اخبار اُمت


۲۹‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پہلی عالمی القدس کانفرنس منعقد ہوئی۔ قبلۂ اوّل کے لیے مسلمانان عالم کا یکساں و متحدہ موقف اُجاگر کرنے کے لیے اس کانفرنس کی اہمیت غیر معمولی تھی۔اسلامی تحریکیں ہی نہیں‘ دیگر عناصر بھی بڑی تعداد میں اس میں شریک تھے۔ متعدد عیسائی رہنما بھی القدس کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے اس میں شریک رہے۔ ’’القدس کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا‘ تو اس میں بھی قوس قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔ شیعہ ‘سنی‘ نیشنلسٹ‘ مسیحی سب بیک آواز القدس کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس عالمی کانفرنس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر سے شریک قائدین و نمایندگان کو ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر ہونے کا موقع ملا۔

ایسی ہی ایک غیر رسمی مجلس میں سوڈان سے آئے ہوئے تین اہم رہنما یکجا تھے:۱- شیخ یاسین عمر الامام‘ ڈاکٹر حسن ترابی کے دست راست ہیں اور ساری عمر اسلامی تحریک کے لیے جدوجہد میں گزار دی ‘۲- ڈاکٹر احمد محمد عبدالرحمن‘ سوڈانی صدر عمر حسن البشیر کے سیاسی امور کے ذمہ دار ہیں‘ اور ۳-مہدی ابراہیم حکمران پارٹی کے خارجہ امور کے نگران ہیں۔تینوں کو باہم شیروشکر دیکھ کر راقم الحروف نے کہا کہ جتنی خوشی پوری کانفرنس کی کارروائی دیکھ کر ہوئی‘ اتنی ہی خوشی صرف اس ایک منظر کو دیکھ کر ہو رہی ہے کہ آپ تینوں اکٹھے ہیں۔ سب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’ہمارے اختلافات بھی ہمیں جدا نہیں کرتے!‘‘ اور پھر اس رواداری کے کئی واقعات سنائے۔

بدقسمتی سے سوڈان کی تازہ صورت حال نے ایک بار پھر تشویش بلکہ کرب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹ء کو قاضی حسین احمد کی زیر قیادت جماعت اسلامی کا تین رکنی وفد خرطوم ہی میں تھا۔ اس موقع پر  ۱۰ روز کے مسلسل مذاکرات کے بعد پارٹی کی شوریٰ نے ایک جامع صلح نامہ اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس میں صدر عمر البشیر اور ڈاکٹر حسن ترابی کے درمیان تمام اختلافات کا احاطہ کیا گیا تھا‘ ان کی وجوہات کا ذکر تھا‘ ان کا فوری حل بھی تجویز کیا گیا تھا اور ان کا دوررس علاج بھی تحریر کیا گیا تھا۔

سوڈانی رہنمائوں نے ایک دوسرے کو بھی مبارک باد دی‘جماعت کے وفد سے بھی اظہار سپاس و تہنیت کیا اور سب نے کھلتے چہروں سے امید ظاہر کی کہ اب دھیرے دھیرے تمام حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس صلح نامے کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر عمرالبشیر کے درمیان رو در رو ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ شکوے بھی ہوئے‘ اور یہی امید قوی تر ہوئی کہ جن اختلافات کی بنیاد پر تحریک دو دھڑوں میں منقسم ہو گئی ہے ان کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔

ان اختلافات میں سب سے بنیادی امر تحریک‘ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کا تعین تھا۔ تفصیل میں جائے بغیر‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر حسن ترابی کے خیال میں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں حتمی اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہونے چاہییں‘ جب کہ صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کی رائے میں سوڈان کے حالات اور درپیش خطرات کی روشنی میں صدارتی نظام کو مستحکم ہونا چاہیے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ اور پارٹی سے بھی رہنمائی لے‘ لیکن عوام چونکہ صدر کی بیعت کرتے ہیں‘ اس لیے اس قبائلی ماحول میں صدر ہی کو

قول فیصل کا اختیار ملنا چاہیے۔ ان دونوں آرا میں توافق ممکن تھا‘ لیکن اختلافات کو ہوا دے کر اسے خلیج میں بدل دینے والوں کی کوششیں بدقسمتی سے کامیاب ہو گئیں۔ صلح نامہ معدوم ہو گیا‘ ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے ساتھیوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنی الگ پارٹی پاپولر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ حکمران پارٹی کا نام ’’نیشنل کانفرنس‘‘ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مصر‘ لیبیا اور کئی دوسرے ممالک میں موجود اپوزیشن لیڈروں نے واپسی کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ تمام قابل ذکر اپوزیشن رہنما جن میں سابق صدر نمیری‘ میرغنی‘ اور سابق وزیراعظم صادق المہدی بھی شامل ہیں‘ اب تک خرطوم واپس آچکے ہیں۔ حکومت سے صلح بلکہ حکومت میں شرکت کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔

سب سے بدنما صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وسط فروری ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرے بھی ہوئے اور متعدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ترابی صاحب پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ صلح و مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور وہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں‘ جب کہ ترابی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر صدر اُن سابق اپوزیشن لیڈروں سے صلح کی بات کر سکتے ہیں جنھوں نے انھی علیحدگی پسندوں اور مختلف بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر سوڈان پر متعدد فوجی حملے کروائے‘ تو ہم بھی جنوبی عناصر سے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ خود حکومت نے بھی ان عناصر کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے ہیں۔

وجوہات کا تجزیہ جس طور بھی کیا جائے‘ عملی نتائج بدقسمتی سے یہی سامنے ہیں کہ کل تک ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ وہ قائدین کہ جن سے پوری اُمت کی امیدیں وابستہ تھیں‘ ان کے درمیان اس وقت تلخی اوراختلافات عروج پر ہیں‘ تنائو شدید ہے اور واپسی کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خطرہ سوڈان کی انقلابی حکومت کو ہے‘ اور سب سے زیادہ خوشی سوڈان کے بدخواہوں کو۔ مختلف مواقع پر صدر عمر البشیر کی حکومت گرانے کے لیے عالمی قوتوں نے‘ پڑوسی عرب ممالک کے ذریعے سرتوڑ کوششیں کیں اور براہِ راست بھی ہلے بولے گئے۔ ’’الشفا‘‘ نامی دواساز فیکٹری پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا‘ اکائونٹ منجمد کر دیے گئے‘ سوڈان ایئرلائن پر پابندی لگا دی گئی۔ خود صدر عمربشیر بتا رہے تھے کہ امریکہ نے سوڈانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ۴۰۰ ملین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔

ان تمام کارروائیوں کے باوجود بھی یہ امریکی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ چار چار ممالک کی طرف سے مشترکہ فوجی حملے پسپا ہوئے۔ پڑوسی عرب ممالک خود مجبور ہوئے کہ سوڈان سے تعلقات بحال کریں۔ ’’الشفا‘‘ تباہ کر دیے جانے پر کئی ’’الشفا‘‘ بنانے کی پیش کش ہوئیں۔ سوڈان خوراک و ادویات سازی میں خود کفیل ہوگیا۔ پٹرول کا ایسا ذخیرہ دریافت ہوا کہ آیندہ برس سے سوڈان تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ہم جب وہاں گئے تو پٹرول لینے کے لیے پرمٹ جاری ہوا تھا اور رات رات بھر طویل قطاروں میں لگنا پڑتا تھا۔ زمین صرف غذائی سونا ہی نہیں اصل سونا اُگلنے لگی۔ سونے کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ ٹن سے بڑھ گئی۔ جنوبی سوڈان کی لڑائی میں تمام وسائل جھونکے جانے کے باوجود سوڈان مستحکم سے مستحکم ہوتا گیا اور آخرکار پڑوسی و امریکی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک سوڈانی حکومت کو اندر سے کمزور نہیں کیا جاتا‘ اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔

اس خدشے اور اس تجزیے سے دونوں متنازعہ بھائی بھی اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دُوری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تمام تر امیدیں خود سوڈانی حکومت اور ڈاکٹر حسن ترابی صاحب کی پارٹی میں موجود ان عناصر پر موقوف ہیں جو اب بھی باہم یک جا و یک جان ہیں۔سب تجزیہ نگار اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ عوام تقسیم نہیں ہوئے اور وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ دونوں رہنما حسب سابق مل جائیں۔ اس طرح کا عوامی دبائو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے زیادہ تسلی کی بات یہ ہے کہ خود صدر عمرالبشیر‘ ان کے وزرا اور ان کی پارٹی کی قیادت‘ سب کے سب اسلام سے گہری محبت رکھنے والے اور اسلامی اصلاحات کا سفرمکمل کرنے کے شدید حامی ہیں۔ان میں متعدد افراد براہِ راست ترابی صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی پہلی و آخری محبت ہے اور ان کے ہوتے ہوئے سوڈان کی اسلامی شناخت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔ خطرہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جن شیاطین نے ترابی و بشیر کو باہم جدا کر کے سوڈان کو ایک بحران کا شکار کیا ہے‘ اور اس بحران میں مزید تندی پیدا کر رہے ہیں‘ وہ لکڑیوں کا گٹھا کھول کر ایک ایک کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ آیئے ہم سب اپنے سوڈانی بھائیوں کے اتحاد و یک جہتی کے لیے دست دعا بلند کریں۔

سوڈان سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا یہ ہے کہ اخوان المسلمون کی بنیادی تنظیم جو اس سے پہلے حکومت سے باہر تھی‘ اب باقاعدہ حکومت میں شامل ہو گئی ہے‘ اور اس کے ایک نوجوان رہنما ڈاکٹر عصام البشیر کابینہ میں لے لیے گئے ہیں۔ یہ تمام عناصر سوڈان کی اسلامی شناخت کے ضامن اور وحدت کی امید کو مضبوط تر کرنے والے ہیں۔

انڈونیشیا  --- عیسائیت کی زد میں!

محمد ایوب منیر

عظیم اسلامی ملک انڈونیشیا ایک بار پھر بحران کے اندر گھر گیا ہے۔ جنرل سہارتوکے بعد برھان الدین یوسف حبیبی کو صدرِمملکت بنایا گیا لیکن اسلام پرستوں سے ان کی راہ و رسم اور طیارہ سازی کی صنعت میں غیر معمولی خود کفالت ان کے لیے موردِالزام بن گئی۔ ۱۶ ماہ قبل  نہضۃ العلما کے عبدالرحمن واحد نے اقتدار سنبھالا تو گولکرپارٹی‘ جمہوری پارٹی اور متحدہ ترقیاتی پارٹی (پی پی پی) نے واحد کو نجات دہندہ قرار دیا تھا لیکن فسادات عروج پر پہنچے ہیں تو صدر سے استعفا کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورت میں جمہوری پارٹی کی سربراہ اور موجودہ نائب صدر سُکارنو کی بیٹی میگاوتی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ میگاوتی کے ’’راسخ العقیدہ اور روشن خیال‘‘ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُس کی جماعت (پی ڈی پی آئی) کے ۷۰ فی صد عہدے دار چینی النسل ہیں یا مسیحی ہیں‘ اور اس کے مندروں میں جا کر پھول چڑھانے کے کئی واقعات عالمی پریس میں شائع ہو چکے ہیں۔

وسائل سے مالا مال انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کوعلیحدہ کروانے میں استعماری قوتوں کی کامیابی نے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف کر دیا ہے کہ ۹۰ فی صد مسلم اکثریت کے ملک کو ۹‘ ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت کے زیرنگیں کیا جا سکتا ہے۔ ۵ فی صد چینی النسل ملیشیائی آبادی‘ تمام تر معیشت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔اکبر تاجنگ‘ میگاوتی‘ امین رئیس اور جنرل اندرپارتو نوسُتارتو تن تنہا ملک کو خلفشار سے نکالنے‘ اقتصادی بحران ختم کرنے‘ اور ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عبدالرحمن واحد کو معزول ‘ برخواست یا مستعفی کرایا گیا تو جو فرد برسرِاقتدار آئے گا وہ عیسائی موثر گروہوں کا نمایندہ ہوگا ‘یا اُن کے رحم و کرم پر ہوگا۔ پاکستان کے اندر کوئی غیر مسلم دستوری طور پر صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ مسلح افواج کا سربراہ اور چیف جسٹس نہیں بن سکتا لیکن انڈونیشیا کا دستور ایسی کوئی شق نہیں رکھتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

آچے‘ ایرپان جایا‘ ریائو اور مدورا صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ جزائر ملاکا میں مسلمان اور عیسائی‘ ایک دوسرے کے خلاف مسلح ہو کر صف آرا ہیں۔ سہارتو کے دورِ حکومت میں بھی اور اُس کے بعد گذشتہ تین برسوں میں ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت نے کلیدی مناصب تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ چار اہم ترین وزارتیں ان کے پاس ہیں۔

وزارت صنعت و تجارت لوھوت بنسار پنجایتن کے پاس ہے۔ مذہباً پروٹسٹنٹ اور ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں۔ سنگاپور میں انڈونیشیا کے سفیر رہے ہیں۔ لوھوت کا وعدہ تھا کہ ۸۰ ارب امریکی ڈالر کا سرمایہ جو صنعت کار انڈونیشیا سے نکال لے گئے ہیں‘ میں یہ واپس لائوں گا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی‘ تاہم روپے کی قیمت اور بھی گر گئی۔ لوھوت کے سابق حکمران خاندان سے بھی خوش گوار مراسم رہے ہیں‘ نیز اقتصادی شہ رگ کی مالک چینی آبادی کے سربرآوردہ لوگوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔

بنگاران سراگی‘ وزیر زراعت اور مذہباً پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔ وہ بوگور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں زرعی اقتصادیات کے استاد رہے اور ان کی کئی تخلیقات منظرعام پر آچکی ہیں۔ انڈونیشیا کے ۱۲ کروڑ مسلمان کسانوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہ آسکی‘ تاہم وزارتِ زراعت میں تعلیم یافتہ عیسائی اہم عہدوں پر ضرور متعین ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر توانائی و معدنیات پرنومویس گیانترو کیتھولک عیسائی ہیں۔ ان کا تعلق جاوا سے ہے اور جاوا کے رہنے والے مسلک کی مجموعی سیاست پر اثرانداز رہتے ہیں۔ وہ جکارتا کی اتماجایا کیتھولک یونی ورسٹی سے طویل عرصہ متعلق رہے اور بعدازاں عالمی بنک کے مشیر بن گئے۔ وہ تیل تلاش اور برآمد کرنے والی کمپنیوں کے بھی انچارج رہے جن کے اثاثے اربوں ڈالر ہیں۔ ان کی امریکی سفیر رابرٹ ایس گیلبا رڈ سے قریبی دوستی ہے۔ مذہب بھی ایک ہے اور امن عالم قائم کرنے کا طریقہ بھی ایک! علاوہ ازیں انڈونیشیا بنک تعمیر نو ایجنسی (IBRA) کے سربراہ ایڈون گروگان بھی عیسائی ہیں۔

اس موقع پر تھیو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ تھیوسیافی مسلکًا پروٹسٹنٹ ہیں۔ وہ مکاسار کے رہنے والے ہیں۔ مسلم مسیحی فسادات بھڑکانے میں انھیں ’’یدطولیٰ‘‘ حاصل ہے‘ اور اُن کا یہ جملہ تو مشہور ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ انڈونیشیا کی تقسیم ہو جائے بجائے یہ کہ یہاں کوئی مسلمان حکومت کرے‘‘۔ تھیو‘ میگاوتی کے معتمد خاص اور اُن کی جمہوری پارٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ میگا اُن پر اس قدر اعتماد کرتی ہیں کہ وہ انھیں کئی بار پارٹی کا سربراہ بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اقتدار ملنے کی صورت میں اصل فیصلے اور وزارتوں کی تقسیم تھیو ہی نے کرنا ہے۔ تھیو‘ فی الوقت میگاوتی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ صدر واحد نے میگاوتی کو جن شورش زدہ علاقوں کا انچارج بنایا‘ تھیو کے مشورے پر میگا نے وہاں خاموشی اختیار کیے رکھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہنگامے اور فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ میگا اپنے مسیحی عہدے داروں اور مشیروں پر خاص اعتماد کرتی ہیں۔ یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ انڈونیشیا کی سراغ رساں ایجنسی (BAKIN)کے نائب سربراہ جنرل یوس منکو اور سربراہ لیفٹیننٹ جنرل آری جیفرے کمات ہیں‘ نیزفوج کے اسٹرے ٹیجک سراغ رسانی شعبے کے سربراہ میجر جنرل شیوم بنگ ہیں۔ اتنے اہم عہدوں پر عیسائیوں کا تعینات ہونا‘ حسن اتفاق بہرحال نہیں ہے! اب ‘جب کہ عبدالرحمن واحد پر ۳۶ کروڑ ڈالر‘ قومی ادارے (بلوگ) کے ذریعے غصب کرنے کا الزام ہے اور ۱۶ ماہ قبل کے قریبی حلیف امین رئیس (اب قومی مجلس MPR کے سربراہ)‘ اسپیکر اسمبلی اکبر تاجنگ اور نائب صدر میگاوتی‘ صدر واحد سے کھلم کھلا علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں‘ عیسائی گروہوں نے اپنی کوششیں ایک مرتبہ پھر تیز کر دی ہیں۔

برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل (مارچ ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق عیسائیوں کی تکنیک یہ رہی ہے کہ اسلامی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ نہضۃ العلما اور محمدیہ دو بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ ان کے درمیان تفریق پیداکرنے اور خلیج وسیع کرنے میں اِسی گروہ کا اہم کردار ہے۔ نہضۃ کے سربراہ عبدالرحمن واحد ہیں اور چار کروڑ پیروکاروں کے دعوے دار ہیں‘ جب کہ امین رئیس‘ محمدیہ کے سربراہ رہے ہیں۔ جن علاقوں میں فسادات برپا ہوئے یا آج کل جاری ہیں‘وہاں مسلم علما‘ اساتذہ اور قائدین کو اوّلین طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ چاہے مشرقی جاوا ہو یا آچے یا مدورا۔ مشرقی تیمور کی طرز پر عیسائیوں نے مختلف صوبوں میں تربیت یافتہ کمانڈوز اور نیم فوجی افراد کے دستے منظم کر لیے ہیں۔ ملاکا میں ریڈ آرمی آف بینی ڈورو ہے‘ سلاویسی میں بلیک بیٹ آرمی ہے ‘ اور مورچے بند ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

انڈونیشیا میں مقیم عیسائیوں کا متحرک ترین محاذ میڈیا ہے اور انڈونیشیا کے حوالے سے تازہ ترین اور

گرم گرم خبریں بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا کو بدنام کیا جاتا ہے اور غیر ملکی اداروں مثلاً عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

ان حالات کا تقاضا ہے کہ اُمت کا درد رکھنے والے فہیم عناصر انڈونیشیا کو کسی مزید بحران کی زد میں آنے سے روکیں۔ سرکاری‘ غیر سرکاری اور انفرادی طور پر ایسے سیمی نار منعقد کیے جائیں جن میں حالات کا صحیح تجزیہ ہو اور انڈونیشیا کو عیسائیت کی گود میں جانے سے بچایا جا سکے۔ اسرائیل کے قیام‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ اور مشرقی یورپ میں مسلم کشی کے بعد انڈونیشیا کے بحرانوں پر خاموشی اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی!

 

امریکہ‘ جنگ ِ ویت نام میں لاپتا ہونے والے اپنے فوجیوں کو ابھی تک نہیں بھولا‘ اُسے اب تک قرار نہیں آیا۔ وہ ان کی تلاش میں سرگرم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان لاپتا افراد کی تعداد صرف ایک ہزار ۴ سو ۹۸ ہے‘ جب کہ بوسنیا ہرزگونیا میں لاپتا افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے ۹۸ فی صد سویلین ہیں جن میں سے۳ فی صد بچے ہیں جن کی عمریں چھ ماہ اور ۱۶ سال کے درمیان ہیں‘ ۱۳ فی صد عورتیں ہیں جن کی عمریں ۹ اور ۱۰۲ سال کے درمیان ہیں۔ ۹۹ فی صد لاپتا افراد مسلمان ہیں‘ جب کہ سرب اور کروٹ صرف ایک فی صد ہیں۔ معاہدہ ڈیٹن پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ۶ ہزار ۵ سو اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۳ ہزار ۵ سو قبریں‘ لاپتا افراد کی بین الاقوامی کمیٹی نے ڈھونڈی ہیں اور بقیہ کا کھوج‘ بوسنیا کی تحقیقی کمیٹی نے لگایا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمر ماشوویچ ہیں۔ اُن سے ایک ملاقات کی تلخیص یہاں دی جا رہی ہے۔

۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو معاہدہ ڈیٹن پر دستخط کرنے کے بعد لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی‘ پہلے اس کا نام ’’کمیٹی برائے تبادلہ اسیران‘‘ تھا۔ اس معاہدہ کی چوتھی شق میں مختلف کمیٹیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے لیے ۱۳ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی‘ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میںپانچ ارکان تھے جن کا کام صوبوں میں تلاش کے کام کی نگرانی تھا‘ جب کہ دوسرے حصے میں آٹھ حضرات تھے جنھوں نے سرائیوو میں رہ کر تلاش کے نتائج تیار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی کا مقصد ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء کے عرصے میں مسلمانوں پر سربوں اور کروٹوں کی جانب سے مسلّط کردہ جنگ کے دوران لاپتا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردہ افراد کی تلاش تھا۔ اس کمیٹی نے سرکاری طور پر اپنا کام اپریل ۱۹۹۶ء میں شروع کر دیا۔

لاپتا افراد کی تلاش کی بین الاقوامی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ‘ اجتماعی قبر وہ ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد اشخاص کے ڈھانچے ہوں۔ اس تعداد سے کم‘ خواہ چار افراد کے ڈھانچے کیوں نہ ہوں‘ اجتماعی قبر شمار نہیں کی جاتی۔

لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے دوران ‘ ہمیں دونوں عالمی جنگوں کے دوران کی بھی کئی اجتماعی قبریں ملیں۔ ان میں سے کچھ بوشناق شہرکے مسلمانوں کی تھیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ ان کا تعلّق کن علاقوں اور خاندانوں سے تھا۔ ہمیں ۵۰ جرمن فوجیوں کی بھی اجتماعی قبر ملی‘ جن کے ڈھانچے ہم نے سرائیوو کے جرمن سفارت خانے کے حوالے کر دیے۔

بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں ہر قسم کے لوگ دفن ہیں‘ ان میںوہ بھی ہیں جن کا جنگ کے دوران‘ بین الاقوامی قانون کی رُو سے قتل ناجائز ہے ‘ جیسے ڈاکٹر‘ قیدی‘ معذور‘ علماے دین‘ بچے اور عورتیں۔ہم نے کچھ عرصہ قبل نوا سواچی گائوں میںایک اجتماعی قبر دریافت کی جس میں ۴۴ افراد دفن تھے جن میں یہاں کے امام مسجد بھی شامل تھے۔ ایک اجتماعی قبر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے ملی۔ ایک اجتماعی قبر کے اُوپر مسجد گرا کر اس کا ملبہ ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا دھوکا دینے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سرائیوو کے مضافات میں سمینروفاتس کے علاقے میں امام مسجد‘ اس کی بیوی اور چار بچوں کو مار ڈالا گیا‘ سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار ماہ تھی۔ بوسنیا کے وسطی علاقے جیبحپا کے گائوں یالاچ سے مسلمان بھاگے تو سربوں نے انھیں پکڑ کر واپس گائوں چلنے کے لیے کہا اور کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا مگر گائوں پہنچنے کے بعد انھیں ذبح کر ڈالا۔ ان کی تعداد ۳۰۰ تھی۔ پھر انھیں اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔ اس قبر کا کچھ عرصہ پہلے انکشاف ہوا ہے۔ ایک اجتماعی قبر میں سربوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ چار مردہ گھوڑے بھی پھینک دیے اور ان کے ساتھ دھماکا خیز مواد باندھ دیا تھا۔

حنیویچ گائوں کی مسجد میں ہم نے سات مسلمان مقتول پائے۔ دوسنیا کے گائوں میں امام مسجد کو قتل کرنے کے بعد‘ اس کی لاش مسجد کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ ائمہ مساجد کی ایک بڑی تعداد کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ ابھی تک کئی امام مسجد لاپتا ہیں۔

جب ہمیں کسی اجتماعی قبر کا پتا چلتا ہے تو ہم مقامی اور بین الاقوامی حکام کو مطلع کرتے ہیں۔ پھر کھدائی کرتے ہیں۔ مقتول کی شخصیت اور طریقہ قتل جاننے کے لیے طبّی تجزیہ‘ ہڈیوں کی لمبائی اور لباس وغیرہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہم لاش کی شناخت کے لیے لوگوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے تو صرف انتہائی قریبی رشتے داروں (ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی) کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں تو بعض ایسے خاندان ہیں جو پورے کے پورے ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کو پہچانیں‘ پھر لاشوں کو کفناتے‘ نماز جنازہ ادا کرتے اور الگ الگ دفن کرتے ہیں۔ ہر قبر پر میّت کا نام لکھتے ہیں۔

سب سے بڑی اجتماعی قبر زفورنیک میں دریافت ہوئی جس میں ۲۷۰ مسلمانوں کے ڈھانچے تھے۔ اس کے بعد لانیچ گائوں کی اجتماعی قبر ملی جس میں ۱۸۸ مسلمان دفن تھے۔ اس کے بعد کلیوچ شہر کی قبر ہے جس میں ۵۱ ڈھانچے تھے۔ فوچا میں ۷۰ مسلمان مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد اکٹھا دفنایا گیا۔ اس قبرپر بوسنیا کی قدیم اور خوب صورت ترین مسجد ’الام جامع‘‘ کا کچھ ملبہ ڈالا گیا۔ یہ مسجد پندرھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ قبریں مختلف علاقوں میں ہیں‘ مثلاً پہاڑوں‘ جنگلوں ‘ دریائوں کے کناروں اور وادیوں میں۔ قبر کی زیرزمین گہرائی ۶ میٹر اور ۴۰ میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ جس اجتماعی قبر میں ہمیں ۱۸۸ ڈھانچے ملے‘ یہ سرب فوج کے کیمپ کے وسط میں تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بھیانک جرائم سربوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے حکم سے ہوئے۔ میں‘ آپ کو مسلمانوں کے اس قتل عام کے واقعات‘ رکے بغیر سناتا جائوں تو ختم ہونے میں نہ آئیں۔

دھاندلی یہ ہے کہ مغرب‘ لاپتا افراد کی تلاش وغیرہ کے سلسلے میں سربیا‘ کروٹیا اور بوسنیا کو برابر مالی امداد دیتا ہے۔ بوسنیا کا فنڈ تین گروہوں یعنی مسلمانوں‘ آرتھوڈکس اور کیتھولک میں تقسیم ہوتا ہے‘ حالانکہ سربوں اور کروٹوں کی کوئی اجتماعی قبر نہیں ہے۔ ہم نے صرف پچھلے ایک ماہ میں مختلف عمروں کے مسلمان مرد و زن کے ۳۲۰ ڈھانچے دریافت کیے۔ سرب اور کروٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔ کبھی یہ لوگ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبر ظاہر کردیتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی بات کو سچ نہیں مانتا‘ اس لیے کہ سائنس‘ طب اور ابلاغیات کے اس دَور میں دھوکا دینا مشکل ہے۔

ابھی تک ۳۰۰ اجتماعی قبروں کا پتا نہیں چل رہا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بوسنیا سے باہر ہے۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت‘ اس امر کے سب سے بڑے گواہ ہیں کہ مسلم شہریوں پر کیا گزری او راجتماعی قبریں کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور وہ قاتلوں کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ انھی اشخاص میں سے ایک ہائی اسکول کے مدرس تھے۔ یہ اومارسکا کے سرب کیمپ میں گرفتار تھے مگر بچ نکلے۔ اس علاقے میں ہمیں ایک اجتماعی قبر ملی جس میں ۵۰ افراد کے ڈھانچے تھے۔ ہمیں مقتولین کے بارے میں کچھ نہیں پتا چل رہا تھا۔ یہ مدرس آئے‘ انھوں نے ہمیں مدفون افراد کے نام بتائے‘ مقتولوں کی زیادہ تعداد ان کی کلاس کے طلبہ کی تھی۔ جرمنی اور دیگر ممالک میں مقیم بوسنیائی ہمیں اجتماعی قبروں کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن وہ اس ڈر سے اپنے ملک میں نہیں آتے کہ کہیں وہ متعلقہ ملک کی شہریت سے محروم نہ ہوجائیں اور یوں روزی روٹی سے بھی رہ جائیں۔

بین الاقوامی قوتوں کی سازباز:  ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی ممالک نے بوسنیائی شہریوں کو عمداً بوسنیا سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا تاکہ بوسنیا مسلمانوں سے خالی ہو جائے۔ وہ انھیں موت سے بچانے کا جھانسا دیتے تھے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مسلم دفاعی افواج میں شامل نہ ہوں۔ فرانسیسی افواج نے کرونیا کے صوبے میں ہزاروں سویلین مسلمانوں کے قتل عام کا مشاہدہ کیا مگر کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ بریڈورمیں ۲۲ ہزار مسلمان قتل ہوئے ‘ فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے ۸۰ اشخاص کو نکالا گیا اور گہرا گڑھا کھود کردفن کیا گیا۔ یہ سب کچھ فرانسیسی فوجیوں کے علم میں تھا مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ ہم نے خود اس قبر کو تلاش کیا‘ شہدا کے ڈھانچے نکالے‘ جنازہ پڑھا اور شہدا کے قبرستان میںدفن کیا۔ ہالینڈ کے عسکری کیمپ میں ۳ ہزار ۵ سومسلم سویلین تھے جنھیں سربوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جوارجدہ کے مذبح کے بعد‘ انگریز فوجی سربوں کو دیکھ کر صلیب کا نشان بنا رہے تھے تو ٹیلی وژن کیمروں نے اسے ریکارڈ کیا اور بعد میں اسکرین پر دکھایا۔

کئی بین الاقوامی شخصیات‘ مختلف انداز سے بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ چونکہ انھیں تحفّظ حاصل ہے‘ اس لیے انھیں عدالت میں لانا ناممکن ہے‘ جیسے بطروس غالی‘ یا سوشی اکاشی‘ کارل بلٹ‘ جنرل موریاں‘ جنرل مکنیزی۔ مؤخرالذکر پانچ مسلم دوشیزائوں کو زبردستی کینیڈا بھیجنے کے جرم میں شامل ہے۔

ہالینڈکی وزارتِ دفاع نے وہ تمام کیسٹیں جلا ڈالیں جو ہالینڈ کے فوجیوں کی سربوں کے ساتھ ملی بھگت کا ثبوت تھیں۔ فرانسیسی فوجی‘ سرائیوو ایئرپورٹ پر صحافیوں کی تلاشی لیتے اور وہ کیسٹیں چھین لیتے تھے جو مختلف جرائم کا ثبوت ہوتیں یا جن کا بین الاقوامی فوجیوں کے بالعموم اور فرانسیسی افواج کے بالخصوص جرائم سے تعلّق ہوتا۔ بوسنیائی حکام کو ہالینڈکے میجر فرانکن کے دفتر سے ایک رجسٹر ملا‘ جس میں‘ اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ ہالینڈ کی افواج کے کیمپ میں ۲۷۱ مسلم بوسنیائی شہری تھے ‘ مگر تین کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا گیا۔

لاپتا افراد کے عزیزوں کی حالت زار:  بوسنیا کے بے شمار مسلمان لاپتا ہیں جن کے انجام سے کوئی واقف نہیں۔ ایک ماں نہیں جانتی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کے زندہ بچ رہنے یا فوت ہو جانے کی خبر نہیں۔ موت کا یقین ہو جانے پر تو بالآخر صبر و قرار آہی جاتا ہے مگر لاپتا فرد کے عزیزوںکو کسی پل چین نہیں آتا۔ بہت سی نوجوان عورتوں کے خاوند لاپتا ہیں‘ ان عورتوں کی عمر ۱۸ سے ۲۰ سال کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان عورتیں سخت نفسیاتی کرب میںمبتلا ہیں۔ ہر روز ہمارے پاس لاپتا افراد کی مائیں آتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں کوئی ہڈی دے دو یا کوئی اور نشانی دے کر کہو کہ یہ تمھارے بیٹے کی ہے تاکہ ہم اس کی قبر بنائیں اور اس قبر پر جایا کریں۔ اسی طرح بیویاں اپنے لاپتا شوہروں کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ ایک ماں کا بیٹا شہید ہو گیا تھا‘ وہ میرے پاس آتی ہے‘ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے تاکہ قبر پر جایا کرے۔ ایک ماں رامیزا‘ ہماری کمیٹی کے دفتر میں قرآن شریف کے نسخے لے کر آئی اور کہا: ’’میرے بیٹے کی تلاش کے وقت قرآن شریف ساتھ رکھا کرو۔ ڈرو نہیں‘ قرآن پاک کی موجودگی میں‘ اللہ کے حکم سے‘ آپ کو کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔

سائنسی علوم خصوصاً انفارمیشن ٹکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ قوموں کی اقتصادیات تبدیل ہوئی ہے اور کئی ممالک نے کم از کم دنیوی بلندیوں کا سفر شروع کر دیا ہے‘ لیکن مسلمان ممالک مجموعی طور پر سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کارہاے نمایاں انجام نہیں دے سکے۔ یہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت کا بیان تو بہت ہوتا ہے‘ لیکن آزادی کے بعد بھی‘ اس طرف قرار واقعی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کی افراط ہے‘ وہاں بھی فکر نہیں کی گئی کہ اس میدان کی دوڑ میں بعد میں شامل ہونے کی وجہ سے خصوصی منصوبہ بندی کر کے کسر پوری کی جائے۔

اس حوالے سے پاکستان میں خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزارت سائنس کا قلم دان ایک نامی گرامی سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن کے حوالے کر کے‘ مطلوبہ بجٹ بھی دیا گیا ہے جو معمول کے بجٹ سے ۵ ہزار فی صد زیادہ ہے۔ ان کی رہنمائی میں اس میدان میں آغازِ کار ہوا ہے۔ پی ایچ ڈی اور دیگر کے لیے‘ ملکی اور بیرونی وظائف کا اعلان ہی نہیں ہوا ہے‘ اچھی علامت یہ ہے کہ وظائف دیے جانے شروع ہو گئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ چند برسوں میں اس کے نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ایٹمی دوڑ میں تو پاکستان نے بھارت سے آگے بڑھ کر دکھایا ہے‘ اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بھی مقابلہ شروع کیا ہے جس میں بھارت کا مقام ساری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی یہ صورت حال ۵۳ سال کی اپنی حوصلہ شکن کارکردگی اور امت مسلمہ کے عمومی پس منظر میں خصوصی طور پر حوصلہ افزا اور خوش آیند ہے۔ سائنس کے عالمی منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں تحقیق کار‘ تحقیقی مراکز میں مستقبل کے نقشے وضع کر رہے ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنس دانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے ۹ لاکھ سے زائد اور جاپان میں ۸ لاکھ ہے‘  جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار ہے۔ ساری دنیا کی سائنس و ٹکنالوجی ریسرچ کے مصارف کا تخمینہ لگایا جائے تو اسلامی دنیا کا حصہ صرف ایک فی صد بنتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں‘ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی کتب اور مقالات کی سالانہ تعدادایک ہزار سے زائد نہیں۔امریکہ میں معیاری جامعات‘ جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے‘ اُن میں ہر ایک کاسالانہ بجٹ ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ جوہری دھماکے سے سرخرو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ۸ کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں اور یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ افراد سالانہ ہے۔

مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۵۶ خود مختار اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو ۵۰ ارب امریکی ڈالر ہے‘ جب کہ جرمنی کی ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی ۵ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ تمام مسلم ممالک میں سائنس و ٹکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے‘ جرمنی اُس سے دُگنی اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔

آج سائنس اور ٹکنالوجی مادیت کی علامت بن گئی ہے۔ جب مسلمان سائنس کے بھی امام تھے تو یہ صورت نہ تھی۔ مسلمانوں کو دنیا کی امامت سنبھالنا ہے تو اپنی تہذیب اور اقدار کا علم ہاتھ میں لے کر سائنس کے میدان میں مغرب سے آگے بڑھنا ہوگا۔ مغرب مادیت کے سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہے‘ اخلاقی قدریں ختم ہو رہی ہیں‘ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے‘ زندگی سکون سے محروم ہے۔ بدقسمتی سے اس کے عالمی اثرات کے تحت مسلم معاشرے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو سائنس کے میدان میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے‘ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تہذیب و ثقافت اور اقدار مغرب سے نہ لیں۔ اب تو رابطوں میں اضافے اور آسانی کی وجہ سے ۲۱ ویں صدی کے عالمی گائوں میں ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ زندگی گزارنے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا جو پیغام ہے‘ مغرب اپنے مسائل کا حل اس میں تلاش کرے۔

کینیا: منجیکی رہنمائوں کا قبولِ اسلام

مسلم سجاد

منجیکی فرقے کے ۱۳ رہنمائوں نے کینیا کے وسطی صوبے سے‘ نیروبی سے ۵۰۰ کلومیٹر دور ساحلی شہر ممباسہ آکر اسلام قبول کیا۔ یہاں ائمہ و خطبا کی انجمن نے ان کا استقبال کیا۔ منجیکی تنظیموں کے مرکزی رہنما جن کا نام اب ابراہیم ہے‘ اور بانی رکن محمد جینحا اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اہم صوبائی رہنما اور خاتون رہنما خدیجہ دنگاری‘ سب ہی نعمت ایمان سے مشرف ہوئے۔ اب ہر ہفتے ۱۰۰ سے زائد افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔

کی کی یو میں منجیکی کا مطلب کثرت افراد ہے۔ گروپ بیش تر کی کی یو برادری پر مشتمل ہے‘ تاہم  تائے تا‘ کانجن‘ دودوبو اور دوسرے قبائل کے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ کل تعداد کا اندازہ ۳ لاکھ ہے۔

منجیکی کہتے ہیں کہ ان کے رسوم و رواج مسلمانوں سے زیادہ مختلف نہیں اور یہ بھی اسلام قبول کرنے کی ایک وجہ ہے۔ کینیا کے مسلمانوں نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسلام کی پیروی کرنے اور اس کا پیغام پھیلانے کی تلقین کی۔ اس فرقے کے لوگوں کو سگریٹ نوشی اور شراب کی ممانعت ہے۔ مغربی لباس کو جسم کے نشیب و فراز ظاہر کرنے کی وجہ سے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے طوائفوں کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ پتلون اور منی اسکرٹ اسی لیے ممنوع ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے اور جن لڑکیوں کی مرد نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو‘ ان سے شادی کرنے کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں۔

مسلمان کینیا کی آبادی کا ۲۵‘۳۰ فی صد ہیں۔ قومی سیاست میں اچھا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دوسرے افریقی ملکوں کی طرح کینیا کا بھی اصل مسئلہ اچھی حکمرانی (گڈگورننس ) ہے۔ مسلمانوں نے ان لوگوں سے اپنے کو علیحدہ رکھا ہے جو انقلاب کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں‘ اس لیے کہ اس سے معاشی اور سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔ مسلمانوں نے عموماً صدر ڈینیل موئی کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اس کی جیت مسلمانوں کے ووٹ کی مرہون منت تھی۔ اب دو برس بعد انتخابات ہونا ہیں۔ دستور پر نظرثانی کے عمل نے سیاست دانوں اور کلیسا کے ذمہ داروں دونوں کو بیچ سے تقسیم کر دیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں صدر موئی دوسری پانچ سالہ مدت ختم کریں گے‘ اسی لیے جانشینی کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

منجیکی کے قبولِ اسلام کے کیااثرات ہوں گے؟ کینیا کے گرجوں کی قومی انجمن (NCCK) اس پر ناخوش ہے اور اس نے اس پر سیکیورٹی رسک کا واویلا شروع کر دیا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے کہ کیا اس کے پیچھے کوئی مذموم مقاصد ہیں؟ کلیسا کے رہنمائوں نے اپنے پیروکاروں کو منجیکیوں سے دُور رہنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔

حکومت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوّل: منجیکی قبولِ اسلام کے باوجود بھی کی کی یو ہونے کی وجہ سے صدر موئی کی حمایتی ثابت نہ ہوں گے۔ دوم: بالکل ممکن ہے کہ حکومت کے مخالف مسلمان‘ منجیکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔

مسلم رہنما نہیں چاہتے کہ اس قبولِ اسلام کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ وہ حکومت کے حق میں ووٹ دیں‘ یا مخالفت میں‘ اس کا تعلق اس سے نہ جوڑا جائے۔ حکومت کو ضرور یہ چاہیے کہ منجیکی کے بارے میں اپنی پالیسی پر غور کرے۔ گروپ کے لیڈر ابراہیم واوانگے نے حکومت سے یہی بات کہی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ منجیکیوں کی رائے اپنے حق میں استوار کرے (ماخوذ ماہنامہ امپیکٹ‘ لندن‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔

ازبکستان میں آزادی سے پہلے ہی اسلامی بیداری پائی جاتی تھی مگر اسّی کے عشرے کے اواخر میں صدر گوربا چوف نے جونہی خودمختاری کی پالیسی کا اعلان کیا‘ اسلامی بیداری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے اور مساجد و مدارس بنانے کا زریں موقع ملا۔ مختلف موضوعات پر ہر طرح کا اسلامی لٹریچر شائع ہونے لگا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ لاکھوں مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹنے لگے۔

مگرافسوس کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے جب اپنے قدم جما لیے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک تو صدر کی پالیسی ذرا نرم اور حزم و احتیاط پر مبنی رہی مگر اس کے بعد وہ کھل کر سامنے آگیا۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین یعنی علماے اسلام کو قیدوبند میں ڈالا‘ جلیل القدر علما کو اغوا کرایا۔ شیخ عبداللہ اوتار صدر حزب النہضۃ الاسلامی کو ۱۹۹۲ء میں اغوا کرایا۔ شیخ عبدالولی میرزا امام مسجد ’’الجامع‘‘ اندیجان شہر کو ۱۹۹۵ء میں ازبک انٹیلی جنس ایجنسی نے تاشقند ایئرپورٹ سے اغوا کر لیا۔

جمہوریہ قارقلباقستان کے صحرائوں کے وسط اور بحرآرال کے مغرب میں جسلق گائوں کے قریب واقع جیل کیمپ میں ۲۵۰ افراد کو صدر جمہوریہ کی شخصی آمریت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔جیل کے ایک ملازم کے بیان کے مطابق یہاں اُن قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محبوس رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ گذشتہ سال یہاں اٹھارہ آدمیوں کو مسلسل جسمانی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انھیں روزانہ ستر مرتبہ قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیے جاتے اور صبح سے رات گئے تک پورا دن خاموشی کے ساتھ بینچ پر بٹھایا جاتا۔ قیدیوں کے لیے حکم ہے کہ کھاناکھا چکنے کے فوراً بعد وہ بآواز بلند کہیں ’’ہم اس خوراک اور سہولتوں پر اپنے صدرِ محترم اسلام کریموف کے شکرگزار ہیں‘‘۔ اس کے بعد ازبک قومی ترانہ گائیں۔

پورے ملک میں اسلام پسند قیدیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے۔ یہ اعداد و شمار وسط ایشیا میں حقوق انسانی کے دفاع کی تنظیم کے‘ جس کا صدر دفترماسکو میں ہے‘  مہیا کردہ ہیں‘ جب کہ ازبک حکومت صرف ۲۰ ہزارتحریک اسلامی کے کارکنوں کے قیدی ہونے کی معترف ہے۔ قیدیوںکی تعداد اور جیلوںمیں ان کی شرحِ اموات میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۹۹ء میں ازبک راجدھانی تاشقند میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے دھماکوں کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری بنیاد پرستوں پر ڈالی تھی مگر اہل نظر و اصحاب بصیرت کے نزدیک یہ سرکاری کارستانی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بھی سرکاری آدمی ان دھماکوں میں نہیں مارا گیا۔امن و سلامتی کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف نہیں کیا گیا۔ صدر نے وزیرداخلہ‘ وزیر خارجہ اور امن عامہ کے ذمہ دار کا محاسبہ کیا نہ سرزنش کی نہ ان پر تنقید کی بلکہ اس کے برعکس ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ان بم دھماکوں کے صرف چند ماہ بعد سلامتی اور امور داخلہ کے سنگ دل اور بدترین سو افراد کے سینوں پر حسنِ کارکردگی کے تمغے سجائے گئے۔

اسلام دشمن کی انتہا :  ازبکستان میں داڑھی رکھنا اور حجاب سرکاری طور پر ممنوع ہیں یعنی ’’جرم ‘‘ ہیں۔ اسلام دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ جاری کیا ہے جس کی دفعہ ۱۴ کے بموجب پبلک مقامات پر مذہبی لباس پہن کر آنا منع ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک اوردفعہ کی رُو سے باپردہ لڑکیوں اور مستورات کے لیے اداروں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ باپردہ تمام طالبات کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ اس آرڈی ننس پر عمل درآمد کرانے کے لیے ذمہ دار افسر مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہائی اسکولوں کے طلبہ کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ہیں۔ طلبہ کے لیے قرآن اور نماز سیکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

باپردہ خواتین کو پولیس سڑکوں سے سیدھا جیل پہنچا دیتی ہے۔ افسوس کہ مسیحی راہبات (nuns) تو شہر میں اپنے مذہبی لباس میں امن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں لیکن مسلم خواتین کو یہ آزادی بھی میسر نہیں۔ انھیں ذرائع ابلاغ سب و شتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گم کردہ راہ‘ رجعت پسند اور دقیانوسیت زدہ جیسی پھبتیاں اور طعنے مسلم خواتین کے لیے عام الفاظ بن چکے ہیں۔

بہت سی باپردہ لڑکیوں نے مجبور ہو کر حجاب ترک کر دیا ہے۔ بہت سے کم زور دل مسلمانوں نے اچانک چھاپے کے خوف سے اپنے گھروں سے قرآن شریف کے نسخے نکال دیے ہیں۔اس لیے کہ پولیس کے انسپکٹرز قرآن شریف اور عام عربی کتابوں میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھتے۔ انھیں تو بس کوئی عربی کتاب ملنی چاہیے‘ گھر سے ملے یا کار سے۔ عربی میں لکھی ہوئی کسی بھی کتاب کا دست یاب ہونا ان کی ملازمت کو پختہ تر کر دیتا ہے اور جس کے قبضے سے کتاب برآمد ہو جائے اس بیچارے کی شامت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ خواہ یہ عربی کتاب صدر اسلام کریموف کی کسی تالیف کا عربی ترجمہ ہی ہو۔

نشانہ ہائے جور و جفا : ازبک سرکار نے حامیان اسلام پر منظم ہلہ بول دیا ہے۔ وادی فرغانہ کے شہر اندیجان کے باشندے نعمت کریموف نے اپنے لخت جگر کی لاش حکام سے گرفتاری کے آٹھ ماہ بعد وصول کی۔ جسم پر مارپیٹ کے واضح نشانات تھے۔ بہت سے خاندانوں نے اپنے جواں سال بیٹوں کی لاشیں اس حالت میں واپس پائی ہیں کہ ان پر تشدد و اذیت دہی کے نشان واضح تھے۔ یہاں پر ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱- فرحات عثمانوف:  تاشقند کا باشندہ‘ ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کو گرفتار ہوا۔  تشدد کی وجہ سے اسی ماہ ۲۵ جون کو فوت ہوا۔غسل دیتے وقت معلوم ہوا کہ اس کی کھوپڑی اور دانت پیہم ضربوں سے توڑے گئے تھے۔

۲- حیات اللّٰہ باباناتوف:  اندیجان کا شہری‘ ۲۰ نومبر ۹۸ء کو گرفتار ہوا اور ۲۳ مئی ۹۹ء کو بوجہ اذیت دہی جاں بحق ہوا۔

۳- جلال الدین جمالوف: اندیجان کا باسی‘ عمر ۳۷ سال۔گرفتاری کے چند ہی روز بعد وفات پائی۔

۴- محمد جان انیوف: اندیجان کا باشندہ‘ عمر ۵۵ سال ۔ صدر کریموف نے حامیانِ اسلام کی ’’سرکوبی‘‘ کے لیے جو فوجی ’’عدالتیں‘‘ قائم کی ہیں اسی قسم کی ایک’’عدالت‘‘ نے انھیں ۱۰ فروری ۹۸ء کو چھ سال کی سزا سنائی مگر اس مظلوم نے ۷ فروری ۱۹۹۹ء کو ضرب شدید کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا۔

۵- ظولوف عالم جان: اندیجان جیسے مردم خیز شہر کا مکین۔ اس شہر نے بہت سے علما و فضلاکو جنم دیا مگر ازبک ہلاکوکریموف کے دورِ استبداد میں یہ شہرِ شہدا بن چکا ہے۔ ظولوف عالم ۱۰ فروری ۹۹ء کو چار بجے شام گرفتار ہوا اور اسی تاریخ کو رات دس بجے‘ اس کی تشدد کے نشانات سے بھرپور نعش گھر پہنچی۔

۶- احمد خان طوراخانوف: وادی فرغانہ کے شہر غنعان کا باشندہ‘ ۵ مارچ ۹۹ء کو ساڑھے پانچ سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس مردِ مجاہد نے ۱۵ جون ۹۹ء کو قید خانہ میں ہی اپنی جان‘ جانِ آفرین کے حوالے کی۔

۷- الوغ بیگ انواروف:  تاشقند سے تعلق‘ جون ۹۹ء میں گرفتاری عمل میں آئی اور ۹ جولائی ۱۹۹۹ء کو جامِ شہادت پیا۔

۸- عظیموف جوراخان: اندیجان کا باشندہ‘  ۲۲ فروری ۹۹ء کو گرفتار ہوا۔ ۱۷ اپریل ۹۹ء کو جیل میں وفات پائی۔

ازبکی نمرود نے اپنے وزیر داخلہ زاکیرالماتوف کو تاشقند میں بم دھماکوں کی پہلی برسی کے موقع پر یہ مہم سونپی کہ ازبکستان میں اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کر دے اور ازبکستان سے اسلام کے نام لیوائوں کا قلع قمع کر ے۔

ازبکستان کا دینی ادارہ حکومت کے ماتحت ہے‘ جسے صدر کریموف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تقریباً ہر سال ازبکستان کے فقیہ کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ مفتی ازبکستان عبدالرشید بحراموف نے حکومت کے دبائو میں آکر ۹۹ء میں مساجدمیں لائوڈ اسپیکر میں اذان دینے کی ممانعت کا فتویٰ جاری کیا اور دلیل یہ دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لائوڈ اسپیکر نہ تھے۔

ازبک حکمرانوں نے نہ صرف ازبکستان کی حدود میں بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی تحریک اسلامی کے کارکنوںکے خلاف اپنی مہم تیز تر کر دی ہے۔ ازبک انتظامیہ کی درخواست پر روسی حکام نے بہت سے ازبک پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ازبک ظالموں کے سپرد کر دیا۔ یوکرائن اور ترکیہ کی سیکورٹی فورسز نے بھی یہی حرکت کی۔ حالانکہ ایسا کرنا‘ پناہ گزینوں کے بارے میں موجود بین الاقوامی معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایک طرف یہودی لابی اور مغرب میں حقوق انسانی کی پاسدار تنظیمیں‘ ایران میں گرفتار یہودیوں کے حق میں‘ بین الاقوامی سطح پر منظم جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ازبک مسلم قوم کے ہزاروں مقتولوں اور لاکھوں گرفتار شدگان کے بارے میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی۔

ہم مسلمانوں کی یہ بے حسی کب تک رہے گی؟

پُرامن مسلم ازبک قوم کب تک جان و مال اور اہل و عیال کے بارے میں خوف زدہ رہے گی؟

کب تک فدائیان اسلام قید و بند میں پڑے اذیتیں سہتے رہیں گے؟

کب تک اہل ایمان تشدد و اذیت کا نشانہ بنتے رہیں گے؟

ستم گروں اور آمروں سے نجات پانے کے لیے امت مسلمہ کب اٹھے گی؟

طویل و تاریک شب ظلم کا خاتمہ کب ہوگا؟

 

a