءمیںکشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکتوں کے لیے ان کو بھی ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو طبقے میں نفرت پھیلائی گئی ہے‘‘۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومتی منصوبے پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت [مئی ۲۰۰۴ء- مئی ۲۰۱۴ء] کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادیٔ کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ ۱۹۹۰ءکے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے ان کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد، اقتدار کے لیے ہرحد پار کر سکتے ہیں ، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔
۲۰۱۶ء میں اس گروپ کی تشکیل کے بعد ،گروپ کا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہم واضح طور پر ماحول میں تناؤ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ ’حد بندی کمیشن‘ کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی بنیادوں پر دُوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس ’کمیشن‘ نے حدبندی کے لیے آبادی کو معیار بنایا ہے اور نہ جغرافیہ کو۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے ہندو اکثریتی علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تو وادیٔ کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادیٔ کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ ۔راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوں گے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڑ بند ہوتا ہے، تو امیدوار کو ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کے لیے جانے کے لیے اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری۔ پونچھ پہنچنا ممکن ہوگا۔ یہ کیسی حد بندی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لیے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ لگتا ہے کہ ۲۰۲۲ء کے آواخر میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اس ’کامیابی‘ کو پورے بھارت میں ’کارنامے‘ کے طور پر بتایا جائے۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور ان کو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ گوجر آبادی کوپس ماندہ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ اسی طرح پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے‘‘۔
وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھے،کہ کہیں ان کو بعد میں تختۂ مشق نہ بنایا جائے‘‘۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’[انڈین]آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینیر صحافی کو بتایا: ’’ اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں، آپ یہ بتائو کہ اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے ہو یا نہیں؟‘‘ ایک دوسر ے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ ایم M یعنی: ماسز، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا کا معاملہ ہے۔ ہم نے مسجد، مولوی اور ماسز (عوام) کو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘‘۔ میڈیا سے متعلق عوام میں اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر، میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر بھارتی علاقو ں میںبھی اس کا اطلاق کیا جائے گا‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’بھارتی حکومتیں، کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ان کو مراعات و د ھونس دباؤ کے ذریعے خریدنے پر اصرار کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے بھارتی حکومتیں، کشمیر کو باقی ملک [بھارت]کے ساتھ انضمام کے لیے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اس کے وجود اور شناخت ہی کو مٹانے کے درپے ہے‘‘۔
اس لیے اگر شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی یہ حکومت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کے لیے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کرتی ہے، تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی ساکھ کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکے، تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین کہلوانے کے حقدار ہوں گے۔ ورنہ ان دونوں پارٹیوں کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔
بین الاقوامی قانون میں کسی ریاست کو تسلیم کرنے میں چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن افغانستان کا مسئلہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ تاہم، یہاں حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
اس ضمن میں تین چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں: ایک یہ کہ جو بھی ریاست موجود ہو، اس کا پوری سرزمین پر مؤثر قبضہ (effective control ) ہو۔ دوسرا یہ کہ وہاں کوئی آبادی موجود ہو، اس حکومت کو عوام کی تائید حاصل ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ حکومت کام کرنے کے قابل بھی ہو۔ جب کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی قانون میں انھی چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
عام حالات میں تو حکومتیں پُرامن طریقے سے تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جہاں خانہ جنگی ہو یا اس ملک کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں جیساکہ افغانستان میں تھا، تو پھر ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جیساکہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو یہ سوال پیدا ہوا: ’افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟‘ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا، جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اس کو تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل تھے۔ طالبان کی حکومت نے اس وقت بھی تقریباً پانچ سال پورے کیے،مگر اس کے باوجود دُنیا نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ میں بھی ان کو نمایندگی نہیں دی گئی۔ لیکن اُس زمانے میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک سے طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے اورمعاملات چلتے رہتے تھے۔
کسی حکومت کو تسلیم کرنے میں یہ بات اہم ہوتی ہے کہ Defacto (فی الواقع) ہے، یا Dejure (حقیقی)۔ Defacto (فی الواقع) کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔Dejure (حقیقی)کا مطلب ہے کہ قانونی طور پر کسی حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دُنیا نے طالبان کی حکومت کو حقیقت میں تسلیم نہیں کیا، لیکن فی الواقع تمام ممالک ان سے رابطہ بھی کر رہے ہیں، مل بھی رہے ہیں اور کابل میں بہت سے ممالک کے سفارت خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکا سمیت بہت سے دیگر ممالک ان سے رابطے میں ہیں۔خود طالبان حکومت سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے لیے افغانستان میں رابطے کے لیے طالبان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں اصل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات دیکھیں تو نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ پچھلی صدی سے افغانستان میں گریٹ گیم چلتی رہی ہے، اور یہ گریٹ گیم ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ گریٹ گیم امریکا،برطانیہ اور روس کے درمیان تھی، لیکن اب یہ کھیل امریکا اور چین کے درمیان کھیلا جارہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اسی تزویراتی کش مکش کا حصہ ہے۔ پھر اس گریٹ گیم کا حصہ تین اہم ممالک پاکستان، ایران اور بھارت بھی ہیں۔
پاکستان سے ایک اہم سفارتی غلطی ہوئی ہے۔ جب ہم طالبان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کریں اور ان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بن سکیں۔ اسی کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ اس موقعے پر حکومت پاکستان کو کچھ چیزیں طے کرنی اور طے کرانی چاہییں تھیں، جب کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان کی حکومت بننے والی ہے۔ چاہے وہ خانہ جنگی سے آئے یا پُرامن طریقے سے!
گذشتہ چار برسوں کے دوران اسلام آباد میں پس پردہ اجلاس ہوتے رہے، جن میں پاکستان نے شرکت کی۔ افغان حکومت کے پارلیمنٹیرین ان اجلاسوں کا حصہ ہوتے تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’آپ طالبان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور طالبان بھی آپ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اگر طالبان نے آپ کے ساتھ مفاہمت کرلی تو ان کی پوری جدوجہد اور تحریک ختم ہوجائے گی۔ وہ ایک نظریاتی اساس رکھتے ہیں اور وہ اپنی اساس کو کبھی چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کا جو مزاج ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’کچھ لو اور دو‘ کی بنیاد پر مصالحت کریں اور پھر ایک قومی حکومت بنائیں، یہ ہو نہیں سکتا‘‘، مگر انھیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔
ہمارے دفترخارجہ کے بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ ’’اب ۹۰ کے عشرے والی بات نہیں ہے۔ اب ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج بہت مضبوط ہوگئی ہے، اور بیوروکریسی بھی موجود ہے۔ ایسے حالات نہیں ہیں کہ طالبان آئیں گے اور قبضہ کرلیں گے‘‘۔ مگر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ۱۴؍اگست ۲۰۲۱ء کو جب امریکی حمایت سے قائم صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوئے تو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ابتدا میں پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہیے تھا کہ طالبان ہی کو بہرحال حکومت بنانی ہے۔۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء سے پہلے ہم نے جو اقدامات کیے، مثال کے طور پر احمدشاہ مسعود کے بھائی کو ایک ماہ قبل اسلام آباد میں آنے کی دعوت دی اور ان کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اسی طرح اور بہت سے لوگوں کو بلایا گیا۔ حکومت، دفترخارجہ کے کچھ افراد اور دفاعی حلقے کے صلاح کار پریشان فکری کا شکار تھے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اگر ’’ہم شمالی اتحاد یا جسے ’قومی مزاحمتی فوج‘ کہتے ہیں کو رابطے میں لائیں گے تو طالبان پر دبائو بڑھا سکیں گے اور شاید طالبان افغان حکومت سے مفاہمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن غالباً ان سب لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ برادرانہ دبائو کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ دبائو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج کرنے لگے گا تو پھر مؤثر نہیں رہے گا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم امریکا سے یہ طے کرلیتے کہ اگر طالبان کی حکومت آگئی، تو ہمیں ان کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟ صرف امریکا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی خاص طور پر ہمیں کچھ چیزوں کا تعین پہلے سے کرلینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو طالبان نے حکومت کا کنٹرول سنبھالا تو اسلام آباد میں حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ یہ بالکل اسی طرح معاملہ ہوا ،جو ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا، جب بھار ت نے کشمیر پر غیرآئینی اقدامات کیے تو حکومت کو سمجھ نہیں آئی کہ اب ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا، لیکن ہم شاید سوئےرہے اور اس بوکھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔
۲۰دسمبر ۲۰۲۱ء کو ہم نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ یہ انسانی تناظر میں ایک اچھی کوشش تھی، کیونکہ اگر افغانستان بحران سے دوچار ہوتا ہے یا معاشی تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو مسائل کا سب سے زیادہ تباہ کن بوجھ پاکستان ہی پر آنا ہے۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہماری افغانستان کے ساتھ ۲۶ سوکلومیٹر طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں جو بھی صورتِ حال ہے، اس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، افغانستان کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے چل رہا ہے۔ اُس زمانے میں ہرروز پشاور میں دھماکے ہوتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی کوتاہی سے نہیں سیکھا، اور طالبان کی حکومت کے لیے پیش بندی نہ کی۔ اور نہ یہ جاننا چاہا کہ طالبان کس فکر، کس عزم اور سوچ کے علَم بردار ہیں۔
اگلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے یہ کہہ کر اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ لیے کہ ’’ہم علاقائی سوچ کے ذریعے آگے بڑھیں گے‘‘۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے لیے گنجایش بہت کم رہ گئی۔ ڈپلومیسی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی محدود تصور کا پابند کرلیں۔ اس طرح آپ کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے علانیہ یہ کہہ دیا کہ ’’ہم طالبان کی حکومت کو اکیلے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ بے شک حکومت کو تسلیم نہ کرتے، لیکن علانیہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ہم چیزوں میں کچھ گنجایش رکھتے تو پھر دُنیا بھی یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور یوں وہ بھی آگے بڑھ کر قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ ہمارے اس عاجلانہ اور غیرحکیمانہ موقف نے ہمارا اثرورسوخ ختم کردیا اور افغانستان کے مسئلے پر ہماری جو کلیدی پوزیشن ہونی چاہیے تھی وہ ہم نے خودختم کردی۔
بلاشبہہ پاکستان تنہا افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہماری مخدوش معاشی صورتِ حال، ایف اے ٹی ایف کامعاشی دبائو اور بہت سی مجبوریوں کا ہمیں سامنا ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے سے ہمارے متبادل اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ا س وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ یوکرین کے مسئلے پر زیادہ اور افغانستان کی صورتِ حال پر کم ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے مسائل اور بڑھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلانے سے افغان بھائیوں کے لیے ہم کچھ فنڈز جمع کرلیں گے، لیکن وہ بھی نہیں ہوپایا، اور نہ ہم اس کے لیے کوئی طریق کار ہی وضع کرسکے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات یاد رکھیے کہ بھارت نے افغانستان سے اپنے ہاتھ کھینچنے نہیں ہیں۔ پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نے وہاں بہت سے اثاثے (assets ) بنائے ہیں۔ بھارت اور امریکا کا ایک مشترکہ ہدف یہ ہے کہ وہ اس خطے اور افغانستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امریکا یہاں سے بظاہر چھوڑ کر تو چلاگیا، لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان اسی طرح انگارہ بنا رہے اور پاکستان بھی مسائل سے دوچاررہے۔ صرف بھارت اور امریکا ہی یہ نہیں چاہتے کہ گوادر نہ بنے، سی پیک آپریشن بند ہوجائے، بلکہ ہمارے کچھ قریبی دوست ممالک بھی نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ تعمیر ہو، کہ اس طرح ان کی اپنی بندرگاہوں کے معاملات متاثر ہوجائیں گے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے کوئی یک طرفہ فیصلہ کرسکے۔ ہمیں طالبان کو قائل کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ایک وسیع تر حکومت نہیں بناسکتے، تو کم از کم ’لویہ جرگہ‘ ہی بلایا جائے تاکہ حکومت کے لیے کوئی قانونی جواز پیدا ہوسکے۔دُنیا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کررہی۔ ان کا یہ ایک بے تُکا اور غیرمنصفانہ اعتراض ہے کہ ’’طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے‘‘۔ اگر دُنیا کی تاریخ پڑھیں تو بیرونی جارحیت کے خلاف حکومتیں اسی طرح بنتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پشتون اکثریتی نسلی گروہ ہے۔ افغانستان میں ۲۷ فی صد تاجک رہتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے باقی نسلی گروہوں کو بھی نمایندگی دی ہے، مگر تاجکستان اور ازبکستان کو اس پر پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں ان برادر ممالک کی پریشانی کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دوچیزوں پر طالبان کو کچھ نہ کچھ نرمی دکھانی پڑے گی۔ اگرچہ وہ عبداللہ عبداللہ یا حامد کرزئی کو حکومت میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن اپوزیشن کی دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کو توشامل کیا جاسکتا ہے اور ایسے افراد کو لیا جاسکتاہے جو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج نہ کریں۔دوسرا معاملہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے مواقع کا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس مسئلے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن اس میں مزید گنجایش پیدا کریں تو مناسب ہوگا۔
ان حالات میں پاکستان پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آج کل یوکرین کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ہمیں تو افغانستان کی فکر کرنی ہے کہ اس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، تاکہ یہاں استحکام پیدا ہو۔ البتہ یہ مسئلہ اب راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگلے ایک دو سال تک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا، جو اپنی جگہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔
روس اس وقت یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، لیکن پاکستان، چین اور ایران، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور طالبان کو اس بات پر تیار کرسکیں کہ وہ کچھ نرمی دکھائیں تو اس طرح معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جاسکے گا۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں ایک طویل مدت کے بعد امن کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس بار پورے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کی طرح کی صورتِ حال نہیں ہے کہ جب طالبان کے پاس مزارشریف اور وادیِ پنج شیرنہیں تھی۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں ہے کہ دُنیا انھیں تسلیم نہ کرے۔
اب تک اقوام متحدہ میں افغانستان کے حوالے سے دو قراردادیں منظورہوئی ہیں۔ ایک ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء کو قرارداد ۲۵۹۳ منظور ہوئی، جب بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صرف ایک دن پہلے جب اس کی صدارت ختم ہورہی تھی، وہ ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں وہ تمام مطالبات میں شامل ہیں، جو دُنیا کہہ رہی ہے۔ پھر ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء کو ایک اور قرارداد ۲۶۱۵ منظور ہوگئی۔ اس میں بھی اسی قسم کے مطالبات ہیں۔ ان حالات میں سفارتی عمل مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہرمسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن اگر ہم اہداف متعین کرکے مسلسل کوشش کریں تو کامیابی مل سکتی ہے۔
بھارت میں روز بروز حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں، جس سے بھارت میں بسنے والا ہرمسلمان مضطرب اور ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے خطرناک مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ ایک افسوس ناک واقعے پر کچھ لکھتے ہوئے، سیاہی خشک نہیں ہوتی، کہ دوسرا اُس سے بھی بڑھ کر الم ناک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسے صبح و شام میں کسی تبصرہ نگار کے لیے جم کر بات کرنے کی ہمت ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ترتیب اور متعین مذموم مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل آف انڈیا کے سربراہ ارکار پٹیل نے مدھیہ پردیش کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کو کھرگون انتظامیہ نےغیر قانونی طور پر منہدم کیا ہے‘‘۔
پتھر بازی کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنے کی ہندستان میں پرانی روایت ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت میں ہونے والے ۱۴ ہزار بڑے مسلم کش فسادات میں اکثر یہی پتھرائو والا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہبی جلوس اور یاتراؤں کو پہلے پولیس و انتظامیہ مسلم علاقوں سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں، پھر چند بدمعاشوں کو مسلمانوں کےسادہ لباس میں ملبوس کرا کے ان جلوسوں پر کچھ پتھر پھینکوائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ نعرے بازی ، آتش زنی، قتل و خون ریزی، لُوٹ مار، مسلم عورتوں کی بے حُرمتی___ فساد شروع ہوجاتا ہے ۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں اس طرح مسلط کردہ فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
یوں پتھراؤ یا پتھر بازی کا بہانہ کرکےفساد بھڑکائے جاتے ہیں ۔ فسادی غنڈے پولیس کی مدد، سرپرستی اور تائید سےمسلمانوں کے قتل، ریپ اور انھی کی املاک کو نذرِ آتش کرنے میں معاون بن کر یک طرفہ کارروائی کرتے ہیں، اور پھر انھی متاثرہ مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو فسادی قرار دے کر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ بظاہر ’توازن‘ رکھنے کے لیے ہندو آبادی سے پکڑے چند لوگ بہت جلد باعزّت بری ہوجاتے ہیں، مگر مسلمان نوجوان جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔
آنجہانی جنرل بپن راؤت ۲۰۱۷ء سے کشمیری مائوں کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ ’’اپنے بچوں کو روکے رکھو ورنہ جو پتھر اُٹھائے گا وہ کچل دیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد پتھرائو کے الزام میں گرفتار کم عمر بچوں کی بڑی تعداد کشمیر میں ہے۔ ان بچوں پر جیل میں کیا گزرتی ہے، اس باب میں کوئی نہیں لکھتا۔
مذہبی جلوسوں میں ہزاروں غنڈے تلوار،خنجر،لاٹھیاں، سلاخیں، آتشیں اسلحہ و کیمیکل بھری بوتلوں کے ساتھ مسلم بستیوں اور گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اپنی اور اپنے گھر کی عورتوں، بزرگوںکی مدافعت میں بے ساختہ پتھراؤ کے ذریعے حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کی آخری کوششیں کی جاتی ہیں، جو ایک انسان کی بقا کاآخری حق ہے۔ اب اسے بھی چھینا جارہا ہے۔
مظفر نگر۲۰۱۳ء اور پھر ۲۰۲۰ء کے دہلی کے فسادات کے دوران ہزاروں حملہ آوروں کی یلغار سے بچنے اور چھتوں سے مدافعت کے لیے جب مسلمانوں نے اپنی چھتوں پر کچھ پتھر اکٹھے کیے تو ان جمع شدہ پتھروں کی ویڈیو فوٹیج لے کرUAPA ایکٹ کے تحت ’ملک سے غداری‘ جیسے خطرناک قوانین میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر دیئے گئے اور جن کے گھر والے فسادات میں ہلاک ہوئے، ان پر بھی سخت ترین مقدمات درج کیے گئے۔۲۰۲۰ء کے دہلی فساد میں ہندوئوں کے بالمقابل ۴۳ مسلم شہید ہوئے۔ پھرمسلمانوں کی بڑی تعدادبھی دو،دو سال سے جیلوں میں پتھراؤ کے گھناؤنے الزام کے تحت سڑ رہی ہے، نہ سماعت اور نہ رہائی!
فسادیوں کے مسلم مخالف نعروں اور ہنگامہ آرائی میں ہوسکتا ہے کہیں مسلمانوں نے اپنی مزاحمت میں پتھر پھینکے ہوں۔ اتنی بڑی کھلے عام اور منظم یلغار کے جواب میں بے ساختہ چندپتھر پھینکنا کیا اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ کھر گون میں ریاست کی پوری مشنری حرکت میں آگئی اور پولیس بندوبست کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں مسلمانوں کے ۱۷مکانات اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ یہ مسلمان پتھرائو کر رہے تھے۔ بے شرمی کا عالم دیکھیے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان اوروزیر داخلہ نروتم مشرا برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے پتھر بازی کی ہے ہم ایک ایک کوسخت سزا دیں گے اور ان کی جائیدادوں کو بلڈوزر سے ڈھیر کرکے بطور جرمانہ بلڈوزوروں کا کرایہ بھی لیں گے، وغیرہ۔ NDTV کے اینکر نے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے انٹرویو میں اصرار کرکے پوچھا کہ ’’یہ انتقامی کارروائی آپ کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟‘‘ جواب میں بار بار نروتم مشرا دُہراتے رہے کہ ’’ہم سب کچھ قانون کےمطابق کررہے ہیں‘‘وغیرہ۔
سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا قانون میں اس طرح کے انتقام لینے کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ یہ سراسر منصوبہ بند پیمانے پر سرکاری غنڈا گردی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جب تک کسی مقدمے میں کارروائی سے عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں ملزم نے پتھراؤ کیا تھا، اس وقت تک کوئی بھی کارروائی کرنے کا حکومت یا پولیس اور انتظامیہ کو اختیار حاصل نہیں ‘‘۔
کسی غیرقانونی گھر بار کو منہدم کرنے سے پہلے انتظامیہ پر لازم ہے کہ نوٹس دے کر پہلے مقدمہ دائر کرے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ دے اور پھر جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا، اس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں عرضی داخل کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو بستیوں کی بستیاں ڈھائے جارہی ہیں اور مسلمانوں کے گھر بار مسمار کرنے کے لیے مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہماچل پردیش میں مسلمانوںکی ایک پوری بستی اس الزام کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین پر قابض تھے۔ اس طرح ہزاروں خاندانوں کے گھرزمین بوس کردیئے گئے۔
بھارت میں پتھراؤ سے جائیدادوں کو زمین بوس کرنے کا ایک نیا وحشیانہ طریق کار دنیا کے سامنے ہے۔گذشتہ چند برسوں سےتجرباتی طور پر پہلے یہ عمل کشمیر میں اورپھر آسام میں بڑے پیمانے پر کیا گیاتھا۔ ہندو بریگیڈ نے دیکھ لیا کہ مسلمان بے بس اور کمزورہیں اور ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ حقوق کو پامال کرنے والے وہ خودساختہ منصف درندے جو راتوں رات بدترین یلغار کرتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کو ڈھیر بناتے ہیں، وہ کون سی مہذب سوسائٹی کا حصہ ہیں اور اس طریق کار کی کون اجازت دے سکتا ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟
چیف منسٹر مدھیہ پردیش چوہان سنگھ نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم ان کی جائیدادیں مسمار کرکے قرق کریں گےبلکہ مسلمان بستیوں پر اجتماعی بھاری جرمانے بھی عائد کریں گے‘‘۔فلسطین میں اسرائیلی پولیس کا فلسطینیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بات بات پر قتل، گرفتاری اور غریب معصوم فلسطینی باشندوں کےگھروںکوبلڈوزکردیاجاتاہے۔ ایسالگتا ہے کہ بی جے پی نے اسرائیلی حکومت سے انتقامی کارروائی کے درس حاصل کیے ہیں ۔
چند مٹھی بھر مسلمانوں کی مزاحمت پر بی جے پی ؍ آر ایس ایس غصے میں آپے سے باہر ہورہی ہے ۔ انتقام اور بدلے کے جنون اور پاگل پن میں مبتلاہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست کرنے کے لیے یک طرفہ معاندانہ انتقامی کارروائیاں حکومت کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔ زندگی کو بچانے کے لیے مزاحمت کا جو بنیادی حق قانون دیتا ہے، اسے بھی اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ظلم و درندگی اور نسل کشی کا نشانہ بننے اور موقعے پر مارے جانے والے بے قصور مسلمان آہ تک نہ کریں ۔ خود یہ جلتے، کٹتے، مرتے مسلمان اپنی مسلم قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ کس دن کے انتظارمیں آپ حضرات سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں؟
بھارت میں مسلم ملّی، مذہبی، سیاسی قیادت کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ گذشتہ برس بابری مسجد کے مایوس کن فیصلے، قانون طلاق ثلاثہ، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی برخواستگی کے بعد سے نرسمہا آنند سرسوتی کی مسلمانوں کی نسل کشی ’ بولی بائی ڈیل ‘، پھر ۱۱ مارچ ۲۰۲۲ء کو انتہائی اشتعال انگیز فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ریلیز سے لے کر ۱۱؍اپریل ۲۰۲۲ء کو شوبھایاترا تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مسلم قائدین، علما کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ متحدہوکر ایک بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کریں، اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ دُنیا کے تمام انسانی حقوق کے فورم اورحکومتوں تک مظلوموں کی آواز پہنچ سکے۔اس دوران میں ایک جماعتی وفد نے راجستھان کے حالیہ فساد زدہ گائوں قرولی کا دورہ کیا۔
مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دعوتی اور رفاہی کاموں میں مصروف حضرات کے سامنے تو اب اُمت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ مسلط کردہ لڑائی کا ہرسطح پر آغازہوچکا ہے ۔ دین دار، سیکولر اورعام مسلمان طبقے کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں ، گروہی، مسلکی اختلافات سے اُونچا اُٹھ کر دستور کے دائرے میں اُمت کے تحفظ و بقا کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ حملے ایک خاص علاقے جنین پناہ گزین کیمپ سے منسوب ہیں، جو شمالی مغربی کنارے میں واقع ہے‘‘۔ دراصل یہ زور دے کر اسرائیلی حکومت جنین میں ایک اور جان لیوا ملٹری آپریشن کا حکم دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ درحقیقت ۹؍اپریل ۲۰۲۲ء کو اسرائیلی فوجیوں نے جنین پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی ہلاک ہوگیا اور دیگر دس افراد زخمی ہوگئے۔ تاہم، اسرائیل کا مسئلہ جنین سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
اگر ہم واقعات کا جائزہ لیں جو ۲۲مارچ سے جنوبی شہر بیرالصباح میں خنجروں کے حملوں سے شروع ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کا خاتمہ تل ابیب میں تین اسرائیلیوں بشمول دو آرمی افسران کی ہلاکت سے ہوا تھا، تو ہم واضح طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان حملوں کا باہم ربط ہے۔فلسطینیوں کا اسرائیل کے تشدد کے جواب میں اس طرح کا فوری حملہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بیرالصباح کے علاوہ تمام حملوں میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا تھا۔ گولیاں چلانے والے بہت ماہر تھے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کر رہے تھے جیساکہ کچھ ویڈیوز اور اسرائیلی عینی شاہدوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے۔
۲۷مارچ ۲۰۲۲ء کو ہدیرا پر حملہ اس کی مثال ہے، جو دو بھائیوں نے کیا تھا، جن کے نام ایمان اور ابراہیم تھے اور ان کا تعلق اسرائیل کے اندر واقع عرب بستی اُم الفہم سے تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے حملہ آوروں کی مہارت کا تذکرہ کیا تھا جو اسلحہ سے مسلح تھے۔ اسرائیلی نیوز ایجنسی تازپٹ (Tazpit) پریس کے مطابق حملہ آوروں کے پاس ۳۰ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کا اسلحہ تھا۔
دوسرے انتفاضہ (۰۵-۲۰۰۰ء) میں جس طرح سے فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف حملے کیے تھے، اس کے برعکس موجودہ حملوں میں عموماً واضح ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پولیس اورملٹری اہل کاروں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر اسرائیل کی سیکورٹی کی ناکام حکمت عملی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بنی بارک حملہ میں جو ۲۹مارچ کو ہوا، ایک اسرائیلی خاتون نے جو وہاں موجود تھی، صحافیوں کو بتایا کہ ’’مسلح حملہ آوروں نے ہمیں کہا کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ عورتوں اور بچوں کو ہدف نہیں بنانا چاہتے‘‘۔
بیرالصباح حملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے، مگر اس الزام نے جلد اہمیت کھو دی،اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی حملہ آوروں کی دیگر جماعتوں سے سیاسی وابستگی ہے، یا جیساکہ بنی بارک معاملے میں کوئی واضح وابستگی سامنے نہیں آئی۔
تل ابیب حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے مبینہ طور پر بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک حملہ آور نزدیکی عمارت میں سے پکڑا گیا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہ تھی، اس لیے کہ صرف ایک ہی حملہ آور تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں بعد ایک دوسرے شہر میں مارا گیا۔
تل ابیب میں بہت سے فلسطینی ورکروں کو حملہ آوروں کے شبہہ میں تیزی سے گرفتار کرلیا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ عرب دکھائی دیتے تھے۔ درحقیقت ہرواقعے کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے اور اسرائیلیوں کے مسلح ہجوم گلیوں میں نکل آتے ہیں تاکہ عرب دکھائی دینے والے افراد کو پکڑ لیں اور انھیں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنائیں۔
اسرائیل کے وزیراعظم نے امن و امان کا مظاہرہ کرنے پر زور دینے کے بجائے ۳۰مارچ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’جس کسی کے پاس لائسنس یافتہ بندوق ہے، یہی وقت ہے کہ وہ اسے لے کر آئے‘‘۔ تاہم، اگر اسرائیل کے نزدیک فلسطینیوں کی مزاحمت کا حل مزید اسلحہ ہے، تو فلسطینی ایک عرصے سے امن کے قیام کے خواہش مند ہیں۔مشتعل اسرائیلیوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے جنین شہر پر متعدد مرتبہ حملہ کیا۔ ہرمرتبہ بہت سےفلسطینی ہلاک اور بہت سے زخمی ہوگئے۔ ان میں ایک پندرہ سالہ نوجوان عماد بھی شامل ہے جو۲۴؍اگست کو اس وقت مارا گیا جب وہ اپنے موبائل فون سے اسرائیلی حملہ آوروں کی فلم بنا رہا تھا۔ ایسا ہی ایک منظر ۱۹؍اپریل کو بھی دیکھنے میں آیا۔تاہم، یہ ایک فضول مشق ہے، اس لیے کہ جنین کے کیمپ میں برسوں سے جاری اسرائیلی ظلم و تشدد کے نتیجے میں ہی مسلح مزاحمت کا صدور ہوا ہے۔ فلسطینی خواہ جنین میں ہوںیا کہیں اور، وہ مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر نام نہاد عالمی برادری کے رویے سے مایوس ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس عوام سے لاتعلق ہیں۔ ان کے بیانات سے اسرائیلی ظلم و تشدد، فوجی قبضہ اور فلسطین میں نسلی امتیاز سے لاتعلقی نظر آتی ہے۔ تاہم، انھوں نے تل ابیب پر حملے کی فوری مذمت کی۔سوال یہ ہے کہ محمود عباس کس استحکام کی بات کر رہے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کی مشکلات میں آبادکاروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد، غیرقانونی آبادکاری میں توسیع، زمینوں پر قبضہ، غذائی قلت اور حالیہ پُرتشدد واقعات نے مزید اضافہ کر دیا ہے؟
اسرائیلی حکام اور میڈیا ایک بار پھر جنین ہی کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، جو کہ ایک تنگ اور کثیرآبادی جگہ ہے۔ اس بات سے اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے ایک مخصوص جگہ تک محدود ہیں، جو کہ اسرائیل کی سرحد کے قریب ہے۔ جنین کیمپ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو قوت کی برتری کا احساس دلاتا ہے لیکن یہ سب ایک عارضی مرحلہ ہے۔ جنین پر حملے سے آیندہ بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپریل ۲۰۰۲ء میں بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوجانے کے بعد بھی جنین کیمپ کے مکین ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے آج زیادہ وسیع علاقے میں پھیل گئے ہیں جن میںنکب، اُم الفہم اور مغربی کنارہ شامل ہیں۔ ان علاقائی حملوں کی بنیاد گذشتہ مئی میں اسرائیلی جنگ سے پڑی اور اس کے نتیجے میں فلسطینی بغاوت جو فلسطین کے ہرحصے میں بشمول اسرائیل میں پائی جانے والی فلسطینی آبادیوں تک میں پھوٹ پڑی ہے۔ دراصل اسرائیل اس مسئلے کو جلداز جلد فوجی قوت کے بل پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں پر فوجی قبضے کے لیے نسلی امتیاز کو گہرا کرے گا تو فلسطینی لازماً اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔
عرب ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے کاروباری روابط روز بہ روز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ صرف معاشی، دفاعی اور خفیہ کاری کے میدان میں ہی تعلقات کو غیرمعمولی وسعت نہیں دی ہے، بلکہ کئی ایک ’مطلوب‘ افراد کو بھارت کے حوالے کیاگیاہے، جنھیں بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں سرگرم گروہوں سے وابستہ قراردیتے تھے۔
جنوری ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے بھارت کا دورہ کیا، اور دونوں ممالک نے اگلے برسوں میں تیزی سے دوطرفہ تعلقات کو استوار کرنا شروع کیا۔ بعدازاں دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کونسل‘ تشکیل دی گئی۔ چنانچہ دونوں ممالک میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے نام پر سیکورٹی تعاون میں مسلسل اضافہ ہوا۔
سعود ی عرب اور متحدہ عرب امارات، عالمی اور علاقائی معاملات میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور باہمی مشاورت سے ہر میدان میں ہم قدم ہوکر پیش رفت بھی کرتے ہیں۔بھارت کے حوالے سے دونوں ممالک لگ بھگ یکساں پالیسی پر کاربند ہیں۔
فروری ۲۰۲۲ء میں سعودی فوجی سربراہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا۔ یہ دونوں ممالک دفاعی میدان میں تعاون کے دائرہ کار کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء سے بھارت اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے مابین اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے جاری ہیں۔ بھارت کے دفاعی تربیتی اداروں میں شاہی سعودی افواج کے افسران کی تربیت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ پھر سعودی عرب اور بھارت کی بحریہ کے درمیان تعاون کا سلسلہ کافی گہرا ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین مشترکہ فوجی مشقیں، عسکری عہدے داروں کے تبادلے اور مشترکہ طور پر اسلحہ سازی کے شعبوںمیں تعاون کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔
سالِ رواں فروری میں متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے میں طے پایا ہے کہ ’’دونوں ممالک اپنے موجودہ تجارتی حجم جو۶۰؍ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، اسے بڑھا کراگلے پانچ برسوں میں سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے‘‘۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ شارجہ سے سری نگر کے لیے شہری ہوابازی کی پروازیں بھی شروع کی جاچکی ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس پیش رفت پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، تاکہ عرب امارات کے ساتھ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔
بھارت کی جانب خلیجی ریاستوں کے موجودہ رجحانی پس منظر میں کئی محرکات کارفرما ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ممالک کی قیادت کو احساس ہے کہ تیل پر دنیا کے انحصار کی مدت تھوڑی رہ گئی ہے۔ وہ تیل کے متبادل معیشت کھڑی کرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں ۔ تیل پر دنیا کا انحصار ختم ہونے سے قبل وہ اپنے ملکوں کو عصر حاضر کی کاروباری صنعتوں، یعنی آئی ٹی، سیاحت اور دیگر ذرائع سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں وہ بھارت میں کاروبار کے خاصے مواقع دیکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات آبادی اور رقبے میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود کاروبار، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں سعودی عرب سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات کے فروغ کے نتیجے میں اسٹرے ٹیجک اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، اور وہ بھی عرب امارات کی طرح تیل کے بجائے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرسکتاہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت میں انفراسٹرکچر اور تیل کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
بھارتی حکومت نے اپنی جگہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاشی ترجیحات اور ہنرمند کارکنان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ کر خود کو ان ممالک کے لیے اسٹرے ٹیجک اور اقتصادی لحاظ سے مفید بنایا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مل کر بھارتی ہنرمندوں کی اپنے ممالک میں آمد کو آسان بنانے کے لیے ملکی قوانین میں بھی نمایاں تبدیلی کررہے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتیوں کی آمد ممکن ہو۔
امریکا انسانی حقوق اور جمہوریت کا دَم بھرنے کے باوجود خلیجی ریاستوں میں بادشاہوں کو مفید حلیف تصور کرتا ہے کہ مالی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کو شیر وشکر کرادیا ہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے استوار ہونے کے ساتھ ہی بھارت کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے چوپٹ کھل گئے۔ عرب ممالک کے اسرائیل کے تئیں بدلتے رویوں اور پالیسی سے بھی پاکستان اور ان ممالک کے تعلقات بالواسطہ طور پر متاثر ہو ئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے تمام دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اس کے برعکس بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی منتقلی جیسے حساس شعبوں میں دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔
عرب ممالک اور بھارت میں ایک اور قدر مشترک امریکا کے ساتھ گہرے دوستانہ اور کاروباری روابط ہیں۔ دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے، اس میں امریکی حکام، پاکستان سے محدود تعلقات رکھنے تک رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت بھی امریکیوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے پائی جانے والی خلیج اب کشیدگی اور تناؤ کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نزدیک پاکستان کی سوچ اور خارجہ حکمت عملی ایران، امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے ان ممالک کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔
یمن اور سعودی عرب کی جنگ کے دوران ۹مارچ ۲۰۱۵ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ نے سعودی خواہش پر وہاں پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کیا، اور۱۰؍اپریل کو پاکستانی پارلیمنٹ نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ یہ فیصلہ سعودی عرب اورعرب امارات کو بہت ناگوار گزرا۔ اس دوران بھارت کو مزید موقع ملا کہ وہ ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ تیزی سے بڑھائے اور پاکستان کے روایتی اثر و نفوذ کو کم کرے،حتیٰ کہ ان ممالک کا پاکستان کے دفاعی اداروں پر انحصار کم کرائے۔
پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا ایک سبب مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے یہ ممالک مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کے لیے نہ آواز اٹھا تے ہیں اور نہ کسی فورم پر پاکستانی نقطۂ نظر کی طاقت ور حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے گذشتہ برس اگست میں پاکستانی وزیرخارجہ نے اس معاملے پر سعودی قیادت اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر سعودی عرب نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان کو دی گئی اُدھار رقم بھی واپس مانگ لی گئی تھی۔
عالم یہ ہے کہ مارچ ۲۰۱۹ء میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔حالانکہ محض ایک ماہ قبل بھارت اور پاکستان کی فضائی جھڑپوں میں کم از کم ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان ممالک کو پاکستان کی مختلف امور میں حساسیت کی کوئی پروا نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات کی قیادت، عالمی کھلاڑی کی شناخت چاہتی ہے، نہ کہ ایک علاقائی ملک کا درجہ۔ اس کے سیاسی عزائم کی بلندی کو مالی وسائل، دُنیابھر کے سیاحوں کے لیے مخصوص ماحول کی فراہمی اور کامیاب سفارت کاری کے آدرش مضبوط سہارا دیتے ہیں، جب کہ پاکستان اس کھیل میںانھیں موزوں نہیں لگتا۔
۲۵ لاکھ پاکستانی ہنر مند سعودی عرب میںاگرچہ ابھی تک مقیم ہیں، لیکن اب سعودی عرب کو بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال، فلپائن اور دنیا کے دیگر علاقوں سے سستی اور نرم شرائط پر لیبر دستیاب ہوجاتی ہے۔دوطرفہ تجارت کی صورتِ حال بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ہمارا موجودہ تجارتی حجم ۶ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے اور اس میں درآمدی حصہ ۲ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے۔ بیشتر حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس سعودی عرب اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم ۳۳؍ ارب ڈالرسے تجاوز کرچکا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کا ماضی قریب میں زیادہ تر دارومدار دفاعی یا اسٹرے ٹیجک نوعیت کارہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تعلقات، ساٹھ کے عشرے سے بہت گہرے اور دوستانہ رہے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب کے ہزاروں فوجیوں کو عسکری تربیت فراہم کرتاہے اور اس کی فوج بھی سعودی عرب میں تعینات ہے۔ ان دوطرفہ تعلقات میں ناہمواری دُور کرنے میں پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری قیادت کا بنیادی کردار رہاہے۔
روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج پر پاکستان کاگہرا اثرونفوذ رہاہے،جس کی وجہ سے وہ بھارت سے دُور رہے۔ایک زمانہ وہ تھا کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے پانچ ایئر چیف پاک فضائیہ کے افسر رہے ہیں۔ پاکستان ۱۹۶۷ء سے مسلسل سعودی عرب کی فوج اور فضائیہ کے لیے تربیت کار مہیا کرتا آیا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینا ت ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی کمانڈوز، دارالحکومت ریاض میں شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔
مگر اب بھارت، پاکستان کو ایسے میدانوں سے بھی بے دخل کررہاہے، جہاں پہلے پاکستان کی بالادستی تھی۔ بھار ت کے ان ممالک کے دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات میں نمایاں اور مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ چھے برسوں میں آٹھ دفعہ عرب ممالک کا دورہ کیا، جن میں تین بار متحدہ عرب امارات اور دو بار سعودی عرب کا۔ مسٹرمودی کو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اکتوبر ۲۰۲۱ء میںسعودی عرب کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین اسٹرےٹیجک پارٹنرشپ کونسل کا قیام عمل میں آیا ۔ اس طرح بھارت، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن گیا، جس کے ساتھ سعودی عرب نے اسٹرے ٹیجک شراکت داری قائم کی ۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق بھارت کو سعودی عرب کے آٹھ اسٹرے ٹیجک شراکت داروں چین، برطانیہ، امریکا، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان میں سے ایک قراردیاگیا ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۸ء میں بھارت نے سعودی عرب سے ۲۱ء۲؍ ارب ڈالر کا خام تیل درآمد کیا، پاکستان نے ۹ء۱ ؍ارب ڈالر کا درآمد کیا۔ سعودی کمپنیاں نہ صرف بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہیں، بلکہ انھوں نے زراعت اور ٹیلی کمیونی کیشن سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بھارت اور مغربی ملکوں کے منفی پراپیگنڈے کے نتیجے میں اب یہ عرب ممالک، پاکستان کی لیبرفورس سے بھی گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل نے ایک بار پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا تھا کہ ’’دنیا میں شاید ہی کوئی دو ممالک ایسے ہیں جن کے تعلقات پاکستان اور سعودی عرب کی طرح بغیر کسی معاہدے کے دوستانہ اور برادرانہ ہوں‘‘۔ پاکستانی حکام کو یہ تلخ حقیقت بھی یاد رکھنا ہوگی کہ سعودی یا اماراتی معاشی امداد اب اپنی قیمت بھی مانگتی ہے۔اگر پاکستان ان ممالک کے اشارے پر چلنے پر آمادہ نہیں اور متوازن یاآزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتاہے تو اسے سعودی عرب کے آگے معاشی امداد کے لیے باربار درخواست کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ اب ان ممالک کی معاشی امداد یا قرض غیر مشروط نہیں رہیں گے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار پاکستان نواز رہنما اب منظر نامہ پر نہیں رہے۔
پاکستان کو کئی عشروں کے بعد احساس ہوا ہے کہ کمزور معیشت والے ملک کو اس کی مضبوط فوج زیادہ دیر تک سہارہ نہیں دے سکتی ۔ پاکستان کے سول اور فوجی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان اب کسی علاقائی یا عالمی تنازعے میں نہیں اُلجھے گا۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا علَم بردار بننا چاہتاہے۔ جغرافیائی محل وقوع کو معاشی اورتجارتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے ترقی او ر خوش حالی حاصل کرے گا۔ اسی پس منظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے فروری ۲۰۲۱ء میں بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن بھارت کی طرف سے مطلوبہ جواب نہ ملنے کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔
سعودی عرب، مسلم دنیا میں اپنی قیادت اور اسلامی ساکھ برقراررکھنے میں ابھی تک دلچسپی رکھتاہے، اور او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کی سربراہی بھی اپنے پاس رکھنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ پاکستان کو ترکی ، ایران اور ملائیشیا کی طرف کلی طور پر دھکیلنا نہیں چاہتا۔ اس منظرنامے میں خود پاکستان کے لیے لازم ہے کہ سعودی عرب کو اپنے قریب رکھنے کے حوالے سے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے۔
پاکستان کو عرب ممالک میں موجود تارکین وطن کو ہنر مند اور مفید شہری بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ان ممالک کے تعمیراتی اور معاشی منصوبوں: سعودی ویژن ۲۰۳۰ء، کویت ویژن ۲۰۳۵ء اور عمان کا ویژن ۲۰۴۰ء کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ بیرون ملک ملازمت میں دلچسپی رکھنے والے کارکنوں کو ان منصوبوں کے لیے موزوں ہنر کی تربیت دی جائے، جس کے نتیجے میں وہ عرب ممالک کی لیبر مارکیٹ میں پائی جانے والی مسابقت میں حصہ لینے کے قابل ہوسکیں۔
پاک فوج کے سعودی افواج اور اداروں کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ مشقوں اور تربیتی مشنوں سمیت کئی میدانوں میں دفاعی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹرے ٹیجک تعاون کے دائرے میں لانے اور مسلسل وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
سعودی اور اماراتی حکام اور شہریوں کے اندر پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کو برقرار رکھنا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر ان ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا ہونا، پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایسے اقدامات بھی کیے جانے ضروری ہیں، جن سے پاکستان، عرب ممالک کے لیے سرمایہ کاری کی ایک پرکشش منزل بن سکے۔
پاکستان کو اپنے معاشی اور اداراتی ڈھانچے کو جدید اور فعال خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جو عہد حاضر کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ سعودی عرب ۲۰۱۹ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتاتھا، لیکن حکومت پاکستان اپنے روایتی سُست رو طرزِعمل، بوجھل بیورو کریٹک زنجیروں اور فرسودہ قوانین کی وجہ سے ضروری اصلاحات نہیں کرسکی ۔تاہم، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دیگر وجوہ کے علاوہ بڑے تجارتی لین دین میں پاکستان کی تکنیکی صلاحیت محدود ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان، سعودی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو ہر سطح پر کمزور کیا۔ ہر حکومت کو دھڑکا لگا رہتاہے کہ وہ آج گئی کہ کل گئی۔ الیکشن کی شفافیت کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔ امرواقعہ ہے کہ مضبوط معیشت ہی ممالک کے درمیان پائے دار تعلقات کا جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں محض مذہبی، تاریخی اور سماجی رشتوں پر انحصارعصر ی حالات میں کافی نہیں ہوتا۔ دوسروں کو بے وفائی کا طعنہ دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے حصے کا کردار دل جمعی سے ادا کرنا ہوگا، اور ان کمزوریوں کی اصلاح کرنا ہوگی، جن کے نتیجے میں پاکستان کو بے وزن کیا گیا ہے۔
’ویانا ڈیکلیریشن‘ اور ’ورلڈ کانفرنس برائے انسانی حقوق‘ کے ایکشن پروگرام نے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ قرار دیا ہے۔ بیجنگ ڈیکلیریشن اور ’پلیٹ فارم آف ایکشن‘ دونوں بین الاقوامی برادری کی دو عشروں سے زائد عرصے میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اکیسویں صدی میں دُنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لیے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خواتین پر تشدد ان کی ترقی اور پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی بیسویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو انسانیت کی تذلیل کی علامت ہے۔
متعدد این جی اوز اور انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق روانڈا، بوسنیا، کوسوو، میانمار، کشمیر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں مسلح افواج کے ہاتھوں لاکھوں خواتین عصمت دری اور جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان این جی اوز نے نوجوان لڑکیوں اور بزرگ خواتین کے ساتھ یکساں اجتماعی عصمت دری کے واقعات کی دستاویز بھی تیار کی ہیں۔ جن کے مطابق بعض اوقات خاندان کے مردوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مسلح افواج کی جانب سے یہ عصمت دری درحقیقت بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کونسل سمیت تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے جنگ اور خانہ جنگی کے دوران خواتین کی جنسی بے حُرمتی کی روک تھام کا بندوبست کریں تاکہ ہر صورت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو۔
'خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ Special Rapporteur on Violence Against Women میں بتایا گیا ہے کہ عصمت دری دراصل طاقت، غصے اور جنسی بے راہ روی کا تباہ کن امتزاج ہے جو خواتین کے خلاف اس وحشیانہ تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ عصمت دری سے متاثر خواتین 'ریپ ٹراما سنڈروم جیسے نفسیاتی عوارض میں مبتلا رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی اس خوفناک المیے کی قیدی بن کر رہ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (UNHCR) نے ۸ جولائی ۲۰۱۹ء کو اپنی ’’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر رپورٹ‘‘ جاری کی، جو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویری دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی سنگین زیادتیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، اور انسانیت کے خلاف بھارت کے گھنائونے جرائم سے پردہ اٹھاتی ہے۔
۴۹ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسے مخصوص واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق بھارتی حکومت کشمیری عوام کے خلاف انسانی شرافت اور جمہوری آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خونیں قبضے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر بھیانک طریقوں سے مسلم خواتین کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ نے انڈیا کےمشن پر ’خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ‘ تیار کی تھی، جس میں اس تشدد کے اسباب اور نتائج پر بتایا گیاکہ: ’’فوجی علاقوں میں رہنے والی خواتین، جیسے جموں اور کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں، مسلسل محاصرے اور نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے وہ اپنے گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی دونوں شہادتوں کے ذریعے معلومات کے مطابق بھارتی سیکورٹی فورسز مبینہ طور پر خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی، قتل اور تشدد اور ناروا سلوک کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ سنگین خلاف ورزیاں وہاں کے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سیاسی برتری حاصل کرنے کےلیے بہ طور ہتھیار استعمال کی گئیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ،’’ ایک اہم کیس جو ریاست کی ناکامی اور کشمیر میں جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزا سے بریت دلوانے کو آشکار کرتا ہے، وہ کنن پوش پورہ میں تین عشرے قبل پیش آنے والا اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہے۔ ریاست اس واقعے میں ملوث ملزموں کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانا تو دُور کی بات، سرکاری حکام نے مختلف سطحوں پر انصاف کےحصول کےلیےبرسوں سے کی گئی کوششوں کو ناکام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے مقامی اہلکار کے مطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۱ء کی رات بھارتی۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے سپاہیوں نے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ گاؤں کی ۲۳ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’زندہ بچ جانے والوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کئی برس سے اس کیس کی آزادانہ تحقیقات کے لیے مہم چلائی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرے اور اس سینئر اہلکار کے خلاف مقدمہ چلائے، جس نے جان بوجھ کر تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کو، کپواڑہ کی ضلعی عدالت نے ریاستی پولیس کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ کے اندر اس کیس کی تحقیقات کرے۔ جب ان احکامات کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو پانچ لواحقین نے اکتوبر۲۰۱۳ء کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ خبروں کے مطابق جولائی ۲۰۱۴ء کو ہائی کورٹ نے کہا کہ سفارشات ثبوتوں کے مطابق ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی مشترکہ رپورٹ کے صفحہ ۷ پر کہا گیا ہے کہ ’’۲۳ فروری ۱۹۹۱ءکو کنن پوش پورہ گاؤں کی خواتین کے ساتھ ۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں کی گئی عصمت دری کی رپورٹ امرواقعہ ہے، اور [بھارتی] مسلح افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں حکومت غیر سنجیدہ اور ناکام ہے‘‘۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ رپورٹ دوسری سیریز ہے، جسے ایشیا واچ اور پی ایچ آر مشترکہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اس رپورٹ کو شائع کرتے ہوئے پُراُمید ہیں کہ اس سے بین الاقوامی رائے عامہ کی توجہ کشمیر میں عصمت دری کو بہ طور جنگی ہتھیار استعمال کرنے اور ان حکومتی پالیسیوں کی طرف مبذول ہوجائے گی ، جن کی وجہ سے سیکورٹی فورسز بے خوفی سے یہ جرائم کر گزرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل مقدمات خود اپنی صداقت کی دلیل ہیں، جب کہ عصمت دری کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں، جتنے یہاں درج کیے گئے ہیں‘‘۔
عام طور پر بھارت کی فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات کو نمٹانے میں نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ انصاف کو یقینی بنانے کے بجائے وہ الٹا ثبوتوں کو چھپانے اور ملوث افسران کو تحفظ دیتی آرہی ہیں۔ اس رپورٹ میں (ایشیا واچ اور پی ایچ آر) میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام فوجی یا نیم فوجی مشتبہ افراد کے خلاف عصمت دری کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلائے جائیں۔
پانچ بہادر کشمیر خواتین اسکالرز دستایزی ثبوت کے ساتھ پہلے صفحے پر لکھتی ہیں: ’’یہ کتاب کشمیر کے دو گاؤں میں ایک رات کے متعلق ہے۔ ایک ایسی رات کہ جو ۲۴ برس بعد بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے، ایسی خوفناک رات جس میں ایک طرف ظلم، درندگی، ناانصافی اور جھوٹ ہے اور دوسری طرف جرأت، بہادری اور سچائی کی المناک داستان ہے۔ یہ کتاب کنن پوش پورہ کے بارے میں ہے‘‘۔
وہ کتاب کے صفحہ ۲۵ پر اس رات کی ہولناکیاں ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ’’کوئی اس تاریک کمرے کو کیسے روشن کرسکتا، کوئی مایوسی کو امید سے کیسے بدل سکتا ہے، کیسے کوئی گھٹاٹوپ ماحول میں انصاف کی اُمید کرسکتا ہے؟‘‘کنن پوش پورہ کی کہانی کی تفصیلات بتانے سے پہلے ان پانچ مصنّفین کے حالات کو دیکھیے ، ہر ایک اپنی اپنی کہانی بتاتی ہے، اس کا سماجی اور معاشی پس منظر، کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے ماحول کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کی، جو بڑے پیمانے پر تشدد کے نشانات سے خوف زدہ تھے، کہ کس طرح عصمت دری جیسے الفاظ کے استعمال سے اور بعض سوالات اٹھانے سے منع کیا گیا تھا، انھوں نےکیسے خوف اور عدم تحفظ کا مقابلہ کیا؟ ان میں سےہر ایک نے کیسے ڈراؤنے خواب دیکھے کہ اس کی بھی عصمت دری ہوسکتی ہے۔
کس طرح ایک اور خاتون نے اس خوفناک حادثے کا ذکر کیا جب عمر بڑھنے کے ساتھ اس کو پتا چلا کہ کئی برس پہلے، جب اس کی عمر بمشکل تین برس تھی، اس کے والد کو وردی میں ملبوس افراد نے اٹھالیا اور اسے نہایت بے دردی کے ساتھ زد و کوب کیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔
ہر ایک نے اپنی ’بیداری‘ کے لمحات قلم بند کیے ہیں کہ ان سب دلیر خواتین نے کس طرح مشکل حالات سے گزر کر سچائی کو دریافت کیا؟ چاہے ان میں سے کسی کو دفن کیا گیا ہو یا بھلا دیا گیا ہو۔ اس طرح ان پانچ دلیر مصنفین نے جھوٹ کے جال کو چھان پھٹک کر تحقیقات سے سچائی کو واضح طور پر پیش کردیا۔
ڈاکٹر نذیر گیلانی نے ہیومن رائٹس کمیشن کے ۵۸ویں اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا: ۱۹۹۱ء میں کنن پوش پورہ میں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعے کے بعد اس نوعیت کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔ اور ’آدھی بیواؤں‘ کا مسئلہ (وہ عورتیں جن کے شوہر لاپتہ ہیں اور دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہیں) مظلوم کشمیری معاشرت کا رستا ہوا ناسور ہے۔ ہندستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خواتین بے بسی کی گہری کھائی میں ہیں۔
ان خواتین کی آبرو زیزی کے خلاف آواز اٹھانے کے دوران مزید کتنوں کے بے آبرو ہونے کا انتظار ہے؟ ایک بنیادی سوال ہے جو لاکھوں کشمیری خواتین کے ذہنوں میں ہے۔ یاد رکھیںکہ یہ خواتین نو لاکھ قابض بھارتی فوج کی عملاً حراست میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ویانا ڈیکلیریشن کے مطابق:’’خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں‘‘۔ وہ عالمی برادری کے اس گونگے اندھے تماشائی طرزِعمل پر حیران ہیں کہ ابھی تک خواتین کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کیا کارروائی کی گئی ہے؟
ایسے وحشیانہ تشدد کی شکار کشمیری خواتین پوچھتی ہیں: انسانی حقوق کے عالمی ڈکلریشن اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے ڈیکلیریشن کی رِٹ کو نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟
کشمیر میں مسلسل ظلم و جبر کی اس فضا نے وہاں کے باشندوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے پوری طرزِ زندگی کو تبدیل کردیا ہے ۔ وادی میں بچپن کا پورا تصور ایک بڑی بنیادی تبدیلی سے گزرا ہے۔ بچے نہ تو کنڈرگارٹن میں جاتے ہیں اور نہ کھلونوں سے کھیلتے ہیں، جس طرح عام طور پر بچے کرتے ہیں۔ وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی نگہداشت میں پرورش نہیں پاسکتے کہ ان کے بچپن کی یادیں دہشت کی فضا، بے اطمینانی، اضطراب ، بدامنی، عدم تحفظ اور بے یقینی پر مشتمل ہوتی ہیں۔
کیا یہ رپورٹیں عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کونسل کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست ، بھارت نہ صرف انسانی حقوق کی کونسل بلکہ سلامتی کونسل میں بھی بیٹھنے کی جرأت رکھتی ہے۔ عالمی برادری بھارت کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ کشمیری عوام کی حالت زار پر عالمی برادری کا ردعمل بنیادی طور پر کمزور اور ناقابل اعتبار رہا ہے۔ اس کے ساتھ اتنا ہی بڑا سچ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس قدر بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کا نظامِ کار مؤثر نہیں ہے۔ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کے حالات میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصادم کی بنیاد سے احسن طریق پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس تنازعے کی بنیادی وجہ حق خود ارادیت سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کے عوام سے کیا تھا۔اقوام متحدہ کی اس بے عملی نے دُنیا کو بہت مایوس کیا ہے۔
ان جنگ زدہ علاقوں میں شکار بننے والی خواتین اور بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود کشمیری، اقوام متحدہ سے انصاف اور دست گیری کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن امید کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس المناک صورتِ حال پر عالمی برادری کے نیم دلانہ ردعمل کی وجہ سے ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی بے حسی، بے عملی، اور خاموشی نے بلاشبہہ غیر ارادی طور پر کشمیر میں قابض انتظامیہ کو وحشت ناک ہونے کا راستہ دکھلایا ہے۔
یہ ۱۹۴۷ءکا پُر آشوب دور تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطے میں خود ڈوگرہ حکومت کے ایما پر مسلم کُش فسادات کی آگ انسانیت کو شرمسار کر رہی تھی۔ اکھنور کے علاقے میں ہندوسکھ فسادیوں کے ایک گروپ نے ایک مسلم خاندان کے مرد وں کو ہلاک کرکے، خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انھیں مردوں کا گوشت پکانے اور پھر زبردستی کھانے پر مجبور کروایا۔ چند سال قبل جب کشمیر کے ایک سابق اعلیٰ سول افسر خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے کالم نگار سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے جیسے ہی جموں کے ان خونریز فسادات کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی موٹی تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر رہا ہے۔
اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ روزنامہ دی ٹائمز، لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’ان فسادات میں چند ماہ کے اندر ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد ہلاک ہوئے‘‘۔ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجا کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ اس قتل عام کی خود نگرانی کررہے تھے۔
دوسری طرف انھی دنوں اس درندگی کے بالکل برعکس، وادیِ کشمیر میں کس طرح عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے۔ معروف صحافی و سیاسی کارکن پنڈت پران ناتھ جلالی اس کا ایک چشم دید واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو جلالی کو کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر تفتیش کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ سبھی گائوں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ایک پنڈت کے خالی مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ ایک رات، ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیرمعمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ میل بھر چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ ’’نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ اور تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائوں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے‘‘۔ جلالی صاحب کہتے تھے کہ ’’ندامت سے میرے پائوں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گائوں والوں پر جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پہ پشیمان تھے۔ دراصل گائوں والے سمجھتے تھے کہ پولیس کے بھیس میں وہ لوگ پنڈتوں کو مارنے اور لوٹنے کی غرض سے آئے ہیں۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہ کیا‘‘۔
اب حال ہی میں جس طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر حامی وویک اگنہوتری کی لکھی اور ڈائریکٹ کی ہوئی ہندی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ ۱۱مارچ کو نمایش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ فلم میں ۱۹۹۰ء میں وادیِ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ایسی کہانی کہ جو نہ صرف یکطرفہ ہے، بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر پورے بھارت میں ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا ہے کہ ایک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد چیختے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہندو بھائیوں سے میری اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتے ہیں‘‘۔ اس فلم کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایئے کہ ’را‘ کے سابق چیف اے ایس دولت نے اعتراف کیا ہے: ’’یہ ایک پروپیگنڈا فلم ہے، جس میں پیش کی گئی تفصیلات کا حقائق کی دُنیا سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔(اخبار مسلم مرر، ۲۲مارچ ۲۰۲۲ء)
دہلی میں ایک سینیر صحافی فراز احمد پریس کلب میں اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل کشمیری پنڈتوں کا داخلی جھگڑا ہے، جس نے جنوبی ایشیا کے امن و امان کو نشانہ بنایا ہوا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’علامہ اقبال، جنھوں نے پاکستان کا تصور دیا، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو ، جنھوں نے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنایا، اور پھر شیخ محمد عبداللہ ، جنھوں نے اس کو مزید اُلجھانے میں معاونت کی، تینوں کشمیری پنڈتوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔ کشمیری پنڈت کی اصطلاح دراصل زوال پذیر مغل بادشاہ محمد شاہ نے اپنے ایک درباری جے رام بھان کے مشورے پر ایک فرمان کے ذریعے شروع کروائی تھی۔ کشمیری پنڈتوں کا مغل دربار میں اچھا خاصا اثر و رسوخ تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو دیگر برہمنوں سے اعلیٰ اور برتر نسل تصور کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے رسم و رواج دیگر برہمنوں سے جدا ہیں‘‘۔ وہ دیوالی و ہولی نہیں مناتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں ایک متوازی گنگا کا ایک سنگم تیرتھ بھی اختراع کیا ہوا ہے اور کھیربھوانی اور شاریکا دیوی ان کے دیوی دیوتا ہیں۔
ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہات و قصبات میں دونوں ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ ، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر کی معروف شاعرہ لل دید ، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ تاہم، اس کا پورا کلام ہی اللہ کی وحدانیت پر مشتمل ہے۔
کشمیر میں اسلام کی آمد ۱۴ویں صدی میں اس وقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میںمیر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس پر لبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔ اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کےدورِحکومت میں ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اس نے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنھیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کے لیے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔
شیخ عبداللہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے اقلیتی احساس اور عصبیت کو اُبھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، کہ وہ مسلمان امرا سے خائف رہتے تھے۔معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار لکھتے ہیں، کہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران ، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کے ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت بھی ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پرسکّے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً ۱۸۱۰ءتک جاری رہے۔ مؤرخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے۔
افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ پھر جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر ، مسلمان کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس، اُن دنوں کشمیر میں تعینات تھے، انھوں نے لکھا تھا کہ:’’کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے، جب کہ مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے‘‘۔ اسی دور میں کشمیری پنڈتوں کو انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انھوں نے نعرہ بلند کیا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں اَن پڑھ تھے، اس لیے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجکٹ قانون کے خلاف زمین و آسمان ایک کر دیئے۔
شیخ محمد عبداللہ کے مطابق جب ۱۹۳۱ء میں کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا، تو راجا ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر انھیں پروپیگنڈا کرنے کی شہہ دی کہ ’’یہ تحریک ہندو مہاراجا کے خلاف بغاوت ہے اور کشمیری پنڈت خطرے میں ہیں‘‘ کا شور برپا کر ڈالا۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات اور اس تحریک کی بدولت جب چند نوکریاں مسلمانوں کو ملنے لگیں، تو کشمیر میں پنڈت لیڈروں نے اس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ مگر ان کی ہی برادری کے چند افراد پریم ناتھ بزاز، کشپ بندھو اور جیالال کلم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا، تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ اسی نفسیات کے تحت آج بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
شیخ عبداللہ کے مطابق: ان میں اکثر پنڈتوں کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ مہاتما جی گاندھی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ڈال دیا گیا ہو۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ اور گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تنبیہہ کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کے نام کی صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے کھیل رچایا جاتا ہے۔کشمیری پنڈت لیڈران سے اپیل ہے کہ اپنے اثر و رسوخ کا مثبت استعمال کرکے، نسلی نفرت کی آگ بجھانے اور مسئلۂ کشمیر پاٹنے کا کا م کریں، بلکہ سیاسی لیڈروں کو مسئلے کے سیاسی حل کی طرف بھی گامزن کروائیں، تاکہ خطے میں ایک حقیقی اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوسکے۔
؍اگست ۲۰۲۱ء کی شام کو امریکی سرپرستی میں قائم افغان آرمی نے کا بل کو خالی کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی سمیت بیش تر حکومتی لوگ ملک چھوڑ گئے اور تحریک طالبان افغانستان کے رضاکاروں نے آگے بڑھ کر دارالحکومت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء کو ان کے اقتدار کو قائم ہو ئے چھے ماہ ہو چکے ہیں، جب کہ باقاعدہ حکومت کا قیام اور عبوری کا بینہ کا اعلان۲۸ ستمبر کو کیا گیا۔
تحریک طالبان افغانستان کاآغاز ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ہوا۔جب ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی ماسکونواز حکومت کاخاتمہ ہوا اورافغانستان میں مجاہدین کے دھڑوں کی باہم لڑتی بھڑتی حکومت قائم ہوئی۔ باہم اختلافات، خانہ جنگی اور لاقانونیت کی وجہ سے صوبوں کی سطح پرمقامی کمانڈروں نے اپنی عمل داری قائم کرلی اور ملکی سطح پرمضبوط حکومتی کنٹرول قائم نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں بدامنی کاراج تھا۔عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس عام تھا۔ اس دور میں قندھار سے ملاعمراخوند کی قیادت میں تحریک طالبان کاظہورہوا۔ جس نے کچھ ہی عرصے میں ملک گیر مقبولیت حاصل کرلی۔۱۹۹۶ء میں تحریک طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے ملک کوایک اسلامی شناخت دی۔یہ حکومت ۲۰۰۱ء تک قائم رہی۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا میں تخریب کاری کا ایک بڑاواقعہ پیش آیا تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کی، جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکا نے ملا عمرسے مطالبہ کیاکہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے، لیکن انھوں نے انکار کیاچنانچہ امریکی اور ناٹو افواج نے افغانستان پرحملہ کرد یا۔ اور شمالی اتحاد کی مدد سے کابل پرقبضہ کرکے حامدکرزئی کی قیادت میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔دسمبر۲۰۰۱ء سے لے کر فروری۲۰۲۰ء تک تحریک طالبان مسلسل غیرملکی افواج سے حالت ِ جنگ میں رہی اور بالآخر ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کی بنیاد پر افغانستان سے غیرملکی افواج کاانخلا عمل میں آنا تھا۔
جون۲۰۲۱ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک۳۱ ؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے جہاںدنیاکوحیران کردیا، وہاں مزاحمتی تحریک طالبان کو بھرپور اعتماد سے پیش قدمی کاموقع بھی فراہم ہوگیا۔ امریکی سرپرستی میں تشکیل کردہ افغان فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہو ئی،افغان صدراور ان کی کابینہ ملک سے فرار ہو گئے اور ۱۵؍اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔۱۶ ؍ اگست سے ۳۱ ؍اگست کے دن تک کابل ائیرپورٹ پر انتہائی افسوس ناک واقعات ہوئے، جب کہ اس کا انتظام۵ ہزار سے زائدامریکی فوج کے پاس رہا۔ اس دوران ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد غیر ملکی اور ان کاساتھ دینے والے مقامی افراد کا انخلا عمل میں آیا۔ انھی دنوں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ نے خودکش حملہ بھی کیا، جس میں ۱۳؍ امریکی فوجیوںسمیت ۲۰۰؍افغان مارے گئے۔ امریکی فوج نے جانے سے پہلے کابل ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جنگی جہاز،ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ و برباد کرکے ایک بدترین مثال قائم کی۔
طالبان تحریک نے دارالحکومت کابل پرقبضہ کے بعد صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل لیا۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور نائب صدر امراللہ صالح نے واد یِ پنج شیر میں چند روز مزاحمت کے بعد راہ فرار اختیار کی۔
۱۷؍ اگست کے فوراً بعد طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت کا آغاز کیا۔قندھار میں تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی زیر صدارت رہبری شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ پہلے مرحلے میں مختلف محکموں،کابل انتظامیہ اور مرکزی بنک کے صدر کے طور پر ۱۲ شخصیات کا اعلان کیا گیا۔اس دوران کابل میں سابق صدرحامدکرزئی،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینیر گلبدین حکمت یار سے مشاورت کی گئی، جس سے یہ خیال پیدا ہو ا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین، ذبیح اللہ مجاہد، اور دیگر زعماء نے میڈیا پر بہترین ترجمانی کی۔عام معافی کا اعلان ،تعلیمی اداروں میں تعلیم کا آغاز اور بازاروں اور بنکوں میں لین دین کا آغاز ہوا۔ محرم الحرام میں اہل تشیع کے جلوس اور خواتین کے مظاہروں کی اجازت دی گئی۔البتہ جس عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا، اس میں صرف طالبان رہنما ئوں کو شامل کیا گیا ہے۔
مُلّامحمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ملاعبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام حنفی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سونپے گئے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں ملاعمر کے صاحبزادے ملایعقوب کو وزیر دفاع،سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ، ملاامیر خان متقی وزیر خارجہ اور ملافصیح الدین بدخشانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک ۶۷؍افراد کو وزارتیں و دیگر اہم مناصب دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اعلان کیاگیا تھا کہ ۱۱ستمبر کو تقریب حلف برداری ہوگی۔لیکن پھر اس کو ملتوی کردیا گیا۔ مرکز کے علاوہ افغانستان کے ۳۴صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں بھی تمام مناصب پر تعیناتی کی جا چکی ہے اور ملک کے طول و عرض پر امارت اسلامی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔
اس سب کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کو سخت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے:
گذشتہ چھے ماہ میں امارت اسلامی افغانستان کی قیادت نے کئی ایسے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں :
ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی پوری طرح فعال کر دیا گیا اور ان کے عملے کی تنخواہیں بھی عالمی ادارے IRCRC (عالمی ادارہ صحت) وغیرہ دے رہے ہیں ۔البتہ ڈاکٹروں اور طبّی عملے کی کمی اور ادویات کی نایابی کا مسئلہ کئی جگہ موجود ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کے لیے پشاور،ایران اور بھارت جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
طالبان کی قیادت نے کمال حکمت و فراست کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ملکی معیشت کو ایک حد سے گرنے نہیں دیا ۔ملک میں امن و امان قائم کرنے اور مواصلاتی نظام کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بنک کاری کے نظام کو بھی سہارا دیا ۔ افغان مرکزی بنک کا سربراہ حاجی محمد ادریس کو پہلے ہی مرحلے میں مقرر کیا گیا اور انھوں نے بنک کا انتظام سنبھالتے ہی تمام بنکوں کو روزانہ کم از کم سرمایہ فراہم کرنا شروع کردیا، البتہ یہ پابندی لگائی کہ ہر فرد اپنے کھاتے سے ہفتے میں دو سو ڈالر یا اس کے برابر افغان کرنسی نکال سکتا ہے،اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انھوں نے تمام نجی بنکوں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے اور کم از کم نصف تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھیں گے ۔اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں اور سرکاری ملازمین کو پہلے چند ماہ نصف تنخواہ اور اب مکمل تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس طرح لاکھوں افراد بے روزگار ہونے سے بچ گئےاور اندرون ملک کاروباری ماحول بحال ہو چکا ہے ۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام، خصوصاً شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کچھ حد تک بحال ہو چکی ہے اور سرکاری ٹھیکے بھی جاری ہو گئے ہیں ۔البتہ مکمل طور پر اقتصادی ترقی بحال نہیں ہو ئی اور ملک میں مجموعی طور پر غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بنکوں میں ATM کی سہولت ابھی تک بحال نہیں کی جاسکی ہے۔
بیرونی تجارت میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنک کاری کی سہولتوں کی کمی ہے۔ جس سے تاجروں کو بیرونی کرنسی کے کاروباری معاملات میں مشکل درپیش ہے۔سب سے بڑا مسئلہ افغان مرکزی بنک کے بیرونی اثاثہ جات ہیں، جو ۹ ؍ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور جو امریکی بنکوں میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا عندیہ دیا ہے ۔اور اس میں سے یک طرفہ اور جبری طور پر نصف رقم ۲۰۰۱ء میں امریکا میں دہشت گردی کے واقعے میںہلاک ہو نے والے امریکی شہریوں کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نا انصافی اور سنگین جرم ہے جس کا امریکی حکومت ارتکاب کرنے جارہی ہے۔ اس اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اناتیونیو گیوٹریس نے کئی بار امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پابندی ختم کر دے اور افغان قوم کی یہ امانت اسے واپس دے ۔
بھارت نے گذشتہ بیس سال میں صدر اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے اور افغانستان میں اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی اور رفاہی کام کیے، جس کے نتیجے میں افغان عوام میں بالعموم بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، جو اس کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی ہے ۔ بھارت نے سفارتی سطح پر رابطوں کے باوجود اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ ایک ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، جس نے گذشتہ چار عشروں سے ایک شورش زدہ ملک میں مکمل امن و امان اور مرکزی حکومت کی رٹ قائم کردی ہے، جو اس سے پہلے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے بعدکبھی بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسلامی نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
پاکستانی حکومت کے علاوہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں ،خدمت خلق کی تنظیموں ،سماجی اداروں اور کاروباری تنظیموں اور شخصیات کو اس نازک موقع پر افغانستان کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغان عوام ایک عرصے سے پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اب کئی خاندانوں کا دوسرا گھر پاکستان ہی ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی بھی افغانستان میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوںسے ثقافتی ،مذہبی،قبائلی اور تجارتی روابط ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان روابط کو مزید مستحکم کیا جائے۔ اس کی ایک بہترین مثال حال ہی میں خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کا اقدام ہے کہ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق نے افغان حکومت کے محکمۂ تعلیم کے وفد کی آمد کے موقعے پر اعلان کیا کہ وہ کابل میں افغان طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے میڈیکل اور نرسنگ کالجز پر مشتمل کیمپس قائم کریں گے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں میڈیکل اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔لازماً یہ اقدام اُٹھانے چاہییں کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف پر داخلے دیئے جائیں۔ اسی طرح عسکری اور دیگر تربیتی اداروں میں بھی افغانو ں کو آنے کا موقع دیا جائے۔تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر بحال کی جائیں، اور ہر ممکن طریقے سے پاکستانی اور افغان تاجروں کو آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔ وزارتِ خزانہ کا یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ملکی کرنسی استعمال کی جائے گی ۔
گذشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کے معاملے پر دو مقامات پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے، جس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ لیکن طالبان کی مر کزی قیادت نے فراست سے ان واقعات کا بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے ذمہ دار افراد کو سزا دی۔ پاک افغان تعلقات میں ایک اور اہم مسئلہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں خاص طور پر پاکستانی فوج اور پولیس کے جواانوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ قابلِ تشویش ہے، جس کی روک تھام کے لیے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے قائدین بالخصوص وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انھی کے ایما پر حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور ایک موقعے پر سیز فائر کا اعلان بھی ہوا ۔لیکن اب تک صلح کی شرائط پر عدم اتفاق کی وجہ سے کو ئی باقاعدہ معاہدہ وجود میں نہیں آسکا ہے۔
پاکستان کے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے، جن میں ’الخدمت فائونڈیشن پاکستان‘ نمایاں ہے، اور اب تک ۲۱کروڑ مالیت کا سامان، جس میں غذائی اجناس ،گرم ملبو سات اور ادویات ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا چکا ہے، جب کہ کابل میں یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے آغوش مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے تین رکنی وفدنے گذشتہ ماہ کابل کا تفصیلی دورہ کیا اور امارت اسلامی کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔الخدمت نے امدادی سامان کی ایک کھیپ افغانستان روانہ کی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے،مزیدامداداورتعاون درکار ہے۔
اشتہارات کی کمی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے نشریات بھی متاثر ہو ئی ہیں ۔نائب وزیر نشریات ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی سے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں سے معاملات کیے ہیں۔ غیر ملکی خواتین صحافی بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی ادارے براہ راست افغانستان کے شہروں اور دیہات سے رپورٹیں نشر کر رہے ہیں ۔پاکستانی صحافی بھی بڑی تعداد میں افغانستان جارہے ہیں، اور عوامی جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
افغانستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس میںسیاحت کے فروغ کے لیے اچھے مواقع ہیں، لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں،بین الاقوامی پروازوں کی بندش اور بنکاری کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حالات معمول پرنہیں آ رہے ۔ افغانستان، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے، جو مستقبل میں بڑے انسانی، مالی اور جغرافیائی وسائل کی بنیاد پر دنیا میں ایک اہم سیاسی و نظریاتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
افغانستان میں معاشی بحالی اور امن و امان کا قیام طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کی قیادت راسخ العقیدہ علما پر مشتمل ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں ،عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو ناان کے لیے ایک مشکل اور صبرآزما جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے، جب بھارت کے جنوبی صوبہ کرناٹک، میں اسمبلی انتخابات کی مہم جاری تھی، تو یہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقتدر لیڈر، اننت کمار (مرکزی وزیر) پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی حکمت عملی پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ ’’بی جے پی کیا ایجنڈا لے کر میدان میں اتر رہی ہے؟‘‘ تو انھوں نے صاف اعتراف کیا کہ ’’پولرائزشن ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں‘‘۔ اُن دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان، ہندو نسل پرستوں کی زد میں تھے۔ تب کانگریس کے ایک لیڈر کے۔ رحمان خان ٹیپو سلطان یونی ورسٹی بنانا چاہتے تھے اور کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔ اننت کما ر کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایشوہماری انتخابی مہم کے لیے غذا ہے اور اس کا بھرپور استعمال کیا جائے گا‘‘۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد ۴۰ سے بڑھا کر ۱۰۴کردی۔
۲۰۰۴ء میں جب کانگریس کے زیر قیادت اتحاد نے انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی ’شائینگ انڈیا‘ کے نعرے پر لڑا تھا ۔ مگر اس شکست نے ان میں احساس پیدا کر دیا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوز پر ہی لبھایا جاسکتا ہے‘‘۔ تب سے بی جے پی نے اقتدار کی کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لیے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ، اور وہ ہیں:’’ گائے، مسلمان اور پاکستان‘‘۔
۲۰۱۴ء سے ابھی تک ’گائے کی حفاظت‘ کے نام پر ہجومی تشدد کے ۸۰ واقعات میں ۵۰؍افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اب گائے کا ایشو کچھ ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ ’پاکستان‘ کے ایشو کو آیندہ کے لیے اُٹھا رکھا گیا ہے، جس طرح پلوامہ کے المیے کے بعد ۲۰۱۹ء میں اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم، آج اس وقت ہندو شدت پسند اور ان کی سیاسی تنظیم بی جے پی ، مسلمان کارڈ کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب عالم گیر اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کو مطعون کرکے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بناکر مخالفین کو شکست دی۔
لکھنؤ شہر کے ایک معروف صحافی حسام صدیقی کے مطابق: ’’ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے‘‘۔ اس وقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا آغاز کرناٹک کے اڈپی قصبے سے ہوا، جہاں گورنمنٹ پری یونی ورسٹی کالج فار گرلز میں نصف درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انھوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے ۵فروری کو حکم نامہ جاری کرکے تمام اسکول اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔
سوال یہ ہے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو ان کے گھونگھٹ بھی اتار کر پھینک دو۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو دُور کی کوڑی لاتے ہوئے سب سے آگے نکل گئے۔ انھوں نے کہا:’’حجاب کے ذریعے کچھ لوگ ملک میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ نفرت کی خلیج کو گہرا کرنے کے لیے بی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف بطورِ احتجاج طلبہ کو بھگوا مفلر تقسیم کر رہی ہیں۔ اسے چھوٹے چھوٹے بچوں تک میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہندو نسل پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ’ لوّ جہاد‘ سے شروع کی جانے والی لہر، شہریت قانون، تبدیلیِ مذہب پر پابندی کا قانون، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے اَن گنت اقدامات کے تسلسل میں اب حجاب کے سوال پر جھگڑا کھڑا کیا گیاہے۔ اس طرح سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔۲۰۱۷ء میں خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’اس علاقے میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کا ’شدھی کرن ‘کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گائوں کی ۱۷سالہ عاصمہ نے بتایا، کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بھاگ نکلی‘‘۔ خاتون رپورٹر نے بتایا کہ ’’ صر ف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرنےکے بعد ان کی زبردستی کی شادیاں کردی گئی ہیں‘‘۔
چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا شوہر اروند گاؤں کے مکھیا ٹھاکر کا بیٹا ہے۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندووانہ لباس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایا، کہ ’’جب وہ ۱۳سال کی تھی، تو ٹھاکروں نے اس کو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا‘‘۔ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔ دو سا ل قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واھنی سے وابستہ چارافراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے، کہ ادتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد ہی اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی باڑی کرنے کی اجازت ملی‘‘۔
پانچ سا ل پہلے کی بات ہے کہ جب میں اتر پردیش کے انتخابات کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ کالج کے ایک پروفیسر، جو سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے قریبی رشتہ دار تھے، انھوں نے بتایا کہ ’’میں مودی کے بدترین مخالفین میں سے ہوں، مگر ایک کام اس نے بہت اچھا کیا اور وہ یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انھیں ٹھیک کنٹرول میں رکھا ہے‘‘۔ بھارت میں بے بنیاد طور پر یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں‘‘۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پراپیگنڈا یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔
بھارت میں مذہبی منافرت اُبھارنے کا یہ کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھے ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں زیرتعلیم بچوں کے معصوم ذہنوں کو مذہبی نفرت سے مسموم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک صاف طور پر بھارتی میڈیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے دوران کشمیر میں انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے دیکھا، کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقے ’چناب ویلی‘ میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے پُرجوش کارکنوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لے کر دیہات میں رات دن ’ہندوتوا‘ کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔
شہید بابری مسجد کی جگہ پر عالی شان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے آر ایس ایس کا نشانہ اب۱۹۹۱ء کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رُو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام عبادت گاہوں کی۱۹۴۷ء والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبے میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عید گاہ کے قضیے کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں اب بتایا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کرشن کے جنم استھان کا حصہ ہے ۔ یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔
بنارس کی اس مسجد کے بارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی سے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا، تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانے کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتاچلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ مقدمہ کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر مندر کو اَزسر نو تعمیر کرادیا۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔
بھارت کے مشہور دانش وَر سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other میں لکھا تھا کہ ’’میں اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتا ہوں‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش میں صوبائی انتخابی مہم دیکھنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں میں اپنی تعلیم و ترقی کے بجائے اپنے تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے‘‘۔
سعید نقوی کے مطابق: ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کا مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ بھارت میں اس لفظ سے وابستہ حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے، جس پر ہندو قوم پرستی کا عالی شان مندر تعمیر اور ترشول بلند کیا جارہا ہے۔یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی قوم کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ’’مجھ پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے، وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔حال یہ ہے کہ پچھلے چاربرسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندی بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل بادشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفےٰ آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے‘‘۔
احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔ کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیرمحسوس طریقے سے ۱۵ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔
مسلمانوںکی سیاسی حالت حددرجہ ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔ اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک آسودہ حال ملک بنا سکیںگے؟
اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع خصوصی عدالت میں بیان دے رہے تھے: ’’میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا پُرامن رویہ تمھاری گولی سے زیادہ طاقت ور ہے ۔کیا میری امن پسندی ہی میرے خلاف دلیل بنادی جائے گی؟جب سے اخوان المسلمون قائم ہوئی ہے، ہماری جدوجہد پرامن ہے اور ان شاء اللہ ہم پر توڑے جانے والے ظلم کے خلاف اللہ کی نصرت ہمیں ضرور حاصل ہوکر رہے گی۔جج صاحبان ! حقائق کو توڑا مروڑا جارہا ہے ۔جو کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں اور جو جیلوں میں ناحق بنداورقید کاٹ رہے ہیں، ظلم انھی پر توڑا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اخوان المسلمون فتحیاب لوٹے گی اور پہلے سے بڑھ کر طاقت ور: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷‘‘
ڈاکٹر محمد بدیع [پ: ۷؍اگست ۱۹۴۳ء] ۱۶جنوری ۲۰۱۰ء کو اخوان المسلمون کے آٹھویں مرشد عام منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک صائب الرائے اور صاحب ِعزیمت رہنما ہیں ۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام [۲۰۰۴ء- ۲۰۱۰ء] محمدمھدی عاکف [۱۹۲۸ء-۲۰۱۷ء] کے قریبی ساتھی ہیں ۔دونوں سید قطب شہید [شہادت: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]کے شاگرد رہے اور سید صاحب کے ساتھ ہی ۱۹۶۵ء کی قید و بند اور ابتلا و آزمایش میں مبتلا رہے اور کندن بن کر نکلے۔ مصر کے ریاستی اطلاعاتی ادارے نے ۱۹۹۹ء میں انھیں ’۱۰۰ بہترین عرب سائنس دانوں‘ میں شمار کیا تھا ۔
اس وقت کے مصری فوجی حکمران ، جمال عبد الناصر کی فوجی عدالت نے ڈاکٹر محمد بدیع کو ناکردہ جرم کی پاداش میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ ۹سال جیل میں قید رہ کر رہا ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں ۷۵ دن کے لیے پھر قید کردئیے گئے ۔۱۹۹۹ء میں تیسری بار گرفتار کیے گئے اور پانچ سال قید کی سزا پائی اور ۲۰۰۳ء میں رہا ہوئے۔
۲۰۱۳ء میں صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف چند دولت مند ملکوں کی پشت پناہی میں جنرل سیسی کی باغی حکومت نے فوجی انقلاب میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ فوجی جنتا نے اس بار ان پر قتل اور تشدد پر اُبھارنے کا الزام عائد کیا۔اس وقت مصر کے آٹھ اضلاع میں ان کے خلاف ۴۸مقدمات درج ہیں ۔
حالیہ فروری ۲۰۲۲ء میں ایک جعلی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرشدعام کی عمرقید کو برقرار رکھاگیاہے۔۳۰دن کے اندر اندر انھیں سنائی جانے والی یہ دوسری عمرقید کی سزا ہے۔ اس طرح مختلف مقدمات میں اب تک مجموعی طور پر انھیں ۲۰۰ برس کی عمرقید سنائی جاچکی ہے۔ مزید ۸۰ برس قید کی سزائوں والے مقدمات کی سماعت ابھی باقی ہے۔
۷۸برس کے مرشدعام کو آٹھ برس سے مسلسل قیدتنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان کی بیٹی ضحی بدیع کہتی ہیں کہ میرے والد محترم علیل ہیں۔ پانچ برس سے انھیں اہلِ خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ کھانے پینے کا سامان اور باہر سے دوا تک نہیں پہنچنے دی جارہی۔ انھیں طبّی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور قید کی تعذیب اور مشقت اس پر سوا ہے۔ ’’وہ سخت جسمانی کمزوری کا شکار ہیں ، ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری التجا سننے والا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے‘‘۔
عرب حکومتوں کے پالیسی سازوں کے خیال میں ’عرب بہار‘ کی کامیابی کے پیچھے در اصل اخوان المسلمون کے نظریاتی ،سرتاپا قربانی دینے والے، منظم کارکنان تھے ۔لہٰذا، جب تک انھیں اور ان کی قیادت کا صفایا نہ کردیا جائے دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی پشت پناہی کے باوجود، ہمارے لیے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔اسی لیے اخوان المسلمون اور خصوصاً ان کی قیادت ان کا اہم ہدف ہے۔
۲۰۱۳ء میں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کی گرفتاری کے بعد جناب محمود عزت قائم مقام مرشدعام مقرر ہوئے۔ حکومتی جبرو استبداد کو دیکھتے ہوئے بار بار ساتھیوں نے انھیں ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا ۔لیکن قائم مقام مرشد عام نے دار و گیر میں مبتلااپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑنا پسند نہ کیا اور ملک ہی میں اپنے کارکنوں کے درمیان رہے ۔۲۰۱۵ٌ میں اخوان المسلمون کے دیگر ۹۲کارکنان کے ہمراہ انھیں بھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد میں عمر قید میں بدل دیا گیا۔ ۸؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو محمود عزت بھی گرفتار کرلیے گئے ۔
نائب مرشد عام محمود عزت کے ساتھ کام کرنے والی اعلیٰ انتظامی کمیٹی کے اولین کنوینیر ڈاکٹر محمد کمال کوابتدا میں ہی شہید کردیا گیا تھا اور دوسرے ذمہ دار ڈاکٹر محمد عبد الرحمٰن مرسی کو قید کرلیا گیا۔
اخوان کے رہنما ڈاکٹر عصام عریان ۲۱؍ اگست ۲۰۲۱ءکو سیسی آمریت کے ہاتھوں قید کے دوران تشدد سے جیل ہی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تشدد زدہ میّت، گھر والوں کے حوالے کرنے کے بجائے انتظامیہ نے خود سپرد خاک کردی تھی۔ تدفین کے وقت گھروالوں کو قبرستان آنے تو دیا گیا،لیکن موبائل فون لانے کی اجازت نہیں دی، تاکہ مجرم نظام اپنا جرم چھپاسکے۔
امام ابن تیمیہؒ نے قید کی دھمکی کے جواب میں فرمایا تھا:’’ہمارے دشمن ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ؟ قید ہمارے لیے خلوت اور تنہائی میں عبادت کا موقع ہے ۔جلاوطنی ہمارے لیے سیاحت ہے اور قتل ہمارے لیے شہادت‘‘ ۔امام ؒ کے اس مقولے کو زندگی کا وظیفہ بناتے ہوئے اس وقت اخوان المسلمو ن کی چوٹی کی قیادت اورمکتب ارشاد کے تمام ممبران قید میں ہیں۔ اخوان کے ۶۰ہزار کارکن جیلوں میں بند ہیں ۔(جیلوں میں جگہ کم پڑچکی ہے اور حال ہی میں جنرل سیسی حکومت نے نئے جیل خانے تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔)
صدر مرسی کی زندگی میں مرشد عام محمد مھدی عاکف سے حکومت نے مذاکرات کرنا چاہے تو انھوں نے فرمایا: ’’جس نے مذاکرات کرنے ہوں وہ مصر کے حقیقی منتخب صدر ( مرسی ) سے کرے‘‘۔ نائب مرشد عام خیرت الشاطر کا کہنا تھا: ’’جو بات چیت چاہتا ہے ،وہ صدر مصر (مرسی)سے کرے‘‘۔
صدر مرسی شہید کی دوران قید جیل میں وفات [۱۷جون ۲۰۱۹ء] کے بعد اخوان کا دو ٹوک موقف اب یہ ہے کہ ’’ان کی شہادت کے بعد مذاکرات کا حق اب صرف اور صرف مصری قوم کو ہے۔ اس لیے کہ جنگ اب اخوان اور غدار فوجی جنتا کے مابین نہیں بلکہ بغاوت کے مرتکب فوجیوں اور اس قوم کے درمیان ہے، جس کا مینڈیٹ چُرالیا گیا ہے۔جس کی آواز کو دبا دیاگیا ہے ،اورجس کی عزت پامال کی گئی ہے ۔ تیران و صنافیر کے جزیرے بیچ ڈالے گئے، اور مصر کو امریکا واسرائیل کا بے دام غلام بنادیا گیا ۔
لندن میں قائم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (IA) انسانی حقوق کی کوئی واحد عالمی انجمن نہیں ہے کہ جس نے اسرائیل کو ’نسل پرست ریاست‘ قرار دیا ہو۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے دوسرے گروپ بھی صہیونی ریاست کے خلاف ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشل اپنی تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سمیت دو اسرائیلی انجمنوں (بتسلیم اور یش دین) کی ہم نوا بن گئی ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے نسل پرست اقدامات کا پردہ چاک کر چکی ہیں۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسیوں اور ضابطوں کے ذریعے نسل پرستی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اسی طرح فلسطینی شہریوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر غیر نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔
اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بے بنیاد الزامات کے ذریعے ادارے کی اسرائیل سے نفرت واضح ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس کا مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو اُبھارنا ہے۔
نسل پرست صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ’بیانیے کی جنگ‘ جیسی اصطلاحات کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اس کے حواری ’پروپیگنڈا کی جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ طرزِعمل ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے پہلوتہی برت رہا ہے۔
اسرائیل میں نسل پرستی کے مظاہر تو پہلے دن سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد بخوبی جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے ان کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ۲۰ ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے ۹۵ فی صد مقامی باسیوں کے حقوق کی بُری طرح پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین نے صہیونی منصوبے پر واضح اور دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریز کیا کہ شاید مستقبل بعید میں کوئی نہ کوئی، کسی دن تل ابیب کی حکومت کو ’نسل پرستی‘ کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔
برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے، جو حقائق کے بجائے عقیدے کو بنیاد مانتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انھوں نے ۲۰۱۷ء میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا دو ریاستی حل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔پھر فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطرانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی، ایسے میں ان کے استصواب رائے کے حق کی بات چہ معنی دارد؟
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات رکھتے تھے۔ واشنگٹن میں ۲۰۱۴ء کے دوران ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، تو اسرائیل کے نسل پرست ریاست بننے کے خطرات دوچند ہو جائیں گے‘۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈریان کے بقول: ’نسل پرستی کا خطرہ بہت زیادہ ہے، اور اس سنگین صورتِ حال کے جوں کا توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے‘۔
یہ دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ’سٹیٹس کو‘ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی نسل پرست جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں، جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکیرٹری بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے متعلق اعتبار بھی کچے دھاگے سے بندھا تھا۔ گذشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا، ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں‘۔ بان کی مون کا تبصرہ اسرائیل کے نسل پرست ریاست ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے خیالات سے آگاہی کا نقیب ثابت ہوا۔ اگرچہ عالمی ادارے کے موجودہ جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ۲۰۱۷ء میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔
اب اسرائیلی رہنما اس بات پر متفکر ہیں کہ مبادا یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار نہ ٹھیرا دیا جائے۔ صہیونی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرے کو بھی ظاہری طور پر سجایا گیا ہے۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں‘، تاہم صہیونی ریاست ’پھسلتی ڈھلوان‘ پر اسی سمت سفر کر رہی ہے۔اسی طرح سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی جدوجہد‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب یہ جنگ ہار بھی سکتا ہے‘۔
بزرگ اسرائیلی رہنما کے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا، اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کا خاتمہ نوشتۂ دیوار ہوگا‘۔
دوسرے اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندۂ جاوید حقیقت ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں کہ’ اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے‘۔ سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘
اسرائیل بڑی مدت سے امریکی یونی ورسٹیوں میں اسرائیل کی حمایت کے لیے ’ہاسبارہ‘ تنظیم کے ذریعے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں اطلاعاتی پروپیگنڈے سے اپنا ’روشن چہرہ‘ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ تکنیک‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے نقصان پہنچایا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کا نقطۂ عروج بننے جا رہی ہے۔ ’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں سامنے آنے والی جمی کارٹر کی کتاب اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کے بارے میں بحث کا نقطۂ آغاز بنی۔
کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق انھیں یہود مخالف خیالات کا پرچارک قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا، جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اَٹا ہوا تھا۔
دو عشرے گزرنے کے بعد کئی امریکی ادارے، اسرائیل کے بارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل ناجائز قبضے کے بوجھ تلے دبی اپنی جمہوریت کو دنیا کے سامنے مہنگے داموں مزید نہیں بیچ سکتا‘۔
ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ تل ابیب اس وقت تک نسل پرست ریاست ہی قرار پائے گا، جب تک وہ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مساوی حقوق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل موجودہ رپورٹ جاری کرنے کے بعد ان اداروں کی فہرست میں شامل ہو گئی جو اسرائیل کے متعصبانہ رویہ کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں اور اقوام عالم کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ’’بہت ہوگیا، اسرائیل کی جواب دہی اب نہیں تو کب؟ ‘‘
۲۷۸ صفحات پر مشتمل یہ مدلّل رپورٹ امریکی سینیٹ ممبران کی تنقید کی زد میں آئی ہے ۔ امریکی قانون سازوں کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف فلسطینی نژاد امریکی بزرگ اسدعمر کی اسرائیلی فوج کے تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے تو یہ سب خاموش ۔ دوسری جانب جب انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں تو اُلٹا ان اداروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ پر برہم مقتدر لوگوں میں سر فہرست نام امریکی امور خارجہ کی سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینی ڈیز کے بارے میں شنید ہے کہ اسرائیل گذشتہ ۱۶ برس سے ان کی انتخابی مہم کے لیے ہزاروں ڈالر فنڈنگ کر رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ رپورٹ سامنے آئی، تو رابرٹ مینی ڈیز نے فی الفور اس تنظیم کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور واضح طور پر اس رپورٹ کو غلط فہمی اور گمراہ کن حقائق پر مبنی قرار دیا۔
بلاشبہہ اسد عمر نامی بزرگ شہری کی موت کی ذمہ دار ان کی بےجا حراست تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ان کو مغربی کنارے کے ایک قصبے سے شبہہ کی بنیاد پر گرفتار کیا، جب وہ اپنی کار پر جا رہے تھے۔ تشدد کی وجہ سے اسی روز ان کی موت واقع ہوگئی۔ روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی فوجی سربراہ نے اس حادثے پر اظہار افسوس کیا مگر معافی مانگنے سے گریز کیا ۔
اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ واقعی اسرائیل کے متعصبانہ رویے، غاصبانہ نظام حکومت اور انسانیت کے خلاف جرائم پر ایک مؤثر اور چشم کشا دستاویز ہے۔ تاہم، اس پر امریکی اربابِ اختیار کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے ۔
یہ ایک نہایت افسوس ناک اتفاق ہے کہ حالات و واقعات کی رفتار دیکھ کر میں نے بیسویں صدی کے آخری عشرے کے شروع میں روانڈا میں ۱۹۹۴ء میں ہونے والی ’نسل کشی‘ (Genocide)سے تقریباً پانچ سال قبل اس کی پیش گوئی کی تھی، اور اسی طرح صدی کے شروع میں یہ کہا تھا کہ میانمار میں حالات روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف جائیں گے۔ اور آج اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تشویش ناک حالات بھارت میں ہیں، جہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ سر پر کھڑا نظر آرہا ہے۔
’جینوسائیڈ واچ‘ ۲۰۰۲ء سے ہندستان میں نسل کشی کے بارے میں انتباہ (warning) دے رہی تھی کہ جب گجرات میں اس سال فروری،مارچ کے دوران قتل عام کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے، جنھوں نے اس انسانی المیے کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ درحقیقت، اس بات کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ مودی نے مسلمانوں کے اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس سے بڑھ کر مودی نے جو آج کل ہندستان کے وزیر اعظم ہیں، اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے ’مسلم مخالف، اسلاموفوبک بیان بازی‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔
مودی نے اس المیے کو ریاستی اور اداراتی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے جو دو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں ایک تو اگست ۲۰۱۹ء میں ہندستانی زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا اور اسی سال شہریت (ترمیمی) ایکٹ پاس کرنا ہے، جس میں واضح طور پر مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مقصد وادیٔ کشمیر میں’ہندو تسلط کو بحال کرنا‘ ہے، جس میں مسلم اکثریت ہے، اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ کا نفاذ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے، جس میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کو مخصوص سازگار درجہ دیا، جو کہ بعض مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ایک گروہ جسے اس سے خارج کر دیا گیا وہ مسلمان ہیں۔یہ ایکٹ خصوصاً ، ان مسلمانوں کے لیے ہے جن کے والدین ۱۹۷۱ءمیں خانہ جنگی کے دوران مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر آسام میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ تقریباً ۳۰ لاکھ لوگ ہیں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، جو گذشتہ ۵۰ برس سے ہندستان کے باقاعدہ شہری کے طور پر’بس گئے‘ ہیں۔
متنازع شہریت (ترمیمی) ایکٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دستاویزی طور پر یہ ثابت کریں کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلےکے ہندستان کے شہری تھے۔اب بہت سارے لوگوں کے پاس اس قسم کی دستاویزات نہیں ہیں۔ جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ انھیں غیرملکی قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے۔
۲۰۱۷ء میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ جہاں میانمار کی حکومت نے پہلے ایک قانون سازی کے ذریعے عشروں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کو شہری قرار دیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے انھیں بے دخل کرکے کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
اقوام متحدہ کا ’نسل کشی کنونشن‘ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو نسل کشی کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مقصد خاص طور پر کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہی سے بچانا ہے، مگر روہنگیا مسلمان یہ المیہ بھگت رہے ہیں۔ اب بھارت میں بالکل اسی خونیں المیے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کا مقصد شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے تحت پورے ہندستان میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان متاثر کرنا ہے۔ ’ہندوتوا تحریک‘ کے تحت ہندستان کا تصور بطور ہندو قوم، ہندستان کی تاریخ اور ہندستانی آئین کے خلاف ہے۔ ہندستانی آئین سیکولرازم کے تحت اپنے بسنے والے تمام شہریوں سے وعدہ کیا تھا۔
اس وقت حقیقت میں مسٹر نریندرا مودی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسے انتہا پسند، ’ہندوتوا‘ کے علَم بردار گروپ کے کارکن کی حیثیت سے ہندستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اقتدار میں ہیںاور حکومت کی پوری مشینری پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔
بھارت کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر نسل کشی ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اور یہ کہ بھارتی آسام اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم نسل کشی کی ابتدائی علامات اور مظاہر موجود ہیں۔
اسی طرح اتراکھنڈ کے یاتری شہر ’ہردوار‘ میں ۱۷ سے ۱۹ دسمبر تک ’ہندوتوا‘ لیڈر کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس کو معمولی واقعہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی متعدد اپیلیں کی گئی ہیں، اور حلف لیے گئے ہیں، جس کا واضح مقصد اپنے ماننے والوں کو نسل کشی پر اُکسانا ہے۔
مودی نے بحیثیت بھارتی وزیر اعظم، نفرت آمیز اقدامات اور نفرت انگیز تقاریر کیں، جو خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کے جذبات بھڑکاتی ہیں،جن کی مذمت کرنا دُنیابھر کے مہذب لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
’ہردوار کانفرنس‘ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان، محض وہاں موجود مشتعل لیڈروں اور سامعین تک محدود نہیں، بلکہ یہی زبان مسلمانوں کے خلاف ہندستانی حکومت بھی استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ جس کا مقصد اس ’پولرائزیشن‘ کو گہرا کرنا ہے، جس کی وجہ سے نسل کشی ہوتی ہے، لہٰذا ہم خبردار کر رہے ہیں کہ ہندستان میں نسل کشی بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ ہندستان کے یہ حالات ’روانڈا‘ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں، جہاں ۱۹۹۴ءمیں نسل کشی ہوئی تھی۔
روانڈا میں نسل کشی کی پیش گوئی میں نے اس وقت ملک کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں کی تھی اور روانڈا کے اس وقت کے صدر کو خبردار کیا تھا کہ’’اگر آپ نے اپنے ملک میں نسل کشی کی علامتوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو پانچ سال کے اندر یہاں عملاً نسل کشی ہوجائے گی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود نسل کشی کی راہ پر چلنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کی جاتی رہیں، اور پھر ہم جانتے ہیں، ۷؍اپریل سے ۱۵جولائی ۱۹۹۴ء پر پھیلے ایک سو دنوں میں روانڈا کے ۸لاکھ تتسی باشندوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا۔
دنیا بھر کے انصاف پسند اور انسانیت دوست انسانوں اور اداروں کو آج اس عزم کا اظہار کرنا اور عملی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم ہندستان میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔