بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا ۹نومبر ۲۰۱۹ء کو جو فیصلہ آیا ہے، وہ فیصلہ ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مایوسی کا باعث ہے۔سپریم کورٹ میں جس طریقے سے مقدمہ پیش کیا گیا تھا،جس قدرمضبوط دلائل و شواہد پیش کیے گئے تھےاورجس طرح سے ہمارے وکلا نے اس مقدمے کی پیروی کی تھی،اس سے ہم سب کو توقع اور غالب امید تھی کہ فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آئے گا،مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔
یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے پہلے روز سے یہ بات کہی تھی کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کہ جو مسلمان ابھی کہہ رہے ہیں یا حکومت کی تبدیلی کے بعد سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ نہیں، بلکہ جب سے یہ مقدمہ چل رہا ہے ،اس وقت سے مسلمانوں کا موقف یہی ہے کہ ’’سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا، اس کا احترم کریں گے ،اسے قبول کریں گے‘‘۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ رول آف دی لا (قانون کی حکمرانی) کی بڑی اہمیت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیرامن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اسلام بھی فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا اور ہم بھی پسند نہیں کرتے۔ قانون کی حاکمیت کے بغیر فتنہ و فساد کا تدارک نہیں ہو سکتا، نیز معاشرے میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم امن کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، دلائل کے ساتھ، اپنی بات رکھیں گے اور سپریم کورٹ جو فیصلہ دے گا، اس کا احترام کریں گے۔ اس لیےسپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات پر ہم آج بھی قائم ہیں۔حتمی طور پر جو فیصلہ ہوگا ، اس کا احترام کیا جائے گا۔
تاہم، فیصلے کے احترام کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم صدفی صد اس سے اتفاق بھی کریں۔ اس فیصلے میں جو غلط باتیں ہیں ، ان سے ہم اختلاف کریں گے اور اس اختلاف کا ہم اظہار بھی کریں گے۔یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔سپریم کورٹ یا ملک کا قانون بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حالت میں سپریم کورٹ کی باتوں پر ایمان لے آئیں ۔تاہم، فیصلے کے خلاف کوئی کام یا عملی اقدام آپ نہ کریں، یہ قانون کا مطالبہ ہے۔ ہم اس مطالبے پر عمل کریں گے، اور فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ لیکن اس فیصلے میں جو نقائص ہیں ، جو کمزوریاں ہیں ، ہم ان کم زوریوں پر اظہارِ خیال بھی کریں گے۔
سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جناب ورما صاحب کا قول اس وقت میڈیا میں نقل کیا جارہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ، سپریم ہے، لیکن غلطیوں سے پاک (infalliable) نہیں ہے۔غلطی اس سے ہو سکتی ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں بہت سی غلطیاں اور بہت سی کم زوریاں ہیں۔ جس طریقے سے ٹائٹل سوٹ، یعنی مقدمۂ ملکیت کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بحث اور فیصلے میں بہت سی باتیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں، جو مسلمانو ں کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ خاص طور پر جو بحث اور گفتگو، اس طویل عرصے میں بابری مسجد کے حوالے سے چلی ہے اور جس کی بنیاد پر ایک تاریخی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف کی تائیدکی ہے۔ مثلاً اس پورے فیصلے کی سب سے اہم بات جو فرقہ پرستوں کے پورے موقف کو ڈھیر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بقول: ’’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معمولی طور پر اہم بات ہے ۔ اس سےہم تاریخ کی بحث کا پورا دھارا موڑ سکتےہیں۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے ،لیکن ملک میں ضمیر کی عدالت کے سامنے آپ تفصیلات رکھ سکتے ہیں، اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ’’ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ اس کا کوئی ثبوت ،کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے‘‘۔ اس فیصلے کے مطابق ’’اس زمین کے نیچے سے اسٹرکچر ضرور برآمد ہوا ہے مگر وہ اسٹرکچر کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔اگرچہ وہ اسلامی اسٹرکچر نہیں ہے،لیکن اس کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ وہ ہندو اسٹرکچر ہے‘‘۔ فیصلے میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ’’یہ اسٹرکچر بارھویں صدی کا اسٹرکچر ہے، جب کہ بابری مسجد سولھویں صدی میں بنی ہے۔بارھویں سے سولھویں صدی کے درمیان ۴۰۰سال کے دوران یہاں کیا تھا ؟ اس کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم بیان ہے۔ اس سے وہ تاریخی موقف کہ جسے یہاں کے فسطائی اور فرقہ پرست عناصر کھڑا کرنا چاہتے تھے، اس کی پُرزور تردید ہوتی ہے۔ ہمیں اسے بھرپور طریقے سے ایک ایک فرد کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
اسی طرح ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھنے کے عمل کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ’’بالکل غلط عمل تھا ۔ یہ توہین آمیز اور مجرمانہ فعل تھا۔ اسی طرح ۱۹۹۲ء میں مسجد کو گرادینے کا عمل بھی مجرمانہ عمل تھا‘‘۔
ایک بڑی اہم بات یہ کہ مذہبی عبادت کے مقدمات سے متعلق قانون The Places of Worship (Special Provisions) Act 1991 بھارتی پارلیمنٹ نے برسوں پہلے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’۱۹۴۷ءمیں مذہبی مقامات کی جو جو حیثیت تھی، وہی باقی رہے گی،سواے بابری مسجد کے‘‘۔ کیوں کہ بابری مسجد کا معاملہ اس وقت تک ایک اہم تنازعہ بن چکا تھا اور عدالت میں زیر غور تھا، اس لیے اس کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ لیکن باقی جومذہبی مقامات ہیں، ان کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ’’۱۹۴۷ء کی پوزیشن باقی رہے گی۔ ۱۹۴۷ء میں جو مسجد تھی وہ مسجد رہے گی جو مندر تھا وہ مندر رہے گا۔ کوئی پرانا تاریخ کا دعویٰ لے کر مسجد کو مندر میں اور مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا‘‘۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس قانون کو مضبوطی عطا کی ہے۔ اس کے نتیجے میں بنارس اور دیگر مقامات کے سلسلے میں ہندوانتہاپسند جو دعوے اُٹھا رہے ہیں،ان پر گویا سپریم کورٹ نے بند باندھا ہے۔ یہ بات بھی ہمیں بھارت کے عوام کے سامنے لانی چاہیے، کہ اب ان سارے دعووں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی، اور یہ کہ اب اس طرح کے تنازعات ختم ہوجانے چاہییں۔
بابری مسجد کے مقدمے کے سلسلے میں ہماری جوقانونی ذمہ داری ہو سکتی تھی، وہ ہم نے ادا کی ہے۔بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’اگر ہم مصالحت کے ذریعے مسجد دے دیتے تو اچھا ہوتا۔ کیوں اتنا لمبا مسئلہ چھیڑا گیا؟اتنی لمبی عدالتی لڑائی لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ نتیجہ تو وہی نکلا۔ اگر پہلے ہی عزت سے دے دیتے تو مسئلہ بہت پہلے ختم ہوجاتا‘‘۔ ایسی باتیں سوشل میڈیا پر جگہ جگہ چل رہی ہیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سجھ لینی چاہیے کہ یہ عدالتی لڑائی اور جد وجہد کس لیے تھی ؟ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا صبروتحمل اور ہماری یہ لڑائی اور جدوجہد اصلاً ملک میں قانون کی حکم رانی کو یقینی بنانے کے لیے تھی۔ اگر کمزوروں پر دباؤ ڈال کر ان کے حقوق غضب کیے جاتے رہیں اور کمزور دب کر صلح کرتے رہیں، تو معاشرے میں انارکی اور لاٹھی کا راج مسلط ہوجاتا ہے۔ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے قانون کی حکم رانی کو یقینی بنایا ہے ۔طاقت کو قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا۔ اگر مسلمان درمیان کے کسی مرحلے میں مصالحت کرلیتے تو ’ہجومی طاقت‘ (Mob Lynching)کی بالادستی بھارت میں قائم ہو جاتی۔ یہ بات طے ہو جاتی کہ کوئی بھی گروہ، مشتعل ہجوم اکٹھا کرکے من مانے طریقے سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اس وقت جو فیصلہ آیا ہے، وہ غلط ہو یا صحیح، بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ قانونی عمل مکمل ہوا ہے۔اس سے قانون کی حکم رانی مستحکم ہوئی ہے، جو ملک کے دستوری ڈھانچے اور ملک کے قانونی نظام کے لیے مسلمانوں کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔
مسلمان توکّل الی اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ توکّل، اسلامی فلسفے کا بنیادی اور اہم تصور ہے، جس کا براہِ راست تعلق ایمان سے ہے۔ توکّل کیا ہے ؟ توکّل کی دو شرطیں ہیں: ایک تو معقول تدبیر اختیار کرنا اور آخری حد تک کرنا۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’اونٹ کو باندھ کر توکّل کرو، کھلا چھوڑ کر نہیں‘‘۔ مطلب آخری ممکنہ حد تک تدبیر اختیارکرو۔ الحمد للہ ،مسلمانوں نے اس معاملے میں آخری حد تک کوشش کی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ گئے اور سپریم کورٹ میں گئے ۔ ملک کے ماہرترین قانون دانوں کی خدمات حاصل کیں ۔ میڈیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا ۔ ملک کے عوام کے ضمیر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ مصالحت کے نام پر طرح طرح سے دباؤ ڈالے جاتے رہے ،لیکن کبھی اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے، اور اپنی آخری کوشش جواللہ کے گھر کی حفاظت کے لیے ہو سکتی تھی، الحمدللہ اسے ہم مسلمانوں نے انجام دیا۔ اس پر ہم سب کو اطمینان ہونا چاہیے کہ الحمدللہ، ہم نے آخری حد تک کوشش کی ۔ اس طرح توکّل کی پہلی شکل ’ آخری حد تک تدبیر‘ کو ہم نے اپنے امکان کی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول کرے اور ان میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو اسے معاف فرمائے۔
اب دوسری شرط کا مرحلہ ہے۔ توکّل کی دوسری شرط یہ ہے کہ آخری کوشش کے بعد جو فیصلہ ہو جائے ، جو نتیجہ نکلے ، وہ ہم اللہ پر چھوڑ دیں۔ہم یہ سوچیں کہ اللہ جو کرے گا، ہمارے لیے اچھا کرے گا ۔ اس میں کچھ نہ کچھ خیر ہوگا۔ بہ ظاہر شر نظر آتا ہے، مگر اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھیں ۔ یہ بھی توکل کی اہم شرط ہے۔ہم نے ممکنہ حد تک کوشش کی ۔ اب ہمارے وکلا دیکھ رہے ہیں کہ کیا اور بھی کسی کوشش کا امکان باقی ہے؟ ریویو پٹیشن وغیرہ کا امکان ہے؟ اگر ہے تو وہ بھی کر لیں گے۔ مگر ممکنہ حد تک جو کوشش ہوسکتی ہے، وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی ہم کریں گے، کیوں کہ ہم اس کے مکلف ہیں۔ جب ہماری ذمہ داری اور ممکنہ حدتک کوشش پوری ہو جائے گی، تو پھر ہم اس مسئلے کو اللہ پر چھوڑ دیں گے اور سمجھیں گے کہ ان شاءاللہ اس سے کچھ نہ کچھ خیر ضرور برآمد ہوگا۔ پوری اسلامی اورانسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ بظاہر شر نظر آنے والے واقعات سے اوربظاہر نامناسب نظر آنے والے معاملات سے اللہ تعالی نے غیرمعمولی خیر پیدا کیا ہے۔
سیّدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحرا کے ایک تاریک کنویں کی وحشت ناک تنہائی کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مصر کے تخت وتاج کا پہلا زینہ بنایا ۔ پھر مصر کی جیل کی طویل قید کو دوسرا زینہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں خیر کیا ہے، لیکن ہم ان شاء اللہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کریں گے، اور وہ ہم نے پہلے بھی کی ہے۔ اس کے بعد معاملے کو اللہ پر چھوڑدیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
اس سلسلے میں یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ ہماری اصل ذمہ داری، اس ملک میں دعوتِ دین کی ہے،جواس ملک میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ ہم اس ملک میں اپنے آپ کو خیرِ اُمت سمجھیں ۔یہاں کے تمام انسانوں اور کروڑوں کی آبادی کواپنا مخاطب سمجھیں۔ انھیں اللہ کے بندے سمجھیں اور ان سے ربط و تعلق قائم کریں۔ ان سے برادرانہ رشتہ استوار کریں،ان کی غلط فہمیوں کو دُور کریں ، ان کے دل میں جو نفرت کے بیج ہیں، انھیں مٹائیں۔ ان کے دلوں کو جیتیں۔ عدل و انصاف اور اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فریضہ ہے ۔ یہ احساس امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوجائے گا تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور اس جیسے مزید سیکڑوں مسائل بھی حل ہوں گے ۔
ہمارا طویل المیعاد ایجنڈا،اصل مقصد اور نصب العین یہ ہے کہ ہمیں خیرِ اُمت بننا ہے، مثالی اُمت بننا ہے۔ انسانوں کے سامنے اللہ اور اس کے آخری رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہے۔ اپنے آپ کو اخلاق اور کردار سے طاقت ور بنانے کی کوشش کرنی ہے۔اس نصب العین پر ہماری توجہ رہے ۔اس عظیم نصب العین کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی رکاوٹیں اس راہ میں آتی رہتی ہیں۔ہمیں ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہے، لیکن ان میں اُلجھ کر نہیں رہ جانا۔ بابری مسجد کےاس فیصلے سے جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے وہ فطری بات ہے اور ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن اس تکلیف کے نتیجے میں ہم کو مستقل طور پر مایوس اور نااُمید نہیں ہونا ہے ۔ اپنے اصل کام کے سلسلے میں حوصلے اور ہمت کو نہیں ہارنا ہے۔
ہم اپنے اصل کام سے وابستہ رہیں گے تو ان شاءاللہ یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور ایسے اور بھی مسئلے حل ہوں گے اور ہمارا یہ سفراپنے نصب العین کی طرف جاری رہے گا۔ اس نازک گھڑی میں، مَیں یہی گزارش کروں گا کہ ہم سب اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہوں، اور یکسوئی سے انھیں انجام دینے کی فکر کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
[ویڈیو سے مرتب: محب اللہ قاسمی]
۶دسمبر ۱۹۹۲ء کو جب بھارت کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، میں ان دنوں صحافتی شعبے میں کام کا آغاز کرکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک زیرتربیت فرد کے طورپر ایک ابلاغی ادارے وابستہ تھا ۔مجھے یاد ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک رپورٹر ’ویشوا ہندوپریشد‘ اور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کی خبریں بھیج رہے تھے۔ پھر ایک دم سے ایودھیا سے خبروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ رات گئے تک بس کانگریسی حکومتی ذرائع سے یہی خبر آرہی تھی کہ’’ انتظامیہ مسجد کو بچانے کے لیے مستعد ہے اور خاصی تعداد میں مرکزی فورس وہاں بھیجی گئی ہے‘‘۔ اس واقعے سے دودن قبل ہی ریاست اتر پردیش کے وزیرا علیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں مسجد کی حفاظت کی حلفیہ ضمانت دی تھی اور عدالت نے ایودھیا میں ہندوئوں کو تقریب کرنے کی اجازت دی تھی۔
ریڈیو سے ہم مسلسل بی بی سی کی نشریات سن رہے تھے۔ رات گئے بی بی سی نے اپنی معمول کی نشریات روک کر اعلان کیا کہ: ’’ سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی ابھی ابھی ایودھیا سے فیض آباد پہنچے ہیں‘‘۔ ریڈیائی لہروں پر اگلی آواز قربان علی کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ: ’’بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا ہے۔ جس وقت میں ایودھیا سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا، اس وقت مسجد کے ملبے پر ایک عارضی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا تھا اور بھگوان رام کی مورتی کو ایک شیڈ کے نیچے اس جگہ منتقل کیا جا رہا تھا ، جہاں چند گھنٹے قبل مسجد کا مرکزی گنبد موجود تھا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا: ’’مسجد کی طرف چڑھائی کرنے سے قبل صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مندر وں اور کئی مکانوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ان کے کیمرے توڑدیے گئے تھے۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی تھی‘‘۔ قربان علی اور بی بی سی کے شہرۂ آفاق نمایندے مارک ٹیلی کو ایک مندر کے بوسیدہ کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ قربان علی نے بتایا: ’’دوپہر کے بعد ہم کو ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے لیڈر اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کردیا گیا، جس نے ہماری رہائی کے احکامات صادر کر دیے۔ کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوتے ہوئے ہم فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ہندو انتہاپسندوں یا کار سیوکوں نے سڑکوں پر ناکے لگا رکھے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کو باہر جانے نہیں دے رہے تھے‘‘۔فیض آباد پہنچ کر انھوں نے دنیا کو بتایا کہ: ’’۱۵۲۸ءمیں مغل فرماںروا ظہیر الدین بابر کے جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی گئی ہے‘‘۔
دہلی میں ہماری رہایش گاہ سے متصل ایک معروف کیمرہ مین سلیم شیخ رہتے تھے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس نام کا رشتہ تھا ۔ اس کے علاوہ شب برأت کے موقعے پر اپنی والدہ کو یاد کرکے نماز پڑھتے تھے۔ جونہی شب برأت ختم ہوتی تو وہ بوتل نکال کر شراب پینا شروع کردیتے تھے۔ سال بھر اسی طرح گزارتے اور پھر اگلی شب برأت سے ایک روز قبل و ہ بوتل الماری میں بند کردیتے تھے۔ عید ہو یا کوئی اور دن، ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ شب برأت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ: ’’میرے بچپن میں، میری والدہ اس رات بڑے اہتمام سے اور پوری رات عباد ت میں مصروف رہا کرتی تھیں‘‘۔ اس لیے وہ اپنی والدہ کو یاد کرنے کے لیے کچھ گھنٹوں کے لیے مسلمان بن جاتے تھے۔ خیر جونہی بابری مسجد کی شہادت کی خبر نشر ہوئی، تو ہمارے کمرے کے دروازے پر بڑے زور زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ سلیم بھائی بوتل پکڑے خاصے غصے میں بھارتی حکومت اور اس کے آئین کو گالیوں سے نواز رہے تھے۔ میری کتابوں کے شیلف سے انھوں نے بھارتی آئین کی کتاب نکال کر اس کو پھاڑا اور پھر نیچے گلی میں لے جاکر آگ کے حوالے کردیا۔ ایک تو وہ پورا علاقہ ہندوؤں کا تھا، دوسرا مجھے کتاب کے تلف ہونے پر بھی افسوس ہو رہا تھا۔ خدشہ یہ بھی تھا کہ ان کی حرکت سے فساد پھوٹ سکتا ہے۔ خیر ہوگئی کہ رات خاصی بیت چکی تھی اور لوگوں نے بھی ان کی حرکت کو دیکھ کر یہی سمجھا کہ نشے میں دھت وہ اپنی کوئی کتاب جلا رہے ہیں۔
اس موقعے پر یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سلیم شیخ جیسے فرد کو بھی اس دن ا پنی مسلم شناخت یاد آگئی اور مسجد کی مسماری پروہ اس قدربے چین ہوگیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈر مرحوم جاوید حبیب نے مجھے ایک بار کہا تھا: ’’بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کا یہ چھٹا بڑا واقعہ ہے: lپہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی lدوسرا یہ کہ۱۹۲۰ء میںمہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ lتیسرا یہ کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی lچوتھایہ کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا lپانچواں یہ کہ ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور lچھٹا یہ کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا‘‘۔ (اب اس میں ساتواں واقعہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بنانا، اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا ہے)۔
بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلے میں بھی سپریم کورٹ نے ہندو فریقین کے دلائل کا پول کھول کر رکھ دیا۔ ان کی یہ دلیل بھی رد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی، اور جبری طور پر نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔ جج صاحبان نے دراصل ہندوئوں کی آستھا، یعنی عقیدے کو اپنے فیصلے کی بنیادبنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ’’ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ ‘، یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے، عین محراب و منبر کے پاس ہوا تھا ۔’’ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دُور رہنا چاہیے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔
اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیاتھا کہ’’ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقِ ملکیت کی بنیاد پر کرے گی‘‘۔فیصلے کا دل چسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوئوں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجاے ، ’’بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات‘‘ صادر کر دیے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ’’چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جارہا ہے‘‘۔ فریقین پر قانون و نظم کو برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی۔کورٹ نے بتایا:’’چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے‘‘۔ کورٹ نے رام للا کو یعنی معنوی و اعتباری لحاظ سے ایسی شخصیت قرار دیا ہے، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے۔
ہندو فریقین ، کورٹ کے اس رخ سے خود بھی حیران ہیں، کہ رام مندر کی تعمیر میں اب وہ وزیر اعظم مودی کے دست نگر ہوں گے۔ٹرسٹ کے ممبران اور رام مندر کے نگرانوں کا تعین مودی کی مرضی سے ہوگا۔ نرموہی اکھاڑہ ، رام جنم بھومی نیاس ، ہندو مہاسبھا ا ور ویشوا ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے سادھو سنتوں اور پجاریوں کی نیند یں اُڑی ہوئی ہیں، جن کی عظیم الشان رام مندر کے کنٹرول اور وہاں زائرین کے چڑھاووں پر حق جمانے کی آس میں رال ٹپک رہی تھی۔
سپریم کورٹ کے سبک دوش جج جسٹس گنگولی نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ: ’’ان کے لیے اس فیصلے کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں مانتا ہوں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ بھارتی آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے ، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔ ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔‘‘ بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بودھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ [م: ۸۲۰ء] نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بودھ بھکشووںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بودھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [زمانہ:۱۴۴-۱۲۰ءق م ]اور کنشکا [زمانہ: ۲۶۸-۲۳۲ ق م ]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بودھ مت اختیار کرچکی تھی، تو اس وقت بھارت میں بود ھ آبادی محض ۸۵لاکھ، یعنی کُل آبادی کا صفر اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
جسٹس گنگولی نے کہا: ’’اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد کو توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے‘‘۔ آئین کی دفعات کی روشنی میں تاریخی مسجد کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک خطرناک نظیر پیش کر دی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو عمارتی ڈھانچا بتایا جاسکتا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے سے چند روز پہلے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انھیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لیے کہا جارہا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت یقینا کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے، جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے لے کر راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نفرت بھرے وہ لیڈر تک، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں۔ وہ بھی مسلم لیڈروں ،دانش وروں اور اردوصحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا قبول کرنا چاہیے‘‘۔
’آل انڈیا ملّی کونسل‘ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے: ’’فیصلہ لکھنے کے دوران جج حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ (ملکیت کے مقدمے) کو انھوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ اس کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔
عدالت کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں اس نے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’سیکولرزم، ہندستان کے آئین کی بنیادی روح ہے‘‘۔بابری مسجد انہدام سازش مقدمے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن نے بھی اپنی رپورٹ میں ’’بابری مسجد انہدام کو ایک منصوبہ بند سازش‘‘ قرار دیا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے والی تھی، تو جسٹس لبراہن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کو حق ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرنی چاہیے،کیونکہ یہ مقدمہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘‘۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے از خود ’’بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی‘‘ قرار دے دیا ہے، تو اسے ان لوگوں کے خلاف عدالت میں جاری مقدمے پر بھی غور کرنا چاہیے، جنھوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔
با بری مسجد انہدام کا مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے، جس میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ،اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت سنگھ پریوار کے۳۲ لیڈروں کے خلاف فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔مسلمان با بری مسجد تو کھو چکے ہیں، لیکن وہ ان لوگوںکے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں، جنھوں نے قانون ،دستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اُجالے میں شہید کیا تھا۔
ہندی کے ایک معروف صحافی اور سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ تصنیف ایودھیا - رام جنم بھومی بابری مسجد وواد کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ویشوا ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو وٗں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد پڑ جائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا، جو شاملِ بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی، تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر کہا کہ ’’ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں ہی پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔
اس فیصلے کا اعتبار اُس وقت اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں‘‘۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے ہاتھوں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بودھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ تاہم، اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔
اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ہیڈگیوار [م: ۱۹۴۰ء] ، ساورکر [م:۱۹۶۶ء] یا گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات کے بجاے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقۂ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
اے جی نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid: A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک سودے بازی ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت [۱۹۸۴ء] کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا۔ ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ راجیو گاندھی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، مگر وہ مسلمانوںکو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ سودے بازی کو آگے بڑھایا جاسکے اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان کا رویہ بھی افسوس ناک رہا۔ ان دونوں پارٹیوں نے جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی تھیں ، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ۴۰روز تک مسلسل اس معاملے کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت میں ۱۱ہزار۵ سو دستاویزات پیش کی گئیں۔ان میں کئی دستاویزات سنسکرت اور فارسی میں تھیں۔ اتر پردیش کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب اپیل کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کیا، تو الٰہ آباد سے ۱۵ بڑے ٹرنکوں میں دستاویزات دہلی پہنچا دی گئیں۔ ہائی کورٹ کا ٖفیصلہ ۸ہزار ایک سو ۷۰ صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے ساتھ ۱۴ہزار ۳سو ۸۵ صفحات بطور ضمیمہ منسلک تھے۔ مسلم فریق کے وکلا نے باربار یہ دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شاملِ بحث ہی نہیں ہے۔
میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق ۱۵۰۰ قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھااور پھر ۱۳۰۰برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔تب تک نہ عیسائی اور نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔ اس دورا ن دریاے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہوں گے۔ آخر اب یہ کیسے طے ہوسکے گا کہ بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے ۵۰۰برسوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ ’’دنیا کا ایک دستور ہے کہ تہذیبیں دریا کے کناروں پر بستی چلی آ ئی ہیں، اور برباد ہوئی ہیں۔اب آپ کیسے یہ ثابت کریں گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہایش گاہ بھی تھی‘‘۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کو زمین کی دستاویزات فراہم کرنے کو کہا، تو ان کا جواب تھا: ’’یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جایداد ہے‘‘۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ مانگا تو جواب ملا:’’ ۱۹۸۲ء میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گیاہے‘‘۔
معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بقول: ’’ان میں آثارقدیمہ کے زیر انتظام سیکڑوں تاریخی مسجدوں میں نماز کی آزادی دینے کی شرط سب سے اہم تھی۔ دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروںمیں موجود مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ یہ مساجد زبانِ حال سے اپنی بے کسی کا نوحہ بیان کررہی ہیں، جہاں سیاحوں کو جوتوں سمیت گھومنے کی تو آزادی ہے، لیکن مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ وشوا ہندو پریشد نے تین ہزار مسجدوں کی فہرست بنارکھی ہے، جو اس کے خیال میں مندروںکو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کے لیے پوزیشن بنائے بیٹھے ہیں۔ اکھاڑہ پریشد نے تو پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ رام مندر کے بعد اب کاشی اور متھرا کے لیے بھی تحریک تیز کی جائے گی‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے سامنے ایک اور تجویز یہ آئی تھی کہ ’’اگر حکومت آئین کی دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کرکے عیسائیت یا اسلام اختیار کرنے والے دلتوںکے لیےکوٹہ برقرار رکھتی ہے، تو اس صورت میں بھی مسلمان مسجد سے دست بردار ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس شق کی رُو سے ’’اگر کوئی دلت [شودر]، اسلا م یا عیسائیت اختیار کرتا ہے، تو وہ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ریزرویشن [کوٹا]کا حق کھو دیتا ہے‘‘۔ یہ شق ہندو مذہب کے پس ماندہ طبقات اور نچلی ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے آئین میں رکھی گئی ہے۔ اس شرط کو ہندو فریقین نے خارج کردیا۔ ان کو خدشہ پیدا ہوا کہ اگرآئین کی اس شق میں ترمیم کی جاتی ہے، تو دلت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع کرسکتے ہیں۔ تاہم، معصوم مراد آبادی کے مطابق ’’اگر کسی بھی نوعیت کی وقتی شرطوں پر بابری مسجد طشتری میں سجا کرہندوؤں کو پیش کردی گئی، تو بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔
بابری مسجد کے مقدمے میں مسلمانوں کی پیروی ایک ہندو وکیل راجیو دھون نے کی اور اس خدمت پر کوئی پیسہ وصول نہیں کیا ۔سپریم کورٹ میںسماعت کے آخری دن ایک ہندو فریق نے رام مندر کا ایک فرضی نقشہ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنا چاہا تو راجیو دھون نے بھری عدالت میں اس نقشے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور کہا: ’’بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ کیا اصولِ حکمرانی میں عقیدے کو استدلال پر فوقیت حاصل ہے؟ استدلال کو عقیدے پر فوقیت دی جانی چاہیے‘‘۔ اپنی بحث سمیٹتے ہوئے راجیو دھون نے عدالت کے سامنے علامہ اقبال کے یہ شعر بھی پڑھے:
وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
پاکستان اور عالم اسلام ،عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں دوستانہ رجحان اور خوش گوار سوچ رکھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور توسیع پسندانہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی معروف ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے تعلقات میں ان کی قومی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پاکستان سے چین کے اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے۔ ان تمام امور کی بنیاد پر ہم عوامی جمہوریہ چین کی تعمیر ، امن اور یک جہتی کو دوستی کا مرکزی نکتہ تصور کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ چین کی دور اندیش قیادت واقعات اور حوادث کو مدنظر رکھتے اور اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت چند پہلوئوں پر نظرثانی کرے۔ بلاشبہہ عمومی طور پر انھیں مذہب اور مذہبی جذبات سے کچھ نسبت نہیں، لیکن بہرحال، وہ انسانی تہذیب اورانسانی معاشرے میں مذہب کے گہرے اثرات سے واقف ہیں۔
اسی طرح باریک بین چینی حاکموں کو اس چیز کا بھی علم ہے کہ ستاون ،اٹھاون مسلمان حاکم، مسلم اُمت کے جذبات سے جتنے بھی دُور اور سامراجیوں کے قریب تر ہوں، وہ ایک الگ اکائی ہیں۔ حاکموں کے بر عکس مسلم امت کے دل ایک وجود کی حیثیت سے دھڑکتے ہیں۔ رنگ ونسل اور علاقے یا زبان کی تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ ایک تہذیب ہیں۔ یہ بات بھی چین کے دُوراندیش حاکم جانتے ہیں اور پھر زمینی حقائق بھی یہ ہیں:چینی ترکستان ،وسطی ایشیا ، ترکی، جنوبی ایشیا، انڈونیشیا سے بوسنیا اور مراکش تک ایک جغرافیائی وحدت ،مسلم اُمہ کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وحدت نہ امریکا کی ہمسایہ ہے اور نہ یورپ سے منسلک، بلکہ اس کی بڑی آبادیاں چین ہی سے متصل اور قریب تر ہیں (جیسے مسلمانوں کے تینوں بڑی آبادیوں کے ممالک ،انڈونیشیا ،پاکستان، بنگلہ دیش)۔ اس لیے ،ایک تو اس فطری ہمسائیگی کا تقاضا ہے کہ ہمسایے کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مسلمان حاکموں کے بجاے کھیتوں، قصبوں، کہساروں،میدانوں اور صحرائوں میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لیے، جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہوکر ، غور وفکر کی کوشش کریں۔
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا ہے، ہم چین کی جغرافیائی وحدت کا احترام کرتے ہیں۔اس کی ترقی پر خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ: چینی حکومت ،چین سے منسلک سنکیانگ اور وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے ساتھ شفقت، احترام اور ان کی اقدار کے پاس ولحاظ کی راہ پر چلے، تو یہ قدم نہ صرف چین کے داخلی استحکام ،بلکہ خود مسلم امت سے چین کے خوش گوار تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بعض مغربی ممالک کے اس پراپیگنڈے کا سدِّباب بھی ہوسکے گا جو وہ جدید چینی سلطنت میں پیدا ہونے والے تضاد کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ۴۰۳ صفحات پر مشتمل خود چین کے جو خفیہ سرکاری کاغذات The Xinjiang Papers کے نام سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔ ہم ان کی تفصیلات اور جزئیات پر بحث سے قطع نظر، یہاں پر پاکستان کے مؤقر روز نامہ Dawn کا اداریہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ معاملے کی گمبھیرصورتِ حال کا اندازہ ہو سکے:
’’یہ ۳۰۴ صفحات، بہت واضح الفاظ میں ایک ایسا ہوش ربا اور منجمد کر دینے والا منظر پیش کرتے ہیں، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ چینی مسلمانو ں پر مشتمل اقلیت کی شناخت کو مٹادینے کا پروگرام پیش نظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ انھیں نکال پھینکنے کی یہ حکمت عملی چینی حکومت کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ان خفیہ دستاویزات کو ایک گم نام ذریعے نے نیویارک ٹائمز [۱۶نومبر ۲۰۱۹ء] کے ذریعے بے نقاب کیا ہے ، اور یوں اس سوچ اور اس عمل پر روشنی ڈالی ہے، جس کے تحت چینی مسلمانوں اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کو ’دوبارہ سبق سکھانے‘ [یا پڑھانے] کی غرض سے بڑے پیمانے پر نظر بند کیا گیا ہے اور انھیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کاغذات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چین، پُرامن باشعور مسلمانوں اور انتہا پسندوں سے متصادم ہے، جسے مذہبی حوالے سے جبر کی خالص ترین شکل کہا جا سکتا ہے۔ خفیہ صفحات میں ان تقاریر کے متن بھی شامل ہیں، جن میں مبینہ طور پر صدر ژی چن پنگ نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی ایک تقریر میں ’انتہا پسندی ‘ سے ’متاثر‘ افراد کی امداد کے لیے ’تکلیف دہ علاج معالجے ‘ کی حمایت کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے ’ہرگز رحم نہیں کرنا ‘۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اہل کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک گائڈ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب پریشان حال اور دکھی اویغور [مسلمان]اپنے خاندان کے لوگوں کی ’گم شدگی ‘ کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو وہ [گائڈ] بتاتا ہے کہ ’’سرکاری حکام کی ہدایت ہے کہ وہ لوگ اسلام پسندانہ وائرس اور ’انقلابیت‘ سے ’متاثر‘ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی صحت کی درستی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے ’قرنطینہ ‘[متعدی امراض سے بچائو کے مرکز ] میں رکھنے کی ضرورت تھی‘‘۔ مزید برآں ، نہ چاہنے کے باوجود اویغور افراد خانہ کے پاس، سرکاری اہل کاروں کے ان بیانات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ زیادہ پریشانی واضطراب کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے عزیزواقارب کی نظر بندی کا زمانہ زیادہ لمبا ہو سکتا ہے ۔
’’کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ بات بڑے تسلسل سے سامنے آ رہی ہے کہ ’نظربندی‘ یا حراستی کیمپوں میں ۱۰ لاکھ اویغور قیدوبند سے دو چار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت [چین ] سے اعلیٰ معاشی مفادات وابستہ رکھنے والے ممالک ، ان اطلاعات کو عام طور پر پراپیگنڈا کہانیاں کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں ، اور انھیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ خود چین نے ان پیپرز کو ’بے نقاب‘ کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ انتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جسے سنکیانگ میں ہی بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے‘‘۔ جو دراصل رحم کی قدر سے مکمل طو ر پر خالی ہے۔ تاہم، اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ [چین نے ] ان دستاویزات کو متنازعہ کہنے سے گریز کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے چینی مسلمانو ں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبری ظاہر کرنے کو ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اگرچہ خود پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا باب داغ دار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ کشمیریوں اور روہنگیا [مسلمانوں ] کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بات کر سکتا ہے، تو کیا وہ اویغور وں کے بارے میں خاموش رہ سکتا ہے ؟‘‘ (اداریہ روز نامہ Dawn، کراچی،۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء )
’چینی دستاویزات‘ اور اس اداریے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ چینی مسلمانوں اور اویغور مسلم آبادی ، دونوں ہی کے حوالے سے یہ دستاویزات، مخصوص ریاستی رجحان کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان دستاویزات میں ’سخت تادیبی کارروائی‘ اور ’دماغ درست‘ کرنے کا اسلوبِ بیان واضح ہے۔ تیسرا یہ کہ لفظ ’انتہا پسندی‘ کو مسلمانوں کے قائم مقام کے طور پر برتنے کا مغربی رجحان یہاں پر بھی موجود ہے۔چوتھا یہ کہ دنیا کے ممالک اپنے مادی مفادات کو عزیز تر رکھتے اور انسانی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ دنیا اور پاکستان کو اس معاملے میں تادیب اور تعذیب سے بچانے کے لیے ہمدردانہ کوششیں کرنی چاہییں۔ چھٹا یہ کہ چین نے ان دستاویزات کی مذمت تو کی ہے لیکن متنازعہ نہیں کہا۔
دنیا کے حالات اور خصوصاً ہمارے اس علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، ان کا تقاضا ہے کہ نہ صرف چین میں بقاے باہم کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے، بلکہ اویغور مسلمانوں کے داخلی وتہذیبی تشخص کا اعتراف واحترام کیا جائے۔ مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور غالب ’ہان چینی نسل‘ کی سنکیانگ میں آبادکاری، ممکن ہے کہ چند برسوں میں ممکن بناکر مقامی آبادی کا توازن تبدیل کردیا جائے، لیکن اس کاوش کے منفی اثرات بہت دُور رس ہوں گے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اویغور آبادی کو ہمدردی سے اپنے مذہبی، ثقافتی اور معاشی معاملات چلانے کے لیے شریک ِ سفر بنایا جائے ، جس طرح کہ چین کی جرأت مند حکومت نے ’ایک ملک، اور دو نظام ‘ کا تجربہ کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح ضرورت یہ ہے کہ ’ایک ملک اور باہم احترام‘ کے راستے پر بھی چلاجائے۔ اس طرح چین زیادہ مضبوط ہو گا اور ان تضادات کو گہرا کرنے کی مغربی سازشوں کو ناکام بھی بنا یا جاسکے گا اور مسلم اُمت میں تشویش کو ختم کیا جاسکے گا۔
_______________
پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کو کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر ، سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رہنی چاہییں‘‘۔ اور ساتھ ہی انھوں نے ان کاوشوں کو بے مصرف قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں کئی حلقے اسی راستے کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں، تاکہ ملک کو کسی امکانی بحران سے بچایا جاسکے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’حکومت کے اندر بھی کئی مقتدر حلقے اس پالیسی کی تائید کرتے ہیں‘‘۔
اگر یہ محض کسی کالم نویس یا کسی ’تھنک ٹینک‘ کے دانش ور کی اختراع ہوتی، تو اس بات کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا، یا اس کو قلم کار کے ذاتی خیالات سمجھ کر بے حیثیت قرار دیا جاسکتا تھا۔ تاہم، ایک زیرک سفارت کار ، جو بھارت میں انتہائی مخدوش حالات میں پاکستان کی نمایندگی کر چکا ہو اور عالمی سفارت کاری میں بھی نام کما چکا ہو، کی طرف سے اس طرح کا مشورہ دینے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ پسِ پردہ ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس پہ رد عمل دیکھنے کے لیے قاضی صاحب کو میدان میں لایا گیا ہے۔ سفارت کاری یا حکومتی معاملات میں جب بھی کوئی ایسا غیرمتوقع یا سخت فیصلہ لینا ہوتا ہے، تو ’باوثوق ذرائع‘ کے حوالے سے یا کسی ایسے ہی سابق سفارت کار یا فوجی افسر کے ذریعے میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اگر رد عمل نا موافق ہوا، تو اس کو قلم کار کی ذاتی راے بتا کر حکومت کے ذمہ داران اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں اس کو پالیسی کا جز بنا لیا جاتا ہے۔
پاکستانی ہائی کمشنر ریاض حسین کھوکھر [۱۹۹۲ء-۱۹۹۷ء] کی ایک جارحانہ سفارت کاری کے بعد ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک قاضی صاحب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر [سفیر] کے طور پر تعینات رہے۔ نئی دہلی میں ان کی آمد بالکل ایسی تھی کہ جیسے ایک سوکلومیٹر کی رفتار سے دوڑتی گاڑی ایک دم ۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر آجائے۔ پاکستانی سفارت کاری میں ان کو سفارتی دستاویزات کی تدوین میں الفاظ کےبرتائو میں کمال حاصل ہے۔ ان کی دہلی آمد کے ایک سال بعد ہی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی۔ جس وقت واجپائی کی پہلی حکومت ۱۳ماہ بعد پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے شکست سے دوچار ہوئی، تو اس وقت وہ بھارتی پارلیمنٹ میں سفارت کاروں کے لیے مخصوص گیلری میں موجود تھے۔ چونکہ سفارتی گیلری اور پریس گیلری متصل ہے، مجھے یاد ہے کہ وہ اس کے کنارے پر آکر صحافیوں سے پوچھ کر تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’کیا واقعی واجپائی حکومت گر گئی ہے؟ ‘
جہانگیر قاضی کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور کا دورہ، کرگل جنگ اور پھر پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی معزولی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد، آگرہ مذاکرات اور بھارتی پارلیمنٹ پر ’حملے‘ جیسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد ان کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انھی کے دور میں حریت کانفرنس میں لیڈروں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، جو بعد میں اس کی تقسیم کا سبب بن گئے۔ مرحوم عبدالغنی لون ، اس کی ایک وجہ اشرف جہانگیر قاضی کو بھی قرار دیتے تھے۔
ریاض حسین کھوکھر کے برعکس حُریت کے لیڈروں سے ان کا برتاؤ ، روایتی افسرشاہی جیسا ہوتا، جو کئی مواقع پر لیڈروں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ معروف صحافی کرن تھاپر کے ذریعے انھوںنے ان دنوں طاقت ور بھارتی لیڈر نائب وزیر اعظم لال کشن ایڈوانی تک رسائی حاصل کی تھی اور کئی بار کرن تھاپر کی گاڑی میں ان کی رہایش گاہ پر خفیہ ملاقاتیںکی تھیں۔ وہ شاید ایڈوانی کے ذریعے ایک بیک چینل بنانے کی کوشش کر رہے تھے ، کہ پارلیمنٹ پر حملے نے اس کو ناکام بنادیا اور یہ بیک چینل ان کے کسی کام نہ آیا۔ سب سے پہلے ان کو ہی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
اشرف جہانگیر قاضی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میری آؤٹ آف بکس تجویز پر عمل کرکے، جس طرح واجپائی نے لاہور آکر دنیا کو حیران و پریشان کردیا تھا، اسی طرح وہ بھی نئی دہلی جاکر دنیا کو ششدر کردیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جس میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصانات سے بچانے کی خاطر ایک مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرنا اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عہد و پیمان باندھنا ، کشمیر پہ کسی حل پر بات چیت ، جو فریقین کو منظور ہو، میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تجاویز میں ’لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات، تجارت کی بحالی ، سرمایہ کاری اور باہم کانفرنسوں وغیرہ کا احیا‘ کا بھی ذکر ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ یہ تجاویز کسی ذریعے سے بھارت کو بھیجی گئی ہیں یا نہیں، مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ پاکستان کا پورا زور مذاکرات کے سلسلے کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کی ’خصوصی حیثیت‘ کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کردی، لگتا ہے کہ اسلام آباد میں حکمران طبقے اب اس کو تقریباً ’حقیقت حال‘ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً ۱۹۹۰ء کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپوں نے خوب کوریج دی۔
حکومتوں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپوں، خواتین اراکین پارلیمان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ بطور ایک مؤثر پریشر گروپ کے کام کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کے لیے آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجاے اشرف جہانگیر قاضی کی متعلق اور غیرمتعلق تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعے کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہییں۔
جہانگیر قاضی کا مزید کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے، اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوش حالی کے حصول کے لیے اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت تاثر پیش کرسکے، جس سے اس کے نقطۂ نظر کو دنیا میں وقعت ملے، مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا‘‘۔
دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں‘‘۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسیسی اخبار لی موندے کو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کہا کہ ’’بھارت اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا مؤثر جواب دینا ہے۔دنیا کو جان لینا چاہیے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل مختلف تھا۔ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر بھارت کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی اسٹرے ٹیجک افادیت کو نظرانداز کر دیا تھا‘‘۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ ’’آزاد کشمیر پر بھارت کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے‘‘۔ بھارتی وزیرخارجہ نے تاسف کا اظہار کیا کہ ’’ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی بھارت ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے‘‘۔
بھارتی حکومت میں اس وقت اقتدار کے تین ستون، یعنی مودی ، امیت شا اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا خیا ل ہے کہ: ۷۰ برسوں بعد یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کا مطالبہ ناقابلِ حصول ہے ۔اس کے علاوہ ان کا تسلیم کرنا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کرانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مطالبے کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔ پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے علاقائی برتری حاصل کرکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کی سوچ تبدیل کروانا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرکے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب مزید سیاست نہیں کرسکتیں۔
دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ’’جس چیز کو مودی اور اس کے حواری ناقابلِ حصول بتانا اور بنانا چاہتے ہیں، وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے‘‘۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان یا اس کی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ نہیں اُٹھا رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے، نیز پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات ۹۰-۱۹۸۹ء کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ امن، قدرو منزلت ، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ تجاویز صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتی ہیں۔
۸جولائی ۲۰۱۶ء کو ایک حُریت پسند رہنما،برہان مظفر وانی کو بھارتی مسلح افواج اور پولیس نے ایک دُور افتادہ کشمیری گائوں میں گولی مار کرشہید کر دیا، جس کے باعث یکایک مظاہروں اور احتجاجوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا،جو محض دنوں کے اندر ہی، بھارت کے تسلط کے خلاف ایک مقبول عام بغاوت میں تبدیل ہو گیا۔ بھارتی حکومت نے جواب میں شدید بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ہفتوں میں ۹۰سے زائد افراد ہلاک کر دیے۔ اس سے بھی صدمہ انگیز اور ششدر کر دینے والی بات یہ ہے کہ ان غیرمسلح احتجاجی مظاہروں کو منتشرکرنے کی خاطر ’غیرمہلک‘ دھاتی گولیاں [چھر.ّے - pellets] استعمال کی گئیں، جن سے سیکڑوں کشمیری بچیاں اوربچے نابینا ہو گئے۔
چارماہ کے دوران ۱۷ہزار بڑے اور بچے زخمی ہوئے اور تقریباً ۵ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی موسم گرما کے دوران کشمیر میں طویل کرفیونافذ کردیا گیا(اور پھر اس کے بعد ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تاریخ کا طویل ترین کرفیو مسلط کیا گیا)۔
یہ سب کچھ دو ماہ بعد بھلایا جا رہا تھا کہ اسی دوران ۱۸ ستمبر کو جنگجوئوں کی چھوٹی سی ٹولی نے شمالی کشمیر میں اُڑی کے مقام کے قریب ایک بھارتی فوجی پڑائو پر چھاپامار حملہ کیا، جو گذشتہ دو عشروں کے دوران کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز پربڑا سخت حملہ تھا۔اس کے نتیجے میں ۱۹بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے،ا ور حسب معمول بھارت نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔
اس کے بعد سے دونوںممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی میں اس حد تک اضافہ ہو گیا کہ دونوں ممالک،ایک دوسرے کے ’سفارتی مشنوں‘میں جاسوس تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی روز کا معمول بن گیا۔ وہ لفظی جنگ جو اُڑی میں شب خون کے بعد شروع ہوئی تھی، اس میں بھارتی افواج کے اس بے رحمانہ ظلم وستم کو بڑی حد تک نظرانداز کردیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ایک نیم عسکری ٹی وی نیوزمیڈیاکی معاونت سے اُڑی حملے اور اس کے مابعداثرات کو استعمال کرکے عالمی جاری چپقلش کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکتوں، زخمی ہونے کے بے شمار واقعات اور کشمیری عوام کو نابینا کرنے جیسے حقائق کو چھپایا۔
برہان وانی نے ۲۰۱۰ء میں عسکریت کا راستہ اختیار کیا، تب اس کی عمر محض ۱۵ برس تھی۔ اس راستے پر چلنے کا فوری سبب اس کے والد کے ساتھ بھارتی فوجیوں کا انتہائی تحقیرآمیز سلوک اور حد سے بڑھا ظلم تھا۔آیندہ چند برسوں میں وہ جنگلوں میں رُوپوش اور متحرک رہ کر معروف کشمیری کمانڈر بن گیا اور اس نے نوجوان طبقے کی حمایت حاصل کر لی۔ اس طرح بھارتی غلبے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ وہ عسکریت پسندوں کی نئی نسل کا نمایندہ تھا۔۱۹۹۰ءکے عشرے میں کشمیری حُریت پسندوں کی پہلی نسل کے برعکس،وہ سرحد عبور کر کے پاکستان نہیں گیا تھا۔ اس نے کبھی فرضی نام بھی استعمال نہیں کیا تھا اور اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنے حمایتی پیدا کرلیے تھے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ وانی کے آبائی علاقے ترال،میں اس کی تجہیزوتکفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی،اور جو لوگ جنازے میں نہیں پہنچ سکے، انھوں نے کشمیر بھر میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
جب کشمیری سڑکوں پر نکل آئے،تو پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد پوری وادی کی ہربستی میں اُمڈ آئی۔ ردعمل میں ہزاروں کشمیری نوجوان مظاہرین نے آزادی کے نعرے بلند کرتے ہوئے پتھروں کے ساتھ بھارتی مسلح افواج کی مزاحمت کی۔بھارتی مسلح افواج نے جواب میں مہلک ہتھیار استعمال کیے،گولیاں چلائیں اور سی ایس گیس پھینکی۔ صرف پہلے تین دنوں میں،تقریباً ۵۰؍افراد ہلاک، جب کہ ہزاروں زخمی ہوگئے۔ پھر ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے مزید لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔بھارتی فوجیوں اور پولیس نے ان میں سے زیادہ تر کو ہلاک اور زخمی کردیا، حتیٰ کہ ہلاک شدگان کے جنازوں پر بھی بھارتی فوج نے گولیاں برسائیں۔ پھر بھارتی فوج کی جانب سے دھاتی گولیوں کے استعمال کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نابینا ہوگئی۔اس طرح بھارت کو کشمیر بھر میں ایک بھرپور مقبول عام بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔
ان ہلاکتوں میں ایک کشمیری کالج کا طالب علم بھی شامل تھا،جس کو بھارتی فوجیوں نے پتھر مارمار کرہلاک کر دیا تھا۔ پھر ایک گیارہ سالہ لڑکے کو بھی ستمبر کے وسط میں ا س طرح ہلاک کیا کہ اس کا پورا بدن دھاتی چھر.ّوں سے چھلنی تھا۔ اس دوران اکثر نوجوان وہ تھے، جنھیں دھاتی چھر.ّوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ دھاتی چھر.ّے ان بندوقوںکے لیے بنائے جاتے ہیں، جو سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی دھاتی گولیاں خارج کرتی ہیں، یا پھر ایک ایسی چھوٹی سی شاٹ گن استعمال کی جاتی ہے، جس میں سے خارج ہونے والی یہ دھاتی گولیاں آنکھیں چیر دیتی ہیں۔
بھارتی مسلح افواج نے اعتراف کیا کہ ’’صرف ڈھائی ماہ میں ان کی طرف سے ان مظاہرین پر تقریباً ۴ہزار کارتوس چلائے گئے‘‘۔ حالانکہ نہتے مظاہرین، سیکورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے بے رحمانہ سلوک کے خلاف محض احتجاجی نعرے بلند کر رہے تھے۔ گویا ایک تخمینے کے مطابق مسلح افواج نے عوامی اجتماعات کومنتشر کرنے کی خاطر ۳۱ لاکھ دھاتی گولیاں (چھر.ّے) استعمال کیں۔
اس وقت سے لے کر آج تک چار اور پانچ برس کے بچوں کی آنکھوں پر بے شمار دھاتی گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ ستمبر کے آغاز پر کشمیر کے مرکزی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ۹جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد سے ہر روز ہر نصف گھنٹے بعد ان کے پاس ایسے مریض آئے، جن کی آنکھیں دھاتی گولیوں سے زخمی تھیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرروز آنکھوں کے ۱۲ آپریشن کیے جاتے رہے۔ اس پر حکومت نے یہ شرم ناک بیان دیا: ’’جب تک ہمیں کوئی متبادل غیرمہلک ہتھیار نہیں مل جاتا، اس وقت تک ہم انھی [دھاتی چھر.ّوں کو] استعمال کریں گے‘‘۔ دراصل یہ بھارتی حکومت کی وضاحت تھی کہ ’’ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسر اراستہ نہیں کہ کشمیری عوام کی آنکھوں پر گولیاں چلائیں اور انھیں اندھا کریں‘‘۔ ریاستی سطح پر دانستہ لوگوں کی آنکھوں پر دھاتی گولیاں برسا کر انھیں نابینا کرنا عصرحاضر کا ایک ایسا خونیں واقعہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ صرف جولائی اور پھر اگست ۲۰۱۶ء کے اواخر میں،بھارتی قومی اخبارات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق، ۶ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ۹۷۲؍ افراد کی آنکھوںپرگو لیاںبرساکر انھیںزخمی کیا گیا تھا۔ زخمیوں کی زیادہ تعداد مظاہرین یا اپنے گھر کی کھڑکیوں سے مظاہرے دیکھنے والی عورتوں اور بچوں کی تھی۔ لیکن ان میںسے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اسے اس کی بینائی سے زندگی بھر کے لیے محروم کر دیا جاتا۔
کشمیر میں بھارتی راج کے خلاف عوامی بغاوت پر ظلم وستم اور بے رحمانہ طرزِعمل ایک وحشیانہ تسلسل ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وادیِ کشمیر میں وسیع پیمانے پر پھیلی شورش کے خلاف بھارت نے سخت کارروائی کی، جس کے دوران ہزارو ںکشمیریوں کو ہلاک کیا گیا۔ انھیںاذیت کا نشانہ بنایا گیا ، اور پھر انھیںحراست میں بھی لے لیا گیا اور انھیں لاپتا کیا گیا۔ ایک تخمینے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے آج تک ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔تقریباً۱۰ہزار نہتے شہریوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں غائب کردیا گیا ہے۔ ۸ہزار کے متعلق یہ بات زبان زدعام ہے کہ انھیں اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد کے حوالے سے یہ معلوم ہوا کہ انھیں اذیت رسانی، پانی میں غوطہ زنی،تیزدھارآلے سے جگہ جگہ سے جسم کاٹنے اور مقعدمیں پٹرول اُنڈیلنے جیسے اذیت ناک ہتھکنڈوں کا شکار بنایا گیا۔ اخبار گارڈین کی طرف سے۲۰۱۲ءکی ایک اطلاع کے مطابق،بھارتی حکومتی دستاویزات کے مطابق: بھارتی سیکورٹی ایجنٹوں کے ایک دستے نے مشکوک افراد کے ہاتھ پیرکاٹ دیے اور انھیں اپنے ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔
۱۵سالہ عائشہ اس وقت اپنے گھر کے باورچی خانے میں تھی، جب کھڑکی سے داخل ہونے والی دھاتی گولیوں کی ایک اچانک بوچھاڑ نے اس کا چہرہ چھلنی کر دیا اور یوں ہمیشہ کے لیے اس کی بینائی چلی گئی۔جنوبی کشمیر میں چارلڑکیاں،جن کی عمریں ۱۳-۱۸ کے درمیان تھیں،کے چہروں پر یہ دھاتی گولیاں برسائی گئیں۔ ایک ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ان میں سے سب سے کم عمر تیرہ سالہ عرفہ جان کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھی یہ کم عمربچیاں ۷لاکھ بھارتی فوج کے لیے خطرے کا باعث تھیں۔
دُنیا بھر کے ذرائع ابلاغ جانتے ہیں کہ جب مظاہرین پر دھاتی گولیوں کی بوچھاڑشروع ہوئی،راہگیر اور گھروں میں مقیم طلبہ اور نوعمرزخمی بچے، عظیم جنگوں کا منظر پیش کرنے لگے۔آنکھوں پر پٹیاں بندھے لڑکے اور لڑکیاں قطار اندر قطار بستروں پر موجود ہیں،جب کہ ان کے والدین بے چینی سے ان کے علاج کے منتظرہیں۔اس موقعے پر پولیس اور سرکاری جاسوس بھی ہسپتال کے کمروں میں گھس آتے ہیں تاکہ زخمیوں کے کوائف جمع کیے جائیں، اور رہائی کے بعد ان کی نگرانی کرنے میں آسانی ہو۔
کشمیر میں طویل عرصے سے موجود مبصروں کے لیے بھی یہ سب کچھ ناقابلِ فہم ہے۔ اس کرۂ ارض پر موجود ایک بہت بڑی فوجی قوت، نہتے ہجوم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے، جب کہ اس کے شکار شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور زخمی آنکھوں کی تصویریں موبائل فون اور کمپیوٹرز کی سکرینوں پر حرکت کر رہی ہیں۔ چونکہ طاقت ور جنونی حاکم ،جو دہلی سے کشمیر پر حکومت کرتے ہیں، انھوں نے بچوں کو نابینا کرنے کے متعلق کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چند ہزار بچوں کی بینائی چھیننے کا عمل،کشمیریوں کو ان کی حد میں رکھنے کی ایک ’معقول قیمت‘ ہے۔شاید بھارتی ریاست نے بدمستی پر مبنی غرور کے ذریعے خود کو اندھا کر لیاہے۔ ایسا پاگل پن قابض قوتوں کی بددماغی کی علامت ہوتا ہے۔
’رقصِ بسمل‘ کا محاورہ جسے فارسی شاعری میں ایک معشوق کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،کو ایک ’زخمی کا رقص‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔وادیِ کشمیر ایک مذبح خانہ (Slaughter House) ہے، جہاں نہتوں کی آنکھیں دھاتی چھر.ّوں سے اندھی کی گئی ہیں اور ان کے ہاتھ پیر توڑ دیے گئے ہیں۔ ہم نے کچھ ایسے مریضوں کو دیکھا جن کی انتڑیوں کی چیرپھاڑ کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہہ رہے تھے:’’ہم کب اس قابل ہوں گے کہ واپس جا کر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوسکیں‘‘۔ یہ بات ایک ڈاکٹر نے نم آنکھوں کے ساتھ بتائی۔
بھارت کے طاقت ور ٹیلی ویژن چینل حکومت کو اُکساتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنایا جائے، جب کہ یہی ٹی وی چینل، کشمیر سے آمدہ خبروں کو مسخ کرتے یا انھیں توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ایک ممتاز اخبار کی طرف سے آنکھوں کو اندھا کردینے والی بندوقوں کے استعمال کے متعلق ایک آن لائن جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے میں حصہ لینےوالے بھارتیوں کی ایک واضح اکثریت نے اس ظلم کے حق میں اپنی راے کا اظہار کیا۔ممتازکالم نگار مظاہرین کے خلاف بے رحم طرزِعمل کی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔اور پھر حکومتی اقدام کے متعلق ٹویٹر اکائونٹ، ڈیجیٹل انڈیا،نے ایک نظم چسپاں کی، جس میں فوج سے کہا گیا ہے: ’’کشمیریوں کا قتل عام اس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک وہ شکست تسلیم نہیں کر لیتے‘‘۔کشمیر کے تصویری مناظر انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بندکرنے کی کوششوں کے باوجود ان درجنوں زخمیوں کی تصاویر آئی ہیں، جن میں سے اکثر اس طرح کی ہیں، جیسے قصاب کی دکان پر پڑا گوشت۔
مظاہرین پر قابو پانے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ٹانگوں کونشانہ بنایا جائے اور کم سے کم نقصان کرکے مظاہرین کو منتشر کیا جائے۔ لیکن یہاں پر بھارت کے نیم فوجی دستوں اور پولیس نے دانستہ طور پر بچوں اور بچیوں کے چہروں پر دھاتی چھر.ّوں کی بوچھاڑ کو وتیرا بنارکھا ہے۔مظاہرین پر یہ بے رحمانہ حملے ہمیں ایک سوال پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں: کیا بھارتی ریاست کشمیریوں کو نابینا کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہے؟‘‘
نئی دہلی کی حکومت یا کشمیر میں موجود ان کے مشیر ’چھر.ّے بکھیرتی بندوقوں ‘ کی تباہ کن قوت سے بے خبر نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل نیٹ ورک آف سول لبرٹیز آرگنائزیشنزاور فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے ۱۰۲ صفحوں کی ایک رپورٹ Lethal in Disguise میں یہ بیان کیا ہے:’’دھاتی گولیاں، بارود کی اندھادھند پھوار خارج کرتی ہیں، جو بہت دُور تک پھیل جاتی ہے اور ان سےکسی واحد چیز کو ہدف نہیں بنایا جاسکتا___ اس لیے یہ نہ صرف قریبی فاصلے پر مہلک ہو سکتی ہیں بلکہ طویل فاصلے پر بھی اندھادھند نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ متعددممالک نے تو پرندوں کے شکار کے لیے بھی ان کے استعمال کی ممانعت کر دی ہے کہ ان دھاتی چھر.ّوں کا پھیلائو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مگر دنیا کی ’بڑی جمہوریت‘ اس سے معصوم بچوں اور بچیوں کو شکار کر رہی ہے اور عالمی ضمیر لمبی تان کر سویا ہوا ہے!
اسرائیل میں سیکورٹی فورسز اکثر فلسطینی مظاہرین کے خلاف براہِ راست فائرنگ کے علاوہ ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں امریکی ریاست کیلے فورنیا کے ہسپانوی علاقے میں ان ربڑ کی گولیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
۲۰۱۱ء میں،تحریرچوک، قاہرہ میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ایک نوجوان لیفٹیننٹ محمد الشناوی نے اس لحاظ سے بدنامی مول لی کہ اس نے مظاہرین کی آنکھوں پر گولیاں چلائی تھیں جس سے اس کی عرفیت’آنکھ کا شکاری‘ مشہور ہو گئی تھی، اور وہ ظالمانہ ریاستی ظلم وستم کی علامت بن گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ’آنکھوں کے شکاریوں‘ کے ہاتھ روکے گا، یا ان کو سزا دے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دنیا اس ’آنکھوں کے شکاری‘ بھارت کو لگام دے گی یا اپنی تجارت پر نظر رکھتے اور ظلم کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کو ’پُرامن‘ بنانے کے خواب دیکھتی رہے گی؟
بھارت اس وقت جس نوعیت کے کٹر نسل پرستی کے جنون میں مبتلا ہے، اس میں حقِ خودارادیت مانگنے والے کشمیری، ناپاک ملیچھ دلت،گائے کا گوشت کھانے والے مسلمان غدار، اور اس وحشت ناک قوم پرستی کے مخالف صحافی قربانی کے بکرے تصور کیے جاتے ہیں۔کوئی بھی آواز جو کشمیر میں ان ’پیلٹ بندوقوں‘پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہے،اس کو یقینی طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
کشمیری خود پر ڈھائے گئے مظالم اور تشدد کے عادی ہو چکے ہیں___اور پھر اسی طرح وہ دنیا کی بے رحمانہ لاتعلقی اور بے حسی کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔ ۲۰۱۰ءکے موسم گرما میں کشمیری مسلمان مظاہرین پر پہلی دفعہ یہ چھر.ّوں والی گولیاں چلائی گئیں،تو بہت سے لوگوںنے اسے محض ایک وقتی بدقسمتی کے سوا کچھ نہ سمجھا۔ تاہم، حالات پر نظر رکھنے والوں نے اسے کشمیر میں جنگ کے ایک نئے عنصر کا داخلہ قرار دیا تھا۔اگر کوئی یہ چاہے کہ گذشتہ عشروں میں کشمیریوں کے جسموں پر ڈھائے گئے ظلم وستم کا خاکہ کھینچے،تو پھر اسے بمشکل ہی بدن کا کوئی حصہ ملے گا جو زخمی نہ ہوا ہو۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب تشدد اپنی بدترین شکل میں عروج پر تھا،آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیوں کے نزدیک آنکھیں ایک آسان اور پسندیدہ ہدف بن چکی ہیں۔
میں ۱۹۸۰ء اور۱۹۹۰ء کے عشروں کی تاریکی میں پلا بڑھا ہوں۔ ہم نوعمر لڑکے جبلی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،راہ چلتے ہوئے ہم پر بلاوجہ تھپڑوںکی بارش کی جاتی ہے،اور بندوق کے بٹ سے پیٹا جاتا ہے۔ لیکن ایک بھارتی فوجی کے نزدیک یہ سب کچھ محض ایک مذاق ہوتا ہے۔ ہم لاشوں، جنازوں اور تابوتوں کو گزرتے وقت کی یادگارکے طور پر ذہن میں نقش کرتے، اور ان واقعات کو ’قتلِ عام‘ اور ’شہادت‘ کی اصطلاحوں میں یاد رکھتے۔
اس پوری مدت میں مَیں نے انتہائی بے رحم اور بے لطف زمانے کو دیکھا۔ کیونکہ شورش کو کچلنے کی خاطر بھارت کی طرف سے’پکڑو اور مار دو‘کی وحشیانہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ جس کے تحت مسلح اور ’ناپسندیدہ‘ نہتے افراد،دونوں کو فوری طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے، یا انھیں عبرت ناک اذیت دے کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ دہلی کی جانب سے غیرمعمولی ہندو نسل پرستی پر مبنی حکمت عملی سے شہ پا کر بھارتی سیکورٹی فورسز یہ سوچتی ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ظلم اور بے رحمی کا طرزعمل اختیار کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔
۲۰۱۳ءمیں نیویارک ٹائمز کے وقائع نگار زاہدرفیق نے اپنے ایک مؤثر مضمون میں ان چند افراد کی رُودادیں بیان کیں، جنھیں دھاتی گولیوں سے اندھا کر دیا گیا تھا___ حالانکہ اس وقت کشمیریوں کی بینائی چھیننے پر مبنی طرزعمل نے کچھ زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کی تھی۔ صدافسوس کہ آج اس وقت بھی بھارتی سول سوسائٹی یا انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے بمشکل ہی اس امر کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے کہ نابینا کرنے کے عمل کو ایک گھنائونے جرم کے طور پربیان کیا جائے۔ اس کے برعکس کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر بھارت کی کچھ میڈیا تنظیمیں بہت خوشی محسوس کرتی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ہزاروں بھارتی نوجوان، سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتوں ، انھیں زخمی کرنے اور پھر نابینا کرنے کی کارروائیوں پر جشن مناتے ہیں۔
کشمیر کے ایک مرکزی ہسپتال کے ماہرامراض چشم نے جولائی میں انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’’پہلی بار بے ترتیب تیزدھار کونوں پر مشتمل چیزوں کو استعمال کیا جا رہاہے، جو جس وقت آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں‘‘۔بے ترتیب تیز دھار کونے؟میں نے یہ سمجھا تھا کہ ربڑیا پلاسٹک کی گولیوں کے مانند مظاہرین پر چلائی گئی دھاتی گولیاں،یا قرص نما چیزیں ہیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ کوئی مختلف قسم کی گولیاں ہیں اور۲۰۱۶ء سے بھارتی فورسز دندانے دار گولیاں استعمال کر رہی ہیں، جو گوشت اور آنکھوں کو، بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں اور جن کے متعلق ڈـاکٹر کہتے ہیں کہ ’’زخمی بدن سے انھیں نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بھارت یہاں تک کیسے پہنچا کہ اپنے زیرتسلط علاقے کے ہزاروں مکینوں کو نابینا کردے؟ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ اقوام متحدہ کا ایک رکن،ایسی فسطائیت میں ملوث ہو؟ درحقیقت اقوام متحدہ طاقت ور ملکوں کی لونڈی کے رُوپ میں ایسا ادارہ ہے، جو کم زور ملکوں پر پابندیاں لگاتی اور طاقت ور یا بڑے ملکوں کا پٹہ کھلا رکھتی ہے۔
یہ قطعی بات ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کی نظر میں کشمیری ان کی محکوم رعایا ہیں، برابر کے شہری نہیں ہیں، کیو نکہ کشمیریوں نے بھارتی راج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اگر وہ اس کے شہری ہیں تو وہ ان پر اس قسم کی گولیوں کی بوچھاڑ نہیں کر سکتے جو اندھا بنادے۔ اس وقت بھارتی حکومت، کشمیری بچوں کی بینائی چھین کر فیصلہ کن انداز میں اعلان کر رہی ہے:’’تمھیں ہرقیمت پر سرجھکانا ہوگا،اور اگر تم انکار کر وگے،ہمارا غضب اور قہر تم پر نازل ہوتا رہے گا، کیونکہ ہم ایک بڑی منڈی ہیں‘‘۔
نوبیل انعام یافتہ بھارتی ماہرمعیشت،امرتاسین نے اس صورتِ حال پر کہا تھا:’’کشمیری احتجاجی مظاہرین پر پیلٹ گنوں کا استعمال اور شدید ظلم وستم،بھارتی جمہوریت پر کلنک کا ٹیکہ ہے‘‘۔
بھارت کے ظالمانہ طرزِ حکمرانی کی تائید کرنے والوں کی بڑی تعداد کے باوجود بھارت میں کچھ ایسے لوگ، صحافی، دردِ دل رکھنے والے طالب علم، حتیٰ کہ کچھ سیاست دان بھی موجود ہیں، جنھوں نے اس روش کی مخالفت کی ہے، بھارتی وحشیانہ کارروائی کے متعلق مضامین میں حکومت سے استدعا کی ہے کہ اس ظلم وستم کا سلسلہ بند کیا جائے،کشمیریوں کے ساتھ شفقت پر مبنی سلوک کیا جائے اور بات چیت کی جائے۔لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اس جنگجویانہ پاگل پن اور ووٹوں کی بھوک میں مبتلا ہے۔ اگست میں سرینگر میں بھارتی افواج نے اے ٹی ایم پر تعینات ایک اکیس سالہ محافظ کو مختصر فاصلے سے ۳۰۰ دھاتی گولیاں مارکر شہید کر دیا۔
اس سے قبل کہ یہ سب کچھ فراموش کر دیا جائے،اور ظلم کی داستانیں تہہ در تہہ ظلم کے پہاڑ بنتے جائیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان زخمیوں میں سے کچھ نہ کچھ مظلوموں کی آنکھوں کا آپریشن ہو، اور وہ کم از کم ایک آنکھ کی بینائی دوبارہ حاصل کر لیں۔دنیا بھر میں آنکھوں کے سرجنوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج منتظر ہے۔ لیکن اسی قوت کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو روکنے کے لیے بھی عالمی سطح پر ڈاکٹروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ موت اور خون کی اس لہر کے نتیجے میں کشمیر میں بظاہر خاموشی چھا جائے ___ لوگ خریداری کریں، بچوں کی شادیاں کریں،کرفیو کی پابندی کے بغیر عید منائیں اور اپنی مرجھائی ہوئی سرزمین پر سیاحوں کو خوش آمدید بھی کہیں۔لیکن آزادی پسندوں کی یہ نئی نسل،پرورش پاتے ہوئے کب نابینا ہوئی، اور کس روز ہوگی،کب اسے زخمی کیا جائے گا؟ ہمارے گنہ گار ضمیر کے لیے ہروقت پھن پھیلائے یہ سوال موجود رہے گا۔ یہ نابینا بچے ساری زندگی یقینااس ملک کو یاد رکھیں گے، جس نے ان کے ساتھ یہ درندگی کی۔ (The Guardian،لندن،انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جب سے بھارتی حکومت نے غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پر، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور وہاں پورے ہند کو غیرمنقولہ جایداد خریدنے کا حق دیا ہے، تین ماہ ہونے کو آئے ہیں کہ وہاں بھارتی مسلح افواج کے زیرِ تسلّط خطّے میں کرفیو نافذ ہے۔
سری نگر کی رہایشی، عظمیٰ جاوید خوف و دہشت کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ البتہ وہ ہرتھوڑی دیر بعد صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے دو منزلہ مکان کی کھڑکی سے باہر ضرور جھانکتی ہے۔یہ ۲۰سالہ طالبہ تعلیم کے سلسلے میں زیادہ تر کیرالہ ہی میں رہتی ہے ، مگر اس بار اپنے والدین اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ عیدالاضحی سے کچھ عرصہ قبل سری نگر آئی تھی۔ تاہم، یہاں پہنچ کر عید کی خوشیاں منانے کے بجاے ایک ایسے پنجرے میں قید کر دی گئی، جس کے باہر سنسان گلیوں میں مسلّح بھارتی فوجی گشت کر رہے ہیں۔ عید کے روز چند کشمیریوں نے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے سڑک پار کرنے کی اجازت طلب کی، تو بھارتی فوجیوں نے سختی سے انکار کر دیا۔
عظمیٰ نے معروف خبر رساں عالمی ادارے، الجزیرہ کے نمایندے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’ یوں تو اس وقت کشمیر میں ہر فرد ہی مغلوب و معتوب ہے، لیکن کشمیری خواتین اس غیر انسانی محاصرے کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔مواصلاتی نظام ٹھپ ہونے کی وجہ سےمَیں نے پچھلے کئی روز سے قریب ہی رہنے والی اپنی سہیلی کی آواز تک نہیں سُنی اور نہ یہ جانتی ہوں کہ اس وقت منزیٰ کس حال میں ہے۔ ہمارے مَرد تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح کبھی کبھار نماز کے لیے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ہم خواتین تو یہ بھی نہیں کر سکتیں‘‘۔
عظمیٰ کا مزید کہنا تھا: ’’ مسلّح بھارتی سپاہیوں کی وحشت ناک، ہوس ناک نظریں مجھ سمیت دوسری لڑکیوں اور خواتین کو خوف کے مارے بے جان و مفلوج کر دیتی ہیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ میرے والد اور بھائی بھی باہر نہ نکلیں کہ کہیں وہ بھارتی فوج کی سفّاکیت کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ لیکن اُن کے
پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں، کیوں کہ اشیاے خورد و نوش اور روزمرّہ کی دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے انھیں چار دیواری چھوڑنی ہی پڑتی ہے‘‘۔
’’غیر کشمیریوں کی آبادکاری پر عاید پابندی ختم کرنے کے محرکات کا اندازہ آر ایس ایس کے ان اوباش عناصر کے اسکرین شاٹس سے لگایا جا سکتا ہے، جن میں ایسے انتہا پسند ہندوئوں کی عامیانہ پوسٹوں نے بھی کشمیری خواتین کو کرب کا شکار کردیا ہے۔پچھلے دنوں ہمارے گھر کے باہر ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا، جو آناً فاناً مظاہرین اور بھارتی افواج کے درمیان تصادم کی وجہ سے پُرتشدد ہو گیا۔ تب مَیں اور میری والدہ گھر میں اکیلی تھیں، جب کہ میرے والد اور بھائی مظاہرین میں شامل تھے۔ جب اس مظاہرے نے تصادم کی شکل اختیار کی، تو مجھے اُن کی فکر ستانے لگی۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔ خوف و پریشانی سے حالت غیر ہو گئی۔ رات گئے جب میرے والد اور بھائی گھر لوٹے، تو میرا بلڈ پریشر اس قدر شُوٹ کر چکا تھا کہ اُنھیں مجھے دکھانے کے لیے ڈاکٹر تک رسائی کے لیے تدابیر سوچنا پڑیں‘‘۔
غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی غرض سے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے میں ترمیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے بی جے پی کی حکومت نے یہ جواز گھڑا کہ: ’’اس فیصلے سے مسلم اکثریتی خطے میں نہ صرف صنفی مساوات قائم ہو گی، بلکہ مسلمان خواتین کو ’آزادی‘ بھی مل جائے گی‘‘۔ حالانکہ اس اعلان کے چند روز بعد ہی بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاست دانوں نے کشمیری خواتین سے متعلق نازیبا بیانات دینا شروع کر دیے۔مثال کے طور پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے پانچ روز بعد ۱۰؍اگست کو بھارتی ریاست، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، منوہر لال نے یہ بیان دیا کہ: ’’جونہی کشمیر کُھلے گا، تو وہ وہاں سے دُلہنیں لے کر آئیں گے‘‘۔ قبل ازیں، بی جے پی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رُکن اسمبلی، وکرم سینی نے کہا تھا کہ: ’’اب کشمیر کی گوری خواتین سے بیاہ رچا سکتے ہیں‘‘۔
بی جے پی سے وابستہ سیاسی رہنمائوں کے اس چھچھورے پَن اور نازیبا بیانات پر نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے وابستہ خاتون پروفیسر اور حقوقِ نسواں کی محافظ، نیو دتیہ مینن کا یہ بیان سامنے آیا کہ: ’’اس قسم کے بیانات دراصل فتح اور لُوٹ مار کا علانیہ اظہار ہیں، جن سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے محرّکات بھی عیاں ہوتے ہیں‘‘۔
انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے ان خیالات نے بھارتی سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا اور مختلف سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کشمیری خواتین سے شادی سے متعلق پوسٹوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ۵؍اگست کے بعد گوگل پر اس سوال کا جواب تلاش کرنے والے بھارتی صارفین کی تعداد میں حد درجہ اضافہ دیکھا گیا: ’’ کشمیری خواتین سے شادی کیسے کی جا سکتی ہے؟‘‘
انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے ایسے سفلی جذبات کے اظہار نے کشمیری خواتین کے احساسِ عدم تحفظ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سری نگر کی ۲۲سالہ ثمرین کہتی ہیں کہ: ’’ بھارت میں جس انداز سے کشمیری خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر محض ایک جنس کے طور پر اپنانے، کم زور مخلوق سمجھ کر اُن کی نمایش کرنے اور اُن میں خوف و دہشت پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے، اُس کے سبب کشمیری خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خود کو مَردوں سے بھی زیادہ ستم رسیدہ محسوس کرتی ہیں۔ مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے ہمیں دُہری اذیّت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب ہم دوسرے شہروں اور علاقوں میں مقیم اپنے عزیز و اقارب، حتیٰ کہ بہن، بھائیوں تک کی خیریت دریافت نہیں کرسکتے۔ گذشتہ کئی روز سے فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطّل ہونے کی وجہ سے مَیں نئی دہلی میں رہایش پذیر اپنی بہن سے رابطہ نہیں کر سکی۔ مَیں اُس سے ملنے کے لیے ٹکٹ بُک کروانا چاہتی تھی، لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا، کیوں کہ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی رہایش گاہ سے ۲۰کلو میٹر دُور واقع ایئر پورٹ جانا ہے، جو کرفیو نافذ ہونے کے سبب نا ممکن ہے۔مستقل پریشانی لاحق ہونے کی وجہ سے میری والدہ بیمار ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ مصباح رئیس کو بھارت میں کشمیری خواتین کے ساتھ بڑھتے صنفی تعصّب پر کوئی حیرانی نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی خود کو مسلمان کشمیری خواتین کا محافظ و نگہبان قرار دینے کی کوشش کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ تاہم، مَیں اس بات کی توقع رکھتی ہوں کہ بھارت کا ایک باشعور طبقہ مودی سرکار میں پائے جانے والے صنفی تعصب سے کماحقہٗ واقفیت رکھتا ہے۔ نیز، انھیں اس امر کا بھی ادراک ہے کہ کشمیری خواتین کو ’محفوظ بنانے کی کوششوں‘ کے پیچھے درحقیقت کون سے عزائم کار فرما ہیں‘‘۔
بدقسمتی سے دورانِ جنگ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی دیگر صورتوں کو عموماً ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رُکن، کویتا کرشنن ۵؍اگست کے بعد چند سماجی کارکنوں کے ساتھ خواتین کی حالتِ زار جاننے کے لیے مقبوضہ کشمیر پہنچیں۔
مقبوضہ وادی میں مختلف مسلمان خواتین سے ملاقاتوں کے بعد کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ: ’’انڈین ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے کشمیری خواتین اور لڑکیوں کی بے چینی و اضطراب میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ اپنے دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کویتا کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری خواتین نے ہمارے وفد کو بتایا کہ کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے اُنھیں اپنے بچّوں کے لیے دودھ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ علاوہ ازیں، وہ ۱۰برس سے کم عُمر بچّوں کی غیر قانونی قید پر بھی بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ نیز، بعض خواتین اور لڑکیوں نے بھارتی مسلّح افواج کے گھروں پر چھاپوں کے دوران اپنی آبروریزی کے خدشات کا بھی ذکر کیا‘‘۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے تسلیم کیا ہے کہ ’’بھارتی افواج ماضی میں بھی کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں ملوّث رہی ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق، ۲۳فروری ۱۹۹۱ء کو جب قابض بھارتی افواج نے وادی میں ایک بڑا ملٹری آپریشن کیا، تو اس دوران سیکورٹی فورسز نے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات، کونان اور پوش پورہ میں درجنوں خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً مقبوضہ کشمیر میں رُونما ہوتے رہتے ہیں ، مگر بھارتی فوج انھیں ہمیشہ رد کر دیتی ہے‘‘۔
تاہم، جولائی ۲۰۱۹ء میں سامنے آنے والی اقوامِ متّحدہ کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ: ’’ فی الوقت ۱۹۹۱ء میں کونان اور پوش پورہ میں بڑے پیمانے پر رُونما ہونے والے خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کے مقدّمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بھارتی حکام، متاثرہ خواتین اور اُن کے اہلِ خانہ کی حصولِ انصاف کی کوششوں میں رُکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘‘۔
اسی رپورٹ میں بھارت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ: ’’مقبوضہ کشمیر میں جنسی تشدد پر مبنی جرائم کے مرتکب ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے خلاف تحقیقات کی جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔ تاہم، اس کے برعکس بھارتی فوج کی جنونیت میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور عفت مآب کشمیری خواتین خود کو پہلے سے زیادہ آفت رسیدہ تصوّر کر رہی ہیں‘‘۔
اس سلسلے میں سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ طالبہ، جانیس لنکر نے بتایا ہے ’’ بی جے پی رہنمائوں اور انتہا پسند ہندوئوں کے مسلمان کشمیری خواتین سے متعلق تضحیک آمیز بیانات اور نازیبا رویہ ہی مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی میں اضافے اور مظاہروں، احتجاج اور لاک ڈائون کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اصل جڑ ہے‘‘۔
کشمیری طالبہ نے اس صورتِ حال کا ذمّے دار بھارت کے بعض سیاسی طبقات کی جانب سے سِفلی جذبات کی حوصلہ افزائی کے علاوہ بھارتی سنیما گھروں میں کشمیری خواتین کے کرداروں کی نمایش کو بھی ٹھیرایا۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ: ’’بھارت میں کشمیری عورت کو انتہائی سادہ لوح، بے ضرر، نادان اور ایسی گڑیا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے صرف دل بہلایا جا سکتا ہے۔ مَیں باقاعدگی سے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہوں۔ مَیں نے مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسی متعدد توہین آمیز اور مضحکہ خیز پوسٹس دیکھی ہیں کہ جن میں باحجاب کشمیری خواتین سے متعلق انتہائی نازیبا تبصرے کیے گئے ہیں، جو ایک نفرت انگیز عمل ہے‘‘۔
کشمیری خواتین سے متعلق بی جے پی کے دریدہ دہن رہنماؤں کے ایسے انتہائی گھٹیا بیانات پر نئی دہلی سے معروف دانش ور عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ’’یوں اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض رہنماؤں کے ایسے نازیبا کلمات قوم پرست ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ ہے، لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ درحقیقت مسلمانوں سے صدیوں پر محیط دَور کا شدید انتقام لینے کی کوششوں کا ایک حصّہ ہے۔ حالاں کہ انتہا پسندہندوئوں کی جانب سے بیان کردہ تاریخ کا نصف سے بھی زائد حصّہ کذب بیانی، افسانہ سازی اور مبالغہ آ رائی پر مشتمل ہے‘‘۔
کشمیر ی قوم پر اس وقت جو آفت آن پڑی ہے اور جس طرح بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے ان کے تشخص اور انفرادیت پر کاری وار کیا ہے، ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوئوں) کے بااثر طبقے اور اکثریت نے ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر تاریخ کے مختلف اَدوار کو دہرایا، اور ظلم و جبر کے آلات (Instruments of Tyranny) بننے کا کام کیا۔ سابق انڈین ایئر وائس مارشل کپل کاک، مقتدر اسپورٹس صحافی سندیپ، اشوک بھان، نتاشا کول، فلم میکر سنجے کاک اور ایم کے رینہ وغیرہ کے علاوہ پنڈت برادری، کشمیریو ں پر آئی اس آفت پر جھوم اٹھی ہے۔ قومی میڈیا میں موجود اسی کمیونٹی کے تین افراد، سیکورٹی کے ہمراہ کشمیر میں گھوم کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ: ’’کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیری خوش ہیں اور کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ تو بھلا ہو بین الاقوامی میڈیا کا، جس نے ان کا پول کھول دیا۔
حیرت کا مقام ہے کہ جہاں بقیہ تمام میڈیا ، انٹرنیٹ، فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے دست و پا ہوگیا تھا، یہ تین افراد لمحہ بہ لمحہ تصویریں اور رپورٹیں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے تھے۔ وہ کشمیر کو بھول کر نسل پرستی کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ: ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکادیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ چند افراد کے مبینہ افعال کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ اس کو محض پروپیگنڈا کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔
یہ سچ ہے کہ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ اور غنڈا عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد کے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میںشامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کر، ایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد نئی دہلی حکومت کے گورنر جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دُور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔ اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق: ’’۳۰سالوں میں۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے [مبینہ طور پر] ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی‘‘۔اگر یہ نسل کشی ہے تو اس دوران کشمیر میں اندازاً جو ایک لاکھ مسلمان بھی شہید کیے گئے، وہ کس کھاتے میں ہیں؟ جموں خطے کے دُور دراز علاقوں میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰ کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر اس کے باوجود ان خطوں سے آبادی کا کوئی انخلا نہیں ہوا۔
چونکہ میں خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس لیے مکمل ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کرسکتا ہوں کہ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلا میں براہ راست ملوث ہوں یا نہ ہوں، مگر انھوں نے حالات ہی ایسے پیدا کیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سلامتی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ: ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں انارکی اور عسکریت کی وجہ سے، کئی بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے اور کشمیری مسلمان بھی۔ تاہم، کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر جہاں بھارتی حکومت سے لے کر بھارتی میڈیا کے بااثر حلقے تک، اکثریتی طبقے کے جذبات کو منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر نے آخری تاج دار یوسف شاہ چک کو قید اور جلا وطن کیا، تو مغل اگرچہ مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے ہی مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے انھوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے اقلیت گری (minority complex) کو ابھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔ بقول شیخ محمد عبداللہ :’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد اب کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص، تہذیب و کلچر پر کاری ضرب لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جہاں ابھی حال ہی میں بھارتی وزیرداخلہ امیت شا نے: ’’ہندی کو قومی زبان قرار دینے کا عندیہ دیا‘‘، وہیں دوسری طرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند عہدےداروں نے ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ: ’’علاقائی زبانوں کا اسکرپٹ، یعنی رسم الخط دیوناگری، یعنی ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشئر) اور اردو زبانیں آتی ہیں، جو فارسی، عربی، یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مہم تو کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حال ہی میں بی جے پی کے لیڈروں ، بشمول دہلی میں مقیم چند کشمیر پنڈت گروپوں نے اس کو مہمیز لگائی ہے۔ بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے عرصے سے کشمیر کو سیاسی کے بجاے ’تہذیبی جنگ کا مرکز‘ قرار دیا ہے۔
چند برس قبل حیدر آباد (تلنگانہ، بھارت) کی تقریب سے خطاب میں اجیت دوبال نے کہا تھا: ’’اس مسئلے کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے قابض طاقتوں کا طریقہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی (ethnic cleansing)کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
ایک منصوبے کے تحت ’’کشمیر کی ۶۴۷سالہ مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے ان چھے صدیوں میں کشمیری مسلم سلاطین کا دور تو صرف ۲۴۷برسوں تک ہی محیط تھا، باقی وقت تو بیرونی حکمرانوں نے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے حکومت کی ہے۔ کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تجویز اس سے قبل دوبار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی، مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت موقف اپنا کر اس کو رد کردیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ء میں تجویز دی تھی: ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ یوں کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال ہو جائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا بھی قدیمی رسم الخط ہی بحال کرو، یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟
وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، چونکہ بیش تر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰ برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اس لیے ان کی سہولت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے‘‘۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے پروفیسر مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلے سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ’’کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری رسم الخط میں ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی رسم الخط کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو اب قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور۳۵حروف صحیح ہیں،نیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیرموصوف، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔
مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دینے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں ۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے‘‘۔
بھارت میں جہاں آج کل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے مآخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جارہے ہیں۔ خیر اس عرض داشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ ’’کشمیری واقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری، یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔ اس کے فائدے یہ بتائے کہ ہر سال دواہم ایوارڈ ان زبانوں کے فروغ کا کام کرنے والے اسکالروں کو دیے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کے لیے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونی ورسٹیوں میں چیئرز کی منظوری دینا شامل ہے۔
کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہوئے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سات سو سالوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ وغیرہ ، غرض سبھی نے نستعلیق کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر اور وادیِ چناب میں۸۰ لاکھ ۶۰ہزار افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان گردانتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں: مرازی(جنوبی کشمیر)کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔
جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ گو کہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔
کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے۔مگر و ہ وقت دور نہیں، جب یہ بھارت کی ثقافتی یلغار اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ بھارت کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے عالمی اداروں، خاص طور پر حکومت پاکستان کو اس کا نوٹس لے کر اس امر کا ادراک کروانا چاہیے کہ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ، سیکولرزم کے دعووں کے پسِ پردہ ایک قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔
اب بھارت کی جانب سے، کشمیر کے صف اوّل کے رہنمائوں سمیت کشمیر میں سیاسی گرفتارشدگان کو اپنی رہائی کے لیے شرط کے طور پر ایک ضمانت نامے (bonds) پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ریاست میں ’حالیہ واقعات‘کے متعلق بات نہیں کریں گے۔
ڈیلی ٹیلی گراف ، انڈیا کے مطابق،دوگرفتارشدہ خواتین جنھیں حال ہی میں رہا کیا گیا ، انھیں ضابطہ فوجداری کی شق ۱۰۷ کے ایک ضمانت نامے پر چھپی دستاویز پر دستخط کرنے پڑے، جو عام طور پر ان مقدمات میں استعمال ہوتی ہے، جب ایک ضلعی مجسٹریٹ کسی کو حفاظتی حراست میں لینے کی خاطر اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اس ضمانت کی عمومی شرائط کے مطابق،قیدی کو یہ عہد کرنا ہوتا ہے کہ وہ’امن میں خلل نہیں ڈالے گا،یا کسی بھی ایسے فعل کا مرتکب نہیں ہوگا جس کے باعث امن میں خلل واقع ہونے کا امکان ہو‘۔ اس عہد کی کوئی بھی خلاف ورزی کرنے پر اس شخص کی ایک غیرمتعین کردہ رقم ریاست کے حق میں ضبط کر لی جاتی ہے۔
پہلا یہ کہ دستخط کنندگان عہد کرتے ہیںکہ وہ ’’ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت پیش آئے واقعات کے متعلق ایک برس تک کوئی بات نہیں کہے گا، یا عوامی سطح پر کوئی تقریر نہیں کرے گا، یا کسی عوامی اجتماع میں شرکت نہیں کرے گا۔
دوسرے یہ کہ ’’انھیں ضمانت نامے کی خلاف ورزی کی صورت میں’ضمانت‘کے طور پر ۱۰ہزار روپے جمع کرانے ہوںگے اور مزید ۴۰ہزار روپے جمع کرانے کا اقرار کرنا ہو گا۔اس عہد کی خلاف ورزی کے باعث انھیںدوبارہ بھی حراست میںلیا جا سکتاہے‘‘۔
ذہن میں رہے کہ اس وقت ہزاروں بے گناہ بچے، جوان، بوڑھے، حتیٰ کہ خواتین بھارتی انتظامیہ کی قید میں ہیں۔ ان میں حقِ خود ارادیت کے علَم بردار لیڈر بھی شامل ہیں اور عشروں سے بھارت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور سہولت کاری کرنے والے بھارت نواز سیاسی لیڈر بھی ہیں۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق یہ نئی شرائط حددرجہ پریشان کن اور غیرآئینی ہیں۔ معروف ماہر قانون گوتم بھاٹیا کے مطابق آئین کی شق۱۹(۲)کے مطابق، آزادیِ تقریر پر محض اس وقت پابندی عائد کی جاسکتی ہے، جب کہ متوقع تشدد کے لیے کسی کو اُکسایا جائے۔ سپریم کورٹ نے بارہا یہ فیصلہ دیا ہے کہ آزادیِ تقریر، حتیٰ کہ انقلابی نظریات کے اظہار کی اس وقت تک اجازت ہے، جب تک اس کے ذریعے کسی کو تشدد پر نہ اکسایا جائے۔اس لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری کو ایک ایسے طریقے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا جس کے ذریعے آزادیِ تقریر کے حق کو غیرآئینی پابندی کا شکار بنایا جائے‘‘۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی اجتجٰی مفتی نے اپنی والدہ کے ٹویٹر اکائونٹ سے پیغام بھیجا ہے: ’’حکام، قیدیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ضمانت ناموں پر دستخط کروا رہے ہیں، والدہ نے اس ضمانت نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے‘‘۔
ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو اپنی رہائی کی شرط کے طور پر اس ضمانت نامے پرد ستخط کرنے ہوتے ہیں ۔ جب ڈیلی ٹیلی گرافنے ریاستی ایڈووکیٹ جنرل، ڈی سی رائناسے رابطہ کیا،تو انھوں نے ضمانت نامے کادفاع کیا اور کہا کہ’’: اس کی زبان ذرا مختلف ہے لیکن روح عام ضمانت نامے کے مطابق ہی ہے‘‘۔اسی طرح سینیر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بشیراحمد ڈار نے تو سرے سے انکار کر دیا ہے کہ ’’ایسا کوئی ضمانت نامہ جاری ہوا ہے‘‘۔
جموں وکشمیرہائی کورٹ کے وکیل الطاف خان،جو ایک ایسی خاتون کے وکیل تھے، جس نے اس ہفتے اس نئے ضمانت نامے پردستخط کیے،کہتے ہیں:’’یہ آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ یاد رہے خرم پرویز نے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا: گذشتہ دوماہ کے لاک ڈائون کے دوران گرفتارکیے جانے والوں کو نئے ضمانت نامے کی شرائط پر رہا کیا گیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
تیونس کے نومنتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر قیس سعید کی عمر ۶۱ برس ہے، لیکن چہرے کی جھریوں اور سر کے بچے کھچے مکمل سفید بالوں کے باعث اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے لگتے ہیں۔ ساری زندگی قانون پڑھاتے گزاری، اب ریٹائرمنٹ کے بعد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑا۔ ان کے انتخابی معرکے اور ۷۷ فی صد ووٹ لے کر کامیابی نے ساری دنیا کو ششدر کردیا ہے۔ اس عالمی حیرت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ قیس سعید ایک آزاد اُمیدوار تھے، کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی پوری انتخابی مہم انتہائی سادگی سے چلائی۔ مخالف اُمیدواروں بالخصوص دوسرے نمبر پر آنے والے ارب پتی نبیل القروی نے ڈھیروں ڈھیر دولت انتخابی مہم میں جھونک دی، جب کہ قیس سعید کی ساری مہم پر صرف چند ہزار خرچ ہوئے۔ چوٹی کے اس ماہر قانون کا اس سے پہلے کہیں عوامی تعارف نہیں تھا، بس کبھی کبھار کسی ٹی وی پروگرام میں قانونی راے لینے کے لیے انھیں بلالیا جاتا تھا۔ قیس سعید ہمیشہ فصیح عربی میں، سپاٹ چہرے سے بات کرتے ہیں لیکن نوجوانوں نے ان کی ایسی مہم چلائی کہ صدارتی دوڑ میں شریک دیگر ۲۵ اُمیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کے اخلاقی اصولوں اور قانون کی پاس داری نے ان کے مخالفین کو بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور کردیا۔ان کے تعارف کی ایک اہم جھلک ان کے اور مخالف اُمیدوار کے براہِ راست ٹی وی مکالمے سے ملاحظہ فرمالیجیے، جو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے ۴۸گھنٹے قبل ہوا:
ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے اس مکالمے میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک بالخصوص، عرب لیگ کے رکن ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے دوڑ لگی ہو، یہ مؤقف اختیار کرنا آسان اور معمولی بات نہیں۔
صدر قیس سعید نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے اہم ترین انٹرویو کا اختتام اس دو ٹوک پیغام سے کیا، بلکہ ۲۳؍ اکتوبر کو نومنتخب قومی اسمبلی کے سامنے صدارتی حلف اٹھانے کے موقعے پر ۲۵منٹ کے صدارتی خطاب کا اختتام بھی اس جملے پر کیا کہ: ’’ہم دنیا کے ہر مبنی بر انصاف مسئلے کی بھرپور حمایت کریں گے۔ ان میں سرفہرست مسئلہ، مسئلہء فلسطین ہے۔ غیروں کے قبضے کی مدت کتنی بھی طویل کیوں نہ ہوجائے، فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ساقط نہیں ہوسکتا۔ مسئلۂ فلسطین جایدادوں کے کھاتہ خانوں میں درج کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اُمت کے سینوں میں نقش ایک حقیقت ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت یا کسی بھی طرح کی سودے بازی دلوں پر نقش اس حقیقت کو مٹا نہیں سکتی‘‘۔
نومنتخب صدر نے حلف برداری کے اس افتتاحی خطاب میںاپنی باقی تمام توجہ تیونس میں مطلوبہ اندرونی اصلاحات پر مرکوز رکھی اور کہا: ’’کسی بھی قوم یا ریاست کے لیے سب سے خطرناک امر اس کا اندرونی طور پر کھوکھلا ہوجانا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے فعال نظام اور ادارہ جاتی استحکام کی وجہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ نظام پر اشخاص و افراد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی سے لے کر ۲۰۱۱ءتک ۵۴سال تیونس میں صرف دو ہی افراد ملک و قوم کی قسمت کے مالک بنے رہے۔ پہلے حبیب بورقیبہ اور پھر اس کا وزیراعظم زین العابدین بن علی ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴جنوری ۲۰۱۱ء کو بن علی سے نجات کے بعد شروع ہونے والے پارلیمانی عہد میں اب قیس سعید تیسرے منتخب صدر ہیں۔ مختلف عرب ممالک میں آمریت کے خلاف جاری عوامی تحریکوں کا آغاز بھی تیونس سے ہوا تھا۔ آج تیونس ہی پُرامن انتقالِ اقتدار کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بن علی کے خاتمے کے بعد پہلی منتخب حکومت تحریک نہضت کی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس کے خلاف شروع ہونے والی سازشیں وہاں بھی مصر کا خونی تجربہ نہ دہرادیں۔ لیکن الحمدللہ تمام تر خطرات کے باوجود تیونس کی لڑکھڑاتی جمہوریت اب نسبتاً زیادہ مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۲۶؍ اُمیدوار میدان میں تھے۔ پہلے ۹؍اُمیدواروں نے ۴فی صد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ قیس سعید۱۸ء۴۰ فی صد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔ بڑے ابلاغیاتی اداروں کا مالک اور سیکولر خیالات رکھنے والا نبیل القروی ۱۵ء۵۸ فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، جب کہ تحریک نہضت کا اُمیدوار عبدالفتاح مورو ۱۲ء۸۸ فی صد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہا۔ سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کے باوجود نہضت کے اُمیدوار کا پہلے دو اُمیدواروں میں شامل نہ ہوسکنا سب کے لیے باعث حیرت بنا۔ اس ناکامی کا تجزیہ بھی اہم ہے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ملک اور خود تحریک نہضت کے لیے انھی نتائج میں خیروبھلائی تھی۔ مصر میں گذشتہ آٹھ برس سے جاری خوں ریز واقعات کے بعد تحریک نہضت انتہائی احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہے۔ اتنی احتیاط کہ بسا اوقات کئی ہمدرد اور بہی خواہ بھی اس پر اعتراضات اُٹھانے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے۔ قیس سعید جیسا ایک آزاد اُمیدوار جو ملک کی دینی اساس، قانون کی مکمل بالادستی اور اُمت کے مسائل کے بارے میں دو ٹوک راے رکھتا ہو اور اس کی پشت پر کوئی اور ذمہ داری یا تاریخی ورثے کو بچانے کا بوجھ بھی نہ ہو، حالیہ معروضی حالات میں ایک بہترین صورت ہے۔
تحریک نہضت نے صدارتی مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر قیس سعیدی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے پارلیمانی انتخاب ہوئے تو قیس غیر جانب دار رہے۔ ساری پارٹیوںنے اپنے اپنے منشور کے مطابق حصہ لیا اور ۲۱۷کے ایوان میں تحریک نہضت ۵۲ نشستیں لے کر ایک بار پھر پہلے نمبر پر رہی۔ نبیل القروی کی جماعت ’قلب تونس‘ ۳۸سیٹوں کے ساتھ دوسرے، جب کہ ۵ مزید جماعتیں ۱۰یا اس سے زیادہ نشستیں لے سکیں۔ بڑی تعداد میں جماعتوں کو ایک نشست ملی۔ حکومت سازی کے لیے ۱۰۹ ووٹ اکٹھے کرنا آسان کام نہیں، لیکن تحریک نہضت کے سربراہ راشد الغنوشی نے یہ ہدف جلد حاصل کرلینے کی اُمید ظاہر کی ہے۔
سب تجزیہ نگار اُمید کرتے ہیں کہ قیس سعید ایک انتہائی بااصول صدر ثابت ہوں گے۔ انھوںنے دوسرے مرحلے کے انتخاب میں اس لیے کوئی انتخابی مہم نہ چلانے کا اعلان کیا کہ مخالف اُمیدوار نبیل القروی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار تھا، اور خود کسی مہم میںنہیں شریک ہوسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں یکساں مواقع فراہم نہ ہونے کے باعث میں بھی کوئی مہم نہیں چلاؤں گا۔ قیس سعید کی کامیابی کے بعد تمام اسلام مخالف اور مغربی طاقتوں کی ہمدردیاں اور پروپیگنڈا مہم نبیل کے حق میں ہوگئی، تو ووٹنگ سے چند روز قبل ضمانت پر اس کی رہائی ہوگئی، پھر دونوں اپنی اپنی مہم میں شریک ہوئے۔صدارتی حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز اپنی اہلیہ، جو ایک جج ہیں کو اس لیے پانچ سال کی بلا تنخواہ چھٹی دے دی تاکہ عدلیہ کی خود مختاری پر حرف نہ آئے۔ پہلے مرحلے کے نتائج آنے پر تیونس میں فرانس کے سفیر نے قیس سعید کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا، تو انھوںنے دو ٹوک انداز میں ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیونس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور سفرا کے لیے طے شدہ عالمی ضابطوں کی پابندی کریں۔ اب اگر ایوان صدر میں قانون کا پاسدار صدر ہو اور عظیم قربانیاں دے کر اس مقام تک پہنچنے والی تحریک نہضت کی حکومت ہو، تو بجا طور پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ تیونس میں پھر ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اللہ کا نظام بھی عجب انداز سے اپنی بالادستی ثابت کرتا ہے۔ حبیب بورقیبہ نے موسمِ گرما میں روزے ساقط کردینے کا اعلان کیا تھا۔ بورقیبہ پیوند ِ خاک ہوگیا اور ماہِ رمضان تاقیامت اپنی بہاریں دکھاتا رہے گا۔ بن علی نے حجاب اور داڑھی کے خلاف جنگ لڑی۔گذشتہ ماہ ستمبر میں وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں دنیا سے چلا گیا۔ اتفاق ہے کہ اس کے جنازے میں شریک درجن بھر افراد میں سے آدھے شرکا لمبی داڑھی سے سجے چہروں والے تھے۔ سابق صدر الباجی السب سی نے قرآن کریم میں مذکور احکامِ وراثت کو منسوخ کرتے ہوئے مرد و عورت کا حصہ برابر کرنے کا اعلان کیا، وہ چلا گیا، اور آج نومنتخب صدر دوٹوک اعلان کررہا ہے کہ وراثت ہو یا کوئی اور معاملہ قرآن و سنت کے احکام حتمی ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ (التوبہ ۹:۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر، جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ و امریکا میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں اُبھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا ’گھر واپسی‘ یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر انتہاپسندانہ مہمات، اس کے لیے خاصی بڑی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔
پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفیروں کوکشمیر میں یلغار اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ’ہجومی تشدد‘ کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی‘‘، مگر اس کا انعقاد اس موقعے پر ہوا کہ یورپ و امریکا میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے سکون کا سانس لیا، جس سے برہمنی فاشزم کے خلاف مہم پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا میں پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ’’آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبود کے لیے بھی کوشاں ہے ۔ اس لیے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈا ہے‘‘۔
جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے آسام میں شہریت کے معاملے پر مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد کی فراہمی پر ہم نے ہمیشہ تحسین کی ہے۔ ان کے قدردان اور دینی خدمات کے معترف کے طور پر گزارش ہے کہ دشمنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی تشہیر سے دُور رکھنا چاہیے تھا، مگر کیا کریں: ’ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘۔
جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لوٹی ، تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلماء کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ پھر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۱۸ء-۱۷۰۷ء) اور شیواجی مرہٹہ (۱۶۲۷ء-۱۶۸۰ء) کا موازنہ کرکے، اور شیواجی کو قابلِ تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ مسلم اُمت کی حُرمت اور تاریخ کا تقدس ایک طرف رہے، انھوں نے خود اپنے علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ کاش! وہ امریکی محقق خاتون پروفیسر آڈری تروشکی (Audrey Truschke) کی کتابیں Aurangzeb:The Man and the Myth اور Aurangzeb: The Life and Legacy ،یا جواہر لال نہرو کی مشہور کتاب The Discovery of India میں شیوا جی پر تبصرہ، یا مغربی اسکالر جیمس لاویا کی نگارشات پڑھ لیتے۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: ’’کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘‘۔ قرارداد میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ’’تمام مسائل کی جڑ‘‘ بتایا گیا ہے۔ قرارداد کے مطابق: ’’ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘‘۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: ’’دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵،اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔
اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکرٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔ مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: ’’ہم ۳۷۰دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: ’’ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں‘‘ اور محمود مدنی صاحب نے کہا: ’’ہم حکومت ِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ پھر اجمیرشریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: ’’کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔
معروف بھارتی دینی ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ میں مذکورہ علما کے موقف کا نوٹس لیتے ہوئے مدیر مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’ [ہمارے علما کی] آج جو ’ملاقاتیں‘ ہورہی ہیں، اور جو قراردادیں اور بیانات صادر ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں، ان کا مقصد عالمی برادری میں [مودی حکومت کی] بُری طرح بگڑتی ہوئی شبیہوں کو درست کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، اور افسوس ہے کہ ہمارے لوگ استعمال ہورہے ہیں‘‘۔(اکتوبر ۲۰۱۹ء، ص۱۰)
اب اگر کوئی نیازمند، ان محترم حضرات سے یہ پوچھے:’’کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے؟‘‘ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھارت کی طرف دار کشمیری مسلم قیادت نے جموں وکشمیر میں جمہوریت پر شب خون مارا، اور اپنے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اگر بھارتی قیادت نے بار بار دغا بازیاں نہ کی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتیں، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں جذبات اتنے شدید نہ ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑے گا کہ خاص طور پر ۱۹۷۱ءکے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی لاچار، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے ۹؍اگست ۱۹۵۳ءمیں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو، یا جون۱۹۸۴ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی، یا ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے برابر استعمال کیا گیا۔
شیخ محمد عبداللہ کے انتقال (۸ستمبر ۱۹۸۲ء)کے اگلے برس ۱۹۸۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے این ٹی راما رائو، جیوتی باسو ، جارج فرنانڈس کے ساتھ اتحاد و قربت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں مسز اندرا گاندھی نے خود ہی نودن قیام کرکے انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بڑھکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمعیۃ العلما کے لیڈروں نے فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
اگست ۱۹۵۳ءکو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب بھارت سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں بھارتی فوج کشمیر وارد ہوئی، اور پھر نہرو نے ۳جون ۱۹۵۲ء کو ’دہلی ایگریمینٹ‘ پر دستخط کرکے کشمیر کی ’خودمختاری‘ مان لی۔ تب شیخ صاحب، نہرو سے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق چاہتے تھے، تاکہ آیندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، میں ۶۰فی صد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے ۳۰فی صد کردیا گیا ، اور کپور تھلہ ، بھرت پور، اور آلوار جیسے علاقوں میں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو خدشہ تھا کہ ایسی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی شناخت اور انفرادیت کو بچانے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواست گار تھے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اُٹھایا گیا ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کا قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کا آبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ ایک ارب ۲۵ کروڑ آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دے گی۔
۲۰۱۴ء کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے وادیِ کشمیر کے بجاے پوری توجہ جموں اور لداخ پر مرکوز کیے رکھی۔ امیت شا نے جموں کی ۱۳؍اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زرکثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑی کردی تھی۔ اس خطے کے مسلم علاقوں کا بھار ت کے مسلم اداروں خاص طور پر دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت اور رابطہ ہے، اس لیے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی: ’’اس علاقے میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لیے بھارتی مسلم زعما سے مدد لی جائے‘‘۔ دوسری جانب تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ ’جماعت علما‘ کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور عوام اس کو ’جمعیۃ العلماء‘ سے خلط ملط کر رہے تھے۔ خیرخواہوں نے دہلی میں جمعیۃ العلماء کے دروازوں پر دستک دے کر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی، مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ جب بہت خرابی ہوچکی تو جمعیۃ العلماء نے لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، مگر تب تک انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہ یہ حرکت دانستہ تھی یا نادانستہ۔ بھارتی مسلمانوں کی اس تنظیم کے لیڈر نے بتایا ، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں؟ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ ’’مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے‘‘۔
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینیر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر راے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتِ حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پاے دار حل کے لیے مولانا کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گذشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی‘‘۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا: ’’جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اوروہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود ۷لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کو بند کریں ۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے ہمارے یہ محترم مولانا صاحب پھر بھارت میں بسنے والے کروڑ ہندوؤں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔
اگست ۲۰۱۹ء میں دہلی کے ’جنتر منتر چوراہے‘ پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے کشمیر پر ہونے والی آر ایس ایس کی فسطائی یلغار کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں بھارتی مسلمانوں کی کوئی تنظیم نہیں آئی۔ پچھلے ۲۶برسوں کے دوران کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں، لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں، اس کا ہلکا سا اشارہ ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Meadows [۱۹۹۵ء: ۵۷۶ صفحات] میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنّفین نے لکھا ہے: ’’کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس کشمیری مسلمان خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ کتاب کے مصنّفین نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راشٹریہ رائفلز کے زیرسایہ ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کی بہن پر بھی پڑ گئی تو اسے بھی اغوا کرلیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔ نسیمہ نے وہیں دم توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔ کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے! ‘‘
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ’’کشمیری مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے: ’’گذشتہ ۶۰برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانش وروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں، جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔
ان بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی خدشات اور واہمے لاحق ہیں۔ سب سے پہلا وہم یہ ہے کہ اگر کشمیر الگ ہواتو ان کے بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ غرض یہ کہ، مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اور انصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ کوئی بھارتی مسلم دانش وَراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو پھرکم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لیے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے اور بھارتی انتہاپسندوں سے محفوظ رہیں۔
خوش آیند پہلو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان، عمومی طور پر کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی حالت ِ زار پر خاصے اضطراب میں ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی مجھے بھارت کے اندرونی اور دُوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ، تو عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا فکرمند پایا۔ چند برس قبل خواجہ معین الدین چشتی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے جب یہ اعلان کیا: ’’ہم اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیں گے‘‘ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں حضرت امام احمد رضا خاں بریلویؒ کے خانوادے کے ایک رہنما نے مجھے بتایا:’’ہماری گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ بے بس اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔
امیر جماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے ۷؍اگست کو اپنے بیان میں کہا: ’جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدامات، پارلیمانی جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ دفعہ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ، محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے یک لخت ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔ ریاست میں فوجی چوکیاں غیرمعمولی طور پر بڑھانا اور جبر کے اس ماحول میں یک طرفہ فیصلوں کو مسلط کرنا باعث تشویش ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں اور اقدامات کو واپس لیا جائے۔ گرفتار قائدین کو رہا کیا جائے، تعلیمی ادارے کھولےجائیں، عوام کی نقل و حرکت اور مواصلات پر پابندیاں ہٹائی جائیں اور خوف و دہشت کا ماحول ختم کیا جائے۔ جموں و کشمیر کے معاملات وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی مشاورت ہی سے طے ہونے چاہییں‘___ پھر امیرجماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے یکم اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کشمیری عوام پر سے سخت پابندیوں کو ہٹائے۔ وہاں کے لوگ تقریباً دو ماہ سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے سیاسی قائدین کو نظربند کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ تنظیم براے انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وادیِ کشمیر کے سلسلے میں جورپورٹیں پیش کی ہیں، وہ شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے، احتجاج پر قابو پانے کے لیے ضرورت سے زیادہ فوج تعینات کی گئی ہے اور طب و صحت کی سہولیات بھی بُری طرح متاثر ہیں‘۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے، جموں و کشمیر پر غیرآئینی حملہ کرنے کی مذمت کی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’گوڈسے کی اولاد کے ہاتھوں ناگالینڈ، میزورام، نئی پور اور آسام پر بھی ایسا وار ہوسکتا ہے‘‘۔ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا: ’’دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب، اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے‘‘۔
کتنی حیرت کا مقام ہے کہ اسیرانِ مالٹا مولانا محمودحسنؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے جانشین، اپنے بیانات اور اقدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، اور اُس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ چلیے اگر درد کا علاج نہیں کرسکتے تو درد کی لاج رکھنے کے لیے خاموش ہی رہو ع ’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔
حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔
ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔ اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔
معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔
کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔
’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔
تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔
آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔
بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔
مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔
انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔
’’ضلع شوپیان،جموں و کشمیر میں ہر تیسرے بچے میں دماغی بیماری تشخیص کی جا سکتی ہے‘‘۔ ۲۰۱۹ء کے اوائل میں اس امر کا اظہار اس جائزے میں کیا گیا، جو Community Mental Health Journal میں شائع ہوا۔ تنظیم ’سرحدوں سے ماورا ڈاکٹروں‘ کے مطابق وادیِ کشمیر میں تقریباً ۱۸ لاکھ افراد میں،جو کُل آبادی کا ۴۵ فی صد ہیں،۲۰۱۵ء میں ذہنی بیماری کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ یوں ۵؍اگست کے واقعے سے قبل بھی، وادی میں غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کے گہرے اثرات اور نشانات کشمیر کے بچوں پر نمایاں تھے۔
آج بھی نہ صرف دہشت کا یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، جیسا کہ دُنیابھر کے ذرائع ابلاغ گواہی دے رہے ہیں۔ میڈیا نے بے شماربچوں کی غیرقانونی گرفتاریوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دارحکام کی جانب سے، ان میں سے بہت سے بچّے آدھی رات کو اٹھا لیے گئے، مگر ان کی گرفتاریوں کی کوئی تفصیل بھی مرتب نہیں کی گئی۔ جس کے باعث ان کی مختلف جیلوں یا حراستی مراکز میں موجودگی یا تلاش کی راہ میںمشکل پیش آ رہی ہے۔ ماہرمعاشیات جین ڈریزنے اپنی ایک رپورٹ میں اگست ۲۰۱۹ء میں لڑکوں کی غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کی تفصیل مہیا کی ہے۔’انڈین فیڈریشن آف انڈین ویمن‘ (IFIW) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں ان مائوں کے تازہ ترین احوال بیان کیے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کی تلاش میں امید بھرے انداز سے سارا سارا دن اپنے گھر کے دروازوں پر کھڑی رہتی ہیں کہ ’’میرا گم شدہ بچہ واپس آ جائے گا‘‘، جب کہ ان مائوں کو یہ قطعاً علم نہیں کہ ان کے بچے کہاںہیں؟ یہ گم شدگیاں،ڈی کے باسو مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں، جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا: ’’تلاشی کے دوران گرفتار شدگان کی گرفتاریوںکی وجوہ سے ان کے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا جائے‘‘۔
۲۰۱۹ء کے آغاز میں ’’اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن براے انسانی حقوق‘‘ کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا:’’ کشمیر میں بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)،جس کے تحت بغیر کسی الزام کے، کئی دنوں تک،پولیس حوالات میں رکھا گیا ہے‘‘۔ یاد رہے اس قانون کے مطابق ’’بلامقدمہ کسی کو دو برس تک قید رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جواب دہی میں اہم رکاوٹ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (AFSPA) رہا ہے‘‘۔
۲۰۱۸ء میں’جموں کشمیر کوالیشن سول سوسائٹی‘ (JKCCS) نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت معلوم کیا کہ: ۱۹۹۰ء اور۲۰۱۳ء کے درمیان سیکڑوں بچوں کو’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ (PSA) کے تحت حراست میں لیاگیا۔ان میں سے بہت سے بچوں کے مقدمات کے بارے میں پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس کوئی ایسا طریقہ دستیاب نہیں ہے کہ گرفتارشدگان کی عمر کی تصدیق کی جائے۔ پھر ان بچوں کوبالغ جرائم پیشہ افرادکے ساتھ حراست میں رکھا گیا اور بعدازاں محض عدالتی مداخلت کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا۔ان میں سے تقریباً ۸۰ فی صد گرفتاریوں کو عدالتوں کی طرف سے غیرقانونی قرار دیا گیا‘‘۔
بچوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک واضح طور پر ،متعددقوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی ہے۔ یہ International Convention on Civil & Political Rights کی شق۱۴(۴)کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق:’’بچوں کے خلاف تمام کارروائیوں کے دوران ان کی عمر کے پیش نظر ان کی بحالی کو فروغ دینے کو مدنظر رکھا جائے گا‘‘۔ The UN Convention on the Rights of the Child،جس پر بھارت نے بھی دستخط کیے ہیں،کے مطابق: ’’کسی بچے کی گرفتاری، قانون کے مطابق ہونی چاہیے اور گرفتاری کو آخری چارۂ کار کے طور پر اور مختصر ترین مدت کے لیے مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے‘‘۔ National Commission for Protection of Child کے رہنما نکات بتاتے ہیں کہ ’’خانہ جنگی کے دوران سلامتی کے خطرات کی حیثیت سے نوعمر لڑکوں کی درجہ بندی سے احتراز کرنا چاہیے اور حکام کو چاہیے کہ وہ تفتیش کریں اور جبری گرفتاریوں،بدسلوکی یا بچوں کی اذیت رسانی میں ملوث عملے کے خلاف کارروائی کریں‘‘۔
تاہم،ان میںسے کسی بھی ہدایت کو [بھارتی حکومت] پرکاہ کی اہمیت نہیں دے رہی اور حکومت من مانے قانون بناکر انھیں مسلط کررہی ہے۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بارے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں انھیں سیکورٹی حکام اٹھا کر نہ لے جائیں اور گولیوں کے تبادلے میں کہیں وہ مارے نہ جائیں۔جب ایک شورش زدہ علاقے میںاس قسم کی گم شدگیاں ہوتی ہیں،تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق کس سے شکایت کرے؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالتیں ہی صرف وہ ادارے رہ جاتے ہیں، جن سے کچھ انصاف مل سکتا ہے۔ تاہم، ۵؍اگست،جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی، کے بعد سے [بھارتی]ریاستی اقدامات نے کشمیری شہریوںسے ان کے اس دستیاب محدود متبادل حق کو بھی چھین لیا ہے۔سیفٹی ایکٹ کے تحت جموںوکشمیر ہائی کورٹ اینڈ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے صدر اور سینیئر وکلاء کی گرفتاری کے بعدجن میں سے اکثر کاتعلق کشمیر سے ہے، کے خلاف ۱۰۵۰وکلا نے ہڑتال کر دی ہے۔اب تک حبس بے جا کی ۲۰۰سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر ڈاک خانے بند ہیں، اس لیے وکلا، مدعاعلیہان کو نوٹس نہیں بھجوا سکے۔
۵؍اگست کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی سرینگربنچ کی آرڈرلسٹ میں تمام۳۱ مقدمات کا اندراج تھا جبکہ ہائی کورٹ نے یہ مقدمات’نقل وحمل پر پابندیوں کے باعث‘ ملتوی کر دیے کیونکہ وکلاء پیش نہیں ہوسکتے تھے۔ہفتوں بعد ۲۴ ستمبر کو۷۸ مندرج مقدمات میں سے، دونوں فریقین کی طرف سے محض۱۱ وکلاء حاضر تھے،جب کہ ۹ مقدمات میں کوئی بھی نہیںپیش ہوا۔ صرف ۹مقدمات میں درخواست گزاروں کے وکلاء، اور ۴۷ مقدمات میں سرکاری وکلاء حاضر تھے۔
اس قسم کے ہنگامی حالات کے پیش نظر دستور، شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے انھیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’’ان مقدمات میں براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کریں، جن میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو‘‘۔آئینی اور عدالتی رسائی بذات خود ایک بنیادی حق ہے۔کشمیریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کے اپنے فرض سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ نے خود پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ’’بچوں کے خلاف ریاستی تشدد کے الزامات کی تفتیش کرے‘‘۔
’انٹر امیریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ (IACHR) نے ۲۰۰۵ء کے ایک مقدمے میں جس کا تعلق ’کولمبیا میپریپن قتل عام‘ سے تھا،یہ قرار دیا:’’ایک شخص دہشت کا دہشت سے مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ اسے قانون کی حدود میں رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہیے۔وہ لوگ جو متشدد قوت کا استعمال کرتے ہیں،خود پر ہی ظلم کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر تشدد کے سلسلے کو فروغ دیتے ہیں جس کے باعث معصوم،بچے شکار ہو جاتے ہیں‘‘۔
یہ ا مرمحسوس کرتے ہوئے کہ زندہ شہریوں میں دہشت اور موت کا بیج بونے کے باعث ان کی جبری گم شدگیاں واقع ہوئیں۔ مذکورہ امریکی عدالت نے کہا: ’’ریاست اور عوام کی طرف سے عدم توجہ، رواداری اور تعاون کی وجہ سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ‘‘۔
کس قسم کا لفظ یہ بچے اپنی زندگی میں تلاش کریں گے کہ اگر انھیں مسلسل ایسے خوف میں رہنا پڑے کہ انھیں ایک نامعلوم جرم کی پاداش میں اٹھا لیا جائے گا اور انھیں ایک نامعلوم مقام تک لے جایا جائے گا؟ یقینی طور پر زمین پر یہ وہ جنت نہیں جس کا بہت سے کشمیری تصور کرتے ہیں؟
’ترقی کے نام‘ پرجمہوری حقوق پرپابندیاں،بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا بہانہ نہیں بن سکتیں۔ہمیںضرورت ہے کہ ہم کشمیر کے بچوں کے متعلق آواز بلند کریں یا پھر ریاستی مشینری کی طرح اس گھنائونے جرم کے شریک بن جائیں۔حفاظتی حراستوں کی روک تھام ہونی چاہیے، خدا نہ کرے کہ کشمیر کے یہ معصوم بچے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں۔(روزنامہ ،The Hindu، ۲۷ستمبر۲۰۱۹ء)
ہمارے اُردو کے ادیب اور دانش ور حالات حاضرہ پر زبان کھولنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بات افسوس کی ہے اور شرم کی بھی۔ افسوس اور شرم اس لیے کہ ادیبوں اور دانش وروں کی حیثیت ایک ’تھنک ٹینک‘ کی ہوتی ہے۔ منہ کھولے مسائل سے نمٹنے کےلیے یہ قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں: اپنے ’ضمیر‘ کو بھی اور قوم کے ’ضمیر‘ کو بھی ___مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادیب اور ہمارے دانش ور یہ کام جو اپنی نوعیت میں بہت ہی اہم بلکہ اہم ترین ہے، کررہے ہیں؟
کچھ عرصہ پہلے شہر ممبئی میں اردو کے ایک بہت بڑے، شہرت یافتہ اور رجحان ساز ادیب آئے تھے، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے اور عرض کیا: ’’’ادب‘ پر نہیں ’حالاتِ حاضرہ‘ پر آپ سے بات چیت کرنی ہے‘‘۔ انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ’ہم تو ادب کے آدمی ہیں۔ ہم سیاست وغیرہ پر کیا بات کریں گے؟‘ ان کے غصّے پر حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اتنا بڑا ادیب ، دانش ور بھلا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے سے کیو ںکترا رہا ہے؟ بہت منت سماجت پر انھو ںنے بات توکی، مگر سوالوں کے جواب بے دلی سے دیے اور جواب بھی ایسے، جو کسی مسئلے کو حل کرنے میں مفید ثابت نہ ہوسکیں۔
آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیاگیا ہے، مگر ہمارے ادیب اور دانش ور ہیں کہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا، ساری دنیا میں اس کی گونج ہے مگر انھیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں انگریزی ، ہندی، تمل، تیلگو ، گجراتی اور بنگالی و مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانش ور حالت حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر پر بھی لکھ رہے اور بات کررہے ہیں۔
ٹھیک ہے ، افسانے ، شاعری، تنقید اور تحقیق اپنی جگہ درست ہے، مگر ادب تو آنکھیں کھولنا سکھاتا ہے او راپنے اطراف میں جو ہورہا ہے اسے ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی، جانچنے او رپرکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں ، یا عالمی سطح کے دانش وروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھانے سے وہ نہیں گھبراتے، بلکہ وہ عوام کی آواز کو بھی اپنی آواز میں شامل کرلیتے ہیں اور سب کی آواز وں سے مل کر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ حکمران حالات کو بہتر بنانے پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان میں چند ہی لوگوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر کے فسادات اور ’ہجومی تشدد‘ اور فاشزم پر لکھا؟ بھارت میں ’زعفرانی لہر‘ کے بعد اقلیتوں کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اقدار کی شکست وریخت کو موضوع بنایا؟ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور کشمیر کہ جہاں پیلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرّوں سے لوگ نابینا ہوگئے ہیں، ان پر لکھا اور بات کی ہے؟ کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر لکھنا،بولنا اور قوم کو راہ دکھانی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت کے خلاف وہ لڑائی جو بھارت کی دوسری زبانوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے شروع کررکھی ہے، اس میں شامل ہوکر ایک متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔
کیوں اُردو میں کوئی اروندھتی راے، شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے، تب اُردو خواں اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ اب سے سوپچاس سال پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے، جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، ظفرعلی خاں، حسرت موہانی، کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں، مگر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی راے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی رویش کمار ہی کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار!
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک، جب کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے ۵۰ واں دن شروع ہوچکا ہے۔ کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے۔ لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیے گئے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ پیلٹ گنیں ہیں کہ رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں، اور ہر جانب فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ۔ کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہیے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے، مگر ’اُنھوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔
اروندھتی راے بھی تو ایک ادیبہ ہیں۔ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ رہنما بھی ہیں ۔کشمیر پر ان کا ناول The Ministry of Utmost Happiness ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ کارواں میں کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا، جس میں انھوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کا مودی سرکار کے ہاتھوں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کو ’یک طرفہ فیصلہ‘ قرار دیا اور واضح لفظوں میں کہا ہے: ’’مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندستان کے ساتھ ملی تھی‘‘۔ محترمہ راے تحریر کرتی ہیں: ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں‘‘۔
وہ لکھتی ہیں:’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ سکتی ہے ، اس سے پتا لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انھوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے۔ برطانیہ کے تحت ہندستان کے سیکڑوں رجواڑے تھے، جن سے الگ الگ مول تول کیا گیا، اور جوریاستیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا‘‘ ۔
معروف مؤرخ رام چندرگوہا کا کہنا ہے کہ: ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں [اندرگاندھی کے] ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، یہ آمریت ہے۔ ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری، جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح پنکج مشرا بھی تو ادیب ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانش ور بھی ہیں۔ انھوں نے فاشزم کے خلاف ایک بلندپایہ کتاب Age of Anger لکھی ہے۔ کارواں ہی میں وہ ایک مضمون: ’’کشمیر میں ہندستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہرگزرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے کر، کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے‘‘۔ پنکج مشرانے کشمیر میں کیے جانے والے اقدام کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست لیڈر راتکو ملادیچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے___ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ہندستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے صفحۂ اول پر، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے، اور اب عالمی میڈیا کھل کر مودی سرکار کو ’نسل پرست‘ اور ’ فاشسٹ‘ لکھ رہا ہے ‘‘۔
سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے: ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول کرنا ہی نہیں، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘___ دی وائر اردو میں وہ صاف صاف لکھتے ہیں: ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکورٹی اہل کاروں کا استعمال ، اور روز روز کی توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار کہ جس کی نمایندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے‘‘۔
انگریزی پورٹل (ویب) The Wire نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے: ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی۔ میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں‘‘۔ ۲۴ سالہ زہرا جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسز (جوڈیشل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ وہ اب ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی، لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے:’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ‘‘۔ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے، جو اعصابی امراض کے ماہر آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ اس کے کلینک میں بغرض علاج آئے ہیں ‘‘۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لیے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ڈاکٹروں سے مل سکے ہیں۔ نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
The Quint میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کو ہوا میں اُڑا دیا:
رویش کمار بھی تو ایک ادیب اور دانش وَر ہیں۔ تہذیب، قوم اور جمہوریت کے موضوع پر ان کی کتاب بولنا ہی ہے نے دھوم مچا رکھی ہے۔
پھر اس مستعفی اعلیٰ پولیس افسر کے چند جملے پیش ہیں، جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لیے سرگرم تھا۔ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو نے کاروان میں شائع شدہ انٹرویو میں کہا :’’فوج کو کبھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندستان کا اٹوٹ اَنگ ہے،تو آپ کو چاہیے کہ ان سے اسی طرح سےپیش آئیں‘‘۔ کیا نریندر مودی ، امیت شا وغیرہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان کی بات سنیں گے، یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ؟
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں اور احوال سے لی گئی کچھ مثالیں ہیں، ایسے دانش وروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی، جو ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اُن کی ایک بڑی تعداد ’مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے، اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق___ نہ جانے کیوں ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں، تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔ حکومت کے موقف کی تائید تو کی ہی جاتی ہے ، مگر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ___ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا؟
اُردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموںکی دنیاسے باہر نکل کر حالاتِ حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں او ربولیں گے؟