اخبار اُمت


قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع کئی منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔ یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھی۔رات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی اور ساتھ ہی نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندے، سٹیو ویٹکوف نقشوں کے پلندے میں اُلجھے ہوئے تھے۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار، اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے۔

لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ ان کواختیار تھا کہ —امریکی صدر بائیڈن نے گذشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مُہرثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بار بار پوزیشن بدلنے کے سبب بات منزل پہ نہ پہنچتی۔

مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پُرسکون تھی۔ اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رُک جاتا۔

مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراونڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آئے ہیں۔ اس طرح ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اُتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ نہیں ہورہا۔ منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات اُلٹے جا رہے تھے، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن سب بے سود۔

ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ سے جنھوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، مسلسل رابطے میں تھے۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ پیش رفت سے دور تھے۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید معاملات لٹکانے سےکام نہیں چلے گا۔ اس چیز نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتے کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اعصاب شکن مذاکرات ۹۶ گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے اشارہ مل گیا اور دو گھنٹے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر معاہدے کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا، مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کو طے تھا اور نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹا کھانے کےلیے پر تول رہے تھے۔ امریکی نمائندے کی سرزنش کے بعد، یعنی معاہدہ کے اعلان کے ۲۴گھنٹے کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیزفائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل دے دی۔

ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو تل ابیب میں واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کر ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیزفائر کےمذاکرات میں تاخیر کرنے کی کوشش کرتےہیں، تو ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اگلے چار سال وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ ہی سے ڈیل کرنا ہے۔ یاد دلایا گیا کہ اسرائیلی کی سیکیورٹی کی صورت حال مضبوط ہے۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے۔ شام اور لبنان کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا سیز فائر میں دیر نہیں کی جاسکتی۔

اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی، جب حماس نے یہ کہہ کر یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کردی کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر قتل۔ اسرائیلی فوج کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔ اس موقعے پر امریکی ثالث نے مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔

اسرائیل-حماس جنگ بندی معاہدہ کی تفصیلات

پہلا مرحلہ (۶ہفتے)

  •  
    • قیدیوں کا تبادلہ: جس میں
    • حماس: ۳۳ ،اسرائیلی قیدیوں (عورتیں، بچّے، ۵۰ سال سے زائد عمر کے شہری) کو رہا کرے گا، جب کہ
    • اسرائیل: فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو رہا کرے گا، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہیں، جو  ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد گرفتار کیے گئے۔
  •  اسرائیلی فوج کا انخلا:
    • غزہ کی سرحد کے اندر ۷۰۰میٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھیں گے (نیٹزریم کوریڈور کے علاوہ)۔
    • ۵۰ویں دن تک فلادلفیہ کوریڈور سے مکمل انخلاء۔
  • نسانی امداد:
    • روزانہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کی اجازت۔
    • شہریوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت۔
    • زخمی فلسطینیوں کی طبّی امداد اور علاج معالجے کے لیے بیرونِ ملک جانے کا راستہ۔
    • رفاہ کراسنگ مصر کے ساتھ سات دن بعد دوبارہ کھولی جائے گی۔

دوسرا مرحلہ،

  •  شرائط:
    • حماس باقی تمام قیدیوں کو رہا کرے گا (زیادہ تر مرد فوجی)۔
    • اسرائیل غزہ سے ’مکمل انخلا‘ کرے گا۔

تیسرا مرحلہ

  • اہم تجاویز:
    • قیدیوں کی لاشوں کے تبادلے۔ ۳  سے ۵  سالہ بین الاقوامی تعمیر نو منصوبہ۔

حکمرانی کا منصوبہ:

  • فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی زیر قیادت عبوری انتظامیہ۔
  • عرب ممالک کی مختصر مدتی سیکیورٹی فورسز، فلسطینی ریاست کے راستے کی شرط کے ساتھ۔
  • حکمرانی اور ریاست کے راستے پر اختلافات باقی ہیں۔

 ثالثی کی ضمانتیں:

  • مصر، قطر، اور امریکا کی
  • مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ضمانتیں۔
  • چھ ہفتوں کے اندر تمام مراحل کے نفاذ کو یقینی بنانے کا ہدف۔

یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ تمام اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی ابتدا بھی تھی۔

دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ہآرٹز میں لکھا ہے: بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی ۱۵۰ دن سے زیادہ ڈیوٹی کرچکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سیکڑوں دنوں پر محیط ہے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے۲ لاکھ ۹۵ ہزار ریزرو فوجی ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونی ورسٹی میں فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ اور آئی ڈی ایف انٹیلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہش مند ہیں۔ انھوں نے کہا: ’خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں‘۔

جنگ کے آغاز سے اب تک۷۵ہزار کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے ۵۹ہزار صرف ۲۰۲۴ء کے دوران بند ہوئے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو ۴۰ہزار سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گذشتہ برسوں کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں ۱۴۵ فی صد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق: ۲۰۲۴ء میں ۲۱ فوجیوں نے اپنی جان لے لی۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیرحل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں:’’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے‘‘۔ یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا المیہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق: غزہ میں صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات برسوں میں کم از کم ۱۰؍ ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔

بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کےمقصد سے جنگ شروع کی تھی، مگر وہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حماس کے جتنے عسکری اسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے۔

فلسطین کے ممتاز مزاحمتی شاعر محمود درویش [۱۹۴۱ء- ۲۰۰۸ء] نے اپنے اردگرد پھیلے رنج و اَلم کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

جنگ ختم ہو جائے گی اور رہنما ہاتھ ملائیں گے، لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرتی رہے گی، وہ لڑکی اپنے محبوب شوہر کا انتظار کرے گی، اور وہ بچے اپنے بہادر باپ کا انتظار کرتے رہیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کس نے وطن بیچا، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ قیمت کس نے چکائی۔

غزہ میں جنگ ر ک سکتی ہے، لیکن اس کے چھوڑے گئے زخم نسلوں تک رستے رہیں گے۔ جنگ بندی، ایک ایسا لفظ ہے جو زخموں کے لیے مرہم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ان گہرے زخموں کو بھرنے کے لیے ناکافی ہے جن کا تصور بھی مشکل ہے۔ یہ جنگ بندی رحم کا عمل نہیں بلکہ بڑھتے ہوئے عالمی غصے کے دباؤ کو کم کرنے کی ایک مجبوری ہے۔ مہینوں کی بے رحمانہ بمباری کے بعد، جب غزہ کو راکھ اور ملبے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہزاروں افراد، بشمول بچوں کا خون اس کی ریت اور منوں وزنی عمارتی ملبے میں شامل ہوگیا، سوال یہ ہے: اس درندگی کا حساب کون دے گا؟

نیتن یاہو، وہ شخص جس کا نام تاریخ میں ایک ہولناک جنگی مجرم کے طور پر لکھا جائے گا، اسرائیل کی جنگی مشین کا سرغنہ ہے۔ یہ کوئی بے بس جنگی مجرم نہیں، بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس نے جنگ کو سیاسی آلے اور اپنی ڈگمگاتی قیادت اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے ہنرمندی سے استعمال کیا ہے۔ اس نے اپنے عوام کے خوف اور دنیا کی بے حسی کو ہتھیار بنا کر جدید دور کی سب سے سفاکانہ فوجی مہمات میں سے ایک کو انجام دیا۔

غزہ کی تباہی محض ’ضمنی نقصان‘ نہیں تھی بلکہ یہ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ خاص طور پر ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، پناہ گزین کیمپوں کو مٹی میں ملا دیا گیا، اور پورے خاندانوں کو موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ اسرائیل نے ’درست نشانے‘ کا دعویٰ کیا، لیکن پیچھے بے انتہا تباہی چھوڑی۔ شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا، اور محاصرہ، جس نے غزہ کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا، یہ سب منظم جنگی جرائم ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت، اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو بین الاقوامی قوانین کی بے حُرمتی کے ساتھ، واضح کر چکی ہے کہ کوئی فلسطینی زندگی محفوظ نہیں، چاہے وہ کتنی ہی کم عمر یا معصوم کیوں نہ ہو۔

لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ نیتن یاہو نے اکیلے یہ سب نہیں کیا۔ اس کے بموں پر Made in USA کی مہر تھی۔ وہ ایف-۱۶طیارے جو غزہ کے محلوں کو زمین بوس کر گئے، امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کیے گئے۔ امریکا، جو سفارت کاری کا بہانہ کرتا ہے، عشروں سے اسرائیل کو سزا سے بچانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے غزہ میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیں، اور بار بار اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کا راگ الاپتی رہی۔

غزہ کے زندہ رہنے کے حق کو چھین لیا گیا۔ ان ہزاروں فلسطینی بچوں کا کیا جرم ہے کہ جو کبھی بڑے نہیں ہو سکیں گے، جن کے خاندانوں کی زندگیاں امریکی بموں نے ختم کر دیں؟ اسرائیل کے لیے امریکا کی خفیہ اور علانیہ حمایت ایک زبردست اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کو جواب دہی سے بچانے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنے کے ذریعے، امریکا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انصاف اور انسانیت سے اسے کچھ علاقہ نہیں۔

یہ جنگ صرف اسرائیل کی بے رحمی یا امریکا کی شراکت داری کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ اس نے پورے عالمی نظام کے دیوالیہ پن کو بھی بے نقاب کیا۔ نام نہاد بین الاقوامی ادارے، جو انصاف کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، غزہ کے راکھ میں تبدیل ہونے پر محض تماشائی بنے رہے۔ اقوام متحدہ، جو امن کی محافظ ہونے پر فخر کرتی ہے، ’تشویش‘ کے بیانات جاری کرنے تک محدود رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت، جو بظاہر جواب دہی کی علامت ہے، فیصلہ کن کارروائی نہ کرسکی۔

اور پھر وہ ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، غزہ کی تکالیف دیکھ کر خاموش رہے، یا دوسرے لفظوں میں بدتر، شریکِ جرم بنے۔ ان کی منافقت تاریخ اور انسانیت کے سامنے بے نقاب ہو گئی ہے۔

لیکن شاید سب سے بڑی غداری مسلم حکمران طبقوں کی جانب سے ہوئی۔ وہ جو اپنے آپ کو اسلام کا محافظ سمجھتے ہیں اور امت کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، سب سے بڑے منافق ثابت ہوئے۔ خلیجی راجواڑوں سے لے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں ہلکان حکمرانوں تک، جو خانگی اقتدار کی بھیک کے لیے غزہ پر حملے کو خاموشی سے سراہتے رہے۔ ان کے اقدامات فلسطینیوں ہی نہیں بلکہ ان تمام اصولوں سے سنگین بے وفائی ہے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی منافقانہ خاموشی، ان کی مجرمانہ شراکت، ان کی بزدلی کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔

اس سب کچھ کے باوجود آج غزہ کے کھنڈرات میں اُمید کی چمک موجود ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے عزم اور ان کے ناقابلِ یقین حوصلے میں ہے، جسے انھوں نے بدترین اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود برقرار رکھا ہے۔ یہ ان عام لوگوں کی آوازوں میں ایک طاقت ور ترین آواز ہے جنھوں نے دنیا بھر میں رنگ و نسل اور مذہب و طبقہ کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک جہتی کے لیے مارچ کیا اور غزہ کی تکالیف کو بھلانے سے انکار کیا۔

جب ہتھیار خاموش ہو جائیں، تو ہماری اُمید کا مرکز یہ ہدف ہے کہ جنگ بندی مزید تباہی سے پہلے کا ایک وقفہ نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے واجب احتساب کا آغاز ہو۔ احتساب جنگی مجرموں جیسے نیتن یاہو کا، سہولت کاروں جیسے بائیڈن کا، اور ہر اس ادارے اور رہنما کا، جنھوں نے غزہ سے منہ موڑ لیا۔

ہم اس خطے میں دائمی امن کے لیے دُعاگو ہیں، لیکن امن قبروں اور راکھ پر تعمیر نہیں ہوسکتا۔ یہ انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کی عزت بحال کرنی چاہیے جنھیں طویل عرصے سے محروم رکھا گیا، اور ان لوگوں کو جواب دہ ٹھیرانا چاہیے جنھوں نے اس ڈراؤنے خواب کو تقویت دی۔ غزہ کے قبرستان اس قیمت کی خوفناک یاد دہانی کے لیے پکارتے، جھنجوڑتے رہیں گے، جو دُنیا میں دھن، دھونس اور اقتدار کے بھوکوں نے فلسطین کو چکانے دی۔

جب غزہ کی محصور فلسطینی سرزمین پر برستی گولیاں عارضی طور پر خاموش ہوئیں، ماہرین اور میڈیا ماہرین نے ترکیہ کے شہر استنبول میں جمع ہو کر فلسطینی موقف اور مقدمے کو تشکیل دینے کے لیے ایک واضح اپیل کی۔ چوتھے فلسطینی انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن فورم یعنی ’تواصُل‘ نے اُمید اور عزم کی علامت کے طور پر کام کیا، جس کا مقصد یہ امر یقینی بنانا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی تباہی عالمی سطح پر گفتگو کا اَٹوٹ حصہ بنی رہے۔

اس فورم نے دنیا بھر سے آوازوں کو اکٹھا کیا تاکہ فلسطینی موقف کو اُجاگر کیا جا سکے اور ان غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے، جو ان کی جدوجہد کی حقیقت کو دھندلا دیتی ہیں۔ ۱۸-۱۹ جنوری کو ’فلسطینی موقف: ایک نیا دور‘ کے موضوع کے تحت منعقدہ اس کانفرنس میں ۵۰ سے زائد ممالک سے ۷۵۰ سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی، جن میں صحافی، مصنّفین، مدیران، نشریاتی ماہرین، فوٹوگرافر، فن کار اور ماہرینِ تعلیم شامل تھے۔ غزہ میں تباہی اور انسانی بحران کے پس منظر میں اس کانفرنس نے روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں کا استعمال کرتے ہوئے، فلسطینی موقف فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

افتتاحی تقریب کے دوران، ’تواصُل‘ کے سیکریٹری جنرل احمد الشیخ نے فلسطینیوں کی حالت زار  کی درست نمائندگی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے فلسطینیوں کو درپیش خوفناک حالات، – عشروں کے منظم جبر سے لے کر خوراک کی قلت، مسلسل بمباری اور نقل مکانی کی فوری ہولناکیوں تک – کی وضاحت کی۔ انھوں نے ان مظالم کو ’اسرائیلی نسل کشی‘ قرار دینے سے گریز نہیں کیا اور میڈیا ماہرین پر زور دیا کہ وہ سچائی کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

الشیخ نے کہا:’’ہمیں فلسطینی مقصد کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے حمایت فراہم کرنی چاہیے۔ یہ ایک نئے دور میں انتہائی اہم ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینیوں کے عزم و استقلال کو سراہا، جو شدید مشکلات کے باوجود اپنے حقوق اور شناخت کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ کانفرنس کا ایک سنجیدہ لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا، جو اس خونیں جنگ کی رپورٹنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یاد رہے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اب تک غزہ میں ۲۲۰ سے زائد میڈیا پروفیشنلز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو ان خطرات کی خوفناک یاد دہانی ہے، جن کا سامنا ان افراد کو ہوتا ہے جو مظالم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ان صحافیوں کی تصاویر کی ایک جذباتی نمائش شامل تھی، جن میں سے کئی کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے متحرک کیا گیا، تاکہ ان کی آوازیں اور کہانیاں طاقت ور انداز میں گونج سکیں۔

  • کانفرنس سے حاصل کردہ سبق : فلسطینی صحافیوں کے اذیت ناک حالات سننا بذاتِ خود ایک سبق تھا کہ وہ اس جنگ کی کوریج کے دوران کس قدر بڑے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، – خاص طور پر جب اسرائیلی قابض فوج صحافیوں کو براہِ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ کچھ صحافیوں نے اپنے ایسے ساتھیوں کی کہانیاں بیان کیں، جو اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یہ واقعات انتہائی دل دہلا دینے والے تھے، مگر ان واقعات کو بیان کرنے والوں کے جذبات حیرت انگیز طور پر مختلف تھے۔ ان کی آنکھوں میں موت کا کوئی خوف نظر نہیں آیا، بلکہ ایک غیرمتزلزل عزم دکھائی دیا، کہ وہ خطرات کے باوجود سچائی کو بیان کرتے رہیں گے۔ کانفرنس نے عرب اور بین الاقوامی صحافیوں کی اپنے فلسطینی ساتھیوں کے لیے ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی، اور اس نئے دور میں فلسطینی بیانیے کی حمایت اور اسے بلند کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا۔

کانفرنس مباحث کے دوران ۱۲ خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا، جن میں فلسطینی بیانیے کے نئے دور کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی۔ ایک خاص طور پر مفید ورکشاپ بعنوان ’فلسطینی بیانیے کی ترقی میں جدید ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کا استعمال‘ تمام صحافیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ایک اور سیشن میں ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا میں غزہ کی کوریج پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس میں فلسطینی صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو درپیش چیلنجوں، ان کے حقوق اور اسرائیلی قبضے کے تحت درپیش رکاوٹوں کو بھی اُجاگر کیا گیا۔

  • تواصُل فورم: یہ فورم ایک دہائی پر محیط جدوجہد کے ذریعے فلسطینی آواز کو بلند کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران، اس نے متعدد اقدامات کیے، جن میں خصوصی میڈیا سیمینار، ورکشاپس اور مشاورتی نشستیں شامل ہیں، جو فلسطینی مسائل پر رپورٹنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ترتیب دی گئیں۔ ’تواصُل‘ کی دو سالہ آن لائن مہمات اسرائیلی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے دنیا بھر کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور سرگرم کارکنوں کو شامل کرتی ہیں۔ یہ تنظیم فلسطینی صحافیوں کو پیشہ ورانہ میڈیا تربیت بھی فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے بیانیے کو پیش کر سکیں اور عوامی رائے پر اثر ڈال سکیں۔

 تنظیم کے چیلنجوں اور کامیابیوں پر ’تواصُل‘ کے ڈائرکٹر بلال خلیل نے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا:’’گذشتہ گیارہ برسوں سے ہم صحافیوں اور اداروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مسئلے کو درست طور پر اُجاگر کریں‘‘۔انھوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ: دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس، بشمول بھارت، فلسطین کے بارے میں سچائی کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے۔ انھوں نے غزہ اور فلسطینی مسئلے پر مستقل اور درست رپورٹنگ کرنے والے آئوٹ لیٹس کی تعریف کی۔ فلسطینی جدوجہد کے تسلسل کے بارے میں انھوں نے کہا کہ فلسطین پر قبضہ ۷۷ سال سے جاری ہے، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصے کی مزاحمت کا مظہر ہے۔ انھوں نے خاص طور پرکہا:’’فلسطینی مسئلہ صرف ایک انسانی بحران نہیں، جہاں ایک قوم کو زبردستی بے گھر کیا گیا اور وہ مدد کی محتاج ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کی جدوجہد ہے جو اپنی زمین پر آزادی اور عزّت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔

 انھوں نے مزید کہا: ’’جب وہ اپنی آزادی حاصل کر لیں گے، تو وہ دنیا بھر میں ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔ لہٰذا، میں بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں، اور اُن بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے فریم ورک کی حمایت کریں، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں‘‘۔

  • مجوزہ اقدامات : کانفرنس کے اختتام پر کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا، جن میں شامل ہیں: • غزہ میں ۲۲۰ نوجوان صحافیوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام، • ۲۰ صحافیوں کو صحافتی آلات کی فراہمی، • شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مشترکہ تربیتی سیشن، اور • فلسطینی بیانیے کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے علاقائی اجلاس۔ • فلسطین کے لیے ’میڈیا کریٹیویٹی ایوارڈ‘ کا اجراءکیا گیا ہے۔ اس کے جیتنے والے کو پہلا انعام ۱۰ہزارڈالر، دوسرا انعام ۵ہزار ڈالر اور تیسرا انعام ۳ہزار ڈالر کا اعلان ۔
  • یک جہتی اور انسانی روح کی طاقت:استنبول میں طے شدہ گفتگو، حکمت عملیاں، اور تعاون دنیا بھر میں اثر ڈالنے کی توقع رکھتے ہیں، تاکہ میڈیا پروفیشنلز کو غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور ایک مستند فلسطینی بیانیہ پیش کرنے کے لیے بااختیار بنایا جا سکے۔

جو لوگ اس روح پرور اور انسانیت دوست کانفرنس میں شریک ہوئے، ان کے لیے یہ صرف ایک کانفرنس نہیں تھی، بلکہ یک جہتی کی طاقت اور انسانی روح کی پائیداری کا ایک عالمی ثبوت تھی۔ شرکا کے انہماک اور شوق و جذبے کو دیکھ کر ایک صحافی نے برملا کہا: ’’ہم صرف کہانیاں نہیں سنا رہے؛ ہم ایک ایسی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں جو کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

شام ،جسے ’سوریا’ یا ’سوریہ‘ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ بعض ماہرینِ بشریات کہتے ہیں: ’’شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی‘‘۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بازنطینی، اُموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اس علاقے کو ۶۳۶ء میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں فتح کیا۔ خلافت راشدہ کے بعد اُموی خلافت قائم ہوئی جو ۱۳۲ سال چلی۔ اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔صلیبی جنگوں کے دور میں اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبی فوجوں کو ’حطین‘ کے مقام پر ۱۱۸۷ ء میں شکستِ فاش دی۔ سلطان صلاح الدینؒ کا دارالسلطنت بھی دمشق تھا۔عثمانی دورِحکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی، جو شام سے گزرتی تھی ۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔

  • تاریخی پس منظر: پہلی جنگ عظیم [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء]کے دوران برطانیہ، فرانس اور قیصری روس نے مل کر ’سایکس پیکو‘  (Sykes-Picot) خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت شام کو فرانس کے حوالے کر دیا گیا اور فلسطین کو برطانیہ کے،جب کہ ۱۹۱۷ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آنے پر روس نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمےپر اس سامراجی معاہدے پر عمل شروع ہوا اور فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر شام کے عربوں نے امیرفیصل کی سرکردگی میں ایک کانفرنس منعقد کر کے وہاں عرب حکومت قائم کرلی تھی، لیکن فرانس نے اس کو نہیں مانا اور ۸مارچ۱۹۲۰ء کو فوج کشی کر کے شام پر قبضہ کر لیا۔

دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو (Gouraud) شہر میں واقع سلطان صلاح الدینؒ کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر کہا: ’’صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں‘‘۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ؒکے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانوی قائد جنرل النبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا:’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یورپ کو تو وہ سب یاد ہے، جب کہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم [۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء] میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دے دی اور ۷؍اپریل۱۹۴۶ء کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لےلیا، جو آج تک شام اور علاقے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’جمہوریہ لبنان ‘ کا نام دیتے ہوئے اسے عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا، اور جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ، مارونی عیسائی ہو گا۔ لبنانی صدر جمہوریہ کے پاس فرانس اور امریکا کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔

شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (۶۳فی صد) سُنّی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروپ یہ ہیں: علوی (۱۰فی صد)، عیسائی (۱۰فی صد)، کرد (۹ فی صد)، دروز (۳ فی صد)، اسماعیلی (۱ فی صد)، دوسری اقلیتیں (۲ فی صد)۔ شام کے ۷۴ فی صد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔

اس علاقے کو بعد میں منگول و تاتار وحشی حملہ آوروں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں ۱۲۸۰ء میں شکست دی۔ پھر تیمورلنگ نے بھی ۱۴۰۰ء-۱۴۰۱ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہزیمت سے دوچار کرکے اگست۱۵۱۶ء میں قبضہ کیا، جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا۔ اسی دوران فرانس اور برطانیہ گٹھ جوڑ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا۔

آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دورحکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی ۱۸۴۰ء سے لے کر۱۹۱۴ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے لگائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں برتری حاصل ہوگئی۔

باقاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے: هاشم الاتاسی کی حکومت(دسمبر۱۹۳۶ء) اور شکری القوتلی کی حکومت(۱۹۴۳ء)۔ ۱۹۴۶ء میں آزادی کے بعد شام میں اُوپر تلے فوجی انقلاب آئے، جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب (مارچ۱۹۴۹ء)، شامی الحناوی کا انقلاب(۱۹۴۹ء)، شیشکلی کے دو انقلاب (دسمبر۱۹۴۹ء /۱۹۵۱ء) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب(۱۹۵۴)۔ غرض اس عرصے میں شام میں آٹھ فوجی انقلاب ہوئے، جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔

  • بعث پارٹی کا دورِ حکومت:اس دوران مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی عرب قومیت کی تحریک کو بہت عوامی تائید ملی، جس کے نتیجے میں ۱۹۵۸ء میں مصر اور شام کا سیاسی اتحاد ہوگیا اور ایک نیا ملک ’ الجمہوریۃ العربیۃ المتحدۃ‘ (متحدہ عرب جمہوریہ/  یونائٹڈ عرب ریپبلک) وجود میں آیا۔ لیکن ۱۹۶۱ء میں ایک اور فوجی انقلاب شام میں آیا اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد الیکشن ہوا اور ناظم القدسی کی صدارت میں نئی حکومت بنی۔ لیکن یہ حکومت لمبے عرصے نہیں چلی بلکہ ۸مارچ۱۹۶۳ء کو ’بعث پارٹی‘ [ماسکو نواز سوشلسٹ پارٹی]سے متاثر فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ تب سے شام پر کسی نہ کسی شکل میں ’بعث پارٹی‘ کی حکومت ۸دسمبر ۲۰۲۴ء تک رہی۔ ’بعث پارٹی‘ ہی کے کچھ دوسرے فوجی افسر ۱۹۶۶ء میں ایک اور فوجی انقلاب لائے۔ پھر جلد ہی ’بعث پارٹی‘ کے کچھ دوسرے فوجی افسروں نے ۱۹۷۰ء میں ’تحریکِ تصحیح‘ کے نام سے ایک اور فوجی انقلاب برپا کیا، جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیردفاع اور فضائیہ کے کمانڈر حافظ الاسد صدر بنے۔ ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ان کا بڑا بیٹا بشار الاسد صدر بنا اور ۸دسمبر۲۰۲۴ء تک برسرِاقتدار رہا۔اکتوبر ۱۹۷۳ء میں حافظ الاسد نے مصری صدر انوار السادات کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کو امریکا کی مکمل فوجی تائید کی وجہ سے ان کو کوئی زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ۱۹۷۵ء میں حافظ الاسد نے لبنان میں امریکا کے کہنے پر فوجی مداخلت کی اور اپنے پرانے ساتھیوں (فتح اور سنی ملیشیا) کو شکست دے کر ہارے ہوئے عیسائی ملیشیا (کتائب وغیرہ) کو دوبارہ لبنان کی سیاست پر حاوی کر دیا۔ اسد کی فوج نے سنی ملیشیا (عرب لبنان فوج) کی کمر توڑ دی اور اس کے قائد احمدالخطیب کو گرفتار کر کے شام لے گئی، جس کے بعد سے اس کا کوئی اَتہ پتہ نہیں۔ شامی فوج لبنان میں ۲۰۰۵ء تک رہی اوربالآخر پورے ملک کی مخالفت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبوری ہوئی۔

شام میں ۱۹۷۹ء میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبران کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا، جو بشار الاسد کے فرار تک جاری رہا۔

حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی سفاکیت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بےلگام مسلح ملیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے غیرمعمولی مظالم میں جون ۱۹۸۰ میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے، جب ۱۲۰۰جیل بندسیاسی مخالفین کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فروری ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا، جس کے دوران۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار لوگ طیاروں سے گولہ باری کرکے قتل کیے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا، کیونکہ وہاں کے عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لیے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیورٹی سسٹم بنایا تھا، جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لیے درجنوں ملیشیا بنائی گئی تھیں۔ جن میں سب سے خطرناک ’شِبّیحہ ‘ تھی، جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھر جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ ان ساری ملیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا، جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔

  • حالیہ کش مکش کا آغاز:شام کی موجودہ کش مکش ۱۸مارچ۲۰۱۱ء کو شروع ہوئی، جب پورے عالم عربی میں ’عرب بہار‘ (الربیع العربی) کےنام سے انسانی و سیاسی حقوق کی بازیابی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پہنچے اور تیونس اور مصر میں کچھ عرصے کے لیے نئی حکومتیں بھی بنیں، لیکن جلد ہی بعض عرب حکومتوں، اسرائیل اور امریکا کی کوششوں سے ان کو ناکام بنا دیا گیا۔ شام میں ۲۰۱۱ء میں درعا شہر کے واقعات کے بعد یہ تحریک شروع ہوئی، جب دیواروں پر نعرے لکھنے والے نوجوانوں کے خلاف اسد حکومت نے سخت کارروائی شروع کی۔ سختی کے ساتھ تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ جلد ہی مختلف مسلح تحریکوں نے شام کو اپنی جولان گاہ بنا لیا، جن میں دولت اسلامیہ(ISIS) بھی شامل تھی۔ کئی نیم آزاد علاقے وجود میں آئے اور بشارالاسد کی حکومت ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئی۔ اس دوران دو لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی ہوئے، ۷۰ لاکھ شامی ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور بڑے بڑے شہر، قصبات اور گاؤں بمباری سے کھنڈر بن گئے۔

اس طاقت ور عوامی تحریک کے باوجودایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی فاشسٹ حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قزاخستان)میں کئی میٹنگیں ہوئیں، جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے، جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔

اس صورتِ حال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکا اور اس کا حلیف ’کردی اتحاد‘، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ’ھیئۃ تحریر الشام‘ (پرانا نام ’جبہۃ تحریر الشام‘) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قابض ہوگئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں ۲۰۱۶ سے باغیوں اور اسد حکومت میں سے کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

موجودہ تحریک ۲۷نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی، جہاں ایک بڑے علاقے پر ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے ۲۱ دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا۔ ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انھوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے ۸دسمبرکی صبح کو دمشق پر قبضہ کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔

حالات میں تبدیلی مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا،اور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں ۲۸نومبر۲۰۲۴ء کو بشارالاسد، روسی صدر پوٹین سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے ماسکو گیا، لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا۔ بالآخر بشارالاسد ۸دسمبرکی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے یہی کہتا رہا کہ روسی فوجی مدد آ رہی ہے۔

موجودہ تحریک کی ابتدا ایک سال قبل شروع ہوئی، جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور ان کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او آئی سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکمران اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ’ھیئۃ تحریر الشام‘ نے تقریباً ۲۲  چھوٹے چھوٹےمسلح گروہوں سے بات چیت شروع کی، جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔

  • نئی حکومت کو درپیش چیلنج:ہم نے تحریک کے فوجی قائد ابومحمد الجولانی (احمدالشرع) کےشروع کے تین ویڈیو دیکھے۔ پہلے میں وہ دمشق میں داخل ہونے کے بعد ایک میدان میں سجدہ کر رہے ہیں۔ دوسرے میں دمشق بلکہ شام کی سب سے اہم عبادت گاہ مسجد اموی میں جا کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں، اور تیسرے میں ایک بڑے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں، جب کہ وہاں صوفے موجود ہیں ۔ ہر جگہ وہ ایک ہی لباس پہنے تھے۔ شہروں میں داخل ہونے والی فوج کو حکم تھا کہ گولیاں نہ چلائیں، سرکاری دفتروں کے اندر نہ جائیں، دوسری طرف تمام سرکاری عملے کو بشار کے وزیراعظم جلالی سمیت یہ حکم تھا کہ آپ حسب سابق کام کرتے رہیں۔ چند دن بعد ادلب کے علاقے میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ کی برسوں سے چلنے والی حکومت کے وزیراعظم محمدالبشیراور ان کے ساتھیوں نے حکومت کا نظام یکم مارچ ۲۰۲۵ء تک کے لیے سنبھال لیا ۔ اس عرصے میں نیا آئین بنایا جائے گا، الیکشن ہو گا اور باقاعدہ حکومت بنے گی۔

اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے اسٹرے ٹیجک علاقے جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا، نیز شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز، بحری بیڑہ پر حملہ کر کے تقریباً ۸۰ فی صد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گئی ہے بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّعمل دینے کے لائق نہیں رہ گئی، اور نہ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں۔

نئی حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں: ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تضادات دوبارہ اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھa اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک تباہ حال اور معاشی طور پر غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ پھر سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس دولت اور اسلحے کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کرا سکتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں یعنی بشمول بعث پارٹی ، بشارالاسد کے لوگوں اور علویوں، سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی’ ہیئۃ تحریر الشام‘ کو ’ دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔

ساری عرب حکومتیں اس نئی حکومت میں مذہبی عناصر کے غلبے سے خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی، جیسے کہ وہ پہلے تیونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں، لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔

۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کے موقع پر شام میں بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ عدل و انصاف اور آزادی ہی تھا۔ یہ پُرامن مظاہرے تھے اور مظاہرین انتقالِ اقتدار کی روایت کو فروغ دینے اور معاشی آزادروی کا مطالبہ کررہے تھے ۔چنانچہ نہتے مظاہرین کے خلاف باقاعدہ آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ مظاہرین کو جیلوں میں ٹھونسنےکی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ مظاہرین کی گرفتاریاں جہاں اور بہت سے الزامات میں کی گئیں، وہاں ایک اہم ترین الزام جس کی سزا بھی انتہائی سخت تھی ،یہ تھا کہ قیدی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔گرفتار ہونے والوں کو کہیں دہشت گرد قرار دیا گیا اور کہیں غیر ملکی تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ حالات یہ تھے کہ اگر کوئی مظاہرے میں شریک ہوتا یا اخبار میں بیان دیتا، تو حکومتی آلہ کار اسے منظر عام سے غائب کر دیتے، پھر قیدی یا تو جان سے مار دیا جاتا یا کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا۔ جیلوں اور گرفتاریوں کے بارے میں شامیوں کا تجربہ بہت بھیانک تھا۔ تدمر اور صید نایا کی جیلوں میں جو بھی گیا، اس کا چہرہ ۲۰،۳۰ برس تک پھر کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

اخوان المسلمون سے تعلق کے جرم میں جو قید ہوتا، اس کے لیے نہ کوئی عدالتی شنوائی تھی، نہ اس کی اہل خانہ سے ملاقات ہو سکتی تھی، اور نہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی کا پتا چلتا تھا۔ اب تک دسیوں ہزار شامی باشندے ایسے ہیں جن کی کسی کو کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں، انھیں پھانسی دی گئی یا وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟

۲۰۱۲ء کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکمرانوں کا جبر جوں جوں بڑھا، نوجوان انقلابی مظاہرین میں مسلح جدوجہد اور تصادم کا نظریہ اُبھرا اور اُن فوجی جوانوں کے زیر اثر تیزی سے مقبول ہوا جو مسلح افواج سے یہ کہہ کر الگ ہو گئے تھے کہ ہم اپنے ہی لوگوں پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔

اب تک انقلابیوں کی سرگرمیاں مقامی نوعیت کی تھیں اور صرف اپنی گرفتاری اور ظالموں کے ہاتھوں اپنے آپ کو موت سے بچانےکے لیے تھیں۔ گویا ان کی سرگرمیوں کا کوئی متعین نظریاتی رُخ نہیں تھا۔ انقلابیوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے قصبوں ،محلوں اور دیہاتوں کو بشارحکومت سے آزاد کروانا شروع کیا۔ جو علاقہ آزاد ہو جاتا، وہ دوسرے آزاد علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے معاملات چلانا شروع کر دیتا۔ بشار حکومت نے جب دیکھا کہ لوگ اسلحہ اٹھانے لگے ہیں اور مسلح جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں، تو اس نے شام کے چند اہم علاقوں، دمشق، حمص، حماۃ کو چھوڑ کر باقی علاقوں ادلب ،حلب وغیرہ سے فوجی بندوبست ہٹالیا۔

انقلابی نوجوانوں میں روز بروز یہ یقین پختہ تر ہو رہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں سے چھٹکارا صرف مسلح جدوجہد اور لڑائی سے ہی ممکن ہے،سیاسی دباؤ اور ڈپلومیسی کوئی حل نہیں ۔

۲۰۱۲ء میں انقلابیوں اور حکومتی افواج کے درمیان حمص میں پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی، جس میں بشار الاسد کی توپ اور ٹینک بردار اور ازکار رفتہ بھاری روسی اسلحہ سے لیس حکومتی افواج کو منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجتاً، بشار الاسد نے ۲۰۱۳ء میں باقاعدہ طور پر لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اورایران و روس سے فوجی مدد مانگی ۔یوں شامی حکومت غیر ملکی فوجی مدد کےسبب انقلابیوں کو حمص شہر سے نکالنے اور انھیں شہر کے شمالی مضافاتی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوسکی۔

اب شام کی زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ دارالحکومت دمشق کا کچھ علاقہ جیسے غوطہ اور حماۃ کا کچھ علاقہ اور درعا کے کچھ حصےانقلابیوں کے کنٹرول میں تھے، جب کہ ان شہروں کے باقی حصوں پر حکومتی فوجی دستوں کا کنٹرول تھا۔ ملک کے دیگر تمام شہر یا تو مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں یا مکمل طور پر انقلابیوں کے کنٹرول میں جاچکے تھے۔حزب اللہ کی مداخلت کے بعد تنظیم القاعدہ اور تنظیم الدولۃ اسلامیۃ فی العراق والشام(داعش) کو بھی شام کے مسلح انقلابی گروپوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔

۲۰۱۴ء کے اختتام پر شام میں تین طرح کے مسلح گروپ برسرِپیکار تھے : ایران کے  حمایت یافتہ مسلح گروپ اور حکومتی فوجی دستے ، القاعدہ اور داعش کے نظریات کے حامل گروپ اور مسلح تنظیمیں، اورمقامی شامی مسلح گروپ جن کا مطمح نظر صرف اور صرف بشار حکومت کا خاتمہ تھا۔

۲۰۱۵ء کے آغاز میں ایک اور مسلح گروپ ’قسد‘ کا بھی اضافہ ہو گیا جو امریکی سرپرستی میں بیک وقت بشار الاسد حکومت، تنظیم القاعدہ و داعش کے نظریات کے حامل مسلح گروپوں ،اور مقامی انقلابی مسلح گروپوں، سبھی کے خلاف لڑرہا تھا۔ یہ بنیادی طور پر کرد مسلح گروپ پر مشتمل تھا۔

۲۰۱۵ء میں روس براہِ راست اس کش مکش میں شریک ہو گیا۔ اس کی فضائی بمباری، اور کمانڈو دستوں نے انقلابی مسلح گروپوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ۔ یوں بشار حکومت کو نہ صرف کچھ سانس لینے کا موقع ملا بلکہ اسے یہ حوصلہ بھی ہوا کہ وہ انقلابیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر دست درازی کرے۔

۲۰۱۳ء میں ہی تنظیم الدولۃ الاسلامیۃ اور جبھۃ النصرۃ کے قائد محمد الشرع الجولانی کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے اور یہ معاملہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے پاس گیا۔ انھوں نے محمد الجولانی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صرف اسی کے گروپ کو شامی حدود میں کارروائیوں کا مجاز قرار دیا۔

۲۰۱۶ء میں بشار حکومت نے ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے حلب شہر کو انقلابی مسلح گروپوں سے چھڑوا لیا تھا۔ عالمی برادری ۲۰۱۲ء میں جنیوا میں شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے کہہ چکی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ سامنے آئی جس میں جنیوا اعلان پر عمل درآمد کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی بات کی گئی تھی۔  اسی دوران وسطی ایشیائی ریاست کے دارالحکومت آستانہ میں علاقائی قوتوں ایران، ترکی اور روس کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ آستانہ مذاکرات کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں بشار حکومت کے علاوہ انقلابی مسلح گروپوں کو بھی باقاعدہ فریق کے طور پر شریک کیا گیا تھا ۔آستانہ مذاکرات کے دوران میں مختلف جنگی محاذوں پر فوجی کارروائیوں میں کمی کا بشار حکومت نے یوں فائدہ اٹھایا کہ فوج نے حمص کے انقلابیوں پر حملہ کر کے حمص شہر کو زیر کنٹرول لے لیا۔ اسی طرح دارالحکومت دمشق سے متصل غوطہ اور قلمون کے علاقوں پر بھی اپنا کھویا ہوا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔

  ۲۰۱۹ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک ’عالمی فوجی اتحاد‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد داعش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگی کارروائی کرنا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار حکومت نے بھی انقلابی مسلح گروپوں کے خلاف اور حزب اللہ اور روس کی مدد سے مسلح کارروائی تیز کر دی۔ عالمی اتحاد کی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰۱۹ء میں شام سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ ترکی نے بھی اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ موجود علاقوں پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے اسے کرد مسلح گروہ کے وجود سے پاک کر دیا۔

ابو محمد الجولانی – آپریشن ردع  العدوان کے روح رواں

ابو محمد الجولانی کا تعلق اسرائیل کےزیر قبضہ شامی علاقہ گولان ہائیٹس سے ہے ۔انھوں نے عراق میں القاعدہ کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ برسوں امریکی قیدی رہے ۔القاعدہ کے نظم سے مشورہ کرکے ۲۰۱۸ء میں شام میں ’جبھۃ النصرۃ‘قائم کی پھر اس کانام تبدیل کرکے ’جبھۃ فتح الشام‘ رکھا اور بالآخر اب ان کی تنظیم کا نام ’ھئیۃ تحریر الشام‘ہے۔ادلب کے علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۹ء میں یہاں ’حکومت انقاذ‘ قائم کی اور ’جامعہ ادلب الحرۃ‘ کی بنیاد رکھی ۔ ۲۰۲۰ء  کے بعد ’ھئیۃ تحریر الشام‘ نے ابو محمد جولانی کی سربراہی میں علاقے میں موجود دیگر مسلح تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم یا ختم کر دیا اور عملاً انھیں ایک ہی اسٹرےٹیجک کمان میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ’ادارہ امن العام‘ (پولیس فورس) قائم کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ادلب میں اعلیٰ معیار کے ایک ’آرمی ٹریننگ کالج‘ کی بنیاد رکھی، جہاں ساری مسلح تنظیموں کے ارکان تربیت حاصل کرنے لگے۔ اب تک اس کالج نے ۴۰۰ فوجی افسران کو تربیت دی ہے۔ یہی فوجی افسر حالیہ آپریشن ’ردع العدوان‘ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ نئے اسلحے کے حصول اور ترقی و ارتقاء پر بھی توجہ دی گئی، خصوصاً ڈرون فورس ’شاہین‘ تشکیل دی گئی۔ حالیہ برسوں میں، ’ھئیۃ تحریر الشام‘ کے قائد ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے تعلقات ختم کر دیے ہیں، سخت گیر عہدے داروں کو نکال باہر کیا ہے، اور تنوع اور مذہبی رواداری کو اپنانے کا وعدہ کیا ہے۔

آپریشن: ’ردع العدوان ‘

۸ دسمبر۲۰۲۴ء کو شام میں ایک غیر متوقع جنگی پیش رفت پر مبنی انقلاب نے ۱۹۷۰ء سے جاری اسدخاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔اس اچانک حملے کے دوران شامی انقلابی اپوزیشن فورسز نے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تیز رفتار پیش قدمی کی اور محض گیارہ دنوں میں دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی عوام مسجدوں میں نماز کے لیے جمع ہو گئے اور چوراہوں پر جشن منایا، ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے، اور بشار الاسد کے خلاف نعرے بازی کی۔ کچھ علاقوں میں جشن کے طور پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔فوجی اور پولیس افسران اپنی وردیاں چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔

اس سے ایک دن پہلے، اپوزیشن فورسز نے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر قبضہ کر لیا تھا۔ حلب اور حماۃ کے شہر پہلے ہی اپوزیشن فورسز کے قبضہ میں آچکے تھے۔ اس موقع پر عوامی جذبات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ بشار حکومت نے جو خوف اور دہشت مسلط کررکھی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ ہربڑے شہر میں قائم جیل کے دروازے ٹوٹ چکے ہیں اور جرمِ بے گناہی میں ماخوذ ہزاروں شامی قیدی رہا کیا جاچکے ہیں۔

صورتِ حال کے بارے میں اخوان المسلمون شام کے تازہ ترین بیان کو یہاں درج کیا جارہا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۝۰۠  ،ہم جماعت اخوان المسلمون شام ،ایک بار پھر اپنی قوم کو اس فتح و نصرت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ایک ایسے روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں جہاں آزادی اور شرفِ انسانی کی قدر ہو،نیز اس موقع پر زور دینا چاہتے ہیں:

۱- مجرم بشار الاسد کے آمرانہ نظام کی برطرفی بہت مشکل سے اور بے حساب قربانیاں دے کر حاصل ہوئی ہے۔ہمارے ذمے ہے کہ عدل اور قانون کی بالادستی پر مبنی ریاست قائم کرنے کے لیے یک آواز ہو جائیں۔ ملک کی تعمیرِ نو اس طرح کریں جہاں سارے شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

۲- ہم ،سیّد محمد بشیر کی قیادت میں قائم موجودہ عبوری حکومت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں اورشامی ریاست کی تعمیرِ نو کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں کھپادینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، اور ریاست کے قانون ساز ،انتظامی اور عدالتی اداروں کی تعمیر و تشکیل کے لیے ہرطرح کا تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں ۔

۳- جماعت اخوان المسلمون شام یہ سمجھتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت بنانے کا کہا گیا تھا، وہ قرارداد غیرمؤثر ہو چکی ہے کہ بشار الاسد کا نظام زمین بوس ہوچکا ہے۔ تاہم، ملک شام کے لیے نئے دستور اور آزادانہ نئے انتخابات کی ضرورت برقرار ہے ۔

۴- اخوان المسلمون اس موقع پر تجویز کرتی ہے کہ عبوری دور میں دستوری تضادات سے بچنے کے لیے اور جب تک کہ نئے دستور کی تشکیل کے لیے دستورساز اسمبلی وجود میں نہیں آجاتی، ۱۹۵۰ء کے دستور کو نافذ العمل قرار دیا جائے۔ دستور بنانے کے بعد قانون ساز اسمبلی اور صدارت کے لیے نئے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کروایاجائے۔

۵- سابقہ بعث پارٹی کے نظام میں شریک ان تمام لوگوں پر جن کے ہاتھ شامیوں کے خون سے آلودہ ہیں ،خواہ وہ لوگ شام میں موجود ہیں یا شام سے باہر ان مجرموں کوگرفتار کیا جائے ، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں۔

۶-ایک وزارت برائے لاپتا افراد وشہدا قائم کی جائے جو ان افراد کے حالات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرے جو لاپتہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کرے اور جو لوگ متاثرین ہیں ان کی دادرسی کرے اور ان کے خاندانوں اور وارثوں کو ان کا شرعی اور قانونی حق اور عوضانہ دلائے۔

۷-اسی طرح ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو صرف اور صرف شام کے لوٹے ہوئے اور یہاں سے لے جائے گئے مال و دولت کا سراغ لگانے اور شامی قوم کو اس کے اثاثے واپس دلانے کے لیے مختص ہو۔

۸-ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان تمام ظالمانہ ایمرجنسی قوانین کی تصحیح کرے جن کے ذریعے شامی باشندوں کی آزادیوں کی پامالی کی گئی اور نظریاتی وابستگی کو ان کا جرم بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ہر قسم کے مقدمات کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور یکسر موقوف کرے۔

۹- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں شام کے باشندوں کی سیکیورٹی ،اورامن عامہ کو یقینی بنا سکے اور اسی طرح ملک کی مسلح افواج کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ مسلح افواج وطن کی سرحدوں کی مؤثر حفاظت کر سکیں۔

۱۰- ایسے بین الاقوامی تعلقات قائم کیے جائیں جن کی بنیاد باہمی خیرخواہی اور منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو اور کسی بھی ملک کو داخلی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دینا ہی ریاستوں کے استحکام اور استقرار کی بنیاد ہے۔

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن اس حوالےسے ان کی ترجیح اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر ۲۰جنوری ۲۰۲۵ء کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ۸دسمبر ۲۰۲۴ء کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر سٹیووٹکوف نے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت بُرا دن ہوگا۔ دوسرے دن اسی پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔

اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان میں امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا، وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔ دوسری طرف شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ شام میں جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور ’جبل حرمون‘ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان ’جبل حرمون‘ کو ’جبل الشیخ‘ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن ۱۳ دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے ’جبل حرمون‘ میں تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی۔

۱۰مربع کلومیٹر کا یہ شام کا نہایت اہم دفاعی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے، وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام ’قنیطرہ‘ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھاکہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد ’قینطرہ‘ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دیں، قدیم درخت گرادیئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے ۱۰ ۱۰ میٹر بلندی پر واقع یہ خوب صورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ مزاحمت کار منظم ہوں گے۔

شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اُردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیبات پر کنکریٹ کے مضبوط مورچے (بنکر) تباہ کرنے کے لیے بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ ۱۴ دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں ۶۱ مقامات پر میزائل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے، ان کے دھماکے اتنا شدید تھے کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے ۳  درجہ شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمدالشرع المعروف ابومحمد الجولانی نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابلِ مذمت ہیں لیکن ہمارا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ بشار اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے، جب کہ متعصب عناصر شام میں تبدیلیٔ اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔ رہبر انقلابِ ایران علی خامنہ ای صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا 'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکا میں تیار گئی اور شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے۔

بلاشبہ اسد خاندان کے ۵۳سال کے جبر سے نجات پر عام شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت خانوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دُوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا ہے۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں ان کے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذاکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔

 گذشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔

موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے، جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے، لیکن ۱۳ دسمبر کو غروبِ آفتاب سے ۱۴ دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصرہسپتال پر بمباری سے ۳۶ بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (فلسطین اتھارٹی)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنادینے،  شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیرِزمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔

جہاں فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے لیے کمزور ہی سہی، لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز، شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارک باد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا :نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین ۷۰ برسوں میں نہ کرسکی‘‘۔

یہ اظہارِ بیان مغربی قیادتوں میں گہرے تعصب اور انسانیت کشی کی دلیل پیش کرتا ہے۔

چندماہ کے وقفے سے آزادکشمیر ایک بار پھر زوردار احتجاجی تحریک کے نعروں سے گونج اُٹھا۔اس بار اصل معاملہ بجلی اور آٹے میں رعایت (سبسڈی) کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے صدارتی آرڈی ننس کا تھا، جس کے تحت آزادکشمیر میں آزادیٔ اظہار پر زد پڑنے کا اندیشہ تھا۔ ’آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نے اس آرڈی ننس کو مستقبل میں احتجاج اور آزادئ اظہار پر پابندیوں کی پیش بندی قرار دے کر آزادکشمیر بھر میں عام ہڑتال اور آزادکشمیر کو پاکستان سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، اور ۵دسمبر کو آزادکشمیر کے طول وعرض سے ہزاروں افراد کے قافلے انٹری پوائنٹس کی طرف چل پڑے۔

اس بار حکومت آزادکشمیر نے ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کے مطالبات کو تسلیم کرکے احتجاج کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا۔حکومت نے صدارتی آرڈی ننس واپس لے کر دوسرے مطالبات کو بھی تسلیم کیا، جس کے بعد عوام کے قافلے واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔اپنی حساسیت،قومی منظر میں اپنی جدا گانہ اور منفرد حیثیت،۷۷ برس سے قائم ہونے والی اپنی شناخت کی مضبوط چھاپ، اوورسیز کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے باعث آزادکشمیر ایک دستی بم (گرنیڈ)ہے۔ مگر کچھ لوگ اس گرنیڈ سے فٹ بال کھیلنے کا شوق فرمانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں۔ابھی چند ہی ماہ پہلے بجلی اور آٹے کی سبسڈی کے نام پر ہونے والے پُرتشدد احتجاج پر سب سے مختصر اور جامع تبصرہ یہ تھا: ’لیسٹ بٹ ناٹ لاسٹ‘۔

آٹے اور بجلی کا تعلق معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات سے ہے تو آرڈی ننس کا تعلق عوام کے شعور کو محدود کرنے یا شعور کے اظہار کو زنجیر پہنانے سے ہے۔ یوں مختصر عرصے میں عوام کا ایک قوت اور سرعت کے ساتھ سراپا احتجاج ہونا بتا رہا ہے کہ معاملہ کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئے حساسیت اور ردعمل دکھانے کی صلاحیت کا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت نے کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرنا ہے جس کی پیش بندی کے طور پر لوگوں سے احتجاج اورفریاد کا حق چھینا جانا لازمی ہے۔حکومت آزادکشمیر نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرکے حالات کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا ہے۔

دُنیا بھر کی سیاست کی طرح آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات میں ایسی تبدیلی رُونما ہو چکی ہے، جو سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے پہلو بہ پہلو چلی آرہی ہے۔معاشرہ سوشل میڈیا کے باعث سیاست اور معاشرت میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی زد میں ہے۔ سری نگر میں دوعشروں سے سوشل میڈیا کے ساتھ در آنے والے رجحانات اپنا کرشمہ دکھاچکے ہیں۔ ان رجحانات کو طاقت سے دبادیا گیا ہے مگر سکون کی تہہ میں یہ جذبات اور رجحانات موج زن ہیں۔اب جدید ذرائع کے باعث پیدا ہونے والے یہ رجحانات آزادکشمیر میں اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسّی کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگلے مرحلے میں یعنی نوّے کی دہائی میں قوم پرست تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی اکثریت سیاسی پناہ کے لیے بیرون ملک چلی گئی۔ باقی جو روایتی جوڑ توڑ کی رسیا سیاسی جماعتیں بچ گئیں،  انھیں بدعنوانی کی ایسی فائلوں نے کھالیا جو لاٹھی پر رکھے مرے ہوئے سانپ کی طرح صرف ڈرانے کے کام آتی ہیں۔ ایک دوعشرے اس کامیاب’مینجمنٹ‘ کے باعث سکون اور سکوت میں گزر گئے۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی آمد کے اثرات نے خود آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دی اور یہاں کے عوامی رجحانات میں تبدیلی کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔

آزادکشمیر کی تمام قابل ذکر روایتی سیاسی جماعتوں کوحکومت کی ایک ٹوکری میں جمع کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں طاقت کا ایک خلا پیدا ہوتا جا رہا ہے اور اس خلا کو ایک غیر سیاسی قوت نے تیزی کے ساتھ پُر کرنا شروع کیا۔یہ قوت پہلے ’تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ تھی، مگر جب عوام اس کی جانب مائل ہونے لگے تو پھر اس کا نام ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ رکھ دیا گیا۔تب اس میں تاجروں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دوسرے طبقات بھی شامل ہونے لگے۔ صدارتی آرڈی ننس کا براہِ راست تاجر کمیونٹی سے تعلق نہیں۔ تاہم، پڑھے لکھے چند نوجوانوں سے خطرے کی گھنٹی بجاکر ہوشیار باش کردیا۔ ممکن ہے ایسے افراد کو انڈین قرار دے دیا جائے۔ تاہم، یہ معاملہ آٹے اور بجلی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اُوپر تلے ان دو احتجاجوں کی شدت، حدت، سنگینی،عوام کے موڈ اور مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کے لیے غور وفکر کا بہت سامان ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ باجوہ ’ڈاکٹرائن‘ کے تحت اسلام آباد کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کا انتظامی تیاپانچا کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اس کی شکل وصورت کیا ہوگی؟

اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں، مگر اس کی سب سے بدترین شکل جو بیان کی جا رہی ہے، وہ افواہ بھی ہوسکتی ہے یا پھر ذہن سازی کا افسوس ناک عمل بھی: آزاد کشمیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ یہ غلطی کی گئی تو یہ ایک تباہ کن ردعمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی:

  • اوّل:یہ کہ گذشتہ ۷۷ برس میں آزادکشمیر میں ایک قومی اورعلاقائی وحدت اورکشمیر ی یا ریاستی شناخت کا احسا س بہت گہرا ہو چکا ہے۔اس احساس کو اُجا گر کرنے میں آزادکشمیر کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کا گہر ا عمل دخل ہے، جس کے تحت آزادکشمیر کے خطے کا اپنا آئین، اپنا پرچم، اپنا صدر، وزیر اعظم اور سپریم کورٹ ہے۔آزادکشمیر کو متنازعہ رکھنے کی حکمت عملی نے یہاں کے عوام میں کشمیریت اور ریاستی ہونے کے جذبات کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ یہ جذبات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
  • دوم: آزادکشمیر کے لاکھوں لوگ بیرونی دنیا میں رہ رہے ہیں اور اس تعدا د میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کشمیر ی تارکین وطن نہ صرف زیادہ منظم بلکہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ ان میں ارکان پارلیمنٹ، بلدیاتی اداروں کے منتخب سربراہ اور کونسلر بھی ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سرگرم افراد بھی۔یہ لوگ باشعور بھی ہیں اور بااثر بھی۔ ان میں آزادکشمیر کا قوم پرست عنصر بھی شامل ہے اور عام لوگ بھی۔آزادکشمیر کے انتظامی مستقبل کے حوالے سے کسی غیر حکیمانہ فیصلے کے خلاف اس حلقے کی قوت میں اضافے کا باعث بنے گا۔

علامہ محمداقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہو تی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے ناواقف رہے تو وہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاریخ صرف فخر و مباہات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تاریخ سے درسِ بصیرت حاصل کرتے ہوئے آنے والے حالات کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ انڈیا کی تاریخ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتاسکیں کہ اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں نے کتنا اہم تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ اس خطۂ ارضی کو آزاد کرانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں نے ہی میرِ کارواں کا کردار ادا کیا ہے۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں ایک نمایاں نام ٹیپو سلطان کاہے۔ یہ وہ مجاہد ِآزادی ہے جس نے میدان جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کے لیے جان دے دی۔

  ٹیپو سلطان کو شہید ہوئے دو صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے آج تک زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ انصاف رسانی اور رعایا پروری کے جو نمونے ان کے دور میں نظر آتے ہیں اس کی نظیر اور مثال یہاں بہت ہی کم ملتی ہے۔ میسور کی وادیوں میں ٹیپو سلطان نے ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء میں ایک ایسے وقت آنکھ کھولی، جب کہ غیرمنقسم انڈیا میں انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ مقامی حکمران بھی انگریزوں سے سمجھوتے کر کے ان کے باج گزار بن چکے تھے۔ لیکن ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے طوقِ غلامی کو پہننے سے انکار کر دیا اور اپنے والدحیدر علی کے ساتھ میدانِ کار زار میں ڈٹا رہا۔ٹیپو سلطان وہ پہلا شخص تھا، جس نے برطانوی سامراج کے اقتدار کو انڈیا سے ختم کرنے کے لیے بیرونی ممالک اپنے سفیر روانہ کیے۔ اس نے نپولین بوناپارٹ سے بھی ربط پیدا کیا۔ نپولین نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنی افواج کو روانہ کرے گا، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بیرونی مدد کے نہ ہونے اور دیسی راجاؤں کی جانب سے بھی کسی حمایت کے نہ ملنے کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انگریزوں سے بر سرِ پیکار رہا، اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان نے ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو شہادت پائی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے کہ’’آج سے انڈیا ہمارا ہے‘‘۔ انگریزوں کا یہ خواب ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد واقعی پورا ہوگیا اور وہ قابض ہوگئے۔

 ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ اور سابق گورنر اڈیشہ پروفیسر بشمیرناتھ نے ٹیپو سلطان کے دور حکومت پر ریسرچ کر کے ثابت کیا کہ ان کا دور ہرلحاظ سے قابلِ تحسین رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب Islam and Indian Culture میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ جب ٹیپو سلطان نے برہمنوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا تو تین ہزار برہمنوں نے خودکشی کرلی۔ جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی‘‘۔

گاندھی جی نے بھی ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کا ذکر اپنے اخبارYoung India میں، مؤرخہ ۲۳جنوری۱۹۳۰ء کو کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنّا، سری نواس اور رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے‘‘۔

’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ کی رپورٹوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے میسور کے مختلف علاقوں کے مندروں کو نہ صرف عطیات دیئے، بلکہ جاگیریں بھی عطا کیں۔ وہ ہندو مذہبی پیشواؤں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مرہٹہ افواج نے سری نگری کے مندر کو لوٹا تو اس کے گرو نے ٹیپو سلطان کو خط لکھا: ’’مرہٹہ فوج نے مندر کو لوٹ لیا اور مندر کے ہاتھی اور گھوڑے بھی لے کر چلے گئے ہیں‘‘۔ اس خط کے جواب میں مؤرخہ ۳۰ مارچ ۱۷۹۱ء کو ٹیپوسلطان نے لکھا کہ ’’ہم ان دشمنوں کو ضرور سزا دیں گے جو ہمارے ملک پر چڑھائی کرکے رعایا کو ستا رہے ہیں۔ آپ اور دوسرے برہمن ملک کے دشمنوں کی تباہی کے لیے خدا سے دعا کریں‘‘۔

 بعد میں ٹیپو سلطان نے مندر کی حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ راما شیام سندر نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارت ٹائمز میں ۱۶نومبر ۱۹۸۵ءکو شائع ہوا، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام خطوط اور فرمان آج بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کے جگت گرو کا بھی ٹیپو سلطان بڑا خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے خط میں جگت گرو کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک خط جو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں بھی اصل عبارت میں نقل کیا ہے اور پروفیسر بشمیر ناتھ پانڈے نے بھی اپنی کتاب اسلام اینڈ انڈین کلچر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

 ایسے مایہ ناز فرزند کے کردار کو آج انڈیا میں مسخ کرنے کی منظم، مسلسل اور ہمہ پہلو کوشش کی جارہی ہے۔ تاریخ کی سچائیوں کو جھٹلا کر من مانی تاریخ وضع کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم سلاطین کو نشانہ بنا کر ان پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے ذہن میں مسلم سلاطین کی نسبت سے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ بی این پانڈے نے اسی سچائی کو بیان کرتے ہوئے ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا: ’’انگریز مؤرخوں اور استادوں نے جو کچھ پڑھایا، اس کے اثرات ہم اب تک دور نہیں کرسکے ہیں۔ اسی تاریخ سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمے کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘‘۔

 ایک اور معروف انڈین مؤرخ این سی سکسینہ نے اپنی کتاب Muslim India میں اس تلخ حقیقت کو منظرعام پر لاتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بدقسمتی سے اب تک بھارت کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان پر فرقہ وارانہ رنگ چھایا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بھری ہوئی ہیں‘‘۔

غیر جانب دار مؤرخین کی ان آراء سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں نے جو تاریخ بیان کی اسی میں اور کئی چیزیں بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے شامل کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔

بی این پی کی حکومت کے تحت انڈیا میں مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل حکومتی سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم حکمرانوں کے تعلق سے حقیقت سے بعید باتیں بیان کرکے ملک کے ایک خاص طبقے میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تاریخ میں زہرگھولنے کا یہ عمل اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں شروع ہو چکا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کے نام پر دیومالائی قصوں اور کہانیوں کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ملک کی کئی یونی ورسٹیوں بشمول عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد سے پوسٹ گریجویشن سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ سے مسلم دورِ حکومت کو نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب بھارت کے عہد وسطیٰ کی مسلم تاریخ ایک قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ یہ حقائق کو جھٹلانے اور علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔

مسلمانوں کی آئندہ نسلیں یہ جان بھی نہ سکیں گی کہ مسلمانوں نے اس ملک پر کتنے طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی۔ پورے ایک ہزار سالہ دور حکومت کو بیک جنبش قلم حذف کر دینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ٹیپو سلطان ہو کہ سراج الدولہ، اورنگ زیب ہو کہ بہادر شاہ ظفر، یہ اس ملک کے حکمراں رہے ہیں اور انھوں نے اپنے دورِحکومت میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، ان سب کو فراموش کرنا ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل اہل ہند کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عہدحاضر کے انصاف پسند مؤرخین جن میں بیش تر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب تسلیم کی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ گڈوانی کی کتاب کی بنیاد پر ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔

یاد رہے گڈوانی نے اپنی کتاب میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کے واقعات کو قلم بند کر کے آنے والی نسلوں کو یہ بتا دیا کہ ایک حریت پسند اور مذہبی روادار شخصیت کے کردار کو تنگ نظر تاریخ دانوں نے کیسے داغ دار کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کی ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر، جب کہ انڈیا ’ہندوتوا‘ کے نام پر ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ ملک کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں انصاف پسند محققین کے ساتھ خود انڈین مسلم دانش وروں کو بھی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تاریخی واقعات یا مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو بیان کرکے ہم ’سلطان پدرم بود‘ کی ذہنیت اپنے پر مسلط کرلیں تو یہ بھی کوئی دانش مندی نہیں، مگر حقیقتِ حال کو بیان نہ کرنا بھی مجرمانہ فعل ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے نام سے جو نظم لکھی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں، یہ نئی نسل کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے :

تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول

صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول

باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں مشیرِ قانون ڈاکٹر آصف نذرل نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’عوامی لیگ کے خون میں فسطائی صفات پائی جاتی ہیں‘‘۔ گذشتہ دنوں بنگلہ اکیڈمی میں منعقدہ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ ’’نہ صرف حالیہ جولائی اور ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کا قتل عام، بلکہ ۱۹۷۱ء کے بعد بھی عوامی لیگ نے جے ایس ڈی اور سربہارا پارٹی کے کارکنوں سمیت ہزاروں شہریوں کےخون سے ہاتھ رنگے تھے۔ سیکٹر کمانڈر میجر جلیل کی گمشدگی اور سراج سکندر کے قتل میں بھی عوامی لیگ ملوث تھی۔ اس سے بے شک و شبہ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عوامی لیگ کے خون میں فسطائیت کا زہر موجود ہے‘‘۔

موجودہ عبوری حکومت سے منسلک کئی دیگر نمایاں افراد بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ ڈاکٹر آصف کا ’بے شک و شبہ‘ کا یہ دعویٰ نہایت اہم حقیقت ہے۔ قانونی نظام میں ’بے شک و شبہ‘ کی اصطلاح یقین کی آخری حد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس بات سے مجھے عوامی لیگ کی کئی بدمعاشیاں یاد آتی ہیں، جن کا میں خود شاہد ہوں۔ ڈاکٹر آصف نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے، جو قیام بنگلہ دیش کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں انھیں ۱۹۷۱ء کی تحریک سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ عوامی لیگ کا جنم قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے کی بات ہے۔

عوامی لیگی ارکان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان اسمبلی کے نائب اسپیکر شاہد علی پٹواری کا قتل تو میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے، لیکن خود میں نے اپنی جوانی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہاکیاں، ڈنڈے اور آہنی سریے اٹھائے دہشت پھیلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ تب اسے ’مشرقی پاکستان چھاترو لیگ‘ (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ: EPSL)کہا جاتا تھا۔ ان دنوں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ وہاں پر این ایس ایف کو سپورٹ کرتی تھی جو کالجوں اور جامعات میں پھیلی ہوئی ایسی ہی ایک اور بدمعاش جماعت تھی۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مشرقی پاکستان چھاترو یونین (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین:EPSU، ایک اتحادی کی طرح) این ایس ایف اور دوسری طلبہ تنظیموں سے نپٹنے میں مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی مدد کرتی تھی۔

۱۹۶۹ء کے شروع میں ایوب خان کے خلاف ایک بڑی مہم شروع ہو ئی۔ اگرچہ مشرقی پاکستان چھاترا یونین اور مشرقی پاکستان چھاترو لیگ اولین صفوں میں تھیں، لیکن حزب اختلاف کی دیگر تمام جماعتیں بشمول روایتی مسلم لیگ (تب کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی)، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، دیگر چھوٹی جماعتیں اور عوامی لیگ بھی اس میں شامل تھیں۔ میں اپنے آبائی شہر میں اس تحریک کے جلسوں کا حصہ بنا کرتا تھا، لیکن وہاں چھاترو لیگ اور چھاترو یونین کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں سے متفق نہیں تھا۔ ایک نعرہ ’لگائو لگائو، آگ لگائو‘ بھی تھا۔ یہ تحریک آج کل کی تعریف کے مطابق بظاہر پُرتشدد تو نہیں تھی لیکن پُرامن بھی نہ تھی۔ ایوب مخالف تحریک کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری صفوں میں موجود کئی نامعلوم اور گمنام لوگ مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کے اہم رہنما بن گئے۔

اس کے بعد جنرل یحییٰ خان کی حکومت آئی، جو مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش دے گئی۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات صاف شفاف تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان میں موجود مارشل لا حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۷۰ء میں پوری انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈے خوف کی فضا پیدا کرکے حزبِ اختلاف کی ریلیوں اور جلسوں کو خراب کرتے رہے۔ ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کر کے دو افراد کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی اس جلسے سے خطاب کرنے والے تھے، لیکن عوامی لیگ سے وابستہ کارکنوں اور طلبہ نے باقاعدہ میدان پر ہلہ بول دیا۔ حکومت اور عوامی لیگ دونوں اس جارحیت میں شامل تھے۔ ایک خاموش مددگار، دوسرا حملہ آور، یہی صورتِ حال پوری انتخابی مہم کے دوران جاری رہی۔

وقت کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کا فسطائی کردار اور واضح ہوتا گیا۔ انتخابات کے روز ۷دسمبر۱۹۷۰ء کو مشرقی پاکستان کے کئی علاقوں میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی مراکز میں بھی بطورِ پولنگ ایجنٹ بیٹھے تک نہ دیا۔ یک طرفہ من مانی کے انتخابات جیتنے کے بعد مزید ماردھاڑ کی گئی۔ اگرچہ یکم مارچ ۱۹۷۱ءکو جو ظلم کی سیاہ رات شروع ہوئی، اس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہے لیکن عوامی لیگ کے بنگالی بدمعاشوں نے جس طرح صورتِ حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور مسلح افواج کے غیر بنگالی اہلکار اور ان کے بیوی بچّے آسان ہدف تھے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے کئی افراد کو بے دردی سے ذبح کیا گیا۔ جنسی بے حُرمتی کی گئی، لاشوں کے ٹکڑے کیے گئے۔ بہت سی جگہوں پر بہاری بھی ہدف قرار پائے۔ تباہ حال شہری انتظامیہ مکمل ناکام ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کے حوالے کر دیا گیا۔

۲۵مارچ کو فوج نے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع کیا تو یہ خانہ جنگی، ’جنگ آزادی‘ میں بدل دی گئی۔ بہت سے بہاری خاندان اس نسل کشی کا نشانہ بن گئے جو مارچ ۱۹۷۱ء میں شروع ہوئی اور نو مہینے کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی جاری رہی۔ ایسی کئی لرزہ خیز کہانیاں ہمیں عظمت اشرف کی کتاب Refugee  اور قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears میں  ملتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشیرقانون ڈاکٹر آصف نذرل قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے اور فوراً بعد عوامی لیگ کی غنڈا گردی سے واقف ہیں یا نہیں۔

اسی پس منظر میں ہم اس سلوک کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جس کا ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد کچھ بنگالی بولنے والوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان لوگوں میں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کا نام نمایاں ہے۔ مولوی فرید احمد جو ایک بڑے عالم اور رکن پارلیمنٹ بھی تھے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سنگسار کر دیے گئے۔ پروفیسر سجاد حسین کو مُردہ سمجھ کر گلستان سینما ہال کے سامنے پھینک دیا گیا، لیکن وہ بچ گئے اور انھوں نے اپنی کتاب The Waste of Time بھی لکھی۔

عوامی لیگ اور اس کے حامیوں نے بنگلہ دیش کی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ میں نے یونی ورسٹی کی سطح پر تیس سال تک تاریخ پڑھائی ہے لیکن میں نے کسی علاقے کی تاریخ میں ایسی تحریف اور حقائق کی پامالی نہیں دیکھی جو ہمیں بنگلہ دیش کی تاریخ میں ملتی ہے۔ اس لیے پُرزور تجویز پیش کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت تاریخ کے نصاب کو اَزسرِ نو مرتب کرے۔ حال ہی میں عوامی لیگ کے نام نہاد طلبہ ونگ چھاترو لیگ پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن اگر اس کی خاطر خواہ وجوہات پیش نہ کی گئیں تو یہ قدم الٹا نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ایسا نصاب جو منطقی و عقلی بنیادوں پر بنگلہ دیش چھاترو لیگ اور اس کی پیش رو مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی تاریخ پیش کرے، ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال عوامی لیگ کے مستقبل کا ہے، قدرتی طور پر حالات اس انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ شیخ حسینہ کی حکومت اپنے فسطائی رویے کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کے باعث رخصت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو تمام ’فسطائی خصوصیات‘ کا مظاہرہ کرنے پر قصوروار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کی فی الحال ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کا کیا کیا جائے؟ کیا اس پر باقاعدہ پابندی لگا دی جائے؟ اگرچہ ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے عوامی لیگ پر پابندی کی مخالفت کی ہے، حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ جیسے فاشسٹ اور کرپٹ ٹولے کو بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی کا کوئی حق حاصل نہیں۔

چنانچہ اس صورتِ حال میں عوامی لیگ کا مستقبل کیا ہونا چاہیے؟

ہم اپنے تاریخی شعور سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دنیا کے دوسرے ممالک نے فسطائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ جرمنی نے جنگ کے بعد ہٹلر کی ’نازی پارٹی‘ پر پابندی لگا دی تھی۔ اٹلی نے بھی اپنی ’نیشنلسٹ فاشسٹ پارٹی‘ کے ساتھ یہی کیا تھا۔ ان ممالک نے تعلیمی اصلاحات، عدالتی فعالیت اور قانونی طریقوں سے آمریت کی واپسی کا دروازہ بھی بند کردیا۔ بنگلہ دیش کا المیہ یہ ہے کہ ’جولائی اگست ۲۰۲۴ء کے طلبہ انقلاب‘ کے بعد عبوری حکومت کے چند سرکردہ رہنماؤں کا موقف یہ تھا کہ ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین درکار ہے، چنانچہ انہوں نے اسی دستور کے ساتھ جڑے رہنے کا فیصلہ کیا، جسے استعمال کر کے عوامی لیگ نے اپنی فسطائی حکومت قائم کی تھی۔ انھیں یہ احساس نہیں ہو سکا کہ یہ آئین خود ’غیر آئینی‘ ہے۔

انقلاب نے اس کے جواز پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا ملکوں کو چلانے کے لیے آئین ضروری بھی ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی باقاعدہ دستور کے بغیر چل رہے ہیں۔ ان کا کام شہریوں کے درمیان اتفاق رائے سے چلتا ہے۔ فرانسیسی مفکر ژاں ژاک رُوسو (م:۱۷۷۸ء)نے اس اتفاق رائے کو ’اجتماعی امنگ‘ کا نام دیا ہے۔ کیا بنگلہ دیشیوں کے ہاں اس وقت ایک اجتماعی امنگ موجود ہے؟ اس کا جواب ہے: ’’بالکل موجود ہے‘‘۔ طلبہ نے انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کچھ مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔ لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ حکومت ان مطالبات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، تو انہوں نے حکومت کی رخصتی کو ہی اپنا واحد مطالبہ بنا لیا۔ ساری قوم طلبہ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور انقلاب کامیاب ہو گیا۔ یہ کامیابی انقلابِ فرانس سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی۔ اتفاق سے فرانس کا انقلاب بھی جولائی اگست ۱۷۸۹ء میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک اجتماعی امنگ موجود نہیں؟ طلبہ کے تمام ابتدائی مطالبات کو نئے دستور کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اجتماعی امنگ پوری آبادی کی اُمنگوں کا نام نہیں اور نہ یہ اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ پوری آبادی کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے‘‘۔

چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کے ’ادارہ برائے انسانی حقوق‘ (UNHR)کے سربراہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انصاف کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے، اس میں تمام ہلاک شدگان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کو شامل ہونا چاہیے‘‘۔ کیا ان کا اشارہ عوامی لیگ کے ارکان کی جانب ہے، جن میں سے کچھ واقعی جولائی اگست میں تشدد کا نشانہ بنے؟ کیا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی تکثیریت کے نام پر عوامی لیگ کے غنڈوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے؟ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال کو سب سے زیادہ ہیجان خیز قرار دیا ہے۔ یقیناً ایسی صورتِ حال کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، لیکن عوامی لیگ کی فسطائیت کا بندوبست کیے بغیر موجودہ انتظامیہ کبھی بنگلہ دیش کو مستحکم نہیں کر سکے گی۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں فسطائیت کے خلاف کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے مکمل ہوا ہے؟

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’فسطائیت عوامی لیگ کے خون میں شامل ہے‘‘۔ تو کیا ہمیں عوامی لیگ سے اس لیے کوئی امتیازی سلوک کرنا چاہیے کہ یہ تحریک ایک زمانے میں بہت مقبول رہی ہے؟ یہاں ایک دفعہ پھر ہم جرمنی کی مثال لیتے ہیں۔ ہٹلر جمہوری طریقے سے کھلے عام، پاپولر ووٹ لے کر اقتدار میں آیا تھا اور اسی نے پہلی جنگ ِ عظیم کے تباہ شدہ جرمنی کو مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ پھر اس نے بڑی محنت سے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی کو ایک طاقتورملک بنا دیا۔ انھی حیران کن اور قابلِ رشک کامیابیوں نے اس کے دماغ میں وہ ہوا بھر دی کہ اس نے نہ صرف جرمنی میں اپنی آمریت قائم کر لی، بلکہ وہ باقی دنیا کو بھی اپنے زیر نگیں لانا چاہتا تھا۔ تاہم، دنیا نے ان کامیابیوں کے باوجود ہٹلر کو معاف نہیں کیا۔

اس وقت سب سے بڑا کام اجتماعی امنگ اور ایک مقبول رہنما کی اُمنگوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا ہے۔ رُوسو کے بقول احتساب، انسانی وقار کا احترام، شفافیت اور سیاسی شمولیت اس اجتماعی امنگ کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی لیگ نے اپنی عمر کے تقریباً ستّر برسوں میں ان خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ جواب ہے: ’’ہرگز نہیں، بلکہ اسی میں ناکامی کے باعث طلبہ اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اجتماعی اُمنگوں کو بروئے کار لانے کے لیے پوری کوشش کرے‘‘۔

اس امر کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں کہ راندۂ درگاہ عوامی لیگ کے بدمعاش، موجودہ حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’آزادی رائے کی جمہوری روایت کا احترام کیا جائے‘‘ لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوری روایات کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ یہ صورتِ حال موجودہ حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہمارے شعور کے مطابق عوامی لیگ پر پابندی لگانا جمہوری روایات کا تقاضا ہے۔ ملک میں انصاف کی حکمرانی اور عوامی لیگ کی آمریت کے خلاف جانیں دینے والوں کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو ایسا قدم اٹھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

غزہ ۴۰ ملین ٹن ملبے کا ڈھیر ہے۔ ۱۰۰ بڑے ٹرالر اگر اس ملبے کو ہٹانے پر لگائے جائیں تو انھیں ۱۵ سال لگیں گے۔ غزہ کی پٹی میں چاروں طرف اسرائیلی جارحیت کے سبب تباہی و بربادی اور موت کا راج ہے۔ تاہم، اسرائیل اور اس کے حواری ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد اپنی وحشت، درندگی اور خون آشام صہیونیت کے دفاع میں ایک بار پھردنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی تحریک مزاحمت کے پاس غزہ کی ریت اُڑاتی سر زمین پر ’مشرق وسطیٰ کے سنگاپور‘ کی تعمیر کا پورا موقع موجود تھا، جو اس نے اپنی نااہلی کی بدولت کھو دیا ہے۔

فی الحقیقت یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، جسے اسرائیل اور اس کے حواری اپنی پروپیگنڈا مشین کے زور پر چند عشروں، خصوصاً اوسلو مذاکرات کے بعد سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اسرائیل ابتدا ہی سے اقتصادی طور پر ’مضبوط غزہ‘ کے خلاف تھا اور ہمیشہ سے اس کی کوشش رہی کہ غزہ کو اقتصادی طور پر تباہ حال رکھے۔ کبھی اس قابل نہ ہو نے دے کہ یہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیش خیمہ اور نقطۂ آغاز بن سکے ۔ مکار اسرائیلی پالیسی ساز ایک طرف عالمی برادری کے سامنےیہ راگ الاپتے رہے کہ غزہ ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘بن سکتا ہے ، تو دوسری طرف اپنی نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے اور خوشیاں مناتے رہے کہ ہماری سازشوں کے نتیجے میں غزہ مالی بحرانوں کی دلدل میں دھنسے چلے جارہا ہے اور ہمیشہ اسی دلدل میں غرق رہے گا۔

کیا اسرائیل کے ہوتے ہوئے غزہ فی الواقع مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا تھا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ۷؍ اکتوبر سے قبل کی اسرائیلی پالیسی کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جب غزہ میں حماس انتظامیہ کا وجود ہی نہیں تھا۔

مشرق وسطیٰ میں سنگاپور کے قصے کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب جنوری ۱۹۸۸ ءمیں امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان تھا: ’ریاست غزہ، جو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا ہے‘۔ مضمون نگار مارٹن گوتھرمین نے اپنے مضمون میں یہ تصور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں ایک علیحدہ آزاد اور مستقل ریاست قائم کر دی جائے۔ مصنّف کےخیال میں مجوزہ ریاست کے پاس ممکنہ طور پر وہ سارے امکانات ا ور وسائل موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بناسکتے ہیں۔ گوتھرمین وہ پہلے فردہیں جنھوں نے غزہ کو ’سنگاپور‘سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ، سنگاپور کی ڈٹو کاپی بن سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی قبضہ کے زیر سایہ ان کا یہ خیال ایک ایسا خواب تھا جسے دور کی کوڑی ہی کہا جاسکتا ہے۔

صورت حال یہ تھی کہ غزہ اُس وقت عملاً اسرائیلی ظالمانہ قبضہ کے تحت جی رہا تھا اور فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی انتظامیہ کے مابین مذاکراتی عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار تھا۔ ۱۹۹۱ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں پر اس وقت عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا، جب اس نے وہ عمومی پاس منسوخ کر دیا جو مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کو اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں آنے جانے کے لیے نسبتاً آزادی فراہم کرتا تھا۔ اب ہر فرد کو خوب چھان پھٹک کے بعد ہرمرتبہ نیا پاس حاصل کرنا ہوتا۔

۱۹۹۳ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کردیں، تاہم یہی وہ برس تھا جب غزہ اور سنگاپور کا نام ایک بار پھر شد و مد سے لیا جانے لگا۔ لیکن اس بار ’مشرق وسطیٰ کے سنگا پور‘ کی یہ اصطلاح مشرق وسطیٰ میں نہیں، اوسلو معاہدے کے مذاکرات کاروں کے مابین سننے کو مل رہی تھی۔ فلسطینی سیاسی رہنما مرحوم شفیق الحوت اپنی ڈائری میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی سے اپنے استعفا کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوسلومعاہدے کے نتائج اور مضمرات سے میں متفق نہیں تھا، لہٰذا میں نے استعفا دینے اور صدر یاسر عرفات کو ان کے منافق مشیروں کے نرغے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہ غزہ کی ریت اور مغربی کنارے کے ٹیلوں پر ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ تعمیر کرتے رہیں‘‘۔ یوں شفیق الحوت اور ان جیسی سوچ رکھنے والے دیگر لوگ استعفا دے کر ایک طرف ہوگئے اور ستمبر ۱۹۹۳ء میں صدر یاسر عرفات کی زیر صدارت فلسطینی انتظامیہ نے امریکی صدر کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کی موجودگی میں اوسلو معاہدے پر دستخط کر دیے۔

غزہ اریحا معاہدہ

۱۹۹۴ء میں طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں میں جہاں دیگر بہت سے امور پر بات کی گئی تھی، وہیں اسرائیل نے اپنی سخت نگرانی اور کنٹرول میں غزہ کے لیے بندرگاہ اور ایئرپورٹ کے قیام کی اجازت دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اسے گویا غزہ کو سنگاپور بنانے کی طرف اولین عملی قدم کہا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۹۶ء میں غزہ ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز ہوا،جسے عرب اور مغربی ممالک مل کر اسپانسر کر رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اپنی زوجہ ہیلری اور دیگر ہمراہیوں کے ساتھ اسی غزہ ایئرپورٹ پر اُترے جہاں صدریاسر عرفات نے ان کے ساتھ مل کر غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاحی فیتہ کاٹا۔ تاہم، غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بنے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیلیوں کو اس کا وجود کھٹکنے لگا اور ۲۰۰۱ء میں انھوں نے بمباری کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔

غزہ کی بندرگاہ کا نصیب بھی غزہ ایئرپورٹ سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۰ء میں اس پر ابتدائی کام کا آغاز ہوا اور تین ماہ بعد ہی ستمبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے اب تک تعمیر ہونے والی اس کی مرکز ی عمارت اور اس کے ساتھ بننے والی دیگر عمارتوں کو اُڑا کر ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی بدترین حالات ابھی غزہ کے تابناک مستقبل کی گھات میں بیٹھے تھے۔ جون ۲۰۰۴ء میں اسرائیلی کابینہ نے یک طرفہ طور پر غزہ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ نے بھی اس پلان کی منظوری دے دی۔ سازشی پلان کے مطابق غزہ کی پٹی میں واقع ۲۱؍ اسرائیلی نوآبادیوں کوخالی کردیا گیا،جب کہ مغربی کنارے میں آباد صرف چار نوآباد یہودی بستیاں خالی کی گئیں۔یوں غزہ صہیونی وجود سے مکمل طور پر خالی ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی بری، بحری، اور فضائی ناکہ بندی اور محاصرے کو شدیدتر کردیا۔

یہ امریکا میں صدر بش کا دورِ صدارت تھا اور وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی اس وقت ایک ایسے الیکشن کی ضرورت تھی، جس سے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے ان کی اپنی منتخب کردہ سیاسی قیادت سامنے آتی ۔چنانچہ غزہ سے آخری صہیونی نوآباد کار کے نکلنے کے ٹھیک چار ماہ بعد، جنوری ۲۰۰۶ء میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ’فلسطینی قانون ساز اسمبلی‘ 'کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں نمایاں ترین دو پارٹیاں تھیں: تحریک الفتح اور حماس۔ حماس نے قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان انتخابات کو مشرق وسطیٰ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا تھا ۔ بعدازاں قانون ساز اسمبلی نے فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم فلسطین کے منصب کے لیے اسماعیل ھنیہ شہید کو منتخب کرلیا اور وہ فلسطینی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ امریکی و صہیونی انتظامیہ دونوں کے لیے شدید صدمے کا باعث تھا۔ انھیں ہر گز توقع نہیں تھی کہ حماس یہ انتخابات جیت جائے گی اور اپنا وزیر اعظم منتخب کر لے گی۔ چنانچہ حماس حکومت کے خلاف بیک ڈور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔

 پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے حماس کی جیت کے بعد وہاں کی صورتِ حال کو ’ہولناک صدمہ‘ سے تعبیر کیا۔پینٹا گون میں ہر کوئی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا رہا تھا اور سبھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ فلسطینی قانون ساز اسمبلی کےانتخابات اور ان کے نتیجے میں نمائندہ فلسطینی انتظامیہ کے قیام کی تجویز آخر پیش کس نے کی تھی؟

حماس کے زیر انتظام غزہ کی اصل مشکلات کا آغاز اس چار ملکی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شروع ہوا، جس نے حماس کے سامنے شرمناک اسرائیلی شرائط پیش کرنا شروع کیں۔ شرط یہ تھی کہ ’’حماس مسلح مزاحمت ترک کرے، اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کرے، اور غیر منتخب تحریک فتح کی جانب سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو من و عن تسلیم کرے‘‘۔

دوسری طرف تحریک الفتح کی طرف سے بھی نومنتخب حماس حکومت کو منتقلیٔ اقتدار کے سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا ۔منتخب اسمبلی وجود میں آنے اور منتخب وزیر اعظم کے منصب سنبھال لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے منصب داروں کو اقتدار منتقل کردیا جاتا، اور مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا، مگر تحریک الفتح کی طرف سے منتقلیٔ اقتدار کے اس عمل میں ہر آن رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ آخرکار ۲۰۰۷ء میں حماس کو اس مسئلے سے خود ہی نبٹنا پڑا، اور غزہ کا مکمل انتظام و انصرام ا س نے سنبھال لیا۔ غزہ کے مکمل محاصرے کا عمل تو اسرائیل نے حماس کے الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا، لیکن جولائی ۲۰۰۷ء میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھالنے کے بعد یہ محاصرہ شدید تر کر دیا گیا۔

 ستمبر ۲۰۰۷ء میں صہیونی حکومت نے غزہ کو ’دشمن سرزمین‘ قرار دے دیا، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اب غزہ کو خوفناک اقتصادی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اسرائیل نے یکے بعد دیگرے وہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں، جن کا بنیادی مقصد غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا اور پیداواری صلاحیت کو محدود تر کرنا،صنعت و تجارت کو تباہ کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اہل غزہ غربت اور بدحالی سے تنگ آ کر خود حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے نقش قدم پر چل نکلیں، جو نسبتاً خوشحالی سے بہرہ مند تھے اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دراصل اہل غزہ کو حماس کو ووٹ دینے کی اجتماعی سزا دی گئی تھی۔

عائد کردہ اقتصادی پابندیوں میں غزہ میں آنے والے سامان کی نقل و حمل، اس کی مقدار اور حجم کو محدود کرنا، ایندھن اور بجلی کی سپلائی محدود کرنا، اور غزہ آنے جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ ظالمانہ اسرائیلی پالیسی اور اس کے پیچھے کار فرما سوچ اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آگئی، جب ۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو تل ابیب میں امریکی سفارت خانے نے اپنی وزارتِ خارجہ کو ایک برقیہ بھیجا، جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عام ہوا۔ برقیے کے مطابق اسرائیلی انتظامیہ نے ایک سے زائد مرتبہ امریکی سفارت خانے کے اقتصادی امور کے انچارج سے کہا تھا کہ ’’غزہ کی ناکہ بندی کی یہ پالیسی ہمارے جامع معاشی منصوبہ کا حصہ ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ غزہ کی معیشت ہمیشہ دیوالیہ پن کے کنارے پر رہے، مگر مکمل طور پر تباہ نہ ہو‘‘۔

در اصل اسرائیل چاہتا تھا کہ غزہ کی معیشت کام تو کرتی رہے مگر اپنی صلاحیت کے ادنیٰ ترین درجے پر، تاکہ کوئی بڑا انسانی بحران پیدا نہ ہو۔ غزہ پر بھوک مسلط رکھنے کی اس پالیسی کی کچھ تفصیلات جون ۲۰۰۹ء میں اسرائیلی اخبار ہاریٹس' نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیں۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے والی غذائی اجناس میں موجود کیلوریز تک کا حساب کتاب رکھتی تھی۔

بدترین پہلو اس پالیسی کا یہ تھا کہ غزہ میں بس اس قدر غذا فلسطینی باشندوں کے لیے داخل ہونے دی جائے جس سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل نے غزہ کی معیشت کو تباہ کیا۔ ایک طرف اس کی پیداواری صلاحیت کو محدود اور ختم کیا اور دوسری طرف غزہ کے باشندوں کی زندگی کو اجیرن کیا۔ سروسز سیکٹر اس سے پہلے ہی اسرائیلی پابندیوں اور عقوبتوں کی نذر تھا ۔

۲۰۱۵ءمیں ایک رپورٹ نشر ہوئی تھی، جس کا عنوان ’فلسطینی و اسرائیلی اقتصادی تعلقات‘ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء سے ایک برس قبل ہی فلسطینی معیشت کو تباہ کیا جا چکا تھا۔۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’آنے والے آٹھ برسوں میں خصوصاً ۲۰۲۰ء تک اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ‘‘۔

اس تباہ کن صورتِ حال کا سبب اسرائیل ہمیشہ یہی بتاتاآیا ہے کہ ’حماس‘ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور غزہ کے باشندے حماس حکومت کے زیرانتظام خوش حال زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقتاً غزہ کی لب ِگور معیشت کو اسرائیلی مکار کاریگروں نے کچھ اس طرح سے انجینئر کیا تھا کہ غزہ گھٹنوں کے بل جھک جائے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے۔ اسی سیاق وسباق میں القدس بلدیہ کے اسرائیلی نائب چیئرمین میرون بینیفیستی کا وہ بیان قابل توجہ ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ :’’غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا فلسطینی معیشت کو کمزور کرنے کی کنجی ہے اور اسی طرح فلسطینی ریاست اور قیادت کو عمومی طور پر کمزور تر کیا جا سکتا ہے‘‘۔

اسرائیل کی طرف سے آخری برسوں میں اٹھائے گئے اس سلسلے کے تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اٹھانے اور اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی اس کی نہ کوئی نیت تھی، اور نہ کوئی ارادہ تھا کہ غزہ کی معاشی صورت حال بہتر ہوسکے۔ مزاحمت نہ ہو تو غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ بنادیں، یہ محض اس کا ایک پروپیگنڈا ٹول اور جھوٹا خواب تھا، جو اسرائیل کبھی اوسلو مذاکرات کی ٹیبل پر اور کبھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں فلسطینی باشندوں اور دنیا کو دکھاتا رہا تھا۔

جولائی ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے صہیونی وزیر دفاع افیغدور لیبرمین اپنے ایک بیان میں اسی تاریخی سفید جھوٹ کو پھر دُہرا رہے تھے کہ ’’اسرائیل غزہ کو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بننے میں اس کی مدد کر سکتا ہے شرط بس یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مزاحمت سے دست کش ہو کر حماس حکومت کا خاتمہ کردیں‘‘۔

اسرائیلی دانش ور ماہر لسانیات تانیہ رائنہارٹ کے مطابق اسرائیل اگر مغربی کنارے کو ضم کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی صورت بھی غزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔دراصل اسرائیل کامقصد ہے بھی یہی۔ اس لیے کہ غزہ کو اگر آزاد چھوڑدیا گیا تو وہ عالم عرب سے براہِ راست تعلقات قائم کرلے گا اور یوں وہ صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن جائے گا۔ اسرائیلیوں کا پختہ خیال ہے کہ غزہ کو کسمپرسی کی حالت میں رکھ کر وہ در اصل اس ممکنہ مزاحمتی تحریک سے نبٹ رہے ہیں، جو مغربی کنارے کے مکمل انضمام کے نتیجے میں پھوٹنے کا احتمال ہے ۔

اسرائیل نے غزہ کو موجودہ حالت میں محصور رکھ کر جھکانے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں نمایاں ترین اس کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا، جغرافیائی طور پر تنہا رکھنا اور مادی طور پر تباہ حال رکھنا شامل ہیں ۔

’ طوفان الاقصیٰ ‘سے قبل غزہ میں بے روزگاری کی شرح ۵۰ فی صد تھی اور ان نوجوانوں میں  جن کی عمریں ۱۵ سے ۲۹سال ہیں، بے روزگاری کی یہ شرح ۶۲ فی صد تھی۔ غزہ کی ۸۰فی صدآبادی کا ، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے عالمی خیراتی اداروں کی امداد پر تکیہ تھا۔ ۲۳ لاکھ سے زیادہ بنی آدم ایک ایسی محصور جگہ میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے اوّلین روز سے ہی اسرائیلی ناسور کا اصل ہدف یہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور یہاں کے باشندوں کو ہجرت کرجانے پر مجبور کردے، یا انھیں اتنا دبا لیا جائے کہ ان طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا تا اَبد خطرہ باقی نہ رہے۔ غزہ کی موجودہ جنگ اسی کا تسلسل ہے۔

جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات شہاب نامہ کے مطالعے سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کو جاننے اور پرکھنے کاموقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب رائے عامہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ریاض صاحب کو پاکستان کے چار وزرائے اعظم: میاں محمد نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دو اَدوار میں انھی کو پریس سیکرٹری کے لیے منتخب کیا۔

خبروں کے مرکز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین عشروں تک میرے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک وہ پاکستان ہائی کمیشن میں ’پریس منسٹر‘ رہے۔چونکہ بھارتی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبروں کو کور کرنا، اور انڈیا میں چاہے کہیں تشدد کا واقعہ ہو، بم دھماکا یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہوتا ہے اور اس شکل میں پاکستانی ہائی کمیشن کا وجود اور پریس منسٹر توانتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے: ’’یہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی طلب ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔ اس لیے اس فرد کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری تھا۔

مئی ۱۹۹۵ء کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد ہ سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ اُنھوں نے مجھے ہدایت دی کہ پاکستانی صدر سردارفاروق خان لغاری کے ہمراہ آنے والے میڈیا وفد پر نظررکھوں اور اگر پاکستانی وفد کوئی بریفنگ دیتا ہے تو ان کے مندرجہات سے فوراً ان کو مطلع کروں۔ دہلی میں ان دنوں روزنامہ جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو عبدالوحید حسینی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔پھر کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر The Nation کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی صاحب بہت شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کی پیش کش کر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرر کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار ’جموں و کشمیر حُریت کانفرنس‘ کے لیڈروں سے پاکستان ہائی کمیشن میں اس وقت کے سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ یوں ۲۰۰۲ء تک میرا دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر ڈیلی ٹائمز اورفرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ بعد میں کئی برس تک پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا تھا۔ مگر ۲۰۱۱ء میں صاحب ِ طرز کالم نگار اور دانش ور ہارون الرشید صاحب نےروزنامہ دُنیا  میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کو پھر سے استوار کروایا۔

جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا تو مَیں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد ’اے آر وائی ٹی وی‘ کے لیے اور پشپندر کلوستے ’آج ٹی وی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے، جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔ اس طرح ۱۹۹۵ء سے ہی مجھے پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبارات لینے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطورِ سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر خدمات کی جو چھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ بعد میں اس کو کسی حدتک منظورمیمن نے نبھایا۔

رائے ریاض جب دہلی وارد ہوئے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان وفود کا تانتا لگارہتا تھا۔ رائے صاحب پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن، وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کے لیے کام کرنے والے چند صحافیوں کو بھی ضرور بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: بیرونِ ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے اہل کار۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تو وہ خود پس منظر  میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں میٹنگیں ہوتی تھیں، جن کے ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سیّدجماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو شرکت کرنے کے لیے آتے تھے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ یوں ہمیں خاصی بیک گرائونڈ انفارمیشن حاصل ہوجاتی تھی۔

رائے ریاض جب دہلی آئے تو منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ انھوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گرائونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر اور دانش وَر جناب افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔

رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں: کس طرح صدر جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے پر بضد تھے ، اور کس طرح وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے اس کوشش کو ناکام بنایا؟ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات تب وسیع ہوگئے جب پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی صاحب نے فوراً مسترد کر دیا۔ انھی دنوں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دبائو میں تھے۔اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملا، اورفوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد سے کہا: ’’آج کل بائیں بازو والے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ روموں میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں‘‘۔ بس یہ اشارہ تھا اور اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکا کے عراق پر حملہ اوربھارتی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلے کےخلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ واجپائی نے فوراً پارلیمنٹ میں بیان دیا:’’ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ اس طرح انھوں نے امریکا سے معذرت کی۔

سری لنکا میں تقرر کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجروں کے لیے کھولنے کی بڑی جدوجہد کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگوفیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بدمزہ، خراب اور کھٹے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے ’مہربانوں‘ نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی،جو ائرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی فروٹ مارکیٹ حصول سے قبل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ ’’پاکستانی خربوزے کی قیمت۱۰ لاکھ ڈالر‘‘۔ یہ اس ہیروئن کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔

رائے ریاض نے دہلی میںقائداعظم محمدعلی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے پاکستان جانے سے قبل Times of India کے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:  مہاتما گاندھی، بھنگیوں کے محلے میںرہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔  دہلی میں ۱۹۳۰ء سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھیرتے تھے۔ پھر ’جناح ہائوس‘ سے چندمیٹر دُوری پر ’برلا ہائوس‘ ان کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ ’جناح ہائوس‘ میں اس وقت نیدرلینڈ کے سفیررہتے تھے اور ’برلا ہائوس‘ میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو گوڈسے نے ہلاک کیا تھا۔ جب ڈالمیا نے ’جناح ہائوس‘ کا قبضہ لیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلےاس پورے بنگلے کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر اتنی ’احتیاطوں‘ کے بعد بھی، وہ اس مکان میں منتقل نہیں ہوئے اور اس کو کرایہ پر دے دیا۔

مصنف نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا بھی ذکر کیا ہے، جو ویسے تو اکثر دہلی وارد ہوتےتھے، اور جمعیت العلماء ہند ان کی میزبانی کرتی تھی۔ مجھے بھی ان سے واسطہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں ہی پڑا۔ ۴جولائی۱۹۹۵ء کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیرمعروف تنظیم ’الفاران‘ نے اغوا کرلیا۔ ۲۲ یا ۲۳ جولائی کے آس پاس حُریت لیڈر جناب سیّدعلی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع ’کشمیر ہائوس‘ میں ٹھیرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس دہشت پسندانہ کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے مضطرب تھے۔ فلسطین کے برعکس کشمیرکےحوالے سے مغربی دُنیا میں ایک روایتی نرمی پائی جاتی تھی۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں گیلانی صاحب سے ملنے کشمیر ہائوس پہنچا۔ انھوں نے اغوا کی اس واردات کے حوالے سے سخت دُکھ کا اظہار کیا۔ اسی دن ہندستان ٹائمز میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خبر چھپی تھی، کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ’حرکت الانصار‘ میں ان کی پہنچ ہے، اور جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انھوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

محترم گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سیکرٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ ’’مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ملاقات کا وقت لیا جائے، کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے‘‘۔ عاصمی صاحب پہلی بار دہلی آئے تھے۔انھوں نے میری معاونت چاہی۔ خیرمعلوم ہوا کہ مولانا کنشکا ہوٹل میں ٹھیرے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ چیک آئوٹ کرکے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آکر جمعیت کے دفتر میں ٹھیرے ہیں۔ عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے وقت لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے۔ میں ایک روز نماز کے وقت جمعیت کے دفتر پہنچا اور جونہی انھوں نے نماز ختم کی تو میں ان کے سامنے پہنچا اور گزارش کی  کہ ’’کشمیری لیڈرگیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں‘‘۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں ، مگر ان کا رویہ ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنا بتایا کہ ’’مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جارہے ہیں‘‘۔ ان کی واپسی کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کردیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز ۱۷؍اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔

۲۰۱۳ء میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکہ آرا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظرعام پر آئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ ’را‘ کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی، تو دہلی سے انھیں جواب تھا: ’’جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دُنیا میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس لیے ان کے اغواکا طول دینا بھارت کے مفاد میں ہے‘‘۔ لیوی اوراسکاٹ کے مطابق بعد میں ’’جب اغواکار تنگ آگئے، تو انھوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں بیچا۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑاگیا، تو الزام بھارتی فوج کے سر آجائے گا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیندسُلا کر نامعلوم مقام پر زمین میں دبا دیا گیا۔ مگر  تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑچکا تھا اور مغربی دُنیا نے آزادی کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی شان دار خدمات انجام دیں اور اپنے دورۂ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے؟ یہ معلوم کرنا کسی صحافی کا کام ہے۔

کتاب رائے عامہ  کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔انھوں نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیلانگ کے ساتھ ان کا رویہ ان کی شخصیت کے بالکل برعکس اور جواب غیرموزوں تھا۔ بلاشبہ اس نے ان کے صبر کا امتحان لیا تھا، مگر کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتاتھا۔ ۲۰۱۶ء میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے اس رویے کی شکایت کرتے تھے۔ چند کمیوں کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے، جس کو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جس کو طاقت کی راہداریوں تک رسائی تھی اور جس نے کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (ناشر: ’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘، لاہور۔ فون: 0300-0515101)

میں یحییٰ ہوں، ایک پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنالیا اور خواب کو ایک ابدی معرکے میں بدل دیا۔ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گلیوں کے درمیان گزرنے والا بچپن، پھر جیل کے طویل سال، پھر خون کا ہر قطرہ، جو اس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔

میں خان یونس کے کیمپ میں ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطین محض ایک یاد تھی جو تار تار کردی گئی تھی، محض کچھ نقشے تھے جو سیاست دانوں کی میزوں پر فراموش حالت میں پڑے تھے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ میں گزارا، اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔ میں نے کم سنی کے دور میں ہی یہ جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔ جو بھی یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل کے اندر ناقابلِ شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ طویل ہے۔

آپ سب لوگوں کے نام میری وصیت اس لڑکے سے شروع ہوتی ہے، جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی بات اس دنیا کو سناسکتے ہیں، جو دُنیا ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے مگر خاموش تماشائی ہے۔ میں نے   غزہ کی سڑکوں پر یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر کے ماہ و سال سے نہیں ناپا جاتا ہے، بلکہ اس سے ناپا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ میری زندگی اسی سے عبارت تھی، جیل اور جنگیں، تکلیف اور اُمید۔

میں نے سب سے پہلے ۱۹۸۸ء میں جیل میں قدم رکھا اور اسی قید کے دوران مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن الحمدللہ، میں نے ڈر کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ ان تاریک کوٹھڑیوں کے اندر، مَیں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا، جس سے دُور کا روشن اُفق دکھائی دیتا تھا۔ ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا، جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔ جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ ایک بہت مؤثر اور قیمتی ہتھیار ہے، کڑوا مشروب ، جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے پی لے۔

حماس کے سربراہ (۲۹؍اکتوبر ۱۹۶۲ء، خان یونس۔ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۲۴ء شہید) ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی

تمھارے لیے میری وصیت ہے کہ جیلوں سے خوف نہ کھاؤ، جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانے والے ہماری طویل جدوجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ جیل نے مجھے سکھایا ہے کہ آزادی محض ایک حق نہیں جو چھین لیا گیا، وہ تو ایک آئیڈیا ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب ۲۰۱۱ءمیں ’احرار کی وفاداری‘ نامی سودے کے تحت میں جیل سے نکلا تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ جب میں باہر نکلا تو میری شخصیت میں زیادہ اعتماد پیدا ہوچکا تھا اور اس جدوجہد پر میرا یقین کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک وقتی کش مکش نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قسمت ہے، جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رکھیں گے۔

میری وصیت ہے کہ بندوق کو مضبوطی سے تھامے رہو، اس عظمت کے ساتھ، جس پر کوئی سودا نہ ہو، اور اس خواب کے ساتھ جو کبھی موت کا منہ نہ دیکھے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قضیے کو کبھی ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے کردیں۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں: جو تمھارا حق ہے اس پر کمزوری دکھانے کے لیے مذاکرات نہ کرنا۔ وہ تمھارے ہتھیاروں سے زیادہ تمھاری استقامت سے خائف ہیں۔ مزاحمت محض ہتھیار نہیں، جو ہم اُٹھائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت تو فلسطین کے لیے ہماری محبت ہے جو ہماری ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے۔ مزاحمت تو ہمارا یہ ارادہ ہے کہ حصار و ظلم کے باوجود ہمیں زندہ رہنا ہے۔

میری وصیت ہے: تم ہمیشہ شہیدوں کے خون کے لیے وفادار رہنا اور اس راہ پر چلتے رہنا۔  یہ کبھی نہ سوچنا کہ جانے والے ہمارے لیے کانٹے چھوڑ گئے ہیں، نہیں بلکہ یہ یقین رکھنا کہ انھوں نے اپنے لہو سے ہمارے لیے آزادی کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اور ڈپلومیسی کے کھیلوں میں آکر ان قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دو۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں نے جس عظیم جہاد کا آغاز کیا، اسے تکمیل تک پہنچائیں اور اس راہ سے ذرہ برابر نہ ہٹیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت چکانی پڑے۔ غزہ استقامت کا مرکز اور فلسطین کا سدا دھڑکتا دل پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا، چاہے یہ وسیع و عریض سرزمین ہمارے لیے کتنی ہی تنگ ہوجائے۔

 جب میں نے ۲۰۱۷ء میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو وہ محض قیادت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اُس مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھر سے شروع ہوئی تھی اور بندوق سے جاری رہی۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے روز بے چین کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آزادی کی طرف اُٹھنے والا ہمارا ہر قدم قیمت چاہتا ہے۔ لیکن میں تم سے کہے دیتا ہوں: ہار مان لینے کی قیمت اس سے بہت بڑی ہوگی۔ اس لیے اس زمین سے چمٹے رہو جس طرح جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ جو قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اسے کوئی آندھی اکھاڑ نہیں پاتی ہے۔

طوفان اقصٰی کے معرکے کے دوران، میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں، میں تو ہر اس فلسطینی کی آواز ہوں جو آزادی کا خواب اپنے دل میں سجائے ہے۔ میرے ایمان نے مجھے یہ راہ دکھائی ہے کہ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں بلکہ یہ ایک فریضہ ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ معرکہ، فلسطینی کش مکش کی کتاب میں ایک نیا ورق بن جائے۔ تمام مزاحمتی گروپ یک جان ہوجائیں، سب ایک خندق کے رفیق بن جائیں اور اس دشمن کا سامنا کریں، جس نے کبھی بچے اور بوڑھے کا یا پتھر اور پیڑ کا فرق روا نہیں رکھا۔

میں نے کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کاخواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید بچے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جس نے اپنی بچی کو مکار دشمن کی گولی کھاکر تڑپتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔

میری وصیت ہے: اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ ظلم و زیادتی کے خلاف مزاحمت کا راستہ ہی زندگی ہے۔ یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے، بلکہ یہ تو ایک زندگی ہے جسے عزّت و عظمت کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ جیل اور حصار نے مجھے سکھایا ہے کہ یہ معرکہ طویل ہے اور راستہ دشوار ، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو قومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے کرشمے تخلیق کرتی ہیں۔

دُنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمھارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے رنج و اَلم کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھتی رہی ہے۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ تم خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجاکر رکھو۔ ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید میں بدل دو۔

یہ میری وصیت ہے: اپنے ہتھیار دشمن اور دشمن کے حلیفوں کے حوالے مت کرنا، اپنے ہاتھ سے پتھر نہ چھوڑنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھول جانا اور اس خواب پر کوئی سودا نہ کرنا، جو تمھارا حق ہے۔ ان شاء اللہ! ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، اپنے دلوں میں اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔

میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ فلسطین کا ہرحال میں تحفظ کرنا۔ اُس سرزمین کا جس سے میں نے موت کی حد تک عشق کیا ہے، اُس خواب کا جس کو میں اپنے کندھوں پر اٹھائے رہا، اُس پہاڑ کی طرح جو جھکتا نہیں ہے۔ اور اگر میں گرجاؤں تو تم لوگ میرے ساتھ مت گرجانا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم تھام لینا جو کسی دن زمین پر نہیں رہا۔ میرے خون سے ایک پُل تعمیر کرنا جو اس طاقت ور نسل کی راہ گزر بنے جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔

جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمھارے درمیان نہ رہوں تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا ایک قطرہ تھا اور میں اسی کے لیے زندہ رہا تاکہ تمھیں سفر کی تکمیل کرتے دیکھوں۔ یاد رکھو، ہم خبروں میں زخمیوں اور شہیدوں پر مشتمل درج کیے جانے والے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ غاصبوں کے حلق کا کانٹا بنے رہو، ایسا طوفان بن جاؤ جو پلٹنا نہیں جانتا اور اس وقت تک پُرسکون نہ بیٹھنا، جب تک دنیا یہ نہ جان لے کہ ہم حق پر ہیں!