ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی صبح اپنے وقت پر طلوع ہوئی تھی۔ ابھی سویرا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے گھروں کی حصار میں تھے ، کاروبار زندگی کی شروعات بھی مدہم تھی۔ یکایک شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور کے محلہ ماڈل ٹاؤن کی فضا میں ایک ایسا الم ناک ارتعاش ہوا، جس سے پوراعلاقہ لرز اُٹھا۔ پلک جھپکتے ہی سکوتِ صبح کا سماں غارت ہوا۔ فائرنگ کے شور سے لوگ سہم گئے، تشویش کی لہریں اورفکر مندی کی موجیں ہر شخص کو نیم جان کرگئیں۔ نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ساتھ بندوق بردار مقامیوں کی مڈبھیڑاپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، عام کشمیری ایسی خون ریزیوں سے مانوس ہیں۔ کسی بستی میں مسلح جھڑپ ہونا لوگوں کے لیے ہمیشہ ایک ہی پیغام لاتی ہے کہ ’’جائے وقوعہ میں اب کسی کی کوئی خیر نہیں‘‘۔ عمومی حالات میں وادی کشمیر کی کسی بستی، بازار ، شہر یا دیہات میں بندوقوں کی گڑ گڑاہٹ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے پتا چلتا ہے کہ مسلح فورسز اور عسکریت پسندوں کے بیچ جھڑپ چھڑگئی ہے اور ہر جھڑپ اپنے پیچھے ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی ایک بھیانک کہانی ضرور چھوڑ کر جائے گی۔ دو طرفہ گولی باری چاہے سرحد پر ہو یا کسی میدانی علاقے میں ، ہر حال میں یہ عوام الناس کے لیے اپنے ساتھ شامتیں، قیامتیں اور میتیں ہی لاتی ہیں ۔
ماڈل ٹاؤن سوپور میں ۳۰ جون ۲۰۲۰ء کو یہی درد ناک کہانی دہرائی گئی۔ یہاں کے رہایشیوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے گھر کے آنگن میں ایک ایسا المیہ وقوع پذیر ہونے جارہا ہے، جس سے انسانیت کا کلیجہ پھٹ جائے گا، آدمیت کی چیخیں نکل جائیں گی، آنسوؤں کا سیل رواں اُمڈ آئے گا ، غم واَلم کی گرم بازاری ہو گی اور سوگواریت کی سیاہی چھا جائے گی۔ چشم فلک نے ماڈل ٹاؤن میں صبح قریب سات بجے کشمیر کی خونیں تاریخ کا ایک اور لہولہاں باب رقم ہوتے دیکھا ۔ ایک درد انگیز کہانی،ایک الم ناک منظر ، ایک ناقابل یقین المیہ کہ جس سے پوری وادی سوگواری کی دُھند میں ڈوب گئی ۔
میڈیا کی تفصیلات کے مطابق بستی میں عسکریت پسندوں نے ایک مقامی مسجد کے اندرسے فورسز کی گشتی پارٹی پر گھات لگاکر حملہ کیا ۔ حملے میں سنٹرل ریزو پولیس کا ایک اہل کار موقع پر ہلاک ہوا، جب کہ تین اہل کار زخمی ہوئے ۔ ابھی جھڑپ جاری تھی کہ جاے وقوعہ سے مصطفیٰ آباد ایچ ایم ٹی سری نگر کے بشیر احمد خان نامی ایک ۶۵ سالہ ٹھیکے دار کا گزر ہو ا۔ وہ اپنے نجی کام سے گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ اُن کے ہمراہ فرنٹ سیٹ پر اُن کا تین سالہ پوتا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ بشیراحمد کے بارے میں سرکاری طور دعویٰ کیا گیا کہ موصوف کراس فائرنگ کی نذر ہو کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی یہ خون ریزجھڑپ جاری تھی کہ اس کی خبریں اور تصویریں، سوشل میڈیا کے کاندھوں پر برق رفتاری کے ساتھ سفر کرتی ہوئی منٹوں میں پورے عالم میں پہنچ گئیں اور انھیں پتاچلاکہ سوپور میں کون سی نئی قیامت بپا ہوئی ہے ۔
بشیر احمد خان متعدد گولیاں لگنے سے برسر موقع شہادت کی خونیں قباپہن کر دنیا چھوڑ گئے۔ اس الم ناک واقعے کے بارے میں سرکاری طور کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن سوپور میں سی آر پی ایف کی گشتی پارٹی پر جنگجوؤں نے اچانک دھاوا بولا۔ گشتی پارٹی نے پوزیشن سنبھالی اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا،جس کی زد میں آکر ایک سویلین بھی جان بحق ہوا ۔ ٹی وی چینلوں پر جھڑپ کی خبر میں یہ بات نمایاں طور پر فوٹیج کے ذریعے اُجاگر کی گئی کہ’’ زبردست فائرنگ کے باوجود نیم فوجی جوانوں نے جان کی پروا نہ کرکے تین برس کے معصوم بچے کو بچا لیا، جو انسانیت کی ایک اعلیٰ مثال ہے‘‘۔ مگر مارے گئے شہری کے اہل خانہ نے سانحے کے بارے میں اس موقف کومسترد کر تے ہوئے فورسز پر الزام عائد کیا کہ بشیر احمد خان صاحب کو گاڑی سے اُتارا گیا اور پھر اُن کے سینے میں گولیاں پیوست کی گئیں۔ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ اپنے ردعمل میں نیشنل کانفرنس اور سیاسی جماعتوں نے سوپور سانحہ کی بابت سرکاری موقف کو نہ صحیح مانا اور نہ غلط کہا، بلکہ گھسی پٹی روایت کی گردان کرتے ہوئے حکومت سے اس کی تحقیقات کر نے کا مطالبہ کیا۔ آج تک کشمیر میں ایسے درجنوں سانحات کی سرکاری انکوائریاں بٹھائی گئیں، مگر نہ کبھی اُن کی رپورٹیں منظر عام پر لائی گئیں اور نہ کسی مجرم کی نشان دہی کر کے اسے عدالت کے کٹہرے سے کوئی سزاسنائی گئی ؎
اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
بظاہر سوپور المیے کا نفس مضمون اتنا ہی کچھ ہے، لیکن جو چیز حساس دل انسانوں کے زاویۂ نگاہ سے انسانیت کے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کرتی ہے، وہ شہید بشیر احمد کے معصوم پوتےکی وہ دل خراش تصویریں ہیں، جنھیں کسی نامعلوم شخص نے کھینچا اور انھیں سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ ان تصاویر نے کشمیری عوام کو اُسی طرح خون کے آنسو رُلا دیا جیسے کئی سال قبل شام کے اُس معصوم مہاجر بچے کی ساحل سمندر پر اوندھے منہ پڑی لاش سے عالم عرب اشک بار ہوا تھا، اور وہ تصویر شامی مہاجرین کی اَن کہی بپتا کا استعارہ بن گئی تھی ۔ سوپور جھڑپ کے متاثرہ کشمیری بچے کی منہ بولتی تصویریں بزبان حال بتاتی ہیں کہ اِدھر گولیوں سے چھلنی اس کے دادا کی بے گور و کفن لاش سڑک پر پڑی ہے ، اُدھر اس کا پھول جیسا پوتا اپنے مرے ہوئے دادا کی چھاتی پر بیٹھاہے، شاید اس کو گہری نیند سے جگانے کے لیے ۔ رنج وغم اس بچے کے چہرے سے جھلک رہاہے ۔ وہ یہ بات تو جانتا ہی نہیں کہ اس کی معصوم دنیا لمحے بھر میں لٹ چکی ہے ۔ معصوم وکم سن بچہ اپنے دادا کی ابدی جدائی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہے۔ موت کیا ہے، زندگی کیاہے؟ یہ باریکیاں اس کے پلے نہیں پڑسکتیں ۔ بس یہ صرف سہما ہوا سا بچہ ہے، جو خوف کے عالم میں لہو لہو منظر دیکھ کر بھی اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہے، تھر تھر کانپ رہا ہے ، بھیڑ میں تنہا ہے، بے دست وپا ہے، اور وہ جو اس کو سینے سے لگا کر سہلاتا، اس کا درد وکرب کم کر تا، وہ تو زمین پر بے حس وحرکت پڑا ہے۔ ناقابلِ فہم خونی منظر سے نڈھال بچے کی ہچکیاں اور سسکیاں بند کر نے کے لیے پولیس نے اُسے چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بہلایا، مگر وہ تھا کہ آنسو بہاتا رہا۔
وادی کشمیر کے بارے میں بھولے سے کبھی ایک بار بھی یہ دل خوش کن خبر نہیں آتی کہ آج یہاں کوئی ناخوش گوار واقعہ رُونما نہیں ہوا ۔ ارباب سیاست اور اہل سلطنت جو چاہیں کہیں، مگر عملی دنیا کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور امن حسب سابق اجتماعِ ضدین ہیں۔ یہاں روز وردی پوشوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپیں اور آتش و آہن کی برساتیں نئی زخم زخم کہانیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں لاشیں گرتی ہیں ، یہاں جنازے اُٹھتے ہیں ، یہاں ماتم ہوتے ہیں، یہاں نالہ وفغاں، آہ وبکا اور چیخ پکار ایک عام چیز ہے ۔ ایسے میں انسانی حقوق نامساعد حالات کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں یہ سوچنا بھی محال ہے ۔ یہ تلخ حقیقت کبھی سوپور جیسے المیوں کا رُوپ دھارتی ہے اور چندبرس پہلے وقوع پذیر کھٹوعہ کی آصفہ کی دلدوز کہانی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ گذشتہ ۳۰سال سے وادی گلپوش میں ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (’افسپا‘) نافذالعمل ہے۔ اس کے نفاذ کی سفاکی اور خون آشامی کے چھینٹے اور دھبے آج کشمیر کے چپے چپے پر بتمام وکمال پائے جاتے ہیں۔ ایسے حالات سے روز روز سامنا کرتے ہوئے عام کشمیریوں کے لیے یہ تمام ناقابل تصور قیامتیں معمولاتِ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ لوگوں میں یہ ناگفتہ بہ حالات دیکھنے ، سننے اور سہنے کی عادت سی پڑگئی ہے ۔ گذشتہ ۳۰ سال سے کشمیری معاشرہ انھی کے درمیان غیر یقینی زندگی جیتے ہوئے شادی غمی سمیت تعلیمی ، معاشی اور سماجی مشاغل سرانجام دیتا آرہا ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کی بالا دست سیاسی اور اقتداری قوتیں ماہ وسال سے جنت بے نظیر میں لامتناہی خوں بار سلسلہ روکنے اور امن کی بہاریں لوٹانے کے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں۔ ’افسپا‘ کو واپس لینے کے وعدے بھی ہوئے، تعمیر وترقی اور خوش حالی کے دعوے بھی کیے گئے۔ ان سب بہلاوں کے درمیان تاریخ نے وادی میں کئی کروٹیں بدلتی اور بہت ساری چیزیں بنتے بگڑتے دیکھیں مگر جو چیز دیکھنے کی حسرت رہی وہ یہ کہ یہاں مکمل اور پاےدار امن کبھی قائم نہ ہوا۔ عظیم تر خودمختاری کا وعدہ ، واجپائی کی لاہور بس یاترا، انسانیت، کشمیریت اورجمہوریت کا نعرہ ، نوازشریف کا امن اعلامیہ، مشرف کا چار نکاتی فارمولا، ظفراللہ خان جمالی کی جنگ بندی ، سہ رُکنی مصالحتی کمیٹی کاقیام، من موہن سنگھ کی گول میز کانفرنسیں، آٹھ ورکنگ گروپوں کی تشکیل، ’گولی سے نہ گالی سے ،مسئلے کاحل کشمیری گلے لگانے میں‘ جیسا جاذب نظر نعرہ اور پھر دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵اے کی تنسیخ، غیر ریاستی باشندوں میں ڈومسائل اسناد کی تقسیم وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ نے ہربار نمایاں اور طاقت ور لوگوں کی زبانی دل کے کانوں سے یہ دعوے سنے کہ اب کی بار کشمیر میں امن و اَمان کی ہریالیاں ہوں گی ‘ تعمیرو ترقی کی پھلواریاں مہکیں گی، مگر واے ناکامی نہ نامساعد حالات کا محور آج تک بدلا، نہ امن وآشتی کاسورج کبھی طلوع ہوا۔اس کے برعکس حسب سابق سلسلہ روز وشب کی گردش میں خون ریزیاں کشمیر یوں کا مقدر بنی رہیں۔ آج تک گردش لیل ونہار کی اسی آتشیں فضا میں کشمیر کی تین دہائیاں بھسم ہو گئیں۔ لاتعداد پیر و جوان، خواتین ، بچے ، ابدی نیند سوگئے ، تباہیاں نوشتۂ دیوار بن گئیں۔ آتش زنیاں اور آبرو ریزیاں اتنی بے حساب گویا یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہی نہیں رہے۔ عقوبت خانے اور زندان آباد ہوئے ، تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں ، معاشی سرگرمیاں مفقود ہوئیں ، بے روزگاری کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔اورنامساعد حالات کا یہ بدترین سلسلہ آج بھی ارضِ کشمیر میں شدومد سے جاری ہے۔
امرِواقعہ یہ ہے کہ بے انتہا بربادیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں کشمیر میں امن جاگتے کا سپنا ہے۔ کوئی کشمیری یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اُس کی زندگی میں کس عنوان سے نیا بھونچال ثابت ہوگا ، کون سی نئی بربادیاں اس کی تقدیر میں رقم ہوں گی اور انسانی حقوق کی کثیرالاطراف پامالیاں کس کس مہیب شکل میں سامنے آئیں گی؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی ماڈل ٹاؤن سوپور کا وہ بدترین المیہ ہے جو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور میں وقوع پذیر ہوا ۔ قبل ازیں جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں پیش آئے المیے میں بھی ایک آٹھ سالہ بچہ کام آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں امن اور انصاف کا سورج طلوع ہونا آخری کشمیری کے زندہ درگور ہونے تک مؤخر رہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل بھی ترتیب پائے گا، جو امن اورانسانیت کا پرچم بن کر بہشت ارضی میں لہرائے؟
۵؍اگست ۲۰۲۰ءکو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ایک طرح سے ’غیرآئینی سرجیکل اسٹرائیک‘ کرکے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰، اور دفعہ ۳۵-اے کالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کیا، مگر اس سے بھارت کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا؟ اس کا کوئی خاطرخواہ جواب آج ایک برس گزرنے کے باوجود بھارتی حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ خطے، یعنی جموں اور کشمیرکو بھی براہِ راست نئی دہلی کے انتظام میں دیا گیا۔
اب پورے ایک سال کے بعد اس غیرآئینی حملے کی افادیت اور ’کامیابیوں‘ کی جو دستاویز بھارتی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق ’’کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے نتیجے میں حوائج ضروریہ کے لیے باہر نکلنے پر پابندی میں سو فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح ایک سال کے دوران سو فی صد اوپن ڈیفی کیشن فری بنایا گیا ہے۔
۵؍اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا ، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور بھارت کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا بتایا گیا تھا، مگر مودی حکومت کے مذکورہ اوّلین اور شرمناک ’کارنامے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیر صحافی شاستری راما چندرن کا کہنا ہے: جب خطے میں ہر روز فوجی مقابلوں میں لوگ ہلاک ہو رہے ہوں، تو رفع حاجت کے لیے کون باہر نکلے گا؟ اس کے علاوہ جو باہر آنا بھی چاہتے ہیں، ان پر تشدد کرکے ایسی حالت کر دی گئی ہے ، کہ وہ رفع حاجت کے قابل ہی نہیں رہ گئے اور جب سال بھر لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پیٹ خالی ہو ، تو رفع حاجت کیسے ہو؟
شاید مودی یا امیت شا کو دہلی سے کولکتہ تک ریل گاڑی میں سفر کرنا کبھی نصیب نہیں ہوا۔ رات دہلی سے جب ٹرین چل کرعلی الصبح پٹنہ یا بہار کے دوسرے شہر گیا پہنچتی ہے ، تو اسٹیشن سے متصل اور دیگر علاقوں میں نظارہ نہایت قابلِ نفرت ہوتا ہے ۔سخت گرمی کے باوجود مسافر فوراً کواڑ گرا لیتے ہیں۔ کیونکہ لمبی لائن میں ایک خلقت پٹڑی پر پانی کا لوٹا لیے مصروف دکھائی دیتی ہے، اور آپس میں ملکی و غیر ملکی حالات پر تبادلہ خیالات بھی کرتی نظر آتی ہے۔ ہونا تو چاہیے کہ امیت شا کشمیر میں تعینات پوری نو لاکھ فوج کو بہار بھیج کر اس کو اوپن ڈیفی کیشن فری بناکر، ریلوے پٹریوں کو غلاظت سے بچنے کا موقع فراہم کرواتے۔
گذشتہ ایک سال سے کشمیریوں نے بھی مودی حکومت کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔ جب اس ’غیرآئینی اسٹرائیک‘ سے کشمیریوں کے جسم سے ان کے کپڑے چھین لیے گئے، تو کشمیر کے ایک لیڈر شاہ فیصل کے مطابق مودی حکومت کو یقین تھا کہ اس کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوگی اور اس کے نتیجے میں ۱۰ہزار افراد ہلاک کرکے تحریک کو کچل دیا جائے گا۔ مگر کشمیریوں کی پُراسرار خامشی اور لیڈر شپ کی عدم موجودگی کے باوجود عام آدمی کی سوچ اور ردعمل دیکھ کر نئی دہلی میں اربابِ اقتدار کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ کچھ عرصہ تک سوگ و ماتم کی کیفیت کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ مگر بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کی کس منہ سے اپنے ووٹروں کا سامنا کریں۔
بھارت نے جب اگست میں کشمیر میں تاریخ کے طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ کیا تو، لوگ لقمے لقمے کے محتاج ہونے لگے۔ دنیا نے زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا، تو ہر کشمیری کے زبان پر تھا کہ یااللہ! اس لاک ڈاؤن کا مزا ساری دُنیا کو بھی چکھا دے۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں جب بھارت میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں کی ایک ٹیم کو کشمیر لے جایا گیا، تو ان کو کوّر کرنے کے لیے اکنامک ٹائمزکے معروف صحافی اروند مشرا بھی سرینگر پہنچ گئے تھے۔ وہ سیکورٹی حصار میں تھے۔ انھوں نے افسران سے اپنے ایک ساتھی بلال احمدڈارکے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ بلال ماس کمیونی کیشن کی تعلیم کے دوران ان کا ہم جماعت تھا۔ مشرا کا کہنا ہے کہ جب وہ بلال کے گھر کی گلی سے گزر رہا تھا کہ کھڑکی سے ایک خاتون کی آواز آئی:’’اروند بھائی، آپ بلال کے دوست ہو دلی والے، میں نفیسہ عمر ہوں،بلال کی پھوپھی کی بیٹی‘‘۔ مشرا کا بیان ہے کہ نفیسہ کی باتیں سن کر وہ کئی رات سو نہ سکا۔ اس لڑکی نے پوچھا: کیا باہر کی دنیا میں کسی کو اندازہ ہے کہ سات مہینے سے جہاںکرفیو ہو، گھرسے نکلنا تو دُور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر فوج تعینات ہو،انٹر نیٹ، موبائل، لینڈ لائن فون تک بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، سکول، کالج، دفتر سب بندہوں، کسی نے سوچا کہ آخر لوگ کیسے سانس لیتے ہوںگے؟‘‘
مشرا کے مطابق بس پانچ منٹ میں اس خاتون نے حالا ت کا ایسا نقشہ کھنچا کہ یہ الفاظ دہلی میں کئی ماہ تک میرے ذہن پر دستک دیتے رہے۔ نفیسہ نے مزید کہا کہ: کیا آپ کو معلوم ہے کہ ـ ’’کیسے لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے، بیماروں کا کیا ہو رہا ہے؟ آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے،بچے خوف زدہ ہیں،مستقبل اندھیرے میں ہے‘‘۔ـ نفیسہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ظلم وستم کی انتہا ہے،روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے، پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہے، ہم نے سب سہہ لیا اور خوب سہہ رہے ہیں۔لیکن اس وقت دل تڑپتا ہے جب بھارت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا۔ لیکن میں نے ان لوگوں یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، بس ایک دعا ضرور کی ہے تاکہ پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو۔ اروند بھائی، آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘ ۔
اروند مشرا نے جب دعا کی شکل کے بارے میں پوچھا، تو اس کے بقول نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے، بس مولا تو کچھ ایسا کردینا اور اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بندہوجائے ، رُک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں؟‘‘ کورونا وائرس کے بعد جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں آگئی ، جو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، مشرا کے مطابق نفیسہ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘۔
کشمیر کا معاملہ بہت ہی سادہ اور آسان ہے، جس کے مطابق ایک قوم کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو حق خود ارادیت کا موقع دیا جائے گا اوراُس کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ اعلان کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ اقوام عالم اس کی گواہ ہیں۔ اقوا م متحدہ میں اس سے متعلق ۱۸قراردادیں موجود ہیں۔ پچھلے ۷۳ سال سے ایک قوم چیخ پکار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی راے کا اظہار کر رہی ہے۔ حصولِ آزادی کے اظہارکے لیے جس جس طریقے کوبھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے کشمیری قوم نے ہر اس طریقے کو آزما یا لیکن ایک خو نخوار ظالم جو بدمستی میں کسی بھی زبان کو سمجھنے سے عاری ہے،وہ صرف مار دھاڑ،ظلم و ستم کرنے کے ہنر سے آشنا ہے۔سیاسی پلیٹ فارم ہویا عوامی احتجاج ، ہڑتال ہو یا عسکری میدان اہالیانِ کشمیر نے ہر میدان میں بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ بھارتی ایوانوں اور دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکے داروں تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ حقیقت سے آشنا ہوں، لیکن بدقسمتی سے اقوام عالم اس سچائی سے ہمیشہ آنکھیں چُراتی نظر آئیں۔ جس سے بھارت کو بھی حوصلہ ملا کہ طاقت کے سہارے کشمیریوں کی امنگوں اور حصولِ آزادی کی خاطر کوششوں کو دبائے۔ بھارتی حدود میں اگر کہیں کوئی بھی اس ظلم وجبر کو عیاں کرنے کی کوشش کرے تو اس کو یا تو پابند سلاسل کیا جاتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے خوف ودہشت کا شکار بنایا جاتا ہے۔
کشمیر کے شب وروز کے احوال کو قلم بند کیا جائے تو ایک ایسا ڈراؤنا خاکہ تیار ہوتاہے، جسے دیکھ کر انسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ یہ جدید دور میں کسی بستی کے حال و احوال ہیں۔ مسائل اور چیلنجوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ، ایک قوم کو ایک تیزخونیں سیلابی ریلے کے ساتھ بہائے لیے جارہا ہے۔ وہ قوم ایک بے بس، کمزور اور لاچار انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جس کے تمام اختیارات ایک ظالم کے حوالے ہیں۔اس قوم کے بازاروں ، قصبوں ، گلی کوچوں یہاں تک کہ خلوت گاہوں تک پر اُسی کا قبضہ ہے۔ وہ جب چاہے اس کے کھیت جلادے ، جب چاہے اس کے گھر بارود سے برباد کردے یا انسانی زندگی ہی کا خاتمہ کر ڈالے۔ یہ سب اس کی مرضی پر منحصر ہے کیونکہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں ہے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد نہ وہ دہشت گرد کہلاتا ہے اور نہ مجرموں اور ڈاکوؤں ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔
اس سب ظلم وتشدد کے مارے انسان کی حالت کیا ہوتی ہے، وہ قابل بیان نہیں بلکہ اس کا انجام یہی نظر آتا ہے کہ وہ گُھٹ گُھٹ کے اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ بنیادی طور پر جن حالات سے اُسے ہر روز سابقہ پیش آتا ہے، وہ اُس میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُسے کسی کا مرنا، کسی کے ساتھ ظلم ،کسی بے کس کی آہ وفغان ، کسی معصوم کی سسکیاں اور خود اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر، اُس کے اعصاب کو متاثر نہ کرسکیں، اُسے جذباتی نہ بناسکیں اور اُس میں کسی طرح کا ہیجان پیدا نہ کریں۔ اگر اُس میں یہ تمام’ صلاحیتیں‘ پیدا ہوجائیں تو عین ممکن ہے کہ ایسا انسان کشمیر میں اچھی طرح سے زندگی گزار سکتا ہے اور یہ بھی اسی وقت تک ہے، جب کہ وہ خود اس تصادم کی نذر ہوکر جان نہ کھو دے۔ اگر بات کو مزید وضاحت سے بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک ’عام انسان‘ ایسے ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس میں ’بے حسی‘ کی ایسی ’صلاحیت‘ پیدا نہ ہو کہ والد ہونے کے ناطے وہ’ اپنے عزیز ترین بیٹے کے ساتھ بازار جائے اور وہاں سے اپنے بیٹے کی لاش اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر چپ چاپ لے آئے‘۔ اور بچہ ہونے کی صورت میں ’اس معصوم میں یہ’صلاحیت‘ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگ والد کی چھلنی لاش کو دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہو۔ وہ آہ تک نہ کرے اور اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ذرا بھی نہ ڈرے اور اپنے دل کو دلاسہ دینے کے لیے کافی ہو۔
بھارتی حکومت اپنی ریاستی دہشت گردی کو ’مذہبی جنگ‘ کا رنگ دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ عالمی سطح پر اس تمام صورت حال کا جواز پیش کر سکے۔تائید حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حدتک کے جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے: آصفہ جان کا تعلق کٹھوہ کے بکروال خاندان سے تھا۔ آٹھ سالہ معصوم بچی کومندر کے تہہ خانے میں لے جاکر چارروز تک مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا اور اس کے بعد پتھر مار مار کر جاں بحق کر دی گئی۔ اس درندگی کا ارتکاب کرنے والوں کے حق میں ’ہندو ایکتا منچ ‘ نامی تنظیم نے ترنگا بردار جلوس نکالے، جس کی پشت پناہی بی جے پی کر رہی تھی۔
اگر چہ اہل کشمیر ایک عرصے سے انھی حالات کے اندر زندگی گزار رہے ہیں اور بے مثال قربانیوں کے سہارے تحریکِ مزاحمت کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہرآنے والے دن کے ساتھ ظلم و تشدد میں ریکاڑ توڑ اضافہ ہو رہا ہے۔اس خوف و دہشت میں جہاں ایک فرد کی ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہو، اس کے لیے ان حالات میں آزادی کی بات کرنا آسان کام نہیں ہے۔لیکن حصولِ آزادی کی تڑپ ہر کشمیری کے لیے اُس بچھڑے ہوئے بچے کی مانند ہے، جو اپنی ماں سے ملنے کے لیے ہر مشکل کو عبور کرنے کے لیے تیار ہو۔
اگر چہ بھارت میں الیکشن جیتنے کے لیے ’پاکستان سے دشمنی‘ ایک لازمی عنصر کے طور پر استعمال ہورہی ہے، وہیں بھارتی جنتا پارٹی کےمنشور کا یہ ایک حصہ تھا کہ کشمیر کو مکمل طور پر ’ہندو راشٹر‘ میں شامل کرنا۔ پچھلے سات سال سے اسی منشور پر شد ومد سے کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے اہالیانِ کشمیر میں سخت خوف وہراس پھیل چکا ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غیریقینی بڑھتی جارہی ہے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ءکے بعد کشمیر کے حالات میں مزید ابتری دیکھنے میں آئی۔ ہر دین پسند کو مجرم تصور کیا گیا اور ہر دین پسند جماعت کا دائرہ تنگ کیا گیا جس میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے کہ اُس کو ممنوعہ جماعت قرار دے کر اس کے وابستگان کو پابند سلاسل کیا گیا۔خوف و ہراس کے سایے پورے جموں و کشمیر کی ریاست پر دراز کیے گئے۔ جموں و کشمیر کے انضمام میں حائل کچھ رکاوٹوں کو ختم کرنے لیے لیے آئینی طور پر دفعہ۳۵ اے اوردفعہ۳۷۰ کو بھی منسوخ کیا گیا۔ اس کے بعد پورے خطے کا راج دہلی حکومت نے پورے طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اور اب کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو پھر وہ ہوسکتا ہے جس طرح کہ: ایک وقت میں فلسطین دنیا کا ایک ملک تھا اور آج دنیا کے نقشے میں فلسطین موجود نہیں ہے لیکن اسرائیل دنیا کے ممالک میں شمار کیا جاتاہے۔بھارتی عزائم اسی طرح سے بالکل واضح ہیں کہ وہ کشمیر کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے پرعمل درآمد کے لیے سابق بھارتی فوجیوں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو کشمیر میں بسانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
حالات کی اس ابتر صورت حال نے پورے خطے کے رہنے والے افرادکو ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔اگر چہ ایک طرف پہلے ہی مشکلات میں گھرے انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہوچکا تھا، وہیں اب مستقبل کے اس ڈراؤنے منصوبے نے ان کی ذہنی الجھن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اہلِ کشمیر پہلے اپنی آزادی کی محرومی سے مارے جارہے تھے اور اب اپنے گھر بار اور زمین جایداد سے محروم ہونے جارہے ہیں۔ان المناک حالات نے اگر چہ خطے میں رہنے والے لوگوں کو بھی ’تنگ آمد بجنگ آمد ‘کے مصداق جنگ کے لیے تیار کیا تھا، لیکن ظاہر بات ہے کہ خالی ہاتھوں سے بکتر بند گاڑیوں سے نہیں لڑا جاسکتا۔ اس ذہنی تناؤ کی صورت حال نے اہلِ کشمیر کو بے بسی اور مجبوری کی تصویر بنادیا ہے۔ بلاشبہہ ایک انسان کی زندگی میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں، جن کو حل کرنا اور زندگی کو آگے بڑھانا ایک معمول کا طریقہ ہے، لیکن اہالیانِ کشمیر کی زندگیوں کا سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے، جس کو حل کرتے کرتے ان کی تین نسلیں ختم ہوگئی ہیں، لیکن مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔
اس ساری صورت حال کے بعد زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام وہ مشورہ کرتا ہے، جو کسی دانش وَر کی زبان سے یوں ادا ہوتا ہے کہ ’’کشمیریوں کو ایسا نہیں ایسا کرنا چاہیے۔بندوق نہیں آواز بلند کرنی چاہیے، عسکریت نہیں ، عوامی احتجاج کرنا چاہیے‘‘۔ یا کبھی یہ بھی سننے کو ملتاہے کہ ’’یہ جہاد نہیں وطنیت کی جنگ ہے‘‘۔نرم گرم بستر پرآرام فرما کر ایسی باتیں کہی جاسکتی ہیں، لیکن حقیقت میں ایسے حضرات بھارت کے سفاکانہ عزائم سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجودبڑی آسانی سے ایسے مشورے داغ دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خالی ہاتھوں سے ایک طاقت ور مکار دشمن کا مشکل مقابلہ دیکھنا ہو تو اس کا مشاہدہ ہر روز کشمیر کی سرزمین پردیکھنے کوملتا ہے۔
اگرچہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیے نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ ۴۸-۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر سامنے آئے ۔کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلے سات عشروں سے نہ صرف امن عالم کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ ان کی محکومی مسلم دنیا کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے۔
بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جس طرح یک طرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی یکم جولائی ۲۰۲۰ء کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے ۳۰فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔ فی الحال انھوں نے اس منصوبے کو التوا میں رکھا ہے، کیوںکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۵ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں، ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے ۱۶لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے پاس ہے، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے۔
جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ءکے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، بالکل اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی یہودی انتہاپسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقے کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں ۶۵ہزار فلسطینی اور ۱۱ہزار یہودی آباد ہیں۔ ’اوسلو معاہدے‘ کی رُو سے مغربی کنارے کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارے کا ۶۰فی صد علاقہ آتا ہے۔ اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔
اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے اس جوئے کا مثبت پہلو یہ نکلاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں مسئلۂ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت کی کشمیر پر یلغار کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہے۔ گذشتہ دنوں ۲۷۰سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں، موساد، شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اس کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہے گا، اور یوں زیادہ تر وقت امن و امان کی بحالی کے لیے ڈیوٹیاں دینے سے اس کی جنگی کارکردگی متاثر ہوگی۔
اہم باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان کا رَن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلے پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان، یعنی ’ڈیل آف دی سنچری‘ ترتیب دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلے سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاؤس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو یہی مطلب لیا گیا تھا کہ اس پلان کو عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طاقت ور یہودی لابی نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد ان ممالک کے دورے پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ انھی ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حال ہی میں امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال عتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامے میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی یہ تھی کہ ’’تعلقات کو معمول پر لانے اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ‘‘۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کی وقتی اُچھل کود ہے اور خطّے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کے لیے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوا کرتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کے لیے اردن کا اسرائیل پر انحصار ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵لین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۵؍ارب اور ۱۹کروڑ ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین نے باور کرایا ہے کہ اگر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکریٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔
دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن ، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بطورِ بازو کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان میں خطرات دیکھتے ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اس وقت ۶۷ لاکھ یہودی رہتے ہیں، وہاں ۵۴ لاکھ امریکا کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکا میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ ’اوسلو معاہدے‘ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولا کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیے یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پاسکیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہِ راست امریکا سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکا کی ۲۷ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کی رُو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروںو ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اَب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رُو سے نیتن یاہو کو اگلے سال وزیر اعظم کی کرسی بنی غانز کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔
جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح انتہا پسندوں یہودیوں کے لیے بھی نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کے لیے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا، اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انھوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں۵۰۰ قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اس پر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انھوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔
اس کے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہوگیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ تو ۱۹۷۳ءکی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر ۲۰۰۶ء میں جنگ لبنان اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کی جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ بھارت کے لیے بھی ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کو حب الوطنی ا ور بھارتی نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔
گذشتہ دنوں بنگلہ دیش نے نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ایکٹ‘ کے تحت مزید ۱۳؍افراد کو ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت حراست میں لیا ہے۔ یادرہے اپنے قیام سے ہی یہ ٹریبونل سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں اور عدالتی عمل کے ذریعے سیاسی انتقام کی وجہ سے بین الاقوامی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمات کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیشی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ مبینہ ’’جنگی جرائم کی عدالت،آج ۴۰سال گزرجانے کے بعد ۱۹۷۱ء کی جنگ کے متاثرین کو انصاف مہیا کررہی ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹریبونل کے تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالی جائے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ مذکورہ ٹریبونل اور اس کا خصوصی قانون بنگلہ دیش کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک سیاسی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذکورہ عدالت بھی اسی سیاسی عمل کی ایک کڑی ہے، جس کا حقیقی انصاف اور اصول قانون سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔
جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرنے کی سب سے پہلی کوشش سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی کی تھی اور ابتدائی طور پر دو سطح کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ پہلی سطح کی عدالت مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے،جب کہ دوسری سطح کی عدالت کا مقصدپاکستانی قیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔لہٰذا، ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے بنگلہ دیش کولیبوریٹرز آرڈر ۱۹۷۲ء کے قانون کا اجرا کیا گیا۔ اس قانون کا واحد مقصد مقامی (غیر فوجی) افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ۷۳ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، جن کا مقصد پاکستانی انتظامیہ کی معاونت کرنے والے افراد کو سزائیں سنانا تھا۔ اس قانون کے تحت ۴۰ہزار افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جن میں سے ۲۰ ہزار کے خلاف باقاعدہ چالان پیش کرکے انھیں حراست میں لیا گیا اور ان۲۰ ہزار میں سے ۷۵۲ کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن ۳۰نومبر ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد ان کو بغیر کسی سزا کے رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ کو جنرل ضیاءالرحمان نے کولیبوریٹرز آرڈ قانون کو ہی منسوخ کردیا۔ یہاں ایک نکتہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ آج سنہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں چلنے والی عدالت سے سزایافتہ یا گرفتار افراد میں سے ،ایک فرد بھی ۱۹۷۲ء میں گرفتار کیے گئے ۲۰ہزار مشتبہ افراد میں شامل نہیں تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی نوزائیدہ بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے درکار خصوصی مہارت اور بین الاقوامی قانون کی پیچیدگیوں پر اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اس تناظر میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان بذات خود جنگی جرائم کے مقدمات چلانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ان خصوصی عدالتوں اور قوانین کو پاکستان سے بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک تسلیم کروانے کے لیے صرف ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں عام معافی کا اعلان کردیا۔
عام معافی کے اعلان سے قبل ہی، بنگلہ دیشی حکومت نے مکتی باہنی کے تحت لڑنے والوں کے لیے خصوصی استثنا کا قانون بنگلہ دیش نیشنل لبریشن سٹرگل انڈیمنٹی آرڈر ۱۹۷۳ء پاس کردیا تھا۔ انڈیمنٹی آرڈر کے آرٹیکل ۲ کے تحت، ۱۹۷۱ء کے دوران مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے تمام جنگی جرائم اور بہیمانہ تشدد کو آزادی کی جدوجہد کا عنوان دے کر خصوصی استثنا دیتے ہوئے مکمل جائز قرار دیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن جن جنگی جرائم کو انڈیمنٹی آرڈر کے تحت مکتی باہنی کے لیے جائز قرار دیا گیا بعینہ انھی جرائم کے الزامات لگا کر آج اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس کھلے تضاد پر ممتاز برطانوی انسانی حقوق کے کارکن مسٹر جیفری رابرٹسن نے بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے:
یہ دوہری قانونی بنیادوں پر مبنی ہے، جو حالیہ مقدمات کی کارروائی میں پوری طرح نمایاں ہیں، یعنی ’فاتح کا انصاف‘۔ جو تاریخ کے دائیں جانب ہیں ان کے جنگی جرائم کو معاف کر دیا جائے گا، جب کہ وہ جنھوں نے ایک متحدہ پاکستان کے لیے لڑائی لڑی ان کے ساتھ غداروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔
۷۰ کے عشرے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے قانون سازی اور منسوخی کا کھیل جاری رہا، حتیٰ کہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی دفعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء کا اجرا عمل میں آیا۔ اس قانون کا مقصد ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں پر باقاعدہ مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس قانون پر فوجداری قانون اور قانون شہادت کے اصول و ضوابط کا اطلاق ممکن نہیں تھا ۔
۱۹۷۴ء میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے (شملہ معاہدے) کے تحت طرفین نے ایک سیاسی و قانونی سمجھوتا کیا۔ لہٰذا ایک طرف تو پاکستان نے مذکورہ معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو باقاعدہ علیحدہ آزاد ریاست تسلیم کیا تو دوسری طرف بنگلہ دیش نے بھی ان ۱۹۵قیدیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور بعد ازاں جنگی قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔
چار عشروں کے بعد ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر سے عوامی جذبات پر سیاست کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عدالتوں کا احیا کیا، جن کے تحت سزائیں اور گرفتاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ ان عدالتوں کا قیام روزِ اول سے ہی سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ دباؤ خارجی سطح پر ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج حسینہ واجد داخلی سیاسی محاذ پر اس کا استعمال کررہی ہیں۔
جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پس ماندہ خِطّۂ لداخ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرِپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول علاقہ تھا۔ متحدہ ہندستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک بلندوبالا پہاڑ، کھلے میدان۔ یہ خطہ بہت حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔
دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ ۸۷ہزار ۲سو ۹۷ مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف ۳۲ ہزار ایک سو ۸۵ مربع کلومیٹر ہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور اس خطے کو بودھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ ۲۰۱۱ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ کی آبادی میں ۴۶ء۴۰ فی صد مسلمان اور ۳۶ء۶۵ فی صد بودھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بودھ آبادی ۶۶ء۳۹ فی صد ہے،مگر اس ضلعے میں بھی ۲۵مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔یعنی خطّۂ لداخ میں مجموعی طورپر مسلمان ۴۶ فی صد اور بودھ ۳۹ فی صد ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی
اس خطے کے نام وَر تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق، یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ ۱۹ویں صدی میں اور ۲۰ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان، یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔ لیہہ شہر میں بودھ خانقاہ نمگیال سیموگمپا، یا تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے ہیں، اور یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی بہت سی کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے۔ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے مجھے بتایا تھا کہ ہم عذابِ الٰہی کے شکار ہیں،کیونکہ ہمارے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق: ’’کشمیر کی طرح لداخ بھی ۲۰ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقا ، ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند درّوں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے‘‘۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہوکر گزرتی تھی۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں مشرقی ترکستان، یعنی سنکیانگ اور پھر ۱۹۵۰ءمیں تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔
۱۹۶۲ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خِطّہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کرکے اس کو غربت اور افلاس کی گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے ایک محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ: کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس خطے میں سرکاری ملازم اپنے تقرر کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے مطابق وسط ایشیا کے حاجی لداخ کے راستے مقدس سفر پر جاتے تھے۔ ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ’آرغون‘ کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد (Dardic)قابلِ ذکر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے تک لداخ میں مسلم اور بودھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی نفرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی رنگ لیے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گزار نمگیال خاندان کے فرماں روا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بودھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں سکتے تھے کہ جب ۱۸۴۱ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی، تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عناصر لداخ میں جڑ پکڑتے گئے، دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بودھوں کو بتایا گیا کہ ان کی پس ماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں یہاں کی بودھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرکے نئی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لیے احتجاج بھی شروع کیا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی تھی۔ اس کے رد عمل میں بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو ۱۹۹۴ءتک جاری رہا۔ ۱۹۹۴ءمیں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا، تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دے کر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعدازاں ۲۰۰۳ء میں بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریب کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لیے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ ۲۰۱۲ء میں اس ضلع کے بودھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بودھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ یہ تھی کہ بودھ فرقہ کے ۲۲؍افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندو مت کی طرح لداخی بودھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے۔ اس لیے نچلی ذات کے بودھ خاصے نالاں رہتے ہیں۔ زنسکار بودھ ایسوسی ایشن نے اس واقعے کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بودھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔
لداخ کا خِطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند ’ہندآرین نسل‘ قرار دیا ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں دو جرمن خواتین کو اس خطے میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں آج تک ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، اگرچہ اس رسم پر ۱۹۵۰ءسے قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض ۶۲۰مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بودھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق: ’’اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما، لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بودھ خانقاہیں موجود ہیں، جن کا انتظام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے‘‘۔
خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت اورپاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ ۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہات کی سرکاری طور پر پیمایش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ ہی میں نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۰۰۱ءکی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۴۷ فی صد ہے اور بودھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بودھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھنے والے ابھی تک پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جایداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمے یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔
لداخ کو زمینی طور پر باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے، سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھے ماہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اور اسکردو کے درمیان ۱۹۲کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی عشروں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی دانش ور حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے: ’’ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان، یعنی دو اُونٹ کوہان والے ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے‘‘۔ چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس سے متصل تین منزلہ میوزیم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تاریخی روابط کا امین ہے۔ ترک آرغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کیے گئے۔ ۱۷ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بودھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی، جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔
فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے درمیان کش مکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک آرغون غلام رسول گلوان [م: ۱۳مارچ ۱۹۲۵ء] کے نام سے موسوم ہے، جو ۱۸۹۲ءمیں ایرل آف ڈیمور [مصنّف: The Pamir] کی قیادت میں سیاحوں کے قافلے کی رہنمائی کررہے تھے ،مگر یہ قافلہ برفانی طوفان میں بھٹک گیا تھا۔ اپنی کتاب لداخ: تہذیب و ثقافت [ناشر: کریسنٹ ہاؤس پبلی کیشنز، جموں، ۲۰۰۵ء، ضخامت:۵۱۴] میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ: گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی کو گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ ۱۶ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا، تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی زمین پیما اور نقشہ ساز جنرل والٹر رویر لارنس [م:۱۹۴۰ء] اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس میدان کا نام ’دولت بیگ اولدی‘ درج کردیا۔
افغانستان کی طرح یہ خطّہ بھی عالمی طاقتوں کی کش مکش یعنی ’گریٹ گیم‘ کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور پھر برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہِ راست عمل داری کے بجائے اس کو ایک بفرعلاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۸۷۲ءکو ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزنڈر دوم کو خط لکھ کر ہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی، اور زار روس کو یقین دلایا کہ اس حملے کی صورت میں سبھی ریاستیں برطانوی راج کے خلاف روسی فوج کا ساتھ دیں گی۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنر کے ذریعے سے زار روس کو بھیجا گیا تھا، مگر فرغانہ میں اس خط کی تفصیلات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنبیر سنگھ کو سبق سکھاتے ہوئے، لداخ میں اپنا ایک مستقل نمایندہ مقرر کردیا۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیرممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر پابندی عائد کردی گئی۔ عبدالغنی شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد وہ ہندستان کا رخ کرے گا۔ ۱۸۷۷ءمیں روس نے ترکی سے جنگ چھیڑدی، جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو، عثمانی ترک سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔تاہم، زار کا استنبول پہنچنا خواب ہی رہا۔
خطے میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی اُلفت نہیں رہی، مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدرے مشترک ہیں۔ یہاں کی پوری آبادی الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گزارنے سے عاجز آچکی ہے۔ چند ماہ قبل جب لداخ کو کشمیر سے بھارت نے الگ کیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا،لیکن تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ نے زبردستی کرکے انھیں مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ملازمین میں شامل کیا ہے۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطۂ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ کرے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔
۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ اہلِ کشمیر بھارتی حکومت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی آبادی اور خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے خوف کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہی جموں اور کشمیر جو چند سال پہلے تک خصوصی درجہ رکھنے والی ریاست تھی، اور کشمیری جو مدت تک متعصبانہ خوف کے تحت زندگی گزار رہے تھے، ان کے لیے یہ اضطراب اب اور بھی گہرا ہوچکا ہے۔
۵؍اگست ، ۲۰۱۹ء کو ، بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰، جس نے ریاست کو خصوصی حیثیت دی تھی، اسے مختلف آئینی شقوں کے اطلاق سے خارج کر کے منسوخ کردیا گیا ، جب کہ دفعہ ۳۵- اے، جس نے مقامی آبادی کے لیے رہایش کے کچھ مخصوص حقوق محفوظ کر رکھے تھے، اس تحفظ اور بقا کے سارے انتظامات کو بھی ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔
ان دونوں دفعات نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ زمین خریدنے اور اس کے مالکانہ حقوق لینے یا سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے، جو مستقل طور پر نسل در نسل یہاں پر مستقل رہایش پذیر چلے آرہے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ بھی تھا کہ جموں و کشمیر سے باہر لوگوں پر کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی لگائی جائے یا جموں و کشمیر کی اراضی اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کی کوششوں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ سب کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ ،اور انھیں ایک مخصوص سطح کی سیاسی اور معاشی خودمختاری کا حق دار بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
اکتوبر۲۰۱۹ء میں ، جموں و کشمیر کی ریاست کو عملی طور پر تحلیل کردیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کی ریاستی اسمبلی سے قانون سازی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے ،اسے نئی دہلی حکومت کے تحت براہِ راست جموں اور کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے تک جموں و کشمیر، بھارت سے وابستہ واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔
۳۷۰ اور ۳۵-اے دفعات کو منسوخ کرنے اور ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کے خاتمے سے قبل، یہ خطہ مکمل طور پر متحد تھا ۔مگر اب یہاں بسنے والوں کی حقیقی بے اختیاری جلد ہی محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے، جو خصوصی مقامی شناخت کے ضائع ہونے سے کہیں زیادہ بڑا اور گہرا صدمہ ہے۔ ریاستی مقننہ میں شمولیت کے آئینی تقاضے کو پورا کیے بغیر ، چوری اور دھوکا دہی کے ذریعے دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنا اور سابقہ ریاست کا خاتمہ، ماہرین قانون کی نظر میں یک سر ناجائز عمل ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستیں زیرسماعت ہیں، اور سپریم کورٹ ان کی سماعت متعدد بار ملتوی کرتا چلا آرہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ۳۱مارچ ۲۰۲۰ءکو رات گئے، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے باضابطہ طور پر ایک ’نئے ڈومیسائل کی حکمرانی‘ کا اعلان کیا تو جان لینا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں مستقبل میں کیا ہوگا؟مختصر لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسی تفصیلات ہیں جن کا تعلق ’شیطان‘ سے ہے۔
جموں و کشمیر کی ’تنظیم نو‘ کے نام پر ریاستی قوانین اور احکامات نامی نوٹیفکیشن کے مطابق، کوئی بھی فرد جو ۱۵ سال تک جموں و کشمیر میں کسی بھی حوالے سے مقیم رہا ہے یا اس علاقے میں سات سال تک تعلیم حاصل کرچکا ہے ، اور کلاس ۱۰ یا کلاس ۱۲ کے امتحان میں حاضر ہوا ہے ، اسے یہاں پر رہایشی حقوق حاصل ہوں گے، اور وہ مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل ہوگا۔
اس نوٹیفکیشن کا وقت ، بھارت نے کورونا (COVID-19 ) پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر کیا، جو وقت، طریق کار ، مقصد کے اعتبار سے بہت ہی عجیب حرکت ہے۔ اگرچہ بھارت کے دیگر حصوں میں یہ لاک ڈاؤن وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی اقدام ہے ، لیکن کشمیر میں اس نے بالکل ہی مختلف معنی اختیار کرلیے ہیں، جو درحقیقت لاک ڈاؤن کے اندر ایک بھیانک لاک ڈاؤن تھا۔ ایسا لاک ڈاؤن جو ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی موجود تھا۔
ریاست جموں و کشمیر کے نظامِ مواصلات کی مکمل طور پر ناکہ بندی سمیت فوج کے تحت، جموں و کشمیر پر ایک سخت جبری کنٹرول میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مزید ذیلی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی کی۔ کشمیر میں اب تک تاریخ کی طویل ترین شہری بندشوں کا مقصد، عوامی غم و غصے کو ختم کرنے کے مقاصد حاصل کرنا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ یہاں پر رہنے والے مظلوموں کے یہ دُکھ درد کسی گہرے اندھے سیاہ کنویں میں دفن ہوجائیں، اور ان لوگوں کی کوئی چیخ پکارباہر سنائی نہ دے۔
’نئے رہایشی‘ اور ’مالکانہ قوانین‘ کا نفاذ اگست ۲۰۱۹ء کے جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن کے غیرآئینی ، غیرجمہوری اور اخلاقی طور پر غلط لاک ڈاؤن کا تسلسل ہے۔ لیکن اب وہی جبری اقدام کشمیر میں بھارت کی حکمت عملی کا بنیادی اصول بن گیا ہے، جس میں دکھاوے کی بھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ اگر کشمیر میں پہلا لاک ڈاؤن اس کی خصوصی حیثیت اور تحفظ سے محروم ہونے پر عوامی شور و غل کو روکنے میں کامیاب رہا، تو دوسرے لاک ڈاؤن سے بھارتی حکومت اپنے بڑے ایجنڈے کے تحت جو کچھ کرنا چاہتی ہے ،اس کا نقشہ بچھانے کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔
نئے رہایشی اور مالکانہ قوانین کے نفاذ نے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں ، ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کو بے وزن اور بے وقعت بنانے کا جو پیغام دیا ہے، اس کے نتیجے میں وہاں ہر مذہب اور قوم میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں وہ سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اس دوران میں یہاں متعدد بھرتیوں کا عمل روک دیا گیا ہے، جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ گویا کہ یہ کام نئے قواعد کے تحت ڈومیسائل پر جموں و کشمیر سے باہر کے افراد کو بھی درخواست دینے کی اجازت دینے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔
۲۷ فروری کو ،[بھارتی] حکام نے جموں اینڈ کشمیر بنک کی ڈیڑھ ہزار سے زائد ملازمتوں کے لیے بھرتی کے اس عمل کو ختم کردیا ، جو ۲۰۱۸ءسے جاری تھا ۔ اس طرح ان ہزاروں مقامی نوجوانوں کے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جو اپنے ابتدائی امتحانات میں کامیابی کے بعد ملازمت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ۲جون ۲۰۲۰ء کو ، بنک نے ایک ہزار ۸سو ۵۰ ملازمتوں کے لیے اشتہارات دیے، جس میں نئے ڈومیسائلوں کی بنیاد پر بھی درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔
وبائی امراض کے طوفان بیچ ، جب اسپتالوں کو بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور عملے کی کمی کا سامنا ہے۔ حکومت نے ہندو اکثریتی خطے جموں، سری نگر اور کٹھوعہ ضلع میں سیکڑوں طبّی ملازمتوں کا راستہ کھولا ہے۔ جو عارضی اور مستقل معاہدے کی پیش کش کرتا ہے۔
انتظامیہ ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے مختلف شعبوں میں بھی بھرتی ، تقرر اور ترقی کے عمل کو بھی روک دیا گیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن ، جو سول سروس میں بھرتیوں کا ذمہ دار ہے ، اسے ختم کردیا گیا ہے اور ایک نیا ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے۔ریاست سے باہر کے لوگوں کے ہاتھوں ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ موجودہ سرکاری ملازمین کی بےچینیوں میں اضافے کے ساتھ ان کی تنخواہ ، ترقیوں ، وغیرہ سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا ایک سلسلہ دراز کرتا ہے، جس کے دائرے میں ۳۰ہزار سے زیادہ مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔
اس سال ۲۹؍اپریل کو جموں وکشمیر نے اپنا ریاستی وجود کھو دیا ہے، انجامِ کار ’انتظامی ٹریبونل ایکٹ ، ۱۹۸۵ء‘ کو جموں و کشمیر اور لداخ پر لاگو کر دیا گیا ہے۔ جون میں ، سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونل کے جموں بنچ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی علاقوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ انتظامی بیوروکریسی میں مقامی لوگوں کو بُر ی طرح نظرانداز کیا گیا ہے یا انھیں ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا ہے۔ اس عمل نے لوگوں کے صدمے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ،آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ میں اعلیٰ بیوروکریٹک عہدوں کی اکثریت، ریاست جموں و کشمیرسے باہر کے لوگوں کے پاس ہے۔
ان نئے ’رہایشی حقوق‘ (ڈومیسائل)سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے والے وہ ہزاروں ہندو اور سکھ مہاجرین بہت فائدے میں رہیں گے، جو ۱۹۴۷ء میں پاکستانی علاقوں سے آکر جموں شہر کے نواح میں آباد ہوگئے ہیں۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قواعد چونکہ بہت حد تک نرم کردیے گئے ہیں ، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے کا کوئی معیار نہیں ہے جو اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔
بھارت سے آنے والے ہزاروں بیوروکریٹوں اور نجی شعبے میں کام کرنے والوں نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں جموں و کشمیر میں مطلوبہ ۱۵ سال سے زیادہ مدت گزاری ہے۔ اسی طرح بھارتی مسلح افواج کا ایک قابل ذکر حصہ جموں و کشمیر میں مرکوز چلا آرہا ہے اور بہت سے لوگوں نے سابقہ ریاست میں متعدد اوقات میں ملازمانہ خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ ان حوالوں سے بہت سارے افراد بڑی آسانی سے ڈومیسائل کے نئے معیار کے تحت یہاں سکونتی حق حاصل کرنے کے اہل بن گئے ہیں۔
یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوجائے گا۔ پھر تباہ شدہ نظام اور احتساب کی کمی کے پیش نظر ، باہر سے آکر فائدہ اٹھانے والوں کی جانچ پڑتال کا نظام بھی دریابرد ہے۔ اس طرح یہ معاملہ صرف ملازمتوں تک نہیں رُکے گا، بلکہ یہاں زمین کی ملکیت اور کاروباری سرمایہ کاری پوری قوت سے خراج حاصل کرے گی۔ اور ’شہری حق‘ (ڈومیسائل) اس خلا میں ایسے لوگوں کو بھرپور فائدہ دے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی، اب جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے ، آباد ہوسکتا ہے، اور کاروبار شروع کرسکتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۹ء میں نافذ ہونے والے ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ‘ کے تحت ، نجی جایداد کی ملکیت کو مستقل رہایشیوں تک محدود رکھنے والی قانونی دفعات کو ختم کردیا گیا۔ یوں ماضی میں ، زمینی اصلاحات کی مقامی قانون سازی نے یہاں کے کسانوں کو معاشرتی طور پر مظلوم طبقوں سمیت بااختیار بنایا تھا، جس سے انھیں وقار کا احساس ملا تھا اور جموں و کشمیر ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل تھا، جہاں کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا تھا۔ مگرزمین سے متعلق ان ترمیم شدہ قوانین سے مقامی آبادی نہ صرف اپنی مراعات سے محروم ہوگئی ہے بلکہ بیرونی لوگوں کی ممکنہ معاشی و سیاسی اجارہ داری کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل ریاست جموں و کشمیر نے اپنا ریزرویشن ایکٹ بھی نافذ کیا تھا، جس کے تحت تعلیمی اداروں میں کوٹہ فراہم کیا گیا تھا اور پس ماندہ پس منظر کے لوگوں کے لیے نوکریاں مہیا کی گئی تھیں۔ ان میں دلت اور دوسرے پس ماندہ قبائل بھی شامل تھے۔ خواتین پیشہ ور کالجوں میں ۵۰فی صد ریزرویشن سے استفادہ کر رہی تھیں۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے سے ، سرکاری اداروں میں اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم مفت تھی، لیکن اب ان سب کو اُلٹ کر دیا گیا ہے۔
ابھی تو وبائی حالت کو بہانہ بناکر، حکومت نے گرمیوں میں دارالحکومت جموں سے سری نگر منتقل کرنے کی ۱۵۰ سالہ قدیم سالانہ مشق کو بھی روک دیا ہے۔ اگرچہ ہندو اکثریتی جموں اور مسلم اکثریتی کشمیر میں دو دارالحکومتوں کا عمل مثالی طور پر بڑی خوبی سے چل رہا تھا۔
پھر انتخابی حلقوں کی حد بندی کو اَزسرِ نو شروع کرنے کے حکومتی فیصلے سے ہندو اکثریتی جموں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ: ’’نشستوں کا تعین ملک کے دوسرے حصوں کی طرح آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور چین کے زیرانتظام اکسائی چین کی مناسبت سے ایسی نشستوں کو وضع کیا جائے گا جن سے ۱۹۴۷ء کے ہندواورسکھ استفادہ کریں گے‘‘۔
جموں و کشمیر کا سیاسی ڈھانچا مکمل طور پر ختم کیا جاچکا ہے، جب کہ متعدد اعلیٰ قائدین حراست میں ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں ۔ خاموش رہنے کی شرائط پر کئی افراد کو چھوڑ بھی دیا گیا ہے یا انھیں نظربند رکھا گیا ہے۔مختلف پارٹیوں سے بدلہ لینے کے لیے حال ہی میں ’اپنی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی تنظیم تشکیل دی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ یہ نئی دہلی حکومت کی سرپرستی میں پر پُرزے نکال رہی ہے، مگریہ حرکت بھی برف پگھلانے میں ناکام رہی ہے۔
نئے انتظامات کے تحت ، لداخ کے دُور دراز علاقوں کو قانون ساز اسمبلی کے نام پر لوٹ لیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو محدود اختیارات ملیں گے ، جس سے ان اداروں کو عملی طور پر دوریموٹ کنٹرول میونسپلٹیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جس سے ایک مرکزی اتھارٹی کے زیرانتظام، اس کے وسیع رقبے ، یہاں کی پیچیدگی ، اس کے سماجی و سیاسی تنوع اور نزاکت سے منسوب، انتظام کی عملی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ نقصان کے گہرے احساس نے ایک عجیب مزاج کو جنم دیا ہے، جس نے مسلم اکثریتی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں میں روایتی طور پر تفرقہ انگیز داستانوں کو کچھ حد تک محدود کردیا ہے۔ جموں میں عوامی عدم اطمینان، روزگار ، اراضی ، تجارت اور اجتماعی تعلیم پر بھارت سے اُمڈتے اجارہ داری سیلاب نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔یہ سب کچھ دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے اور نئے ڈومیسائل قانون کا نتیجہ ہے جس سے مقامی آبادی خوف میں مبتلا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت اور حکمران پارٹی تو پہلے ہی تسلسل سے کشمیریوں کی آبادی میں تبدیلی اور ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں کئی عشروں سے آبادی میں تبدیلی کے سوال پر بے چینی پائی جارہی تھی۔ آج ، مقبوضہ کشمیر میں اُردن کے مغربی کنارے کے اسرائیلی ماڈل کے قبضے اور نوآبادیات کی نقل مکانی اور مقامی باشندوں خصوصاً کشمیری مسلمانوں کو گھٹا کر نئی آبادکاری کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاکہ ان نئے آباد کاروں کے ذریعے اکثریت کی اجارہ داری کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔
نومبر۲۰۱۹ء کے آخر میں ، امریکا میں تعینات ایک بھارتی سفارت کار نے، کشمیری ہندوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’کشمیری ثقافت اور بھارتی ثقافت اصل میں ایک ہندو ثقافت ہے‘‘ اور ساتھ نوآبادیاتی عمل کی تحسین کرتے ہوئے، دریاے اُردن کے مغربی کنارے بستیوں کے اسرائیلی ماڈل کی حمایت کی تھی۔
اگر ان خیالات کی سنجیدگی کے بارے میں کوئی شبہات تھے، تو ان کو مسترد کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے حالیہ اقدامات ’اسرائیلی ماڈل‘ کو بھارت کی کشمیر پالیسی کا مرکز بنانے کا ایک انتظامی نمونہ ظاہر کرتے ہیں، جنھیں موجودہ لاک ڈاؤن کے زمانے کو استعمال کرکے عوامی سطح پر کسی بھی اشتعال انگیزی سے بچنے کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن ایسی خوش فہمی کسی بھی وقت بڑے حادثے سے دوچار کرسکتی ہے۔ بھارتی حکومت عوام کے صبر اور خاموشی اور کشمیری عوام کی اُمنگوں اور انسانی حقوق کی بے حد زیادتیوں میں اضافے کو اپنی کامیابی تصور کر رہی ہے۔
اگرچہ یہ سب کچھ بھارتی جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، لیکن اس نے جنوبی ایشیا میں امن کو بھی انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ جس سے کشمیر کے اندر مقامی باشندوں کا اپنے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنا، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کی شدت سے دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا کردے گا۔ ہندستان اور چین کے مابین موجودہ تنازعے میں اس آگ کو بڑھانے اور ایندھن میں اضافے کا بھی امکان ہے۔(’الجزیرہ‘، انگریزی، ۲۱ جون ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)
کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ
سلیم منصور خالد
یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:
۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔
وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔
ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔
یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔
ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔
پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔
غازی سہیل خان
۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔
’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔
ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔
وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔
سہیل بشیر کار
چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’ Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔
یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔
گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔
ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰ یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱ دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔
اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔
اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔
آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!
عارف بہار
بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔
ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔
اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔
اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔
بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔
بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔
۲۹فروری ۲۰۲۰ءکو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہوئے معاہدے سے تقریباً دوہفتے قبل، بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ کابل ایئرپورٹ پر اُترا۔ اس طیارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا ایک دست راست، صدر اشرف غنی کے لیے خصوصی پیغام لے کر گیا تھا، جس نے اسی رات واپس دہلی پہنچ کر وزیر اعظم کو مشن کی کامیابی کی اطلا ع دے دی۔
امریکا و یورپ سمیت پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کی سیاسی جماعتیں توقع کر رہی تھیں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے تک افغانستان کا الیکشن کمیشن انتخابات کے نتائج کا اعلان نہیں کرےگا۔ اس کو بھی ایک طرح سے پس پردہ معاملہ فہمی (Deal) کا حصہ سمجھا جا رہا تھا، تاکہ معاہدے کے بعد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ نئی دہلی حکومت کو خدشہ تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکا اور دیگر طاقتیں، یا تو افغانستان میں اَز سرنو انتخابات کروانے پر زور ڈالیں گی یا طالبان کو وسیع البنیاد حکومت میں حصہ لینے پر آمادہ کروالیں گی۔ لہٰذا، اس کو سبو تاژ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موجودہ صدر اشرف غنی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔ کیونکہ آثار بتارہے تھے کہ دوحہ معاہدے کے بعد کابل میں موجودہ حکومت، قانونی حیثیت کے بغیر عضو معطل اوربے معنی وجود بن کر رہ جائے گی۔
اس افسر کے کابل دورہ کے اگلے ہی دن، یعنی ۱۸فروری کو افغانستان کے الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ کے بعد انتخابات کا اعلان کرکے اشرف غنی کو بطورصدر کامیاب قرار دے دیا۔ اس طرح ستمبر ۲۰۱۹ء میں ہوئے انتخابات میں اشرف غنی نے دوسری بار صدر کے عہدے پر قبضہ جمالیا۔
کابل میں سکھ گوردوارے پر بم دھماکا ، تشدد کے واقعات اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میںٹال مٹول کرنے سے امریکا کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کا خیال رکھے بغیر امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے اور بھارت اس وقت اشرف غنی کی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے پیچھے پوری یکسوئی سے کھڑ ا ہے۔
بھارت نے بظاہر افغانستان کے سکیورٹی معاملات سے الگ رہ کر تعمیر و ترقی اور مالی امداد پر توجہ مرکوز کی ہے، تاکہ افغان عوام کی پذیرائی حاصل کرکے طالبان کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ ۲۰۰۱ء سے لے کر اب تک بھارت نے افغانستان میں تقریباً تین ارب ڈالر کی رقم صرف کی ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بھارتی بجٹ میں افغانستان کے لیے بھارتی چار ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ لہٰذا، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ بھارتی ادارے اتنی جلدی کابل حکومت کو طالبان یا کسی بھی پاکستان دوست حکومت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔
اسی دوران امریکا کے ساتھ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیرمحمد عباس استانگزئی نے بھارت کے حوالے سے طالبان کی پوزیشن کو ان الفاظ میں واضح کر دیا ہے: ’’افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ غداروں کی مدد کی، گذشتہ ۴۰برسوں کے دوران افغانستان کے بدعنوان گروپ کے ساتھ بھارت نے تعلقات قائم رکھے ہیں۔ لیکن اگر بھارت، افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہو تو افغان طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘‘ (روزنامہ The News ، ۱۸مئی ۲۰۲۰ء)
ان سبھی ایشوز پر امریکا کو بھی تشویش لاحق ہے۔ اسی لیے اس وقت جب پوری دنیا ’کرونا لاک ڈاؤن‘ کی زد میں ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں کہ ایک خصوصی امریکی چارٹرڈجہاز کے ذریعے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد ، نئی دہلی آن پہنچے۔ جہاں انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملاقاتیں کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی ایلچی نے بھارت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ طالبان کے حوالے سے اپنے رویے میں نرمی لائےاور بتایا کہ ’’طالبان کا وجود، افغانستان کی ایک حقیقت ہے۔ ان سے بے زاری اور ان کو زبردستی کابل اقتدار سے دُور رکھناکوئی دانش مندی نہیں ہے‘‘۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے مشورہ دیا کہ ’’پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی طرح بھارت بھی طالبا ن کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرکے اپنے خدشات براہِ راست ان کی قیادت کے گوش گزار کرے‘‘۔ ایک طرح سے خیل زاد نے طالبان اور بھارت کے مابین ثالثی اور ان کے درمیان سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کی کوشش کی۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کے ساتھ خلیل زاد کے انٹرویوکا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس میں انھوں نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل نہیں تھا‘‘۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ دوحہ معاہدے کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے، اور پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارتی کوششوں کو بھاری دھچکا لگا ہے۔
علاوہ ازیں بھارت ہمیشہ افغانستان کے معاملات کو کشمیر میں جاری جدوجہد کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے۔ نئی دہلی میں افسران کہتے ہیں: ’’ افغانستان میں جب بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت مسندِ اقتدار پر آئی ہے، تو کشمیر میں اس کا براہِ راست اثر دیکھنے کو ملا ہے‘‘۔ کشمیر کے ایک سابق گورنر جگ موہن ۱۹۸۹ء میں برپا عوامی بغاوت اور بعد میں عسکری جدوجہد کے آغاز کو افغانستان میں سوویت افواج کی شکست سے منسلک کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے درمیان طالبان دورِحکومت میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی تھی اور اسی زمانے میں کرگل جنگ بھی برپا ہوئی۔
ان سبھی خدشات کے ساتھ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ سامنت گوئل نے ۵جولائی ۲۰۱۹ء کو وزیراعظم نریندرا مودی سے ملاقا ت کی اور ان کو مشورہ دیا: ’’امریکا - طالبان معاہدے کے ظہور میں آنے سے قبل ہی جموں و کشمیر کے سلسلے میں سخت فیصلہ کرلیا جائے‘‘۔جس کے ایک ماہ بعد ہی بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نہ صرف اس کی آئینی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی، بلکہ ریاست کو ہی تحلیل کرکے اسے مرکزی انتظام والا علاقہ بنادیا۔ ان ذرائع کے مطابق ’را‘ کے سربراہ نے یہ دلیل دی تھی کہ ’’طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ امریکا ، پاکستان کی اقتصادی اور ملٹری امداد بحال کر دےگا‘‘۔اُن دنوں خیال تھا کہ دوحہ مذاکرات ستمبر ۲۰۱۹ء میں مکمل ہوجائیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے نئی دہلی کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں کچھ بااثر حلقے اب طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور تعلقات استوار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا کے مطابق: ’’طالبان کے ساتھ تب تک گفت و شنید کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ، جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا اَزسر نو جائزہ نہیں لیتے‘ ‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت کو ان کے ساتھ کوئی بھی سلسلہ کھولنے میں اندیشے ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ تحفظات اپنی جگہ، مگر جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوتا ہے، تو بھارت کو اس میں اپنی پوزیشن بناکر اس کو یقینی کرلینا چاہیے کہ یہ مذاکرات غیرجانب دار جگہ پر ہوں‘‘۔
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ’’ بھارتی پالیسی، طالبا ن کو کلی طور پر کابل اقتدار سے دُور رکھنے اور ایک وسیع البنیاد حکومت میں ان کے اثر و نفوذ کو کم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ یعنی طالبان اگر اقتدار میں شرکت کریں تو بھی ان کی کوئی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہو۔ افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کو یک جا کرکے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ امر سنہا اور شیام سرن کے یہ خیالات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اور اقدامات کا نچوڑ ہیں۔
دوسری طرف دیگر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’’۱۹۹۶ء کے برعکس پاکستان اپنے دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے متوقع طالبان حکومت کی کوئی بامعنی اقتصادی مددنہیں کر پائے گا۔ اور یہی کچھ حالات سعودی عرب اور متحدہ امارات کے بھی ہیں۔ اس لیے اپنی مالی پوزیشن پر بھروسا کرکے بھارت کو چاہیے کہ وہ طالبان کو شیشے میں اتار کر انھیں پاکستان کے خیمے سے باہر نکالنے کے جتن کرے‘‘۔
بھارت کی اس سوچ اور حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں شاید ہی امن بحال ہوسکے گا۔ چونکہ بھارت خود ہی افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اس لیے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ’’اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے، جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلے کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے‘‘۔ اور یہ کہ ’’کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی اور افغانستان میں ایک حقیقی عوامی نمایندہ حکومت ہی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے‘‘۔
عوام کی توجہ جہاں ’کورونا تباہی‘ پر مرکوز ہے، وہاں ایک ہی وقت میں جموں و کشمیر کے عوام کو دوبار لاک ڈاؤن، بڑھتے ہوئے تشدد اور یک طرفہ طور پر دہلی حکومت کے پےدرپے اقدامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری مدت کے پہلے ۱۲مہینوں کی کشمیر پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہیں، جو وادیِ کشمیر میں تباہ کن سمجھے جاتے ہیں، جموں اور لداخ میں مخلوط ردعمل کا اظہار سامنے آرہا ہے،جب کہ باقی بھارت میں قدرے اطمینان کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
مودی حکومت کی ان کارروائیوں میں تازہ ترین شاخسانہ نئے ڈومیسائل قواعد ہیں ، جنھیں ۱۸مئی ۲۰۲۰ء کو مشتہر کیا گیا ہے۔ دہلی وزارتِ داخلہ کے ۳۱مارچ کے حکم کے مطابق، یہ ضابطے جموں و کشمیر ریاست کے اس بنیادی قانون کو تبدیل کردیتے ہیں، جسے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۵ -اے کے تحت تسلیم کیا گیا تھا۔ جس میں ریاست کے مستقل باشندوں کو سرکای ملازمتوں کے ریزرویشن کے ساتھ ساتھ مفت تعلیم اور زمین کی ملکیت کے مکمل حقوق کا حق حاصل چلا آرہاتھا۔
ڈومیسائل کے یہ نئے قواعد کسی ایسے شخص کو جو: ریاست میں۱۵سال تک کام کرتا رہا ہے یا رہایش پذیر ہے، یا سات سال تک وہاں تعلیم حاصل کی ہے، وہ کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے گا اور کشمیر کے مستقل رہایشیوں کے لیے محفوظ کردہ تمام فوائد کا مستحق ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ترمیم ان سرکاری عہدے داروں کو بھی ڈومیسائل کا مستحق ٹھیراتی ہے، جنھوں نے اپنے غیررہایشی بچوں کے ساتھ، ریاست میں ۱۰ سال تک مختلف سطحوں پر نوکری کی۔ اس رعایت کا فائدہ اُٹھانے والے اہل کاروں کی اقسام کی فہرست کے مطابق: ہندستانی انتظامی خدمات کے ممبر، قانون ساز اداروں میں کام کرنے والے) ، عوامی شعبے کی اکائیوں اور بنکوں ، مرکزی یونی ورسٹیوں اور 'مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ تحقیقی اداروں وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے شامل ہیں۔
صرف سرکاری عہدے داروں اور ان کے بچوں کی حمایت کرتے ہوئے مراعات دینے کا مطلب ایک واضح تعصب ہے۔ یاد رہے ۲۰۰۰کے عشرے کے اوائل میں سول سروس کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد ، بھارت کی بہت سی ریاستوں اور حکومتوں نے ان مراعات کو ختم کرنا شروع کیا، تاکہ بڑے شہروں پر ملک کے مختلف حصوں سے آبادی کا دباؤ ختم کیا جائے۔ مگر یہ تعصب کی انتہا ہے کہ دوسرے حصوں میں تو بھارت کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو روکا جارہا ہے، مگر جموں وکشمیر پر اسے نافذ کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا موقف ہے کہ ’’نئے ڈومیسائل قواعد ضروری تھے کیونکہ بہت سے پس ماندہ گروہوں کو ریاست میں بہتر معاشی مستقبل دینا ضروری ہوگیا ہے، جیسے مغربی پاکستان سے آنے والے مہاجرین وغیرہ‘‘۔ مگر یہ دلیل فی الحقیقت بے بنیاد ہے۔ مودی حکومت یا دہلی کی حکومتوں کو ان گروپوں میں شامل لوگوں کی مدد اور مستقل رہایشی زمرے میں توسیع سے کسی نے کبھی نہیںروکا تھا۔ پہلے اس سوال نے چند لاکھ لوگوں کا مسئلہ کھڑا کیا تھا، مگر مودی سرکار نے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ لوگوں کو رجسٹریشن اور ریکارڈ کی دلدل میں کیوں دھکیل دیا ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
بی جے پی پارٹی کے ترجمان کہتے ہیں:’’ہمارے فیصلوں پر ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ جب کہ پارٹی منشور میں ہم نے اپنا ارادہ بیان کیا تھا اور ہندستان کے صدر اور پارلیمنٹ نے اسی کی پیروی کی ہے‘‘۔ یہاں پر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگست ۲۰۱۹ء کے صدارتی احکامات اور تنظیم نو ایکٹ بشمول ان تمام اقدامات کے، سپریم کورٹ میں آئینی سطح پر چیلنج کردیے گئے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ عدالتی فیصلے تک زیرسماعت چیزوں پر عمل درآمد کو منجمد کرنے کی پابند ہے، لیکن مودی حکومت بے جھجک حیرت انگیز تیزی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی جارہی ہے۔
اگست کے اعلانات کے چند مہینوں کے اندر ، جموں و کشمیر کے اثاثوں کو دو نئے مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ریاستی پولیس کو مرکزی وزارت داخلہ نے براہِ راست اپنی حکمرانی میں لے لیا۔ صنعتی فروغ کے لیے کشمیر میں اراضی کے حصول کا کھلا حق دے دیا گیا، بھارتی سیاحتی کمپنیوں کو ترقی پذیر مقامی صنعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا ، اور کان کنی کے حقوق غیر کشمیری ٹھیکے داروں کو فروخت کردیے گئے۔ اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن سمیت ریاست کے سابقہ تمام قانونی اداروں کو تحلیل کردیا گیا۔ اقتدار لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے مشیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کردیا گیا۔ اس طرح حکمرانی کے اس نئے نظام میں متحرک اور مقتدر لوگوں میں ایک کے علاوہ تمام افراد کا تعلق ریاست سے باہر ہے۔
جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی تحلیل چلی آرہی ہے۔ یہاں کے بہت سارے سیاسی رہنما نظربند ہیں، انھیں بولنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کو ان موضوعات پر بات کرنے پر دھمکایا جاتا ہے۔ اس تمام تر جبر کے باوجود ، جموں و کشمیر میں واحد بی جے پی کے علاوہ ، تمام سیاسی جماعتوں کے نئے ڈومیسائل قواعد کے خلاف احتجاج کو بڑی بے دردی سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھاؤ نے نئے ڈومیسائل قواعد کو ’ایک معاہدہ‘ قرار دیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ مودی انتظامیہ ان پر نظرثانی نہیں کرے گی (انڈین ایکسپریس، ۲۱مئی ۲۰۲۰ء)۔
جموں وکشمیر کے بیش تر افراد نے دستوری کی دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کو ریاست کی داخلی خودمختاری کے تابوت پر آخری کیل قرار دیا ہے، اور درست کہا ہے۔ یاد رہے ۳۵-اے کے نتیجے میں تحفظات کی ضمانت کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ اس کی ضمانت مہاراجا ہری سنگھ کے دستخط کے تحت دی گئی تھی۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے حکومتوں نے سابقہ ریاست کے اختیارات رفتہ رفتہ ختم کردیے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی آرٹیکل ۳۵-اے یا ریاست کے تابع قانون سازی پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، اور آہستہ آہستہ یہ چیز کشمیریوں کی شناخت سے جڑ گئی تھی۔ پھر اہم تر بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے ذریعے کشمیریوں کو بااختیار بنائے جانے کو تحفظ حاصل تھا۔ اور جب ۱۹۹۰ کے عشرے میں مسلح شورش میں اضافہ ہوا تو ، بہت سے کشمیری سیاسی رہنماؤں نے مسلم اکثریتی وادی اور جموں کے متعدد اضلاع کی آبادی کو تبدیل کرنے کے ہندستانی ارادے کو بھانپ لیا تھا۔
۲۰۱۹ءتک ، یہ خدشات کشمیریوں کی تنہائی کے احساس کو تیز کرنے کے عمل میں ڈھل گئے۔ پھر اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات نے ماضی کی تمام مثبت کوششوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا، جموں و کشمیر کے آئین کو زیر و زَبر کردیا اور آرٹیکل ۳۵- اے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ جس کے بعد ڈومیسائل قواعد کو جبری طور پر مسلط کیا جارہا ہے۔
اس آخری اقدام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں عدم استحکام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلح مقابلوں میں اضافہ ہورہا ہے اور سیکیورٹی کی صورتِ حال انتہائی نازک ہے۔ اس خراب صورت حال کو پیدا کرنے کا پاکستان پر الزام لگانا ایک فضول سی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وادیِ کشمیر کے پیدا شدہ عدم استحکام ہی کا پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے اور چین کو بھی ۔ مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے نتیجے میں ، ہندستان کو اپنے مغربی محاذ پر ، اور جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق سے مسلسل انکار کرکے ، خود بھارت کی سلامتی کے لیے خطرات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیا بھارت واقعی صرف ’ہندوتوا‘ نظریاتی جذبے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ (روزنامہ The Hindu، ۲۶مئی ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)
جب ۲۰۱۸ء میں ہمارے نمایندوں نے امریکا کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا، تو ہماری توقع مذاکرات کے مثبت نتائج کے حوالے سے صفر تھی۔ ۱۸ برس کی جنگ اور ماضی میں کئی بار مذاکرات کی کوششوں کے پیش نظر ہم امریکا پر اعتماد نہیں کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس طویل جنگ سے سب بے زار ہیں، اور کسی بھی ممکنہ امن عمل کا موقع ضائع کرنا دانش مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم دکھائی دیتا تھا اور چار عشروں سے جاری جنگ کی وجہ سے ہر روز کسی افغان کا نقصان ہو رہا ہے۔ کوئی ایسا خاندان نہیں ہے جو اس جنگ سے متاثر نہیں ہے۔ہلاکتوں اور مشکلات کا یہ دور ختم کرنا چاہیے۔
امریکا کی زیرقیادت غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ، ہمارا انتخاب نہیں تھا بلکہ جب ہم پر یہ جنگ مسلط کر دی گئی تو ہم اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھے۔ لہٰذا، غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا اوّلین اور اہم مطالبہ ہے، اور اسی غیرمعمولی مسئلے پر ہم آج امریکا کے ساتھ امن معاہدے کر رہے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادر اور شیر محمد عباس ستانک زئی کی سربراہی میں ہمارے نمایندوں نے اٹھارہ ماہ کے دوران امریکی حکام کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے اَن تھک محنت کی، ملک بھر میں نہتے شہریوں پر امریکا کے شدید فضائی حملوں پر ہمارے نمایندوں نے باربار تشویش کا اظہار کیا اور امریکا کی جانب سے ہر بار نئے مطالبات پیش کرنے کے باوجود ہم امن مذاکرات کے لیے پُرعزم رہے۔
یہاں تک کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، تب بھی ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، کیونکہ جنگ کے تسلسل سے زیادہ ہمارے عوام ہی متاثر ہورہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے دو طرفہ مذاکرات کے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دشمن کے خلاف دو عشروں سے ہماری لڑائی جاری ہےاور جس کے ہاتھوں موت بارش کی طرح برس رہی ہے، اس کے ساتھ امن مذاکرات کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
ہم ان خدشات اور تمام سوالات کو سمجھتے ہیں، جو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نظام کی نوعیت کے بارے میں افغانستان کے اندر اور اس سے باہر موجود ہیں۔ اس طرح کے خدشات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کا انحصار بین الافغان اجماع پر ہے۔ ہم دوسروں کی مداخلت کے بغیر آزاد ماحول میں ہم گفت و شنید اور مفاہمت کے ذریعے ملک کے نظام کے بارے میں بات چیت کریں گے اور اس میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
پہلے سے شرائط مقرر کرکے اس عمل کو روکنا مناسب نہیں ہے۔ ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ باہمی احترام کے ماحول میں، مشاورتی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں اور ایک نئے اور ہمہ پہلو سیاسی نظام کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں کہ جس میں ہر افغان کی آواز سنی جائے اور کوئی افغان شہری محروم نہ رہے۔
مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا اور مداخلت سے نجات کے بعد، ہم مشترکہ طور پر ایک اسلامی نظام کے لیے راہ ہموار کریں گے، جس میں برابری کی بنیاد پر تمام افغانوں کے حقوق محفوظ ہوں گے، تعلیم اور روزگار سمیت خواتین کے وہ تمام حقوق محفوظ ہوں گے، جو اسلام نے دیے ہیں۔
ہم باغی گروپوں کی طرف سے افغانستان سے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق خطرے کے بارے میں اٹھائے جانے والے خدشات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ تاہم، اس طرح کے خدشات میں مبالغہ آرائی کو پہلے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور افغانستان میں غیر ملکی گروہوں کے بارے میں اطلاعات کو سیاسی مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ وضاحت بھی ضروری اور کسی افغان کے مفاد میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں اور افغانستان کو میدان جنگ بنائیں۔ ہم نے غیرملکی مداخلت کا عذاب دیکھا ہے، لہٰذا تمام افغانوں کے ساتھ مل کر ہم یہ امر یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائیں گے کہ ایک نیا افغانستان امن کی علامت کے طور پر ابھرے اور کسی کو بھی اس کا احساس کبھی نہ ہو کہ ہماری دھرتی سے اس کو خطرہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود، ہم پیش آمدہ چیلنجوں کو کم نہیں سمجھتے ہیں، اور ان میںہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ مختلف افغان گروہ ہمارے مشترکہ مستقبل کی وضاحت کے لیے سنجیدگی اور خلوص نیت سے کام کریں۔ بلاشبہہ کچھ لوگ اختلاف کریں گے، تاہم مجھے یقین ہے کہ سب لوگ ایک متفقہ نظام پر راضی ہوجائیں گے، کیوں کہ اگر ہم کسی غیرملکی دشمن کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، تو باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے احسن طریقے سے ختم بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ عالمی برادری غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانوں کے ساتھ سرگرم عمل رہے، کیونکہ ہمارے ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے عالمی برادری کا تعاون ضروری ہے۔ ہم باہمی احترام کی بنیاد پر پاے دار امن اور خوش حالی کے میدان میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنی افواج کے انخلا کے بعد امریکا بھی افغانستان میں ملک کی ترقی اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہم اس پہلو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور ان کے خدشات کو سنجیدگی سے دُور کرے۔ افغانستان تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیا افغانستان بین الاقوامی دنیا کا ایک ذمہ دارملک ہوگا۔ ہم ان تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے پابند رہیں گے، جو اسلام کے مقدس دین کے اصولوں سے متصادم نہیں ہیں۔ اسی طرح ہم دوسرے ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں، کہ وہ ہمارے ملک کے استحکام اور خودمختاری کا احترام کریں اور ہماری آزادی اور استحکام کو باہمی تعاون کے طور پر دیکھیں، مقابلے اور دشمنی کے طور پر نہیں۔
اس وقت کا بڑا چیلنج ہمارے اور امریکا کے مابین امن معاہدے پر عمل درآمد ہوگا، اگرچہ امریکی نمایندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کچھ اعتماد پیدا ہوا ہے، لیکن جس طرح امریکا ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ہے ، ہمیں بھی اس پر اتنا اعتماد نہیں ہے۔ ہم اپنی جانب سے معاہدے کے ہر لفظ پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن معاہدے کے مفادات کا حصول ، کامیابی کی یقین دہانی اور دیرپا امن لانا بھی امریکا پر منحصر ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ دیرپا امن کے لیے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
ہمارے ہم وطن بہت جلد اس تاریخی معاہدے پر عمل درآمد کے بعد تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مشاہدہ کریں گے۔ جب ہم اس مرحلے کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ بہت جلد ہم اپنے تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر پایدار امن اور ایک نئے افغانستان کی بنیاد کی طرف تحریک کا آغاز کریں گے۔دیگر ممالک میں مقیم تمام افغان شہریوں کو اپنے ملک اور گھر کی طرف واپس آنے کی دعوت دے گا، جہاں ہر ایک کو عزت اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو‘‘۔(What We the Taliban Want?، مطبوعہ دی نیویارک ٹائمز، ۲۰فروری ۲۰۲۰، ترجمہ: ادارہ)
افغان جہادکے دنوں میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے ۱۹۸۳ء تا ۱۹۹۲ء کئی بار افغانستان جانا ہوا۔ روسی بمباری سے افغانستان کا دیہی علاقہ مکمل طور پر برباد ہوچکا تھا۔ ان علاقوں سے اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی تھی۔ پھر جب افغان مجاہدین نے حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی، تو بڑے شہروں کابل،جلال آباد،گردیز،چغہ سرائے وغیرہ جانا ہوا، جہاں تباہی کے مناظر عام تھے۔ شاہراہیں ،پُل، باغات، عمارات زمیں بوس ہوتی گئیں اور غربت و افلاس میں مزید اضافہ مشاہدہ میں آتا رہا۔ ۱۹۹۴ء سے طالبان کی آمد کے ساتھ امن آیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی قیادت میں ناٹو افواج نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ہرافغان کے دل کی آواز ہے کہ غیر ملکی مداخلت یقینا ختم ہو نی چاہیے، اس کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ماضی کی طویل خانہ جنگی کے بعد اگر پھر نئی خانہ جنگی ہوئی تو یہ ایک بڑاالمیہ ہوگا۔ یہی سوال تمام افغانوں اور ان کے بہی خواہوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے جب ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو ایک طویل انتظار کے بعد قطر میں ایک تاریخی امن معاہدہ طے پایا، تو اس پر افغان عوام نے کوئی پُرجوش استقبال نہیں کیا، حالانکہ سب کی خواہش تھی کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کامیابی سےہم کنار ہوں۔افغانستان میںمنعقد ہونے والے گذشتہ تمام صدارتی انتخابات کے تمام امیدواروں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میںامن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی اس وعدے کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے رہے کہ ’’ہمارا اصل کام امن کا قیام ہوگا۔ ہم طالبان سے اپیل کرتے تھے کہ وہ مذاکرات کریں‘‘۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ ۲۰۰۱ء میں جب امریکی افواج نے افغانستان پر نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بناکر دھاوا بولا، تو اس وقت افغانستان میں مُلّا عمر کی قیادت میں امارت اسلامی قائم تھی، جس کو ختم کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔چونکہ گذشتہ دوعشروں میں طالبان کی امارت اسلامی، غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔اس لیے جب بھی قابض فوج افغانستان چھوڑے تو اسے ہم سے بات کر کے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ آخرکار امریکی صدربارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان سے مذاکرات کا اصولی فیصلہ کیا۔لیکن انھیں فیصلے پر عمل درآمد میں متعدد اندرونی مزاحمتوں کا سامنا رہا۔ پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد انخلا کی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ امریکی افواج اور اتحادیوں کے تحفظ اور واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگلنے کی کوشش کی۔
بالآخر ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے نمایندے مُلّا عبدالغنی برادر اور ’ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے نمایندے کے زلمے خلیل زادے نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس موقعے پر دونوں فریقوں نے معاہدے کے لیے پاکستان کے کردار اور مصالحانہ کوششوں کی تعریف کی ۔ اس معاہدے پر مختصر بات کرنے سے پہلے متن کا مطالعہ مفید ہوگا، یہ معاہدہ ۱۲سال کے طویل ترین بحث و مباحثے کے بعد حتمی شکل میں سامنے آیا ہے، اور بہ یک وقت انگریزی، پشتو، دری، [فارسی] میں جاری کیا ہے۔
’’معاہدہ براے بحالی امن افغانستان، مابین امارت اسلامی افغانستان، جس کو ریاست متحدہ [امریکا] ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ریاست متحدہ ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر‘‘ یہ ایک جامع امن معاہدہ کیا ہے، جس کے چار حصے ہیں :
۱- ضمانتوںاور عمل درآمد کا نظام، جس سے سرزمین افغانستان کو کسی گروہ اور فرد کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال سے روکا جائے گا ۔
۲۔ ضمانتوں اور عمل درآمد کے نظام الاوقات کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان۔
۳- ضمانتوںاور غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان، بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میںکہ سرزمین افغانستان ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بین الافغان مذاکرات افغان گروہوں کے ساتھ ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء شروع کرے گا، بمطابق ۱۵ رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۲۰حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔
۴- مستقل اور جامع فائر بندی بین الافغان مذاکرات اور صلاح مشوروں کا مرکزی نکتہ ہو گا، جس میں مشترکہ نظام نفاذ کا اعلان اور افغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں ۔
یہ چاروں حصے مربوط ہیں اور عمل درآمد متفقہ نظام الاوقات اور متفقہ شرائط پر ہو گا:
___ درج ذیل میں معاہدے کے پہلے اور دوسرے حصے کے نفاذ کا متن ہے:
دونوں فریقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں حصوں کے نفاذ کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں ان پر عمل کرائے اور جب تک افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ایک نئی عبوری افغان اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
ریاست متحدہ افغانستان سے تمام امریکی و اتحادی فوجی قوت بشمول تمام غیرسفارتی سول افراد،نجی سیکورٹی،ٹھیکے دار،تربیتی عملہ،مشیر اور دیگر معاون عملے کا انخلا ۱۴ ماہ میں یقینی بنائے گی، جس کا اعلان اس معاہدے میں کیا گیا ہے۔اور اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اٹھائیں گے:
(الف) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی پہلے ۱۳۵ دنوں میں یہ اقدامات کریں گے:
۱- (امریکا) اپنے فوجیوں کی تعدادکو گھٹا کر(۸,۶۰۰) تک لائے گا اور اسی تناسب سے اتحادی فوجوں کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔
۲- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی (۵) فوجی اڈوں سے مکمل انخلا کریں گے۔
(ب) امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے عملی اقدامات اور معاہدے کی پابندی کو دیکھتے ہوئے ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی درج ذیل کام کریں گے:
۱- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی ساڑھے ۹ ماہ میں افغانستان سے بقیہ انخلا مکمل کریں گے۔
۲ - اسی طرح ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، تمام بقیہ فوجی اڈوں سے انخلا مکمل کریں گے۔
(ج)ریاست متحدہ پابند ہے کہ وہ فوری طور پر تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کرے، تاکہ جلد ازجلد جنگی اور سیاسی قیدیوں کی رہا ئی عمل میں لائی جا سکے، جس میں تعاون اور منظوری تمام متعلقہ فریق دیں گے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ۵ ہزار تک کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ دوسرے فریق کے ۱۰۰۰ (ایک ہزار) قیدیوں کی رہائی ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء تک عمل میں آئے گی۔جو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن ہوگا۔ بمطابق ۱۵رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کینڈر اور ۲۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔متعلقہ فریقین کا یہ عزم ہے کہ آیندہ ۳ ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ریاست متحدہ اس عمل کو مکمل کرنے کی پابند ہے ۔امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہیں کہ رہا شدہ قیدی اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے اور وہ ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کو ئی خطرہ نہیں بنیں گے۔
(د)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس کے ارکان کے خلاف سروں پر مقرر کیے جانے والے انعامات کی فہرست کو ختم کرنے اور دیگر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ۲۷ ؍اگست۲۰۲۰ء کا ہدف رکھا گیا ہے،بمطابق ۸محرم ۱۴۴۲ ہجری قمری کیلنڈر اور ۶سنبلہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر ۔
(ح)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ایسے سفارتی اقدامات کرے گی، جس سے امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جاسکیں، اس ارادے کے ساتھ کہ یہ ہدف ۲۹مئی ۲۰۲۰ء تک حاصل ہو جائے،بمطابق ۶ شوال ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۹ جوزہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر۔
(و) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، کو ئی بھی ایسی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، جس سے افغانستان کی سیاسی آزادی اور جغرافیائی سالمیت متاثر ہو تی ہو اور نہ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں گے۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، درج ذیل اقدامات اٹھائے گی، تاکہ کسی بھی گروہ یا فرد بشمول القاعدہ کو روکے گی، جوافغانستان سرزمین کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہو۔
۱- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اپنے ارکان اور دیگر افراد اور گروہوں بشمول القاعدہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغان سرزمین کو ریاست متحدہ یا اس کےاتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرسکے۔
۲- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان عناصر کو ایک واضح پیغام دے گی جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں کہ ان کے لیے افغانستان میں کو ئی جگہ نہیں ہے، اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کو ہدایت کرے گی کہ وہ کسی ایسے گروہ یا افراد سے تعاون نہ کریں، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
۳- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بھی ایسے گروہ یا افراد کو روکے گی، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے سلامتی کے لیے خطرہ ہو، نیز ایسے افراد کو بھرتی،تربیت اور چندہ جمع کرنے سے بھی معاہدے کے قواعد کے مطابق روکے گی۔
۴- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہوں گے کہ جو لوگ افغانستان میں پناہ اور رہایش کے خواہش مند ہوں گے، بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کے مطابق اور اس معاہدے کے مطابق ایسے افراد ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف خطرہ نہ بنیں گے۔
۵- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کسی کو بھی ویزہ ،پاسپورٹ ،سفری پرمٹ یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کرے گا، جو ریاست متحدہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے۔
۱- ریاست متحدہ اس معاہدے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر ے گی۔
۲- ریاست متحدہ ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ،ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اور چاہیں گے کہ معاملات طے پانے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الافغان مذاکرات کے نتائج مثبت ہوںگے۔
۳- ریاست متحدہ نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہو گا۔
اس معاہدے پر دوحہ قطر میں دستخط کیے گئے۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر، پشتو ، دری اور انگریزی زبانوں میں بیک وقت جس کا ہر ایک متن مصدقہ ہے۔
اس معاہدے کے متن میں ۱۶ مرتبہ ایک ہی جملہ لکھا گیا ہے:’’امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیںــ‘‘۔ یاد رہے ۲۰۰۱ء میںجب امریکا، افغانستان پر قابض ہوا تو یہاں اسلامی امارت قائم تھی، جس کو زبردستی ہٹایا گیا اور اب جب آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو اس امارت اسلامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔چنانچہ درمیانی راستہ یہ نکالا کہ ’امارت اسلامی‘ کی اصطلاح کو تو مان لیا گیا، لیکن اس کے ساتھ امریکی مذاکرات کاروں نے یہ اضافہ کیا ’’ جس کو امریکا ایک ریاست یا مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی‘‘۔طالبان کے لیے تو یہ امر باعث اطمینان رہا کہ ان کو برابر کے فریق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا، جو مسلّمہ بین الاقوامی روایات کے عین مطابق ہے، کہ قابض غیر ملکی فوج اپنی شکست تسلیم کرکے جب انخلا کرتی ہے، تو وہ مزاحمت کاروں سے اسی طرح کا معاہدہ کرتی ہے۔ اگر پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاتا تو متن کی بعض دفعات سے اشارہ ملتا ہے، خاص طورپر جب امارت اسلامی سے مطالبہ ہو تا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ویزہ یا پاسپورٹ نہیں دیں گے، جو امریکا کے لیے خطرہ بنے۔ اس طرح معاہدے میں جارح طاقت کی حیثیت سے امریکا نے نہ اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ افغان قوم سے ان مظالم اور قتل عام پر معافی مانگی، جو گذشتہ ۱۹سال میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج کی جارحیت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔
اس معاہدے کے شروع میں ضمانتوں کا ذکر ہے، لیکن آگے اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔ جس سے یہ امکان ہے کہ معاہدے کے علاوہ بھی کوئی خفیہ دستاویز بنائی گئی ہے ۔معاہدے میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ۱۰ مارچ کی تاریخ دی گئی تھی، جو خاموشی سے گزر چکی ہے،جب کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ۲۹مئی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے لیے۲۷ ؍اگست مقرر کی گئی ہے، جو الٹی ترتیب ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے انعقادکی ذمہ داری اگرچہ امریکی حکومت نے قبول کی ہے، البتہ اس کو کا میابی سے ہم کنار کرنے میں یقینا طالبان کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ طالبان کے موجودہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ ہیں جو روپوش ہیں، انھوں نے کامیابی سے تحریک طالبان کی رہنمائی کی ہے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا ہے۔
مستقبل کے امکانات: افغانستان کا کُل رقبہ ۶۵۲۲۳۷ مربع کلو میٹر ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق تقریباً ۵۰فی صد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ان کے انتظامی ادارے اور عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ باقی علاقوں میں بھی ان کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔جنگی صلاحیت میں ان کی سب سے بڑی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے۔طالبان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق پختون آبادی ہی سے ہے۔ افغانستان ایک کثیر القومی وطن ہے، جس میں ۴۵ فی صد پختون،۲۰ فی صد تاجک، ۲۰ فی ہزارہ، ۹ فی صد ازبک، ترکمان اور ۳ فی صد دیگر قومیتیں ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے بعد دوسرا بڑا فریق سابقہ شمالی اتحاد ہے، اور کم از کم چارصوبوں پر ان کا قبضہ ہے۔آج کل ان کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پاس ہے۔ صدارتی انتخابات ۲۰۱۵ء کے پہلے مرحلے میں انھوں نے ۴۵ فی صد ووٹ لے کر ڈاکٹر اشرف غنی کو شکست دےدی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں، ڈاکٹر اشرف غنی، طالبان کی درپردہ حمایت سے مکمل پختون آبادی کے ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ بعد میں عبداللہ عبداللہ حکومت میں چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے، امریکی ایما پر شامل ہو گئے تھے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں انھوں نے پختون ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ کُل۲۷ لاکھ ووٹ ڈالے گئے، اس میں سے ۹ لاکھ ووٹ انھوں نے حاصل کیے، جب کہ ۱۰ لاکھ ووٹ جو ضائع کیے گئے، ان میں بھی اکثریت ان کے ووٹوں کی تھی۔ اب انھوں نے اشرف غنی کے مقابلے میں صدر جمہوریہ بننے کا اعلان کردیا ہے اور ۶ صوبوں میں اپنے گورنر بھی مقرر کر دیے ہیں۔صدر اشرف غنی کی مخالفت میں ان کو ایک اہم شخصیت ازبک رہنما رشید دوستم کی بھی حمایت حاصل ہے، جو دشت لیلیٰ میں ہزاروں طالبان قیدیوں کےسفاکانہ قتل میں ملوث تھے، اور ایک مؤثر قوت رکھتے ہیں اور اسلحے کا بھی بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
تیسرا اہم گروہ ہزارہ شیعہ قبیلہ ہے، جو افغانستان کے ایک مرکزی صوبے بامیان پہ قابض ہے۔گذشتہ دنوں کابل میں ان کے سابق رہنما عبدالکریم خلیلی کی برسی کے موقعے پر ایک بڑے اجتماع پر حملہ ہوا تھا، جس میں ۵۰ سے زائد شرکا جاں بحق ہو ئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ہزارہ قبیلہ بھی طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کا ساتھ دے گا۔
چوتھا اہم گروپ گل بدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر مشتمل ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ ملک کے طول و عرض میں انھوں نے مؤثر انتخابی مہم چلائی۔ روسی جارحیت کے دوران افغان جہاد میں یہ مجاہدین کا سب سے بڑا گروپ تھا، لیکن بعد میں شمالی اتحاد سے جنگ کے دوران اور پھر طالبان کی آمد سے ان کی پوزیشن کمزور ہو تی گئی۔گذشتہ سال انھوں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیااور انتخابی عمل میں بھی حصہ لیا۔ حزب اسلامی ایک نظریاتی حیثیت سے اہمیت رکھتی ہے اور قومی ایشو ز پر اپنی آزاد راے کا اظہار بھی کرتی ہے۔
۲۰۰۵ء میں حامد کر زئی نے اپنے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں امریکا کےساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں امریکی افواج کو پانچ مستقل اڈے دینے کی بات کی گئی تھی۔تاہم، بعد میں آنے والے صدر اشرف غنی نے اپنے دور کے آغاز میں ہی امریکی دباؤ پر دستخط کر دیے تھے۔
صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اس معاہدے کی تیسری اہم فریق ہے، جو مذاکرات سے باہر رکھی گئی۔ لیکن معاہدے کے نفاذ میں ان کا اہم کردار ہے۔ملک کے بڑے شہروں پر ان کا اقتدار قائم ہے۔ تین لاکھ افغان فوج اور ایک لاکھ کی تعداد میں افغان پولیس ان کی حکم کے تابع ہے۔ وہ خود تو ایک ماہر معیشت اور علمی شخصیت ہیں اور پختون قبیلے احمد زئی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کوئی جنگی پس منظر نہیں رکھتے۔ حالیہ انتخابات نے ان کو خاصا کمزور کر دیا ہے۔ انھوں نے اس بار صرف ۹ لاکھ ووٹ حاصل کیے، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد ۹۶لاکھ ہے۔ ۱۸ ستمبر ۲۰۱۹ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ ۵ ماہ بعد مشتہر کیا گیا اور اس طرح ان کو ۵۰ فی صد ووٹ دے کر پہلے مرحلے میں کامیاب قرار دیا گیا۔ انھوں نے ۹ مارچ۲۰۲۰ء کو جب صدارتی محل میں صدر جمہوریہ کا حلف اٹھایا، تو اس وقت صدارتی محل ہی کے قریبی بلاک میں ان کے مقابل امیدوار عبدا للہ عبد اللہ نے بھی صدارتی حلف اٹھایا۔ اشرف غنی کے ایک اور حلیف اور ان کے ساتھ پہلے صدارتی دور میں نائب صدر عبد الرشید دوستم بھی ان سے قریب ہی رہایش پذیر ہیں۔ ان کے مسلح گارڈ برسرِعام اپنی قوت کا اظہار کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ان حالات میں آنے والے بین الافغان مذاکرات میں اشرف غنی ایک کمزور پوزیشن میں نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدا للہ عبداللہ گروپ نے مذاکرات میں اس طرح شرکت کا عندیہ دیا ہے کہ ان کا نمایندہ وفد شریک ہوگا، لیکن وہ اشرف غنی کے سرکاری وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا حربہ استعمال کرکے پورے معاہدے کو کمزو ر کر دیا۔ معاہدے کے مطابق ۱۰ مارچ ۲۰۲۰ء کو دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور بین الافغان مذاکرات کا نکتہ آغاز تھا،لیکن یہ دونوں کام مؤخر ہو گئے۔
’قطر امن معاہدے‘ کو کامیاب بنانے میں حکومت پاکستان بہت اہم کردار رہا ہے۔جس کا اعتراف معاہدے کی تقریب میں ہی عالمی میڈیا کے سامنے دونوںفریقوں کے نمایندوں نے کیا تھا۔ اس اعترافِ حقیقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مخالف لابیاں ہر جگہ اس کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہو گئیں ۔ بھارتی میڈیا نے تو اس کے خلاف بولنا ہی تھا کہ بھارت کے پاکستان دشمن مفادات افغانستان میں جنگی صورتِ حال کے برقرار رہنے سے جڑے ہو ئے ہیں۔لیکن امریکا میں موجود بھارت نواز اور پاکستان دشمن صحافتی اور بااثر حلقوں نے بھی اس تخریب پسندانہ کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایک عرصے سے تمام بڑے امریکی دانش وَر،جنگی ماہرین اور تھنک ٹینک محسوس کر رہے تھے کہ امریکا کسی طریقے سے افغانستان کی اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکل آئے۔ اسی طرح دُوراندیش حلقے سمجھتے ہیں کہ ’داعش‘ کے لیے بھی پُرامن اور طالبان کا افغانستان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔پاکستان میں تنگ نظر قوم پرست عناصر بھی اس کھیل میں بھارت کے وکیل صفائی بلکہ ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔
مراد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں معمولی سی غلطی بھی افغانستان کو ایک بار پھر ہولناک تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ہم افغان قوم اور اس کی قیادتوں سے ہوش مندی اور وسیع النظر فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔