سوال: بعض والدین سمجھتے ہیں کہ اولاد کی ضروریات کو پورا کر دیا جائے اور انھیں آسایشیں فراہم کر دی جائیں تو یہی ان سے محبت کا اظہار ہے اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ یہی محبت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے والدین نے ہمیں زندگی کی ہر سہولت دی ہے لیکن انھوں نے شاید ہم سے اتنی امیدیں لگائی ہوتی ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہوتیں۔ محنت اور کوشش کے باوجود امتحان میں اگر اچھے نتائج نہ آسکیں تو طعنے دیے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی اچھا کام کریں تو اس میں سو خرابیاں نکال دیتے ہیں‘ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور اپنی اولاد پر اعتماد نہیں کرتے۔دوسروں کی باتیں سن کر پہلے ہی دل بدگمانیوں سے بھرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈر کے مارے اپنے ابو سے بات نہیں کرتی کہ کہیں وہ مجھے ڈانٹ نہ دیں۔ کبھی کھل کر ان سے بات نہیں کی۔ ان کے ساتھ میرا تعلق بالکل اجنبیوں جیسا ہے۔ انھوں نے کبھی ہمارے ساتھ مسائل پر بات نہیں کی اور نہ کبھی ہم نے ان سے کی۔ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی‘ ہمیشہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ اگر کبھی ہمت بڑھاتے ہیں تو اتنی زیادہ امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ ہمارے بس سے باہر ہوتی ہیں۔ اگر کبھی غلطی ہو جائے یا میری وجہ سے کوئی پریشانی آجائے تو کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میرے والدین میرے معاملات میں دل چسپی لیں اور مجھ سے میرے مسائل کے بارے میں دریافت کریں۔ لیکن انھوں نے بچپن ہی سے مجھے اپنے سے اس قدر دور کر دیاہے کہ اب میں ان کے قریب ہونا بھی چاہوں تو نہیں ہوپاتی۔ ان کو مجھ پراعتماد ہی نہیں ہے۔ خواہ ہم اپنی جان لڑا دیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ مجھے اپنی شادی کے حوالے سے زندگی کا ایک بڑا اہم فیصلہ کرنا تھا اور میرا بہت دل چاہا کہ میں اپنے والد سے اس کے متعلق خود بات کروں لیکن نہیں کرپائی۔ گھر پر والد صاحب کا ہی زیادہ کنٹرول ہے۔ ہر کام ان کی رضامندی لے کر کرنا ہوتا ہے۔ امی ہیں تو وہ بھی بھائیوں کا دم بھرتی ہیں خواہ وہ کیسا ہی کام کریں۔ بہن اور بھائی دونوںسے رویے میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ مجھ میں اتنا اعتماد نہیں ہے کہ میں کھل کر اپنے والد سے بات کر سکوں۔ وہ دنیا بھر کے لیے تو بہت اچھے ہیں‘ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں لیکن گھر والوں سے بالکل مختلف رویہ ہے۔ ان کے خیال میں گھر والوں کی ضروریات پوری کر دینا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ والدین اور بچوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اور اولاد کے حقوق کیا ہیں؟
جواب: اسلام کے اخلاقی اور معاشرتی نظام میں خاندان بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خاندان کے نظام میں سربراہِ خاندان مسئول‘ امیر اور قائد کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ البتہ دین کے مجموعی نظام سے مناسب واقفیت نہ ہونے‘ اور خصوصی طور پر مقامی اور خاندانی روایات کی اندھی تقلید اور غلط العام تصورات کو بغیر کسی تحقیق کے ماننے کے نتیجے میں‘ ہمارے معاشرتی اور خاندانی نظام میں اکثر اوقات عدم توازن‘ ذمہ داری کا غلط استعمال اور بعض اوقات فرائض و حقوق کی صریح پامالی مشاہدے میں آتی ہے۔
آپ کے سوالات اسی عدم توازن اور اپنے اختیارات و فرائض کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں انھیں اسی ترتیب سے لیتے ہوئے جواب درج کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک والدین کی طرف سے بچوں سے توقعات اور اُمیدیں قائم کرنے کا سوال ہے‘ یہ ان کا ایک جائز حق ہے لیکن وہ کتنی اور کہاں تک یہ امیدیں کر سکتے ہیں؟ اس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں انفرادی وسعت سے پکارا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی وسعت (برداشت) سے زائد بوجھ نہیں ڈالتا۔ اسی بنا پر ہر وہ شخص جو کسی دوسرے پر نگراں ہو اس پر بھی لازم ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کلّی اختیارات کے باوجود ہر ہر فرد و مخلوق کی استطاعت دیکھ کر اس پر ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس سے توقع رکھتا ہے تو اپنے محدود اختیارات کے ساتھ ایک باپ یا ماں‘ ایک دفتر کا نگراں اپنے ماتحت‘ اولاد یا اپنے عملے سے کس بنیاد پر ان کی صلاحیت اور وسعت سے بڑھ کر اُمید رکھ سکتا ہے۔
اسے یوں سمجھیے کہ ایک ذہین طالبہ جوعام حالات میں چھ گھنٹے روزانہ اپنے گھر پر مطالعے کے بعد فرسٹ کلاس نمبر حاصل کرسکتی ہو‘ اگر مزید دو گھنٹے محنت میں اضافہ کر دے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ فرسٹ کلاس فرسٹ آجائے۔ لیکن ایک سست اور نااہل طالب علم جو آٹھ گھنٹے محنت کے بعد بھی پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مستقل مزاجی سے تھرڈ ڈویژن ہی لاتا رہا ہو‘ اس سے یہ توقع قائم کرنا کہ مزید دو گھنٹے محنت کرکے فرسٹ کلاس لے آئے گا‘ حقیقت ِ واقعہ کے خلاف ہے۔ اس مثال کی روشنی میں اولاد اور والدین دونوں اپنا جائزہ لے کر طے کر سکتے ہیں کہ ان کی توقعات حقیقت سے کتنی قریب یا بعید ہیں۔
سوال کا دوسرا پہلو کہ محنت اور کوشش کے باوجود اگر فرسٹ کلاس نہ آسکے یا فرسٹ کلاس آجائے اور دونوں صورتوں میں محنت کا اعتراف تو کجا‘اُلٹا اسے نظرانداز کیا جائے‘ یہ والدین کی طرف سے صریح ناانصافی‘ زیادتی‘ اور عدل کے اسلامی اصول کے منافی ہے۔ اپنی اولاد کی کوشش‘ محنت اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کی محنت کا اعتراف کریں اور کسی تحفے یا حوصلہ افزائی کے چند کلمات کے ساتھ ان کی کوشش کا اعتراف کریں۔
اولاد پر اعتماد کا معاملہ بھی دو طرفہ ہے۔ بعض اوقات اولاد اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی (over confidence) کی بنا پر یہ سمجھتی ہے کہ والدین ہمیں بچہ سمجھتے ہیں‘ اس لیے ہم سے مشورہ نہیں کرتے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض معاملات میں والدین بھی اسی قسم کی زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف کی بنا پر کہ اگربچوں کے علم میں ہماری وہ حماقتیں بھی آئیں جوانسان ہونے کی بنا پر وہ کربیٹھتے ہیں تو ہمارا بھرم و اثر کم ہو جائے گا‘ بہتریہی سمجھتے ہیں کہ بچوں سے مشورہ ہی نہ کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ درست نہیں ہے۔
قرآن کریم نے تمام امور میں مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے‘ چنانچہ وشاورھم فی الامر‘ اور وامرھم شوریٰ بینھم کے واضح الفاظ سے نہ صرف حکومت کے ذمہ داروں‘ اداروںکے سربراہان بلکہ خاندان کے سربراہ کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا جائے۔ اگر ایک ماں روزانہ کھانے کے وقت بچوں سے یہ پوچھتی ہے کہ کل کیا پکوایا جائے تو ایک باپ بھی یہ مشورہ کر سکتا ہے کہ گھر کی تعمیر‘ کسی چیز کی خرید و فروخت‘ کسی کاروباری مشکل ‘ کسی کا رشتہ ‘ غرض تمام خاندانی امور میں دوسروں کی رائے کیا ہے۔ اسلام کا مدّعا آغاز سے یہی تھا کہ گھر کے اندر شوریٰ ہو تاکہ یہ شوریٰ طرزِ حیات کا جزو بن جائے اور گھر کے باہر کے معاملات میں بھی اس پر عادتاً عمل کیا جانے لگے۔والدین کا اولاد سے کوئی مشورہ نہ کرنا‘ ایک غلط حکمت عملی ہے۔ ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں لازمی طور پر مشورے کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
والد سے خائف ہو کر بات نہ کرنا اور اجنبیوں کی طرح ان سے رویہ بنا لینا اسلامی تصورِ خاندان کے منافی ہے۔ اس شرم و حیا کے ساتھ‘ جو ایک لڑکی اپنے باپ سے رکھتی ہے‘ اس کا کھل کر بلاتکلف باپ سے بات کرنا اور بہت سے معاملات میں اپنے اختلاف کا اظہار کرنا اس کا اسلامی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف کا حکم تنہا کسی فریق کے لیے نہیں بلکہ ہر فریق معاملہ کے لیے ہے۔ بیوی کی طرف سے شوہر کے لیے اور شوہر کی طرف سے بیوی کے لیے اس کا کرنا فریضہ ہے۔ اسی طرح اولاد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
جس طرح والدین پر اولاد کو نصیحت کرنا فرض ہے‘ ایسے ہی اولاد پر والدین کو مشورہ دینا‘ انھیں مختلف امور پر متوجہ کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔ باپ کے لیے خصوصی طور پر اپنی لڑکیوں کے حوالے سے‘ احادیث میں جو اشارے اور تعلیمات ملتی ہیں وہ ہمارے لیے بہت قابلِ غور ہیں۔
ایک حدیث میں صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی دولڑکیوں کی تربیت اچھی طرح کی اور وہ بلوغ کو پہنچ گئیں‘ یعنی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئیں توقیامت میں وہ شخص اور حضور نبی کریمؐ اتنے قریب اور ساتھ ہوں گے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ گویا ایک باپ اپنی لڑکیوں سے محبت‘ نرمی‘ بھلائی اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کر کے حضور نبی کریمؐ سے جنت کا وعدہ لے سکتا ہے اور لڑکیاںذریعہ نجات بن سکتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام باپ اور بیٹی کے درمیان حجابات کی دیواریں کھڑی کر کے نہیں ہوسکتا بلکہ ان دیواروں کو منہدم کرکے باہمی اعتماد اور ہمت افزائی سے ہی ہو سکتا ہے۔
اگر آپ کے والد آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو آپ کو اپنے آپ کو خود اپنے والد سے بات کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آپ کا خوف بے بنیاد ہے۔ اسے بغیر کسی تاخیر کے ذہن سے نکال کر اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے احترام و محبت کے ساتھ بات کیجیے تاکہ یہ برف پگھلے اور آپ کی صحیح شخصیت آپ کے والد کے علم میں بھی آسکے۔
آپ کے والد کے اس رویے کا تعلق ممکن ہے کہ خود آپ کی والدہ کا ایک روایتی گھریلو خاتون کی طرح شوہر کی اندھی اطاعت سے بھی ہو۔ انھوں نے گھریلو معاملات میںآپ کے والد کی ہربات کو مشورہ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر مان لینے کا رویہ رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے والد خود کو ایک مطلق العنان بادشاہ کی طرح گھر پر حاکم سمجھتے ہوں اور محض نان نفقہ فراہم کر دینے کے بعد ایک آمر کی طرح ہر بات پر اصرار کرنے کے عادی ہوں‘ اور اس بنا پر آپ سے کسی بات میں مشورہ لینے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اپنی بیٹی کو تو نظرانداز کریں اور بیٹوں کو اہمیت دیں تو یہ رویہ بھی اسلام کے منافی ہے۔ اولاد میں تفریق اور خصوصی طور پر جنس کی بنیاد پر تفریق‘ اسلام کے منافی ہے۔ آپ کو علم ہے کہ حضور نبی کریمؐ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا کتنا خیال کرتے تھے اور جب وہ آتی تھیں تو ان کے لیے اُٹھ کرکھڑے ہو جاتے اور پیشانی کو بوسہ دیتے تھے۔ ہمارے لیے دلیل اگر کوئی ہے تو وہ کتاب و سنت ہی سے ہے۔ اس لیے سیدہ فاطمہؓ کا اپنے والد سے جا کر ملازم کا مطالبہ کرنا‘ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ بلاکسی خوف کے انھوں نے اپناحق طلب کیا۔ یہی شکل آپ کو اختیارکرنی چاہیے۔
اسلام بے جا قسم کے حجابات اور تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اور سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کو اپنے والد سے براہِ راست بات کرنی چاہیے اورانھیں اللہ کے خوف کے ساتھ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے طور پر‘ بغیر کسی برہمی کے‘ آج تک آپ کو نظرانداز کرنے کی غلطی کے اعتراف کے ساتھ آپ کے ساتھ محبت اور اعتماد کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
حضور نبی کریمؐ باہر والوں کے ساتھ ہی نہیں‘ بلکہ گھرکے اندر انتہائی شفیق و رحیم تھے۔ آپ کے والد اگر چاہتے ہیں کہ قیامت میں اللہ کے رسولؐ سے قربت ملے تو انھیں خود اپنے رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے ماضی کو بھلا کر اپنی بیٹی اور بیٹوں کے ساتھ مودت و رحمت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔عظمت اور بڑائی اسی میں ہے۔ فاصلے پیدا کر کے مصنوعی طور پر اپنی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہونے میں نہیں ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: کیا عورت جج (قاضی) بن سکتی ہے جس کے لیے آج کل judiciary کا امتحان دیا جاتا ہے؟ میں نے قاضی کی شرائط میں پڑھا تھا کہ مرد ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر یہ جج صرف فیملی کیسز سے متعلق ہو تو اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہوگی؟
جواب: اسلام کے حوالے سے عصری مباحث میں زیربحث مسئلے پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے اور خصوصاً غیرمسلم اپنی تنقید میں اس طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں۔ مسلمان دانش ور بعض اوقات اپنے خیال میں اسلام کا دفاع کرنے کے لیے اور نام نہاد انسانی حقوق کے علم برداروں کے مسلسل حملوں کو پسپا کرنے کے لیے محض عقلی بنیاد پر ایک موقف اختیار کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عقل بلکہ قرآن و سنت کا مدعا و مزاج اور ہدایات کے پیشِ نظرایک رائے قائم کی جائے‘ چاہے وہ حقوقِ انسانی کے نام نہاد علم برداروں کو پسند آئے یا سخت ناپسند ہو۔
اگر معروف فقہی مذاہب پر نظر ڈالی جائے تو صاحب ہدایہ نے قاضی یا جج کے لیے جو شرائط مقرر کی ہیں اور جو فقہ حنفی کی عمومی رائے کہی جا سکتی ہے ‘ اس میں سات شرائط پائی جاتی ہیں: ۱- مسلمان ہونا‘ ۲- مکلف ہونا‘ ۳- آزاد ہونا‘ ۴- صاحب ِ عقل و بینا ہونا‘ ۵- کبھی حدِ قذف نہ لگی ہو‘ ۶- سماعت درست ہو‘ ۷- گونگا نہ ہو۔ ان صفات میں اس کا مرد ہونا اور مجتہد ہونا شامل نہیں ہے (البحرالرائق‘ ج ۶‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)۔ اس کے مقابلے میں فقہ مالکی میں مرد ہونا بھی شرائط میں شامل کیا گیا ہے (الشرح الصغیر‘ ج ۴‘ ص ۱۸۷-۱۸۸)۔ فقہ حنبلی میں مرد ہونا ضروری سمجھا گیا ہے لیکن امام ابن جریر طبری سے منقول ہے کہ مرد ہونا شرط نہیں۔ فقہ شافعی بھی مرد ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے (المنہاج‘ ج۴‘ ص ۳۷۵-۳۷۷)۔ البتہ فقہ حنفی میں حدود اور قصاص کے مقدمات کی سماعت ایک خاتون جج نہیں کرسکتی۔ (ہدایہ‘ ج۳‘ ص ۱۲۵)
جومذاہب عورت کو قاضی تصور کرنے کے حق میں نہیں ہیں ان کی بنیاد ایرانیوں کے ایک عورت کو فرمانروا بنانے اور اس پر حضور نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر ہے کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کر دے‘ یا اس پہلو پر ہے کہ وہ مردوں کی محفل میں دقت میں پڑے گی اور مشکلات کا شکار ہوگی۔ چونکہ ہمارے ہاں اکثریت کا مسلک حنفی ہے اس لیے قصاص و دیت کو چھوڑتے ہوئے بقیہ معاملات ایک خاتون جج کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: سعودی عرب کے فتاویٰ شائع شدہ فتاویٰ براے خواتین (جمع و ترتیب محمد بن عبدالعزیز‘ دارالاسلام مطبوعات) میں پڑھا کہ عورت کے لیے گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ جس کی وجہ انھوں نے ان امکانات سے بھی بچنا قرار دیا جن سے حدود کو نقصان پہنچ سکتا ہو‘ یعنی خلوت اور گھر کی چار دیواری کے تصور کو مجروح کرنا۔ موجودہ حالات اور ضروریات کے پیشِ نظر اس کی کیا حیثیت ہوگی‘ جب کہ پردہ (شرعی) کیا جائے؟
ج : آپ نے سعودی حکومت کے زیرانتظام دارالافتاء کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ خواتین کے تحفظ و احترام کے پیش نظر ان کی رائے میں گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ بلاشبہہ دین کی تعلیمات اہل ایمان کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے ہیں اور بہت سے معاملات میں مصلحتِ عامہ کے پیش نظر ایک ایسا کام بھی جائز ہو جاتا ہے جو عام حالات میں جائز نہ ہو‘ یا اسی طرح بعض جائز امور ممنوع قرار پاتے ہیں لیکن حلّت و حرمت کی بنیاد حکمت پر نہیں‘ علت پر ہوتی ہے اور نصوص ہی کی بنیاد پر ایک فعل کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔
خواتین کے گاڑی چلانے کو اگر گھڑسواری یا اُونٹ کی سواری پر قیاس کیا جائے تو ہمیں آثار میں یہ تلاش کرنا پڑے گا کہ کیا قرآن وسنت نے کسی مقام پر ایک مسلمان عورت کو تنہا گھوڑے یا اُونٹ پر سواری کرنے سے منع کیا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا گاڑی چلانے میں ایک خاتون ڈرائیور کی جان‘ عزت‘ ملکیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یا گاڑی چلانا اس کے لیے بہت سے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کاروبار کی بنا پر گھر سے دُور رہتا ہو‘ اور اس کے گھر میں سوائے بیوی اور بچوں کے‘ جو کم عمر ہوں کوئی اور نہ ہو اور بچوں میں سے کسی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو یا انھیںاسکول سے لانا ہو تو کیا کار چلانا مقاصدِ شریعت کے منافی ہوگا؟
شریعت کا ایک معروف قاعدہ یہ ہے کہ اصلاً اشیا مباح ہیں جب تک‘ اس کی ممانعت نہ ہو۔ اس بنا پر گاڑی چلانا یااس میں سفر کرنا ناجائز کی تعریف میں نہیں آسکتا۔ اگر قیاس کو تھوڑا اور آگے بڑھایا جائے ‘ فرض کیجیے ہمارے علم میں یہ بات آئے کہ پشاور سے لاہور جاتے وقت ایک مرد کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسے رات سخت سردی کے عالم میں ٹھٹھرکر گزارنی پڑی جس کی وجہ سے اسے نمونیہ ہوگیا اور وہ انتقال کر گیا۔ اب یہ کہا جائے کہ اس بنیاد پر آیندہ کسی مرد کو پشاور سے لاہور گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے تو یہ ایک انتہائی مبالغہ آمیز فیصلہ ہوگا۔ آج‘ جب کہ کار میں دو طرفہ بات کرنے کے لیے ایسا سسٹم لگوایا جا سکتا ہے جس میں گاڑی چلاتے ہوئے ایک فرد اپنے گھر یا جس سے چاہے رابطہ رکھ سکتا ہے‘ جب سڑکوں پر ہر تھوڑے فاصلے کے بعد ہنگامی امدادی مراکز پائے جاتے ہیں اور جب عموماً ایک خاتون جنگل بیاباں میں نہیں‘ شہر میں تفریحاً نہیں ضرورتاً گاڑی استعمال کرے تو اس میں شریعت کے کون سے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
رہا معاملہ چار دیواری کے تصور کا‘ تو کیا تعلیم و تجارت اور دیگر ضروریات کے لیے ایک خاتون پر گھر سے نکلنے پر شریعت نے کوئی بندش عائد کی ہے یا وہ ضوابط فراہم کیے ہیں جن کی پابندی کرتے ہوئے اس کا چلنا پھرنا‘ لباس پہننا‘ نگاہوں کو محفوظ رکھنا‘ غرض ہر اس پہلوپر جو معاشرتی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے ہدایات دے کر اس کے لیے گھر سے باہر جانے کے آداب متعین کر دیے ہیں۔ ان واضح تعلیمات کا مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے بلاکسی احساسِ گناہ کے گھر سے باہر جائے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ وہ وقت کابڑا حصہ بالاستمرار گھر سے باہر گزارے اور محض سونے کے لیے گھرآجائے۔ دین میں غلو کی جگہ توازن اور شفقت اور پریشانی کی جگہ آسانی شریعت کا منشا و مقصود ہے۔ توازن اور وسط کا طریقہ ہی ہمیں دین پر عمل کرنے کے لیے صحیح فضا فراہم کر سکتا ہے۔ (ا - ا)
س: ابرئوں کے بالوں کو اُتارنا اور باریک کرنا حرام ہے‘ جب کہ غیر فطری بالوں کی نسبت کچھ رعایت ملتی ہے‘ مثلاً مونچھوں کی جگہ پر یا رخساروں پر عورتوں کے بال آنا--- تو کیا ابرئوں کے درمیان‘ ناک کے اُوپر ملنے کی جگہ بھی غیر فطری شمار ہوگی؟
ج : احادیث میں واضح حکم آتا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ لیکن یہ حکم تمام بالوں کے بارے میں نہیں ہے۔ چنانچہ طہارت کے لیے جسم کے بعض حصوں کے بالوں کو صاف کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی شکل صورت اور جسم کو متوازن اور خوب صورت بنایا ہے۔ اگر کسی کی ابرئویں گھنی ہیں تو یہ اس کی خوب صورتی کا حصہ ہے۔ کسی کی بھنویں پیشانی کے وسط میں آکر مل جاتی ہیں اور کسی کی نہیں ملتیں تویہ اس کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اس کے خلاف کیا جائے تو فطری توازن اور صورت میں تبدیلی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
فرض کیا جائے کہ ایک خاتون کے گالوں اور لبوں کے اُوپربال اُگ آتے ہیں جن کی بنا پر اس کا شوہر اسے چھوڑنے پر غور شروع کر دیتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ بات خوش کرے گی کہ وہ طلاق قبول کر لے لیکن زائد بالوں کو صاف نہ کرے؟
جن معاملات میں قرآن و حدیث نے وضاحت کر دی ہے ان کی بغیر کسی تردد کے اطاعت لازمی ہے اور جن معاملات میں رخصت اور اجازت ہے ان میں قیاس کر کے مشکل بنانا‘ دین کی حکمت کے منافی ہے۔ اللہ کے کسی حکم یا رسولؐ اللہ کی کسی ہدایت کو ناپسند کرنا‘ ردّ کرنا یا اس کے خلاف کرنا دین سے بغاوت ہے۔ لیکن جہاں دین نے رخصت دی ہو وہاں شدت اختیار کرنا نہ تقویٰ ہے‘ نہ عزیمت۔ جائزکے دائرے میں رہتے ہوئے رشتہ ازدواج کو برقرار رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے کسی کام کا کرنا مقاصدِ شریعت سے مطابقت رکھتاہے۔ اس لیے بلاوجہ ایسے معاملات میں غلو سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ا - ا)
سوال: میری جب شادی ہوئی تو میں نے بیوی سے کہا کہ تم پردہ کرو۔ میری بیوی نے میری بات کو مانتے ہوئے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ والدین اور قریبی رشتے داروں کی وجہ سے مجھے بہت طعنے ملے کہ تم دین کے بڑے پابند ہو! لیکن میں اور میری بیوی ڈٹے رہے۔ آخر میںمیرے والدین نے بہت زور دیا یہاں تک کے ناراض ہوگئے۔ ماں باپ کی ناراضی کو مول نہ لیتے ہوئے میں نے اپنی بیوی کا پردہ ترک کروا دیا۔ کیا میں نے صحیح کیا ہے؟ کیا میں اس کے لیے جواب دہ ہوں گا؟
جواب: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں موجود بعض ناخوش گوار حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عموماً جو حضرات پردہ یا حجاب کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ قیاسی بنیاد پر اپنی طرف سے یہ دلیل تراشتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل اور آنکھ کا ہے ۔ اگر انسان کا مقصد بدنگاہی اور بدنیتی نہ ہو تو پردہ کرنے یا نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے جذبات اتنے اعلیٰ ہیں کہ ہمارے گھرانے میں پردے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان قیاسی موشگافیوں کی قرآن و سنت میں نہ کوئی دلیل ہے نہ نظیر۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں حجاب کا حکم یوں بیان ہوا ہے: ’’اے نبیؐ ،اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘ (الاحزاب ۳۳:۵۹)۔ گویا مسلمان عورت کی پہچان ہی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے جسم کو چادر میں چھپا کر اور اُوپر سے پلّو لٹکا کر ان لوگوں کے سامنے جائے جن سے حجاب کا حکم ہے۔ آپ ماشاء اللہ خود حافظ قرآن ہیں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ والدین کی اطاعت کا حکم معروف میں ہے‘ منکر میں نہیں۔ حدیث شریف نے اس بات کو یوں واضح کردیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی رُوگردانی ہوتی ہو تو کسی حاکم کی اطاعت نہیں ہوگی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کے والدین آپ کو اپنے گھر کی عزت بڑھانے کے لیے بیوی سے پردہ کروانے پر اُبھارتے اور اس پر اصرار کرتے۔ لیکن اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک غیراسلامی عمل کرنے کا حکم دیا تو ان کے حکم کی پیروی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ یقینا یہ بات ان کے علم میں نہیں ہوگی ورنہ وہ نہ خودکو اور نہ آپ کو اور آپ کی بیوی کو حکمِ قرآنی کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔
گو‘ قانون سے لاعلمی انسان کو قانون شکنی کے الزام سے بری نہیں کر دیتی لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ والدین نے آپ کو اللہ کے حکم کے منافی کام پر مجبور کیا‘ آپ کا فرض بن جاتا ہے کہ والدین کو بھی عزت و احترام اور محبت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں اور خود بھی اپنی اصلاح کرلیں۔ رہا سوال والدین کا آپ سے ایک غلطی کروانے پر جواب دہی کا معاملہ‘ تو اس پر غور کیجیے کہ اگر آپ اپنے والد‘ یا بیوی یا کسی دوست کے دبائو میں آکر اپنے پڑوسی کو لاٹھی مار کر مجروح کر دیں تو کیا ذمہ داری صرف آپ کے والد یا دوست کی ہوگی یا آپ بھی ایک عاقل بالغ شخص ہونے کی بنا پر یکساں اس ظلم کے ذمہ دار ہوں گے؟
واضح قرآنی ہدایات کے بعد یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اب آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی احکام پر چلنے اور جاہلی رسوم و رواج سے بچنے اور انھیں ردّ کر کے خالق کی بندگی میں آنے کی توفیق دے۔ (پروفیسر ڈاکٹرانیس احمد)
س : میں ورکنگ وومن کے بارے میں اسلام کے حوالے سے آپ کی ماہرانہ رائے معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ اسلام کا اس حوالے سے کیا نقطۂ نظر ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں کما رہے ہوں اور خاوند اپنی کمائی سے اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتا ہے اس لیے کہ وہ ان کا بیٹا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے لیکن اگر بیوی اپنی کمائی سے اپنے والدین کی مدد کرے تو کیا یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے‘ جب کہ وہ اپنے والدین کی اپنے خاوند کی کمائی میں سے کوئی مدد نہ کر رہی ہو؟ اگر وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے رشتہ داروں کی مدد کرے تو اس کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیا عورت کی ذاتی جایداد کا بھی کوئی تصور ہے؟ اگر عورت کام کرتی ہے تو اس کے خاوند کو کچھ قربانی بھی کرنا پڑتی ہے‘ وہ گھر کی دیگر ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ کیا عورت اس تعاون کی بنا پر اپنی مرضی سے اس پیسے کو اس لیے خرچ نہیں کر سکتی کہ یہ دونوں کی مشترکہ کمائی ہوتی ہے؟ والدین اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر رقم صرف کرتے ہیں‘ اسے محبت سے پروان چڑھاتے ہیں‘ اس کی شادی کرتے ہیں لیکن شادی کے بعدوہ ان کی کوئی خدمت کیا محض اس لیے نہیں کرسکتی کہ وہ ان کا بیٹا نہیں ہے؟
ایک اور سوال کی بھی وضاحت فرما دیں کہ اگر کوئی عورت امیر ہے‘ اس کی ملکیت میں گھر‘ زمین اور زیورات ہیں‘ اور اس کی صرف ایک بیٹی ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے خاوند‘ بیٹی اور رشتے داروں میں یہ جایداد کیسے تقسیم ہوگی؟ وہ اپنی زندگی میں اپنے خاوند یا کسی دوسرے کو کتنا حصہ تحفتاً دے سکتی ہے؟ کیا ایک تہائی؟ کیا وہ اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر انفاق فی سبیل اللہ کرسکتی ہے؟
ج : آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق شوہر اور بیوی دونوں کے ملازمت یا کاروبار کرنے کی صورت میں ملکیت اور حقوق و فرائض سے ہے اور دوسرے کا ملکیت کی تقسیم اور میراث سے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم نے خاندان میں شوہر کی سربراہی کو جن وجوہات کی بنا پر فضیلت دی ہے ان میں سے ایک اس کا خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرنا ہے‘ چنانچہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی پرورش‘ رہایش‘ تحفظ‘ جسمانی اور اخلاقی ضروریات پوری کرنے کے لیے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اس بنیادی حق کے ساتھ جس کی طرف (سورۃ النساء ۴:۳۴) میں اشارہ ہے‘ قرآن کریم نے والدین پر خرچ کرنے کا واضح حکم بھی دیا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں‘ ہم کیا خرچ کریں‘ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین‘ رشتے داروں پر‘ یتیموںاور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے‘ اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘ (البقرہ ۲:۲۱۵)۔ اس خصوصی ہدایت کے ساتھ عمومی اصول یہ طے کر دیا گیا کہ والدین کے ساتھ احسان کا رویہ‘ یعنی احترام‘ محبت اور ان پر خرچ کرنے کا رویہ اختیار کیا جائے (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳-۲۴‘ العنکبوت ۲۹:۸ اور لقمان ۳۱:۱۴)۔ حقوق و فرائض کے بارے میں اسلام کا اصول بڑا واضح ہے اور اس میں مسئلہ کسی انتخاب کا نہیں ہے کہ اگر آدمی نماز پڑھ لے تو روزے سے اپنے آپ کو فارغ سمجھ لے بلکہ اسے چاہیے کہ حقوق الٰہی کے ساتھ حقوق العباد بھی پورے کرے۔ چنانچہ یہ مفروضہ کہ شوہر اپنی کمائی اپنے والدین پر خرچ کرے اور بیوی گھر کا خرچ چلائے اسلامی اصول کے منافی ہے۔ بیوی اور بچوں کو نفقہ فراہم کرنا شوہر کا فرض ہے‘ احسان نہیں۔ ہاں‘ اگر بیوی باہمی مشاورت و اتفاق سے ملازمت یا کاروبار کرتی ہے اور اپنی خوشی سے بغیر کسی مطالبے یا دبائو کے گھر یا بچوں اور شوہر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی طرف سے ایک صدقہ ہے۔ وہ اس کے لیے مکلف نہیں ہے۔ ایک صحابیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہیں اور کچھ صدقہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ تمھارا شوہر غریب ہے اس پر خرچ کرو۔ گویا اس طرح ان صحابیہ کو صدقہ کا اجر بھی ملا اور شوہر کی امداد بھی ہوئی۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ چونکہ بیوی معاشی وسائل فراہم کرنے پر مکلف نہیں ہے اس لیے اگر وہ کوئی کام کرتی ہے جس سے اس کی گھریلو ذمہ داریاں‘ یعنی بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق متاثر ہوتے ہیں تو اولیت بچوں اور شوہر کے حقوق کی ہوگی۔ مگر جیسا کہ عرض کیا گیا باہمی مشاورت سے اور حقوق کے متاثر ہوئے بغیر وہ کوئی کام کر سکتی ہے تو اسے اس کی پوری آزادی دی گئی ہے اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ حق اکتساب کو قرآن کریم نے سورۃ النساء (۴:۳۲) میں تسلیم کیا ہے اور حق ملکیت ہی کی بنا پر مومنات پر زکوٰۃ فرض کی ہے اور نہ ان کے ترکے سے شوہر یا اولاد کوئی حصہ نہ پا سکتے تھے۔
شوہر اور بیوی کے باہمی مشاورت و اتفاق کے بعد ایک خاتون جو کچھ کماتی ہے اس کی مالکہ وہ خود ہی ہوگی‘ شوہر اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس لیے اگر بیوی اپنی کمائی اپنے والدین پر‘ اولاد پر‘ یا شوہر پر خرچ کرتی ہے تو اسے اس کا پورا حق حاصل ہے۔ شوہر بیوی کو جو کچھ خرچ گھر کے لیے دیتا ہے یا کوئی رقم ہر ماہ بطور جیب خرچ دیتا ہے اور بیوی اس جیب خرچ کو اپنے اُوپر خرچ کرنے کے بجائے اپنے والدین پر یا گھر کے کسی کام پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ سمجھا جائے گا۔ اسے اپنے جیب خرچ کے صرف کے لیے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی اگر شوہر ایک مقررہ رقم بیوی کی صوابدید پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اسے گھر میں خرچ کرے یا اپنے اُوپر یا کسی اور پر‘ تو اس شکل میں بھی بیوی پر کوئی اخلاقی یا قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ لیکن اگر شوہر نے متعین طور پر ایک رقم صرف گھر میں کھانے پینے اور کپڑوں وغیرہ کے لیے یا بچوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے دی ہے تو وہ اسی کام میں صرف کی جائے گی‘ اسے وہ اپنے والدین پر خرچ نہیں کرسکتی جب تک شوہر بیوی کو اس کی اجازت نہ دے کہ وہ جہاں اور جس طرح چاہے اس کی دی ہوئی رقم کو خرچ کرسکتی ہے۔
اگر بیوی گھر سے باہر کام کرتی ہے اور شوہر گھرکے معاملات میں ہاتھ بٹاتا ہے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے اور اس وقت بھی فرض ہے جب بیوی گھر سے باہر کام نہ کررہی ہو۔ حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے اُمہات المومنین کا ہاتھ گھرکے کاموں میں بٹایا‘ جب کہ وہ ورکنگ ویمن نہیں تھیں۔ اس لیے اگر کوئی شوہر گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرتا ہے تو سنت کی پیروی کرتے ہوئے بیوی سے نہیں اللہ سے اجر کا مستحق بنتا ہے بلکہ اسے بیوی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی بنا پر اسے ایک سنت نبویؐ پر عمل کا موقع مل سکا۔ اگر گھر کے کام میں مرد کا ہاتھ بٹانا آپ کے خیال میں اتنا بڑا تعاون ہے کہ وہ اپنی بیوی کی محنت کی کمائی میں حق دار بن جائے تو پھر شوہر جو گھر کے باہر کام کرتا ہے اس کی کمائی میں بیوی کو جو اس کی اولاد اور گھر کی نگرانی کرتی ہے شریک اور حق دار کیوں نہ تصور کیا جائے؟
جہاں تک تنہا ایک لڑکی کے وارث ہونے کا سوال ہے سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۱ میں وضاحت ہے کہ ’’اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے‘ (۴:۱۱)۔ رہا ایک فرد کی زندگی میں اپنی ملکیت کو تقسیم کرنا تو وہ اس کے لیے مختار ہے لیکن نیت جائز ورثا کو محروم کرنے کی نہ ہو اور اگر اولاد میں تقسیم کی جائے تو عدل کی بنیاد پر ہو‘کسی کو دوسرے پر فوقیت نہ دی جائے۔ اس میں ۳/۱ کی قید نہیں ہے۔ یہ قید وصیت میں ہے کہ ایک فرد اپنے ترکہ میں حد سے حد ایک تہائی وصیت کرسکتا ہے کہ کسی عزیز کو یا کسی نیک کام میں اسے دیا جائے۔ دو تہائی کی تقسیم بہرحال اسلام کے قانونِ وراثت کے مطابق کی جائے گی۔ ایک خاتون اپنی ملکیت میں سے جتنا چاہے اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتی ہے۔ آخر حضرت زینب ؓ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ لمبے تھے‘ یعنی وہ اُمہات المومنین میں انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں میں بڑھ کر تھیں۔ ایک امیرخاتون اپنی زندگی میں اپنی ملکیت میں سے اپنے شوہر یا اولاد یا والدین یا اقربا میں سے جسے چاہتی ہو بلاقید دے سکتی ہے اور ایسے ہی اپنی ملکیت میں سے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے کسی اجازت کی محتاج نہیں ہے۔ (ا - ا)
س : ہمارے ہاں ایک رواج ’’سورہ‘‘ معروف ہے جس میں کسی قاتل یا زیادتی کرنے والے شخص کی بیٹی یا بہن کو بطورِ جرمانہ مقتول پارٹی کے کسی فرد کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
ج : آپ نے پشتونوں کے جس رواج کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں مجرم کو مالی تاوان کے علاوہ بعض اوقات اپنے گھرانے کی ایک یا زیادہ لڑکیاں بھی بطور تاوان دوسرے فریق کو نکاح میں دینا پڑتی ہیں اور اس کو مقامی اصطلاح میں ’’سورہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رسم اگرچہ مقامی قبائلی لوگوں نے اس لیے قائم کی کہ اس طرح دو خاندانوں کی باہمی رقابت اور دشمنی کو رشتے کے ذریعے سے دوستی میں بدل دیا جائے‘ اور خونی رشتہ قائم ہو جانے کے بعد وہ ایک دوسرے سے مل کر شیروشکر ہو جائیں۔ لیکن اس میں ایک پہلو جو انسانی تحقیرکا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ ایک مجرم کے جرم کی سزا اس کی بہن یا بیٹی کو اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے لیکن اس لڑکی کو تاوان کے طور پر دوسرے فریق کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے‘ اور بالعموم وہ لڑکی ایک مدت تک بلکہ بعض اوقات تاحیات ایک زرخرید لونڈی سے بھی زیادہ حقیر دیکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ بسااوقات اولاد پیدا ہوجانے کے بعد یہ داغ دھل بھی جاتا ہے اور وہ ایک ماں کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔
شریعت اسلامی نے ہمیں ایک ضابطہ اور اصول دیا ہے کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط (فاطر۳۵:۱۸)‘ یعنی کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ گویا باپ بیٹے کے کیے کا ذمہ دار نہیں اور اسی طرح بہن بھائی کے کسی فعل کی سزا نہیں پائے گی۔ سورہ کی رسم اس قاعدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس میں ایک بیٹی یا بہن اپنے باپ یا بھائی کے جرم کی پاداش میں بیاہی جاتی ہے اور اس طرح اس کے تمام ارمانوں اور حسرتوں کا خون کر دیا جاتا ہے۔ وہ خوشی خوشی بیاہی جانے کے بجائے روتی پیٹتی اور سرمیں خاک ڈالتی دوسرے گھر تاوانِ جنگ کی حیثیت سے منتقل ہو جاتی ہے‘ جب کہ شریعت کی زبان میں کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ o (المدثر ۷۴:۳۸)‘ یعنی ہر آدمی اپنے کیے کو بھگتتا ہے نہ کہ دوسرے کے کیے کو۔
دوسری بات یہ کہ کسی بھی لڑکی کو شادی کے سلسلے میں اپنے باپ یا بھائی کے فیصلے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سرپرست اور ولی کی مرضی کے ساتھ ساتھ لڑکی کی اپنی مرضی بھی بڑی اہم ہے۔ لیکن اس رسم میں لڑکی کی رائے لینے کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو مجبور پا کر انکار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
لہٰذا شریعت نے ایک لڑکی کو جس عزتِ نفس سے نوازا ہے اور اس کو جو احترام دیا ہے‘ اس کو ’’سورہ‘‘ کی صورت میں داغ دار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے ’’سورہ‘‘ کی رسم شریعت کی نظر میں ایک انتہائی بھیانک‘ مکروہ اور ناپسندیدہ رسم ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘ اور مسلم معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بے شک اللہ اور اس کا رسولؐ اور آپؐ کا لایا ہوا دین اسلام اس ظلم سے بری الذمہ ہیں۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی‘ ماہنامہ دعوۃ‘ فروری ۲۰۰۳ئ‘ ص ۴۶‘۴۷)
انٹرنیٹ کے ذریعے سے ممبر اپنا اکائونٹ کھولتا ہے اور ۶ ہزار روپے کمپنی کو جمع کروا کر ممبرشپ حاصل کرتا ہے۔ وہ ممبر پھر مزید دو افراد کو ممبرشپ دلواتا ہے جو مزید چھ چھ ہزار روپے کمپنی کو جمع کرواتے ہیں۔ اسی طرح ہر فرد مزید دو افراد کو ممبر بنانے کا مکلف ہوتا ہے۔ جب نو افراد ممبر بن جاتے ہیں تو پہلے ممبر کو ۳ ہزار ۳ سو روپے کا چیک مل جاتا ہے۔ گویا ہر فرد ۵۴ ہزار روپے کمپنی کو جمع کروا کر ۳ ہزار ۳ سو روپے حاصل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی ہر ممبر کو ایک سال کے پیکج کے لیے جس کی لاگت ۳۰ ہزار سے ۴۰ ہزار ہوتی ہے loyalty کارڈ (۵ سے ۵۰ فی صدرعایت) فراہم کرتی ہے۔ اس اسکیم سے بہت سے لوگ وابستہ ہو رہے ہیں۔ کیا یہ اسکیم سود پر مبنی ہے؟
جواب: جہاں تک معاشیات اور اسلامی معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرا مطالعہ ہے‘ میں بزناس اور اس نوعیت کے دوسرے کاروباری سلسلوں کو نہایت شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ سرمایہ‘محنت اور قدرتی وسائل کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ پیداواری صلاحیت اور اثاثوں کی تخلیق (asset creation) رونما ہو۔ اسی سے اضافۂ قدر (value added) کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور پیداواری صلاحیت (productivity) بڑھتی ہے‘ اشیا اور خدمات کی رسد بڑھتی ہے اور انسانوں اور معاشرے کی ضروریات پوری ہونے کا سامان کرتی ہے۔ یہی عمل ہے جسے پیدایش دولت (wealth creation)کہا جاتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو انسانوں کے لیے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ اس نظام میں زر (money) کا کردار یہ ہے کہ وہ دو انسانی یا مادی (human or physical) وسائل کے درمیان تبادلے کا ذریعہ اور اس طرح حقیقی معاشی سرگرمی کو آگے بڑھانے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس طرح زر ایک زرِمبادلہ (medium of exchange) ہے‘ ایک معیارِ قدر ہے اور حال اور مستقبل کے معاشی لین دین کے لیے مرکزی حوالہ (reference point) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشیات میں زر خود ایک شے (commodity) نہیں ہے اور زر کی خرید و فروخت بحیثیت زر ممنوع ہے۔ زر صرف ایک ذریعہ ہے‘ خود اس سے مزید زر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بنیادی تصور ہے اور میرے علم کی حد تک ہر مذہب اور ہر اس تہذیب نے جس کی اخلاقی بنیادیں ہوں اس بنیاد کو تسلیم کیا ہے۔ ارسطو تک نے یہ بات کہی تھی کہ زر‘ زر پیدا نہیں کرتا ("money does not beget money") ۔
یہی وجہ ہے کہ سود (ربٰو) اسلام میں ہر شکل میں ممنوع ہے۔ اس کی اخلاقی‘ تہذیبی اور معاشی بنیاد یہ ہے کہ اگر زر مادی اثاثوں (physical assets) یا خدمات (services) کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے‘تو اس کے ذریعے سے جو نمو اور اضافہ (value creation) وجود میں آتا ہے ‘ اور جسے منافع کہا جاتا ہے وہ ایک جائز اضافہ ہے اور یہی وہ اضافہ ہے جو انسانی زندگی کو ضروریات کی تکمیل اور خوش حالی سے ہم کنار کرتا ہے۔ تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کو جائز اور مطلوب قرار دینے اور ربٰو سے حاصل ہونے والے اضافے کو خسارہ اور ظلم قرار دینے کی یہی بنیاد ہے۔ ہر وہ کاروبار جس کے نتیجے میں اثاثوں کی تخلیق ہو‘ خواہ اشیاے صرف کی شکل میں ہو یا اشیاے پیداوار یا خدمات کی ‘ مفید اور جائز ہے۔ اور صرف روپیہ کے لین دین سے اثاثوں کی تخلیق کے بغیر اضافہ ربٰوکی تعریف میں آتا ہے۔
جس کاروبار کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جو تفصیل اس کی آپ نے بیان کی ہے اِس اصول کی روشنی میں اس کا ہدف بظاہر اثاثوں کی تخلیق نہیں بلکہ کسی کا پیسہ لے کر کسی دوسرے کو پیسہ دینا ہے۔ اس طرح اضافے اور آمدنی کو حقیقی پیداواری عمل کے بجائے محض روپیہ کے ہیرپھیر کی صورت میں استعمال کرنا اخلاقی اور معاشی دونوں اعتبار سے ان مقاصد کو پورا نہیں کرتا جو شریعت کا منشا ہے۔ جہاں تک loyalty کارڈ کا معاملہ ہے وہ ایک غیر متعلق چیز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض چاشنی کے لیے اسے اس اسکیم پر لگا دیا گیا ہے۔ اس طرح کا کارڈ آج مغربی دنیا میں عام چیز ہے اور اسے اس قسم کے سرمایے کے لین دین سے منسلک کرنا کوئی منطقی بات نہیں۔اس قسم کے کارڈ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک ہی سٹور سے خریدے اور ادارے سے تعلق کی بنیاد پر اور اپنی خریداری میں استمرار (continuity)کی وجہ سے اسے کٹوتی دی جائے۔ بظاہر اس پوری اسکیم میں یہ کارڈ ایک الگ چیز ہے اور پیسہ بٹور کر پیسہ دینا ایک دوسری چیز ہے۔
اگر صورت حال کے بارے میں میرا تجزیہ صحیح ہے تو اس طرح کے اکائونٹ سے جو منافع حاصل ہوگا‘ اسے اسلامی معاشیات (اور خود جدید معاشیات) کی رُو سے منافع میں حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ سرمایے میں اضافہ کسی پیداواری عمل سے مربوط نہیں ہے۔ میری نگاہ میں یہ زر ہی کے لین دین کی ایک نسبتاً ’تہذیب یافتہ‘ (sophisticated) اور پیچ در پیچ (round about) کوشش ہے جو معاشی اعتبار سے مخدوش اور اخلاقی اعتبار سے ناقابلِ دفاع ہے۔ اس سے ایک قسم کی حبابی معیشت (bubble economy) تو پیدا ہو سکتی ہے لیکن مادی اثاثوں کی وہ تخلیق رونما نہیں ہوتی جو اسلام اور خود معاشیات کا اصل ہدف ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور خالص شرعی پہلو کے لیے مناسب ہے کہ آپ صاحب ِنظر اور ثقہ علما سے رجوع کریں۔(پروفیسر خورشید احمد)
س: موجودہ بنک کاری نظام سودی ہے اور صہیونیت کے شکنجے میں پوری طرح جڑا ہوا ہے۔ اسلامی بنک کاری بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ عام آدمی اپنی مختلف مجبوریوں‘ ضرورتوں اور تحفظ کے پیش نظر بنک میں پیسہ رکھنے پر مجبور ہے اور اسے اپنی رقم کے عوض سود لینا پڑتا ہے۔
میری تجویز ہے کہ جب تک کوئی متبادل میسر نہیں آتا اس سود کو حاصل کر کے خود استعمال کرنے کے بجائے غریب اور نادار افراد کی ضروریات پر خرچ کیا جائے‘ اور مفلوک الحال لوگوں کی حالت بدلنے پر صرف کیا جائے۔ کیا یہ تجویز شرعی نقطۂ نظر سے جائز ہے؟
ج : اس وقت بنکنگ کا جو صہیونی نظام ہے اس کے شکنجے سے نکلنے کی تدبیر وہ قیادت کرسکتی ہے جو ایمان اور علم و عمل سے سرشار اور امریکی عالمی استعمار کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو۔ اس وقت تک اس نظام کے ظلم سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا جائے؟ اس کے لیے متعدد تجاویز میں سے ایک تجویز وہ ہے جو آپ نے پیش کی ہے۔
مجھے آپ کی اس تجویز سے کہ سودی منافع بنک سے حاصل کر لیا جائے اور خود استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفلوک الحال بھائیوں کو دے دیا جائے‘ سے اتفاق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سود لینا ظلم ہے اور سود دینا ظلم میں تعاون ہے۔بنک سود لیتا ہے‘ مقروض اشخاص اور ادارے اسے سود دیتے ہیں اور اس طرح وہ ظلم میں بنک سے تعاون کرتے ہیں۔ بنک ظلماً جو سودی رقمیں لیتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ خود رکھ لیتا ہے اور اس کا تھوڑا سا حصہ کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ بنک مقروض اداروں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے اور کھاتہ داروں کے ساتھ بھی۔ مزید یہ کہ وہ کھاتہ داروں کو اس ظلم میں اپنے ساتھ شریک بھی کرتا ہے۔
کھاتہ داروں کے لیے اس ظلم سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بنک سے سودی منافع وصول کر لیں اور ان لوگوں تک پہنچا دیں جن سے سود لیا گیا ہے۔ اصل حق دار وہی ہیں لیکن ان کا معلوم کرنا اور ان تک رقم پہنچانا ناقابل عمل ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فقرا اور مساکین تک یہ رقم پہنچا دی جائے۔ یہی وہ صورت ہے جو آپ نے تجویز کی ہے۔ یہ قابل عمل ہے اور احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ گم شدہ رقم اور سامان کا حکم احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے اصل مالک کو تلاش کیا جائے اور رقم اور سامان اس تک پہنچایا جائے۔ اگر سال دو سال تک اعلان اور تشہیر کے باوجود اصل مالک نہ ملے تو اس رقم کو فقرا اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کا ثواب اصل مالک کی طرف گم شدہ رقم اور سامان کو فقرا میں تقسیم کرنے والے کو ملے گا کہ اس نے رقم بے جا صرف کرنے کے بجائے حق دار پر صرف کی ہے۔ سودی منافع بھی گم شدہ رقم اور سامان کے حکم میں ہے کہ اصل مالکوں تک اس کا پہنچانا ناقابل عمل ہے۔ لہٰذا اسے بنک سے وصول کر لیا جائے اور فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دیا جائے۔ فقرا ان رقوم کے حق دار ہیں جن کے مالک معلوم نہ ہو سکتے ہوں۔ آپ سودی منافع وصول کر کے اپنے رشتہ داروں یا معاشرے کے مفلوک الحال افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور دینی تحریکیں اس حل سے متفق ہیں۔ البتہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ خود اس رقم کو استعمال نہ کریں تاکہ اس کا ناجائز ہونا ذہن میں مستحضر رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو رزق حلال عطافرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)
سوال: میں نے ایک سال پیشتر پردہ شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے دورِ جاہلیت تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہدایت کے قابل سمجھا اور ہدایت دی۔ اب‘ جب کہ پورا پردہ شروع کیا ہے تو چہرے کے پردے کے حوالے سے اختلافی باتوں کا پڑھ کر طبیعت بہت بے زار اور افسردہ ہوتی ہے بالخصوص جب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالر طارق جان کا نقطۂ نظر روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی کے کالم (۲۸‘ ۲۹ نومبر ۲۰۰۲ئ) میں چھپنے پر نظر سے گزرا۔مزید افسوس اس لیے بھی ہوا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ ہیں جس کے آپ چیئرمین ہیں اور آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی ہیں۔ مجھے تو اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے علما صرف سراب ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم جیسے ہدایت کے پیاسے انھیں پانی سمجھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھیں تو بات واضح لگتی ہے کہ چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ میری اس ذہنی اُلجھن کو دُور فرما دیجیے۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پردے کی نعمت سے سرفراز فرما کر جس سعادت سے نوازا ہے‘ اس پر میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو استقامت بخشے اور دنیا و آخرت دونوں میں اجرعظیم سے نوازے۔ کبھی پردہ مسلم معاشرے اور ثقافت کی پہچان تھا اور آج اسے اختیار کرنا ایک جہاد کے مترادف ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی سعادت سے نوازا ہے۔بلاشبہہ آپ کا اپنا شوق اور ہمت ہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو اس نعمت سے سرفراز کیا ہے۔
آپ نے روزنامہ جنگ کا جو تراشا بھیجا تھا میں نے اسے انگلستان کے قیام کے دوران ہی پڑھ لیا تھا۔ میں بلاتکلف عرض کرتا ہوں کہ برادرم طارق جان میرے عزیز ساتھی ہیں جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) میں ریسرچ فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خیالات کے خود ذمہ دار ہیں۔ نہ وہ میرے خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں اور نہ آئی پی ایس یا جماعت اسلامی ہی کا یہ موقف ہے۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ میں اسی حجاب کا قائل ہوں جو ہمارے دور کے مقتدر علما بشمول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پیش کیا ہے۔ یہی قرآن پاک کی آیات اور احادیث نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ میں چہرے کے حجاب کا قائل ہوں اور میری اہلیہ الحمدللہ اسی پر عمل کرتی ہیں۔ البتہ میں یہ بات ضرور آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں‘ ماضی میں بھی اور آج بھی‘ اسلامی تحریکات اور دینی حلقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان جہاں حجاب کی فرضیت پر کوئی دو آرا نہیں‘ وہاں حجاب کی تفصیلات کے بارے میں ضرور محدود اور متعین اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثقہ علما کا ایک گروہ چہرے کے حجاب کو ضروری سمجھتا ہے اور صرف آنکھ‘ ہاتھ اور پائوں کو ما ظھرمنھا کے ذیل میں شمار کرتا ہے‘ جب کہ ماضی کے علما اور فقہا میں سے بہت کم اور آج کے برعظیم پاک و ہند کے علما اور دوسرے اہل علم کے سوا ایک خاصی تعداد اس رائے کی حامی ہے کہ ہاتھ اور پائوں کے ساتھ بغیر زینت کے چہرہ کھلا رکھا جا سکتا ہے ۔ البتہ بال اور گردن ڈھکی ہونی چاہیے۔ عرب دنیا ‘ جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کے علما اور اسلامی تنظیموں کا بحیثیت مجموعی یہی موقف ہے اور وہاں کی اسلامی تحریکات سے وابستہ خواتین اسی پر عامل ہیں۔ البتہ یہ وضاحت کر دوں کہ وہاں بھی ایک تعداد ایسے علما اور ان کے متبعین کی ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔
میں نہ اپنے آپ کو فتویٰ کا اہل سمجھتا ہوں اور نہ کبھی یہ جسارت کی ہے۔ میرا اپنا تعامل ان علما کی رائے کے مطابق ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔ لیکن یہ زیادتی ہوگی کہ جو لوگ اپنے دلائل کے مطابق چہرے کے حجاب کے قائل نہیں ہیں‘ انھیں اس زمرے میں ڈال دیا جائے جو بے پردگی اور مغربی ثقافت و بے حجابی کے قائل ہیں۔ ہمیں جہاں اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اسی پر استقامت کاثبوت دینا چاہیے جسے ہم شرعی دلائل یا معتبر علما کی رائے کے احترام کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اور بجا طور پر اس پر ہمیں اطمینان اور فخرہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجراور قبولیت کی توقع رکھنی چاہیے‘ وہیں اگر دوسرا نقطۂ نظر کچھ ایسے دلائل کی بنا پر ہے‘ جو خواہ ہمیں مطمئن نہ کر سکے لیکن جس کی نسبت شریعت کے ماخذ ہی کی طرف ہو تو ہمیں اس کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہیں کہیں یہ اختلاف بڑا ہی نمایاں اور بظاہر تضاد تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود صحیح راستہ یہی ہے کہ اس پورے اختلاف کو اپنی حدود میں رکھا جائے‘ تکفیر‘ تنقیص اور تضحیک کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ عبادات سے لے کر معاملات بلکہ حدود کی سزائوں تک میںاختلاف پایا جاتا ہے۔ اسے اختلاف ہی رہنا چاہیے۔ افتراق اور تصادم کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ میں مثالیں دینے سے عملاً احتراز کر رہا ہوں اور صرف اصولی بات تک اپنی گزارش کو محدود رکھ رہا ہوں۔ البتہ اختلاف الفقہا کے موضوع پر کتابوں میں اس مسئلے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور شاہ ولیؒ اللہ کی کتاب اس بارے میں ایک مفید علمی ماخذ ہے۔
میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ آپ نے جو عملی راستہ اختیار کیا ہے اس پر آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں لیکن چاہوں گا کہ آپ اگر اس بارے میں اعتدال اور توازن کا راستہ اختیار کریں تو وہ دین کے مزاج اور مصالح سے قریب ترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین پر قائم رکھے اور حق کو حق جان کر اس کے اتباع کی توفیق دے۔ (پروفیسر خورشید احمد)
س: میں ایک خوف زدہ شخص ہوں۔ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ والدین کے بارے میں ‘ بھائیوں کے بارے میں ہر وقت منفی خیالات آتے رہتے ہیں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ لیکن پھر بھی خود پر کنٹرول نہیں ہے۔ اس خوف کے لیے میں نے علاج بھی کروایا ہے مگر حالت جوں کی توں ہے۔
اصل میں مجھے اپنے نفس پہ کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے ایک کام نہ کرنے کی توبہ کی‘ پھر توڑ دی‘ دوبارہ توبہ کی اس پر پھر قائم نہیں رہ سکا‘ بار بار توبہ کی اور توڑ دی۔ کیا مجھے اللہ معاف کر دے گا؟ کیا مجھے سکون مل سکے گا؟
ج: گناہ پر ندامت اور اس بات کا خوف کہ نفس پر قابونہ ہونے کی بنا پر کہیں کسی غلطی کا ارتکاب نہ ہو جائے لازمی طور پر ایک پریشان کن صورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولیے کہ جب تک احساسِ گناہ دل میں پایا جائے گا اس وقت تک ان شاء اللہ ایمان بھی سرگرم رہے گا۔ دراصل انسان کا نفس ایک تو وہ ہے جو اپنے رب کے احسانات و انعامات کے احساس کے ساتھ پورے اطمینان کے ساتھ اس کی رضا کا پابند ہو جائے۔ یہ نفس مطمئنہ ہے۔ ایک نفس وہ ہے جو وساوسِ شیطانی کی بنا پر نفس کو برائی کی طرف اُکساتا ہے۔ یہ نفسِ امارہ ہے‘ اور تیسرا نفس وہ ہے جو غلط کام کے بارے میں سوچنے‘ یا برائی کی نیت کرنے‘ یا غلطی کربیٹھنے کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے۔ اسے نفسِ لوامہ یا ضمیر کہا جاتا ہے۔ آپ نے جس کیفیت کا ذکر کیا ہے بظاہر اس کا تعلق نفس کی اسی تیسری قسم کے ساتھ ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر افراد خود اپنے بارے میں اور ابلیس اور اس کی ذریت کے بارے میں صحیح تصور نہیں رکھتے اور فرائض دین کی پابندی کرنے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم شیطان سے محفوظ ہو گئے۔ حالانکہ ہم نماز صرف دن کے پانچ اوقات میں پڑھتے ہیں‘ روزے عموماً صرف رمضان میں رکھتے ہیں‘ حج سال میں مخصوص دنوں میں ہوتا ہے‘ جب کہ شیطان نہ تو کوئی جزوقتی ورکر ہے‘ نہ وہ سرکاری ملازموں کی طرح وقت چرانے کا عادی ہے۔ وہ ۲۴ گھنٹے اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے حملے ایسے اوقات میں اور ایسے مقامات پر ہوتے ہیں جہاں ہم گمان بھی نہیں کر سکتے۔
اگر ایک شخص سے غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ انبیا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت آدم ؑ کے الفاظ میں: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)‘ یا حضرت یونس ؑ کی زبان میں ادا کی گئی دعا: لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیا ئ۲۱:۸۷)‘ خلوصِ دل کے ساتھ اور دوبارہ غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کے عزم کے ساتھ ادا کرے۔ قرآن کریم نے انسان کی اسی کمزوری کو جانتے ہوئے انسان کو ناامیدی اور پریشانی اور خوف سے بچانے کے لیے جو بنیادی تصور پیش کیا ہے وہ ہر مسلمان کے لیے ہدایت کی روشنی فراہم کرتا ہے۔ فرمایا: ’’(بندو) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘ جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہاں اہل ایمان کو اللہ کی مغفرت کی طرف تیزی اختیار کرنے کے ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ان شاء اللہ ایسی جنت ہے جس کی وسعت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
قرآن کریم انسانی غلطیوں کے لیے ارتکاب فحش اور ارتکاب برائی (سوئ) کے الفاظ استعمال کرنے کے بعد اللہ کے بندوں کو وثوق کے ساتھ اُمید دلاتا ہے کہ رب کریم ان کی ندامت اور استغفار و توبہ کو آخر دم تک قبول کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہی تو الرحمن والرحیم ہے۔ غافر الذنب اور قابل التوبہ ہے۔ فرمایا: ’’اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا‘‘ (النساء ۴:۱۱۰)۔ یہاں عمل سوء کا ذکر ہوا لیکن سورئہ آل عمران میں اس سے زیادہ سخت اصطلاح (فاحشۃ) کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘(۳:۱۳۵)۔
یہاں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر ایک شخص اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتا اور رب کریم کا ذکر اور استغفار کرکے اس کی طرف پلٹتا ہے تو رب کریم اس کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ وہی تو ہے جو بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر سکتا ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندہ گناہ کرنے کے بعد معافی مانگنے کے لیے جب اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ کو اپنے بندے کے پلٹنے پر اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی اونٹنی جس پر اس کی زندگی کا دارومدار تھا‘ کسی بیابان میں گم کر دی اور پھر اس نے اچانک اسے پا لیا ہو۔ ایسے ہی آدمی کے توبہ کرنے پر اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ اللہ کی خوشی اس کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ وہ رحم و کرم کا سرچشمہ ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
اس طرح حضرت ابوموسٰی الاشعریؓ سے ایک روایت مسلم میں ہے جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے‘ اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘۔
گویا قیامت کے ظہور تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کی مغفرت کے لیے منتظر رہتا ہے۔ حضرت عبداللہؓبن عمر توبہ کی قبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’اللہ بندے کی توبہ سانس رکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے‘‘ (ترمذی)‘ یعنی جب انسان پر سکرات واقع ہو جائے اس سے قبل اگر وہ توبہ کر لے تو رب کریم اسے معاف کر دیتا ہے۔ گویا توبہ واستغفار کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اس لیے نہ کسی خوف میں پڑنے کی ضرورت ہے نہ مایوسی کی۔ اگر ایک مرتبہ غلطی کے بعد معافی مانگ کر کبھی غلطی نہ کرنے کا عہد کیا گیا لیکن اس پر قائم نہ رہا گیا تو دوبارہ توبہ کے بعد توبہ پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اُوپر یہ پابندی لگائی جائے کہ توبہ کے ہمراہ خصوصی نوافل یا نفلی روزے رکھ کر اپنے آپ کو دوبارہ غلطی سے بچانے کی کوشش کرے‘ یا اللہ کی راہ میں کچھ انفاق کر کے اپنے عزم کو مزید مستحکم کرے۔ یہی حصول سکون کا طریقہ ہے اور یہی فلاح و کامیابی کا وہ راستہ ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دکھایا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: میں جماعت اسلامی کی کارکن ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر شوہر کی رضامندی نہ ہو کہ اُس کی بیوی جماعت میں کام کرے تو وہ بیوی کیا کرے؟ میری ساس خود بھی دعوت کا کام سرگرمی سے کرتی رہی ہیں لیکن اب مزاحم ہیں۔ وہ اور میرے میاں کوشش کرتے ہیں کہ میں گھر کے کاموں میں ہی مصروف رہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کارکن (لڑکی) کو اُس کی ساس اور اُس کے میاں گھر کے کاموں میں ہی مسلسل مصروف رکھنے کی کوشش کریں تو بیوی کہاں تک تابعداری کرے؟ ایک بیوی اپنے شوہر یا اپنے رب کی ناراضی میں سے کس چیز سے ڈرے؟ میرے ابھی بچے نہیں ہیں‘ لہٰذا میں یہ چاہتی ہوں کہ جتنا کام ہو سکے ابھی کر لوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میری عمر بھی کام کرنے کی ہے۔ میری رہنمائی فرمایئے۔
جواب: اسلام کے نظم اجتماعی اور معاشرتی نظام میں اخلاق کی بنیادی اہمیت ہے۔ دونوں نظاموں میں ہر وہ کام مطلوب اور جائز ہوتا ہے جو اخلاق کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایک کارکن کے لیے نظم کے کسی فیصلے کی اطاعت ایمان کے تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قرآن و حدیث نے اولی الامر کی ہر اس بات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ہو۔ یہی شکل معاشرتی نظام میں ہے۔ گھر میں ذمہ دار فرد سربراہ خاندان‘ یعنی بیوی کے لیے شوہر اور بچوں کے لیے والدین قرار پائیں گے۔ ایک بیوی شوہر کی ان تمام خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہی مطلب ہے اس کی رضامندی کا‘ اور یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں کہا گیا ہے کہ لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق (اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اب یہ بات تو آغاز ہی میں طے ہوگئی کہ شوہر کی رضامندی سے مراد ہر الٹی سیدھی خواہش نہیں ہے بلکہ ہر وہ خواہش ہے جس کے لیے بنیاد اور دلیل قرآن وسنت میں موجود ہو‘ مثلاً اگر شوہر یہ کہے کہ بغیر حجاب اس کے ساتھ کسی مخلوط پارٹی میں شرکت کی جائے تو یہ خواہش قرآن و سنت دونوں سے متصادم ہے۔ اگر شوہر کی اطاعت اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں انتخاب ہو تو بیوی ہی کو نہیں خود شوہر کو اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے بیوی سے اپنی بندگی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ دونوں کی ناراضی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
جماعت اسلامی میں کام کا واضح مفہوم دعوت دین ہے۔ دعوت دین ایک خاتون کارکن مختلف شکلوں میں دے سکتی ہے۔ اپنے محلے میں‘ کسی اسکول یا تنظیم کی خواتین کے ساتھ حلقہ درس قرآن کے ذریعے اور دینی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرکے‘ یا کسی بستی میں فلاحی کام کرکے‘ یا اپنے ہی گھر میں شوہر‘ ساس‘نند یا جو بھی اہل خانہ ہوں ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرکے اور خود شوہر کو حکمت کے ساتھ دعوت کے قریب لا کر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کھانے کے دوران یہ تجویز رکھیں کہ چھٹی کے دن گھر کے تمام افراد نصف گھنٹے کے لیے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم کی چند آیات ترجمے کے ساتھ مطالعہ کریں اور آغاز آپ کے شوہر کریں‘ یا آپ کی ساس یا نند کریں تو خود بخود ترجمہ سننے کے دوران کوئی سوال ایسا اٹھے گا جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی تفسیر کا حاشیہ پڑھنا پڑے گا۔ فرض کیجیے کہ آپ نے تفہیم القرآن‘ تدبر قرآن‘ معارف القرآن‘ فی ظلال القرآن یا کسی بھی تفسیر کو اس غرض کے لیے بنیاد بنایا اور خود آپ کے شوہر نے وہ حاشیہ پڑھ کر سنایا تو اسی کا نام دعوت دین اور جماعت اسلامی کا کام ہے۔
یہ کام گھر سے باہر جائے بغیر گھر ہی میں ہو سکتا ہے۔ یہ کام صرف تین ماہ کر لیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کے شوہر اور ساس خود آپ سے کہیں گے کہ بیٹی‘ اگر اللہ نے تمھیں دوسروں کو بات سمجھانے کی صلاحیت دی ہے اور تم ہماری وجہ سے اس کا استعمال نہیں کرو گی تو جواب دہی ہم سے بھی ہوگی کہ تمھیں اس کام سے کیوں روکا۔
دعوت دین کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے گھر میں درس قرآن کا حلقہ قائم کر لیجیے۔ اس طرح دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ آپ کے اہل خانہ کو بھی شرکت کا موقع ملے گا۔ آپ بھی کبھی درس دے سکیں گی۔ اس طرح دعوت کا کام بھی ہو جائے گا اور اہل خانہ بھی قرآن سے اثر لیں گے اور وہ مزاحمت نہ ہوگی۔
دعوت دین‘ امر بالمعروف ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے اور شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتا ہے۔ اگر اس کا شعور اس وقت آپ کے شوہر کو نہیں ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ حکمت کے ساتھ انھیں متوجہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی دے گا۔ ان شاء اللہ!
ممکن ہے کہ ان کی والدہ نے دعوتی کام میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے خود ان پر توجہ نہ دی ہو جس کے ردعمل کے طور پر وہ آپ کو دعوتی کام میں زیادہ مشغول نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس کا حل صرف اور صرف صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ مستقل مزاجی سے اچھے اخلاق اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا ہے۔
اگر انتخاب رب کی ناراضی یا شوہر کی ناراضی میں ہو تو اسلام کا اصول واضح ہے کہ رب کو کسی شکل میں بھی ناراض نہ کیا جائے اور شوہر کو محبت و احترام سے یہ بات سمجھائی جائے۔
اگر شوہر اور ساس جان بوجھ کر دعوتی کام سے دُور رکھنے کے لیے گھریلو کاموں میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں حکمت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اس معاملے کو براہِ راست ٹکرائو اور گرما گرم جنگ کی شکل نہ بننے دیں۔ حکمت کے ساتھ مسلسل کوشش کریں۔ اگر اس کے باوجود آپ کو دعوتی کام کرنے کی فرصت نہ مل سکے تو جو گھریلو کام بھی آپ نے اس دوران کیا ہے اس کا اجر دعوتی کام کے برابر ہی آپ کو ملے گا کیونکہ دین میں آپ کی نیت اور آپ کا اخلاص ہی اجر کی بنیاد ہے۔ دو تین ماہ صبر کے ساتھ اور حکمت سے کوشش کیجیے‘ ان شاء اللہ آپ کے شوہر بھی آپ کی طرح کارکن بن جائیں گے۔ فی الوقت گھر کے ماحول کو پُرسکون اور مودت و رحمت سے معمور کیجیے۔ یہی دعوتی حکمت کا تقاضا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
س: ایک پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا اور تبادلۂ خیالات کوئی زیادہ بری چیز نہیں۔ اس کے خیال میں قباحت تو لازم ہے مگر خلوصِ نیت اور مقاصد کی بلندی کے پیشِ نظر ’’چھوٹی برائی والا نظریہ‘‘ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مخصوص حالات میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ اور حرام تک جائز ہے تو پھر خوش گوار ازدواجی زندگی کے نقطۂ نظر سے لڑکے اور لڑکی کا تنہا ملنا جلنا کیوں جائز نہیں‘ جب کہ والدین بھی صورت حال سے آگاہ ہوں اور رضامند ہوں۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیجیے کہ شادی سے پہلے فریقین کے لیے کم سے کم حدود کا تعین کیا ہے؟
ج: شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کا ’’افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا‘‘اور ’’بالغ ذہنی‘‘ اور کسی نفسانی جذبات سے بلند ہو کر باہم تبادلۂ خیال کرنا بظاہر بہت معصوم اور بے ضرر سی بات نظر آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اہل ایمان کے درمیان حُسنِ ظن ہی کو اصل اور مثبت بنیاد قرار دیتا ہے اور سوء ظن سے منع کرتا ہے لیکن بات صرف یہ نہیں ہے کہ کتنی اچھی نیت کے ساتھ یہ بات چیت کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا کام جو بجائے خود غلط ہو‘ نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ کرنے سے درست نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلام کے اخلاقی نظام میں غیرمحرموں کے درمیان تنہائی یا خلوت کے بارے میں کیا حکم پایا جاتا ہے۔
ہمارا عام مشاہدہ یہی ہے کہ روایتی معاشروں میں شادیاں عموماً خاندان یا برادری ہی میں ہوتی ہیں اور چونکہ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے مزاج اور پسند ناپسند سے واقف ہوتے ہیں اس لیے شادی سے قبل یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ لڑکے یا لڑکی کا تفصیلی انٹرویو یا اس کے ساتھ ایک تحقیقاتی ملاقات کرنے کے بعد رشتے کے مناسب ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ شہری معاشروں میں جہاں پہلے سے واقفیت نہیں پائی جاتی‘ یہ سوال اٹھتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی قبل از نکاح ملاقات کہاں تک ایک دوسرے کو پسند ناپسند اور مزاج سے واقف کرنے میں مفید ہوسکتی ہے۔
نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شادی جیسے اہم اور نازک معاملے میں اس نوعیت کی ملاقات عموماً انتہائی مصنوعی اور غیرحقیقی ماحول میں ہوگی۔ ایک لڑکی ہی نہیں‘ لڑکا بھی جب اس صورتِ حال میں ہو تو معلومات کا تبادلہ مصنوعی ہی ہوگا اور اصل چہرہ ہمیشہ چھپا رہے گا۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے‘ اسلام دین فطرت ہونے کے سبب انسانی زندگی کے تمام معاملات کو ایک اخلاقی ضابطے (مقاصدِ شریعہ) کی روشنی میں طے کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ نکاح کو محض ایک مادی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ اسے تکمیلِ ایمان کا ذریعہ قرار دیتاہے۔مجرد افراد کے نکاح کروانے کو ریاست اور افرادِ معاشرہ کی ایک ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ساتھ ہی ایک لڑکی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار آزادانہ طور پر کرسکے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف نکاح کر دیا جائے تو اسے فسخ کروا سکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس رشتۂ مودت و رحمت کے وجود میں آنے سے قبل اگر لڑکا لڑکی کے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو تو اسے یہ حق حاصل ہو۔ حدیث شریف میں واضح طور پر مثال ملتی ہے کہ ایک ایسے قبیلے کی لڑکی کے رشتے کے بارے میں جس میں عموماً لڑکیوں کی آنکھ میں کوئی عیب پایا جاتا تھا حضور نبی کریمؐ نے ایک صحابی ؓ کو یہ اجازت دی کہ وہ شادی سے قبل لڑکی کا چہرہ ایک نظر دیکھ لیں۔ اس حدیث کے مفہوم کو وسعت دیتے ہوئے یہ قیاس کرنا کہ نہ صرف چہرہ بلکہ مفصل ملاقاتیں تحقیق مزاج کے لیے کرلی جائیں‘ شارع علیہ السلام کی اجازت کا بالکل ناجائز استعمال ہوگا۔
جہاں تک سوال ’’کم تر برائی‘‘ کا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ شیطان اپنے تمام وار اسی راستے سے کرتا ہے کہ یہ تو کوئی ایسی حرام بات نہیں ہے چاہے اس میں کراہیت پائی جائے۔ اسی طرح وہ مکمل حرام تک پہنچاتا ہے۔ جو دین غض بصر‘ نفس صوت‘ چلنے کے آداب‘ سوال کا جواب دینے کے آداب وحی الٰہی کے ذریعے متعین کر دیتا ہو اور شارع علیہ السلام کے ذریعے غیرمحرموں کے تنہائی میں ایک چھت کے نیچے بیٹھنے کو حرام قرار دیتا ہو‘ اس میں یہ گنجایش نکالنا دین کے ساتھ زیادتی ہے۔ بجائے ’’کم تر برائی‘‘ میں پڑنے کے کیوں نہ بھلے طریقوں کو اختیار کیا جائے کہ ایک نوجوان جن افراد پر پورا اعتماد کرتا ہو‘ مثلاً اس کی والدہ‘ بہن‘ خالہ‘ پھوپھی یا بھاوج یا کوئی اور قریبی عزیز خاتون‘ اس کے ذریعے لڑکی کے بارے میں جو معلومات درکار ہوں ان کی تحقیق کرلے اور ساتھ ہی استخارہ کرکے دل کو یکسو کرلے۔ اچھی نیت کے ساتھ ایک ممنوع کام کرنا‘ اسلام کے اخلاقی ضابطے کے منافی ہے۔ adjustment کے جو مراحل نکاح کے بعد ہرشادی شدہ جوڑے کو پیش آتے ہیں انھیں نکاح سے قبل گزار لینے کی خواہش نہ مسئلے کا حل ہے اور نہ شادی کو زیادہ خوش گوار بنانے میں مدد کرتا ہے۔
مغربی تہذیب میں dating کا رواج اسی غرض سے عام ہوا کہ شادی سے قبل محض ایک دوسرے کو جاننے کے لیے معصوم سی ملاقات کر لی جائے۔ لیکن یہی مغربی تہذیب میں فساد‘ فحاشی‘ اخلاقی بے راہ روی اور بداخلاقی کا ذریعہ بن گیا۔ انسان وہی ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق لے اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے۔ (۱ - ۱ )
سوال: میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں۔ عنقریب میری شادی بھی ہونے والی ہے۔ میرے والد صاحب بنک کی ملازمت کرتے ہیں۔ جب سے اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ ہوئی ہوں‘ مجھے یہ احساس شدت سے ہے کہ میرے والد کی کمائی جائز نہیں ہے۔ میں اس سے بچنا چاہتی ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ ناگزیر کھانا کھائوں اور سہولیات کو کم سے کم استعمال کروں لیکن عملاً یہ محال ہے۔ ہماری آمدنی کا ایک ذریعہ مکان کا کرایہ بھی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ضروریاتِ زندگی زیادہ تر اسی آمدن سے پوری ہو جائیں۔ میں نے اپنے والدین کو اس طرف بارہا توجہ بھی دلائی ہے لیکن وہ میری بات سننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے۔مجھے خیال آتا ہے کہ کیا میری پرورش حرام کمائی پر ہوئی ہے؟ مجھے اس پر شدید احساسِ ندامت ہے۔ کیا کفارے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟
شادی کے موقع پر والدین کی طرف سے ملنے والا جہیز یا دیگر اشیا میں لے سکتی ہوں یا نہیں کیونکہ یہ بھی ناجائز آمدن سے حاصل کی جائیں گی؟ کیا میں‘ میرا شوہر‘ میرے سسرال والے‘ میرے والدین کے گھر سے کھا پی سکتے ہیں‘ جب کہ ان کی آمدن جائز نہیں؟
جب بھی میری سہیلیاں مجھے ملنے آتی ہیں تو یہی خیال آتا ہے کہ میں ناجائز آمدن سے ان کی تواضع کر رہی ہوں۔ ایک سہیلی تو احتیاط کرتی ہے اور اپنے ساتھ اپنا کھانا بھی لے آتی ہے۔سوچتی ہوں شادی پر اپنی سہیلیوں کی تواضع اپنے مہر کی رقم سے کرلوں؟ میں نے سوچا ہے کہ کسی کشمیری گھرانے کی کفالت کا ذمہ لے لوں۔ کیا اس سے میرا کفارہ ادا ہوجائے گا؟
جواب: سب سے پہلے اس خوش خبری پر مبارک باد قبول کیجیے کہ ان شاء اللہ جلد آپ کو تکمیلِ ایمان کی سعادت مل رہی ہے اور آپ عملی زندگی میں پورے عزم اور دعوتی جذبے کے ساتھ داخل ہونے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خاندانی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق بنائے اور آپ کو اِس دنیا اور آخرت میں اپنے فضل و کرم سے نوازے۔ آمین!
پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ جب تک آپ والدین کے سہارے تعلیم حاصل کررہی ہوں اور آپ کا کوئی اپنا ذریعہ ایسا نہ ہو جس کے سہارے آپ تعلیم کے اخراجات کو پورا کر سکیں تو اس عرصے کے لیے جواب دہی آپ پر نہیں آپ کے والد پر ہے۔ ہاں‘ آپ کا اور آپ کی والدہ کا فرض ہے کہ انھیں متوجہ کرتے رہیں کہ وہ کوئی ایسا ذریعہ معاش اختیار کریں جو نہ مشتبہ ہو اور نہ اس میں ظاہری طور پر حرام کا دخل ہو۔
والدین اگر آپ کو کوئی تحفہ‘ سامان‘ کپڑے وغیرہ دیتے ہیں تو اس میں بظاہر آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ آپ کا ذریعہء حصول جائز ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد والدین کے ہاں جا کر کھانا پینا آپ کے حقوق میں شامل ہے۔ قرآن نے صلۂ رحمی اور والدین کے گھر میں کھانے کے حق کو تسلیم کیا ہے (النور ۲۴:۶۱)۔ آپ کے شوہر اور ان کے والدین وغیرہ بھی آپ کے والدین کے ہاں کھانا کھا سکتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے تحائف وصول کرسکتے ہیں۔
کسی بھی مستحق کی کفالت کرنا بہرصورت اجر کا باعث ہے۔لیکن چونکہ آپ نے والدین کے ساتھ زندگی گزار کر کوئی گناہ نہیں کیا ہے‘ اس لیے کفارہ کا سوال نہیں۔ اسے بطور ایک نیک عمل کے ضرور کریں۔ دین توازن‘ اعتدال اور آسانی کا نام ہے۔ کوشش کیجیے کہ فرائض اور سنتوں کا پورا اہتمام ہو۔ نوافل جتنے زیادہ ہو سکیں پڑھنے کی کوشش کیجیے لیکن نوافل کو فرائض کا مقام نہ دیجیے۔
اگر آپ کی کوئی سہیلی آپ کے ہاں آکر رہتی ہے تو اسے اپنا کھانا وغیرہ لانے کی ضرورت نہیں۔ یہ انتہا پسندی ہے۔ ہاں‘والدین کو احترام و محبت سے ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر اور حکمت کے ساتھ گھریلو حالات کو احسن طریقے سے حل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! (ڈاکٹر انیس احمد)
س : ۱- اپنے گائوں کی مسجد کے لیے چندا ہمارے پاس جمع ہے۔ کیا ہم اس چندے کو دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں؟
۲- مسجد کے لیے ایمپلی فائر ہم نے اپنے پیسوں سے خریدا۔ لوگوں نے وعدے کے باوجود اُس کے لیے کوئی چندا نہیں دیا۔ کیا ہم اس ایمپلی فائر کو دوسری مسجد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
۳- ہماری مسجد جو میرے چچا نے تعمیر کی ہے اُس میں نمازی ہمارے ساتھ ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں۔ کیا ہم دوسری مسجد اپنے لیے بنا سکتے ہیں؟
۴- مسجد کے امام صاحب کی خدمت کوئی نہیں کرتا۔ مجبوراً ہمیں اُن کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ کیا اِس کے باوجود ہم اُن کی خدمت کریں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں؟ اُنھوں نے میرے والد کی توہین کی ہے اور ہر وقت فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔
ج : ۱- چندا جو کسی ایک مسجد کے لیے جمع کیا جائے وہ اُسی مسجد کی ملکیت ہے جو صرف اُس کی مرمت‘ اس کی ضروریات اور دیگر متعلقہ اُمور پر خرچ کیا جاتا ہے۔ شرعاً یہ اجازت نہیں کہ اس کو مطلق مسجد کا چندا سمجھ کر دوسری کسی مسجد کی تعمیر یا مرمت یا دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو جتنی رقم اُس میں سے دوسری جگہ خرچ کی ہے اس کی ذمہ داری خرچ کرنے والے پر ہے اور وہ اُس رقم کی واپسی اور مسجد کے فنڈ میں جمع کرنے کا شرعاً پابند ہوگا۔
۲- مسجد کے لیے جو ایمپلی فائر آپ نے خریدا اور کوئی دوسرا اُس کی قیمت ادا کرنے میں شریک نہیں ہوا تو وہ اُس وقت تک آپ کی ملکیت ہے جب تک آپ کے پاس رہے۔ لیکن اگر آپ نے اُسے مسجد میں اِس نیت سے ایک بار رکھ لیا کہ یہ اِس مسجد کے لیے ہے تو اس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل نہیں رہا کہ آپ اُسے وہاں سے اٹھا کر کسی اور جگہ یا اپنے گھر میں لے جائیں۔ اس لیے کہ جو چیز ایک بار مسجد کو دی گئی ہو وہ اُسی کی ملکیت اور وقف ہو گئی۔ اب وقف مال اور مسجد کے مال پر کسی کا اختیار نہیں کہ وہ اُس کو وہاں سے ہٹائے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور ازکار رفتہ ہو جائے۔ تب بھی مسجد سے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہاں‘ اہل محلہ اور امام مسجد کی اجازت سے فروخت کر کے اُس کی قیمت اسی مسجد کے فنڈ میں دی جا سکتی ہے۔
۳- سب سے پہلے بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد کے نمازی اور اہل محلہ آپس میں جھگڑے ختم کر کے بھائی بھائی بن جائیں۔ مسجد میں جمع ہونے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ آپس میں شیروشکر ہوں‘ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ غمی شادی میں شریک ہوں اور اُن میں اتحاد و یگانگت اور باہمی احترام کا جذبہ پختہ ہو۔ یہ افہام و تفہیم کے ذریعے عین ممکن ہے۔ احادیث میں صفوں کو سیدھا اور دُرست کرنے کا فلسفہ بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان کی درستی سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
اولیت صلح و مصالحت کو دینی چاہیے۔ ضد اور اَنا کو اللہ اور اُمت محمدیؐ کی خاطر چھوڑ کر لوگوں سے حسن سلوک اور بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے کہ یہی انسانیت ہے۔ اسی میں کامیابی ہے۔ کسی تحریک کے کارکنوں کی کامیابی کے لیے یہی ضرورت ہے کہ مقصد کی خاطر وہ حُسن سلوک‘ عوام کی خدمت اور کسرِنفسی سے کام لیا کریں اور ہمیشہ دوسروں کی عزت کریں۔ اس طرح اسی مسجد میں ہی ایک خوش گوار ماحول پیدا ہو جائے گا اور پھر آپ الگ مسجد بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
خدانخواستہ اگر حالات اِس قدر بگڑ گئے ہوں کہ مصالحت کا امکان باقی نہ رہا ہو اور ایک مسجد میں جمع ہونے سے نمازیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہو اور مصالحتی کوشش کے باوجود بہتری نظر نہ آ رہی ہو تو فتنے سے بچنے کے لیے اور جھگڑے کے سدباب کے لیے الگ مسجد بنا سکتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی‘ چاہے ایک شخص یا ایک خاندان اپنی زمین پر اپنے پیسے سے تعمیر کرے۔ وہ عام مسلمانوں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوسری مسجد تعمیر کرنے کے بعد مصالحتی کوشش دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ خود تھوڑا جھک کر دوسروں کو راضی کریں۔ اسی میں بڑائی ہے۔ یہی اصل جیت ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کا موجود ہونا مقصد اولین ہے اور فرقہ واریت و افراتفری سے ان کا شیرازئہ قومیت بکھر جاتا ہے۔
۴- امام مسجد کی خدمت اگر پہلے سے کررہے ہیں تو اب اُس میں اور اضافہ کیجیے تاکہ اُن کی تالیف قلب ہو جائے اور اُن کی رضا مندی اور خوشی مسجد میں خوش گوار ماحول پیدا کرنے کا باعث بنے اور اسی طرح سارا مسئلہ حل ہو جائے۔ (مولانا فضل ربی)
س: ۱- ایک زمین دار اپنے کھیت میں پیدا کی گئی جنس (گندم‘ کپاس ‘ مسور‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) منڈی میں مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے ذخیرہ کر لے تو کیا یہ ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟
۲- فیکٹریاں خام مال (گندم‘ کپاس‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) دوران سیزن اسٹاک کر لیتی ہیں تاکہ پراسیس کر کے آٹا‘ دالیں‘ چاول وغیرہ مارکیٹ میں فروخت کرلیں۔ یہ فیکٹریاں سارا سال کام کرتی رہتی ہیں۔کیا یہ بھی ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟
۳- ایک دکان دار یا تاجر جو زمین دار سے مال خریدتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد یہ اجناس مارکیٹ میں فروخت کر دیتا ہے۔ اس میں نفع و نقصان دونوں کا امکان ہوتا ہے‘ جب کہ اس وقت مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اجناس وافر مقدار میں ہر وقت خرید و فروخت کے لیے موجود ہوتی ہیں ۔ کیا یہ ذخیرہ اندوزی ہوگی؟
ج: ۱- ذخیرہ اندوزی کو فقہی اصطلاح میں ’’احتکار‘‘ کہا جاتا ہے۔ احتکار یا ذخیرہ اندوزی کی تعریف فقہا کے نزدیک یہ ہے کہ ایک چیز کو خرید کر منجمد رکھنا یہاں تک کہ اُس کی قلت ہو جائے اور مارکیٹ میں اُس کی قیمت بڑھ جائے اور اس طرح یہ عمل مسلمانوں کے لیے باعث ضرر بن جائے۔
اِس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اِس میں مسلم معاشرے کے لیے ضرر ہے اور یہ عمل لالچ اور کج خلقی پر مبنی ہے۔ اِس بارے میں احادیث تفصیل کے ساتھ وارد ہیں۔ امام ابودائودؒ، امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ نے معمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک رات کا طعام ذخیرہ کرے تو اللہ اُ س سے بری ہے اور وہ اللہ سے بری ہے۔ ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْجَالِبُ مَرْذُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌ، جو شخص بیچنے کی چیز بازار میں لاکر بیچتا ہے اُس کو اللہ رزق میں وسعت دیتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔
جمہور فقہاے اُمت نے ممنوعہ احتکار‘ یعنی ناجائز ذخیرہ اندوزی کے لیے تین شرطیں مقرر کی ہیں کہ جو شخص ایسی ذخیرہ اندوزی کرے جس میں یہ تینوں شرطیں پوری ہوں تو وہ حرام اور ناجائز عمل کا مرتکب سمجھا جاتا ہے۔
۱- پہلی شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کی ہوئی جنس وغیرہ اپنی حاجت اور ضرورت سے زائد ہو۔ اگر اپنی ضرورت کے لیے ذخیرہ کرے‘ مثلاً زمین دار اور کاشت کار لوگ اپنے سال بھر کے خرچ کے لیے اور گھر میں استعمال کرنے کے لیے اناج اور مختلف اشیاے خوردن خاص مقدار میں ذخیرہ کرتے ہیں تو وہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے سے باہر ہے۔
۲- دوسری شرط یہ ہے کہ اُس وقت کا انتظار کرتا ہو‘ جب کہ نرخ بڑھ جائیں‘ اور وہ اُسے بہت زیادہ قیمت پر فروخت کر سکے۔
۳- تیسری شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کرتے وقت لوگوں کو اُس کی ضرورت ہو اور اُس کے ذخیرہ کرنے سے مارکیٹ میں اُس چیز کی قلت پیدا ہو رہی ہو یا پہلے سے اُس کی قلت ہو۔ اِس صورت میں ذخیرہ اندوزی کرنا ممنوع ہے۔ جن صورتوں میں درج بالا تینوں شرائط موجود ہوں وہ ممنوع اور شرعاً ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آجاتی ہیں۔
میرے خیال میں سوال میں مذکور تمام صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ شرائط پوری نہیں ہوتیں جو حُرمت کے لیے ضروری ہیں۔ خاص کر آخری شرط کہ اُس وقت اُن اشیا کی قلت مارکیٹ میں موجود ہو اور اِن کے ذخیرہ کرنے سے اُس قلت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
ویسے بھی کاشت کار کا اناج ذخیرہ کرنا یا فیکٹری والے کا خریدی ہوئی اجناس پراسس کرنا وغیرہ معمول کے کام ہیں جو عموم البلوٰی کے ضمن میں آجاتے ہیں اور شارع کی رخصتیں عموم البلوٰی کے بارے میں موجود ہیں۔ علامہ ابن نجیم نے اپنی مشہور تصنیف الاشباہ والنظائر میں عموم البلوٰی کی وجہ سے شرعی رخصتوں کی بڑی تعداد بتائی ہے۔
سوال میں مذکورہ صورتیں ناجائز ذخیرہ اندوزی‘ یعنی احتکار کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ اس لیے کہ اِس قسم کے عمل سے نہ تو بازار میں اُن اشیا کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور نہ اِس باعث اِن اشیا کے نرخ ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ان صورتوں کو حرام اور ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( ف - ر )
س: میں نے سنا ہے کہ بالوں میں بال لگانا جائز نہیں ہے۔ کیا پلکوں میں نقلی پلکیں لگانا صحیح ہے یا نہیں‘ کیونکہ دلہن کے میک اپ میں یہ بہت اہم چیز ہوتی ہے؟
کانٹیکٹ لینز کے ساتھ وضو کرنے کے بارے میں بھی بتایئے۔کیا انھیں اُتار کر وضو کرنا چاہیے؟
ج : پلکوں میں جوڑ لگانے اور بالوں میں جوڑ لگانے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے اور یہ حدیث کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حسن و توازن خود بنایا ہے اسی میں انسان کے لیے زیادہ فائدہ ہے۔ اگر کانٹیکٹ لینز لگانے ضروری ہیں‘ تو انھیں لگانے سے قبل وضو کر لیجیے اور پھر ۲۴ گھنٹے تک ان کے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ طبی طور پر بھی ان کو سوتے میں لگانے سے منع کیا جاتا ہے اور عام طور پر سونے سے قبل انھیں نکال کر مخصوص ڈبیہ میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ (ا - ا )
دو سوالات موصول ہوئے جن میں سوال کرنے والیوں نے اپنے اوپر گزرے واقعات کو بیان کر کے رہنمائی چاہی۔ ان کا یکجا جواب دیا جا رہا ہے۔ سوالات کی نوعیت جواب سے واضح ہو جاتی ہے۔ (ادارہ)
جواب: اُمت کی اِن دو بیٹیوں کے سوالات نے ایک ایسے نازک معاشرتی مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے جو دل و دماغ کی چولیں ہلانے والا ہے۔ ہم نے صدیوں سے جو معاشرتی نظام ورثے میں پایا ہے اس میں اسلامی تعلیمات سے دُوری کے سبب بعض وہ خرابیاں ظاہر ہونے لگی ہیں جن کے لیے ہم بلا کسی تردد مغرب کی اباحیت پسند تہذیب کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ سرحد پار کے ٹی وی اور وڈیو پروگراموں کی طرح اب پی ٹی وی اور پی ٹی ورلڈ جو پروگرام پیش کر رہا ہے وہ خاندان کے تقدس اور تحفظ کو ناقابل برداشت حد تک تباہ کر دینے کے درپے ہیں۔ ایک ایسے گھرمیں جہاںبچے اور بڑے ایک ساتھ بیٹھ کر وہ تمام مناظر دیکھیں جو شرم و حیا کے منافی ہوں تو آخرکار اس کا اثر یہی ہونا چاہیے کہ حرام و حلال کی تمیز اور رشتوں کا تقدس بھی اس کی زد میں آجائے۔
ایک سوال میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ ایک لڑکی اپنے سے عمر میں تقریباً ۱۰ سال زیادہ بڑے کزن کو اپنے بھائی کی طرح سمجھتی ہے لیکن وہی کزن ایک دن اسے تنہا پاکر اچانک اس سے بغل گیر ہونا چاہتا ہے اور وہ لڑکی کافی مزاحمت کے بعد اپنے آپ کو اس کی گرفت سے نکالتی ہے۔ یہ سانحہ اس لڑکی کے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیتا ہے اور وہ احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہے کہ اصل مجرم کون ہے اور وہ کس طرح اپنے آپ کو احساسِ گناہ سے نجات دلائے؟ دوسرے سوال میں ایک ایسے گھر میں جہاں انڈین فلموں کے وڈیو اور دیگر لغویات کا چرچا ہے ایک بھائی اپنی حقیقی بہن کے ساتھ ایسی حرکات کرتا ہے جو آنکھ اور ہاتھ کے زناکی تعریف میں آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں ایک ایسی لڑکی جو اس ماحول کو برا سمجھتی ہو اور جسے اللہ نے ہدایت کی راہ سجھا دی ہو‘ کس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور برائی کا مقابلہ کرے؟
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُمت کی ان دو بیٹیوں نے جس برائی کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ انتہائی حساس اور خطرناک ہے لیکن اس طرف متوجہ کرنے سے قبل یہ بیٹیاں جس ذہنی کرب ‘ گومگو کی کیفیت اور ناقابل برداشت کرب سے گزریں‘ وہ اُمت کے ہر باشعور فرد کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔
کسی بھی انسانی معاشرے کے عروج یا زوال کا تعلق اس کی اخلاقی اقدار سے ہوتا ہے۔ اگر کہیں شرم و حیا ‘ سچائی‘ وفاداری‘ پاس عہد اور رشتوں کا احترام ختم ہو جائے تو پھر اس معاشرے سے امن‘ سکون‘ محبت‘ فلاح اور سلامتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ مغربی لادینی تہذیب اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود اس سکون سے عاری ہے اور اسی بنا پر تیزی سے روبہ زوال ہے۔
اب نظر یہ آ رہا ہے کہ مغربی لادینی معاشرے کی دیگر بہت سی خرابیوں اور قباحتوں کے ساتھ ہمارے خاندان کا تقدس بھی پامال ہونے والا ہے۔ یہ سوالات اسی طلاطم کی غمازی کررہے ہیں۔
ہماری نگاہ میں اس انتہائی مہلک صورت حال کا پہلا سبب گذشتہ ۵۵ سالوں میں ہماری اپنی اخلاقی اقدار سے بے توجہی اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ ہم نے اسلام کو محض عبادات اور عقائد تک محدود سمجھ لیا اور شخصیت و کردار اور معاملات کو پس پشت ڈال دیا‘ جب کہ اسلام درحقیقت معاملات ہی کا دین ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے رب اور مالک حقیقی‘ والدین ‘ اہل خانہ‘ ہمسایہ‘ کاروباری شریک‘ حتیٰ کہ دشمن کے ساتھ معاملہ کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مشرقی روایات و رواج کے نام پر وہ معاشرت اختیار کر لی ہے جو اسلام کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ حدیث شریف میں ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ جب بچہ ۱۰ سال کا ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دیا جائے۔ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم کو ڈھانک کر سامنے آئے۔ جن رشتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے وہ تنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھیں خصوصاً دیور کے حوالے سے شدت سے یہ بات فرما دی ہے کہ وہ اپنی بھاوج کے ساتھ تنہا نہ ہو‘ اور نہ وہ بے تکلفی اور بے حجابی اختیار کی جائے جو ہماری نام نہاد مشرقیت کی پہچان ہے اور جس میں دیور اور بھاوج اس طرح گھلتے ملتے ہیں جس طرح حقیقی بھائی بہن کے لیے بھی جائز نہیں کیا گیا ہے۔
اسلام سے زیادہ صلہ رحمی کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔ وہ قطع رحمی ]تعلقات کے منقطع کرنے[ کو حرام قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ رشتوں کا حق پورے احترام سے ادا کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی حیا کو ایمان کی پہچان قرار دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ خود ماں باپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ اپنے طرزعمل کو عمر اور بلوغت کے لحاظ سے متعین کریں۔ چنانچہ ایک حقیقی باپ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ وہ بے تکلفی نہیں برت سکتا جو وہ اپنی بیوی کے ساتھ اختیارکر سکتا ہے۔ بیٹی کے احترام میں کھڑا ہو جانا‘ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت کا اظہار کرنا‘ اسلامی ثقافت اور تہذیب کی پہچان ہے۔ بھائی ہو یا باپ‘ ان کے سامنے سر پر آنچل ہونا‘ سینہ اور دیگر اعضا کا ڈھکا ہونا سنت کی پیروی ہے۔ اس لیے پہلی فکر ماحول کی ہونی چاہیے کہ بچپن سے لڑکیوں اور لڑکوں کو یہ احساس ہو کہ عمر کے ساتھ ان کا ایک دوسرے کے جسم کو چھونا (body contact)کم سے کم ہونا چاہیے۔ ایسے ہی ان رشتوں کا تنہائی اختیار کرنا جن کے درمیان نکاح ہو سکتا ہے حرام قرار دے کر خرابی کے ممکنہ دروازے کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قلب مومن میں ایک ایسے محافظ کو بٹھا دیا گیا جو ہر لمحے ہر ہر عمل کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ میرا کوئی عمل حیا کے منافی تو نہیں۔
جب یہ رویہ اختیا رکیا جائے تو گھر دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ جگہ قرار پائے گا جہاں کوئی نفسیاتی دبائو اور احساسِ گناہ جنم نہیں لے سکے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان رسوم و رواج سے اپنے آپ کو آزاد کریں جو ہمارے قبلِ اسلام کے معاشرے کی باقیات ہیں۔
جہاں تک سوال کسی گناہ کے ارتکاب کی ذمہ داری کا ہے‘ اسلام کا اصول واضح ہے۔ اگر ایک شخص پر اس کی خواہش کے بغیر ایک برائی مسلط کر دی جائے تو تمام ذمہ داری اس فرد کی ہے جو پیش قدمی کرتا ہے‘ قوت کا استعمال کرتا ہے اور انکار کے باوجود ایک فرد پر زیادتی کرتا ہے۔ جو اپنے آپ کو بچانے کے لیے مزاحمت کرے اس پر کوئی الزام نہیں۔ حتیٰ کہ اس کش مکش میں اعتماد کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو‘ اس کی ذمہ داری بھی پیش قدمی کرنے والے پر ہے۔ چند لمحات کے لیے جو شخص مجبوراً غلطی کا شکار ہو وہ گناہ سے مبرا ہے۔ لیکن اس کے باوجود استغفار اور توبہ اس کے ایمان کو مزید مضبوط کرنے اور رب کریم سے عاجزی کے ساتھ استقامت طلب کرنا قلبی سکون کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
سگے بھائی کی طرف سے جو غلط رویہ اختیار کیا گیا اسے والدین کے علم میں ضرور لانا چاہیے اور اگر وہ واقعی نفسیاتی مریض ہو تو کسی صاحب ِ ایمان ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے اپنے نفسیاتی صدمے کا سوال ہے وہ بالکل فطری ہے لیکن آپ جیسی باشعور مسلمان لڑکی نے جس ہمت اور اعتماد سے اپنا تحفظ کیا ہے وہ پوری اُمت کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایسے مواقع پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم کے ورد سے اللہ کی پناہ میں آنا اور ہر نماز کے بعد آیت الکرسی کا شعوری طور پر معنی کوسمجھتے ہوئے پڑھنا مزید تقویت کا باعث ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ برائی کے خلاف جہاد کی قوت میں اضافہ کرے گا۔ ان شاء اللہ!
ضرورت اس بات کی ہے کہ گھریلو تربیت کے ذریعے ہر لڑکے اور لڑکی کو ان اخلاقی حدود سے آگاہ کیا جائے جو معاشرتی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اللہ کے وجود کا احساس ‘ اس کا تقویٰ اور آخرت میں جواب دہی کا شعور ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جو انسان کو برائی سے بچاتی ہے‘ اور مزاحمت کرنے کے لیے قوت فراہم کرتی ہے۔ بُرے سے بُرے ماحول میں بھی اگر اندر کا انسان جاگ رہا ہو اور قلب و دماغ پر اللہ کی حکومت ہو تو بظاہر ایک کمزور لڑکی بھی ایک پہلوان سے زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلے پر ڈٹ جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ اللہ کی محبت اور بندگی کا احساس قلب کی ہر دھڑکن میں سمو جائے۔ یہی وہ اخلاقی اسلحہ ہے جو سیرت و کردار کو مضبوط اور طرزعمل کو درست رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : ان دنوں اکثر یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ کسی شہید کی لاش کافی وقت گزرنے کے بعد بھی دیکھی گئی تو وہ تروتازہ تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآنی آیت کے مطابق وہ زندہ ہیں اور انھیں مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف عام طبیعی عوامل کے تحت گلنے سڑنے کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس بنیاد پر شہادت پر شک کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اصل میں حقیقی صورت کیا ہے؟ (اس سوال کا ایک جواب ہم رسالہ المجتمع (شمارہ ۱۵۱۸‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء)سے پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ)
ج : اس معاملے میں حقیقی صورت حال کو جاننے کے لیے مختلف فقہا سے آرا حاصل کی گئیں۔ فقہ کے استاد ڈاکٹر احمد سعید نے شہید کے جسدِ طاہر کے بارے میں وارد روایات کے بارے میں کہا ہے کہ نصوص میں صرف اس حد تک وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاے کرام کے اجسام کی حفاظت فرماتا ہے۔ اُن کے علاوہ کسی بھی اور شخص کے جسم کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا گیا‘ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض شہدا اور صالحین کے جسموں کی حفاظت کر کے ان پر خصوصی اکرام کرتا ہے۔ عموماً شہید کے جسم پر قدرتی عوامل اُسی طرح اثرانداز ہوتے ہیں جس طرح کسی بھی میت کے جسم پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر کسی کی شہادت کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی شہید کے جسم کو ان عوامل سے خصوصی طور پر محفوظ رکھا ہے تو یہ اللہ کا عطا کردہ خصوصی اکرام و فضیلت ہے جسے وہ جس شہید کے ساتھ چاہے مخصوص کرسکتا ہے۔
بیہقی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ اُحد کے شہدا کی قبروں سے چشمہ پھوٹ نکلنے کی بنا پر ہم نے انھیں وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے قبریں کھودیں تو حضرت حمزہؓ کے پائوں میں کلہاڑی لگی جس سے ان کے پائوں میں سے خون رسنا شروع ہو گیا۔
مقبوضہ فلسطین کے علاقے طولکرم سے تعلق رکھنے والے مفتی عمار توفیق کی رائے میں اس میں ذرا شک نہیں کہ اُمت کے شہدا اُمت کی عزت و وقار کے لیے تاج کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی شبہے سے بالا ہے کہ شہدا کو خدا کی بارگاہ میں جنت الفردوس کا بلند و بالا مقام حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقاً o (النساء ۴: ۶۹) ’’بے شک جو کوئی بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے انبیا‘ صدیقین‘ شہدا اور صالحین کی معیت نصیب ہوگی۔ بے شک یہ بہترین رفقاے کار ہیں‘‘۔
زیربحث مسئلے کے بارے میں درج ذیل باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے:
۱- قرآن کریم کی دو آیات شہدا کی زندگی سے بحث کرتی ہیں: پہلی آیت سورۂ بقرہ کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘۔
دوسری آیت سورۂ آل عمران کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاًط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۶۹) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ درحقیقت وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں‘‘۔
پہلی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں مگر انھیں ایسی زندگی دی گئی ہے جس کا ہمیں شعور و ادراک نہیں ہے۔ یہ خاص نوعیت کی زندگی ہے۔ دوسری آیت بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق بھی پا رہے ہیں۔ ظاہر ہے رزق سے زندہ ہی متمتع ہوسکتے ہیں۔ مردے کو اگر رزق ملتا ہے تو اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
۲- مرنے کے بعد شہدا کو حاصل ہونے والی زندگی کا اُن کے جسم کا مثلہ بنائے جانے اور دیگر تغیرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کا جسم بھی مثلہ بنائے جانے سے محفوظ نہ رہ سکا تھا۔ اُن کا پیٹ چیر کر کلیجہ نکالا گیا‘ ناک اور کان کاٹ ڈالے گئے۔ مگر اُن کے جسم کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی زیادتی سے اُن کی حیات جاوداں پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ اُن کی شہادت کے مرتبے پر ہی یہ چیزیں اثرانداز ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت انسؓ بن نضرکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ اُن کے جسم کا اس حد تک مثلہ بنایا گیا کہ صحابہ کرامؓ اُن کی نعش کو پہچان نہ سکے۔ بالآخر اُن کی بہن نے اُن کی انگلی کی ایک علامت سے اُنھیں پہچانا۔
اُن شہدا کا کیا تذکرہ جن کے جسموں کو میزائلوں نے اُڑا کر گم کر دیا‘ توپوں اور گولوں نے اُن کے جسم جلتی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے۔ کیا ان میں سے کوئی اقدام اُن کی شہادت کے مرتبے کو فروتر کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!!
۳- جہاں تک شہدا کے جسموں کا مٹی میں مل جانے اور بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہو جانے کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص وارد نہیں ہوئی جو اُن کے جسموں میں ایسے تغیرات رونما ہونے کی نفی کرتی ہو۔ حدیث سے صرف انبیا کے جسد کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیا کے جسموں کو حرام قرار دے رکھا ہے (احمد‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ‘ دارمی‘ ابن خزیمہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ ان تغیرات سے شہدا کے مقام و مرتبے کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپؐ نے جب حضرت حمزہؓ کے جسدِ پاک کا مثلہ بنا ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اگر مجھے صفیہؓ کے غم زدہ ہو جانے کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ نعش یوں ہی چھوڑ دیتا کہ پرندے اسے کھا جائیں اور درندے اپنا پیٹ بھریں‘‘۔
۴- جہاں تک متعدد ایسے واقعات کا تعلق ہے کہ شہید کا جسم مختلف عوامل اور تغیرات سے مکمل طور پر محفوظ رہا تو درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق معجزہ اور کرامت سے ہے۔ اس سے شہادت کا معیار متاثر نہیں ہوتا۔
جن شہدا کے جسم قبروں میں اپنی اصلی حالت میں برقرار رہے اُن میں حضرت جابرؓ کے والد عبداللہ بن حرام بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کے والد نے اُن کی شہادت کے چھ ماہ بعد انھیں قبر سے نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں وہاں مدفون تھے۔ اُن کے جسم میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی سوائے اُن کے کان کے جو اپنی اصل حالت میں نہ تھا دیگر تمام اعضا اُسی طرح تھے جس طرح دفن کے وقت تھے۔
اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ جانے سے دو شہدا کی قبریں باہر نکل آئیں۔ ان شہدا کی نعشیں ایسی حالت میں تھیں گویا ابھی کل ہی انھیں دفن کیا گیا ہو۔ بے شک یہ اللہ کی طرف سے اُن کی خاص کرامت تھی۔ (ترجمہ: خدیجہ ترابی)
سوال: اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام و آسایش کے سامان مہیا کریں‘ اچھی غذائیں کھائیں‘ مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو‘ غریبی اور بے چارگی ہو‘ خصوصاً ایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے‘ عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پُرتکلف زندگی گزارے؟ کیا رسولؐ اللہ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی‘ جب کہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟ جماعت کے بعض لوگوں کے ایک حد تک متعیشانہ (luxurious) طرزِزندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ براہ کرم میرے ذہنی خلجان کو دور کر دیں۔
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے جماعت اسلامی کے کن لوگوں کو دیکھا ہے اور ان کی زندگی میں کیا چیز آپ کو متعیشانہ (luxurious) نظر آتی ہے۔ اس لیے آپ کے سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا میرے لیے مشکل ہے جب تک کہ آپ کسی شخص کا اور اس تعیش (luxury) کا ذکر نہ فرمائیں‘ جو آپ نے اس کی زندگی میں دیکھا ہے۔
رہا صحابہ کرامؓ اور نبی کریمؐ کی زندگیوں کا معاملہ جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے‘ تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی‘ اور نہ محض اس غرض سے اپنے لباس‘مکان اور خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری‘ سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے‘ اور جس اصول کے پابند تھے وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں‘ مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں‘ رزق حلال حاصل کریں اور راہِ خدا کی جدوجہد میں بہرحال ثابت قدم رہیں‘ خواہ اس میں فقروفاقہ پیش آئے یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نواز دے۔ جان بوجھ کر برا پہننا ‘جب کہ اچھا پہننے کو جائز طریقے سے مل سکے‘ اورجان بوجھ کر برا کھانا‘ جب کہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہِ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی وہ اچھا کھاتے بھی تھے‘ اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں بھی رہتے تھے۔ خوش حال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا‘ بلکہ آپؐ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمھارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند فرماتا ہے۔
میری سمجھ میں کبھی ان لوگوں کی ذہنیت نہیں آسکی جو خود اپنے لیے تو اللہ کی ساری نعمتوں کو مباح سمجھتے ہیں اور دوسرے کسی بھی شخص کا اچھا کھانا اور اچھا پہننا ان کی نگاہوں میں نہیں کھٹکتا‘ مگر جہاں کسی نے اللہ کے دین کی خدمت کا نام لیا‘ پھر اس کا سادہ لباس اور سادہ کھانا‘ معمولی درجے کا مکان اور فرنیچر بھی ان کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا اور ان کا دل یہ چاہنے لگتا ہے کہ ایسے شخص کو زیادہ سے زیادہ بدحال دیکھیں۔ شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نعمتیں صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کا کام کرنے کے بجائے اپنا کام کرتے ہیں۔ رہے خدا کا کام کرنے والے‘ تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں۔ یا پھر شاید ان کے دماغوں پر‘ راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکّہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ دین داری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں‘ اس لیے کھاتا پیتا دین دار ان کو ایک اعجوبہ نظر آتا ہے …
میرے نزدیک ہر وہ جائز سہولت جو آدمی کو دین کا کام بہتر اور زیادہ مقدار میں انجام دینے کے قابل بنائے نہ صرف جائز ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا افضل ہے‘ اور اسے ترک کر دینا نہ صرف ایک حماقت ہے بلکہ اگر وہ اظہار درویشی کی نیت سے ہو تو ریاکاری بھی ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایک شخص اگر موٹر استعمال کر کے کم وقت میں زیادہ کام کر سکتا ہو تو کیوں اسے استعمال نہ کرے؟ اگر وہ سیکنڈ کلاس میں آرام سے سفرکر کے دوسرے دن اپنی منزل مقصود پر پہنچتے ہی اپنا کام شروع کر سکتا ہو تو وہ کیوں تھرڈ کلاس میں رات بھر کی بے آرامی مول لے اور دوسرا دن کام میں صرف کرنے کے بجائے تکان دُور کرنے میں صرف کرے؟ اگر وہ گرمی میں بجلی کا پنکھا استعمال کر کے زیادہ دماغی کام کر سکتا ہو تو وہ کیوں پسینوں میں شرابور ہو کر اپنی قوتِ کار کا بڑا حصہ ضائع کر دے؟ کیا ان سہولتوں کو وہ اس لیے چھوڑ دے کہ خدا کی یہ نعمتیں صرف شیطان کا کام کرنے والوں کے لیے ہیں‘ خدا کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں ہیں؟ کیا انھیں جائز ذرائع سے فراہم کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خواہ مخواہ چھوڑ دینا اور کام کے نقصان کو گوارا کر لینا حماقت نہیں ہے؟ کیا معترضین کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے سپاہی ہوائی جہاز پر چلیں اور خدا کے سپاہی ان کا مقابلہ چھکڑوں پر چل کر کریں؟ یا وہ چاہتے ہیں کہ کام ہو یا نہ ہو‘ ہم صرف ان کا دل خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو فقیر بناکر دکھاتے پھریں؟(سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ رسائل و مسائل ‘ دوم‘ ص ۴۲۲-۴۲۴)
س : ۱- تزکیہ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں رسولؐ اللہ کی تعلیم کیا تھی؟ صوفیوں کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے؟ نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
۲- کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیا کی طرح تزکیہ نفس کیا کرتے تھے اورعالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟
ج : سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ عربی زبان میں ’’تزکیہ‘‘ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ ایک پا ک صاف کرنا‘ دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انھی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پس تزکیہ کا عمل دو اجزا سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعے سے اس کو نشوونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطۂ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوٰۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کون سی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولؐ دور کرنا چاہتے ہیں‘ اور وہ کون سی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعے ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہو جائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولؐ نے استعمال کی ہیں۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیہ نفس کا جو مفہوم رائج ہو گیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن و سنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولؐ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا۔ اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردۂ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے‘ اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خداے واحد کا مطیع بنائیں ‘اور دنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کریں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔ (ا-م‘ رسائل و مسائل‘ اول‘ ص ۱۳۹-۱۴۰)
یہ کسی سوال کا جواب نہیں۔ ۱۹۵۷ء میںمحترم خرم مراد کے اپنی والدہ کے نام امریکہ سے لکھے گئے ایک خط کا اقتباس ہے۔ ایک صورت حال پر تبصرہ ہے‘ لیکن آج بھی بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔ اس وقت وہ ۲۴ سال کے نوجوان تھے۔ (ادارہ)
ہر اجتماعی زندگی میں بے شمار مواقع پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس کو لوگ ٹھیک کرنا نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اختلاف ہے تو عملاً ایک ہی رائے چل سکتی ہے۔اب کون سی رائے چل سکتی ہے؟ اس کے لیے کوئی طریق کار متعین ہونا چاہیے اور اس کی پابندی سب کو کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جماعت میں کوئی ایسی بات ہو رہی ہے جو قرآن و سنت کی نص صریح کی خلاف ورزی ہے تو وہ پوری جماعت کے سامنے قرآن کی آیت پیش کرے اور اگر جماعت اصلاح کے لیے تیار نہ ہو تو پھر وہ اس کام میں اپنی عدم شرکت کا اعلان کر دے۔ لیکن ایسا تو ہوگا نہیں۔
اس کے بعد قرآن وسنت کی تعبیر کا سوال ہوتا ہے۔ جب آدمی خود ایک تعبیر کرتا ہے تو اسے اتنا ہی حق دوسرے کو دینا چاہیے۔ اسی طرح تدابیر کا معاملہ ہے۔ کوئی اقدام اور کوئی تدبیر کسی شخص کی نظر میں سراسر غلط ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کو یہ توسوچنا چاہیے کہ دوسرا پورے اخلاص سے اسے صحیح سمجھ کر کر رہا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کہ کس کی بات چلے‘ عام ارکان جماعت ہی کر سکتے ہیں۔ جب ایک فیصلہ ہو جائے تو پھر سب کو سرتسلیم خم کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی ذمہ دارحیثیت رکھتا ہواور اس کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ داری کے منصب سے علیحدہ ہو سکتا ہے---
یہاں لوگ جب اپنی بات کہتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’میری رائے میں…‘‘۔ اصل میں انتشار کی راہ اس میں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ بس یہ میری ایک رائے ہے اور دوسری رائے‘ خواہ میری نظر میںغلط ہو‘ لیکن ٹھیک ہو سکتی ہے تو اس وقت تک بات ٹھیک ہے۔ لیکن جب کوئی اپنی رائے کو قرآن وحدیث کا ناطق فیصلہ سمجھنا اور دین کی بنیاد سمجھنا شروع کر دے کہ اس کی رائے کی قربانی نہ ہونا چاہیے‘ خواہ دین کے مفاد اور اس کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا جائے اور اس مقدس عمارت کی بنیادیں اکھڑ جائیںجس سے اسلام کا مستقبل وابستہ ہے‘ تو پھر یہ انتشار اور فتنے کی راہ ہے۔
صحابہ کے فقہی اختلافات میں ہمارے لیے بے شمار اچھی نظیریں ہیں۔ مجھے نام یاد نہیں لیکن شاہ ولی اللہؒ نے دو صحابہ کے نام لکھے ہیں۔ ایک کے نزدیک وضو کے بعد گرم چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتی تھی دوسرے کے نزدیک نہیں۔ دونوں سندحدیث سے لاتے تھے۔ جب یہ صاحب امامت کرتے جن کے نزدیک وضو نہ ٹوٹتی تھی تو دوسرے ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ ان کے مسلک کی رو سے وہ نماز نماز ہی نہ تھی۔ میں ایسے چند افراد کے بارے میں جانتا ہوں کہ اگروہ ایسے موقع پر ہوتے تو صاف انکار کر دیتے کہ نہیں صاحب‘ حدیث کی رو سے یہ نماز اب نماز ہی نہ رہی۔ امام بے وضو ہے ۔۔۔۔ پھر عراق کی زمینوں والا معاملہ ہے جس پر تین دن رات مسجد نبویؐ میں بحث ہوئی اور حضرت عمرؓ ،حضرت بلالؓ سے تنگ آگئے کہ اللہ مجھے بلال سے نجات دے لیکن جب شوریٰ نے معاملہ طے کر دیا تو سب باتیں ختم---
یہاں یہ ہوتا ہے کہ اولاً اپنی بات اس طرح پیش کریں گے کہ بس اس سے الگ ہٹ کر کوئی راہِ حق و صواب ہے نہیں۔ پھر اس میں گرم گرم جذبات کا مظاہرہ کریں گے۔ جب جذبات کی رو میں دونوں طرف سے غلطیاں ہوںگی تو اب وہ اصول کے ساتھ مل کر ایک ذاتی اختلاف بھی بن جائے گا اور پھر اس میں شکایات پیداہوں گی--- پھر اگر جماعت میں ان کے خلاف فیصلہ ہو جائے گا تو اندر اندر سلگتے رہیں گے۔ اس کے خلاف فضا اور ذہنوں کو مسموم کرتے رہیں گے--- شیطان کی قوتوں سے لڑنے کے بجائے زیادہ اہم کام یہ ہوجائے گا کہ قیادت کو بدنام کیا جائے۔ پہلے اور شکایات ہوں گی۔ اب آمریت اور جمہوریت کی شکایات ہوں گی۔ اسی طرح تو فتنوں کا آغاز اسلام میں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ کے خلاف ذاتی اور ان کے اداے فرض کے سلسلے میں طوفان اٹھے۔ اور اس میں حضرت محمد بن ابوبکرؓ ، حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے لوگ تھے جن کے اخلاص میں ہم جیسے لوگ کلام نہیں کرسکتے۔ لیکن اتنا جانتے ہیں کہ اگر یہ لوگ متحد رہتے تو آج اسلام کی تاریخ مختلف ہوتی۔
امریکہ میں ایک بات مجھے پسندآئی ہے کہ ہر آدمی اختلاف رائے کرتے ہوئے "in my opinion"کے الفاظ سے شروع کرتا ہے اور صرف کہتا نہیں بلکہ واقعی اس کو ملحوظ رکھتا ہے۔ شیطان کے لیے اس کے چیلے اس ڈسپلن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن خدا کے بندے تو ’’خدا کے بندے‘‘ ٹھیرے۔ انھیں بھلا اس دنیا میں دین کے مستقبل کی کیا پرواہ۔ کچھ بھی ہو--- حق تو ’’حق‘‘ ہے‘ بس اس کو ہونا چاہیے۔ خدا اس ’’حق پرستی‘‘ اور اس’’اصول پرستی‘‘ سے محفوظ رکھے۔
سوال: میں ایک عام سی لڑکی ہوں البتہ اللہ سے قرب کی خواہش رکھتی ہوں۔ مجھے گناہ پر ندامت ہوتی ہے لیکن تقویٰ پر عمل کی کوشش کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے گناہ یا خداکی نافرمانی ہو جاتی ہے‘ تاہم احساسِ ندامت پر پھر پلٹنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ مجھے اطمینان نہیں ہے اور راہ خدا میں استقامت سے محروم ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو گر کر سنبھل جائے اس سے تو اللہ راضی ہو جاتا ہے لیکن جو بار بار گرے‘ اس کے لیے نجات کہاں ہے۔ البتہ میں بچنے اور سنبھلنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ کوئی ایسا شارٹ کٹ چاہتی ہوں کہ اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت مل جائے۔ جہاد بالنفس مشکل امر ہے۔ آخر افغانستان یا کشمیر میں جہاد بالسیف کر کے شہید ہو کر میں رب کی یقینی رضا کیوں حاصل نہیں کر سکتی؟ صرف اس لیے کہ میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ میں مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے کوئی ایسا آسان راستہ‘ طریقہ اور عمل بتایئے کہ میں اپنے رب کا قرب حاصل کر لوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ میں تصوف یا رہبانیت کی راہ پر نہ چل نکلوں۔ میری رہنمائی کیجیے۔
جواب: آپ اگر یہاں سے سوچنا شروع کریں کہ اللہ سے قریب ہونے کا وہ راستہ کیا ہے جو خود اللہ نے بتایا ہے تو اُمید ہے کہ آپ کی اُلجھنیں دُور ہو سکیں گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان بخش دے گا۔ اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ آپ سے کیا چاہتا ہے: اس سے قریب ہونے کی خواہش (اور ارادہ)‘ اور اس مقصد کے لیے بحد استطاعت و اختیار کوشش (اور عمل)۔ اس آرزو اورجستجو‘ خواہش اور کوشش کی نذر جو زندگی ہو جائے ‘ وہی اس کے نزدیک مقبول ہے‘ وہی اس کو مطلوب ہے۔
کیا کوشش اور عمل مطلوب ہے؟
اول‘ جب اس کا قرب مطلوب ہے تو ہر کام اسی کے لیے کرنا‘ اس کی رضا پر نگاہ جما کے رکھنا‘ اپنے ارادے اور اختیارسے کسی اور محبوب کو مقصود نہ بنانا۔ ارادے کے بغیر‘ اختیار سے باہر‘ وسوسوں کی وجہ سے‘ آمیزش ہو جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں‘ اگرچہ احساسِ ندامت ہونا چاہیے۔ ارادے اور اختیار سے ہوجائے‘ تو بھی استغفار سے ہر داغ دھل جاتا ہے۔ بس ندامت و خطاکاری کے آنسو ہوں‘ رحمت و مغفرت کی طمع ہو‘ پکڑ کا خوف ہو‘ آیندہ نہ کرنے کا شعوری عزم ہو۔ خواہ سو مرتبہ ہو‘ ہر مرتبہ اس کی آغوش رحمت کھلی ہو گی۔
دوسرے‘ جو اس نے کرنے کو کہا ہے وہ حسب استطاعت کرنے میں لگے رہنا‘ یعنی اطاعت اور عمل۔
تیسرے‘ جو نہ کرنا چاہیے وہ کر بیٹھو‘ جو کرنا چاہیے وہ نہ کرو‘ یعنی گناہ و خطا ہو جائے تو نادم و شرم سار ہو کر اسی کے در پر آکر ہاتھ پھیلا دینا‘ اور رو رو کے گڑگڑا کر معافی مانگنا‘ یعنی توبہ اور استغفار۔
چوتھے‘ اس سے اُمید کامل رکھنا کہ وہ ہاتھ پکڑ لے گا‘ جھاڑ پونچھ کر‘ اٹھا کر اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لے گا‘ راہ پر رکھے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ وہ خود ہی تو پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے اپنے گناہ بخشوائو! ہے کوئی جو استغفار کرے اور میں اس کے گناہ بخش دوں!
دیکھو‘ کتنا آسان اور صاف سیدھا راستہ ہے! مشکلات اور الجھنیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم خود مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم اپنے خودساختہ طریقوں کو قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ جب خود اپنے معیارات پر پورے نہیں اُترتے تو ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں‘ چلنا ناممکن نظر آنے لگتا ہے‘ زندگی بار بن جاتی ہے اور یاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو اس نے آسان بنایا تھا‘ اسے ہم مشکل بناتے ہیں۔ اس سے منع کیا گیا ہے۔ غلو اور تشدد میں نہ پڑیں‘ آپ تھک جائیں گی مگر اللہ نہ تھکے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدھا رکھو‘ کوشش میں لگے رہو‘ بس اتنا ہی مطلوب ہے۔ اس پر سب موعود ہے۔ مسلمان ہونا تو بہت آسان ہے۔
قرب کی راہ میں مایوسی اور پست ہمتی تو کینسر کی طرح کے مرض ہیں‘ لیکن قابل علاج۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ط (اہل ایمان اللہ کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں۔ البقرہ۲:۲۱۸) اور وَلاَتَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یوسف ۱۲:۸۷)‘ اور وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ الحجر ۱۵:۵۶)
قرب اور قرب کے راستے کے خودساختہ تصورات کیا ہیں جو پتھر بن کر سدّراہ ہو جاتے ہیں؟ قرب اس دنیا میں کسی کیفیت کا نام نہیں‘ کیفیت کی کوشش مطلوب ہے‘ خودکیفیت مطلوب نہیں۔ اس لیے کہ کیفیت آپ کے اختیار میں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی شے کو مطلوب قرار نہیں دیا جو انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔ کسی گناہ کا دوبارہ نہ ہونا بھی علامت قرب نہیں۔ اس طرح دوبارہ ہونا عدمِ استقامت اور ناراضی رب کی علامت نہیں ہے۔ جو صحیح راستے پر ہے‘ رخ صحیح ہے‘ کوشش میں لگا ہوا ہے‘ جو دن میں ہزارگناہ کرے لیکن ہر بار استغفار کی توفیق ملتی رہے‘ وہ قرب الٰہی کے راستے پر ہے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ایک دفعہ گرنے والا سنبھل سکتا ہے‘ ہزار بار گرنے والے کا سنبھلنا ناممکن ہے۔ اس غفور و رحیم کی شان میں یہ خیال کیسے کیا جا سکتا ہے‘ جو کہتا ہے کہ ’’وہ تم کو مغفرت کی طرف پکارتا ہے‘ وہ سارے گناہ معاف کردے گا‘ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اگر آسمان تک اور زمین بھر گناہ لائو گے تو اس سے اونچی اور وسیع مغفرت تمھارے استقبال کے لیے تیار ہے!‘‘ ایسا سمجھنا تو خدا کی لامحدود رحمت و مغفرت کو ہزار بار گرنے والے کے گرنے سے عاجز ہو جانا تصور کرنا ہے۔ کیا اس کی رحمت و مغفرت اتنی بھی وسیع نہیں کہ ایک ہی گناہ انسان ہزار بار کرے اور ہر بار اسے تکلیف ہو اور وہ پلٹ کر آئے اور وہ اسے اپنے اندر نہ سمیٹ سکتی ہو۔ آپ کم سے کم مشکوٰۃ میں توبہ اور استغفار کا باب ضرور دیکھ لیں اور قرآن مجید میں مغفرت کے عنوان پر جو آیات ہیں ان پر غور کریں۔
گرتے پڑتے چلنے سے کس انسان کو مفر ہوسکتا ہے؟ اگراللہ تعالیٰ کو گناہوں سے پاک زندگی مطلوب ہوتی تو فرشتے پہلے ہی موجود تھے۔ اس کو تو وہ مخلوق مطلوب تھی جو ظلم و جہل میں پڑ سکتی ہو اور نہ پڑے ‘ اور اگر پڑجائے تو لوٹ آئے۔ اس کو بار بار آنے والے (اوّاب)‘ آہ آہ کرنے والے (اوّاہ)‘ لوٹنے والے (منیب) مطلوب ہیں۔ انھی سے جنت‘ رضا اور قرب کا وعدہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ تم گناہ نہ کرتے تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرنے کی استعداد رکھتی‘ گناہ کرتی‘ استغفارکرتی اور جنت کی مستحق بنتی۔ اگر گناہ گار اور منیب انسان نہ ہوتا تو جنت تو راہ تکتی رہ جاتی‘ خالی رہتی‘ اس لیے کہ وہ فرشتوں کے لیے نہیں بنائی گئی۔
کوشش کے بارے میں آپ کو یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ جس کو اللہ نے جہاں رکھ دیاہے‘ جو کام سپرد کر دیا ہے‘ جو مواقع عنایت فرما دیے ہیں‘ انھی کو اخلاص و احسان کے ساتھ بجالاتے رہنا ہی جنت اور قرب کی راہ ہے۔ خود سے اپنے اوپر اعمال کا بوجھ لاد لینا‘ کسی خاص عمل پر نجات کو منحصرسمجھنا بھی صحیح نہیں۔ جنت اور قرب کا انحصار جب اعمال پر نہیں‘ بلکہ رحمت پرہے جس کو اعمال متوجہ کرتے ہیں‘ تو شہادت جیسے کسی عمل کو نجات کے لیے کافی سمجھ لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ کتنے غازی اور شہید ہیں جو عدم اخلاص کی وجہ سے ‘ عدم صبر کی وجہ سے (جیسے یہ کہ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلی) جہنم میں چلے جائیں گے اورکتنے مجاہدین کی راہ میں آنکھیں بچھانے والے‘ صبح شام شہادت کی تمنا و دعا کرنے والے‘ مجاہدین کا سامان تیار کرنے والے‘ تیرانداز کے لیے تیر بنانے والے اور ہاتھ میں تھمانے والے جنت میں چلے جائیں گے۔ اگر جنت میں جانے کے لیے افغانستان اور فلسطین کے محاذ ہی درکار ہوتے تو سب انسان کیسے جنت میں جا سکتے تھے۔ جو محاذ اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ کے سپرد کر رکھا ہے اسی پر جان لگا کر کام پورا کریں۔ یہی جنت کی راہ ہے۔ پتا نہیں محاذ جنگ پر کیا پیش آئے ۔ اسی لیے ہمیں تو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ یہ آرزو کریں کہ حضورؐ کے زمانے میں ہوتے۔ اس طرح کی سوچ اللہ کے فیصلے پر عدم رضا ہے۔ اُس زمانے میں تو ابولہب اور عبداللہ بن ابی بھی تھے‘ پتا نہیں ہم کہاں ہوتے۔
اطمینان بھی فی نفسہ مطلوب نہیں‘ ایمان اور عمل مطلوب ہیں۔ اپنے کسی عمل پر یہ اطمینان کہ اب ہم جنت میں چلے جائیں گے‘ بہت مہلک ہے۔ جو مطلوب حالت ہے وہ تو یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ السجدہ ۳۲:۱۶)کی حالت ہے۔
اللہ جس راہ سے آپ کو جنت میں پہنچانا چاہتا ہے‘ اس سے غیر مطمئن ہو کر کوئی دوسری راہ کیوں تلاش کرتی ہیں؟ ہر معاملہ اس پر چھوڑنے میں اطمینان ہے۔ اس نے آپ پر اتنے خصوصی انعامات کیے ہیں کہ ان کاشکر ادا کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کی خواہش عطا کی ہے‘ یہ ایک ایسی بے بہا نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کے راستے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے‘ یہ خود کچھ کم قیمت نہیں‘مگر اس نے تو آپ کو اس راہ پر قدم بڑھانے کی توفیق بھی عنایت کی ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ جب آپ سے خطا ہو جائے تو اس پر تکلیف اور ندامت اور واپس پلٹنے کی دولت بھی دی ہے اور سب سے بڑھ کر ‘ جس کے آگے سب نادار‘ محتاج اور فقیر ہیں‘ اس کے آگے اعمال کے لحاظ سے اپنی کم مایگی اور ناداری کا احساس بھی دیا ہے۔ ان سب باتوں کا آپ نے خود اقرار کیا ہے۔ آپ کو تو خوشی سے بھر جانا چاہیے‘ نہ یہ کہ بے چینی اور اضطراب‘ مایوسی اور کم حوصلگی کا شکار ہوجائیں۔ ایسی زندگی جس میں آپ بار بار اپنے محبوب کی طرف پلٹ کر آئیں بڑی لذیذ ہونا چاہیے‘ نہ یہ کہ آپ کے لیے یہ بار بن جائے۔ جو شکر کریں وہی مزید پاتے ہیں۔ یہ سب پاکر آپ زندگی سے فرار کا کیوں سوچیں۔ جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طریق نبوت عطا کر دیا ہے‘ تو طریق تصوف اور رہبانیت پر کیوں جائیں۔
اُمید ہے کہ میری یہ چند باتیں آپ کے لیے کچھ مفید ثابت ہوں گی۔ (خرم مراد‘ ۱۹۹۲ء)
س : شادی سے قبل میری بیوی ہسپتال میں نرس تھی۔ نکاح کے وقت یہ بات طے پائی تھی کہ شادی کے بعد نوکری کروانا یا نہ کروانا میری مرضی ہوگی۔ شادی کے بعد میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میرا ڈپلومہ مکمل ہونے میں سات ماہ لگیںگے۔ آپ مجھے نوکری کرنے دیں پھر میں چھوڑ دوںگی۔ اسی دوران میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی نے پھر نوکری کرنے کے لیے کہا تو میں نے سمجھایا کہ بوڑھے والد‘ چھوٹے بہن بھائیوں کو توجہ کی ضرورت ہے ‘ اس لیے نوکری کرنا مناسب نہیں۔ اس پر وہ ناراض ہو کر لاہور اپنے میکے چلی گئی اور ایک ہسپتال میں جا کر نوکری شروع کر دی۔
کچھ عرصے بعد میں نے سسرال والوں سے رابطہ کیا اورمسئلے کے حل کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی تعاون نہ کیا۔ میں نے اپنی بیوی سے بات کی مگروہ بضد تھی کہ اسے نوکری کرنی ہے‘ چاہے میں اسے طلاق دے دوں۔
میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ بوڑھے والد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی مجھ پر ذمہ داری ہے اور ان کے بھی حقوق ہیں۔ بیوی کو چھوڑتا ہوں تو بچے کا مستقبل اور گھر کے تباہ ہونے کا خیال آتا ہے لاہور جانا بھی محال ہے۔ میں اپنی بیوی کی تمام ضروریات بھی پوری کرتا رہا ہوں لیکن وہ نوکری چھوڑنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔ اس الجھن کا قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی حل بتایئے تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔
ج: آپ کے خط سے اس توثیق میں مزید اضافہ ہوا کہ ہم ایک ایسے معاشرتی بحران کا شکار ہو چکے ہیں جس کا ہمیں اب بھی پوری طرح احساس نہیں ہے۔ گھر اور خاندان اسلام کا وہ امتیازی ادارہ ہے جو ایمان‘ عفت و عصمت‘اخلاق اور معاملات کی پہلی درس گاہ اور تجربہ گاہ ہے۔ اسی بنا پر شیطان کی ذریت جب اسے بتاتی ہے کہ انھوں نے کسی گھر میں تفرقہ ڈلوا دیا تو وہ اس کام کو تمام خرابیوں سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنی ذریت کو شاباش دیتا ہے۔
آپ نے جو حالات لکھے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے قبل آپ نے اپنی اہلیہ کے گھر والوں سے ان کی ملازمت کے سلسلے میں واضح طور پر بات کر لی تھی اور ان کو اس کا پاس کرنا چاہیے۔ خود آپ کی اہلیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ پروفیشن کو خاندان پر اہمیت نہ دیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ گھر میں اچھا ماحول کا پیداکرنا‘ اور اولاد کی صحیح تربیت کرنا ایک کم تر جہاد ہے‘ جب کہ کسی ہسپتال یا دفتر میں کام کرنا جہاد اکبر ہے۔ اس کی کوئی بنیاد دین میں نہیں ہے۔ اگر ایک خاتون‘ اپنی بنیادی ذمہ داری‘ یعنی تربیت و تعلیم اولاد کے ساتھ اتنا وقت نکال سکتی ہے کہ وہ کوئی رفاہی یا فنی کام کر سکے تو دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بنیادی ذمہ داری کو نظرانداز کرکے محض حقوقِ نسواں کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر اپنے گھر کو تباہ کر دینا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ آپ کے سسرال والے اگر آپ سے تعاون پر آمادہ نہیں ہیں تو آپ خود اپنی اہلیہ کو محبت و نرمی سے سمجھائیں کہ جو کچھ وہ کر رہی ہیں‘ اس میں خاندان کی بربادی کے لیے کتنا خطرہ ہے۔
آپ کے بوڑھے والد اور چھوٹے بھائی بہنوں کا آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کی اہلیہ اور بچے کا۔ اس لیے دونوں میں توازن ضروری ہوگا۔ اگر گھر والوں کو چھوڑ کر لاہور جانے سے حالات بہتر ہونے کی زیادہ اُمید ہو تو آپ والد صاحب اور بھائی بہنوں کو اعتماد میں لے کر اور ان کی دیکھ بھال کا بندوبست کر کے‘ یا ان کے ہمراہ لاہور جانے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ کام کرنے پر بہت زیادہ مصر ہوں تو وہ آپ کے شہر میں کسی اچھے ہسپتال میں بھی کام کر سکتی ہیں تاکہ بچے اور آپ کے قریب ہوں۔
دراصل یہ سارے معاملات باہمی افہام و تفہیم اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خوشی کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی تبادلۂ خیال سے طے کرنے کے ہیں‘ اس میں کوئی ایسا فقہی نسخہ میرے علم میں نہیں کہ اسے استعمال کرتے ہی تمام معاملات حل ہو جائیں۔ قرآن و سنت یہی بتاتے ہیں کہ اختلاف کی شکل میں خود عدل کے ساتھ معاملات پر غور کیا جائے‘ گھر کے بزرگ افراد کو حکم بنا کر مسئلے کا حل نکالا جائے‘ اور آخرکار قانونی امداد سے کوئی صورت نکالی جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: نماز پڑھنے کے دوران میری کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ میں گریہ و زاری کے انداز میں روسکتا ہوں لیکن مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے میں اپنے آپ کو اس لیے روکتا ہوں کہ یہ ریاکاری کے دائرے میں آجائے گا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں تصنع نہیں کر رہا اور بناوٹی طور پر نہیں رورہا‘ فی الواقع میری یہ کیفیت ہے‘ کیا تب بھی اس پر ریاکاری کا اطلاق ہوگا؟ مجھے عملاً کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس کیفیت کے اظہار کو گھر کی تنہائی کی نمازوں تک محدود کر لوں؟
جواب: نماز کے اندر آپ کی یہ کیفیت تو مطلوب و محمود کیفیت ہے۔ سورہ انفال میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ان کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں (۸:۲)۔ سورہ زمر میںہے کہ قرآن سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں‘ جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳)۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے: اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے (۱۷:۱۰۹)۔ سورہ مریم میں ہے: ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (۱۹:۵۸)
جب ایک شخص نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکا دینے کا واقعہ بیان کیا تو آپؐ رو دیے اور آپؐ کے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ بیان کیا اور آپؐ اسے سن کر اس قدر روئے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھی روتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن شخیرسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح سے آتی تھی جیسے کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کے وقت کی آواز ہوتی ہے۔ (مسند احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میںفرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘ تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں۔ اپنے آنسو نہیں روک سکتے۔ وہ جب قرآن پاک پڑھتے ہیں تو روتے ہیں۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ آپؐ کی بیماری کے دوران میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی نے امامت کرائی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے واقعات میں آتا ہے کہ وہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ ۱۲:۸۶)‘تو ان کے رونے کی آواز سنی گئی۔ (بخاری)
اسی بنا پر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص نماز کے دوران اللہ کے جلال‘ قرآن پاک کی آیات یا دوزخ کے تصور سے آواز سے رو پڑے تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب بے اختیار آواز نکل آئے اور تلاوت قرآن پاک سننا اور سنانا متاثر نہ ہو۔ جب ایک آدمی امام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تو اسے دوسروں کے خشوع و خضوع اور نماز اور امام کی قرأت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ تمام احتیاطی تدابیرکے باوجود رقت کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ آواز سے رونا شروع کردے تو اس سے نماز میں فرق نہیں پڑے گا۔
اس لیے نماز باجماعت میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بلند آواز سے نہ روئے تاکہ دوسروں کی نماز خراب نہ ہو اوروہ رونے والے کی طرف متوجہ ہوکر اپنی نماز کی طرف توجہ نہ چھوڑ دیں‘ نیزاس کے نتیجے میں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ ریاکاری کا مرض پیدا ہو جائے۔ اس لیے بھی احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کے حوالے سے توانسان خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑتے چلے جانا‘ شیطان کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ انفاق کے بارے میں بھی حکم ہے کہ خفیہ کرو اور اعلانیہ بھی کرو۔ نیک اعمال کے مشاہدے سے نیک اعمال کی ترغیب ہوتی ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن جو شخص اپنے دل کا مرض محسوس کرے‘ اسے احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کا تعلق دل سے ہے‘ اپنے دل پر نظر رکھنا چاہیے۔ ریاکار وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے ایک کام کو کرے لیکن جب لوگ دیکھ نہ رہے ہوں تو اسے نہ کرے۔ لوگوں کی موجودگی میں خشوع و خضوع کرے‘ عمدہ اور اعلیٰ کھانوں کو ہاتھ نہ لگائے‘ لیکن گھر میں سب کچھ کرے۔ لوگوں کے سامنے روزہ دار‘ نمازی‘ تہجدگزار کی شکل میں پیش ہو لیکن فی الحقیقت روزہ‘ نماز اور تہجد سے اسے کوئی شغف نہ ہو‘ جیسے کہ مدینہ کے منافقین کا طرزعمل تھا۔ ریاکار بھی دراصل منافق ہوتا ہے۔ حقیقی کیفیات اور ظاہر و باطن میں ہم آہنگی ہو توپھر ریاکاری نہیں ہوتی۔
رہی یہ بات کہ لوگوں کے سامنے کیا کام کرنا ہے اور تنہائی میں کیا کام‘ تو اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ہرجائز کام اور ہر عبادت لوگوں کے سامنے کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جو کیفیت جائز اور مستحسن ہے اسے لوگوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ رونا بھی اسی قسم کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ صحابہ کرام اور سلف صالحین نے کھلے عام بھی اس سے پرہیز نہیں کیا۔ نماز میں ایسی کیفیت طاری ہو اور نماز میں آنسو بہنے لگیں تو انھیں روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ریاکاری نہیں ہے۔ آدمی مغلوب ہو جائے اور رونے کی آواز نکل آئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ریاکاری یہ ہے کہ رونا نہ آتا ہو لیکن لوگوں کے سامنے بزرگی‘ تقویٰ اور ولایت ظاہر کرنے کے لیے روئے‘ اور گھر میں جب کوئی نہ دیکھ رہا ہوتو اس وقت نماز میں خشوع وخضوع بھی نہ ہو‘ آنسو بھی نہ آئیں اور بے اختیار آواز بھی نہ نکلے۔ آپ نے اپنا جو حال لکھا ہے یہ ریاکار کا حال نہیں ہے بلکہ نیک لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کیفیت میں ترقی فرمائے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: ایک تحریکی بزرگ کی بیٹی سے میری شادی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی برادری سے باہر تحریک کی بنیاد پر شادی کی تھی۔ ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ میں تحریکی کام کروں گا تو میری اہلیہ میرا ہاتھ بٹائے گی اور میرا گھر اسلام کا ایک خوب صورت گلدستہ ہوگا۔ مگر شادی کے بعد میرا سارا تصور خاک میں مل گیا۔ میری اہلیہ ایم ایس سی ہیں۔ نماز بھی وقت کی پابندی سے ادا نہیں کرتیں۔ میں نے بڑی حکمت سے اسلام کی بنیادی تعلیم سکھانے کی کوشش کی اور حلقہ خواتین کے اجتماع میں بھی بھیجا۔ گھریلو کام میں بھی تعاون کیا مگر بہتری کے بجائے خرابی ہو رہی ہے۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ گھر کا ماحول ناخوش گوار ہو گیا ہے۔ ازدواجی تعلقات بھی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔میری اہلیہ ملازمت کرتی ہیں‘ وہ ساری تنخواہ اپنی مرضی سے خرچ کرتی ہیں۔ میں نے اس پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ میری اہلیہ کبھی کبھی رات کا کھانا بھی نہیں پکاتیں اور مجھے کھانا خود پکانا پڑتا ہے۔ ان حالات میں میرے سوال یہ ہیں:
۱- مجھے اپنی اہلیہ کے رویے پر خاموش رہنا چاہیے‘ یاان کو طلاق دے دینی چاہیے؟ کیوں کہ اصلاح کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔
۲- کیا جب بیوی اپنے خاوند کی جائز خواہش پوری نہ کرے‘ تو مرد کو دوسری شادی کر لینی چاہیے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔
۳- اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو کیا ایک فرد اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہو سکتا ہے؟
ج: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی مسائل اور تضادات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ نے نیک نیتی کے ساتھ یہ چاہا کہ آپ کی شادی ایک تحریکی خاتون سے ہو تاکہ وہ دعوتی کام میںآپ کی معاون ہو سکے۔ ان شاء اللہ اس نیک نیت کا اجر آپ کو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ضرور ملے گا چاہے آپ کی اہلیہ نے آپ کی توقعات پوری نہ کی ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلوص نیت کو ضائع نہیں فرماتے۔ البتہ جو بات تشویش طلب ہے وہ یہ کہ اگر ایک تحریکی گھرانے میں پرورش پانے والی اور ایم ایس سی تک تعلیم یافتہ خاتون کا رویہ وہی ہے جو آپ نے تحریر فرمایا ہے تو ہمارے نظام تربیت میں لازماً کوئی بنیادی خامی ہے۔ اس کا حل دورحاضر کا معروف نعرہ یعنی خواتین کا empowerment نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ اقدار حیات اور مقصد حیات کا ہے جو محض اختیارات کی منتقلی سے حل نہیں ہو سکتا۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ معاشرتی ظلم و استحصال کا دائرہ محض خواتین تک محدود نہیں ہے‘ بعض مرد بھی اس استحصال کا شکار ہیں جو ایک وسیع تر معاشرتی بحران کی علامت ہے۔ اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو پھر تباہی کے ریلے کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں اپنے خاندان کے نظام تربیت اور اہل خانہ میں مقصدحیات کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ان تھک محنت کرنی ہوگی ورنہ تحریکی گھرانے بھی اس لاعلاج مرض سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے خاندانی معاملات میں اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ کر سکے تو انبیا کرام کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے تجرد اختیار نہیں کر سکتا۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کے اسوہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمہ وقت اصلاح و دعوت کے عمل میں مصروف رہنے کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کو تبدیل نہ کر سکے لیکن اس بنا پر نہ کسی جنگل میں جا کر بیٹھ گئے‘ نہ ان سے قطع تعلق کرلیا بلکہ آخر وقت تک صبرواستقامت کے ساتھ اصلاح کی کوشش میں لگے رہے۔ اس لیے نہ تجرد اس کا حل ہے نہ ازدواجی تعلق منقطع کردینا اور نہ خاموش رہنا۔ ایک داعی کو بار بار اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دعوت حق کو پہنچانے کے لیے جو اسلوب اور طریقہ اس نے اختیار کیا ہے اس میں کس طرح مناسب تبدیلی کی جائے کہ بات زیادہ موثر ہو جائے۔ گو قلب کی دنیا کو بدلنا اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہر داعی کو مسلسل اپنے طریق دعوت کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات اصلاح کے لیے اچھے انداز میں زبانی طور پر متوجہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات خاموش رہ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خاموشی مستقل نہیں ہوتی۔ صرف کسی خاص موقع پر حکمت کے پیش نظر خاموش ہونا اور بعد میں اس پہلو کی طرف متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔
آپ کی اہلیہ اگر کام کرتی ہیں تو جو کچھ معاوضہ انھیں ملتا ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور انھیں اسے خرچ کرنے کا پورا حق ہے۔ گھر میں کھانا پکانا آپ دونوں کا باہمی رضامندی کا معاملہ ہے۔ رواجی طور پر ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ایک اچھی بیوی کو لازماً کھانا پکانے کا ماہر بھی ہونا چاہیے اور گویا یہ شوہر کا ایک حق ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک شریعت نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ یہ محض باہمی خوشی کا معاملہ ہے۔ ایک بیوی شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق گھریلو کاموں کے لیے ایک خدمت گار کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔
اگر معاملہ اتنا حد سے گزرگیا ہے کہ آپ طلاق دینے پر غور کر رہے ہیں تو یہ یاد رکھیے یہ جائز کاموں میں سے وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے والا ہے۔ اس لیے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی اہلیہ کو بھی اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے سے بچنا چاہیے اور دونوں کو اپنے طرزعمل کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری شکل جو آپ نے لکھی ہے وہ بلاشبہہ شریعت کی ایک جائز شکل ہے۔ لیکن اس کے بارے میں بھی آپ کی اہلیہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگروہ اپنا طریقہ تبدیل نہیں کریں گی تو آپ مجبوراً عقدثانی پر غور کریں گے تاکہ حالات خراب نہ ہوں اور خاندانی مودت و رحمت میں کمی نہ آئے۔ بعض اوقات حالات سے متاثر ہو کرہم ایک کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر بچوں کا مستقبل اور خود دو گھروں کی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے۔ اس لیے جو حالات بعد میں پیش آنے والے ہیں ان پر غور کرکے اپنے وسائل کا حقیقی انداز میں جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا مفید ہوگا۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بھی جب بظاہر ایک شخص کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا‘ اصلاح حال کی پرخلوص کوشش کی جائے تو خاندان میں دوبارہ سکون و محبت قائم ہو جاتا ہے۔ اگر انتخاب گناہ کی زندگی اور جائز شرعی طریقے میں ہو تو لازماً جائز ہی کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن ایسے تمام فیصلے اہل خانہ کو پورے اعتماد میںلے کر ہی ہونے چاہییں تاکہ اتمامِ حجت پوری وضاحت کے ساتھ ہو اور محض ایک قانونی نکتے کے طور پر نہ ہو۔ (ڈاکٹر انیس احمد)