رسائل و مسائل


سیاسی بنیادوں پر تقرری

سوال: وطن عزیز میں خاصے عرصے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جب کوئی پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو مختلف سرکاری ملازمتوں میں اس مخصوص پارٹی کے لوگوں کی بھرتی شروع ہو جاتی ہے‘ اور ملک کے عام شہری جو کہ صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر ان ملازمتوں کے زیادہ اہل ہوتے ہیںمحض سیاسی وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے ان سرکاری ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے عہدے داروں کو اگر اس ناانصافی کی طرف متوجہ کیا جائے تو ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ پارٹی ورکرز نے اتنی قربانیاں دی ہیں اگر انھیں نوکریاں نہیں ملیں گی تو پھر کسے ملیں گی؟

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت چلانے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی ورکرز کو نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ اپنی سرکاری حیثیتوں میں رہ کر پارٹی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ بعض پارٹیوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لوگ بہت ایمان دار اور دیانت دار ہوتے ہیں لہٰذا اگر سرکاری ملازمتوں میں ایسے افراد کو موقع دیا جائے تو سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے وہ میرٹ اور مروجہ اصول و ضوابط کونظرانداز کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں سمجھتے۔

براہ مہربانی قرآن و سنت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ سرکاری ملازمتوں پر برسراقتدار پارٹی کے ورکرز یا عہدے داران کا کتنا اور کیسا استحقاق ہوتا ہے؟ اور پارٹی ورکرز کو سرکاری ملازمت دینے کے لیے مروجہ قواعد و ضوابط اور میرٹ کو نظرانداز کرنا کیسا فعل ہے؟

جواب: قرآن کریم نے مناصب اور ذمہ داریوں پر افراد کے تعین کے سلسلے میںبنیادی اصول سورۃ النساء میں یوں بیان فرمایا ہے:   اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا  o (۴:۵۸) ’’مسلمانو‘اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔گویا کسی منصب یا ذمہ داری پر تعین کرنے والوں اور متعین ہونے والوں دونوں پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری دی جائے تو وہ پوری واقفیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کو وزیر دفاع یا مالیات یاقاضی القضاۃ بنا دیا جائے‘ جب کہ وہ ان شعبوں کی الف با سے بھی واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس کی پہچان صرف یہ ہو کہ وہ سربراہِ مملکت یا کسی اعلیٰ افسر کا قریبی عزیز‘ دوست یا اس کی جماعت کا کارکن ہے۔ اس سلسلے میں جتنی جواب دہی اولی الامر کی ہے اتنی ہی مامور کی بھی ہے۔ اگر ایک شخص یہ جانتا ہو کہ وہ ایک منصب کی شرائط پوری نہیں کرتا اور وہ اس منصب کو قبول کرتا ہے تو وہ عدل کے منافی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسے منصب کو قبول نہ کرے۔ قرآن کریم نے سورۃ المومنون میں اہل ایمان کی بنیادی خصوصیات میں اس پہلو پر خاص توجہ دی ہے اور فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے ایک شخص اگر غلط منصب قبول کرتا ہے تو وہ نہ صرف اس منصب کے ساتھ زیادتی اور ظلم کرتا ہے بلکہ خود اپنے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے اور اُمت مسلمہ کے بھی مفاد (مصلحت عامہ) کے خلاف ایسا کام کرتا ہے۔

اس اصول کی روشنی میں اگرکوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ایسے افراد کی سیاسی تقرریاںکرتی ہے جو اس منصب کے اہل نہیں ہیں اور ان شرائط کو پورا نہیں کرتے جو اس سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ بددیانتی‘ ظلم اور اُمت مسلمہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہاں‘ اگر کسی سیاسی جماعت کی فکر اور نظریے سے ہم آہنگ افراد ان شرائط پر معروضی طور پر پورے اترتے ہوں اور مروجہ ضوابط کے تحت بغیر کھینچا تانی کے qualifyکرتے ہوںتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ یہی شکل مذہبی و سیاسی جماعتوںکے اندر مناصب کی ہے۔ اگر کسی جماعت کی سربراہی کے لیے ایسے فرد کو ذمہ داری سونپ دی جائے جو اس کی فکر اور مطلوبہ کردار کا حامل نہ ہو تویہ سراسر ظلم اور عدل کے منافی ہوگا۔

تحریکات اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ خود تحریک کے اندر ذمہ داریوں پر تعین کا معاملہ ہو یا تحریکات اسلامی کے برسراقتدار آنے کے بعد مختلف شعبہ ہاے حیات میںافراد کا تعین ہو‘ وہ اپنے آپ کو مصلحت عامہ اور مروجہ  ضوابط سے آزاد نہیں کرتیں۔ البتہ انھیں اس کا پورا حق پہنچتا ہے کہ دستوری ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے شرائط و ضوابط میں ان پہلوئوں کو شامل کریں جن کا تعلق افراد کے کردار‘ دیانت اورفنی صلاحیت سے ہواور پھر کھلے اور شفاف طریقے سے ان حضرات کو متعین کریں جو ان شرائط پر پورے اُترتے ہوں۔

پارٹی کے نام پر محض کارکنوں کو نوازنا‘ اسلام کا مدعا ہے نہ عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔  سورۃ الانفال میں امانت کا حق ادا نہ کرنے کو خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَخُوْنُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۲۷) ’’جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو‘ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘۔

مسلم کی جامع الصحیح میں کتاب الامارۃ میں حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایک امیر جو ایک منصب قبول کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش نہیں کرتا وہ کبھی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔ گویا منصب چاہے سیاسی وجوہات کی بنا پر ہو یا مسلکی اور مذہبی بنیاد پر‘ جب تک اصل بنیاد اہلیت اور صلاحیت کی نہ ہو‘ شرعی نقطہء نظر سے ظلم ہے۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستان اور بہت سے مسلم ممالک میں اعلیٰ ترین مناصب تک عموماً تقرری کی بنیاد کسی کی سفارش ‘ رشتہ داری یا سیاسی تعلق ہوتا ہے۔ عدل اور صلاحیت کو کبھی معیار نہیںبنایا جاتا حتیٰ کہ عوام بھی ایسے افراد کو ووٹ دینا زیادہ پسندکرتے ہیں جو برسرِاقتدار آکر بجائے عدل و انصاف کے ان کو ذاتی فائدہ پہنچا سکیں۔ جب تک ہم بحیثیت ایک اُمت اس کلچر کو تبدیل نہیں کریں گے‘ اُمت مسلمہ اعلیٰ قیادت اور اصول پرستی سے محروم رہے گی۔ ذاتی‘ گروہی اور مسلکی مفادات کے نتیجے میں جو افراد بھی مناصب پر آئیں گے وہ امانتوں کو پامال کرنے میں اپنے سے پہلے والوں سے دو قدم آگے ہی نکلتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے سے بچائے۔  (ڈاکٹر انیس احمد)

قرآن کریم اور عائلی موضوعات

س :  قرآن کی باترجمہ تدریس کرتے ہوئے کئی مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سن بلوغت کے معاملات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ۹ سے ۱۶ سال کی عمر زندگی کے حیاتیاتی حقائق کے سلسلے میں تجسس کی ہوتی ہے۔ کیا ان آیات سے ذہنوں پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے؟

مغرب تو جنس کے معاملے میں تمام حدیں توڑ گیا ‘ تاہم قرآن کے حوالے سے خیال ہے کہ شاید ایک غیر محسوس انداز میں قرآن اپنے پڑھنے والے کو حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ گویا ایک طرح کی صنفی تعلیم کا فطری سا نظام قائم ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کے حکمت کار نصابیات میں بالکل غیر محسوس انداز میں افزایش نسل کے معاملات کے احسن پہلوئوں کو شامل کردیں؟ کیا علماے کرام اسلام کے شرم و حیا کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں گے؟

ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم عملی مسئلے سے ہے اور جدید تعلیمی تصورات میں اسے بنیادی اہمیت دی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے جامع ترین ہدایت ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں انسان کی فلاح کا سامان موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم انسان کی پیدایش کے مراحل اور پیدایش کے بعد نشوونما و تربیت کے بارے میں اصولی ہدایات فراہم کرتا ہے۔ البتہ اس کا اسلوب نہ کسی علم الاجسام کی کتاب کا ہے نہ کسی صنفی معلومات کی انسائیکلوپیڈیاکا بلکہ یہ اعلیٰ ترین اخلاقی تصور کے ساتھ ہر عمر کے انسانوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی اخلاقی تکمیل کے ذرائع سے آگاہ کرتا ہے۔

اس سلسلے میں بلوغت کے مسائل ہوں یا عائلی معاملات‘ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک ۱۳ سالہ نوجوان کے طہارت کے مسائل‘ ان تمام معاملات پر قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے تاکہ بچپن ہی سے ایک فرد کو برانگیختہ کیے بغیر ٹھنڈے انداز میں بنیادی معلومات فراہم کر دی جائیں۔

اسلام میں جو عمر نماز اور روزے کی فرضیت یا ایک ذمہ دارانہ زندگی کے آغاز کے لیے ہے وہی عمر ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں ایک نوجوان کو عالم خواب میں انزال یا جسم کے طبعی نظام کے نتیجے میں ایک لڑکی کو ایام کے واقع ہونے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان تمام معاملات سے اگر روایتی شرم کی بنا پر اغماض برتا جاتا تو ہدایت کہاں سے ملتی؟ اس لیے کتاب ہدایت نے ان معاملات کا ذکر کیا لیکن ایسے انداز میں کہ جس کو یہ مسائل پیش آئیں نہ اسے احساس جرم ہو نہ احساس محرومی و شرمندگی۔ چنانچہ نماز سکھاتے وقت والدین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وضو‘ غسل اور طہارت کے مسائل کیا ہیں؟ اس سلسلے میں فقہی کتب کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان مسائل کو سادہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اکثر کتب ایسی تفاصیل بیان نہیں کرتیں جو نوعمر افراد کے لیے شرم کا باعث ہوں۔  ہمارا فرض ہے کہ ان معاملات پر سادہ اور آسان طریقے سے معلومات فراہم کریں۔

اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو مغرب زدہ اور مغربی تعلیمی تصورات سے متاثر حضرات جنسی تعلیم کے عنوان سے ہماری نوجوان نسل کو جنسی جنون کی طرف لے جائیں گے اور ناقص تعلیم کے ذریعے ان کے اخلاق کو پامال کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج دُنیا کے تمام تعلیمی ادارے ’’محفوظ تعلق‘‘ جیسی شرم ناک اصطلاح معصیت اور فحاشی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسی کو جنسی تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں۔

اگر قرآن و سنت کی مدد سے یہ بات بچپن ہی سے ذہن نشین کرا دی جائے کہ جنس مخالف سے صرف اور صرف ایک ہی رشتہ جائز ہو سکتا ہے اور وہ عقد نکاح کے ذریعے ممکن ہے تو مغرب کی جنسی بے راہ روی کے غبارے سے ساری ہوا نکالی جاسکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو مہلک اخلاقی اور جسمانی امراض سے بچایا جا سکتا ہے۔

آپ نے علما سے اجازت مانگی ہے۔ میرے خیال میں اگر آپ مطالعہ فرمائیں تو حدیث اور فقہ کی ہر کتاب کا آغاز ہی ان مسائل سے ہوتا ہے جن کا تعلق ایمان‘ طہارت و پاکیزگی سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتب کے اسلوب کو دور جدید کے مطالبات کی مناسبت سے مزید سہل بنایا جائے اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ ان معاملات پر بات کی جائے جو بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی‘ روحانی اور جسمانی صحت کے لیے ضروری ہیں اور جن پر قرآن و حدیث اور فقہ نے خود توجہ دی ہے۔ (ا - ا)

تربیت اولاد کے لیے قوت کا استعمال

س : گرمیوں کی تعطیلات میں بالخصوص اور سال بھر عموماً مختلف عمروں اور جماعتوں کے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ حضرت انسؓ کے سلسلے میں روایات میں آتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں وہ جتنا عرصہ بھی رہے۔ آپؐ نے کبھی ان کی مذمت نہیں کی اور نہ سزا دی‘ سرعام کبھی سرزنش نہیں کی کہ یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا۔ ادھر تعلیم میں یہ معاملہ ہے کہ غیرحاضری سے تعلیم کا تسلسل ٹوٹتا ہے جو استاد اور شاگرد اور ہم جماعت طلبہ کے لیے پریشانیوںکا سبب ہے۔ اسی طرح ہوم ورک کے کرنے اور نہ کرنے سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ پھر ٹیسٹ سسٹم ہے۔ اب ان معاملات میں مختلف سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں توکام کرنے والے بچوں کی نفسیات پر اس کا واضح اثر پڑتا ہے۔ بچپن ناسمجھی کا دور ہوتا ہے اور کھیل کود اور دیگر مشاغل کی طرف توجہ مبذول رہتی ہے۔ سزا کے بغیر فہمایش تو کم ہی کام کرتی ہے۔ والدین کی طرف سے الگ شکایات کہ پڑھایا نہیںجاتا۔ بچوں کو سزا بھی دیتا ہوں اور ڈرتا بھی رہتا ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ والد کو اولاد کی تادیب کے لیے ہاتھ میں لکڑی رکھنی چاہیے۔ کیا استاد بھی اس سلسلے میں کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے؟ اور وہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی برقرار رکھنے اور اُن کی استعداد میں اضافے کے لیے کس حد تک جا سکتاہے۔

ج:  کسی بات کی اجازت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے لازماً کیا جائے۔ حضرت انسؓ ۱۰ سال کی عمر میں حضور نبی کریمؐ کے خادم کی حیثیت سے گھر کے افراد میں شامل ہوئے اور ۱۰ سال تک آپؐ کی خدمت کرتے رہے۔ اس عہد میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں ان کے ہاتھ سے کوئی برتن ٹوٹا لیکن ایسے مواقع پر ہاتھ کے استعمال کی جگہ آپؐ نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو متوجہ فرمایا کہ وہ درگزر فرمائیں۔ اس سب کے باوجود حدیث میں صاف ذکر آتا ہے کہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر سے تعلیم و تربیت دی جائے اور ۱۰ سال کے بعد اگر نماز نہ پڑھے تو تادیب کی جائے۔ اس لیے یہ بات تو شبہے سے بالاتر ہے کہ والدین کو تادیب کا حق دیا گیا ہے اور کوئی بچہ اس بنا پر ان کے خلاف مقدمہ نہیں کر سکتا کہ انھوں نے اس پر قوت کا استعمال کیا ہے لیکن خود والدین سے کس قسم کا کردار متوقع ہے‘ اس پر تفصیلی بات کی ضرورت نہیں۔ اگر ۱۰ سال میں حضرت انسؓ نے اُف تک نہ سنا تو ایک باپ‘ استاد یا بڑا بھائی ایک بچے کو کس طرح لکڑی یا ہاتھ سے مار کر زخمی کر سکتا ہے!

اسلام میں ایک حق کا ہونا اور اس حق کی لفظی پیروی کرتے ہوئے شدت سے استعمال کرنا‘ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔  ( ا - ا)

غیر قانونی حق کا استعمال

س: ہمارے ہوسٹلوں میں ایک طلبہ تنظیم نے کافی کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے جو کہ ان کا حق نہیں۔ دین میں اس بارے میں کیا حکم ہے؟ داعی کا کردار ہر دھبے سے پاک ہونا ضروری ہے۔ ان کے اس عمل سے بہتری کے بجائے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی بہتری کی کیا صورت ہے؟

ج:  آپ کے سوال کا تعلق جامعات میں اقامت گاہوں کے استعمال سے متعلق ہے۔ ہوسٹل کا دعوتی استعمال ایک مطلوب عمل ہے لیکن ہوسٹل پر بغیر کسی قانونی حق کے قابض ہو جانا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ ان تحریکات کے لیے جو خود کو اصلاحی‘ دعوتی اور تعلیمی تحریکات کہتی ہوں ایسا کرنا مزید قابل اعتراض ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کریں‘ نہ کسی کا حق ماریں اور    نہ ناجائز قبضے کے مرتکب ہوں۔ اس کی اصلاح کی طرف فوری طور پر توجہ کرنی چاہیے‘ مقامی اور مرکزی نظم کو اس سلسلے میں مناسب ہدایات جاری کرنی چاہییں۔ ( ا - ا)

 

ابلاغ عامہ کے لیے تصویر کا استعمال

سوال: دعوت دین اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ایک بڑا چیلنج ناخواندگی ہے۔ تصویر کی حرمت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی رائے سے تو سب واقف ہیں لیکن ایک چیز مشاہدے میں آئی ہے کہ تصویری پوسٹر ابلاغ میں کہیں زیادہ موثر کردار ادا کرتا ہے اور ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ فرد کسی حد تک خود پیغام اخذ کرنے کے لائق ہو جاتا ہے۔ گویا تصویر ناخواندگی کے چیلنج کا ایک حد تک جواب ثابت ہوتی ہے۔ کشمیر فنڈ کے پوسٹر میں اعداد و شمار اور جذبہ انگیز فقرات خواندہ افراد کی ایک مخصوص تعداد کو متاثر کرتے ہیں‘ جب کہ چند تصویریں ہر مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ بچے ‘ پڑھے لکھے‘ ان پڑھ سب کو متاثر کرتی ہیں اور ابلاغ مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جس پوسٹر یا اسٹکر پر قاضی حسین احمد صاحب کی تصویر ہوتی ہے‘ اس سے فوراً پیغام اخذ کیا جاتا ہے یا سوالات کیے جاتے ہیں‘ جب کہ سادہ پوسٹر‘ اسٹکر اَن پڑھ نیم دلی سے وصول کرتا ہے اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کیا تغیر حالات سے تغیراحکام کا اصول اس معاملے میں لاگو ہو سکتا ہے؟

جواب: آپ کے سوال کا تعلق ایک بہت حساس مسئلے سے ہے۔ اس کے تین بنیادی پہلو ہیں: اولاً‘ کیا ہر قسم کی تصویر حرام کی تعریف میں آتی ہے اور خود تصویر کی تعریف کیا ہوگی؟ ثانیاً‘ اگر تصویر کسی تاریخی شخصیت کی ہو اور عریانی یا فحاشی کی تعریف میں بھی نہ آتی ہو‘ مثلاً قائداعظم کی تصویر‘ محترم مولانا سید سلیمان ندوی کی تصویر یا امیر جماعت اسلامی کی تصویر تو کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟ ثالثاً‘ کیا تصویر کے حوالے سے فقہا کی رائے ایک مستقل اور مطلق حکم کی حیثیت رکھتی ہے اور تغیر حالت کے باوجود حکم میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوگا‘ چاہے وہ سب قباحتیں دُور کر دی جائیں جو تصویر سے وابستہ ہوں‘ اور کیا اس کا استعمال ہرشکل میں ممنوع رہے گا؟

آخری نکتے سے بات کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگاکہ آج جب ٹی وی اور اخبار انسانوں کے رجحانات اور فکری زاویوں کو ایک مسلسل تصویری ثقافت سے متاثر کر رہے ہیں اور ایسی حالت میں جب تصویری ثقافت تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے‘ کیا ہم تصویر کو مکمل طور پر نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جہاد کشمیر ہو یا چیچنیا‘ فلپائن ہو یا برما اور فلسطین کی تحریکات آزادی‘ ان مقامات پر متاثر ہونے والے بچوں‘ تباہ ہونے والے مکانات‘ مساجد اور بازار ‘اگر ہم ان کی تباہی کی صرف ایک تصویری جھلک دکھاتے ہیں تو کیا ہمارے پیغام کی شدت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ایک تحریر کو پڑھ کر ہوتی ہے‘ یا یہ تصویر بغیر الفاظ استعمال کیے دیکھنے والوں کو زیادہ واضح پیغام پہنچاتی ہے؟

نماز اور حج کی تعلیم کے لیے اگر مراسم کو محض تحریر کیا جائے تو بحث زیادہ واضح ہو گی یااشکال اور نقطوں اور خاکوں کے ذریعے اعمال کی ترتیب ایک ناخواندہ شخص کو بھی سمجھائی جاسکتی ہے۔ مدارس دینیہ کی مالی امداد کے لیے ایک خط یا سالانہ کارکردگی کی ایک رپورٹ زیادہ موثر ہو گی یا مدرسے کی نصف تعمیر شدہ عمارت اور کلاس روم میں تربیت کے لیے ساتھ بیٹھے ہوئے طلبہ کی تصویر یا مدرسے کے کتب خانے کی تصویر طبع کرنے سے بات مستند ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا مثالوں میں کیا شریعت کے کسی بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کیا تصاویر کا استعمال صرف اشاعت ہی کے لیے ہوتا ہے؟

دوسرے پہلو کے حوالے سے‘ اس سے قطع نظر کہ تصویر مولانا شبلی نعمانی ‘ سید سلیمان ندوی یا شیخ الازہر کی ہے یا حنبلی فقہ کی پیروکار سعودی مملکت کے سربراہ کی‘ اگر تصویر کی حیثیت محض ایک تاریخی دستاویز کی ہے اور اس کا وہ استعمال نہیں ہے جس سے عزت و پرستش کا اظہار ہو‘ تو کیا اس حدیث کی روشنی میں جس میں سیدہ عائشہؓ نے پردے کو چاک کر کے تکیہ‘ غلاف یا پایدان بنا دیا تھا‘ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک اس کے مقام احترام و پرستش پر پہنچنے کا امکان نہ ہو‘ اس کا استعمال کیا جا سکتاہے؟

اسی طرح اگر تصویر ایسی ہے جس میں نہ کوئی جان دار ہے نہ وہ مصوری کا کارنامہ ہے اور نہ مصور کو یہ گمان ہے وہ خالق کائنات (المصور) کے مقابلے پر اپنے کمالِ فن کا دعویٰ کر رہا ہے‘ مثلاً گلاب کے پھول کی تصویر‘ طلوع یا غروب آفتاب کا منظر‘ یا فضا میں بلند ہوتے ہوئے شاہین کی پرواز کی تصویر اور ان سب کا مقصد دیکھنے والے کو اللہ سبحانہ کی قدرت‘ قوت تخلیق ‘ ربوبیت اور حاکمیت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں فرد کو اس کی ذمہ داریوں کی ادایگی پر اُبھارنا ہو‘ تو کیا اس تعلیمی اور دعوتی ابلاغی عمل کو تصویر کے منفی تصور کی بنا پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟

آپ کے ایک سوال نے یہ بہت سے سوالات اُٹھائے ہیں۔ ہمیں ان تمام احادیث کی روشنی میں جن پر محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن جلد چہارم‘ صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۹ سورہ سبا کی ایک آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے گفتگو فرمائی ہے‘ غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کیا تصویر کی تعریف میں صرف وہ شبیہ شامل ہے جو رنگ اور برش سے ایک مصور بناتا ہے‘ یافوٹوکیمرے سے جو شبیہ بنائی جاتی ہے‘ یا وڈیو پر جو تصویر نظر آتی ہے وہ بھی اس میں شامل ہوگی۔ اس آخری قسم کے بارے میں ہمیں جو معلومات ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ وڈیو کیمرے کے ذریعے وڈیو فلم پر نہ کوئی شبیہ بن سکتی ہے نہ خاکہ‘ نہ نقشہ‘ بلکہ صرف چند سگنل ریکارڈ ہوتے ہیں جو وڈیو ریکارڈر پر ایک کہربائی نظام کے ذریعے ایک ٹیوب کی مدد سے شبیہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہوتا‘ نہ ان کا کوئی سایہ بنتا ہے۔ ہماری معروف فقہی کتب میں جو تعریف تصویر کی پائی جاتی ہے وڈیو پر نظر آنے والی شبیہ پر وہ تعریف چسپاں نہیں ہوتی۔ انھی مسائل اور تغیرحالت کے اصول کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ۸۵-۱۹۸۴ء میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کی طرف سے ملک کے جید علما بشمول شیخ الحدیث مولانا مالک کاندھلوی مرحوم‘ جناب مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم‘ مولانا صدر الدین رفاعی مرحوم‘ مولانا اسرار الحق مرحوم‘ مولانا سیاح الدین کاکاخیل مرحوم‘ مولانا سمیع الحق ‘ مولانا عبداللہ خلجی‘ جناب محمد رضی مجتہد مرحوم کے سامنے جب دورِ جدید میں دعوت دین کے لیے سمعی و بصری ذرائع کے استعمال پر مشاورت کی گئی تو ان جید علما نے تعلیمی اور دعوتی غرض سے وڈیو پروگراموں کی تیاری کی تجویز کو منظور فرمایا۔

میری ناقص رائے میں اگر وڈیو یا تصویر کا ابلاغی استعمال شخصیت پرستی کی تعلیم نہ دے رہا ہو اور دین کی تعلیمات کو زیادہ موثرانداز میں سمجھانے میں مددگار ہو تو مثبت طور پر اسے شیطان کی ثقافت کو ردّ کرنے‘ فحاشی و عریانیت کی جگہ اخلاق‘ عصمت و عفت کا درس دینے کے لیے اس کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ۲۴ گھنٹے لہوالحدیث کے ذریعے ذہنوں کو مسموم کر رہا ہے اور افراد کی ایک اچھی تعداد ہے جو اسے ناپسند کرنے کے باوجود کسی مثبت متبادل کی عدم موجودگی میں اس شر اور ضلالت کو دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ برائی کا خاتمہ جب تک حسنات سے نہ کیا جائے‘ برائی دُور نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی ضابطے کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھنا ہوگا اورابلاغی صنعت سے شیطان کے اثرات کودُور کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دستاویزی پروگراموں‘ معلوماتی مقابلوں‘ تعمیری کہانیوں اور تمثیلات اور شعری ذرائع سے پیش کرنا ہوگا۔

مصر کی تحریک اسلامی کے بانی امام حسن البنا شہیدؒ نے ابلاغ عامہ کی اس جدید ضرورت کے پیش نظر باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا تھا جس نے مصر کے مختلف مقامات پر تاریخی تمثیلات اور ڈرامے پیش کیے اور  اس طرح ایک صحت مند اسلامی تفریح کے ذریعے دعوت کو ان حلقوں تک پہنچایا جہاں شاید سنجیدہ تحریر موثر  نہ ہوتی۔

آج ‘جب کہ انٹرنیٹ اور مواصلاتی سیارچوں کا دَور ہے اور لامحدود معلومات کا سیلاب جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر دُنیا کے ہر خطے میں گھس گیا ہے‘ اگر ابلاغ عامہ کے مروجہ ذرائع کو دعوت اسلامی کے لیے استعمال نہ کیا گیا تو ہم اپنے پیغام اور دعوت کا حق صحیح طور پر ادا نہ کر سکیں گے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

ملک سے نقل مکانی

س: ملکی حالات سے مایوس ہو کر ہماری نوجوان نسل ملک سے نقل مکانی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ:

۱- کیا امریکہ اور مغربی ممالک دارالکفر کی تعریف میں آتے ہیں؟

۲- اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان ممالک کی طرف ہجرت دینی نقطہء نظر سے کیسا فعل ہے؟

۳- اپنے اور اپنی اولاد کے دین و ایمان کو بچانے کی خاطر ان ممالک کی طرف ہجرت کی جائے تو کیسا ہے؟ کیوں کہ وہاں کم از کم آپ کو اپنے حقوق تو بغیر کسی رشوت اور سفارش کے مل جاتے ہیں‘ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے؟

۴- جب حالات گھمبیر ہو جائیں تو ہجرت سنت نبویؐ ہے۔ کیا مذکورہ حالات میں ہجرت ضروری ہے؟

ج: آپ نے اپنے سوال میں ایک بہت اہم زمینی حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاشبہ نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں ناہموار حالات کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اور پیشہ ور افراد نقل مکانی کر کے یورپ و امریکہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسے دارالکفر کی طرف ہجرت کہا جائے گا؟ دارالکفرسے مراد وہ جگہ ہے جہاں کفر کا نظام کارفرما ہو اور اہل اسلام کے لیے اپنے اصولوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ چنانچہ سورۃ النساء آیت ۹۷ میں ان اہل ایمان کا ذکر کیا گیا جو نظام کفر میں مستضعفین فی الارض بنا دیے گئے۔ ایسے افراد سے موت کے وقت فرشتہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر تم اس زمین میں بے بس بنا دیے گئے تھے تو کیا جہاں اللہ کی زمین پائی جاتی ہے وہ تمھارے لیے تنگ ہو گئی تھی؟کیا کہیں ہجرت کر کے کسی ایسے مقام پر نہیں جا سکتے تھے جہاں دین پر عمل کر سکو؟ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی؟ گویا دارالکفرمیں دب کر‘ مفلوج اور بے بس ہو کر رہنا اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ان پر ہجرت فرض ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نام نہاد مسلم ملک میں دستور تو یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ملک ہے لیکن برسراقتدار طبقہ اور نظام حکومت جاہلی ہو‘ جب کہ ویسا ہی جاہلی نظام کسی غیرمسلم ملک میں بھی ہو لیکن غیر مسلم ملک میں دعوت اسلامی کے امکانات زیادہ روشن ہوں‘ تقریر و تحریر اور اجتماع کی پوری آزادی ہو‘ لباس‘ طعام اور بودوباش پر کوئی پابندی نہ ہو‘ جب کہ خود نام نہاد مسلم ملک میں اسلام دوست اور تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد پر زمین تنگ کر دی گئی ہو‘ تو ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص اس بات پر غور کرے گا کہ کیوں نہ زیادہ آزاد فضا میں سانس لے کر دین کی دعوت کودُنیا میں پھیلائے۔

دارالکفرمیں قیام کے سلسلے میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہاں پر اسلام کی دعوت پیش کرنے اور آخرکار اسلام کے غالب آنے کے امکانات ہوں تو وہاں پر قیام حرام نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس کا امکان نہ ہو تو وہاں کا قیام ایک قسم کی معصیت شمار ہوگی۔ اگر ایک نام نہاد مسلم ملک میں کوئی کام بغیر رشوت اور سفارش کے نہ ہو رہا ہو‘ اس کے اخبارات مسلسل عریانی کو فروغ دے رہے ہوں لیکن نام کی حد تک وہ ملک مسلمان ہو تو کیا محض نام کافی ہوگا؟ اگر اس نام نہاد مسلم ملک میں اصلاح اور اسلام کے غالب آنے کے امکانات ایک دارالکفر سے زیادہ ہوں تو عقل کا فیصلہ اس نام نہاد مسلم ملک میںقیام کے حق میں ہوگا۔ مکہ میں اشاعت اسلام کے وقت شرک اور کفر کا غلبہ تھا لیکن ۱۳ سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پر اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں رہے۔ جب وہاں دعوت اسلامی کے لیے مشکلات ناقابل برداشت ہوگئیں تو مدینہ ہجرت فرمائی جو پہلے سے دارالاسلام نہیں تھا۔ آپؐ کے وہاں ہجرت فرمانے کی وجہ سے وہ  شہر مدینۃ النبیؐ بنا۔ مکہ کے دور ابتلا میں صحابہ کرامؓ کی جماعتوں نے حبشہ ہجرت کی جہاں پر اسلامی حکومت نہ تھی لیکن فرماں روا عادل تھا‘ گو اس کے درباری بڑی حد تک مشرک تھے۔ ان تاریخی حقائق کے پیش نظر اپنی تمام مسلم دشمنی کے باوجودہم امریکہ اور یورپ کو دارالحرب قرار نہیں دے سکتے۔ ہر دو خطوں میں حالیہ نفرت کی لہر کے باوجود سیکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ کیا بعید کہ آج ہم جن ممالک کو دارالکفر قرار دیتے ہیں کل وہی اسلام کی نشات ثانیہ کا مرکز بن جائیں‘ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جو ڈاکٹر‘ انجینیر‘اساتذہ اور دیگر کارکن وہاں مقیم ہیں وہ دعوت دین کے فریضے کو کتنی ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اگر ان کے یورپ اور امریکہ جانے کا مقصد محض دُنیا کا حصول ہے‘ جیسا کہ ایک حدیث کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ہجرت ایک خاتون سے شادی کے لیے ہوتی ہے اور کسی کی صرف اللہ کے لیے اور پھر یہ فرمایا کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے‘ تو اگر ایک ڈاکٹر اس نیت سے ہجرت کرتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی صلاحیت کا استعمال کرے گا‘ ساتھ ہی ڈاکٹری یا کسی بھی پیشے کے ذریعے دولت بھی کماتا ہے‘ تواس پر ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

یہ خیال رہے کہ دعوت دین کے حوالے سے اس کا اپنا گھر‘ بیوی اور بچے بھی دعوت کے اوّلین مخاطبین ہیں اور وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس وقت تک ایک مقام پر دعوت دین پیش کرنے کی آزادی اور خود عمل کرنے پر کوئی بندش یا مزاحمت نہ ہو‘ اس وقت تک وہاں سے ہجرت نہ کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر پابندیاں اتنی بڑھ جائیں کہ دین کا تحفظ ایک مسئلہ بن جائے تو ہجرت کرنا سنت ہے۔ البتہ ایسے تمام مواقع پر معروضی طور پر جائزہ لینے اور اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔(ا-ا)

بچوں کے بغیر خوش گوار ازدواجی زندگی

سوال: اولاد نہ ہونا ایک اہم معاشرتی اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا کچھ کو لڑکے دیتا ہے‘ کچھ کو لڑکیاں دیتا ہے‘ اورکچھ کو ملے جلے‘ اور کچھ کو کچھ بھی نہیں دیتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس جوڑے کے اولاد نہ ہو‘ کیا اس کی زندگی خوش گوار اور خوش و خرم ہو سکتی ہے؟ قرآن وحدیث سے اس میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟

جواب: اصل سوال یہ ہے کہ انسان کواس زندگی میں حقیقی مسرت اور سکون کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ انسان کا جو مقصد وجود ہے اسے‘ اسی کو اپنا نصب العین اور مقصد وجود بنانا چاہیے‘ اسی کی خاطر دوڑ دھوپ ہونی چاہیے۔ اس میںاگر انسان مصروف ہو‘ اس کا حق ادا کر رہا ہو‘اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کر رہا ہو‘ فرائض ادا اور منکرات سے اجتناب کر رہا ہو‘ تو ایسا انسان مطمئن اور خوش ہوتا ہے۔انسان سکون و اطمینان اور خوشی کی زندگی اسی صورت میں گزارتا ہے‘ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور طاعت و فرماں برداری میں زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا:  وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) ’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔

معلوم ہوا کہ حقیقی مسرت ذکر الٰہی‘ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے ہے۔ مال و دولت‘ منصب اور اقتدار آدمی کے لیے سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں۔ یہ سامان راحت تو ہیں لیکن عین راحت نہیں۔

ایک مسلمان مرد یا عورت جب بالغ ہو جائیں تو انھیںازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ایسی صورت میں فرض ہے جب اس کے بغیر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔ اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو‘ لیکن حاجت اور استطاعت ہو‘ تو پھر ازدواجی زندگی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ص (البقرہ۲:۱۸۷) ’’اور تلاش کرو اسے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘۔  اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کے بقاکے لیے نکاح کو ذریعہ بنایا ہے۔ نکاح اور ازدواجی زندگی کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی نظام میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے جو اس نے نوع انسانی کی بقاکے لیے مقرر کیا ہے۔ نکاح کے نظام سے ایک طرف انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اولاد کو جسے ما کتب اللّٰہ لکم ’’جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘،کے جملے سے بیان کیا گیا ہے‘ حاصل کرنے کے لیے تدبیر کرتا ہے‘ یعنی اولاد حاصل کرنے کی کوشش اور وسیلہ اختیار کرتا ہے‘ اور دوسری طرف نوع انسانی کی بقا میں مددگار و معاون بنتا ہے۔ اس لیے یہ عبادت بھی ہے اور تحصیل اولاد کا ذریعہ بھی۔ ما کتب اللّٰہ لکم کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد مقدر کی ہوگی تو اس تدبیر کے ذریعے مل جائے گی ‘ ورنہ نہیں ملے گی۔

اس لیے انسان محض شہوت رانی کی نیت سے نکاح نہ کرے بلکہ مستقل طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے اور زندگی کا رفیق اور رفیقہ بنانے اوراولاد صالحہ کے حصول کی نیت کرے۔ اگر اولاد کی نعمت حاصل ہو جائے تو اللہ کا شکر ادا کرے‘ نہ ملے تو راضی برضا رہے‘ صبر کووظیفہ بنائے۔ بہت سے انبیا ایسے گزرے ہیں جو طویل زندگی میں لااولاد رہے۔آخری عمر میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد دی‘ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام ‘اور بعض کو بیٹیوں کے ساتھ نرینہ اولاد ملی لیکن فوت ہو گئی‘ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور بہت سے وہ گزرے ہیں جن کو نکاح کا موقع نہیں ملا ‘جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ‘اور جیسے ’’مدین کے بزرگ‘‘۔ بعض اولاد سے محروم رہے۔ بہت سے آئمہ اور نیک خواتین کو بھی اس کا موقع نہیں ملا‘ جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒاور رابعہ بصریؒ‘ لیکن ان کی زندگی انتہائی خوش گوار ‘ پرُسکون اور اطمینان والی تھی۔

پس اولاد کے بغیر بھی آدمی خوش گوار زندگی بسر کرسکتا ہے‘ جب کہ اللہ کی بندگی اور ذکر میں مشغول ہو۔ اولاد بعض اوقات آدمی کے لیے سکون و اطمینان کے بجائے فتنہ بن جاتی ہے اور ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے ۔ آج کل تو بے شمار واقعات ایسے سامنے آتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کو قتل کر دیتی ہے یا چوری ‘ ڈکیتی‘ دہشت گردی یا نشے میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کا واقعہ آیا ہے۔ اس میں حضرت خضر ؑاللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک ایسے بیٹے کو قتل کر دیتے ہیں جس سے خطرہ تھا کہ وہ بالغ ہونے کے بعد ماں باپ کو اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر تنگ کرے گا۔

مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ایک انسان تنہائی محسوس نہیں کرتا۔ یتیم کو باپ کے بدلے میں باپ‘ بھائی سے محروم کو بھائی کے بدلے میں بھائی ‘اور اولاد سے محروم کو اولاد کے بدلے میں اولاد (عزیزوں‘ بہن بھائیوں کی اولاد) میسر ہو جاتی ہے۔ چونکہ انما المومنون اخوۃ‘ ’’ایمان والے آپس میں بھائی ہیں‘‘ اور المسلم اخو المسلم‘ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ اس لیے اولاد کے بغیر خوش گوار زندگی کا سامان اللہ کی بندگی‘ صبراور اہل ایمان سے بھائی چارے کا تعلق ہے۔  اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (مولانا عبدالمالک)

بچیوں کا مناسب رشتہ

س :  بچیوں کی تعلیم و تربیت کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ اللہ کی توفیق سے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی۔ ۲۵ سال ایسے گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ مگر جب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ آیا تو حالات ایسے ہوئے کہ مستقل فکر نے جسمانی اور ذہنی مریض بنا دیا۔بچیوں کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کوئی صورت بنتی نظر نہیں آ رہی‘ جب کہ ہم فرض نمازں کے علاوہ بھی دعائیں کرتے ہیں اور دوا (شادی کرانے والیوں سے رابطہ) بھی۔ لوگ وظائف پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔ کیا قبولیت دعا میں ان کی کوئی افادیت ہے؟ ہمیں تو یوں لگتا ہے  کہ ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتی ہیں۔

ج :  آپ نے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کیا ہے۔

فی الواقع یہ مسئلہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج نہ صرف لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی مناسب رشتے کا ملنا جوے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سورہ القصص کی آیات ۲۳تا ۲۸ کا مطالعہ فرمائیں تو حضرت موسٰی ؑ کی دعا کا ذکر ملتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے چند لمحات میں ہی انھیں جاے امن اور مناسب رشتے سے نوازا۔ آیت ۲۴ میں یہ دعا موجود ہے۔

جہاں تک لڑکیوں یا لڑکوں کے رشتے کا تعلق ہے‘ عموماً اچھے رشتے کی تلاش میں والدین کو وقت کی تنگی کا احساس نہیں رہتا ‘یکے بعد دیگرے رشتے آتے ہیں اور وہ اس خیال سے کہ شاید اس سے مزید بہتر رشتہ آجائے‘ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمارے سماجی نظام میں لڑکیوںکو معاشرے سے کاٹ کر رکھتے ہیں کہ اعزہ اور اقربا کے ہاں بھی کسی تقریب میں ساتھ لے کر نہیں جاتے۔ نتیجتاً لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں آتی کہ کس گھر میں مناسب رشتہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی شکل نہ پیدا ہو رہی ہو تو رسائل و اخبارات میں اشتہار کی بھی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس طرح بھی رشتہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے والدین اور اقربا و احباب کی ذمہ داری قرآن کریم نے واضح کر دی ہے ۔ سورہ النور میں ارشاد فرمایاگیا: ’’تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو‘‘ (۲۴:۳۲)۔ گویا اہل خاندان ہوں یا احباب ‘ یا اسلامی ریاست‘ ان سب کی ذمہ داری میں سے ایک فریضہ بے نکاح افراد کا نکاح کرانا ہے۔ اس کے لیے کوشش‘ وسائل کی فراہمی‘ رکاوٹوں کا دُور کرنا اور نظام حیا کا قائم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

دعا کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ ہم اکثر دعا کے آداب کا خیال نہیں رکھتے جو دعا قبول نہ ہونے کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات تمام آداب کے ساتھ بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو سکتی ہے جس میں سال اور مہینے کی کوئی قید نہیں اور عموماً اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کے صبر کے نتیجے میں اجر میں اضافہ فرمانا چاہتا ہے‘ اور بعض اوقات اس تاخیر کے ذریعے سے بہت سے خطرات و مصائب سے اس کو بچا لیتا ہے۔ بہرصورت یہاں جو زحمت بندے کو ہوتی ہے اس کا حقیقی اجر وہ آخرت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ دعا کے ساتھ کثرت سے درود شریف پڑھنا دعا کی قبولیت کے امکانات کو قوی کر دیتا ہے۔ بعض علما یہ لکھتے ہیں کہ فجر کے بعد باقاعدگی سے سورہ یٰسین کی تلاوت بھی قبولیت دعا میں مددگار ہے۔ واللہ اعلم باالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

بچوں کو فقہ کی تعلیم

س :  قرآن اور فقہ کی تعلیم کے سلسلے میں اکثر ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ بعض مسائل‘ خصوصاً طہارت ‘ اور حیض و نفاس کے مسائل‘ کیا ۱۰ سے ۱۵ سال کے بچوں اور بچیوں کو پڑھانا ضروری ہیں؟ اگر ضروری ہے تو اس قسم کے مسائل کی تعلیم کے لیے کیا طریقہ مناسب ہے؟

ج :  آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم تعلیمی اور معاشرتی مسئلے سے ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تعمیر چاہتا ہے اس کی بنیاد طہارت و پاکیزگی پر ہے۔ یہ طہارت نگاہ کی بھی ہے‘ سماعت کی بھی‘ لباس و جسم کی بھی اور فکروخیال کی بھی۔ اسی لیے ابھی بچہ پائوں پائوں چلنا شروع کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین پر فرض ہو جاتا ہے کہ اسے پاک اور ناپاک اشیا میں فرق سمجھائیں‘ اور خصوصاً اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے طریقے کی تعلیم دیں جس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کس طرح جسم کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے صاف کر کے جسمانی طہارت و نظافت حاصل کی جائے۔ یہی بچہ جب بلوغ کے قریب پہنچتا ہے تو والدین کا فرض بن جاتا ہے کہ اسے جسمانی طہارت کے حوالے سے عمر کے اس مرحلے کے مسائل سے آگاہ کریں کہ کس طرح غیر ضروری بالوں کا صاف کرنا سنت ہے اور کس طرح غسل کیا جاتا ہے۔

دراصل یہ سارے معاملات اس معاشرے کے نظام تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں جس کے قیام کو ہم ۵۴ سال سے مسلسل موخر کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت یا یونیسف کی تیار کردہ معلومات کے ذریعے ہی بچوں کو ذاتی صفائی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ ان کتب کا حوالہ نہ اسلام ہوتا ہے نہ سنت رسولؐ ، بلکہ ان کا مقصد لادینی اور شیطانی معاشرے میں پیدا ہونے والے اخلاقی جرائم کے حوالے سے نوبالغوں (teen agers)کو غیر اخلاقی اعمال کے ’’محفوظ‘‘ طریق واردات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے حیا کے نظام کے دائرے میں قرآن و سنت کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے گھر اور اسکول میں بچوں اور بڑوں کو ان معاملات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اخلاق و ایمان کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی صحت مند رہ سکیں۔ (ا - ا)

 

بیوی کی کمائی میں شوہر کا حق

سوال: میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ایک ایک پیسے کا حساب لیتے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے کچھ خرچ نہیں کر سکتی‘ نہ اپنے اوپر‘ نہ اپنے بچوں پر۔قرآن پاک میں جہاں ماں باپ کے حقوق کا ذکر ہے اس کے مطابق کیا مرد اور عورت دونوں پر فرض نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ عورت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنے ماں باپ کی خدمت کر سکے یا بہ وقت ضرورت ان پر خرچ کر سکے‘ یا پھر ان کی خدمت کی غرض سے انھیں اپنے گھر میں رکھ سکے؟ میں ایک ملازمت پیشہ خاتون ہونے کے باوجود یہ سب نہیں کر سکتی اور اپنے بیمار‘ ہسپتال میں داخل باپ کی کسی قسم کی امداد نہیں کر سکتی‘ بالخصوص مالی امداد جس کی انھیں سخت ضرورت بھی ہے۔ میرے ماں باپ مجھ سے ناراض بھی ہیں‘ جب کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ہم دونوں کی تنخواہ سے ہر ماہ ایک معقول رقم بچ جاتی ہے۔ کیا والدین کی خدمت کا قرآنی حکم صرف مردوں کے لیے ہے ؟اگر عورت کمائے تو کیااس کی کمائی پر بھی سب سے پہلا حق ماں باپ کا نہیں ہے؟

میرے شوہر نمازی ہیں‘ درس قرآن میں بھی جاتے ہیں‘ اور ترجمان القرآن بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لیکن جہاںعورت کے حقوق کا ذکر آتا ہے‘ نظرانداز کر جاتے ہیں۔ اگر ان سب کا اثر میرے شوہر پر نہیں ہو رہا جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں تو آپ معاشرے کے کن مردوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب مردوں کی ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا تو عورت کو بھی اندھیرے ہی میں رہنے دیں۔ اگر وہ سب کچھ جاننے کے بعد اپنے حق میں آواز اٹھائے گی تو زبان دراز کہلائے گی۔ بارہا دینی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گی جس کا شوہر اس سے ناراض ہو‘ اور یہ بھی کہ اچھی عورت وہ ہے جو شوہر کا ہر حکم بجا لائے۔ کیا عورت شوہر کے ہر طرح کے جائز اور ناجائز مطالبات صرف اس ڈر سے مانتی چلی جائے کہ اگر وہ ناراض ہو گیا تو خدانخواستہ وہ جنت سے محروم نہ ہو جائے‘ اور ہر طرح کاظلم برداشت کرتی چلی جائے‘ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی گناہ ہے۔

مذہب کے بارے میں تفصیل سے پڑھنے اور اپنے حقوق جاننے کے بعد اور اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کو دیکھتے ہوئے میں ایک مسلسل ذہنی عذاب سے دوچار ہوں۔ کیا میںماں باپ کو ناراض رکھوں یا شوہر سے جھگڑا کر کے گناہ گار ہوں؟  میرے محدود علم کے مطابق تو میرے شوہرمیرے اور بچوں کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں

جب کہ وہ تو الٹا مجھ سے میرے پیسے بھی لے لیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی کیجیے؟

جواب: آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا تعلق ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی رجحانات سے ہے۔ ان رجحانات اور رویوں کا پایاجانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدیوں سے مسلمان چلے آنے کے باوجود ہم ابھی تک اسلام کو بحیثیت دین کامل ماننے پر آمادہ نہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح عبادت اور چند مذہبی رسومات کی ادایگی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اپنے فرائض سے سبک دوش ہوگئے۔ اسلام کو دین ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے عبادت کے ساتھ معاملات میں بھی رہنما بنایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ عبادات بھی معاملات کی ادایگی کی ایک شکل ہیں جنھیں ایک بندہ اپنے رب‘ خالق اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو مکمل عبدیت کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔ اسلام کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ کو عبادت‘ استعانت اور حاکمیت کا مستحق مانا جائے‘ اور بندوں کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھتے ہوئے عباد اللہ کے حوالے سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہیں انھیں ادا کیا جائے۔

عباد الرحمن کے حوالے سے حقوق و فرائض میں سرفہرست والدین کا ذکر آتا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵)‘ بنی اسرائیل (۱۷: ۲۳‘ ۲۴)‘ عنبکوت (۲۹: ۳-۸)‘ (البقرہ ۲:۲۱۵) اور لقمان (۳۱:۱۴‘ ۱۵) میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ والدین پر خرچ کرنا اولاد کے فرائض میں شامل ہے ۔اسی بات کو بخاری اور مسلم میں حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے یوں روایت کیا گیا ہے ’’اس زمانے میں جب قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہوئی تھی (صلح حدیبیہ)‘ میری (رضاعی) ماں میرے پاس آئی اور وہ ابھی اسلام نہیں لائی تھی بلکہ شرک کی حالت پر تھی‘ تو میںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں اسے کچھ دوں تو کیا میںاسے دے سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ تم اس کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرو‘‘۔

یہ ہدایت غیر معمولی توجہ کی مستحق ہے۔ قرآن میں والدین اور اقربا پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ تو حدیث میں یہ بتایا گیا کہ اگر خونی یا رضاعی رشتہ کسی مشرک سے بھی ہو‘ جب بھی قرآنی حکم پر عمل ہوگا۔ پھر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ محض شوہر یا مرد کے ماں باپ نہیں بلکہ عورت بھی اپنے رضاعی یا حقیقی ماں باپ پر خرچ کرنے کا شرعی حق رکھتی ہے۔

اس حدیث صحیح سے اسلام کے اصولِ تملیک کی تصدیق ہوتی ہے‘ یعنی عورت اپنی ملکیت پر تصرف کا پورا حق رکھتی ہے اور کسی کو اس سے حساب لینے یا پوچھنے کا حق نہیں کہ اس نے اپنی ملکیت کا کیا کیا۔ قبل اسلام کی جاہلی روایت کہ ایک عورت سے نکاح کے بعد عورت ہی نہیں اس کا تمام مال شوہر کی ملکیت بن گیا‘ اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک کم پڑھا لکھا مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ایک مسلمان مرد اور عورت شہادت کے ساتھ ارکان دین کو قائم کریں۔ چنانچہ نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا معروف فرائض دین ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کس مال میں سے زکوٰۃ دے کر ایمان مکمل کرے گی؟ کیا وہ شوہر کے مال پر زکوٰۃ دے گی یا جو اس نے کمایا یا کسی دوسرے ذریعے ‘ وراثت یا تجارت وغیرہ سے حاصل کیا ہے اس پر زکوٰۃ دے گی؟ جب تک عورت مال کی مالکہ نہ ہو اس پرزکوٰۃ بھی واجب نہ ہوگی‘ تو کیا زکوٰۃ کا حکم عورت کے لیے نہیں ہے!

ان اصولوں اور بنیادی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود غور کریں کہ جب اللہ کا حکم ہے کہ والدین پر خرچ کرو اور شوہر کا حکم ہو کہ اپنی کمائی میں سے بھی‘ جو کسی بھی قانون کے تحت شوہر کی ملکیت قرار نہیں دی جا سکتی‘ اپنے والدین پر خرچ نہ کرو تو کس کا حکم ماننا مسلمان پر فرض ہے۔

جہاںتک سوال شوہر کے ناراض کیے جانے کا ہے تو بلاشبہ سربراہ خاندان کی حیثیت سے وہ جس عزت‘ محبت و احترام کامستحق ہے وہ اسے لازماً ملنی چاہیے لیکن بیوی پر اس کے مطالبات کو قرآن و حدیث نے واضح کر دیا ہے ۔ہمارے معاشرے میں حتیٰ کہ تحریکی خاندانوں میں بھی ابھی تک بہت سے جاہلی تصورات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ فقہ حنفی کا معروف موقف ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی سے نہ تواچھے کھانے پکانے کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ نہ گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑوں پر استری‘ اور بدبودار موزوں کی دھلائی پراصرار کر سکتاہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں وہ صرف یہ مطالبہ کر سکتاہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو بیوی کواچھے حلیے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک آجائے (قرۃ العین)۔ وہ جب اسے بستر پر بلائے تو بیوی بلا شرعی عذر انکار نہ کرے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ انکار کرے گی تو رات سے صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لیجیے کہ اس کا اصل سبب نفسی تسکین نہیں ہے بلکہ اصل سبب پاک بازی اور عصمت کا تحفظ ہے۔ اگر ایک بیوی شوہر کی اس خواہش کو ردّ کرے گی تو ممکن ہے وہ ایک فطری خواہش کی تکمیل کسی غلط طریقے سے کرے۔ اس لیے برائی کا راستہ بند کرنے کے لیے واضح حکم دیا گیا ہے۔

حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ایک بیوی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کی استطاعت کے پیش نظر اس سے ایک خادم کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ گویا گھر کے کام جو ہم نے بیوی سے کرانے ضروری قرار دیے ہیں اگر وہ واقعی فرائض ہوتے تو خدمت گار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن تو یہاںتک کہتا ہے کہ اگر بیوی خود اپنی اولاد کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو شوہر بیوی کے اس احسان کا احساس کرتے ہوئے اسے اس ’’خدمت‘‘ پر اچھا بدلہ تحائف یا رقم کی شکل میں دے۔

متعین طور پر یوں سمجھیے کہ ایک بیوی اپنی ذاتی کمائی یا اس رقم میں سے جو شوہر بطور جیب خرچ اسے دے‘ جب جہاں اور جتنا چاہے اپنی صواب دید سے خرچ کر سکتی ہے۔ اسے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ وہ خود اس کی ملکیت ہے۔ ہاں‘ شوہر جورقم گھر کے خرچ کے لیے دے‘ اسے گھر پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔ اس میں بھی اگر کوئی رقم بچتی ہے تو باہمی مشورے سے گھر کے لیے یا بچوں کے لیے اس سے کوئی بھی چیز لی جا سکتی ہے۔ ماں باپ کی خدمت کے حوالے سے مرد اور عورت دونوں پر یکساں ذمہ داری ہے۔ شوہر اگر کسی ناجائز بات کا حکم دے اور بیوی کے انکار پر ناراض ہو تو بیوی پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا اصول ہے لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق- ہاں‘ خاندان کے معاملات خاندان کے اندر ہی محبت‘ احترام اور نرمی سے طے ہونے چاہییں۔ اس میں جھگڑے کی شکل پیدا کرنا مناسب نہ ہوگا۔

اسلامی شریعت شوہر کو بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے‘ جب کہ بیوی صاحب ِ مال ہونے کے باوجود شوہر یا بچوں پر خرچ کرنے کی مکلف نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی خواہش سے ان پر یا شوہر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی جانب سے ایک صدقہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابیہؓ نے حضور نبی کریمؐ سے صدقہ دینے کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو دو کیونکہ وہ غریب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمھارا جو مال ہے وہ خود بخود شوہر کا مال بن گیا۔ جو شوہر آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں‘ انھیں اس دنیا میں اپنی بیویوں کے مال پر نہ تو قبضہ کرنا چاہیے اور نہ اپنی بیویوں کو اپنی ملکیت کو خرچ کرنے سے روکنا چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

رمضان اور عیدین کا چاند

س : صوبہ سرحد میں ضلع چارسدہ اور مردان میں رمضان المبارک اور عیدین ملک کے تمام حصوں سے مقدم اور اختلافی منائے جاتے ہیں۔ ان اضلاع میں دو ایسے مراکز ہیں جو عرصہ دراز سے ان فیصلوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مراکز رویت ہلال کا فیصلہ کبھی رویت پر کرتے ہیںاور کبھی حساب پر۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ صحیح طرزعمل کی طرف رہنمائی فرما دیں۔

ج : پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی علماے دین پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا تقرر حکومت پاکستان کرتی ہے جو اگرچہ حکومت عادلہ کی شرائط پر پوری نہیں اترتی اور اسی وجہ سے مسلمانان پاکستان پر عادل حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا شرعاً لازم ہے۔ چونکہ یہ مسلمان حکومت ہے‘ اس لیے اس کے مقرر کردہ احکام اور قضاۃ کے فیصلے شرعاً نافذ ہوتے ہیں اور ان کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ وہ شرعی احکام و قواعد سے متصادم نہ ہوں۔

ساری دنیا کے مسلمانوںکے لیے ایام رمضان و عیدین کی وحدت ضروری نہیں ہے۔ جس طرح ان کی نمازوں کے اوقات میں فرق ہوتا ہے‘ اسی طرح ان کے ایام رمضان و عیدین میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی حدود میںرمضان و عیدین کی وحدت کے لیے شرعی و فقہی قواعد کے مطابق صحیح طریقہ یہی ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی کی جائے اور غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں رمضان و عیدین کا اعلان نہ کریں اور انفرادی طور پر کوئی عالم بھی اعلان نہ کرے۔ حکومت کی مقرر کردہ علاقائی کمیٹیوں میںسے اگر کسی کمیٹی کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادت ہو جائے‘ اور اس کمیٹی نے اس شہادت کو شرعی قواعد کے مطابق قبول کر لیاہو‘ تو وہ اپنے فیصلے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ٹیلی فون یا فیکس یا کسی دوسرے معتمد ذریعے سے مطلع کرے اور ازخود اعلان نہ کرے تاکہ مرکزی کمیٹی علاقائی کمیٹی کے فیصلے کو پورے ملک میں نافذ کرے بشرطیکہ علاقائی کمیٹی کا فیصلہ شرعی قواعد سے متصادم نہ ہو۔ جب پورے ملک کے علماے دین اور مراکز فتویٰ مرکزی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں توصوبہ سرحد کے علما کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے فیصلے کی پابندی کریں اور انفرادی فیصلے نہ کریں۔ (مولانا گوہر رحمان)

 

ذات اور برادری کی بنیاد پر رشتہ

سوال:  میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے اور ارائیں برادری سے ہے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف اپنی برادری میں ہی شادی کرنے کا رواج ہے۔ کسی دوسری برادری میں اچھے رشتے ہونے کے باوجود بھی شادی نہیں کی جاتی۔ میرے والدین کا بھی اصرار ہے کہ شادی صرف اپنی برادری میں ہی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج تک کسی غیر برادری میں رشتہ نہیں ہوا۔ کسی نے اپنی بیٹی کسی غیر ارائیں کو نہیں دی۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو تمام برادری اس کا بائیکاٹ کر دے گی۔ پھر آج تک اپنے آبا و اجداد سے ہم اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ اس بات کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟

جواب:  اسلام کے انقلابی کارناموں میں سے ایک کارنامہ عرب جاہلیت کے قبائلی‘ لسانی اور نسلی تعصبات کو چکنا چور کر کے انسانوں کو اللہ کی بندگی کے ذریعے اسلام کے رشتہ اخوت و یگانگت میں منسلک کر دینا تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم نے سورہ الحجرات میں یہ حقیقت واضح فرما دی کہ گو انسانوں کو تعارف کی خاطر مختلف قبائل اور اقوام میں پیدا کیا گیا ہے‘ لیکن اللہ کی نگاہ میں عزت و تکریم کی بنیاد صرف تقویٰ یا نیک عمل ہے (۴۹:۱۳)۔ اس حقیقت کو نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبے میں دو ٹوک الفاظ میں رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو پائوں تلے روندتے ہوئے تمام اہل ایمان کو یاد دلایا کہ وہ سب حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں۔ ہجرت ِ مدینہ کے فوراً بعد ہی آپؐ نے یہ اہتمام بھی فرمایا کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے‘ ان کے اور انصار کے درمیان رشتۂ اخوت کو باقاعدہ اعلان کے ذریعے قائم فرما دیا۔ ساتھ ہی ذات برادری کی برتری یا کم تری کے تصور کو مٹانے کے لیے خود اپنے خاندان کی رشتے کی بہن کو حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نکاح میں دے دیا جس کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔

اس اقدام کا صرف ایک مقصد تھا کہ رشتۂ ازدواج کی بنیاد تقویٰ ‘ علم‘ نیکی اور بھلائی ہو‘ اور رنگ‘ خون‘ برادری اور قبائلی تعصب کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اگر ہمارے ہاں ابھی تک ہندوانہ تصورات پائے جاتے ہیں اور ارائیں یا کسی بھی ذات کے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ شادیاں صرف ان کی ذات برادری میں ہی ہوں تو یہ اسلام کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں برادری اور ذات کی بندگی سے نجات دے اور صرف اپنی بندگی کی توفیق دے۔ اپنی ذات سے باہر شادی کرنا نہ گناہ ہے نہ بدعت‘اور نہ شریعت کی مخالفت بلکہ دین و شریعت کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

خاوند کا ناروا سلوک

س :  میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور دینی علوم کی تعلیم بھی حاصل کر چکی ہوں۔ میری تین بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں البتہ سب سے چھوٹی بیٹی کے بارے میں   ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے‘ جب کہ ہم نے تحریکی بنیادوں پر شادی کی۔

میری بیٹی نے مدینۃ الحکمت سے بی ایڈ اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی اکنامکس کی پوری تعلیم باپردہ حاصل کی لیکن شادی کے بعد بیٹی کو جو ہمارے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پر رہتی ہے‘ تنہا آنے کی اجازت نہیں۔ اگر اپنے ساتھ کہیں لے جانا چاہوں تو اس کی اجازت نہیں اس لیے کہ خاوند سے پوچھا نہیں۔ وہ میرے ساتھ بازار جا کر اپنی مرضی سے کچھ خرید نہیں سکتی۔

اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ میرے داماد نے میری بیٹی سے بات کیوں کی‘ جب کہ وہ اس کی ماموں زاد بہن ہے۔ اگر ۱۶ سال چھوٹی بہن کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا جائے تو اس پر بھی اعتراض ہے؟ کیا قریبی رشتے داروں کا کوئی حق نہیں؟

حق مہر کے بارے میں کہا گیا کہ چونکہ پہلی بہوئوں کا حق مہر ۵ ہزار روپے مقرر ہوا تھا‘ اس کا بھی یہی ہوگا۔ کیا یہ اسلامی رویہ ہے؟ اسلام نے عورت کی عزت نفس کا خیال کیا ہے اور بنیادی حقوق مقرر کیے ہیں۔ کیا اس ہندووانہ رسموں کے مارے ہوئے معاشرے میں کوئی ماں اپنی بیٹی کو حقوق کے حصول کے لیے عدالت جانے کا مشورہ دے سکتی ہے؟ اگر اتنی پرانی روایات کو سینے سے لگائے رکھنا تھا تو اُسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنے پر کیوں اصرار تھا؟ رہنمائی فرمایئے۔

ج :  آپ کی چھوٹی بیٹی کو اپنے سسرال میں جو صورت حال پیش آ رہی ہے وہ ہمارے معاشرے میں دین کی تعلیمات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی ایک واضح مثال ہے۔ فہم دین کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآن کریم اور اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کو براہ راست مطالعہ کرنے کا رواج بہت کم ہے‘ اس لیے بہت سی ایسی باتیں جن کی بنیاد قرآن و سنت پر نہیں ہے‘ رواج پا گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے والدین یا بہن بھائی سے اس کا رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس طرزعمل کو ’’قطع رحمی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو ’’صلہ رحمی‘‘ کی ضد ہے۔

ہم اپنے معاملات کے حوالے سے اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام بنیادی طور پر اخلاق‘ معروف‘ بِر‘ رضاے الٰہی اور خوفِ الٰہی کا نام ہے اور قانون محض اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔ چنانچہ اخلاق کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے والدین اور بھائی بہن کی طرح عزت و احترام و محبت سے پیش آئے۔ صلبی و نسبی رشتوں کے احترام میں کوئی فرق اسلام تسلیم نہیں کرتا۔ دین نے جو حدود شرم و حیا اور حجاب کی مقرر کر دی ہیں ان میں غلو کرنا دین کی روح کے منافی ہے۔ جہاں تک مہر کا تعلق ہے یہ ایک لڑکی کا حق ہے اور نکاح سے قبل دو خاندانوں کے باہمی اتفاق سے طے پانا چاہیے۔ اسلام نے مہر کی رقم پر کوئی پابندی نہیں رکھی ہے۔ یہ کم سے کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ لیکن دونوں شکلوں میں اس کا مقصد وہ تحفہ ہے جو دلہن کو خلوص نیت کے ساتھ استقبال کرتے وقت عملاً دیا جائے اور محض لوگوں کو دکھانے کے لیے بطور ایک اعلان نہ ہو۔ نکاح سے قبل دونوں خاندان جس رقم پر بھی چاہیں اتفاق کر لیں‘ اس پر بعد میں غور کرنا مناسب نہیں۔

سالی اور دیور دونوں کے حوالے سے احادیث سے جو ہدایت ہمیں ملتی ہے اس میں جسمانی تعلق  (body contact)کو ممنوع قرار دیا گیا ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں بہت سے خاندانوں میں اسے ایک طرح کی بے تکلفی سمجھا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں ہے۔ اگر دو تین گلی کے فاصلے پر لڑکی کی والدہ کا گھر ہو اور اس علاقے میں کسی فساد کا خطرہ نہ ہو تو ایک فرد کو اپنی بیوی کے ماں کے ہاں جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ سفر میں تنہا جانے میں جو خدشات ہو سکتے ہیں وہ پرُامن حالات میں ایک محلے کے اندر جانے میں بنیاد نہیں بن سکتے۔ لیکن ان تمام معاملات میں مسئلے کا حل قانونی حقوق کے مطالبات سے نہیں ہو سکتا۔ قرآن و حدیث سے تعلق اور تعلیم و تبادلۂ خیالات کے ذریعے ہی اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ (ا-ا)

طلاق مکرہ کا مسئلہ

محترم جناب ڈاکٹر انیس احمد نے جوجواب دیا ہے (ستمبر ۲۰۰۱ء) اس کا سوال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ ’’لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوںکی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں‘ تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کوکالج سے اغوا کر لیا‘‘۔ سوال کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گھرانوں کے افراد کی موجودگی میں لڑکے نے تین طلاقیں بغیر ’’اکراہ و اجبار‘‘ کے دی تھیں لیکن اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’اگر لڑکے نے دبائو اور خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں‘‘۔

طلاق مکرہ کا مسئلہ اختلافی ہے۔ ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا محدثین کی رائے یہ ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور اس کا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اور نکاح برقرار نہیں رہتا۔ دونوں آرا کے دلائل فقہ اور شروح احادیث کی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ مجھے اس مسئلے میں ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا کی رائے قوی اور صائب نظر آتی ہے۔ لیکن زیرغور سوال تو طلاق مکرہ سے متعلق نہیں ہے۔ اگرچہ مطلق دبائو‘ دھمکی اور ڈرانے کو شرعاً اکراہ نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں پر تو دبانے‘ ڈرانے اور دھمکی دینے کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ صرف مفروضے کے طور پر بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کو طلاق مکرہ قرار دینا تو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس بارے میں جب کسی نے سوال کیا تو اکتوبر کے شمارے میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے‘‘۔

نصوص و اصول کی تعبیر یا انطباق میں اجتہاد و فقاہت کی صلاحیت رکھنے والوں کے درمیان آرا کا اختلاف تو ہو سکتا ہے اور فقیہ و راسخ العلم شخص کو حق حاصل ہے کہ ان آرا میں سے کسی رائے کو اختیار کر لے‘ لیکن بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں آرا کا اختلاف نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔

(۲) تین طلاقیں جب ایک مجلس میں دی گئی ہوں تو ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں البتہ بعض فقہا کے نزدیک مجلس واحدہ میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور عدت کے دوران رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اگر محترم ڈاکٹر صاحب ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کو نظرانداز کر کے بعض اہل علم کی شاذ رائے کو پسند کرتے ہیں تو ضرور کریں لیکن انھوں نے تو مطلقاً عدم وقوع کا ذکر کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ دبائو اور خوف کی وجہ سے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی حالانکہ سوال میں دبائو کا ذکر نہیں کیا گیا۔  (مولانا گوہر رحمان)

صبروتحمل کی حدود

سوال:  میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے عجیب ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوں۔ میری ذاتی‘ سماجی‘ ازدواجی زندگی بے رونق اور بے روح ہو گئی ہے۔ شادی کو ۱۵ سال ہو گئے ہیں۔ چار بچے ہیں جن کی تعلیم و تربیت بہتر انداز سے کرنے کی دونوں نے کوشش کی۔ شادی سے پہلے میری بیوی ایک مستحکم ادارے میں کام کرتی تھی۔ انھوں نے دوبارہ بیوی کو اِسی شہر میں منتقل ہونے پر ملازمت کی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی اور میں نے بھی اس میں کوئی حرج نہ سمجھا۔

نئے حالات نے مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپنی اہلیہ کے اپنے ادارے کے ساتھی مردوں سے ہنسی مذاق‘ گپ شپ‘ورکنگ ڈے کے علاوہ بھی ملاقاتیں‘ گھومنا پھرنا‘ ہاتھ ملانا‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھ جانا‘ تحفے تحائف کا تبادلہ‘ اپنی حد تک ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ جب بھی کوشش کرتا ہوں کہ وہ آیندہ کے لیے توبہ کر لے‘ ندامت و معذرت کا اظہار کر دے‘ اس بات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اب تک پیار سے‘ ناراضی سے‘ بزرگوں کے ذریعے سے بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر ہٹ دھرمی اور ضد میں کمی نہیں آتی۔ دوسری طرف گھر اور بچوں کے تمام فرائض بخوبی ادا کر رہی ہے اور اس کا یہی کہنا ہے کہ جب تمھاری اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہوں تو تمھیں کیا تکلیف ہے؟

کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیںکہ میں کس روحانی کرب سے گزر رہا ہوں؟ مجھے بتایئے کہ تقریباً دوسال اس اذیت میں گزارنے کے بعد کیا باقی ساری زندگی اسی کرب میں گزار دوں؟ طلاق دے دوں؟ پھر خیال آتا ہے کہ بچوں کا کیا ہوگا؟ شہر بدلوں تو مشکل سے کچھ کاروبار سیٹ کیا ہے‘ اُس کا کیا ہوگا؟ ملازمت تو پہلے ہی بیوی کے اصرار پہ چھوڑ چکا ہوں۔ نئی ملازمت آج کے دور میں کہاں سے ملے گی؟ دوسری شادی کے مسائل سے نبٹنا بھی ایک مسئلہ عظیم ہے۔ میں ان حالات میں کیا فیصلہ کروں؟

جواب:  آپ نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہمارے معاشرے کے مستقبل کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی خاتون کا ضرورت کے پیش نظر ملازمت کرنا بجائے خود جائز ہے لیکن اس کا ایسے ماحول میں کام کرنا جس میں اس کے دین‘ اس کی ساکھ اور عزت اور خاندان کے سکون و راحت کو خطرہ ہو‘ کسی بھی شرعی دلیل کی بنا پر جائز نہیں ہو سکتا۔ اسلامی خاندان میں بیوی کی ذمہ داری محض بچوں کے کھانے‘ کپڑے اور شوہر کی بعض مادی ضروریات پورا کر دینے سے پوری نہیں ہو جاتی‘ وہ شوہر کے ساتھ مساوی طور پر خاندان کے سکون‘ یک جہتی اور اسلامی ماحول کے قیام کی ذمہ دار ہے۔ حدیث شریف میں جہاں شوہر کی مسئولیت کا ذکر ہے وہاں یہ بات دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی مجموعی اور کلی ہے‘ جزوی اور کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔

دوسری بات جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی خاندان میں رشتۂ نکاح کے بعد جو اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اس میں نہ تو شوہر کے وہ ’’ذاتی‘‘ حقوق باقی رہتے ہیں جو ایک غیر شادی شدہ مرد کے تصور کیے جاتے ہیں‘ اور نہ بیوی محض ایک ’’فرد‘‘ رہتی ہے۔ عقد نکاح دونوں کو ایک رشتۂ حقوق و فرائض میں جوڑ دیتا ہے اور اب وہ ایک خاندان بن جاتے ہیں جس کی دو اکائیاں تو ہیں لیکن ان کے الگ الگ وجود اجتماعیت میں تحلیل ہو جاتے ہیں‘ اور وہ جسم اور لباس کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

جسم سے لباس کو الگ کر دیں تو وہ محض عریانیت بن جاتا ہے‘ اور لباس کو جسم سے جدا کر دیا جائے تو چند گز کپڑے کا ٹکڑا۔ گویا خاندان خود اپنی شخصیت رکھتا ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں کی شمولیت ہی سے یہ مشترکہ شخصیت بنتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی لادینی تہذیب میں سالہا سال رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے باوجود انفرادیت کے خدا کی پرستش کے نتیجے میں بیوی اور شوہر اپنے اپنے مشاغل‘ ترجیحات و تعلقات رکھنے کو اپنا ’’ذاتی‘‘ حق سمجھتے ہیں ‘ اور ایسا نہ ہو تو اسے ذاتی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ اسلام کا تصور خاندان اس کو ردّ کرتا ہے ‘ اور ’’اسرہ‘‘ یا خاندان کی شخصیت‘ مفاد اور واجبات کو فرد کی ذات پر ترجیح دیتا ہے۔

اگر ایک شخص اپنی اولاد کو نیکی کا حکم نہیں دیتا‘ یا ایک بیوی شوہر کو معروف کی پیروی پر متوجہ نہیں کرتی تو دونوں احتساب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ دین اسلام اپنی تعریف خود صاحب قرآن کے مبارک الفاظ میں یوں کرتا ہے کہ وہ نصیحت و خیرخواہی کا نام ہے (الدین نصیحۃ)۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی‘ ماں یا باپ سے یہ کہے کہ اگر میں نے نماز نہیں پڑھی تو یہ میرا ذاتی معاملہ ہے‘ یا اگر وہ کسی دوست کے ساتھ وقت گزاری (dating)کرے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ دین تو نام ہی اُس خلوص کے تعلق کا ہے جس میں شوہر‘ بیوی اور بچے ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور خاندان میں صرف اللہ اور رسولؐ کے احکام کو چلنے دیں۔ غیر اسلامی رسوم و رواج اور طریقوں کو خصوصاً غیر محرموں کے ساتھ بے تکلفی اختیار کرنے کو ترک کرانا ‘پورے خاندان پر فرض ہے۔

جہاں تک آپ کے آخری تین سوالوں کا تعلق ہے ‘ طلاق شریعت میں جائز کاموں میں سخت ناپسندیدہ فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرتا ہے۔ سکونت تبدیل کرنا‘ یا حکمت و محبت سے اہلیہ کو سمجھانا آپ کا فریضہ ہے اور محبت کا تقاضا ہے۔ جس طرح آپ اپنی اہلیہ سے اس دنیا میں محبت کرتے ہیں وہ بھی لازمًا یہ چاہیں گی کہ نہ صرف یہاں بلکہ اخروی زندگی میں بھی وہ آپ کے ساتھ رہیں۔ اگر ان کا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہو اور اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود وہ غیر محرموں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دیگر سوشل تقریبات میں مصروف رہنا چاہتی ہیں تو یہ فعل اسلامی اخلاق اور اسلامی خاندانی نظام دونوں کے منافی ہے اور اخروی زندگی میں سخت احتساب کا باعث ہے۔ یہ احتساب شوہر اور بیوی دونوں کا ہے۔ شوہر کا بیوی کو اسلام کی خلاف ورزی پر متوجہ نہ کرنا اس کی گرفت کا باعث ہے‘ اور بیوی کا شوہر کے متوجہ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرنا یکساں احتساب کا باعث ہے۔

ہاں‘ اگر تمام محبت‘ حکمت‘ نصیحت اور اصلاح کی کوششوں کے باوجود‘ ترک مکانی اور شہر چھوڑنے کے باوجود بھی کوئی اصلاح نہیں ہوتی تو آخری شکل میں طلاق پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس آخری فیصلے میں آپ کو اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سنجیدگی اور ٹھنڈے دل سے باہمی سوچ کے بعدکوئی فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ آپ کے بچے بھی اس معاملے کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہوں اور فیصلے میں برابر شریک ہوں‘ اور آپ کی اہلیہ کو بھی یہ احساس ہو کہ ان کی نام نہاد ’’انفرادیت‘‘ نہ صرف اسلامی تصور خاندان بلکہ خود ان کے ذاتی مفاد کے بھی منافی ہے اور قرآن و سنت کی واضح خلاف ورزی ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے خاندان کے اتحاد کو باقی رکھے اور بغیر اس آخری حل کے آپ دونوں باہمی اعتماد کو بحال کر کے اسلامی اصولوں پر مبنی خاندان بن سکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

چند متفرق معاشرتی مسائل

س :  میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے رسائل و مسائل کے چار حصوں کو پڑھ چکی ہوں۔آپ سے چند سوالات ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے مجھے اسلام کے نقطۂ نظر سے کیا کرنا چاہیے؟ میری چھوٹی بہن اسلامی جمعیت طالبات سے تعلق رکھتی ہے ‘ جب کہ میرے ذاتی خیال میں کسی جماعت میں شمولیت کے بغیر بھی اسلام کے راستے پر چلا جا سکتا ہے۔ کیا ہر لڑکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی جماعت میں ضرور شامل ہو‘ یا پھر وہ ذاتی یا انفرادی سطح پر خود کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لے۔ ایک لڑکی کے لیے تبلیغی کاموں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟ کیا عورت کو اجازت ہے کہ وہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر تبلیغ کے لیے گھر سے باہر نکلے؟ کیا جس طرح قرآن پاک کی رُو سے مرد پر دین کی اشاعت کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح ہم پر بھی ذمہ داریاں ہیں؟ اگر ہیں تو ان کی حدود کیا ہیں؟

۲- پرائیویٹ اسکول کے اندر ہم جو فیس وصول کرتے ہیں کیا وہ جائز ہے؟

۳- بچپن ہی سے میری منگنی میرے ماموں زاد بھائی سے طے کردی گئی تھی۔ پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ رشتہ میرے گھروالوں کی طرف سے توڑ دیا گیا لیکن اب پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ دوبارہ اس رشتے کو بحال کر دیا گیا ہے۔ جس کزن سے میری نسبت طے ہے وہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہے۔میں کسی اور شخص کو بھی پسند نہیں کرتی۔ میری امی کی شدید خواہش تھی کہ یہ رشتہ قائم رہے۔میں نے حامی بھر لی ہے لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ میرے ماموں نے ملازمت کے دوران رشوت کے ذریعے بہت سی دولت اکٹھی کر لی ہے۔ آج بھی ان کا روپیہ بنک میں جمع ہے جس سے سود لے کر وہ گھر چلاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر میری شادی وہاں ہو جاتی ہے تو لامحالہ مجھے بھی وہی پیسے استعمال کرنا پڑیں گے۔ کیا وہ رقم میرے لیے حلال ہو جائے گی؟

۴- آج سے پہلے ہر شادی اور اسکول‘ کالج کے فنکشن میں‘ میں نے بہت سی تصاویر بنوائی ہوئی ہیں۔ تب بھی میں یہ بات جانتی تھی کہ اسلام میں تصویر بنوانا حرام ہے۔ لیکن میری ذہنی سوچ یہ تھی کہ ہم کون سی عبادت یا پوجا کے لیے تصاویر بنوا رہے ہیں۔ یہ تو صرف یادگار لمحے ہوتے ہیں جنھیں ہم محفوظ کرتے ہیں۔ میں آیندہ کے لیے تو اس چیز سے تائب ہوچکی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے کی جو تصاویر میرے پاس ہیں کیا انھیں میں اپنے پاس رکھ سکتی ہوں یا ان کو تلف کر دینا چاہیے؟

۵- آپ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اپنی زینت کی جگہوں کو ظاہر نہ کیا جائے۔ اس حد تک تو میں پردہ کرتی ہوں لیکن نقاب نہیں لیتی یا چہرے کا پردہ نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی تفصیل سے فرمائیں۔

ج:  یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نے محترم مولانا مودودیؒ کے رسائل و مسائلکی چاروں جلدیں مطالعہ کر لی ہیں۔ ہمارے دینی ادب میں رسائل و مسائل نے ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے محض فقہی طور پر حلال و حرام کا حکم لگانے کے بجائے ایک مسئلے کا پس منظر‘ اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے مضمرات تک پہنچنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ آپ کے سوالات متنوع ہیں‘ اختصار کے ساتھ اسی ترتیب سے جواب تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے اسلام کے نقطۂ نظر سے آپ کو ہر وہ کام کرنا چاہیے جس کا حکم  قرآن و سنت دیتے ہیں‘ یعنی حصول علم ‘ تطبیق علم ‘ نشروابلاغ علم اور اس سب کے نتیجے میں خود اپنی زندگی میں وہ تبدیلی لانا جو اسلام کا مطلوب ہے۔ آپ ایم اے اور بی ایڈ کے بعد بھی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ اسلام نے اس سے کبھی منع نہیں کیا ہے۔ اسلام کا جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اس امانت کو دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان لڑکی پر ویسے ہی فرض ہے جیسے ہر مسلمان لڑکے پر۔ اس لیے اگر آپ کی چھوٹی بہن نے طالبات کی کسی اچھی تنظیم میںجو اسلامی نظام کے قیام کی داعی ہے شمولیت اختیار کر لی ہے تو آپ کو بھی اپنے آپ کو کسی ایسی جماعت سے وابستہ کرنا چاہیے جو قرآن و سنت کی روشنی میں دعوت و اصلاح کا کام کر رہی ہو۔ حضور نبی کریمؐ نے اس شخص کی موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا ہے جو جماعت کو چھوڑ کر محض ایک فرد بن جائے ۔اس لیے آپ جس کسی جماعت کے طریق کار‘ اخلاص ‘ اور دین کے تصور سے مطمئن ہوں اسے اختیار کرلیں اور اس کے ساتھ توسیع دعوت میں شریک ہوں۔ ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر‘ اپنے سسرال اور رشتے داروں غرض جن جن سے اس کا رابطہ ہو‘ سب کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلامی تعلیمات سے متعارف کراسکتی ہے۔ ہاں‘ اگر ماں باپ آپ کے کسی دعوتی اور تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے پر معترض ہوں تو آپ انھیں سمجھائیں اور ممکن ہو تو اپنی والدہ صاحبہ کو کسی ایسے اجتماع میں لے جا کر شرکت کرائیں تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں کہ جو کام آپ کرنا چاہتی ہیں‘ درست ہے۔ اگر گھریلو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہوں کہ چند لمحات کا وقت بھی نہ دیتی ہوں تو اس مجبوری کی بنا پر تو ممکن ہے کہ ایک خاتون کا احتساب نہ ہو ‘ ورنہ وقت‘ دولت‘ صحت‘ علم اور صلاحیت ہونے کے باوجود اگر انھیں اللہ کی راہ میں استعمال نہ کیا جائے تو پھر احتساب سے بچنا بہت مشکل ہے۔

۲- اسکول کی فیس کا تعلق تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی سے ہے۔ اگر فیس نہیں لی جائے تو اسکول کی انتظامیہ‘ معلمین اور معلمات کی تنخواہیں‘ کلاس روم میں طلبہ و طالبات کی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کا ذریعہ کیا ہوگا؟ ہاں‘ فیس میں توازن اور مستحق طلبہ و طالبات کے لیے وظیفے کا ہونا ضروری ہے۔ یہ شکل نہ ہو کہ اسکول محض معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

۳- اپنے ماموں زاد بھائی سے آپ کے رشتے کے حوالے سے اگر آپ کی اپنی کوئی ذاتی پسند نہیں ہے‘ جیسا کہ خط سے ظاہر ہے‘ تو والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا مناسب ہے۔ آپ اپنے ماموں کے ماضی کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔ آپ کے ہونے والے شوہر اگر جائز اور حلال طریقے سے روزی حاصل کر رہے ہیں تو آپ کو مطمئن رہنا چاہیے۔

۴- اگر بعض تصاویر آپ نے محض دستاویز یا یادداشت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں اور ان کے ساتھ کسی احترام اور عقیدت کا تعلق نہیں ہے جس کی بنا پر تصویر سے منع کیا گیا ہے‘ تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہاں‘ ان کی نمایش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وہ کسی البم میں لگی ہیں اور نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں تو اس سے عبادت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر وہ غیر ضروری ہوں تو تلف کر دیں۔

۵- بلاشبہ چہرے پر نقاب کا استعمال افضل ہے لیکن اگر کسی بنا پر یہ ممکن نہ ہو تو چہرے اور ہاتھ کو چھوڑ کر بقیہ تمام جسم کو مکمل طور پر چھپانا فرض ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہوگی۔  (ا - ا)

’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ --- ایک وضاحت

س :  ’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبردستی کی طلاق کے مفروضے پر کہانی مرتب کر کے جواب دیا گیا ہے‘ جب کہ طلاق مرضی سے دی گئی۔ اب دوبارہ ساتھ رہنا تو زنا کی تعریف میں آتا ہے۔ آپ صلح اور صلۂ رحمی کی بات کر رہے ہیں!

ج :  فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ البتہ جواب دینے والے کو کوشش کرنی چاہیے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایک معاملے کے مختلف پہلوئوں پر غور اور تحقیق کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے۔ جو رائے دی گئی‘ اس میں کوئی ’’کہانی‘‘ مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘ گو آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ (ا - ا)

 

کچھ صلہ رحمی کے بارے میں

سوال:  ہمارے گھرانے کی ایک طالبہ نے والدین سے خفیہ کورٹ میرج کر لی۔ بعد میں جب شادی کی تصدیق ہو گئی تو لڑکی نے اپنے اس اقدام پر شرمندگی کا اظہار کیا اور والدین سے معافی مانگی اور والدین سے کہا کہ لڑکے کوگھر بلوا کر مجھے طلاق دلوا دیں۔ لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوں کی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کو کالج سے اغواکرلیا۔لڑکی کے والدین نے مقدمہ کر دیا۔ جج کی موجودگی میں لڑکی نے اقرار کیا کہ میں نے اپنی مرضی سے یہ اقدام کیا ہے۔ میں والدین کے گھر اس وقت تک نہیں جائوں گی جب تک میری شادی اس لڑکے کے ساتھ نہ ہو جائے۔ جج نے لڑکی کو لڑکے کے حوالے کر دیا اور نکاح یا طلاق کا فیصلہ نہ دیا اور دوبارہ نکاح بھی نہ ہوا۔ اب اس لڑکی کا ایک بیٹا ہے۔ اس مسئلے پر علما کی طرف سے مختلف فتوے ملے ہیں:

۱- کیا لڑکی اور لڑکے کا نکاح قائم ہے‘ جب کہ لڑکے کے طلاق دینے کے بعد دوبارہ نکاح نہیں ہوا‘ اور طلاق کے سات دن بعد اس نے لڑکی کو اغوا کر لیا تھا؟

۲- لڑکی کے باپ نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ اگر تم بیٹی سے ملی ‘ یا خط و کتابت کی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا۔ بیٹی ماں کی طرف کبھی کبھار فون بھی کرتی ہے اور ملنے کے لیے بھی آجاتی ہے۔ کیا اس صورت میں لڑکی کی والدہ خاوند کی نافرمانی کی مرتکب ہو رہی ہے؟

۳- دونوں برادریوں میں مکمل قطع تعلق ہے اور کئی مرتبہ بات خون خرابے تک پہنچی مگر ٹل گئی۔ اب لڑکے والے صلح کرنے کے لیے بہت دبائو ڈال رہے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ وہ یہ پیش کش بھی کر چکے ہیں کہ ان کے خاندان کی لڑکی وہ کسی بھی لڑکے سے بیاہ لیں مگر لڑکی کے خاندان والے راضی نہیں ہوئے‘ جب کہ خاندان کے کچھ افراد اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ کیا یہ قطع تعلق جائز ہے؟

جواب:  آپ نے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مسائل کا پیدا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم قرآن و سنت سے کتنی کم واقفیت رکھتے ہیں۔ ایک بالغ اور پڑھی لکھی لڑکی کا اپنے والدین سے چھپ کر کورٹ کے ذریعے نکاح کرنا اس بات کی علامت ہے کہ جس گھر میں اس نے پرورش پائی انھوں نے یا تو اسے محض ڈرا دھمکا کر رکھا حتیٰ کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہوئی‘ یا اتنی آزادی اور غیر ذمہ داری سے اس کی پرورش کی کہ اس نے والدین کو شامل کیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ دونوں صورتوں میں جہاں ایک طرف لڑکی غلطی کی مرتکب ہوئی اور بغیر ولی کی مرضی کے نکاح کر بیٹھی وہاں دوسری طرف والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیوں نہیں کیا‘ اور اگر وہ کسی ذہنی اُلجھن کا شکار تھی تو اس پر سنجیدگی سے اس کے ساتھ تبادلۂ خیال کیوں نہیں کیا۔

آپ نے خط میں جو تفصیلات تحریر کی ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں خصوصاً ایسے گھرانوں میں جو خود تحریک اسلامی سے وابستہ ہوں۔ اس قسم کے مسائل کا کھڑا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم و تربیت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کو اولین مقام دینا ہوگا ورنہ گھر اور معاشرے کو تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ سوالات جس ترتیب سے آپ نے تحریر کیے ہیں اسی ترتیب سے جوابات عرض کیے جا رہے ہیں۔

۱- اگر لڑکے نے دبائو یا خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ دوبارہ نکاح صرف اس شکل میں ہوگا جب دو مرتبہ طلاق دی گئی ہو اور پھر رجوع کیا گیا ہو۔

۲-  لڑکی کے والد اپنی اہلیہ کو کسی غیر شرعی کام کا حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ قطع رحم غیر شرعی ہے‘ صلہ رحمی شریعت کا تقاضا ہے۔ ایک ماں اور بیٹی کا تعلق رحم کا ہے‘ اسے قطع کرنے پر مجبور کرنا غیر شرعی مطالبہ ہے جس پر عمل کرنے کے لیے والدہ مکلف نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ ’’دے دوں گا‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’طلاق واقع ہو جائے گی‘‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اول الذکر مبہم ہے ‘ جب کہ ثانی الذکرقطعی واضح ہے۔ آپ نے جو معلومات تحریر کی ہیں ان میں ابہام ہے۔ اس لیے اگر والدہ نے لڑکی سے فون پر بات کی یا لڑکی ان سے ملنے گھر چلی آئی اور اس نے بات کی تو ابہام کی وجہ سے والدہ کو طلاق نہیں ہوگی۔ اگر والدہ والد کی غیر شرعی خواہش کی پیروی کرے گی تو گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی مرتکب ہوگی۔ اس کے مقابلے میںشوہر کی ناجائز بات نہ ماننا جرم شمار نہیں ہوگا۔

۳- اب‘ جب کہ لڑکی صاحب اولاد بھی ہے‘ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں خاندانوں میں صلح ہو اور لڑکے کے خاندان والے لڑکی کے والد سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہ انھیں لڑکی کو کالج سے زبردستی نہیں اٹھانا چاہیے تھا‘ دل کو صاف کریں۔ لڑکی کے والد کو بھی چاہیے کہ ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئے انھیں معاف کر دیں ‘ اور دونوں خاندانوں میں غیر مشروط طور پر اخوت و بھائی چارے کی فضا پیدا کریں‘ نیز دونوں جانب کے ذمہ دار افراد کسی نفلی عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ اسی طرح لڑکی اور لڑکا بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نفلی روزے اور صدقے کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ لڑکی کے والدین کو جو تکلیف پہنچی ہے صدق دل سے ان سے معافی مانگتے ہوئے آیندہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرنے کا عہد کریں۔

۴- قطع تعلق کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اس لیے نفس کا شیطان اس پر جتنا بھی اُبھارے ہمیشہ تعلقات کو جوڑنے اور قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم نے حضرت سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جو ہدایت کی ہے وہ ہر اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک صحابی کی‘ جو ان کے عزیز بھی ہوتے تھے‘ کفالت کرتے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی صاحب زادی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے والوں میں وہ بھی شامل تھے تو انھوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا تو آپؐ نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو رشتے دار آپ سے اچھی طرح پیش آتا ہے اگر اس سے آپ اچھی طرح پیش آئے تو کون سا کمال کیا۔ ہاں‘ جو آپ کو تکلیف پہنچائے اور آپ اس پر لطف و محبت کریں توتب آپ صحیح معنوں میں صلہ رحمی اور اقربا کے ساتھ محبت کا مطلب سمجھے۔ اس لیے اس سخت حادثے کے باوجود قطع تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور صبروحکمت کے ساتھ اس اُلجھن سے نکلنے اور آیندہ اتفاق و محبت اور نیکی کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

فرقوں کی حیثیت

س :  براہ مہربانی ایک نومسلم کے اس سوال کا جواب دیجیے جو مجھ سے کیا گیا:

مسلمانوں میں فرقے کیوں ہیں‘ مالکی‘ حنفی‘ شافعی وغیرہ اوراسی طرح شیعہ سنی؟ کیا اسلام کئی طرح کا ہے؟ اگر ایک جیسا ہے‘ تو یہ فرقے کب‘ کیسے اور کیوں بنے؟ کیا یہ زمانہ اوّل اسلام میں بنے یا بعد میں؟ کیا یہ جائز ہیں؟ ان میں صحیح راستے پر کون ہے؟

ج:  اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اسلام دشمنوں نے اسلام کو مٹانے‘ اس میں تحریف کرنے اور اسلام کے نام پر ایک اُمت کے مقابلے میں اُمتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں‘ جیسے قادیانی وغیرہ لیکن ناکام ہوئے۔ اُمت مسلمہ کو دھوکا نہ دیا جاسکا اس لیے کہ قرآن و سنت میں مومن و کافر کے درمیان فرق پوری طرح واضح ہے۔ الحمدللہ! اس وقت اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عظیم الشان اُمت مسلمہ بھی اسی اسلام پر قائم ہے جو قرآن   و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں ثابت ہے۔

دنیا کے مختلف مذاہب میں سے ہر مذہب بہت سے فرقوںمیں بٹا ہوا ہے۔ ان کے پاس ان کا اصل دین اور اصل کتابیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ براے نام اپنے مذہب سے وابستہ ہیں اور باہم متصادم ہیں۔ چند باطل عقائد اور بے جان مذہبی رسوم کے علاوہ ان کے پاس نظام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام عقیدے‘ عبادت‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ تمدن‘ اور نظام زندگی کی حیثیت سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں مختلف ناموں سے جو مسلک اور گروہ ہیں ان کا آپس میں اختلاف براے نام ہے اور چند عقائد و عبادات کی تعبیر اور طریقوں میں اختلاف تک محدود ہے۔ وہ بھی ایسا نہیں ہے کہ انھیں باہم متصادم کر دے۔ ان کے درمیان نظام زندگی کے سلسلے میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنبلی مسالک کا اختلاف علمی اور فروعی ہے۔ یہ چاروں اُمت مسلمہ کے مجتہدین اور رہنما ہیں اور تمام کے تمام سب مسالک والوں کے نزدیک محترم ہیں۔ ان کے اختلافات حق و باطل کے اختلافات نہیں ہیں بلکہ اولیٰ یا غیراولیٰ اور راجح اور مرجوح کے اختلافات ہیں۔ یہ اجتہاد اور فہم دین کا اختلاف ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اختلافات رونما ہوئے اور آپؐ نے ان کو جائز قرار دیا۔

تفسیر‘ حدیث اور فقہ میں ان اختلافات کو علمی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ تمام فقہا کی آرا اور ان کے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے اور کسی کے خلاف طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے بڑے طبقے دو ہیں: ۱- سنی‘ ۲- شیعہ۔

سنیوں میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث تین گروہ ہیں جو قرآن و سنت اور شریعت کے نفاذ پر متفق ہیں۔ ان میں نظام کی تفصیلات کے بارے میں بنیادی اور اصولی اختلاف نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک اس کی فقہی آرا دوسروں پر لازم نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے‘ جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ اس آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ نبیؐ کی رسالت و نبوت‘ مسلم کی تعریف‘ مسئلہ ختم نبوتؐ، اسلامی نظام کانفاذ‘ شریعت کے معیار پر پورا اترنے والی اسلامی حکومت کا قیام شامل ہیں‘ اور ان مسائل میں شیعہ مکتب فکر اہل سنت والجماعتہ کے ساتھ متفق ہے۔ شیعہ حضرات کا اہل سنت والجماعت کے ساتھ بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ پر اتفاق ہے۔ ۳۱ علما کے ۲۲ نکات‘ ملّی یک جہتی کونسل کا ۱۷ نکاتی ضابطہ ء اخلاق وغیرہ پر سب متفق ہیں۔ سابقہ دَور حکومت میں حکومت پاکستان کی قائم کردہ اتحاد بین المسلمین کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر سب کا اتفاق ہے۔ اختلاف کا تعلق صرف شخصی معاملات سے ہے‘ اجتماعی نظام پر سب متفق ہیں۔

آپ اپنے دوست کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ دنیا میں پھیلی ہوئی اُمت مسلمہ اور اس کے مختلف حصے چند مسائل میں اختلاف کے باوجود نظام زندگی کے معاملے میں پوری طرح متحد ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر موجود ہیں اور ان کی سفارشات متفقہ ہیں۔ اس لیے آپ چند مسائل میں عارضی اختلافات کو حقیقی اور بنیادی اختلافات نہ سمجھیں۔ اُمت مسلمہ کے مسالک میں اختلافات کی نوعیت معمولی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی فقہی آرا کو باطل قرار نہیں دیتا بلکہ اپنی فقہی آرا کو راجح اور دوسرے کی فقہی آرا کو مرجوع قرار دیتے ہیں۔ سب کی بنیاد قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت ہے۔ اُمت مسلمہ اس وقت بھی اسی طرح واضح راستے پر ہے جس طرح اس وقت تھی ‘جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے واضح راستے پر چھوڑ گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:  ترکتم علٰی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا، میں تمھیں واضح راستے پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اس کے دن کی طرح ہے۔ آج اگر کوئی باطل گروہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالنا چاہے تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا میں علما موجود ہیں جو قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور حق و باطل میں پوری طرح تمیز کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ چند سطریں آپ کے دوست کے استفسار کا کافی جواب ہوں گی۔ (مولانا عبدالمالک)

والدین کی جانب سے تحریکی کام کی مخالفت

سوال :  میں ایم بی بی ایس سال آخر کا طالب علم ہوں۔ ۴ سال سے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوں اور آیندہ بھی تحریک اسلامی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ میری والدہ نماز کی پابند ہیں۔ روزانہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں لیکن میری ان سرگرمیوں کی سخت مخالف ہیں اور شدت سے منع کرتی ہیں۔ دین میں والدہ کی اطاعت کی اتنی زیادہ تاکید ہے۔ میں سخت پریشانی میں ہوں‘ کیا کروں؟ (سوال میں تفصیل ہے‘ یہاں اختصار کر دیا گیا ہے)۔

جواب :  والدہ صاحبہ اور دیگر اہل خانہ کی طرف سے تحریکی سرگرمیوں اوراسلام کا مطالعہ کرنے پر برہمی اور مخالفت کے بارے میںآپ نے جو تفصیل خط میں لکھی ہے اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ ہدایت اور رہنمائی فی الواقع اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس لیے والدہ صاحبہ کی مزاحمت کے باوجود الحمدللہ آپ پرُعزم طور پر تحریک سے وابستہ ہیں اور اسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے پر شعوری طور پر قائم ہیں۔ یہ بڑے نصیب اور حوصلے کی بات ہے۔ اس پر آپ جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی بھلائی‘ اچھائی اور فلاح کے بارے میں مخلص ہونے کے باوجود انسان ہونے کے سبب غلطی کر سکتے ہیں اور بعض معاشرتی رجحانات اور جاہلی خاندانی روایات کی بنا پر اولاد سے اپنے اخلاص و محبت کے باوجود غیر عقلی اور غیر اسلامی رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیشہ ان کے لیے دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ انھیں حق کو پہچاننے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے اور وہ روایتی اور رسمی اسلام سے نکل کر حقیقی اور قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی برکتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔

آپ کے خط میں آخر میں جو بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا سامنا دَور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ہر طالب علم کرتا رہا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ جب حضرت ابراہیم  ؑ ‘ حضرت موسٰی ؑ اور دیگر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنے اہل خانہ اور اہل قریہ کو دعوت حق دی تو جواب یہی تو تھا،’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اگر ہم نے تمھاری بات مان لی تو خاندان اور قبیلے والوں کے سامنے ناک کٹ جائے گی۔ دین و ملک خطرے میں پڑ جائے گا‘‘۔ لیکن انبیاے کرام نے اپنے والدین کی اور اہل خانہ کی مخالفت کے باوجود دین حق کو متاع حیات بنایا اور اس کے باوجود آذر جیسے باپ کے لیے محض اس بناپر ربّ کریم سے دعا کی کہ باپ سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا۔

آپ کو علم ہے حضرت ابوہریرہؓ جب اپنے خاندان کی روایات کے خلاف دین حق قبول کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کسی سفاک اور ظالم فرعون نے نہیں‘ ان کی اپنی والدہ نے ان کے جسم سے کپڑے تک اُتروا لیے اور وہ ایک مانگے کی چادر سے اپنے جسم کو چھپاتے‘ پرُعزم اور باہمت طور پر دعوت حق سے بال برابر پیچھے نہ ہٹے!

قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل اور دیگر مقامات پر والدین کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے‘ یعنی اگر والدین اللہ کی اطاعت کی راہ میں حائل ہوں اور اللہ کے ساتھ شرک کا حکم دیں تو ان کی اطاعت معصیت اور ان کی نافرمانی دینی فریضہ ہوگی۔ اسلام کا اصول ہے‘ ’’خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔

صبح کی خواب آور فضا میں جب مؤذن مسجد کی طرف بلاتا ہے تو ابلیس اور اس کی ذریت اللہ کی بندگی کی جگہ نفس کی بندگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اگر ابلیس کی بات مان لی جائے تو گویا چند لمحات کے لیے ایک شخص نفس کو اللہ کی حاکمیت میں شریک کر لیتا ہے‘ اور یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ جب خاندانی رسوم و رواج اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہوں اور ایک شخص بزرگوں کے کہنے پر ان رسوم و رواج کی پیروی کرے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کہ اس نے بندئہ ربّ ہوتے ہوئے رسوم و رواج کو اپنا خدا بنا لیا۔

والدین کی اطاعت قرآن و سنت کی رُو سے مشروط ہے‘ مطلق نہیں ہے‘ اور جس طرح والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح دین کے علم کا حصول بھی فرض عین ہے اور دعوت و تبلیغ یا امربالمعروف ونہی

عن المنکر بھی ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اگر آپ کی والدہ صاحبہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں تو انھیں محبت و احترام سے یہ بات سمجھایئے کہ کیا وہ چاہتی ہیں کہ ان کا چہیتا بیٹا ہدایت کی روشنی کو چھوڑ کر جاہلیت کی تاریکی کی طرف لوٹ جائے اورچاہے اس دنیا کے مادی فوائد حاصل کر لے لیکن آخرت میں نقصان میں رہے۔

بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ صاحبہ کو زندگی کے کسی مرحلے میں کسی ایسے تلخ تجربے کا اتفاق ہوا ہے جس میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اللہ کے دین کے لیے کام کرنے والے ان معاملات میں جنھیں ہم دُنیاوی کہتے ہیں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کی پہنچ حد سے حد مسجد کی امامت تک ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں اور کاروبار کو چھوڑ کر مہینوں دین کی تبلیغ کے لیے باہر رہتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ صرف نماز‘ روزہ اور وہ بھی گھر میں بیٹھ کرکر لینے سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائیں گے اور اعلیٰ سرکاری ملازمت یا کسی تجارتی ادارے میں سربراہ بن کر مادی فوائد حاصل کر لینے سے زندگی کامیاب ہو جائے گی۔

دین اور دُنیا کی تفریق کا یہ تصور قرآن و سنت کے منافی ہے۔ قرآن و سنت زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی اتحاد چاہتے ہیں ‘ٹکرائو اور تضاد کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح قرآن و سنت دعوتی اور تحریکی کاموں کے ساتھ والدین کے حقوق کی ادایگی‘ حصول علم اور معاشرے میں فعال فرد کی حیثیت سے ایک اچھے خاندان اور اخلاقی معاشی کردار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دین کی جامع فکر اور دین کی رسمی فکر میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر حیات انسانی کے تمام معاملات میں ہم آہنگی اور عدم تضاد چاہتا ہے‘اور ثانی الذکر دین کی جگہ ’’رسمی مذہبیت‘‘ کے ساتھ شان دار مادّہ پرستی‘ رسم پرستی‘ خاندان پرستی اور نفس پرستی سے خوش ہوتا ہے۔

بلاشبہ جنت ماں کے پائوں تلے ہے لیکن اس وقت جب ماں بیٹے کو جنت کی طرف جانے کے راستے پر عمل کرنے دے اور اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ اولاد سے صحیح محبت وہ ہے جو قرآن و سنت کی پیروی میں ہو۔ اسلام محض کلمہ گوئی کا نام نہیں ہے۔ یہ کلمے پر عمل کا نام ہے۔ منہ سے کہہ دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہنما ‘ آخری رسولؐ اور ہادی اعظمؐ ہیں‘ اور عملاً مادّی منفعت کو اپنا خدا بنا لینا‘ رسوم و رواج کو پوجنا کلمے کے انکار کے مترادف ہے۔

جیسا کہ اُوپر کہا گیا ہے کہ فرائض دین میں اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر اللہ نے اقامت صلوٰۃ کا حکم دیا ہے اور ایک شخص گھر میں نماز پڑھتا ہے تو وہ بنیادی تعلیم کا انکار کرتا ہے۔ یہ اختیار کسی بندے کو نہیں ہے‘ وہ والدین ہوں یا حکومت وقت۔ اسی لیے قرآن کا واضح اصول ہے کہ اولوالامر کی اطاعت صرف اس وقت تک ہے جب تک ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہو ورنہ کوئی اطاعت نہیں ہے۔ لیکن یہ مناسب نہیں ہے کہ والدین کے ساتھ بے ادبی اور بدتمیزی اختیار کی جائے بلکہ محبت و احترام سے انھیں سمجھایا جائے اور بار بار سمجھایا جائے اور کسی موقع پر بھی کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ چاہے ان کا رویہ اہل مکّہ کی طرح کا ہی کیوں نہ ہو۔

اگر آپ کی والدہ کے ذہن پر بوجوہ کوئی اثرات ہیں تو اس کے علاج کی فکر کیجیے تاکہ ان کی سوچ مثبت اور تعمیری بن سکے۔ دعوتی کام تو زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے‘ اسے کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہاں‘ یہ نہ بھولیے کہ خود والدین کوحکمت و محبت سے دعوت دینا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہے اور گھر کے باہر کام کرنے کے ساتھ ساتھ واجب ہے۔ اس لیے اگر وہ ترجمان القرآن پڑھنے پر آمادہ نہ ہوںتو گفتگو میں اس کے کسی اچھے مضمون کا خلاصہ بیان کر دیجیے۔ کبھی قرآن کریم کی کسی آیت کی تشریح تفہیم القرآن کی مدد سے بغیر یہ بتائے کہ کون یہ کہتا ہے‘ ان کے سامنے رکھیے۔ اگر کسی اجتماع سے آپ کوئی بات سمجھ کر آئے ہیں تو اسی موضوع پر کسی مناسب موقع پر والدہ سے بات کیجیے اور ان سے اس کا حل پوچھیے اور پھر عاجزانہ رائے کے طور پر جو آپ نے خود مطالعہ کیا ہو یا کسی سے سمجھا ہو‘ا نھیں بتایئے۔ اور اس پورے کام کو دعوتی کام ہی سمجھیے۔ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے دعا لازماً کیجیے۔ ہمارے قلوب اسی کی گرفت میں ہیں‘ وہی دین کے لیے سینہ کو کشادہ کرتا ہے‘ وہی راہ راست دکھاتا ہے اور وہی راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ فنعم المولٰی ونعم النصیر۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

مصنوعی بالوں کی پیوند کاری

س :  آج کل بالوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ یعنی جلد میں آپریشن کے ذریعے مصنوعی بال لگائے جاتے ہیں۔ ایک جھلی پر بال (مصنوعی) چپکا کر جھلی سر پر جہاں بال نہ ہوں چپکا دی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں بال ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ کیا غسل اور وضو اس صورت میں ہوجاتے ہیں یا نہیں؟

ج :  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا جسم و جان امانت کے طور پر عطا کیا ہے ۔ اس امانت کا حق اس طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق استعمال کیا جائے۔ لہٰذا ترک و اختیار میں شریعت سے انحراف اس امانت کا ناجائز تصرف ہوگا۔

۱- بالوں کی پیوند کاری تغیر فی خلق اللہ کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی اور غیرفطری کاموں سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۰)

اس فطرت پر قائم ہو جائو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘ یہی بالکل درست دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث جو حدیث کی معتبر ترین کتب میں مذکور ہیں‘ ان میں آپ نے صریح الفاظ میںاس مصنوعی فعل سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’لعن الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ (مسلم‘ عن ابن عمر‘ کتاب ا للباس‘ ترمذی‘ ابواب الادب‘ ابوداؤد‘ کتاب الترجل)۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والوں پر لعنت فرمائی‘‘۔ البتہ انسانی بالوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے بنے ہوئے مصنوعی بال جوڑنے کی گنجایش موجود ہے۔ آپ نے جس صورت کے بارے میں سوال کیا ہے اگر اس میں جھلی اور بال کسی درخت وغیرہ سے بنائے گئے ہیں تو ان کا استعمال جائز شمار ہوگا۔ ایسی صورت میں غسل میں جہاں تک پانی پہنچایا جا سکتا ہو پہنچایا جائے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ ’’عورت کے لیے اس میں حرج کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے بالوں کی مینڈیوں میں پشم کی کوئی چیز جوڑے‘‘ ۔(الفتاویٰ الھندیۃ‘ کتاب الکراھیۃ‘ الباب التاسع عشر‘ ج ۴‘ ص ۱۱۳)

اصطلاح میں غسل کے معنی بدن کو دھونا ہے اور اس کا اطلاق بدن کے ظاہر اور باطن پر ہوتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ جس میں پانی کا پہنچانا ناممکن یا مشکل ہو جیسا کہ بحرالرائق میں ہے: ’’غسل سوائے کسی تکلیف کے حتی الوسع تمام جسم پر پانی بہانا ہے‘‘۔

اس لیے جو مصنوعی غیر انسانی بال سرجری کے لیے سر میں پیوست ہوچکے ہیں اور جسم کا حصہ بن چکے ہیں‘ اگر غسل کی صورت میں پانی سر تک نہیں پہنچتا بلکہ مصنوعی جھلی تک پہنچتا ہے تو غسل یا وضو ہو جائے گا۔ البتہ جن بالوں کو سر سے جدا کیا جا سکتا ہے ان کو غسل کے وقت جسم سے جدا کیا جائے اور سر تک پانی پہنچایا جائے ‘ اس کے بغیر غسل یا وضو نہ ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

وی سی آر اور ڈش انٹینا کا کاروبار

س :  میں ایک دکان میں بطور ملازم کام کرتا ہوں۔ دکان کا کاروبار ٹی وی‘ وی سی آر‘ ٹیپ ریکارڈر اورریڈیو کے پرزوں پر مشتمل ہے۔بعض مقامی علما اس کاروبار کو جائز نہیں سمجھتے۔ کچھ دوست بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔

ج :  ٹی وی‘ ریڈیو‘ وی سی آر‘ ڈش انٹینا اور ویڈیو وغیرہ جدید زمانے کے ذرائع ہیں۔ یہ جدید آلات ہیں۔ ان سے قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اسلامی پروگرام بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے اس شعبہ میں کام کرنا برا نہیں۔ اس وقت اقتدار لادینوں کے پاس ہے اور وہ ان آلات کے ذریعے بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی ترویج و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اس کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس لیے کاروبار محض اس وجہ سے حرام نہیں ہوگا کہ یہ آلات فحاشی پھیلانے کے ذرائع ہیں۔ آپ اگر ان آلات کی مرمت کا کام کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح ایک دکان دار چھری‘ چاقو اور اسلحہ فروخت کرتا ہے تو یہ جائز کاروبار ہے۔ اگر کوئی شخص چھری‘ چاقو کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا‘ دکان دار نہیں۔ اس لیے آپ جو کام کر رہے ہیں اسے کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم! (ع - م )

چند متفرق مسائل

س :  ۱- امریکہ میں میرے ایک بھائی نے ایک دن برگر کھا لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں جھٹکے کا گوشت تھا۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ یہ حرام نہیں ہے۔ کیا یہ کھانا حرام ہے؟

۲- بسنت‘ مائوں کا دن‘ باپوں کا دن وغیرہ منانا اسلام کی رُو سے جائز ہے؟

۳- آج کل بازار میں فلالین کی ایسی قمیصیں مل رہی ہیں جن کے ساتھ پاجامہ ہوتا ہے‘ یہ تنگ نہیں ہوتے۔ کیا ان کا استعمال درست ہے؟

۴- باہر آنے جانے کے لیے برقع لیا جائے‘ جب کہ تعلیمی ادارے اور صرف لڑکیوں کی موجودگی میں گلے میں دوپٹا لیں‘ کیا یہ درست ہے؟

۵- اگر ایک ادارے کی بہت فیس ہو ‘ اس کے طلبہ کو لائبریری سے رسالہ درکار ہو‘ یا کوئی پودا پسند آئے تو کیا لے سکتے ہیں‘ جب کہ اجازت لینے کی بھی جرأت نہ ہو؟ اسی طرح خالہ‘ ماموں‘ چچا کے گھر سے بھی چیز لی جا سکتی ہے؟

۶- گرمیوں میں گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کیا کوئی لڑکی صرف لڑکیوں کی موجودگی میں ایسی چھجے والی ٹوپی پہن سکتی ہے جس کا پرنٹ رنگ بالکل لڑکیوں والا ہو؟ ویسے تو مردوں کی سی چیزیں حرام ہیں مگر ایسی ٹوپی جو کوئی مرد نہ پہن سکے‘ اس میں بھی حرج ہے؟

۷- کیا ابرووئں کے درمیان کے چند بال ختم کیے جا سکتے ہیں؟

ج :  ۱- برگر میںجھٹکے کا گوشت ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ جھٹکے کا گوشت حلال ہے اس کی بات صحیح نہیں ہے۔

۲- بسنت اور اس جیسے تہوار یہودیوں‘ ہندوئوں اور عیسائیوں کے رسوم و رواج ہیں۔ ان میں وقت کا ضیاع اور خلاف اسلام عقائد کی آمیزش ہے۔ ان کا منانا کفار کی جاری کردہ تفریحات میں اُلجھ کر اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ایسے رسوم و رواج اور کھیل جو اسلام کے منافی نہ ہوں ان کی بھی صرف اس وقت اجازت ہے ‘جب کہ ان میں دینی اور دنیوی فائدہ ہو۔

۳- خواتین کو ایسا لباس استعمال کرنا چاہیے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ لباس کو دیکھ کر اندازہ ہو کہ یہ خاتون ہے۔ لباس مکمل طور پر ساتر ہو۔ قمیص کے ساتھ پاجامہ ہو تو اس سے جسم کے پیچ و خم بھی نظر آتے ہیں ۔اس لیے یہ لباس‘ لباسِ ساتر نہیں ہے۔

۴- جہاں پر مرد موجود نہ ہوں صرف خواتین ہوں وہاں دوپٹا اوڑھنے کی رخصت ہے۔ جہاں غیر محرم مردوں کی آمدورفت جاری رہتی ہو وہاں پورے ستر کو ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔

۵- ادارے کی اشیا کو بغیر اجازت استعمال میں لانا جائز نہیں۔ البتہ خالہ‘ ماموں اور چچا کے گھرسے کھانے پینے کی چیزیں اس وقت استعمال کی جا سکتی ہیں‘ جب کہ صراحت سے یا عرفاً اجازت ہو۔

۶- خواتین ٹوپیاں استعمال نہ کریں کیونکہ ان میں مردوں کے لباس کے ساتھ مشابہت موجود ہے اور خواتین کو مردانہ یا اس سے مشابہ لباس پہننے کی اجازت نہیں۔

۷- ابرو کے درمیان والے بال کیمیکل سے صاف کر دینا یا استرے سے منڈوانا جائز نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )

 

دہرا معیار

سوال :  عنقریب میری شادی ہونے والی ہے۔ گذشتہ دنوں پیش آنے والے ایک سانحے کی بنیاد پر بہت سے سوال میرے ذہن میں اُلجھن پیدا کر رہے ہیں۔ میری رہنمائی فرما دیں۔

میری خالہ زاد بہن کی شادی اپنے کزن سے ہوئی تھی جو کہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو بھی دین داروں میں شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے میری خالہ زاد بہن کو محض اس وجہ سے طلاق دے دی کہ ان کی غیر موجودگی میں اپنے کزن کو (جو کہ شوہر کے بھی کزن ہیں) گھر میں آنے دیا۔ کچھ چائے پانی سے خاطر تواضع بھی کی‘ جب کہ گھر میں ملازمہ بھی موجود تھی‘ گھر میں تنہا نہ تھیں۔ میری خالہ زاد بہن کے بارے میں خاندان کا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ وہ عفت مآب خاتون ہیں۔ دوسری طرف شوہر کے اپنے معاملات و خیالات کا یہ عالم ہے کہ غیر عورتوں کے ساتھ میل جول‘ ہنسی مذاق‘ پارک وغیرہ میں گھومنا پھرنا اپنے کاروبار کا تقاضا خیال کرتے ہیں اور مصر ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ بیویوں کو تو اپنے گھروں میں

عزت و عفت کا محافظ ہونا چاہیے اور شوہر کی غیر موجودگی میں غیر محرم کو گھر میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے۔

میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ:

۱- اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض میں شامل کیا ہے کہ وہ مرد کی غیر موجودگی میں اپنی عزت‘ شوہر کے گھر‘ مال و اولاد کی حفاظت کرے‘ تو کیا مرد کی ذمّہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر اپنی نگاہ کی حفاظت کرے اور غیر عورتوں سے تعلقات نہ رکھے؟ کیا شوہر کی عزت بیوی کی عزت نہیں؟

۲- مرد کو تو اختیار ہے کہ بیوی کے کردار کو مشکوک پا کر اُس کو اپنے ساتھ نہ رکھے لیکن ایک بیوی شوہر کی بے حیائی کس حد تک برداشت کرے اور وہ کیا کرے؟ لوگ کہتے ہیں کہ مرد کے شرابی‘ زانی یا آبروباختہ ہونے کی بنا پر بیوی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو بیوی کس بنا پر علیحدگی کا مطالبہ کرے؟ کیا صرف نان نفقہ کی عدم ادایگی کی بنا پر ہی اُس کا حق ہے اور دیگر تمام روحانی‘ جذباتی‘ سماجی صدموں کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا واقعی عورت کی ضرورت صرف نان نفقہ ہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر بیوی میں اور کسی بھی پالتو حیوان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

۳- کیا شوہر کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے بیوی کے سماجی مرتبے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا؟ اُس کے خاندان‘ احباب‘ سہیلیوں خصوصاً سسرال والوں کی نظروں میں ایسی عورت کی کیا وقعت رہ جاتی ہے جس کا شوہر اپنی عزت و آبرو کے بارے میں لاپروا ہو‘ اور عورتوں کے ساتھ تعلقات‘ دوستی‘ ٹیلی فون پر گفتگو ‘ سینما یا پارک میں گھومنا پھرنا معیوب نہ سمجھے‘ اور اس کو اپنے کاروبار کا تقاضا سمجھے؟

۴- کیا ایک بیوی کو اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں غیرت مند نہیں ہونا چاہیے؟ کیا مرد اپنے ’’اعمال‘‘ کو درگزر‘ چشم پوشی اور نظرانداز کر دیے جانے کا حق دار سمجھتا ہو‘ اور بیوی کے معاملے میں بہت ’’غیرت مند‘‘ ہو جائے کہ قریبی رشتے دار سے بول چال بھی نہ کرے؟ کیا مرد اور عورت کی غیرت میں یہ فرق اسلام کی رُو سے ہے؟ کیا بیوی کو ’’بے غیرت‘‘ بن کر جینا چاہیے؟

۵- یہ بات عام مشاہدے میںہے کہ مرد اپنی بیویوں کی عزت نفس اور جذبات و احساسات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایک وفادار بیوی اپنے شوہر کی طرف سے صرف وفاداری کی متمنی ہوتی ہے۔وہ ہر معاشی ومعاشرتی دبائو‘ ہر طرح کے سخت حالات میں کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہر قسم کے حالات میں شوہر کی خیرخواہ اور ساتھی ہوتی ہے۔ صرف ایک آرزو اس کی زندگی کا محور ہوتی ہے کہ شوہراُس کے مقابلے میں کسی غیر عورت سے دل نہ بہلائے‘ نہ اس کی دلجوئی کرے‘ نہ اس طرح تذکرہ کرے کہ بیوی کی عزت نفس مجروح ہو۔ ہر بیوی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اسے ویسی ہی محبت‘ خیرخواہی‘ وفاداری اور عزت دے جیسی کہ اس کے دل میں شوہر کے لیے ہوتی ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں کو بھی اپنی بیویوں کو تنگ کرتے دیکھا ہے۔ ان کا دل دُکھا کر‘ ان کی روح کو اذیت پہنچا کر جیسے مردوں کو روحانی سکون ملتا ہے۔ غیر عورتوں کی تعریف کر کے‘  اپنی کزن‘ کلاس فیلو‘ ہمسائیوں کی مہربانیوں اور حسن کے تذکرے کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ گاہک عورتوں کی نظر التفات کے قصّے بیان کر کے‘ دوسری شادی کی ناتمام خواہش پر آہیں بھر کے‘ بیوی کی محبت‘ خلوص اور وفاداری کو خاک میں ملاتے ہیں۔ کیا بیوی محض ایک کھلونا ہے جس کے جذبات‘ احساسات‘ خواہشات اور عزتِ نفس سے کھیلنا مرد کا حق ہے؟ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہوتی؟

جواب :  آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ عنقریب ان شاء اللہ آپ کی شادی ہونے والی ہے اور اس طرح سنّتِ رسولؐ پر عمل کر کے آپ اپنے ایمان کی تکمیل کریں گی۔ ممکن ہے جب تک آپ کے سوال کے حوالے سے یہ نکات طبع ہوں یہ مبارک رشتہ اور دینی فریضہ تکمیل پا چکا ہو۔ میری دعا ہے کہ

اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو دین پر حقیقی طور پر عمل کی توفیق دے اور آپ ایک دوسرے کے لیے

 سکون و راحت اور دینی فلاح کا ذریعہ بن سکیں۔ آمین!

آپ کے سوالات کی ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے چند نکات تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱- شریعت اسلامی نے ایک منکوحہ کے فرائض میں یہ بات شامل کی ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں کسی ایسے فرد کو گھر میں نہ آنے دے جسے وہ ناپسند کرتا ہو اور نہ کسی کے ساتھ اس طرح کی تنہائی اختیار کرے جو خلوت کی تعریف میں آتی ہے۔ اس دوسری شرط میں وہ رشتے بھی شامل ہیں جنھیں ہمارے معاشرے میں جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر جائز سمجھ لیا گیا ہے‘ مثلاً ایک شخص کا اپنی سالی یا ایک بیوی کا اپنے دیور کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا۔حدیث شریف میں وضاحت ملتی ہے کہ ایسی حالت میں ان کے ساتھ تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے‘ یا جیسے ہمارے ہاں سالی کے ساتھ بہنوئی کا بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس کی چھوٹی بہن ہے‘ اسے گلے لگانا‘ ہاتھ میں ہاتھ لینا‘ ساتھ جڑ کر بیٹھنا‘ یہ تمام شکلیں خلوص نیت کے باوجود شریعت کی نگاہ میں ممنوع ہیں۔

آپ نے اپنی خالہ زاد بہن کے حوالے سے ان کے شوہر کے طرزِعمل کے بارے میں جو بات لکھی ہے اس کا سبب وہی جاہلی رواج ہے جس میں ایک شوہر اپنی سالی کے ساتھ بے تکلفی کے اظہار کے لیے ہنسی مذاق کرتے ہوئے اگر اس کے دھپ لگا دے تو وہ اسے ’’جائز‘‘ سمجھتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں اس کی نیت اچھی تھی۔ لیکن اگر اس کا اپنا کزن جو اس کی بیوی کا بھی کزن ہو‘ اگر اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے چائے پلا دے تو اس کے غصے کا پارہ آسمان تک چڑھ جاتا ہے‘ اور وہ طلاق جیسی چیز پر آمادہ ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا جائز کام ہے جو ربّ کریم کو طیش‘ غضب اور غصّے میں لے آتا ہے۔ سبب واضح ہے: ربّ کریم چاہتا ہے کہ اس کے بندے رشتوں کا احترام کریں‘ رحم (قرابت و رشتہ) کی عزت کریں‘ اپنے لباس کو جو انھیں زینت و زیبایش دیتا ہے اپنے ہاتھ سے تار تار نہ کریں۔

اگر آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے شوہر ان کے مشترکہ کزن کو چائے پلانے سے ناخوش ہوں گے‘ ایسا کیا‘ تو میرے خیال میں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے باوجودصرف اس بنا پر طلاق دینا زیادتی ہے۔ ایسے حالات میں شوہر کا فرض ہے کہ وہ نصیحت و اصلاح کا رویہّ اختیار کرے نہ کہ  یک لخت طلاق دے ڈالے!

۲- یہاں یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ ایک شوہر کے بیوی کو طلاق دینے‘ یا ایک بیوی کے خلع طلب کرنے کا تعلق ہمیشہ بداخلاقی کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک شوہر اپنے کردار و تقویٰ کے لحاظ سے انتہائی اعلیٰ مقام پر ہو لیکن اس کی شکل دیکھتے ہی ایک بیوی کو کراہت آئے تو تقویٰ کے باوجود اسے خلع کا حق ہے۔ ایسے ہی ایک بیوی انتہائی حسین و جمیل اور مال دار اور اعلیٰ نسب کی ہونے کے باوجود اگرحقوق زوجیت ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو قانونی حد تک شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے۔ گویا طلاق اور خلع کسی ایک مخصوص شرط کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ دونوں شکلوں میں احساس ذمّہ داری اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے جذبے کے ساتھ‘ یہ جانتے ہوئے کہ اس فعل سے اللہ تعالیٰ انتہائی غضب ناک ہوتے ہیں‘ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔

۳-  اگر ان صاحب نے محض اپنے غصّے کے اظہار کے لیے ایک طلاق دی ہے تو انھیں رجوع کرنے کا حق ہے اور دونوں کا فرض ہے کہ آیندہ کبھی ایسا موقع پیدا نہ ہونے دیں کہ دوسری طلاق کی نوبت آئے۔ رجوع کے بعد بھی پہلی طلاق تین میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔ اس لیے غیر معمولی طور پر احتیاط اور ضبطِ نفس کے ساتھ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور بے جا غصّہ و بدگمانی سے بچا جائے۔ (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘بلاشبہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ الحجرات ۴۹:۱۲)

۴- قرآن کریم نے ایک صالح بیوی اور صالح شوہر کو اپنا معیارِ مطلوب قرار دیا ہے اور بار بار صالحیت‘ نیکی‘ بھلائی‘ معروف‘ بر اور تقویٰ کو اہل ایمان کی بنیادی صفت کہا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کے لیے عفت و عصمت اور تقویٰ کے معیار الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ قرآن کریم جب نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے صرف عورتوں کے لیے مخصوص نہیں کرتا کہ وہ تو نگاہیں نیچی رکھیں اور مرد جہاں تک ممکن ہو نگاہوں سے تعاقب اور

حظ اندوزی کرتا رہے۔ (اور مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں۔ النور ۲۴:۳۰-۳۱)

اسی طرح تعزیرات میں دونوں کے لیے یکساں معیار رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:  وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا (المائدہ ۵:۳۸)’’اور چور ‘ خواہ عورت ہو یا مرد‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ اس لیے چاہے معاملہ کاروبار کا ہو یا تفریح اور سماجی تعلّقات کا‘ شوہر اور بیوی کو ایک ہی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنی ہوگی۔

۵- اگر شوہر یا بیوی اخلاقی ضابطے کی خلاف ورزی کرے تو اصلاح کے لیے تعلیم‘ اخلاقی دبائو ‘ خاندان کے افراد کے دبائو اور احباب کی نصیحت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود ایک فرد اسلام کے خلاف عمل کرتا رہے تب آخری اور ناپسندیدہ شکل طلاق یا خلع ہے۔

۶- کسی شوہر کا تنہائی میں کسی غیر عورت کے ساتھ پھرنا‘ سینما جانا‘ پارک میں تفریح کرنا‘ کسی بھی لحاظ سے کاروباری ضرورت نہیں کہا جا سکتا۔ اگر بعض صورتوں میں کسی کاروباری معاملے میں ایک مرد یا عورت کو ایک غیر مرد سے کوئی بات کرنی ہی ہو تو وہ شکل اختیار کی جائے جس میں برائی کا امکان کم سے کم ہو یعنی ’’خلوت‘‘ (کسی غیر محرم کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا)کی شکل نہ ہو۔

مثال کے طور پر ایک بنک مینیجر کو اپنے گاہک سے بات کرنی ہے۔ یہ بات تہہ خانے میں ایک لوہے کے دروازے کو مقفل کر کے بھی کی جا سکتی ہے اور ایسے کمرے میں بھی جس میں ہر طرف شفاف شیشے لگے ہوں‘ دروازہ کھلا ہو‘ اور دونوں کے درمیان معقول فاصلہ ہو۔ ظاہر ہے اولین شکل اسلامی شریعت ہی میں نہیں کسی بھی اخلاقی نظام میں درست قرار نہیں پا سکتی۔

اگر ایک جامعہ میں ایک معلّمہ کو اپنی کلاس میں اپنے تخصص کے حوالے سے لیکچر دینا ہے جس میں غیرمحرم لڑکے بھی ہیں اور یہ کام اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا تو اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے شریعت اس کو اس سے منع نہیں کرتی۔ لیکن اگر اسے کسی طالب علم کے مقالے پر اس سے بات کرنی ہو تو چونکہ وہ معلّمہ ہے اور طالب علم بمنزلہ اس کی اولاد کے ہے‘ وہ کمرہ بند کر کے‘ کھڑکی پر پردہ ڈال کر ایک گھنٹے تک اس سے علمی مذاکرہ نہیں کر سکتی چاہے وہ اور اس کا شاگرد تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر ہی فائز کیوں نہ ہوں۔ اسے اپنا کمرہ بند کیے بغیر‘ دروازہ کھلا چھوڑ کر‘ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر ہی بات کرنی ہوگی۔

۷- طلاق اور خلع کا قانونی پہلو‘ اتنا واضح اور آسان ہے کہ اس پر کسی مفتی اور مجتہد سے رائے لیے بغیر ایک سیدھا سادا مسلمان بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن طلاق یا خلع سے قبل ضروری ہوگا کہ ایک فرد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنے قلب و دماغ کو خوب ٹٹول کر دیکھے کہ کل جب قیامت میں اللہ تعالیٰ اس سے جواب طلبی کریں گے تو کیا اس کے پاس کوئی معقول جواب ہوگا؟ اور کیا اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ساتھ چلنا‘ رہنا‘ نبھانا بالکل ممکن نہیں رہا۔

۸- جس طرح بیوی کے کردار کی معمولی سی خامی شوہر کے لیے عزت‘ وقار‘ ناک اور مشکلات کا مسئلہ بن جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح شوہر کا کردار بیوی کی ساکھ‘ نفسیاتی کیفیات اور سکون کو متاثر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی پر ایک دوسرے کے حوالے سے یکساں اخلاقی‘ قانونی‘ نفسیاتی اور معاشرتی حقوق و فرائض عائد ہیں۔ اگر ایک شوہر بیوی کا حق مارتا ہے اور عوام الناس کے سامنے کیے ہوئے عقد نکاح کے باوجود کسی اور عورت کے ساتھ خلاف اخلاق معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے‘ تو ممکن ہے اس دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بنا پر اس کی گرفت نہ ہو سکے لیکن وہ آخرت میں بازپرس سے نہیں بچ سکتا۔ دوسری جانب وہ بیوی جو نامساعد حالات کا مقابلہ ہمت‘ وقاراور صبرواستقامت سے اس دنیا میں کرتی رہی دوبارہ ایسے شخص کے حوالے نہیں کی جائے گی بلکہ اسے آخرت میں ایسا زوج دیا جائے گا جو دنیا کی تمام تکالیف و پریشانیوں کا بدلہ سکون‘ لذت ‘ احترام اور عزت و وقار کے ساتھ اسے فراہم کرسکے۔

۹- بعض شوہر نہ صرف بیوی بلکہ اپنی بیٹیوں‘ بیٹوں‘ حتیٰ کہ ماں باپ کی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ وہ اپنے اس طرزِ عمل کی بنا پر چاہے دنیا میں اپنی اکڑفوں سے کتنا ہی خوش ہو لیں لیکن آخرت میں ان کا حساب اس سے بہت مختلف ہوگا۔ اس کا ایک بنیادی سبب دینی فہم اور تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اسی بنا پر بہت سے شوہر اپنی بیوی سے ’’تو‘‘ کہہ کر بات کرنے کو بے تکلفی‘ اپنائیت اور محبت سمجھتے ہیں۔ اسلام ایک شائستہ‘ باادب اور باوقار دین ہے اور چاہتا ہے کہ بے تکلفی و محبت کا اظہار ہو یا غصّے کا‘ دونوں صورتوںمیں ادب‘ توازن اور احترام کو مدنظر رکھا جائے۔

بہت سے پڑھے لکھے مرد اپنی بیٹیوں سے جس طرح حقارت‘ طنز یا ان پر احسان جتانے کے انداز میں بات کرتے ہیں وہ روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ وہ لڑکوں کی طرح بلکہ ان سے زیادہ محبت‘ احترام‘ عزت اور باوقار طرزعمل کی حق دار ہیں۔ اسی طرح اگر بیوی کی عزت نفس اور جذبات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ ایک اخلاقی کمزوری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر شوہر غیر محرم عورتوں سے تو مسکرا کر اور لطائف سنا کر بات کرے‘ انھیں چائے اور کھانے پر مدعو کرے اور اپنی بیوی سے محض ایک قانونی سا تعلق رکھے تو یہ بیوی کے حقوق پر ڈاکا اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ اللہ پر بندے کا حق یہ ہے کہ وہ اس کا واسطہ دے کر جس سے رحم کا رشتہ قائم کرتا ہے وہ اس پر قائم رہے۔ (النساء ۴:۱)

نکاح یا ایسے اعلان اور وعدے کے بعد جس پر بہت سے افراد کو شاہد بھی بنایا گیا ہو‘ اگر ایک شخص کسی اور عورت کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے تو یہ خود اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے سے روگردانی ہے‘ اور اس غلط رویے کی فوری اصلاح ایسی توبہ کے ذریعے جس کے بعد غلطی کا ارتکاب نہ کیا جائے‘ لازم ہو جاتی ہے۔

۱۰- دوسری شادی کی خواہش اگر کسی شرعی ضرورت کی بنا پر ہو تو جائز ہے لیکن اگر اس طرح محض غیرعورتوں کے تذکرے سے اپنی مانگ اور قدر و منزلت بڑھانی مقصود ہو‘ تو اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔ حدیث شریف میں بیوی کو منع کیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے سامنے کسی دوسری عورت کی تفصیلات بیان کرے۔ اس حکم کا اطلاق شوہر پر بھی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شوہر کا اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک بیوی اور بچوں کے حقوق ایمان داری سے ادا کرنا بھی ہنسی کھیل نہیں ہے‘ کجا یہ کہ وہ آنکھیں بند کرکے اور بس اللہ کا نام لے کر بیک وقت کئی بیویوں اور کئی درجن بچوں کے حقوق کی ذمّہ داری اٹھائے۔ مختلف پہلوئوں پر غور کیے بغیر کچھ ’’دانش مند‘‘ جب یہ کام کر بیٹھتے ہیں تو پھر قانونی موشگافیوں میں اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اسلام میں نہ بیوی شوہر کے لیے کھلونا ہے‘ نہ شوہر بیوی کے لیے محض ایک عنوان۔ دونوں پر ایک دوسرے کے غیر معمولی حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں۔ ہاں ‘اگر کسی میں اتنی استطاعت ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں اور کثیر تعداد میں بچوں کے حقوق و فرائض ذمّہ داری اور عدل کے ساتھ ادا کر سکتا ہو تو اسلام اسے نکاح ثانی سے نہیں روکتا۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

روزے میں اِن ہیلر کا استعمال

روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دسمبر ۲۰۰۰ء کے شمارے میں مولانا عبدالمالک کا جواب شائع کیا گیا تھا جس میں اس کا عدم جواز بتایا گیا تھا۔ ہمارے ایک قاری نے سعودی عرب کے مفتی الشیخ محمدالصالح العثیمین رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ ارسال کیا ہے۔ہم اسے نقل کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

س :  دمے کے مریض اِن ہیلر استعمال کرتے ہیں۔ کیا روزہ دار کے لیے اس کا استعمال جائز ہے؟

ج :  اِن ہیلر کا استعمال روزہ دار کے لیے جائز ہے خواہ رمضان کا کوئی روزہ ہو یا اس کے علاوہ۔ یہ اس لیے کہ یہ (اِن ہیلر) معدے تک نہیں پہنچتا بلکہ پھیپھڑوں تک پہنچ کر ان کو کھلاکر دیتا ہے جس کے بعد انسان معمول کے مطابق سانس لینے لگتا ہے۔ لہٰذا یہ (اِن ہیلر) نہ کھانے پینے کے مترادف ہے اور نہ ہی بذات خود کھانا پینا ہے جو معدے تک پہنچتا ہو۔ اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ کسی بھی شے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا جب تک کہ کتاب و سنت‘ اجماع یا قیاس صحیح سے اس کے فاسد ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ (الشیخ محمد الصالح العثیمین‘ مسائل من الصیام‘ دار ابن جوزی‘ جمع و ترتیب: سالم بن محمد الجہنی)

 

کیا زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے؟

سوال :  کیا زکوٰۃ ایک طرح کا انکم ٹیکس نہیں ہے؟ کیا ہم زکوٰۃ کو فلاح عامہ کے کاموں مثال کے طور پر مدرسوں اور ہسپتالوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟

جواب :  زکوٰۃ کو ٹیکس قرار دینا سرے سے ہی غلط ہے۔ وہ تو اسی طرح ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے‘ جس طرح نماز ایک رکن ہے‘ حج ایک رکن ہے‘ روزہ ایک رکن ہے۔ زکوٰۃ انھی عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے‘ اور اس عبادت کو مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف بھی متعین کر دیے ہیں‘ جن کے سوا کسی اور مصرف میں اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

آپ جتنے ٹیکس دیتے ہیں‘ خواہ وہ انکم ٹیکس ہو یا کسی اور قسم کا ٹیکس‘ ہر ایک کا نفع آپ کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ایک ایسی چیز ہے‘ جس کا نفع آپ کی طرف آخرت میں پلٹ کر آئے گا۔ اس دنیا میں کسی طور پر بھی اس کی منفعت حاصل ہونے کی امید پر آپ زکوٰۃ دیں گے تو اسے ضائع کر دیں گے۔ اس دنیا میں آپ بس خدا کے بتائے ہوئے حق داروں کو زکوٰۃ دے دیجیے اور سمجھ لیجیے کہ یہ نیکی خدا کے دفتر میں درج ہو گئی۔

اگر آپ زکوٰۃ سے سڑکیں بنائیں گے‘ ریلیں بنائیں گے‘ یا مدرسے اور ہسپتال بنائیں گے تو ان سے امیر اور غریب سب فائدہ اٹھائیں گے۔ درآں حالیکہ زکوٰۃ غریبوں کے لیے ہے‘ امیروں کے لیے نہیں ہے۔ ان چیزوں سے آپ خود بھی فائدہ اٹھائیں گے درآں حالیکہ زکوٰۃ سے آپ کو خود فائدہ اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لیے زکوٰۃ کو صرف عبادت سمجھ کر ادا کیجیے‘ اس کو رکن اسلام سمجھیے‘ انکم ٹیکس نہ سمجھیے۔

ٹیکس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ لگایاجائے‘ کتنی ہی ایمان داری سے وصول اور خرچ کیا جائے‘ بہرحال جن لوگوں پر اس کا بار پڑتا ہے وہ کبھی اس کو خوش دلی سے نہیں دیتے‘ بلکہ اس سے بچنے کی بے شمار راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اب کیا خدا کی فرض کی ہوئی ایک عبادت کو بھی ٹیکس سمجھ کر اس کے ساتھ آپ یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں؟--- یہ طرزِعمل آپ زکوٰۃ کے ساتھ اختیار کریں گے تو اپنے مال کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی کھو دیں گے۔

یہ تو وہ چیز ہے جو خوش دلی سے دینی چاہیے‘ خدا کی خاطر دینی چاہیے‘ جتنی آپ پر واجب ہو اس سے بھی کچھ بڑھ کر دینا چاہیے‘ تاکہ خداکی خوشنودی اور زیادہ حاصل ہو سکے۔ (سیدابوالاعلٰی مودودی‘ ۵-اگست ۱۹۷۴ء‘ ٹورنٹو‘ کینیڈا)

جادو سے قتل

س:  چار مہینے پہلے میری چھوٹی بہن وفات پا گئی جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی۔ کوئی خاص بیماری نہ تھی جس کا میں یہاں ذکر کروں کیونکہ ڈاکٹروں کا یہی کہنا تھا کہ کمزور ہے اس کی خوراک کا خیال رکھیں۔ باوجود اچھی خوراک کے وہ دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی۔ وفات سے اڑھائی مہینے پہلے ٹانگوں میں ورم آگیا جس سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔ ٹانگوں میںشدید درد کی وجہ سے اس نے بہت تکلیف اٹھائی۔کچھ شواہد اور ڈاکٹروں کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ ماننے پر تیار ہو گئے کہ یہ کالا جادو ہوا ہے۔ جو بھی دوا دی جاتی وہ اس سے اور زیادہ بیمار ہوتی۔ پی اے ایف ہسپتال سرگودھا میں معائنہ کروایا لیکن انھیں بھی بیماری کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہ آئی۔

اب ہمارے گھر میں سب اس بات کا یقین کر رہے ہیں کہ اسے جادو کے ذریعے مروایا گیا ہے۔ ایک محترم پروفیسرصاحب کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انھوں نے قرآن و سنت کے حوالے سے اسے سچ ثابت کیا اور کہا کہ امام شافعی ؒ اور امام حنبلؒ جادو کے ذریعے قتل کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بتایئے کہ اس چیز پر یقین ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا جادو سے انسان مر سکتا ہے؟ جو جادوکرے یا کروائے اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے؟ ہم کیسے پہچان کریں کہ جادو کا عمل ہوا ہے؟ ایسے معاملات کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا قانون ایسے معاملے کی گرفت کرتا ہے؟

ج : آپ کی چھوٹی بہن کی بیماری اور وفات کا سن کر صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت  فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور اجرِجزیل سے نوازے۔ اللھم اغفرلھا وارحمھا وادخلھا الجنۃ الفردوس۔ آمین!

جادو ایک حقیقت ہے اور اس کے اثر سے ایک آدمی بیمار اور فوت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات کہ فلاں شخص جادو سے فوت ہوا ہے اور فلاں نے اس پر جادو کیا ہے‘ اسی طرح ثابت ہوگا جس طرح قتل ثابت ہوتا ہے۔ یعنی دو عادل گواہ گواہی دیں گے کہ اس آدمی کو ہم نے فلاں آدمی پر جادو کرتے ہوئے دیکھا ہے‘ یا جادوگر اقرار کرے کہ میں نے جادو کیا اور اس سے یہ شخص قتل ہوا ہے۔

۱- ایسے شخص پر عدالت میں دعویٰ کیا جاتا ہے اور عدالت میں مذکورہ طریقے سے ثابت کیا جاتا ہے۔ جب عدالت مطمئن ہو جائے کہ جادوگر نے جادو کے ذریعے قتل کیا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔

۲- امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر جادوگر پکڑا جائے اور وہ اعتراف کرے کہ وہ جادوگر ہے تو اسے عدالت میں اقرار کرنے یا گواہوں سے جادوگر ثابت کر دینے کی صورت میں قتل کرنے کی سزا دی جائے گی۔ کیونکہ جادوگر ایسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں جو اسے مرتد بنا دیتے ہیں ‘ اگرچہ اس نے جادو کے ذریعے کسی کو قتل نہ کیا ہو۔ حدیث میں آیا ہے: حد الساحر ضربہ بالسیف ’’جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کر دیا جائے‘‘۔

۳- آپ اپنی بہن کے بارے میں بلاوجہ کسی وہم میں مبتلا نہ ہوں۔ صبرسے کام لیں۔ ہمارے معاشرے میں ’’جادو‘‘ بہت کم ہے۔ اس لیے کہ جادو میں شیطان کی پوجا و پرستش کرنا پڑتی ہے‘ اس کے نام کی نذر و نیاز دینا پڑتی ہے‘ گندگی میں ملوث رہنا پڑتا ہے۔ نماز‘ روزہ اور عبادات ترک کرنا پڑتی ہیں اور غیراللہ کی پرستش کرنا پڑتی ہے۔ ایک کلمہ گو جو دین کی سمجھ رکھتا ہو جادوگر نہیں ہو سکتا۔ لوگ دکان داری کے طور پر اپنے آپ کو جادوگر ظاہر کرتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تعزیری سزا دی جائے گی اور دکان داری سے روکا جائے گا۔ یہ حقیقت میں جادوگر نہیں ہوتے۔ اس لیے ان پر مقدمہ چلا کر جادوگر کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ شاطرانہ چالوں کے ذریعے برائی کو پھیلانے اور ناجائز کمائی کا دھندا کرنے کی سزا دی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص‘ معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیعؒ‘ تفسیر آیت سحر‘ پارہ اول)۔ (مولانا عبدالمالک)

مجبوری کی بنا پر جمع بین الصلاتین

س :  ۱- ایک شخص رات کھانے سے پیشتر اعصاب کو سکون بخشنے والی ادویات استعمال کرتا ہے  جس سے اس پر نماز عشاء سے قبل ہی نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جواپنی مصروفیات یا ذمہ داریوں میں ایسا الجھا ہوا ہے کہ نماز عشاء بروقت ادا کرنے کے قابل نہ ہو اور نماز قضا ہونے کا احتمال ہو۔ کیا ایسے دونوں اشخاص کا نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء کا ملا کر پڑھنا (یعنی نماز مغرب ادا کر کے تسبیح و تہلیل کے بعد نماز عشاء ادا کرنا) جائز ہے؟

۲- ایک شخص مسجد کے پڑوس میں کاروبار کرتا ہے۔ کاروبار اس نے قرض لے کر شروع کیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص دکان پر موجود نہیں ہوتا۔ نماز کے اوقات میں دکان بند کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے اور سرمایہ ڈوبنے کا ڈر ہے۔ کیا ایسا شخص دکان پر نماز ادا کر سکتا ہے؟

ج : ۱- رات کے کھانے سے پہلے خواب آور ادویات کا استعمال یا دنیاوی کاروبار میں منہمک ہو جانا ایسے عذرنہیں ہیں کہ ان کے سبب نماز عشاء مقررہ وقت پر ادا نہ کی جائے۔ شدید مجبوری کی بنا پر جمع بین الصلاتین صرف درمیانی وقت میں کی جا سکتی ہے جو نماز مغرب کے پون گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں کہ نماز مغرب کے پون گھنٹے بعد نماز عشاء پڑھ کر دوائیں اور کھانا کھالیں۔ اس طرح شریعت کی پابندی اور عذر کی رعایت بھی ہو جائے گی۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک شام کے بعد اُفق پر سرخی کے بعد جو سفیدی آتی ہے وہ جمع بین الصلاتین کا وقت ہے جو غروب آفتاب کے تقریباً پون گھنٹہ بعد شروع ہو جاتا ہے۔

دنیاوی کاروبار میں مشغولیت کی وجہ سے نماز عشاء کی تقدیم درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے  سورہ جمعہ میں ایسے کاروبار اور تجارت سے منع فرمایا ہے جو یاد الٰہی اور نماز سے غافل کرنے والی ہو۔ فرمایا گیا: وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِ ا انْفَضُّوْآ  اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o  (الجمعہ ۶۲:۱۱) ’’اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اُس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ اِن سے کہو‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے‘‘۔

اسی طرح جو لوگ اپنے کاروبار زندگی کے دوران نماز اور دیگر عبادات میں خلل نہیں آنے دیتے‘ ان کی تحسین اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے:  رِجَالٌ لا لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصّٰلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکوٰۃِ ص (النور ۲۴:۳۷) ’’اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی‘‘۔

اس لیے کاروبار میں اُلجھ کر رہ جانا یا خواب آور ادویات کے استعمال سے نماز کو اپنے مخصوص اوقات سے مقدم یا موخر کرنا درست نہیں ہے۔

۲- نفع و نقصان کا خدشہ ہر وقت موجود ہے۔ جو کچھ اللہ نے کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا۔ محض چند خدشات کی وجہ سے نماز کو گھر یا دکان میں پڑھنا درست نہیں۔ (ع ۔ م)

شطرنج کھیلنا

س :  ہمارے گھر میں کبھی کبھار شطرنج بغیر کسی شرط اور کسی قابل اعتراض بات کے صرف تفریح کے لیے کھیلی جاتی ہے‘ وہ بھی مخصوص حدود کے اندر کہ وقت کی بربادی اور ضیاع کا باعث نہ بنے۔ میری نظر سے چند احادیث گزری ہیں جن میں اس کو لغو اور بے ہودہ کھیل فرمایا گیا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آیا ان احادیث میں شطرنج سے مراد وہی شطرنج ہے جو ہم کھیلتے ہیں؟

ج :  مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کا مقصد وجود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ انسانی زندگی میں کھیل تماشا اور دیگر تفریحات جو اس مقصد سے اسے دُور کرنے والی ہوں‘ ان سے پرہیز کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام مفید کھیلوں پر قدغن نہیں لگاتا۔ اس میں تفریحات کا تصور بھی موجود ہے۔ لیکن ایسی تفریح جو دینی یا دنیاوی طور پر سودمند نہ ہو‘ محض وقت کا ضیاع ہو‘ یا ایسے کھیل جن میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں اجاگر نہ ہوں اور ان سے ذہنی تسکین نہ ملتی ہو‘ مسلمان کے شایان شان نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ المومنون میں اہل ایمان کی ایک اہم صفت یہ بتائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o  (۲۳: ۳)‘ یعنی اہل ایمان لغو سے احتراز کرنے والے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک لغوسے مراد  مالایعنیہ ہے،’’ یعنی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو‘‘۔ شطرنج اور اس طرح کے دیگر کھیل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پھر اگر ان میں جوا بھی شامل ہوجائے تو یہ حرام اور ناجائز ہو جاتے ہیںاور اس بارے

میں قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔آپ نے شطرنج کی ممانعت میں جو احادیث لکھی ہیں ان سے مراد

مروجہ شطرنج اور اس سے ملتے جلتے کھیل ہیں۔ ان میں جوا ہو تو حرام ہے‘ اگر جوا نہ ہو تب بھی مکروہ ہیں۔اس لیے کہ غفلت عبادت سے دُوری اور تضیع اوقات کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔ یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ اس لیے وقت کی قدر و منزلت کا خیال رکھتے ہوئے لغویات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ ایسے کھیلوں کا عادی نہیں ہونا چاہیے جو غفلت کا موجب

ہوں۔ (ع -م)

ازدواجی زندگی اور بشری کمزوریاں

سوال :  انسان بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر شوہر طبیعتاً کم گو شخصیت کا مالک ہے اور بیوی ’’زبان دراز‘‘ ہے یا اگر شوہر زبان دراز ہے اور بیوی صابرہ و شاکرہ‘ دونوں صورتوں میں ازدواجی زندگی کی حقیقی برکات حاصل نہیں ہوتیں۔

ان بشری کمزوریوں کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ ان کے مواخذے کی کیا صورت ہوگی؟ ان خامیوں اور کمزوریوں کو دُور کرنے اور ازدواجی تعلّقات کو خوش گوار بنانے کے لیے شرعی حیثیت سے کیا

لائحہ عمل اختیار کیاجانا چاہیے؟

جواب : شوہر طبعاً کم گو واقع ہوا ہو‘ اور بیوی زبان کے معاملے میں غیر محتاط ہو‘  یا بیوی صابرہ و شاکرہ اور کم گو ہو اور شوہر غصہ ور‘ تنک مزاج اور زبان دراز ہو‘ جب بھی اس قسم کا تضاد شخصیتوں اور مزاجوں میں پایا جائے گا‘ ناخوش گواری کا امکان تو رہے گا‘ گو ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ نے اس کا ’’شرعی حل‘‘ پوچھا ہے۔ بلاشبہ اسلامی شریعت میں زندگی کے تمام معاملات ومسائل کے لیے رہنما اصول و ہدایات موجود ہیں اور معاملات معاشرتی ہوں یا نفسیاتی‘ شریعت کے اصول و ہدایات کی روشنی میں ہی انھیں حل کیا جا سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ انسان (جنس کی قید سے آزاد ہو کر) جہاں ایک کمزور اور کم علم مخلوق ہے وہاں اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴) ایسے ہی انسان کی بولنے اور communicate کرنے کی صفت کے حوالے سے فرمایا: خَلَقَ الْاِنْسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۳-۴) ’’اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ چنانچہ قرآن انسان کو باربار متوجہ کرتا ہے کہ وہ زبان کے استعمال کے معاملے میں غیر معمولی ذمّہ داری اور احتیاط سے کام

لے مثلاً قول معروف کے بارے میں فرمایا:  قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ  وَّمَغْفِرَۃٌ  خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَا  اَذًی ط

(البقرہ ۲:۲۶۳) ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو‘‘۔ گویا میٹھی اور نرم بات کرنا ایسی خیرات اور فیاضی سے بدرجہا بہتر ہے جس میں طعن تشنیع‘ نوک جھونک‘ طنز و استہزا کا دخل ہو اور دوسرے کو اذیت پہنچے۔  سورہ النساء میں اس بات کو یوں فرمایا گیا: ’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو (۴:۸)۔ والدین کے حوالے سے یہ ہدایت دی گئی کہ ان کے ساتھ قول کریم یعنی انتہائی احترام‘ محبت اور احسان مندی کے ساتھ بات کی جائے اور کبھی اُف تک نہ کہا جائے (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳)۔ امہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ جب بات کریں تو اس میں کوئی لگاوٹ نہ ہو بلکہ سیدھی سادی اور مختصر بات ہو (الاحزاب ۳۳:۳۲) ۔گویا اس طرح تمام اہل ایمان خواتین کو بھی ہدایت کر دی گئی کہ وہ کس طرح دوسروں سے مخاطب ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگوئی اور زبان درازی کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور ایک حدیث میں‘جو  ابوداؤد میں منقول ہے‘ اس بنا پر رشتہ ازدواج کے منقطع کرنے تک کی اجازت دی ہے (یاد رہے کہ طلاق کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرنے والی چیز کہا گیا ہے)۔ ایک حدیث میں زبان درازی کے حوالے سے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا گیا ہے جو انتہائی عبادت گزار تھی اور رات رات بھر اللہ کی عبادت کرتی تھی‘ دن میں روزہ رکھتی تھی لیکن اس کی زبان سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ تھے۔ فرمایا گیا کہ اس خامی کی بنا پر اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو شخص دو چیزوں کی ضمانت دے اس کے لیے جنت مقدر کر دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک چیز زبان کی حفاظت بتائی گئی۔ دراصل ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کے حوالے سے بعض بنیادی مفروضے ایسے قائم کر لیے گئے ہیں جن کی اسلامی اخلاق میں کوئی گنجایش نہیں ہے ‘مثلاً یہ خیال کہ اگر شوہر اپنا رعب اور دبدبہ اپنے غصّے اور بلند اور گرج دار آواز میں بولنے کے ذریعے قائم نہیں کرے گا تو بیوی سے دب جائے گا۔ یا بیوی اگر شوہر کو دھمکی دے کر بات نہیں کرے گی تو شوہر اسے اپنی باندی بنا لے گا۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون‘ رحمت‘ برکت اور حفاظت کا باعث ہیں۔ یہاں اختیارات کی رسّہ کشی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تعاون‘ اور معروف کی بنیاد پر ایک پُرسکون خاندان اور معاشرے کی تشکیل ہے۔

ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہ کر نقص نکالنا ‘ الزام دینا اور ہر وقت برائی ڈھونڈنا ایک منفی طرز عمل ہے۔ اسلام بھلائی‘ معروف اور اچھائی کے فروغ کے لیے صرف نظر کرنے‘ وسعت قلب کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کا تعلّق لباس اور جسم کا بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح لباس جسم کو زینت‘ تحفّظ اور آسودگی دینے کے ساتھ عریانیت کو چھپاتا ہے اور شخصیت کے اظہار کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے‘ ایسے ہی شوہر اور بیوی کا تعلّق بھی ایک دوسرے کی خامیوں کوچھپاتے ہوئے اصلاح کے عمل کا نام ہے۔ اس میں صبروتحمل اور حکمت کا استعمال ہر قدم پر کرنا پڑتا ہے اور الفاظ سے زیادہ ان کے معانی پر غور کرتے ہوئے اصلاح حال کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ آپ نے سوال کے دوسرے حصے میں دریافت فرمایا ہے کہ اس بشری کمزوری پر کس طرح قابو پایا جائے اور جو شخص زبان درازی کا مرتکب ہو رہا ہو اس کا مواخذہ کیسے کیا جائے؟

دین نام ہی نصیحت کا ہے ‘یعنی خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش (الدین نصیحۃ … حدیث صحیح)۔ اس لیے مواخذہ اور گرفت کی جگہ محبت‘ افہام و تفہیم اور تعلیم کے ذریعے اس قسم کی بشری کمزوری کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک مومن یا مومنہ کو بھلے انداز میں بات سمجھائی جائے تو خراب سے خراب عادت کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ابھی دو دن قبل میں نے کسی قریبی عزیز سے دوران گفتگو یہ بات کہی کہ عصر کی نماز اگر تاخیر سے پڑھی جائے تو اسے حدیث میں منافق کی نماز کہا گیا ہے۔ وہ صاحب فوراً اٹھے اور غسل خانے کی طرف جانے لگے۔ میں نے پوچھا: خیریت؟ جواب ملا: میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے منافق کہیں۔ مجھے یقین ہے ایک پُرخلوص مشورہ طعنہ‘طنز‘ یاکسی پر گرفت کرنے کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ موثر ہوتا ہے۔ ہاں‘ یہ کام کرنے میں حکمت کے ساتھ صبر شرط ہے۔ وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی رہنما تعلیم یعنی حق کی وصیت اور یاد دہانی ‘ ایک مرتبہ نہیں باربار مختلف پیرایے میں خلوص و محبت کے ساتھ کی جائے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ دلوں کو تبدیل فرما دیتے ہیں۔ تمام انسانوں کے قلب و ذہن اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہیں اور وہ اپنے بندے کی خلوص نیت سے کی گئی ہر دعا اور کوشش میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

زرِسالانہ کی پیشگی وصولی

س :  ایک چیز فی الحال موجود نہیںکیااُس کی بیع (خرید و فروخت) جائز ہے ]مثلاً دسمبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہونے والا ماہنامہ ترجمان القرآن کا شمارہ فی الحال اس دنیا پر اپنا وجود نہیں رکھتا تو کیا سالانہ زرخریداری ادا کر کے اس کی بیع جائز ہے؟

ترجمان القرآن کی فی شمارہ قیمت ۲۰ روپے ہے جو کہ ۱۲ شماروں کی ۲۴۰ روپے بنتی ہے لیکن سالانہ خریدار کے لیے ۲۰۰ روپے ہے۔ ۴۰ روپے بچت سود کی مد میں نہیں آتی کہ آپ نے پہلے رقم لی اور اس کو کاروبار میں لگایا بعد میں اپنی مصنوعہ (مطبوعہ) چیز کو کم قیمت پر پہلے ادایگی کرنے والے کو دے دیا؟

ج :  بیع کی ایک صورت یہ ہے کہ چیز نقد ہو اور اس کے عوض میں رقم اُدھار ہو‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ رقم نقد ہو اور چیز اُدھار ہو۔

اخبارات و رسائل کے معاملے میں دونوں صورتیں رائج ہیں اور دونوں جائز ہیں۔ فریقین باہمی رضامندی سے ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر رسالے یا اخبار کی رقم کسی نے وصول کی ہو لیکن رسالہ کسی وجہ سے تیار نہ ہوسکا ہو‘یا خریدار تک نہ پہنچا ہو‘ یارسالہ بند ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں وصول کردہ قیمت واپس کرنا ہوگی۔ یہ ساری باتیں طے شدہ ہوتی ہیں اور رسالہ اپنے اوصاف کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے‘ فریقین میں تنازع کا موجب نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے لیے بیع سلم کی صورتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے (بیع سلم میں رقم پہلے ہوتی ہے اور چیز بعد میں مقررہ مہینہ یا تاریخ پر ادا کرنے کا وعدہ ہوتا ہے)۔ اور اس کے جواز میں کسی شک و شبے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔

ایک شخص جب پیشگی رقم وصول کرنے کی صورت میں رعایت کرے تو یہ سود کے ذیل میں نہیں آتا۔ نیز رسالے کی خریداری ایک لحاظ سے بیع و شرا ہے لیکن حقیقت میں ایک مشن کو پھیلانے کے لیے باہمی تعاون ہے۔ بیع و شرا بھی ہے لیکن درحقیقت ایک آدمی مال خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں خود بھی علم حاصل کرے اور دوسروں کی تعلیم کا انتظام بھی ہو۔ (مولانا عبدالمالک)

 

والدہ اور بیوی کے حقوق

سوال: مجھے درج ذیل تین اہم مسائل درپیش ہیں۔ ان میں میری رہنمائی فرما دیجیے۔

۱- میری ماہانہ تنخواہ ۲۵ ہزار روپے ہے۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ والد صاحب انتقال فرما چکے ہیں‘ جب کہ بوڑھی والدہ میری دو چھوٹی بہنوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ علیحدہ رہتی ہیں۔ دو بڑے بھائی ہیں جو الگ رہتے ہیں لیکن والدہ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ میں اپنی والدہ کو ہر ماہ ۶ ہزار روپے بھیجتا ہوں۔ ان کا اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ میری بیوی کا میرے ساتھ اس بات پر مستقل جھگڑا رہتا ہے کہ میں اپنی بچیوں کا خیال نہیں کرتا ‘ ان کے لیے پیسہ جمع نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں یا تو بالکل پیسے نہ بھیجوں یا پھر صرف ۳ ہزار روپے بھیجوں‘جب کہ ہمارے گھریلو اخراجات بہ خوبی چل رہے ہیں۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ بوڑھی والدہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دوں۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے میں کیا رویہ اختیار کروں؟

۲- میں ہر ماہ والدہ سے ملنے آبائی گھر بھی جاتا ہوں جس پر خرچ بھی اٹھتا ہے۔ میری بیوی اس پر جھگڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چار پانچ ماہ بعد جایا کروں‘ ماہانہ خرچ بھی بھیجتے ہیں اور ہر ماہ جاتے بھی ہیں‘ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ والدہ کو نہ ملوں۔

۳- میں جماعت اسلامی کا رکن بھی ہوں۔ دفتری مصروفیات کے بعد کچھ نہ کچھ وقت تحریکی کاموں کو دیتا ہوں۔ پھر چھٹی کے روز چونکہ طویل پروگرام ہوتے ہیں‘ ان میں بھی شرکت کرتاہوں۔ وہ اس بات پر جھگڑتی ہیں کہ میں دفتر یا جماعت کو زیادہ وقت دیتا ہوں‘ گھر اور بچیوں کے لیے میرے پاس کوئی وقت نہیں۔ میری اہلیہ طالب علمی کے زمانے سے جمعیت کی مخالف تنظیم کی سرکردہ رکن رہی ہیں۔ وہ لٹریچر کا مطالعہ بھی نہیں کرتی ہیں بلکہ مجھے نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جانے سے روکتی ہیں اور بسااوقات بچیوں کو پیچھے لگا دیتی ہیں۔ سختی کروں تو کہتی ہے کہ جماعتیوں کا اپنی بیویوں سے صحیح رویہ نہیں ہوتا۔ میرے لیے تو تحریک مقصد زندگی ہے۔ میں نے ایک بار کہا بھی کہ جماعت اسلامی یا بیوی میں سے ایک کو ترجیح دینا پڑی تو جماعت کو ترجیح دوں گا۔ گھر میں جھگڑے اور مستقل تنائو کی کیفیت ہے۔

جواب: آپ کا خط ہمارے آج کے معاشرتی ماحول کی بہترین عکاسی اور بعض بنیادی زمینی حقائق کی نشان دہی کرتاہے۔ آپ کی اہلیہ کا مطالبہ کہ آپ ان کو اور اپنی بچیوں کو وقت دیں اور خصوصاً اتوار کا دن صرف ان کے لیے وقف کر دیں حتیٰ کہ نماز بھی گھر میں ادا کریں‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الحمدللہ آپ کی اہلیہ آپ سے بہت قلبی تعلّق رکھتی ہیں اور اس بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کی نگاہوں کے سامنے گھر میں رہیں۔ مزید یہ کہ وہ آپ کی بچیوں سے بھی بہت محبت کرتی ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کی ضروریات کی طرف سے فکرمندی کی بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کے لیے جو کچھ مال و زر بچا سکتے ہیں‘ محفوظ کر لیں تاکہ انھیں آیندہ کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہ دونوں پہلو بہت قابل قدر ہیں۔ لیکن اپنے اور آپ کے اور آپ کی بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم پہلو جو غالباً ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گیا اسے قرآن کریم میں یقینی طور پر آنے والے دن (الیوم) سے تعبیر کیا گیاہے۔ کہیں اسے یومِ عظیم کہا ہے‘ کہیں یوم الفرقان‘ یوم الآخر اور یوم الدین۔

دراصل ہم آج کی ضروریات اور خواہشات میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ یقینی طور پر واقع ہونے والی کَل کو بھول جاتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم‘ ان کے لیے سازوسامان کی فراہمی اور وقت آنے پر ان کے ہاتھ رنگین کر کے انھیں اپنے گھر کا بنانا ‘ یہی وہ فوری معاملات ہیں جو ہمارے ذہن پر چھائے رہتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ایک دن اپنی دولت‘ وقت‘ صحت اور سب سے بڑھ کر ادایگی حقوق کا حساب دینا ہے‘ اور یہاں کی چند روزہ زندگی کے مقابلے میں ایک ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اُس زندگی میں اگر اہل خانہ سکون‘ آرام اور راحت میں نہ ہوں تو ماں باپ کو بھی کبھی چین نہیں آسکتا۔ اس لیے اِس زندگی میں اولاد اور بیوی کی صرف اس خواہش کا احترام کرنا چاہیے جو صاحب خانہ اور اہل خانہ کو آخرت میں مشکل پریشانی اور تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔

اب آیئے قرآن کریم کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جو کچھ کماتا ہے‘ اس مال پر کس کا حق ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (۲:۲۱۵) لوگ پوچھتے ہیں‘ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرواپنے والدین پر‘ اقربا پر‘ یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا ۔

یہاں اپنی کمائی خرچ کرنے کے حوالے سے سب سے پہلے والدین کا حق قیامت تک کے لیے طے کر دیا گیا ہے۔ پھر اقربا‘ بیوی‘ اولاد اور دیگر رشتے دار اور پھر یتیم‘ مسکین اور مسافر۔ گویا اہمیت کے لحاظ سے والدین کا ذکر خود اپنی اولاد اور بیوی سے پہلے کیا گیا۔ اس بات کو سورہ بنی اسرائیل میں ’’والدین کے ساتھ احسان کرو‘‘ (۱۷:۲۹) کہا گیا۔ یہاں احسان کا مفہوم وہ نہیں جو ہم اردو میں سمجھتے ہیں بلکہ قرآن میں اس کا مفہوم بہترین‘ احسن اور بدرجہ کمال ایک کام کا انجام دینا ہے جسے ہم excellence اور perfection کہتے ہیں۔

والدین اور خصوصاً والدہ کا عملی شکریہ اپنی خدمت‘ محبت‘ احترام اور ان کی ہر خوشی پوری کرنے کی شکل میں کرنے کا حکم بھی قرآن کریم نے یوں دیا: ’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اس لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۴) اس بات کو  سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵) اور سورہ العنکبوت (۲۹:۸) میں دہر ایا گیا۔ اسی طرح  سورہ بنی اسرائیل میں واضح احکام اس سلسلے میں دیے گئے ’’ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘‘ ایک یا دونوں کے بوڑھے ہونے کی شکل میں ’’انھیں اُف تک نہ کہنا‘‘ ‘ ’’احترام سے بات کرنا‘‘ اور ان کے لیے ہر وقت دعا کرنا کہ ’’پروردگار‘ ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ (۱۷:۲۳-۲۴)

ان آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ اولاد کاوالدین پر خرچ کرنا‘ ان سے نرمی‘ محبت و احترام سے بات کرنا‘ ان کا کہنا ماننا‘ ان کی خوشی کرنا‘ اور ان کے لیے دعا کرنا یہ والدین کا حق ہے۔ آپ کو علم ہے‘ حق کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اس کا ادا نہ کرنا گرفت کا باعث بنتا ہے۔

ایک حدیث صحیح میں یوں آتا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ شکایت کی کہ وہ مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہیں‘ جب کہ ان کا بیٹا مالی طور پر مستحکم ہے اور ان پر خرچ نہیں کرتا۔ آپؐ نے ان صحابی کے بیٹے کو بلا کر فرمایا کہ تم اور تمھارا مال تمھارے باپ کا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی مشہور حدیث ‘ جس میں کسی کے پوچھنے پر آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ ’’حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں ہے‘‘ (بخاری)‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔پھر مسلم کی وہ حدیث جس میں آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل ہو)‘‘۔ لوگوں نے پوچھا کہ کون ذلیل ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا‘ ان دونوں میں سے ایک کو یا دونوں کو‘ پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔

اتنی واضح قرآنی آیات اور احادیث کی موجودگی میں صرف وہی شخص جو آخرت میں ذلیل ہونا چاہتا ہو‘ اپنی ماں یا باپ پر خرچ کرنے سے ہاتھ روکے گا۔

گویاآپ کا اپنی والدہ ‘ دو چھوٹی بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی پر خرچ کرنا ان کا حق اور آپ کا فریضہ ہے۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو نہ صرف آپ بلکہ جو آپ کو اس فریضے سے باز رکھے وہ بھی جواب دہی میں شریک ہوگا۔اپنی اہلیہ اور بچیوں کی ضروریات پورا کرنے کے بعد آپ جو رقم بھی والدہ ‘ بہنوں اور بھائی پر خرچ کریں حقیقتاً وہی آپ کی اصل بچت ہے جس کا اجر آپ کو‘ آپ کی اہلیہ اور بچیوں کو بھی ان شاء اللہ ملے گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنے تمام مالی معاملات اہلیہ کے حکم سے طے کریں۔ نہ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے حقوق کی ادایگی اُن سے جھوٹ بول کر کریں۔ آپ کی اہلیہ کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کی کمائی میں ان سے پہلے آپ کے والدین کا حق ہے۔

آپ کا اپنی والدہ سے ہر ماہ جا کر ملاقات کرنا عین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اس میں چھ سات گھنٹے لگیں یا زیادہ‘ یہ ان کا حق ہے۔ اس کا کوئی تعلّق ماہانہ خرچ کے ساتھ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اسے ’’صلہ رحمی‘‘ یعنی رشتے کے احترام سے تعبیر کیا ہے‘ جب کہ ایسا نہ کرنا ’’قطع رحمی‘‘ یا رشتے کو توڑنا قرار دیا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کی اہلیہ اپنی اولاد کے بارے میں کبھی یہ پسند نہیں کریں گی کہ جب آپ کی اولاد بڑی ہو جائے تو وہ انھیں اور آپ کو اپنی محبت اور تعلّق سے آگاہ کرنے کے لیے سال میں صرف ایک مرتبہ ایک کارڈ پر یہ لکھ کر بھیج دیا کریں کہ ’’مجھے آپ سے بہت محبت ہے‘‘ ‘بلکہ وہ لازماً یہ چاہیں گی کہ ان کی اولاد ان کی مزاج پرسی اور دل جوئی کے لیے کم سے کم وقفے کے بعد ان سے آکر ملتی رہے۔

جہاں تک آپ کی تحریکی ذمہ داریوں کا تعلّق ہے‘ اپنے اتوار کے اوقات کار کو اس طرح مرتب کیجیے کہ دعوتی کام کے ساتھ کچھ وقت گھر میں بھی دے سکیں۔ گھر کا محاذ باہر کے محاذ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ترمذی میں حضرت ثوبانؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر ذخیرہ اللہ کو یاد کرنے والی زبان اور اللہ کے شکر کے جذبے سے معمور دل اور نیک بیوی ہے جو دین کی راہ پر چلنے میں اپنے شوہر کی مددگار بنتی ہے‘‘۔ اگر آپ کی محبت بھری کوشش سے آپ کی اہلیہ اس حدیث کے مصداق بن جائیں تو یہ تحریک اسلامی ہی کا کام ہے۔

گھریلو ماحول کو بہتر بنانا آپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ حدیث شریف میں سربراہ خاندان کو اپنے اہل خانہ پر مسئول کیا گیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کے مال اور بچوں پر مسئول‘ نگراں یا جواب دہ ہے۔ باہمی انسانی تعلّقات ایک بہت نازک معاملہ ہے۔ اس میں قانونیت کی جگہ حکمت‘ محبت ومؤدت زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اگر آپ کی اہلیہ تحریکی لٹریچر میں دل چسپی نہیں لیتیں تو اس کا سبب تنہا وہ نہیں‘ خود آپ کا طریق دعوت بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اپنی اہلیہ کو ہدایات دینے کی جگہ ان سے اپنے لیے ہدایت طلب کریں اور دریافت کریں کہ فلاں معاملے میں مجھے کیا کرنا چاہیے‘ اس سلسلے میں قرآن و سنت کیا کہتے ہیں‘ تووہ آپ کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے مطالعے پر مجبور ہوں گی اور ان شاء اللہ‘ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ کی سنت کا مطالعہ براہِ راست کریں گی تو اس کام کی برکت سے ان کی فکر خود بخود تبدیل ہو گی۔ آپ کا یہ کہنا کہ اگر انتخاب کرنا ہو تو تحریک آپ کی اوّلیت ہوگی‘ ایک قابل قدر جذبہ ہے لیکن اس بات کا کہنا حکمت کے منافی ہے۔ آپ کے یہ کہنے کے بعد اگر آپ کی اہلیہ تحریک کے ساتھ سوکن کی طرح پیش آتی ہیں‘ تو یہ بالکل فطری بات ہے۔ کوشش کیجیے کہ نہ آپ کا کچھ کہنا حرفِ آخر ہونہ وہ ضد کو اپنائیں‘ بلکہ دونوںخلوصِ نیت کے ساتھ قرآن و حدیث سے رہنمائی طلب کریں۔ اس طرح بغیر کسی ’’انا‘‘ کے ٹکرائو کے آپ دونوں کو فکری یک جہتی کا موقع ملے گا۔

نماز باجماعت کے اجر اور افضل ہونے پر احادیث میں واضح ہدایات پائی جاتی ہیں۔ آپ محبت اور نرمی سے ان احادیث کو اپنی اہلیہ سے پڑھوا کر سنیں اور ان سے پوچھیں کہ ان پر کس طرح عمل کیا جائے۔ اپنی بچیوں کو بھی ان احادیث کو سننے اور سمجھنے پر آمادہ کریں تاکہ جب آپ جماعت سے نماز پڑھنے جائیں تو وہ بجائے راستہ روکنے کے خوش ہوں۔ بیوی بچوں کے ساتھ سختی کے رویے کی جگہ محبت و نرمی کا رویہ سنت اور قرآن کو مطلوب ہے۔نبی کریم ؐ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ اچھے‘ محبت کرنے والے اور دوسروں کی فکر کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو بھی محبت اور نرمی سے اپنے اہل خانہ کو تحریک سے قریب لانا چاہیے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

مقبوضہ کشمیر میں قربانی

س : میں عیدالاضحی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں قربانی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے قربانی کا اہتمام کرنے والی تنظیم سے طریقۂ کار دریافت کیا تو معلوم ہو ا کہ ہر سال عید سے قبل جانور کی قیمت کا اندازہ لگا کر قربانی کی قیمت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ قربانیوں کی متوقع تعداد کا اندازہ لگا کر رقم پہلے ہی مقبوضہ کشمیر بھیج دی جاتی ہے اور شہدا ‘ متاثرین اور مجاہدین کے گھروں میں قربانی کا انتظام بھی بروقت کر لیا جاتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے لوگ قربانی کی رقم عید سے ایک روز پہلے تک جمع کرواتے رہتے ہیں۔ حتمی تعداد مقبوضہ کشمیرمیں منتظمین کو بتا دی جاتی ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ جانوروں کی تعداد ان لوگوں کی طرف سے پوری کر لی جائے جو قربانی کرانا چاہتے ہیں۔ اس طریق کار میںقربانی کے لیے رقم فراہم کرنے والوں کے نام تنظیم کے پاس موجود ہوتے ہیں اور قربانی انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘ لیکن ہر جانور پر قربانی کرنے والے کا نام لینا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کا نام جانور ذبح کرتے وقت لیا جانا ضروری ہے۔ براہِ کرم اس پورے نظام کی شرعی حیثیت سے آگاہ کریں۔

ج : کسی کی طرف سے کوئی دوسرا آدمی اس وقت قربانی کر سکتا ہے جب اسے کہا جائے کہ اس کی طرف سے قربانی کر دیں یا کرا دیں۔ اس لیے کوئی بھی فرد یا تنظیم پاکستان یا کشمیر میں کسی فرد یا تنظیم کو ان لوگوں کی طرف سے قربانیوں کے لیے کہہ سکتی ہے جنھوں نے اسے قربانیوں کے لیے کہا ہو اور ان کے نام اس کے پاس ہوں۔ اس طرح جگہ جگہ سے قربانیوں کے جو آرڈر ملیں گے ان سب کی مجموعی تعداد اپنے ناموں کے ساتھ متعین ہوگی۔ پاکستان یا کشمیر میں جو لوگ دوسروں کی طرف سے قربانیاں کرائیں گے وہ اس نیت سے قربانیاں کرائیں گے کہ یہ قربانیاں ان لوگوں کی طرف سے باری باری کی جا رہی ہیں جن کی قربانیوں کے لیے کہا گیا ہے۔

اس لیے قربانی کی قیمت کا قبل از وقت اندازہ کر لیا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں منتظمین کو قربانیوں کی خریداری کی ہدایت علی الحساب دے دی جائے اور رقم بھی علی الحساب بھیج دی جائے لیکن واضح کر دیا جائے کہ یہ سب کچھ علی الحساب ہے۔ حتمی تعداد کا تعین ہونے کے بعد اس کے مطابق ایک بار پھر اطلاع کر دی جائے کہ ہمارے پاس اتنے افراد کی قربانی آئی ہے‘ آپ ان کی طرف سے علی الترتیب اتنی قربانیاں کر دیں۔ جو رقم ہم نے آپ کو بھیجی ہے اس کے عوض ہم نے متعلقہ لوگوں سے رقم وصول کر لی ہے‘ اور جو قربانیاں زائد خریدی گئی ہیں‘ ان کو فروخت کر کے رقم اپنے پاس ہمیں واپس دینے کے لیے رکھ لیں۔ اگر اس طرح قربانی کی جائے گی تو متعلقہ لوگوں کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔ آپ اگر کشمیر میں قربانی کرانا چاہیں تو مذکورہ طریقے کے مطابق کرا سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱)  (مولانا عبدالمالک)