سترہ روزہ پاک بھارت جنگ ستمبر۱۹۶۵ء کے بعد اسی سال ۱۶؍اکتوبر کو انجمن شہریانِ لاہور کے جلسے منعقدہ وائی ایم سی اے ہال سے خطاب۔ مرتبہ: رفیع الدین ھاشمی
***
ایک دانش مند قوم کو ایسے موقعے پر، جو اس وقت ہمیں درپیش ہے، حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے،کہ حریف کے مقابلے میں ہمارے کمزور پہلو کیا ہیں اور قوت و طاقت کے ذرائع کیا ہیں؟ کیوں کہ عقل مندی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوت اور طاقت کے ذرائع کو مضبوط کیا جائے، اور کمزور پہلوئوں کی تلافی کی تدابیر سوچی جائیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہندستان تعداد کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اور ذرائع، وسائل اور اسلحے کی مقدار کے لحاظ سے بھی۔ ان حیثیتوں سے ہم ان اُمور کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ رقبہ بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے اور اگر ہم خاندانی منصوبہ بندی سے توبہ کرلیں تب بھی، تعداد کے لحاظ سے اس کے برابر نہیںہوسکتے۔ اسی طرح اس کے اسلحے کی فراہمی کے ذرائع اور وسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں۔ ان پہلوئوں سے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے بڑھ جائیں یا اس کے برابر ہی پہنچ جائیں۔
اب یہ دیکھیے کہ ہماری طاقت کے ذرائع کیا ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم ان ذرائع کو بڑھائیں تو ہم دشمن سے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ذرائع اگر ہمیں مضبوط بناتے ہیں، تو پھر یقینا انھیں بڑھانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہوگا۔
ہمارے لیے سب سے اوّلین شعبہ طاقت کا وہ اتھاہ ذخیرہ ہے، جس میں ہندستان بلکہ پوری کافر دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور یہ ایمان اور اسلام کی دولت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس چند روزہ جنگ میں ہمیں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ہماری فوج دشمن کی فوج کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ تھی تو میں اسے غلط نہیں کہتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ محض فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کی مہارت ہی وہ چیز نہ تھی، جس نے ہمیں فتح یاب بنایا۔ہماری فوجی تربیت بھی تو وہی تھی، جو انگریزی نظامِ عسکریت کے تحت ہم نے پائی۔ ادھر دشمن نے بھی یہی تربیت حاصل کی تھی۔اگر محض اسی پر ہمارا انحصار ہوتا تو ہم بازی نہیں جیت سکتے تھے۔ تب وہ چیز کیا تھی، جس نے ایک اور دس کے مقابلے میں ہمیں کامیاب کرایا؟ دراصل وہ چیز اللہ پر ایمان، آخرت کا یقین، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی محبت، اور یہ یقین تھا کہ اگر ہم شہید ہوگئے تو ہماری بخشش ہوگی اور ہم جنّت میں جائیں گے۔ اس چیز نے ہمارے سپاہی کو طاقت ور بنایا۔خالص دینی جذبہ ، اللہ و رسولؐ اور آخرت پر یقین اور شہادت کا شوق ہمارے سپاہی کی اصل روح ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نصرت عطا فرمائی ہے۔
آپ دیکھیں کہ ان علاقوں سے جو دشمن کی زد میں تھے، ہماری آبادی اس طرح نہیں بھاگی جس طرح دوسری جنگ ِعظیم کے دوران فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگی، جن پر جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تاجر نے اس اخلاق کا ثبوت دیا جو زندہ قوموں کے شایانِ شان ہے۔ اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جنگ چھڑ جائے اور ضرورت کی عام چیزیں بازار سے غائب نہ ہوں اور چیزیں نہ صرف ملتی رہیں بلکہ پہلے سے بھی سستی ہوجائیں۔ یہ آخر کس چیز کا فیض ہے۔ بجز ایمان کے اور ان اخلاقیات کے، جو ہمیں اسلام کی بدولت حاصل رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ اگر اس موقعے پر خدانخواستہ سارا انحصار فوجی مہارت کے استعمال پر ہوتا اور ایمان کی طاقت نہ ہوتی، یا اسلام کی دی ہوئی بچی کھچی اخلاقی حس بیدار نہ ہوتی اور تاجر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے، عوام بدحواس ہوکر بھاگنا شروع کر دیتے، بستیوں کو خالی دیکھ کر یا افراتفری کے عالم میں دیکھ کر مجرم اپنے جرائم کی رفتار تیز کردیتے، تو آج ہم کہاں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دین، اسلام کے سوا اور کوئی چیز ہمیں بچانے والی نہیں ہے۔
ایک عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب حریف کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت و قوت کے ذرائع کا علم ہوجائے تو انھیں بڑھانے کی کوشش کرے، نہ کہ انھیں ختم کرنے میں لگ جائے۔ یہ تجربہ جو ہمیں اس جنگ میں ہوا ہے، ہم اسے بار بار نہیں دُہرا سکتے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دے سکتے جو انھیں ذہنی شکوک و شبہات میں مبتلا کرے۔ ہم قوم کو عیاشی کی شراب نہیں پلاسکتے۔ ہم قوم کی اخلاقیات کا ستیاناس نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے تجربہ کرلیا ہے کہ ہماری مسلسل غلطی کے باوجود صرف ایمان اور اخلاق ہی ہمارے کام آئے ہیں۔ اب اگر ہم بار بار اپنی اسی طاقت کو کمزور کرنے والے طریقے اور راستے اختیار کرتے چلے جائیں گے، تو نہ معلوم ہم میں سے کتنے آیندہ بھی مضبوط ثابت ہوں؟ ہرنئی آزمایش کے موقعے پر پہلے سے کمزور ہوتے چلے جانا ایک فطری چیز ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیںہماری کسی غلطی کی سزا نہیں دی۔ اس لیے اب ہمیں اپنی ایمانی قوت کو مضبوط کرنے اور اخلاقی طاقت کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظامِ تعلیم کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیےکہ یہ نظام نوجوانوں میں کس حد تک ایمان کے بیج بوتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں کمزوری ہو، اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخلاق کو سنبھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ نشرواشاعت کے دیگر ذرائع سب کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور وہ کام نہ کیے جائیں جو اخلاق کو کمزور کرنے والے ہوں، بلکہ ایک سچّے مسلمان کی سیرت کو نشوونما دینے کی نیت اور جذبے سے کام کیا جانا چاہیے۔
ہندو قوم چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو، وہ بھارت تک محدود ہے۔ اس کے برعکس یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم اس دین حق سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کے ہرگوشے میں پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں وہ فطری طور پر ہمارے دوست اور فطری اتحادی ہیں اور یہ بھی اسلام کی بدولت ہے۔ پھر مسلمان ملکوں میں سے جو اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں، ۱۳مسلمان ملکوں کی زبان عربی ہے۔ یہ سب ملک ہمارے فطری اور پیدایشی حامی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اگر کسی موقعے پر ہماری حمایت نہ بھی کرتی ہوں، تب بھی ان ملکوں کے عوام ہمیشہ ہماری حمایت کرتے ہیں۔
جہادِ پاکستان نے عالمِ اسلام پر جو اثر ڈالا ہے، اس مناسبت سے عرب دنیا کے ایک نامور لیڈر ایک عربی اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’اسرائیل کی آبادی صرف ۲۲لاکھ ہے اور سات آٹھ کروڑ عرب اس سے ڈرتے ہیں، جب کہ پاکستان نے صرف دس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ۴۸کروڑ آبادی کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں‘‘۔ پھر انھوں نے یہ سوال عربوں کے سامنے رکھا ہے کہ غور کیجیے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جو آپ کو اسرائیل کے مقابلے میں کمزور بنائے ہوئے ہے؟
ان نکات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہادِ پاکستان نے خود عالمِ اسلام پر کیسا عظیم الشان اثر ڈالا ہے۔ فی الحقیقت یہ جو کچھ ہوا ہے، بالکل فطری طور پر ہوا ہے۔ یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا،لیکن اسے اب نشوونما دینا ہمارا فرض ضرور ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہم نے مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ پاکستان سے پہلے ہم اس بھروسے پر تھے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں اورتقسیمِ ہند کے بعد بھی ہم اسی بھروسے پر رہے، لیکن بھارت نے مسلم ممالک کو ہم سے توڑنے کی زبردست مہم شروع کر دی۔ اس نے مسلمانوں کو ہم سے توڑنے کے لیے اپنے عربی دان مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے لیے عرب ملکوں میں بھیجا، جنھوں نے وہاں کے دانش وروں اور لیڈروں کو یقین دلایا کہ پاکستان تو انگریزی استعمار کی پیداوار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس قدر زہر پھیلایا کہ ۱۹۵۶ء میں، جب میں عرب ملکوں میں گیا تو مجھ سے وہاں مقیم پاکستانیوں نے کہا کہ ان ملکوں میں ہمیں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہاں ہمیں مغربی استعمار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جو زبردست پروپیگنڈا کیا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے دوران اس کی کوشش ناکام ہوگئی۔
میں کہتا ہوں کہ اسلام کی بدولت یہ سب کچھ اگر ہمیں اپنی کسی خاص کوشش کے بغیر حاصل ہوا ہے تو عقل مندی یہ ہے کہ اب ہم اپنی خاص کوشش سے اسے بڑھائیں۔
اس ضمن میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کردار ادا کیاہے، اس کے متعلق نرم سے نرم الفاظ میں مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی۔ حج کے لیے جانے والے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حج کے زمانے میں ہندستان صاف ستھری عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتا ہے کہ ’’بھارت کے مسلمان خیریت سے ہیں اور انھیں ہرطرح کا آرام اور سہولتیں حاصل ہیں‘‘۔ اس کے مقابلے میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے ہمیں اوّل تو کوئی چیز شائع کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نہایت گھٹیا انداز میں کہ اسے کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ یہ ایک نہایت ضروری چیز ہے کہ عرب ملکوں میں ہمارے سفارت خانوں میں عربی جاننے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں میں بھی اس ملک کی زبان جاننے والے لوگ ہوں۔ فارن سروس میں لیے جانے والے لوگوں کے لیے یہ چیز لازمی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ملک میں اپنا موقف اور نقطۂ نظر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا عمل جاری رکھیں۔
ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ خود ہمارے نظامِ تعلیم میں عربی زبان کو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ عربی زبان جسے مُلّا کی زبان سمجھا جاتا رہاہے، آج دنیا کے ۱۳ایسے ممالک کی زبان ہے، جو خلیج فارس سے لے کر اٹلانٹک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں ڈاکٹروں، انجینیروں، پروفیسروں اور دیگر ٹیکنیکل عملے کی ضرورت ہے۔ ہم یقینا ایسا عملہ ان ملکوں کو دے سکتے ہیں، لیکن زبان کی اجنبیت مانع ہے۔ وہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت ڈاکٹر اور انجینیر وغیرہ منگواتے ہیں، مگر جب وہاں ڈاکٹر اور مریض کے درمیان، انجینیراور اس کے ماتحت عملے کے درمیان زبان کی مشکل حائل ہوتی ہے تو پھر انگریزی مترجمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں کالجوں میں وظیفے دے کر طلبہ کو عربی پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکے، تو یہ ماہرین ہمارے قدرتی سفیر ثابت ہوں گے اور مفید خدمات انجام دیں گے۔ اس طرح کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک ہماری حمایت نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کرسکیں تو ان شاء اللہ سارا عالمِ اسلام ہمارے ساتھ ہوگا۔
میں نے یہ چند عملی تجاویز مختصر الفاظ میں بیان کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ انھیں بروے کار لانے کی توفیق دے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء، ص ۸-۹)
صاحب ِطرز انشاء پرداز اشفاق احمد کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اُردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے پاس یکے بعد دیگرے جاتی ہے اور ان میں سے ہرایک کی خدمت میں کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے، لیکن یہ سارے ادیب کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’میری لائن انسان دوستی ہے سیاست نہیں‘‘۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’یہ میری فیلڈ نہیں ہے میں گرامر، عروض اور ساختیات کا سٹوڈنٹ ہوں‘‘۔ یہ لڑکی مشہور فلم سازوں کے پاس بھی کشمیریوں کی مظلومیت کی فریاد لے کر جاتی ہے، مگر وہ لوگ بھی اس کی بات سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔ بالآخر یہ لڑکی افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے: ’’آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں انکل کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانیوں کے حق میں کچھ لکھا، تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے؟ آپ کو تنگ نظر، کوتاہ بین، قدامت پسند اور بنیاد پرست کہہ کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کر دیں گے؟‘‘
بھارت اور پاکستان کے اُردو ادیب واقعتاً اس خوف میں مبتلا ہیں۔ اُن کا یہ عارضہ اُتنا ہی پرانا ہے جتنا کشمیر کا تنازع۔ کشمیریوں کے مصائب سے ان کی غفلت اور ان کا فرار ایک پرانا عارضہ ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے جبرو استبداد کے آغاز ہی سے اُردو ادیب اس انسانی المیے سے لاتعلق ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری چونکہ مسلمان واقع ہوئے ہیں، اس لیے ان سے یگانگت کا دم بھرنے سے اُس کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی پر حرف آجائے گا۔
ڈاکٹر آفتاب احمد نے اپنی کتاب بیاد صحبت نازک خیالاں میں لکھا ہے: [’’۳جنوری ۱۹۴۸ء کو ] پاکستان کے ادیبوں کی طرف سے کشمیر کے بارے میں ایک مشترکہ اعلان شائع کیا گیا، جس پر سواے [فیض احمد]فیض صاحب کے، سب ترقی پسند ادیبوں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ترقی پسند حلقوں میں عام طور پر یہ مشہور ہوا کہ:’’یہ بیان [ڈاکٹر ایم ڈی]تاثیر صاحب کی ’سازش‘ کا نتیجہ تھا۔ چونکہ تاثیر صاحب کو معلوم تھا کہ ترقی پسند اس قسم کے بیان کی تائید نہیں کریں گے، اس لیے انھوں نے یہ گہری چال چل کر عوام اور حکومت کی نظرمیں زیادہ سے زیادہ انھیں مشتبہ کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔ اب اصل حقیقت سن لیجیے … ہندستان کے کچھ ادیبوں نے، جن میں دو ایک مسلمانوں کے نام بھی شامل تھے، کشمیر کے بارے میں ہندستانی نقطۂ نظر کی حمایت میں ایک بیان شائع کیا۔ محمد حسن عسکری، غلام عباس اور مَیں ایک جگہ جمع تھے۔ وہاں یہ ذکر آیا تو ہم نے سوچا کہ ’پاکستان کے ادیبوں کو اس معاملے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے‘۔ چنانچہ تجویز یہ ہوئی کہ ایک بیان یہاں سے بھی شائع کیا جائے، جس میں پاکستانی نقطۂ نظر کی حمایت ہو، تاکہ دنیا کو حقیقت حال معلوم ہو سکے۔ غلام عباس اور مَیں، تاثیر صاحب کے پاس پہنچے اور اس تجویز کا ذکر کرنے کے بعدان سے بیان کی عبارت لکھنے کی درخواست کی۔ تاثیر صاحب نے ارتجالاً ایک مختصر سا بیان لکھ کر ہمارے حوالے کیا اور ہم نے ادیبوں سے دستخط لینے کی مہم شروع کر دی۔اسی سلسلے میں [احمد شاہ پطرس] بخاری صاحب کے پاس گئے، جو ان دنوں گورنمنٹ کالج [لاہور] کے پرنسپل تھے۔ انھیں تاثیر صاحب کی لکھی ہوئی عبارت پسند نہ آئی اور ناکافی معلوم ہوئی۔ ان کی رائے تھی کہ: ’’اس بیان میں ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے‘‘۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ: ’’بیان فیض صاحب سے لکھوایا جائے اور انگریزی میں ہو تو اچھا ہے، تاکہ باہر کے ملکوں میں کام آ سکے‘‘۔ چنانچہ فیض صاحب سے وقت مقرر کیا گیا۔ دوسرے دن ہم ان کے ہاں پہنچے، فیض صاحب بولتے گئے اور مَیں لکھتا گیا۔ ٹائپ کرا کے ہم نے وہ بیان بخاری صاحب کو دکھایا، تو انھوں نے اسے بھی پسند نہ کیا‘‘۔ (ص ۸۲،۸۳)
’’آخر ہماری درخواست پر وہ اس بیان کو کاٹ چھانٹ کر درست کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ دوسرے دن جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ لاج کے برآمدے میں بیٹھے بیان کی صاف کاپی ٹائپ کر رہے تھے۔ مستردشدہ مسودوں کا ڈھیر ان کے پاس پڑا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ رات گئے تک اس کام میں لگے رہے تھے۔ اب سوال تھا اُردو ترجمے کا۔ چونکہ بیان اُردو کے ادیبوں کی طرف سے جاری ہونے والا تھا، اس لیے بخاری صاحب کا اصرار تھا کہ: ’’اس انگریزی متن کا ایک آزاد ترجمہ ہماری طرف سے ہی ہونا چاہیے ، اور عبارت ادیبوں کے شایان شان ہونی چاہیے۔ انگریزی بیان کا ترجمہ اگر اخباروں کے مترجموں پر چھوڑا گیا، تو وہ نہ جانے اس کا کیا حشر کریں گے‘‘۔ چنانچہ اُردو ترجمے کا کام صوفی [غلام مصطفیٰ]تبسم صاحب کے سپرد ہوا۔ شام کو جب صوفی صاحب،عباس صاحب اور مَیں اُردوبیان لے کر بخاری صاحب کے پاس پہنچے، تو انھوں نے اسے بھی پسند نہ کیا۔ مشکل یہ تھی کہ بخاری صاحب کا معیارِ حسنِ نگارش اتنا بلند تھا کہ اس معاملے میں ان کی خوش نودی حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ آخر انھوں نے اس متن کی نظرثانی شروع کی‘‘ (ص۶۷، ۶۸)۔ ’’رات گئے تک یہ کام مکمل ہوا، اور دوسرے دن انگریزی اوراُردو بیانات اخبارات میں دے دیے گئے۔ یہ ہے اس بیان کی اشاعت کی داستان۔ اگر یہ ’سازش‘ تھی تو اس میں بخاری صاحب بھی شریک تھے اور فیض صاحب بھی‘‘۔(ص ۸۳،۸۴)
تنازع کشمیر کے باب میں ہمارے ادیبوں نے آغاز کار ہی میں وابستگی کے بجاے لاتعلقی کا رویہ اپنایا، تو ڈاکٹر تاثیر نے انھیں غیر جانب داری کی گپھاوں سے باہرنکل کر حق کی تائید اور باطل کی تردید کی روش اپنانے کا مشورہ دیا، مگر اسے انھوں نے ’سازش‘ پر محمول کیا۔
ہمارے ادیب آج تک اسی روش پر قائم ہیں۔ ستمبر۱۹۶۵ء میں جب کشمیر سے توجہ ہٹانے کی خاطر بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا، تو ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے قلمی جہاد کی ایک نئی اور درخشندہ روایت کی بنیاد ڈالی، مگر اعلان تاشقند کے پس پردہ کارفرما عقل نے اس روایت کو کچھ دھندلا دیا۔ چنانچہ آج ہمارے ادبی اور تہذیبی محاذ پر پھر سے ۱۹۴۸ء کا سا عالم طاری ہے۔ ہمارے ادیب اور دانش وَر پھرسے اُسی گومگو کے عالم میں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ کشمیر میں جبر و استبداد پر یوں ہی مہر بہ لب بیٹھے رہیں یا لب کشائی کی جرأت کریں؟ اس تذبذب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ستم زدگا نِ کشمیر مسلمان ہیں۔ پھر انھیں کسی سارتر یا ایڈورڈ سعید کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ اوپر سے میڈیا میں کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی جو تصویریں ابھرتی ہیں، اسے حریت پسندوں کی داڑھیوں نے’’خراب‘‘ کر رکھا ہے۔ ذرا سوچیں کہ داڑھی تو ان کے ہیرو چی گویرا کی بھی تھی، مگر اسے وہ اسلامی نہیں ’’انقلابی‘‘ داڑھی سمجھتے ہیں۔ الغرض اس نوعیت کے گونا گوں ’نظریاتی‘ سوالات ہیں، جن میں اُلجھے ہوئے اُردو ادیب خود کو تحریک آزادی کشمیر سے لا تعلق رکھنے پر ’مجبور‘ہیں۔ بھلا وہ مسلمانوں کے انسانی حقوق کی جدو جہد میں شریک ہو کر خود کو’ رجعت پسند‘ بلکہ ’طالبان پسند‘ کیسے کہلائیں؟
چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔
سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔
ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔
میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔
تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔
جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔
سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔
سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔
ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا، ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا، نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘
مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:
تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است
[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است
[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]
میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:
سیّد السادات ، سالار عجم
دست او معمار تقدیر اُمم
[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]
مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔
اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔
آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔
۱۹۴۷ء میں بھارت کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی۔ وہاں مسلمان لگ بھگ ۲۰ کروڑ سے زیادہ آباداور ان کی آبادی ۱۵فی صد ہے۔ پاکستان کے حصے میں محض ۲ فی صد غیر مسلم ہیں۔ پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی اسلام بحیثیت’نظام‘ نافذ نہیں ہو سکا ۔ بھارت جو دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے، وہاں ہزاروں بارسیکولر ازام اور جمہوریت کے ٹکڑے کیے جاچکے ہیں۔ سیکولرازم کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود ہندستان نے اسے نمایش کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر ہر چھوٹی بڑی اقلیت کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کی آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، تاہم عملاً سب قول اور فعل کا تضاد ہے۔
اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی جانب سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھارتی آئین کو سیکولرازم کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا، لیکن موجودہ وزیر اعظم کی قیادت میں بننے والی حکومت نے آئین کو ’ہندوتوا‘ کی خوف ناک چادر میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔جس کی جڑیں اس قدر مضبوط کی جا رہی ہیں کہ اب وہاں کی اقلیتیں خوف کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ’ہندوتوا‘ کا نظریہ موجودہ ’بی جے پی‘ حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک کام کیا، جس دوران سیکڑوں فسادات رُونما ہوئے، اقلیتوں سے وابستہ لوگوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، بے شمار مظالم کا نشانہ بنایا گیا، جس کی ایک تازہ مثال تبریزانصاری کی دردناک موت بھی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں سے وابستہ نوجوانوں کو اپنے شکنجے میں لے کر بے رحمی کے ساتھ پیٹنا، مارنا، اپاہج بنادینا اور جیلوں میں ڈال دینا عام ہوتا جارہا ہے ۔ دراصل بھارت میں منظم طور پر، ایک دردناک ’ہجومی قتل‘ (Mob Killing) کے ذریعے ایک ماحول اس مقولے کے مصداق بنایا جاتا ہے کہ: ’’مارنے سے پہلے بُرا نام دو‘‘۔ اس طرح نہتے مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواز گھڑا جا رہا ہے ۔ کسی مخالف کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پہلے گھنائونے الزامات لگائے جاتے ہیں، جیسے بھارت کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف کیا گیا اور انھیں دہشت گردی کے ساتھ جوڑ ا گیا۔ اسی طرح تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ اخلاق کو یہ کہہ کر ہجوم نے موت کے گھاٹ اُتار دیا کہ اس گھر میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا شک پایا گیاتھا، جب کہ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ مقتول کے گھر میں گائے کا کوئی گوشت نہیں تھا۔ اسی طرح پہلو خان کو یکم اپریل ۲۰۱۷ء کو گائورکھشا کے نام پر قتل کر ڈالاگیا۔ ٹرک ڈارئیور زاہد احمد بٹ اور معصوم حافظ جنید کے دردناک قتل کے واقعات بھی اسی ایجنڈے کی توسیع ہے۔
جھاڑکھنڈ میں ۲۲ سالہ تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا چوری کی سزا بھارت میں قتل ہے؟ تبریز کو بڑی بے دردی کے ساتھ مارمار کر نیم مُردہ حالت میں پولیس کے حوالے کر دیا گیا،جب کہ زرخرید پولیس نے بھی اس نوجوان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد، ہسپتا ل پہنچانے کے بجاے تھانے کی ایک کال کوٹھری میں ڈال دیا۔ جب اس کی حالت زیادہ بگڑ گئی تو پولیس نے اسے ہسپتال پہنچایا،جہاں ڈاکٹروں نے کسی جانچ پڑتال کے بغیر ہی اسے پولیس کے حوالے کیا ، جس کے بعد یہ مظلوم نوجوان پانچ دن تک موت و حیات کی کش مکش میں تڑپ تڑپ کر انتقال کر گیا۔
دی وائر (The Wire)نیوز کے مطابق تبریز کے لواحقین میںمسرور احمد کا کہنا ہے: ’’جب ہم تبریز کو ملنے تھانے پہنچے تو ہم نے ان کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر پولیس افسر نامی بپن بہاری سنگھ سے کہا کہ تبریز کو جلد ہی ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے ‘‘۔ لیکن پولیس افسر نے غضب ناک ہو کر جواب میں کہا کہ: ’’ یہاں سے بھاگ جائو ورنہ تمھارے بھی ہاتھ پائوں تو ڑکر جیل میں ڈال دیں گے ‘‘۔
غرض گائے ،جے شری رام ،وندے ماترم ،بھارت ماتا کی جے کے نام پر آج ہندستان میں مسلمان کو قتل کرنا آسان کام ہے، جہاں محض ایک آدھ الزام لگا کر کسی نہتے معصوم کو ہجوم کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس جیسے قتل کو اب عام زبان میںMob Lynching(ہجومی تشدد ) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی اصطلاحات سے مقتدرہ فسطائی حکمرانوں کو تنقید سے بچنے کا موقع ملتا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کو ماب لینچنگ (ہجومی تشدد) نہیں بلکہ اس کو Mobalize Lynching (متحرک تشدد) اور Political Lynching (سیاسی تشدد)کہا جانا چاہیے۔ کیوں کہ ابھی تک اس طرح کے ہجومی قاتلوں کو عبرتناک سزا نہیں ملی ہے۔ اگر کسی کو وقتی طور گرفتار کر بھی لیاجاتا ہے تو چند ماہ کے بعد ان کی رہائی کے انتظامات کر کے پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔
بھارتی ہجومی قاتلوں کو بچانے کی مثالیں بے شمار ہیں۔ پہلو خان کے چار قاتلوں کو سرکاری نوکریوں سے نوازا گیا، اور پرگیا سنگھ ٹھاکرجیسی مجرمہ اور قاتلہ بلکہ گجرات میں ہزاروںبے گناہ انسانوں کی قاتل، آج مسند اقتدار پر براجمان ہے ۔ان سارے کربناک مظالم کے خلاف کبھی کبھی بھارت میں مسلمانوں کی کمزور سی آوازیں سُننے کو ملتی ہیں، لیکن وہ ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اگر پہنچ پاتی ہیں تو حاکم وقت گھما پھرا کر اُلٹا الزام مقتولین پر ہی دھرتے ہیں ۔بھارتی آئین کی دفعہ۱۹ عوام کو اظہارِ آزادی راے کا حق دیتی ہے ۔لیکن اب اس احتجاج کا حق بھی چھیناجا رہا ہے۔ حکومت ِوقت کے خلاف تنقید کرنا اب ملک دشمنی میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کے مظلومانہ قتل کے بعد الٹا مقتولین ہی کو گناہ گار کہہ کر دیش ورودھی ،انٹی نیشنل اور پاکستانی ایجنٹ کے القابا ت سے نوازا جاتا ہے۔ The Milli Gazette میں شائع شدہ مضمون کے مطابق بہت سے بھگوا دہشت گرد بابری مسجد کی شہادت کو غلط نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بابری مسجدکو گرانا بھارت میں مساجد گرانے کی شروعات تھی، اصل کام تو اب شروع ہونے والا ہے‘‘ ۔گویا بھارت میں یہ طبقہ ایک ایجنڈے کے تحت اس طرح کے حالا ت خراب کرکے ہندو مسلم بھائی چارے کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
ان سارے مظالم کے ردعمل میں بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چند سلیم الفطرت غیرمسلموں کی نحیف آوازیں بھی اُٹھتی ہیں۔تبریز انصاری کے دردناک واقعے کے بعد ہندستان میں بہت سارے غیر مسلموں، جن میں صحافی، وکلا اور طلبہ نے بھر پور احتجاج کیا۔مسلمانوں نے بھی بھائی چارے ،اخوت اور یکتائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندستان کے مختلف شہروں میں زور دار احتجاج کیے، جن میں خاص طور پر مہاراشٹر کے شہر مالیگائوںکا ااحتجاج ہے، جس میں مسلمانوں نے ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔ واضح رہے یہ وہی جگہ ہے جہاں انگریزوں نے ۹۷سال پہلے مجاہدین آزادی کو پھانسی دی تھی۔ آج اسی یادگار جگہ پر مسلمان بڑی تعدادمیں تبریز انصاری کے لیے انصاف کی خاطردُہایاں دیتے نظر آئے۔ بھارتی ہندستان کے زعفرانی میڈیا کو ہزاروں اور لاکھوں کا یہ احتجاج نظر نہ آئے ، لیکن دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح سے جمہوریت کی دعوے داری کرنے والے ملک میں نہتوں کا بے دردانہ طریقے سے قتل کیا جاتا ہے ۔
جس ملک میں اس طرح کی پیچیدہ صورتِ حال ہو تو وہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی ،مسلک اور جماعت پرستی سے باہر نکل کر، ایک قوم بنتے ہوئے ان سارے مظالم کا حکمت سے مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا، اور اُن مسلمانوں کو بھی ہوش کے نا خن لینے ہوں گے جو شعوری یا غیر شعوری طور ’ہندوتوا‘ ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ اسی دین فطرت کی طرف لوٹیںجو امن ،بھائی چارہ ہمدردی و غم خواری کا درس دیتا ہے ۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارت کی تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بڑی ہی حکمت اور بہادری سے استعمال میں لاکراس ظلم کے خلاف بیداری کی مہمات چلانا چاہییں،تاکہ ہمیں کسی اور تبریز کی مظلومانا شہادت کو نہ دیکھنا پڑے۔
گذشتہ چند عشروں میں بھارت کے کسی وزیراعظم کو وہ مقبولیت اور کامیابی نہیں ملی، جو نریندر مودی کے حصے میں آئی ہے۔ لوک سبھا کی ۵۴۲ نشستوں کے انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں نے ۳۵۳ نشستیں حاصل کرلیں، جب کہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو صرف ۹۰ نشستیں ملیں۔
بی جے پی کی اتنی بھرپور کامیابی کی وجوہ کیا ہیں؟ یہ نتائج بھارت میں کن تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں؟ بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟ پڑوسیوں کو اب بھارت سے کس سلوک کی توقع رکھنی چاہیے؟علاقے میں امن کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟ عالمی جریدے ٹائم نے گذشتہ ماہ اپنے سرورق مضمون میں نریندر مودی کو Divider in Chief قرار دیا۔ بھارت کی بڑی منڈی کی قوت نے وہ کرشمہ دکھایا کہ پھر اسی مؤقر رسالے نے اگلے شمارے کے اداریے میں مودی کو ’بھارت کومتحدکرنے والا‘ وزیراعظم قرار دے دیا۔ گویا ’ہندو بنیا جیت گیا، امریکی بنیا ہار گیا‘۔
لوک سبھا میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے مزید صرف ۹؍ارکان کی حمایت درکار ہے۔اسے حاصل کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوسکتی۔ ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں اسے پہلے سے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ریاستوں میں بھی وہ ۵۰ فی صد نشستیں رکھتی ہے اور مزید کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ گویا آئین میں ترمیم کے تمام لوازمات تقریباً پورے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کن مقاصد کی تکمیل کے لیے بی جے پی کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے ہم امریکا کی یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کی رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جو مرحلہ وار بھارتی انتخابات شروع ہونے سے صرف گیارہ روز قبل جاری ہوئی۔ اس پس منظر میں بھارت کے مستقبل کے عزائم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ رپورٹ مذکورہ یونی ورسٹی کے Centre for Race & Gender's Islamophobia Research & Documentation Project نے تیار کی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’بھارت میں اسلافوبیا: بدسلوکی کی بھڑکتی آگ‘۔ مصنّفین میں ڈاکٹر حاتم بازیان، پاؤلاٹومسن اور رونڈا اٹاوی شامل ہیں۔ ڈاکٹر حاتم نے یونی ورسٹی کی جانب سے ۲۰۱۹ء کے سالانہ افطار ڈنر کے موقعے پر اپنی کلیدی تقریرمیں رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے بیان کیے۔
اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق: ’’اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے طور پر ایک راے قائم کر کے اس کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے، خصوصاً ان کی سیاسی قوت کو ناپسند کرنے کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے‘‘۔ بھارت میں اسلاموفوبیا روزِ اوّل سے موجودتھا۔ بی جے پی کے جھنڈے تلے انتہاپسندوں کی حکومت میں گذشتہ عشرے میں اس فتنے نے معاشرے کے بہت بڑے حصے کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ مسلمانوں،عیسائیوں، سکھوں، نچلی ذات کے شودروں اور دلتوں پر حملوں میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوگیا۔اقلیتوں پر عرصۂ حیات مسلسل تنگ کیا جانے لگا۔
بھارتی اسلاموفوبیا کے واقعات کو آج تک مغرب میں تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا تھا۔ حال ہی میں یہ پہلی رپورٹ ہے، جو ایک امریکی یونی ورسٹی نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ واشگاف الفاظ میں بتاتی ہے کہ عوام کی حفاظت کے ذمہ دار سرکاری اداروں اور کارندوں کے ذریعے بی جے پی کی حکومت نے کس طرح مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے؟ بے سہارا طبقوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے مغرب کے انتہاپسند دائیں بازو کے گروپ اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کر کے جو حملے کرتے ہیں، ان کے طریقۂ واردات سے امریکا اور یورپ کے مبصرین خوب آگاہ ہیں، مگر دانستہ طور پر خاموش تماشائی۔ کس طرح ایک طبقےکو ملک و ملّت اور دین و دھرم کا دشمن اور خود کو جنتا کا محافظ قرار دے کر زیادہ ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں؟ جمہوریت کے نام پر فسطائیت قائم کی جاتی ہے، اسے کوئی خطرناک بات تصور ہی نہیں کیا گیا۔
زیربحث رپورٹ کے مطابق حکمران بی جے پی کے لیڈر نفرت کے پرچارک اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث رہے۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے پر مقدمے درج ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد بی جے پی کے ارکانِ پارلیمنٹ کی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے لیے ٹکٹ بھی انھیں دیے گئے جو نفرت پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ یوں اسلاموفوبیا کا مرض تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ سیاست اور نفرت کا کیا جوڑ ہے؟ اس کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ: ’معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والوں کی کامیابی کا امکان چار گنا بڑھ گیا، ان کا تعلق چاہے کسی جماعت سے ہو۔ ان کے لیے یہ بڑا نفع بخش سودا ہے‘۔
اس رپورٹ میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے رہنمائوں کی تقریروں کے چند نمونے درج کیے ہیں:
بھارتی حکومتی عمائدین کے اس نوعیت کے بیانات نہ صرف اسلاموفوبیا کے مظاہر ہیں، بلکہ ان سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پہلے سے چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی مسلم آبادی کے خلاف ظلم و جور کے نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت اور سرکاری اداروں کے اقدامات سے مسلمان ہراساں تو ہیں ہی ، انھیں مزید حملوں، مجرمانہ کارروائیوں، قیدوبند، ریاستی تشدد، ملک بدری، حتیٰ کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی رپورٹوں میں عموماً گذشتہ واقعات کا تذکرہ کیاجاتا ہے اور مستقبل پر اظہارِ خیال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے، خصوصاً جب معاملہ ایسے ملک کا ہو، جو نہ صرف مغربی ملکوں بلکہ اسرائیل کا بھی چہیتا ہو۔ لیکن اس رپورٹ کے مصنّفین کو ڈھکے چھپے الفاظ میں سہی، آنے والے خطرات کا ذکر کرنا پڑا ہے۔
۲ کروڑ دیوتائوں کو ماننے والے ہندوئوں کی سرشت میں خوف رچا بسا ہوتا ہے۔ مظاہرِ فطرت میں سے اس نے ہراس چیز کو دیوتا بنا لیا، جس سے اسے خوف محسوس ہوا یا کسی فائدے کی توقع ہوئی۔ ہزار سالہ غلامی نے اس ذہنیت کو مہمیز لگادی۔ وہ نہیں چاہتا کہ بھارت میں ایک بھی مسلمان موجود رہے۔ چنانچہ رپورٹ میں’گھر واپسی‘ مہم کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم کا نام ’گھر واپسی‘ رکھا گیا ہے۔ ’آر ایس ایس‘ اپنی اس مہم کا فلسفہ بتاتی ہے کہ: ’یہ مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ آج بھارت میں جو شہری ہندو نہیں، ان کے آباواجداد کو جبراً ہندومت چھوڑ کر اسلام یا دوسرے ’غیرملکی‘ مذاہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ایشور نے ہندستان کو دیوتائوں کے لیے منتخب کیا تھا۔ ہمالہ میں برہما، وشنو، شیواترے، گویا یہاں دیوتائوں اور دیویوں کا راج تھا۔ پھر کرشنا مہاراج اور دوسرے اوتار بھیجے گئے۔
یہ سرزمین صرف ہندوئوں کے لیے ہے۔ مقامی آبادی میں سے راجپوت، جاٹ جیسی قومیں ہندومت میں واپس آجائیں تو انھیں تو قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن جو غیرملکی افغانستان سے لے کر عرب تک کے علاقوں سے آئے ہوں، چاہے وہ ہاشمی ہوں یا پٹھان اور وہ ہندو بننے کوبھی تیار ہوں، تب بھی انھیں قبول نہیں کیا جائے گا، کیوںکہ انھوں نے اس دھرتی کو ناپاک کیا ہے۔ وہ ملیچھ ہیں۔ ہم انھیں شہریت کا حق نہیں دیں گے بلکہ اس سرزمین پر کوئی سیکولر قانون نہیں چلے گا۔ صرف ہندو قوانین نافذ ہوں گے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین، مسلمان ایک قوم نہیں۔ یہ ’دوقومی نظریہ‘ تھا، جو آرایس ایس کی طرف سے ۱۹۲۵ء میں اس کے قیام کے وقت پیش کیا گیا تھا۔ صرف دو سال بعد ۱۹۲۷ء میں ناگ پور میں جب گھنیش یاترا نکالی گئی، تو مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔ آرایس ایس نے جن سنگھ اور مہاسبھا کے ساتھ مل کر طے کیا کہ اب ہندو پُرامن نہیں رہے گا، جتھے بنائے گا، جنگی تربیت لے گا۔ چنانچہ ابتدائی طور پر ۱۲ مراکز قائم کیے گئے۔
بھارت کی آزادی کے بعد جب کانگریس نے سیکولر آئین بنانا چاہا تو آر ایس ایس نے اس سے انکار کر دیا اور سیکولر آئین سازی کے جرم میں گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ آر ایس ایس بھارت کے ترنگا جھنڈے کو بھی نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے: اس میں دوسری قوموں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ ہم اس کی جگہ زرد رنگ کا جھنڈا، قومی جھنڈابنائیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ ملک کو انڈیا نہیں، ہر زبان میں ہندستان ہی کہا جائے۔ ۱۹۷۳ء کے آر ایس ایس کے رہنما ہندوئوں کی ذہن سازی کرتے رہے۔
آر ایس ایس کی ایک شریک کار تنظیم وشوا ہندو پریشد(VHP) کے رہنما کا کہنا ہے کہ ایک دور میں ساری دنیا ہندو تھی۔ ۷؍ ارب لوگ ہندو تھے۔ آج صرف ایک ارب ہی رہ گئے ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اب انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آگیا ہے۔ بجرنگ دل کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بناکر ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں قسمت آزمائی کی گئی، لیکن وہ صرف دو نشستیں ہی حاصل کرسکے۔ بہت سوچ بچار کے بعد امرناتھ یاترا کو ساتھ ملا کر ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کی گئی۔ یہ وار اس حد تک تو کامیاب رہا کہ بی جے پی کو ۸۳ نشستیں مل گئیں مگر وہ حکومت نہ بنا سکی، البتہ آیندہ پانچ سال کی محنت کے بعد اسے حکومت مل گئی۔ واجپائی وزیراعظم بن گئے اور ۱۲سال تک رہے۔
آر ایس ایس کو جب یقین ہوگیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کی مہم کے ذریعے ہندوئوں میں نفرت کے شعلے اتنے بلند کرچکی ہے کہ اب اپنے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے گی، تو انھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن، گجرات کے سکّہ بند قاتل وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنا اُمیدوار بنالیا۔
۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ’گھر واپسی تحریک‘ کا آغاز کر دیا گیا تھا، لیکن اس میں تیزی ۲۰۱۷ء میں دیکھنے میں آئی۔ زیربحث رپورٹ کے مصنّفین کا کہنا ہے کہ وہ اس کی جامع تفصیلات جمع نہیں کرسکے ہیں۔ ’دھرم جاگرن سمیتی‘ (بیداریِ مذہب کونسل) نے ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کے لیے بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھے کرنے شروع کیے۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے تعاون سے یہ کونسل بنائی گئی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس تنظیم نے ہندو سازی کا کام تیز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ۲۰۲۱ء تک پورے ملک میں ہندوئوں کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ ان اعلانات سے مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا۔ وہ ہندوئوں کی آبادی سے نکل کر ان پس ماندہ علاقوں میں منتقل ہونے لگے، جہاں پہلے سے مسلمان اکٹھے رہ رہے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں ’وشوا ہندو پریشد‘ نے اعلان کیا کہ وہ اڑیسہ، گجرات، ستیش گڑھ، جھاڑکھنڈ اور آسام میں ۳۴ہزار افراد کو ہندو بنا چکی ہے اور ۴۹ہزار افراد کو ہندومت چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جانے سے روک چکی ہے۔ ان کی طرف سے جو کتابچے شائع کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پر ۵لاکھ روپے اور ایک عیسائی کو ہندو بنانے پر ۲ لاکھ روپے خرچ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں بھی اس طرح کی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ لوگوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے۔
مودی حکومت کی زیادتیوں کو بے نقاب کرنے اور اسے تنقید سے بچانے کے لیے میڈیا کے تمام شعبوں کو سخت قسم کے دبائو،دھونس اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔اس میں کچھ اسی نوعیت کے جابرانہ ہتھکنڈے برتے جارہے ہیں جو ۵۴-۱۹۵۰ء کے دور میں سینیٹر میکارتھی کی نگرانی میں امریکی حکومت نے مبینہ طور پر کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھائے تھے۔ تب جن لوگوں کو بلیک لسٹ کیا گیا اور نوکریوں سے نکالا گیا، ان میں بہت سوں کا تو کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ چنانچہ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتیں جو بھی سخت اقدامات کرتی ہیں، انھیں اب دنیا بھر میں ’میکارتھی ازم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ’وار روم‘ میں ایسے تمام صحافیوں اور دانش وروں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو اخبارات و جرائد، ریڈیو یا ٹی وی یاسوشل میڈیا پر مودی سرکار پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟
The Reporters without Borders World Press Freedom Index کا تحقیقات کے بعد کہنا ہے کہ: ’ان میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کے خلاف آن لائن نفرت انگیز مہم شروع کی جاتی ہے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں‘۔ بھارت کے پہلے پرائیویٹ نیوز چینل NDTV کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ: ’مودی کی پالیسیوں پرذرا سی تنقید کے جواب میں فیڈرل پولیس، ادارے کے خلاف ’فراڈ‘ کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے‘۔ ایک اور ادارے ’The Wire‘ کے سدارتھ راجن کا کہنا ہے کہ: ’جو صحافی وزرا کی دوستی کا حقِ نمک ادا نہیں کرتے انھیں وہ Prostitute (طوائف)کے وزن پر اپنی وضع کردہ اصطلاح میں Presstitute کہتے ہیں، کچھ اور صحافیوں کا کہنا تھا کہ: ’اگر وہ مودی یا اس کے اداروں کے بارے میں معمولی سی بھی لب کشائی کرلیں تو انھیں سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ذرا سی تنقید کی اشاعت پر تین سینئر ایڈیٹروں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جو رپورٹر سرکاری لائن سے ہٹ جائیں، انھیں بغاوت کے الزام میں قیدوبند کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
ایک خاتون مسلم صحافی رعنا ایوب اور اس کے خاندان کو گینگ ریپ کی دھمکی دی گئی۔ اس کی جان کو اتنا خطرہ لاحق ہوا کہ اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ۲۰۱۶ء میں Gujrat Files: Anatomy of a Cover Up کے نام سے ایک کتاب میں ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کا پردہ چاک کیا تھا۔ پھر گذشتہ سال اس نے ایک نوجوان، دانش کا انٹرویو شائع کیا۔ مودی حکومت کے دوسرے سال ۲۰۱۵ء میں ایک ہندو جتھے نے محمد اخلاق اور اس کے بیٹے دانش پر یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا تھا کہ: ’تم نے اپنے ریفریجٹر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے‘۔ شدید زد و کوب کے نتیجے میں محمداخلاق تو موقع پر ہی شہید ہوگیا، جب کہ دانش کے سر پر اتنے وار کیے گئے کہ دماغ کے دو آپریشنوں کے بعد اسے ہوش آیا۔ وہ ان دنوں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ دانش نے اس انٹرویو میں بھارتی رہنمائوںسے سوال کیا کہ: ’’کیا تم بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے سب مسلمانوں کو قتل کر دو گے؟ یا انھیں ملک بدر کروگے؟ مجھے بتائو تم مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک جانا چاہتے ہو؟ دانش نے اس وقت خدشہ ظاہر کیا تھا کہ: ’’اگر بی جے پی جیت گئی تو کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہوگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ جائے گا اور ہم اسے جوڑ نہ سکیں گے‘‘۔ دانش کا یہ خوف اب بھارت کا ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کررہا ہے۔ مسلمان ہونے کے ’جرم‘ میں ان پر انتہاپسند ہندوئوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں۔
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات کے پہلے ہی روز بی جے پی کی طرف سے یہ ٹویٹ کیا گیا کہ ہم شہریوں کے قومی رجسٹر سے بودھوں، سکھوں اور ہندوئوں کے سوا ہر ایک ’گھس بیٹھیے‘ [مراد ہے مسلمان اور عیسائی] کا نام خارج کردیں گے۔اشارہ واضح ہے بی جے پی مذکورہ تین قوموں کے سوا سب کو شہریت اور حق راے دہی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شا جو اَب وزیرداخلہ بن گئے ہیں، وہ بار بار کہتے رہے ہیں: ’’ہم ان ’دیمکوں‘ (termites) کو اُٹھا کر خلیج بنگال میں پھینک دیں گے‘‘۔ مولانا سیّد حسین احمد مدنی مرحوم و مغفور آج حیات ہوتے تو اپنی اس راے سے رجوع کرلیتے کہ: ’قومیں وطن سے بنتی ہیں اور ہندو مسلم ایک قوم ہیں‘۔
مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت ،غصے اور انتقام کی یہ آگ،فیس بک ، وٹس ایپ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے تمام دیگر ذرائع پر اتنی تیزی اور شدت سے پھیلائی جارہی ہے کہ اس کی تپش ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے۔
’اسلاموفوبیا رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں مودی سرکار پر تنقید کے جرم میں چار صحافیوں کو قتل کر دیا گیا اور ۲۰۱۸ء میں اس رپورٹ کی تیاری تک مزید چار صحافی ہلاک کر دیے گئے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق: ایک خاتون صحافی گوری لینکش کے قتل کا فیصلہ ایک سال پہلے کیا گیا۔ زیرزمین دہشت گرد تنظیموں کے ایک کارکن پرشورام کو بالآخر حکم دیا گیا کہ ’ہندو دھرم کی خاطر‘ گوری کو ٹھکانے لگا دو۔ نام نہاد تحقیقات کے بعد قاتل پرشورام کو بری کر دیا گیا۔
’کمیٹی براے تحفظ صحافی‘ (CPJ)کے مطابق: ’’مودی کی حکومت آنے کے بعد ۱۲صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔ آزادیِ صحافت کی عالمی رینکنگ میں بھارت کا نمبر ۱۳۶ ہے۔ اس حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں جسے ’آپریشن ۱۳۶‘ کا نام دیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ دو درجن میڈیا ہائوسز کو مودی حکومت نے ’ہندوتوا‘ کے پرچار کے لیے بھاری رقوم دیں۔ دو کے سوا تمام میڈیا ہائوسز نے یہ پیسے پکڑ لیے اور ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے لیے ووٹروں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنا شروع کر دیا‘‘۔ مال کی محبت میں ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی کہ انھیں یہ نظر نہیں آیا کہ وہ معاشرے کو تقسیم کرکے تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ: ’’بہت سے میڈیا ہائوسز سیاست دانوں کی ملکیت میں اور ان کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہ کثرت انڈین میڈیا ہائوسز کے نیوز اور بورڈ روموں میں ہندوتوا کا نظریہ نمایاں ہے‘‘۔
رفتہ رفتہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ’مسلمانوں کے لیے کوئی محلہ ،کوئی علاقہ اور کوئی سفر محفوظ نہیں رہا ہے‘۔ اسلاموفوبیا رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں: ’مسلمان بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں‘۔ جب پارٹی ٹکٹ کا معیار یہ ہو کہ: ’اُمیدوار نے کتنے مسلمان قتل کیے ہیں؟ تو پھر پراگیا ٹھاکرجیسے لوگ لیڈر بنتے ہیں کہ جس نے صرف ایک حملے میں ۱۰مسلمان شہید کر دیے تھے اور مودی نے اسے اپنا چہیتا اُمیدوار بنا لیا۔ اس پر ایسے قتلِ عمد اور کئی قاتلانہ حملوں کا الزام ہے، لیکن کہیں کسی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ ۲۳جون ۲۰۱۷ء کو ایک ۱۶سالہ نوجوان جنید خان عید کی خریداری کے لیے ہریانہ کے ضلع پلوال میں اپنے گائوں سے اپنے بھائی کے ساتھ دہلی آیا۔ ان کے دودوست بھی ہمراہ تھے۔ جب وہ واپس جارہے تھے تو ایک جتھے نے ٹرین میں ان پر حملہ کر دیا اور جنید کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے چھے نوجوان گرفتار کرلیے۔ بڑے مجرم نریش کمار کے سوا باقی سارے حملہ آوروں کو رہا کر دیا گیا‘۔
رپورٹ میں متعدد واقعات کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ: ’مسلمانوں پر حملوں کی بڑی وجہ سیاسی مفادات ہیں۔ اس فضا کے نتیجے میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلمان، ہندو اکثریت کے محلے میں رہتا تھا تو اس کا گھر حملے کا نشانہ بننے لگا۔ شہروں، قصبوںاور محلوں میں آبادیاں مذہب کے حوالے سے بٹنے لگیں۔ حکومت نے اس رجحان کی روک تھام کرنے کے بجاے مزید ہوا دی، جو اسلاموفوبیا کا واضح ثبوت ہے۔ جس زمین کی ذرا سی بھی اچھی قیمت نظر آئی، اسے مسلمانوں سے خالی کرانے کے لیے پورے محلے اُجاڑ دیے گئے اور مسجدیں گرا دیں۔
اترپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، بہار، راجستھان، مغربی بنگال، جھاڑکھنڈ، تلنگانہ اور آسام میں سب سے زیادہ ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ۱۷-۲۰۱۵ء کے دوران ان ۱۰ریاستوں میں سیاسی اور مذہبی تعصب کی بناپر مسلمانوں پر ۱۹۷۲ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ان حملوں میں جانی و مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا رہا اور اُلٹا الزام بھی ان پر دھر دیا جاتا کہ انھوں نے ہندوئوں پر حملے کیے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کی پالیسی میں ۲۰۱۷ء سے تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان کی رہایشی، تجارتی یا زرعی اراضی پر دعوے دائر کردیے گئے۔ مسلمانوں کی جاسوسی شروع کر دی گئی۔ ان کے محلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں ۲۰۱۷ء کے بعد کے حملوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ: ’مودی حکومت میں مسلمان ٹوٹی پھوٹی، بدحال اور گندی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں ان پر آگے بڑھنے کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ ہرلمحے انھیں اپنی سلامتی کی فکردامن گیر رہتی ہے‘۔
میانمار (برما) میں قتل و غارت گری اور شہریت سے محروم کیے جانے کے بعد جو مسلمان کسی نہ کسی طرح بھارت آگئے، انھیں یہاں بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں نفرتوں، امتیازی سلوک اور حملوں کی وجہ سے صبح و شام اپنی سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے۔ آبادیوں سے باہر جنگلوں اور میدانوں میں بنائے گئے اپنے کیمپوں کی انھیں ۲۴گھنٹے نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ بار بار ان کے کیمپ اُجاڑے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر ان کی نگرانی کی جاتی ہے کہ وہ کہیں شہروں میں منتقل نہ ہوجائیں۔ انھیں مسلسل ملک بدری کا سامنا ہے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے۔ انتہاپسند ہندو اور میڈیا ، روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ بناکر پیش کررہے ہیں۔ انھیں ’پناہ گزین‘ کے بجاے ’غیرملکی‘ اور ’غیرقانونی‘ کہا جاتا ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ جو بھارت کو مسلمانوں سے خالی کرانے کی مہم کے سرخیل ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو بھارتی کلچر اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ سے ذرا ہٹ کر یہاں بھارت کی ایک مسلم خاتون صحافی رعنا ایوب اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ:’میرا بھائی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ممبئی کے اَپرمڈل کلاس علاقے میں اسے اپنا اپارٹمنٹ، جو اسے مارکیٹ کے نرخ سے زیادہ قیمت پر دیا گیا تھا، اس لیے چھوڑنا پڑا کہ مسلمان ہونے کے ناتے اس کا مکمل سماجی بائیکاٹ کیا جارہا تھا۔ وہ اسی شہر میں پلابڑھا مگرنفرت کا سامنا کرتے ہوئے اسے بے در ہونا پڑا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہاں تجارت اور صنعت سے وابستہ کتنے ہی مسلمان یہ رونا رو چکے ہیں‘۔ ۱۹۹۳ء کےمسلم کش فسادات میں رعنا کے خاندان کو نقل مکانی کرکے مسلم اکثریتی علاقے میں منتقل ہونا پڑا۔ یہ مالی طور پر مستحکم مسلمانوں کا حال ہے۔ وہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے یا کم از کم اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے انھیں بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں میں بھیجنے کی سبیلیں سوچ رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس اَپرمڈل کلاس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ذرا سوچیے کہ مسلمانوں کی اکثریت آسودہ حال نہیں ہے، اور وہ اس انسانیت کُش فضا میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ ۲۳کروڑ لگایا جاتا ہے۔ رعنا اپنے مضمو ن میں یہ تعداد۱۹کروڑ بتاتی ہیں۔ اگر یہ تعداد بھی تسلیم کرلی جائے تو مسلمان کُل آبادی کا ۱۴ فی صد ہیں۔
۲۰۰۲ء کے مسلم کُش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ ریلیف کیمپوں کے دورے کے بعد رعنا لکھتی ہیں کہ: ’’میں نے ان عورتوں کی بے بسی دیکھی جن کی آبروریزی کی گئی تھی۔ ان معصوم بچوں سے ملی جن کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی گئی تھی، جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے نیزوں، برچھوں اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور حملہ آور ’جے جے کار‘ کر رہے تھے۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اب وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہے۔ کیا گجرات کی تاریخ پورے ملک میں دُہرائی جائے گی؟‘‘
۲۰۱۴ء میں مودی سرکار کے آتے ہی ’گائوماتا کی رکھشا‘ [تحفظ]کے نام پر بھی مسلمانوں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ ایک طرف تو بھارت گائے کے گوشت کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک ہے۔ بیف کی برآمدات میں ۲۰ فی صد حصہ بھارت کا ہے۔ اس مد میں وہ سالانہ ۴؍ارب ڈالر کماتا ہے۔ برازیل ، آسٹریلیا اور امریکا کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ اس کے تمام تاجر ہندو ہیں، مگر دوسری جانب اسی گائے کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ گائے کا پیشاب اور اس کی پوجا کرنے والے ہندو یہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیںکہ کوئی مسلمان گائے کو چھو بھی لے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈنڈوں، سریوں اور چاقوئوں سے لیس ہندو دستے اس مسلمان پر پل پڑتے ہیں کہ جسے وہ گائے کے قریب بھی دیکھ لیں اور پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ متعدد ریاستوں میں اندرونِ ملک استعمال کے لیے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس قانون سازی کے بعد مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ وٹس ایپ پر ہندو ان حملوں کی کتنی ہی وڈیو اَپ لوڈ کرچکے ہیں کہ جب انھوں نے مسلمانوں کو مار مار کر معذور کر دیا۔ مودی حکومت میں حملہ آوروں کو مسلمانوں کے ’شکار‘ کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا یا پھر فوراً چھوڑ دیا جاتا ہے اور مقدمہ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی حملہ آوروں کو بی جے پی کے رہنمائوں نے انعامات سے نوازا۔ جن مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی تھی وہ ا ن سے چھین کر گئوشالوں کو دے دی گئیں۔ وہاں سے انھیں ہندو لے گئے ہیں۔ یوں مسلمانوں کا مال مفت میں ہندو ہتھیارہے ہیں۔
اپریل ۲۰۱۷ء میں ایک ۵۵سالہ مسلمان ڈیری فارمر پہلوخان پر، جو اپنی نابینا ماں، بیوی اور بچوں کا واحد کفیل تھا۔ ایک ہندو جتھے نے اس پر، اس وقت حملہ کردیا جب وہ اپنے مویشی ٹرک میں لے جارہا تھا۔ پھر حملے کی مکمل وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ بھی کی گئی۔ سارے مویشی چھین لیے۔ پہلوخان زخموں کے تالاب نہ لاکر دو دن میں چل بسا۔ اپنی موت سے قبل اس نے پولیس کو تمام چھے حملہ آوروں کے نام بتا دیے۔ پولیس نے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ حملہ آوروں کے نام کیس سے خارج کردیے۔
پولیس ریکارڈ دیکھ کر مذکورہ رپورٹ تیار کرنے والوں کو پتا چلا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بجاے پولیس اُلٹا مسلمانوں کا ’گوشت خور‘ اور ’گائے کے سمگلر‘ کے نام سے اندراج کرتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق: پولیس حملوں کا نشانہ بننے والوں کو ہی مجرم بنا کر پیش کرتی ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر ونے کتیار، حملہ آوروں کے دفاع میں کہتے ہیں کہ: ’’مسلمان گائے کو ہاتھ لگائے گا تو ہندو تو مشتعل ہوگا۔ بہت سے مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی ہیں۔ وہ ان کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں‘‘۔ ہندو لیڈروں کا یہ طرزِعمل انتہاپسندوں کو مزید حملوں کی شہ دیتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر پکڑ بھی لیے گئے تو چھوٹ جائیں گے۔
بی جے پی کی تمام پالیسیاں آر ایس ایس تشکیل دیتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ۸۴سالہ جدوجہد کا پھل اب کھانے کو تیار ہے۔ کیا وہ آئین کو تبدیل کرکے بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنالے گی؟ کیا وہ ۲۳کروڑ مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے انھیں ملک بدر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ میانمار میں اس کا پہلے ہی تجربہ کیاجاچکا ہے۔ روہنگیا مسلمان بے وطن ہوکر کشتیوں میں ملک ملک پھر رہے ہیں اور کوئی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ صرف معمولی سی تعداد کچھ ملکوں میں داخل ہوسکی ہے اور وہاں بھی، ترکی کے سوا، بے سہارا پڑے ہیں۔ اگر بھارت مکمل ہندو ریاست بن گیا تو اس میں بھارتی مسلمانوں کے لیے آزمایش کا ایک سخت دور شروع ہوگا، جس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی کرچکے ہیں کہ: ’ایک دور میں مسلمان ہونا ہاتھ پر انگارہ رکھنے سے زیادہ مشکل ہوگا‘۔
اسلاموفوبیا پورٹ سے ہٹ کر یہاں پڑوسیوں کو درپیش خطرات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ بھارت اپنے قیام کے بعد سے ہی علاقے میں بالادستی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ مغرب اور اسرائیل کی شہ کے بعد اس کے عزائم مزید بلند ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت نے منتخب ہوتے ہی ۶جون ۲۰۱۹ء کو اسلحے کی خریداری کے لیے سب سے پہلا آرڈر اسرائیل کو دیا۔ ۳۰۰ کروڑ روپے میں وہ ۱۰۰’سپائس ۲۰۰۰ بم‘ خرید رہا ہے۔ بھارت میں انھیں ’بالاکوٹ بم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں حملے کے لیے یہی بم استعمال کیے گئے تھے۔ ان بموں میں ۸۰کلوگرام بارود اور ۹۰۰کلوگرام کا خول (casing) ہوتا ہے۔ یہ بم عمارتوں کی چھتوں کو توڑتے ہوئے اندر جاکر پھٹتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان ہلاک ہوسکیں۔ بھارت یہ بم کس لیے حاصل کر رہا ہے؟ ملک کے اندر تو وہ انھیں استعمال نہیں کرسکتا۔ کیا ان کا ہدف پاکستان کی کمانڈ اینڈ کنٹرول پوسٹیں ہیں؟ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اسرائیل سے اسے یہ بم ۲۰۱۹ء کے آخر تک مل جائیں گے۔ پاک فضائیہ سے زک اُٹھانے کے بعد بھارت نے فرانس سے درخواست کی ہے کہ اسے رافیل طیارے طے شدہ مدت سے پہلے دے دیے جائیں۔
بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے دورِ حکومت میں پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور یہ فضا خود بھارتی حکومت قائم رکھے گی، تاکہ اس نفرت سے سیاسی فائدہ اُٹھائے۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے منظرنامے پرنظر رکھے۔
قتل و غارت اور دہشت گردی کے الزامات میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھوپال سے انتخابی میدان میں اتارا، تو ایک ساتھی نے ازراہِ مذاق جملہ اُچھالا کہ: ’’بھارت کے لیے ایک نیا وزیر داخلہ تیار ہو رہا ہے‘‘۔ درحقیقت وہ ایسے بھارت کی منظر کشی کر رہے تھے، جس میں اتر پردیش کے حالیہ وزیر اعلیٰ اجے سنگھ بشٹ (یعنی یوگی آدتیہ ناتھ) کو مستقبل میں بھارت کا وزیر اعظم اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت داخلہ سنبھالے دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح یاد آرہا ہے کہ محض چند برس قبل ہم نیوز روم میں ازراہِ تفنن امیت شا(موجودہ بی جے پی صدر، جو ان دنوں جیل میں تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرتے اور اسے ہنسی میں اُڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ ۲۰۱۹ء میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا رُوپ دھار لے گا۔
اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے وزارتِ داخلہ کا اہم قلم دان اپنے دست راست امیت شا کے سپرد کرکے پیغام دیا ، کہ نہ صرف و ہ حکومت میں دوسرے اہم ترین فرد ہیں، بلکہ ان کے جانشین بھی ہیں۔ اگرچہ بظاہر پارٹی کے سینیر لیڈر راج ناتھ سنگھ کی نمبر دو پوزیشن سرکار ی طور پر برقرار رہے گی، مگر وزارت دفاع ان کو منتقل کرنے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن کمزور کر دی گئی ہے۔
کابینہ کے ۲۶؍اراکین میں سے ۲۱؍ارکان اُونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی بھارت میں مجموعی آبادی ۱۵ فی صد سے بھی کم ہے۔سینیر وزیروں میں ۱۳ برہمن ہیں،تین نچلی ذاتوں سے اور ایک سکھ ہے۔ بطور مسلم وزیر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی کو شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے برسوں پہلے ایک بار رام پور سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) میں بہار سے ’لوک جن شکتی پارٹی‘ کی ٹکٹ پر واحد مسلمان محبوب علی قیصر دوسر ی بار منتخب ہوکر ایوان میں آتو گئے ہیں، لیکن حیر ت کا مقام ہے کہ ان کو وزارت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مودی جی تو ان کو وزیر بنانا چاہتے تھے ، مگر ان کی پارٹی نے پارٹی صدر رام ولاس پاسوان کو وزیر بنانے کی سفارش کی ہے۔ چونکہ سبھی اتحادیوں کو صرف ایک ہی وزارت دی گئی ہے، اس لیے لوک جن شکتی پارٹی سے دو ارکان کو وزارت میں شامل کرنے سے توازن بگڑ سکتا تھا‘‘۔ اس ضمن میں رام ولاس پاسوان کی ذہنیت پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو وزیر بنانے کے بجاے، وہ خود ہی وزارت کے دعوے دار بن گئے۔ حالانکہ رام پاسوان، پچھلے ۲۰برسوں کے دوران چاہے کانگریس کی حکومت تھی یا بی جے پی کی، مسلسل وزارت میں شامل رہے۔
بھارت میں وزارت داخلہ کا قلم دان انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے وزراے اعظم اکثر اس عہدے پر یاتو اپنے انتہائی قریبی یا نہایت کمزور افراد کا تعین کرتے آئے ہیں، جو ان کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ بی جے پی کی پچھلی حکومت میں راج ناتھ سنگھ اوروزارت عظمیٰ کے دفتر کے درمیان کشمیر کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے پر کئی دفعہ اختلافات سامنے آئے۔ جون۲۰۱۸ء کو جب راج ناتھ سنگھ، جموں و کشمیر کی حلیف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، تو دوسری طرف امیت شا کی رہایش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ: ’میری پارٹی نے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لے کر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے‘۔ بتایا جاتا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ نجی گفتگو میں کئی بار انھوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ان کی راے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا اور ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو انھوں نے کشمیر میں بیک چینل کھولنے کی ترغیب دی تھی، مگر اس کوشش کو بُر ی طرح سبوتاژ کیا گیا۔ سنہا سے وزیر اعظم نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے ان کو قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے ملنے کے لیے کہا، جس نے شکایت کی کہ: ’سنہا کے مشن سے حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں‘۔ مذکورہ جج کے خلاف کشمیر واپسی پر ہی مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک کیس کی فائل کھول کر اس کو جیل میں پہنچادیا۔
مودی اور امیت شا کی رفاقت کا رشتہ ۳۰سال پرانا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے ’شا‘ نے پارٹی میں ان کے مخالفوں، یعنی ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں ’شا‘ کو وزارتِ داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دورِ وزارت کئی جعلی پولیس مقابلوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ قومی تفتیشی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھیرایا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ ۲۰۱۳ء میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں مودی نے ’شا‘ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں موصوف نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔
بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شا کے لیے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کے لیے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے شملہ سمجھوتے میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لیے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔
کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شا ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام ’مشن ۴۴‘ ہے اور اس کے تحت کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادیِ کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شا کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔ کشمیر اسمبلی کی ۸۷منتخب نشستیں ہیں جن میں سے ۳۷جموں، ۴۶ وادیِ کشمیر اور۴ لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کٹھوعہ، یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازعہ خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جاسکتی ہے۔۱۹۵۴ء اور۱۹۶۰ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی، جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کا دائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے انھیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیا تھا۔
جموں وکشمیر کے انتخابی نقشے پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی ۳۷نشستوں میں ۱۸ حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں نو ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے۔ یہاں پرامیت شا وہی فارمولا اپنانے کے لیے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اترپردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کو بے اثر بنایا جائے، جب کہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یک جا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بودھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے، تاکہ آیندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادیِ کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔
حالیہ الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ:’ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جرأت کی تھی۔ ’لاہور اعلامیہ‘، ’اسلام آباد ڈیکلریشن‘ اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی کیمپ سے لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ تاہم، جو لوگ اِس اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ’انسانیت کے دائرے ‘میں بات ہوگی، انھیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی اُمید رکھنا بے معنی ہے ۔
امیت شا کے وزار ت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اس کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا کر بھاگ رہی ہیں،بلکہ ان میں سے بعض لوگ تو نریندرمودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں۔
بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کے بجاے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال اس جماعت کا محور اقتدار کی نیلم پری سے ربط وتعلق رکھنے کے لیے کس سے رشتہ جوڑا جائے اور کس سے ناتا توڑا جائے کا سوال اہم ہے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے حوالے سے ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے، ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔
اٹانومی (خودمختاری) اور سیلف رول ___ کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غم خوار، پاکستان کی داخلی صورت حال بھی نئی دہلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لیے شاید راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
مودی کی کابینہ میں ایک اور اہم وزیر سبرامنیم جے شنکر ہیں، جن کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ میں امریکی ڈیسک کے سربراہ کے طور پر وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ (کانگریس) کے چہیتے افسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے، انھوں نے ’بھارت-امریکا جوہری معاہدہ‘ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکرٹری کے لیے تجویز کیا، مگر کانگریس پارٹی نے سخت مخالفت کی جس پر سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنایا گیا۔ تاہم، جنوری ۲۰۱۵ءکو امریکی صدر بارک اوباما کے بھارتی دورے کے بعد نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنایا دیا، تب جے شنکر امریکا میں بھارت کے سفیر تھے اور اوباما کے دورے کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔
اس طرح غیر رسمی طور پر یا اکھڑ پن سے خارجہ سیکرٹری کو معزول کرنے کا بھارت میں یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل۱۹۸۷ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہی اپنے سیکرٹری خارجہ اے پی وینکٹ شورن کو معزول کیاتھا۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم پاکستانی صحافی عبدالوحید حسینی نے پریس کانفرنس کے دوران راجیوگاندھی سے ان کے پاکستان کے دورے کے بارے میں سوال کیا۔ راجیو نے کہا کہ: ’’میرا پاکستان کے دورے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘‘۔ مگر حسینی نے دوسرا سوال داغا کہ: ’’سر،آپ کے خارجہ سیکرٹری تو صحافیوں کو بتار ہے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ پائپ لائن میں ہے؟‘‘راجیو نے جواب دیا کہ: ’’خارجہ سیکرٹری اب اپنے عہدے پر نہیں ہیں۔ جلد ہی نئے فارن سیکرٹری کا تعین کیا جا رہا ہے‘‘۔ وینکٹے شوارن نے جو پریس کانفرنس ہال میں ہی بیٹھے تھے، چپکے سے اپنا استعفا تحریرکرکے وزیراعظم کو ہال میں ہی تھمادیا۔
جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈروں نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکا نواز افسر کو اس اہم عہدے پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانب دارانہ تصویر متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکا کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ۲۰۰۴ء سے۲۰۰۷ء تک جے شنکر دفترخارجہ میں امریکی ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔
۱۹دسمبر۲۰۰۵ء کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورۂ امریکا کے ایجنڈے کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف سے واقفیت خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی، مگر سب سے زیادہ ہوش ربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویے کو لگام دینے کے لیے امریکا کی معاونت کرنے کی پیش کش کی ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکا کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل۲۰۰۵ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دے گا، جنھوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کےعلاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی اطلاع تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔
جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹرے ٹیجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۷ءمیں دفترخارجہ میں ملازمت شروع کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹرے ٹیجک آٹونامی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کے لیے ایف-۱۶طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان کی دیکھ بھال ،پرزے سپلائی کرنے، اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرنے کا کام مل جاتا۔
بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش کر کے ان کی ایک دوست کے رُوپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ امریکا میں بطور بھارتی سفیر ، انھوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں بھارت نے امریکا کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں رسل و رسائل کی سہولتیں فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کا تبادلہ شامل ہیں۔ ان معاہدوں کے مسودات بھارتی دفترخارجہ کے بجاے واشنگٹن سے ہی تیار ہوکر آئے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کو قابو میں رکھنا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقت ور ہوگئے تھے۔گذشتہ حکومت میں دوول، قومی سلامتی کے مشیر تھے اور اب وزیر ہیں۔
جے شنکر کے لیے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ، اور روس سے ایس-۴۰۰ میزائل شیلڈخریداری کے سلسلے میں امریکا سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے۔ جس پر بھارت ایرا ن کے تیل کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواست گار ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران نام نہاد بھارتی سیکولرزم بُری طرح بے نقاب ہوچکا۔ بھارت کی ۷۲ سالہ تاریخ اقلیتوں کے ساتھ بدترین تشدد، خون ریز فسادات اور پڑوسی ملکوں کے اندر دہشت گردی کرانے کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی حکومت قائم ہوتے ہی پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سیکولرزم کا جو نقاب چہرے پر سجا لیا تھا، نریندر مودی کی قیادت میں وہ نقاب اُتر چکا ہے، پڑوسی ملکوں کو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس عمل نے خود بھارت کا اصلی تنگ نظر برہمن چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اس ایجنڈے پر بھارت ایک عرصے سے کام کر رہا ہے، جہاں تشدد پسند ہندوتنظیمیں عدم برداشت کو ہوا دے کر غیر ہندوئوں کے خلاف نفرت کی فضا کو الائو بناچکی ہیں۔ بہرحال بھارت کے سبھی لوگ نفرت کی آگ میں نہیں جل رہے، ان میں معتدل اور انصاف پسند لوگ بھی ہیں۔
انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے ملک کے اندر اور سرحدوں پر جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ایودھیا کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر تشددپسند ہندو قیادت نے ۲دسمبر ۱۹۹۲ء کو ۱۶ویں صدی کی تعمیرشدہ تاریخی بابری مسجد، ہندو بلوائیوں کے ذریعے شہید کرادی اور پھر ہندوئوں نے چُن چُن کر ملک بھر میں مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ ان فسادات میں کم از کم دو ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں بھاری اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی۔
بی جے پی، پونے تین ایکڑ اراضی پر رام مندرکی تعمیر شروع کر کے زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کی خواہش مند اور دو تہائی اکثریت سے بھارت کا آئین تبدیل کرکے اسے ہندو ریاست قرار دینا چاہتی ہے۔ مگر عدالتی کارروائیوں کی بنا پر یہ تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ رام مندر تعمیر شروع ہونے کی صورت میں بی جے پی کے ووٹوں میں بہت زیادہ اضافہ متوقع تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابری مسجد کا مقدمہ زیر التوا ہونے کی صورت میں نریندر مودی پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے؟ تو ہمارا جواب ’نہیں‘ میں ہوگا۔ اس مقدمے کی طوالت کا فائدہ بھی بی جے پی ہی کو پہنچ رہا ہے۔ نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ (ORF)کے سینیر فیلو نرنجن ساہوکا کہنا ہے کہ: ’جب تک یہ مسئلہ زندہ ہے، بی جے پی اس سے فائدہ اُٹھاتی رہے گی‘۔
بی جے پی بھارت کے اندر میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جو جنگی جنون پیدا کرچکی ہے، اس کی بناپر سیاسی پنڈتوں کو یقین تھا کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ ایک محدود جنگ میں کامیابی حاصل کرلیتی تو دوتہائی ووٹ بآسانی ان کی جھولی میں آپڑتے۔ رات کی تاریکی میں ایک نام نہاد اسٹرے ٹیجک اسٹرائک میں مبینہ طور پر جیش محمد کے تربیتی مرکز پر حملہ کرکے، بالاکوٹ میں ۳۵۰’دہشت گرد‘مارنے کا دعویٰ کیا گیا۔ صبح کے وقت میڈیا جب اتنی بڑی خبرکی تصدیق کے لیے وہاں پہنچا تو انھیں ٹوٹے ہوئے چار درخت اور ایک کوے کی لاش ملی۔ حملے کی جگہ پر نہ کوئی عمارت تھی، نہ تربیتی مرکز۔ بعدازاں فضائی لڑائی میں پاک فضائیہ نے دو بھارتی جیٹ گرا کر نریندر مودی کے جنگی جنون کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ جس کے نتیجے میں مودی پارٹی کو فائدے کے بجاے نقصان ہوا ۔بھارتی حکومتوں اور میڈیا نے اپنے ملک کے اندر پاکستان کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر رکھی ہے کہ آج ہرسیاسی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردے تو اسے زیادہ ووٹ ملیں گے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی مضبوط دفاعی اسٹرے ٹیجی کی بناپر بھارتی حکومت کو بّری فوج کے مختلف علاقوں میں عالمی سرحد کو پار کرکے پاکستان میں گھس جانے اور میزائلوں کے حملے کا منصوبہ بھی ترک کرنا پڑا۔ اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں تفصیل سے خبریں آچکی ہیں، لہٰذا ہم یہاں بابری مسجد کے تنازعے کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں گے، جو پاکستانی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے۔ اس سلسلے میں ان ہڈیوں کا کیا قصہ ہے جو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی سے نکل آئیں؟ یہ ہڈیاں کس کی ہیں؟ کیا برہمن اور مندروں کے باسی پہلے گوشت خور ہوتے تھے؟ پھر سوال یہ ہے کہ کس اُمید پر یہ کھدائی کرائی گئی تھی؟ کیا ثابت کرنا مقصود تھا؟ کھدائی سے ثابت کیا ہوا؟ اور اب بابری مسجد کی جگہ پہلے مندر ہونے کو ثابت کرنے کے لیے کیا کیا جھوٹ گھڑا جا رہا ہے؟
بابری مسجد پر ہندوئوں نے جو تنازع اُٹھایا تھا، اس پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۰۱۰ء میں فیصلہ دیا تھا کہ: ’ایک تہائی زمین سُنّی وقف بورڈ کو دے دی جائے اور بقیہ دوگروپوں، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کر دی جائے۔ بھارت کے مشہور قانون دان اور دانش ور جناب اے جی نورانی نے دوجلدوں میں اپنی فاضلانہ کتاب The Babri Masjid Question (مطبوعہ ۲۰۰۳ء) میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے بابری مسجد پر فیصلے کا نہایت گہرائی سے تجزیہ کرکے ہندوانتہا پسندوں کے دعوے کے تاروپود بکھیر دیے ہیں اور فیصلے کی کج روی کو آشکارا کیا ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ۱۴؍اپیلیں داخل کی گئیں۔ جن پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی دستوری بنچ نے ۸مارچ ۲۰۱۹ء کو ایک سہ رکنی پینل تشکیل دیا کہ: ’وہ فریقین میں مصالحت کرانے کی کوشش کرے‘۔ پینل کو اپنی رپورٹ داخل کرنے کے لیے آٹھ ہفتے کا وقت دیا گیا۔ ایودھیا کے ایک قریبی قصبے فیض آباد میں بند کمرے میں۱۳مارچ کو پینل کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس میں تمام فریقوں کے قانونی مشیروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد تین اجلاس مزید ہوئے۔ بعدازاں مسلم نمایندوں نے معذرت کرلی کہ رمضان کے مہینے کے دوران وہ اجلاسوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔
تازہ ترین صورتِ احوال یہ ہے کہ سہ رکنی کمیٹی نے اپنی عارضی سربمہر رپورٹ سپریم کورٹ کو جمعرات ۹مئی ۲۰۱۹ء کو پیش کردی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی کا کہنا تھا کہ: ’’ہم آپ کو نہیں بتا سکتے کہ کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟ یہ ابھی صیغۂ راز میں رہے گی‘‘۔ مصالحتی کمیٹی کی مدت ۱۳مئی کو ختم ہورہی تھی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ ۱۰مئی کو، ۱۵؍اگست کی آیندہ سماعت تک کمیٹی کو مزید تین مہینے کا وقت دے دیا۔ پانچ رکنی بنچ کا کہنا تھا کہ: ’’اگر مصالحت کار بہتر نتائج کے بارے میں پُرامید ہیں اور وہ مزید کچھ وقت چاہتے ہیں تو انھیں یہ وقت دینے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچ رکنی بنچ میں ایک مسلم جج ایس عبدالنذیر شامل ہیں۔ اس موقعے پر عدالت نے تمام فریقوں کو اجازت دی کہ: ’وہ زیادہ سے زیادہ ۳۰جون تک اپنے اعتراضات داخل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو مصالحتی کوشش میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔دو انتہاپسند کٹر ہندو تنظیموں کے سوا مقدمے کے تمام ہی فریقوں نے ۱۵؍اگست تک توسیع کی حمایت کی ہے۔
مسلمانوں کی جانب سے ایک درخواست گزار مفتی حزب اللہ بادشاہ، جو جمعیۃ العلما ہند کے حاجی محمودصاحب کی جگہ اس مقدمے میں فریق ہیں، ان کا کہنا تھا: ’ہم سپریم کورٹ سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ اگر عدالت مثبت نتیجے کے بارے میں پُراُمید ہے تو ہم توسیع کی حمایت کرتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے اصل درخواست گزار نرموہی اکھاڑے کے مہنت دھرما داس نے کہا کہ: ’صدیوں پرانے تنازعے‘پر مصالحت کے لیے وقت کی توسیع کی مَیں حمایت کرتا ہوں‘۔ مسلمانوں کی جانب سے پہلے درخواست گزار اقبال انصاری کہتے ہیں کہ:’ پینل ۷۰سال پرانے کیس کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، تو ہم چند ماہ مزید انتظار کرسکتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے ایک اور درخواست گزار ہندو مہاسبھا کے صدر اچاریا چکرپانی نے بھی توسیع کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ: ’میں تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول حل نکل آنے کی اُمید کررہا ہوں۔ یہ ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے زبردست قدم ہوگا‘۔
ہندو درخواست گزاروں میں سے ایک تنظیم رام جنم بھومی نیاس نے توسیع کی مخالفت کی ہے۔ مہنت گوپال داس کا کہنا ہے کہ: ’کیس کی سماعت ہرلحاظ سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے‘۔ دوسری تنظیم جو توسیع کی مخالفت کر رہی تھی وہ ’وشواہندو پریشد‘ (VHP) ہے۔ اس کے ترجمان شرادشرما کا کہنا تھا: ’ہم توسیع نہیں، بس اب آخری فیصلہ چاہتے ہیں‘۔ اس تنظیم کا مرکز ایودھیا میں کارسیوک پورم میں ہے۔ بابری مسجد کوشہید کرنے میں بڑی تعداد میں یہی کارسیوک بھی شامل تھے۔ دونوں ہندو تنظیمیں نریندر مودی کا ووٹ بنک بڑھانا چاہتی تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیے کتنی حوصلہ افزا ہے؟ ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے سینیر فیلو نرنجن ساہو، جن کا ذکر اُوپر گزر چکا ہے، اس بارے میں قطعی پُراُمید نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’مصالحتی کوشش ناکام رہے گی اور بالآخر عدالت ِ عظمیٰ یہ کہہ دے گی کہ: ’’مسئلے کے قانونی حل کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں، اس لیے اب پارلیمنٹ ہی اس معاملے کو نمٹانے کے لیے قانون سازی کرے‘‘۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ زمین کی ملکیت سے شروع ہوا، لیکن ہندو انتہاپسند اسے مذہبی رنگ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ عدلیہ جانتی ہے کہ سیاسی طور پر انتہائی حساس مذہبی معاملے کا وہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔ چنانچہ اس نے مصالحت کرانے کی راہ اپنائی۔ اس میں ناکامی ہوئی تو وہ کہہ دے گی کہ اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے‘‘۔
سہ رکنی مصالحتی پینل کے سربراہ سپریم کورٹ کے ایک سابق مسلم جج، جسٹس ایف ایم خلیفۃ اللہ ہیں۔ ان کے بارے میں عام راے یہ ہے کہ ’’وہ بس نام کے ہی مسلمان ہیں‘‘۔ کمیٹی کے ایک رکن ہندوئوں کے روحانی گرو اور آرٹ آف لیونگ فائونڈیشن کے بانی سری سری روی شنکر اور دوسرے رکن سینیر ایڈووکیٹ سری رام پنچھو ہیں۔ سری سری روی شنکر کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا پارلیمانی بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ: ’دونوں فریقوں کے وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے انصاف کیا جائے‘، جب کہ جمعیۃ العلما ہند کے رہنما مولانا محمود مدنی کہتے ہیں کہ: ’سری سری کمیٹی سے ہم کسی مثبت اور خوش گوار رویے کی توقع نہیں رکھتے‘۔
بابری مسجد کے انہدام کی بنیاد ’رامائن‘ کے عنوان سے بننے والے ایک ٹی وی شو نے رکھی۔ جس نے ۱۹ویں صدی میں گھڑے جانے والے اس جھوٹ کو پُرکشش کہانی کے انداز میں پیش کیاکہ: ’’یہ رام دیوتا کی جنم بھومی ہے اور یہاں ان کا مندر ہوتا تھا، جسے شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے جنرل میرباقی نے منہدم کر کے یہاں مسجد بنوا دی‘‘۔ اسے بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنالیا، بالآخر مسجد شہید کر دی گئی۔ الیکشن جیتنے کے بعد بی جے پی نے اپنی مقامی مخلوط صوبائی حکومت کے تعاون سے رام مندر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا۔ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا یقین ہوگیا تھاکہ مندر کی جگہ مسجد بنائی گئی تھی۔ اس ناٹک کے ذریعے ہندو انتہا پسند پارٹی حکومت میں آئی اور اس مشن پر گامزن چلی آرہی ہے کہ یہاں مندر بنوا کر وہ کئی اَدوار تک حکومت کرتی رہے گی۔
بات عدالت تک پہنچی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سہ رکنی بنچ میں دو ہندو اور ایک مسلمان جج تھے۔ مسلمان جج ایس یوخان کے خیال میں: ’’آثارِ قدیمہ کے شواہد کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سیدھا سادا ملکیت کا کیس تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے یہاں کون رہتا تھا‘‘۔ جن ماہرین آثارِ قدیمہ کو مسلمانوں کی جانب سے آبزرور کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ: ’’ملکیت کے ایک مقدمے میں ججوں کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے تھا‘‘۔ لیکن ان دو ججوں نے جی پی آر (Ground Penetrating Radar)کرایا، جس سے اندازہ ہوا کہ نیچے کوئی ڈھانچا یا اس کے کچھ آثارموجود ہیں۔ عدالت نے ’آثارِ قدیمہ سروے آف انڈیا‘(ASI) کو کھدائی کی ہدایت کردی۔
یہاں سے ان ہڈیوں کی کہانی شروع ہوتی ہے جو بابری مسجد کے نیچے کھدائی پر ہر صدی کی سطح سے مل رہی تھیں۔ یہ گائے، بیل اور بکریوں کی پکی ہوئی اور کھائی ہوئی ہڈیاں تھیں۔ اس کے علاوہ انسانی ڈھانچے تھے۔ ان ہڈیوں کا ملنا، محکمہ آثارِ قدیمہ کے کھدائی کرنے والے ماہرین کے لیے دردِ سر بن گیا۔ ان ہڈیوں کو اگر وہ ریکارڈ کرنا شروع کر دیتے تو مندر کا ڈھانچا کیسے کھڑا کرپاتے؟ سوال پیدا ہوتا کہ: ’’کیا رام کے مندر کے برہمن پجاری اپنی گائوماتا کو کاٹ کر کھا جایا کرتے تھے اور مندر کے دوسرے باسی بھی گوشت کھایا کرتے تھے؟‘‘ چنانچہ حکمِ حاکم ملتے ہی تمام مزدور بالٹیاں بھر بھر کر کھدائی میں ملنے والی تمام ہڈیاں پھینکتے رہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈیزکے چیئرمین اور ہندستان کے قرونِ وسطیٰ کے اَدوار کی تاریخ کے پروفیسر سیّد علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ: ’’اے ایس آئی افسران ہڈیوں کے ملنے سے سخت پریشان تھے۔ وہ اس ثبوت کو ضائع کرنا چاہتے تھے۔ ہماری آنکھوں دیکھتے وہ ساری ہڈیاں چُن چُن کر بالٹیوں میں بھربھر کر پھینکتے جارہے تھے۔ گائے، بکریوں اور بیلوں کی ان پکی ہوئی ہڈیوں سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ کبھی مندر رہا ہی نہیں تھا‘‘۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ: ’’ہمارے اصرار کے باوجود اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں ان پکی ہوئی ہڈیوں کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ وہ تو کسی کے کہنے پر مندر کا ثبوت لانا چاہتے تھے۔ رام کے نام پر بنے ہوئے وشنومندر سے جانوروں کی پکی اور کھائی ہوئی ہڈیاں کیسے مل سکتی تھیں؟‘‘
جسٹس سدھیر اگروال نے اپنے فیصلے میں اے ایس آئی کی رپورٹ کو شان دار، ہرلحاظ سے مکمل اور درست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ: ’’اے ایس آئی مذمت کے بجاے تعریف کی مستحق ہے‘‘۔ انھوں نے آزاد ماہرین آثارِقدیمہ کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا کہ: ’’خود عدالت نے کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں کی تعداد اور جہاں ممکن ہو، ان کا سائز، نیز جتنے چکنے برتنوں کے ٹکڑے ملیں، ان کو ریکارڈ کیا جائے‘‘۔لیکن اب جسٹس اگروال نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ: ’’ یہ ہڈیاں گڑھے اور کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھیں، لہٰذا ان کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے ‘‘۔ کیا خوب، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔پروفیسر علی ندیم رضوی کا اصرار ہے کہ: ’’اُوپر نیچے ہرصدی کی جو سطح بنتی ہے، ان سب سے ہڈیاں ملی ہیں۔ یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ گذشتہ صدیوں میں یہاں پر جو لوگ بھی رہے ہیں، وہ سب گوشت خور تھے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ مندروں میں رہنے والے گوشت نہیں کھاتے‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں جسٹس اگروال کی نکتہ آفرینی سامنے آئی کہ: ’’بعض مندروں میں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور ان کا گوشت پرساد کے طور پر کھایا جاتا ہے اور ہڈیاں فرش کے نیچے دبا دی جاتی ہیں‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’بعض دیوی دیوتائوں، مثلاً کالی ماتا، یاما اور شیوا پر جانور قربان کیے جاتے ہیں، مگر وشنو کے چرنوں پر کبھی قربانی نہیں کی جاتی۔ اور ہندو تو یہاں رام کے مندر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وشنو دوسرے جنم میں رام بن کر آیا ہے۔ چلیں اگر قربانی مان بھی لی جائے تو جانوروں کے پوری ڈھانچے ملنے چاہییں تھے۔ اِدھر اُدھر پڑی ہوئی چھٹی چھوٹی ہڈیاں نہیں‘‘۔ اپنے فیصلے میں جسٹس اگروال نے ایک اور مضحکہ خیز نکتہ یہ اُٹھایا کہ: ’’اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بابری مسجد جس جگہ بنائی گئی ہے، وہاں پہلے بھی مسجدیں ہوتی تھیں اور مندر نہیں تھا، تو اسلامی صحیفے تو یہ کہتے ہیں کہ عبادت گاہوں کو رہایش، کھانے پینے اور سونے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس نکتے کے جواب میں پروفیسر علی ندیم رضوی کا کہنا تھا کہ: ’’مجھے نہیں معلوم جسٹس اگروال نے یہ بات کہاں سے نکالی ہے؟ مسجدوں میں تو گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ خودپیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سوئے ہیں۔ ہاں، البتہ مندروں میں گوشت نہیں کھایا جاسکتا‘‘۔
چنانچہ رپورٹ کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں الفاظ کی جنگ آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تنازعے نے مزید شدت اختیار کرلی۔ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’اے ایس آئی کو مندر کی موجودگی نکالنے کی جو ’ذمہ داری‘ سونپی گئی تھی، وہ اس نے پوری کردی‘‘۔ رپورٹ کی حمایت کرنے والے مخالفین پر الزام لگاتے ہیں کہ: ’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں‘‘۔ پروفیسر رضوی اس پر کہتے ہیں کہ: ’’میں سُنّی وقف بورڈ کا مداح ہوں اور نہ وہ میرے مداح ہیں۔ میں نہ تو مسلمان ہوں اور نہ سُنّی، بلکہ کمیونسٹ ہوں، جس سے یہ[بورڈ والے] لوگ نفرت کرتے ہیں‘‘۔
سُنّی وقف بورڈ نے دو ہندو ماہرین آثارِ قدیمہ کی خدمات حاصل کی تھیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ اے ایس آئی کا عملہ کھدائی کے دوران ضابطے کی پابندی کرتا رہے۔ ان میں ایک سپریاور ماتھے، جو جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی میں آثارِ قدیمہ کے پروفیسر ہیں، دوسرے جے مینن جوشیونادر یونی ورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کھدائی کے نگراں بی آر مانی کے خلاف عدالت میں شکایت جمع کرائی تھی کہ وہ قواعد و ضوابط کا پاس و لحاظ نہیں رکھ رہے، جس پر ہائی کورٹ نے بی آر مانی کو سربراہی سے ہٹانے کا حکم جاری کیا، مگر وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آخر تک سربراہی کرتے رہے۔ بعدازاں مودی حکومت نے مانی کو ۲۰۱۶ء میں نیشنل میوزیم کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کر دیا۔
سُنّی وقف بورڈ کے آبزرور پروفیسر ورما کہتے ہیں کہ: ’’کھدائی کے دوران سرے سے کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ملا کہ بابری مسجد کی جگہ کبھی کسی صدی میں بھی یہاں مندر رہا تھا۔ البتہ یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں اس جگہ پر صدیوں پہلے بھی مساجد رہی ہیں‘‘۔ ۴۷۵صفحات پر پھیلی رپورٹ میں جتنے بھی ابواب ہیں، ان میں ایک بھی باب کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں پر نہیں ہے۔
’’اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں مندر کی موجودگی کے لیے تین ثبوت پیش کیے ہیں: ۱- مغربی دیوار ۲- ۵۰ستونوں کی بنیادیں اور ۳- چند عمارتی ٹکڑے جو کسی طور پر بھی مندر کے نہیں ہیں۔
’’جہاں تک مغربی دیوار کی موجودگی کا تعلق ہے، تو وہ تو واضح طور پر مسجد ہونے کا ثبوت ہے کیوںکہ برصغیر کے ملکوں میں مسلمانوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے اور نمازوں میں ان کا رُخ مغربی دیوار کی طرف ہوتا ہے، جب کہ مندروں کا تعمیراتی پلان مختلف ہوتا ہے۔مندروں میں مغربی دیوار کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اب جہاں تک دوسرے ثبوت کا تعلق ہے، تو جن ۵۰ ستونوں کی دریافت کا اے ایس آئی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، وہ دراصل ٹوٹی ہوئی اینٹیں ہیں جن کے نیچے کیچڑ ہے۔ کیا کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ کیچڑ پر ستون کھڑے کیے جاسکتے ہیں؟ اے ایس آئی نے دراصل اُوپر والوں کے کہنے پر ستونوں کی بنیاد کی کہانی بنائی ہے۔ جہاں تک تیسرے ثبوت کا تعلق ہے تو اے ایس آئی نے جو چار پانچ سو عمارتی ٹکڑے اکٹھے کیے ہیں، ان میں سے صرف دو اہم ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی اس کھدائی کے دوران نہیں ملا۔ یہ سب بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کے ملبے سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ایک آدھا ٹوٹا ہوا ٹکڑا ایسا ہے جو انسانی مجسمے کی طرح لگتا ہے، اسے مرد اور عورت کا دیومالائی مجسمہ قرار دے دیا گیا۔ اس ٹکڑے کے بارے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس دور کا ہے؟ وہ کہیں سے بھی آسکتا ہے۔ اگر یہاں کبھی مندر ہوتا تو اس کی عمارت پتھر کی ہوتی اور ملبے سے بے شمار مجسمے ملنے چاہییں تھے۔ ان نام نہاد ’ثبوتوں‘ کی بنیاد پر مندرکی موجودگی کا دعویٰ کرنا بہت بڑا اختراع اور جعل سازی ہے۔
پروفیسر ورما نے ایک دل چسپ انکشاف یہ بھی کیا کہ: ’’اے ایس آئی کی رپورٹ کے ہرباب پر لکھنے والے کا نام درج ہے اور پوری رپورٹ کے کسی باب میں بھی مندر کا ذکر نہیں ہے، مگر رپورٹ کے آخر میں جہاں نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہاں کسی کا نام نہیں ہے، اور تین مذکورہ بالا ثبوتوں کا ذکر کرکے کہا گیا ہے کہ ان سے پتا چلتا ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں مندر تھا، حالاں کہ ان ثبوتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں گذشتہ صدیوں میں مساجد ہوتی تھیں‘‘۔
مشرق وسطیٰ میں جہاں اس وقت امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی عروج پر ہے، وہیں فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حکمران اور اسرائیل ایک فارمولے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، جس کو ’ڈیل آف سنچری‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے عندیہ دیا تھا کہ: ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
آئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ واشنگٹن میں طاقت ور ترین لابی ہے، جس نے ’بھارت -امریکا‘ جوہری معاہدے کو کانگریس اور سینیٹ سے منظوری دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم چلے آرہے ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ: ’’جہاں ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں، آخر امن آئے گا تو کیسے؟‘‘تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایک حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس بات کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگِ مصر اور بعد میں ۲۰۰۶ء میں جنگ ِلبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے‘‘۔روزن کا کہنا تھا کہ: ’’توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر پھر مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں ، جن میں ۶۰لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید اس لیے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادی میر پوتن ہیں۔ اس سے قبل شاید ہی روس کا مشرقِ وسطیٰ میں اس قدر مفاد وابستہ تھا۔
جب میں نے ربی ڈیوڈ روزن سے پوچھا کہ: ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو تو خود کئی بار د و ریاستی فارمولے کو مسترد کر چکے ہیں؟‘‘، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے رویے میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، مگر یک ریاستی حل کسی بھی طور پر اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک اسٹیٹ کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عرب اسٹیٹ کا قیام اور یہودی اسٹیٹ کا خاتمہ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ءمیں عرب، اسرائیل کی آبادی کا ۱۴ فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہوئی ہے اور وطنی طور پر اسرائیلی-عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں ۵۰لاکھ فلسطینی مہاجروں کو واپس لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں و ہ پناہ گزین ہیں ، انھی کو ان کی مستقل رہایش کا بندوبست کرنا پڑے گا ،کیوںکہ مغربی کنارہ اور غزہ بھی شاید ان کو بسا نہیں پائے گا‘‘۔
ربی ڈیوڈ روزن کا مزید کہنا تھا کہ: ’’القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان عربوں کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گر د تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کا جواز فراہم کراتی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے‘‘۔ انھوں نے یاد دلایا کہ: ’’یہودی ، اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس میں یہ بھی کہوں گاکہ مسلم حکومتوں کے اَدوار میں یہودی پکنک تونہیں منا تے تھے، مگر بہترحالات میں تھے۔اگر اس قدر خوں ریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کرکے مفاہت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا فی الحال منظرعام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ مغربی کنارہ و غزہ پر مشتمل علاقے کو نئی فلسطینی اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔یا تو ان کو اس نئی فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہونا پڑے گا۔
۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور ۴۰ لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی قیادت کی حامل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، یعنی پی ایل او کے پاس ہے اور غزہ میں اسلامک گروپ حماس برسرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، وہاں حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹر اُوپر ایک ۱۰۰کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا، جس کے لیے چین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
متوقع معاہدے کی رُو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میںلائے گا اور اس میں تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجاے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود ،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیرنگرانی رہے گا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرماںروا سبھی تین حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مصر ، فلسطینی ریاست کے لیے ایر پورٹ، کارخانہ لگانے اور زراعت کے لیے زمین فراہم کرے گا، مگر اس زمین پر فلسطین کے مالکانہ حقوق نہیں ہوں گے، نہ وہ اس پر بس سکیں گے۔ امریکا، پورپی یونین اور خلیجی ممالک اگلے پانچ سال تک فلسطینی ریاست کو انتظام و انصرام کے لیے ۳۰؍ارب ڈالر کی رقم فراہم کریں گے۔ اس میں ۷۰ فی صد خلیجی ممالک ،۲۰ فی صد امریکا اور ۱۰ فی صد یورپی ممالک دیں گے۔ یہ رقم ہرسال ۶؍ارب ڈالر کی صورت میں خرچ کی جائے گی۔نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی ۔ صدی کی اس ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد حماس اپنے تمام ہتھیار مصر کو سونپ دے گا۔ ایک سال کے اندر انتخابات ہوں گے۔ غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسی طرح اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹیں فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔
اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈلوانے میں قائدانہ کردار ادا کرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل امریکی صدر بارک اوباما کی حوصلہ افزائی پر مسلم ممالک سعودی عرب ، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرلیا تھاکہ وہ مغربی کنارے کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہِ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ تاہم، اس سعی سے اگر معاہدے کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو درحقیقت یہ طے ہوا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے گا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔
دوسال قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ: ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے‘‘۔
چند برس قبل ان علاقوں کا دورہ کرکے میں نے محسوس کیا کہ عرب ممالک اور امریکی امداد کے بدولت غزہ کے مقابلے میں مغربی کنارے میں خاصی خوش حالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبے میںایک عالی شان کیسینو (جواخانہ) کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبرون (الخلیل)، بیت اللحم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی وڈ فلمیں دیکھنے کے لیے بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داؤ لگانے کے لیے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی جاے پیدایش بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے ۱۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کے لیے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دُور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ: ’’چودہ سال قبل، میں ایک بار یروشلم گیا تھا اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی‘‘۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحرمُردار (Dead Sea) جانے کے لیے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔ اردن اور فلسطین کے درمیان بحرمُردار میں نمک کی مقدار ۳۰ فی صد سے زیادہ ہے، اس لیے اس میںکوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے۴۰۰میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوب صورتی اور علاج کے لیے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے منتقل ہونے والے پاکستانی یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔
اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھائو اور تر قی دیکھ کر جہاں یورپ اور امریکا بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی فلسطینی علاقوںکی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔ ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس حشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجاے پینے کے پانی کے حصول کے لیے دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ: ’’پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے‘‘۔
گورنر سے ملاقات کے بعد جب ہمارے وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں خریدوفروخت کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا ، کہ: ’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟‘‘ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لے کر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرأت کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایئر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ: ’’تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گئے تھے؟ ‘‘
خیر چند گلیوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک پوش علاقے میں وارد ہوگئے تو اس نوجوان نے کہا کہ: ’’فلسطینی اتھارٹی کے عہدے داران اسی علاقے میں رہتے ہیں‘‘۔ ایک عالی شان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دبایااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دروازہ کھول کر علیک سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سوئمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورے پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہان عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ ضیاع تکلیف دہ مشاہدہ تھا!
گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔
کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔
چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔ (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر آف کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص 'شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے!
زندگی بہت ناپایدار ہے، اگلے لمحے پر بھی بھروسا نہیں ہوسکتا۔ جنرل عمر حسن البشیر ۱۰؍اپریل ۲۰۱۹ء کو سوڈان کے صدر تھے۔ ۱۱ ؍اپریل کو ان کے دست راست جنرل عوض بن عوف صدر بن گئے اور ۱۲؍اپریل کو ان کے ایک اور ساتھی عبدالفتاح برہان ملک کے سربراہ بن گئے۔ ایک روز قبل انھوں نے ہی اپنے پانچ جرنیل ساتھیوں کے ہمراہ جاکر صدر عمر بشیر سے کہا تھا کہ ملک میں چار ماہ سے جاری مظاہرے اب خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں، اس لیے ہماری راے ہے کہ آپ اقتدار چھوڑ دیں۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب جواب نہ ملا تو جنرل عوض بن عوف قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے: ’’ملک میں ایک عرصے سے بدانتظامی، کرپشن، بے انصافی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ ہم حالات کا جائزہ لے رہے تھے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اب ہم نے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے اور اس کے سربراہ کو اپنی حفاظت میں لے کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا ہے‘‘۔ اپنے مختصر خطاب میں ملک میں دو سال کے لیے عبوری حکومت، ۳ ماہ کے لیے ایمر جنسی اور ایک ماہ کے لیے رات ۱۰ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو کا اعلان کردیا۔
انقلاب کا یہ پہلا دن خرطوم کے قلب میں واقع مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہزاروں مظاہرین کا کڑا امتحان تھا۔ تازہ فوجی انقلاب اور بالخصوص رات کے کرفیو کا اعلان اعصاب شکن تھا۔ لگتا تھا کہ مظاہرین منتشر ہوجائیں گے اور یوں ملک میں ایک نئے عسکری دور کا آغاز ہوجائے گا۔ لیکن گذشتہ پانچ دن سے مسلسل مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بیٹھے ان مظاہرین نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ حیرت انگیز طور پر انقلابی کونسل کمزور اور مظاہرین مزید مضبوط ثابت ہوئے۔ اگلے روز جمعہ تھا، مزید عوام مظاہرین میں شامل ہوگئے۔ ۳۶ گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے جنرل عوض کو بھی اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ وہ ایک بار پھر اسی وردی کے ساتھ اسی کرسی اور اسی سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہو کر کہہ رہے تھے: ’’میرے عزیز ہم وطنو! میں مختصر وقت میں دوسری بار آپ سے مخاطب ہونے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن آج میں بلند مقاصد کے لیے ملک میں ایک نئی روایت متعارف کروانے جارہاہوں۔ یہ روایت ہے جاذبِ نظر مناصب سے بے رغبتی اور عہدوںکی چمک دمک میں عدم دلچسپی کی روایت۔ میں ملک میں تشکیل دی جانے والی عسکری سپریم کونسل کی سربراہی سے ایک ایسے شخص کے حق میں دست بردار ہورہا ہوں کہ جس کے تجربے، صلاحیت اور اس منصب کے لیے استحقاق پر ہمیں کامل یقین ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ جنرل عبدالفتاح برہان عبدالرحمان حال ہی میں سفر کا آغاز کرنے والے سفینے کو کامیابی سے ساحل نجات تک لے جائیں گے‘‘۔
پانچ منٹ کے اس خطاب کے بعد سوڈان میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہورہاہے۔ جنرل عبدالفتاح برہان، جنرل عمر البشیر کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں بری افواج کے سربراہ رہے اور اب افواج میں انسپکٹر جنرل کے علاوہ یمن میں لڑنے والی سوڈانی فوج کی نگرانی کررہے تھے۔ اس دوران سعودی اور اماراتی قیادت سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔ کسی نظریاتی شناخت کے بجاے فقط پیشہ ورانہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے سربراہ بنتے ہی سعودی عرب اور امارات کی طرف سے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے فوری طور پر سوڈان کو ۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ پٹرول اور غذائی مواد کی فراہمی کا بھی اعلان کردیا۔ عوام میں بھی نئے جنرل صاحب کے لیے نسبتاً قبولیت کا تأثر ہے، لیکن حالات اب بھی مکمل پُرسکون نہیں ہوئے۔ مظاہرین فوجی اقتدار کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
۹ دسمبر ۲۰۱۸ء سے جاری ان مظاہروں میں زیادہ شدت اس وقت آئی تھی، جب الجزائری عوام نے گذشتہ ۲۰ سال سے برسراقتدار ۸۲ سالہ مفلوج و معذور عبدالعزیز بوتفلیقہ کو اپنے بھرپور قومی دھرنوں کے ذریعے اتار پھینکا۔ انتہائی ضعیف، بیمار اور ناکارہ ہوجانے کے باوجود بوتفلیقہ نے ۱۸؍اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پانچویں بار صدارتی اُمیدوار بننے کا اعلان کیا تھا۔ بس یہی اعلان، ان کی سیاسی وفات کا اعلان ثابت ہوا۔ الجزائری عوام کی یک جہتی اور ایک قومی تحریک کی صورت میں سڑکوں پر نکل آنے سے، بہ امر مجبوری فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، بوتفلیقہ کے جانے اور دستور کے مطابق سپیکر کو عبوری صدر کی حیثیت سے ملکی انتظام سنبھال لینے کا اعلان کیا۔ الجزائری عوام کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، لیکن تحریک ہنوز جاری ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ صرف بوتفلیقہ نہیں، پورے سابقہ نظام سے نجات چاہیے۔ عوامی نعروں، تقریرروں اور تحریروں میں الجزائر کی حالیہ تاریخ کا خلاصہ دہرایا جارہاہے کہ ۱۹۹۱ءمیں ہونے والے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستیں جیتی تھیں، لیکن فوج نے انقلاب کے ذریعے عوامی راے کا خون کردیا۔ اس کے بعد پورا عشرہ الجزائر میں بدترین خوں ریزی برپا رہی۔ یہ فرانس کے خلاف جنگ آزادی کے بعد ملک کی بدترین خوں ریزی تھی۔ پھر مختلف افراد کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد، اپریل ۱۹۹۹ء میں بوتفلیقہ کو صدر بنوادیا گیا۔ اب بوتفلیقہ کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالقادر بن صالح کو ۹۰ دن کے لیے عبوری صدر بنایا گیا ہے، جس نے ۴ جولائی کو قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔تاہم، الجزائری عوام کے مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ وہ عبوری صدر کو بھی براے نام صدر قرار دیتے ہوئے، اصل مقتدر اداروں کی حکومت اور پہلے سے طے شدہ نتائج والے کسی انتخاب کو مسترد کررہے ہیں۔
سوڈانی عوام کی تحریک گذشتہ دسمبر سے جاری تھی۔ ان مظاہروں کا آغاز صدر عمر البشیر کے اچانک اور ناقابل فہم دورہء شام سے ہوا تھا۔ چند گھنٹوں کے اس دورے کے دوران وہ شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کرکے آئے۔ بشار الاسد گذشتہ آٹھ برس سے پوری قوم تباہ اور پورا ملک کھنڈر بنا چکا ہے، عالم عرب میں نفرت و وحشت کی علامت بن چکا ہے۔ اس سے یہ ملاقات صدربشیر پر عوامی و تنقید و احتجاج کا نقطہء آغاز بنی۔ سوڈانی حکومت کا کہنا تھا کہ بشار سے یہ ملاقات سوڈان پر عائد پابندیوں سے نکلنے کی ایک کوشش تھی اور یہ ملاقات کسی علاقائی طاقت کے کہنے پر نہیں ہم نے خود اپنی ترجیحات کے مطابق کی۔ اتفاق تھا یاکوئی اور’غیبی‘ انتظام کہ بشار سے ملاقات پر احتجاج کے انھی دنوں میں، ملک میں روٹی اور تیل کا بحران کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بشار مخالف مظاہرے، بشیر مخالف مظاہروں میں بدل گئے۔ فوراً ہی ان مظاہروں نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی، جس دوران ۵۷ افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں عالمی سرخیاں بن گئیں۔ یہ مظاہرے قریب الاختتام تھے کہ بوتفلیقہ کے خلاف الجزائری عوام کی تحریک کامیاب ہوئی اور سوڈان میں بھی اس کے بھرپور اثرات پہنچے۔ سوڈانی عوام نے ۶؍ اپریل کو جی ایچ کیو کے باہر دھرنے کا اعلان کردیا۔ یہی مظاہرے ۱۱؍اپریل کو صدر عمر البشیر کی رخصتی کا ’ذریعہ‘ بنے۔
جنرل عمر حسن البشیر (پیدایش: یکم جنوری ۱۹۴۴ء) ۳۰ جون ۱۹۸۹ء کو وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ اُلٹ کر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ آغاز میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت جیل میں بند کردی گئی۔ تقریباً چھے ماہ بعد سیاسی قیادت کی رہائی ہوئی اور ڈاکٹر حسن الترابی جنرل عمر البشیر کے فکری و سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ساتھ ہی سوڈان کے خلاف چاروں اطراف سے دباؤ اور سازشوں کا طویل دور شروع ہوگیا۔ امریکا و یورپ نے پابندیاں عائد کردیں۔ بلا استثناء تمام مسلم ممالک نے سوڈان کا علانیہ یا خفیہ بائیکاٹ کردیا۔ یہ بائیکاٹ اور محاصرہ اتنا شدید تھا کہ سوڈان نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے تارکول کا تقاضا کیا تو براد رمسلم ممالک نے وہ تک نہ دیا۔ خود پاکستان کا یہ عالم تھا کہ ۹۰ کے عشرے میں صدر فاروق لغاری سوڈان کے پڑوسی ملک یوگنڈا کے دورے پر گئے۔ صدر لغاری کو اس موقعے پر دورۂ سوڈان کی دعوت بھی دی گئی، لیکن پاکستان نے معذرت کرلی۔ سوڈان نے تجویز دی کہ چلیے دورہ نہ کیجیے، یوگنڈا جاتے ہوئے صرف کچھ دیر کے لیے خرطوم ایئرپورٹ پر رُک جائیے۔ سوڈانی عوام پاکستان سے ایک فطری محبت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ لیکن صدر لغاری نے خود محترم قاضی حسین احمد صاحب کو ایک ملاقات میں بتایا کہ امریکی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر مجھے خرطوم رکنے سے منع کردیا گیا تھا۔
صدر بشیر کے اقتدار سنبھالتے ہیں جنوبی سوڈان میں ۱۹۵۵ء سے جاری بغاوت کے لیے عالمی امداد کے دھانے کھول دیے گئے۔ ۹ ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے سوڈان کے خلاف مختلف پڑوسی ممالک کی طرف سے کئی بار باقاعدہ مسلح جنگیں اورحملے کروائے گئے۔ کئی بار اندرونی بغاوتوں کی کوشش کی گئی۔سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکومت نے چین کی مدد سے تیل دریافت بھی کرلیا، ملک کا اقتصادی و معاشرتی نظام قدرے سنبھلنے لگا تو پورے جنوبی سوڈان کو الگ کروادیا گیا۔ سوڈان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تو مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں بغاوت کروادی گئی۔ چاڈ اور لیبیا کی سرحدوں کے راستے باغیوں کو کھلم کھلا اسلحے کے ڈھیر فراہم کیے گئے۔ اس مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کیے گئے، تو عالمی عدالت سے صدر عمر البشیر کو جنگی مجرم قرار دے دیا گیا۔
نائن الیون سے پہلے القاعدہ کی پشتیبانی کا الزام لگاتے ہوئے سوڈان کے ادویات بنانے کے کارخانے امریکی میزائلوں کے ذریعے تباہ کردیے گئے۔ صدر البشیر ہی نہیں جنرل عوض بن عوف اور جنرل عبد الفتاح برہان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ سوڈان پر دہشت گردی کی مدد کا الزام لگا کر ذمہ داران حکومت سمیت عام شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اقتصادی جکڑ بندیوں میں کستے ہوئے دنیا کے کسی بنک اور کسی بھی ملک کو سوڈان سے ہرطرح کے مالی معاملات پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ کسی بنک نے ہمت کرنے کی کوشش بھی کی تو بھاری جرمانوں کی دھمکی دے کر روک دیا گیا۔ قارئین کے لیے شاید باعث حیرت ہو کہ اس وقت صرف دو خلیجی بنکوں کے علاوہ دنیا کا کوئی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی کاروبار یا رقوم کی ترسیل نہیں کرسکتا۔ سوڈان دنیا میں اپنے سفارت خانوں تک کو کسی بنک کے بجاے براہِ راست کیش رقوم ارسال کرنے پر مجبور ہے۔
ان تمام بیرونی چیلنجوں کے علاوہ اندرونی خلفشار بھی عروج پر رہا۔ چین اور ملائیشیا کے تعاون سے تیل اور تجارت کے میدان میں قدرے کامیابیاں ملیں تو ڈاکٹر حسن الترابی نے مشورہ بلکہ منصوبہ پیش کیا کہ ملک میں فوجی حکومت کے بجاے حقیقی جمہوری نظام نافذ کرتے ہوئے، فوج کو اقتدار سے نکال لیا جائے۔ ترابی صاحب خود اس وقت اسمبلی کے سپیکر تھے۔ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا ایک نظام وجود میں آچکا تھا۔ پارلیمنٹ میں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی تھیں، لیکن آخری اختیارات و کنٹرول فوج اور استخباراتی ادارے کے ہاتھ میں تھے۔ ترابی صاحب کی ان تجاویز پر صدر بشیر اور دیگر ذمہ داران سخت نالاں ہوگئے۔ اس وقت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے بھی وہاں جمع ہوکر مصالحت کی بھرپور کاوشیں کیں۔ پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والی وہ تمام کاوشیں کئی نازک مراحل سے گزریں۔ گاہے ایسا بھی ہوا کہ نماز تراویح کے بعد بیٹھے تو سحری تناول کرکے اُٹھے۔ بالآخر فریقین ایک درمیانی حل پر متفق ہوگئے، لیکن اختلاف پھر غالب آگیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی جنھیں صدر عمر البشیر سمیت اکثر ذمہ داران اپنا مرشد و فکری رہنما تسلیم کرتے تھے، کئی وزرا جنھیں باپ کا درجہ دیتے تھے، گرفتار کرکے قدیم ’کوبر جیل‘ بھیج دیے گئے (اب صدر بشیر اور ان کے ساتھی بھی اسی جیل میں رکھے گئے ہیں)۔ طویل قید کے بعد رہائی ہوئی تو ترابی صاحب نے ’المؤتمر الشعبی‘ کے نام سے اپنی نئی جماعت تشکیل دے لی۔ طویل عرصہ ان کا جیل آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ ترابی صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل افہام و تفہیم کی فضا تو قائم ہوگئی، لیکن اصولی اختلافات اپنی جگہ باقی رہے۔ اسی اثنا میں اخوان کی تنظیم سے بھی حکومت کے اختلافات ہوگئے۔ ان کا ایک دھڑا حکومت کے ساتھ اور دوسرا اپوزیشن کا حصہ بن گیا۔ اس طرح سوڈان میں اسلامی تحریک حکومت، اپوزیشن اور غیر جانب دار تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
نومبر ۲۰۱۸ء میں خرطو م جانا ہوا تو اقتصادی مشکلات اپنے عروج پر تھیں۔ حکمران جماعت کے کئی ذمہ داران بھی صورت احوال سے غیر مطمئن دکھائی دیے۔ مرحوم ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد اب صدر عمر البشیر کے کئی دیگر قریبی ساتھی حکومت اور حکمران جماعت میں نظر انداز کردیے جانے کا شکوہ کررہے تھے۔ حکومت اور پارٹی کے اہم ذمہ داران جو کبھی صدر بشیر سے اظہار محبت و ہمدردی کرتے ہوئے ان کے شرمیلے مزاج ہونے کا ذکر کرتے تھے، اب تنہا فیصلے کرنے کی روش پر شکوہ کناں تھے۔ دونوں نائب صدور سمیت کئی اہم ذمہ داریوں پر سیاسی کارکنان کے بجاے حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی سربراہان، تعینات کردیے گئے تھے۔ یہ حقائق سب کے لیے باعث تشویش تھے۔
ان ساری اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود سوڈان نے صدر بشیر کے عہدِ اقتدار میں کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ سب سے اہم کامیابی تو خود ان مہیب عالمی سازشوں کے باوجود ملک اور اس کے نظام کا باقی اور ثابت قدم رہنا تھا۔ وسیع و عریض زرخیز زمین اور دریاے نیل کے خزانے رکھنے کے باوجود حکومت ملنے پر ملک غذائی بدحالی کا شکار تھا۔ صدر بشیر نے قوم کو نعرہ دیا کہ مَن لَا یَملِکُ قُوتَہُ لَایَملِکُ قَرَارَہُ (جس کی غذا اپنے ہاتھ میں نہیں، اس کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں نہیں)۔غذائی خود کفالت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعلیم کے لیے نئے اعلیٰ ادارے قائم کیے گئے۔ پہلے ملک میں صرف پانچ یونی ورسٹیاں تھیں، اب ملک میں ۱۲۶ یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا ایک جال ہے۔ پورا نصاب تعلیم عربی زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیکل، انجینیرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ تعلیم بھی قومی زبان عربی میں دی جاتی ہے۔ علاج کی سہولت جتنی ہے، سب شہریوں کو مفت حاصل ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے اور بڑے ڈیم قائم کیے گئے جو عموماً ملکی ضرورت پوری کررہے ہیں۔۲ء ۹ کلومیٹر طویل اور ۸۲ میٹر چوڑے مروی ڈیم میں ۱۲۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی دس ٹربائینیں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ڈیم اور آئل ریفائنری مسلسل پیداوار دے رہی ہیں۔ تیل کے کنویں تو جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے ساتھ ہی اس کے حصے میں چلے گئے، لیکن وہ خام تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان ہی کا محتاج ہے۔ ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کے دیگر پیمانوں میں بھی بہتری آئی ہے۔لیکن رقبے کے اعتبار سے افریقا اور عالم عرب کے تیسرے بڑے اور غربت کے ساتھ ساتھ تقریباً ۵ کروڑ کی آبادی والے ملک کو، مشکلات سے نجات پانے کے لیے، بیرونی سازشوں اور جکڑ بندیوں سے نجات کے علاوہ، اندرونی استحکام کا طویل سفر ابھی طے کرنا ہے۔
عالم اسلام اور رحمۃ للعالمین کی اُمت کو قرآن و سنت کے آئینے میں دیکھیں تو ہلاکت و تباہی کے سب اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ قرآن کریم بار بار اتحاد و اخوت کی تعلیم دیتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ باہم جھگڑوں اور گروہ بندیوں میں پڑو گے تو ناکام ہوجاؤگے۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ مسلم اقوام و افراد ایک کے بعد دوسری جنگ اور عارضی مفاد و منصب کی خاطر برپا اختلافات میں کود پڑنے پر ہر دم آمادہ رہتے ہیں۔ سوڈان اور الجزائر ہی نہیں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لیبیا میں بھی خانہ جنگی کا ایک نیا اور سنگین دور شروع ہوگیا ہے۔
کرنل قذافی کے ۴۰ سالہ دور حکومت کے بعد مصر اور تیونس کی طرح لیبیا میں بھی عوام کی مرضی سے منتخب حکومت اور انتخاب و شورائیت کی بنیاد پر ایک آزادانہ معاشرتی نظام وجود میں آنا شروع ہوگیا تھا۔ لیبیا جاکر دیکھا اور وہاں سے آنے والوں نے بھی بتایا کہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ اہم ملک دنیا کے ساتھ نئے معاشی، سیاسی اور ترقیاتی تعلقات کا متمنی و منتظر ہے۔ اچانک معلوم ہوا کہ مصر میں ملکی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون کرنے والے جلادوں کے پشتیبان، اب لیبیا میں بھی خون کی یہی ہولی کھیلنے پر مصر ہیں۔ انھوں نے معمر قذافی کے ایک سابق رفیق کار خلیفہ حفتر کا مہرہ آگے بڑھایا ہے۔
خلیفہ حفتر (پیدایش ۱۹۴۳ء) ۱۹۶۹ء میں لیبیا کے شاہ ادریس السنوسی کے خلاف کرنل قذافی کے انقلاب کا حصہ تھے۔ بعد ازاں قذافی نے انھیں بری افواج کا سربراہ بنادیا۔ ۱۹۷۸ء میں لیبیا اور پڑوسی ملک چاڈ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو وقفوں وقفوں سے تقریباً دس سال جاری رہی۔ ۱۹۸۷ء کی جنگ میں خلیفہ حفتر خود شریک تھا۔ آغاز میں اسے کچھ کامیابی ملی، لیکن اسے فوری کمک کی ضرورت تھی۔ لیبیا کے تاریخ دان بتاتے ہیں کہ قذافی نے اس خدشے سے کمک نہ بھیجی کہ حفتر اس لڑائی میں ایک کامیاب ہیرو کے طور پر متعارف ہورہا ہے، اگر واقعی جیت کر واپس لوٹا تو کہیں میرا تختہ نہ الٹ دے۔ حفتر اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔ ۱۲۶۹ لیبین فوجی مارے گئے اور خلیفہ حفتر سمیت ۴۳۸ گرفتار ہوگئے۔ دوران اسیری حفتر نے قذافی سے بغاوت و علیحدگی کا اعلان کردیا۔ امریکی مداخلت پر اسے رہائی ملی اور وہ وہیں سے امریکا چلا گیا، جہاں ۲۰سال تک مقیم رہا۔ امریکی شہریت حاصل کرلی اور CIA کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون رہا۔
سقوط قذافی کے بعد لیبیا میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی۔ قذافی کے خلاف تحریک چلانے والے تقریباً سب گروہ اس میں شریک تھے۔ ملک میں امن و استحکام کا سفر شروع ہوا چاہتا تھا کہ خلیفہ حفتر نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر ’بنغازی‘ میں اعلان بغاوت کردیا۔ مصر کے جنرل سیسی اور اس کے حلیف حفتر کی بھرپور عسکری و مالی مدد کررہے تھے۔ کوئی فریق دوسرے کو شکست تو نہ دے سکا، البتہ ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ ایک دار الحکومت طرابلس (Tripoli) میں اور دوسری بنغازی میں۔ وقت اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا کہ الجزائر و سوڈان میں عوامی تحریک کے ساتھ ہی خلیفہ حفتر نے طرابلس پر پھر سے چڑھائی کردی۔ اب تک طرفین کے سیکڑوں افراد اور طرابلس کا سارا گردونواح جنگ کی نذر ہوچکا ہے۔ خلیفہ حفتر کی افواج کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، لیکن اسے شہ دینے والے جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے پر مصر ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کرتے ہوئے مطلع کیا تھا کہ: ’’آپ لوگ اپنے سے پہلے والوں کے ایک ایک قدم اور ایک ایک عمل کی پیروی کرو گے۔ یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں جاگھسو گے‘‘ ( بخاری)۔ قرآن کریم اس روش سے باز رہنے کا حکم دیتا اور خبردار کرتا ہے کہ: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۶۲ (احزاب۳۳: ۶۲) رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم اُمتیوں کو دُعا سکھائی تھی: لطیف و خبیر پروردگار اپنے بندوں پر رحم فرما۔ ہمارے گناہوں کے باعث ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ فرما جو ہمارے معاملے میں آپ کا خوف نہ رکھتے ہوں اور ہم پر رحم نہ کھاتے ہوں۔
۷۰ءکے عشرے میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر، ہاتھ پکڑتے ہوئے مرکزی درس گاہ، محلہ مسلم پیر میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا۔ یہ درس گاہ، براہِ راست جماعت اسلامی کے شعبۂ تعلیم کے تحت تھی۔ مدت گزرنے کے باعث اکثر یادیں دھندلی ہوچکی ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کرایا، ان محسنوں کی یادیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔
لیکن پھر ہوا یہ کہ بس د و ہی سال بعد اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے فروری ۱۹۷۵ء میں معاہدے کے نتیجے میں شیخ عبداللہ صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔اپوزیشن کے دبائو اور اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ءکو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں تازہ تازہ آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی نافذ کی اور جماعت اسلامی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی، معالجی اور رفاہی اداروں کو بھی مقفل کردیا۔ اس ایک فیصلے سے جموں و کشمیر میں، ہم ۲۰ ہزار طلبہ و طالبات پر اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے، اور انھیں پریشانیوں میں دھکے کھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں پناہ لینا پڑی۔ جماعت اسلامی تو ان دنوں جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمایندگی بھی تھی۔ ’اندراعبداللہ ایکارڈ‘ کی مخالف جماعت اسلامی نے گاندر بل حلقے سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمداشرف صحرائی کو بطور اُمیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف راے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی صاحب کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پورہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدوکوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ بھی نکال دی گئی۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ چند ہفتے پیش تر یہاں پر جماعت اسلامی پہ جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں ایک ’جرم‘ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی!
۱۴فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دستوں کے قافلے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مصداق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ حُریت کے لیڈورں کو نظربند رکھنے اور فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جا رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل گھر پہ نظربند ہیں۔ پچھلے دنوں سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایرپورٹ روڈ پر جب ان کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کیے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہل کار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ اگرچہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتا۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقا زیر حراست ہیں۔ گھر کا ملازم چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ مجھے بٹھا کر خود ہی اندر اطلاع کرنے چلے گئے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت ۴۰۰ کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور یہ سطور لکھنے تک روزانہ کہیں نہ کہیں سے، جماعت کے کسی کارکن کی گرفتاری کی خبر موصول ہوتی ہے۔جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے ذاتی رہایشی گھر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ شدیدسردی اور برف باری کے موسم اور رات کے اندھیرے میں گھر کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بے دخل کرکے گھر سیل کیے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلاے عذاب کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد یا تو پہلے سے حراست میں ہیں، یا پھر روپوش۔
۱۹۷۷ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے اس نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست ۳۵۰؍ اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پھر بالواسطہ طور پر تقریباً اتنے ہی اسکول ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے، ان اداروں سے فارغ التحصل طلبہ، یعنی ایلومنائی کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برس رہا ہے۔ تقریباً ۳۰۰؍ایلومنائی نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دُور دراز کے دیہات میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسر شامل ہیں، جو فی الوقت نام ور اداروں، یعنی ہارورڈ یونی ورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکا کے طبی تحقیق کے اعلیٰ اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔
ان ماہرین، اسکالرز اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت، لگن اور خلوص بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو اس وقت یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر، لندن[تاسیس: ۱۸۳۸ء] میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف عوامی خدمت، محنت اور لگن سے دن رات مگن ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہے۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد انھی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس وقت کے گورنر جگ موہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس غیرمنصفانہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ ان ایلومنائی کا کہنا ہے کہ: ’’آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے؟‘‘ ۱۹۹۷ء سے جماعت عسکری جدوجہد سے لاتعلق ہے۔ ایسے حالات میں، جب کہ جماعت اسلامی کشمیر، عسکریت میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس پابندی کو غلط اقدام قراردے رہی ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ِدہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے، جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَن تھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے، تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اُتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانش وروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو اس نے ’شہری نکسل واد‘ کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘قرار دے دیا۔ ملک بھر میں ’شہری نکسل واد‘ کے نام پر جو کارروائی کی گئی،اب اسی کا اعادہ جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے ایک سینیر اہل کار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو انھوں نے فرمایا:’’جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو ’سلفیت‘ کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے‘‘۔ جب میں نے کہا: ’’اگر واقعی یہ بنیاد ہے تو خود اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے ہی خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر میں ۱۹۹۰ء میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۴۰۰ سے تجاوز کر گئی ہیں۔ کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولوگراؤنڈ میں، اننت ناگ کے اسٹیڈیم میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ خود گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی‘‘۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’شیخ نورالدین ولیؒ [۱۳۷۷ء-۱۴۴۰ء] المعروف ’نندہ رشی‘ { FR 648 }کے کشمیری زبان میں کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح میرسید علی ہمدانی ؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کا کشمیری مسلمانوں کو دیے گئے وظیفہ ’اوراد الفتیحہ‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت اسلامی کی مرہونِ منت ہے‘‘۔یہ سن کر مذکورہ افسر بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ: ’’کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی‘‘۔ ایک عشرہ قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ: ’’کشمیر میں حریت اور تحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لیے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اب کچھ عرصے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ: ’’صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے‘‘۔ تین سال قبل دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ: ’’اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ، مشترکہ طور پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔
۱۴فروری کو پلوامہ واقعے میں مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی یا صوفی طرزِفکر رکھنے والے گھرانے سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار صاحب کے بقول: ’’عادل ڈار، مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارالعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چُوکتا نہیں تھا‘‘۔
یہ امرواقعہ، حکومتی پالیسی سازی کرنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی۔ عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور پھر ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی تربیت بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کیے، کہ: ’’مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ اور مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔
بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیوںکہ ان دونوں رہنمائوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی، مگر کیا بھارت میں ان کے ارادت مندوں کو سکون مل سکا؟
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نہ کوئی فرقہ یامسلک ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظلوم علاقوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں ’تصوف کے نظریے‘ کا یہ پیغام ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بناڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش رہے، اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ بس ایسی صوفیانہ پروڈکشن کی مغرب کو ضرورت ہے، نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ اپنے کردار سے بھی ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا خاصا رہا ہے، چاہے، کشمیر میں میر سیّد علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں!
یہاں ہم ایک مؤثر، اہلِ علم اور صائب الراے حضرات کے اجتماع میں بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں سارے ہی لوگ جموں وکشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کے حامی ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بینر لگا ہوا ہے کہ: 'Azadi: The Only Way' ، ضروری نہیں کہ آپ حاضرین میں سب لوگ اس سے اتفاق کرتے ہوں۔ تاہم ایک چیز ہم سب میں ضرور مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہم اپنی اس پہلی حیثیت، اپنے مقام اور مرتبے کو تسلیم کر لیں کہ ہم سب انسان ہیں تو: ہمیں انسان کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں انسان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔خیالات اور جذبات میں اختلاف ہو سکتا ہے ، رنگ اور نسل ، زبان اور وطن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فطری اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان کی بڑی خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ ( اسرا۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انسان کو پید ا کرنے والے خالق و مالک نے اعلان کیا ہے کہ میں نے انسان کو عزت اور احترام بخشا ہے اور قدر ومنزلت عطا کی ہے۔ اور اگر ہم انسان کی عزت نہ کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسے پیدا کرنے والے کا بھی احترام نہیں کرتے۔ حالاں کہ شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے اس اجتماع میں عنوان رکھا گیا ہے: Azadi: the Only Way ،یعنی ’’ایک ہی راستہ ہے: آزادی‘‘۔ یہاں ہونے والی تقاریر میں میرے لیے دو نکتے اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ: What do you mean by Azadi?، ’آزادی سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘ دوسرا Justice یا انصاف۔کیا آپ ایک آزاد ملک ہونے کے بعد انسانی معاشرے کی ایک بڑی بنیادی ضرورت انصاف کو ، maintain [برقرار]رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کو انصاف دے سکتے ہیںـ ـ؟
آج دہلی میں بیٹھ کر یا دلی والوں کی مجلس میں جب ہم یہ بات کریں کہ آزادی کیا ہے؟ تو ان کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ’آزادی کیا ہے؟‘ اس لیے کہ آپ کے آباواجداد بھی ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کے براہِ راست غلام تھے۔ انگریزوں کے اقتدار و بالا دستی کے خلاف انھوں نے تاریخی جدوجہد شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘۔ وہ یہاں پر مسلط برطانوی سامراجی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔
بالکل اسی طرح گذشتہ [۷۲ ] برسوں سے جموں وکشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت، کشمیر میں بھارت کے فوجی طاقت کے بل پر قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو۔
یہ آزادی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جموں وکشمیر کے ہر فرد کے لیے ہے۔ چاہے وہ کٹھوعہ میں رہتا ہو ، یا آدم پور میں ، چاہے لیہہ میں رہتا ہو یا کرگل میں، چاہے وادیِ کشمیر میں رہتا ہو یا کشتوار میں، جہاں کہیں بھی رہ رہا ہے، چاہے وہ مسلمان ہے یا ہندو اور سکھ ہے یا عیسائی ، یا بودھ ___ یہ سب بھارت کے غیرمنصفانہ اور جابرانہ فوجی تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں جموں میں ڈوگرہ فوجی تسلط کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام تسلیم شدہ تعداد ہے، حالاں کہ وہاں پر موجود افراد کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ ان کی لڑکیوں کو اغوا کیاگیا، مردوں کو ذبح کیا گیا اور ان کے بچوں کو پائوں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ یہ سارے ظلم وستم ہم نے سہے ہیں۔ یہ ۶ نومبر ۱۹۴۷ء کی بات ہے، جب جموں میں اس سانحے کا آغاز ہوا تھا۔ ہم اسی وقت سے اس فوجی تسلط میں پس رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، ہماری عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، ہماری عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے مکانات بغیر کسی جواز کے جلائے جار ہے ہیں، اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ ہم بھارت کے فوجی تسلط سے جلد از جلد آزادی حاصل کریں۔
گذشتہ [۷۲ ] برسوں کے دوران ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ آپ سب کو بھی جاننا چاہیے۔ ہم اس مجلس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ عوام سے مخاطب ہیں۔ ہم ان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا ایک انسانی رشتہ ہے۔ اس وقت جب کہ آپ کے بھائیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے تو بحیثیت انسان آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اگر آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ اس انسانی رشتے کو کمزور بنا رہے ہیں۔
آج جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں آٹھ لاکھ مسلح بھارتی فوج کا مسلط ہونا بجاے خود ایک بہت بڑا جرم اور زیادتی ہے ۔ ان آٹھ لاکھ فوجیوں نے ہمارے خطے کی لاکھوں کنال زمین پر جبری قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک چھوٹی سی قوم کی اتنی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مرد و زن کیسے اپنے مستقبل کو شان دار قرار دے سکتے ہیں؟ وہ کیسے اپنی زندگیوں میں امن اور چین حاصل کر سکتے ہیں؟
جب ایک مقامی آدمی کو مغربی بنگال یا مہاراشٹر ،بنگال، پنجاب، آسام یا اترپردیش سے آئے ہوئے سپاہی، جموں وکشمیر کے پشت ہا پشت سے آباد باشندے کو، چاہے وہ ہندو ہے یا سکھ، مسلمان ہے یا عیسائی یا بودھ___ اس سے وادی کے ہرگلی کوچے میں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر میں گھس کر تحکمانہ لہجے میں پوچھ رہا ہے کہ ’مجھے شناختی کارڈ دکھائو‘ ___ یہ ایسی زیادتی ہے جس کو جموں و کشمیر کاکوئی شہری برداشت نہیں کر سکتا۔
۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جب بھارتی فوجیں جموں و کشمیر میں آ گئیں، تو اس وقت بھی بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھاکہ: ’’ہماری فوجیں یہاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ ہم انھیں واپس بلا لیں گے اور آپ کو اپنا حق راے دہی دیا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ وعدہ تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ پھر جنوری ۱۹۴۸ء میں خود ہندستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھارت نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیر جانب دارانہ راے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا۔
اس قرار داد کو ہندستان نے تسلیم کیا ، اس پر دستخط کیے ہیں، اور عالمی برادری اس کی گواہ ہے۔ اس طرح کی منظور ہونے والی ۱۸ قرار دادوں پر بھارت نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں وہ پورا کرے۔
ہم نے جمہوری طریقہ بھی اختیار کیا ۔ ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں جا کر ہم نے آواز اٹھانا چاہی، لیکن ہندستان نے طاقت کے نشے میں ایسی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرا، جو پُر امن طریقے سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ جب تمام پُرامن راستے مسدود کردیے گئے تو عسکریت نے خود اپنا راستہ بنایا۔ جس کو ’ٹیررازم‘ کا نام دے کر، بھارت اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ریاستی ٹیررازم، کو استعمال کر کے اس جدوجہد کو دبا دینے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
آنجہانی گاندھی جی نے اپنی کتاب : تلاش حق میں کہا ہے کہ: ’’جس سسٹم میں انسانی، اخلاقی اور مذہبی قدروں کا احترام نہ ہو تو وہ سسٹم شیطانی کاروبار ہے‘‘۔ آج شیطان کا یہی کا روبار جموں و کشمیر میں چل رہا ہے ۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک، جہاں بھی ان اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کے لوگ شیطانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہندستان سے آزادی حاصل کرنا ہمارا پیدایشی اور بنیادی حق ہے۔ آپ ۸ لاکھ کے بجاے سار ے ہندستان کی فوج کشمیر میں جمع کر دیں، لیکن آپ کبھی جذبۂ آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے !
جموں وکشمیر کی غالب اکثریت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں، آواز اٹھائیں ۔ بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو انسان کہتے ہیں، انسانی سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں اور اس ظلم کے خلاف ان کا جو فرض بنتا ہے اس کو انجام دینے کا حق ادا کریں۔
ہمیں گذشتہ [آٹھ] عشروں سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے جس الحاق کو بھارت بنیاد بناکر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ بھی عارضی اور مشروط الحاق تھا۔ باوجود اس کے کہ خود اس الحاق کے بارے میں بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ وہ ہو ابھی تھا یا نہیں ہوا تھا۔ آنجہانی ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیے بھی تھے یا نہیں، جیسا کہ الیسٹر لیمب نے کتاب Birth of a Tragedy: Kashmir 1947 [راکسفرڈ بکس،۱۹۹۴ء] میں ثابت کیا ہے۔ بہرحال، ان چیزوں سے قطع نظر وہ معاہدہ بھی عارضی اور مشروط تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے گا اور مستقبل کے بارے میں ان کی راے لی جائے گی۔
۱۹۵۳ء میں، جب کہ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کیا گیا تو بقول پنڈت پریم ناتھ بزاز [م:۶جولائی ۱۹۸۴ء] ۱۰ہزار لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک شیخ محمدعبداللہ کے دورِ اقتدار میں جس طرح سے لوگوں کو دبا یا جا رہا تھا، میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ گذشتہ برس ہا برس سے جاری ہماری جدوجہد کے اس مرحلے میں بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کی جانب سے جو بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی ایک ہلکی سی جھلک بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے، بشرطیکہ وہ انسان ہو۔
پورے بھارت میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری بچے اور نوجوان، قابض فوجیوں پر کنکر پھینکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آج تک اس سنگ باری سے کوئی بھارتی فوجی یا پولیس والا قتل نہیں ہوا۔ دوسری جانب ہمارے ہزاروں لوگ گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں۔ ان مقتولین میں معصوم بچے اور گھریلو خواتین اسکول کی طالبات اور نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔
یہ ہماری جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے اور عوامی سطح پر یہ پُر امن ہے۔ اس جدوجہد میں ہم بندوق کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری تحریک خالصتاً مقامی اور Indigenous تحریک ہے، اور اسی کے ذریعے پوری عالمی برادری میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنا پیدایشی حق حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔ تاہم، بدترین ریاستی تشدد، ظلم اور قتل و غارت کے جواب میں اگر کچھ نوجوان کسی درجے میں جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو وہ تشدد کا اسی طرح ایک فطری ردعمل ہے، جس طرح تحریک آزادیِ ہند کے دوران ہوا تھا۔ تب کانگریس کی قیادت بہ شمول گاندھی جی نے یہی کہا تھا کہ: ’’مجموعی طور پر سیاسی جدوجہد میں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں، جب کہ ریاست ظلم کا ہرہتھکنڈا برت رہی ہے‘‘۔آج ہم بھی بھارتی نیتائوں سے یہی کہتے ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لیے حصولِ آزادی کا یہ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے دھونس اور دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادانہ استصواب راے کے ذریعے اکثریت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمیں قبول ہو گا۔ ہم یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اکثریت اپنے مستقبل کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔ آزادی کا ہمارا مطلب وہی ہے، جو ہندستان کا انگریزوں سے آزادی کے مطالبے کا مطلب تھا۔ ہم بھارتی قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ End to Forcible Occupation یہ ہمارا نعرہ ہے۔ اسی طرح ہمارا نعرہ ہے کہ’ گوانڈیا گو‘۔ انڈیا کا اس سر زمین پر کوئی آئینی، اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے۔ بندوق کی نوک پر آخر وہ کتنے عرصے تک ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء سے جموں و کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور ۱۵۰بار مذاکرات کے دور مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کون نادان ہو گا جو ۱۵۰ بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھرایسے بے معنی اور وقت گزاری کے عمل کا حصہ بنے؟ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہندستان ایک سانس میں کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسرے ہی سانس میں کہہ رہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسی غیرمنطقی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ آیندہ بھی کسی مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شرکت بے معنی ہے، جب تک کہ بھارت، جموں وکشمیر کی اس متنازع حیثیت کو تسلیم نہ کر لے کہ جوامرواقعہ بھی ہے اور جسے خود بھارتی قیادت نے پوری دنیا کے سامنے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم نے ۳۱ ؍اگست ۲۰۱۰ء کو ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا، جو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کی جو بین الاقوامی متنازع حیثیت ہے، اس کو آپ تسلیم کریں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں، افواج کا انخلا شروع کریں ۔ اس کے بعد کالے قوانین کے نفاذ کو ختم کریں۔ تمام گرفتار لوگوں کو رہا کریں اور ہمارے پُرامن لوگوں کے جو قاتل ہیں، ان کے خلاف آپ مقدمات چلائیں اور سزا دیں۔
یہ پانچ نکاتی فار مولا دراصل مذاکرات کے لیے ماحول بنانے کے لیے ہے، جس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ ہم بات چیت کے منکر نہیں ہیں، مگر یہ بات چیت صرف بنیادی اور مرکزی ایشو پر ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت دو فریقوں میں نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس میں ہندستان ،پاکستان اور جموں وکشمیر کے آزادی پسند شریک ہوں۔ پھر اُس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جو بے مثال جدوجہد کی گئی ہے اور جو قربانیاں دی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان مذاکرات کے بعد استصواب راے میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، اسے ہم سب قبول کریں۔
بھارت میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ: ’’اگر جموں وکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو جائے گا اور چوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو وہاں اقلیتوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ پروپیگنڈا بے جواز بھی ہے اور بے معنی بھی۔ چوںکہ جموں وکشمیر ،مسلم اکثریتی خطہ ہے، وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کے بارے میں ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے جان ومال ، عزت وعصمت، ان کے مذہب و عقیدے اور ان کی عبادت گاہوں، سب کا تحفظ ہو گا۔ اس حوالے سے کسی کو کسی بھی قسم کی فکر مندی یا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان جودنیا بھر کے سامنے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے، کیا وہ خود اس اصول کو اپنا رہا ہے؟ کیا اس پر عمل کر رہا ہےـ؟ اگرایسا ہوتا تو جموں وکشمیر گذشتہ [۷۲]برسوں سے بھارتی جبر کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن بہر حال ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نظام ہے، جس میں انصاف اپنا وجود اور عمل دکھائے گا، ان شا اللہ !
اس عرصے میں ۶ لاکھ قربانیاں لے کر، ہماری عزتیں اور عصمتیں لوٹ کر ، جنگلات کا صفایا کر کے، ہمارے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بعد بھی آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم نے جو پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ہم کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی اس باشعور مجلس کے ذریعے میں اعلان کرتا ہوںکہ آپ کے جو صلاح کار ہمارے مظلوم بھائیوں سے ملنا چاہ رہے ہیں ، اُن کے سامنے ہمارے لوگ یہ مطالبہ دہرائیں گے کہ جب تک آپ اصل حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے، آپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ طلبہ،تاجروں ، دیگر آزادی پسند لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس زمینی صورتِ حال کو تسلیم کیے بغیر کوئی بات چیت نہیں کریں گے، کہ یہ محض وقت گزارنے کا بہانا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کی نیت صاف نہیں ہے۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم خون دے کر اور جانیں دے کر باربار بتا رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹا کر، بچیوں کو اُجڑتے دیکھتے اور جوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتے ہوئے بھی ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے جبری قبضے کے خلاف ہیں اور ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہم آپ کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بہر حال یہ فریب کاری ہے۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچ کر دیکھیں اور اس خودفریبی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو برملا یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارے عوام تھکے ہیں، اور نہ ہماری قیادت مایوس ہوئی ہے۔ ہم جدوجہد آزادی میں بھرپور طریقے سے ہم قدم ہیں ۔ اس وقت تک برسرِکار ہیں، جب تک کہ ہم بھارت کے فوجی قبضے سے آزادی حاصل نہ کرلیں۔ بھارتی قبضے سے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک ایک رستے ہوئے ناسور سے آزاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسا لاوا ہے، جس کو حکمرانوں کی اناپرستی، ہٹ دھرمی اور عدم توجہی کی وجہ سے اگر اسی طرح دبانے کی کوشش کی گئی تو اس میں اتنا خطرہ موجود ہے کہ یہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانی کے خرمن کو جلاکر راکھ کرسکتا ہے۔اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے امن کی ضمانت کے لیے، اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور یہ جتنا جلد ہوگا، اتنا ہی بہتر ہوگا۔
آخر میں، مَیں انتظامیہ اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اسی نسبت سے میں آپ حضرات کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کے لیے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جموں وکشمیر کے مظلوم عوام پچھلے ۷۰ سا ل سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ جدوجہد ہیں۔ اس جدوجہد میں پاکستان روزِ اول سے سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد کرتا آ رہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جموں وکشمیر کے محسن اور غم خوار مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھوں نے ۱۹۹۰ء میں یوم یک جہتی کشمیر کا آغاز کرکے پاکستان کو تحریک آزادی کے حوالے سے زیادہ فعال اور سرگرم رول ادا کرنے کی ترغیب دی۔
کشمیر ی قوم اپنی آزادی کے لیے دنیا کی ایک بڑی ملٹری طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ہمارے حقِ خود ارادیت کو خود بھی تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے اس کی وکالت بھی کرتا ہے۔ ہم اس مدد او ر سپورٹ کے لیے پاکستان کے ممنون ہیں، البتہ اس ملک کی طر ف سے کشمیر کے حوالے سے زیادہ Avtive اور اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں او ر سفارتی چینلوں کو زیادہ متحرک کر ے اور انھیں کشمیر یوں کی جدوجہد اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کا ٹاسک سونپ دے۔
میں پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور استحکام پیدا کریں اور اس میں کسی بھی مرحلے پر معذرت خواہانہ رویے کو اختیار نہ کیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد مبنی بر حق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اس قبضے کا حتمی حل پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس ملک کو جرأت اور حوصلے کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوریوں اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
میں ایک بار پھر موحوم قاضی حسین احمد کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی تنظیموں جلسوں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہیں ، البتہ اس دن کے آغاز کا سار کریڈٹ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی ذات کو جاتا ہے جنھوں نے پہلی بار کشمیریوں کے تیئس عملی اور ردیدنی وابستگی ظاہر کرنے کا پیغام دیا۔ مرحوم قاضی صاحب خود بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے متمنی تھے۔ مرحوم اپنی ہر تقریر میں کشمیر کا تذکرہ کرتے تھے اور انھوں نے کشمیری مہاجرین کے تئیں جس ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کیا وہ آب وزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کشمیر ی قوم مسئلہ کشمیر سے ان کی والہانہ وابستگی اور گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ۵ فروری کو روایتی طور پر منانے سے آگے بڑھ کر اس دن کو زیادہ سے زیادہ جلسے اور جلسوں کا انعقاد کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں۔ اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو جتنا ممکن ہوسکے اُجاگر کیا جائے۔
میں پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جموں وکشمیر کے مظلوم ، محکوم اور غلام قوم کی حمایت دل و جان سے کرتے ہیں اور ایک بہت بڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہماری دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ دعائیں ہیں کہ پاکستان سلامت رہے، محفوظ رہے اور ہر حیثیت سے انسانی قدروں کا احترام کرے اور پاکستان میں جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں چاہے مسلمان ہوں، ہندو ہوں ، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، احمدی ہوں، جو بھی لوگ پاکستان میں سکونت پذیر ہیں ان کو جان مال، عزت وآبرو، مذہب وعقیدہ اور عبادت گاہوں کی پر حیثیت سے حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ ہم دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے ہیں تا کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ایسا ملک سمجھا جائے کہ وہ انسانی قدروں اور اخلاق قدروں کا سب سے زیادہ پاسداری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
اللہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ پاکستان جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کی حفاظت اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کو عالمی سطح پر عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے، اور پاکستان کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم بھارت کے جبری فوجی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ، ان شا اللہ ،ان شا اللہ ! اللہ ہماری مدد اور حفاظت کرے۔