صومالیہ براعظم افریقہ کے عین مشرق میں انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خلیجِ عدن اور نہرسویز کے ذریعے بحیرۂ احمر کو بحرہند سے ملانے والی عظیم بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صومالیہ ۱۰۰ فی صد راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس کے دیگر ہمسایوں میں ایتھوپیا‘ کینیا اور جیبوتی شامل ہیں۔ اپنے منفرد محل وقوع کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں استعماری طاقتوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اس کے ایک حصے پر اگر برطانیہ قابض تھا تو دوسرے پر اطالیہ براجمان۔ تیسرا حصہ جیبوتی فرانسیسی استعمار کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا اور اب عرصے سے امریکا للچائی ہوئی نظروں سے سرزمینِ صومالیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اس غریب افریقی ملک کو ۱۹۶۰ء میںبرطانیہ اور اطالیہ کے پنجۂ استبداد سے رہائی نصیب ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں آئین نافذ ہوا لیکن آٹھ برس ہی گزرے تھے کہ فوجی آمریت کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک خونی انقلاب کے دوران ملک کے صدر علی شرمارکے قتل کردیے گئے اور جنرل سیدبرے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوشلسٹ رجحانات کے حامل جنرل برے پہلے تو روس کے زیراثررہے اور بعدازاں ایتھوپیا کے خلاف جنگی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ امریکا جو عرصے سے صومالیہ کے یورینیم‘ خام لوہے‘ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ فوراً مدد پر آمادہ ہوگیا اور چند ڈالروں کی فوجی امداد کے عوض اس نے صومالیہ میں تیل کی تلاش‘ یورینیم کے ذخائر اور بربیرہ کی مشہور بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر تصرف کے حقوق حاصل کرلیے۔
یہیں سے جنرل کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر فوج کے اندر پھوٹ پڑنے اور خانہ جنگی کا آغاز ہونے پر منتج ہوا‘اور ۱۹۹۱ء میں جنرل سیدبرے کو اقتدار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب صومالیہ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کی باہم برسرِپیکار ملیشیا کے رحم و کرم پر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکا اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے خود میدان میں کود پڑا۔ واضح رہے کہ پاک فوج بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے کیل کانٹے سے لیس صومالیہ میں موجود تھی۔
صومالیہ میں امریکی افواج کے آتے ہی نئے استعمار کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۹۳ء امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر طلوع ہوا جب صومالی گوریلوں نے ایک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرا لیا اور امریکی فوجی تفاخر کی علامت ۱۸ مرینز قتل کر کے مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے۔ عوامی جذبات کا بروقت اندازہ کرتے ہی امریکا بہادر اپنے خواب اور عزائم ادھورے چھوڑ کر صومالیہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔
امریکا کے جاتے ہی خانہ جنگی کو اور بڑھاوا ملا‘ حتیٰ کہ امریکا مخالف مزاحمت کی نمایاں ترین علامت جنرل فرح عدید بھی ۱۹۹۶ء میں اسی خانہ جنگی کی نذر ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بڑے کمانڈروں کے ہٹتے ہی ملک مختلف الخیال‘ مفاد پرست چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے زیرسایہ انتہائی ابتری کی حالت میں خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جگہ جگہ بیریر لگائے رکھنا‘ عوام کی جابجا تلاشی‘ ہرگزرگاہ پر بھاری رشوتیں اور امن و امان کی قطعی نایابی‘ طوائف الملوکی کی عمومی صفات ہوا کرتی ہیں اور یہی سب کچھ مقدیشو کا مقدر ٹھیرا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ نام نہاد فوجی کمانڈر‘ تجار اور عام شہریوں سے سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر بٹورا کرتے تھے۔
صومالیہ میں براہِ راست قبضہ جمانے میں ناکامی کے بعد امریکا نے علاقے کے لیے نئی پالیسی تشکیل دی جس کا مرکزی ہدف عسکری قوت استعمال کیے بغیر صومالیہ کو اپنے زیرتسلط لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے شمالی اتحاد کی طرز پر خانہ جنگی میں مصروف وار لارڈز کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس اتحاد کو بھرپور مالی معاونت فراہم کی جانے لگی۔ اطلاعات کے مطابق اس فرنٹ کو اب تک براہِ راست ۸۰ ملین ڈالر کی امداد مل چکی تھی۔ جائزہ لیں تو مذکورہ فوجی کمانڈروں کی امریکا نوازی اظہر من الشمس ہے۔ اس اتحاد کے رکنِ رکین عبداللہ احمد عدو سابق فوجی افسر اور واشنگٹن میں صومالی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ کسی بھی نئے حکومتی سیٹ اَپ کے لیے مغرب کے انتہائی پسندیدہ نمایندے قرار دیے جاتے تھے۔ حسین عدید اپنے مقتول والد کے جانشین تھے۔ موصوف امریکی شہریت کے حامل تھے اور انھیں موجودہ عراقی جنگ میں بطور میرنیز امریکی چاکری کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیم خودمختار علاقے بونٹی لینڈ کے سربراہ عبداللہ یوسف بھی واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ فرنٹ کے دیگر دو اراکین عبدالنور احمد درمان اور رشید محمد ھوری بھی اپنی امریکا نوازی کی وجہ سے بدنام تھے۔
اکتوبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے بعد اور عراق اور افغانستان میں پھنسے ہونے کی بنا پر امریکا کی اوّلین ترجیح تو یہی تھی کہ براہِ راست فوجی مداخلت سے بچتے ہوئے کسی طرح مذکورہ جنگی کمانڈروں کو صومالی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاسکے لیکن یہ حکمت عملی عملاً ناکام ہوکر رہ گئی۔
ملک کی ابتر صورت حال کو ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کی کسی بھی سطح پر عدم موجودگی بھیانک تر بنا رہی تھی۔ اپنوں ہی کی چیرہ دستیوں کا شکار مظلوم عوام اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کر رہے تھے کہ علما کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عدالتوں کی صورت میں انھیں امیدونجات کی ایک صورت دکھائی دی۔
ابتدائی طور پر شرعی عدالت کا قیام ۱۹۹۷ء میں ایک قبائلی جھگڑے کو نبٹانے کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ پھر دیکھا دیکھی مقدیشو میں موجود تمام قبائل کے اندر اپنے اپنے قبیلے کے لیے شرعی عدالت کے قیام کا تصور مقبول ہونا شروع ہوا۔ جن علاقوں میں یہ عدالتیں قائم ہوتی گئیں وہاں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی قبیلے کے جوانوں پر مشتمل شرعی عدالت کی اپنی فورس عدالت کے احکامات کی تنفیذ کے لیے حرکت میں آجاتی۔
۲۰۰۵ء میں مختلف قبائل میں قائم شرعی عدالتوں پر مشتمل ایک یونین تشکیل پائی۔ ایک نوجوان عالمِ دین شیخ شریف شیخ احمد اس کے سربراہ قرار پائے۔ اتحاد کے نتیجے میں ایک طرف ان عدالتوں کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ان کے فیصلوں میں یک رنگی دکھائی دینے لگی۔
عامۃ الناس میں شرعی عدالتوں کی وقعت اور ان عدالتوں کی سربراہی مجلس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاںتک کہ گذشتہ فروری میں دارالحکومت پر قابض مختلف جنگجوئوں نے ان عدالتوں کے احکامات کی تنفیذ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو عامۃ الناس نے ازخود شہر کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر شرعی عدالتوں کے اتحاد کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور عوام عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے مسلح ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ ایک مسلح تصادم میں طرفین کے ۲۰۰ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے لیکن بالآخر شرعی عدالتوں کے اتحاد کودو ہفتے بیش تر دارالحکومت مقدیشو پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔
گذشتہ ماہ جنگجو ملیشیاؤں کے آخری مضبوط گڑھ جوہر اور مھدیٰ پر قبضے کے بعد اگرچہ شرعی عدالتوں کے اتحاد کو پورے صومالیہ پر کنٹرول حاصل ہوچکا ہے‘ تاہم نوزائیدہ اسلامی انتظام کو ابھی بہت سے بیرونی و اندرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ تاحال امریکی رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ مقدیشو پراسلام پسندوں کے قبضے کے فوراً ہی بعد صدربش نے وہائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ وہ صومالیہ کو دہشت گردوں کی محفوظ جنت کبھی نہیں بننے دیں گے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکا ماضی کی غلطی سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرتبہ ایتھوپیا کی پیٹھ تھپتھپائے گا تاکہ وہ صومالیہ پر فوج کشی کرے۔ اس پر اتحاد کے سربراہ شیخ شریف شیخ احمد نے امریکا کو متنبہ کیا کہ صومالیہ افغانستان نہیں ہے اور نہ امریکا ہی موہوم دہشت گردوں کے تعاقب میں سابقہ غلطی کو دہرائے۔
دوسری طرف اسلامی شرعی عدالتوں کے اتحاد میں ابھی تک تمام قبائل کی مؤثر نمایندگی نہیں ہے۔ انھیں کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی صفوں میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔اغلب گمان یہی ہے کہ صومالی عوام برسوں بعد ملنے والے امن کو کسی قیمت پر بھی قربان کرنا پسند نہ کریں گے اور ہر طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
کابل میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جناب صبغت اللہ مجددی نے فرمایا: مجھ پر یہ حملہ پاکستان نے کروایا تھا۔ ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔ ہم اسے دشمنی کا مزا چکھائیں گے۔ یہ وہی صبغت اللہ مجددی ہیں جنھیں سب سے کمزور تنظیم کا سربراہ ہونے کے باوجود ۱۹۹۴ء میں معاہدۂ پشاور کے تحت پاکستان نے امریکا کے اشارے پر عبوری صدر مقرر کروایا تھا۔ یوں گلبدین حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کو اقتدار سے محروم اور باہم متصادم کرکے‘ غیرمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کو بھی جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا گیا۔
مجددی صاحب کی پارٹی کے ایک کارکن حامدکرزئی‘ جنھیں امریکا نے افغان صدارت سونپ رکھی ہے‘ انکشاف کرتے ہیں: ہمیں تین ماہ پہلے اطلاعات ملی تھیں کہ پاکستان نے مجھے اور دیگر افغان لیڈروں کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے ہیں۔ پاکستان طالبان کو منظم کررہا ہے اور طالبان القاعدہ سے مل کر افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا…
پاکستان نے سوویت جارحیت کے بعد مسلسل قربانیاں دیں۔ اب بھی اس نے لاکھوں افغان بھائیوں کے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا ہے۔ آج بھی افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تمام سابق مجاہدین لیڈر جو پاکستان کو اپنا بڑا بھائی اور سرپرست سمجھتے تھے ایک ایک کر کے پاکستانی حکمرانوں سے شدید ناراض ہوچکے ہیں۔ ان کا کمزور ترین فرد بھی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ان رہنمائوں کو ناراض‘ کمزور‘ بلکہ ختم کرنے کے لیے جن طالبان پہ تکیہ کیا گیا تھا‘ انھیں بھی بالآخر امریکا کی غلامی کی نذر کردیا گیا۔
اس صورت حال سے امریکا اور حلیف قوتیں جو فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن خود بھارت بھی تیزی سے وہاں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی دبائو بڑھانا بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ سوویت قبضے کے دوران اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے۔ اس سے پہلے سردار دائود کے ساتھ اس نے معاہدہ کیا کہ وہ افغان خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے افسران کو بھارت لے جاکر تربیت دے گا۔ جہاد اور پھرخانہ جنگی کے طویل ادوار کے بعد اب فوجی و جاسوسی تربیت کا یہ ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑچکا ہے۔ خود افغانستان کے تقریباً ہر صوبے میں بھارت اپنا وجود یقینی بنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جلال آباد اور قندھار میں قونصل خانے کھولنا تو معمول کا سفارتی عمل دکھائی دیتا ہے‘ ایسے دسیوں دفاتر ‘ مشاورتی ادارے‘ تجارتی و تعمیراتی کمپنیوں کے نمایندے بٹھا دیے گئے ہیں جو اعلان شدہ سرگرمیوں سے زیادہ غیرعلانیہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں ثقافتی یلغار پہلے سے کئی گنا زیادہ سفاک ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارائوں کے جہازی پوسٹر‘ فلموں کے اشتہارات اور گانوں کے بول‘ آنکھیں اور کان بند کر کے بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اصل محاذ میدان جنگ کو نہیں‘ ثقافت اور تعلیم کوقرار دیتا ہے۔ بھارت اس ’روشن خیالی‘ میں اسے تمام مطلوبہ ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کابل سے آنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ کسی کو لقمہ ملے یا نہ ملے‘ ٹی وی سے دسیوں عالمی چینل مفت دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں سے کئی مجرد فحاشی پر مبنی ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ صرف سال ۲۰۰۶ء میں افغان عوام کو موسیقی اور ثقافتی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر (۳کروڑ ۶۰ لاکھ روپے) صرف کرے گی۔ فلمی دنیا اور ’ثقافتی تجارت‘ کرنے والے سرمایہ کاروں کا پیسہ اس کے علاوہ ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس سال افغانستان سے ۵۰۰ اساتذہ اور ۵۰۰ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ہاں لے کر جائے گی تاکہ انھیں تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت اور ترجیحات کا سبق بھی دے سکے۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانا دونوں ممالک کا باہمی معاملہ قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس پورے عمل سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کرنا گذشتہ قومی جرائم سے کہیں بڑا جرم اور سانحہ ہوگا۔
امریکی ذمہ داران نے بارہا بیان دیا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے‘ وہ افغانوں کو نظام و تربیت دے کر چلے جائیں گے۔ لیکن اب دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ ان اڈوں کے لیے چنے گئے علاقوں پر ذرا غور فرمایئے: کابل‘ بلخ‘ ہرات‘پکتیکا‘ خوست‘ قندھار۔ ان میں سے ہرات کا امریکی فوجی اڈا ایرانی سرحد سے تقریباً ۳۰کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ جب کہ آخری تینوں اڈے پاکستانی سرحدوں پر واقع ہیں۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً ۲۰ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان میں اور دیگر اتحادی افواج میں کتنے اسرائیلی ‘ یہودی یا اسرائیل نواز ہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ امریکا نے ۱۳فروری ۲۰۰۵ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانوں کی مدد کے لیے ۱۴ اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹر خریدے گا‘ یعنی کہ ہیلی کاپٹر تو آنا ہی ہیں ان کی قیمت افغانوں کے نام پر لی جانے والی امداد سے چکائی جائے گی۔ یہ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات لانے اور ان کی تربیت دینے کے لیے اسرائیلی ماہرین درکار ہوں گے۔ ان کھلے اور چھپے اسرائیلی عناصر کا بھارت کے ساتھ کیا اور کیسا تعلق و تعاون رہے گا‘ یہ جاننے کے لیے غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ دونوں فطری حلیف پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی نہیں پاکستان کے وجود سے ناخوش ہیں۔ یہاں افغان وزیرخزانہ انور الحق کا یہ بیان بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کے قریب رقم امداد نہیں‘ قرضوں پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے بھی اسی طرح کے اسلحے کے سودوں اور باہر سے آنے والے مشیروں کی تنخواہوں پر اڑائے جارہے ہیں اور افغانستان جو تاریخ میں کبھی مقروض نہیں ہوا‘ اب قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا جاچکا ہے۔
امریکا کے فوجی قبضے میں تڑپتاافغانستان ہر روز نئے سے نئے بحران کا شکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج نے بگرام اور دیگر کئی مقامات پر اپنے غیرعلانیہ قیدخانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں صرف افغانستان ہی سے نہیں ‘پرویز مشرف کے ہاتھوں پکڑے گئے قیدیوں کوبھی ہربنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹم گولڈ (Tim Gold)کی رپورٹ کے مطابق کابل کے شمال میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام کے امریکی اڈے کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ گوانتانامو سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ گوانتانامو کا کچھ ذکر امریکی عدالتوں میں آجانے کے بعد اب بش انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ زیادہ قیدی بگرام ہی میں رکھے جائیں۔ یہاں ۶۰۰ کے قریب قیدیوں پر توڑی جانے والی قیامت سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک مصری نژاد شریف بسیونی کو افغانستان میں اپنا نمایندہ بناکر بھیجا ہوا تھا۔ ۴فروری ۲۰۰۶ء کو امریکا نے بسیونی کو واپس بھجوا دیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ واپسی کا سبب صرف یہ ہے کہ امریکا اپنے قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا شاہد کسی کو نہیں بننے دینا چاہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانِ خنجر چپ کروا دیے جانے کے باوجود‘ آستیں کا لہو پکارپکار کر امریکی و عالمی اقوام کو اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا ہے۔
افغانستان میں ہمہ پہلوتباہی کا ایک اور سنگین پہلو وہاں افیون اور منشیات کے جِنّ کا دوبارہ بوتل سے نکل آنا ہے۔ اس وقت افیون و منشیات کی عالمی پیداوار کا ۹۰فی صد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ بلخ کے ایک کسان نے بی بی سی کے نمایندے سے کہا کہ: ’’مقامی پولیس کا سربراہ ان کی منشیات کی پیداوار سے اپنا حصہ زبردستی لے لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی کاشت جاری رکھنا چاہتے ہو تو ہر گھر مجھے جمع شدہ افیون میں سے ایک کلو بھتہ دیا کرے‘‘۔
قتل وغارت کا بازار الگ گرم ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس مارے جانے والوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ افغان پولیس اگر افیون کے بھتے پر لگی ہو‘ افغان فوج تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد اور تربیت حاصل نہ کرسکی ہو‘ اور امریکی افواج‘ افغانستان کے امن و استحکام سے زیادہ اپنے طے شدہ اہداف اور دُور رس مقاصد کے لیے وقف ہوں‘ اور صدربش حامدکرزئی کے لرزتے ہونٹوں سے ادا ہوتے مطالبات کو یکسر مسترد کردے اور کہے کہ افغانستان کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک نقطۂ نظر اور اسٹرے ٹیجی ہے اور امریکی افواج صرف امریکی قیادت ہی میں کام کریں گی‘ حتیٰ کہ وہ افواج بھی جو خود کرزئی انتظامیہ کی حفاظت پر معمور ہیں‘ تو ایسے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے کون دستیاب ہوگا؟ بدامنی اور لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ملک اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار صبغت اللہ مجددی پر قاتلانہ حملے کو یونس قانونی کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں جو ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں اور بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر مجددی صاحب کو کچھ ہوجاتا‘ تو جناب قانونی جو اپنی پارٹی میں بھی برہان الدین ربانی کے ساتھ مختلف مواقع پر متضاد موقف رکھتے تھے‘ سینٹ کے چیئرمین قرار پاتے۔
اس منتشر و زخمی افغانستان میں بھی امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت پر تقریباً پوری قوم کا اجماع ہے۔ کرزئی سمیت جو سیاسی و عسکری عناصر کابل میں امریکا سے ہم آغوش ہیں‘ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں‘ افغان قوم کسی کا قبضہ تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن ابھی امریکا سے مسلح جنگ کا وقت نہیں آیا‘ جب کہ کئی عناصر جن میں طالبان کے بچ رہنے والے مجاہدین‘ حکمت یار کے مجاہدین اور متعدد جنگی سردار شامل ہیں‘ اوّل روز سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں کامیاب کارروائیاں کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارروائیوں میں نہ تو کمی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔ ان روزافزوں کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان پر بھی امریکی اور افغان دبائو میں مزیداضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے ہی بھائی بندوں پر جنگ مسلط کرکے اس بیرونی دبائو میں اضافے کے نئے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ بھارتی رہنمائوں کا بلوچستان اور کراچی کے قوم پرست عناصر سے روابط بڑھانا‘ ان عناصر کی مانگ میں سیندھور بھرنے کے لیے نہیں ہے‘ اور نہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا جانا ہی صرف بے وقت کی راگنی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔
اس گمبھیر صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ‘ پاک فوج اور اس کے اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور ہرذی شعور شہری کا فرض ہے کہ‘ ملک میں عسکری تسلط کے بجاے حقیقی جمہوریت کے قیام‘ ایک فرد کے بجاے ملک کے استحکام‘ ذاتی مفاد کے بجاے ملّی مفادات کی آبیاری‘ اور سب سے اہم یہ کہ لالچ یا خوف کے بجاے صرف اللہ کی نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت و ہمت سے اپنا گھر بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جارہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اب بھی ملک کے بجاے اقتدار بچانے پر ہی توجہ رہی تو آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
۱۳؍ مئی ۲۰۰۵ء کا دن مسلمانانِ ازبکستان کے لیے وہ دن تھا جب ازبکستان کے شہروںاندیجان اور قاراسو میں پولیس اور فوج ان مظاہرین پر پوری سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ ٹوٹ پڑی جو سیاسی اصلاحات کا اور ان مظالم کے سدباب کا مطالبہ کر رہے تھے‘ جو صدررِیاست اسلام کریموف کی لادینی حکومت مسلم آبادی پر ڈھا رہی تھی۔ ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمان ۹۰فی صد ہیں‘ اور وقتاً فوقتاً سیاسی تشدد سے لے کر قیدوبند تک ہرقسم کے ظلم وستم کا نشانہ بنائے جاتے رہتے ہیں___ پُرامن مظاہرین پر بم پھینکے گئے‘ نتیجتاً ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔
بات شروع یہاں سے ہوئی کہ قیدیوں کے کچھ اعزا و اقارب اندیجان کے ایک قیدخانے میں گھس آئے اور تقریباً ۴ ہزار سیاسی قیدیوں کو چھڑا لے گئے۔ یہ ۱۲؍مئی ۲۰۰۵ء کی رات کی بات تھی___ پے درپے نظربندیوں اور مقدموں سے وہ تنگ آگئے تھے‘ قیدیوں کی رہائی کے بعد لوگ بڑی تعداد میں مظاہرے کرنے لگے اور مطالبہ کیا کہ صدر کریموف مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے میں روس نے یہ کہہ کر مداخلت سے انکار کردیا کہ یہ ازبکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ رہا امریکا تو اس نے اتنا ہی کہا کہ قیدیوں کو زبردستی چھڑا لے جانا پریشانی اور افسوس کی بات ہے۔
پس منظر: یہ حادثے ایک طویل کش مکش کا نتیجہ ہیں‘ جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق صدر اسلام کریموف ہیں جو ۱۹۸۹ء میں برسرِاقتدار آئے‘ اور دوسرا فریق اسلامی حزب مخالف‘ جس میں اکرام یولداشوف کی اسلامی آزاد پارٹی اور دوسری اسلام پسند پارٹیاں شامل ہیں جو قومی سطح پر بدامنی کو روکنے‘ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور بے روزگاری دُور کرنے کے لیے کوشاں ہیں‘ مگر حکمراں پارٹی حزب مخالف کو ’دہشت گرد‘ اور ’بنیاد پرست‘ قرار دے کر خاتمے کے درپے ہے۔
۱۱ستمبر کے حملے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی باقاعدہ جنگ کے بعد ملک کی اسلامی تحریک اور ازبکی قوم کے خلاف کریموف حکومت کا ظلم وستم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی آڑ لے کر حزب مخالف کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے‘ انھیں جان سے مار ڈالا جارہا ہے‘ بڑے بڑے علما تک کو بخشا نہیں جاتا۔ اور تو اور مسجدیں بند کرائی جارہی ہیں۔ جب سے امریکا سے دوستی کا عہدوپیمان ہوا ہے اور افغانستان پر حملے کے لیے یہاں امریکی چھائونیاں کھل گئی ہیں‘ ظلم وستم کی کارروائی زوروں پر ہے۔ اس کا ایک فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ یہاں انسانی حقوق کی جو پامالی کھلے بندوں ہورہی ہے اس پر امریکا چوں نہیں کرتا‘ حالانکہ اشتراکی روس کے عہدحکومت میں انھی حقوق کی بحالی کے لیے وہ بہت چیختا چلاتا رہتا تھا۔
آزادی کے فوراً بعد ازبکستان کی حکومت نے اسلام کو سرکاری حیثیت دی۔ مذہبی اداروں کو نجی قبضہ وتصرف سے آزاد کردیا۔ مقصود یہ تھا کہ اسلامی تحریکات کو بے اثر کردیا جائے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین زوال پذیر ہوا تو ملکی مطلع پر ایسے آثار ظاہر ہوئے‘ کہ دنیا کی دوسری مسلم قوموں کی طرح ازبک قوم بھی اپنی مذہبی اصلیت کی طرف لوٹنے لگی۔ چنانچہ مسجدیں جو ۱۹۸۹ء میں کُل ملاکر ۸۲ تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ۷ہزار۲ سو ہوگئیں اور یہ تمام تر نجی طور پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری‘ نیم سرکاری اہتمام سے نہیں۔ اب سرزمین ازبک پر کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اللہ کا گھر موجود نہ ہو۔ اس کے ساتھ‘ ۱۰۰ سے زیادہ دینی مدرسوں اور اداروں کا آغاز ہوا جن میں آدھے سے زیادہ خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ان درس گاہوں میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ مذہبی کتابوں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ ملک کے باشندوں کی خدمت و حفاظت کے لیے ’مذہبی پولیس کا محکمہ‘ قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ لوگ مذہبی تعلیم سے بھرپور دل چسپی لینے لگے‘ پردے کا اہتمام بڑھنے لگا۔ ہزاروں طلبہ علم دین کی تحصیل کے لیے اسلامی ممالک کی یونی ورسٹیوں کا قصد کرنے لگے‘ بہت سے لوگوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔
ابتدا میں تو حکومت نے اس سیلِ رواں کا ساتھ دیا‘ اور وطنی تشخص کی تعمیر میں اس سے فائدہ اٹھایا‘ کیوں کہ یہ تشخص اقتدار کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔ صدر ریاست اسلام کریموف کا حال یہ تھا کہ اپنی بات چیت اور تقریروں میں آیات اور احادیث سے استدلال کرتے تھے‘ بلکہ ۱۹۹۱ء کے ایک انتخابی جلسے میں نمنغان نامی صوبے میں تقریر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ازبکستان کو اسلامی جمہوریہ بنا دیں گے‘ اور زور دے کر کہا تھا کہ اس سلسلے میں ہرگز دریغ نہیں کریں گے اورکوشش کریں گے کہ مذہب اسلام کو قابلِ رشک مقام ملے جس کا وہ ہر طرح مستحق ہے۔ پھر جب صدر بنے تو قرآن پاک کے نام پر حلف لیا‘ مگر حکومت میں قدم جم گئے تو قوم کو آنکھیں دکھانے لگے۔ ارشاد ہونے لگا کہ ’’مسلمان ملک کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ ازبکستان میں اسلامی حکومت کی باتیں مغربی بلاک کے غیظ وغضب کو بھڑکا دیں گی۔ اس کے بعد موصوف نے بہت سے ایسے علماے کرام کی داروگیر شروع کردی جو حکومت کے صیغۂ امور مذہبی کے ہتھے نہیں چڑھتے تھے۔ اس کے بعد مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور یہ کہہ کر سیکڑوں مسجدیں بند کروائیں کہ یہ عبادت کے لیے نہیں بلکہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے بنی ہیں۔ پھر انھیں اسلحہ خانوں میں تبدیل کردیا جیسی وہ اشتراکی عہد میں تھیں۔ حکومت کے صیغۂ امور مذہبی نے تقریباً ۴۰۰مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور وہاں اپنے لوگ متعین کیے۔
قصرِصدارت نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے نام‘ احکام صادر کیے کہ علماے کرام کے خلاف افواہیں پھیلائیں‘ ان کی کردارکشی کریں‘ ان کو تعصب‘ دہشت پسندی اور دقیانوسیت کے مجرم ٹھیرائیں اور اس غرض کے لیے اشتراکی لغات کے سارے الفاظ کام میں لائیں۔ اس سلسلے میں سرکاری ٹیلی ویژن ان تمام حلقوں پر حملے کرنے کا خاص طور پر پابند بنایا گیا جو ازراہ تعصب ملک کی دستوری حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں۔ ایسے ’آستین کے سانپوں‘ سے خبردار رہنا چاہیے۔ اسی پر بس نہیں‘ پردے کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ عربوں کی چیز ہے‘ لہٰذا ازبکستانی خواتین کے لباس و پوشاک سے میل نہیں کھاتی۔ رہے اسلامی علوم و فنون‘ تو ان کی تعلیم پر بھی قدغن لگادی گئی اور ان کے طلبہ اور اساتذہ کو دوسرے شعبوں میں تتربتر کردیا گیا۔ مسجدوں سے لائوڈاسپیکر اتار لیے گئے‘ داڑھی رکھنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ پولیس اسٹیشن جاکر ’چارابروکا صفایا‘ کرڈالو‘ ورنہ قیدخانے کی ہوا کھانی پڑے گی۔
ایک نیا قیدخانہ بن کر تیار ہوا ہے جو ایسے مذہبی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہے جن کی اصلاح ممکن نہیں۔ پھر قیدیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو آتش گیر مادوں کی تیاری کے الزام میں ماخوذ ہیں۔ ان سے وہ دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ یہ بے چارے زراعت پیشہ ہیں اور وہ جو کچھ تیار کر رہے تھے وہ کیمیاوی کھاد کے سوا کچھ نہیں تھا۔
ان قیدیوں کے مصائب کی بابت انسانی حقوق کی تنظیم بھی چیخ اٹھی ہے۔ اس کی رپورٹ مظہر ہے کہ انھیں ظلم وستم کی چکی میں پیسا جارہا ہے کہ ان کا دم خم ختم ہوجائے‘ ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ جو لوگ قیدوبند میں نہیں ہیں ایسے مذہبی ’دیوانوں‘ کو جو سزائیں دی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ انھیں ملازمتوں سے معطل اور تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال فردِقرار دادِ جرم بڑی طویل ہے‘ اس کی بعض دفعات یہ ہیں: ا: بلدیہ کے ایسے اعلیٰ عہدے داروں کی معزولی جنھوں نے مسجدیں بنانے کی اجازت دی‘ مگر ان مذہبی کارگزاریوں سے صرفِ نظر کرلیا تھا جو ان کے حلقوں میں جاری تھیں۔ ب:صدارتی کابینہ کے ان ارکان کی برطرفی جو پابندی سے مسجد آیا جایا کرتے تھے۔ ج: بیرونی ممالک کی دینی تنظیموں سے قطع تعلقات کے احکام کا اجرا۔ د: فلاحی اور دعوتی کام کرنے والے بیرونی ملکوں کے افراد کو ویزا دینے میں سختی اور ان کے مصارف کی کڑی تنقیح۔
اس فہرست کے ضمیمے کے طور پر حکومت نے ۳ ہزار سے زیادہ ایسے طلبہ کو وطن واپسی کا حکم دیا ہے جو اسلامی ’یونی ورسٹیوں‘ میں زیرتعلیم تھے۔ سبب اس نادری حکم کا یہ بتایا ہے کہ نئی نسل کے یہ افراد وہاں ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی تربیت پاتے ہیں۔ خود صدر کریموف نے برسرِعام کہا ہے کہ یہ طلبا غلط راستے پر ڈال دیے گئے ہیں اور جن ملکوں میں یہ علم و ہنر سیکھنے کے بہانے گئے ہیں وہاں ہتھیار اور بم بنانے کی صنعت سیکھ رہے ہیں۔ خیر اسی میں ہے کہ وطن واپس ہوں اور پولیس اسٹیشن جاکر توبہ نامہ داخل کروائیں‘ ورنہ ان پر اور ان کے ماں باپ پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
امریکی کردار: ازبکستان میں پچھلے دنوں جو حادثے رونما ہوئے ان میں امریکا کے کردار کا تجزیہ کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر ایک نظر ڈال لینی ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ ۱۱ستمبر کے حادثے کے بعد صورت حال پرپیچ ہوگئی اور صدرکریموف نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ حزبِ مخالف کے خلاف اپنا موقف سخت سے سخت تر کردیا‘اور ’دہشت گردی‘ کے مقابلے کے نام سے ملک میں قیامت ڈھا دی۔ امریکا سے تعلقات مستحکم کرلیے اور اسے ایسی سہولتیں مہیا کیں جن کے بل بوتے پر اس نے ازبکی‘ افغانی سرحد پر فوجی چھائونی قائم کرلی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ خود کریموف نے ازبکی پارلیمنٹ میں اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے‘ چنانچہ ارشاد ہے: واضح رہے کہ امریکا اور بش میرے پشت پناہ ہیں‘ وہ اس قسم کی بے کار باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر وہ ہمارے خلاف ہوتے تو سالانہ خطیر مالی امداد نہ دیتے۔ میں نے اپنے دورئہ واشنگٹن کے دوران میں یہ بات محسوس کرلی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں میری جدوجہد کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔داڑھیوں کا صفایا کرنے پر انھوں نے مجھے فیاضانہ انعام سے نوازا ہے۔ میں ارکانِ پارلیمنٹ سے کہوں گا کہ یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں کہ امریکی عہدے دار انسانی حقوق کے بارے میں ہمارا ریکارڈ دیکھ کر نکتہ چینی کرتے ہیں‘ کیوں کہ امریکا کا مقصود دراصل یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے ظاہر کرے کہ اسے جمہوری اصول و قوانین کا بڑا خیال ہے۔
ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی طویل خاموشی کا شدید ردعمل ہوا۔ خود امریکا کی متعدد تنظیموں نے حکومت کی اس چشم پوشی پر کڑی تنقید کی‘ بعد از خرابیِ بسیار حکومت نے مجبوراً ازبکستان کی امدادی رقم کا ایک حصہ منجمد کردیا اور گرتی ساکھ سنبھالنے کی خاطر بات یہ بنائی کہ ازبکستان نے مطلوبہ دستوری اور جمہوری اصلاحات نہیں کیں۔ بعد میں کہا گیا کہ اس ملک نے انسانی حقوق کے تحفظ میں تھوڑی سی پیش رفت دکھائی ہے‘ مگر جمہوری اور معاشی اصلاحات کا معاملہ بدستور مایوس کن ہے۔ اُدھر ماسکو کی ایک تنظیم کی رپورٹ خبر دے رہی ہے کہ ازبکستان کے قیدخانوں میں ۵۰ ہزار سے زیادہ قیدی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ مختلف قسم کی سخت سزائوں کی بنا پر جو لوگ جاں بحق تسلیم ہوگئے ان کا تو شمار ہی نہیں۔ اس طرح اسرائیل اور امریکا کے ساتھ پُرامن تعاون کو تقویت پہنچی۔ اس تعاون کی تفصیل یہ ہے کہ سونا‘ چاندی‘ یورینیم‘ تانبا‘ جست‘ قدرتی گیس‘ مٹی کا تیل‘ کوئلہ وغیرہ معدنی دولت میں شراکت ہوسکے گی۔ اسی لیے گذشتہ ایک سال کے دوران میں ازبکستان کو امریکا نے ۴۶ ملین ڈالر کی امداد دی تھی۔ سینیٹ نے بھی اس پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے‘ مگر چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنقید آئے دن بڑھتی ہی چلی گئی کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے جو حزبِ مخالف کو ختم کرنے کے درپے ہے‘ تو اس خطیر رقم میں ۱۸ ملین ڈالر کی کٹوتی کر دی گئی۔
ماسکو اور واشنگٹن کو کریموف سے کوئی محبت نہیں ہے‘ انھیں اسلام پسندوں سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ازبکستان میں (بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی) کوئی اسلامی پارٹی برسرِاقتدار آئے۔ اس سے انھیں خدا واسطے کا بیرہے۔ صدر کریموف کریملن اور وہائٹ ہائوس کا یہ الہامی پیام سمجھ گئے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے سارے جتن کرلیے ہیں‘ یعنی باغی شہر (اندیجان) کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ تمام مقامات پر پولیس کے ہزاروں سپاہی اور جاسوس پھیلا دیے گئے ہیں۔ توپوں اور بندوقوں سے آگ برسائی جارہی ہے اور ہرسُو سیکڑوں بندگانِ خدا کی لاشیں گررہی ہیں۔ اس سنگ دلی اور سفاکی کا صاف مطلب یہ ہے کہ وسط ایشیا کے اندر اسلام پسندوں کا عروج ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ جارجیا‘قازقستان اوریوکرائن جیسی پڑوسی ریاستوں میں ایسے انقلاب کامیاب ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی مصلحتوں کے پیش نظر روس اورامریکا انھیں تسلیم بھی کرچکے ہیں۔
صورت حال کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیابھر کے مسلمان اس المیے کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ وہ المیہ جس کا اہم ترین کردار کریموف ہے۔ اس ظالم نے روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کی تلخ یاد تازہ کر دی ہے جو وسط ایشیا کے مسلمانوں کے حق میں بَلاے بے درماں تھا‘ جس نے ۱۵ ملین مسلمانوں کے خونِ ناحق میں اپنے ہاتھ رنگے تھے اور انھیں سائیبریا کے دُور دراز علاقے میں دفن کروا دیا تھا۔
بات یہ ہے کہ کریموف کو ہلاکت و بربادی کے سبھی وسائل میسر آگئے ہیں اور اس نے یہ حقیقت پالی ہے کہ حکومت پر جمے رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ملک کی اسلامی تحریک کا خاتمہ کردیا جائے‘ کیوں کہ یہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس شخص کی ظالمانہ حکومت کو مات دے سکتی ہے۔ وہ حکومت جس نے ملک کو اس کی عظیم معدنی دولت اور زرعی پیداوار کے باوجود انتہائی غربت اور پس ماندگی سے دوچار کر دیا ہے(عربی سے تلخیص۔ بشکریہ راہِ اعتدال‘ عمرآباد‘ بھارت‘ فروری ۲۰۰۶ئ)
امریکی فوج کو تاریخ کی سب سے طاقت ور فوج کہا جا رہا ہے‘ لیکن عراق میں اس طاقت ور ترین فوج کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔ اسے ابھی خودکُش حملوں‘ بارودی سرنگوں اور کار بموں کا کوئی علاج نہیں ملا تھا کہ ایک نئی مصیبت نے پوری فوج کو سراسیمگی کا شکار کردیا ہے۔ ’قنّاص بغداد‘ بغداد کا شکاری ایک شخص ہے… بے نام… بے ٹھکانہ اورشاید بے وسیلہ۔ اس کا کل سرمایہ ایک دُوربین لگی بندوق اورحساس ویڈیو کیمرہ اٹھائے ایک ساتھی ہے۔ ’بغداد کا شکاری‘ نام اس نے خود ہی متعارف کروایا ہے۔ شہر میں کسی بھی جگہ گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے‘ بندوق پر سائلنسر چڑھاتا ہے۔ ساتھی کیمرہ سنبھالتا ہے تاکہ اس میں شکار کو محفوظ کرسکے اور اس کی خبر دنیا کو پہنچ سکے۔ شکاری شکار کی آنکھوںکے درمیان نشانہ باندھتا ہے اور طاقت ور ترین ہونے کا زعم لیے امریکی فوجی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ساتھی حیران اور سراسیمہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں تو دوسرا اور پھر تیسرا…۔ اب تک یہ فردِ واحد ۵۵ فوجی مارچکا ہے۔ اس کے بقول جب تک امریکی فوجی عراق میں رہیں گے اس کا شکار جاری رہے گا اور گاہے بگاہے اس کی تصویری جھلکیاں دنیا کو بھی ملتی رہیں گی۔
اب خبرآئی ہے کہ عراقی شہر’ القائم‘ میں بھی ایک شکاری اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو اب تک چار امریکی فوجی مار چکا ہے۔ بغداد سے ۴۵۰ کلومیٹر دُور واقع شہر موصل کا شکاری دو‘ فلوجہ کا شکاری چھے‘ شمالی بغداد میں واقع شہر طارمیہ کا شکاری چار روزمیں چھے اور الضلوعیہ شہر کا شکاری ایک امریکی فوجی شکار کرچکا ہے۔ عراقی فوج کے ایک سابق افسر عبدالجبار سامرائی نے القدس پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی تحریکِ مزاحمت کی شکار کی پالیسی بہترین قرار پائی ہے۔ اس میں کارروائی کرنے والا پوری طرح محفوظ‘ بلکہ امریکی فوجیوں کے اردگرد ہی رہتا ہے لیکن امریکیوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ ان میںسے ہرفوجی ہر لمحے اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ کہیں قریب کسی کھڑکی یا کئی سو میٹر دُور کسی گھنے درخت کی مچان پہ بیٹھے شکاری کا اگلا شکار وہ نہ ہو۔ امریکی فوج میں ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک عراقی باشندے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خوف کا عالم یہ ہے کہ اکثر امریکی فوجی پتلون کے نیچے پیمپر استعمال کرنے لگے ہیں‘ کہ خوف کے عالم میں ساتھیوں کے سامنے جگ ہنسائی نہ ہوجائے۔
عراق میں امریکی فوج کے ایک ہزار دن پورے ہونے پر خود مغربی ذرائع ابلاغ نے امریکی فوج کے گرتے مورال اور ناقابلِ تلافی نقصانات کا ذکر کیا ہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ نے اس موقع پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان ہزار دنوں میں امریکی فوج ۲۰۴ ارب ڈالر جنگ میں جھونک چکی ہے۔ دیگر آزاد ذرائع کے مطابق امریکا کے جنگی اخراجات ستمبر ۲۰۰۵ء تک ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ واضح رہے کہ ویت نام کی پوری ۱۸سالہ جنگ میں امریکا کے ۶۰۰ ارب ڈالر غارت ہوئے تھے۔
برطانیہ بھی ۳ئ۵ ارب سٹرلنگ پائونڈ خرچ کرچکا ہے اور ان اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ جب کہ ورلڈبنک کی رپورٹ کے مطابق عراق کی مکمل تعمیرنو اور بحالی کے لیے صرف ۳۶ارب ڈالر درکار تھے۔ انڈی پنڈنٹ مزید لکھتا ہے کہ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہزار دنوں میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعدد ۲ہزار ۳ سو ۳۹ ہے۔ اگرچہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ زخمیوں کی تعداد ۱۶ ہزار ہے۔ یہ تعداد بھی حقیقی سے کہیں کم ہے‘ جب کہ اس موقع پر عرب ذرائع ابلاغ پر ابومصعب الزرقاوی کی آواز میں نشر ہونے والے پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے متجاوز ہے لیکن امریکا اصل حقیقت کو چھپا رہا ہے۔
اس دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے عراقی باشندوں کی تعداد اخبار کے مطابق ۳۰ہزار اور زخمی یا اپاہج ہوجانے والوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق کم از کم ایک لاکھ عراقی شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں‘ اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو انتخابات کے بھی کئی دُور ہوچکے ہیں‘ پارلیمنٹ اور حکومت بھی وجود میں آچکی ہے‘ لیکن عراقی عوام کی زندگی امریکیوں کی بم باری‘ نامعلوم بم دھماکوں‘ بے روزگاری کے مہیب اندھیروں‘ ابوغریب کے خوف اور مجہول و تاریک مستقبل کی بے یقینی سے عبارت ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی دانش ور جو تباہ کن ہتھیاروں کی تباہی کے نام پر چھیڑی جانے والی اس جنگ کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے‘ اب وہ بھی مسلسل لکھ رہے ہیں کہ ’’ہم عراق میں خودکُشی کر رہے ہیں، ہم امریکا اور امریکیوں سے عالمی نفرت میں اضافہ کررہے ہیں، ہم عراق میں کانٹے بو رہے ہیں، عراقی صورت حال قابو سے باہر ہوچکی ہے، ہمیں اپنی فوجیں واپس بلا لیناچاہییں‘‘۔
امریکی پالیسیوں کے سابق گرو ہنری کسنجر نے بھی ۱۲ دسمبر ۲۰۰۵ء کو ٹریبیون میڈیا سروسز اور الشرق الاوسط میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں عراق کی مشکل صورت حال کا اعتراف کیا ہے لیکن اس بات پر بھی اصرار کیاہے کہ فی الحال امریکا کو عراق سے نکلنا نہیں چاہیے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے پوری دنیا میں امریکی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔ صدربش نے بھی بارہا اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عراق سے فوجیں واپس بلانے کی بات ہمارے ایجنڈے سے خارج ہے۔ ان کے بقول: ’’عراق سے فوری انخلا بہت بھاری غلطی ہوگی‘ یہ دہشت گردی کی فتح امریکا کی شکست ہوگی‘‘۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے بھی مسلسل یہی بات دہرائی ہے۔ ۱۲دسمبر کو اس نے کہا کہ ’’فوری انخلا ہزیمت کی طرف مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔لیکن ۲۰۰۵ء کے اختتام پر ۲۳دسمبر کو رمزفیلڈ نے اچانک عراق پہنچ کر اعلان کردیا کہ مارچ ۲۰۰۶ء سے پہلے پہلے امریکا عراق سے اپنے ۷ ہزار فوجی واپس بلا لے گا۔ اسی طرح افغانستان سے بھی ۳ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے‘ جب کہ عراقی مشیر قومی سلامتی موفق الربیعی نے بیان دیا کہ ۲۰۰۶ء کے اوائل میں امریکی فوج کا ۲۵فی صد‘ یعنی تقریباً ۳۰ ہزار فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے اور اس پر اکثر تجزیہ نگاروں کااتفاق ہے کہ ان میں سے تقریباً ہر فوجی کل سے پہلے آج گھر واپس جانے کے لیے بے تاب ہے۔
ایک امریکی فوجی جمی ماسی (Jimmy Massey) نے عراق سے نکلنے کی کئی قانونی کوششوں میں ناکامی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کا راستہ منتخب کیا۔ فرانس پہنچ کر اس نے کہا کہ میں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور اپنی قوم اور ملک کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے پرمبنی ایک اہم کتاب لکھی جو اکتوبر۲۰۰۵ء میں طبع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہی دہلا دینے والا ہے: kill …kill …kill (ماردو… مار دو… ماردو)۔ جمی نے اس کتاب میں امریکی افواج کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ماتم کیا ہے۔ ۱۸ برس تک فوجی خدمات سرانجام دینے والا ابھی مزید سات سال تک ’قوم و ملک کی خدمت‘ کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے اعتراف کیا کہ’ ’اب امریکی فوجیوں کا فریضہ‘ امریکی قوم کی عزت و وقار کا دفاع نہیں‘ بلکہ دوسری اقوام کی عزت و وقار خاک میں ملانا رہ گیا ہے‘‘۔
جمی نے لکھا ہے کہ وہ ۲۰۰۳ء میں عراق میں داخل ہونے والی امریکی افواج میں شامل تھا اور ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم نے بڑی تعداد میں عراقی جرنیلوں اور فوجی افسروں کو خرید لیا ہے اور اب جلد ہی جنگ ختم ہوجائے گی۔ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ عراق میں ہماری موجودگی صرف پٹرول کی خاطر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک اور حساس و قیمتی ہدف ہے لیکن ہم یہاں امریکا کے وسیع تر اور دُور رس اہداف کے حصول کے لیے آئے ہیں۔
تربیتی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وہ امریکی فوجیوں کی نفسیات کی حقیقی تصویرکشی کرتا ہے: ’’ہم نے اپنے فوجی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اصل سبق یہ یاد کیا کہ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی قوم و ملک کے دفاع کے لیے وقف کرنا ہیں‘‘۔ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے انسٹرکٹر کہتے تھے: سنو تم امریکی فوج ہو‘ وہ سوپرپاور کہ جسے کبھی شکست نہیں دی جاسکتی‘ جس سے زیادہ طاقت ور اور کوئی فوج نہیں۔ اس لیے تمھیں ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تم امریکی ہو‘ تم سب سے طاقت ور ہو… ہاں‘ سب سے طاقت ور ہو۔ ہمیں یہ سبق بار بار‘ ایک ایک دن میں کئی کئی بار دیا جاتا‘ یہاں تک کہ ہم واقعی یہ سمجھنے لگے کہ ہم سب سے برتر‘ سب سے طاقت ور ہیں۔ ہمارے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ کوئی ہم سے بھی برتر ہوسکتا ہے۔ ہم دنیا کی ہر شے کو خود سے حقیر اور ہر انسان کو زمین پر رینگنے والا کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے‘‘۔
اس احساس تفاخر و تعلّی کے ساتھ امریکی افواج عراق میں داخل ہوئیں اور جب آغاز ہی سے انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو افسروں کے دماغ اُلٹ گئے۔ جمی کے بقول: ’’ہمارے افسر ہمیں حکم دیتے کہ ہر متحرک شے کو بھون ڈالو‘‘۔ اس کا مطلب ہے ہر بچے ‘بوڑھے‘ خاتون اور بے گناہ شہری کو قتل کرڈالو۔ ہمیں بار بار یہی حکم ملتا:ہرمتحرک شے کو بھون ڈالو۔ مجھے بھی ایسی کئی کارروائیوں میں شریک ہونا پڑا۔ ہم عمداً قتل میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ ہم بچوں کو بھی قتل کرنے لگے… احکامات جاری رہے: مار دو… مار دو… ماردو۔ یہاں تک کہ ہم انسانیت سے عاری ہوگئے‘‘۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب جمی کے ضمیر نے سوال اٹھایا : ’’امریکا اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا؟ ہم بے گناہ بچوں‘ خواتین اور کمزور بوڑھوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟‘‘
جمی اعتراف کرتا ہے کہ ’’امریکی فوج کے لیے لمبی جنگ لڑنا ممکن ہی نہیں ہے۔ امریکی فوجی اپنے عسکری وسائل‘ ٹکنالوجی‘ سیٹلائٹ کے جال‘ جاسوسی معلومات اور مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچنے والوں کے سہارے کسی بھی ملک کو تباہ تو کرسکتا ہے‘ لیکن وہ کوئی بھی ایسی طویل جنگ نہیں لڑسکتا جو دھیرے دھیرے تمام وسائل کو راکھ میں بدل دے۔ خاص طور پر اجنبی شہروں میں لڑی جانے والی ایسی گوریلا جنگ لڑنا تو کسی بھی امریکی فوجی کے بس کی بات نہیں کہ نہ تو وہ ان کی زبان سمجھتا ہو اور نہ اس کے راستوں سے پوری طرح آشنا ہو‘‘۔ اس نے ایک پورا باب اس نکتے پر لکھا ہے کہ امریکی افواج اپنی اس کمزوری کو اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اٹھان ہی ملکوں کو فتح کرنے کے بجاے شہروں کے اندر لمبی لڑائی لڑنے پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ پالیسی بھی اپنے منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ سب سے برتر ہونے کا زعم رکھنے والے امریکی فوجی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ان پر کوئی اور حکم چلائے اور کوئی دوسرا فوجی ان سے بہتر ہوسکتا ہے۔ بالآخر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ عراق پرحملہ دراصل تھا ہی اسرائیلی مفادات کی خاطر اور اسرائیلیوں نے ہی ہمیں اس جنگ میں کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’لیکن ہم فوجیوں کو یہ بات تب سمجھ آئی جب ہماری کارروائیاں صرف تشدد پر ہی مبنی ہوکررہ گئی تھیں‘ ہم آزادی کے علَم بردار سپاہیوں سے دہشت گردوں میں بدل گئے‘ امریکی فوجی وردی میں ملبوس دہشت گرد‘‘۔
کتاب کے تمام ابواب بہت اہم اور حساس ہیں‘ جو کسی مسلم بنیاد پرست یا جنگ مخالف لکھاری نے نہیں لکھے‘ بلکہ اس پوری جنگ میں شریک امریکی فوجی نے لکھے ہیں۔ کتاب لکھنے کے بعد اس سے ایک فرانسیسی اخبار لومانیٹی نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ سب کچھ لکھنے کے بعد آپ کوئی خوف محسوس نہیں کرتے؟ اس نے جواباً کہا: ’’میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے تاکہ دنیا اس سے آگاہ ہوجائے۔ میں نے اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ اب مجھے سکون سے نیند آسکے گی۔ مجھے اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ امریکی فوج کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ میں نے کتاب میں صراحت سے لکھا ہے کہ امریکا عراق میں آزادی یا جمہوریت نہیں پھیلا رہا بلکہ موت‘ تباہی اور خونی سیاست کو رواج دے رہا ہے۔ امریکا انسانی ضمیر کی آوازوں پر کان نہیں دھر رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور میں اس حقیقت کی خاطر موت بھی قبول کرنے کو تیار ہوں تاکہ پوری دنیا اس سے آگاہ و باخبر ہوجائے‘‘۔
امریکی ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس کا اپنا بازوے شمشیر زن‘ امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں موت تک قبول کرنے پر آمادہ ہے تو وہ لوگ جن کے ملک پر وہ قابض ہے یا قابض ہونا چاہتا ہے وہ کیونکر سکون سے بیٹھیں گے۔ بغداد کا شکاری ایک فرد ہوسکتا ہے لیکن کیا اس ایک فرد سے نجات پاکر (اگر پاسکے)‘ امریکی فوج سُکھ کا سانس لے سکتی ہے۔
امریکا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر انسانی جان قیمتی اور ہر انسان محترم و مقدس ہے۔ اسے بالآخر نہ صرف عراقی و افغانی یا باجوڑ اور وزیرستان کے انسانوں کی جان و مال کا بھی احترام کرنا ہوگا بلکہ خود اپنے فوجیوں کو بھی موت کی وادیوں سے نکالنا ہوگا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر امریکا اس تلخ حقیقت پر کان نہیں دھرتا اور تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا تو یقینا وہ وقت بہت زیادہ دُور نہیں رہے گا جب دنیا ’سابق سوویت یونین‘ کی طرح امریکا کا نام بھی ’سابق ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے الفاظ میں لکھا کرے گی۔ تب ’جمی ماسی‘ کے الفاظ میں: ’’مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچ ڈالنے والوں‘‘ کو بھی اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا۔
جب ہمیں کہیں سے کسی ایک شخص کے بھی قبولِ اسلام کی خبر ملتی ہے تو بے حدخوشی ہوتی ہے‘ مگر جب ایک ایک‘ دو دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کریں تو کس قدر خوشی اور مسرت ہوگی! ایسی ہی ایک مثال جنوبی کوریا کی ہے۔ جنوبی کوریا میں ۵۰سال قبل حق کے متلاشی چند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اسلام قبول کرنا اور اس کے بعد اپنی زندگیاں اسلام کو پوری طرح سمجھنے اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کر دینا ایسی نادر مثال ہے کہ وہ ملک جہاں نصف صدی قبل کوئی ایک مسلمان یا کوئی مسجد تک نہ پائی جاتی تھی‘ اب وہاں ۵۰ ہزار کے قریب نومسلم آباد ہیں۔ سیول شہر میں ایک خوب صورت اور عالی شان مرکزی مسجد کے علاوہ مختلف شہروں میں مزید آٹھ عالی شان اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد ہیں۔ مزیدبرآں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک لاکھ کے قریب غیرملکی مسلمانوں کے وجود نے اس ملک میں اسلام کو ایک مؤثر قوت بنا دیا ہے۔
حال ہی میں (۲۵ تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ئ) کوریا مسلم فیڈریشن نے کوریا میں اشاعتِ اسلام کے ۵۰ سال مکمل ہونے پر ۵۰ سالہ تقریبات منعقد کیں۔ ان تقریبات میں ۳۰مسلم ممالک کے نمایاں اسکالر‘ اور کوریا میں مقیم اسلامی ممالک کے سفیروںنے شرکت کی۔ کوریا سے اپنے ۵۰ سالہ دعوتی تعلق کی بنا پر پاکستان سے راقم الحروف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی‘ جب کہ ڈاکٹر انیس احمد‘ وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اور الطاف حسن قریشی‘مدیر اُردو ڈائجسٹ بطور اسکالر مدعو تھے۔
تقریب کا آغاز ۲۵ نومبر۲۰۰۵ء کو جمعۃ المبارک کے دن ہوا ۔ نماز جمعہ سے قبل افتتاحی تقاریر اور سیول کی مرکزی مسجد میں اس ملک میں اسلام کی آمد کی ۵۰سالہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی‘ اور بعدازاں مرکزی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ تین دن کی اس تقریب میں مختلف ممالک کے معزز شرکا نے اسلام‘ اشاعتِ اسلام اور دنیا میں خلوص و محبت کے ساتھ بقاے باہمی کے موضوعات پر تقاریر کیں جن کو فیڈریشن نے ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ چند موضوعات:
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترک فوجی دستے کے امام زبیرقوج کو بھی اس شان دار تقریب میں شرکت کا اعزاز بخشا گیا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ مدعو تھے۔ آپ کے ہاتھوں پہلے اور دیگر ۲۰۰کے قریب کوریائی لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کابیج بویا گیا تھا‘ اب اُسے ایک تناور پھل دار درخت کی شکل میں آپ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک مختصر افتتاحی تقریر بھی کی۔ راقم الحروف کو بھی اس ترک امام کے ذریعے اس ملک میں مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کے ذریعے دعوت کے کام کے حوالے سے گفتگو کا اعزاز بخشا گیا۔
اس موقع پر کوریا میں اشاعتِ اسلام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اُس کورین نومسلم چونگ جِن‘ جس نے سب سے پہلے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی‘ ۱۹۵۶ء میں تُرک فوجی دستے کے کیمپ میں چونگ جِن مدرسے کی بنا ڈالی‘ جس میں بلاتفریق مذہب اسلام کی تعلیم کے ساتھ نادار اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سے بچوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ۱۹۵۷ء میں ترک فوجی دستے کی وطن واپسی کے بعد ایک دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ کورین نومسلم صابری سوہ جنگ کِل کی ہمراہی میں ۱۹۵۹ء میں ملایشیا‘پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور ایک سال ان ممالک میں رہ کر اسلام کا علم حاصل کرنے کے ساتھ بہت سے افراد کے ساتھ ملاقاتوںکے بعد اپنے وطن میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران حج کی سعادت حاصل کرکے پہلے کوریائی حاجی کہلائے۔ چنانچہ اس دورے کے نتیجے میں ۱۹۶۱ء میں ملایشیا کی سینیٹ کا ایک وفد کوریا میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لینے کے لیے کوریا آیا اور اپنے ہاں ۱۱مردوں اور تین خواتین کی اعلیٰ اسلامی تعلیم کا انتظام کیا‘ جوایک سال بعد واپس ہوئے۔
ملایشیا کی حکومت نے خاص طور پر اشاعتِ اسلام کے کام میں دل چسپی لی۔ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں نائب وزیراعظم جناب عبدالرزاق اور ۱۹۶۳ء میں اسپیکر پارلیمنٹ حاجی نوح کوریا آئے۔ اُن کی سفارش پر وزیراعظم ملایشیا تنکو عبدالرحمن نے مسجد کی تعمیر کے لیے ۳۳ہزار ڈالر کا عطیہ دیا جو مسجدکی تعمیر کے لیے ناکافی تھا‘ اس لیے مسجد تعمیر نہ ہوسکی۔
۱۹۶۵ء میں کورین اسلامک سوسائٹی کو تحلیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ اسے خاص عنایتِ خداوندی کہنا چاہیے کہ اس تنظیم میں اس ملک کا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے‘ جس نے امریکا کی معروف یونی ورسٹیوں میں مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر قبول کیا‘ اور اپنے آپ کو روایتی مسلمان کہلانے کے بجاے اس ملک میں دعوتِ اسلام کے وسیع کام میں منہمک ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے اسلام کو مؤثر قوت بنادیا‘ جس کا مظاہرہ حالیہ تقریبات میں ہوا‘ جس کا اہتمام بڑے تزک و احتشام سے کیا گیا۔
جیساکہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت اس ملک میں ۵۰ ہزار نومسلم یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نومسلموں کی دوسری بلکہ تیسری نسل ہے‘اور فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں سے نہ صرف اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے بلکہ نصف صدی قبل جن عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں مقامی لوگوں کو عیسائی بنانے میں بڑے زوروں پر تھیں اور انھوں نے عیسائیت کو ایک زبردست مؤثر اقلیت بنا دیا تھا‘ اب اسلام کی آمد اور کوریا مسلم فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں اور روز افزوں قبولِ اسلام کی رفتار کی وجہ سے عوام میں تقریباً ختم ہوگئی ہیں‘ جس سے عوام میں قبولِ عیسائیت کا رجحان بھی قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔
بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا دنیا میں نہ صرف انتہائی پُرامن ملک ہے‘ بلکہ مثالی‘ ترقی یافتہ اور بہت پھیلا ہوا ہے۔ سیول شہر کی آبادی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ ہے اور کوئی شخص رہایش کے مسئلے سے دوچار نہیں۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے‘ اور جگہ جگہ سمندر کا ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کو جدا کرتا ہے‘جنھیں شان دار‘ مضبوط‘ خوب صورت پُل ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔ آٹومیٹک ٹریفک کا بہترین نظام ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ۱۸ ۱۸‘ ۲۰ ۲۰ منزلہ سیکڑوں رہایشی مضبوط اپارٹمنٹس ہیں‘ جنھیں آج سے ۴۰‘ ۵۰ سال قبل ملک کے مخلص دیانت دار حکمران طبقے نے قابلِ عمل منصوبے کی شکل دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا اور موجودہ اور آیندہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ سب سے بلند تعمیر ۶۳ منزلہ اپارٹمنٹ ہے جس کا نام بھی ۶۳منزلہ سٹوری ہے۔
یہاں چار دن کے قیام میں ہمیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ ہم کسی اجنبی غیراسلامی ملک میںمقیم ہیں۔ مرکزی مسجد اور اُس کے قریب کوریا مسلم فیڈریشن کے دفاتر میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ دوسری منزل پر خواتین کی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے وسیع قطعۂ زمین کوریا کی غیرمسلم حکومت نے ۱۹۶۹ء میں عطیہ دیا اور ۱۹۷۶ء میں کوریائی اور کوریا میں مقیم غیرملکی مسلمانوں کی مالی امداد کے علاوہ بعض دوسرے ممالک کی مدد سے اس مرکزی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور مئی ۱۹۷۶ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس مسجد کے سینئر امام جناب سلیمان لِی ہیں‘ یہ کورین ہیں اور انھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ایک نائب تھائی لینڈ کے جناب عبدالرشید اور دوسرے نائب ترکی کے جناب فاروق زُمیل ہیں۔
۵۰ سالہ تقریبات کے موقع پر پوچیان (Pocheon) کے شہر میں نویں خوب صورت مسجد کا افتتاح کیا گیا‘ اور نمازظہرادا کی گئی۔ اس کی تعمیر میں کوریا میں مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے‘ جن کی ایک کثیرتعداد یہاں رہ رہی ہے‘ جب کہ کویت کے وزیر اوقاف جناب عبدالرزاق عبدالغنی سابق سفیر قطر مقیم کوریا‘ کویت کے جناب الشیخ عبداللہ علی المطوع‘سوڈان کے سفیرجناب ابابکرالخلیفہ اور کویت یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بدرالماسی کی مساعی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کا خیال ہے کہ اس شہر سے شمالی کوریا میں دعوتِ اسلام کے کام کو کافی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اور کوریا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک کے مسلمانوں کی ملی جلی آبادی شمالی کوریا میں دعوت کے کام کو پھیلا سکتی ہے۔
اس موقع پر مختلف اہم شخصیات سے ملاقات کاموقع بھی میسر آیا جن میں اسلامک سنٹر جاپان کے عرب سربراہ جناب ڈاکٹر محمد صالح السامرائی‘ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ سعید شامل ہیں۔ بیجنگ (چین) سے چائنا اسلامک ایسوسی ایشن کے جناب شمس الدین ین چانگ سے ملاقات رہی۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت بیجنگ میں ۱۸ مساجد ہیں۔ انھوں نے اس تقریب کو اہم قرار دیا کہ اس طرح عالمِ اسلام اور دنیا میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے پیش رفت جاننے کا اچھا موقع میسر آیا۔ سب سے زیادہ دل آویز شخصیت اسلامک سنٹر جاپان کے سربراہ جناب نعمت اللہ خلیل ابراہیم کی تھی جو باریش‘ معمر لیکن صحت مند اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور اُردو بھی سمجھتے ہیں۔ آپ نے خلافتِ عثمانیہ اور اُمت مسلمہ کا زوال انتہائی کرب سے بیان کیا۔
کوریا میں اشاعتِ اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے دو امور خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی زندگی کو بدلا ہے اور وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام اور رسوخ رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعات کو تحریری شکل میں محفوظ نہیں کیا۔ ان ایمان افروز واقعات کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ اشاعتِ اسلام کے لیے بہت مفید ہوگا۔ دوسری کمی کوریا میں اسلامی اسکولوں کی محسوس ہوتی ہے۔ سیول کے علاوہ دو تین اہم شہروں میں اسلامی اسکول قائم کیے جانے چاہییں تاکہ نومسلموں اور مسلم سفارت کاروں اور دیگر مسلم تارکینِ وطن کے بچوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کا مستقل بنیادوں پر انتظام ہوسکے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کو ان پہلوئوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ایک چھوٹے سے غیرمسلم ملک میں ۳۰ سال سے بھی کم عرصے میں ۵۰ ہزار کوریائی باشندوں کا قبولِ اسلام اور تقریباً ایک لاکھ غیرملکی مسلمانوں کی موجودگی‘ آٹھ بڑی خوب صورت اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد کی تعمیر اور اشاعتِ اسلام کی تیزرفتاری یہ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں اسلام تیزی سے قبول کیا جانے والا دین ہے‘ اور اسلام کے خلاف جس صلیبی جنگ کا آغاز امریکا کے حکمرانوں نے اپنے غرورِ طاقت کے نشے میں کیا ہے وہ بھی ان شاء اللہ جلد شکست سے دوچار ہوگی‘ بالآخر اسلام غالب آکر رہے گا!
کسی بھی دن کا اخبار لے لیں‘ عراق کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ‘ ایک نہ ایک خبر افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے سمجھا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد طالبان کی تحریک کا خاتمہ ہوگیا۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے حملوں کا سارا ملبہ طالبان پر گرایا گیا اور اسی بنا پر افغانستان پر تسلط عمل میں لایا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کی عسکری کارروائیوں کے بارے میں امریکی ذرائع ابلاغ کی نشریات میں شدید مزاحمت اور مسلح کارروائیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طالبان کی تحریک ازسرنو پوری قوت کے ساتھ افغانستان میں ابھر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے گفت و شنید کی خبریں بھی آنے لگیں۔
بعض عالمی ماہرین اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ القاعدہ تنظیم کے بعض دھڑے افغانستان میں ازسرنو منظم ہو رہے ہیں تاکہ طالبان کی صفوں کو مستحکم کیا جا سکے اور بھرپور منظم ہوکر جنوبی اور مشرقی علاقوں میں کارروائیاں کی جا سکیں۔ نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی جنگجو ان علاقوں میں افغانی‘ امریکی اور ناٹو کی قابض افواج کو پھانسنے اور ناکام کرنے کے لیے واپس آگئے ہیں تاکہ شدید مزاحمت کے ذریعے ان کو نکلنے پر مجبور کر دیں۔
عسکری کارروائیوں میں سے ایک کے بارے میںقندھار کے والی گل آغا شیرازی نے زور دے کر کہا کہ القاعدہ کے کئی عرب دھڑے افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں اور فدائی حملوں کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ یہی بات افغانستان کے وزیردفاع عبدالرحیم وردگ نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی: ہم القاعدہ کو اکٹھے ہوتے دیکھ رہے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ افغانستان میں مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی مواقع پر کارروائیوں میں غیرملکی افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے (۱۵ جولائی ۲۰۰۵ئ)۔ اسی طرح افغانستان کے وزیرخارجہ عبداللہ نے ہندستان کے دورے کے اختتام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:طالبان کے دھڑوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انھیں باہر سے امداد مل رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک خصوصی گروپ کے ذمہ دار فرانس کے جان آرنو نے سلامتی کونسل میں ۲۶ جون ۲۰۰۴ء کو گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’یقینا مجاہدین مزید وسائل حاصل کرچکے ہیں اور تباہی پھیلانے والا اسلحہ اور بہترین تشہیری وسائل اُن کے پاس ہیں اور وہ بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ قوت استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ سال ۲۰۰۴ء کے آغاز سے عسکری کارروائیوں میں اب تک ۶۰۰ کے لگ بھگ طالبان کے مقابلے میں ۸۵۰ افراد مارے گئے ہیں۔
امریکی جاسوسی اداروں کی ایجنسی میں بن لادن یونٹ کے ذمہ دار مائیکل شاور نے کہا: افغانستان میں سب کچھ القاعدہ کے نظریات اور منصوبہ بندی کے مطابق اور اُس کے تحت ہو رہا ہے۔ ان کا کام مسلح اسلامی تحریکوں کی معاونت ہے۔ یقینا طالبان کی قیادت یہاں بڑھتی ہوئی قوتوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری بخوبی جانتی ہے۔ القاعدہ کا نظریہ اس لحاظ سے واضح ہے کہ وہ مسلح افراد کی مکمل مدد کریں اور سامنے آنے سے اجتناب کرتے ہوئے انھیں مختلف امور سکھائیں اور مقامی اہم افراد کو اپنی منشا کے مطابق مختلف کارروائیوں کی قیادت کے لیے چھوڑ دیں۔
امریکی اور افغانی افواج نے کئی دُور دراز علاقوں میں سخت جان جنگجو افراد کا کھوج لگایا ہے جو گھنٹوں مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی موسم گرما کی کارروائیاں بہت سخت اور پچھلے سالوں کے مقابلے میں جان لیوا ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی افواج پر مسلسل دبائو کی وجہ پاک افغان سرحد کے قبائلی علاقوں میں بسنے والی القاعدہ کی قیادت ہے۔ اُن کی نقل و حرکت کی وجہ سے ہی طالبان کا ان علاقوں پر کنٹرول ہے۔ علاوہ ازیں ان امور کے ماہر اولیفیہ روا نے‘ جو فرانس کی علمی تحقیق کے ادارے المرکز الوطنی میں ہیں اور ان علاقوں کے حوالے سے عالمی ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے جلدبازی سے اجتناب کرنے کو کہا ہے: اس وقت ہمارے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ غیرملکیوں کی موجودگی ثابت کی جا سکے۔ اس نے مزید کہا: افغانستان کے حکمرانوں کے مفاد میں ہے کہ یوں کہیں: یقینا یہ سب غیرملکیوں کی کارروائیاں ہیں جن میں پاکستان میں طالبان عناصر بھی شامل ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عرب مجاہدین کی یہاں موجودگی ثابت نہ ہوئی تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔
افغانستان کی سرزمین پر طالبان کے وسعت پذیر عسکری حملوں سے چند مہینے پہلے کی امریکا کی عسکری رپورٹس کی تائید ہوتی ہے جن میں کہا گیا کہ طالبان کی تحریک پھر قوت پکڑ رہی ہے اور اُن کی صفیں ازسرنو منظم ہو رہی ہیں۔ امریکی افواج کے خدشات ہیںکہ یہاں کی صورت حال عنقریب عراق کا منظرنامہ پیش کرے گی۔ عالمی ماہرین اور ناٹو کی افواج کو نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی عراق کی صورت حال دہرائی جارہی ہے۔ طالبان کا مطمح نظر مختلف جماعتیں اور ملیشیا تشکیل دے کر امریکیوں اور افغان فوج کی توجہ کو تقسیم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے گوریلا جنگ اور شہروں میں جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ ساری صورت حال عراق کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ اگر تفصیل میں جایا جائے تو اغوا‘ فدائی حملے‘ مختلف افراد‘ سیاسی شخصیات کا قتل اور اس کی تصویریں___ یہی کچھ افغانستان میں گذشتہ چند مہینوں سے ہو رہا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ گمان تھا کہ امریکی تسلط کے کئی سال گزرنے اور افغانستان کے اکثر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حالات معمول پر آگئے ہیں اور امریکا کے لیے سازگار ہوگئے ہیں‘ جب کہ اس کے برعکس ناٹو کی افواج جو موسم گرما ۲۰۰۳ء کے بعد سے افغانستان میں ہیں‘ یہ سمجھ چکی ہیں کہ اصل امتحان ابھی شروع نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیکورٹی فورسز کی ساری کوششوں کا مرکز قندھار ہے اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کی آواز اب بھی توانا ہے‘ اُن کی تعداد بہت ہے اور انھیں قبائل اور عوام الناس کی بڑی تائید حاصل ہے۔
طالبان کے حملوں کا آغاز کرنے میں جغرافیائی حدود کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ یہاں کے پہاڑی سلسلے امریکیوں کے لیے بڑی سخت رکاوٹ ہیں۔ جغرافیائی قبائلی حدود کا باہم ملنا بھی طالبان تحریک کی سرگرمیوں کو چھپنے کے لیے مواقع اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ ہم امریکا کو پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مغربی کنارے اور شہروں کے مضافات سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قندھار ایئرپورٹ کو امریکی افواج نے اپنا بیس کیمپ بنا یا ہے‘ وہاں بھی ہیلی کاپٹر عام پرواز نہیں کرسکتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑائی کے جلد ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔
اب امریکی قندھار‘ زابل اور ازرگان کے علاقوں کی مثلث میں روزانہ کی جھڑپوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان‘ اُن کا اسلحہ‘افرادی قوت‘ عسکری طاقت‘ اُن کے حمایتی اور قائدین بڑھ رہے ہیں۔ اُن کا خاتمہ نہیں ہوا جس طرح بعض لوگوں کا گمان ہے۔ امریکی ذرائع نے کئی سالوں سے طالبان سے بات چیت کی کوششیں کی اور گویا اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ امریکا نے ابھی تک کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کیا‘علاوہ اس کے کہ طالبان جنگجوئوں کو تقسیم کر کے کمزور کر دیا ہے۔ حقیقتاً طالبان کی قوت موجود ہے۔ اُن کے قائد ملاعمر گرفتاری سے بچے ہوئے اور آزاد ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے امریکا مجبور ہوگیا ہے کہ طالبان کے وجود اور اُن کے خطرے کااعتراف کرے۔ وہ حقیقت سے آنکھیں چرانے اور بلاوجہ تاویل کرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے آخری لڑائیوں میں طالبان کے نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے۔حالیہ عسکری کارروائیوں میں اکثر ’مارو اور چھپ جائو‘ کی صورت حال اور سڑکوں پر لڑائی کی کیفیت رہی جن میں طالبان کو کافی مال غنیمت ہاتھ آتا رہا۔
افغانستان میں موجودہ صورت حال فقط عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ طالبان کی بھرپور واپسی کا آغاز ہے اور اُن کی صفوں کی ازسرنو ترتیب ہے‘ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے لیے نہایت مثبت ردعمل ہے۔ افغانستان کے عوام جنھوں نے حامدکرزئی اور امریکی تسلط کے چار سال گزارے ہیں ‘ ان کے لیے افغانستان کے معاملات میں واپسی کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس کا آغاز امریکی تسلط کے خلاف جدوجہد سے ہوچکا ہے۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۷۰‘ ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ئ)
مصر کے حالیہ انتخابات کو مغربی ذرائع ابلاغ جمہوریت کی طرف اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں‘جب کہ مصر کے محبِ وطن‘ جمہوریت پسند اور اسلام دوست حلقے اسے نہایت شرمناک ڈرامابازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟
گذشتہ برس کے اختتام پر پورے مصر میں تبدیلی کا نعرہ پورے شدّ ومد سے گونجتا نظر آیا۔ مصر کے تمام عناصر بالاتفاق نصف صدی کے جور واستبداد سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ ایمرجنسی قوانین کے نام پر شہری آزادیوں کی بُری طرح پامالی‘ سیاسی آزادیوں بالخصوص جماعت سازی‘ اظہار رائے اور صحافتی آزادیوں پر مکمل قدغن کی نصف صدی تھی۔ مصر میں صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی تھی یہ خدشات بڑھتے چلے جارہے تھے کہ ۷۷سالہ صدر حُسنی مبارک اقتدار کی باگ ڈور اپنے مشہور زمانہ بدعنوان بیٹے جمال مبارک کے سپرد کر رہے ہیں۔ اسی کے ردِّعمل میں تحریک ’’کفایہ‘‘ (Enough) منظرعام پر آئی۔
اس کی باگ ڈور لبرل عناصر کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس مرحلے پر اخوان المسلمون نے بھی سیاسی تبدیلی کے لیے مکمل اصلاحات کا ایک منشور پیش کیا۔ دیگر اسلام پسند عناصر کے ساتھ مل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے جنھیں حکومت نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے ذریعے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں جاری اس ہلچل سے ایک مرتبہ تو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید مصری حکومت کا آقاے ولی نعمت‘ امریکا‘ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جمہوری ایجنڈے کی تنفیذ پر آمادہ ہے۔ اگر اس کی خاطر حُسنی مبارک سے خلاصی بھی حاصل کرنا پڑی تو شاید دریغ نہ کرے‘ اور عین ممکن ہے کہ جمہوریت کی خاطر اسلامی تحریک کو بھی گوارا کرلے۔ لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اسی دوران امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزارائس دو مرتبہ مصر گئیں۔ دورے کے دوران انھوں نے یہ بات واضح کردی کہ مصر بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں فی الوقت امریکی ترجیح حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ علیٰ حالہٖ (status quo) ہے۔عالمی طاقت امریکا کے اس رویے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کے اس عالمی چیمپئن کا عالمِ اسلام کے لیے ایجنڈا کیا ہے؟
اخوان المسلمون کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا تحریکِ کفایہ اور حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی عدمِ شرکت‘ ایک بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ عوام پر اب خوف کا وہ عالم باقی نہیں رہا جس نے نصف صدی تک حکمرانوں کو ان کے سیاسی و سماجی اور بنیادی حقوق سلب کیے رکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ عراق میں پٹنے کی وجہ سے امریکا اور اس کے کاسہ لیس حکمرانوں کی ہوا اُکھڑچکی ہے اور عام لوگ بھی اب حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔
گذشتہ برس کے اختتام پر اندرونی و بیرونی دبائو کے تحت صدر حُسنی مبارک نے صدارت کے لیے سابقہ طریقہ کار (ریفرنڈم) میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ سابقہ طریقہ کار کے مطابق ملک کی قومی اسمبلی ایک فرد کو نامزد کرتی اور پھر ملک بھر کے عوام سے اس نام پر ہاں یا ناں میں رائے لی جاتی۔ اس طرح کے ریفرنڈم کا پاکستان میں بھی نتیجہ ہمیشہ ۹۰ فی صد تک ہاں کی شکل میں ہی نکلتا رہا ہے اورمصر جیسے آزادیوں سے محروم ملک میں اس کا نتیجہ ہمیشہ ۹۹ فی صد رہا کرتا تھا۔ نئے طریق کار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایسی ترامیم متعارف کروائی گئیں کہ کسی ’خطرے ‘ کا امکان نہ رہے۔
اب تک کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پارلیمنٹ میں حکمران جماعت حزب الوطنی کو ۹۵ فی صد نشستیں حاصل ہیں۔ حکمران جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اخوان المسلمون کے پاس ہیں جن کی تعداد ۱۷ ہے۔ پھر دیگر پارٹیوں کا نمبر آتا ہے جیسے ’’وفد‘‘ (۵)، ’’غد‘‘ (۶)، ’’ناصری‘‘ (۱)، ’’احرار‘‘ (۱) وغیرہ وغیرہ۔
نئی ترمیم کے مطابق کوئی بھی رجسٹرڈ پارٹی اپنا نمایندہ بطور صدارتی امیدوار کھڑا کرسکتی ہے۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ غیررجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کوئی نمایندہ بھی بطور امیدوار میدان میں نہیں اُتار سکتی۔ حالانکہ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے جس ملک گیر نیٹ ورک اور عوامی مقبولیت کی ضرورت ہے وہ صرف اخوان المسلمون کے پاس ہے۔
راے عامہ کے مختلف سروے بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ اخوان المسلمون کا نمایندہ ہو تو اسے کل ووٹوں کا ۳۰ فی صد حاصل ہوسکتا ہے۔
اخوان آزاد حیثیت سے اپنا امیدوار براے صدارت میدان میں اتار سکتے تھے لیکن آزاد امیدواروں کا راستہ روکنے کے لیے مذکورہ ترمیم میں اس سے بھی زیادہ سخت تر قانون یہ متعارف کروایا گیا کہ ایسے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے کم از کم ۶۲ ارکان کی تائید رکھتا ہو۔ اب اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بھی چاہیں تو مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ قومی اسمبلی کی ۹۵ فی صد سیٹوں پر حکمران جماعت قابض ہے‘ جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن کا ایک بھی ممبر موجود نہیں۔
اسی طرح یہ شرط بھی رکھی گئی کہ ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں سے بھی کم از کم ۵ فی صد لوگ آزاد امیدوار کی تائید کریں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں ۹۷ فی صد ارکان حکمران جماعت حزب الوطنی کے ہیں۔
حکمران جماعت کی ۹۵ اور ۹۷ فی صد عوامی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ اس کے لیے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہوگا۔
مصر میں کل ۳۲ ملین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳ فی صد‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق صرف ۱۸ فی صد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ۷۷ فی صد لوگوں نے موجودہ نظام بالخصوص حکمرانوں کے طریقہ کار کو ناپسند کرتے ہوئے اور بہتر متبادل امیدوار نہ ہونے کی بنا پر پولنگ اسٹیشنوں تک آنا ہی گوارا نہ کیا۔
سرکاری نتائج کے مطابق کل ووٹوں میں سے ۱۹ فی صد ووٹ حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۶ فی صد غد پارٹی کے ایمن نور اور ۲ فی صد ووٹ وفد پارٹی کے نعمان جمعہ کو ملے۔ حکمران پارٹی کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ کیسے ملے؟اطلاعات ہیں کہ حکمران پارٹی کو ووٹ دینے والے ووٹر‘ سرکاری ملازمین تھے یا گھیرگھار کر لائے ہوئے کسان اور فیکٹریوں کے مزدور۔ گائوں کے سیدھے سادھے لوگوں کے لیے نمبردار ہی کافی تھا‘ جب کہ شہروں میں حکمران پارٹی کے رئیس البلدیہ کا دبائو کارگر رہا۔ اگر اتنی عام دھاندلی نہ کی جاتی تو شاید حُسنی مبارک کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ ملنا بھی مشکل تھے۔
مطلب برآری کے لیے میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری میڈیا نے ۶۰ فی صد وقت حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۹ فی صد ’’وفد‘‘ کے نعمان جمعہ کو اور ۶ فی صد وقت ’’غد‘‘ کے ایمن نور کو دیا۔ سرکاری اخبارات توحُسنی مبارک کی ۲۴ سالہ کامیابیوں کے گن گا ہی رہے تھے البتہ اھرام جیسے نیم سرکاری اخبارات کو بھی خصوصی ضمیمہ جات نکالنے پر مامور کیا گیا تھا۔
اس سارے منظرنامے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس بار چونکہ حُسنی مبارک کا متبادل پیش کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے کارفرما قوتوں نے سردست حُسنی مبارک ہی کو برقرار رکھا ہے۔ بعدازاں ایک آدھ برس کے بعد جمال مبارک کو بقیہ مدت صدارت کی تکمیل کے لیے اقتدار منتقل کروایا جائے گا۔ موصوف کی مصر میں عمومی شہرت آصف زرداری صاحب کے ۱۰ فی صد والی ہے اور مصری عوام انھیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
جہاں تک خطے میں امریکی پالیسی کا تعلق ہے اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کو امریکی مفادات سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ سے امریکا کے تین مفادات وابستہ ہیں:۱- اسرائیل کی امن و سلامتی ۲-پٹرولیم کی بلاانقطاع ترسیل ۳- خلیج میں امریکی فوج کی تادیر موجودگی۔ حقیقی جمہوریت کے نفاذ سے یہ تینوں مقاصد ہی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کا مصرف بس یہ ہے کہ اس کا ہوّا دکھاکر خلیجی حکمرانوں کو دبائو میں لایا جاتا رہے اور انھی سے اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کروائی جائے۔
مصر کے ان انتخابات سے مستقبل میں ہونے والے کسی بھی عرب ملک کے انتخابات کی تصویر جھلکتی ہے۔ بحرین‘ سعودیہ اور قطر و امارات کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد قومی انتخابات سے ایسی مخصوص لبرل لابی اُبھاری جائے گی جو موجودہ حکمرانوں سے بھی بڑھ کر امریکی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکے۔
چین دنیا کی دوسری عسکری اور معاشی سپرپاور بن کر تیزی سے اُبھر رہا ہے۔ اب شنگھائی‘ نیویارک اور واشنگٹن سے بتدریج زیادہ اہم بنتا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی سخت گیر پالیسیوںکی وجہ سے وہاں کی اندرونی خبریں دنیا کو بہت زیادہ معلوم نہیں ہوپاتی ہیں۔ چین نے کمیونزم سے ایک قسم کی توبہ کر کے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو کارپوریٹ معیشت سے ہم آہنگ کرلیا اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت سے ہم آہنگی کے باعث ہی اس کے لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وہ جاپان کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرے اور امریکا کا مدمقابل بنتا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے ایک مخصوص طبقے کی نظر کرم بھی اب امریکا کے بجاے چین کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔ چین کی روس سے ملنے والی سرحد پر سنکیانگ کا صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ ایغوری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر ترکوں‘ تاتاریوں کی ایک شاخ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے لوگ اس صوبے کو مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
چین میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کمیونسٹ دورِ اقتدار میں سابق سوویت یونین کی طرح یہاں کے مسلمان بھی ہر طرح کے ریاستی تشددو جبر کا شکار تھے۔ بعد میں اس جبریہ نظام میں کچھ سہولتیں پیدا کردی گئی ہیں‘ البتہ ایغوری مسلمان کبھی بھی چینی تسلط سے خوش نہیں رہے‘ اس لیے وہاں گاہے بگاہے علاحدگی و خودمختاری کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ لیکن چینی حکام ہر بار ان آوازوں کو سخت بے رحمی سے کچل دیتے رہے ہیں۔بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ نہایت کمزور رہا۔
اب دیوارِ چین تو کھل گئی‘ لوگوں نے چین جانا اور تعلقات قائم کرنا شروع کر دیا ہے‘ تاہم ادھر چند مہینوں سے سنکیانگ میں حکومت پھر مسلمانوں پر شکنجہ کس رہی ہے۔ حال ہی میں چینی پولیس نے اس صوبے میں ۱۰ ایغوری مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ علاحدگی پسند ’’نیرہابوت‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور علاقے میں انقلابیوں کومنظم کرنے اور سنکیانگ کی آزادی کی مہم چلانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہاں صورت حال اتنی پُرسکون اور’’سب خیریت ہے‘‘ کی نہیں ہے جیساکہ چینی حکام دنیا کو بتاتے ہیں اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ہر ہفتہ ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں جن میں گائوں والے‘ دیہاتی اور غریب لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر پولیس سے بھڑ جاتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں جنھیں فرو کرنے اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس چھوڑنے‘ بے تحاشا ڈنڈے برسانے اور کریک ڈائون کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں۔ عوامی سلامتی کے وزیر زوپونگ کانگ کے مطابق گذشتہ سال ۲۰۰۴ء میں ۷۴ ہزار عوامی احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئی تھیں‘ جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ ۵۸ہزار تھے۔ ایک دہائی پہلے یہ ریکارڈ محض ۱۰ ہزار واقعات تک محدود تھا۔ ان مختصر اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگ (جن میں مسلمان زیادہ ہیں) چین کی معاشی پالیسیوں‘ جابرانہ اقدامات اور نظم و نسق کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ تشویش ناک حالات بتدریج کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کسی دن پون صدی سے دبے کچلے ایغوریوں میں اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھوٹ پڑے گا‘ لیکن چینی حکام یہاں کے حالات سے سختی سے نبٹ رہے ہیں اور اپنے ظالمانہ و جابرانہ اقدامات میں مزید تیزی لارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو اور بطور خاص ان ملکوں کو جن کے چین سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے ۔کم از کم اپنے وفود تحقیق حال کے لیے تو بھیجنا ہی چاہییں کہ اس علاقے کی صحیح صورت حال دنیا کے سامنے آسکے۔ (بشکریہ‘ سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘یکم ستمبر ۲۰۰۵ئ)
۴۵ کلومیٹر لمبی اور ۶ سے ۱۱ کلومیٹر تک چوڑی غزہ کی پٹی فلسطینی سرزمین کا صرف ۵ئ۱فی صد بنتی ہے۔ اس کا کل رقبہ ۳۶۵ مربع کلومیٹر ہے اور یہاں ۱۴ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ۲ ہزار ۹ سو افراد فی مربع کلومیٹر آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور ان کی روزانہ آمدنی تقریباً دوڈالر ہے۔ ۳۸ سال پہلے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا‘ یہاں بھی یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ان میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ ۲۱بستیوں کے علاوہ فوج کی کئی چھائونیاں اور حفاظتی پٹیاں قائم کی گئیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا ۵۸ فی صد علاقہ اسرائیلیوں کے زیرتصرف آگیا۔
ان یہودی بستیوں میں اگست ۲۰۰۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۷ ہزار ۳ سو یہودی آبادکار رہتے تھے۔ ۱۴ لاکھ فلسطینیوں کے سمندر میں صرف ۷ ہزار۳ سو یہودی آباد کار اور ان کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے امریکی اور اسرائیلی اسلحے سے لیس ہزاروں یہودی فوجی۔
جنرل (ر) شارون جب اپوزیشن میں تھا تو اس نے بڑھتے ہوئے فلسطینی شہادتی حملوں کو روکنے میں ناکام اسرائیلی حکومت سے کہا: ’’انھیں روک نہیں سکتے تو اقتدار چھوڑ دو‘ میں برسرِاقتدار آکر ۱۰۰ دن کے اندر اندر تحریکِ انتفاضہ ختم کرکے دکھا ئوں گا‘‘۔ خوف زدہ صہیونی عوام نے جنرل شارون کو وزیراعظم بنا دیا‘ اس نے سفاکیت و خوں ریزی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن فلسطینی عوام کی تحریکِ مزاحمت و آزادی کو نہیں کچل سکا۔
ہر قتل عام اور فوج کشی‘ فلسطینی عوام کے عزم و ہمت میں مزید اضافے کا سبب بنی اور بالآخر خون آشام شارون نے اعلان کیا: ’’میں امن کا پیغام لے کر آیا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ اس نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے مکمل اور مغربی کنارے کے شمال میں چار یہودی بستیوں سے یک طرفہ انخلا کر دے گا۔ تب سے لے کر اب تک اس اعلان پر بہت لے دے ہوئی‘ دنیا بھر میں اس یہودی قربانی اور امن پسندی کا ڈھول پیٹا گیا۔ مختلف یہودی تنظیموں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ انخلا سے ہفتہ بھر پہلے شارون کے وزیر اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ انخلا کے وقت یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی اور تصادم کے مزاحیہ ڈرامے پیش کیے گئے‘ جن میں فلسطینی بچوں پر گولیوں اور راکٹوں کی اندھادھند بارش کرنے والے دسیوں سورما فوجی ایک ایک یہودی آبادکار پر بمشکل قابو پاتے دکھائے گئے اور غزہ سے انخلا کا عمل اسرائیلی ریڈیو سے نشر ہونے والے شارون کے ان الفاظ کی گونج میں تکمیل کی جانب بڑھا کہ ’’ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غزہ سے چمٹے نہیں رہ سکتے‘ وہاں ۱۰ لاکھ سے زیادہ فلسطینی‘ گنجان آباد مہاجر بستیوں میں رہتے ہیں… بھوک اور مایوسی کے عالم میں‘ ان کے دلوں میں پائی جانے والی نفرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور انھیں اُفق میں اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی… یہودی بستیاں خالی ہوتے دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے لیکن بلاشک و شبہہ قیامِ امن کی راہ پر یہ بہترین ممکنہ قدم ہے۔ اسرائیلی عوام مجھ پر اعتماد کریں‘ خطرات کے باوجود یہ ان کی سلامتی کے لیے بہترین اقدام ثابت ہوگا… اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے۔ ہم دوستی کے لیے بڑھنے والے ہرہاتھ کو زیتون کی شاخ پیش کریں گے‘‘۔ یہی جنرل شارون اس سے پہلے غزہ کے بارے میں کہا کرتا تھا: ’’غزہ میں موجود یہودی بستیاں اسرائیلی سلامتی پلان کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ان کا مستقبل ہمارے لیے‘ تل ابیب (القدس) کے مستقبل کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
اس سرتاسر تبدیلی کی حقیقت کیا ہے؟ ناجائز اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں یہ اہم ترین واقعہ ہے جس کے انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں ہی نہیں خود اسرائیلی اخبارات بھی اسے اسرائیل کی شکست فاش کا عنوان دے رہے ہیں۔ روزنامہ ہآرٹس (بڑا عبرانی اخبار) نے ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ’’تسافی برئل‘‘ کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے: ’’اسرائیلی امپائر کا اختتام‘‘۔ اس میں وہ کہتا ہے: ’’کل سے غزہ کے یہودی آباد کار اپنا یہ لقب کھو دیں گے‘ کل کے بعد وہ آبادکار نہیں اجنبی حملہ آور اور نافرمان باغی کہلائیں گے‘ انھیں آبادکاری کا کوئی تمغہ یا انعام نہیں ملے گا بلکہ انھیں زبردستی ان جگہوں سے نکال دیا جائے گا‘ جہاں انھیں شروع ہی سے نہیں ہونا چاہیے تھا… وہ وہاں سے اس لیے نکالے جائیں گے کیونکہ اسرائیلی امپائر اب پہلے کی طرح ان کی حفاظت کے قابل نہیں رہی‘‘۔
ہآرٹس کے سیاسی مراسلہ نگار ’’الوف بن‘‘ نے لکھا کہ ’’فلسطینی عوام نے اسرائیلیوں کو کاری داغ لگایا ہے اور انھیں یہ باور کروا دیا ہے کہ آبادکاری کا منصوبہ بے فائدہ تھا۔ ان سے یہ اعتراف کروا لیا ہے کہ طاقت کا استعمال ادھورے اور محدود نتائج ہی دے سکتا ہے۔ اکثر اسرائیلیوں پر جن میں خود وزیراعظم ارائیل شارون بھی شامل ہے‘ یہ امر واضح ہے کہ ’’پہلے غزہ‘‘ کا مطلب ’’صرف غزہ‘‘ ہی نہیں بلکہ اب مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے بھی وسیع پیمانے پر انخلا کرنا ہوگا‘‘۔
حماس کے ایک اہم رہنما محمود الزھار نے غزہ سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ: ’’اسرائیلی انخلا کا اکلوتا سبب کہ جس سے ہمیں یہ تاریخی فتح حاصل ہوئی ہمارا جہاد اور مزاحمت ہے۔ حماس نے شروع ہی میں کہا تھا کہ مزاحمت ہی راہِ نجات ہے اور وقت نے اس مؤقف کی صحت پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انخلا شارون کا کسی پر کوئی احسان ہے۔ یہ انخلا ناجائز عبرانی ریاست کا غرور خاک میں ملانے والی شکست فاش ہے۔ اس انخلا کی کوئی بھی اور تفسیر‘ حقائق کو مسخ کرنا ہوگا۔ عبرانی ریاست تحریکِ مزاحمت کے القسام راکٹوں‘ سرنگوں کے ذریعے بارودی حملوں اور شہادتی کارروائیوں کا کوئی توڑ نہیں نکال سکی‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ سے صہیونی انخلا کے بعد بھی حماس اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی؟ تو محمود الزھار نے کہا: ’’ہمارا ہدف صرف غزہ کی پٹی آزاد کروانا نہیں‘ نہ صرف مغربی کنارے کی آزادی ہی ہے اور نہ صرف القدس کی بلکہ پوری کی پوری مقبوضہ سرزمین کی آزادی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں ہم ان علاقوں کی آزادی پر زور دے رہے ہیں جو ۱۹۶۷ء میں غصب کیے گئے۔ غزہ کے بعد ہم اپنی جدوجہد کا مرکز مغربی کنارے کو بنائیں گے اور غزہ میں کی جانے والی ہماری کارروائیاں مغربی کنارے میں اور بھی زیادہ اثر انگیز اور صہیونی استعمار کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوں گی‘‘۔
الفتح کے مرکزی رہنما ہانی الحسن نے بھی بعینہ انھی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اسرائیلی انخلا ایک اہم ترین قومی کارنامہ اور فلسطینی شہدا‘ قیدیوں اور مجاہدوں کی قربانیوںکا ثمر ہے۔ یہ کسی کا ہم پر احسان نہیں‘ فلسطینی عوام کی بے مثال قربانیوں اور صبروثبات کا نتیجہ ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینی عوام میں اتحاد و تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ سے انخلا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘ جس کا دارالحکومت القدس ہوگا‘‘۔ یہ اور اس طرح کے سیکڑوں بیانات اور تجزیے ہیں جو اس اہم حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’یہودی انخلا بھڑوں کے چھتے سے نجات پانے کی نمایاں ترین کوشش ہے‘‘۔ (تیونسی اخبار الشروق‘ ۱۶ اگست ۲۰۰۵ئ)
عبرانی ریاست کی تاریخ کے اس منفرد اور اکلوتے واقعے کے بعد ابھی مزید کئی چیلنج درپیش ہیں۔ اگرچہ مغربی کنارے کے جنین کیمپ کے گردونواح میں واقع چار بستیوں سے بھی انخلا کیا جا رہا ہے جس کا منطقی انجام پورے مغربی کنارے سے انخلا ہونا چاہیے لیکن فی الحال یہ خطرہ موجود ہے کہ مغربی کنارے سے نکلنے کے بجاے وہاں مزید یہودیوں کو لا بسایا جائے اور اس پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف انخلا کا عمل ادھورا رہے گا بلکہ فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی جوابی کارروائیوں میں بھی یقینی اضافہ ہوگا۔
غزہ کی پٹی سے انخلا کے باوجود اس کی تمام سرحدیں زمینی و آبی گزرگاہیں اور فضائیں اسرائیلی کنٹرول میں رہیں گی۔ فلسطین کے جنوب مغرب میں واقع اس پٹی کی ۱۱کلومیٹر لمبی سرحد مصر سے ملتی ہے‘ ۵۱ کلومیٹر سرحد مقبوضہ علاقوں سے ملتی ہے اور ۴۵ کلومیٹر بحرِمتوسط کا ساحلی علاقہ ہے۔ ان چہار اطراف میں اسرائیلی فوجیں ہوں گی جو غزہ سے آنے یا وہاں جانے والے ہر شخص اور سازوسامان کی آمدورفت کنٹرول کریں گی۔
پوری پٹی کے چار بڑے شہر ہیں۔ پرانا ساحلی شہر ’’غزہ‘‘ ہے جس کی بندرگاہ تباہ کر دی گئی ہے اور مصر کی یہ پیش کش مسترد کر دی گئی ہے کہ وہ اس بندرگاہ کی تعمیرنو میں مدد دے۔ دوسرا قدیم شہر ’’رفح‘‘ ہے جس کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے۔ فتح اسلامی کے بعد تعمیر ہونے والے دوبڑے شہر ’’دیرالبلح‘‘ اور ’’خان یونس‘‘ ہیں جن میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے فلسطینی بے روزگاروں کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں اس بات کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ غزہ سے انخلا کے بعد اس کا مکمل اقتصادی محاصرہ کر دیا جائے۔ غزہ کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں فلسطینی دیہاڑی دار دیگر مقبوضہ علاقوں میں مزدوری کے لیے جایا کرتے تھے‘ سیکورٹی کے نام پر انھیں بھی محصور کردیا جائے اور اس طرح ایک طرف تو غزہ سے نکل کر فلسطینیوں کے آئے دن کے حملوں سے خود کو محفوظ کرلیا جائے اور دوسری طرف پوری پٹی کو ایک بڑے جیل خانے میں بدل دیا جائے۔
جنرل شارون اور امریکی انتظامیہ دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ سے انخلا صہیونی ریاست کا بہت جرأت مندانہ اقدام اور بہت بڑی قربانی ہے‘ اب گیند فلسطینیوں کی کورٹ میں ہے اور شارون کے الفاظ میں: ’’اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے‘‘، یعنی ہماری اس قربانی کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ محمود عباس کی بنیادی خوبی ہی یہ گردانی جاتی ہے کہ وہ انھاء عسکرۃ الانتفاضہ (انتفاضہ تحریک سے عسکریت کا خاتمہ) کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس حساس موڑ پر انھوں نے جنرل شارون اور صدربش کے دبائو میں آتے ہوئے اس کامیابی کے اصل ہیروئوں کے خلاف اقدامات کیے تو یہ سب کے لیے ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔
انخلا کے عین دوران شارون کا یہ بیان بہت اہم تھا کہ ’’اب ہم عرب دنیا سے تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب ہیں‘‘۔ عرب دنیا سے تعلقات کا ایک اہم مرحلہ اوسلو معاہدے کے بعد دیکھنے کو آیا تھا۔ جب کہا گیا کہ ’’خود فلسطینیوں نے اسرائیل سے صلح کرلی ہے تو ہم کیوں نہ کریں‘‘۔ اب ایک بار پھر یہی فریب دیا جارہا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب‘ جب کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا الگ وطن تسلیم کرلیا ہے تو ہم جواباً اسرائیل کا وجود تسلیم کیوں نہ کریں۔ حکومت پاکستان نے بھی بیان دیا ہے کہ ’’آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے جس کا دارالحکومت القدس ہو اور جو امن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ رہ سکے‘‘۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان نے ایسے مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل برآمد ہوسکے‘‘۔ اس بیان میں ’’مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل‘‘ اور ’’فلسطینی ریاست کا اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا‘‘ قابلِ غور ہیں۔
ایک اور بڑا چیلنج خود فلسطینی اتھارٹی پر کرپشن کے سابقہ واضح الزامات کے تناظر میں غزہ کے خالی کیے جانے والے علاقوں کو مزید شخصی اور تنظیمی کرپشن سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایک مفلوک الحال‘ بے روزگار و محروم معاشرے میں آزاد ہونے والے علاقوں کو کسی نزاع کا باعث بننے سے بچانا ہے۔ اگر مکمل ایمان داری اور احساس امانت و ذمہ داری سے ان علاقوں کو معاشرے کی فلاح اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا تو یہ نہ صرف ایک آزمایش میں سرخروئی ہوگی بلکہ تعمیرمستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔
ان چیلنجوں سے فلسطینی قوم اور اُمت مسلمہ کیونکر نمٹتی ہے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک حقیقت سب کو نوشتۂ دیوار دکھائی دیتی ہے کہ وسیع تر اسرائیل اور فرات سے نیل تک اسرائیل قائم کرنے کا خواب فلسطینی بچوں اور پتھربردار نسل نے بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ پہلے جنوبی لبنان سے فرار ہوئے اور اب غزہ اور مغربی کنارے کی چار یہودی بستیوں سے‘ آیندہ پورے مغربی کنارے سے‘ بیت المقدس سے اور… یقینا یہ سب فلسطینی شہدا کے خون‘ لاکھوں افراد کی مسلسل قربانیوںاور جہاد ہی کا ثمرہے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا دو عالمی طاقتوں کی نگرانی میں تھی۔ برطانیہ کے زوال کے بعد امریکا اس کا جانشین بنا تھا‘ جب کہ دوسری سوپرپاور سوویت یونین تھی‘ جو اب روس تک محدود ہوچکی ہے۔ اب پوری دنیا میں امریکا ہی واحد قوت کے طور پر اُبھرا ہے۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں امریکا نے ۳۴ فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: خلیج عرب کے علاقے میں ۱۵‘ پاکستان اور افغانستان آٹھ‘ عراق چار‘ ترکی ایک‘ جارجیا ایک‘ آذر بائیجان مسلسل امریکی فوجی موجود۔ کرغیزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان پانچ (عراق سے امریکا کے انخلا کے بعد وہاں چار اڈے قائم رہیں گے‘ باشور شمالی کردستان:۱‘ بغداد: ۱‘ ناصریہ: ۱‘ مغربی عراق: ۱)۔
علاوہ ازیں جاپانی جزیرہ اکیناوا‘ فلپائن اور مشرق میں جنوبی بحرچین سے لے کر مغربی ساحلوں تک دنیا کے متعدد علاقوں میں امریکی فوجی اڈوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طرف سے یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ مراکش کے علاقہ طانطان میں بھی امریکی فوجی اڈا و بحری مستقر قائم کیا جا رہا ہے۔
وسطی ایشیا کے ممالک پانچ اسلامی ریاستوں: کرغیزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان اور قازقستان پر مشتمل ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین کے سقوط کے بعد آزاد ہونے پر کمیونسٹ مکتبِ فکر کے لیڈروں نے ان پر تسلط جمالیا۔ مگر جلد ہی یہ پانچوں مسلم ممالک امریکی چنگل میں آگئے۔ سانحہ ستمبرکے بعد تو امریکی حکمرانوں نے ان پر اپنی گرفت زیادہ مضبوط کرلی۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے وہاں بیسیوں فوجی اڈے بنالیے۔
پیٹرک مارٹن (Patric Martin)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کرغیزستان میں واقع امریکی اڈا ۴۰ ہیکٹرعلاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دارالحکومت بیشکک سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ اپنے قریبی ہوائی اڈے ماناس کی مناسبت سے ماناس بیس (base) کہلاتا ہے۔ یہ امریکی اڈا فضائی مستقر ہے۔ یہ ۳ ہزار فضائی ہتھیاروں کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہاں سے افغانستان میں سرگرم امریکی افواج کو امداد اور راشن وغیرہ سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہاں لڑاکا طیارے بھاری تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ یہاں سے جاسوسی طیارے اواکس پڑوسی ممالک کی جاسوسی کے لیے پرواز کرتے ہیں۔ ماناس سے شمالی کابل تک اسلحہ‘ ایندھن اور راشن کی ترسیل میں ہوائی پرواز میں چند منٹ لگتے ہیں۔ پاکستان میں موجود ہوائی اڈوں سے بھی چند لمحوں کی پرواز کے بعد طیارے افغانستان میں مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ کرغیزستان کا اڈا اپنی نوعیت کا منفرد اڈا ہے جو بّری اور فضائی دونوں مقاصد کے لیے بیک وقت استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حلیف یورپی ممالک کی افواج کابھی خیرمقدم کیا جاتا ہے جو تربیت اور امریکی افواج کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں کے لیے اس اڈے پر پہنچتی رہتی ہیں۔
ماناس بیس سے ۹۰۰کلومیٹر کی مسافت پر خان آباد میں امریکی اڈا قائم ہے۔ ازبکستان کی سرزمین میں واقع یہ اڈا کارشی شہر کے قریب ہے۔ یہ شہر ترکمانستان کی سرحدوں کے بالکل قریب ہے۔ یہ درمیانے حجم کا اڈا ہے جو بّری اور فضائی افواج کے تقریباً ایک ہزار افراد کی گنجایش رکھتا ہے۔
تاجکستان میں امریکی افواج کے تین اڈے موجود ہیں۔ ایک اڈا وادی فرغانہ میں ہے جو کرغیزستان‘ ازبکستان اور تاجکستان کی عسکری لحاظ سے انتہائی اہم تکون ہے۔ باقی دو اڈے خوجاند اور قورغون تیب میں ہیں جو افغانی سرحدوں کے قریب واقع ہیں۔ آذر بائیجان میں ابھی تک کوئی امریکی فوجی اڈا قائم نہیں ہوا‘ تاہم اسے عسکری تعاون حاصل ہے۔ امریکا اور ترکی کی طرف سے آذر بائیجان کے افسروں کو امریکا میں تربیت دی جارہی ہے۔
ترکمانستان کا شمار علاقے کے سب سے بڑے قدرتی گیس سے معمور ملک کے طور پر ہوتا ہے‘ جب کہ قازقستان بحرِقزوین کے ممالک میں سب سے بڑے ایسے ملک کے طور پر نمایاں ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ ان دونوں ملکوں کا امریکا کے ساتھ رابطہ مضبوط ہے اور امریکا کے ساتھ ان کے اسٹرے ٹیجک تعلقات روزافزوں ہیں۔ ان کے امریکا کے ساتھ عسکری اور غیرعسکری معاہدے ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی گیس اور تیل کو منتقل کرنا اس علاقے میں امریکا کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر دو جہتوں سے کام ہوگا:
۱- ترکمانستان اور قازقستان سے آذربائیجان___ وہاں سے جارجیا___ پھر ترکی کی بندرگاہ جیہان (بحرِمتوسط پر واقع) تک___ وہاں سے عالمی منڈی تک___ یادرہے کہ ان اسلامی ممالک سے تیل اور گیس نکال کر دہشت گرد ملک اسرائیل تک پہنچانے کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں جو ترکی اور امریکا سے معاہدے کرچکا ہے۔
۲- ترکمانستان اور قازقستان سے افغانستان تک‘ پھر پاکستان___ تاکہ بحرِہند کے ذریعے ایشیائی منڈیوں تک تیل اور گیس کو منتقل کیا جائے۔ نیز بحرِاحمرکے ذریعے نہرسویز سے یورپی منڈی تک۔
پاکستان‘ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک میں قائم امریکی فوجی اڈوں کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے‘ وہ اس امر کی تصدیق کریں گے کہ جس طرح کی سڑکیں اور بنیادی ڈھانچا تعمیر کیا جا رہا ہے‘ یہ سب کچھ عارضی فوجی اڈوں کی خاطر نہیں ہو رہا بلکہ یہ ایک ایسے عسکری تسلط کے لیے ہے جو کم از کم ۱۰۰ سال تک برقرار رکھا جائے گا۔ امریکا کی مرکزی کمان نے اپنی افواج کو جو ہدایات دی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا کے اڈے محض فضائی اسلحہ کی منتقلی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد علاقے میں استحصال کے لیے ہروقت مستعد رہنا ہے اور امریکی بّری ‘ بحری اور فضائی افواج کو حسب موقع استعمال کرنا ہے۔
جب بھی وسطی ایشیا کے ممالک روس‘ چین اور ایران سے تعلقات قائم رکھنا چاہیں گے تو انھیں ہر وقت امریکی نگرانی کا سامنا ہوگا۔ اس علاقے میں امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے حکمرانوں اور عوام کے تعلقات بھی کشیدہ رہیں گے۔ کیونکہ حکمران ہمیشہ امریکی حکام کی خوشنودی کو اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ معزول کرغیزی صدر عسکر اکاییف نے سیکڑوں لوگوں کو محض امریکا کی خوشنودی کی خاطر گرفتار کرلیا تھاجن میں زیادہ تر اسلام پسند تھے۔ معزول صدر نے وسطی ایشیا میں ’’القاعدہ ‘‘تنظیم کے خلاف امریکی مہم میں ’’تعاون‘‘ کیا تھا۔
اوّل: ملک کا حکمران امریکا کا علانیہ حلیف ہو‘ یعنی وہ علاقائی ممالک‘ جیسے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کے توازن کو نظرانداز کر کے کھلم کھلا امریکی پالیسیوں پر کاربند رہے۔ امریکا کی پالیسی ان ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنا ہوگی‘ نیز وہ کرغیزستان اور تاجکستان وغیرہ میں اسلامی تحریکوں کے امور کا مطالعہ کر سکے گا۔ وہ چین کے مغربی صوبے مشرقی ترکستان پر جو آزادی کے لیے کوشاں ہے‘ نظر رکھ سکے گا۔ معزول کرغیزی صدر نے ماناس کے امریکی فوجی اڈے کی موجودگی کی وجہ سے روسی اندیشوں کے ازالے کے لیے اپنے ملک میں روسی عسکری وجود کی خواہش ظاہر کی تھی مگر امریکا ایسی کسی کوشش کو انتہائی ناپسند کرتا ہے۔
دوم: امریکا اپنے فوجی اڈوں کے قیام کی وجہ سے حزبِ اختلاف کی قیادت سے بہترانداز میں افہام و تفہیم کرسکے گا۔ وہ علاقے میں اپنے منصوبوں کے حق میں حزبِ اختلاف کو استعمال کرنے کے قابل ہوگا تاکہ وسطی ایشیا کے تمام حکومت مخالف قائدین کے ساتھ روابط قائم کرکے انھیں اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں لاسکے۔
سوم: امریکا مقامی لوگوں سے رابطہ کر کے ___ امریکی فوجی اڈوں کے وجود سے انھیں فائدہ پہنچاکر اپنا حامی بنا لے گا۔ امریکی محققین نے اس امر کی تحقیق کی ہے کہ جاپانی جزیرہ اکیناوا میں طویل عرصے سے امریکی فوجی اڈا کیسے قائم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک پس ماندہ اور دُورافتادہ جزیرہ ہے اور باقی جزیروں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست تر ہے۔ یہاں کے لوگ جب بھی امریکی فوجی اڈے کی موجودگی پر اعتراض کرتے ہیں تو امریکی اڈے کی انتظامیہ کی طرف سے عوام کو زرعی ریلیف دیا جاتا ہے۔ ان کی زرعی اور تجارتی پیداوار کو خریدا جاتا ہے۔ یوں ان کا ’’منہ بند‘‘ کر دیا جاتا ہے۔
کیمبرلے جے مانٹن (Kimberly J. Manten ) کی تحقیق کے مطابق امریکی انتظامیہ یہ حکمت عملی وسطی ایشیا کے ممالک میں اپنارہی ہے۔ وہ مقامی باشندوں کے لیے ترقیاتی منصوبے بناتی ہے اور ہزاروں مقامی باشندوں کو ان فوجی اڈوں پر مختلف خدمات کی سرانجام دہی کے لیے ملازم رکھتی ہے۔
چہارم: امریکا وسطی ایشیا کے ممالک کی پیداوار کو انتہائی سستے داموں حاصل کرتا ہے اور اس سے خوب نفع کماتا ہے۔ ایک بیرل تیل جس پر امریکا کے صرف ۱۰ ڈالر لگتے ہیں وہ مغربی ممالک میں ۱۲۰ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ امریکا کے لیے خلیجی ممالک میں سیکورٹی اور مہارت کے کئی مسائل ہیں‘ جب کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں اُسے ایسے مسائل کا سامنا نہیں۔ بحرِقزوین کے جنوبی علاقے کو بجاطور پر ’’نئی خلیجِ عرب‘‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کا مستقبل درخشاں ہے۔
پنجم: امریکا اپنے عسکری اڈوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر نظریاتی منصوبہ بندی کرے گا۔ وہ ’’اعتدال پسندی‘‘، ’’روشن خیالی‘‘ جیسے سیکولر نظریات کا پرچار کرے گا‘ نیز مسیحی مشنریوں کو کھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ یوں وہ ایک طرف کمیونزم کے زوال سے پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا اور دوسری طرف اسلامی تحریکوں کو کچلنا اس کے لیے آسان ہوگا۔
سرد جنگ کے بعد پہلی بار امریکی اور روسی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں بلکہ ایک فرضی خطرے ’’بین الاقوامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف نبردآزما ہیں۔ روس امریکا کی امداد کے بغیر کوہِ قاف کے علاقے کی علیحدگی پسند اسلامی تحریکوں سے تنہا نبٹنے سے قاصر ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ قازقستان میں ماسکو کے زیرنگرانی ایٹمی عسکر بھی ہے اور حکومت نے امریکا کا تعاون بھی حاصل کررکھا ہے۔ اُدھر کرغیزستان میں دارالحکومت کے قریب امریکی فوجی اڈا بھی قائم ہے اور روسی فوجی اڈا بھی۔
روسی رویہ مخالفت کا نہیں بلکہ اپنے داخلی مسائل پر قابو پانے کی مجبوری کی وجہ سے امریکا کے ساتھ نرمی اور رعایت کا ہے۔ باقی رہیں وسطی ایشیائی ممالک کی حکومتیں تو ان کے نزدیک امریکی یا روسی فوجی موجودگی یکساں ہے بلکہ وہ امریکا کے قرب کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ مغربی منڈیوں تک ان کی رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ ان کا اقتدار بھی محفوظ تر ہوجاتا ہے۔
بہت سے وسطی ایشیائی ممالک میں روسی اڈوں کی جگہ امریکی فوجی اڈوں نے لے لی ہے‘ مثلاً کابل کے قریب باگرام میں سابق سوویت یونین کا فوجی اڈا تھا۔ اب امریکا نے وہاں اڈا قائم کرلیا ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنے نو مستقل فوجی مستقر قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو ہیلمنڈ‘ ہرات‘ نیم روز‘ بلخ‘ خوست اور پاکیتا میں ہوں گے۔ ان اڈوں کے قیام کا مقصد افغانستان جیسے غریب ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد ایشیا کے جنوبی اور وسطی مسلم ممالک پر اسٹرے ٹیجک دبائو قائم رکھنا ہے۔ ان فوجی اڈوں کا ایک مقصد عالمِ اسلام کی حکومتوں کو دھمکانا اور مرعوب کرنا بھی ہے تاکہ وہ امریکی حکام کی تابعِ مہمل بن کے رہیں۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۵۶‘ ۲۸ جون ۲۰۰۵ئ)
(مزید معلومات کے لیے دیکھیے: ۱- الجغرافیا السیاسیۃ از ڈاکٹر محمد محمود الدیب‘ قاہرہ‘ ۲۰۰۴ئ۔ 2- Patric Martin (January 2002) US bases pave the way for longterm intervention in Central Asia. World Socialist Website. 3. Kimberly J. Marten (Nov. 2003) US Military bases in post Soviet centeral Asia, Economic Lesson from Okinawa. Ponars Policy Memo 311. Barnard College, Columbia University.
۴- افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فضائی اڈا ہرات صوبے میں ہے جو ایرانی سرحدوں سے صرف ۱۰۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو۔ Asia Times کی ویب سائٹ پر تجزیاتی مضامین)
عرب اور مسلم ممالک کے ذہین ترین افراد‘ ماہرین معاشیات‘ ماہرین ٹکنالوجی اور سائنس دان اعلیٰ فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکا‘ یورپ اور دیگر ممالک میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یوں اُمت مسلمہ اپنے ذہین ترین افراد کی ذہانت و مہارت سے محروم رہ جاتی ہے۔ ذیل میں ہم گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلم ماہرین کی ترقی یافتہ ممالک منتقلی و قیام کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق مصر سے تقریباً ۲۰ لاکھ سے زائد سائنس دان باہر منتقل ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ۶۲۰ سائنس دان انتہائی نایاب سائنسی شاخوں کے ماہر ہیں۔ ۹۴ سائنس دان نیوکلیائی انجینیرنگ میں ممتاز و منفرد درجہ رکھتے ہیں۔ ۲۶ سائنس دان ایٹمی فزکس کے ماہر ہیں‘ جب کہ ۷۲ سائنس دان لیزر ٹکنالوجی میں سرفہرست ہیں۔ ۹۳ سائنس دان الیکٹرانک اور مائیکرو پروسیسنگ میں نمایاں ہیں‘ جب کہ ۴۸ پولیمرکیمسٹری کے ماہرین ہیں۔ مزیدبرآں ۲۵ علوم فلکیات و فضائیات پر دسترس رکھتے ہیں‘ ۲۲ علوم ارضیات اور زلزلوں وغیرہ کے امور میں‘ جب کہ ۲۴۰ سائنس دان دیگر مہارتوں میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
مصر سے ہر سال ایم اے اور ڈاکٹریٹ کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جاتی ہے۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آنے سے انکار کردیتے ہیں‘ حالانکہ ایک شخص پر حکومت تقریباً ایک لاکھ ڈالر خرچ کرتی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے مصری ماہرین کی زیادہ تر تعداد امریکا‘ کینیڈا‘ یورپ اور آسٹریلیا میں کام کر رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ماہرین کی بیرون ملک منتقلی کا ایک اہم سبب حکومتِ مصر کی ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ بیرونی ممالک جانے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۶۷ء میں شکستِ مصر کے بعد ہوا۔ ترکِ وطن کا ایک اور اہم سبب مصر میں سیاسی پابندیاں اور آمریت ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دسوقی ۱۹۶۱ء میں ڈاکٹریٹ کے لیے امریکی یونی ورسٹی سیٹن فورڈ گئے۔ جب وہ ۱۹۶۶ء میں واپسی کے لیے تیاری کر رہے تھے تو ان کا بے گناہ نصف خاندان مصری جیلوں میں پڑا تھا۔ انھوں نے بارہا وطن واپس آنے کا ارادہ کیا لیکن پورا مصر زندان بنا ہوا تھا۔ بالآخر جب انورالسادات نے قدرے آزادی کا ماحول پیدا کیا تو ڈاکٹر دسوقی نے مصرواپسی کا فیصلہ کیا۔
ماہرین کی بیرون ملک منتقلی اور مستقل قیام کی اس تعداد میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے۔ یادرہے کہ مصر سے باہر رہنے والے ۸ لاکھ ۲۴ ہزار ماہرین میں سے ۸۲۲ جدید ٹکنالوجی کے زبردست ماہر ہیں جو کہ سب کے سب امریکا میں رہ رہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں ترقی یافتہ یورپی ممالک میں مستقلاً رہایش پذیر ہیں۔ ان میں ۲ ہزار ۴ سو ۵۵ ایٹمی شعاعوں کے ذریعے علاج کے ماہر‘ دل کے آپریشن و معالجے کے ماہر‘ انجینیرنگ بالخصوص نیوکلیائی انجینیرنگ ‘نیز انسانی علوم کے ماہرین ہیں۔ زراعت و معیشت کے اعلیٰ ترین ماہرین بھی ان میں شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ممتاز ترین ماہرین میں سے ۳ لاکھ ۱۸ ہزار ریاست ہاے متحدہ امریکا میں‘ جب کہ ایک لاکھ ۱۰ ہزار کینیڈا میں‘ ۷۰ ہزار آسٹریلیا میں اور ۳ لاکھ ۳۶ ہزار مختلف یورپی ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مصری ایٹمی سائنس دانوں کی ایک کثیر تعداد عراق میں بھی کام کر رہی تھی۔ صدام حکومت نے اقوام متحدہ کے چھان بین کرنے والے عملے کو ۵۰۰ ایسے مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست پیش کی تھی جو عراق میں کام کر رہے تھے‘ جب کہ اس تفتیشی عملے نے ۱۵۰۰ مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی تھی جو عراقی ایٹمی پروگرام میں کام کر رہے ہیں۔ مصری ارکانِ پارلیمنٹ نے عراق میں کام کرنے والے مصری سائنس دانوں کے بارے میں اپنی تفتیش کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ عراق پر امریکی قبضے سے قبل مصری پارلیمان کے سات ارکان نے ایک بیان میں حکومت مصر سے ان سائنس دانوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی سفارت کاروں نے عراق میں کام کرنے والے مصری ایٹمی سائنس دانوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔
متعدد مصری سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس موساد عرب ایٹمی سائنس دانوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیتی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں مصر کے ایک عظیم ایٹمی سائنس دان یحییٰ المشد کو اسرائیلی انٹیلی جنس کے افراد نے پیرس میں شہید کردیا۔ ایک اور سائنس دان سمیرہ موسیٰ کو بھی ایک یورپی دارالحکومت میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد مسلم سائنس دانوں کے قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ عراق کے ایٹمی سائنس دانوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا‘ جب کہ کئی ایک کو بھاری مالی پیش کش کرکے امریکا لے جایا گیا ہے۔
عرب لیگ نے فروری ۲۰۰۱ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ عرب ماہرین کی بیرونِ ملک منتقلی سے عربوں کو ۲۰۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل‘ امریکی اور یورپی سائنس دانوں کو بھاری معاوضہ دے کر اسرائیل میں کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سربراہ نے بتایا ہے کہ مصر ۱۹۵۶ء اور ۱۹۷۳ء کے مابین تقریباً ۳ لاکھ ۵ ہزار مصری ذہانتوں سے محروم ہوا ہے۔ ان سب ماہرین نے امریکا اور کینیڈا میں سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں امریکی کانگرس نے ایک خفیہ امریکی پالیسی پر بحث کی جس کا مقصد مصر اور بھارت جیسے ممالک سے ذہین ترین افراد کو امریکا منتقل کرنا تھا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک ۴ لاکھ ۵۰ ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عربوں کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ا علیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ماہرین کی بیرونِ ملک منتقلی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مسلم ممالک کو ایسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کو جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور مسلم سائنس دانوں کی اپنے ممالک میں کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ انھیں مناسب سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور انھیں جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا ہوگا تاکہ مسلم ممالک ان ماہرین کی ذہانت اور مہارت سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پاکستانی حکام نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ مسلم سائنس دانوں کے لیے انتہائی روح فرسا اور مایوس کُن ہے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۴۸‘ ۲۹ اپریل ۲۰۰۵ئ)
یمنی صدر کے بقول: ’’عرب حکمران اُونٹ کی طرح ہیں‘ طیش میں آجائیں تو قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور رام ہوجائیں تو بچہ بھی نکیل کھینچے پھرتا ہے‘‘۔ امریکا کی خاتون وزیرخارجہ نے اس تشبیہہ پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کئی کئی عشروں سے اپنے عوام کی گردنوں پر سوار عرب حکمرانوں کو ایسا رام کیا ہے کہ حکم پر حکم صادر کر رہی ہے اور کسی کو چوں تک کہنے کی جرأت نہیں ہورہی۔ کونڈولیزا نے حالیہ دورئہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی‘ اُردنی‘ مصری‘ سعودی اور صہیونی ذمہ داران سے بنیادی طور پر دو ہی باتیں کیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل اور فوری اصلاحات تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔
مشرق وسطیٰ کا حل تو صرف اسی صورت ممکن ہے کہ صہیونی ہاتھ‘ فلسطینیوں کی گردن پر امریکی تلوار تانے رکھیں‘ کیونکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ کے تازہ بیان کے مطابق: ’’محمود عباس ہم سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ اس کی گردن پر رکھی تلوار اسے اپنے تیزدھار ہونے کا یقین دلاتی رہے‘‘۔ محمود عباس سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق تحریکِ انتفاضہ کو غیرمسلح کریں۔ جن دہشت گردوں کی فہرستیں ہم دے رہے ہیں انھیں گرفتار کریں اور اگر شارون اپنی مرضی اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ’’بے مثال وسیع الظرفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف غزہ سے انخلا جیسا ’’عظیم‘‘ کارنامہ انجام دے تو اس پر شادیانے بجائیں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ اب صہیونی ریاست فلسطین کا مقبوضہ علاقہ نہیں اسرائیل ہے اور یہودی قوم ہماری دشمن نہیں عزیز و عظیم دوست ہے۔
رہیں اصلاحات تو یہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اہم ترین حصہ ہیں‘ عراق اور افغانستان پر قبضے سے بھی زیادہ اہم۔ یہ الگ بات ہے کہ عراق میں ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصانات کے باعث‘ وسیع تر اصلاحات کچھ تاخیر کا شکار ہوجائیں اور بالآخر سارا منظر ہی بدل جائے‘ لیکن فی الحال یہی سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ مسلم ملکوں میں من مرضی کی مکمل تبدیلی کے بغیر ’’نام نہاد‘‘ دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔
کونڈولیزا رائس نے مختصر عرصے میں دوسری بار خطے کے حکمرانوں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انھیں ’’دوٹوک‘‘انداز میں کہا کہ وہ آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں جب انھوں نے اپنا یہ حکم دہرایا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے کہا: ’’رائس نے حق بات کہہ کر باطل مراد لی ہے۔ انھوں نے مصری عوام ہی کا مطالبہ دہرایا ہے لیکن اس کا مقصد واقعی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخاب نہیں‘ کمزور عرب حکومتوں سے مزید امریکی احکامات تسلیم کروانا ہے۔ عرب حکومتیں اپنے عوام کی بات پر تو کان نہیں دھرتیں لیکن دہرے معیار رکھنے والی امریکی انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ امریکا بات تو جمہوریت‘ آزادیوں اور منصفانہ انتخابات کی کرتا ہے لیکن مسلم عوام پر خود وہ تمام مظالم ڈھاتا ہے جن سے اسرائیلی مفادات کی حفاظت و تکمیل ہوتی ہو‘‘۔
قاہرہ یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ نے بھی کونڈولیزا کے بیانات پر یہی تبصرہ کیا ہے کہ ’’رائس کے بیانات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ان امریکی خواہشات کی ترجمانی کر رہی ہیں جو خطے پر امریکی قبضے کے استحکام کے لیے امریکی انتظامیہ کے دل میں مچل رہی ہیں۔ امریکا عرب ملکوں کے نظام نہیں‘ چند چہروں کو بدلنا چاہتا ہے‘‘۔
امریکا عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں لانا چاہتا ہے‘ مصر ہمیشہ کی طرح ان کا سرخیل ہے۔ نظام و نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں اب مسلم ممالک پر مسلط کی جارہی ہیں‘ مصرکیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے ان کا آغاز کرچکا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ’’حلالی‘‘ تسلیم کرنے کی جو بات اب مسلم دنیا سے اٹھائی جارہی ہے‘ کیمپ ڈیوڈ اس معراج پر عشروں سے پہنچا ہوا ہے۔مختلف عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی جو لہریں ہلکورے کھارہی ہیں‘ مصر میں سر سے اونچی ہورہی ہیں۔ وہی مصر جہاں صدر کے خلاف سرگوشیوں میں بھی بات کرنا ممکن نہ تھا اب کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں نئی سے نئی تنظیم وجود میں نہ آرہی ہو۔ مصری قانون کے مطابق تو عالم عرب کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمون سمیت یہ سب تنظیمیں غیرقانونی ہیں‘ لیکن ان کے جلسے اور جلوس ملک کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق افراد نے اپنی الگ تنظیم اعلان کی ہے۔ اب ’’طلبہ براے تبدیلی‘‘، ’’کسان براے تبدیلی‘‘، ’’پیشہ ورافراد براے تبدیلی‘‘ حتیٰ کہ ’’فلمسٹار براے تبدیلی‘‘ کے نام سے نئی نئی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں۔
کونڈولیزا نے بھی شاید مصر کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کے نو نمایندوں سے بھی ایک اجتماعی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں سب سے نمایاں‘ سب سے مؤثر اور حکومت کی تمام تر سختیوں اور کوششوں کے باوجو د ایوان پارلیمنٹ میں ۱۷ سیٹیں حاصل کرنے والی تحریک اخوان المسلمون کو دعوت نہیں دی گئی‘ اور کونڈولیزا نے باقاعدہ بیان دیا کہ ’’بش انتظامیہ اخوان سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ بات چیت کا ہی فی الحال کوئی ارادہ رکھتی ہے‘‘۔ اخوان المسلمون بھی امریکی وزیرخارجہ کی آمد سے پہلے اپنا یہ قدیم مؤقف دہرا چکے تھے کہ ’’اگر کسی بیرونی ملک کو ہم سے مذاکرات کرنا ہیں تو وہ مصری وزارتِ خارجہ کے توسط سے رابطہ کرے‘‘۔ شاید اس اعلان کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اخوان پر لاتعداد مظالم اس الزام کی آڑ میں ڈھائے گئے کہ یہ بیرونی طاقتوں کی آلۂ کار ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اخوان کے اس واضح مؤقف کے باوجود اس کے خلاف یہ الزام اب بھی دہرایا جاتا ہے‘ جب کہ جو تنظیمیں اب وجود میں آرہی ہیں‘ جن سے امریکی حکمران باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں‘ جن کا ایک فرد گرفتار ہوجائے تو پورا مغربی میڈیا احتجاج کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ امریکی یونی ورسٹی کے ایک سابق پروفیسر سعدالدین ابراہیم اور ’’الغد‘‘ پارٹی کے ایک لیڈر ایمن نور کی چند روزہ گرفتاری پر ان کا نام لے لے کر امریکی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے احتجاج کیا اور بالآخر انھیں رہا کروا لیا۔ ان تنظیموں پر مغربی ممالک کا آلہ کار ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حالیہ ماہ جون میں اخوان المسلمون کے ۸۵۰ افراد گرفتار ہوئے جن میں اخوان کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی قائدین شامل تھے‘ مغربی دنیا میں کہیں سے کوئی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ یہ رویہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تمام امریکی و مغربی تجزیہ نگار و مبصرین اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مصر میں جب بھی منصفانہ و آزادانہ الیکشن ہوں گے‘ اخوان المسلمون کا واضح طور پر جیت جانا یقینی ہے۔
تمام مبصرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ صدرحسنی مبارک اپنے ربع صدی کے دوراقتدار میں اس وقت کمزور ترین پوزیشن میں ہیں۔ سادات کے قتل ہونے سے لے کر اب تک صدر حسنی مصر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ تب سے لے کر اب تک ایمرجنسی نافذ ہے۔ صدر پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی اصرار ہے کہ ترقی کا سفر جاری اور ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمرجنسی کی ’’وردی‘‘ ناگزیر ہے حالانکہ ان کے اقتدار کے تقریباً تین عشروں میں مصر کی ۶۰ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ مصری بنکوں سے ۳۰ ارب پائونڈ لوٹے جا چکے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ ۵۵ ارب پائونڈ سے بڑھ چکا ہے۔ ۳۰۰ ارب پائونڈ مالیت کے سرکاری اثاثہ جات نج کاری کے ذریعے صرف ۱۶ ارب میں فروخت کر دیے گئے ہیں۔ اور اب حکومت کے پاس صرف ۱۸ ادارے باقی بچے ہیں۔
مایوسی اور ابتری کے اس عالم میں برطانیہ اور مصر کی دہری شہریت رکھنے والے ان کے بیٹے جمال مبارک کو ان کا خلیفہ بنانے کی کوششیں بھی عروج پر رہیں لیکن تمام امکانات کا جائزہ لینے اور کئی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومتی پارٹی اور شاید امریکی انتظامیہ کا فیصلہ یہی ہوا ہے کہ فی الحال حسنی مبارک ہی آیندہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا جیتنے والا گھوڑا ہوں گے۔ اگرچہ یہ امکان بھی اپنی جگہ پارہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے چند ماہ بعد استعفا دے کر ہنگامی طور پر جمال ہی کو لایا جائے۔ ملک گیر مظاہروں اور سنگین عوامی اضطراب کے باوجود امریکا کا بدستور حسنی مبارک کے ساتھ کھڑے ہونا اور صہیونی ذمہ داران کا لگاتار صدر حسنی سے ملاقاتیں کرکے اس کی تعریفیں کرنا امریکی اصلاحات کے دعووں اور وعدوں کی قلعی کھول رہا ہے۔
معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں ہے‘ گذشتہ ۳۵ سال (۱۹۶۹ئ) سے برسرِاقتدار معمرالقذافی ہوں‘ گذشتہ ۲۷ سال (۱۹۷۸ئ) سے حکمران یمنی صدر علی عبداللہ صالح ہوں‘ مراکش‘ اُردن اور شام کے ملوک و صدور کی کئی کئی عشروں کی حکمرانی کے بعد اب ان کے صاحبزادوں کا اقتدار ہو یا خلیجی ریاستوں میں اقتدار کا تسلسل ہو‘ امریکا کا رویہ یکساں ہے۔ جمہوریت اور آزادیوں کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے‘ حکمرانوں کو ان کے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب سے لرزاں اور ترساں کیا جاتا ہے‘ دورِ جدید کی اہم پیش رفت سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعے انھیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت مغربی راے عامہ میں عوام کی قوت کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ سقوطِ صدام حسین کے مناظر بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا کسی بین الاقوامی یا اخلاقی ضابطے کو خاطر میں نہ لانا دکھایا جاتا ہے‘ افغانستان و عراق کے کھنڈرات اور مزید بم باری و خونخواری کی فلمیں چلائی جاتی ہیں۔ امریکی اور بالخصوص صہیونی ذرائع ابلاغ سے مسلم ممالک میں دندناتے نام نہاد دہشت گردوں کی موجودگی اور سراغ ملنے کی چنگھاڑتی خبریں سنائی جاتی ہیں اور پھر ہمہ پہلو تبدیلیوں کے لیے امریکی مطالبات کی فہرست تھما دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں میں اپنی ڈھب کے مزید مہرے تیار کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ دورے میں سعودی عرب سے اصلاحات کے پُرزور مطالبے کے ساتھ ہی ان تین افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول اصلاح پسند ہیں اور سعودیہ میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ کونڈولیزا اس حقیقت سے یقینا بے خبر نہیں ہوں گی کہ مصر کی جس سرزمین پر کھڑے ہوکر انھوں نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا‘ اسی مصر کی جیلوں میں حقیقی اصلاح کے لیے کوشاں ہزاروں سیاسی قیدی اذیتیں جھیل رہے ہیں۔ اس کے پڑوس لیبیا میں سالہا سال سے ضمیر کے سیکڑوں قیدی لاپتہ ہیں‘ اس کے پڑوس تیونس میں کم و بیش ۱۵ ہزار سیاسی قیدی ۱۸‘۱۸‘ ۲۰‘۲۰‘ سال سے جیلوں میں ہیں اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم ان کے اہلِ خانہ کو بھی نہیں ہے‘ اور خود جس سعودی عرب سے وہ تین اصلاح پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہاں ۱۹۹۰ء میں عراق کویت جنگ کے دوران امریکی افواج کی آمد کی مخالفت کرنے پر ہزاروں علماے کرام کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ گرفتاریاں امریکی خوشنودی کا موجب ٹھیریں اور کیا اب بھی وہاں صرف یہ تین ہی قیدی انصاف کے حق دار و منتظر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گوانتاناموبے اور ابوغریب کی مہیب کالک اور ذلت منہ پر سجائے چند مخصوص افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنا ‘ خود تو رب ذوالجلال کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے انکار کرنا لیکن اوروں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرنا‘ کیا آپ کو خود اپنی ہی نظروں میں ذلیل نہیں کر دیتا۔
سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے کونڈولیزا کے ان مطالبات پر انھیں مخاطب کرتے کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں جو بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اپنے عوام کی تمنائوں اور مرضی کی روشنی میںکریں گے۔ باہر سے تھونپی جانے والی اصلاحات ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں‘‘۔ تقریباً یہی بات یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے ایک اور انداز سے کی تھی۔ انھوں نے عرب وکلا کے یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پتے کی بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم عالمِ عرب میںدوسروں سے زیادہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کے تعلقات آپس میں سخت کشیدہ لیکن ہزاروں میل دُور واقع دوسرے ممالک سے بڑے دوستانہ ہوں گے… ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے کا خوف کیسے دُور کرسکتے ہیں…؟ ہمیں سب سے پہلے حاکم اور محکوم کے درمیان پایا جانے والا بُعد اور دُوری ختم کرنا ہوگی… ہمیں اپنے سیاسی نظام کی غلطیاں خود درست کرنا ہوں گی…اس سے پہلے کہ ہمیں باہر سے حکم نامہ موصول ہو… اس سے پہلے کہ دوسرے ہم پر اپنی تہذیب اور اپنے عوام کی خواہشات کے علی الرغم اصلاحات ٹھونسیں… ہمیں خود مطلوبہ اصلاحات کرنا ہوں گی کیونکہ ہماری ایک اساس اور شناخت ہے‘ جب کہ دوسرے صرف ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘‘۔
اپنے عوام کو عارضی طور پر مطمئن کرنے اور دوسروں کو جواب دینے کی حد تک تو یہ تقاریر خوب ہیں لیکن عوام تو عمل چاہتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۶ء میں یمن میں بھی صدارتی انتخابات ہونا ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ علی عبداللہ صالح نے یہ انتخابی مہم کی تقریر کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عملی ’’اصلاحات‘‘ کے طور پر یمن میں پائے جانے والے ۴ ہزار دینی مدارس و مراکز کی چھان پھٹک بھی شروع کر دی ہے اور اس دوران ۱۴۰۰ مدارس بند بھی کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی بدرالدین حسین الحوثی کی قیادت میں ایک مسلح شیعہ گروپ کے خلاف خونی کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جس کے دوران ۵۰۰ افراد مارے گئے… یعنی اصلاحات کا وسیع تر عمل پورے عالمِ اسلام میں عروج پر ہے۔ لیکن مسلم حکمران اور خود امریکا یہ حقیقت جانتے ہیں کہ مسلم عوام میں تیزی سے نمو پاتا شعور اور امریکی انتظامیہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں کے رخ سیاہ سے تیزی سے سرکتا پردہ اب کسی بڑی تبدیلی پر ہی منتج ہوگا___ حقیقی تبدیلی پر!
پاکستان کے کسی شہرکا کوئی بھی اخبار ہاتھ میں لیں‘ جرائم کی خبریں نظریں کھینچ لیتی ہیں۔ نت نئے جرائم‘ خصوصاً جنسی جرائم‘ اور وہ بھی بچوں کے خلاف ___اعداد و شمار جمع کرنے والے بالکل ناقابلِ یقین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ یہ کہانی صرف پاکستانی معاشرے کی نہیں‘ تیونس کے بارے میں المجتمع، کویت (۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ وہاں بھی حالات اچھے نہیں۔ والدین اخبارات میں شائع ہونے والی معصوم بچوں کی جرائم سے متعلق تصویریں اور خبریں دیکھ کر پریشان رہ جاتے ہیں کہ ان کے اپنے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا!
تقریباً تین سال قبل ایک لوک ورثہ فن کار کا ایک معصوم بچہ وحشیانہ جنسی تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ واقعہ مقامی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا۔ اس فن کار کے ایک دوست نے اپنے بچے کو گھر تک چھوڑنے کے لیے کہاتھا مگر اس شقی القلب انسان نے اس بچے سے اپنی جنسی خواہش زبردستی پوری کی اور بعدازاں بھید کھلنے کے خوف سے اسے موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ کچھ عرصے بعد ایک نوجوان بچی کو اسکول سے واپسی پر راستے میں اغوا کرلیا گیا اور بے حرمتی کرنے کے بعد اسے مار ڈالا گیا اور اس کی لاش کو مسخ کر دیا گیا۔ ابھی چند ماہ قبل دو ۱۲ سال کی بچیوں کو‘ جب ان کی استانی نے کلاس میں تجربے کے بعد اسکول کے نزدیکی جوہڑ سے مینڈک لانے کو بھیجا تو انھیں اغوا کرلیا گیا۔ ان کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے ہاتھ پائوں تاروں سے باندھ کر ان پر تشدد کیا گیا جس سے ان دونوں بچیوں کی لاشیں بھی مسخ ہوگئیں۔
تیونس کا معاشرہ اس لحاظ سے ایک ’مثالی‘ معاشرہ ہے کہ یہاں وہ سب کچھ نصف صدی قبل سے___ مشہور زمانہ حبیب بورقیبہ کے دور سے ہو رہا ہے جس کی طرف ہمارا آغاز کروایا جارہا ہے۔ آغا خاں بورڈ نے تیونس کے نصابات کو ہی قابلِ تقلید قرار دیا ہے۔ صدرمشرف براہ راست مشاہدے کے لیے تیونس بھجوائے گئے تھے۔ تیونس کہنے کو مغرب کا پیروکار ہے لیکن یہاں زین العابدین علی جیسے سفاک آمر کی حکومت ۱۸ برس سے قائم ہے اور اسلامی تحریکوں کے ہزاروں کارکن پابند سلاسل اور تعذیب کا شکار ہیں۔ جمہوری اقدار خواب و خیال ہیں۔
دوسری طرف معاشرے کی صورت حال یہ ہے کہ تشددکے حوالے سے ۱۹۹۹ء میں ۳۸ہزار ۷ سو ۲۸ مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے ۷۳ فی صد مردوں کے اور ۲۷ فی صد عورتوں کے خلاف تھے۔ ۲۰۰۰ء میں ان مقدمات میں ۷ فی صد کا اضافہ ہوا۔ آج کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مغربی اقدار کی بلاروک ٹوک ترویج کے معاشرتی زندگی پر اثرات کا اندازہ ۱۹۲ خاندانوں کے سوشل ڈیفنس کے سروے سے ہوتا ہے۔ کل ۱۹۸ پرتشدد واقعات پیش آئے‘ جن میں سے ۷۸ماں کے خلاف تھے۔ ۲۳ واقعات عام توڑ پھوڑ کے تھے۔ ۴۲ باپوں کی طرف سے تھے کیوں کہ ماں نے والد کو بچوں سے ملنے سے منع کیا تھا۔ طلاق کی وجہ سے بچے ذہنی طور پر منتشر ہوگئے تھے۔ اس سے عائلی زندگی کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تیونس کے اہلِ علم اور ماہرین اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ جرائم کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے؟ حیرت ہوتی ہے کہ دیوار پر لکھے اسباب پڑھنے کے بجاے‘ دُور دُور کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں۔ مذہب کو زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہو‘ مغربی ٹی وی براہ راست دیکھے جا رہے ہوں‘ اور خود بھی اس کی نقالی سے بہتر نہ سوچ سکتے ہوں‘ شرم و حیا کی اقدار پالیسی کے تحت مٹائی جاتی ہوں‘ خیرکے علم بردار ظلم و جبر کا شکار ہوں اور بدی کے علم بردار سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہوں‘ تو یہ کڑوے کسیلے نتائج کیوں نہ آئیں گے۔
تیونس ایک مثال ہے۔ اس راستے پر متعدد مسلم معاشرے بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ سب جگہ انجامِ کار یہی حال ہوگا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہمارا میڈیا دراصل مغربی معاشرے میں پروان چڑھاتا ہے۔ اس کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا ہے‘ انھی کی خبریں سناتا‘ دکھاتا‘ پڑھاتا ہے۔ جرائم کی خبریں بھی امریکا و یورپ کی دیتا ہے (تاکہ ہم اس سے سیکھیں!) ۔اگر ہمارے ذرائع ابلاغ جرائم کی خبریں مسلم ممالک‘ مثلاً نائیجیریا‘ مراکش‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ ملایشیا اور ازبکستان کی لائیں تو اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کچھ نئی بنیادیں فراہم ہوسکتی ہیں۔