عراق میں مارچ ۲۰۰۳ء سے امریکا کی ڈیڑھ لاکھ فوج موجود ہے۔ ۲۰مارچ ۲۰۰۵ء کو قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر‘ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے‘ ان کے مطابق دو سالوں میں۱۵۲۰ امریکی مارے گئے‘ ۱۱ ہزار ۲ سو شدید زخمی اور معذور ہوئے‘ جب کہ جنگی صورتِ حال‘ موت اور گوریلا حملوں کے خوف سے ایک لاکھ امریکی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ماہرین جنگ کے تجزیوں کے مطابق عراق میں اپنی مدت قیام مکمل کرکے واپس جانے والے فوجیوں میں دوبارہ کسی محاذ پر جاکر لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی (روزنامہ ڈان‘ ۲۰ مارچ ۲۰۰۵ئ)۔ واضح رہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ امریکا اپنی فوجیوں کی ہلاکتیں چھپاتا ہے۔
عراق کو آزادی دلانے کے لیے آنے والا امریکا‘ عراقیوں کے لیے صدام سے سوگنا بدتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت‘ انتخابات‘ دستورساز اسمبلی‘ دستور سازی اور عراقیوں کی حکومت کے پردے میں امریکا اپنی حکمت عملی کے تحت اپنے منصوبوں اور سازشوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن اسے اپنے اندازوں سے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اے ایف پی کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے جو تفصیل دی ہے‘ اس کے مطابق امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ صدام کے حامیوں سے خطرہ نہیں‘ اس لیے ان سے لڑنے کے بجاے امریکی اور اتحادی فوجوںکو مذہبی انتہاپسندوں ہی سے لڑنے کو ترجیحِ اول بنانا ہوگا۔ (ڈان‘ ۹مئی۲۰۰۵ئ)
امریکی حکومت اور اس کے عراق میں متعینہ جرنیل ‘جعفری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگجو گوریلا قوتوں سے سختی سے نمٹے۔ حکومت کی کامیابی کے لیے نظرآنا چاہیے کہ وہ واقعی کچھ کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کے ترجمان اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کافی مزاحمت کاروں کو ہلاک کرکے اور بڑی تعداد میں اسلحے کے ذخیروں پر قبضہ کرلیا ہے مگر امریکی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جنرل جارج کیسی کا کہنا ہے کہ ابومصعب الزقاوی کی کارروائیاں روز افزوں ہیں اور شام کی سرحد سے غیرملکی مداخلت کار عراق میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عبوری وزیراعظم ابراہیم جعفری کے ترجمان لیث قبہ نے اپنی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان قائم کرنے اور شورش پسندوں کو قابو کرنے کے لیے امریکی جرنیلوں سے مشورے مسلسل جاری رہتے ہیں۔ تاہم امریکی جرنیل اور عراق کی کٹھ پتلی حکومت کوئی مثبت نتیجہ آج تک حاصل نہیں کرسکے۔ (مضمون جوناتھن فائنر اور بریڈلے گراہم‘ روزنامہ ڈان‘ ۱۵ مئی ۲۰۰۵ئ)
دوسری طرف‘ نومنتخب اسمبلی کو اس سال کے اختتام تک دستور بنانا ہے ورنہ یہ تحلیل ہوجائے گی۔ دستور بن جانے کے بعد‘ نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ ملک میں ۴۰ سے ۴۵ فی صد تک سنی ہیں مگر ان کو کرد اور عرب قومیتوں میں تقسیم کر کے ۲۰ فی صد کردسنیوں کو اس تعداد سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ سنی جماعت سنی عرب حزب اسلامی کے ترجمان ناصرالعانی نے مطالبہ کیا ہے کہ دستور سازی کے لیے نام نہاد پارلیمنٹ کے بجاے تمام گروپوں کے مستند نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی جائے‘ ورنہ دستور تسلیم نہیں کیا جائے گا (ڈان‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)۔ پارلیمنٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل جو ۵۵ رکنی کمیٹی قائم کی ہے اس میں صرف دو سنی ارکان شامل ہیں۔ ابراہیم جعفری نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنیوں کے جذبات کا احترام کریں گے۔ سنی جماعت بااثر ہے اور اسے شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سابق عبوری وزیراعظم ایاد علاوی اور مشیربراے قومی سلامتی قاسم دائود نے بھی جو شیعہ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ دستوری کمیٹی کا بھی ممبر ہیں‘ سنیوں کے مذکورہ بالا مطالبے کی پُرزور تائید کی ہے۔ یہ کمیٹی اپنا مجوزہ مسودہ ۱۵ اگست تک تیار کرنے کی پابند ہے۔ یہ مسودہ مجلس کی منظوری سے ۱۵اکتوبر تک قومی استصواب راے (ریفرنڈم) کے لیے پیش کیا جائے گا۔
قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر ‘ یہ جائزے لیے جارہے ہیں کہ کس نے کیا حاصل کیا۔ متحدہ عرب امارات کے معروف عربی اخبار الخلیج میں ایک عرب تجزیہ نگار عبدالالہ بلقزیز نے ۲۰مارچ کو اپنے مضمون ’’عراق جنگ کے دو سال‘‘ میں لکھا ہے کہ تیل کے تاجروں‘ بش‘ ڈک چینی اور ان کے رفقاے کار نے اپنے اہداف میں سے تین حاصل کر لیے ہیں۔ پہلا ہدف تیل کی دولت پر قبضہ تھا جو پورا ہوچکا اور وہ سارے اخراجات مع منافع یہاں سے حاصل کررہے ہیں۔ دوسرا ہدف اسرائیل کا تحفظ تھا‘ اس کے حصول کے لیے بھی وہ بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘ اور تیسرا ہدف عراق کی تقسیم تھی جو سنی‘ شیعہ اور کرد میں کردی گئی ہے۔ امریکی عوام کو اس سے کیا ملتا ہے؟ اس کا جواب بہت جلد دنیا کے سامنے آجائے گا کیونکہ تیل کی دولت تو یہ دہشت گرد امریکی حکمران خود ہی ہضم کررہے ہیں۔
وقتی طور پر تیل کی دولت پر قبضے کے باوجود ‘عراق میں امریکا کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
۱- امریکا اور بحیثیت مجموعی استعمار کی تاریخ بتاتی ہے کہ حریت پسند قوموں پر استعماری تسلط کبھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ویت نام‘ کمبوڈیا‘ کوریا‘ جنوبی افریقہ‘ الجزائر اور بہت سی دیگر مثالیں بالکل واضح ہیں۔
۲- عراق میں مزاحمت بے پناہ قربانیوں کے بعد بڑھ رہی ہے‘ کم ہونے کے دُور دُور تک آثار نظر نہیں آتے۔
۳- قابض فوجوں کے پاس قبضے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے‘ اس لیے ان کے حوصلے سارے مادی وسائل کے باوجود پست ہوچکے ہیں۔
۴- قابض فوجوں نے قیدیوں پر ابوغریب اور دیگر جیلوں میں جو ننگ ِانسانیت مظالم ڈھائے ہیں‘ عالمی راے عامہ اس پر شدید غم و غصے اور امریکا سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں خود امریکی راے عامہ بھی شامل ہے۔ امریکا کے دو ماہرین سروے ڈیموکریٹ پیٹرہارٹ اور ری پبلکن بِل میک انٹرف نے بتایا ہے کہ امریکی ووٹر عراق پر امریکی پالیسی سے نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)
اس ساری صورت حال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عراقی قوم اس آزمایش سے کندن بن کر نکلے گی۔ عراق سے مقامی آمریت کا خاتمہ تو ہوگیا ہے‘ اب بیرونی قبضہ بھی ختم ہوگا۔ اگر عراق حقیقی جمہوریت کے راستے پر چلا تو اس سے اسلامی قوتوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔
۱۵ اپریل ۲۰۰۵ء کا دن شاہ مراکش محمد السادس کے لیے خوشی کا دن تھا۔ آج اس کے پہلے اور اکلوتے بیٹے مولای الحسن کے ختنے کا جشن تھا۔ ’’خوشی‘‘ کے اس اہم موقع پر خزانے کا منہ تو کھلنا ہی تھا‘ جیلوں کے دروازے بھی کھول دیے گئے اور مراکش کی مختلف جیلوں سے ۱۷۹,۷ قیدی رہا کردیے گئے۔ پورے ملک میں مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ بادشاہ سلامت اور نومختون ولی عہد کی خدمت میں تحائف دینے کے لیے خصوصی جلوس نکالے گئے اور مملکت مراکش میں امن‘ اخوت‘ انصاف‘ جمہوریت اور ترقی کے نئے باب رقم ہوگئے۔
خوشی اور اظہارِ خوشی ایک فطری امر ہے لیکن اپنی ہاشمی نسبت پر فخر کرنے والے مراکش کے شہنشاہ نے دنیا کو اسلام کے اعتدال اور حقوقِ انسانی کی پاسداری کی عملی تصویر دکھائی ‘کسی کو یہ بے محل سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اگر صاحبزادہ صاحب کا ختنہ نہ ہوتا تو یہ ۱۷۹,۷ قیدی مزید کتنا عرصہ جیلوں میں ہی سڑتے رہتے اور یہ کہ مزید کتنے ہزار قیدی کسی ایسی ہی ’’مبارک‘‘ تقریبِ ختنہ کے منتظر رہیں گے۔
امریکا بہادر اس وقت دہشت گردی کے خلاف اپنی عالمی جنگ کے اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ عراق اور افغانستان کی طرح عسکری قبضہ بھی اس جنگ کا حصہ ہے اور نام نہاد روشن خیالی و اعتدال پسندی کی وسیع لہر بھی اس جنگ کا لازمی جزو ہے۔ عراق میں اسے کیا فتوحات ملیں اس کا جائزہ ذراآگے چل کر‘ لیکن پہلے ذرا اس کی وسیع تر جنگ کی ایک جھلک۔ یہ جنگ سیاست‘ ثقافت‘ ذرائع ابلاغ اور تعلیم کے میدان میں لڑی جا رہی ہے۔ شرق اوسط اس کا مرکزی میدان ہے لیکن اس کی حدود مراکش سے ترکی اور برعظیم تک پھیلا دی گئی ہیں۔ پالیسی ساز امریکی اس پورے خطے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ہر جگہ ایک ہی کلچر ہو‘ یکساں نظام تعلیم ہو جس میں کہیں ’’نفرت‘‘ کا پرچار نہ ہو۔ (جہاد کی فضیلت اور مشرکین و یہود کی اصل تصویر دکھانا نفرت پھیلانا ہے)۔ وسیع تر شرق اوسط میں سیاسی اصلاحات اس طور کی جائیں کہ ہر جگہ روشن خیال حکومتیں قائم ہوں۔ ان حکومتوں کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ امریکا کے خلاف نفرت کا تناسب کم ہو‘ کیونکہ اسی نفرت سے بالآخر دہشت گردی جنم لیتی ہے۔
وسیع تر اصلاحات کی ضرورت پر سب سے زیادہ زور اس وقت سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور مصر پر دیا جا رہا ہے کیونکہ سعودی عرب ’’القاعدہ‘‘ کا گڑھ اور اصل مسکن ہے۔ یہاں کا نظامِ تعلیم انتہائی بنیاد پرست ہے جس میں قرآنی آیات و احادیث نبویؐ کی بھرمار ہے۔ سعودی نوجوان براستہ شام عراق میں بھی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ شام ان سے چشم پوشی کے علاوہ فلسطینی دہشت گرد تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کو پناہ دیے ہوئے ہے اور جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کو نکال باہر کرنے والی ’دہشت گرد‘ تنظیم حزب اللہ کا پشتیبان ہے۔ شام کے تعلقات ایران سے بھی بہت مضبوط ہیں اور ایران ایٹمی اسلحہ بنارہا ہے ۔ اس سے دوستی بھی یکساں جرم ہے (البتہ عراق میں لائی جانے والی شیعہ حکومت سے ایران کے قریبی تعلقات اس وقت ہماری ضرورت ہیں‘ ان پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں)۔ مصر نے شرق اوسط کے نقشے میں رنگ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ایک تو بوڑھا حسنی مبارک اب مفلوج ہوتا جا رہا ہے اور روسی صدر بورس یلسن کی طرح عوامی تقریبات میں لڑکھڑا چکا ہے۔ دوسرے‘ مصری عوام کی اکثریت اس کے ۲۴سالہ اقتدار سے تنگ آچکی ہے۔ مضبوط تر ہوتی ہوئی اسلامی تحریکیں تو پہلے ہی سے مخالف تھیں۔ اب وہ سیکولر اور خالص امریکی لابی کا اعتماد بھی کھوچکا ہے‘ اور پھر یہ کہ مسئلہ فلسطین میں مصر کا مطلوبہ کردار اب کولہو کے بیل کا سا رہ گیا ہے۔ مخصوص غلام گردشوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ فلسطین و یہود تنازعے میں مزید کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرنے کے قابل نہیں رہا۔
امریکی پالیسی ساز اور تنفیذی مراکز آئے روز بیانات دے رہے ہیں کہ ’’خطے میں تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی ہے‘ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اکلوتی عالمی قوت ہونے کے ناطے یہ اصلاحات امریکا کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ’’افغانستان، عراق اور فلسطین میں ہونے والے انتخابات آغاز ہیں۔ اب پورے شرق اوسط میں ’آزادانہ‘ انتخابات ہوں گے‘‘۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’وسیع ترشرق اوسط میں اصلاحات ہماری دفاعی ضرورت ہیں‘‘۔ امریکا نے پٹرول کی ترسیل جاری رکھنے کے لیے تمام خلیجی ریاستوں میں اپنے مستقل فوجی اڈے قائم کر دیے‘ عراق پر براہ راست قابض ہوگیا‘ لیکن اپنا دفاع یقینی نہ بنا سکا۔ امریکا کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی نفرت کی لہر سے بالآخر ’دہشت گرد‘ گروہ جنم لیتے ہیں۔
عوامی نفرت کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی پالیسی ساز یقینا کئی تلخ حقائق تک پہنچے ہوں گے لیکن اپنی اکثر تحریروں اور تجزیوں میں نصف سچ بولنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ ان عرب ممالک میں گھٹن ہے‘ عوام کی آزادیاں مسلوب ہیں‘ اور امریکا کے حواری مسلم حکمرانوں نے اپنی اپنی ڈکٹیٹرشپ قائم کی ہوئی ہے‘ اس لیے ان کے خلاف عوامی نفرت کا بڑا حصہ خود امریکا کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر نصف مرض کا نصف علاج یہ تجویز ہوتا ہے کہ ان ممالک میں اصلاحات لائی جائیں۔ یہ اصلاحات کیا ہیں؟ اہلِ پاکستان کے لیے انھیں سمجھنا دیگر اقوام کی نسبت کہیں آسان ہے۔ امریکا پاکستان میں جامع اصلاحات کا علم بردار ہے۔ ’روشن خیال اسلام‘ سے لے کر شان دار اقتصادی ترقی کے دعووں‘ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی جیسے مخصوص میدانوں میں ٹکنالوجی کے فروغ‘ حقیقی جمہوریت کے فروغ اور ہمہ پہلو ثقافتی یلغار سمیت تمام اصلاحی اقدامات کا جادو پاکستان میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ میراتھن اور بسنت سے لے کر ایئرفورس کی پیشہ ورانہ تیاری تک‘ ہر جگہ اختلاط مرد و زن ہی کو ترقی و روشن خیالی کا لازمی جزو قرار دیا جا رہا ہے۔ فوجی وردی کو اقتدار و اختیار کا گھنٹہ گھر بنا دینے کے باوجو د دعویٰ و اصرار ہے کہ ملک میں مثالی جمہوریت کا دوردورہ ہے۔ آغا خان فائونڈیشن کی سرپرستی میں بے خدا تہذیب اور لامذہب نسلیں تیار کرنے کو تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ اور امریکی امداد کا ضامن ثابت کیا جا رہا ہے۔
کچھ ترامیم کے ساتھ یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک پر بھی مسلط کیا جا رہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز آنے والے دور میں ایران‘ عراق‘ مصر اور سعودی عرب کے علاوہ چھوٹی عرب ریاستوں کو بھی بے حد اہمیت دے رہے ہیں۔ امارات‘ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ اُردن‘ عمان اور یمن سے اہم ترین دفاعی معاہدے کیے جاچکے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اصلاحات ان ممالک میں بھی کی جارہی ہیں لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ کئی کئی عشروں سے برسرِاقتدار خاندانوں کا اقتدار باقی رہے گا۔ بلدیاتی ادارے اور نصف منتخب‘ نصف نامزد پارلیمنٹ دیکھنے کو ملیں گی۔ عوام کسی نہ کسی حد تک آزادی اظہار بھی پائیں گے۔ ذرائع ابلاغ صرف ریاستی کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ بھی اپنے ابلاغیاتی ادارے متعارف کروائیں گی۔ نوجوانوں کو مغربی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے خود ان ریاستوں میں امریکی و مغربی تعلیمی اداروں کی شاخیں قائم کی جائیں گی‘ اور امریکی ٹیکس دہندگان کو باور کروایا جائے گا کہ شرق اوسط میں آزادی و جمہوریت کا طوطی بول رہا ہے۔ رہے مصر‘ سعودی عرب اور ایران جیسے بڑے ممالک‘ تو ان میں سے ہر ملک کے لیے مختلف فارمولا وضع کرنا ہوگا۔ ایران میں اصلاحات کا اصل مقصد ایٹمی خطرے سے بچائو اور بنیاد پرستوں کے اختیارات میں کمی ہے۔ مصر میں تاریخی اور مقبول تحریک اخوان المسلمون اور سعودی عرب میں دین پسند طبقے کی بھاری اکثریت کی وجہ سے ادھوری جمہوریت کا سفر بھی امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے جائزہ لیا جارہا ہے کہ کہاں کس خطرے کو برداشت کرلینا کم نقصان دہ ہے۔
شرق اوسط میں اصلاحات کے اس سفر میں جہاں حکومتوں پر دبائو‘ اپنی فوجی قوت کی نمایش‘ صدام حسین کی تصویریں دکھا دکھا کر اس کے انجام تک پہنچا دینے کی دھمکی اور ’’جو ہمارے ساتھ نہیں ہمارے خلاف ہے‘‘ کا فارمولا آزمایا جا رہا ہے‘ وہیں غیر حکومتی تنظیموں کے وسیع تر ہوتے ہوئے جال کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ذریعے حکومتی ایوانوں تک رسائی کے علاوہ ان ممالک میں پائے جانے والے ایسے عناصر کو مالی طور پر نوازا اور متحرک کیا جا رہا ہے جو گھر کے بھیدی ہونے کا مقام و مرتبہ پاسکیں۔ یہ عناصر صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ دانش وروں اور یونی ورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ بے روزگار و غیرمطمئن نوجوان بھی ہوسکتے ہیں۔
شرق اوسط میں اصلاحات کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے لیکن اس میں سرفہرست عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ فلسطین کے حالات بھی کم گمبھیر نہیں اور جب تک فلسطین‘ کشمیر‘ جنوبی سوڈان جیسے تنازعے اپنے یا اپنے حلیفوں کے مفادات کے مطابق حل نہیں کرلیے جاتے‘ نوجوانوں میں جہاد کا جذبہ سرد نہیں کیا جاسکتا۔ عراق میں اگرچہ ’’انتخابات کے انگاروں پر جمہوریت کا ماتم‘‘ کیاجاچکا ہے لیکن وہاں مزاحمت کا جِن واپس بوتل میں بند کرنا فی الحال کسی دنیاوی طاقت کے بس کی بات نہیں ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالۃ الاخوان نے البصرہ نیٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو امریکی ریٹائرڈ فوجیوں کے ایک تحقیقی سنٹر نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق میں زخمی یا اپاہج ہوکر کسی فوجی خدمت کے لیے ناکارہ ہوجانے والے فوجیوں اور ’’فوجنوں‘‘ کی تعداد ۴۸ ہزار ۷ سو ۳۳ ہوچکی ہے‘ جب کہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجانے والوں کی تعداد بھی ۱۲ہزار ۴ سو ۲۲ ہے۔ اس جنگ میں ہلاک ہوجانے والوں کی تعداد پینٹاگون نے ۱۵۰۰ بتائی ہے لیکن اس رپورٹ کے تیار کرنے والوں نے وزارت دفاع سے سوال کیا ہے کہ اگر دیگر ذرائع کے اصرار پر یقین نہ بھی کیا جائے کہ امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ حملے روزانہ ہے اور آپ کی بات پر اعتبار کر لیا جائے کہ روزانہ حملوں کی تعداد ۸۰سے ۱۲۰حملے ہے‘ تب بھی ۱۵۰۰ کی تعداد‘ حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ ان سابق فوجیوں کے مطابق مرنے والے امریکیوں کی تعداد اب تک ۲۰ ہزار سے متجاوز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی اقتصادیات کی صورت بھی دگرگوں ہے۔ ۱۹۷۱ء میں امریکی بجٹ میں خسارہ چھے ارب ڈالر کے قریب تھا جو ۱۹۹۳ء میں ۳۴۰ ارب ڈالر ہوگیا۔ کلنٹن کے دور میں عراق کویت جنگ کا اسلحہ خلیجی ریاستوں کے سرتھوپ دینے کے باعث یہ خسارہ ۶۰ ارب ڈالر رہ گیا لیکن بش جونیئر کے زمانے میں پھر یہ خسارہ ۳۰۰ ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ عراق میں بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات کے باعث یہ خسارہ آیندہ برس ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ (رسالۃ الاخوان‘ شمارہ ۴۰۹‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ)
اس عراقی صورت حال کے تناظر میں خود امریکی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ فی الحال امریکی اصلاحات کا سفر کسی کھلی شاہراہ کے بجاے اندھیاری پگڈنڈیوں پر ہی جاری رہے گا۔ البتہ گاہے بگاہے دنیا کو روشن خیالی اور عالمِ عرب میں جمہوریت و آزادیوں کی خبریں چھن چھن کر ملتی رہیں گی۔امریکا بہادر اعلان کرتا رہے گا کہ مراکش اور چھوٹی عرب ریاستوں کا سفرِ جمہوریت خوش آیند ہے۔ دوسروں کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اپنے عوام کو قید سے رہائی دینی چاہیے‘ خواہ ہزاروں لوگوں کی یہ رہائی ’’تقریبات ختنہ‘‘ ہی سے مشروط کیوں نہ ہو۔
رفیق بہاء الدین الحریری نے لبنان کے ایک غریب کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں صیدا شہر کے گردونواح میں لیموں اور مالٹے کے باغات میں پھل چننے کا کام کرتا رہا‘ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ لبنان کے اخبار النہار میں چھوٹی سی ملازمت کرتا رہا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی دولت سے نوازاکہ ۳۰ سال کے بعد اسی اخبار کا مالک بن گیا‘ پھر ’’المستقبل‘‘ نامی سیٹلائٹ چینل ، المستقبل اخبار اور دنیا بھر میں ہوٹلوں‘ تعمیراتی کمپنیوں‘ بنکوں‘ جہازوں اور اسٹاک ایکسچینج کی بے شمار دولت کا مالک بنا اور دنیا میں چوٹی کے مال دار ترین ۱۰۰ افراد میں ۵۴ویں نمبر پر آگیا۔
۱۹۷۳ء میں پٹرول کے عالمی بحران کے وقت رفیق الحریری سعودی عرب میں تھا۔ مختلف تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے آگے بڑھتے بڑھتے شاہی خاندان سے تعلقات استوار ہوچکے تھے۔ شہزادہ فہد بن عبدالعزیز سے ذاتی دوستی ہوگئی تھی اور کئی سرکاری ٹھیکے بھی مل رہے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں شاہ خالد بن عبدالعزیز نے کانفرنس پیلس بنانے کا ٹھیکہ دیا جو الحریری نے چھے ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کر دیا اور پھر ہر جانب سے ہُن برسنے لگا۔ ۱۹۷۸ء میں ایک نادر المثال تکریم کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ لبنانی رفیق الحریری کو سعودی شہریت دے دی گئی‘ اور پھر لبنانی نژاد سعودی ساہوکار ’’حی الورود‘‘ پھولوں کی بستی میں اپنے محل ’’قصرالحریری‘‘ کا باسی ہوگیا۔
۱۹۷۶ء میں لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا‘ اور ۱۷ سال تک لبنان میں وہ خونریزی ہوئی کہ ’’لبنانائزیشن‘‘ کا لفظ خانہ جنگی‘ باہمی قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا مترادف لفظ بن کر ڈکشنریوںمیں لکھا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں سعودی عرب کے شہر طائف میں شاہ فہد بن عبدالعزیز کی دعوت پر تمام متحارب لبنانی فریق جمع ہوئے اور لبنان میں مصالحت کی لاتعداد کوششوں کے بعد بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔ معاہدئہ طائف ایک نئے لبنان کی بنیاد بن گیا۔ اہم حکومتی عہدے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اب اگر لبنان کا صدر مارونی مسیحی ہے تو وزیراعظم سنی اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ معاہدئہ طائف پاکستان کے ۷۳ء کے دستور کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے۔ رفیق الحریری بھی سنی وزیراعظم کی حیثیت سے حکمران رہے۔ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے ان کا سرمایہ اور وسیع بین الاقوامی تعلقات ان کا اصل ہتھیار تھے۔ ان کی شخصیت اور سوچ کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے متعدد افراد کو سعودی عرب میں تعمیروترقی میں اضافے کے لیے مشورے دینے کے لیے کہا تو رفیق الحریری کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں سعودی عرب کی اقتصادی ترقی کی تصویر اجاگر کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کے دنیا کے اربوں ڈالر کا رخ اپنی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘۔ شاید اسی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے حریری نے امریکا کے شہر بوسٹن میں بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن کالج کی تعمیر کے لیے ۲۵ ملین ڈالر کا عطیہ دیا۔
لبنان میں متفق علیہ قومی فارمولے کے مطابق امور مملکت چلائے جا رہے تھے۔ اپوزیشن بھی فعال رہی ہے لیکن ایسا شاذونادر ہوا کہ کوئی لاینحل بحران اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضہ طویل جہاد کے بعد ختم کروا لیا گیا۔ بلدیاتی اور قومی انتخابات بھی ہو رہے تھے‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد لبنان میں جو سیاسی بحران اٹھے‘ رفیق الحریری کا قتل ان کا نقطۂ عروج ہے۔ لبنان میں شامی افواج گذشتہ ۲۹ سال سے موجود ہیں۔ لبنان اور شام کے تعلقات عملاً دوقالب یک جان کے مترادف ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہری بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے لبنان میں تجارت یا ملازمت کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو لاحق صہیونی خطرے کے مقابلے کے لیے بھی دونوں یک جا ہیں۔ لبنان میں داخلی و خارجی امن میں مدددینے کے لیے ۱۵ ہزار سے زائد شامی افواج لبنان میں ہی رہتی ہیں۔ انٹیلی جنس کا نظام مستزاد ہے۔ معاہدئہ طائف میں بھی شامی افواج کی موجودگی کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ شامی افواج وادیِ بقاع میں رہیں گی۔
امریکا کی طرف سے شام‘ اس کی افواج اور اس کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں پہلے بھی بارہا تان اٹھائی جاتی تھی‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اس کی لَے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ لبنانی اپوزیشن نے بھی لبنان سے شامی افواج کی واپسی اپنا ہدف اولیں قرار دے دیا۔ امریکا سے گہرے تعلقات رکھنے والے وزیراعظم رفیق الحریری نے بھی اسی نہج پر کام شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اس کے بجاے سابق وزیراعظم عمر کرامے کو وزیراعظم چن لیا گیا اور الحریری کھل کر شام پر تنقید کرنے لگا۔ دُرزی (فرقۂ دروز کے) رہنما ولید جنبلاط تو پہلے ہی شمشیربرہنہ تھا اب سرمایہ دار حریری بھی ان سے آملا۔ ستمبر ۲۰۰۴ء میں سلامتی کونسل نے شام کے خلاف قرارداد ۱۵۵۹ منظور کرتے ہوئے اسے لبنان سے افواج نکال لینے کاکہا۔ یہ قرارداد منظور کروانے میں فرانس اور امریکا پیش پیش تھے اور رفیق الحریری نے اپنے ذاتی دوست صدر شیراک اور دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر اس قرارداد کی منظوری میں فعال کردار ادا کیا۔
الحریری نے شام نواز لبنانی صدر امیل لحود کو ہٹانے اور ایک ایسا صدر لانے کی بھی کوشش کی جو شامی افواج کو نکالنے کا کام انجام دے‘ لیکن لبنانی حکومت نے شامی اثرونفوذ کے سائے میں دستوری ترمیم کرتے ہوئے لحود کے عرصۂ صدارت میں تین سال کا اضافہ کر دیا۔
اس سارے پس منظر میں جب ۱۴ فروری ۲۰۰۵ء کو بیروت کے قلب میں دن دہاڑے رفیق الحریری کا پورا قافلہ نامعلوم دھماکے کا شکار ہوا تو پہلے ہی ثانیے سے اس قتل کا الزام شام پر لگنا شروع ہوگیا۔ جرمن اخبارات‘ ایک ہسپانوی اور ایک فرانسیسی اخبار کے علاوہ باقی تمام عالمی میڈیا حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کو ٹھیرانے لگا اور پھر جیسے جیسے تدفین کے لمحات قریب آتے گئے‘ قتل کا الزام پیچھے رہ گیا اور لبنان سے انخلا کا مطالبہ سرفہرست آگیا۔ امریکا نے فوراً ہی دمشق سے اپنی سفیرہ کو واپس بلالیا‘ امریکی نائب وزیرخارجہ اور کئی عالمی رہنما بیروت پہنچنے لگے‘ اور صدر بش گویا ہوئے:’’شام لبنان سے اپنا استعماری قبضہ ختم کرے۔ لبنانی عوام کو آزادی سے جینے کا حق ہے‘‘۔ لبنانی اپوزیشن نے حریری کے جنازے میں جمع ہونے والے لاکھوں شہریوں کے جلوس کو ’’انتفاضہ الاستقلال‘‘قرار دے دیا اور حریری کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔ ولد جنبلاط کے الفاظ میں: ’’لبنان کی آزادی اور بالادستی کے لیے بیرونی جمہوری طاقتوں سے استعانت بھی جائز ہے۔ ہم باہر سے بھی مدد لیں گے۔ اب ہم ہر پابندی سے آزاد ہیں‘‘۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ارشاد فرمایا: ’’لبنانی عوام کو دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے سے آزادی ملنی چاہیے‘‘۔
رفیق الحریری کے مجرمانہ قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے سوا ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ یہ قتل کس نے کیا ہے اور قطع نظر اس کے کہ اس میں شام ملوث ہے یا نہیں‘ کسی بھی طرح کی تحقیقات سے پہلے تمام تر الزام شام پر لگاتے ہوئے پورا مغرب اس پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ لبنان سے نکل جائے۔ لیکن کیا صرف شامی افواج لبنان سے نکال لیے جانے پر یہ عالمی دبائو ختم ہوجائے گا؟ قطعاً نہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا جملہ ہی دیکھ لیجیے:’’…دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے کا خاتمہ‘‘۔ دہشت گردی سے ان کی مراد شام کا شیعہ لبنانی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ سے تعاون‘ حماس کی قیادت کو دمشق میں پناہ دینا‘ اور عراق میں جاری تحریک مزاحمت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ شام لاکھ انکار کرے اور ہزار مطالبات پورے کر ڈالے عراقی و فلسطینی مزاحمت کی سرپرستی کے الزام سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ اسی الزام کی آڑ میں شامی ایٹمی اسلحے کی تیاری کے امکانات کا خاتمہ‘ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کروانا‘ اور ایران سے قطع تعلق کرتے ہوئے خطے میں امریکی و صہیونی منصوبوں کی تکمیل میں شریک کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے۔
دہشت گردی کے اس بڑے واقعے کے فوراً بعد صہیونی وزیراعظم شارون نے سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۵۵۹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے لبنان سے شامی فوجیں نکالے جانے کو شام کے ساتھ کسی بھی گفتگو کے لیے شرط اولیں قرار دیا۔ اس کے وزیرخارجہ سلفان شالوم نے بھی حادثے کے لمحۂ اول سے شام کو اس کا مرتکب اور ذمہ دار قرار دیا۔ ایک بڑے صہیونی روزنامے معاریف نے حادثے کے اگلے ہی روز (۱۵ فروری) کو تل ابیب یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخِ مشرق وسطیٰ کے سربراہ پروفیسر ایال زیسر کے ایک مضمون میں لکھا: ’’صورت حال جو بھی ہو شام کو قتل کے اس واقعے کی قیمت چکانا ہوگی‘ خواہ عملاً اس واقعے کے پیچھے اس کا ہاتھ نہ بھی ہو‘‘۔ باعث حیرت و افسوس امر یہ ہے کہ شام پر عالمی دبائو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ صدر بش نے برسلز میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لبنان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ پورے خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ لیکن خطے کے تمام ممالک لاتعلق بیٹھے ہیں۔
اخوان المسلمون کو شام میں بڑی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے‘ اب بھی ان کے ہزاروں کارکنان و قائدین ملک بدر‘ گرفتار یا لاپتا ہیں‘ لیکن اخوان نے اپنے بیان میں شام کے خلاف تمام امریکی و اسرائیلی منصوبوں اور سازشوں کو مسترد کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حساس موقعے پر خاموش تماشائی نہ رہیں‘ شام کو تنہا نہ چھوڑیں اور صورت حال کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھیں۔
رفیق الحریری کے قتل کو بجا طور پر مشرق وسطیٰ کا سونامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات لبنان یا شام تک محدود نہیں رہیں گے۔ صدر بش کے الفاظ میں یہ سب: ’’خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اٹھانا چاہے گا تاکہ حماس‘ حزب اللہ‘ جہاد اسلامی اور الفتح کے جہادی عناصر کا قلع قمع کردے۔ اس حادثے کے ذریعے امریکا بھی وہ تمام مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جن کے حصول کے لیے وہ شام پر فوجی حملے کی دھمکیاں دیتا اور تیاریاں کرتا آرہا ہے‘ لیکن عراقی دلدل میں دھنس جانے کے باعث عمل درآمد نہیں کرپارہا۔ حصولِ مفادات کی لمبی فہرست کے اس تناظر میں تجزیہ نگار یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حریری کے قتل کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ کیوں نہیںہوسکتا۔ آخر اپنے ہر حلیف کو بالآخر ٹھکانے لگانا بھی تو ان دونوں کی سرشت میں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں کہ جب قربانی کے اس بکرے کے ذریعے کئی دیگر اہداف کو شکار کرنا مقصود ہو۔ اب امریکا کے لیے اصل پریشانی یہ ہے کہ حریری کے قتل کو دو ہفتے گزرنے اور شام کو عالمی دھمکیوں کا ہدف بنادینے کے باوجود بھی عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی۔
بلڈوزر نے گندے پانی کے جوہڑ سے ملبہ نکال کر ہمارے سامنے لاپھینکا۔میں اس بلڈوزر کی تصویر لینا چاہتا تھا۔ چند قدم آگے بڑھا تو شدید بدبو میری ناک سے آٹکرائی حالانکہ میں نے ناک پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ ناگواری کے احساس کے ساتھ میں نے اس ملبے پر نظر دوڑائی جو ابھی ابھی میرے سامنے ڈالا گیا تھا۔ کچھ سیمنٹ‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لکڑیاں اور کچھ گلی سڑی سی چیز ایک ڈھیر کی صورت میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تویہ تین انسانوں کی لاشیں تھیں اور ان سے ناقابلِ برداشت حد تک بدبو اٹھ رہی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ڈائسیکشن ہال میں مُردوں کی چیرپھاڑ تو میں دیکھ ہی چکا تھا مگر بلامبالغہ اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ کچھ لمحات تک تو میں سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کیا ہے۔
الخدمت فائونڈیشن پاکستان اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا پانچ رکنی وفد ڈاکٹرمحمد اقبال خان کی سربراہی میں ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کو بنڈہ آچے انڈونیشیا‘سونامی کے متاثرین کی امداد و بحالی کے کام میں تعاون کے لیے پہنچا۔ راقم اس وفد کا رکن تھا۔
آج بنڈہ آچے میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہم اُس علاقے کا دورہ کرنا چاہتے تھے جو سونامی طوفان کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ طوفان کو آئے ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ حدِنگاہ تک تباہ شدہ مکانات‘ گاڑیوں اور کشتیوں کے ڈھیر جن کے ملبے تلے لاشیں دب چکی تھیں اور کہیں کہیں کٹے ہوئے انسانی اعضا بھی نظرآجاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کو دم لینے کی بھی مہلت نہ ملی ہو‘ اور جو جس حال میں تھا وہیں موت سے ہمکنار ہوگیا۔
ہماری گاڑی آہستہ آہستہ اس ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں سے یہ قیامت خیز سمندری طوفان زمین پر چڑھ آیا تھا۔ ہمارے ساتھی نے ایک مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اس مکان کی دوسری منزل سے ایک کٹا ہو انسانی بازو لٹک رہا تھا۔ یہ منظر اس پورے طوفان کی منظرکشی کے لیے کافی تھا۔ معلوم نہیں مرنے والا اپنے آخری لمحات میں جدوجہد کے کن مراحل سے گزراہوگا۔ اس طرح کے دہشت ناک مناظر قدم قدم پر نظرآرہے تھے۔
جب ہم ساحلِ سمندر پر پہنچے توسمندر کے خاموش پانی سے بھی خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ یہیں ساحل پر ایک خوب صورت مسجد بنی ہوئی تھی‘ جس کی چند جالیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ لیکن عمارت جوںکی توں موجود تھی۔ مسجد کے اندر ریت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اس مسجد کے امام نے واقعے کی تفصیلات سنائیں۔ ان کے کہنے کے مطابق طوفان والے روز وہ حسبِ معمول فجر کی نماز پڑھا کر تقریباً سات بجے تک مسجد میں موجود رہے۔ پھر وہ اپنی موٹرسائیکل پر شہر کی جانب چل پڑے اور کچھ دور جاکر ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پینے کے لیے رکے۔ اسی دوران زلزلے کے شدید جھٹکے آنے لگے۔ وہ فوراً موٹرسائیکل لے کر اپنے گھر کی خیریت معلوم کرنے کے لیے دوڑے۔ اسی وقت ان کو طوفان آنے کی اطلاع ملی تو وہ واپس اپنی مسجد کی طرف پلٹے‘ لیکن اس وقت تک پانی شہر کے مرکز میں واقع مسجد بیت الرحمن تک پہنچ چکا تھا۔ پانی تقریباً ساڑھے سات سو کلومیٹر کی رفتار سے تقریباً ۱۰میٹر کی بلندی تک آیا اور زلزلے سے نیم تباہ شدہ مکانات اور دیگر تنصیبات کو ناقابلِ شناخت حد تک برباد کر گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق پانی کا زور مسجد بیت الرحمن کے سامنے آکر ٹوٹا جو ساحل سے سات کلومیٹر دور شہر کے وسط میں ہے۔ یہ مسجد انڈونیشیا کی اوّلین مساجد میں سے ہے اور اسے یہاں کے مقامی سلطان نے قبولِ اسلام کے بعد تعمیر کروایا تھا جس کے ساتھ ہی آچے کی ساری قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آچے کو مکہ کا برآمدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں اسلام سب سے پہلے پہنچا۔ اسلام کی جڑیں آچے میں انتہائی گہری ہیں اور یہاں کی مقامی حکومت نے اس صوبے میں شریعت نافذ کر رکھی ہے۔ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی طاقتیں اس دولت کو انڈونیشیا کے ہاتھ میں دے کر اسے مضبوط نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے نزدیک آچے کو الگ کرکے برونائی کی طرح ایک نرم و نازک سلطنت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن انڈونیشیا کو آسٹریلیا کے مقابلے میں انتہائی کمزور رہنا چاہیے۔
بنڈہ آچے‘ آچے کا دارالحکومت ہے (بنڈہ کے معنی بندرگاہ کے ہیں)۔ یہ شہر سونامی سے بری طرح برباد ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تباہی سماٹرا کے جنوبی ساحل پر موجود شہروں میں ہوئی ہے جہاں ملابونامی بڑا شہر تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے لیکن وہاں اموات کم واقع ہوئی ہیں۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر صائفہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں ان کے بزرگوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ جب اس قسم کا زلزلہ آئے تو فوراً پہاڑوں کی طرف بھاگو۔ زلزلہ آتے ہی لوگ اونچے مقامات کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ دیر بعد سمندر نے ان کے شہر کو نگل لیا۔ سماٹرا کے جنوبی شہروں تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے کیونکہ سڑکیں اور بندرگاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ علاقے مدد کے سب سے زیادہ محتاج ہیں‘ مگر تمام بین الاقوامی امداد بنڈہ آچے میں آکر ڈھیر ہو رہی ہے اور بیش تر این جی اوز صرف تصویریں کھچوا کر اور اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کر کے واپس جارہی ہیں۔ یہاں کے لوگ سفیدفام قوموں کو پسند نہیں کرتے اور کسی بھی مسلمان ملک کی امداد پر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نام سن کر ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔
ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں نے مقامی ملٹری ہسپتال میں کئی پیچیدہ آپریشن کیے اور شدید بیمار بچوں کو بروقت طبی امداد پہنچائی۔ یہاں میں اُس مریض کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا‘ جس کی ٹانگ ہمارے ڈاکٹروں کی بروقت مداخلت سے بچا لی گئی‘ وگرنہ آسٹریلیا کے ایک سرجن اس کو بے کار قرار دے کر کاٹنے کے درپے تھے۔ ہسپتال کے انچارج نے پاکستانی ڈاکٹروں کی تعریف کی۔ انھوں نے ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں سے سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
جمعے کے روز ہم مسجدِبیت الرحمن پہنچے‘ جو اس روز طوفان کے بعد پہلی دفعہ کھل رہی تھی۔ یہاں سے ۴۰۰ لاشیں برآمد کی گئی تھیں جو پانی میں تیر رہی تھیں۔ آج مسجد بالکل صاف ستھری اور بدبو سے پاک تھی البتہ مسجد کا مینار شکستہ حالت میں گزری ہوئی تباہی کا پتا دے رہا تھا۔ یہ مسجد اس شہرکا مرکز ہے اور مقامی لوگوں کی اسلام دوستی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ مسجد سب سے پہلی عمارت تھی جو طوفان سے متاثر ہونے کے بعد بحال کی گئی۔ مسجد میں بے پناہ رش تھا۔ لوگ بہت جوش وخروش سے نماز پڑھنے آرہے تھے۔ امام صاحب نے اپنے خطبے میں گناہوں پر معافی مانگنے اور اللہ کی طرف پلٹنے پر زور دیا۔
بنڈہ آچے میں دو روز ہم انڈونیشیا کی ریڈ کریسنٹ کے ہسپتال میں مقیم رہے۔ تیسرے روز ہم نے ایک مکان کرائے پر لے کر اس میں اپنا مستقل مرکز قائم کرلیا۔ آنے والے گروپوں کے لیے تو ہم نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مناسب انتظامات کرلیے‘ مگر خود ہم انتہائی سخت حالات سے گزرے۔ سب سے بڑی مشکل خوراک کی تھی۔ تقریباً ایک ہفتہ ہم نے صرف پھل کھا کر گزارا کیا۔ کیونکہ اس کے علاوہ کھانے کی کوئی چیز شہر میں دستیاب نہ تھی۔ مقامی خوراک پاکستانی ذائقے سے بالکل مختلف تھی اور ایک نوالہ بھی حلق سے نہ اترتا تھا۔ دوسری مشکل آرام کی تھی۔ مچھر وافر تعداد میں موجود تھے۔ ایک خاص قسم کی چھپکلی جسے وہ لوگ ’کوکے‘ کہتے تھے (کیونکہ وہ کو اور کے کی آواز نکالتی تھی) رات کے پچھلے پہر انتہائی بلند آواز نکالنا شروع کر دیتی تھی۔
بنڈہ آچے کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ہماری موجودگی میں بھی دو مرتبہ زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ہر جگہ انڈونیشیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ عارضی طور پر کام کر رہے ہیں جو مقامی حالات سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ بیشتر جگہوں پر غیرملکی این جی اوز نے اپنا راج قائم کر رکھا ہے۔ آچے میں موجود علیحدگی پسند تحریک کی بنا پر تمام غیرملکی این جی اوز کو مارچ کے وسط تک آچے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی غیرملکی فوج کو آچے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ صرف ملائشیا کی فوج ہمارے جانے سے ایک روز پہلے ایک معاہدے کے تحت شہر میں داخل ہوئی اور نظام سنبھالنا شروع کر دیا۔ ملائشیا کو تعمیراتی میدان میں مہارت حاصل ہے۔ ہماری آچے میں موجودگی تک جو مشینری اور افرادی قوت شہر کی صفائی کا کام کر رہی تھی وہ ناکافی تھی۔
واپسی پر ہم جکارتا کے لیے روانہ ہوئے تو دن کا وقت تھا۔ ائرپورٹ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ تقریباً دو گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ہماری باری آئی۔ جہاز واپسی کے لیے اڑا تو نیچے حدِّنگاہ تک سبزہ نظر آرہا تھا۔ ساحلوں پر تباہی جہاز سے بھی دکھائی دے رہی تھی مگر ساحل سے ہٹ کر اندر کا علاقہ بہت خوب صورت تھا۔
جکارتا میں آخری دن انتہائی مصروف تھا۔ اس دن ہم نے بچی ہوئی نقد رقم سے ایک بڑی ایمبولینس خریدی اور اسے انسانی کمیٹی برائے آچے (انڈونیشین ہیومینیٹیرین کمیٹی KKIA) کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے تقریباً ۲۰ لاکھ روپے کی ادویات ان کے حوالے کیں۔ ڈاکٹرطوطی علویہ صدارتی امیدوار کی یونی ورسٹی میں یتیم خانے کا دورہ کیا۔اس یتیم خانے میں ایک ہزار آچے سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
’ہدایت عبدالواحد‘ یہاں کی جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی کے لیڈر ہیں اور ہمارے ساتھ نظریاتی مطابقت رکھتے ہیں۔ آج کل وہ پارٹی صدارت چھوڑ کر پارلیمنٹ کے اسپیکرہیں۔ انھوں نے ہمارا خیرمقدم کیا اور قاضی حسین احمد صاحب کے لیے سلام کہا۔
رات کو الوداع کہتے ہوئے ہمارے میزبان کی آنکھوں کے آنسو یہ پیغام دے رہے تھے کہ پاکستانیوں سے کہنا کہ ہم ایک ہی قوم ہیں اور ایک نہ ایک دن ہم یہ سرحدیں مٹاکر ضرور ایک ہوجائیں گے!
بالآخر سوڈان پر مسلط کردہ ۲۲ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۲۰۰۵ء کو کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول‘ متعدد افریقی سربراہوں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں سوڈانی حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے بعد اب جنوبی لیڈر جون گرنگ‘ صدر عمر حسن البشیر کے ساتھ سینئر نائب صدر مملکت کے طور پر کام کریں گے۔ نائب صدر دوم شمالی سوڈان سے لیا جائے گا۔ تمام وزارتیں ایک مخصوص تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ حکومتی پارٹی اور گرنگ کی پیپلز موومنٹ کے علاوہ کچھ وزارتیں دیگر پارٹیوں کے لیے بھی مخصوص کی جائیں گی اور ایک نیم قومی حکومت چھے سال کا عبوری دور شروع کرے گی۔ اس عبوری دور کے لیے ایک عبوری دستور‘ تاریخ معاہدہ کے چھے ہفتے کے اندر اندر منظور ہوگا‘ جس کے تحت سینئرنائب صدر کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ملک کے تمام وسائل شمال و جنوب میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہوں گے اور چھے سال کے بعد انتخابات کے ذریعے اہلِ جنوب کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک الگ ریاست کے طور پر۔
جنوبی حصہ‘ سوڈان کے کل رقبے ۲۵ لاکھ ۵ ہزار ۸ سو ۱۰ مربع کلومیٹر کا تقریباً ۲۸ فی صد‘ یعنی ۷ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا زیادہ تر (۶۳ فی صد) حصہ گھنے جنگلات یا چراگاہوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ ۳۰ فی صد علاقہ زرخیز زرعی اراضی پر۔ جنوبی آبادی‘ سوڈان کی کل آبادی (۳ کروڑ ۳۶ لاکھ) کا صرف ۱۰ فی صد ہے‘ جن کی زبان ۱۲ مختلف لہجوں پر مبنی ہے‘ جب کہ افریقی اور عربی زبان کا ایک مخلوط لہجہ پوری آبادی کی مشترکہ زبان ہے۔ اگرچہ مشہور یہی کیا جاتا ہے کہ جنوب میں عیسائی اکثریت ہے اور عیسائی علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے لیکن وہاں عیسائیوں کا تناسب صرف ۱۷ فی صد ہے‘ مسلمان آبادی کا تناسب ۱۸ فی صد ہے‘ جب کہ ۶۵ فی صد آبادی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ مختلف بتوں اور ارواح پر یقین رکھتی ہے۔
اگرچہ جنوبی قبائل کی شمالی سوڈان سے بغاوت و لڑائی ۱۹۶۲ء سے شروع ہے جو ۱۹۷۲ء میں صدر جعفر نمیری کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ۱۱سال تک بند رہی۔ اس وقت بغاوت کی قیادت ’’انیانیا‘‘ کررہا تھا لیکن ۱۹۸۳ء میں جب جعفر نمیری نے نفاذ شریعت اسلامی کا اعلان کیا تو نئے باغی لیڈر جون گرنگ نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا جو ۹جنوری کے معاہدے سے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی کے بیج سوڈان پر برطانوی استعمار کے وقت سے ہی بو دیے گئے تھے اور اس کے لیے برطانوی حکمرانوں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی۔
حالیہ مصر اور سوڈان کی سرزمین خلافتِ عثمانیہ ہی کا حصہ تھی مگر ۱۸۸۱ء میں اس نے بغاوت کردی۔ ۱۸۹۹ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کا مشترکہ انتظام سنبھالا اور سوڈان میں عملاً انگریزی اقتدار قائم ہوگیا۔ تب ہی سے انگریز نے جنوبی سوڈان سے شمالی سوڈان کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت جنوب میں مصری افواج‘ مصر اور شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اور تاجروں کی ایک معتدبہ تعداد تھی۔
برطانوی راج نے پوری منصوبہ بندی سے آہستہ آہستہ ان تینوں عناصر کو جنوب سے نکالنا شروع کر دیا۔ عربی زبان کے بجاے مقامی زبانوں کو فروغ دینا شروع کر دیا‘ عیسائی مشنریوں کے اسکول کھول دیے اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کو اتوار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد ۱۹۱۰ء میں شروع ہوا اور ۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنوب سے شمالی سوڈان کی افواج کا آخری سپاہی بھی نکل گیا‘ جس کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہفتہ وارچھٹی جمعہ سے اتوار میں بدل دی گئی (پاکستان میں جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے مسئلے کو استہزا و خفت پن کا شکار کرنے والے متوجہ ہوں)۔
وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی راج نے جنوب و شمال کی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ ۱۹۱۹ء میں لارڈ ملنر کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد متعدد سفارشات و دستاویزات پیش کیں۔ جنوبی سوڈان کے حوالے سے تین دستاویزات بہت اہم تھیں۔ ان میں سے ۱۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کمیٹی صراحت کے ساتھ سفارش کرتی ہے:’’حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو حتی المقدور اسلامی اثرات سے دور رکھا جائے۔ اس علاقے میں سرکاری ملازمین غیرمسلم سیاہ فام ہوں اور اگر ملازمین باہر سے منگوانا ضروری ہو تو مصر کے قبطی مسیحی لائے جائیں۔ جمعہ کے بجاے اتوار کی چھٹی لازمی کر دی گئی ہے اور عیسائی مشنریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘‘۔
عربی زبان کو جنوب سے بے دخل کرنے کے لیے یہ حجت گھڑی گئی کہ: ’’یہاں متعدد زبانیں رائج ہیں۔ اس لیے اہلِ جنوب کو کسی مشترکہ مقامی زبان کی تعلیم دینی چاہیے اور جب تک یہ مقامی زبان باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہوجاتی‘ انگریزی کو مشترک زبان کے طور پر رائج کیا جاتا ہے‘‘۔ عربی زبان کے بارے میں برطانوی سول سیکریٹری میک مائیکل نے بلاجھجک و تردد کہا کہ: ’’جنوب میں عربی زبان کوبدستور قبول کیے رکھنے سے یہاں اسلام پھیلے گا اور ’’متعصب شمالی سوڈان‘‘ (یعنی مسلمان آبادی)کو اتنا ہی مزید رقبہ مل جائے گا جتنا اب اس کے پاس ہے‘‘۔
اس پورے پس منظر اور حالیہ طویل خانہ جنگی کے بعد اب یہ معاہدہ طے پایا ہے تو پورے سوڈان نے سکھ کا سانس لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشات بھی بہت سنگین ہیں کہ کیا یہ معاہدہ حقیقی صلح اور سوڈان کی تعمیروترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا؟ معاہدے پر دستخط سے پہلے طرفین کے درمیان تقریباً تین سال مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس پورے عرصے اور پورے عمل میں امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک مکمل شریک رہے ہیں۔ امریکا کی حالیہ سوڈانی حکومت سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جنوبی باغیوں کی مدد میں وہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں‘ تو کیا اب واقعی سوڈان اور اس کے نظام کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا اس ماہیت قلبی کا سبب یہ خدشہ بنا ہے کہ سوڈان میں دریافت ہونے والا تیل اب چین کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘ اور اس کا راستہ روکنا ضروری ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیرکا انقلاب آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا گیا‘ لیکن سوڈانی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب مذاکرات و افہام و تفہیم سے اختلافات پاٹنے اور ’’زہر‘‘ کم کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر اندر جاکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جائے؟
حقیقت جو بھی ہو‘ خدشات و امکانات کا ایک وسیع باب کھل گیا ہے۔ یورپ و امریکا سمیت اگر طرفین نے باہم اعتماد کو فروغ دیا تو سوڈان کا استحکام‘ وہاں کی زرخیز سرزمین اور وافر تیل پورے خطے کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ لیکن ۲۴ جنوری کا جون گرنگ کا یہ بیان تشویش ناک ہے کہ ’’عبوری دور میں اقوام متحدہ کی طرف سے ۱۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرتے ہوئے چین‘ ملایشیا اور پاکستان کی افواج کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ کیونکہ اول الذکر دونوں ممالک کا مفاد سوڈان کے تیل سے وابستہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کینیا سمیت کئی ممالک سوڈان فوجیں بھجوانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔
ان خدشات کے حوالے سے راقم کو سوڈانی صدر سمیت متعدد ذمہ داران سے گفت و شنید کا موقع ملا تو انھوں نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا کہ: ’’جنگ بند کروانے میں کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے‘ اور جہاں تک خدشات کا تعلق ہے توگذشتہ ۱۵ سال میں سوڈان میں جو نظام تشکیل دیا جا چکا ہے وہ کسی کے اندر آبیٹھنے یا باہر چلے جانے سے متاثر نہیں ہوگا۔
ایک اور اہم پہلو جس کے بارے میں سوڈان کے ہر خیرخواہ کو تشویش ہے وہ سوڈانی حکمران پارٹی کے باہمی اختلافات ہیں جن کے نتیجے میں ایک پارٹی دو پارٹیاں بن گئیں اور ڈاکٹر حسن ترابی کو پس دیوار زندان بھیج دیا گیا۔ باہم لڑائی کبھی بھی کسی ایک فریق کی تقویت کا باعث نہیں بنتی۔ اس مرحلے پر اگر خطرات حقیقی ہیں تو سب یکجا ہو کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اور اگر مصالحت حقیقی ہے تو دوسروں سے پہلے (یا ان کے بعد ہی سہی) اپنوں سے مصالحت کیوں نہیں؟
پچھلے دو تین ماہ ذرائع ابلاغ میں یوکرائن کا بڑا چرچا رہا۔ وجہ؟ وہاں دنیا کی دو بڑی طاقتیں‘امریکہ اورروس شطرنج کھیلنے میں مصروف ہیں جس میں فی الحال روس کو شکست ہوئی ہے۔ کیونکہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کے صدارتی انتخاب میں روس نواز سابق وزیراعظم وکٹر یانو کووچ شکست کھا گئے‘ ان کے حریف اور مغرب نواز وکٹر یوشینکو کو کامیابی ملی۔
یہ صدارتی انتخاب ۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو بھی ہوا تھا جس میں یانو کووچ کامیاب ہوا مگر حزبِ اختلاف نے دھاندلی کا شور مچا دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دیا۔ انتخاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کسی روسی صدر نے ۲۸ برس بعد امریکا کو دھمکی دی کہ وہ اس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
یوکرائن پر کئی وجوہ سے عالمی طاقتیں توجہ دے رہی ہیں۔ وہاں مینگنیز‘ کچ لوہے‘ کوئلے‘ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ پھر وہ روس جیسی طاقت کی پڑوسی ہے۔ اگر یہاں امریکی اثرورسوخ بڑھ جائے‘ تو وہ روسی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے جو اسٹرے ٹیجک اعتبار سے دنیا کا اہم سمندر ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا اور آبادی میں چھٹا بڑا یورپی ملک ہے۔ یہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے مگر مسلمان بھی خاصی تعداد میں ہیں‘ بلکہ یہ اس ضمن میں یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران بچے کھچے مسلمانوں کو شیطان نما آمر‘ اسٹالن کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اس نے ان پر جرمنوں کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا۔ یوں کریمیائی مسلمانوں کی تاریخ کے سب سے الم ناک باب کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۴ء تک اسٹالن نے ۲ لاکھ مسلمانوں کو زبردستی دوسرے علاقوں کی طرف بھجوا دیا۔ بہت سے مسلمان بھوک‘ پیاس اور ہجرت کی سختیوں کے باعث راہ میں شہید ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء میں روسی حکومت نے تاتاری مسلمانوں کے خلاف الزام واپس لے لیے مگر کریمیا میں ان کی آباد کاری اور انھیں معاوضہ دینے کے سلسلے میں وعدہ پورا نہ کیا۔
۹۰ کے عشرے میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے نابود ہوا‘ تو کریمیا یوکرائن کا حصہ بن گیا‘ تاہم وہ خاصی حد تک خودمختار علاقہ ہے۔ یوکرائنی حکومت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے کیونکہ یوکرائن کے باشندے بھی تقریباً ایک صدی تک روسیوں کے جبر کا شکار رہے۔ آزادی کے بعد سے ڈھائی لاکھ کریمیائی مسلمان دوبارہ کریمیا میں بس چکے ہیں۔ گو انھیں کئی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں۔ پھر ان کے مقامی روسیوں سے تعلقات خوش گوار نہیں جن کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور وہ اُسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔
یوکرائن میں تاتاری مسلمانوں کے علاوہ کوہ قاف‘ وسطی ایشیا کے ممالک‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان‘ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد بستی ہے اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ مسلم ممالک کے طلبہ یوکرائن میں تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں۔ خصوصاً جب سے ’’واقعہ نوگیارہ‘‘ کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندیاں لگا دی ہیں۔
ایس ڈی ایم سی (The Spiritual Direction of the Muslims of Crimea) یوکرائنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی بنیاد پڑی اور سرکاری طور پر منظورشدہ ۷۰ فی صد مسلم آبادیاں اسی سے وابستہ ہیں۔ تنظیم کے اپنے اسکول اور اخبار ہدایت ہے جو تاتاری زبان میں نکلتا ہے۔ دوسری بڑی تنظیم ایس ڈی ایم یو (The Spiritual Direction of the Muslims of Ukraine) کی بنیاد ۱۹۹۲ء میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر مسلمانوں کو متحد کرنا ہے۔ یوکرائن کے دس صوبوں میں اس کے دفاتر ہیں۔ دارالحکومت کیف میں اسلامی مرکز چلاتی اور روسی زبان میں اخبار منار نکالتی ہے۔
ایس سی ایم یو کی بنیاد ۱۹۹۴ء میں پڑی۔ اس تنظیم میں تاتاری مسلمانوں کی اکثریت ہے جو اپنے دین سے بڑی قربت رکھتے ہیں۔ اس کا صدر دفتر ڈونٹسک شہر میں ہے جہاں ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۷ء میں جذبۂ ایمانی سے سرشار تنظیم کے رہنمائوں نے یوکرائنی مسلمانوں کی سیاسی جماعت‘ مسلم پارٹی کی بنیاد رکھی۔
یوکرائن ان گنے چنے مغربی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں کو خاصی آزادی حاصل ہے‘ عبادت کرنے اور اپنی رسوم بجا لانے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ یوکرائن آزاد ہوا‘ تو خصوصاً یوکرائنی مسلمانوں میں نئے جوش و ولولے نے جنم لیا۔ اب وہ نئے سرے سے اپنے دین سے روشناس ہو رہے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی روح سے شناسا ہوسکیں۔ وہاں اشاعت اسلام کا عمل بھی جاری ہے اور ہر سال کئی یوکرائنی اور روسی عیسائی مسلمان ہو رہے ہیں۔
’’واقعہ نوگیارہ‘‘ نے یوکرائن میں الٹا اثر کیا‘ یعنی مقامی باشندے اسلام میں دل چسپی لینے لگے۔ یوکرائنی نئی نسل میں اسلامی کتب کی مانگ بڑھ گئی۔ مقامی لوگ اور مسلمانوں میں اتحاد کی دو بڑی وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ یوکرائن میں رہتے ہوئے ہی ترقی اور خوش حالی کی منازل طے کریں۔ دوسری یہ کہ دونوں یہودیوں کے مخالف ہیں جو ان کے خیال میں انسانیت کے لیے ناسور ہیں۔ اس وقت تاتاری مسلمانوں کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ مسلم معاشرہ دوبارہ تشکیل دیا جائے جس کا اسٹالن نے صفایا کردیا‘ یعنی جو تاتاری کریمیا واپس آرہے ہیں‘ انھیں گھر‘تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملیں‘ وہ اپنے دین‘ زبان‘ تہذیب و تمدن وغیرہ سے واقف اور اپنے وطن میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔
کریمیا میں اس وقت مسلمان بڑی آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہاں کے شہروں میں گھومتے پھرتے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک عیسائی مملکت کا حصہ ہے‘ خصوصاً جب شہر کی مساجد کے لائوڈاسپیکروں سے اذان بلند ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ایک دن یوکرائنی مسلمان مؤثر قوت بن کر ملکی معاملات میں فعال کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کریمیا کا رقبہ ۲۵ ہزار ۹ سو ۹۳ مربع کلومیٹر اور آبادی ۳۰ لاکھ ہے۔
۵۲ سالہ بشیرالخطیب کو آج سے آٹھ سال قبل پیش کش کی گئی تھی کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر اظہار ندامت کر لو تو فوری رہائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسے گرفتار ہوئے ۱۷ سال گزر چکے تھے۔ الخطیب نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اخوان المسلمون سے تعلق کا جو الزام تم لگاتے ہو‘ میں اس پر نادم نہیں‘ اس کا اقراری ہوں۔ جواب سن کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اب بشیرالخطیب اور ان کے ۱۱۹دیگر ساتھیوں کو ۲۵‘۲۵سال قید کے بعد اچانک اور کسی کارروائی کے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔ شام کی مختلف جیلوں میں ربع صدی گزارنے والے ان قیدیوں کے اہل خانہ میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے یہ عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اب بھی ہزاروں خاندانوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جن اعزہ کو آج سے کئی سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا وہ زندہ بھی ہیںیا موت کے آئینے میں رخِ دوست پر نظریں جمائے‘ شہادت کے جام نوش کر گئے۔
۱۲۰ مفقود الخبر افراد کی رہائی کی نوید سن کر یہ ہزاروں خاندان ایک بار پھر انتظار کی سولی پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے عزیزوںسے محروم ہوجانے کے بعد نہ تو ان کی موت کا سوگ مناسکتے ہیں کہ وراثت اور یتیموں کی سرپرستی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے‘ اور نہ ان کے زندہ ہونے کو حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ ۲۰‘ ۲۰ اور ۲۵‘ ۲۵ سال سے ان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ ساری تفصیل مجھے بشیرالخطیب کے خالہ زاد بھائی نے شام کے صدر بشار الاسد کے اس اعلان کے بعد سنائی کہ ہم سیاسی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔
اخوان المسلمون شام کے سربراہ صدرالدین البیانونی نے بھی ان رہائیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسے ایک مثبت لیکن ادھورا اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں شام میں ایک مکمل سیاسی مفاہمت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں‘ لیکن فی الحال شامی حکومت کی طرف سے ان تجاویز کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔
رہا ہونے والوں کی اس کھیپ سے پہلے بھی کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا تھا اور یہ بات عرصے سے زبان زدِعام ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں‘ حالانکہ اس سے پہلے اس موضوع پر اشارتاً بھی بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومتی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ بشارالاسد کا اپنے باپ حافظ الاسد سے مختلف ہونا بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اصل وجہ ۱۱ستمبر کے بعد روپذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ بش‘ شام کو محورِشر کا ایک زاویہ قرار دینے کے بعد عراق میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ شام پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں جاری مزاحمت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ فلوجہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد کہا گیا کہ فلوجہ کے کھنڈرات سے سراغ و ثبوت ملے ہیں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ نے شام کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادھر شارون نے اعلان کیا ہے کہ شام میں پناہ گزیں دہشت گردوں کا پیچھا ان کے ٹھکانوں تک کریں گے۔ متعدد فلسطینی رہنمائوں پر شام کے مختلف علاقوں میں قاتلانہ حملے بھی کیے جاچکے ہیں۔ امریکی اخبارات اور صہیونی کالم نگار مسلسل زور دے رہے ہیں کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شام پر بھی فوج کُشی ناگزیر ہے۔ جو تباہ کن اسلحہ عراق میں نہیں ملا‘ اس کی شام میں موجودگی کی ’مصدقہ اطلاعات‘ نشر کی جارہی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ۸دسمبر کو اپنی بریفنگ میں شام اور ایران پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انھیں اس سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں امریکی ترجمان‘ کئی مسلم حکمران بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اُردن جس کی سرحدیں شام‘ عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں کے شاہ عبداللہ نے بھی خطے میں شیعہ کمان کے وجود سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عراق‘ شام اور لبنان میں شیعہ حکومتیں قائم کرتے ہوئے ایران پورے خطے پر تنی ایک کمان تشکیل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کو اس خطرے سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔
اس تناظر میں شام کی قیادت نے کئی اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ حقیقت بن جاتا ہے اور سالہا سال سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو ملک واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے‘ ملک میں افہام و تفہیم اور سیاسی آزادی کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ تو یقینا مقابلے کے لیے تیاری کا یہ سب سے اولیں اور ضروری تقاضا پورا ہو سکتا ہے کہ پوری قوم یک جان ہو اور اندرونی محاذ مضبوط تر ہو۔ اس وقت سیاسی و صحافتی آزادیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی حکمران پارٹی ہے‘ کوئی دوسرا پارٹی تشکیل دینے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ابلاغیات کے دور میں بھی شام میں صرف تین سرکاری اخبار بعث‘ الثورہ‘ تشرین ہی شائع ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرون ملک مقیم شامی شہریوں نے مختلف ممالک میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ لیکن انھیں ملک واپسی کی اجازت نہیں ہے۔
شامی حکومت نے وقت کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے بھی روابط مضبوط کرنا شروع کیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شامی علما اور دانش وروں کے ایک وفد نے متعدد مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وفد پاکستان بھی آیا اور متعدد حکومتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ محترم قاضی حسین احمد سے اپنی ملاقات میں انھوں نے شام کی اسلامی تاریخ اور بشارالاسد کی اسلام پسندی کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ قاضی صاحب نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ عالمِ اسلام سے رابطہ بہت اہم ہے لیکن ملک کے اندر اعتماد و آزادی کی فضا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پوری قوم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامے گی‘ تو کوئی خطرہ‘ خطرہ نہیں رہے گا۔
بشارالاسد نے اندرون ملک بعض اصلاحات کا عندیہ دینے کے ساتھ ہی بعض سیاسی کارڈ بھی پھینکے ہیں۔ عراق کے پڑوسی ممالک کی مصری سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس میں شامی وزیرخارجہ نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے امریکی میزبانوں کو عراق میں امن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بشارالاسد نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم شارون کو بھی مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن نہ تو شارون نے اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ اس غیرمعمولی پیش کش سے ہی امریکی خوشنودی کا کوئی امکان پیدا ہوا‘ بلکہ بش نے مزید رعونت سے کہا کہ اس وقت میری ساری توجہ مسئلہ فلسطین حل کرنے پر ہے۔ اس سے فراغت کے بعد شام کی پیش کش کا جائزہ لیں گے۔
سابق روسی وزیرخارجہ یفجینی پریماکوف اپنے ۱۹ دسمبر کے ایک کالم میں شام کے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’میں حافظ الاسد سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر گفتگو کر رہا تھا تو حافظ الاسد نے کہا: ’’شام نہیں چاہتا کہ کوئی شام کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ہم سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والا پہلا ملک ہو‘‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین اور لبنان میں اپنے گہرے اثرونفوذ کے باوجود شام خطے کے واقعات پر اپنا نقش ثبت نہیں کر سکا۔ یقینا جنوبی لبنان‘ جولان کی پہاڑیوں اور فلسطینی تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی شام کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور اب عراق میں جاری مزاحمت کے حوالے سے‘ عراق شام سرحدیں حساس ترین اور اہم ترین ہوگئی ہیں لیکن معاملات کا تمام تر انحصار شامی حکومت کے یکسو ہونے پر ہے۔ اگر شام یکسو ہوکر پوری قوم کو اسلامی اصولوں پر ساتھ لیتا ہے اور قبلۂ اول کے حوالے سے دمشق‘ حمص اور حلب کے تاریخی کردار کو زندہ کرتا ہے تو تجزیہ نگاروں کا یہ تجزیہ ایک زندہ و عظیم حقیقت بن جائے گا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی حالت‘ خطے کے باقی ممالک کی سلامتی کی علامت ہے‘‘۔
۲۱ دسمبرکو موصل کے امریکی اڈے پر میزائلوں کا حملہ اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کا اس کی زد میں آنا (واضح رہے کہ حملے کے وقت ۵۰۰ امریکی فوجی ظہرانہ کھا رہے تھے) پورے فلوجہ کو زمین بوس کر دینے کے باوجود‘ عراقی مزاحمت میں روز افزوں اضافے ہی کی نہیں نئی اور‘ زیادہ مؤثر حکمت عملی کی خبردے رہا ہے۔ ۳۰ جنوری کو عراقی انتخابات کا ڈراما اسٹیج ہو بھی جاتا ہے‘ تب بھی نہ تو اس مزاحمت کو روکا جا سکے گا اور نہ امریکا کوئی ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکے گا جو وہاں امریکیوں کی جنگ لڑے۔ البتہ ان انتخابات کے ذریعے عراقی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شاہ عبداللہ نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنے سابق الذکر انٹرویو میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ ’’عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے ایران نے اپنے ۱۰ لاکھ شہری عراق میں داخل کیے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے وہاںشیعہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ تقریباً تمام سنی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ اور آیۃ اللہ سیستانی سمیت اہم شیعہ رہنمائوں کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بیانات اور کربلا و نجف میں حالیہ خوفناک بم دھماکے‘ اسی تقسیم کے خطرے کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات‘ ہزاروں فوجیوں کی لاشیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے۳ ہزار اہلکار (جن کی قیادت وہی امریکی سفیر جون نیگروبونٹی کر رہا ہے جس نے ویت نام میں امریکی شکست کا یقین ہونے کے بعد وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کا مشن سرانجام دیا تھا)‘عراق میں امریکی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بش کے دوسرے عہدصدارت میں امریکی ناکامیوں کی فہرست مختصر ہونے کے بجاے طویل تر ہوگی ‘ کیونکہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجاے مزید غلطیوں پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شام اور دیگر مسلم ممالک کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ دلدل میں دھنسے‘ پھنکارتے بدمست ہاتھی کے ساتھ بندھنے کے بجاے اپنے عوام کے ساتھ صلح کریں‘ اپنے خالق اور کائنات کے مالک سے رجوع کریں۔
شام کے حالیہ واقعات نے دنیا کو ایک اور حقیقت سے بھی دوبارہ روشناس کروایا ہے کہ دسیوں سال جیلوں میں رکھ کر‘ ہزاروں خاندانوں کو عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے اور سیکڑوں افراد کو شہید کر کے بھی اسلام اور اسلامی تحریک کے وابستگان کو کچلا نہیں جاسکتا۔ مظالم ڈھانے والوں کو خدا کے حضور جانے کے بعد جس انجام کا سامنا کرنا پڑے گا وہ تو قرآن کریم میں ثبت کردیا گیا۔ دنیا میں بھی ان کا انجام ٹالا نہیں جاسکتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ (الشعرائ:۲۶:۲۲۷)، ’’جنھوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!‘‘
استعماری طاقتیں فوجی قبضے کے بغیر بھی اپنے طویل المیعاد مقاصد کس کس طرح حاصل کر رہی ہیں‘ اس کا ایک اندازہ ہمیں اپنے ملک میں بھی ہے جہاں ابتدائی عمر کے تدریسی نصابات سے قرآن کی ان تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے جو ان کو پسند نہیں ہیں۔ لیکن بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ اس کا اندازہ مصر کی اس خبر سے کیا جاسکتا ہے جو المجتمع کے حوالے سے دعوت‘دہلی میں اس کے ایک قاری کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔
دشمن نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن سے قائم ہے‘ اسے دین کے بنیادی تقاضوں سے بے تعلق نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ہر مسلمان کو اس بات کی اہمیت کو ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ابتدائی عمر ہی سے قرآن سے زندہ تعلق اور پھر عمر کے ہرحصے میں اس کو برقرار رکھنا اس کی دنیا و آخرت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ان استعماری طاقتوں کو جو آلۂ کار ملے ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے‘ ہر ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کسی دبائو کے بغیر کر رہے ہیں۔ المجتمع کی خبر کچھ اس طرح ہے:
مصری وزارت اوقاف نے اس بار ماہ رمضان المبارک میں روزانہ نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے مطابق کسی مسجد میں تراویح میں قرآن ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی منظوری ضروری قرار دی گئی۔ حکومت نے ملک کی ۵۰ہزار ۸ سو ۷۰ مساجد میں سے صرف ۵۱مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کریم کی اجازت دی تھی۔ گویا ہر ۱۶۸۲ مساجد میں صرف ایک مسجد میں قرآن کریم ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
قاہرہ کی وزارت اوقاف کے ترجمان شیخ فواد عبدالعظیم نے ان پابندیوں کی خبر دی اور بتایا کہ شہری مساجد (جن کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار ہے) کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ وہ تراویح میں ختم قرآن کریم کے لیے حکومت سے اجازت حاصل کریں۔ قاہرہ کے گورنر ڈاکٹر عبدالعظیم وزیر نے کہا کہ قاہرہ میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت صرف تین مساجد میں دی گئی: (۱) مسجد نور (۲) مسجد ازہر (۳) مسجد عمرو بن العاص۔
مصری وزیر اوقاف نے ان نئی پابندیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز و درست ٹھیرایا کہ وزارت ملک کی تمام مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت نہیں دے سکتی‘ ہاں مساجد کے قریب آباد باشندوں کی ختم قرآن کی درخواست پر وہ اس کی منظوری دے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ۵۱ مساجد میں مکمل ختم قرآن کی اجازت کافی ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں‘ پورا قرآن کریم سننا ان کے لیے زحمت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ (المجتمع سے ترجمہ‘ محمد جسیم الدین قاسمی‘ بحوالہ دعوت‘ دہلی‘ ۴ دسمبر ۲۰۰۴ئ)
لائوس‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور ملائشیا کے درمیان واقع تھائی لینڈ‘ مسکراہٹ کی سرزمین‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۶کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی والا یہ ملک رقبے میں فرانس کے برابر ہے‘ جب کہ اس کے دارالحکومت ’بنکاک‘ کو ایک اہم سیاحتی‘ تجارتی و تفریحی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ تھائی لینڈ کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے‘ تاہم پٹانی‘ نراتھی وٹ‘ جایا اور سونگھلا چار جنوبی مسلم اکثریتی صوبے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں کی تعداد ۴ فی صد بتاتے ہیں‘ جب کہ مسلم آبادی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ مسلم اکثریتی صوبے ملائشیا سے متصل اور تھائی دارالحکومت سے ۱۲۰۰ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
۱۱ رمضان المبارک کو نراتھی وٹ صوبے کے ٹک بے شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ مت کے پیامِ امن کی پیروکار تھائی حکومت نے اُن ۱۵۰۰ مظاہرین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا جو ٹک بے شہر کے ضلعی پولیس اسٹیشن کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ اُن چھے افراد کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کو تھائی فوج نے چند روز قبل گرفتار کر لیا تھا۔ الزام یہ عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے مسلح افواج کے جوانوں سے چھے بندوقیں چھین کر علیحدگی پسند مسلمانوں کے حوالے کردی تھیں اور فوج نے اسلحہ بازیاب کرانے کے لیے اُنھیں گرفتار کیا ۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رپورٹ بھی یہی ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ افراد ٹک بے شہر کے حفاظتی اداروں کی طرف سے چوکیداری پر معمور تھے اور تھائی فوج نے مقامی آبادی پر دہشت ڈالنے کے لیے اسلحہ بازیابی کے بہانے اُنھیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس اسٹیشن کے گرد جمع ہونے والے ۱۵۰۰ مظاہرین مکمل طور پر غیرمسلح تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جو دیکھا دیکھی مجمع میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اُن کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں اور قریبی دکان داروں پر مشتمل تھی۔ وہ حکومت کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرسکتے تھے‘ لیکن تھائی فوج نے مظاہرے میں موجود ہر شخص کو سیکیورٹی رسک سمجھا۔ یاد رہے کہ جنوبی تھائی لینڈ کے تین مسلم صوبوں میں گذشتہ ۱۰ ماہ سے مارشل لا نافذ ہے۔ دو ماہ قبل موجودہ وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع کو اس بنا پر برخواست کر دیاکہ وہ جنوبی علاقوں میں ’نمایاں‘ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ۲۵ اکتوبر کو فوج کو موقع ہاتھ آگیا کہ اُن کے بقول ’’دہشت گرد مسلم علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں‘‘ کے دماغ درست کیے جاسکیں۔
اے ایف پی‘ رائٹر‘ بی بی سی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے خبر جاری کی کہ فوج کے سربراہ جنرل یراوت ونگ سوان کی اجازت کے بعد ہی یہ کارروائی ہوئی۔ اولین طور پر ۳۰۰ فوجی کمانڈو مظاہرین کے گرد حصار بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پشت پر خودکار اسلحہ سے لیس سیکڑوں فوجی دستے بھی موجود تھے ۔ فوج نے مظاہرین پر پائپوں سے پانی برسایا‘ پھر آنسوگیس پھینکنا شروع کی اور اس کے بعد لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران کم از کم ۲۰۰ مظاہرین قریبی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد قتلِ عام پر تُلی ہوئی فوج نے براہ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے چھے افراد موقع پر شہید اور ۳۰ زخمی ہوگئے۔ ابھی مظاہرین سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ آرمی کمانڈر نے انھیں منشتر ہونے کا اعلان کیے بغیرگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے مسلم نوجوانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا‘ اُن کی قمیصیں اُتروا کر اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پرباندھ دیے اور اُنھیں منہ کے بل زمین پر لیٹنے کا حکم دیا‘ سرتابی کرنے والوں کے سروں پر بندوقوں کے بٹ مارے جاتے‘ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ تھائی ٹیلی ویژن نے ۲۶ اکتوبر کو فلم دکھائی جس میں تھائی فوجی M-16آٹومیٹک رائفلیں چلا رہے تھے۔
وزیراعظم تھک سِن شِنا وترا نے پارلیمنٹ میں بھی اور ذرائع ابلاغ کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور اُن سے تباہ کُن اسلحہ اور ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان لوگوں کومال برداری کے لیے چھ پہیوں والے ٹرکوں میں بھرکر فوج کے تفتیشی مرکز میں لے جایا جانے لگا۔ تفتیشی مرکز ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مظاہرین کو ٹرکوں میں بھرنے اور تفتیشی مرکزتک پہنچانے میں چھے گھنٹے لگے۔جب یہ ٹرک تفتیشی مرکز پہنچے تو ۷۸ روزہ دار بے بس مسلمان‘ دم گھٹنے اور ایک دوسرے کے نیچے دب کر شہید ہوچکے تھے‘ جب کہ دو ڈھائی سو کی حالت نازک تھی۔ خبرجب پھیلی تو تھائی لینڈ کے ہر مسلم گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی‘ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں افطار کے وقت آنکھیں اشک بار نہ ہوئی ہوں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ تھائی ہیومن رائٹس کمیشن اور کئی اداروں نے تھائی لینڈ حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی اور غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے تلاشِ حقیقت کا مطالبہ کیا۔ کچھ دنوں بعد وزیراعظم نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ نشہ کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور دوسرے ممالک سے ہدایات لے کر تھائی لینڈ میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سے اس علاقے کو پاک کر دیا جائے گا‘ نیز یہ کہ اب مزید کوئی نرمی نہ برتی جائے گی۔ تھائی لینڈ کے تمام اخبارات نے وزیراعظم کی تقریر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر ’لاقانونیت‘ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُنھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرکوں کی کم تعداد کی وجہ سے تھائی مسلمان جاں بحق ہوئے‘ تاہم انھوں نے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہ کی کہ اس علاقے کے شہری نشہ آور اشیا استعمال کرنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ دم گھٹنے کے علاوہ اُن کی جسمانی کمزوری بھی ان کے انتقال کا سبب بنی۔ گویا فوج کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔
اے بی سی نیوزکے رپورٹر نے وزارتِ انصاف کے افسر مَنِت سُتاپورن کے حوالے سے یہ خبر جاری کہ کہ ٹرکوں میں محبوس لوگوں پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی اور اُن کی موت آکسیجن کی کمی اور دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ یہ تمام لوگ نیم برہنہ تھے‘ اُن میں سے تین افراد کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتیں تشدد اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ملائشیا کے وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھک سن شنا وترا کو احتجاجی فون کیا اور کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اسلامی پارٹی ملائشیا نے کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور تھائی لینڈ کی حکومت کی پُرزور مذمت کی۔ انڈونیشیا کے کئی اداروں اور تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے ۸۴ بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن اس قتلِ عام کی تحقیقات کرے۔ بھارت کی حکومت نے بھی سرکاری طور پر مذمتی بیان جاری کیا۔ بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور یورپ کی کئی تنظیموں نے اس بہیمانہ واقعے کی پُرزور مذمت کی۔
چھے ماہ قبل ۲۸ اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی تھائی لینڈ کے دورے پر گئے تھے اور اُسی روز ۱۰۸ مسلمانوں کو تھائی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ افسوس کہ وہ شدید احتجاج تو کیا اظہار مذمت بھی نہ کرسکے۔ مسلم ممالک کی مجموعی بے حسی کے سبب تھائی حکومت گذشتہ ۱۵ برس سے اس کوشش میں ہے کہ پٹانی‘ نراتھی وٹ ‘ سونگھلا اور جایا کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے آخری آثار کو بھی کچل دیا جائے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہے۔
تھائی لینڈ میں خوش حالی کا جو دور دورہ ہے اُس کے اثرات جنوبی تھائی لینڈ میں دُور دُور تک نہیں ملتے۔ وہاں کی اکثریت غریب کسانوں‘ مزدوروں اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ میں شرح تعلیم ۹۳ فی صد ہے۔ حکومتِ تھائی لینڈ یہ الزام بار بار عائد کرتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ان علاقوں میں نشہ بازوں‘ اسلحہ فروشوں اور بدعنوانی کرنے والوں کے گینگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس علاقے کو مجرموں سے پاک کرنا ضروری ہے۔
تھائی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ پٹانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن‘ پٹانی نیشنل یوتھ موومنٹ‘ بی آر این اور جی ایم آئی پی نیز آزاد اسلامی ریاست پٹانی کے خیالات کی معمولی سی حمایت کرنے والی تنظیموں کا‘ سنگاپور کی جماعت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ تعلق ڈھونڈ نکالا جائے اور اُن کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی کی جائے جیسی امریکا افغانستان و عراق میں ’’دہشت گردی سدِّباب مہم‘‘ کے نام سے کر رہا ہے۔ امریکی مثال سے روشنی حاصل کرنے کے سبب گذشتہ ۱۰ ماہ کی مہم میں تھائی لینڈ میں ۴۰۰ مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کہیں رپورٹ درج ہوئی ہے نہ کوئی اس خونِ ناحق کا دعویدارہے۔
اس علاقے میں بسنے والے مسلمان مَلے اور چم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو۱۴۹۵ء میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہاں کے سلطان نے پٹانی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ۱۷۹۵ء میں تھائی سلطنت نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقہ آزاد حیثیت حاصل نہ کر سکا۔
پٹانی تحریکِ آزادی کے راہنما اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ دس برس ’بنیاد پرستی‘ مخالف طوفان کی نذر ہوگئے۔ اگلے دس برس ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی مہم میں بش جونیئر کی قیادت میں صرف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں عوام کا اقتدار ختم کر دیا گیا‘ عراق میں آگ و خون کی بارش اس طرح ہو رہی ہے کہ شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہیں‘ فلسطین کا مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا‘ جموں و کشمیر کے دعوے داروں نے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ان حالات میں بچارے پٹانی والوں کی خبرگیری کون کرے گا‘ واللّٰہ المستعان!
عالمی پیمانے پر کام کرنے والی اُن تنظیموں اور خبررساں اداروں کے کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنھوں نے ٹک بے کے قتلِ عام کی تصاویر بنائیں اور جاری کیں۔ ایمنسٹی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کی ڈپٹی ڈائرکٹر نے اقوام متحدہ اور ریاست ہاے متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’غیرانسانی قتلِ عام کی فی الفور تحقیقات کرائیں‘ ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کمیشن نے تھائی حکومت کے سرکاری بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام افراد دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے چند کے جسم سے گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ۱۳۰۰ کے مجمعے سے حکومت صرف چار رائفلیں بازیاب کرسکی۔ تھائی حکومت کو اپنے اقدام پر شرم آنی چاہیے‘‘۔
پٹانی کے ایک شہری کا یہ سوال برحق ہے کہ ایسا قتلِ عام اگر یورپ کے کسی ملک میں ہُوا ہوتا تو کیا عالمی ضمیر اُس وقت بھی سویا رہتا‘ یا کوئی اقدام کرتا؟
ولندیزی فلم ساز‘ تھیووان گوخھ (Theovan Gogh) کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر "Submission" نامی فلم جس میں اسلام کی تصویر کو نہایت مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘ حال ہی میں یورپ کے ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی۔یہ فلم درحقیقت ۱۰منٹ پر محیط تقریر پر مبنی ہے جس کی مصنفہ ڈچ پارلیمنٹ کی ممبر صومالی خاتون آیان حرسی علی (Ayaan Hirsi Ali) ہیں جو گذشتہ کئی برس سے اس تصور کو عام کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں کہ اسلام عورتوں پر جبر اور ظلم و ستم کا نام ہے۔ متذکرہ فلم بھی حرسی علی کی اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے جس کے اشتعال انگیز مواد نے پورے یورپ کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کا انتہائی اور شدید ترین ردعمل ۲نومبر ۲۰۰۴ء کو وان گوخھ کے ایک مسلمان کے ہاتھوں افسوس ناک قتل کی صورت میں رونما ہوا۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے جس کے باعث فلم کے مواد‘ اس کے محرکات‘ مضمرات اور نتائج کا تجزیہ مسلمانانِ یورپ کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ فلم ایک خاتون کی افسانوی کہانی پر مبنی ہے جو ساری عمر باپردہ رہتی ہے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی پاک محبت کو قربان کر کے اپنے والد کے پسند کیے ہوئے لڑکے سے ۱۷ برس کی عمرمیں محض اس لیے شادی کرلیتی ہے کہ اسلام ولی کی پسند کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے‘ حالانکہ لڑکی کو لڑکے کے وجود سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ جب جب وہ خواہش کرتا ہے وہ اپنے شوہر سے خلوت بھی کرتی ہے کیونکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْص فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ (البقرہ ۲:۲۲۳)‘ کی رو سے اُس کے شوہر کو یہ حق حاصل ہے اور عورت انکار کرنے کی مجاز نہیں۔
وقت گزرتا جاتا ہے وہ خاتون نہ کہیں باہر جاتی ہے نہ کوئی مشاغل ہی رکھتی ہے۔ اُس کی زندگی کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنے شوہر کے احکام کی تعمیل ہوتی ہے۔ اس اطاعت شعاری کے باوجود اُس کا شوہر اُس کو مارتا پیٹتا ہے۔ وہ اپنی زینت کسی پر ظاہر نہیں کرتی سوائے اپنے محرموں کے سامنے۔ اس پاکیزگی اخلاق اور احتیاط کے باوجود اس کا چچا اُس سے جبراً زنا کرتا ہے۔ وہ اپنی والدہ کے ذریعے سے اپنے والد تک یہ بات پہنچاتی ہے تاکہ اپنے چچا کے ظلم سے نجات کی کوئی سبیل بنے مگر اُس کا باپ جواباً یہ فرماتا ہے کہ اُس کے بھائی کی عزت پر شک کی نگاہ سے دیکھنے کی جرأت نہ کی جائے۔ فلم کا اختتام اس طرح ہوتاہے کہ عورت اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی ہے‘ گویا کہ یہی اس کا مقدر اور منزل ہے۔
یہ کہانی اپنی جگہ یقینا آنکھوں کو نم کر دینے اور دلوں کو دہلا دینے والی ہے لیکن حرسی علی اور وان گوخھ کا مقصد کسی مظلوم خاتون کی فریاد سنانا نہیں‘ بلکہ فلم کی کہانی اور پیش کش دونوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات خواتین پر ظلم و ستم کی ترغیب دیتے ہیں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ مرد عورت کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ گویا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور یہی اسلامی معاشرے کا دستور ہے۔
اس مختصر فلم کی اشتعال انگیزی کا اندازہ تو اُس کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے جس میں متذکرہ عورت ایسے لباس میں ملبوس ہے جس میں سے اُس کا جسم چھلکتا ہے اور اسی حالت میں وہ نماز ادا کر رہی ہے۔ فلم میں جہاں جہاں آیاتِ قرآنی کی تلاوت ہوئی ہے یا کسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اُس موقع پر خاتون کے برہنہ جسم کے کسی حصے پر اُس آیت کو لکھا دکھایا گیا ہے۔ خاتون کی تقریر شکوے کے طور پر بیان ہوئی ہے جس کا انداز طنزیہ ہے۔
اسلام آزادی اظہار کے قائل ہونے کا ہی نہیں بلکہ اس کی پُرزور اور پُرجوش حمایت کرنے کا نام ہے‘ تاہم اسلام اس آزادی اظہار کو اخلاقی ضابطوں کا پابند قرار دیتا ہے۔ وہ تعمیری تنقید کی اجازت ہی نہیں بلکہ دعوت دیتا ہے لیکن اشتعال انگیزی کو آزادی اظہار کا بدل ہرگز نہیں مانا جاسکتا۔ احکامِ اسلام کو شعوری طور پر سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کرنا ہی ایک مذموم کارروائی ہے‘ کجا کہ قرآن جیسی مقدس کتاب کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھ کر پیش کرنا۔ اگرچہ فلم بالواسطہ متعدد موضوعات کو زیربحث لاتی ہے‘ تاہم کلیدی نکتہ اسلام میں عورت کا مقام‘ حقوق اور کردار ہے۔
قرآن کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھنا اپنی جگہ توہین آمیز ہے‘ مگر اصل مسئلہ تو اسلام میں عورت کے مقام کی حسب مرضی پیش کش اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت سے متنفر کرنے کی کوشش ہے۔ فلم میں اسلام پر جو چارج شیٹ پیش کی گئی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نئی نہیں ہے۔ عرصۂ دراز سے مغرب اور مغرب زدہ مفکرین و مبصرین کی جانب سے مسلم خواتین اور اسلام میں اُن کے مقام کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ فلم بھی مفہوم کے اعتبار سے مختلف نہیں۔ فرق محض اتنا ہے کہ زوالِ اشتراکی روس اور ۱۱ستمبر کے بعد مغربی تہذیب کی اسلام اور مسلمانوں پر یلغار نے ان مسائل کو عصرِحاضر کے سلگتے مسائل بنا دیا ہے‘ بالخصوص جب کہ مسلم ردعمل اکثر جذباتی و انتقامی نوعیت کا ہوتا ہے نہ کہ مدبرانہ سوچ اور دعوت و اصلاح کے جذبے سے سرشار‘ جیسا کہ وان گوخھ کے قتل سے بھی ظاہر ہوا ہے۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپ کے سیاسی و حکومتی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار بلکہ بعض مقامات پر کھلم کھلا تحقیر کی جا رہی ہے اور تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ سزاے موت‘ رجم‘ پردہ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت کے تصور سے دست برداری کا اعلان کریں۔ جویہ کرے وہ مہذب ہے اور جو یہ نہ کرے وہ انتہاپسند (extremist) ہے جس کو معاشرہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔
وان گوخھ کے قتل نے یورپی ممالک میں اس بحث کو ایک دفعہ پھر مزید قوت کے ساتھ ابھار دیا ہے کہ اسلام جمہوریت اور آزادی اظہار کی ضد ہے اور اگر ہم نے خود اسلام کی اصلاح (reform) کرنے کی تحریک نہ چلائی تو انتہاپسند اور دہشت گرد ہمارے معاشروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ڈنمارک میںحکومتی پارٹی نے ۲۱نومبر کو اجتماعِ ارکان میں حرسی علی کو اُن کی فلم پر خصوصی انعام سے نوازا اور ملک کے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’مغربی معاشروں میں انجیل و قرآن ہر چیز کو ہدفِ تنقید بنایا جا سکتا ہے اور اس بنیادی اصول سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ جرمنی سے بھی یہ تقاضا اُٹھ رہاہے کہ مساجد کو ضابطے کے اندر رکھنے کے لیے یہ قانون نافذ کیا جائے کہ خطبہ جمعہ وغیرہ جرمنی زبان میں ہو۔ اسلام کی نام لیوا متعدد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے‘ اور وہ مسلم سیاست دان جو مغرب کے تصور جمہوریت وغیرہ پر ایمان نہیں لائے اور علانیہ شریعت کو ناقابلِ عمل قرار نہیں دیتے‘ اُن کو سیاسی دائرے میں بے اثر کرنے یا نکالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے مسئلے پر بھی یہ قتل اثرانداز ہوگا۔ سب سے پریشانی والی بات reformation of Islam کی ہے۔ یہ بات اب علانیہ کہی جارہی ہے کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اسلام کی سیاسی و قانونی ہیئت کو بدل کر ’’جدید‘‘تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جیسا کہ عیسائیت نے کیا ہے۔ غالباً پاکستان میں اس کا عنوان ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘ہے۔
فرانس‘ یورپ میںمسلمانوں کی آبادی (۵۰ لاکھ) کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان سیکولرزم اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اسکارف پر حالیہ پابندی کے قانون نے اس جدوجہدمیں مزید سرگرمی پیدا کی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں پر اس کے آیندہ کیا اثرات مرتب ہوںگے‘ اس کا ایک اندازہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے فرانسیسی کونسل براے مسلم فیتھ (French Council of the Muslim Faith- CFCM) کے انتخابی نتائج سے بھی لگایا جا سکے گا۔
CFCM بنیادی طور پر فرانسیسی مسلمانوں کا نمایندہ حکومتی ادارہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے صدر دلیل بوبکر ہیں جو پیرس کی قدیم مسجد کے جدید ذہن کے حامل ریکٹر ہیں اور ان کی تعیناتی وزیرداخلہ نکولس سارکوزی (Nicolos Sarkozy) سے مذاکرات کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کے دو نائب صدر ہیں جن میں سے ایک کا تعلق یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس (UOIF) سے ہے اور دوسرے کا نیشنل فیڈریشن آف فرنچ مسلمز (FNMF) سے‘ دونوں ہی سخت موقف کے حامل گروپ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ محتاط قیادت کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمایندگی ہوسکے۔
اس مرتبہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب کھلے ماحول میں ہوں گے۔ ایک انتخابی حلقہ مسجد یا نماز کے لیے مختص جگہ پر مشتمل ہوگا۔ ۴ ہزار نمایندے تقریباً ۹۰۰انتخابی حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ موجودہ ۴۱ رکنی CFCM میں ۷۰ فی صد ارکان کا تعلق UOIFیا FNMFسے ہے‘ جب کہ صرف ۱۵ فی صد کا تعلق بوبکر کے کیمپ سے ہے۔ اس بار مزید دو سخت گیر جماعتوں کا انتخاب میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مروجہ قوانین کے تحت موجودہ صدر کو بآسانی شدت پسند گروپ کی اکثریت ہٹاسکتی ہے۔
بوبکر نے اس خدشے کے پیش نظر دھمکی دی ہے کہ اگر مروجہ انتخابی قوانین کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ووٹنگ کی بنیاد مسجد کے رقبے کو بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں قدیم اور جدید مساجد کو رقبے کی بنیاد پر برابر شمار کرنا ناانصافی ہے۔ حالانکہ پیرس کی مسجد قدیم ترین مسجد ہے جو ۱۹۲۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا اصرار ہے کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ بحث شدت پکڑ رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس طرح سخت گیر موقف کے حامل گروہ کونسل پر چھا جائیں گے۔ وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ صدر کی قیادت میں کونسل اسکارف کی سرکاری پالیسی کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں‘ جب کہ اس کے برعکس UOIFاسکول کی بچیوں کو اسکارف پہننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
UOIF اگرچہ کسی بیرونی تنظیم سے تعلق کی نفی کرتی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اخوان المسلمون سے متاثر ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علم بردار ہے۔ UOIF کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ لڑکیوں کی تیراکی کے لیے الگ تالاب کا بھی ہے جس سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس سے وہ سیاست دان جو شدت پسند اسلام کے مخالف ہیں‘ ان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ امن و امان سے کس طرح رہا جا سکتا ہے۔
وزیرداخلہ سارکوزی اور ماڈریٹ مسلمانوں کے خیال میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کی نمایندگی پر مشتمل ایک مضبوط کونسل کا قیام اس لحاظ سے مفید ہوگا کہ اس طرح مسلم راے عامہ کے تمام نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی ممکن ہوسکے گی۔ فرانسیسی سیاست دانوں میں بھی دونوں آرا کے حامی پائے جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ اگرچہ اسکارف پر پابندی کے حامی ہیں لیکن انھوں نے UOIF کی سالانہ کانفرنس میں بھی شرکت کی جو اس پابندی کی مخالف ہے۔
فرانسیسی وزیرداخلہ اس نقطۂ نظر کی نمایندگی بھی کر رہے ہیں جن کے خیال میں فرانس کو ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے جس کے تحت مذہب اور ریاست کو جدا جدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تازہ کتاب میں مطالبہ کیا ہے کہ جب حکومت ثقافتی اور کھیل پر مبنی گروہوں کی مالی اعانت کرتی ہے تو مذہبی گروہوں کی اعانت کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مذہبی گروہوں کی حمایت کی جائے تو بیرونی ممالک کی مداخلت کو جو مساجد اور مذہبی اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی اعانت کرتے ہیں‘ روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے عراق میں (اگست ۲۰۰۴ئ) فرانسیسی صحافیوں کو اغوا کرنے والوں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی ہٹائی جائے۔
فرانسیسی مسلم کونسل کا متوقع انتخاب‘ مسلمانوں کے لیے متفقہ مؤقف اور یک جہتی کے مظاہرے کا تاثر پیش کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اختلاف راے اپنی جگہ لیکن اجتماعی مفاد پر اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ: اکانومسٹ‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
مسلم ممالک پر امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصاب تبدیل کریں جو امریکا اور مغرب کے خلاف نفرت‘ دہشت گردی اور تشدد میں فروغ کا سبب ہیں۔ اس مطالبے کے تسلسل میں قاہرہ میں یکم تا ۳جون ۲۰۰۴ء ایک کانفرنس منعقد ہوئی‘ موضوع تھا: ’’تعلیم سب کے لیے--- مستقبل کے لیے عرب نقطۂ نظر‘‘۔ اس کانفرنس میں عرب ممالک کے ۱۲وزراے تعلیم و تربیت شریک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمایندوں نے بھی شرکت کی۔ کئی غیر عرب ممالک کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں قاہرہ میں متعین امریکی سفیر ڈیویڈ وولش کی آمد بہت معنی خیز تھی۔ امریکی سفارت خانے نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں گہری دل چسپی لی۔ یہ دل چسپی درحقیقت عرب ممالک کے داخلی امور کی نگرانی اور مسلسل دبائو کا اظہار ہے۔
یاد رہے کہ مصر پہلے ہی تعلیمی نصاب میں کافی تبدیلیاں لاچکا ہے۔ ’’اخلاقیات‘‘ کا نیا مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ مصری وزیرتعلیم ڈاکٹر حسین کامل بہاء الدین کے بقول اس مضمون کا مقصد ہے: ’’دوسروں کو قبول کرنا‘ نیز ترقی کی اقدار‘ اخلاقِ حمیدہ‘ تعاون‘ صداقت اور لوگوں کے ساتھ رحم و حسنِ سلوک پر آمادہ کرنا‘‘۔ کانفرنس کے اختتام پر ’’اعلانِ قاہرہ‘‘ جاری ہوا۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اور امریکا کے زیرنگرانی اس قسم کی کانفرنسیں اب ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ئ‘ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء میں منعقد ہوں گی‘ جن میں یہ دیکھا جائے گا کہ تعلیم و تربیت کے نصابوں میں امریکا کے حسبِ منشا کس قدر تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔ اس عنوان سے ایک کانفرنس امریکی ریاست جارجیا میں پہلے ہی منعقد ہوچکی ہے۔مغرب کو خوش کرنے کے لیے‘ اپنے نصاب ہاے تعلیم میں تغیروتبدل کر کے نام نہاد مسلمان حکمران خدا کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں۔
۱- قاہرہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس نہیں ہے جس میں دنیاے عرب اور عالمِ اسلام کے نصاب ہاے تعلیم کو مغربی نقطۂ نظر کے مطابق ڈھالنے اور صہیونیوں کے ناپاک منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے راستہ ہموار کیا گیا ہو‘بلکہ گذشتہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے اس قسم کی کانفرنسیں اور اجلاس خفیہ و علانیہ‘ سرکاری و غیرسرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے مباحثوں کا بھی اہتمام ہوا ہے جن کا مقصد اسرائیل سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا رہا ہے۔ امریکی اور یورپی دارالحکومتوں میں ایسی کئی کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں جن میں مسلم ممالک کے بڑے بڑے ذمہ دار شریک ہوئے اور وہاں سے ملنے والی ہدایات کو اپنے اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
۲- کئی عرب ممالک کی وزارتِ تعلیم نے صہیونیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کی خاطر نصابِ تعلیم سے وہ تمام امور حذف کر دیے ہیں جن سے یہودیوں کی مجرمانہ تاریخ کا اظہار ہوتا ہے‘ نیز نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور تاریخی مواد بھی خارج کر دیا گیا ہے جس سے یہودیوں کی عیاری‘ مکاری‘ غداری اور منافقت سے آگہی ہوسکتی ہے۔ اسلامی فتوحات اور دین اسلام کے فروغ کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کیا گیا ہے۔
۳- ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد دینی تعلیم کو ختم کروانے کے لیے ایک بھرپور مغربی صہیونی مہم کا آغاز ہوا۔ اب وسیع پیمانے پر دینی تعلیم کو ’’ممنوع‘‘ قرار دینے کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ’’تعلیمی ترقی‘‘ کے نام سے ہونے لگا ہے تاکہ آیندہ نسلوں کی تربیت‘ دینی اخلاق و اقدار کے مطابق نہ ہونے پائے۔
۴- اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیم اور دینی اداروں کے خلاف یہ حملہ قدیم استعماری صلیبی حملوں ہی کا تسلسل ہے اور یہ حملہ اپنے اہداف و مقاصد میں ان سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ قدیم استعمار نے اسلامی تعلیم کو محدود کر کے اسلامی ممالک میں ایسے اسکول قائم کیے تھے جن کا مقصد طلبہ کو مسیحی بنانا اور مغرب زدہ کرنا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کی نگرانی مشنری مسیحی اور سامراجی ایجنٹوں نے کی۔ یہ ادارے اب تک اپنے مذموم مشن میں مصروف ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران استعمار کے قائم کردہ اداروں کی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کس قدر کوشاں ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کے ایک معروف مسیحی کالج کو جسے بھٹو دور میں قومیالیا گیا تھا‘ اب ازسرنو غیرملکی عیسائیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس کا سربراہ امریکی عیسائی ہے۔ اب اس کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ بھی مل چکا ہے۔
۵- واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی صہیونیت اسلامی تعلیم کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگاتار پس پردہ کام کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ تحقیق و مطالعہ ہے جسے ’’گروپ ۱۹‘‘ نے‘ جس میں امریکی ماہرین و سیاست کار شامل ہیں--- امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سپرد کیا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کا عنوان ہے: ’’اسلامی دہشت گردی کے نفسیاتی پہلو‘‘۔ اس مطالعے میں عرب و مسلم ممالک کو اپنے نصاب ہاے تعلیم اور نشریات و اطلاعات کے پروگراموں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی نصابوں کو ابتدائی مرحلوں سے تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
۶- بلاشبہہ اس مسلسل حملے کے نتیجے میں کئی اہداف پورے ہو چکے ہیں‘ درسی مواد تبدیل ہوا‘ کئی اسلامی ادارے بند ہوئے‘ بہت سے مسلم ممالک میں دینی تعلیم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یہ سارے مقاصد سامراج نے مسلم ممالک پر مسلط کردہ اپنے اُن گماشتوں کے ذریعے حاصل کیے جنھیں کہیں فوجی انقلاب کے ذریعے یا مادی مفادات کے پیشِ نظر سامنے لایا گیا۔
ان مغربی منصوبوں پر عمل درآمد کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور ایک طرح کا ارتداد کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ایک متحد و زندہ اُمت کا ثبوت پیش کریں‘ ورنہ مغرب کے گماشتے سامراجی مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پوری اُمت کے مستقبل کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔