۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔
مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔
۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:
دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔
ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔
ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔
اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔
حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔
اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!
اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے حماس کی نمایاں کامیابیوں کا صدمہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی واضح اکثریت کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باوجود وہ حماس کے خوف سے نجات نہیں پاسکے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سازش تیار کی جارہی ہے۔ اب ایک قابلِ بقا و استمرار (sustainable state)فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کے تحت نومبر ۲۰۰۷ء میں منعقد ہونے والی واشنگٹن کانفرنس___ حقیقت میں یہ ایک ایسا سراب ہے جو صدر بش نے فلسطینیوں‘ عربوں‘ مسلمانوں اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صدر بش نے بڑی ہوشیاری‘ چالاکی اور چال بازی کے ساتھ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کی سعودی تجویز‘ سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اور عالمی چار رکنی کمیٹی جو امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوام متحدہ سے مل کر بنی ہے___ ان تینوں کو موت کی نیند سلانے کی نیت سے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس کانفرنس کی ناکامی پہلے ہی سے معلوم ہے اور ہدف بھی یہی ہے‘ تاکہ ناکامی کا سارا الزام فلسطینیوں کے سرمنڈھ کر اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور مجرمانہ منصوبوں کو پورا کرنے کا کھلا لائسنس دیا جاسکے۔
اس عالمی کانفرنس میں شام کو دعوت نامہ نہ بھیجنا بھی اس نیت کی حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اس ناکام مگر امریکی‘ یورپین اور اسرائیلی نقطۂ نظر سے ’’کامیاب ___ بہت ہی کامیاب، عالمی پیمانے پر عالمی برادری کے معیار پر کامیاب‘‘ کانفرنس کو ناکام کرنے کی مسلسل کوششوں کا الزام شام پر بھی تھونپا جاسکے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا جائے۔ اس حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی ہوائی جہازوں نے شمال مشرقی شام میں دید الزور پر حملہ کر کے اپنی ریہرسل کرلی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ یقینا آگے بڑھ کر لبنان میں حزب اللہ‘فلسطین میں حماس‘ غزہ اور غزہ حماس اور آخرکار ایران اس کا اصل اور آخری ہدف ہوگا۔
اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں کوئی لچک نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مبنی برظلم موقف کے بارے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بنیادی حساس موضوعات کو وہ چھیڑنا ہی نہیں چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکا‘ برطانیہ اور یورپ اور اسرائیل نواز عالمی لابی بھی ہمیشہ سے دہراتی ہے ___ امن ‘ امن اور امن۔ صرف اسرائیل ہی کے لیے امن‘ اور ہلاکت‘ تباہی اور بدامنی اور قتل و غارت گری صرف اور صرف فلسطینیوں کے لیے۔
یہ عجیب و غریب اور ظالمانہ مساوات جو یہودی صہیونی ذہن کی خاص پیداوار ہے اور جسے یورپ اور بعد میں امریکا نے بحیثیت ملک و قوم اور نظامِ حیات اپنا لیا اور سینے سے لگالیا ہے‘ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ چار رکنی کمیٹی میں اقوامِ متحدہ کے نمایندے کو کہنا پڑا کہ اقوام متحدہ کو اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیے‘ کیونکہ یہ کمیٹی فلسطین پر عائد کردہ اسرائیلی‘ امریکی‘ برطانوی‘ یورپی پابندیوں کو ختم کرانے میں ناکام رہی ہے(بی بی سی نیوز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء)۔ اقوامِ متحدہ جو امریکا‘ یورپ اور روس کے بعد باقی دنیا کی اس کمیٹی میں نمایندہ تھی‘ کے نمایندے کا یہ بیان اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ ڈراما ہے جس کے سارے کردار اسرائیل اور اسرائیلی ہی ہیں۔ اس میں کسی اور کی کوئی گنجایش نہیں۔
اللہ تعالیٰ اَسْرَعُ مَکْرًا ہے‘ یعنی اللہ اپنی چال چلنے میں سب سے تیز ہے۔ اس لیے اس نے اپنی قدرت‘ حکمت اور مصلحت سے غزہ کی پٹی میں حماس کو غالب کر کے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور دیگر اسرائیلی ہم نوائوں کے سینے میں ایک زہریلا خنجر گھونپا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ جو حق‘ اہلِ حق کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے‘ وہی حق‘ حق کے دشمنوں کے حق میں زہرہلاہل ہوتا ہے۔ شمال میں حزب اللہ اور جنوب مشرق میں حماس کے نرغے میں پھنسی ہوئی اسرائیلی ریاست‘ اور اس کے ساتھ یہ سب کے سب ظالم اورمجرم ملک اور قومیں درحقیقت اپنی اپنی موت کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اہلِ حق کو ختم کرنے کے زعم میں ان شاء اللہ ایک روز یہ خود صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ عاد و ثمود‘ فرعون و ہامان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
گذشتہ برس حزب اللہ کے کمزور اور ناتواں ہاتھوں سے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ وغیرہ کی شرمناک شکست اللہ تعالیٰ کی چالوں کی ایک کڑی تھی۔ اب یہ ظالم قومیں اپنے پیروں سے خود چل کر واشنگٹن کے اندھے کنوئیں میں اپنی مرضی سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی خودکشی ہے جو عذابِ خداوندی کی بہترین مثال ہے۔
یہ صرف اور صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ (ابراھیم ۱۴:۲۰) ’’ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ہے‘‘۔
ابھی کعبے کے سایے میں طے پانے والے ’معاہدۂ مکہ‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ۱۹۴۸ء میں آدھے سے زائد فلسطین کو اسرائیل قرار دے دیے جانے اور ۱۹۶۷ء میں پورے فلسطین‘وادیِ سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوتے ہوئے عرب افواج کو شکست فاش دینے کے علاوہ بھی فلسطینی قوم کو بہت بڑے بڑے صدمے‘ سانحے اور قیامتیں دیکھنا پڑی ہیں لیکن حالیہ سانحہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے بعد سب سے تکلیف دہ گھائو ہے۔ دشمن کے وار سہنا اور اس کی طرف سے ظلم‘ زیادتی اور سازشوں کی توقع رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ درندے درندگی نہ دکھائیں تو اور کیا کریں، لیکن ’اپنے‘ بھی ان کی صف میں جاکھڑے ہوں تو صدمہ و اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کو بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود حماس نے حیرت انگیز اصرار کیا کہ تنہا ہم حکومت نہیں بنائیں گے۔ انتخاب میں ہمارے مقابل شکست کھانے والی الفتح بھی آئے‘ ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ الفتح سے پہلے امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جواب آیا: خبردارکسی صورت حماس سے اشتراک نہ کیا جائے‘ ہم ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انتخاب کے بعد حکومت سازی کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے لگی تو حماس نے مجبوراً تنہا حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ الفتح کے سابق وزرا نے نئی تشکیل شدہ حکومت سے ’بھرپور تعاون‘ کیا، اور وہ یوں کہ دفاتر چھوڑتے ہوئے وہاں سے سارا فرنیچر‘ اسٹیشنری کا سامان‘ گاڑیاں حتیٰ کہ چائے کے برتن تک اپنے ساتھ لے گئے۔ ساتھ ہی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل نے ہر طرح کی مالی امداد بند کردی۔ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی سامان رسد پر ماہانہ ۵۵ملین ڈالر کے ٹیکس جمع کرتا ہے جو اس کے پاس فلسطینی اتھارٹی کی امانت قرار دی گئی ہے‘ اس نے وہ بھی اداکرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کے پاس کسی چپڑاسی تک کو تنخواہ دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس سارے کھیل کا اصل ہدف یہ تھا کہ فلسطینی عوام‘ حماس کو اپنے سارے دکھوں کا سبب قرار دیتے ہوئے بھوکے مریں گے تو ازخود بغاوت کردیں گے‘ حماس کی ناکامی درودیوار پر ثبت ہوجائے گی‘ لیکن صہیونی لومڑی دن رات ناچتے رہنے کے باوجود ’کھٹے انگوروں‘ تک نہ پہنچ سکی۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے بھی بڑھ کر حماس پر اعتماد کیا۔ حماس کے وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داروں نے بھی اپنا چولھا بجھا کر اپنے عوام کی خدمت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بلدیہ کے جمعداروں کو بھی تنخواہ دینا ممکن نہ رہا تھا تب وزیراعظم خود ان کے ساتھ مل کر غزہ کی سڑکوں پر صفائی کرنے کے لیے اُتر آیا۔
عین انھی لمحات میں امریکا نے صدر محمود عباس (ابومازن) کی ذاتی حفاظت کے لیے آٹھ کروڑ ۶۰ لاکھ (۸۶ ملین) ڈالر کی امداد فراہم کی۔ صدر کے مشیرخاص اور خود الفتح کی صفوں میں بھی بدنام اورمتنازع ترین شخصیت محمد دحلان کو اسلحے اور سرمایے کے ڈھیر فراہم کرنا شروع کردیے گئے تاکہ فلسطینی حکومت کی تابع سیکورٹی فورسز کے مقابل صدارتی فوج تیار کی جائے۔ تقریباً ۳۳ہزار افراد پرمشتمل متوازی سیکورٹی کھڑی کردی گئی‘ حماس کے ذمہ داران کے علاوہ ان کی حمایت کرنے والے عوام کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور بالآخر فلسطینی صہیونی کے بجاے الفتح حماس جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس موقع پر مختلف اطراف و اکناف سے مصالحت کی کوششیں ہوئیں اور گذشتہ مارچ میں طرفین نے سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ کی دعوت پر مکہ آکر مذاکرات کیے‘ جن کے نتیجے میں ایک سال سے زائد عرصے کے بعد حماس کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ فلسطین میں متفق علیہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ حماس نے اس ضمن میں کئی کڑوے گھونٹ پیے‘ واضح اکثریت رکھنے کے باوجود خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری قبول کرلی اور حکومت میں امریکا کے منظورنظر کئی نام بھی قبول کرلیے جیسے خزانہ کے لیے سلام فیاض۔
معاہدۂ مکہ اور قومی حکومت کی تشکیل فلسطینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دحلان گروپ نے اس پر ایک روز کے لیے بھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ وزیرداخلہ (جس کا تعلق حماس سے نہیں تھا) نے وزارت سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی استعفا دے دیا کہ فلسطینی پولیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ دحلان سیکورٹی فورس ہرطرف غالب ہے اور خود کو ہرحکومت سے بالاتر سمجھتی ہے۔ حماس کے مختلف مراکز‘ اس کی سرپرستی میں چلنے والے رفاہی اداروں‘ اسکولوں اور یتیم خانوں پر ہلے بولے جانے لگے اور عملاً خانہ جنگی کی شروعات کردی گئیں۔ عین انھی دنوں میں مصری اور اُردنی سرحدوں سے صدر کی حفاظت کے نام پر جدید اسلحے کی بڑی کھیپ محمود عباس اور ان کے مشیر سیکورٹی دحلان کو پہنچائی گئی۔ یہ سیکورٹی فورس مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں گھس گھس کر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے لگی۔ صہیونی حکومت نے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل مطلوبہ افراد کی ایک ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور حماس کے سیاسی امور کے سربراہ خالدالمشعل سمیت تمام سرکردہ قائدین کے نام شامل تھے۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں باقاعدہ لڑائیاں ہونے لگیں۔ الفتح کے نام پر دحلان سیکورٹی اور حماس کے افراد باقاعدہ مورچہ بند ہوکر لڑنے لگے۔ حماس نے اس موقع پر بھی حالات کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس نے مقابل فلسطینی دھڑے کے حملے تو روکے‘ لیکن خود اپنے حملوں کا رخ اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان پر خودساختہ راکٹوں کے سیکڑوں حملے کیے اور فلسطینی عوام کو یاد دلایا کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟
یہ ایک سانحہ ہے کہ الفتح کے دحلان دھڑے نے صدر محمود عباس کی سرپرستی میں حماس کے پائوں تلے سے بساط کھینچنے کی کوششیں عروج پر پہنچا دیں اور وزیراعظم کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا گیا۔ اس موقع پر حماس کے مسلح بازو نے بھی دحلان سیکورٹی سے نجات کا آپریشن شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ان کے اہم ترین جاسوسی قلعے سمیت ان کے تمام مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بارے میں خود الفتح کے دحلان مخالف دھڑے اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے ذمہ داران نے بیانات دیے ہیں کہ اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تو الفتح غزہ پر ایک مہیب خانہ جنگی مسلط کردیتی۔ غزہ میں موجود الفتح کے اعلیٰ عہدے دار احمد حلس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس ساری خوں ریزی اور حماس سے الفتح کی شکست کی ذمہ داری محمود عباس اور دحلان کے سرعائد ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دحلان پر انقلابی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اور محمود عباس جیسے کمزور صدر کو جس کے اعصاب پر دحلان سوار تھا‘ ہٹا کر الفتح کے گرفتار لیڈر مروان البرغوثی کو اپنا سربراہ بنایا جائے۔
حماس کی یہ کارروائی اور الفتح کی سیکورٹی فورسز کا غزہ سے انخلا ۱۴ جون کو ہوا۔ اسی شام محمودعباس کے ساتھیوں کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ کارروائی حماس کی طرف سے کھلی بغاوت ہے‘ اس کی حکومت فوراً ختم کی جائے اور جلد دوبارہ انتخاب کروائے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمودعباس کا فرمان جاری ہوا کہ ھنیہ حکومت ختم کردی گئی ہے‘ جلد ایمرجنسی حکومت قائم کی جائے گی اور پھر ۱۵ جون کو وزیرخزانہ سلام فیاض سے وزیراعظم کا حلف پڑھوا کر ہنگامی حکومت قائم کردی گئی۔
اس موقع پر ایک انوکھی لیکن پوری طرح سمجھ میں آنے والی پیش رفت یہ ہوئی کہ اس عبوری حکومت کو سب سے پہلی مبارک باد اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور امریکی صدر جارج واکر بش کی طرف سے موصول ہوئی۔ فوراً ہی ان اعلانات کا تانتا بندھ گیا کہ محمود عباس اور ہنگامی حکومت کو مالی امداد دی جائے گی‘ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی‘ غزہ پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ تیل‘ بجلی اور غذائی سامان بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے گردونواح میں گھیرا ڈالنا شروع کردیا ہے اور چھے فلسطینی نوجوان شہید کردیے ہیں۔
اب مقبوضہ فلسطین دوہری آگ میں جل رہا ہے۔ ایک طرف صہیونی تسلط اور مظالم اور دوسری طرف خود فلسطینی عوام کی دو علیحدہ علیحدہ حکومتیں۔ غزہ میں اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے‘ الفتح کے جو کارکنان و ذمہ داران یہاں رہنا چاہیں‘ رہیں یہ ان کا گھر ہے اور جو مغربی کنارے جانا چاہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے میں حماس سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر پکڑا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے فلسطینی منتخب اسپیکر عبدالعزیز الدویک کا گھر نذرِآتش کردیا گیا ہے۔ایک بحث ھنیہ کی منتخب حکومت کے مقابلے میں بنائی جانے والی ہنگامی حکومت کی دستوری حیثیت کی بھی ہے‘ کیونکہ فلسطینی دستور کے مطابق اگر صدر کو ہنگامی حکومت بنانا بھی پڑے تو اسے ۳۰دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اور حماس کی اکثریت کے باعث پارلیمنٹ کو یہ زحمت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی ایسی حکومت صرف۳۰ روز کے لیے ہی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توثیق کرے تو مزید ۳۰دن کے لیے اس کی عمر بڑھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے اور پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ کنٹونمنٹس میں تقسیم و مقید کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کو عوام سے اس طور لڑا دیا جائے کہ لاکھوں لوگ اپنے لاکھوں بھائیوں کو بھوک اور ہلاکت کی نذر ہونے دیں اور امداد کے وعدوں اور تسلیم کرلیے جانے کی صحرا نوردی کو اپنی گم شدہ جنت قرار دے لیں۔ اس سوال کا جواب غزہ سے واپس آنے والے مصری وفد میں شامل ایک اعلیٰ سیکورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کے وعدے پر مصری اخبار ’المصری الیوم‘ کو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی فلسطینیوں کی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ ۷۰ فی صد فلسطینی عوام کی دحلان سے ہے۔فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت دحلان اور اس کے ساتھیوں سے نجات چاہتی ہے۔
دوسری طرف غزہ کے لاکھوں لوگ ایک اور معمے پر حیرت زدہ ہیں اور وہ یہ کہ غزہ کی فضائوں میں مسلسل ۲۴ گھنٹے بغیر پائلٹ کے جاسوسی صہیونی طیارے محوپرواز رہتے تھے۔ بعض اتنے قریب ہوتے تھے کہ فضا میں ہر وقت ان کی آواز سنائی دیتی رہتی تھی۔ جب سے غزہ سے الفتح کا انخلا ہوا ہے یہ جاسوسی طیارے غائب ہوگئے ہیں۔ ۱۸جون کو معروف عربی اخبار الحیاہ میں فکری عابدین نے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوسی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ سے الفتح کے جاسوسی مراکز سے معلومات کا بے حد قیمتی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ اس میں صرف حساس معلومات ہی نہیں‘ جدید ترین آلات اور حساس اسلحے کی بڑی مقدار بھی ان کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ حماس حکومت کے وزیرخارجہ محمود الزھار نے‘ جنھیں اصرار کرکے متفق علیہ قومی حکومت سے باہر رکھا گیا‘ اپنے ایک انٹرویو میں ۱۴ جون کے بعد غزہ کی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام کو ۱۴ سال بعد سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اب انھیں کسی سیکورٹی فورس کی دہشت گردی کا خطرہ اور خوف لاحق نہیں ہے۔
فلسطینی سیکورٹی فورسز کی حد تک تو شاید یہ درست ہو لیکن اب ایک بڑا خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ حماس سے نجات پانے کے لیے اسرائیلی افواج غزہ پر خوفناک چڑھائی کردے۔ بن گوریون یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈرور زئیفی نے اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے ۱۸جون کو اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہم اگر کسی اعلیٰ پایے کی لیبارٹری میں بھی کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کرتے تو ناکام رہتے۔ اب حالات نے خود یہ فارمولا فراہم کردیا ہے کہ ہمارے سامنے دو فلسطینی دھڑے واضح تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ ہمیں کسی صورت یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ۱۸جون ہی کو عبرانی روزنامے ھآرٹز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’محمود عباس کے اس دلیرانہ اقدام سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کو اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے‘‘۔ لیکن اسی روز کے روزنامہ معاریف میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شلومو گازیٹ کی راے اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے بقول: ’’الفتح اور ابومازن اب تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی فلسطینی قیادت یا تحریک پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جسے مستقبل بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ: ’’اسرائیل نے پہلے بھی تباہ کن غلطی کی تھی کہ فلسطینی عوام کو فوجی اور اقتصادی دبائو کی نذر کیا۔ اب اگر ہم نے دوبارہ یہ غلطی دہرائی تو اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ فلسطینی عوام حماس کی جانب مزید یکسوئی سے لپکیں گے۔ ہمیں خود کو اس وہم کا شکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم گھڑی کی سوئیاں ۴۰ سال پیچھے گھما سکتے ہیں‘‘۔
ان دونوں متضاد آرا پر مشتمل دسیوں تحریریں عبرانی صحافت اور ذرائع ابلاغ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن ایک بات پر تقریباً سب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسرائیل کو اب اپنے پڑوسی عرب ممالک کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ خاص طور پر اُردن اور مصر کی۔ اس بحران کے فوراً بعد عرب لیگ کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کے اختتام پر فریقین سے تحمل اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرب لیگ دونوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرے گی ساتھ ہی مصر‘ اُردن‘ سعودی عرب‘ تیونس اورعرب لیگ سیکرٹریٹ پر مشتمل ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ حماس نے اس وفد کا خیرمقدم کیا ہے لیکن غیر جانب داری کا اعلان کرنے کے باوجود مصر نے سب سے پہلے غزہ میں قائم اپنا سفارت خانہ مغربی کنارے منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ان تمام بیانات اور اقدامات کاتجزیہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن گذشتہ ۵۹سالہ صہیونی دہشت گردی‘ جہاد کو کچلنے کی کوششوں اور فلسطینی قوم میں سے کچھ غداروں کے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود ہم برسرِزمین عملی نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہی نہیں کہ فلسطینی جہاد اور اس کی سرخیل تحریک حماس اب پہلے سے کہیں زیادہ توانا‘ کہیں زیادہ فعال اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ کیا ربانی ہستی شیخ احمد یاسین کی یہ پیش گوئی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ۲۱ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہماراجہادی سفر نصرت الٰہی کی منزل پالے گا۔
مصر پر طویل عرصے تک فراعنہ حکمران رہے۔ مصر کے ان حکمرانوں کے مظالم تاریخ ہی میں نہیں‘ سابقہ الہامی کتب اور قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ دورِجدید کے مسلمان مصری حکمرانوں نے اس مسلمان ملک کو سرزمینِ فراعنہ اور خود کو ابناے فراعنہ کہنے میں فخر محسوس کیا۔ آج اسی فرعونی دَور کی یادیں مصر میں تازہ کی جارہی ہیں۔ اخوان ایک دفعہ پھر حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ ہیں مگر سرزمین مصر بحیثیت مجموعی بھی تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے۔ اخوان المسلمون‘ عرب دنیا سے اٹھنے والی وہ اسلامی تحریک ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی تربیت کی ہے۔ اخوان نے اسلام کے جامع تصور کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اُجاگر کیا ہے اور معاشرتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں عالمِ عرب کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مصر میں قائم ہونے والی یہ تحریک‘ آج عالمِ عرب ہی نہیں‘ پوری دنیا میں معروف اور ایک حقیقت ہے۔
غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ہردور میں ابتلا و آزمایش سے ہمت و استقامت سے گزرتے رہے ہیں مگر دورِ جدید میں اخوان المسلمون نے عزیمت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے وہ قرونِ اولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ ابتلا و آزمایش کا یہ سلسلہ تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں کے جذبۂ ایثار و قربانی پر کہ جو مستبد حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجاے راہِ عزیمت پر مسلسل چراغ جلاتے جارہے ہیں۔ حسن البنا‘ عبدالقادر عودہ اور سیدقطب کی شہادت‘ حسن الہضیبی‘ عمرتلمسانی‘ محمد حامد ابوالنصر‘ مصطفی مشہور اور ہزاروں اخوانیوں کی قیدوبند کی ناقابلِ بیان صعوبتیں ان کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ عمرتلمسانی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ طاغوت کے مظالم کے سامنے اہلِ حق کا ڈٹ جانا اور جھکنے سے انکار کردینا‘ طاغوت کی شکست اور حق کی فتح ہے‘ اگرچہ اہلِ حق اس جدوجہد میں جان ہی سے کیوں نہ گزر جائیں!
تازہ ترین فرعونی کوڑا‘ جو صرف اخوان ہی پر نہیں‘ بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت پر برسایا گیا ہے‘ بہت خطرناک اور دُور رس نتائج کا حامل ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما‘ مرشدعام کے نائب دوم‘ انجینیرخیرت الشاطر سمیت ۳۰ کے قریب تجارتی و کاروباری فرموں کے اخوانی مالکان کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان کے تجارتی اداروں اور ان کے ذاتی و شراکت داروں کے مشترکہ اثاثہ جات کو بھی منجمد کردیا گیاہے۔ ان کاروباری لوگوں کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ اخوان کے سیکڑوں سیاسی کارکنان پہلے ہی سے جیلوں میں مقید ہیں۔ ہنگامی قوانین کے ذریعے حکومت مصر نے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد‘ بہت سے سیاسی مخالفین بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو تسلسل کے ساتھ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کالے قوانین کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مصر کے وکلا بلکہ ججوں نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ ججوں کے حکومتی ایما پر فیصلے کرنے سے اجتناب کی وجہ سے حکومت‘ خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کرکے ان لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
حالیہ گرفتاریوں کے نتیجے میں چونکہ ملک کے معروف تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار گرفتار کیے گئے اور ان کے اداروں پر قبضہ کرکے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں‘ اس لیے مصر سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ بیرونِ ملک بھجوا رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۲۱ارب مصری پائونڈ کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ غیرجانب دار تجارتی حلقے بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ملک کے تمام ایوان ہاے صنعت و تجارت نے اس صورتِ حال کو ملک کی معاشی تباہی اور مصری عوام کے معاشی قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ ثقہ اخباری اطلاعات کے مطابق مصر میں سکیورٹی فورسز نے ۴۵ جاسوسی نیٹ ورک پکڑے ہیں‘ جو صہیونی و صلیبی اداروں نے قائم کررکھے ہیں اور ان کا مقصدمصر کی سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔ مگر طُرفہ تماشا ہے کہ ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجاے اُلٹا اخوان کوہدفِ انتقام بنایا گیا ہے۔
اخوان کے مرشدِ عام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ہتھکنڈوں کو بوکھلاہٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی و دینی اصولوں کے مطابق بھی پابندیاں لگانے اور قیدوبند کے مراحل سے گزارنے کا یہ عمل ناپسندیدہ ہے اور ملک کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دستور کو حکمرانوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخوان‘ سیاسی و معاشی کسی سطح پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ یہ ساری کارروائی امریکی دبائو کے تحت کی گئی ہے۔ امریکا اخوان کی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں ان کے مضبوط گروپ کی وجہ سے اخوان کو خطرہ سمجھتا ہے۔(نیوزویک‘ عربی اڈیشن‘۲۷ فروری ۲۰۰۷ء)
ترکی کے اخبار المساء سے گفتگو کرتے ہوئے مرشدعام نے کہا کہ جن اداروں بالخصوص اخوان کے راہنما حسن مالک کی فرم پر پابندی لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی ساکھ اور اپنے شفاف و کامیاب کاروبار کی وجہ سے اتنے مقبول تھے کہ مصر ہی نہیں‘ مصر سے باہر کے سرمایہ کار اور شراکت دار بھی ان میں سرمایہ لگائے ہوئے تھے‘ حتیٰ کے ترکی کی کئی کاروباری کمپنیوں نے بھی مصر کے ان اداروں میں حصص خرید رکھے تھے۔ یہ مصر کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور متزلزل اخلاقی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کی حکومتی کوشش ہے‘ جسے کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص درست قرار نہیں دے سکتا۔ مرشدعام نے حسنی مبارک اور ان کی حکومت کی غیر قانونی کارروائیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں حکومت نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۵ ہزار بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ۳۰۰ کے قریب لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیںدلوائی گئی ہیں۔
مصر میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف کافی بے چینی اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ اخوان کے مجلہ رسالہ الاخوان (شمارہ ۴۹۵‘ مارچ ۲۰۰۷ء) نے مختلف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن میں گرفتار شدگان کی خدمات اور صلاحیتوں کا تذکرہ ہے اور نہایت مؤثر انداز میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ صحافت پرقدغن کے باوجود اب ایسے وسائل و ذرائع موجود ہیں کہ لوگ ان کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔
روزنامہ ڈان لاہور نے آئی پی ایس نیوز سروس کے حوالے سے ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء کو ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس کے مطابق ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۹معروف صنعت کاروں اور تاجروں کو غیرقانونی طور پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا‘ جب کہ ایک دن قبل ان میں سے بعض کو مصر کی ایک عدالت نے سابقہ مقدمات سے رہا کیا تھا۔ حسنی مبارک نے ۱۵جنوری ۲۰۰۷ء کو ایک اعلان کیا‘ جس کے مطابق اخوان کو مصر کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری صدر نے اخوان کے دینی تشخص کو خطرے کی علامت قراردیا۔
مصر کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے نزدیک ۲۰۰۵ء کے انتخاباتِ عام میں حکومتی جبر اور پابندیوں کے باوجود اخوان نے پارلیمنٹ کی ۲۰ فی صد نشستوں پر جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اس نے پوری دنیا کو حیرت اور مصری حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اخوان کی مقبولیت میں ایک بڑا سبب ان کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ متمول کاروباری ادارے ان فلاحی خدمات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے ذمہ دار اور قانونی امور کے ماہر اخوانی راہنما صبحی صالح نے اس حکومتی اقدام کو امریکا اور اس کے زیراثر مسلمان حکومتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگ کا ایک محاذ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس کو بھی معاشی لحاظ سے اپاہج کیا گیا‘ اب مصر میں اخوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔
اخوان کے نائب مرشدعام اوّل ڈاکٹر محمدحبیب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیے جا تے رہے ہیں۔ گذشتہ ۲۵ برسوں سے ملک پر ہنگامی قوانین کی تلوار لٹک رہی ہے اور انھی کو بنیاد بناکر تازہ حملہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کے لیے حکمران طبقہ ہر لحاظ سے خطرہ ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کی مجوزہ دستوری ترامیم کے خلاف اخوان کی احتجاجی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے وہ ہماری معاشی شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے تمام کام قانون کے دائروں میں ہیں اور ہمارے کاروبار شفاف ہیں۔ ہم پر ہمیشہ اوچھے حملے ہوتے رہے ہیں مگر اللہ نے ہمیں ہر مرتبہ سرخ رو کیا ہے اور ہم مصر کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک بنانے کی کوششیں کسی صورت ترک نہیں کرسکتے۔(المجتمع، ۱۷فروری ۲۰۰۷ء)
مرشدعام نے تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصر کی سیاست میں تحمل و برداشت کے علَم بردار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پروگراموں کے ساتھ صرف اسلام چندپروگرام رکھنے والی قوتوں کو ہی اختلاف نہیں بلکہ تمام لبرل‘ سیکولر اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی ہے۔ مذہبی پاپائیت (تھیاکریسی) کا الزام لگانے والے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
مصر کے ججوں کی تنظیم کے صدر جسٹس زکریا عبدالعزیز نے ایک بیان میں حکومت کی دستوری ترامیم پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دستور کی دفعہ ۸۸ اور ۱۷۳ میں جو ترمیمات کر رہی ہے‘ وہ دراصل مصری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور انھیں آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ مصر کی عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا جو قانونی و دستوری حق حاصل ہے‘ اسے ختم کرکے محض مبصر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۱۶۵-۱۶۶ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ دفعات عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا مستقل اختیار دیتی ہیں۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو بھی حرفِ تنقید بنایا جس کے مطابق جوڈیشل کونسل کو ختم کرکے ہرسطح کی عدالت کے چیف پر مشتمل ایک نئی کونسل بنائی جارہی ہے جو آزادانہ فیصلے نہیں کرسکے گی۔(المجتمع‘ عدد ۱۷۳۹ )
مصر میں کاروباری اداروں پر لگائی جانے والے حالیہ پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے بعض فلاحی تنظیمات پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات اور اداروں کو منجمد و مقفل کرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کے سب حکمران باہر کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی خوش حال اور مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اُمت مسلمہ کو اس اہانت آمیز صورت سے نکلنے کے لیے پُرامن مگر منظم و مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ اخوان کی قیادت نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے۔
بھارتی پنجاب اور اتر اکھنڈ (ڈیرہ دون)کے فروری ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی کونسل کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس کے قومی صدر پروفیسر راج ناتھ سنگھ کا بیان یکم مارچ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے: اوّلاً: اگر انھیں ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ متنازع بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے ایک قانون بنائیں گے۔ ثانیاً: بی جے پی کی قوم پرستانہ پالیسی کے زیرسایہ ایک طاقت ور بھارت کی تعمیر ضروری ہے تاکہ مرکز کی حکومت (من موہن سنگھ) کی اقلیتوں کو خوش کرنے کی خطرناک سیاست کو بھارت کی سرزمین پر ختم کیا جاسکے (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ یکم مارچ ۲۰۰۷ء)۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس نے مسلمانوں کو عملاً کچھ نہیں دیا۔ مگر دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اسے مسلمانوں کی اقلیت نوازی کے نام پر شورمچا کر مسلمانوں کو مزید ملیامیٹ کرنے کی ہندتو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا کھلا نعرہ ہے: ہندی ، ہندو ، ہندستان
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا تازہ ترین بیان بلکہ اعلان‘ اس بات کا غماز ہے کہ اگر کانگرس یا کسی اور سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پس ماندگی دُور کرنے کی بات کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مسلم دشمن رویہ مزید جارحانہ سمت میں آگے بڑھے گا ۔ ان کی دوسری فوری وجہ یوپی (اترپردیش) میں ماہِ اپریل ۲۰۰۷ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوپی صوبہ بھارت کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی بھارت کی قومی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ وہاں سماج وادی پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے مقابل مایاوتی کی بہو جن سماج وادی پارٹی‘ کے علاوہ بھارتیہ جنتاپارٹی ایک متبادل اور متحرک سیاسی جماعت ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی پنجاب اور اتر اکھنڈ کے بعد یوپی میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے روایتی اور تاریخی تعصب کو ہوا دے کر پھر سے ہندتو کارڈ اور رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ اٹھائے سامنے آرہی ہے‘ جب کہ گجرات میںمسلمانوں کے حالیہ قتلِ عام کے بعد پٹنہ (بہار) میں وشواہند پریشد (ورلڈ ہندوکونسل) کے جنرل سیکرٹری پروین توگڑیا کا تازہ ترین اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں انھوں نے ہندو آبادی کو مشتعل کرنے کے لیے کہا ہے کہ ’’وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں‘‘۔ انھوں نے مسلمانوں پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں اور وہ جلد ہندستان کے ہندوئوں کو اقلیت بنا دیں گے‘‘۔ یہ وہ مسلم دشمن لہریں ہیں جو بھارتی سماج کے دروبام ہلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ جس طرح بھارت‘ پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے بعینہٖ بھارت کے ہندو‘ مسلمانوں کو بھی اپنا دشمن نمبر ایک ہی سمجھتے ہیں‘ جسے یقین نہ آئے بھارت جاکر بچشم خود دیکھ لے۔
دوسری طرف مسلمان ایک سہمی ہوئی اقلیت کے طور پر حکمرانوں اور ہندو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف کہنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کے گذشتہ ۶۰ برس‘ ہندو اکثریت کے تاریخی تعصب اور ہندو حکمرانوں کی دانستہ پالیسی کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی کا آئینۂ ایام ہیں۔ جس سے بالفعل یہ ثابت ہوا ہے کہ قومیں دین سے بنتی ہے سرزمین سے نہیں‘ ورنہ بھارت کی مسلم ملت یوں اپنے وطن میں غریب الوطن تو نہ ہوتی کہ سانحہ گودھرا گجرات کے بعد بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل اپنے ہی وطن میں تاریک ہوکر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی بے بسی اور برستی آنکھیں انصاف مانگتے مانگتے اندھی ہوگئی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے بعض احکامات کے تحت‘ کچھ قانونی کارروائی اور کچھ مظلوم مسلمانوں کی شنوائی جاری ہے۔ مگر گجرات میں ’ہندوتو‘ کا تجربہ وہ نمونہ ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیراقتدار مسلمانوں کے مستقبل کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے مگر گجرات کے مسلمانوں کا صوبائی حکومت کے ایما پر قتلِ عام اور پھر یہ اعلان:’’مسلمانوں کے دواستھان پاکستان یا قبرستان!‘‘کس طرح کے عزائم کی پھنکار ہے۔
بھارت کا مسلمان گذشتہ ۶۰ برس سے ہندو اکثریت کے ہندستان میں جس جمہوری اور سیکولر تجربے سے گزرا ہے‘ اس کی بازگشت دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمانوں کے بارے میں معاشی‘ سماجی اور تعلیمی کوائف جاننے کے لیے قائم سچرکمیٹی میں سنائی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان میں مسلمان‘ اپنی معاشی پس ماندگی میں دلتوں سے بھی کہیں نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ’شرمساری کے ساتھ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بھارت میں برسرِاقتدار کانگریسی قیادت کی یوپی اے سرکار کا بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے کا مقصد کیا واقعی مسلمانوں کی پس ماندگی کا مداوا کرنا ہے یا صرف مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کی روایتی سیاست ہے؟ اس پر سردست کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ ایک حقیقت جو سامنے ہے وہ یہ کہ بھارت کے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور ہندو اکثریت کی یہ اجتماعی اور مستقل پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل دوسرے درجے کے خوف زدہ شہری ہی نہیں‘ ایک یرغمال رعایا کے طور پر محبوس رکھا جائے‘ جس کا بدیہی ثبوت سچرکمیٹی رپورٹ ہی نہیں ‘ بھارت بھر میں پھیلے ۱۷ کروڑ سے زائد مسلمانوں کے شب و روز ہیں۔ جہاں گذشتہ ۶۰ برس میں ۲۴ ہزار کے لگ بھگ مسلم کش فسادات برپا ہوچکے ہیں اور بھارتی مسلمان معاشی‘ معاشرتی طور پر پریشانیوں کا شکار ہیں۔
مسلمانوں نے اپنے طور پر تعلیمی‘ فلاحی اور سماجی نوعیت کے ادارے تو بنا رکھے ہیں مگر مسلمان نوجوان اگر بمشکل تعلیم یافتہ ہو جائیں تو بھی انھیں روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اکثریت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں تعصب و حقارت ہی نہیں‘ شر اور شرارت سے بھرپورہے۔ کسی جگہ مسلمان اپنے روایتی پیشوں میں کامیاب ہوں بھی تو فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں پاور لومز جلانا‘ ان کے کارخانوں کو نذرِآتش کرنا اور لوٹ مار کرکے پھر انھیں معاشی پستی کی سطح پر دھکیل دینا ایک عام رویہ ہے۔
کانگریس کے ہم نوا بعض علما کے پرستار حلقے پاکستان کے قیام کو غلطی قرار دے کر اُسے مسلمانانِ ہند کی سزا کی بات کرتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی نہیں محض مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ کانگریس نے اپنے دورِاقتدار میں مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ یہ متحدہ قومیت کے ہندستان میں مسلمانوں کے معاشی‘ سماجی اور تعلیمی حالات سے واضح ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ کیا عملاًسیکولر ہے یا فرقہ وارانہ؟ اس کاصحیح جواب‘ بھارت کے مسلمانوں کی حالت سے عیاں ہے۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا متعصبانہ اور متشددانہ طرزِعمل ہے جس کی زد میں بھارت کے مسلمانوں کی اولادیں اور جایدادیں ہی نہیں‘ مساجد و مزارات اور اوقاف تک ہیں۔
افغانستان پر فوج کشی کا مرحلہ درپیش تھا تو ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے لے کر ادنیٰ وزرا اور گویوں.ّ تک سب انھی الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ اس وقت اُمت کی بات کرنے والوں کو ‘کشمیر وفلسطین کی بات کرنے والوں کو بے حکمت‘ غیرمتوازن اور جذباتی کے طعنے دیے گئے۔ انھیں پرایوں کی لڑائی میں کودنے کے کوسنے دیے گئے۔ پھر افغانستان تباہ ہوگیا‘ ہزاروں بے گناہ انسان خاک میں ملا دیے گئے۔ کئی عشروں پر محیط افغان پالیسی کے نتیجے میں ہم نے وہاں جتنے بھی دوست بنائے تھے‘ سب کھو دیے‘ وہاں امریکا سمیت ناٹو ممالک کی افواج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال وسیع تر ہوتا چلا گیا اور برادر حقیقی کی حیثیت رکھنے والے ملک کی ہوائیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے زہریلی ہوتی چلی گئیں۔
’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بنیادوں پر ہم نے بھی مزید ردّے چڑھا دیے۔ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں معاونت کا بوجھ تو گردن پہ تھا ہی‘ اب ہم نے اپنے قبائل کو بھی کچلنا شروع کردیا۔ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی تو ہم اس فکر سے بھی آزاد ہوگئے کہ چھری خربوزے پہ گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر۔ دونوں طرف اپنے ہی بھائی بندوں کے لاشے گر رہے تھے‘ فوجی جوان بھی پاکستانی اور قبائل بھی پاکستانی۔
ایسے المیوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اب اسی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جس بے وفا کے لیے جان سے گزرے تھے وہ اب بھی ہمیں موردالزام ٹھیرا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں سرحدپار کھل کھیل رہی ہیں۔ کوئی بھی دھماکا ہو‘ کیسا ہی حادثہ ہو‘ جو بھی شکایات پیدا ہوں الزامات ہمارے ہی سر منڈھے جارہے ہیں۔ وہی طالبان جنھیں ہم نے خود پکڑپکڑ کر گوانتاناموبے بھجوا دیا‘ افغانستان کی خاک میں ملا دیا‘ ہمارے اور امریکیوں کے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے۔ افغان تاریخ و روایات کے عین مطابق جب انھوں نے قابض فوجوں سے عملاً نبردآزما ہونا شروع کیا‘ تو سارا نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنے لگا۔ ساری خدمت اور چاکری کرنے کے باوجود ہم ہی گردن زدنی ہیں‘ ہرطلوع ہونے والے دن ہمارے لیے دشنام و الزامات کا نیا ذخیرۂ الفاظ ایجاد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب نہ روشن خیالی کی کوئی تدبیر کام کر رہی ہے اور نہ نسلوں کو تباہ کرنے والی تعلیمی و ثقافتی قلابازیاں اثر دکھا رہی ہیں۔
اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تاریکی میں بھی اندھوں کو ایک بار پھر بڑی دُور کی سوجھی ہے۔ اب ’سب سے پہلے پاکستان‘کے بجاے زیادہ ’حقیقت پسندی‘ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ بالکل اُلٹی سمت میں جاکر اعلان کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب جنرل صاحب نے ایک دو نہیں پورے ۹مسلم ملکوں کے طوفانی دورے کیے ہیں۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے بعد اب وہ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کے سنہری فارمولے کی دلالی کر رہے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو ہم سے ہمیشہ دوستی‘ تعاون اور مضبوط تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا نسخۂ کیمیا تھمایا گیا تھا‘ تب امریکی کولھو میں جتے دیگر تمام مسلم ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جا رہا تھا۔ اس وقت جدھر سنتے تھے‘ ایک ہی نغمہ الاپا جا رہا تھا: ’سب سے پہلے اُردن‘، ’سب سے پہلے لبنان‘، ’سب سے پہلے مصر‘، ’سب سے پہلے…۔ اب کیسٹ اُلٹی چلنی شروع ہوئی ہے تو توقع ہے کہ عنقریب ہر جانب سے ایک ہی راگ کانوں میں رس گھولے گا: ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘۔
آخر یہ نیا فارمولا ہے کیا؟ اسلام آباد نے تو اعلان کیا ہے کہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا‘ لیکن نئے سال کے دوسرے مہینے‘ دوسری بار مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے اس کی کئی جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات اور معاہدۂ مکہ سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ اب فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑانے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔ اب دونوں بھائی مل کر اپنے دشمن کا سامنا کرسکیں گے‘ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی فکر کریں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں رسمی تقاریر ہی کے دوران میں صدر محمود عباس نے اصل ایجنڈے کی نشان دہی کردی۔ انھوں نے کہا: ’’بالآخر ہماری قومی حکومت تشکیل پاگئی ہے۔ اب حماس کو ان تمام عالمی معاہدوں کا احترام کرنا ہوگا جو ہم نے عالمی برادری کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ روسی صدر پوٹن نے جو خود بھی ان دنوںمشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’معاہدۂ مکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا عملی قدم ہے‘‘۔ ظاہر ہے محمود عباس نے تو عالمی برادری کو شیشے میںاُتارا ہی اس بنیاد پر تھا کہ وہ ان کے احکام بجا لائیں گے۔ محمودعباس اپنے عقیدے کے بارے میں زبان زدعام اطلاع کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ’بہائی‘ نہیں۔ لیکن عملاً اسی بات کا پرچار کرتے ہیں جو قادیانیت اور بہائیت کی اصل بنیاد ہے‘ یعنی ’’جہاد کا انکار اور مجاہدین سے دست برداری‘‘۔ محمودعباس‘ حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہروہ خدمت بجا لائے جو اسرائیل و امریکا کو مطلوب تھی۔ امریکی وزیرخارجہ نے جواباً ان کی اپنی سیکورٹی فورسز کے لیے ۸۶ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔
اُردن و مصر کے راستے‘ فلسطینی انتظامیہ کے مقابل صدارتی افواج کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کر دیے گئے اور محمودعباس کے ساتھیوں میں سے سب سے متنازع شخص محمد دحلان صدارتی فوج لے کر اپنے فلسطینی مجاہدین پر ہی چڑھ دوڑا۔ غزہ یونی ورسٹی جلا ڈالی گئی۔ مساجد میں علماے کرام اور کتاب الٰہی پر گولیوں کی برسات کردی گئی اور جہاں کبھی صرف صہیونی بم باری اور فائرنگ ہوا کرتی تھی وہاں فلسطینیوں کو خود فلسطینی مارنے لگے۔ اور یہ خوں ریزی عین اس وقت ہورہی تھی جب قابض صہیونی افواج مسجداقصیٰ سے ملحق حصے کو شہید کر رہے تھے۔ حرم قدسی کے باب المغاربہ کے باہر بنے حجرے کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اسلامی تحریک کے کارکنان ان سے برسرپیکار تھے۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی یہ خوں ریزی فلسطین کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھی‘ لیکن بالآخر فریقین مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ محمودعباس نے مذکورہ بالا بیان تو دے دیا لیکن یہودی اخبارات نے واویلا مچایا کہ حماس سے عالمی معاہدوں کے احترام کی بات بہت کمزور اور ناکافی ہے۔ محمود عباس کو تاکیداً کہنا چاہیے تھا کہ ہم حماس سے ان معاہدوں کی پابندی کروائیں گے۔
رائس نے حالیہ دورے میں صہیونی وزیراعظم اولمرٹ اور محمودعباس سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دو ٹوک اور مختصر بات کی ہے کہ‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دہشت گردی (یعنی فلسطینی جہاد) کو ترک کرنے سے کم کوئی اور بات قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں ہوگی۔ ان مکرر ارشادات عالیہ اور گذشتہ تقریباً پون صدی کے حقائق‘ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کی وحی مستور کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں۔
ویسے اُمت مسلمہ ہی نہیں خود امریکی اور صہیونی بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ فلسطینی مجاہدین کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے سروں کی فصل‘ جتنی کاٹتے ہیں‘ اس سے زیادہ پھر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ اسی سفر معراج میں جس کا آغاز مسجداقصیٰ سے ہوا تھا‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے خود اس راز کی حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا‘ اور پوچھنے پر بتایا تھا کہ ’’یہ آپؐ کی اُمت کے جہاد کی فصل ہے… یہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جتنی کٹے گی… اتنی ہی بڑھے گی‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’سب سے پہلے اسرائیل ‘ کا فارمولا تیار کرنے والے ’مسلم‘ حکمران اس حقیقت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں۔
۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ء صومالیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اورسیاہ باب رقم کرنے کے لیے طلوع ہوا۔ ۱۶برس کی بدترین خانہ جنگی‘ قحط سالی اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے نڈھال صومالی قوم ہمسایہ ملک ایتھوپیا کی جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر صومالیہ کے تمام قابلِ ذکر شہر یکے بعد دیگرے کالی آندھی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اسلامی عدلیہ یونین سے پٹ کر بھاگنے والے جنگی سردار ایتھوپیائی ٹینکوں اور امریکی طیاروں کی بم باری کی آڑ میں موگادیشو پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صومالیہ میں ایسی کیا بات ہے کہ عالمی طاقت امریکا اور افریقہ کی سب سے بڑی فوجی قوت ایتھوپیا اس پکے ہوئے پھل پر اتنی بے تابی سے ٹوٹ پڑے ہیں؟
صومالیہ کے ساتھ ایتھوپیا کے کئی اسٹرے ٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ یہ ۴۰ کے عشرے کی بات ہے جب برطانوی سامراج شاہانہ فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ہرکس و ناکس کو بڑے بڑے ارضی خطے تحفتاً پیش کر رہا تھا۔ بے وطن یہودیوں کو فلسطین کی زمین بے داموں دی جارہی تھی۔ جنت نظیر خطۂ کشمیر اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع ہندوؤں کو عطا کیے گئے تھے۔ اسی طرح براعظم افریقہ میں قدیم بازنطینی عیسائی سلطنت کے وارث شہنشاہ حبشہ کو ارض صومال کا سب سے بہترین زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال مسلم اکثریت کا صوبہ اوگادین عطا ہوا۔ استعماری طاقتوں کی یہی بندربانٹ آج دنیا میں تصادم اور جنگوں کا حقیقی سبب ہے۔
صوبہ اوگادین کے تنازعے پر صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو نہایت خوف ناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ ایتھوپیا کی یہی پالیسی رہی ہے کہ صومالیہ کے عوام کی نمایندہ کوئی طاقت ور مرکزی حکومت نہ آنے پائے۔ یہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے اور اوگادین کی آزادی کے لیے کوئی مربوط اور منظم کوشش نہ ہوسکے۔
دوسری جانب اریٹیریا کی آزادی کے بعد ایتھوپیا عملاً سمندر تک رسائی سے محروم (land locked) ملک بن گیا ہے۔ سمندر تک اس کا سب سے مختصر راستہ صرف صومالیہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا صومالیہ میں دوستانہ بلکہ کٹھ پتلی حکومت کا وجود ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ ہی سے صومالیہ پر اثرورسوخ بلکہ مستحکم قبضے کا خواہاں رہا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ایک تو سمندروں پر حکمرانی کی خواہش ہے۔ صومالیہ کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں پر قبضہ جمائے بغیر بحیرۂ احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر تسلط ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے‘ اسے تیل اور دوسری قیمتی معدنیات یورینیم وغیرہ کی بھوک ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کو موگادیشو میں کھائی ہوئی ۱۹۹۴ء کی شرم ناک شکست بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔ واشنگٹن کے انٹرنیشنل اسٹرے ٹیجک اسٹڈی سنٹر کے صدر جان ہیمبرے اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’صومالیہ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کے سر پر ایک کابوس کی مانند سوار ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات سے ہم کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے‘‘۔ لہٰذا اب امریکا ایتھوپیا کا عملاً ساتھ دے کر اپنے شرم ناک ماضی کے داغ کو دھونا چاہتا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے پہل تو کمیونزم کے علَم بردار ایتھوپیا کے فوجی ڈکٹیٹر ہیل سلاسی کے مقابلے میں صومالی ڈکٹیٹر جنرل سیدبرے کی حکومت کی مدد کی گئی۔ ۱۹۷۷ء کی اوگادین جنگ میں مالی و فوجی مدد کے ذریعے جنرل سیدبرے کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ پھر ۱۹۹۱ء میں سیدبرے کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد خوراک اور امداد کی تقسیم کی آڑ میں براہ راست فوجی مداخلت کا جواز تراشا گیا‘ لیکن آفرین ہے صومالی حریت پسندوں پر‘ جنھوں نے صومالیہ کی آزادی کی خاطر امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ اور ۱۹۹۴ء کا سال امریکی تاریخ کا تاریک ترین سال قرار پایا جب صومالیہ کے حریت کیش مجاہدین نے ۱۸امریکی میرین شکار کیے اور انھیں موگادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا۔ اس پر امریکا اپنی ساری نخوت بھول کر صومالیہ سے نکل گیا۔ اب امریکی حکمران اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پھر سے نکلے ہیں لیکن ذرا ایک اور طریقے سے۔
صومالیہ کے عوام کو سبق سکھانے کی خاطر موگادیشو پر قابض جنگی سرداروں کو Alliance for the Restoraion of Hope and anti Terrorismکے نام پر جمع کیاگیا اور ان پر اسلحے اور ڈالروں کی بارش برسائی جانے لگی۔ ان جنگی سرداروں کی بے مقصد جنگ و جدل سے اُکتائے ہوئے عوام مزید خون ریزی سے بچتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے ’اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے‘ کے نعرے تلے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک قبیلے میں اور بعدازاں ہر قبیلے کی سطح پر ایک ایک اسلامی عدلیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں جہاں اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا گیا وہ علاقے امن و امان کے حوالے سے مثالی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اسلامی عدلیہ کے احکامات کی تنفیذ کے لیے نوجوان رضاکار موجود تھے۔ انھی قبائلی سطح پر منظم ہونے والی اسلامی عدالتوں نے آگے چل کر ایک یونین بنا لی جسے اسلامی عدلیہ یونین کا نام دیا گیا۔ یہ یونین اپنی ساخت کے لحاظ سے وسیع البنیاد عوامی تحریک تھی جس میں جہاں سخت گیر اسلامی فکر کے حامل سلفی تھے تو صوفیا اور مشائخ بھی شامل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرے کے نمایاں تجار‘ سابقہ فوجی جنرل اور دیگر مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے سبھی امن پسند عناصر موجود تھے۔ اس یونین کا آغاز اگرچہ صرف عدالتی امور نبٹانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی مدد سے اس نے سماجی‘ طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز بھی کردیا۔ یہاں تک کہ برسرِاقتدار آنے سے قبل موگادیشو میں تین یونی ورسٹیاں اسلامی عدلیہ یونین کے زیراہتمام کام کر رہی تھیں۔تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ۱۶ برس کی خانہ جنگی میں صومالی تاریخ میں اگر کوئی سنہری کارنامہ وقوع پذیر ہوا ہے تو وہ ان اسلامی عدالتوں کا قیام ہے۔
جنگی سرداروں کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں گذشتہ جون میں یونین کے رضاکاروں نے سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف دارالحکومت موگادیشو بلکہ جنوبی صومالیہ کا بیش تر حصہ امریکی حمایت یافتہ جنگی سرداروں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ عوام نے یونین کی ان کامیابیوں کا بھرپور خیرمقدم کیا اور پورے ملک میں امن و امان پوری طرح بحال ہوگیا۔ بیش تر جنگی سردار ایتھوپیا کی پناہ میں چلے گئے۔ اب ایتھوپیا کو عبوری حکومت کی حمایت کی خاطر صومالیہ میں فوجی مداخلت کا جواز مل گیا۔ اگرچہ یہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی والا جواز ہی تھا لیکن چونکہ اسے امریکا کی عملی تائیدو حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا ایتھوپیا نے صومالیہ پرحملہ کرنے میں بالکل دریغ نہ کیا۔
ایتھوپیائی فوج کوئی دو ماہ سے صومالیہ کے سرحدی علاقوں میں برسرپیکار تھی‘ تاہم کھلا فوجی حملہ ۲۱دسمبر سے شروع کیا گیا۔ فضائی بم باری اور توپ و تفنگ کا خانہ جنگیوں سے ُچور ہونے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کے باعث کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد گھر کے بھیدی‘ ملک و قوم کے غدار بھگوڑے جنگی سردار ایتھوپیائی فوج کی رہنمائی کے لیے پیش پیش تھے۔ ان سبھی جنگی سرداروں کا ماضی عوام کے قتلِ عام اور باہمی خون ریزیوں سے عبارت ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے‘ ان سبھی جنگی مجرموں کے سرخیل عبوری حکومت کے سربراہ عبداللہ یوسف احمد کو لیا جائے تو ان کا تعارف یہ ہے کہ موصوف صومالی فوج میں کرنل رہے ہیں۔ کئی فوجی بغاوتوں میں ان کا نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دور میں صومالیہ ہی کے ایک نیم خودمختار صوبہ پُنٹی لینڈ کے سربراہ بنے۔ اقتدار سے اس قدر پیار ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل پر بھی کرسیِ اقتدار کو چھوڑنا گوارا نہ کیا بلکہ اُلٹا اپنے سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا اور اب ایتھوپیا کی فوج کے سہارے ایک بار پھر موگادیشو میں وارد ہوئے ہیں۔
اب ایتھوپیا اور امریکا کی مدد سے عبوری حکومت موگادیشو تک پہنچ تو گئی ہے لیکن اس حکومت کا وجود برسرِزمین کہیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کو امریکی بھی محسوس کررہے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے صدر کہتے ہیں: ’’عبوری حکومت بے حد کمزور ہے اور اب تک کی تمام رپورٹیں یہی بتا رہی ہیں کہ صومالی عوام اس حکومت کے ہرگز حامی نہیں ہیں‘‘۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صومالیہ کے عوام نے اپنے مقبوضہ علاقے اوگادین کی خاطر ایتھوپیا سے طویل جنگیں لڑی ہیں اور موگادیشو میں ایتھوپیائی فوجوں کو غاصب فوج کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے امریکا اور مغربی طاقتیں لالچ اور خوف کے تمام ہتھکنڈے لیے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح افریقی یونین کی افواج کو صومالیہ لانے میں کامیاب ہوجائیں تاکہ ایتھوپیائی قبضے کا تاثر دُور ہوسکے۔
اس وقت تک ان کی تمام کوشش رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔جنوبی افریقہ نے دانش مندی سے امریکی کھیل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ ۸ہزار امن فوج میں یوگنڈا اور برونڈی جیسے ممالک سے صرف ۴ہزار فوج کا انتظام ہوسکا ہے۔
اگلا مرحلہ یہ بتایا گیا ہے کہ موگادیشو کو اسلحے سے پاک شہر بنایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو امریکا اور ایتھوپیا اپنی کھلی جارحیت سے اسلحے سے پاک شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا افریقی یونین کی کمزور سی آدھی فوج یہ معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوسکے گی؟ حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ موگادیشو میں تقریباً روزانہ مسلم حریت پسندوں اور ایتھوپیائی فوجوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ صومالیہ کے عوام اپنی آزادی کو رہن رکھنے کے لیے ہرگزتیار نہیں ہیں اور غاصب فوجوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت صومالیہ کے عزمِ آزادی پر دلالت کر رہی ہے۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش کی صورت میں مشرقی پاکستان الگ ہوا توعوامی لیگ کی حکومت نے بھارتی احسان مندی کے طور پر ریاست و سیاست اور معیشت و معاشرت کو بھارت کے ہاتھ گروی رکھنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ یہ اگست ۱۹۷۵ء کی بات ہے جب شیخ مجیب الرحمن بھارت سے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ بنگلہ دیش کی تجارت بھارت کے ذریعے ہو‘ بنگلہ دیش کی فوج عملاً ایک پولیس فورس ہو جو محض اپنے عوام پر کنٹرول کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹائے‘ جب کہ دفاع کی ذمہ داری بھارتی فوج کے پاس ہو۔ ان نکات پر مبنی معاہدے کی دستاویز پر دستخط کے لیے ۱۴ اگست کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسٹیج سجایا گیا تھا۔ عوامی لیگ کی تمام لیڈرشپ کو اکٹھا کیا گیا تاکہ تقریب میں شرکت کرے لیکن محب ِ وطن فوج اور عوام کو یہ منظور نہ تھا اوروہ اس غلامی کے لیے تیار نہ تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو یہ تقریب منعقد ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ اگست کو سحری کے وقت شیخ مجیب الرحمن‘ ان کے اہلِ خانہ اور عوامی لیگ کی دیگر قیادت کو فوج نے عوامی تائید و حمایت سے ختم کردیا۔حسینہ واجد اس وقت ملک سے باہر تھیں‘ اس لیے وہ بچ گئیں اور خوندکر مشتاق کی سربراہی میں حکومت نے بنگلہ دیش کی عنانِ حکومت سنبھال لی۔ درحقیقت یہی دو رویے بنگلہ دیش کی پوری سیاست پر حاوی ہیں۔
۲۰ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مخلوط حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد صدر کو استعفا پیش کیا۔ جوں ہی دستوری تقاضے کے مطابق نگراں حکومت کی تشکیل کا مرحلہ پیش آیا تو انھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد (عوامی لیگ) نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق ہنگامہ آرائی کا خونیں ڈراما رچانا شروع کردیا۔
وزیراعظم خالدہ ضیا نے ان تمام ہنگاموں کے باوجود آئینی مدت ختم ہوتے ہی تمام اختیارات صدر ایاز الدین کو سونپ دیے۔ دستور کے مطابق نگران حکومت کا سربراہ ریٹائرڈ جسٹس کے ایم حسن کو بننا تھا‘ مگر عوامی لیگ نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ ان کو سربراہ نہ بنایا جائے۔ عوامی لیگ نے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سارے ملک میں مظاہرے کروائے۔ مختلف شہروں کا محاصرہ کیا‘ ڈھاکہ کو گھیرے میں لے لیا‘ ۳۶‘ ۳۶ گھنٹے پہیہ جام ہڑتال کی‘ گھیرائو اور جلائو کی سیاست کی۔ عوامی لیگ کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۲۴ افراد مارے گئے (جن میں ۱۳افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور باقی کا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے) اور ایک ہزار زخمی ہوئے۔ بنگلہ دیش اس پورے عرصے میں سیاسی غیریقینی کی صورتِ حال سے دوچار رہا۔
چار بڑی پارٹیز الائنس کی سربراہ خالدہ ضیا نے صدر سے درخواست کی کہ اس سیاسی تعطل کو ختم کر کے انتخابی عمل جلد شروع کیا جائے۔ بالآخر کے ایم حسن نے خود ہی نگران حکومت کی سربراہی سے معذرت کرلی اور صدرایازالدین نے نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر خود حلف اٹھایا۔
عوامی لیگ نے صدر کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا لیکن اس تقریب میں باقی تمام پارٹیاں اور فوج کے سربراہان شامل ہوئے۔ اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے ۱۱نکاتی چارٹر حکومت کو پیش کردیا جس میں سرفہرست چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ تھا۔ آج کل انھی ۱۱نکات کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ سیاسی مخالفین کو مارا جارہا ہے۔ انتظامی مشینری اس ٹکرائو کے نتیجے میں معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ صدرایازالدین نے جو نگران حکومت کے سربراہ بھی ہیں‘ صورتِ حال کی بہتری کے لیے عوامی لیگ کے کئی مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹادیا گیا ہے‘ تمام کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا ہے اور اہم عہدوں پر فائز بہت سے افسروں کو اوایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ منتخب حلقوں کی انتخابی فہرست کی ازسرنو چیکنگ کی ہدایت کی گئی ہے لیکن عوامی لیگ ان تمام تر اقدامات کے باوجود الیکشن پر آمادہ نہیں۔ کبھی وہ صدر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے‘ کبھی الیکشن کمیشن کے ازسرنو تعین کا مطالبہ کر رہی ہے‘ اور کبھی تمام انتخابی عملے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
محب وطن عوام‘ انتظامی مشینری اور فوج پر یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ عوامی لیگ الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ شیخ مجیب کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی ہے اور بھارت کی سرپرستی میں بنگلہ دیش کی فوج اور عوام کا ٹکرائو چاہتی ہے۔
صدر ایاز الدین نے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرلیا ہے۔ سڑکوں پر فوج کا گشت ہے۔ بنگلہ دیش کے تمام شہر امن و امان کے پیش نظر فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ اگرچہ فوج نے ابھی تک کوئی سرگرمی نہیں دکھائی‘ لیکن فوج کے ماضی کے کردار کی وجہ سے عوامی لیگ اور اس کے تمام اتحادی پریشان ہیں۔ انتخابی مہم ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے البتہ امن و امان کی صورتِ حال اب بہتر ہے۔ اسلام دشمن‘ بھارت اور یہود نواز لابی کے زیراثر میڈیا نے عوامی لیگ کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادی الیکشن سے فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ۱۸ دسمبر کے جلسے میں جو پلٹن میدان میں ہوا‘ عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے بائیکاٹ کا نعرہ لگایا ہے۔
عوام اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ بھارت اور عوامی لیگ گٹھ جوڑ نے ہمیشہ محب وطن لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں وہاں امریکی سفیرکافی سرگرم نظر آئے۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر انھی دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔اس صورتِ حال میں مغرب کی پروردہ این جی اوز عوامی لیگ کے حق میں پروپیگنڈے کے لیے مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دم ایسا لاوا کیوں بہہ نکلا؟ اس کا سادا سا جواب یہ ہے کہ اس فضا کو بنانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ برس سے دینی طبقے کے خلاف لوگوں کو اُبھارنے کے لیے بیرونی ایجنسیوں نے دھماکوں کا افسانہ تراشا اور پھر اسلام کے خلاف مہم کو ایک رخ دیا۔ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت کی کارکردگی کا اعتراف عوامی سطح پر پایا جاتا ہے‘ جس میں انھوں نے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے زبردست اقدامات کیے۔ بنگلہ دیش کے امیرجماعت مطیع الرحمن نظامی نے بلدیات اور دیہی ترقی کے وزیر‘ اور جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد نے سوشل ویلفیئر کے وزیر کی حیثیت سے جو نیک نامی کمائی‘ اس نے بھارت اور مغرب کے زیراثر قوتوں کو پریشان کردیا کہ اس طرح یہ لوگ فی الواقع ایک آزاد بنگلہ دیش کے استحکام کی جانب بڑھیں گے۔ اس چیز کو روکنے کے لیے انھوں نے اپنے آلۂ کار حلیفوں کو ایک بالکل بے معنی ایشو پر لڑنے اور مرنے کے لیے اُبھارا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت اقتدار میں نہیں ہے‘ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کو اپوزیشن کن معنوں میں کہا جا رہا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی لیگ کیوں جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP‘ خالدہ ضیا) کے کارکنوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک کو لوٹنے اور جلانے کے درپے ہے؟
اگر پورے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو دو واضح قوتوں میں تقسیم کرکے خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی جانب قدم بڑھایا جا رہا ہے‘ جس طرح بیروت‘ افغانستان یا عراق! کیوںکہ یہی وہ منظر ہے جس میں مسلمانوں کو بدنام کر کے‘ ان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل ہوسکتا ہے۔
کیا آیندہ انتخابات میں عوامی لیگ جیتے گی؟عوامی لیگ کا بلاشبہہ بنیادی مقصد انتخابات جیتنا ہی ہے لیکن اس پر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ وہ پُرامن ماحول میں یقینا یہ الیکشن ہارے گی۔ اسی پیش بندی کے لیے وہ دہشت کی ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جانب گام زن ہے کہ اسلام اور بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کی حامی قوتیں اور ووٹر خوف زدہ ہوکر نہ تو الیکشن مہم میں پوری طرح اُتر سکیں اور نہ پولنگ کے روز ووٹ دینے کے لیے باہر نکل سکیں۔ اس کے بالمقابل وہ ہندو اقلیت کے مجتمع ووٹروں اور اپنے حامیوں کوایک جارحانہ فضامیں پولنگ اسٹیشن پر لاکر الیکشن جیت جائیں۔
عوامی لیگ جانتی ہے کہ بی این پی اور اسلامی قوتوں کا اتحاد عوامی تائید سے ان کے ہرحربے کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ اور انتخاب ہونے کی صورت میں اس کا پورا امکان ہے کہ اسلامی قوتیں پوری قوت سے باہر آکر انتخاب کے روز عوامی لیگ کی گولی کا جواب ووٹ کے ذریعے دیں۔
عراق میں امریکی ہزیمت پر مرثیہ خوانی کرتے ہوئے‘ بیکر ہملٹن رپورٹ میں کئی عملی تجاویز دی گئی ہیں۔ ۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جاری ہونے والی اس رپورٹ پر امریکی قوم ہی کی نہیں‘ پوری دنیا کی نظریں لگی تھیں۔ معروف سابق وزیرخارجہ جیمز بیکر اور اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے لی ہملٹن کی سربراہی میں دونوں پارٹیوں کے پانچ پانچ افراد کی پیش کردہ رپورٹ پر گویا پوری امریکی قوم کا اجماع ہے۔ عراق کے حوالے سے اس میں انتہائی اہم امور کا اعتراف اور نشان دہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ پر جو لے دے اسرائیل میں ہورہی ہے وہ آج کی فلسطینی صورتِ حال پر روشنی ڈالتی ہے۔ بیکر ہملٹن نے لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کو درپیش بحران کا حقیقی حل عرب اسرائیل تنازعہ ختم کروانے میں مضمر ہے۔ یہ تجویز دراصل ایک اعترافِ حقیقت ہے اور اس کا سبب امریکا کی ہمہ گیر اسرائیل نوازی کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام میں امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت و عداوت ہے۔
اس امریکی اعترافِ حقیقت پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لفنی اور دیگر افراد نے جیمز بیکر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ اب وہ نہیں رہا جو اس بڈھے وزیرخارجہ کے دور میں ہوا کرتا تھا‘‘۔ لیکن اس تنقید پر خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے بھی کارپردازان حکومت کا مذاق اڑایا ہے۔ بڑے صہیونی روزنامے ہآرٹز کا معروف تجزیہ نگار شلوموبن عامی لکھتا ہے: ’’یہ لوگ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اب واقعی وہ نہیں رہا۔ اب یہاں روز بروز توانا ہوتی ہوئی ریڈیکل اسلامی لہر ہے۔ اب یہاں شیعہ امپائر ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی اسی راہ پر جانکلیں۔ اب شام کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اسلامی تشدد پسند اپوزیشن اب فلسطینی اتھارٹی میں شامل ہے۔ لبنان میں بھی ان اسلامیان کی حیثیت سب کو معلوم ہے۔ علاقے میں امریکی تسلط کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی حلیف حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہے۔ ان تمام امور نے مشرق وسطیٰ کو بیکر کے زمانے سے بھی کہیں زیادہ پُرخطر بنا دیا ہے۔ اب اسرائیل کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنا پہلے سے کئی گنا زیادہ ضروری ہوگیا ہے… اب اسرائیل کا اپنے پڑوسی ملکوں سے تنازعہ صرف قومی تنازعہ نہیں رہا بلکہ اب اس تنازعے پر دینی اور ثقافتی رنگ غالب ہے جس سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور سنگین ہوگیا ہے‘‘۔ (ہآرٹز‘ ۱۸ دسمبر)
۱۶ دسمبر کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابومازن) کی طرف سے تقریباً ۹ ماہ قبل تشکیل پانے والی فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان اسی صہیونی خوف کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ یا تو حماس حکومت کو آغاز ہی میں مفلوج کرتے ہوئے نئے انتخابات کروا دینا چاہییں تھے یا پھر نتائج تسلیم کرتے ہوئے اس سے نباہ کرنا چاہیے تھا اور ایک نئے فلسطینی شریک کی حیثیت سے معاملات طے کرنا چاہییں تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے دونوں میں سے کوئی بھی پالیسی واضح طور پر نہیں اپنائی۔ اب بالآخر محمود عباس کے ذریعے پہلی تجویز پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ نئے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہر طرف یہی تاثر تھا کہ الفتح اور حماس کے مابین قومی حکومت کی تشکیل پر اتفاق راے طے پا گیا ہے۔ الفتح نے اسماعیل ھنیّہ کے بجاے حماس ہی سے نئے وزیراعظم کا نام پیش کیا جسے حماس نے قبول کرلیا۔ لیکن فلسطینی وزیرخارجہ محمود الزھار کے بقول: محمودعباس نے بندکمرے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا سے ملاقات کی اور باہر نکل کر اعلان کردیا کہ قومی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات بندگلی میں پہنچ کر دم توڑ گئے ہیں‘‘۔
اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں ابومازن نے حماس حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ لگائی اس میں اقتصادی حصار کے باعث معاشی مشکلات کے علاوہ کرپشن کا بھی ذکر تھا۔ اس الزام پر حماس نے نہیں عام افراد نے حیرت کا اظہار کیا کہ حماس حکومت کا طرئہ امتیاز ہی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کرنا اور سابق حکمرانوں کے خوف ناک مالی اسیکنڈل بے نقاب کرنا ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی کے بقول حماس کی دیانت اور کفایت کے باعث حکومت کے انتظامی امور پر اُٹھنے والے اخراجات ۲۱ کروڑ سے کم ہوکر صرف ۶ کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔
حماس نے اس چارج شیٹ کے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا الزام لگانے سے فلسطینی عوام کی نظروں میں فلسطینی صدر کی پوری تقریر بے معنی ہوکر رہ گئی۔ رہے نئے انتخابات‘ تو ابھی ایک سال سے کم عرصے قبل انتخابات میں فلسطینی عوام نے اپنی بھرپور رائے کا اظہار کیا ہے۔ اگر دوبارہ انتخابات کروائے گئے توہمیں یقین ہے کہ حماس کو پہلے سے زیادہ بھرپور عوامی تائید حاصل ہوگی۔ کیا ایسی صورت میں تیسری دفعہ انتخاب کی بات کی جائے گی۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ‘ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حماس کے ذمہ داران ہی نے نہیں‘ سات جہادی تنظیموں نے مشترکہ طور پر نئے انتخابات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت اس غیرآئینی اور غیراخلاقی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گذشتہ پارلیمنٹ تو ۱۰سال تک چلائی گئی اور اب بھاری عوامی تائید سے منتخب ایوان چند ماہ سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس اعلان کا اصل خمیازہ فلسطینی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صدارتی مسلح فورسز سڑکوں پر آنے سے وزارتِ داخلہ نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی اور غزہ کی سڑکوں پر فلسطینی تاریخ کے بدترین سیاہ صفحات رقم کیے گئے۔ مسلح فلسطینی نوجوان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے‘ دسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ اب تک تین شہید ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ صہیونی افواج کے ہاتھوں بھی قتل عام جاری رہا لیکن اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا غم کہیں بڑھ کر ہے۔ اس صورتِ حال کا مستقبل کیا ہوگا؟ صہیونی تجزیہ نگار خود کیا کہتے ہیں؟ معروف دانش ور ڈینی روبنسٹائن ہآرٹز میں لکھتا ہے: ’’حماس اور الفتح کے درمیان خانہ جنگی اب ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء کی لبنان میں فلسطینی جھڑپوں کے بعد سے لے کر اب تک یہ صورت دوبارہ پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ تنازعہ صرف مسلح جھڑپوں ہی سے نہیں دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور سخت رویے سے بھی واضح ہے‘‘۔ روبنسٹائن اعتراف کرتا ہے کہ اس تنازعے میں الفتح کی حیثیت بے حدکمزور ہے۔ ایک تو اندرونی خلفشار اور مالی بدعنوانیوں کے طومار اور دوسری طرف فلسطینی عوام کی تائید سے محرومی‘ آپ غزہ کی سڑکوں پر جاکر پوچھیںآپ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جو اعتراف کرتے ہیں کہ وہ الفتح سے پیسے لیتے ہیں لیکن ’’ہم ووٹ حماس کو دیں گے‘‘۔ وہ اپنے تجزیے کا اختتام اپنے اس جملے پر کرتا ہے کہ ’’اگر اسرائیلی حکومت میں سیاسی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی نہ لائی تو الفتح اور ابومازن کے لیے کامیابی کا ادنیٰ امکان نہیں‘‘۔
حماس کے ذمہ داران کی اصل پریشانی خانہ جنگی کے امکانات سے ہے۔ وزیراعظم ھنیّہ نے ۲۰ دسمبر کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے الفتح اور حماس کے نوجوانوں سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے کہا: ’’الفتح اور حماس کے میرے جوانو! ہمارا اصل محاذ جنگ یہ نہیں ہے‘ ہمارا مشترکہ دشمن ایک ہی ہے‘‘۔ اس اپیل کا اثر فلسطینی ہی نہیں ہرمسلم نوجوان قبول کرتا ہے۔ فلسطین کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ حماس حکومت کواصل سزا اس بات کی دی جارہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ جہاد ترک کرنے سے انکاری ہے۔ وہ فلسطین سے باہر موجود لاکھوں مہاجرین کے حق واپسی سے دست برداری خیانت گردانتی ہے۔ یہ تینوں مطالبات ہرفلسطینی شہری کے دل کی آواز ہیں۔اس لیے وزیرخارجہ محمودالزھار نے کہا ہے کہ ہم عوام کی راے سے منتخب ایوان کا خون نہیں ہونے دیں گے حالاں کہ ہمیں یقین ہے کہ انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرے گی کیوںکہ ہم عوام سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ روٹی چاہیے یا نہیں۔ ہمارا سوال پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہوگا کہ کیا ہم اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرلیں؟ اور اس سوال کا واضح جواب خود محمود عباس کو بھی معلوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فیصلہ کن سوال کا دوٹوک جواب جاننے کے باوجود محمودعباس انھی احکام پرعمل درآمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کونڈولیزا نے دہشت گردی کی عالمی تکون کی طرف سے انھیں پہنچائے۔ امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل نے محمودعباس کی تائید اور اپنی بھرپور مدد کا اعلان کیا ہے۔
جو کچھ بھارت نواز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر کیا ہے‘ کسی اسلامی تحریک یا مذہبی جماعت نے کیا ہوتا تو پوری دنیا میں نہ تھمنے والا پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہوتا۔ درندگی‘ سفاکیت‘ وحشی پن سب الفاظ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کی جو وڈیو ریکارڈنگ ہم تک پہنچی ہے اس کی چند جھلکیاں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگرچہ انسانی جان کا قتل بے حد سنگین جرم ہے پھر بھی روزانہ ہزاروں انسان قتل ہوتے اور دوسرے اس قتل کی خبر پاتے ہیں‘ لیکن جو قتل عام اکتوبر کے آخری ہفتے ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہوا‘ خدا وہ دن دوبارہ کسی ملک و قوم کو نہ دکھائے۔ معاملہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ بنگلہ دیشی دستور کے تحت عام انتخابات سے قبل جو عبوری حکومت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننی ہے ہمیں اس کا سربراہ منظور نہیں۔ پھر عوامی لیگ کے کارکن تھے‘ خنجر‘ بھالے‘ لٹھ اور آہنی سلاخیں تھیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل عام تھا۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں جمہوری روایات پاکستان سے زیادہ مستحکم ہورہی ہیں۔ الیکشن بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ عبوری حکومت کا فارمولا بھی اتفاق راے سے نافذ ہے۔ لیکن بھارتی مقتدر قوتیں بنگلہ دیش میں اپنے نفوذ و تسلط کو کسی صورت کم یا ثانوی ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی اصل پہچان ہی بھارت نوازی ہے‘ اس لیے گذشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے مسلسل دونوں مضطرب ہیں کہ کیسے واپسی ہو‘کیسے دوسری کسی بھی حکومت کو مفلوج و ناکام بنایا جائے۔
خالدہ ضیا حکومت کے پانچ برس کوئی سنہری دور تو نہیں تھے‘ لیکن میں نے اندرون و بیرون ملک رہنے والے جس بنگالی بھائی سے بھی پوچھا اس نے ’’پہلے سے اچھا ہے‘‘ کہہ کر نسبتاً اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی دو وزارتوں کی کارکردگی سب سے نمایاں اور استثنائی رہی۔ خالدہ ضیا اپنی کابینہ میں دوسرے وزرا کو بھی ان دونوں کی پیروی کی تلقین کرتی رہیں۔ لیکن الزامات اور بھارت نواز ذرائع ابلاغ کبھی تو بنگلہ دیش میں طالبنائزیشن کی دہائی دیتے رہے‘ کبھی القاعدہ سے ڈانڈے ملاتے رہے اور کبھی ہڑتالوں اور مظاہروں سے زندگی مفلوج کرنے کی سعی کرتے رہے۔
اب ایک بار پھر انتخابات کا معرکہ ہے۔ خالدہ ضیا کا چار جماعتی اتحاد اپنی سابقہ کارکردگی اور حسینہ شیخ روایتی ہتھکنڈوں اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پیسے‘ پروپیگنڈے‘ بیرونی نفوذ اور کارکنان کی جفاکشی میں ہے۔ جو بھی ہو‘ نتائج جنوری میں سامنے آجائیں گے۔
بات شروع ہوئی تھی عبوری حکومت کی سربراہی پر اختلاف کے نتیجے میں عوامی لیگ کی قتل و غارت سے‘ کہ اس وحشی پن کا جو ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں ہوا ہے اصل حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ ادھر غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں صہیونی جارحیت بھی حسب معمول جاری ہے۔ نومبر کے آغاز میں صرف ایک ہفتے میں ۶۵ سے زائد افراد شہید کردیے گئے۔ بیت حانون کے ایک محلے پر بم باری کرکے دسیوں افراد شہید کردیے گئے جن میں سے ۱۳ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے سات معصوم بچے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں بھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ صہیونیت نواز عالمی ذرائع ابلاغ نہ تو اس قتل عام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور نہ حماس کی اس سیاسی بصیرت و قربانی کی کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وسیع تر حکومت بنانے پر مصر ہے۔
وسط نومبر میں حماس کے سربراہ خالد المشعل سے فون پر اور لبنان میں ان کے خصوصی نمایندے اسامہ حمدان سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں نے بتایا کہ ہم تو اپنی جیت کے فوراً بعد سے قومی حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن تب ہماری پیش کش قبول نہ کی گئی۔ کچھ لوگ اور عالمی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری حکومت اور فلسطینی عوام کا حصار کرکے ہمیں ناکام کردیا جائے۔ حماس کی حکومت ختم ہوگی تو دنیا بھر میں واویلا کیاجائے گا‘ دیکھا ناکام ہوگئے‘ اسلامی تحریکیں حکومت چلا ہی نہیں سکتیں۔ اس ضمن میں ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہم نے کہا امداد نہیںدینا‘ نہ دیں ہم اُمت سے اپیل کرکے خود ہی وسائل مہیا کرلیتے ہیں‘ لیکن ہماری جمع کردہ رقوم بھی فلسطینی عوام تک پہنچنے نہ دی گئیں۔ کئی ملکوں میں ہمارے اکائونٹس منجمد کردیے گئے اور پھر بالآخر الفتح تحریک کے مسلح گروہوں اور صدر محمودعباس کی سیکورٹی فورسز کے دستوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا اور ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا بہانہ بناکر خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن بالآخر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور عوام حماس کی تائید میں مزید یکسو ہوگئے۔ رمضان کے وسط میں جب باہم لڑائی کا خدشہ اورالزامات کا طوفان شدید تھا‘ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ نے ایک جلسۂ عام کا اعلان کیا‘ بغیر کسی سرکاری انتظام کے‘ لاکھوں لوگوں نے جمع ہوکر ان کا مؤقف سنا اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا مسئلہ صرف روٹی نہیں‘ وہ تو کتوں کو بھی مل جاتی ہے‘‘۔
عوام کو حماس حکومت سے متنفر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ ایوان صدر نے یہ دھمکی بھی دی کہ حماس کی حکومت یا پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی‘ لیکن اس کے لیے عملاً کوئی راستہ نہیں تھا۔ الفتح نے خود بیرونی سرپرستوں کے تعاون سے جو قانون سازی کی تھی‘ اس کے مطابق اگر حکومت توڑی جاتی ہے تو ایک عبوری حکومت فوراً بنانا پڑتی جس کی توثیق پارلیمنٹ سے ضروری تھی اور پارلیمنٹ میں حماس ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توڑی جاتی‘ تو نئے الیکشن ضروری تھے‘ جب کہ ہر سروے رپورٹ یہ رہی تھی کہ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ چند ماہ کی حکومت میںاس نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر امانت دار‘ فعال اور باصلاحیت حکومت ہے۔ اگر عوام بھوکے ہوتے ہیں تووزیراعظم خود بھی بھوکا ہوتا ہے۔ اس نے آج تک کوئی الائونس یا تنخواہ نہیں لی کیونکہ اس کے عوام کو پوری تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ماہ کی حکومت نے گذشتہ حکمرانوں کے کتنے بڑے بڑے اسیکنڈل بے نقاب کیے ہیں۔ جب فلسطینی عوام دشمن کی بم باری کی زد میں ہوتے تھے‘ ان کے حکمران دشمن سے کیا کیا گٹھ جوڑ کر رہے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود جو سامانِ ضرورت (خاص طور پر پٹرول) جب مقبوضہ فلسطین پہنچتا تھا تو کس کس وزیر کا کتنا کتنا کمیشن اس میں شامل ہوتا تھا۔
اس صورت حال میں الفتح اور صدر محمود عباس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچاتھا کہ وہ یا تو اسی طرح تناؤ اور حصار باقی رہنے دے ‘ یا حماس کی قومی حکومت والی تجویز قبول کرلے۔ پہلی صورت میں یہ خطرہ برقرار رہتا کہ مزید عوام حماس کے گرد جمع ہوجائیں جو امریکی‘ صہیونی اور فلسطینی ایوانِ صدر کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے بالآخر قومی حکومت کا کڑوا گھونٹ برداشت کرلیا گیا۔ حماس کی اکلوتی شرط یہ ہے کہ قومی حکومت بنے تو اس ضمانت پر کہ اس کے بعد فلسطین کا اقتصادی حصار ختم کردیا جائے گا‘ جب کہ ایوان صدر مختلف شرطیں عائد کر رہا ہے‘ مثلاً اسماعیل ھنیّہ جیسا دبنگ لیڈر اس کاسربراہ نہیں ہوگا‘ یا یہ کہ فلاں فلاں وزارت ہمیں ملے گی خاص طور پر وزارتِ خارجہ۔ حماس نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ غزہ میں حماس کی قائم کردہ اسلامی یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محمد شبیر شاید نئی حکومت کے سربراہ ہوں۔ وزارتیں پارلیمنٹ میں پارٹی حیثیت کے مطابق تقسیم ہوں گی‘ فلسطینی عوام کے روکے گئے فنڈ واپس مل جائیں اور اقتصادی حصار جزوی طور پر ختم ہوجائے گا۔
امریکا نے پہلے قومی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ صدربش اور اس کی وزیر کونڈالیزارائس نے اس کے خلاف بیان بھی دے دیے‘ لیکن پھر کئی صہیونی تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا کہ اگر کوئی بھی راستہ باقی نہ بچا تو جہادی کارروائیوں میں مزید تیزی آجائے گی۔ حماس کی قیادت کو اطمینان ہے کہ جو راستہ بھی ملے گا ہم اپنی منزل سے قریب تر ہوں گے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ پہلے کوئی دبائو ہم سے تسلیم کروا سکا ہے‘ نہ آیندہ کروا سکے گا۔ جہاد و انتفاضہ سے ہم نہ پہلے دست بردار ہوئے ہیں نہ آیندہ کوئی دست بردار کروا سکے گا۔ عزالدین قسام بریگیڈ نے خودساختہ راکٹوں سے صہیونی آبادیوں اور کئی ذمہ داروں کے گھروں کو نشانہ بنا کے پیغام دیا ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچے گی تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔ ہماری سرزمین مقبوضہ رہے گی تو جہادِ آزادی بھی اپنی منزلیں کامیابی سے طے کرتا رہے گا۔
خلیجی ریاستوں میں صرف کویت اور بحرین ہی دو ریاستیں ایسی ہیں جہاں پارلیمنٹ قائم ہے اور باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں بھی کویتی پارلیمنٹ زیادہ مستحکم‘ جان دار‘ قدیم اور خودمختار ہے۔ اگرچہ یہاں بھی فیصلہ کن اختیارات امیر اور آلِ صباح خاندان کے پاس ہیں۔ معمول کے مطابق کویت کے عام انتخابات ۲۰۰۷ء کے اوائل میں متوقع تھے لیکن پارلیمنٹ اور کابینہ میں دستوری اصلاحات کے حوالے سے اختلافات اتنے گمبھیر ہوگئے کہ امیر نے اسمبلی توڑ دی اور فوری انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔
ان اختلافات کے دوران ہی اسلامی ذہن رکھنے والے اور اصلاح پسند ارکان کا ۲۹ رکنی گروپ سامنے آیا اور ۵۰ رکنی ایوان میں اپوزیشن کی تعداد حکومتی ارکان سے بڑھ گئی۔ انتخابات میں بھی اس پورے گروپ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی تعداد ۲۹ سے بڑھ کر ۳۵ ہوگئی جن میں سے ۱۸اسلامی ذہن رکھنے والے ہیں۔ ان ۱۸ میں سے نو ‘گویا نصف الحرکۃ الاستوریۃ‘ یعنی اخوان المسلمون سے ہیں‘ دو کا تعلق ایک سلفی تحریک سے‘ دیگر دو کا تعلق ایک دوسرے سلفی گروپ سے‘ چھے شیعہ تحریک سے وابستہ ہیں‘ جب کہ چھے آزاد ہیں (دستوری تحریک کے نام سے چھے ارکان منتخب ہوئے‘ جب کہ ان کے تین ارکان آزاد حیثیت سے جیتے)۔ کل انتخابی حلقے ۲۵ تھے‘ جب کہ ہر حلقے سے دو امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ کل امیدوار ۲۲۵ تھے اور خواتین امیدواران کی تعداد ۲۷تھی۔
انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے خود ارکان اسمبلی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جیت کے پیچھے نصرتِ خداوندی کے بعد سب سے زیادہ عمل دخل باہمی مفاہمت اور تعاون کا ہے۔ سب اسلامی عناصر نے ایک دوسرے کے ووٹ تقسیم کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سب نے اس کے ثمرات سمیٹے۔
کویتی انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج پیسے کا استعمال تھا۔ لوگ کھلم کھلا ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں ووٹ کی قیمت بینروں پر آویزاں کردی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس چھوٹی سی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کم از کم ایک ارب ڈالر لگ جاتے تھے‘ یعنی ۶۰ ارب روپے سے بھی زیادہ‘ جب کہ کویت میں ووٹروں کی کل تعداد ۳ لاکھ ۴۰ ہزار ہے۔ اس بار کویت کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بھی ووٹ کا حق حاصل تھا اور ان کی تعداد ایک لاکھ ۹۵ہزار‘ یعنی نصف سے بھی زائد تھی (کل آبادی کا ۵۷ فی صد)۔ کئی خواتین نے امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخاب میں حصہ لیا لیکن ان میں سے کوئی بھی رکن منتخب نہ ہوسکی۔
انتخابات کے بعد حکومت کو ایک بار پھر انھی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ تحلیل کی گئی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی اصلاحات‘ پارلیمانی اکثریت رکھنے والوں کو تشکیل حکومت کا حق دینے کے علاوہ مختلف حکومتی اداروں میں مالی اور معاشرے میں اخلاقی کرپشن کا علاج جیسے مسائل آیندہ پارلیمنٹ کا اصل امتحان ہوں گے۔
ترکی‘ مراکش‘ الجزائر‘مصر اور فلسطین کے بعد اب کویت میں اسلامی نظام کے علم برداروں کی جیت اُمت کے اصل انتخاب و پسند کا واضح اعلان ہے۔ کویت جہاں عراق کے قبضے کے خاتمے کے بعد امریکی تسلط کا راز اب راز نہیں رہا‘ جہاں دینی مدارس میں پروان چڑھنے والی نسلوں کی کوئی فصل نہیں پائی جاتی‘ جہاں معاشی مسئلہ کوئی بحرانی حیثیت نہیں رکھتا‘ جہاں تعلیم کے تناسب میں مسلسل اور تیز تر اضافہ ہوا ہے__ اسی کویت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ مستقبل یقینا اسلام اور حقیقی اسلام کا ہے!
سوڈان کے مغربی علاقے ’دارفور میں نسل کشی‘ روکنے کے نام پر اچانک امریکا میںباقاعدہ مہم شروع ہوگئی ہے۔ اپریل کے آخر میں واشنگٹن میں ’دارفور بچائو‘ مظاہرہ کیا گیا۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ’کچھ نہ کچھ‘ کیا جانا چاہیے۔ ’انسانیت دوست طاقتوں‘ اور امریکی امن دستوں کو فوری طور پر نسل کشی روکنے کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اقوام متحدہ یا ناٹو کی افواج نسل کشی روکنے کے لیے استعمال کی جانا چاہییں۔ امریکی حکومت کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ دوسرا ہولوکاسٹ نہ ہونے دے۔ ذرائع ابلاغ اجتماعی عصمت دری کی کہانیوں اور پریشان حال مہاجرین کی تصویروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ حکومت سوڈان کی پشت پناہی سے عرب ملیشیا ہزاروں لاکھوں افریقیوں کو قتل کر رہی ہیں۔ جنگ مخالف مظاہروں میں بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ عراق سے نکلو‘ دارفور جائو۔ نیویارک ٹائمز میں پورے پورے صفحے کے اشتہاروں میں یہی کچھ کہا جا رہا ہے۔
اس مہم کے پیچھے کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ عیسائی مذہبی تنظیمیں اور بڑے بڑے صہیونی گروپ اس کے پیچھے ہیں۔ اپریل کے مظاہروں کے لیے جو اشتہار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا وہ ۱۶۴ تنظیموں کا مشترکہ اشتہار تھا جس میں صہیونی تنظیموں کے علاوہ وہ سب تنظیمیں شامل تھیں جو بش انتظامیہ کے عراق پر حملے کی زبردست حامی تھیں۔ سوڈان سن رائز (Sudan Sunrise)نے مقررین کا اور جلسوں کا انتظام کیا‘ فنڈ جمع کیے اور ۶۰۰ افرادکو عشائیہ دیا۔ مظاہرے سے پہلے منتظمین کی صدربش سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ مظاہرے میں ایک لاکھ افراد کی شرکت متوقع تھی‘ صرف ۵/۷ ہزار آئے لیکن ذرائع ابلاغ نے فراخ دلی سے اسے ہزاروں کہا۔ کم تعداد کے باوجود میڈیا میں اس کی بڑی بڑی خبریں دی گئیں۔ ایک دن پہلے کے ۳لاکھ افراد کے جنگ مخالف مظاہرے کے مقابلے میںاس کی خبریں زیادہ نمایاں دی گئیں۔ سارا زور اس پر ہے کہ دارفور بچانے کے لیے مداخلت کی جائے۔
ان مظاہروں سے امریکا کی سامراجی پالیسی کے کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے عرب اور مسلمان مزید بدنام ہوتے ہیں۔ امریکا لاکھوں عراقیوں کو قتل اور معذور کر رہاہے اور فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی جو حمایت کر رہاہے‘ اس سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
سوڈان میں امریکا کی اتنی زیادہ دل چسپی کی وجہ کیا ہے؟ یقین کیا جاتا ہے کہ سوڈان میں سعودی عرب کے برابر تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گیس‘ یورینیم اور تانبے کے ذخائر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔
سعودی عرب کے برعکس سوڈان نے امریکا سے آزاد موقف اختیار کیا۔ چین نے سوڈان سے تیل کی ٹکنالوجی میں تعاون کیا ہے اور اس سے بیش تر تیل خرید رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ سوڈان اپنے قیمتی ذخائر کو ترقی نہ دے سکے۔
امریکا کی کوشش ہے کہ پابندیوں کے ذریعے اور مختلف تنازعات میںالجھا کر سوڈان کو تیل برآمد کرنے سے روکے۔ جنوب میں آزادی کی تحریکوں کی دو عشروں تک حمایت کی۔ ایک معاہدے کے بعد وہاں سکون ہوا‘ تو دارفور کا مسئلہ شروع کردیا گیا۔
امریکی میڈیا دارفور کے مسئلے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیساکہ سوڈانی حکومت کی حمایت سے عرب افریقیوں پر مظالم کر رہے ہیں۔ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ دارفور کے سارے باشندے خواہ انھیں عرب کہا جائے یا افریقی‘ سیاہ فام ہیں‘ مقامی ہیں‘ سب عربی بولتے ہیں‘ سب سنی مسلمان ہیں۔ چراگاہوں اور پانی کے چشموں کی ملکیت پر شروع ہونے والے جھگڑے اس قدر پھیل چکے ہیں کہ ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ قبائلی جھگڑے بڑھانے میں پڑوسی ممالک بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ (سارا فلائونڈرز‘ ریسرچ اسکالر‘ سنٹرفار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کی رپورٹ سے ماخوذ)