رسائل و مسائل


عبادات کا مقصد

سوال : میرے ایک عزیز جواَب لامذہب ہوچکے ہیں، عبادات، نماز، روزہ وغیرہ کو صرف بُرائی سے بچنے کے بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام و تعلیمات کے دفاع کی کوشش کرتا ہوں۔ میری راہ نمائی اور مدد کیجیے۔

جواب :عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں وہ بھی سخت ژولیدہ فکری (confused thinking)بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں۔ شاید انھوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز، روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں بُرائی سے بچنے کابہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب انھیں خلوص کے ساتھ کیا جائے ، اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسولؐ تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلافِ واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادت بُرائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکے گی؟ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف اُن فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں، بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۲ء)

عبادات میں اخلاص پیدا کرنے کا مطلب

سوال : ہمیں یہ کیوں کر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیںاور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں؟… قرآن و حدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع و سجود کے علاوہ کچھ نہیں پاتے، یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو تو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی، اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں عبادت کے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے، دل کو نااُمید و مایوس کرتی ہیں۔

اگر کوئی شخص اپنی عبادت کو معلوم شدہ نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرے اور اپنی دانست میں کربھی لے پھر بھی ممکن ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسا نقص رہ جائے جس کا اسے علم نہ ہوسکے اور یہی نقص اس کی عبادت کو لاحاصل بنادے.... اسلام کا مزاج اس قدر نازک ہے کہ بشریت کے تحت اس کے مقتضیات کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے۔

جواب : اسلام کا مزاج بلاشبہہ بہت نازک ہے، مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کردینےوالی ہیں، ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو اُن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، اور عبادات میں وہ روح پیداکرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باللہ، اخلاص للہ اور تقویٰ و احسان ہے۔ اس روح کو پیداکرنے کی کوشش کیجیے اور ریا سے، فسق سے، دانستہ نافرمانی سے بچیے۔ ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔وہ خود ہی آپ کو بتا سکے گا کہ آپ کی نماز میں، آپ کے روزے میں، آپ کی زکوٰۃ اور حج میں کس قدر اللہ کی رضاجوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے، اوران عبادتوں کو آپ نے فسق و معصیت اور ریا سے کس حد تک پاک رکھا ہے۔ یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو ان شاء اللہ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی، آپ کا نفس مطمئن ہوتا جائے گا۔ ابتداء ً جو نقائص محسوس ہوں، ان کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہوکر عبادت چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں۔

خبردار رہیے کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ اُبھرتا ہے، اُسے دراصل شیطان اُبھارتا ہے اور اس لیے اُبھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں ہے کہ اس کی عبادات کو قبولیت کادرجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کر رہے ہیں ، اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہروقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے اُمیدوار رہیے۔ مومن کا مقام بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء (خوف اور اُمید کے درمیان)ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجا لانے کی کوشش کرے، اور اُمید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا ربّ کسی کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)

نماز میں توجہ کی کمی کا مسئلہ

سوال : توجہ اور حضورِقلب کی کمی کیا نماز کوبے کار بنادیتی ہے؟ نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟ نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوریٔ قلب پیدا ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں۔ اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔

جواب : توجہ اور حضورِ قلب کی کمی نماز میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن فرق ہے اس بے توجہی میں جو نادانستہ ہو اور اس میں جو دانستہ ہو۔ نادانستہ پر مؤاخذہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان کو دورانِ نماز میں جب کبھی اپنی بے توجہی کا احساس ہوجائے، اسی وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرے، اور اس معاملے میں غفلت سے کام نہ لے۔ رہی دانستہ بے توجہی، بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز میں قصداً دوسری باتیں سوچنا، بلاشبہہ یہ نماز کو بے کار کردینے والی چیز ہے۔

عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر جو بے حضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کی تلافی جس حد تک ممکن ہو، نماز کے اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرنے سے کرلیجیے۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے، اس پر آپ عنداللہ ماخوذ نہیں ہیں، کیوں کہ آپ حکمِ خدا و رسولؐ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس بے حضوری پر آپ سے اگر مؤاخذہ ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب کہ خدا و رسولؐ نے آپ کو اپنی زبان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہوتی اور پھر آپ عربی میں نماز پڑھتے۔(ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)

روزے میں کھانا چکھنے کی حدود

سوال : کیا ایک عورت روزہ کے دوران کھانا تیار کرتے وقت، کھانا چکھ سکتی ہے،   جب کہ اس کا شوہر سخت مزاج بھی ہو اور کھانے کا ذائقہ صحیح نہ ہونے پر غصّہ بھی کرتا ہو؟ اسی طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت کیا اسے چکھ سکتی ہے؟

جواب :  ’کھانے‘ اور ’چکھنے‘ میں فرق ہوتا ہے۔ کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس چیز کو بڑی مقدار میں کھانا، چبانا اور نگلنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت چمچہ بھر غذا اپنے منہ میں ڈالتی ہے، اس کو چباتی ہے اور نگل لیتی ہے، تو یقینا اس نے اپنے روزے کو ضائع کر دیا۔ اب یہ حرکت خواہ اس نے اپنے شوہر کے غصے کی تلافی کی وجہ سے کی ہو یا کسی اور وجہ سے۔ اس صورتِ حال میں حکم یہی لاگو ہوگا کیونکہ اس نے غذا کو کھا لیا ہے، جو روزے کی حالت میں ممنوع ہے۔

کسی غذا کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس کو نگلنا ضروری نہیں۔ ذائقہ چکھنے کا کام زبان کی نوک انجام دیتی ہے۔ اگر ایک عورت غذا کا بہت معمولی سا حصہ منہ میں لیتی ہے اور ذائقہ معلوم کرنے کے بعد غذا حلق تک پہنچنے سے پہلے اس کو تھوک دیتی ہے تو اس کا روزہ برقرار رہے گا۔ علما اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اجازت صرف اس وقت ہے جب اس کی واقعی ضرورت ہو۔ کھانے کے ذائقے پر شوہر کے غصے کا اندیشہ ایسی ہی ایک صورت ہے۔

بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت اسے چکھنے کا مسئلہ کم شدید نوعیت کا ہے۔ بچے کی غذا کے گرم ہونے کا اندازہ ہاتھ سے لگایا جاسکتا ہے، جب کہ اس میں شکر یا نمک کی مقدار اس غذا کے پکانے کے نسخے سے درست رکھی جاسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس صورتِ حال میں بھی غذا کا ذائقہ اُوپر بتائے ہوئے طریقےکے مطابق پرکھا جائے تو اس سے روزہ ساقط نہیں ہوگا۔(ڈاکٹر اُمِ کلثوم)

تبلیغ کے لیے قرآن و حدیث کا علم

سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر ہمیں تبلیغ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا اگر علم تو ہو لیکن عمل نہ ہو، تو اس صورت میں بھی تبلیغ کا کوئی حق نہیں، مثلاً پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر تبلیغ کی جاتی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ کیا یہ خیال صحیح ہے؟
جواب :جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر کسی کو تبلیغ کا حق نہیں ہے، ان سے دریافت کیجیے کہ: پورے علم کی تعریف کیا ہے؟ اس کی حد کیا ہے؟ اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ پیمایش کیسے ہوگی کہ کسی کو پورا علم حاصل ہوگیا کہ نہیں؟ جن لوگوں کی عمریں قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے گزر گئی ہیں، وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انھیں پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو آدمی صحیح معنوں میں عالم ہوتا ہے، وہ مرتے دم تک طالب علم رہتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں یہ ہوا نہیں بھرتی کہ مَیں پورا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ ’پورا علم‘ حاصل کیے بغیر تبلیغ کرنا درست نہیں۔ 
یہ بھی دیکھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو بدوی آکر مسلمان ہوتے تھے اور پھر اپنے قبیلوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ کب پورے عالم بن کر جاتے تھے۔ بس دین کی بنیادی باتیں انھیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ وہ یہ جان لیتےتھے کہ حق کیاہے اور باطل کیا ہے؟ ہمارے فرائض کیا ہیں، کون کون سی چیزیں ہمارے لیے ممنوع ہیں، اور کن کن کی اجازت ہے؟ یہ باتیں وہ جان لیتے تھے اور جاکر لوگوں میں خدا کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور پورے پورے قبیلوں کو مسلمان بنا لیتے تھے۔
دوسرا سوال ہے عمل نہ ہوتے ہوئے تبلیغ کرنے کے متعلق___ اس کا جواب یہ ہے کہ  اللہ کے راستے کی طرف بلانا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر شیطان کے راستے کے بجاے اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے اور اس کے اپنے عمل میں خامی ہے، تو اس کا اللہ کے راستے کی طرف بلانا تو غلط نہیں ہے۔ اسے اس کام سے نہ روکیے اور نہ اس پر اعتراضات کیجیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب ایک آدمی یہاں تک آپہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہے، انھیں بُرائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے سامنے حق پیش کرتا ہے، تو اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ عمل اس کی اپنی زندگی کو بھی درست کردے گا۔ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ خود ہر وقت اپنے عمل اور زندگی پر بھی نظر دوڑائے گا، اور آہستہ آہستہ اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اب جو آدمی  خود بخود غلط سے صحیح راستے کی طرف آرہا ہے اگر آپ اسے بار بار ٹوکیں گے اور اس طرح اس کے واپس لوٹ جانے کا سبب بنیں گے، تو میرا خیال ہے کہ آپ خدا کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔ آپ کے اس طرح ٹوکنے کا نتیجہ یہی تو نکل سکتا ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف نہ بلائے، حق بات نہ کہے اور لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت نہ دے ۔ظاہر ہے کہ یہ نہایت غلط بات ہے۔ اگر اس کے عمل میں کوئی خرابی ہے تو، توقع کیجیے کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ آں حضوؐر سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوریاں کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو،یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔ یہ تو ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ:کم بخت جب تو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی آخری اُمید بھی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو و ہ مبتلا ہے ہی، اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن آپ وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل؟‘ بلکہ یہ فرمایا: اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی یا چوری نماز چھڑا دے گی‘۔ 
بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اصلاح کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، لیکن اصلاح کے لیے جس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس کے ابتدائی تقاضوں سے بھی واقف نہیں ہوتے، اور بسااوقات اپنے غیرحکیمانہ طرزِعمل سے درست ہوتے ہوئے آدمیوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔


’صلعم‘ یا ’   ؐ‘

سوال : آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ازراہِ احترام بعض لوگ ’صلعم‘  لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ صرف ’   ؐ‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : ’صلعم‘ لکھنا تو صحیح نہیں اور آںحضوؐر کے نام کے ساتھ لکھنا نامناسب ہے۔ البتہ  ’   ؐ‘لکھا جاسکتا ہے،لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل لکھا جائے۔


روزہ توڑنا

سوال : روزے کی حالت میں آدمی کسی شدید تکلیف میں مبتلا ہوجائے، تو کیا اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے؟
جواب : اگر تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجائے یا ڈاکٹر اسے بتا دے کہ جان جانے کا خطرہ ہے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایسی حالت میں انسان روزہ نہ توڑے اور جان دے دے، تو اس کا درجہ بلند ہوجاتا ہے؟
جواب : ایسا نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کی رُو سے انسان گناہ گار قرار پاتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں انسانی جان کے معاملے میں وہی معیار سامنے رکھنا چاہیے اور مومن کی زندگی کو وہی اہمیت دینی چاہیے، جو اسلام دیتا ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ جان پر آبنے یا تکلیف آپے سے باہر ہوجائے، تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔


محصول چونگی کا جواز

سوال : ایک فرد جو ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے تو کیا اس کے لیے محصول چونگی کی ادایگی بھی ضروری ہے؟
جواب : محصول چونگی دراصل اس شہر کا حق ہوتا ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں۔ یہ ان مصارف کے لیے ہوتا ہے، جن کے ذریعے آپ کو متعدد سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی ادایگی کرنی چاہیے۔ یہ درست نہیں ہے کہ آپ سہولتوں سے تو استفادہ کریں اور مصارف کی ذمہ داریوں سے بچیں۔


وساوس

سوال : انسان کے دل میں بعض اوقات طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں، ان میں سے بعض بہت بُرے ہوتے ہیں، کیا ان کی بنیاد پر گرفت ہوگی؟
جواب : وسوسہ جب تک دل میں اس طرح جم نہ جائے کہ اس کی بنیاد پر انسان کوئی غلط کام کربیٹھے، اس وقت تک نہیں پکڑا جائے گا۔

سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیّت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔

خیر اور شر کا وجود

سوال : کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟ 
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟ 
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔

نماز کے اثرات

سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟ 
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟ 
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ  مَنْ یَّفْجُرُکَ  ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

تقلید اور عدم تقلید

سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟ 
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟

جہیز کی شرعی حیثیت

سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔

نشہ آور اشیا اور ادویات

سوال : ’خمر‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ 
جواب :خمر کے معنی عربی لغت میں ڈھانک لینے کے ہوتے ہیں۔ چوں کہ شراب انسانی عقل کو ڈھانک لیتی ہے، یعنی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے، اس لیے کہ یہ لفظ شراب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوال : تو کیا اس سے مراد صرف شراب ہے یا اس میں دوسرے نشے بھی آجاتے ہیں؟ 
جواب :خمر کے معنی تو شراب کے ہی ہیں مگر اس کی تشریح حضرت عمرؓ کے بقول یوں ہے کہ وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ  الْعَقْلَ [مسلم:۵۴۸۰] یعنی ’خمر‘وہ ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔ گویا  اس میں ساری نشہ آور چیزیں آگئیں، اور خمر کے معنی محض انگوری شراب تک محدود نہیں رہے۔ اسی طرح حدیث میں یہ آیا ہے کہ:[مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ،ابوداؤد:۳۲۱۴] ’’جس شے کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘۔ گویا اس سے بھی دوسری نشہ آور اشیا کے استعمال کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی، خواہ وہ قلیل مقدار میں استعمال کی جائیں یا کثیر مقدار میں۔
سوال : آج کل بعض لوگ ذہنی سکون کے لیے بعض مُسکّن ادویات استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کا دماغ Dull[کند] سا ہوجاتا ہے۔ ایسی مُسکن ادویات اگر زیادہ مقدار میں استعمال کی جائیں، تو انسان اپنے آپ کو اُونگھتا ہوا، drowsy [خواب آلودہ،    نیم خوابیدہ] سا محسوس کرتا ہے۔ کیا ایسی چیزیں بھی نشے کی ذیل میں آتی ہیں؟
جواب :Dull ہونا اور چیز ہے، اور نشہ اور شے ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ نشے کی تعریف یہ ہے کہ انسان پر ایسی حالت یا کیفیت طاری ہوجائے کہ اسے اپنے ارادے پر اختیار نہ رہے اور اس کی قوتِ فیصلہ اور قوتِ تمیز ختم ہوجائے۔ لیکن وہ کیفیت جسے آپ Dull ہونا کہتے ہیں، وہ اور چیز ہے۔ ان دونوں کے فرق کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ: کوکین کے نشے میں مدہوش کوئی شخص اگر برسرِعام برہنہ بھی ہوجائے تو اسے احساس نہیں ہوتا کہ مَیں یہ کیا کر رہا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قوت تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس Dull ذہن کے آدمی کو ایسی حالت میں اپنے ننگے ہونے کا احسا س ہوگا۔ پہلی حالت نشے کی ہے، لیکن دوسری نہیں۔

بنک اور سود

سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟ 
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔

ٹپ کی شرعی حیثیت

سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟ 
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔

سائنسی تحقیق کی حد

سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔

عیسائیوں کے ساتھ کھانا

سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔

دو مساجد

سوال : لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟ 
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔

الفاظ کا استعمال

سوال : ’لیپاپوتی‘ اور ’لیپ پوت‘ میں کون سا لفظ صحیح ہے؟
جواب :دونوں صحیح ہیں۔ ’لیپاپوتی‘ بول چال کی زبان میں استعمال ہوتا ہے، لکھنے میں نہیں آتا، اور ’لیپ پوت‘ لکھنے میں آتا ہے۔

سوال : قرآن پاک میں آیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ  لِسُنَّۃِ اللہِ  تَبْدِیْلًا   ’’یعنی اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘ ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں کوئی exception [استثنا]  نہیں ہے، مثلاً اگر آگ کی خاصیت جلانا ہے تو وہ ہر ایک کو جلائے گی۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں بھی ہوتا، جیساکہ حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہے، اور ایسے ہی بعض دوسرے معجزات ہیں۔ توکیا معجزات کا صدور اس آیت کے خلاف نہیں پڑتا؟

جواب :لوگ دراصل context[سیاق و سباق] سے بات الگ کر کے اس کا مطلب نکالتے ہیں۔ وہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو قوم اللہ کے نبی ؑ کو آخرکار جھٹلا دیتی ہے، اللہ اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اب اس خاص موقعے سے الگ کر کے اس آیت کا مطلب نکالا جائے گا تو صحیح مفہوم خبط ہوجائےگا۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی سنت کیا ہے اور کیا نہیں؟ اس کا تعین اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ آگ ہمیشہ اور ہرمقام پر جلانے ہی کا کام کرے گی؟ اس کی اس چھوٹی سی زمین میں جو ایک بہت بڑی لامحدود کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، یہ بات آپ کو نظر آتی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ اس پر آپ نے اسے اللہ کا قانون قرار دے لیا، کہ آگ جلاتی ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہوسکتا۔ آخرکار یہ معلوم کرنے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے کہ اللہ کا قانون یہی ہے؟

جہاں تک آگ کا جلانا ایک physical law [طبعی قانون] قرار دیا جاتا ہے تو اس ’فزیکل لا‘ کی حیثیت کائنات کے لامحدود حقائق کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے کہ وسیع سمندر کے مقابلے میں چندقطروں کی ہوتی ہے۔ جو حقائق آج آپ کو معلوم ہیں اور آپ انھیں ’فزیکل لا‘ قرار دیتے ہیں۔ جب تک وہ حقائق آپ کو معلوم نہیں تھے تو آپ کا وہ ’فزیکل لا‘ (طبعی قانون) بھی کوئی چیز نہیں تھا۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو پہلے انسان کو معلوم نہ تھیں توفزیکل لا نہ تھیں۔ سوسال پہلے اگر کوئی کہتا کہ ایک ایسی سواری ہےجو ہوا میں اُڑ سکتی ہے تو لوگ اسے کہتے کہ ’تو جھک مارتا ہے‘ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ چیز اس وقت تک کے معلوم حقائق کے مطابق ’فزیکل لا‘ کے خلاف تھی۔ ان کے نزدیک تو ’فزیکل لا‘ یہ تھا کہ جوچیز ہوا سے زیادہ بھاری ہو، وہ ہوا میں نہیں ٹھیرسکتی۔ لیکن اب یہی چیز علم کے ذریعے سامنے آگئی ہے تو یہ طبعی قانون بن گیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو مالک اور حاکم ہے، اگر اس کا قانون اسے باندھ دے اور وہ اپنے قانون میں کسی تبدیلی کا اختیار نہ رکھتا ہو، تو یہ چیز اس کی حاکمیت اور قدرت کے خلاف ہوگی۔

اقامت ِ دین اور تبلیغِ دین 

سوال : اقامت ِ دین اور تبلیغ کے فرق کے بارے میں وضاحت فرمایئے؟ 

جواب :تبلیغ بلاشبہہ مفید چیز ہے مگر اس سے وہ تمام حقوق پورے نہیں ہوجاتے جو فریضۂ اقامت ِ دین کی رُو سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ محض کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر آدمی، اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کہہ دے، مگر ارادہ ہرگز یہ نہ ہو کہ یہ باتیں عمل میں بھی آئیں تو یہ چیز لِمَ  تَقُوْلُوْنَ  مَا لَا تَفْعَلُوْنَ [تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ الصف ۶۱:۲] کے زمرے میں آئے گی۔ 
مثلاً ایک بستی میں ایک شخص چاہتا ہے کہ لوگ نماز پڑھیں، تو کیا وہاں اس کا فرض محض نماز کے لیے کہہ دینا ہی ہے؟ یا ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے یہ بھی اس کا فرض ہے کہ جو لوگ نماز پڑھنے پر آمادہ نظر آئیں، ان کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے، انھیں یک جا کرے اور فریضۂ نماز کی بجاآوری میں ان کی مدد کرے۔ پھر وہاں نماز پڑھنے کے لیے مسجد بنانے کی فکر کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی ہو کہ وہاں وقت پر اذان دی جائے اور باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ یہ تمام چیزیں نماز کی تبلیغ کے لوازم ہیں۔ اب اگرکوئی شخص محض نماز کی تبلیغ کرکے بیٹھ رہے اور جب اس سے یہ کہا جائے کہ ان لوازم کے اہتمام کے لیے بھی آگے بڑھو، تو وہ کہے کہ یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے تو وہ تبلیغ نہیں کرتابلکہ محض ایک بات کہتا ہے جو کہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔
اگر کوئی گروہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لوازم پورے کرنے کے لیے کنواں کھودتا ہے تاکہ نمازیوں کو وضو کے لیے پانی میسر آسکے، مزدوروں کی طرح اینٹیں ڈھوتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر ہوسکے اور مبلغ یہ سب کچھ دیکھ کر کہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کنواں کھودنے یا اینٹیں ڈھونے کے لیے تو نہیں کہا تھا، میں نے تو صرف نماز پڑھنے کو کہا تھا، تو ظاہر بات ہے کہ ایسا کہنے والا تبلیغ کے تقاضوں اور فریضۂ اقامت ِ دین کے حقیقی مفہوم ہی سے ناآشنا ہے۔

بھارت میں مسلمان

سوال : بھارت میں مسلمان جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں، اس سے وہاں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ذہن میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

جواب :بھارت میں اس وقت جو مسلمان موجود ہیں، انھیں ملک نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ وہاں رہ کر کام کرناچاہیے۔ میں نے ہندستان کے آخری اجتماع میں بھی کہا تھا کہ جب تک کوئی سخت مجبوری لاحق نہ ہو ، کسی کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خود ہم نے پٹھان کوٹ میں فیصلہ کیا تھا کہ ڈٹ کر بیٹھیں گے، لیکن جب وہاں کی اور دُوردُور تک کی ساری آبادیاں مسلمانوں سے خالی کرا لی گئیں تو مجبوراً لاہور آنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بھارتی مسلمان صبر کے ساتھ رہیں اور اپنے رویے کو درست رکھیں۔ ان شاء اللہ حالات آج نہیں تو کل تبدیل ہوں گے۔ ہندوئوں کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات کا علاج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ دراصل پہلے انگریز دشمنی اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر ہندو قوم کا تشخص برقرار تھا۔ اب صرف مسلمان دشمنی باقی رہ گئی ہے۔ مسلمان دشمنی کے سوا ان کے پاس کھڑے رہنے کے لیے کوئی پائوں نہیں ہیں۔یہ پائوں اگر آپ نے کاٹ دیے تو پھر وہ ٹھیر نہیں سکیں گے۔ ہندو کا مقابلہ اگر آپ مسلمان قوم پرستی کے ذریعے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوئوں میں آپ کو ’مسلمانوں کے مطالبات‘ کے بجاے ’اسلام کے مطالبات‘ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورتِ حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آیندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہندوئوں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ خود ہندو اس صورتِ حال سے بیزار ہوجائیں گے۔

ہندو کون؟

سوال : ہندوئوں کے قومی تشخص کو، ہندو لیڈر مسلمان دشمنی کو ہوا دے کر برقرار رکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوئوں کا مذہب ان کے قومی تشخص کے لیے کافی نہیں ہے؟

جواب :ہندوئوں کی کوئی ایسی کتاب یا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر سب ہندو متفق ہوں۔ ۱۸۸۱ء میں جب مردم شماری ہوئی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ہندو کس کو قرار دیا جائے؟ کیوں کہ کسی کا کچھ عقیدہ تھا اور کسی کا کچھ۔ آخر یہ طے پایا کہ جس کا مذہب ہندستان سے متعلق ہو اور جو گائے کو مقدس مانے وہ ہندو ہے۔ ان کی کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جس پر یہ سب متفق ہوں۔ دیوتا بھی ایک نہیں، بلکہ کروڑوں ہیں۔ ان کے لٹریچر میں اپنے گروہ کے لیے کوئی نام بھی نہیں ہے، جس سے انھیں پکارا جائے۔ ہم برصغیر میں آئے اور انھیں ہندو کہنا شروع کیا تو ان کا نام ہندو پڑگیا۔

جہیز کی شرعی حیثیت

سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔

نظامِ عبادات اور جہاد

سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟

جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔

نماز کے فوائد

سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟ 

جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔

سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟ 

جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ  مَنْ یَّفْجُرُکَ  ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

ٹپ کی شرعی حیثیت

سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟ 

جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔

تقلید اور عدم تقلید

سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟ 

جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟

خیر اور شر کا وجود

سوال : مولانا، کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟ 

جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟ 
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔

عیسائیوں کے ساتھ کھانا

سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟

جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔

سائنسی تحقیق کی حد

سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟

جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔

دو مساجد

سوال : مولانا، لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟ 

جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔

بنک اور سود

سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟ 

جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔
 

فوجداری جرائم میں حقِ دعویٰ و مصالحت

سوال :

مروج قانونی اصطلاح کے مطابق جرائم جو مستلزمِ سزا ہیں، انھیں بالعموم دیوانی (Civil)اور فوجداری (Criminal)جرائم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دیوانی مقدمات میں عام طور پر مالی تاوان یا قید کی سزا دی جاتی ہے اور فوجداری جرائم میں اس کے علاوہ سنگین مقدمات میں موت تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسلامی قانون کی اصطلاح میں حدود یا قصاص کے مقدمات فوجداری نوعیت کے ہیں، مگر اُن کے مابین فرق و امتیاز واضح طور پر سمجھ میں نہیں آیا۔

 مثلاً یہ کہ اُن میں سے ہرجرم آیا قابلِ دست اندازیِ ریاست ہےیا نہیں؟ اور دعویٰ دائر ہوجانے کے بعد آیا ہر فوجداری مقدمہ قابلِ راضی نامہ ہے یا نہیں؟ بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ہرایسا مقدمہ قابلِ راضی نامہ مابین فریقین ہے۔ قتل کے مقدمات، قاتل و مقتول یا مقتول کے وارثوں میں قابلِ راضی نامہ ہیں، لیکن اِن میں حقِ دعویٰ اور قصاص لینے کا حق کس کو حاصل ہے؟ اگر اس میں مدعی و مدعا علیہ باہم مصالحت اور سمجھوتا کرلیں تو کیا ریاست یا حکومت ثبوتِ جرم کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرسکتی؟ اگرایسا ہو تو بعض قتل رائیگاں جائیں گے اور جن مجرمین کے پاس طاقت یا دولت ہے  وہ مظلومین کا منہ بند کردیں گے، نیز جو وارث مقتول کے قصاص کا مطالبہ کرسکتے ہیں  اُن کی کوئی متعین فہرست ہے یا ہرقسم کا رشتہ دار یا خاندان کا فرد اس کا حق رکھتا ہے؟

جواب :

اسلام کے نظامِ قانون کی رُو سے بعض فوجداری جرائم ایسے ہیں، جن میں ملزم کے خلاف حکومت یا ہر شہری مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتا ہے، مثلاً سرقہ، ڈاکا، رہزنی، زنا۔ ان جرائم کو جرائمِ حدود کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناقابلِ راضی نامہ ہیں۔ اس کے برعکس بعض جرائم ایسے ہیں، جن میں مستغیث یا فریق یا تو وہ شخص بن سکتا ہے، جو خود مظلوم اور ملزم کی تعدّی کا شکار ہوا ہو اور اگر مظلوم زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو تو صرف مظلوم کے اولیا اور ورثا ہی مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتے ہیں، البتہ کوئی وارث موجود نہ ہو تو پھر مظلوم کا ولی حاکم و قاضی ہوگا۔ اُن کے ماسوا کوئی دوسرا شخص فریقِ مقدمہ نہیں بن سکتا۔ اِن جرائم کو جرائمِ قصاص کہا جاتا ہے۔ جرمِ قتل کا شمار بھی جرائمِ قصاص میں ہوتا ہے، مگر اسے جرائمِ حدود میں شامل نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا (بنی اسرائیل۱۷:۳۳)قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اُس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔

قرآنِ مجید میں یہاں ’ولی‘ کے حق کے لیے ’سلطان‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد حجت ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس ارشادِ ربانی سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں، بلکہ اولیاے مقتول ہیں اور اولیاے مقتول سے مراد مقتول کے وہ وارث ہیں جنھیں شرعی قانونِ وراثت کی رُو سے مقتول کے ترکے میں سے حصہ مل سکتا ہے۔

امام کاشانی اپنی کتاب البدائع والصنائع  میں بیان من یستحق القصاص   (اس کا بیان کہ قصاص کا مستحق کون ہے)کے زیرعنوان فرماتے ہیں:

الْمَقْتُولُ لَا یَخْلُو إمَّا أَنْ یَکُوْنَ حُرًّا، وَإِمَّا أَنْ یَکُوْنَ عَبْدًا، فَإِنْ کَانَ حُرًّا لَا یَخْلُوْ إمَّا أَنْ یَکُوْنَ لَہُ وَارِثٌ، وَإِمَّا أَنْ لَمْ یَکُنْ، فَإِنْ کَانَ لَہُ وَارِثٌ فَالْمُسْتَحِقُّ لِلْقِصَاصِ ہُوَ الْوَارِثُ کَالْمُسْتَحِقِّ لِلْمَالِ..... وَالْوَرَثَۃُ خُلَفَاؤُہُ فِي اسْتِیفَائِ الْحَقِّ یَقَعُ الْإِثْبَاتُ لِلْمَیِّتِ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ آحَادِ الْوَرَثَۃِ خَصْمٌ عَنْ الْمَیّتِ فِي حُقُوقہِ کَمَا فِي الدِّیَۃِ وَالدَّیْنِ (بدائع الصنائع، جلد۷، ص ۲۴۲) مقتول آزاد ہوگا یا غلام، اگر وہ آزاد ہو تو اُس کا معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا، یا تو اُس کا کوئی وارث ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اگر اس کا کوئی وارث ہو تو قصاص کا مستحق وہی وارث ہے جس طرح کہ وہ مال کا مستحق ہوتا ہے۔ وارث ہی مقتول کے جانشین اور نائب ہوتے ہیں اور وارثوں میں سے ہر ایک مقتول کی طرف سے خصم، یعنی دیت اور قرض وغیرہ کے معاملات میں مدعی ہوتا ہے۔

یہ اصول دیگر کتب ِ فقہ میں بھی مذکور ہے، مثلاً ہدایہ کے ابواب القتل میں مصنف لکھتے ہیں:

اَلْقِصَاصُ طَرِیْقَہٗ طَرِیْقُ الْوِارَثَۃِ کَالدَّیْنِ وَھٰذَا لِاَنَّہٗ عِوَضٌ عَنْ نَفْسِہٖ فَیَکُوْنُ الْمِلْکُ فِیْہِ لِمَنْ لَہٗ الْمِلْکُ الْمُعَوَّضِ کَمَا  فِی الدِّیَۃِ، قصاص کے حصول کا طریقہ وراثت کے حصول کے مطابق ہے جس طرح وارث اپنے مورث کا ورثہ اور قرض وصول کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ قصا ص جان کا بدلہ ہے، تو قصاص میں بھی حق اور ملکیت اسی کو حاصل ہوگی جس کو دوسرے مالی حقوق دیت وغیرہ میں حاصل ہوتے ہیں۔

ہدایہ کی شرح عنایہ اور دوسری شرح  فتح القدیر میں مذکورہ بالا اصول درج کرنے کے بعد مزید وضاحت اور توجیہہ ان الفاظ میں درج ہے:

اَلْاَصْلُ اَنَّ اِسْتِیْفَاءَ الْقِصَاصِ حَقُ الْوَارِثِ عِنْدَہٗ ، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’اس کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ قصاص کی تحصیل و تکمیل وارث کا حق ہے‘‘۔

امام ابوحنیفہؒ کے دو رفقا اور شاگردقاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا استدلال فتح القدیر شرح ہدایہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَاَمَّا عِنْدَھُمَا الْقِصَاصُ حَقٌّ ثَابِتٌ لِلْمُوَرِّثِ اِبْتِدَاءً مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ ثُمَّ یَنْتَقِلُ بَعْدَ مَوْتِہٖ  اِلَی الْوَارِثِ بِطَرِیْقِ الْوِرَاثَۃِ کَسَائِرِ  اَمْلَاکِہٖ ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ’’حقِ قصاص ابتدا میں تو مورث کے لیے ثابت ہوتا ہے (اگر وہ زندہ رہے تو خود لے گا ورنہ) اُس کی موت کے بعد بہمہ وجوہ یہ حق وارث کی طرف بطریقِ وراثت منتقل ہوتا ہے جس طرح اُس کی جملہ املاک وارثوں کی جانب منتقل ہوتی ہیں۔

شریعت ِ اسلامی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو افراد ذمہ دارانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، اُن کی خطا پر بعض اوقات اُن سے زیادہ سخت طریق پر بازپُرس ہوتی ہے اور عام افراد کے مقابلے میں اُنھیں رعایت دینے اور نرمی اختیار کرنے کے بجائے شدت برتی جاتی ہے۔ سورئہ احزاب، آیت ۳۰ میں اَزواجِ مطہراتؓ سے فرمایاگیا:

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ يُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ط (الاحزاب ۳۳:۳۰) اے نبیؐ کی بیویو! تم میں سے اگر کوئی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی، تو اُسے دُہرا عذاب دیا جائے گا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ اَزواجِ مطہراتؓ سے ایسی بات کا اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود اُنھیں یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں اُن کا مقام جس قدر بلند ہے اس کے لحاظ سے اُن کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں۔ البحرالرائق جو حنفی فقہ کی معتبر کتاب ہے، اس کے حوالے سے مولانا عبدالشکور لکھنوی اپنی کتاب علم الفقہ، جلدسوم میں روزے کی قضا اور کفّارے کے زیرعنوان لکھتے ہیں:

اگر کسی بادشاہ پر کفّارہ واجب ہو تو اُسے غلام کو آزادکرنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم نہ دینا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں اُس کے نزدیک کچھ دشوار نہیں۔ ان سے کچھ بھی تنبیہہ اُس کو نہ ہوگی، بلکہ اُسے ساٹھ روزے رکھنے کا حکم ہونا چاہیے کہ اس پر گراں گزرے اور آیندہ رمضان کے روزے کو اس طرح فاسد نہ کرے۔

سزا دینے کے سلسلے میں حکومت کو بھی بعض استثنائی حالات میں تعزیری حق کی گنجایش ہے۔ اس سلسلے میں عبدالرحمٰن الجزری اپنی کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ (ج۵،ص ۲۶۵) میں لکھتے ہیں:

اِذَا عَفَا اَوْلِیَاءُ الدَّمِ عَنِ الْقَاتِلِ …… وَلٰکِنْ رَاَی الْحَاکِمُ اَنَّ اِطْلَاقَہٗ  یُھَدِّدُ الْأَمْنَ الْعَامَ فَلَہٗ اَنْ یُعَزِّرَہٗ بِمَاشَاءَ…… الخ  (یعنی اگر مقتول کے اولیا قاتل کو معاف کر دیں اور حاکم یہ دیکھیے کہ اِس معافی سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، تو حاکم اُس قاتل کو معافی کے بعد بھی جو سزا چاہے دے سکتا ہے۔

اب مذکورہ بالا اصول پر اسلامی عدالتی نظام سے ایک نظیر بھی (مرات سکندری، ۴۵-۴۶، بحوالہ ہندستان کے عہد رفتہ کی سچی کہانیاں، مطبوعہ اعظم گڑھ، ص ۱۵۵) ملاحظہ فرمایئے:

’’گجرات کے حکمران احمد شاہ اوّل (م:۱۴۳۲ء) کے داماد نے جوانی اور شاہی رشتے کے غرور وتکبر میں ایک شخص کو بے قصور قتل کر دیا۔ سلطان احمد شاہ اوّل کو معلوم ہوا تو اُس نے اپنے داماد کو باندھ کر قاضی کے پاس بھیج دیا۔ قاضی نے مقتول کے وارثوں کو دو سو اُونٹوں کے قصاص پر راضی کر کے سلطان کے سامنے پیش کیا۔ سلطان نے اُن کو دیکھ کر کہا کہ اگرچہ مقتول کے وارث راضی ہیں، لیکن مجھ کو خود یہ قبول نہیں کہ اس طرح دولت مند لوگ خونِ ناحق کرنے میں دلیر ہوجائیں گے، چنانچہ سلطان کا داماد قتل کیا گیا۔ سلطان کے حکم سے اُس کی لاش ایک روز تک دار پر لٹکتی رہی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں‘‘۔ (جسٹس ملک غلام علی)


پیداوار میں مزدور کا حصہ

سوال :

کیا قرآن و حدیث اور سلف سے اس کی کوئی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ مزدور کو اس کی اُجرت کے علاوہ پیداوار کے منافع میں بھی شریک کیا گیا ہو؟

جواب :

یہ مسئلہ دراصل مباحات میں سے ہے۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ انسان کو  جس چیز سے منع نہیں کیا گیا ہے اسے وہ اسلام کے حدود اربعہ کا لحاظ رکھتے ہوئے کرسکتا ہے۔  قرآن و حدیث میں ہمیں معاشیات کے بارے میں چند بنیادی اصول دیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہم اپنی ضروریات کے مطابق تفصیلات طے کرسکتے ہیں۔

جہاں تک سلف سے نظیر لانے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ جان لیجیے کہ اس زمانے میں سرمایہ اور محنت کے وہ مسائل ہی پیدا نہیں ہوئے تھے، جن سے ہمیں یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد سابقہ پیش آیا ہے۔ جدید معاشی نظام نے انسانیت پر جو ظلم ڈھائے ہیں ان کا قرنِ اوّل میں کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں تھیں، جن میں دس دس، بارہ بارہ افراد کام کرتے تھے اور ایک کنبے کی طرح وہ اپنے معاملات طے کر لیا کرتے تھے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو اس نے بڑی تیزی سے پوری دنیا میں اپنے پنکھ پھیلا دیے اور گھریلو صنعتیں (Cottage Industries) دم توڑنے لگیں۔ بڑے بڑے کارخانے لگ گئے اور ہزاروں آدمی بیک وقت ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ محنت کش ایک بہت بڑے کارخانہ دار کے دست ِ نگر ہوگئے۔کارخانہ دار انھیں من مانی شرائط پر ملازم رکھنے لگا، اور وہ مجبور تھے کہ کارخانہ دار کی شرائط پر کام کریں، کیوں کہ کام نہ کرنے کی صورت میں ان کا جینا محال تھا۔ ان کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ ایک دن ہی فاقے سے بچ سکیں۔ دوسری طرف کارخانہ دار اتنی دولت کا مالک تھا کہ وہ دو سال بھی کارخانہ نہ چلائے تو اللے تللے سے رہ سکتا تھا۔ مزدورکی اس مجبوری سے سرمایہ دار نے خوب فائدہ اُٹھایا۔ بالآخر مزدوروں کے اندر اس ظلم کے خلاف لہر اُٹھی اور انھوں نے متحد ہوکر آواز بلند کی تو سرمایہ دار کو اس متحدہ قوت کے سامنے جھکنا اور مزدوروں کے انسانی حقوق تسلیم کرنا پڑے۔ ایک مدت کی جدوجہد کے بعد یورپ میں مزدور اور کارخانہ دار کے تعلقات خوش گوار مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔

اب سوال کے اصل نکتے کی طرف آتا ہوں، یعنی کیا مزدور کا اُجرت کے علاوہ نفع میں بھی حصہ ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مزدور کو جو اُجرت ملتی ہے وہ دراصل نفع ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ وہ نفع میں اس کی نسبت کے عین مطابق ہو۔ چونکہ مزدور کو اپنی گزراوقات کے لیے ایک ماہانہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے وہ رقم اسے تنخواہ کی صورت میں مل جاتی ہے، لیکن زائد منافع اس کا محفوظ رہتا ہے جو سال چھے مہینے میں پورا حساب لگانے کے بعد اسے بونس کی شکل میں ملنا چاہیے۔(سیّدابوالاعلٰی مودودی)


مزدور نقصان کا ذمہ دار کیوں نہیں؟

سوال :

جب مزدور منافع میں شریک ہونے کا دعوے دار ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اسے نقصان میں بھی برابر کا شریک ٹھیرایا جائے؟

جواب :

شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ ’شرکت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں اپنے سرمایے کے ساتھ شریک ہو۔ ایسی صورت میں کاروبار میں ہونے والے نفع اور نقصان میں دونوں حصہ دار قرار پاتے ہیں۔ اور ’مضاربت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں محض اپنی محنت کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور محنت کے صلے میں وہ اس کاروبار سے نفع حاصل کرتا ہے، مگر وہ اس کاروبار میں ہونے والے کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ایک مزدور اور کارخانہ دار کے درمیان یہی ’مضاربت‘ کا تعلق ہے، جس میں نقصان کی زد اس پر نہیں پڑتی۔ (سیّدابوالاعلٰی مودودی)


مشترکہ تجارت میں خسارہ کا تناسب

سوال :

میں کئی برس سے ایک کاروبار کررہا ہوں ۔ میں نے اپنے ایک دوست کو  پیش کش کی کہ وہ بھی اس میں شریک ہوجائے۔ وہ اس پر رضا مند ہوگیا۔ اب کاروبار میں میرا سرمایہ ۷۰ فی صد اور میرے دوست کا ۳۰ فی صد ہے ۔ ہم اس پر متفق ہوگئے کہ نفع میں دونوں برابر کے شریک ہوںگے ، یعنی نفع میں ہر ایک کا حصہ ۵۰ فی صد ہوگا۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر کاروبار میں خسارہ ہوتو کیا اس میں بھی ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے، یعنی ہر ایک کو۵۰ فی صد خسارہ برداشت کرنا ہوگا، یا جس کا سرمایہ جس تناسب سے لگا ہوا ہے اس کے اعتبار سے اسے خسارہ برداشت کرنا ہوگا؟

جواب :

مشترکہ تجارت ’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ ’شرکت‘ یہ ہے کہ دو یاد و سے زائد افراد متعین سرمایوں کے ساتھ کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ان کے درمیان یہ معاہدہ طے پائے کہ وہ مل کر کاروبار کریںگے اور نفع ونقصان میں ان کی شرکت متعین تناسب کے ساتھ ہوگی۔ ’مضاربت‘ یہ ہے کہ ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے اوران کے درمیان یہ معاہدہ ہوکہ نفع میں ایک متعین تناسب سے اسے حصہ ملے گا۔

’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں صورتوں میں نفع دونوں فریق کے درمیان باہم طے کردہ تناسب سے تقسیم ہوگا۔ کسی فریق کے لیےکوئی متعین رقم طے کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ سوال کہ کیا شرکاے کاروبار باہم رضا مندی سے نفع کی تقسیم جس تناسب کے ساتھ چاہیں ، کرسکتے ہیں ؟ ’مضاربت‘ کی صورت میں اس کا جواب تمام فقہا اثبات میں دیتے ہیں ، البتہ ’شرکت‘ کی صورت میں ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف اورحنابلہ اس صورت میں بھی شرکاے کاروبار کواجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے درمیان نفع کی تقسیم کا جوتناسب چاہیں ، طے کرسکتے ہیں، لیکن مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ نفع کی تقسیم شرکا کے فراہم کردہ سرمایوں کے تناسب سے عمل میں آئےگی۔

جہاںتک نقصان کا معاملہ ہے ، شرکت کی صورت میں وہ ہمیشہ کاروبار میں لگے ہوئے سرمایوں پر ان کی مقداروں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گااوراسے ان سرمایوں کے مالک برداشت کریں گے۔ مضاربت کی صورت میں مُضـارِب (کاروبارکرنے والے) پر نقصان کا کچھ بار نہیں ڈالا جائے گا ، اسے کلّی طورپر صرف سرمایہ دار کوبرداشت کرنا ہوگا۔

نفع اورنقصان میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک نفع سرمایہ لگاکر کاروباری جدو جہد کرنے کا نتیجہ ہے، جب کہ نقصان کسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ کاروباری جدو جہد کے باوجود سرمایے میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ اسلامی معاشیات کے ممتاز ماہر پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے کاروبار میں نفع اورنقصان کے فرق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:

نفع اورنقصان کی نوعیت میں اصولی فرق کا شریعت نے لحاظ رکھا ہے ۔ یہ بات مضاربت کے شرعی اصول سے واضح ہے۔اگر کاروبارِمضاربت میں نقصان ہو تو کاروباری فریق کو اس نقصان کا کوئی حصہ نہیں برداشت کرنا ہوگا ۔ اس نے سرمایے کے ذریعے کاروبارمیں جدوجہد کی، تاکہ سرمایے میں اضافہ ہو اوراس نفع میں سے اسے بھی حصہ ملے، لیکن باوجود کوشش کے اضافہ نہ ہوسکا۔ اس کی کاروباری جہدوجہد ناکام رہی، اسے کوئی نفع نہیں ملے گا۔ یہی اس کا نقصان ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر سرمایے میں واقع ہونے والی کمی، یعنی کاروبار میں خسارے کا بار نہیں ڈالا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریعت نقصان کو کاروباری جدوجہد کا نتیجہ یا ثمرہ یا حاصل نہیں قرار دیتی۔ وہ نقصان کوسرمایے میں نقصا ن قرار دیتی ہے ۔ اس کے برعکس اگرمضاربت پر سرمایہ حاصل کرکے کاروباری جدوجہد کرنے والے کی کوششیں کا م یاب ہوئیں اور کاروبار میں نفع ہوا تو اسے اس نفع میں سے ایک حصہ ملتا ہے۔معلوم ہوا کہ شریعت نفع کو سرمایے کے ساتھ کاروبار ی جدوجہد کا نتیجہ اورثمرہ قرار دیتی ہے ۔ شریعت نے نفع اور نقصان کوایک درجہ نہیں دیا ہے، نہ ان کی تقسیم کا اصول ایک رکھا ہے۔(شرکت ومضاربت کے شرعی اصول، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی ،۱۹۸۴، ص ۳۳-۳۴)

خلاصہ یہ کہ مشترکہ تجارت کے دو فریق الگ الگ تناسب میں اپنا سرمایہ لگانے کے باوجود نفع میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں، لیکن نقصان کی صورت میں انھیں اپنے لگائے ہوئے سرمایے کے تناسب کے مطابق ہی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)


خواتین کا چست لباس پہننا ؟

سوال :

آج کل عورتوں میں چست لباس بطور پہناوا بہت عام ہوگیا ہے ، خاص طور پر جسم کے نچلے حصے میں پہنا جانے والا لباس ۔ چنانچہ ٹانگوں کا حجم بالکل نمایاںرہتا ہے۔ بسااوقات دینی حلقوں کی خواتین بھی ایسا لباس زیب تن کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ کیا’عموم بلویٰ‘ کی وجہ سے ایسا لباس اب جواز کے دائرے میں آگیا ہے ؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب: ضروری ہے کہ لباس سے ستر پوشی ہو۔ شریعت میں عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ (کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر قراردیا گیا ہے اوراسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئیں۔ اس وقت ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے اپنا رُخ پھیر لیا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

یَااَسْمَائُ ! اِنَّ الْمَرْاَۃَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ یُّرٰی مِنْہَا اِلاَّہٰذَا وَہٰذَا (سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فیما تبدی المرأَۃ من زینتہا، حدیث:۴۱۰۴)، اے اسماء! عورت جب سنِّ بلوغ کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے، سواے اس کے اوراس کے (یہ فرماتے ہوئے آپؐ نے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا )۔

حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اتنا باریک نہ ہو کہ اس کا بدن جھلکے۔ اس لیے کہ اس صورت میں ستر پوشی نہیںہوسکتی ، بلکہ اس سے عورت کے محاسن میںاضافہ ہوگا۔ حدیث میں اس کے لیے بہت بلیغ تعبیراختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : نِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ ...... لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ رِیْحَہَا ( مسلم ، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات ،حدیث ۲۱۲۸) ’’ایسی عورتیں جوکپڑے پہن کر بھی عریاں معلوم ہوں و ہ جنت میں نہیں جائیںگی ، بلکہ و ہ جنت سے اتنی دوری پر ہوںگی کہ جنت کی خوش بوبھی ان تک نہیں پہنچ سکے گی‘‘۔

عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضـروری ہے کہ وہ اتنا چست نہ ہو کہ اس کے جسمانی نشیب وفرا ز نمایاں ہوجائیں اوراعضا کا حجم دکھائی دینے لگے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قطبی کپڑا تحفے میں بھیجا ۔ اسے آپؐ نے مجھے عنایت فرمایا ۔ میںنے اسے اپنی بیوی کودے دیا ۔ کچھ دنوں کے بعد آپؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا : ’’تم نے اس قطبی کپڑے کو کیوں نہیں پہنا؟ ‘‘ میںنے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے اسے اپنی بیوی کو دے دیا ہے ۔ ‘‘ آپ ؐ نے فرمایا :مُرْہَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَہَا غِلاَلَۃً، اِنِّی اَخَافُ اَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِہَا (احمد : ۲۱۷۸۶) ’’اس سے کہو کہ اس کے نیچے استر لگالے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے بغیر ہڈیوں کا حجم ظاہر ہوگا‘‘۔

اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان خاتون کے لیے چست لباس پہنا درست نہیں ہے ۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (مولانا رضی الاسلام ندوی)


 

تعزیت کا مسنون طریقہ

سوال : تعزیت کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں مروجہ طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد، میت کے وارث اپنے گھر کے دروازے پر یا گائوں کے دارا میں چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس دوران حقہ نوشی اور گپ شپ کا دور بھی چل رہا ہوتا ہے۔ جو بھی آتا ہے منہ سے یہ لفظ نکالتا ہے: ’دعاے خیر‘ پھر تمام کے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ دُعا کی کیا عبارت ادا کرتے ہیں؟

جواب :حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ عَزَّی مُصَابًا  فَلَہُ مِثْلُ اَجْرِہٖ (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے مصیبت زدہ کی تعزیت کی (یعنی اس کو تسلی دی اور اس سے ہمدردی کی) تو اس کو اتنا اجر ملتا ہے، جتنا اس مصیبت زدہ کو ملتا ہے‘‘۔

دوسری روایت میں آیا ہے کہ مَنْ عَزَّی ثَکْلٰی کُسِیَ بُرْدً ا فِی الْجَنَّۃِ  (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے اس عورت کو حوصلہ دیا جس کا بچہ مر گیا ہو تو اسے جنّت میں ایک خاص قسم کی چادر پہنائی جائے گی‘‘۔

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تعزیت ایک سنت ہے اور قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے نتیجے میں غم زدہ کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔ بعض فقہاے حنفیہ نے اس کے لیے مسجد میں یا گھر پر باقاعدہ بیٹھنے اور مجلس لگانے کو مکروہ کہا ہے (شامی،ص ۸۴۲، ج۱، الجنائز)۔لیکن بعض نے اپنے گھر میں یا مسجد میں تین روز تک بیٹھنا اور لوگوں کا تعزیت کے لیے آنا جائز قرار دیا ہے (فتاویٰ عالم گیری، ج اوّل، ص ۱۶۷)۔مگر دروازے یا راستے میں بیٹھنے کو تو سبھی فقہا نے مکروہ ترین فعل قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری، اوّل، ص ۱۶۷)

تکلفات کے بغیر اپنے گھر پر اگر میت کے اقربا بیٹھے ہوں تو مضائقہ نہیں ہے۔ آنے والے دُعا بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعی دُعا ہو صرف رسمِ دُعا نہ ہو۔ لیکن تعزیت کے مسنون الفاظ وہ ہیں، جو رسولؐ اللہ سے مروی ہیں: اِنَّ لِلہِ  مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْیءٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمّٰی (البخاری، کتاب الجنائز، حدیث: ۱۲۳۷)’’بے شک اللہ ہی کی ہے وہ چیز جو اس نے لے لی ہے اور اسی کی ہے وہ چیز جو اس نے دی ہے اور ہرچیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے‘‘۔ یا پھر یہ الفاظ کہ ’’اللہ تعالیٰ مرحوم (یا مرحومہ) کی مغفرت فرمائے، اس کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے، اسے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور آپ کو اس مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ اگر کافر کی تعزیت کرنی ہو تو یہ الفاظ کہے جائیں:’’اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بدل اور تمھارے کنبے کا شمار کم نہ کرے‘‘۔ (فتاویٰ عالم گیری، ایضاً)۔(مولانا گوہر رحمٰن)


عہد نبویؐ میں مسجد کا دعوتی اور سرکاری مرکز ہونا

سوال : ہمارے درمیان ایک اہم مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے کہ مسجد کوسیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو اس کے کیا دلائل ہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا توجیہہ ہے؟

جواب :عہد نبویؐ میں مسجدمسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ یہ محض عبادت اور نماز کی جگہ نہیں تھی بلکہ جس طرح نماز کے لیے مسجد عبادت گاہ تھی اسی طرح حصولِ علم کے لیے جامعہ، ادبی سرگرمیوں کے لیے اسٹیج، مشاورتی اُمور کے لیے پارلیمنٹ اور باہمی تعارف کی خاطر مرکز ملاقات کا کام دیتی تھی۔ عرب کے دُور دراز علاقوں سے وفود آتے تو مسجد ہی میں  آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا انتظام ہوتا اور تمام دینی، معاشرتی اور سیاسی تربیت کے لیے آپؐ مسجد ہی میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔

آںحضوؐر کے زمانے میں دین اور سیاست علیحدہ علیحدہ چیز نہیں تھی، جیساکہ آج تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مسائل کے حل کے لیے اور سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے حضوؐر کے پاس الگ الگ مراکز نہیں تھے۔ دونوں طرح کے مسائل مسجد ہی میں نمٹائے جاتے تھے۔

عہد نبویؐ کی طرح خلفاے راشدینؓ کے عہد میں بھی مسجد مسلمانوں کی تمام دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہواکرتی تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ نامزد ہونے کے بعد اپنا پہلا سیاسی خطبہ مسجد ہی میں دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی سیاست کے خدوخال بیان فرمائےتھے۔ آپؓ نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا: ’’اے لوگو! میں تمھارا خلیفہ مقرر کیا گیا ہوں، حالاں کہ میں تم میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر باطل پر پائو تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔ اسی مسجد میں حضرت عمرؓ نے بھی اپنا پہلا سیاسی خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا: ’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص مجھ میں کجی دیکھے، تو اسے چاہیے کہ مجھے سیدھا کردے‘‘۔ کسی شخص نے دورانِ خطبہ برملا کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے آپ کے اندر کوئی کجی پائی تو تلوار کی دھار پر آپ کو سیدھا کردیں گے‘‘۔ آپؓ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’شکر ہے اللہ کا، جس نے عمر کی رعایا میں ایسے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو عمر کو تلوار کی دھار پر سیدھا کرسکتے ہیں‘‘۔ یہ رول ہوا کرتا تھا مسجدوں کا اس زمانے میں جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا۔ لیکن جب اُمت مسلمہ میں انحطاط اور زوال کا دور شروع ہوگیا اورمسلم معاشرہ پس ماندگی کا شکار ہوگیاتو مسجدوں نے بھی اپنا ہمہ جہت رول کھو دیا، وہ صرف نمازوں تک محدود ہوکر رہ گئیں، اور جمعے کے خطبے بے جان اور بے اثر ہوگئے۔

مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کو اس قدر غلیظ اور بدنام کیوں تصور کیا جاتا ہے، حالاں کہ سیاست بہ حیثیت علم نہایت سنجیدہ اور اعلیٰ و ارفع علم ہے۔ سیاست بذاتِ خود نہ بُری اور مذموم چیز ہے اور نہ جرم، لیکن جس سیاست میں اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو اور مقصد حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے جائیں، وہ سیاست اپنے غلط طریقۂ کار کی وجہ سے یقینا گندی سیاست ہے۔ رہی وہ سیاست جس کا مقصد کارہاے حکومت کو اس طرح انجام دینا ہو کہ معاشرے میں ظلم و فساد کی سرکوبی ہو، مصالح عامہ کی بازیابی اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہو تو یقینا ایسی سیاست ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور اس اہم حصے کی انجام دہی کے لیے مسجدوں کو ان کے فعال کردار سے محروم کرنا زبردست غلطی ہوگی۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس میں عقیدہ بھی ہے، عملِ صالح بھی اور عملِ صالح کی طرف لوگوں کو بلانا بھی۔ لوگوں کو اچھی باتیں بتانا اور بُری باتوں سے خبردار کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ۝۰ۭ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) تم وہ بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کی خاطر نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

حدیث شریف ہے: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (مسلم) ’’دین نام ہے اس کا کہ لوگوں کو نصیحت کی جائے اور انھیں بھلی بات بتائی جائے‘‘۔

قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جن قوموں نے اس فریضے کی طرف سے غفلت برتی وہ اللہ کے نزدیک ملعون قرار پائیں:

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝۷۸ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝۷۹ (المائدہ ۵:۷۸-۷۹) بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اورزیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ بڑا بُرا عمل تھا جو وہ کر رہے تھے۔

اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس اہم دینی فریضے کی ادائی میں مساجد کا بھی رول ہو اور اس عظیم الشان پلیٹ فارم سے لوگوں کی سیاسی اور فکری تربیت کا عمدہ انتظام ہو۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس عظیم منبر سے مسلمانوں کو ان کے دینی، سیاسی اور ملّی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان مسائل کا حل پیش کیا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر دشمنوں نے حملہ کیا تھا تو وزارت اوقاف کی طرف سے مجھے حکم ملا تھا کہ مَیں قاہرہ کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دوں اور لوگوں میں دشمنوں کے خلاف جذبوں اور حوصلوں کا اضافہ کروں۔ وقت کا شدید تقاضا تھا کہ مَیں اس منبر کو سیاسی اور جنگی مسائل پر خطبہ دینے کے لیے استعمال کروں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے خاطرخواہ مفید نتائج برآمد ہوئے، حالاں کہ خود مصری حکومت نے اس سے قبل مجھ پر ہرقسم کی تدریسی و تقریری پابندی لگا رکھی تھی۔

مسجدوں میں ایسے خطبے بھی دیے جاسکتے ہیں جن میں حکومت کی غلط اور غیرمفید پالیسیوں پر تنقید کی جائے اور اربابِ حکومت کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا جائے، بشرطیکہ ان خطبوں میں نام لے کر کسی خاص شخص کو لعن طعن کرنے سے پرہیزکیا جائے اور ان تمام باتوں سے اجتناب کیا جائے، جو شرعی حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسجدوں کے خطبے اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ شریعت کے لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ برسرِاقتدار پارٹی یا اپوزیشن پارٹیاں محض سیاسی پروپیگنڈوں کے لیے مسجدوں کو استعمال کریں۔(ڈاکٹر یوسف القرضاوی)


مسلمان عورت کاقادیانی سے نکاح

سوال : میرا نکاح پانچ برس قبل ایک شخص کےساتھ ہوا۔مجھےبعد میںمعلوم ہوا کہ یہ صاحب  پیدایشی قادیا نی (احمدی)ہیں۔نکاح کے وقت بھی قادیانی خیالات رکھتے تھے۔ افسوس کہ مجھےاورمیرےخاندان کواس جماعت کےبارےمیں پہلےکچھ علم نہ تھا۔ نکاح کے بعد مجھےزبردستی درج ذیل عقائد ماننےکو کہاگیا:

-   مرزاغلام احمدقادیانی مہدی ہیں۔ان پراللہ کی طرف سے وحی آتی تھی۔

-   حضرت عیسیٰؑکی وفات ہوگئی ہے۔اب وہ دنیامیںواپس نہیں آئیں گے۔

-   پنجاب میں واقع قادیان مثلِ مکہ ہے، جس کی زیارت سےحج کاثواب ملتا ہے۔

مجھےایک’ بیعت فارم‘ دیاگیااوراس پر دستخط کرنے کو کہاگیا۔اس میںلکھاہوا تھا کہ ’’میں خود کو احمد یہ جماعت میں شامل کرتی ہوں ۔میرا عقیدہ ہے کہ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   ’خاتم النبیین‘ہیں اورحضرت مرزا غلام احمد وہی امام مہدی ہیں جن کی بشارت   حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔ میں حضرت مرزا مسرور احمد کو خلیفۃ المسیح مانتی ہوں اور ان کی اطاعت کا وعدہ کرتی ہوں‘‘۔

میں نے اس فارم پر دستخط کرنےسےانکار کردیا۔ اس کےبعد مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت دی جانےلگی اورپریشان کیاجانےلگا،جس کی وجہ سے میں بیمار رہنےلگی ہوں۔ لاعلمی میںمجھ سے جوگناہ ہوگیا ہے ، اس سے میں بہت شرم سار ہوں اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ہوں ۔ مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات سے نوازیں:

۱-  کیا ان صاحب سے میرا نکاح درست ہے؟

۲- اگریہ نکاح درست نہیں توکیا مجھے خلع یا فسخِ نکاح کے لیے کوئی کارروائی کرنی ہوگی؟

۳- اگر یہ لوگ مجھے یامیرے خاندان کو کچھ نقصان پہنچانا چاہیں اورہمارے خلاف کوئی قانونی کارروائی کریں تو اس سے بچاؤکے لیے ہم کیا کریں؟

۴- یہ نکاح درست نہیں تو نکاح نامہ اور دیگر دستاویزات کی منسوخی کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

۵- کیا اس کیس میں عدّت گزارنی ہوگی؟

جواب :اسلامی شریعت کی رُو سے نکاح کے لیےمرد اورعورت دونوں کامسلمان ہونا ضروری ہے ۔ مسلمان مرد یا عورت کا کسی غیر مسلم عورت یا مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں اس سےمنع کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا (البقرہ ۲:۲۲۱) مشرک عورتوں سے نکاح مت کروجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اورمشرکین جب تک ایمان نہ لے آئیں اوران سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو۔

 لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ(الممتحنہ:۱۰)(یہ مسلمان عورتیں) نہ ان (کافروں) کے لیے حلا ل ہیں اورنہ وہ (کافرمرد) ان (مسلمان عورتوں ) کے لیے۔

قادیانیوں کے دوفرقےہیں : ایک فرقہ مرزا غلام احمد قادیانی کوصراحت سے نبی مانتا ہے۔ دوسرا فرقہ، جواحمد یہ کہلاتاہے ، وہ انھیں مہدی اور مسیح موعود قرار دیتاہے اور ان پروحی آنے کا قائل ہے۔ یہ حضرات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین تومانتےہیں،لیکن’ختم نبوت‘ کی بے جا تاویل کرتے ہیں اوراس کا دوراز کار مفہوم بیان کرتے ہیں۔

ان آیات سے واضح ہے کہ مشرکین اور مشرکات سے نکاح ممنوع ہے، پوری اُمت کا اتفاق ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں، کافر ہیں۔ اس لیے شرعی طورپرکسی مسلمان عورت کا قادیانی عقائد رکھنے والے کسی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے اوراگر ہوچکاہے توباطل ہے ، اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ۔

جب یہ نکاح ہوا ہی نہیں تو خلع یا فسخِ نکاح کی کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اس صورت میں عدّت بھی نہیں۔البتہ دوسرانکاح پیش نظرہوتو تین ماہ انتظارکرلیا جائے یہ بہتر ہوگا۔

نکاح نامہ یادیگر دستاویزات موجود ہوں تواسےکینسل کروانے کے لیے کسی قانونی مشیر سے مددلینا مناسب ہوگا۔ اسی طرح اس چیز کا اندیشہ ہوکہ وہ قادیانی شخص یااس کےمتعلقین کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں،یا کوئی قانونی کارروائی کرسکتے ہیںتو اس سےتحفظ کے لیےکسی ماہر قانون سے مشورہ کرلینا چا ہیےاوراس کی بتائی ہوئی تدابیر پرعمل کرنا چاہیے۔ سماجی دباؤاور تحفظ بھی کارگر ہوسکتا ہے۔ اپنےاہل خاندان، پڑوسیوں اورمحلہ والوںسے بھی مدد لیں۔انھیں اپنا مسئلہ سمجھائیں اوران کے تعاون سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

قادیانیت موجود ہ دورکا ایک بڑا فتنہ ہے ۔یہ امت مسلمہ کے لیے ایک ناسورہے۔ قادیانی بہت سرگرمی سےبھولے بھالے مسلمانوں کوبہکانے اوراپنے دامِ فریب میںگرفتارکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان سےہوشیار رہنے اوران سے فاصلہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)


مسجد میں نکاح کی تقریب

سوال : میری بیٹی کا نکاح تین برس قبل شرعی طور پر انجام دیا گیا ۔ مسجد میں نکاح ہوا ۔ غیر اسلامی رسوم، لین دین ، جہیز وغیرہ سے اجتناب کیا گیا ۔ اس وقت سے خاندان میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ یہ تو  نئی بدعت ہے ۔صحابۂ کرامؓ کے نکاح مسجد میں ہوئے ہوں ، یہ ثابت نہیں ہے۔

جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ (ابوداؤد: ۲۱۱۷) ’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بہت سہولت اور آسانی سے انجام پائے‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے اس کا بھی حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے، تاکہ آبادی کے لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں ۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اَعْلِنُوْا لنِّکاَحَ (احمد: ۱۶۱۳۰) ’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔

آج کل مسلم معاشرے میں نکاح کودشوار بنادیا گیا ہے ۔ اس پر اتنا صرفہ آتا ہے کہ اوسط یا معمولی آمدنی والے شخص کواس کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اورکافی سرمایہ اکٹھاکرنا پڑتا ہے ۔ لڑکی کے نکاح کا معاملہ ہوتو وہ اس کے سرپرست کے لیے اوربھی دشوار اورپریشان کن رہتا ہے ۔ اس لیے کہ برأت کی خاطر مدارات، جہیز اور دیگر رسوم کی ادایگی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے لیے بسا اوقات قرض تک کی نوبت آجاتی ہے۔

فقہا نے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کو جائزقرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سے دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں : ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہوجا تی ہے ، البتہ انھوںنے تاکید کی ہے کہ تقریبِ نکاح کی انجام دہی کے دوران میں مسجد کے تقدس و احترام کا خیال رکھا جائے ، شور وشغب نہ ہو، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کی جائیں ، وغیرہ۔ ( فتح القدیر ، ۲/۳۴۳- ۳۴۴)

اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، جوام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوْفِ(ترمذی:۱۰۸۹)’’نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ‘‘۔

اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون الانصاری کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کوضعیف کہا ہے (فتح الباری ، ۹/۲۲۶)۔ البتہ اس کا ابتدائی حصہ (نکاح کا اعلان کرو)دیگر روایتوں سے ثابت ہے ، اس لیے صحیح ہے۔

مسجد میں تقریبِ نکاح منعقد کرنے کوحکمِ نبوی ثابت کرنا تو درست نہیں، لیکن اسے بدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ عہدِ نبویؐ میںمسجد کونماز کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ، مثلاً تعلیم وتربیت ، معاملات کے فیصلے ، حدود و تعزیرات کا نفاذ وغیرہ۔ اس بناپر اگر مسجد کے ادب واحترام کوملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تقریبِ نکاح منعقد کی جائے تو وہ نہ صرف جائز ،بلکہ بعض پہلوؤں سے پسندیدہ ہے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)

سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق مَیں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے؟ وہ نقائص درج ذیل ہیں:

۱- دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاًآخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر او ر چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور امرا کی حکومت (Plutocracy) یا Oligarchy کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔  اس کا کیا حل ممکن ہے؟

۲- عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟

۳- عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح،بے حس اور شخصیت پرست ہے، اور خود غرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔

۴- عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب :آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہ کار مقرر کیے جائیں اور و ہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں ، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

اوّل یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیا گیا اور اس بناپر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالاں کہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختارِ مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بناپر  مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔

 دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ بُرائی اور بُرے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے،وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔(سیّد مودودی، رسائل و مسائل ،چہارم، ص ۲۷۹- ۲۸۳)


کش مکش حق و باطل اور اُس کی حقیقت

سوال : ایک عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں کہ عہد ِ نبویؐ و خلافت ِ راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آرہا ہے، جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے؟سوال یہ ہے کہ  وہ ’دین‘ جو دُنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دُنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کرچکے ہیں، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’دین اسلام‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلقِ خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و ستم کیوں سہتی چلی آرہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی دردناک صورتوں سے کیوں دوچار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دینِ حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں، بے بسوں، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟

جواب :آپ جس اُلجھن میں مبتلا ہیں وہ بآسانی حل ہوسکتی ہے اگر آپ ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادہ کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے ، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے، تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔ دُنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دُنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دُنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم یا ساری دنیا ہی میں حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا، تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے  وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی: فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ  (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹادیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور  اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔

بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت و فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کر دیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنّت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس طریقے کو چھوڑ کر جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے۔ اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اورباطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں) سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاں تک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پارہے، اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق ، عاصی اورمطیع سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہرقوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل ،پنجم، ص ۳۲۶-۳۳۱)

قرآن کریم، اسلامی ریاست اور مولانا مودودیؒ

سوال : مولانا مودودی ؒ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ  [یوسف۱۲:۶۷]اور دوسری آیات سے حاکمیت الٰہیہ کا جو سیاسی نظریہ پیش کیا ہے، یہ درست نہیں ۔ وہ تمام آیات جن سے مولانا مودودیؒ استدلال کرتے ہیں ان سے تکوینی نظام مراد ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور یہ ہر شخص کی نجی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی اس مذہب کو تسلیم کرے ۔

جواب : مولانا مودوی ؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  نے عالمِ اسلام میں جو فکری انقلاب برپا کیا ہے، اس پر اب عالم اسلام کے علما اور مفکرین کا اجماع ہو گیا ہے۔اسلام کی اس تعبیر سے اہل مغرب بہت پریشان ہیں ۔ وہ عالم اسلام کے بعض فکری منحرفین سے ایسی کتابیں اور مقالات لکھواتے ہیں، کہ جن سے مولانا مودودی کی جانب سے تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظریے اور اسلامی جمہوری انقلاب کے نظریے اور اسلامی جہاد کے نظریے کی نفی ہوجائے۔ 

یہاں پر سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نظریہ کوئی مولانا مودودی کا ذاتی حیثیت میں وضع کردہ نظریہ نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے چند آیات کی صرف لغوی تشریح کردی ہو۔ مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات کی تشریح کی پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلافت راشدہ کے قیام کی تمام عملیات کھڑی ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تصریحات بھی اس کے لیے شاہد عادل ہیں ۔ مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان کے علاوہ انھوں نے اپنی کتاب سیرت سرور عالمؐ میں بھی استدلال کیا ہے اور قرآن کی   بے شمار تعبیرات اور سنت کی لا تعداد تصریحات سے بھی دلائل و نظائر کو پیش کیا ہے ۔ ان میں سے اہم تصریحات یہ ہیں:

۱- سورۂ قصص آیت ۵ میں ہے: وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ (القصص ۲۸:۵)’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور ان ہی کو وارث بنائیں‘‘۔اگر مذہب کے اندر امامت کا کوئی دخل نہیں ہے تو اللہ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا، یہ کہنا کہ جب لوگ ایمان قبول کریں گے تو خود بخود اسلامی نظام قائم ہو جائے گا محض تکلف ہے۔اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ ہمارا ارادہ اور حکم یہ تھا کہ غریب عوام کی امامت قائم ہواور پیغمبروں نے اس پر عمل کیا۔

۲-اسی طرح سورئہ مائدہ آیات ۴۴ تا ۵۰ میں ہے: تمام اُولوالعزم پیغمبروںؑ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نظام عدل قائم کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں۔ پھر سخت تنبیہ کی گئی کہ اگر تم عدل نہیں کرو گے تو تم ظالم ہو گے ، فاسق ہوگے اور کافر ہو گے۔ اس سے تکوینی احکام مراد نہیں کہ تم بارشیں بر سائو اور زلزلے برپا کرو ۔ ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ کیا قرآن میں حضرت دائود علیہ السلام کے نظام عدل اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور حکومت کے قصے آخر ویسے ہی تو بیان نہیں کیے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے تمام انبیاؑ دعوت اور کام کے اعتبار سے ’سیاسی لوگ‘ تھے اور احادیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ  (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر فی بنی اسرائیل، حدیث: ۳۲۸۶) ’’بنی اسرائیل کے سیاسی امام بھی انبیا تھے‘‘۔ تعجب ہوتاہے کہ ان منحرفین کو   کس طرح یہ غیرعقلی شبہہ لاحق ہو گیا ۔ کیا انھوں نے سیرتِ رسولؐ اور سیرت انبیا علیہم السلام نہیں پڑھیں؟

۳-اس میں شک نہیں کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے اور اس نے مسجد کی تعمیر اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اسلام مسجد تک محدود ہے بلکہ اسلام نے تو پوری زمین کو مسجد بنایا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسجد جہاد کا سنٹر ہوگا اور فرمایا کہ مسجد کی خدمت کرنے کا ثواب تو ہے، لیکن یہ خدمت بہرحال اقامت ِ دین کے لیے زندگی بھر کی ہمہ پہلو جدوجہد سے بڑا درجہ نہیں رکھتی ۔ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسلامی جہاد اور انقلاب کی راہ میں اگر تجارت اور مالی سر گرمیاں حائل ہوں یا تمھاری قومیت حائل ہو تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرو۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سب سے پہلے نظریۂ جہاد پر قلم اٹھا یا اوریہ بتایا کہ جہاد اسلامی انقلاب کا اصل ستون ہے ۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاد سے بھی پہلے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کا کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اسلام سے حکومت کا باب نکال کر کچھ اور منہاج بنانا چاہتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے ایک بڑے حصے کو منسوخ کر رہے ہیں اور سنت اور سیرتِ رسولؐ  اور سیرتِ صحابہؓ سے صریح انکار کرتے ہیں۔

۴-اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیات ۱۰ تا ۱۷  غوروفکر کی دعوت دے رہی ہیں، جن کا مفہوم  یہ ہے کہ ہم نے ایک کتاب اتاری، جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے۔ ہم نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور ان میں انسانوں کی تخلیق اور ان کا عروج و زوال محض کائناتی اور تکوینی کھیل تماشا کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہاں حق و باطل کی ایک کش مکش ہے ۔ ہم حق کو باطل پر ایک بم کی طرح پھینکتے ہیں جو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور جس سے ظالم اقوام کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ       وہ ظالم ہوتی ہیں اور ہم نے ان کے نظام کی جگہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ آیات خالص اقوام کے عروج و زوال اور عادلانہ نظام کے بارے میں ہیں ۔ سائنسی اعتبار سے تو یہ کائنات پہلے سے عادلانہ اصولوں پر چلتی ہے ۔ کوئی ستارہ دوسرے پر ظلم نہیں کرتا ۔ سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ یوں تکوینی اعتبار سے کائنات پوری ہم آہنگی سے چلتی ہے۔

۵-پورے قرآن کریم اور سنت رسولؐ میں تذکیر و تبشیر کے ساتھ جرائم اور ان کی سزائوں کا ذکر بھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت میں جرم و سزا کا تصور نہیں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو پھر اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کیں ہیں ؟ میں نے مصرکے فقیہ ڈاکٹر عبد العزیز عامر کی ایک کتاب مولانا مودودی کی ہدایت پر ترجمہ کی تھی ۔ اس کے حصہ اول پر مولانا مودودی نے خود نظرثانی کی۔ یہ کتاب اسلام کا قانونِ جرم و سزا  کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔جو لوگ اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں ، سول کوڈ،کریمینل کوڈ اور معاشی نظام، مثلاً حرمت سود کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ وہ سرے سے اسلام سے وابستگی کا انکار کر دیں، اللہ ہمیں ہدایت دے کیوںکہ ہم بدیہیات کا انکار کرتے ہیں۔

۶-سورۃ الفرقان کی آخری آیات ۶۳ تا ۷۷  میں عباد الرحمٰن، یعنی نبی آخر الزماںؐ اور  صحابۂ کرامؓ کا جو پروگرام دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کن خصوصیات کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان آیات کے آخر میں ان کی یہ دعا نقل فرمائی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاکہ(ہمیں ایسی متقی سوسائٹی کا امام بنا) ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر معاشرہ متقی نہ ہو اور وہ اصلاح نہ چاہتا ہو تو صرف حکمران ڈنڈے کے زور سے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ قیامت میں ایسے پیغمبر بھی آئیں گے، جن کے ساتھ ایک ایک امتی ہو گا۔ اس آیت میں امامت و خلافت کے قیام کی صراحت ہے اور یہ نص صریح ہے ۔

مولانا مودودیؒ کا ساتھ چھوڑنے اور جماعت اسلامی سے نکلنے والے بعض حضرات ابہام پیدا کرتے آئے ہیں اور اس اعتبار سے موجودہ لبرل حضرات اور امام بخاری کے دور کے جھَمِیَّہ ایک ہی فکر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مفادات تو لیتے ہیں، مگر معاشرے سے قطع تعلق نہیں کرسکتے ۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔(مولانا سیّد   معروف    شاہ     شیرازی)

سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔

بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک میں جو لیڈرشپ قائم ہے، وہ کسی عنوان سے بھی مسلم عوام کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حکومتیں اگر سو برس بھی زور لگائیں تو بھی مَیں ان سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ مسلم عوام کے عقائد اور ان کے تصورات، تہذیب و تمدن اور ان کی اخلاقی قدروں کو تبدیل کرسکیں گی، اور یہ توقع بھی نہیں رکھتا کہ مزید سو برس میں وہ کسی دوسری تہذیب کی قدروں اور تصورات پر قوم کی تعمیرِ سیرت کرسکیں گی۔

اس ڈگر پر چلنے کا نتیجہ اس سے زائد کچھ نظر نہیں آتا کہ مسلمان قوم کی کوئی سیرت اور کردار نہ بن پائے اور اخلاقی اعتبار سے وہ بالکل دیوالیہ ہوجائے اور کوئی مادی ترقی بھی نہ کرسکے۔ ایک بے سیرت قوم خواہ کتنے ہی ذرائع و وسائل رکھتی ہو ، درحقیقت کوئی مادی ترقی نہیں کرسکتی اور کسی حکومت کی کوئی پالیسی خواہ وہ خارجی ہو یا داخلی، ایسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی، جب کہ پوری قوم کا ضمیر پورے اطمینان کے ساتھ اس کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان ملکوں کے مستقبل کا انحصار صرف ایک صحیح قسم کی اسلامی لیڈرشپ پر ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ قیادت میسر نہ آئی تو ہم سب کو بہت ہی بُرا دن دیکھنا پڑے گا۔


سوال : اس لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟

جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی۔ اس کو زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے، تو بالکل ایک فطری ارتقا کے طور پر مسلمان ملکوں میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلمان ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا، تو آخرکار اقتدا ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔


سوال : یہ صاف نظر آتا ہے کہ مسلمان جمہور خود اسلام کے راستے سے بہت دُور ہیں۔ انھیں اسلام سے جذباتی لگائو تو ہوسکتا ہے مگر غالباً تربیت کی کمی کی وجہ سے ان میں    وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے، تو پھر جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروے کار آسکے گی؟

جواب :ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اگرچہ ان میں جہالت بھی بہت پھیلی ہوئی ہے، لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں۔ کسی بُرے سے بُرے اور بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں (values) ابھی وہی ہیں، جو ایک مسلمان کی ہونی چاہییں۔ اپنی تمام بدکرداریوں کے متعلق اسے یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے بُرا کر رہا ہے، بُرائی کو بھلائی کہنے والے آدمی مسلم معاشروں میں آپ کو بہت ہی مشکل سے ملیں گے۔

اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں، اور ان کا فلسفۂ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو بُرا کہتا ہے، وہ انھیں اچھا سمجھتے ہیں اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ ’’انسانی تاریخ میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا‘‘۔ ایسے استاد بھی ہماری درس گاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیاے کرام ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی   حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اُونچے سرکاری مناصب پر بلاتامل ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں، جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رقص و سُرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے درمیان کوئی بھی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو تو مسلمان عوام کے انداز و اطوار کو بغیر کسی جبر کے، صرف چند برسوں میں بالکل تبدیل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں، صرف ان کو اُبھار کر عملی شکل میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔


سوال : خدا کرے! آپ کا حُسنِ ظن درست ہو ، حالات تو ایسے نہیں۔

جواب : ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقامت ِ دین اور ظہورِ مہدی


سوال : کیا اقامت ِ دین ایک فرض ہے کہ جسے ہر زمانے اور ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟

جواب : قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میںاس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بس اسی حد تک ہے کہ مہدی آئیں گے اور دنیا کو، جو  ظلم سے بھر چکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے۔اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں، اس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے دین قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔

یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمد سے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یااسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمے سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتا کہ ہم دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔

رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کر رہیں۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاؑ کا فرض یہ بیان کیا گیا کہ: اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط ’’اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ پورے دین پر اسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نبی برحق کے مقصد بعثت سے مختلف بھی ہوسکتا ہے؟(ہفت روزہ آئین)

 

قضا روزوں کی ادایگی: چند فقہی پہلو

سوال : ۱-رمضان کے کچھ روزے کسی شرعی عذر کی بنا پر قضا ہوگئے۔ کیا شوال کے چھے مسنون روزے رکھنے سے پہلے رمضان کے قضا روزوں کی ادایگی کی جائے یا قضا روزوں کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے جائیں؟اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ شوال میں قضا روزے ادا کر رہا ہوں اور ماہِ شوال کے مسنون روزوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یہ خیال رہے کہ عبادات میں نیت بہت ضروری ہے، اس لیے فرض عبادت کو نفل عبادت سے ملایا نہیں جاسکتا، مثلاً دو رکعت فرض نماز میں فرض ہی کی نیت کی جائے گی، نفل کی نہیں۔کیا روزے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے؟

۲-اگر کسی شرعی عذر کے باعث کسی خاتون کے ذمے کئی ماہ کے روزے ہوں اور ان کی ادایگی کے لیے کوشاں بھی ہو، لیکن وہ شوال اور ذوالحجہ کے نفلی روزوںکا ثواب بھی لینا چاہے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟رمضان کے قضا روزے اگر تسلسل کے ساتھ رکھنا مشکل ہو، اور کوئی خاتون یہ معمول بنالے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر اپنے ذمے فرض روزوں کو ادا کرے گی، تو کیا ان دو دنوں کی نسبت سے اس کو سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا؟

جواب :  آپ کے سوالات کے مختصر جوابات حسب ذیل ہیں:

۱-شرعی عذر کی بنا پر ماہِ رمضان کے جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان کی فوری قضا لازم نہیں، اگرچہ مستحسن یہی ہے کہ جلد رکھ کر اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرلی جائے، کیونکہ انسان کو زندگی کے اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں۔ پھر یہ کہ نیکیوں کے حصول میں پہل کرنے اور عجلت سے   کام لینے کا حکم دیا گیا ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ(۲:۱۴۸)۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ روزے فوری نہ رکھے جاسکیں تو تاخیر سے گناہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر   نفلی روزے (جیسے شوال کے چھے روزے وغیرہ) بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ کا قول ہے: ’ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور میں وہ شعبان ہی میں رکھ پاتی تھی‘۔ حافظ ابن حجر اس کی شرح میں کہتے ہیں: ’اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی مجبوری اور عذر کی بناپر یا اس کے بغیر بھی آیندہ رمضان تک روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے‘۔ (فتح الباری، ج۴، ص ۲۳۹، حدیث: ۱۹۵۰)

۲- اصل تو یہ ہے کہ عبادات کو الگ الگ ادا کیا جائے، لیکن اگر ایک عمل سے دو طرح کی عبادات کی ادایگی کی بیک وقت نیت کی جائے، تو اس بارے میں فقہا کی راے مختلف ہے۔ حنفی فقہا کے ہاں ایک ہی عمل میں فرض اور نفل عبادت کو جمع نہیں کیا جاسکتا، البتہ دو نفل عبادات کی نیت ایک عمل میں کی جاسکتی ہے، جیسے اگر کسی نے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد اور ساتھ ہی فجر کی سنت کی نیت سے پڑھا ہے تو دونوں ادا ہوجائیں گی۔ شافعی فقہا کے نزدیک فرض نماز اور تحیۃ المسجد ایک ہی نیت سے ایک ہی عمل میں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عبادت مقصود بالذات نہ ہو تو اسے دوسری عبادت کے ضمن میں ادا کیا اور دونوں کو ایک ہی عمل میں جمع کیا جاسکتا ہے، جیسے مذکورہ مثال میں تحیۃ المسجد مقصود بالذات نہیں، بلکہ اصل مقصد اس وقت اور مقام کو نماز کے عمل سے معمور کرنا ہے۔ اس لیے وہ دوسری مقصود بالذات عبادت کے ضمن میں ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں عبادتیں اور اعمال مقصود بالذات قسم کے ہوں تو انھیں ایک ہی عمل میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارے نزدیک، اگر ان اقوال کو سامنے رکھا جائے تو پیر اور جمعرات، نیز شوال کے  چھے روزوں کی بھی یہی صورت بنتی ہے کہ وہ (بقول شافعیہ) مقصود بالذات کی قبیل سے نہیں بلکہ مقصد ان ایام اور اوقات کو روزے سے آباد کرنا ہے۔ اس لیے اگر قضا روزے انھی دنوں میں رکھے جائیں تو اُمید ہے کہ قضا روزوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر پیر اور جمعرات اور شوال کے روزوں کی فضیلت بھی ان شاء اللہ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی شانِ کریمی و فیاضی سے یہی اُمید رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندے کے ساتھ اس کی نیت و ارادے، تڑپ اور لگن کے مطابق برتائو کرتا ہے۔(مولاناعبدالحی ابڑو)

اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی شناخت

سوال :

  1. کیا اسلامی ریاست کوئی ایسا قانون وضع کرسکتی ہے کہ جس سے کسی غیرمسلم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ بطورِ مسلم تصور اور شناخت کیا جائے؟
  2. کیا اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس امر کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطورِ مسلم ظاہر یا پیش کریں؟
  3. اگرکوئی غیرمسلم، اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائے تو اس کا یہ فعل کس تعریف میں آئے گا؟
  4. اگر درج بالا سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ریاست کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
  5. کیا اسلامی ریاست کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہو، اور اس حوالے سے ایک مؤثر اور جامع طریق کار وضع کرے؟
  6. کیا کسی شہری کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں معلوم کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ضمن میں آتا ہے؟

جواب :

اسلامی ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے انسانی حقوق کی ضمانت دے اور رنگ، نسل، علاقہ یا مذہب کی بنیاد پر ان کے درمیان کوئی تفریق روا نہ رکھے۔ چنانچہ اس کی حدود میں رہنے والے غیرمسلم بھی اپنے تمام بنیادی انسانی حقو ق سے بہرہ ور ہوتے ہوئے اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے اور انھیں اپنی شناخت کو چھپانے کی ضرورت نہ ہوگی کہ اپنا نام، لباس یا ظاہری ہیئت مسلمانوں جیسی کرکے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کریں، بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کو مسلمانوں کی شکل و شباہت اختیار کرنے سے روکے گی، تاکہ وہ بعض ان پابندیوں سے آزاد رہ سکیں جو مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں اور جن کی خلاف ورزی کی صورت میں مسلمان تنبیہہ اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔

اس بنیادی اور اصولی بات کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:

  1. اسلامی ریاست کوئی ایسا قانون وضع کرسکتی ہے، جس میں اس بات سے روکا گیا ہو کہ کسی غیرمسلم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلم تصور اور شناخت کیا جائے اور اس کی شناخت مسلمان کی ہو۔
  2. اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو بہ طور مسلم ظاہر یا پیش کریں۔
  3. اگر کوئی غیرمسلم اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائے، تو اس کا یہ فعل ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کی تعریف میں آئے گا۔
  4. اگر اسلامی ریاست میں غیرمسلم یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو ریاست اس کی تنبیہہ و تعزیر کے لیے قانون وضع کرسکتی ہے۔
  5. اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں مکمل طور سے آگاہ ہو اور اس کے لیے مؤثر اور جامع ضابطۂ کار وضع کرے۔
  6. کسی شہری کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں معلوم کرنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے، البتہ مذہب کی بنیاد پر اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا غلط ہے۔

اس موضوع پر فقہی اور قانونی تفصیلات کے لیے کتب ِ فقہ کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ہماری کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق میں ذمیوں سے متعلق بحث میں اس طرف بنیادی اشارے کیے گئے ہیں۔ (مولانا  سیّد جلال الدین عمری، نئی دہلی)

سوالات کے جوابات علی الترتیب درج ذیل ہیں:

  1. حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسا قانون وضع کرے جو غیرمسلم کو بلاواسطہ یا بالواسطہ، بطورِ مسلم پیش کرنے سے روکے۔ قرآنِ پاک اور احادیث نبویؐ اس قانون کی اساس پر واضح طور پر دلالت کرتے ہیں۔
  2.  اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو بطورِ مسلم ظاہر کریں، کیوں کہ یہ دھوکا ہے اور اسلام دھوکا دہی کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دیتا۔
  3. اگر غیرمسلم اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائیں، تو یہ فعل ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کے دائرے میں آئے گا اور اس پر انھیں تعزیری سزا دی جائے گی، جو عدالت کی صواب دید پر ہوگی۔ چاہیے یہ کہ عدالتوں کی سہولت کے لیے قانون بنا دیا جائے جس میں تعزیری سزا ’بدنی‘ اور قید متعین کردی جائے۔
  4. ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں محکمۂ پولیس کو چوکس رکھے اور مجرموں کو گرفت میں لانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔
  5. اس سلسلے میں حکومت مؤثر قانونی تدابیر اختیار کرے، جس سے وہ تمام شہریوں کے مذہب سے آگاہی حاصل کرتی رہے۔
  6. کسی شہری کے مذہب کے بارے میں معلوم کرنا بنیادی حقوق کاتقاضا ہے، اس لیے کہ بعض حقوق کا تعین مذہب کی بنیاد پر ہوگا، واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک،لاہور)

مشکل حالات میں زکوٰۃ و صدقات کا دینی تعلیم پر خرچ

سوال :

یورپ کے جس ملک میں ، مَیں رہ رہی ہوں وہاں مسلمانوں کو ریاستی، سماجی اور حکومتی سطح پر بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ خصوصاً مسلمان خواتین اور طالبات کو بڑی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔مسلمانوں کی نئی نسل میں طالبات اور نوجوان لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے وہاں باقاعدہ رجسٹرڈ ادارہ قائم کیا گیا ہے، لیکن مالی وسائل کی فراہمی کے لیے سخت دشواری درپیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جملہ احتیاطوں کے ساتھ ہم زکوٰۃ و صدقات کو مذکورہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے کے لیے جمع اور خرچ کرسکتے ہیں؟

جواب :

آپ نے یورپ کے جس ملک میں درپیش تکلیف دہ حالات کے بارے میں دریافت کیا ہے اس کا حال معلوم کرکے سخت دُکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ایمان اور استقامت کی دولت عطا فرمائے۔

عرض یہ ہے کہ آپ کے اُس ملک کے مخصوص حالات میں ، وہاں مسلم بچیوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت پرعام عطیات اور صدقات نافلہ خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم، زکوٰۃ کا الگ سے حساب رکھا جائے، تاکہ اس سے وہی بچے استفادہ کرسکیں، جو معاشی اعتبار سے کم زور اور زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔(مولانا عبدالمالک)

کھانے کا ایک ادب

سوال :

ایک حدیث کامفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصّےکیے جائیں: ایک کھانے کے لیے، دوسرا پینے کے لیے، تیسرا خالی رکھاجائے۔ آج کل ڈاکٹر حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ  اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیں؟

جواب :

حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَامَلأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرّاً مِّنْ بَطْنٍ، بِحَسبِ ابْنِ آدَمَ اُکَیْلاَتٌ یَقُمْنَ صُلْبَہ‘، فَاِنْ کَانَ لَا مُحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفْسِہ (ترمذی: ۲۳۸۰، ابن ماجۃ:۳۳۴۹، صحیح ابن حبان:۵۲۱۳)کسی آدمی نے پیٹ سے برابرتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔

علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل  میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیثِ نبویؐ میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پُری سے روکا گیاہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیار خوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کااس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتاہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھانا کھائے۔

کھانا کھانے کے دوران یا اس سے فارغ ہوتے ہی فوراً پانی پینا طبی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ معدہ سے ایسے افرازات (secretions)خارج ہوتے ہیں جو ہضمِ غذا میں معاون ہوتے ہیں۔ کھانا معدے میںپہنچتاہے تو وہ افرازات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کھانا درست طریقے سے جلد ہضم ہوتاہے۔ کھانے کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانی پی لینے سے ان افرازات کی تاثیر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے نصف گھنٹے کے بعد پانی پیاجائے۔

مذکورہ بالاحدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیاگیاہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبّی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔(مولانا رضی الاسلام  ندوی)

قرآن، اسلامی ریاست اور مولانا مودودیؒ

سوال :

مولانا مودودی ؒ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ  [یوسف۱۲:۶۷]اور دوسری آیات سے حاکمیت الٰہیہ کا جو سیاسی نظریہ پیش کیا ہے، یہ درست نہیں ۔ وہ تمام آیات جن سے مولانا مودودی استدلال کرتے ہیں ان سے تکوینی نظام مراد ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور یہ ہر شخص کی نجی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی اس مذہب کو تسلیم کرے ۔

جواب :

مولانا مودوی ؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  نے عالمِ اسلام میں جو فکری انقلاب برپا کیا ہے، اس پر اب عالم اسلام کے علما اور مفکرین کا اجماع ہو گیا ہے۔اسلام کی اس تعبیر سے اہل مغرب بہت پریشان ہیں ۔ وہ عالم اسلام کے بعض فکری منحرفین سے ایسی کتابیں اور مقالات لکھواتے ہیں، کہ جن سے مولانا مودودی کی جانب سے تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظریے اور اسلامی جمہوری انقلاب کے نظریے اور اسلامی جہاد کے نظریے کی نفی ہوجائے۔ 

یہاں پر سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نظریہ کوئی مولانا مودودی کا ذاتی حیثیت میں وضع کردہ نظریہ نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے چند آیات کی صرف لغوی تشریح کردی ہو۔ مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات کی تشریح کی پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلافت راشدہ کے قیام کی تمام عملیات کھڑی ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تصریحات بھی اس کے لیے شاہد عادل ہیں ۔ مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان کے علاوہ انھوں نے اپنی کتاب سیرت سرور عالمؐ میں بھی استدلال کیا ہے اور قرآن کی   بے شمار تعبیرات اور سنت کی لا تعداد تصریحات سے بھی دلائل و نظائر کو پیش کیا ہے ۔ ان میں سے اہم تصریحات یہ ہیں:

  1. مثلاً اگر آپ سورۂ قصص آیت ۵ کامطالعہ کریں: وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ (القصص ۲۸:۵)’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور ان ہی کو وارث بنائیں‘‘۔اگر مذہب کے اندر امامت کا کوئی دخل نہیں ہے تو اللہ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا، یہ کہنا کہ جب لوگ ایمان قبول کریں گے تو خود بخود اسلامی نظام قائم ہو جائے گا محض تکلف ہے۔اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ ہمارا ارادہ اور حکم یہ تھا کہ غریب عوام کی امامت قائم ہواور پیغمبروں نے اس پر عمل کیا۔
  2. اسی طرح سورئہ مائدہ آیات ۴۴ تا ۵۰ کا بغور مطالعہ کریں ۔ تمام اولوالعزم پیغمبروںؑ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نظام عدل قائم کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں۔ پھر سخت تنبیہ کی گئی کہ اگر تم عدل نہیں کرو گے تو تم ظالم ہو گے ، فاسق ہوگے اور کافر ہو گے۔ اس سے تکوینی احکام مراد نہیں کہ تم بارشیں بر سائو اور زلزلے برپا کرو ۔ ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ کیا قرآن میں حضرت دائود علیہ السلام کے نظام عدل اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور حکومت کے قصے آخر ویسے ہی تو بیان نہیں کیے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے تمام انبیاؑ دعوت اور کام کے اعتبار سے ’سیاسی لوگ‘ تھے اور احادیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ  (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر فی بنی اسرائیل، حدیث: ۳۲۸۶) بنی اسرائیل کے سیاسی امام بھی انبیاء تھے)۔ تعجب ہوتاہے کہ ان منحرفین کو کس طرح یہ غیرعقلی شبہہ لاحق ہو گیا ۔ کیا انھوں نے سیرتِ رسولؐ اور سیرت انبیا علیہم السلام نہیں پڑھیں؟

  3. اس میں شک نہیں کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے اور اس نے مسجد کی تعمیر اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اسلام مسجد تک محدود ہے بلکہ اسلام نے تو پوری زمین کو مسجد بنایا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسجد جہاد کا سنٹر ہوگا اور فرمایا کہ مسجد کی خدمت کرنے کا ثواب تو ہے، لیکن یہ خدمت بہرحال اقامت ِ دین کے لیے زندگی بھر کی ہمہ پہلو جدوجہد سے بڑا درجہ نہیں رکھتی ۔ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسلامی جہاد اور انقلاب کی راہ میں اگر تجارت اور مالی سر گرمیاں حائل ہوں یا تمھاری قومیت حائل ہو تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرو۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سب سے پہلے نظریۂ جہاد پر قلم اٹھا یا اوریہ بتایا کہ جہاد اسلامی انقلاب کا اصل ستون ہے ۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاد سے بھی پہلے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کا کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اسلام سے حکومت کا باب نکال کر کچھ اور منہاج بنانا چاہتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے ایک بڑے حصے کو منسوخ کر رہے ہیں اور سنت اور سیرتِ رسولؐ  اور سیرتِ صحابہؓ سے صریح انکار کرتے ہیں۔

  4. اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیات ۱۰ تا ۱۷ پر غوروفکر کی دعوت دے رہا ہوں۔ ان کا خلاصہ (مفہوم) یہ ہے کہ ہم نے ایک کتاب اتاری جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے۔ ہم نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور ان میں انسانوں کی تخلیق اور ان کا عروج و زوال محض کائناتی اور تکوینی کھیل تماشا کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہاں حق و باطل کی ایک کش مکش ہے ۔ ہم حق کو باطل پر ایک بم کی طرح پھینکتے جو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور جس سے ظالم اقوام کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں اور ہم نے ان کے نظام کی جگہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ آیات خالص اقوام کے عروج و زوال اور عادلانہ نظام کے بارے میں ہیں ۔ سائنسی اعتبار سے تو یہ کائنات پہلے سے عادلانہ اصولوں پر چلتی ہے ۔ کوئی ستارہ دوسرے پر ظلم نہیں کرتا ۔ سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ یوں تکوینی اعتبار سے کائنات پوری ہم آہنگی سے چلتی ہے۔

  5. پورے قرآن کریم اور سنت رسولؐ میں تذکیر و تبشیر کے ساتھ جرائم اور ان کی سزائوں کا ذکر بھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت میں جرم و سزا کا تصور نہیں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو پھر اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کیں ہیں ؟ میں نے مصرکے فقیہ ڈاکٹر عبد العزیز عامر کی ایک کتاب مولانا مودودی کی ہدایت پر ترجمہ کی تھی ۔ اس کے حصہ اول پر مولانا مودودی ؒ نے خود نظرثانی کی۔ یہ کتاب اسلام کا قانونِ جرم و سزا  کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔جو لوگ اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں ، سول کوڈ،کریمینل کوڈ اور معاشی نظام، مثلاً حرمت سود کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ وہ سرے سے اسلام سے وابستگی کا انکار کر دیں، اللہ ہمیں ہدایت دے کیوںکہ ہم بدیہیات کا انکار کرتے ہیں۔

  6. سورۃ الفرقان کی آخری آیات ۶۳ تا ۷۷  میں عباد الرحمٰن، یعنی نبی آخر الزماںؐ اور  صحابۂ کرامؓ کا جو پروگرام دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کن خصوصیات کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان آیات کے آخر میں ان کی یہ دعا نقل فرمائی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاکہ(ہمیں ایسی متقی سوسائٹی کا امام بنا) ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر معاشرہ متقی نہ ہو اور وہ اصلاح نہ چاہتا ہو تو صرف حکمران ڈنڈے کے زور سے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ قیامت میں ایسے پیغمبر بھی آئیں گے، جن کے ساتھ ایک ایک امتی ہو گا۔ اس آیت میں امامت و خلافت کے قیام کی صراحت ہے اور یہ نص صریح ہے ۔

مولانا مودودیؒ کا ساتھ چھوڑنے اور جماعت اسلامی سے نکلنے والے بعض حضرات ابہام پیدا کرتے آئے ہیں اور اس اعتبار سے موجودہ لبرل حضرات اور امام بخاری کے دور کے جھَمِیَّہ ایک ہی فکر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مفادات تو لیتے ہیں، مگر معاشرے سے قطع تعلق نہیں کرسکتے ۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔(مولانا سیّد   معروف    شاہ     شیرازی)

پیشاب کرتے وقت احتیاط نہ کرنے پر عذاب

سوال :

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی ہے ، جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا : ان دونوں پر عذاب ہورہاہے ۔ ان میں سے ایک چغلی کرتا تھا اوردوسرا پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا ۔ پھر آپؐ نے ایک درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبروں پر لگادیے اورفرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی ، امید ہے کہ ان دونوں پر عذاب میں تخفیف ہوجائےگی۔

حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ دونوں عذاب پانے والے کون تھے؟ یہ مومن تھے یا کافر؟ اور یہ کس زمانے کا واقعہ ہے اورکہاں کا ہے؟ اگروہ کافر تھے تو صرف انہی دونوں کا موں پر عذاب کیوں؟ وہ تو ایمان ہی سے محروم تھے اور اس سے بڑی سزا اور عذاب کے مستحق تھے۔ اگر مومن تھے تو بھی صرف انہی اعمال پر عذاب کا ذکر کیوں؟ انہوںنے ممکن ہے ، دوسرےگناہ بھی کیے ہوں، پھر حدیث میں ان پر سزا کا ذکرکیوں نہیں ہے؟ امید ہے ، میرے ان اشکالات کو دور فرمائیں گے۔

جواب :

  آپ نے جوحدیث نقل کی ہے اس میں ان دو اشخاص کے نام مذکور نہیں ہیں جن پر عذاب ہورہا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہری ٹہنی لگادینے سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوگئی۔ بہترہے  کہ ان کے بارے میں تفصیل جاننے کی کوشش نہ کی جائےکہ وہ صحابہ کرام تھے یا منافق تھے؟ یا کافر تھے؟ حدیث میں جوابہام ہے اسے باقی رکھا جائے اورجو بات کہی گئی ہے اس پرتوجہ دی جائے کہ ان کاموں ( چغلی اور پیشاب کرنے میں عدم احتیاط) سے بچا جائے جن کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے۔

 یہ حدیث بخاری(۲۱۶) ، مسلم(۱۱۱) ، ترمذی(۷۰)، ابوداؤد(۲۰)، نسائی(۳۱)، ابن ماجہ (۳۷۴)، دارمی (۷۳۹) اورمسند احمد0 (۱۹۸۰) وغیرہ میں آئی ہے ۔ شارح بخاری علامہ ابن حجرؒ نے اس کی شرح میں لکھا ہے : ’’ ان دونوں اشخاص کے نام حدیث میں مذکور نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ راویوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ۔ انہوںنے اچھا ہی کیا ، اس لیے کسی معاملے میں کسی شخص کی مذمت کا پہلو نکلتا ہوتو اس کا نام جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ ابن حجرؒ نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں ۔ بعض ان دونوں کوکافر بتاتے ہیں ، بعض مسلمان۔ اس سلسلے  میں انہوںنے متعدد روایات کا حوالہ دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے رجوع کیجئے فتح الباری  شرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ بیروت، ۱/۳۲۰۔۳۲۱۔

قضا نماز کی ادایگی

سوال :

  1. کیا قضا نمازوں کا لوٹانا ضروری ہے؟ جواہر الحدیث (جلد۳،ص ۲۷۲) میں تحریر ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو! نیند میں تفریط نہیں ہوتی۔ تفریط تو یہ ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آجائے۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ جان بوجھ کر نماز کی قضا لازمی ہے۔ چند احباب کا خیال ہے کہ اس کے لیے توبہ اور استغفار کافی ہے‘‘۔
  2. کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے وہ چار سنتیں پڑھے؟

جواب :

  1. اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض فرمائے ہیں ان کے ساقط ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں ، دوسری یہ کہ انسان ان کو ادا کرے۔ معافی کا تو اس دنیا میں تصور نہیں ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور وحی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔ البتہ اگر جان بوجھ کر نماز قضا کی ہو تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ ادا کرنے کے باوجود آدمی کو مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ محض استغفار کافی ہے، جرم کو ہلکا کردیتا ہے۔ اس طرح تو ایک آدمی جان بوجھ کر نمازیں قضا کرے گا، قضا نماز بھی ادا نہ کرے گا اور چند دن بعد استغفار بھی چھوڑ دے گا۔
  2. سنتیں چھوڑنے والے امام کی امامت جائز ہے۔ وہ سنتیں بعد میں ادا کر لے۔ چاہے ظہر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی سنتیں ہوں۔ البتہ سُستی اور چھوڑ دینے کو عادت بنانا بڑی بُری بات ہے۔ اس پر شریعت میں عتاب آیا ہے۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن

سوال :

قلمی و زبانی اشاعت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے ذاتی سطح پر اور اجتماعی طور پر عملی جدوجہد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ    اس کارِخیر میں، کیا مالی طور پر دینی کتب خریدنا اور پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہادکرنے کی تعریف میں؟براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟

جواب :

دین کی اشاعت و تبلیغ، اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق جو بندئہ مومن ذہنی، فکری، جسمانی، مالی، کوشش و کاوش کرے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر بھی اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔

اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہر طرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا، ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔

دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے، جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے، وہ یقینا بارگاہِ الٰہی میں قرضِ حسن دے رہا ہے اور بلاشبہہ یہ اس دور میں ایک بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر اللہ سے اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خالق ارض و سما ہم سب کو اپنی    جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

دورِ حاضر کتابوں کا بھی ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا، یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی ۔ یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا چاہیے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)

مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کی نوعیت میں تبدیلی

سوال :

  1. کیا دینی مدرسے اور مسجد کے لیے ریاست کی عطا کردہ زمین کو عام دُنیوی تعلیم کے ادارے میں تبدیل کرنا: اسلامی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کس بنیاد پر اور اگر ناجائز ہے تو اس بارے میں آثارِشریعت کیا رہنمائی دیتے ہیں؟
  2. کیا مسجد یا دینی مدرسے کے لیے ریاست کی جانب سے عطا کردہ زمین کا مجموعی رقبہ کسی دوسری غرض کے لیے کرایے پر دیا جاسکتا ہے؟ اس کی کس قدر گنجایش ہے یا اس کے ردّ میں اسلامی شریعت کے احکام اور نظائر کیا کہتے ہیں ؟
  3. اگر یہ غیرقانونی ہے تو مدرسہ و مسجد کی انتظامی انجمن کے ذمہ داران اور کرایے پر حاصل کرنے والے ساہوکاروں کے درمیان معاہدے کی فی الواقع قانونی پوزیشن کیا ہے؟
  4. کیا مسجد و دینی مدرسے کے لیے ایک مرتبہ اعلان کردہ زمین، دوسرے کاروباری مقاصد اور ’منڈی کی معیشت‘ کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے نیلام بھی کی جاسکتی ہے؟یا وہ ہمیشہ کے لیے اسی دینی غرض کے لیے مخصوص رہے گی؟
  5. ایسی مشق (لین دین) میں ملوث افراد کے بارے شریعت کیا حکم لگاتی ہے؟

جواب :

آپ کے گراں قدر سوالات کا جواب یہ ہے کہ ریاست یا ادارے یا کسی شخص نے جو قطعۂ زمین کسی خاص غرض کے لیے عطیہ کیا یا وقف کیا ہو، مثلاً مسجد اور دینی جامعہ کے لیے،  تو اسے کسی بھی دوسری غرض اور دُنیوی تعلیم کے لیے استعمال کرنا امانت میں خیانت ہے۔

  1. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس آدمی میں ہوں وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان چاروں خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی: ۱- جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۲- جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۳- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور ۴- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ (بخاری، حدیث :۳۴) بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق ریاست نے جو قطعۂ زمین دیا، وہ مسجد اور دینی جامعہ کے لیے دیا۔ اس لیے وہ مسجد اور دینی جامعہ کی امانت ہے۔ اسے کسی دوسرے ادارے کو دینا یا کسی دوسرے ادارے کو کرایے پر دینا، امانت میں خیانت ہے۔ جب یہ پلاٹ لیا تھا، تب معاہدہ کیا گیا تھا کہ اس پر مسجد اور دینی جامعہ تعمیر کی جائے گی، تو اس لحاظ سے یہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے زمین کا کچھ بھی حصہ ناحق لیا ہو، اسے قیامت کے روز سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا‘‘۔ (بخاری، حدیث :۲۴۵۴ ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مالِ غنیمت اور سرکاری خزانے میں خیانت کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا: ’’اُس کا نتیجہ بھی بہت سخت ہوگا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’میں نہ پائوں کہ تم میں سے کسی ایک کو کہ وہ میرے پاس قیامت کے روز اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور وہ منمنا رہی ہو۔ وہ کہے: یارسولؐ اللہ! میری مدد کیجیے، تو میں کہوں گا میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو، اور وہ ہنہنا رہا ہو، تو میرے پاس آئے اور کہے: یارسولؐ اللہ! میری فریاد رسی فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر سونا چاندی کا بوجھ ہو اور وہ کہے :یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر اُونٹ بڑبڑا رہا ہو اور وہ کہے یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر کیڑا حرکت کر رہا ہو گا، وہ بوجھ بنا ہوا ہوگا اور تذلیل کر رہا ہوگا، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، حدیث: ۳۰۷۳) حضرت عبداللہ بن عمروؓ سےروایت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر ایک آدمی کی ڈیوٹی تھی۔ اسے ’کرکرۃ‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کیا وجہ ہے تو پتا چلا کہ اس کے سامان میں ایک چادر ہے جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت سے چوری کی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴، باب القلیل من الغلول) اسی طرح ایک موقعے پر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ: ’’جس نے مالِ غنیمت میں سے کوئی چیز چوری کی ہوگی تو وہ چیز اس کے لیے آگ ہوگی۔ پھر کوئی جوتے کا ایک تسمہ لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کا ایک تسمہ ہے‘‘۔ کوئی دو تسمے لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کے دو تسمے ہیں‘‘۔ (بخاری:۴۰۰۶) امانت میں خیانت کا اسلامی حکم تو مذکورہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں سامنے آگیا۔ اسی طرح اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں خیانت کاری کو بڑا قابلِ نفرت جرم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتیں خائنوں کو قیادت کے مناصب کی اہلیت سے نااہل قرار دیتی ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ قومی، صوبائی اور سینیٹ کی رکنیت تک کے لیے اہل نہیں رہتے۔ قانونی لحاظ سے آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲اور دفعہ۶۳ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے خصوصاً قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے صرف ایسا شخص اہلیت رکھتا ہے، جو صادق اور امین ہو۔
  2. مسجد اور مدرسے کے لیے دیے گئے قطعۂ اراضی کو، کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا: اسلامی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کھلی خیانت ہے۔
  3. اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ، انجمن کے نمایندوں نے کسی بھی ساہوکار کے ساتھ کیا ہوگا، وہ کالعدم قرار پائے گا، جسے کوئی قانونی اور اخلاقی تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔اس لیے اسے عدالت میں چیلنج کرکے ختم کرایا جانا چاہیے۔
  4. مسجد کے لیے ایک زمین کا اعلان ہوجائے تو اس زمین کو نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جس نے ایسا اعلان کیا ہو، اسے اگر کوئی غیرمعمولی صورتِ حال درپیش ہو کہ وہ اس اعلان کو واپس لے رہا ہے، تو اسے اس کے بدلے میں اس قدر وقیمت کی دوسری موزوں اور مناسب جگہ وقف کرنا ہوگی۔ یہاں پر یہ بات بالوضاحت کہنا ضروری ہے کہ یہ ’غیرمعمولی صورتِ حال‘ واقعی اُمت کے کسی بڑے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہونی چاہیے اور اس صورتِ حال کی نزاکت کا تعین علمِ دین سے متصف افراد اور احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز مقتدر ادارہ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت کرے تو اس کا کوئی وزن ہوسکتا ہے ، وگرنہ ’منڈی کی معیشت‘ کے تابع کیا جانے والا ایسا فیصلہ شریعت کی نظر میں قطعاً ناقابلِ قبول ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی رعایت اور مداہنت کا دروازہ کھولنے کا مطلب اوقاف و عطایا کے پورے نظام کے تقدس اور نزاکت کو ملیامیٹ کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے، جس سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ایمان کا تقاضا ہے۔
  5. ایسے لوگ جو مسجد اور مدرسے کی زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کریں، آگے بڑھ کر انھیں روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ، لوگوں کی بات نہیں سنتے اور اپنے فیصلے سے باز نہیں آتے، تو بذریعہ عدالت انھیں اس سے روکنا ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)