مقبوضہ جموں و کشمیر کے سری نگر میں مسلمانوں کے لیے مقدس درگاہ حضرت بل کے کتبے ’پر اشوک لاٹ‘ کا سرکاری نشان کنندہ کرنے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ مقامی افراد نے ’جموں و کشمیر وقف بورڈ‘ کے خلاف احتجاج کیا ہے،جب کہ پتھر کے کتبے پر مہاراجا اشوک کے نشان کو توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ واقعہ ۵ستمبر جمعہ کے دن پیش آیا۔ دوسری جانب حکمران جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے کہا ہے کہ ’ہمارے مزارات ایمان، عاجزی اور اتحاد کی علامت ہیں، ان مقامات کو عبادت گاہ ہی بنے رہنا چاہیے، تقسیم کی جگہ نہیں‘ ۔
کچھ عرصہ قبل درگاہ حضرت بل کی تعمیرِ نو کا کام شروع ہوا تھا۔ اس دوران وہاں سنگ بنیاد پر اشوک کی لاٹ کا نشان بنایا گیا تھا، جس پر لوگوں میں ناراضی کی لہر پھیل گئی۔ مشتعل لوگوں نے اسے توڑنے کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔ سری نگر کی یہ درگاہ اور مسجد مسلمانوں کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ صدیوں پر محیط روایت کے مطابق یہاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’موئے مبارک‘ ہے۔ اس درگاہ کی تعمیرِ نو مسلم اوقاف ٹرسٹ کے شیخ محمد عبداللہ کی نگرانی میں ۱۹۶۸ء میں شروع ہوئی اور کام ۱۹۷۹ء میں ختم ہوا۔
’موئے مقدس‘ کو پہلی بار سنہ ۱۶۹۹ء میں کشمیر لایا گیا۔ پہلے اسے نقش آباد صاحب میں رکھا گیا اور پھر بعد میں اسے حضرت بل لایا گیا۔ ہر سال شب معراج اور میلاد النبی کے خاص موقعوں پر ریاست بھر اور دُور دراز کے علاقوں سے لوگ اس مسجد میں رکھے ہوئے ’موئے مقدس‘ کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد بی جے پی حکومتی اہل کار درخشاں اندرابی نے جمعے کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے افسوس ناک کارروائی قرار دیا اور کہا کہ ’قومی نشان کو توڑنا جرم ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے غنڈے ہیں جنھوں نے ایسا کیا ہے‘۔ ان کا اشارہ بظاہر نیشنل کانفرنس کی جانب تھا۔ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’قانونی طور پر قومی نشان کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر درگاہ میں داخلے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے گی ‘‘۔
حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ نشان پتھر پر لگانا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟‘ انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کسی مذہبی تقریب یا مذہبی مقام پر ایسا نشان استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ کیا کوئی مجبوری تھی کہ حضرت بل کے اس پتھر پر یہ نشان استعمال کیا گیا؟‘ سوال یہ ہے کہ ’پتھر لگانے کی کیا ضرورت تھی، کیا مرمت کا کام کافی نہیں تھا؟ اگر کام ٹھیک ہوتا تو لوگ خود کام کو پہچان لیتے‘۔ انھوں نے کتبہ لگانے والوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’مندر، مسجد، گرودوارہ، یہ تمام مذہبی مقامات ہیں جہاں قومی نشان کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان مقامات پر قومی نشان کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری پروگراموں میں سرکاری نشانات کا استعمال کیا جاتا ہے‘۔
اس سے قبل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) نے درخشاں اندرابی کے الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’یہ امر انتہائی تشویشناک ہے اور درگاہ حضرت بل کے اندر کسی جاندار (شخص یا جانور) کی تصویر یا علامتی نشانی کا استعمال اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ ہزاروں عقیدت مندوں کے لیے ایک محترم مقام ہے اور توحید کے اصول کے مطابق اس طرح کی نشانیوں کا استعمال ممنوع ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے یہ معمولی بات نہیں، بلکہ اس کا ان کے مذہبی جذبات سے گہرا تعلق ہے‘۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’وقف کوئی نجی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹرسٹ ہے جو عام مسلمانوں کے تعاون سے چلتا ہے۔ اسے لوگوں کے عقیدے اور روایت کے مطابق ہی چلایا جانا چاہیے‘۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں وقف بورڈ کی چیئرپرسن اندرابی کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ایسے نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں جو منتخب نہیں ہوئے، انھیں جموں و کشمیر کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، بلکہ انھوں نے از خود اس مقدس مقام پر ایک اعلیٰ عہدہ سنبھالا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف اس درگاہ کے تقدس کی توہین ہے، بلکہ احتساب اور خاکساری جیسے بنیادی اصولوں کا مذاق بھی ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگنے کے بجائے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دریں اثنا، نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان ایم ایل اے تنویر صادق نے کہا کہ ’درگاہ پر کسی جاندار کی تصویر لگانا اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے‘۔کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا غلط ہے۔ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بت پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ کوئی سرکاری عمارت نہیں ہے، یہ ایک درگاہ ہے‘۔
پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعہ کو پیش آنے والے اس واقعہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: ’یہ درگاہ پیغمبر اسلام سے متعلق ہے، لوگ یہاں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، وہاں اس قسم کی گستاخی سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ لوگ اس نشان کے خلاف نہیں ہیں لیکن اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے۔ اس لیے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسے یہاں کیوں نصب کیا گیا؟‘
انھوں نے کہا: ’یہ کہنا غلط ہے کہ لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف ۲۹۵- اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے کیونکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی توہین کے مترادف ہے‘۔ انھوں نے وزیراعلیٰ سے ایکشن لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا: ’اس واقعے کا اوقاف ذمہ دار ہے کیونکہ وہاں کے تمام لوگ مسلمان ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے سنگ بنیاد (کے کتبے) میں ایسی چیز کیسے رکھی جسے اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے‘۔ جمعہ کو انڈیا بھر میں عید میلاد النبی منائی گئی لیکن جموں و کشمیر میں اس کے لیے سنیچر کو سرکاری چھٹی دی گئی۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک سابق پوسٹ میں کہا کہ انتظامیہ کا جمعہ کی چھٹی کو سنیچر کی چھٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ انھوں نے سرکاری پریس کی طرف سے چھپنے والے کیلنڈر کی تصویر شیئر کی جس میں عید میلاد النبیؐ کے چاند کی رویت کی بنیاد پر ۵ستمبر کو چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس نسبت سے مختلف بیانات گردش میں ہیں: ’مسلمان کی وفاداری قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘ ۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اشوک لاٹ کی تین شیر والی علامت کوئی مذہبی علامت نہیں ہے۔ آنند رنگناتھن نے لکھا: ’اشوک کا نشان انڈیا کی نمائندگی کرتا ہے، خدا کی نہیں، یہ ایک آئیڈیل کی تصویر ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے درست کہا تھا: ’مسلمان کی وفاداری اس کی قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘۔
عارف اجاکیا نے لکھا: ’اسلام کو بچانے کے لیے انھوں نے درگاہ سے اشوک کا نشان ہٹادیا ہے لیکن وہ وہی نشان کعبہ اور مدینہ کے دورے کے دوران اپنے سینے کے قریب رکھتے ہیں جو ان کے پاسپورٹ اور بینک نوٹوں پر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں آپ اشوک کے نشان کے بغیر حج پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘۔ اس کے جواب میں حسن وانی نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر چیز کو آپس میں نہ ملائیں۔ پہلی بات یہ کہ مسجد کی دیوار پر کوئی تصویر یا نقش و نگار لٹکانا اسلامی شریعت میں قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے، جب کہ اپنی جیب میں پیسے یا پاسپورٹ رکھنا ایک الگ بات ہے۔ جذبات کو بھڑکانے اور سیاسی ماحول کو گرمانے کے لیے اس کا سیاسی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھانا، ان دونوں حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ بات حماقت سے کم نہیں!‘
بہت سے صارفین نے اسے جہاد کا طرزِ عمل کہا ہے ، جب کہ کئی افراد نے اسے تنگ نظری سے تعبیر کیا ہے اور کچھ نے سوال اُٹھایا ہے کہ اسے دوسرے مذہبی مقامات پر کیوں نہیں لگایا جاتا؟ بہت سے ہندو اس واقعے کو مسلمانوں کی انڈیا سے وفاداری پر سوالیہ نشان کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ فلٹریشن نامی ایک صارف نے لکھا: ’اشوک، بودھ مت کے پیروکار تھے۔ اشوک کی لاٹ مہاتما بودھ کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کی عقیدت کے مقام حضرت بل میں اشوک کی علامت کو لگایا وہ مذہبی انتشار کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں‘۔
عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ۱۵ ستمبر ۲۰۲۵ء کو دوحہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد ۹ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت پر اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتِ حال پر غور اور جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔اجلاس میں پاکستان، ترکیہ، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے تجاویز تو پیش کی گئیں، مگر کوئی ٹھوس عملی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے اور ’عرب اسلامی ٹاسک فورس‘ کی تشکیل کی تجویز دی، مگراسرائیل کے خلاف سفارتی مہم کی کوئی حکمت عملی بیان ہوئی نہ ٹاسک فورس کے خدوخال واضح کیے گئے۔
اجلاس سے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا خطاب سخت اور جوشیلا تھا۔ انھوں نے اسرائیلی حکومت کو ’’اقتدار کی جنونیت، تکبر اور خون کی پیاس میں مبتلا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ثالثوں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔قطری امیر نے غزہ میں جاری جنگ میں ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کیا اور نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ سوچ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے شامی زمین پر قبضہ کیا اور اب جنوبی لبنان سے انخلاء پر تیار نہیں۔تاہم، قطری قیادت کی گفتگو عملی بے بسی کا شکار رہی۔ اربوں ڈالر کے امریکی و برطانوی دفاعی نظام کی موجودگی میں اسرائیلی طیارے حملہ کر کے چلے گئے اور قطر کو ان کی آمد کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی۔
ایران پر اسرائیلی حملوں اور یمن میں اسرائیلی مداخلت یا تباہی کا براہِ راست ذکر قطری امیر کی تقریر میں نہیں آیا۔حالانکہ اسرائیل اور امریکا نے ایران اور یمن میں وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں ان حملوں پر شدید ردِعمل بھی موجود ہے۔قطر، ایران اور امریکا کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران کا ذکر نہ کرنا شاید سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہو، جب کہ یمن کے معاملے پر خلیج یکسو نہیں اور ان ممالک کی سفارتی کشیدگی سے خود کو باہر رکھنے کے لیے امیرقطر نے گفتگو میں احتیاط برتی۔
خلیجی تعاون کونسل (GCC) نے اپنےاجلاس میں مشترکہ دفاعی نظام کو فعال کرنے اور فوجی کمان کا اجلاس دوحہ میں بلانے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ خلیج کونسل کے کسی ایک رکن پر حملہ، تمام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد جی سی سی کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے بتایا کہ خلیجی ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان مشاورت جاری ہے تاکہ علاقائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا جاسکے۔
اوآئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملے کی شدید مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔بیان میں اسرائیل کی جانب سے قطر کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار بھی ہوا،لیکن اس سلسلہ میں کسی تزویراتی حکمت عملی کا ذکر سامنے نہ آیا۔ جی سی سی کے سیکرٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کا قیام ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کا ردعمل تھا۔ تاسیس کے وقت اس کا مقصد مسلم ممالک کا اتحاد، مظلوموں کی آواز بننا اور عالمی سطح پر اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ طے پایا تھا لیکن نصف صدی بعد OIC عملاً مفلوج ہو چکی ہے۔اس کی قراردادیں صرف کاغذی بیانات، اجلاس صرف رسمی تصاویر اور قیادت خلیجی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔
تنظیم کو فعال بنانے کے لیے ۱۸ سے ۲۰ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک چوٹی کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں ترکی، ایران، قطر اور دیگر مسلم ممالک کے رہنماؤں، دانش وروں اور اسکالرز نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس کا مقصد مسلم دنیا کو درپیش مسائل، اسلاموفوبیا، معاشی پس ماندگی، اور سیاسی انتشار کا حل اور اسلامی تنظیم کی غیر مؤثر حیثیت کے متبادل پر غور کرناتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیٹھک کے تجویز کنندگان میں سب سے اہم کردار پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا تھا، لیکن سعودی دباؤ کے باعث عین وقت پر پاکستان نے شرکت سے معذرت کر لی، جس نے مسلم دنیا میں نئی سفارتی صف بندی اور قیادت کے بحران کو مزید واضح کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو امت کی قیادت کا موقع ملا، مگر خان صاحب نے ریال کی سفارت کاری کو ترجیح دی۔
یہ اسلامی تعاون تنظیم کو فعال کرنے کا آخری موقع تھا جو ضائع کردیا گیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر امت کی قیادت کا عزم لے کر بننے والی تنظیم، غزہ کی نسل کشی، قطرپر حملے اور فلسطینی قیادت کے قتل پر صرف بیانات جاری کر رہی ہے۔ تنظیم کی قیادت ان ممالک کے زیرِ اثر ہے جنھوں نےاسرائیل سے تعلقات بڑھائے اور اب تنظیم کو اپنے مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالیہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے ’بزدلانہ‘ حملے کی مذمت تو کی گئی، مگر کوئی ٹھوس سیاسی یا اقتصادی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ خلیج تعاون کونسل نے مشترکہ دفاعی نظام کی بات تو کی، مگر عملی مزاحمت کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا گیا۔
کیا اُمتِ مسلمہ نئی قیادت، نئی صف بندی اور نئی مزاحمت کے لیے تیار ہے؟ یا تنظیم کو تاریخ کا ایک ناکام تجربہ مان کر اسرائیل اور امریکا کے سامنے ہتھیار رکھ دینے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی؟
حال ہی میں بنگلہ دیش میں کچھ ایسے حیرت انگیز واقعات پیش آئے ہیں جنھوں نے لوگوں کو دنگ کر دیا۔ کچھ لوگ اس سے مایوسی میں ہیں، جب کہ کچھ لوگ سیاسی اور سماجی زندگی میں زلزلے اور کچھ اپنے خیال کے مطابق اس میں تباہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ ہے بنگلہ دیش میں طلبہ و عوام کی بغاوت کے بعد بدعنوان اور فاشسٹ حسینہ حکومت کا تختہ اُلٹا دیا جانا اور اسلامی نظریۂ حیات کو فروغ دینے والی طلبہ تنظیم ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی بحالی، خاص طور پر ڈھاکا اور جہانگیر نگر یونی ورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی چھاتروشبر کی شاندار فتح۔ گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران اسلامی چھاترو شبر کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کا الزام، ریاستی جبر اور پارٹی دہشت گردی سے جڑا ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ یہاں تک کہ کچھ نام نہاد علما، جو یہ مانتے ہیں کہ اسلام کا دائرئہ کار صرف خانقاہوں اور مزاروں تک محدود ہے، نہ کہ سیاست یا ریاستی انتظام میں بھی، وہ بھی اس ظلم میں شامل تھے۔ شبر کی حالیہ فتح نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کیا اور نہ صرف طلبہ سیاست بلکہ قومی سیاست کو بھی متاثر کیا، جس سے بائیں اور دائیں بازو کے لوگوں کی تشویش بڑھ گئی ہے۔
۱۹۴۷ء میں ہماری پہلی آزادی کے بعد مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع ہوئیں، لیکن موجودہ بنگلہ دیش اور اُس وقت مشرقی پاکستان میں اس کی سرگرمیاں ۱۹۵۰ء کے عشرے میں شروع ہوئیں۔ اس وقت علما کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرتی تھی کہ اسلام میں سیاست کا کوئی مقام نہیں اور مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اپنی دعوت اور پروگرام کے ذریعے ریاست اور معاشرے میں ایمان دار اور قابل لوگوں کو متعارف کروانے کے نام پر سیاست میں جو دخل اندازی کی ہے، وہ ایک غلط عقیدہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دستور سازی کے لیے برپا ہونے والی تحریک میں جماعت اسلامی کا کردار اہم تھا۔ اس سے پاکستان کے دونوں بازوئوں میں جماعت کئی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن گئی۔ اسی دوران پنجاب میں قادیانی مسئلہ اٹھا۔ قادیانی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس دوران فسادات پھوٹ پڑے اور لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علما کی ایکشن کمیٹی نے قادیانیوں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن جدوجہد کا اعلان کیا، مگر پُرتشدد ڈائریکٹ ایکشن سے جماعت اسلامی نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ مگر دوسری طرف دلیل کے میدان میں مولانا مودودی نےقادیانی مسئلہ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا، جس میں انھوں نے قادیانیوں کے رہنما مرزاغلام احمد قادیانی کی متعدد تحریروں کے حوالوں سے ثابت کیا کہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور خود کو نبی کہتے ہیں، لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس مقالے کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن ملکی و غیر ملکی علما اور سربراہان مملکت کے احتجاج کے بعد یہ سزا معطل ہوئی اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اسے منسوخ کر دیا۔
۱۹۵۸ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کے خود اپنے ہی بنگالی مخالفین کے ہاتھوں قتل کے بعد اکتوبر میں جنرل محمد ایوب خاں نے مارشل لا نافذ کردیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں مارشل لا ختم ہوا تو جماعت اسلامی نے سب سے پہلے خود کو بحال کیا اور اپنی سرگرمیاں جاری کیں۔ جماعت اسلامی اپنے قیام سے ہی ایک منظم، قانون پسند، اور عوام دوست تنظیم رہی ہے۔ اس کی کوئی خفیہ سرگرمیاں نہیں تھیں، اور اس کے کارکن ایمانداری اور وفاداری کے معیار پر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام تھے۔
جنوری ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خاں کی زیرقیادت پاکستانی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کے خلاف مشرقی پاکستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ حکومت اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی،اور جسٹس محبوب مرشد کی سربراہی میں مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی کو غیر قانونی قرار دیا۔ مگر مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی برقرا رکھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان بھر میں پابندی ختم کردی۔
دسمبر ۱۹۷۰ء میں عوامی لیگ نے پورے انتخابی عمل پر قبضہ جماکر من مانا نتیجہ لیا۔ سول نافرمانی کی، پُرتشدد بغاوت کی، انڈیا نے اس کی مدد کی، اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شنگھو سمیت تمام مذہبی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ پھر ۱۹۷۵ء میں آئین کی چوتھی ترمیم کے ذریعے انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے کر صرف ایک جماعت’ بکسال‘ ( BKSAL) قائم کی جو ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ کا مخفف ہے، اور اپنے آپ کو اس کا تاحیات صدر قرار دیا۔ انھوں نے دوجماعتی اور دو سرکاری اخبارات کے علاوہ تمام اخبارات کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔ دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد بھی جماعت سمیت تمام اسلامی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو راکھی باہنی نے بغیر کسی مقدمہ کے قتل کیا۔ اسی دوران ۱۵؍ اگست ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب ایک فوجی بغاوت میں مارے گئے۔ ان کے زوال کے بعد دیگر جماعتوں نے نئے سرے سے رجسٹریشن کے بعد اپنا کام شروع کیا۔ فروری ۱۹۷۷ء میں اسلامی چھاترو شبر قائم ہوئی اور ایمان داری، قابلیت، اور حُبِ وطن کی بنیاد پر ایک معاشرتی ڈھانچا کی تعمیر کے لیے طلبہ میں کام شروع کیا۔ ۱۹۷۹ء میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے بھی نئے سرے سے کام شروع کیا۔ لیکن ان کا کام کبھی آسان نہیں رہا۔ شروع سے ہی انھیں سرکاری سرپرستی میں دائیں اور بائیں بازو کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ جماعت اسلامی اورشبر کے کارکنوں پر قتل، عصمت دری، آتش زنی، اور دہشت گردی کے ہزاروں نہایت بیہودہ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھر اور کاروبار کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔ ۱۹۹۲ء میں نہایت گھنائونے الزامات سب سے پہلے راجشاہی یونی ورسٹی میں پھیلائے گئے۔ اس وقت میرے ایک ساتھی جناب شفیق الرحمٰن حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ انھوں نے راج شاہی میں اس الزام کو سراسر جھوٹا افسانہ قرار دیا اور افسوس کا اظہار کیا۔
ہماری یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی چھاتروشبر ‘پرپابندی تھی۔ ان کے لیے وہاں کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ ساٹھ کے عشرے میں مَیں خود ڈھاکا یونی ورسٹی کا طالب علم تھا، لیکن ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ کی سرگرمیوں میں حصہ لینا مشکل تھا۔ شہید محمد عبدالمالک میرے جونیئر بھائی تھے، جنھیں اگست ۱۹۶۹ء میں شہید کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کا ایک واقعہ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں، مَیں نے ڈھاکہ کالج انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا۔ اس وقت پرنسپل جلال الدین احمد تھے۔ میں اس وقت پاجامہ پہنتا تھا، وہ ہمیں انگریزی کی کلاس پڑھاتے تھے۔ ایک دن کلاس میں مجھ سے پوچھ بیٹھے: ’تم مولوی ہو؟‘ میں نے کہا:’’نہیں سر‘‘۔ انھوں نے صاف کہا:’’یاد رکھو! میرے کالج میں مُلّامولوی کی کوئی جگہ نہیں‘‘۔ حالات کی سنگینی کا آپ اس سے اندازہ لگائیں!
اب سے پندرہ برس پہلے شیخ حسینہ نے اقتدار میں آتے ہی جماعت اسلامی اور چھاتروشبر کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے جماعت اسلامی اورشبر سمیت اسلامی جماعتوں کے خلاف لاکھوں کتابچے چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کیے گئے۔ جماعت اسلامی اور شبر کے مرکزی دفتر سے لے کر گراس روٹ تک تمام دفتروں کو بند کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے رہنما خاندان سے دُور خفیہ ٹھکانوں پر رہ کر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ کلاسز یا امتحانات نہیں دے سکتے تھے۔ مختلف مسلم ممالک کی حکومتوں اور ان کی یوتھ تنظیموں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ شبر کے طلبہ سے تعاون نہ کریں۔ بنگلہ دیش کے سفارت کاروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر خطوط بھیجیں۔ مجھے ان خطوط کی کاپی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ایک بڑے پڑوسی ملک نے اس سلسلے میں ان ظالمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کی۔
اب تبدیل شدہ حالات میں وہ واویلا کر رہے ہیں کہ ’بنگلہ دیش پاکستان بن گیا ہے‘۔ اس واویلا میں ہمارے کچھ صحافی، سیاسی، اور ثقافتی رہنما بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس مہم میں بدنامِ زمانہ مصنفہ اور بھارت کی سرپرستی میں پلنے والی تسلیمہ نسرین بھی نظر آتی ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ملک کے لوگ کردار اور اخلاقیات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔
معروف انڈین جریدے آوٹ لک نے مجھے فلسطین کے محبوس علاقہ غزہ پر آئی نئی آفت یعنی قحط و بھوک پر رپورٹ لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے نوّے کے عشرے کے اوائل میں شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کی تھی۔ کشمیر، شام، فلسطین، آذربائیجان، آرمینیا جنگ، افریقہ، انڈیا کے اندر نکسل واد کے متاثرہ علاقے اور کسی حد تک شمال مشرقی ریاستوں میں جنگ و شورش کو کور کیا۔
آوٹ لک کی اسٹوری کے لیے جب میں نے غزہ میں ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ وابستہ والینٹر دوست کو فون کیا، جن کے ساتھ خبروں کے حوالے سے پچھلے دوبرسوں سے ایک تعلق بن گیا تھا، تو کئی بار پیغامات بھیجنے اور کال کرنے کے بعد جب انھوں نے فون اٹھایا، تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں دور سے سرگوشیوں میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’برادر، میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جیسے ہی ایک روٹی ملتی ہے، آپ کو فون کروں گا‘‘ (پھر ان کا فون کبھی نہیں آیا، اور میں نے دوبارہ کال کرنے کی ہمت نہیں کی)۔
میں دیر تک فون تھامے بیٹھا رہا کہ وہ آواز سُن کر سُن ہوگیا تھا۔ حیران صرف اس کے الفاظ پر نہیں تھا، بلکہ اس وقار پر بھی تھا جس کے ساتھ اس نے وہ جملہ ادا کیا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ بھوکے انسان سے مجھے خبر مانگنے کا کیا حق بنتا ہے؟ اُس لمحے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی جتنی کبھی کسی فوجی ناکے پر تلاشیاں دیتے ہوئے نہیں ہوئی ہے۔ اس ایک لمحے، میں رپورٹر نہیں رہا، بلکہ ایک اخلاقی انہدام کا گواہ بن گیا۔ غزہ کا منظرنامہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ اب غزہ کی رپورٹنگ، گولیوں کے زاویوں، جارح قوت کی وحشت، جنگ بندی کے ڈرامے یا مذاکرات کے سفاکانہ ناٹک بارے میں نہیں، بلکہ بھوک کے بارے میں ہے اور پوری دنیا سمیت ’اقوام متحدہ‘ اور ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے شرم سے عاری رویوں کے بارے میں ہے۔آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ نام نہاد دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔
پھر اس تحریر کے لیے میں نے ۲۸ سالہ ابو رمضان سے بات کی، جو غزہ کے شہر النصر کے رہائشی ہیں۔ اُن کی گفتگو تلخی اور بے یقینی سے لبریز تھی۔جب میں نے انتہائی ڈھٹائی سے پوچھا کہ ’’آج کیا کھاؤ گے‘‘؟ تو اُنھوں نے جواب دیا:’’افسوس کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کھانا کہاں سے لائیں گے؟ ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔ کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا، کبھی بالکل کچھ نہیں۔ کبھی تلخ زعتر میں ڈوبا ہوا نوالہ، اور —وہ بھی اگر زعتر میسر ہو‘‘۔
میں نے پوچھا کہ ’’بھوک کی اس کیفیت کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟‘‘ وہ لمحہ بھر رُکے، پھر ایسا جواب دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا: ’’یہ ایسے ہی ہے جیسے دل میں خنجر مارا جائے اور ہاتھ بندھے ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے، تڑپتے اور روتے دیکھتے ہیں مگر انھیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کر پاتے۔ تسلی کا کوئی لفظ نہیں —بس خاموشی رہ جاتی ہے۔ جیب میں پیسے ہیں لیکن خریدنے کو کچھ نہیں۔چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں۔ بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب کھانا تیار ہوجائے گا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا:’’امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز’موت کے پھندے‘ ہیں۔ جب وہاں جاتے ہیں، تو بھروسا نہیں ہوتا ہے کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے‘‘۔سب جانتے ہیں کہ امدادی مراکز کے سامنے خطرات ہیں۔ یا تو آٹے کا سفید تھیلا لے کر واپس آؤ گے، یا سفید کفن کی تلاش میں اپنی لاش چھوڑ کر آئو گے، مگر اس کے باوجود وہاں جانا پڑتا ہے کہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا: ’’غزہ میں میں بھوک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اب ایک بند گلی بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی مہارت اور ان کی لگن بھی مثالی ہے۔ لیکن جب مسلسل محاصرہ اور مکمل محرومی ہو، تو ڈاکٹر کیسے کسی مریض کو غذا کھانے کا لکھ سکتا ہے کہ جس نے ہفتوں سے کھانا نہیں دیکھا؟‘‘
ابو رمضان بتا رہے تھے: ’’یہ سست موت ہے۔ اور ہم سب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اُمڈتا اور انسانی جانوں کو اُچکتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں: ’’مگر اس کے باوجود انسانوں میں بھلائی باقی ہے۔اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو،جو کبھی اضافی نہیں ہوتا، وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے، اس یقین پر کہ کل وہی نیکی واپس ملے گی۔ ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں۔ اگر ایک شہید ہو جائے تو دوسرا دونوں گھروں کے لیے لے آتا ہے، تاکہ دونوں خاندان زندہ رہ سکیں۔ لیکن زندہ رہنے میں کیا باقی بچا ہے جب ’زندگی‘کا تصور ہی چھین لیا گیا ہو؟‘‘
ابو رمضان نے مجھے بتایا:’’یہ جینا نہیں، یہ صرف بچنا ہے۔ ہر چیز بدل گئی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی عادتوں سے لے کر ہمارے باطن تک۔ جب سے بھوک نے قبضہ کیا ہے، آئینے میں دیکھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ ہمارے چہرے ہمارے جیسے نہیں لگتے ، بس کھوکھلے ڈھانچے اور تھکے سائے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورت حال کا ادراک نہیں ہے۔ میڈیا کوریج کے باوجود، کوئی نہیں سمجھتا۔ اگر سمجھتے ، واقعی ہمیں دیکھتے ، تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی‘‘۔ میں نے جب پوچھا کہ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ تو ان کی آواز میں تلخی اُمڈی: ’’بس دنیا والوں کو کہیں کہ جا گ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر لعنت بھیجے۔ ایک دن تم خود ہم سے بھی بدتر حالت میں کھانے کے محتاج ہوگے۔ قیامت کے د ن ہم یہی گواہی دیں گے‘‘۔
’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (Medecins Sans Frontieres: MSF) کی ایک تازہ رپورٹ میں ’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘ (GHF)کو، جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے، ’ظلم کی تجربہ گاہ‘قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر۱۸۰۰ ہلاکتیں درج کی گئیں۔ ۱۰۰ کے قریب بچوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ بعض کو سر یا سینے میں۔ زخموں کی نوعیت —سر اور سینے میں زخم —ثابت کرتی ہے۔ امدادی مراکز ہدف اور ذلت کے میدان بن چکے ہیں، جن کی حفاظت امریکی نجی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں کہ پیغام صاف ہے: ’بھوکے مرو، یا کھانے کے لیے کوشش کرتے مرو‘۔ٹی وی پر امدادی ٹرکوں کی تصاویر چلتی ہیں، مگر زمین پر حقیقت مختلف ہے۔
مارچ ۲۰۲۵ء سے، جب اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے دوران امداد کی ناکہ بندی کی، خطے کو ایک منصوبہ بند طریقے سے ’قحط کی موت‘ کے مذبح خانے میں جھونک دیا گیا۔
غزہ کی صحافی راشا ابوجلال لکھتی ہیں: امدادی ٹرک بھی راستے میں لُوٹ لیے جاتے ہیں یا چند گروہوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔غزہ کی ضروریات کے لیے روزانہ۵۰۰/۶۰۰ ٹرک درکار ہیں۔مگر اسرائیل ۱۰۰ سے بھی کم ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ چھ بچوں کے باپ خالد تنیرہ کہتے ہیں:’’یہ امداد سب تماشا ہے۔ ایک فوجی طیارے نے سات فضائی غباروں سے آٹے کے تھیلے ہمارے محلے کے اوپر گرائے۔ ہزاروں لوگ ان پر ٹوٹ پڑے، —حالانکہ وہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے بھی کافی نہ تھا‘‘۔
صحافی ابو جلال اپنی حالت زار بتاتی ہیں: ’’دو دن سے امدادی کھانے کا انتظارکرنے کے بعد میں نے ۲۵ ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا، جو مشکل سے ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ اب شیر خوار بچوں کا دودھ ۸۰ ڈالر فی ڈبہ ہے، جو پہلے ۱۰ ڈالر تھا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کھلا رہی ہیں‘‘۔ غزہ کے کالم نگار طلال اوکل لکھتے ہیں:’’جب تک امدادی رسائی بہتر نہیں ہوتی اور سیکیورٹی بحال نہیں ہوتی، بھوک مزید افراد کو ہلاک کردے گی‘‘۔ بین الاقوامی فضائی ڈراپ تماشے کو ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے ایک ’بے اثر اور خطرناک‘بتایا ہے۔
ایک نرس نے بتایا: ’’امدادی جگہوں پر ایک پانچ سالہ بچہ ہجوم میں کچلا گیا، اس کا چہرہ دم گھٹنے سے نیلا پڑ گیا تھا۔ ایک آٹھ سالہ بچے کے سینے میں امداد لیتے ہوئی گولی لگی۔ ہم صرف چند زخمیوں کا علاج کر پاتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں رہی۔ جنگ کے علاوہ کچھ اور ہے، جنگ سے بھی زیادہ لرزہ خیز ہولناک اور تباہ کن ‘‘۔ ۴۲سالہ خدیجہ خدیر کہتی ہیں:’’میرے چار بچے بھوک سے سکڑ رہے ہیں۔ ہم تین چار روز کے بعد ایک روٹی کھاتے ہیں اور غزہ میں یہی آج کل ایک ’عیاشی‘ ہے‘‘۔
غزہ میں میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسماعیل الثوابتا کا کہنا تھا: ’’قحط براہِ راست اسرائیلی فوجی محاصرے کا نتیجہ ہے۔ برسوں سے کھانے، ایندھن اور دواؤں کی منظم پابندی، اور تقسیم کے راستوں کی بار بار توڑ پھوڑ نے صورت حال بگاڑ دی ہے۔ محفوظ رسائی ناممکن ہوگئی ہے۔ خطے میں بدترین قحط شروع ہو چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ۲۶ جنوری، ۲۸ مارچ، اور ۲۴مئی ۲۰۲۴ءکو واضح حکم دیا کہ اسرائیل ’بلارکاوٹ‘انسانی امداد کی رسائی یقینی بنائے اور شہریوں کی حفاظت کرے۔ مگر اسرائیل اب بھی گذرگاہیں بند رکھتا ہے، امدادی اور رفاہی کام روکتا ہے، اور تقسیم مراکز کو نشانہ بناتا ہے‘‘۔میں نے ان سے پوچھا: ’’مغربی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟‘‘ تو فلسطینی رہنما کا کہنا تھا:’’ زیادہ تر نے اسرائیل کو عسکری و سیاسی سہارا دیا ،یا اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اس سے رکاوٹیں قائم رہیں۔ انھوں نے نہ گزرگاہیں کھولیں اور نہ عدالتی احکام منوائے‘‘۔
میں نے اسماعیل الثوابتا سے پوچھا: ’’آپ کے گھرانے نے آج اور اس ہفتے کیا کھایا؟‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’کئی روز کے بعد آج ہم کو دال کا سوپ نصیب ہوا ہے۔ چند روز قبل تھوڑے سے چاول پانی کے ساتھ حلق سے اتارے تھے۔ یہ میری زندگی کا سب سے کڑا لمحہ ہے ۔گھر میں بیٹی روٹی مانگتی ہے مگر روٹی کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی اکثر سر، گردن اور ٹانگوں میں گولیاں مارتے ہیں۔ لوگ تھوڑی تھوڑی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک کلو پھلیاں دس لیٹر پانی میں اُبال کر کئی گھروں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ یہ یکجہتی ابھی باقی ہے۔ محاصرے اور روزانہ ہلاکتوں کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ فلسطینی لیڈر نے بتایا:’’میں نے پچھلے دوماہ میں ۱۶کلو وزن کھو دیا۔ میرے کزنز مازن نے ۵۱ کلو، اور ماہر نے ۴۶کلووزن کھو دیا ہے‘‘۔
بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔اسرائیل اور امریکا نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اسرائیلی ٹرک ان کی اپنی زمین پر روٹیاں لائیں اور ان کو جاں بہ لب فلسطینی اور بھوک سے لاچار آبادی کے سامنے پھینک کر ان کا تماشا دیکھیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا دل چاہا تو فائرنگ شروع کردی۔ اتنی تذلیل کوئی قوم برداشت کیسے کرسکتی ہے؟
بطور صحافی لکھتے لکھتے میرا قلم رُک جاتا ہے۔ بھوک نے الفاظ چھین لیے ہیں۔ اس باپ کے دُکھ کے مداوے کے لیے کیا لکھوں جو اپنے بچے کو سُوکھتے ہوئے دیکھ کر کڑھتاہے۔ وہ ماں جس نے پانی کا برتن چولہے پر رکھا ہے اور بچے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں، یا اس نوجوان کے خون کا بدلہ جس کی جان کی قیمت بس آٹے کاتھیلا تھا۔ جب آنے والی نسلیں یہ باب پڑھیں گی تو وہ یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینی کیوں غصے میں تھے؟ وہ پوچھیں گی: دُنیا کیسے کھانے کھاتی رہی؟___ یہ قحط صرف خوراک کا نہیں، اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔
قومیں اُمت مسلمہ پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جیسے بسیارخور کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، مسائل بہت زیادہ اُلجھ گئے ہیں۔ مفادات کی جنگ جاری ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کی بھرمار ہے۔ مسلمان راہِ نجات اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں، جو انھیں اس خوفناک معرکے کی لپیٹ سے بچا سکے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے والے طوفان میں محفوظ رکھ سکے۔ ایسا طوفان جو اُمت کو دوکیمپوں میں تقسیم کررہا ہے: ایمان کیمپ ، جس میں نفاق نہیں، اور نفاق کیمپ، جس میں ایمان کی رمق بھی نہیں۔ اس طوفان میں اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اس میں کھرے اور کھوٹے کی تمیز بھی ہورہی ہے۔ پھر جس کو ہلاک ہونا ہے وہ دلیل پر ہلاک ہوگا اور جس کو زندہ رہنا ہے وہ دلیل پر زندہ رہے گا۔ اور یہ اٹل قرآنی قانون کے مطابق ہوگا:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ (الرعد ۱۳: ۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔
اس انتہائی مشکل اور پریشان کن صورتِ حال میں اُمت کو یہ پناہ گاہ کب میسر آئے گی اور کہاں مل سکے گی؟
عالم اسلام اور افرادِ اُمت کو بہت سی فکری و نظری پناہ گاہوں میں حفاظت کی توقع بندھ جاتی ہے اور وہ ان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ذیل میں ایسی تصوراتی پناہ گاہوں کی نشان دہی اور ان کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں:
امن و سلامتی اور حفاظت کی پناہ گاہ یقینا اس پرچم تلے نہیں ہوسکتی، جو دشمنوں کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اپنی شناخت اور امتیاز کے خاتمے سے ممکن ہو، یعنی بدترین حالات کو دیکھ کر ان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا، طوفان کے سامنے کھڑے نہ ہونا، جینے کی ادنیٰ ترین سطح پر آکر زندگی کی بھیک مانگنا، یا زیادہ سے زیادہ کفر کے نظام کے تحت، اصلاح کی موہوم اور معمولی شکل کو حاصل کرنے پر راضی ہوکر بیٹھ جانا۔ یہ سب ظلم سے مصالحت اور مداہنت کی وہ شکل ہے، جس کی ادنیٰ ترین حد کے قریب جانے سے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیںمنع فرمایا ہے:
وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ۰ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۱۱۳ (ھود ۱۱:۱۱۳) ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔
یہ دراصل اس طوفان کے انجام سے بے خبری ہے، طوفان خواہ کتنا ہی دُور تک چلا جائے اس کا انجام ہلاکت و تباہی اور بربادی ہی ہوتا ہے:
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کر دوکہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا ہے، جو اپنی شناخت کو بھول کر کفر و طغیان کے کیمپ میں داخلے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ جو قوم ان کے نقش قدم پر چلے گی اسے اسی حتمی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا:
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۰ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ۵۲(المائدہ ۵:۵۲) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کُن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے۔
اس آیت میں لفظ عَسَی آیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں اُمیدورجاء اور توقع کے لیے نہیں بلکہ حتمی اور قطعی بات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس راستے کے انجام سے خبردار کر رہا ہے، کہ جلد ہی وہ یقینی طور پر فتح اہل حق کے مقدر میں کردے گا ، یا ایسے حادثات و واقعات رُونما کرے گا، جو بیمار دلوں کی توقعات اور اُمنگوں کے برعکس ہوں گے اور وقت گزرجانے کے بعد ان میں شرمندگی کا احساس گہرا کریں گے۔ ان کے اُوپر وہ بیماری، کمزوری اور بزدلی و کم ہمتی کھل جائے گی جس کی طرف ان کے دل لڑھکتے پھرتے تھے۔
حفاظت و سلامتی کی پناہ گاہ ، اُمت کے دلوں پر ظلم و استبداد کے مونگ دَلنے والے نظاموں اور اُن کے کارپرداز منافقین کی قلیل سی تعداد کے ساتھ اپنی نسبت جوڑنے سے بھی میسر نہیں آئے گی۔ یہ اقلیت اُمت کی دولت اور وسائل ضائع کر رہی ہے ۔ اس حاکم اقلیت نے اُمت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے ، اس کی شناخت کو تبدیل کردیا ہے، اور اُمت سے عزم و ہمت کی قوت سلب کرلی ہے۔ اس حاکم گروہ نے اُمت کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا ہے اور اللہ کے دین و شریعت سے عالمی نظام کی خدمت کے لیے اُمت کو غلام بنا رکھا ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار و روایات کا دشمن یہ استبدادی نظام ہے اور نظامِ شریعت سے جنگ آزما ہے اور انسانی فطرت کو تبدیل کردینے کے درپے ہے۔
اس منافقانہ نظام میں اپنے آپ کو گم کر دینا نہ اُمت مسلمہ کے مسائل کا حل ہے اور نہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ، بلکہ یہ مزید گراوٹ اور پستی میں گرنے پر ڈھٹائی سے جمے رہنے کے مترادف ہے۔ یہ ناکامی و پسپائی کو یقینی بنانے کا عمل ہے اور بڑی قیمت چکا کے اسے مزید جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ان منافقین کے پاس سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں اور ان کی دوستی کا کوئی اعتبار نہیں۔ خود ان کے وجود اور موجودگی کا بھی کوئی مستقبل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے باطل کی حقیقت کو بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا ہے:
يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقرہ ۲:۹) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اس کا شعور نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی اس روش جس کے سبب عذاب ان کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور کسی مددگار کا وجود ان کو نظر نہ آنے کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۱۴۵(النساء ۴:۱۴۵) یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے، اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پائو گے۔
اللہ تعالیٰ اس قبیل کے تمام منافقوں (اور ان سے منسوب ہونے والوں کو) کافروں کے ساتھ جہنم میں ایک جگہ جمع کردے گا:
اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۱۴۰ۙ(النساء ۴ :۱۴۰) یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ کوئی عقل مند آدمی نہ اس راستے کا انتخاب کرسکتا ہے، نہ کوئی رہنمائی کرنے والا دوسروں کو یہ راستہ دکھاسکتا ہے۔ یہ تو فطرتِ سلیمہ کی مخالفت اور ربِّ کائنات سے بغاوت و سرکشی کا راستہ ہے۔ قوانین قدرت اور قطعی دلائلِ ایمان کا انکار ہے۔ شروع میں تو اس خیال کا آدمی سمجھتا ہے کہ وہ پابندیوں سے آزاد ہوگیا ہے، مگر اسے یہ ادراک نہیں ہوپاتا کہ وہ کس تنگ و تاریک مقام پر جاگرا ہے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور کس طرح کے غم و اندوہ میں مبتلا ہوگیا ہے جن سے چھٹکارے اور خلاصی کی کوئی سبیل نہیں۔ ایسا شخص ایسی بے سکونی اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے کہ پھر سکون و اطمینان اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔ وہ حال کا سکون بھی گنوا بیٹھتا ہے اور مستقبل کے خوف کی آگ میں بھی جلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۳۱ (الحج ۲۲:۳۱) اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے، یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑجائیں گے۔
یہ عزّت و تکریم کی بلندی سے اُتر کر خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں مصروف ہوجانے، کھوجانے اور غرق ہوجانے کی پست سطح پر آجانا ہے۔ خوش حالی اور زندگی کی سہولتوں کے حصول کے پیچھے بھاگنا ہے، اور انھی سے لطف اندوزی کو مقصودِ زندگی ٹھیرا لینا ہے۔ اس کیفیت میں اللہ کے پیغام کا ابلاغ، امانت الٰہی کی ادائیگی اور اقامت دین کی ذمہ داری سے انسان منہ موڑ لیتا ہے، یا غفلت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس نیابت کی خاطر پیدا کیا ہے، اُس فریضے کی ادائیگی سے پہلو بچاتا ہے، حالانکہ کائنات اور اس کی قوتیں اسی مہم کی انجام دہی کے لیے اس کی معاونت کی خاطر مسخر و مطیع کی گئی ہیں۔
اس فرار کو قرآنِ مجید نے ’ہلاکت‘ کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے آخری نبیؐ کو فتح و نصرت سے شادکام کردیا تو بعض صحابہؓ نے اپنی گفتگوئوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے اپنے مال ودولت کو اس خاطر چھوڑا تھا کہ ہم آپؐ کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح و نصرت عطا فرما دی ہے، لہٰذا آئو ہم مال و کاروبار کی طرف واپس لوٹ جائیں تاکہ ان کی بہتری اور ترقی کے لیے محنت کرسکیں۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اس خفیہ اظہار رائے کی خبر وحی کے ذریعے دی اور فرمایا:
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۰ۚۖ (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
یہاں اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ’ہلاکت‘ میں ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے دُنیاوی کاروبار اور روزگار کے ذرائع کی ترقی اور بہتری میں لگ جائیں اور جہاد کو ترک کر دیں۔ اس لیے فرار اور پسپائی کسی کے لیے ہرگز پناہ گاہ نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۲۴ۧ (التوبۃ ۹:۲۴) اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار، جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
دُنیا اور آخرت میں اہل ایمان کے لیے ایمان کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) حقیقت میں تو امن اُنھی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ہم نہ کافروں کی کشتی میں سوار ہوں، نہ اُن کی ہمراہی میں سفر اختیار کریں بلکہ اپنے دلوں میں ایمان کی علامات کو مضبوط تر کریں۔ قلبی صفائی اور اللہ پر توکّل کی سچائی کو دائمی طور پر اختیار کرلیں۔ یہی دو بنیادیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہیں:
وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا۰ۭ (ابراھیم ۱۴: ۱۲) اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا کریں، جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟
امن و سلامتی کی پناہ گاہ اسلام کے ساتھ اپنے مخلص انتساب کی تجدید میں پوشیدہ ہے۔ اسلام کی شاہراہِ مستقیم کے مسافر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پوری وضاحت، قوت اور استقامت کے ساتھ باوقار انداز میں اس تجدید ِعہد کا اعلان کرے کہ:
وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۷۲ (یونس ۱۰ :۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ۔
بلکہ وہ اپنے ربّ سے ہروقت یہ دُعا بھی کرتا رہے:
تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۱۰۱ (یوسف ۱۲: ۱۰۱) میرا خاتمہ اسلام پرکر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔
شاہراہِ اسلام کے مسافر کا شعار اور عزم یہ ہونا چاہیے کہ ’’میں اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزاروں گا اور مسکراتے ہوئے موت کا استقبال کروں گا، تاکہ میرا دین زندہ اور قائم رہے‘‘۔
پہاڑوں کی طرح بلند موجوں کا یہ طوفانِ بلاخیز اُمت مسلمہ کو پکار پکار کر اپنا سفینۂ نجات وقت ضائع کیے بغیر تیار کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔اس کشتی کی تیاری وقت کا فریضہ اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے مگر شرط یہ ہے کہ کشتی کی تیاری میں قرآنِ مجید کے حکم کا وہ متن پیش نظر رہے جس میں حضرت نوحؑ کو مخاطب کیا گیا ہے:
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۰ۚ اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ۳۷ (ھود ۱۱:۳۷) اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
یہ کام سب سے پہلے تو اللہ پر توکّل میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اس سے مدد و استعانت کو بھی لازم ٹھیراتا ہے۔ یعنی بِاَعْيُنِنَا (ہماری نظروں کے سامنے)۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ کشتی اللہ تعالیٰ کے طریق اور اس کے قانون و ضابطے کے مطابق تیار کی جائے یعنی بِوَحْينَا (ہماری ہدایت کے مطابق)۔ زمینی فلسفوں، عالمی حکم ناموں اور گروہی آرزوئوں کے مطابق نہیں۔
اس کشتی کے مسافروں پر لازم ہے کہ کشتی بانوں کو ان کا تعاون اور ہمدردی مکمل طور پر حاصل ہو۔قائد کاغذ پر نقشہ کے ذریعے اس کے ابتدائی خطوط طے کرے۔ کارکن مواد کو تیار کرے۔ انجینئر اس کی تفصیل بنائے۔ دولت مند دولت خرچ کرے۔ عبادت گزاردُعائیں کرے گا۔ عالم اس کے معانی و مفاہیم لوگوں کے ذہن نشین کرائے۔ بڑھئی اس میں کیلیں ٹھونکے۔ ماہرِفن تختیوں کی ترتیب لگا کر ان کی حرکت کو باضابطہ بنائے۔
اگر آپ ان سفینہ گروں میں سے نہیں ہیں تو سفینہ گری سے وابستہ لوگوں میں ہی شامل ہوجائیں، اس کام کو معاونت دینے والے بن جائیں۔ اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور ہوجائیں۔ جو شخص اس کشتی کی تیاری میں اپنی کسی بھی طرح کی جہد و سعی صرف نہیں کرے گا، گویا وہ طوفان کے دوران جاری جہاد میں کسی کام نہیں آیا۔
آخری بات یہ کہ کسی عمل کو چھوٹا اور معمولی نہ سمجھیے۔ ایک نوخیز بچّے کے دماغ میں لفظ ’اسلام‘ ڈالنے میں بھی تردد نہ کیجیے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی نوجوان نسل کی اسلام کے مطابق تربیت کرنے میں ہچکچاہٹ نہ برتیں۔ انحطاط پذیر معاشرے میں اسلامی اقدار کی حمایت و اشاعت کا ساتھ دیں۔ کسی مایوس سوسائٹی میں اُمید کا کلمہ بلند کرتے ہوئے نہ شرمائیں۔ اُٹھیں اور پوری وضاحت سے بغیر کسی تردّد کے یہ اعلان کریں:
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۵۶ (ھود ۱۱ : ۵۶) میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمھارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔
اور یہ یقین رکھیں کہ آپ ایمان کی پناہ گاہ میں جاکر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حق دار قرار پائیں گے:
وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۱۴۱(النساء ۴: ۱۴۱) اور (اس فیصلہ میں)اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔
آج کی مغربی دُنیا، عشروں پر محیط ایک طویل نیند اور اذیت ناک غفلت کے بعد ہوش میں آئی ہے۔ شاید وہ اپنے کیے ہوئے غلط کام سے نصیحت پکڑے اور اس جرم کا ازالہ کرے، جس کی وہ مرتکب ہوئی تھی اور اسرائیل کی شکل میں اس زہریلے پودے کی زہرناکی کو محسوس کرے، جو اس نے کاشت کیا تھا اور سرزمین فلسطین کی اصلی قوم کی مظلومیت کو محسوس کرے، جس کو اس نے پارہ پارہ کردیا تھا۔
تاہم، اس ’ہوش مندی‘ کا قدم اُٹھاتے ہوئے بھی مغرب ایک موہوم اور ایک زہرآلودہ مفہوم کا نعرہ لے کر نکلا ہے، یعنی دو ریاستوں کا نعرہ۔جس کا مطلب ہے: دو پیمانوں سے وزن کرنا اور دو نگاہوں سے دیکھنا۔
کیا تعجب خیز سادگی ہے جو مغرب سرزمین فلسطین کے اصلی حق داروں کے ساتھ روا رکھ رہا ہے۔ اس نے انھیں ان کے تمام ظاہروباہر حقوق سے محروم کرکے ان کی اصل ملکیتوں سے بے دخل کردیا اور اس کے بالمقابل ان کے دشمنوں کو نوازتا رہا ہے، یہاں تک کہ جعلی اور اضافی حقوق بھی عطا کرتا رہا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ’اسرائیل‘ نام کی ریاست خطّے میں ایک غاصب اور دخیل ریاست ہے۔ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی اور نہ کوئی حساب کتاب اس کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تو پھر ان مغربی اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ تاریخ کو بھی نہیں سمجھتے، یا پھر یہ اپنے اور تاریخ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں؟
دُنیا میں بہت سے لوگ یہ خیال کرتے رہے کہ مغرب نے عربوں اور فلسطینیوں کے حق میں کی ہوئی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اپنی رائے کو بدل لیا ہے۔ مظلوموں کو ان کے حقوق کی واپسی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ لیکن منطق کا یہ نہایت سادہ اصول ہے کہ کسی غلطی پر بنیاد رکھی جائے تو وہ بھی غلطی ہی ہوتی ہے، لہٰذا یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ غلطی کی تصحیح غلطی کے ساتھ ہو؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ ہم نیکی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے بُرائی کی ہے؟ اور بُرائی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے نیکی کی ہے؟
فلسطین قانونی طور پر کس کا حق ہے؟ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے، اس میں ذرہ بھر شک و شبہ نہیں۔ اس حق کا کوئی اندھا ہی انکار کرسکتا ہے، لہٰذا وہ لوگ جو دُنیا کی لیڈرشپ کے دعوے دار ہیں اور انھوں نے آزادی و جمہوریت کا علَم اُٹھا رکھا ہے، ان کے لیے کیسے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے انکار کریں؟
لہٰذا عدل و انصاف کی بات تو یہی ہے کہ اہل مغرب آئیں اور اصل مسئلۂ فلسطین میں جرم کا ازالہ کریں، غلط فہمی کی تصحیح کریں اور ظلم کی جگہ انصاف کریں۔
ہمارایہ ایمان ہے اور ہر صاحب ِ عقل اور حق گو ہمارے اس یقین میں شریک ہے کہ ’فلسطین‘ کا لفظ اپنے معنی و مفہوم اور وجود و حیثیت کے اعتبار سے تاریخ میں مضبوط پہاڑوں کی مانند قائم ہے۔ غاصبانہ طور پر چھن جانے والی سرزمین کا مطالبہ کرنے والے تمام لوگ اسی وجود کو مانتے ہیں۔لہٰذا ہم اُن سب کے لیے جو اس سرزمین فلسطین سے تعلق کا اعلان کرتے ہیں ایک کامل اور جامع ریاست کیوں نہیں بحال کرتے، جس کا نام فلسطین ہو؟ ایسی ریاست جو تمام کونوں گوشوں کو اپنے اندر سمولے۔ تمام ادیان و مذاہب کے لیے آزادی کی ضمانت دے ۔ تمام نظریات کے لیے زندہ رہنا اس میں ممکن ہو۔
اگر ہم سب کے لیے انصاف کو ممکن بنا دیں اور ہرکمزور و طاقت ور کو اس کا حق دے دیں تو ہم وہ ’عظیم تر فلسطین‘ کی ریاست قائم کرسکتے ہیں، جس کی بنیاد مکمل آزادی، کامل جمہوریت اور منصفانہ معاشرت پر رکھی گئی ہو۔
وہ اگر اس سے انکار کریں اور یہ یقینی طور پر متوقع ہے، تو پھر اہلِ فلسطین رواداری اور دست برداری کے پہلو سے دو ریاستی حل کو قبول کرسکتے ہیں، مگر اپنی مکمل قیادت، آزاد مرضی اور قیادت کے آزادانہ انتخاب کی بنیاد پر۔ تب دونوں ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوسکے گا کہ اُن میں سے ہرایک اپنے دفاع کی غرض سے اسلحہ رکھ سکے۔ اسے ہر پابندی سے آزاد رہ کر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی ضمانت حاصل ہوگی اور وہ اپنے امن و آزادی کو یقینی بنانے کی خاطر بیرونی عسکری پابندیوں سے بھی آزاد ہوگی۔
اس تصور اور تجویز کو عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہودی اپنی صہیونیت سے دست کش ہوجائیں جو کہ اُن کی نسل پرستی، فاشزم، انتہاپسندی اور توسیع پسندی کی بنیادی جڑ ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
وہ تجاویز اور حل جو بعض مغربی ممالک پیش کرتے ہیں، وہ تو ابتدا ہی سے نسل پرستی کو جنم دیتے ہیں اور بالآخر انتہا پسندی تک لے جاتے ہیں، لہٰذا، کیا اس ذہنیت سے آلودہ مغرب ’ریاست فلسطین‘ کے قیام کی ضمانت دے سکتا ہے؟ جب کہ اسی مغرب نے فلسطین کے بے گناہ شہریوں کو بھوک سے مارنے، بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے، اور نسل پرست صہیونی سیاست کو بلاروک ٹوک کھل کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہ مغرب جس نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیل کو مال و دولت اور اسلحہ و سازوسامان کے ذریعے امداد دی ہے، یہی مغرب دو ریاستی حل کے مطالبے میں کیونکر غیرجانب دار ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے اور آج بھی دوپیمانوں سے وزن کرتا آیا ہے کیونکہ وہ آنکھوں کا اندھا ہے!
ہم یہ کہہ رہے ہیں اور ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ ایسی ’فلسطینی ریاست‘ کو تسلیم کرنے کا مسئلہ جو پُرامن ریاست کے تمام حقوق سے خالی ہو، معاملے کو مزید بگاڑنے کا سبب ہوگا۔مسئلے کا حقیقی حل فلسطینی قوم کی واپسی، اسے اپنے مستقبل کے انتخاب کی پوری آزادی، اپنی قیادت کو منتخب کرنے کا پورا حق اور اپنے لیے مفید مناسب طرزِ حکومت اختیار کرنے کی آزادی میں پوشیدہ ہے۔
آزادی ایسا ’کُل‘ ہے، جو اپنے حصے بخرے ہونا قبول نہیں کرتی۔ یہ ہوتی ہے تو، مکمل ہوتی ہے اور نہ ہو تو یہ جزوی طور پر نہیں ہوتی۔ فلسطینی قیادت کا حق اسی کو حاصل ہوگا، جس کو قوم قبول کرتی ہے۔ اس قیادت کا مذہب خواہ کچھ ہو، اور اس کا نقطۂ نظر خواہ کچھ ہو۔ یہی قومی موقف اور ارادے کی نمائندہ ہوگی، اسی کو اپنی ذمہ داری ہرقسم کی مداخلت کے بغیر سنبھالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ جہاں تک اتھارٹی کو مسلط کرنے اور حکمران متعین کرنے کی بات ہے، تو اس پر ایک زمانہ گزر چکا ہے اور اب اس کا وجود خون، آنسوئوں، بھوک، پیاس اور خوف و دہشت کے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔
اب تک قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفاق سے بھی بہت کام لیا گیا۔ چشم پوشی اور نظراندازی کا بھی خوب مظاہرہ کیا گیا۔ جن قوموں نے اپنی جدوجہد کے سلسلے میں جو کچھ کیا، ہمارے لیے اس میں عبرت کے درس موجود ہیں، جیسے الجزائر، ویت نام، جنوبی افریقہ اور افغانستان ہیں۔ ثابت شدہ اور ٹھوس حقیقت جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، یہی ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا، قائم ہوکر رہے گی۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ غاصب اور قاتل نیتن یاہو کی حکومت خواہ کتنا ہی خوف پھیلا لے اور تشدد اور سفاکیت کا مظاہرہ کرے، اس کے مقابلے میں حق کا پرچم بلند ہوکر رہے گا، اس کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جعلی اور بناوٹی اَدوارِ حکومت جو مغربی پٹی پر ایک من پسند قیادت کو مسلط کرکے یا اسلحہ سے خالی ریاست کا نعرہ لگا کر اور ’حماس کی اس میں کوئی جگہ نہیں‘ کا بیان دے کر ظاہر کیے جاتے ہیں، سب خالی نعرے ہیں۔ حقیقت کی دُنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ (الرعد ۱۳: ۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتی ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے، وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔
یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے کہ ایک ماہرِ قانون نے ’آئین پاکستان‘ اور آزادکشمیر کے ’عبوری آئین کی فراہمی کے لیے مجھ سے تقاضا کیا۔ میری اہلیہ ان دنوں ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کتابوں کو خرید کر ساتھ لیتی آئیں۔ واپسی پر جب وہ واہگہ -اٹاری سرحد پر پہنچیں تو ان کا فون آیا: ’کسٹم افسران نے ان دونوں کتابوں کو ضبط کرلیا ہے‘۔ میں نے مذکورہ افسر سے بات کی ، تو بڑی مشکل سے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد اس نے ’آئین پاکستان‘ کی کاپی ساتھ لے جانے کی اجازت تودے دی، مگر آزاد کشمیر کے عبوری آئین کو ضبط کرکے اس کی رسید تھما دی۔ یہ واقعہ تو یہاں تمام ہوا، ازاں بعد مذکورہ ماہرِ قانون نے بھی اس کتاب کو بارڈر سے لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کتابوں پر پابندیاں لگانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر جمہوری ممالک کی صف میں انڈیا اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے میں بازی لے رہاہے۔ اگست ۲۰۲۵ء میں جس طرح زیرک اور معروف دانشوروں کی پچیس کتابوں پر تھوک کے حساب سے جموں و کشمیر میں پابندی عائد کی گئی اور پھر اگلے ہی روز کتابوں کی دکانوں کی تلاشیاں لی گئیں، اس سے دانش ور طبقہ میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ماضی میں جائیں تو آزادی کے بعد پہلی بار ۱۹۵۰ءمیں تین کتابوں پر پابندی لگائی گئی، وہ حمید انور کی پاکستان پس منظر، آغا بابر کی سیز فائر اور نسیم حجازی کا ناول خاک و خون تھا۔ اس کے دوسال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول معرکہ سومنات پر پابندی لگا دی گئی۔ اسٹانلے وولپرٹ کی Nine Hours to Rama پر ۱۹۶۲ءمیں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈرسل کی Unarmed Victory ممنوع قرار دی گئی۔ اسی طرح وی ایس نیپال کی An Area of Darkness، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی Ramayana: A True Reading بھی اس فہرست میں ہے۔ ۱۹۸۳ءمیں امریکی تفتیشی صحافی کی کتاب سیمور ہرش، ۱۹۸۹ء میں زوہیر کشمیری اور برائن میک انڈریو کی کتابSoft Target: How the Indian Intelligence Services Penetrated Canada? پر پابندی لگائی گئی۔ اسی قبیل میں آخری پابندی ۲۰۱۴ءمیں سنت سوریہ تکا رام اور لوک ساکا دنیشور پر لکھی گئی کتاب پر لگائی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں ایچ ایس شیکھر کی قبائلیوں پر لکھی ایک کتاب پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر جلد ہی یہ واپس لے لی گئی۔
اگرچہ ہر سال ریاستی سطح پر اکا دکا ایسی پابندیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر اس بڑے پیمانے پر ایک ہی ساتھ ۲۵تحقیقی کتابوں کو ممنوع قرار دینا پہلا واقعہ ہے۔ ان کتب میں بوکر انعام یافتہ ارون دھتی رائے کی آزادی، معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور سوگاتا بوس کی کتاب Kashmir and the Future of South Asia، معروف قانون دان اور کالم نویس اے جی نورانی کی دو جلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Untold Story of Kashmir after Article 370، محقق سمنترا بوس کی دو کتابیں، امریکا یونی ورسٹی کے پروفیسر اطہر ضیا اور حفصہ کنجوال کی کتابوں کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی مجاہد کی اذان اور کئی دیگر کتابیںشامل ہیں۔ اگر کسی کو کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر یہ مہم سر کرنا ناممکن ہے، مگر حکومت نے تقابلی مطالعے کا یہ باب ہی بند کردیا ہے۔
اس پابندی کی خبر پڑھ کر یہ لگا کہ محکمۂ داخلہ میں کسی وسیع المطالعہ شخص کا تقرر ہوا ہے، جس نے ارون دھتی رائے ، اے جی نورانی،سوگتابوس وغیرہ سبھی کو پڑھا ہے۔ مگر جب میں نے دوبارہ فہرست پر نظر ڈالی، تو اس میں معروف رضا اور ڈیوڈ دیوداس کی کتابیں بھی نظر آگئیں، تواس چیز سے یہ محسوس ہوا کہ اس افسر نے تو صرف کتابوں کے سرورق دیکھ کر پابندی کا حکم نامہ صادر کر دیا ہے۔ یہ دونوں مصنّفین انتہائی حد تک بھارت کا موقف تیار کرنے اور اس کی تشہیر کے لیے معروف ہیں۔ ڈیوڈ دیوداس کی کتاب In Search of a Future، سابق عسکریت پسندوں اور بھارت و کشمیر کے اہم سیاست دانوں کے انٹرویوز اور خفیہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق: ’’کشمیری آزادی حاصل کرکے بھارت اور پاکستان کے وسائل نچوڑنا چاہتے ہیں۔ حقِ خودارادیت کا مطالبہ ’دوغلا‘ہے۔ کشمیری خود بھی واضح نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جدید دور میں حقِ خودارادیت ناقابلِ قبول ہے۔ ۱۹۸۹ء میں عسکریت کی ابتدا کا محرک سرحد پار سے آنے والی تحریک ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس طرح موصوف نے کشمیر کے مسئلہ پر خوب بحث کی ہے۔ اسی طرح ڈیوڈ نے مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دیگر جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مرحوم اے جی نورانی کی دوجلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012 ہے۔ میں نے ان کی جن پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا ہے، ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے لیے دستاویزات ڈھونڈنے کی وجہ سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل کی تھی۔یہ کتاب دستاویزات پر مشتمل ہے، جو پہلے ہی انڈین نیشنل آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اب کیا ان کو بھی تلف کیا جائے گا؟ اس کی دوسری جلد مصنف کے مضامین کا مجموعہ ہے جو گذشتہ پانچ عشروں کے دوران مختلف روزناموں، جرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے ہیں جن کو موضوعاتی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں نایاب دستاویزات کے متن شامل ہیں، جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم جارحیت معاہدے کے مسودے جو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔
کشمیر پر مختلف برطانوی اور امریکی دستاویزات، کشمیر کی تقسیم کی امریکی تجویز، مصنف کا اگست ۲۰۰۶ء میں پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف سے کیا گیا انٹرویو، ان کے منصوبے کی تفصیلات، انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو بدلنے کے لیے نئے آرٹیکل کا مسودہ (جو انڈیا کے زیرقبضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے)، اور قائدین — جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نرائن اور رادھا کرشنن — کے درمیان خط کتابت کے ساتھ ساتھ اب تک غیر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے متن بھی شامل ہیں۔
پچھلے سال ۲۹؍ اگست کو ممبئی میں جب اے جی نورانی کا انتقال ہوا، تو اس سے پندرہ روز قبل انھوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ’’ان پر دو کتابوں کا قرض ہے‘‘۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا۔ اس سلسلے میں سبھی دستاویزات میرے پاس آچکی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی کتاب انڈین آرمی اور کشمیر مکمل کرکے مَیں کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’ناشرین میری کتاب انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب مزید لکھنا اور تحقیق کرنا میری دسترس سے باہر ہے‘‘۔
امریکی ریاست پنسلوینیا کی یونی ورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی کتاب Colonizing Kashmir: State-Building under Indian Occuption بھی اس خطے کی تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔اس پر کیسے کوئی پابندی لگا سکتا ہے،سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کا عہدہ ہوتا تھا) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈاور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر انڈین یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔
کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ءمیں ہی وہ انڈین حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجاکے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء تک انڈین لیڈروں بشمول شیخ عبداللہ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ عبداللہ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپردکردی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاؤ اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور امتیازی رہا ہے۔
پابندی کی اس لسٹ میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Story of Kashmir after Article 370بھی شامل ہے۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ءکی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے میں جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئی‘‘۔ بارہ ابواب پر مشتمل ۴۰۰صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔
مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا تھا، اس کا اندازہ بھی اسی کتاب سے ہوتا ہے۔
کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دُور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے سرپنچ کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ آخرکار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر ۲۰۱۹ءکو راجوری تحصیل آفس پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔
اندازہ کیجیے کہ ایک طالب علم اور محقق کے لیے یہ کتابیں قیمتی معلومات اور تجزیات کا خزانہ ہیں۔اس سے قبل سال کے اوائل میں ہی کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً ۶۶۸کتابیں ضبط کیں۔ حکام نے ان چھاپوں کو قابلِ اعتماد خفیہ اطلاع کی بنیاد پر جائز قرار دیا کہ ایک ممنوعہ تنظیم (جماعت اسلامی) کے نظریات کو فروغ دینے والا لٹریچر خفیہ طور پر بیچا جارہا تھا۔ ۲۰۲۳ء میں، کشمیر کی یونی ورسٹیوں نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ معروف شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔
ایسا کرنے سے آخر انڈین حکومت کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ معروف صحافی فرینی منیکشا عسکریت کے سماجی اثرات سمجھنے کے لیے ایک عرصہ قبل کشمیر کے قریہ قریہ گئی تھیں۔انھوں نے بتایا: پتا چلا کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے ہلاک شدہ بیٹے کی تصویر فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا رکھی تھی۔ جب بھی علاقے میں سیکورٹی فورسز تلاشی لیتی تھیں، تو اس گھر کی دیوار پر اس تصویر کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا اور اس معمر خاتون سمیت سبھی اہل خانہ کو ہراساں و پریشان کرتے تھے۔ آئے دن کی اس طرح کی وارداتوں کے بعد اس بوڑھی عورت نے بیٹے کی تصویر دیوار سے اتار کر اس کو کسی بکس میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پر پہاڑوں کے خوب صورت منظر کی تصویر لگا دی۔ اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا کہ اس کو اپنے بیٹے کو یاد کرنے کے لیے تصویر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ میں رچا ہوا ہے، اور اس کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی۔ حکام اور سیکورٹی فورسز کی ناراضی اس کو کھرچ نہیں سکتی۔
موجودہ پابندیاں ان یادداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی عشروں سے جاری ہے، اگرچہ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ عمل بے حد بڑھ گیا ہے۔یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ جیسے انڈیا کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ۲۰۱۴ء میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی ۲۰۱۹ءمیں نصیب ہوئی۔ لہٰذا، اس سے قبل کے دور کو دور غلامی یا ’تاریک دور‘ کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کردیے گئے ہیں۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں اس خطے پر کیا کیا قیامت برپا ہوئی؟ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشن میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور دہشت گردانہ ہیرو ازم کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔’شکایت اور مظلومیت ‘بیان کر نا اب جرم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے دُکھ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، نہ اپنے آپ کو مظلوم کہہ سکتے ہیں۔ یادداشتوں کو کھرچنے کے عمل کا ایک حصہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔ یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور ۲۰۱۹ء تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیر اعلیٰ کو بندگیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔
سری نگرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (APDP) کے اراکین تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا کر ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے تھے۔۲۰۱۹ء کے بعد اس عمل کو روک دیا گیا، اور اب پروفیسر اطہر ضیا کی کتاب Resisting Disappearance: Military Occupation & Women' Activism in Kashmir پر پابندی لگا کر یادداشت غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب APDP پر مبنی ایک نسلیاتی مطالعہ ہے، جو یہ تجزیہ کرتی ہے کہ سیاسی تشدد خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کشمیری خواتین اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا سوگ اور یاد کس طرح مناتی ہیں۔
اس پورے قضیہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کے لبرل طبقے نے بھی اس پر آنکھیں موند لیں اور اس پر قابلِ قدر رد عمل نہیں دیا۔ فرینی منیکشا کے مطابق شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کشمیر کی جماعت اسلامی کو صرف مذہب کے ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب کشمیر سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بھی نہیں بنا تھا، تب جماعت اسلامی ہی کے لوگ وہ تواریخ محفوظ کر رہے تھے، جنھیں کوئی اور چھونے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔
انورادھا بھسین نے بھی انڈیا کے سیکولر اور لبرل طبقے کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی انڈیا کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے‘‘۔اگرچہ لوگ سوشل میڈیا پر ان ممنوعہ کتابوں کے گوگل ڈرائیو لنکس شیئر کر رہے ہیں، لیکن اہل کشمیر کے لیے یہ معمولی سا سہارا ہے۔
ایک صحت مند جمہوریت، بحث سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ جبری خاموشی سے۔ جیسا کہ انورادھا بھسین، لکھتی ہیں: 'جب آپ کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی جوابی دلیل نہیں ہے۔ آپ سچائی کا سامنا کرنے کے بجائے اس اقدام سے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پابندی ایک مایوس کن عمل ہے۔ یہ عمل ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو ایک باخبر شہری سے خوف زدہ ہے۔ لیکن تاریخ پوشیدہ نسخوں میں زندہ رہتی ہے۔
۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عالمی رائے عامہ کی تشکیلِ نو کے باب میں تبدیلی کا ایک اہم موڑ بن گئی ہے۔ نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی بلکہ اس سے عالمی نظام کی ہیئت و ساخت اور اس کے اخلاقی وجود،معیار اور مفہوم پر بھی سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔
غزہ میں جاری اہل فلسطین کا ’ہولوکاسٹ‘ اور اس کے براہِ راست مشاہدے نے صہیونی بیانیے کی کمزوری اور کھوکھلے پن کو پوری دنیا پر آشکارا کردیا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس نےمغرب کے دوہرے معیار کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں اُس ادنیٰ ترین اخلاقی توازن کو قائم رکھنے میں بھی بُری طرح ناکام رہی ہیں، جس کا وہ دعویٰ کرتی چلی آئی ہیں ۔
اس کے برعکس، فلسطین اور اس کا مسئلہ ایک ایسے اخلاقی پیمانے کی حیثیت سے اُبھر کر عالم انسانیت کے سامنے آیا ہے جو خواص اور عوام کے موقف کو یکساں طور پر، روایتی سیاسی صف بندیوں سے بلند ہوکر اَزسر نو مرتب کررہا ہے۔ غزہ نے اپنے آپ کو ایک ایسے محرک اور عامل کی حیثیت سے منوایا ہے، جو پوری انسانیت کو بین البر اعظمی اور عالمی، ہر دو سطح پر نئی صف بندی پر مجبور کررہا ہے،تا کہ قومی اور سماجی سطح پر ایک ایسا بندوبست تشکیل پائے، جس سے ممکنہ طور پر نئی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کا دروازہ کھل سکے ،اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی گمراہ کن راہیں مسدود ہوں، عرب حکومتوں پر دباؤ بڑھے اور اسرائیلی قبضہ گیروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کی کوششوں میں وسعت آئے ۔غزہ میں جاری معرکہ ہر گز ایک علاقائی ایشو اور محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالم گیر قضیہ ہے جوموجودہ عالمی نظام کے لیے ایک اخلاقی امتحان کی حیثیت رکھتا ہے ۔
حال ہی میں خطے نے براہِ راست تصادم کو بھی دیکھا ہے۔ ایران اور ’صہیونی- امریکی محور‘ کے درمیان ہونے والے اس تصادم نے ایرانی فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کو تو آشکارا کیا ہی، تاہم ساتھ ہی ساتھ ایران کی یہ صلاحیت بھی نمایاں تر ہوکر سامنے آئی ہے کہ وہ صہیونی ریاست ِ اسرائیل کے اندر دُور تک، اور اس کے جدید ترین فوجی اڈوں اور دیگر دفاعی اور حساس تنصیبات کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
۱۲ روزہ جنگ کا یہ زمانہ محض ایک عارضی اوروقتی تصادم نہ تھا، بلکہ خطے میں جاری کش مکش میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے دونوں برسرپیکار طاقتوں کے درمیان قائم توازن اور اس میں موجود خامیوں کو بھی آشکارا کردیا ۔ تصادم کا غیر فیصلہ کن ہونا اشارہ کررہا ہے کہ ٹکراؤ کے آئندہ مرحلے خطرناک اور شدید تر ہوسکتے ہیں اور کوئی غلط اندازہ یا کسی فریق کی طرف سے غیر مدبرانہ فیصلہ امکانی طور پر کش مکش اور تصادم کے دائرے کو وسیع تر بھی کرسکتا ہے۔
اگرچہ بظاہر اب مشرق وسطیٰ کے منظرنامے پر ایک خاموشی چھائی ہوئی ہے، مگر ہر فریق اپنی اپنی تلواریں تیز کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران، عوامی جمہوریہ چین کی حمایت اور اس کی بے مثال اقتصادی پشت پناہی سے انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنی اسٹرے ٹیجک پوزیشن کو پھر سے ترتیب دے رہا ہے، اور اس کے اتحادی لبنان، یمن اور عراق بھی متحرک ہیں۔ اسی تناظر میں واشنگٹن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مداخلت کے لیے ہمہ دم تیار بیٹھا ہے کہ دباؤ کے کسی لمحے میں مداخلت کر ڈالے۔ اس صورتِ حال میں اسرائیل میں وہ سیاسی و عدالتی دھماکے رُونما ہو رہے ہیں، جو نیتن یاہو حکومت پر شدید دبائو کا باعث ہیں۔
سبھی فریق محتاط تیاری کی حالت میں ہیں، گویا ایک دھماکا ہے جو عنقریب ہوکر رہے گا۔ آئندہ ہونے والا معرکہ محض گولہ باری اور سپرسانک میزائل باری کا تبادلہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک، ابلاغی، اور قانونی تصادم بھی ہوگا۔
ایران اور ’صہیونی - امریکی محور‘ کے درمیان جنگ بندی کا عالمی سطح پر محتاط خیرمقدم ہوا ہے، جب کہ حالات کی نزاکت اور قائدین کے متضاد بیانات نے اصل صورتِ حال کو مبہم بنا دیا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، تو دوسری جانب نیتن یاہو نے 'ایرانی جوہری پروگرام کی تباہی کا اعلان کیا، حالانکہ انٹیلی جنس رپورٹیں اس دعوے کی تردید کرتی ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ — جیسے نیویارک ٹائمز اور دی اکانومسٹ وغیرہ — نے اس جنگ بندی کو غزہ میں تنازع کے خاتمے کی ممکنہ صورت قرار دیا تھا۔ تاہم، دیگر تجزیہ نگاروں نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حقیقی حل سے گریز کیا تو خطہ میں تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
فناشنل ٹائمز نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ موجودہ جنگ بندی محض ایک ناپائیدار عبوری مرحلہ ہے، جب کہ اصل فیصلے کا اس بات پر انحصار ہے کہ کیا اسرائیل ایک منصفانہ تصفیے میں شامل ہونے پر آمادہ ہے، جو بالآخر ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہو، —یا اس کا مقصد صرف تنازع کے دوران بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا دینا ہے؟
اس سارے منظرنامے کے بیچوں بیچ گریٹر اسرائیل ' کا مذموم منصوبہ ایک نمایاں خطرے کے طور پر موجود ہے،اور اب [نیتن یاہو کے بیان کے بعد] بالکل واضح اور حقیقی خطرے کے طور پر اُبھر کر سامنے بھی آچکا ہے ۔ تل ابیب ، نیل سے فرات تک مکمل بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ گویا —اسرائیل اپنی تاخت و تاراج کو فلسطینی سرزمین تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ عرب ممالک کی خودمختاری کو روندتے ہوئے انھیں تابع مہمل باج گزار ریاستوں میں تبدیل کرنے کے اپنے عزائم آشکارا کرچکا ہے۔
مشرق وسطیٰ پر بالادستی کا اسرائیلی منصوبہ، عالم عرب پر اس کے عسکری غلبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ معیشت، سلامتی کے امور، ثقافتی تعلقات، نارملائزیشن، اور عرب ممالک کے حکومتی اداروں میں خفیہ اثر و رسوخ کا جال بچھانےتک وسیع ہے۔
اگرچہ ’صہیونی-امریکی محور‘ کو خفیہ معلومات کاری اور عسکری میدان میں بظاہر کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں، تاہم 'نئے مشرقِ وسطیٰ کی قیادت سنبھالنے کے اس کے خواب کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے: عرب اقوام کی طرف سے انکار، مزاحمتی قوتوں کا باہم اتحاد، اسرائیل کے داخلی بحرانوں کی شدت، اور ایک جامع علاقائی پروگرام کی عدم موجودگی جس پر سبھی متفق ہوں۔یہ وہ عوامل ہیں جو دیرپا تسلط کی اسرائیلی و امریکی خواہش اور صلاحیت کو کمزور کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ پر غلبہ پانے کے اسرائیلی منصوبے کا مکمل طور پر امریکی مدد پر انحصار بھی اسے ایک اسٹرے ٹیجک مخمصے میں ڈال رہاہے، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن کا اپنا اثر و رسوخ اندرونی بحرانوں اور یوکرین و چین کے دُہرے دباؤ کے باعث زوال پذیر ہے —اور خطے کے معاملات پر اس کی یک طرفہ گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
بظاہر یہ جغرافیائی،سیاسی خلا اب بتدریج چین اور روس کے ذریعے پُر ہو رہا ہے، جو نئی اقتصادی و عسکری حکمتِ عملیوں کے ذریعے ایک کثیرقطبی عالمی نظام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ —ایسا نظام جو واحد امریکی بالادستی کے دور کا اختتام ثابت ہو سکتا ہے۔
خلیجی ممالک چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود قومی سلامتی کی ایسی شراکتوں کے نفاذ کی کوششیں ان کی خود مختارانہ فیصلہ سازی کی صلاحیت اور آزادی کو متاثر کررہی ہیں۔ عراق، شام، لبنان اور اُردن میں ’صہیونی-امریکی محور‘، ایک ایسا نفسیاتی اور فضائی غلبہ قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے جو ان کے خودمختار کردار کو بحالی اور اختیار سے محروم رکھ سکے۔
دوسری طرف ایران کا کردار ایک ایسے مزاحمتی محور کے طور پر نمایاں ہوا ہے، جو غزہ سے صنعا تک پھیلی اسٹرے ٹیجک وسعت کا حامل ہے، اور آزادی کے اس مفہوم پر مشتمل موقف کی تشکیل کررہا ہے، کہ امت کی بقا فلسطین کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔
مزاحمتی جماعتیں، جن میں سرِفہرست حماس ہے، اب محض دباؤ کا پریشر گروپ نہیں رہی، بلکہ ایسی مؤثر قوت بن چکی ہے، جو عسکری، ابلاغی، اور سیاسی سطح پر خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
غزہ، مسلسل محاصرے ،فوج کشی اور تباہی کے باوجود، ایک ایسے اخلاقی مرکزومحور میں تبدیل ہوچکا ہے، جو مزاحمت کے قانونی و اخلاقی جوازکی تشکیلِ نو کر رہا ہے، اور عالمی رائے عامہ کے سامنے، ’صہیونی-امریکی محور‘ کے چہرے پر پڑا باقی ماندہ اخلاقی پردہ بے نقاب کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ پر غلبے کی اس کش مکش میں روایتی جنگی ذرائع اب فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ شعور اور فہم کا محاذ بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
مزاحمتی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، تعلیم، دین، ثقافت، معیشت، اور مصنوعی ذہانت، —یہ سب آزادی کی جنگ کے مرکزی میدان بن گئے ہیں، جو اقوام عالم کے شعورو ادراک کی اَزسرِنو تشکیل کررہے ہیں، اور اسرائیلی قبضہ گیروں کے مسلط کردہ جھوٹے موقف کی اجارہ داری کو توڑ کر مزاحمت و انصاف کے بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔
ان ذرائع کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور فیصلہ کن حیثیت نے فلسطین کی آزادی کے منصوبے کو نہ صرف نفسیاتی، ثقافتی اور اقتصادی وسعت فراہم کی ہے،بلکہ اسے محدود فوجی مزاحمت کے عمل سے نکال کر ایک ایسے جامع تہذیبی احیائی منصوبے میں بھی تبدیل کیا ہے جو زور زبردستی کے موجودہ مسلط شدہ نظام کو متاثر کر رہا ہے، اور خطے میں طاقت کے توازن کو نہ صرف فوجی نقطۂ نظر سے بلکہ علمی،شعوری اور اخلاقی زاویے سے بھی دوبارہ متعین کر رہا ہے۔
ہماری دانست میں اصل معرکہ، جو خطے کی حتمی سمت کا تعین کرے گا، سیاست یا جغرافیہ کے میدانوں میں نہیں، بلکہ شعور اور جواز کے میدان میں ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ کا آئندہ قائد وہی ہوگا، جو گہری تہذیبی بصیرت رکھتا ہو، اور آزادی و قیادت کے حقیقی تصور پر مبنی توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ —ایسا توازن جو اُمت کو اس کی خودمختاری واپس دلائے، اور اس خطہ کی اقوام کو نئے عالمی نظام میں آزادی اور وقار عطا کرے۔کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کسی نئے استعمار کا منتظر نہیں، بلکہ ایک انقلابی رہنما کا خواہاں ہے جو قیادت کے مفہوم کو اَزسرِنو تشکیل دے اور صفوں کو متحد کرے۔
غزہ میں انسانی تاریخ کے ایک المیہ، بدترین صورتِ حال میں ڈھل چکا ہے۔ ہم یہاں برطانیہ کے اخبارات کی رپورٹنگ سے کچھ حصے پیش کر رہے ہیں۔
غزہ میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے سربراہ نے گذشتہ دنوں کہا: ’’ہمارے فرنٹ لائن عملے کے ارکان بھوک سے بے ہوش ہو رہے ہیں، کیونکہ غزہ میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ (UNRWA: ’انروا‘) کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا: ’’یہ سنگین ہوتی صورت حال ہر کسی کو متاثر کر رہی ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو جنگ زدہ علاقے میں زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب دیکھ بھال کرنے والے خود کھانے کو ترس رہے ہوں تو پورا انسانی امدادی نظام تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔
لازارینی کے بقول: ’’میرے ایک ساتھی نے بتایا ہے کہ ’’غزہ کے لوگ نہ زندہ ہیں، نہ مُردہ، وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں‘‘۔
مزید یہ کہ: ’انروا‘ کے پاس اردن اور مصر میں خوراک اور طبی امداد سے لدے تقریباً ۶ہزار ٹرک موجود ہیں، مگر اسرائیلی حکام امداد غزہ پہنچنے نہیں دے رہے!‘‘
صحافیوں اور خدمتی سرگرمیوں سے وابستہ افراد کے ذریعے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ لوگ بھوک سے زمین پر گر کر مر رہے ہیں۔ سول ڈیفنس کے کارکنوں نے ایسے کمزور جسموں کی تصاویر بنائی ہیں، جن پر محض کھال باقی ہے۔ طبّی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز دو اور افراد بھوک سے مر گئے۔ دونوں بیمار تھے اور کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا‘‘۔
بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ بھوک سے مرنے والے فلسطینیوں کی تصاویر اسرائیلی ناکہ بندی پر عالمی سطح پر مذمت کا باعث بن رہی ہیں۔۲۳جولائی کو فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلے گا‘‘۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دہشت گردی کو انعام دینا ہے‘‘۔ اس سے قبل، برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا: ’’غزہ میں جو تکلیف اور بھوک کا عالم ہے، وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دفاع ہے۔ اگرچہ یہ صورتِ حال کافی عرصے سے سنگین ہے، لیکن اب اس نے ایک نیا اندوہناک موڑ لیا ہے اور بدستور بگڑتی جا رہی ہے۔ ہم ایک انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘‘۔
—— سی کے مطابق: ’’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ قحط اب بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ عالمی ادارے ہر روز غزہ کی صورتِ حال پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس صورتِ حال پر عالمی ضمیر سے اپیل کی ہے‘‘۔
اخبار گارڈین، لندن (۲۵ جولائی) کے مطابق: ایک طبی امدادی ادارے کا کہنا ہے: ’’غزہ شہر میں ہمارے کلینک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح پچھلے دو ہفتوں میں تین گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ اسرائیلی محاصرے کے باعث فاقہ کشی کی صورتِ حال مزید بگڑ رہی ہے‘‘۔
عالمی امدادی ادارے برابر خبردار کر رہے ہیں: غزہ بڑے پیمانے پر قحط کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں روزانہ فاقہ کشی سے اموات ہو رہی ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل صرف معمولی مقدار میں امداد داخل ہونے دے رہا ہے۔
مئی سے اب تک غزہ شہر کے مرکز میں غذائی قلت کے مریضوں کی تعداد چار گنا بڑھ چکی ہے۔موجودہ فاقہ کشی کی صورتِ حال کی ذمہ داری اسرائیل کی ’قحط میں مبتلاء کرنے کی پالیسی‘ پر عائد ہوتی ہے، جب کہ ۱۰۰ سے زائد امدادی اداروں کو اسرائیل نے غزہ میں امداد کی فراہمی سے روک رکھا ہے۔اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے، بلکہ اب تو طبی عملہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق: ’’غزہ کی ایک تہائی آبادی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھا سکی، اور بحران ناقابلِ یقین سطح تک پہنچ چکا ہے۔’’ہر تین میں سے تقریباً ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے۔ غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے،۹۰ہزار خواتین اور بچے فوری علاج کے محتاج ہیں‘‘۔
غزہ میں ایک ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر ناجی القراشلی نے بتایا ہے: ’’دستیاب اعداد و شمار مسئلے کی اصل شدت کو کم ظاہر کر رہے ہیں۔یہ صورتِ حال ناقابل تصور ہے۔ میرے پورے طبی کیریئر میں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسان ظلم اور حیوانیت کی اس حد تک گر جائے گا۔ مریضوں میں اسقاط حمل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ مائیں اپنے لیے خوراک تلاش نہیں کر پاتیں۔ جو بچے زندہ پیدا ہوتے ہیں، وہ انتہائی کم وزن کے حامل، قبل از وقت یا بگڑے ہوئے اعضا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر القراشلی نے بڑے دُکھ اور کرب میں بتایا: ’’ہمارے پاس غذائی قلت کی شکار خواتین کے علاج کے لیے درکار طبی سامان نہیں ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ دیگر ڈاکٹروں کے استعمال شدہ گندے دستانے استعمال کریں اور تاریخِ استعمال ختم ہونے والی دوائیں تجویز کرنا ہماری مجبوری ہے۔ بطور ایک بےبس ڈاکٹر یہ انتہائی تکلیف دہ احساس ہے۔ کئی بار میں ہسپتال سے بھاگ کر نکل جاتی ہوں کیونکہ میں یہ حقیقت برداشت نہیں کر سکتی کہ میں ان خواتین کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی‘‘۔(گارڈین، ۲۶ جولائی ۲۰۲۵ء)
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی پابندیوں کے تحت جہاں ممکن ہو رہا ہے کام کر رہا ہے۔ ان پابندیوں نے امدادی نظام کو پہلے سے موجود ۴۰۰ مراکز کے استعمال سے روک دیا ہے۔
اسی دوران برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’غزہ میں انسانی تباہی کا خاتمہ اب ہونا چاہیے اور اسرائیلی حکومت کو امدادی پابندیاں ختم کرنی چاہئیں‘‘۔
اسرائیلی فوج نے ۲۵؍جولائی کو اعلان کیا: ’’ہم نے اردن اور متحدہ عرب امارات کو فضائی طور پر غزہ میں امداد پہنچانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔ یاد رہے ایک پرواز مہنگی پڑتی ہے اور امدادی سامان کی مقدار ٹرکوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ حماس نے اس اقدام کو ایک ’سیاسی ڈراما‘ قرار دیا۔
حماس حکومت کے میڈیا دفتر کے ڈائریکٹر، اسماعیل الثوابتہ نے رائٹرز کو بتایا: ’’غزہ کو فضائی امداد کے کرتب نہیں، بلکہ ایک کھلی انسانی راہداری اور روزانہ امدادی ٹرکوں کی مسلسل آمد درکار ہے، تاکہ باقی ماندہ محصور اور بھوکے شہریوں کی زندگی بچائی جا سکے‘‘۔
کتنے ہی فلسطینی افراد نے بتایا ہے کہ ’’امدادی مراکز سے نہایت معمولی امداد کے حصول کے لیے ہم گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، مگر امداد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، یا پھر اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں‘‘۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ان مراکز سے امداد کے حصول کے لیے کھڑے افراد میں سے ایک ہزار سے زیادہ مستحقین کو اسرائیلیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’وہ غزہ میں سسک سسک کر مرنے والے فلسطینیوں کی بھوک پر ریت میں سر چھپائے ہوئے ہے۔ یہ المیہ صرف ایک انسانی بحران نہیں ہے، بلکہ عصرحاضر میں ایک خوفناک اخلاقی بحران بھی ہے، جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، مگر صدافسوس کہ بڑی طاقتیں ٹس سے مَس نہیں ہورہی ہیں‘‘۔
عالمی منظرنامے پر امریکا کی جانب سے ایک بار پھر نام نہاد جنگ بندی ایک بے فیض سرگرمی دکھائی جارہی ہے۔ یاد رہے پہلی جنگ بندی بھی دراصل اسرائیل کے قیدی رہا کرانے کے لیے تھی اور موجودہ نام نہاد جنگ بندی کا بھی یہی مقصد ہے۔اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ گویا عارضی جنگ بندی کا اب بھی مقصد صرف اپنے قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم میں مکمل اتفاق ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ 'معقولیت ' کی بنیاد پر ہوگا۔
اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین کے سخت دباؤ کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں، لیکن یہ بھی محض وقت گزاری نظر آتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران ۱۰ جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع رفح اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے موراغ راستے (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی۔ اسی نقشے میں غزہ کی تمام جانب تین سے چارکلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا اور بیت حانون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرارۃ سمیت ۶۰ فی صد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انھیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جائے۔
امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ بہت سے فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فلسطینی انھی امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنھیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی ’نو-گو زون‘ میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فوراً گولی مار دی جائے۔ ’جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو‘۔ اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ھآریٹز کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ سویلین فلسطینیوں پر بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دئیے تھے۔
نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے امریکا بدستور پُرعزم ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو ’نسل کشی‘ کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھیرانے کے 'جرم میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیز پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 'اسرائیل اور امریکا، دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ' البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف (ICC)کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
البانیز کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گوگل کے شریک بانی، سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو ’کھلی اور فاش یہود دشمنی‘ قرار دے کر سخت تنقید کی۔
دوسری طرف نسل کشی کےخلاف عوامی جذبات میں بھی شدت آرہی ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں ہونے والا انگلستان کا کلاسٹونبری موسیقی میلہ، ’اسرائیلی فوج مُردہ باد‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے ہسپانوی شہر فالنسیا کے موسیقی میلے میں اس وقت ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی جب لاطینی گلوکار ریزیڈینتے فلسطین کا پرچم تھامےاسٹیج پر آئے۔ میلے کے ہزاروں شائقین نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے ’فری فری فلسطین‘ کی دُھن پر ناچنا شروع کردیا بلکہ یوں کہیے کہ سازوں کی دُھن کو اہل غزہ کے حق میں تبدیل کر دیا۔
دنیا کے انصاف پسند لوگ اہل غزہ کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں اور ۱۳ جولائی کو اٹلی کے شہر سیراکوس کی بندرگاہ سے انسانی امداد سے لدی ایک اور کشتی غزہ کے لیے روانہ ہوگئی۔ اس مشن کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا ہے۔’حنظلہ‘ نامی یہ کشتی، ماضی میں روانہ کی جانے والی ’فریڈم فلوٹیلا‘ جیسی عالمی کاوشوں کی طرز پر نکالی گئی ہے، جس کا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کی طرف مبذول کروانا اور اسرائیلی پابندیوں کو توڑنا ہے۔
غرب اُردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی وحشیانہ کارروائی جاری ہے۔ ۱۱ جولائی کو رام اللہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل ۲۳ سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا۔ فلسطینی شہری غرب اردن میں خربت التل کی طرف پُرامن احتجاج کے لیے جا رہے تھے، جہاں ایک نئی غیرقانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں یہودی دہشت گردوں نے انھیں روک کر حملہ کر دیا۔ کم از کم ۱۰ فلسطینیوں کو گاڑیوں تلے کچل دیا اور دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ جب اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے CNNکے سینئر صحافی جیرمی ڈائمنڈ وہاں پہنچے تو یہودی قبضہ گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ اسرائیل کے پرجوش حامی ڈائمنڈ نے بلبلاتے ہوئے کہا: ’’یہ صرف ایک جھلک ہے اس حقیقت، یعنی قبضہ گردوں کی جارحیت کی، جس کا سامنا مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو ہر روز کرنا پڑتا ہے‘‘۔
غرب اُردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوحِ مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ دہشت گردوں نے اسی دن یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگادی۔پانچویں صدی کا یہ کلیسا ایک تاریخی ورثہ ہے، اس قبرستان میں حضرت مسیح کے خلفا اور بہت سے بزرگ مدفون ہیں۔
اس صورتِ حال پر فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ پڑھیے:’’غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکتِ جرم ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ اصول، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمل کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریکِ جرم ہوں گے!‘‘
غزہ میں نسل کشی اور اسرائیل کی بے لگام نوآبادیاتی اور سامراجی تکبر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں، جہاں سے بظاہر نجات ممکن نہیں۔ نیتن یاہو کی لامتناہی جنگیں اب ملک ِشام تک پھیل گئی ہیں، جو دمشق کے مرکزی حصے پر مکمل بے خوفی سے حملے کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔دریں اثنا، امریکا، جو مبینہ طور پر دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کہلاتا ہے، بدقسمتی سے لگاتار اسرائیلی حکومتوں کی غلامی میں ڈوبا ہوا ہے، جو اکثر بنیادی انسانی اقدار اور بین الاقوامی قانون کو قربان کر دیتا ہے۔
اس صورتِ حال کا سب سے واضح مظہر گذشتہ ۲۱ ماہ سے غزہ میں دیکھا گیا ہے۔ سابق امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کے اسرائیل کو ترجیح دینے والے وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے بارہا نیتن یاہو کے بدترین شدت پسندانہ اور نسل پرستانہ رجحانات کا دفاع کیا۔ اس مضحکہ خیزی کا ایک نمایاں مظہر وہ امریکی اسرائیلی تعلقات ہیں، جن کا ہدف غزہ ہے، ایسا ہدف کہ جس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیا کی نام نہاد مہذب ریاست امریکا نے اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی کو مضبوط تر کیا۔
بائیڈن حکومت نے نیتن یاہو کی مدد کرتے ہوئے امریکی ٹیکس دہندگان کے سیکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے۔ یہ انسانیت دشمنی پر مبنی منصوبہ تھا: ایک ۳۲۰ ملین ڈالر کا منصوبہ جو امریکی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے فوجی ہم آہنگی کے لیے بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور مذاق ’غزہ ہیومنٹیرین فائونڈیشن‘ (GHF) کے نام سے کھیلا گیا جو انسانی قدروں کو بحیرئہ روم میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔
امریکا کی بائیڈن حکومت ہو یا ٹرمپ کا راج، انھوں نے اسرائیل کو پورا حق دیا کہ وہ بے بس اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی جاری رکھیں، اور دوسری جانب عالمی ضمیر کو گونگا ، بہرہ اور اندھا بنا کر رکھ دیا کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی، کوئی بڑی طاقت بامعنی رکاوٹ پیدا کرتی نظرنہیں آرہی۔ یہ ایک خونیں تھیٹر ہے، جس میں مظلوم بچوں کی لاشیں اور بے بس مائوں کی چیخیں شامل ہیں۔
موت کے اس کھیل میں اردن کے بادشاہ نے ایک نمائشی ایئر ڈراپ کا مظاہرہ کیا۔ تباہ کن قیامت کے ساتھ یہ خوراک ایئر ڈراپ کا تماشا، اسرائیل اور بے ہمت عرب شراکت داروں کے درمیان بات چیت بحال کرنے کا پُل بنایا جا رہا ہے، جو اسرائیل کو شیطانی زمینی ناکہ بندی ہٹانے سے بچنے کے لیے ایک اور بہانہ فراہم کرتا ہے۔ دریں اثنا، روزانہ سیکڑوں افراد کی بھوک سے اموات کی تصدیق ہورہی ہے، مگر UNRWA رپورٹ کرتا ہے کہ اس کے پاس غزہ کی پوری آبادی کو تین ماہ تک کھانا کھلانے کے لیے کافی خوراک موجود ہے۔ پھر بھی، امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اسرائیل بھوک سے مرنے والے بچوں تک کوئی امداد نہیں پہنچنے دیتا۔
قاتلوں کے غیرمقدس اتحاد نے اسرائیلی قیادت میں ’غزہ انسانی امداد فائونڈیشن‘ کا چالاک منصوبہ محض دُنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بنایا اور اس کے لیے ایک بار پھر امریکا نے ادائیگی کی، جس کا مقصد بھوک ختم کرنا نہیں، بلکہ بین الاقوامی دباؤ کو غیر مؤثر کرنا تھا۔ ٹرمپ نے بھی، بائیڈن کی طرح اس ڈرامے کے ساتھ، اسرائیل کی اسی غلامی کے سامنے سر جھکایا۔
یہ امداد فراہم کرنے کا بہانہ ایک اور اسرائیلی مہلک دھوکا ثابت ہوا۔ زندگی کی ڈور کے بجائے، موت کے کھیل میں تبدیل ہوگیا۔ بھوک ان کا انتظار کر رہی ہے، اسرائیلی قاتل گولیاں انھیں تقسیم کے مراکز سے ملتی ہیں۔ وہی فوج جو قحط کی انجینئر ہے، وہی بظاہر نام نہاد نجات دہندہ بن کر دروازوں پر متاثرین کو گولی مار دیتی ہے۔
امریکی امداد سے ’غزہ فائونڈیشن‘ (GHF) نے اسرائیل کو خوراک کی امداد پر کنٹرول دے دیا —اور اب، پانی کے جمع کرنے کے مقامات پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہربنیادی ضرورت، —خوراک، پانی، دوائی —ان مظلوموں کا حق نہیں، بلکہ ایک اسرائیلی ہتھیار ہے۔ بھوک دینے، پانی سے محروم کرنے، اور دوا روکنے کا ہتھیار —جو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے لیے بنایا گیا ہے۔
’غزہ فائونڈیشن‘ کے متضاد نام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، اسرائیل نے ایک ’انسانی امدادی شہر ‘ (Humanitarian City)کے نام سے پیش کیا ہے، جہاں شمالی غزہ سے۶ لاکھ فلسطینیوں کو جنوب میں محصور رکھا جائے گا، —جہاں لوگ داخل تو ہو سکتے ہیں، لیکن باہر نہیں نکل سکتے۔ اسرائیلی نیا حراستی کیمپ، جو غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی کو محدود کرنے کا تصور پیش کرتا ہے، دوسری عالمی جنگ کے بہت سے نازی کیمپوں سے بڑا ہے۔
حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کہنا اسرائیل کی شیطانی اور دھوکے باز جنگ کا حصہ ہے۔ اس تناظر میں، اسرائیل نے پراپیگنڈے کو ہتھیار بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کو بھوکا نہیں مارتا، یہ ’کیلوری پابندیاں‘ عائد کرتا ہے۔ یہ نسلی تطہیر ہی نہیں کرتا بلکہ جبری ہجرت کا شکار کرتا ہے۔ اور اب، یہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں کرتا، یہ ایک ’انسانی امدادی شہر‘ تجویز کرتا ہے۔
اسرائیل اس قسم کے ہتھکنڈوں سے صرف اس لیے بچ نکلتا ہے کیونکہ عالمی طاقتیں نسل کشی کا محض ڈھونگ رچاتی ہیں۔ یورپی یونین سیاسی نتائج کی ہلکی پھلکی وارننگ جاری کرتی ہے۔ برطانیہ، ہمیشہ کی طرح دوغلے پن کی منافقانہ روش کا ماہر، صرف اسرائیل کو اپنے ’انسانی حق‘ کے لیے لڑنے اور مغربی کنارے میں آباد ہجوم کو’لگام‘ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سارے ڈھونگ اسرائیل کو احتساب سے بچاتے ہیں۔
عرب دنیا عجیب طور پر خاموش___ شریکِ جرم ہی نہیں، شرمناک طور پر تین غلام کیمپوں میں تقسیم دُنیا۔ مغرب میں مصر، عملاً غزہ کی ناکہ بندی میں فعال شریکِ کار ہے۔ مشرق میں، اردن اور خلیجی ریاستیں کھلے عام تجارت کرتی ہیں اور اسرائیل کی حفاظت کے لیے فوجی ڈھال کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اور پھر وہ ہیں جنھوں نے ٹرمپ پر اپنی دولت لٹائی، جب کہ غزہ جل رہا ہے اور مغربی کنارہ یہودیوں کے لیے مخصوص کالونیوں کی زد میں ہے۔
یہ اجتماعی خاموشی سفاکانہ ملی بھگت ہے۔ یہ نازی نظریے کی بحالی ہے، جو مختلف جھنڈے اور وردی میں ملبوس ہے۔ ایک فلسطینی کے طور پر، میں غصے میں ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ، ایک امریکی شہری اور ایک انسان کے طور پر مجھے حددرجہ صدمہ ہے۔ دنیا میں محض اعتراض کا ڈرامہ پیش کرنا نہایت توہین آمیز فعل ہے، جب کہ ایک حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کے خوش نما نام کے تحت بنتے دیکھا جا رہا ہے۔ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ دنیا —خاص طور پر یہودی —کیا ردعمل ظاہر کرتے اگر کوئی نازی اپنے ہاں قائم کردہ یہودی باڑے کو ’یہودی تفریح گاہ‘ کہتا!
یہ معاہدات کا ایک سلسلہ ہے ، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کو امریکا و اسرائیل کے تصور کے تحت ’معمول پر لانا‘ اور عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرانا ہے۔ جن عرب ملکوں نے یہ معاہدے کیے ہیں ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان شامل ہیں۔ ابراہیمی معاہدے ۲۰۲۰ء کے دوسرے نصف میں طے پائے۔ انھیں ۲۱ویں صدی میں عرب-اسرائیل تعلقات کی بحالی کی طرف پہلا علانیہ قدم مانا جاتا ہے۔
ان معاہدات کو’ابراہیمی معاہدات‘ کا نام دینے سے یہ تاثر دینا پیش نظر ہے کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان تاریخی و مذہبی طور پر گہرا تعلق ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدِ امجد مانتے ہیں۔نیز تینوں الہامی مذاہب: —اسلام، عیسائیت اور یہودیت — حضرت ابراہیمؑ کو اپنا روحانی پیشوا بھی مانتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا اور ۱۳؍ اگست ۲۰۲۰ء کو دونوں ملکوں کے مابین معاہدہ طے پانے کا اعلان ہوگیا۔ اس کے بعد ۱۱ ستمبر ۲۰۲۰ء کو بحرین نے بھی اسی نوعیت کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی اور ۱۵ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس میں، امریکی پشت پناہی سے امارات، اسرائیل اور امریکا کے نمائندوں کی موجودگی میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کردیے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کے فیصلے اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد،احتجاجاً عرب حکومتوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھااور اگلے چند عشروں میں عرب،اسرائیل جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۶۷ء کی ’چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ‘ اور۱۹۷۳ء کی اکتوبر کی جنگیں مشہور ہیں۔ تاہم، ۱۹۷۹ء میں انور سادات کی صدارت میں مصرنے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرلیا، جسے ’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کے وجود کوباقاعدہ تسلیم کرلیا۔
۱۹۹۴ء میں اردن نے بھی ’وادی عربہ معاہدہ‘ کے نام سے اسرائیل کےساتھ امن کی پینگ بڑھالی۔اردن نے یہ اقدام ۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور تنظیم آزادیِ فلسطین (PLO) کے درمیان ’دوریاستی حل معاہدہ‘ کی منظوری کے بعد اٹھایا تھا ۔حالیہ ابراہیمی معاہدے بھی گویا مصر اور اُردن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے والے معاہدوں ہی کے سلسلے کی کڑی ہیں ۔
اس معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا خلیجی ملک ،متحدہ عرب امارات ہے۔امریکا نے معاہدے پر دستخط کے اعلان سے پہلے ایف-۳۵ طرز کے ۵۰ جدید ترین جنگی طیارے امارات کو فروخت کرنے کی پیش کش کی۔ حالانکہ امریکا اپنے نیٹو حلیف ترکی کو یہ طیارے دینے سے ابھی تک انکاری ہے ، جب کہ اسرائیل کے لیے وہ پہلے سے میسر ہیں۔
۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۰ءکو وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے اورمعمول پر لانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس اعلان سے کچھ دن قبل، امریکی صدر ٹرمپ نے سوڈان کا نام دہشت گردی کے حامی ممالک کی فہرست سے نکالنے کا اعلان کیا تھا ۔ انھی دنوں فروری ۲۰۲۰ء کے آغاز میں یوگنڈا میں ہونے والی ایک ملاقات بہت اہم تھی،جو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے سوڈانی مقتدرہ کونسل کے سربراہ برہان نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ کی۔ اس ملاقات کے بعد ہی سوڈان کی غیر منتخب اور کمزور ترین حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہیمی معاہدات کی گاڑی پر سوار ہونےکا اعلان کیا۔
۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء کو امریکی تائید و حمایت سے مراکش اور اسرائیل کے درمیان بھی ایک ابراہیمی معاہدہ طے پایا۔مراکش کی طرف سے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب واشنگٹن نے باضابطہ طور پر مغربی صحارا پر مراکش کی سیادت کو تسلیم کر لیا۔ مراکش کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کا اعلان ہوتے ہی امریکا نے اسے بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت اور بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔
• اسرائیل نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان میں اپنے سفارت خانے قائم کرلیے ہیں ۔
• تل ابیب کو ابوظبی، دبئی، منامہ، دارالبیضاء مراکش سے براہِ راست پروازوں کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے۔
• معاہدے کے شریک ملکوں اور اسرائیل کے مابین سیاست، معیشت، دفاع اور انتظامی اُمور میں باہمی تعاون کے اُمور طے پائے ہیں اور ان ملکوں کے وزرا، افسران، اور کاروباری شخصیات کے باہم دورے جاری ہیں ۔
• ان معاہدوں پر دستخط کرنے والے ملکوں نے عبرانی زبان سیکھنی اور سکھانی شروع کردی ہے ۔کئی اماراتی و مراکشی طلبہ نے اسرائیل کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں داخلہ لے لیا ہے اور تعلیمی و تربیتی کورسز کا آغاز کیاہے۔ثقافتی تبادلے کے طور پر اسرائیلی سیاح بڑی تعداد میں امارات اور مراکش کا رُخ کر رہے ہیں۔
• اسرائیل اور امارات کے درمیان تجارتی تبادلے کی مالیت پہلے ہی سال ۵۰۰ ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔
• دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی اور دفاع کے شعبے میں تعاون شروع ہوگیا ہے، خصوصاً سائبر سکیورٹی، انٹیلی جنس، اور تکنیکی شراکت داری کے شعبوں میں تعاون روزافزوں ہے۔
• دو سال کے اندر، اماراتی وفد نے پہلی مرتبہ اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا، اور معیشت، سرمایہ کاری، ہوا بازی، ویزا سے استثنا جیسے شعبہ جات میں کئی معاہدے طے پائے۔
• دسمبر ۲۰۲۱ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ابو ظبی کا علانیہ سرکاری دورہ کیا تھا، یہ کسی اسرائیلی وزیرِ اعظم کی طرف سےامارات کا پہلا دورہ تھا۔
• فروری ۲۰۲۲ء میں اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز نے بحرین کا غیر علانیہ دورہ کیا۔ اسی وقت دونوں ملکوں کے مابین ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کی خبر بھی سامنے آئی۔
۹ فروری ۲۰۲۲ء کو’اسرائیل ڈیفنس‘ ویب سائٹ نے انکشاف کیا کہ بحرین نے اسرائیلی کمپنی سے ڈرون مخالف ریڈار نظام خریداہے۔
یہ تمام پیش رفت نہ صرف سیاسی بلکہ دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں بھی دونوں جانب گہرے روابط کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
• ۲۲ مارچ ۲۰۲۲ء کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیل، مصر، اور متحدہ عرب امارات کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایران کے اثر و نفوذ پر قدغن لگانے پرغور کیا گیا۔
• l ۲۸مارچ ۲۰۲۲ء کو جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب میں ہونے والے اجلاس میں مصر، امارات، مراکش، بحرین، اور امریکا کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ یہ اجلاس مذکورہ معاہدات کے تناظر میں مشترکہ علاقائی تعاون کا گویامظہر تھا۔
• مراکش نے اسرائیل کے ساتھ متعدد شعبوں میں معاہدے کیے جس میں معیشت، تعلیم، سیاحت، اور دفاع کے شعبے شامل ہیں۔
• اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز اور وزیر صنعت اورنا باربیفائی نے مراکش کے شہر رباط کا دورہ کیا۔
• مراکش کے وزیر صنعت حفیظ علمی اور اسرائیلی ہم منصب عمیر پیریٹس کے درمیان صنعتی تعاون پر مذاکرات ہوئے۔
• وزرائے تعلیم —سعید امزازی (مراکش) اور یوآف گالانت (اسرائیل)نے طلبہ کے تبادلے اور دونوں ملکوں کے ثانوی اسکولوں کی یکجہتی کے ’باہم تعاون منصوبے‘ پر پیش رفت کی۔
• مراکش اور اسرائیل نے سکیورٹی اور دفاعی شعبے میں تعاون کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے، جو وزیر دفاع گینٹز کی سرکاری طور پر رباط آمد کے موقع پر ہوئے۔
عرب ملکوں کی طرف سے اپنے عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنےکے لیے ابراہیمی معاہدات پر دستخط کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی تھی کہ ہم اسرائیل سے ابراہیمی معاہدے اس شرط پر کررہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین کے مغربی کنارے میں نوآبادکاری کی اپنی سرگرمیاں یکسر ترک کردے گا ۔
ان معاہدوں پر دستخطوں کے بعد، اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر اسرائیلی آباد کاروں کی کونسل کی قیادت کو ایک پیغام بھیجا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ’’اعلیٰ منصوبہ بندی کونسل برائے مغربی کنارے کی تعمیرات‘،۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء، یعنی(یہود کی ) ’عید العرش‘ کی تعطیلات کے بعد، ایک اجلاس منعقد کرے گی تاکہ مغربی کنارے میں ۵۴۰۰ نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کی منظوری دی جا سکے۔اس کے علاوہ، اسرائیل نے’بیتر علیت‘ نامی پہلے سے قائم یہودیوں کی نوآباد بڑی بستی کو وسعت دینے اور وہاں ۳ہزار نئے رہائشی یونٹس بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ اب یہ توسیعی منصوبہ مغربی کنارے میں اور گرین لائن کے قرب و جوار میں واقع کئی متنازع بستیوں تک پھیل چکا ہے اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں غیرقانونی تعمیرات کا یہ سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔