رسائل و مسائل


غیرمسلموں میں دعوت کی حکمت

سوال : مجھے حصولِ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے کا موقع ملا ہے۔ یہاں غیرمسلموں سے بھی ملاقات رہتی ہے اور اسلام کی دعوت دینے کا موقع بھی میسرآتا ہے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) سے تو مشترک بنیاد‘ یعنی توحید‘ رسالت اور آخرت پر بات ہو سکتی ہے لیکن دیگر مذاہب‘ مثلاً کسی ہندو کو دعوت دینا ہو جو اس کے قائل نہیں ہیںتو کیا حکمت پیش نظر رکھی جائے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔

جواب: اس سوال کا تعلق بنیادی طور پر دعوت کی حکمت سے ہے۔ قرآن کریم نے سورۂ نحل (۱۶:۱۲۵) میں اس اصول کا تعین کر دیا کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت‘ یعنی اسلام کی دعوت حکمۃ اور موعظہ حسنہ سے دی جائے گی اور اگر نوبت بحث و تکرار کی آجائے‘ یعنی بات شدت اختیار کرجائے تو جدال بھی احسن طریقے سے ہوگا۔ گویا بھونڈے انداز میں مخاطب کو للکارنا‘ غیرضروری مباحث میں الجھنا‘ اس کی تضحیک کرنا‘طنز یا ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا دعوت کا طریق نہیں ہے بلکہ عقلی اور سوچے سمجھے انداز میں بات کرنا ہوگی۔

دوسرا اصول سورۂ آل عمران(۳:۶۴) میں یہ بیان کر دیا گیا کہ اہلِ کتاب ہوں یا دیگر افراد‘ آغاز قدر مشترک سے کیا جائے گا‘ یعنی ان موضوعات پر بات کی جائے جن میں بظاہر بنیادی اختلاف نہ پایا جاتا ہو۔ اسلام کے قرنِ اول میں یہ مشترک بنیاد توحید‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو خالق‘ مالک اور رب ماننا اور ساتھ ہی اخلاقی طرزعمل کو اختیار کرنا تاکہ آخرت میں حساب کتاب میں آسانی ہو‘ قرار دی گئی۔ ان دو بنیادوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کا مدعا یہ نظر آتا ہے کہ رسالت جو دین کے تین بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ممکن ہے مختلف فیہ ہو کیونکہ عموماً ایک عیسائی حضرت عیسٰی ؑکو‘ ایک یہودی حضرت موسٰی ؑ کو یا حضرت دائود ؑ اور حضرت یعقوب ؑکو اپنا قائد مانے گا لیکن خالق کائنات اور انسانی اعمال کی جواب دہی کا منکر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان دو موضوعات کو دعوت دین کی حکمت سمجھانے کے لیے بطور مثال بیان کر دیا گیا۔

آج کے دور میں ان کے علاوہ اور بہت سے مسائل (issues) ایسے ہیں جن سے بات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جان کی حرمت‘ خواتین پر جبروتشدد‘ معاشی اور اخلاقی زوال کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور جس مذہب سے مخاطب کا تعلق ہو اس کے مذہب میں ان مسائل کے بارے میں موقف۔

ایک مرتبہ جب گفتگو کا آغاز ہو جائے تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ مخاطب کو پڑھنے کے لیے اسلام کے بعض پہلوئوں پر لکھے گئے آسان اور مدلل کتابچے دیے جائیں۔ موٹی موٹی کتابوں کے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مخاطب دل چسپی کا اظہار کرے تو قرآن کریم کا کوئی آسان ترجمہ‘ مثلاً انگریزی میں محمد اسد کا ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ‘ یا مولانا عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے ہی اسلامک فائونڈیشن کی طبع کردہ Our'an Basic Teachings جس میں بعض عنوانات پر قرآن کریم کی آیات مع ترجمہ مرتب کی گئی ہیں‘ دی جاسکتی ہے۔ اس طرح مخاطب کو قرآن کریم کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس پورے عمل میں کوشش کیجیے کہ مخاطب مطالعہ کے دوران سوالات اٹھائے جن پر آپ بھی بطور طالب علم غور کریں اور اُس سے یہی بات کہیں کہ ہم مل کر ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب اس کے پاس پہلے سے تیار ہو لیکن مجھے یقین ہے جب آپ اس طرح مطالعہ کریں گے اور کرائیںگے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی حکمتیں آپ پر خود کھولنی شروع کر دے گا۔

کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی فرد کو مسلمان کرنا ایک ایسے دور میں جب مسلمان خود اسلام پرکم عمل کرتے ہیں‘ آسان نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے اخلاصِ نیت کی قدر کرتے ہوئے ایسے بہت سے کام آسان کر دیتا ہے۔ اس لیے اگر آپ خلوصِ نیت سے کوشش کریں گے تویہ کام بہت آسانی سے ہوجائے گا۔ ہاں ‘آپ کا اپنا طرزِعمل ہمدردانہ ہو۔ مخاطب سے باعزت طور پر پیش آیئے۔ اس کے ساتھ اپنے معاملات کو صاف رکھیے اور ساتھ ہی رب کریم سے دعا کیجیے کہ وہ آپ کو اس نیک کام میں اپنی نصرت سے نوازے۔ اس کی مدد کے بغیر تو انبیا بھی یہ کام نہیں کرسکتے تھے‘ ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات آغاز سے واضح کر دیجیے کہ آپ بھی اسلام کے طالب علم ہیں اور اسی کی طرح قدم بقدم اسلام کا مطالعہ اور اس پر عمل کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران ہندوازم کا مطالعہ بھی کیجیے تاکہ ہندو ازم کی بنیادی تعلیمات آپ کے علم میں آجائیں۔

ایک ہندو عالم Sen کی چھوٹی سی کتاب Hindus کے عنوان سے پینگوین سیریز میں طبع ہوئی ہے‘ اسے پڑھ لیجیے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ ہندو ازم کیا ہے اور کس طرح اس کا تقابل اسلام سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام سے متعارف کرانے کے لیے Towards Understanding Islamاور Let us be Muslimsیہ دو کتابیں ان شاء اللہ بہت مددگار ہوں گی۔ انھیں آپ خود بھی پڑھیں اپنے دوست کو بھی پڑھنے کو دیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں

س :  میں متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میٹرک کے بعد اسلامی جمعیت طالبات میں آئی۔ دو سال تک میں نے قریبی کالج میں نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ اس کے بعد میں زون کی ناظمہ بھی رہی اور جتنا مجھ سے کام ہوتا تھا میں کرتی تھی۔ بی اے کے بعد یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں ملی۔ اب گھر کے کام اور ٹیوشن پڑھانا میرے ذمے ہیں اور اس صورت میں میرے لیے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں؟ حتیٰ کہ نظم کی اطاعت کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ والدہ محترمہ اِس حق میں نہیں ہیں کہ جمعیت کا کام کیا جائے۔

میرے ابا جان تحریک سے تعلق رکھتے ہیں اور گھرانہ پڑھا لکھا ہے لیکن والدہ اس بات کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ ان حالات میں کہاںجائوں اور کیا کروں؟ ہفتہ وار درسِ قرآن  گھرمیں ہی کرواتی ہوں۔ اس کے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں اور جہاں بھی کوشش ہو دین کی دعوت پھیلانے سے دریغ نہیں کرتی۔ براہ مہربانی آپ مجھے ضرور بتائیں کہ اس سلسلے میں عورتوں کو کس حد تک چھوٹ دی گئی ہے؟

ج: قرآن کریم نے دعوتِ دین کا فریضہ ہر مسلمان مرد و عورت پر عائد کیا ہے۔ چنانچہ امربالمعروف ونہی عن المنکر میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی رفیق و ساتھی قرار دے کر اس غلط فہمی کو دُور کر دیا گیا ہے کہ عورتیں دعوتِ دین سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن قرآن و سنت نے نہ صرف دعوتِ دین بلکہ دین کے تمام معاملات میں جواب دہی کو استطاعت کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ اگر ایک شخص کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ کر اسے بے بس کر دیا گیا ہے یا مرض کے غلبے سے وہ یہ قوت نہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے تو وہ اشاروں سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ گویا ایک کام کے کرنے کا تعلق صلاحیت و استطاعت کے ساتھ ہے۔ اگر حالات ایسے ہیں کہ باوجود خواہش اور  تڑپ کے ایک شخص ایک کام نہیں کرپاتا تو وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت صدقِ دل سے جائزہ لے لیا جائے کہ کیا واقعی ممکنہ ذرائع کا جائزہ لینے کے بعد ایک شخص اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ اور کیا جن حالات میں وہ شخص ہے کسی اور طریقے سے دعوت نہیں دی جاسکتی۔

خصوصی طور پر جو بات آپ نے دریافت فرمائی ہے اس میں اس بات کی کوشش کیجیے کہ اپنی والدہ اور والد کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان سے اپنی تعلیم کے حوالے سے بات کیجیے تاکہ  آپ یونی ورسٹی میں تعلیم مکمل کرسکیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے فاصلاتی نظام کے ذریعے ایم اے کی کوشش کیجیے۔ یونی ورسٹی لکھ کر معلوم کیجیے کہ آپ جس مضمون میں ایم اے کرنا چاہتی ہیں اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔

بچوں کو قرآن کریم پڑھانا خود دعوت ہی کی ایک اہم شکل ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو خود قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے وہ سب سے اچھا انسان ہے۔ اس لیے آپ اس کام کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے ساتھ اس کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ کیجیے تاکہ ان میں اسلامی فکر پیدا ہوسکے۔ یہی بچے آیندہ چل کر تحریکِ اسلامی میں شامل ہوں گے اور جب تک وہ دعوتی کام کریں گے آپ کا اجر مسلسل بڑھتا جائے گا۔

ہفتہ وار درس قرآن باقاعدگی سے کرایئے لیکن اس میں بھی کوشش کیجیے کہ شرکا محض سامع نہ ہوں بلکہ انھیں آپ اس حد تک قرآن کریم کے الفاظ و معانی سے آگاہ کر دیں کہ وہ خود اپنے اپنے گھروں میں اس طرح کے اجتماعات کر سکیں گویا آپ trainersکو تیار کریں۔ اس غرض کے لیے انھیں خود تیاری کروا کے درس دینے پر آمادہ کریں۔ ان کے لیے ہر درس کے بعد ایک سوال نامہ مرتب کریں جس میں قرآن کے جس حصے کا مطالعہ کیا گیا ہے اس پر سوالات ہوں۔ ان سوالات کے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد اگلے درس میں آپ انھیں اصلاح شدہ پرچے واپس کر دیں تاکہ وہ اپنی اغلاط سے آگاہ ہوں اور اپنی اصلاح کرلیں۔اس طرح آپ جو کام کررہی ہیں وہ خود دعوت کا بہترین نمونہ بن جائے گا۔

دین کی حکمت کا مطلب یہی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں ہوں‘ اس کا بہترین استعمال اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کیا جائے۔ اگر آپ اپنے وقت کا استعمال اس طرح کریں گی تو پھر کسی کالج یا محلے میں جاکر دعوتی کام نہ کرسکنے کا افسوس آپ کو نہیں ہوگا اور نتائج کے لحاظ سے ان شاء اللہ آپ کو مکمل اطمینان اورسکون ہوگا۔ (ا-ا)


مساجد میں بچوں کے ساتھ رویہ

س  : مساجد میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی نماز کے لیے آتے ہیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کی امامت میں جب خواتین نماز ادا کرتی تھیں توآپؐ کسی بچے کے رونے پر نماز مختصر فرما دیتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ مسجد میں کیا رویہ ہونا چاہیے؟ عام طور پر نمازی حضرات بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں‘ جھڑکتے ہیں اور بسااوقات مارنے سے بھی نہیں چوکتے جس کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ دوسری طرف بچے بھی ہنسی مذاق اور شرارتوں سے نماز میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔

ج : مساجد کو اللہ تعالیٰ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ اللہ کا گھر بچوں یا عورتوں کے لیے بند ہے۔ لیکن کسی بھی گھر کے آداب کی طرح مسجد کے بھی آداب ہیں۔ مسجد کے آداب میں خشوع و خضوع اور خاموشی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ صفوں کے سلسلے میں نمازیوں کے مراتب کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ امام کے فوری پیچھے وہ افراد ہوں جو قرآن کا علم زیادہ رکھتے ہوں تاکہ اگر امام سے سہو ہو تو وہ فوراً اس کی اصلاح کر دیں۔ صف بندی میں آغاز امام کے پیچھے سے کیا جائے اور پھر پہلے داہنی پھر بائیں جانب بالترتیب افراد صف بناتے جائیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بچوں کو بعد کی صف میں رکھا جائے اور آخر میں خواتین تاکہ وہ مردوں سے دُور رہیں۔ نیز احادیث میں اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ عورت کی نماز گھر میں‘ مسجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلے میں افضل ہے۔ اس لیے عام حالات میں خواتین کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا چاہیے۔ مسجد میں نماز کے لیے اسی وقت آئیں جب ان کے لیے مسجد میں آنا ضروری ہے‘ مثلاً خطبہ جمعہ‘ درس قرآن‘ درس حدیث وغیرہ سے استفادہ کرنا۔ ایسی صورت میں مسجد میں حاضری دیں‘ نماز بھی باجماعت پڑھیں اور وعظ و درس سے بھی استفادہ کریں۔

آپ نے بالکل صحیح نشان دہی کی ہے کہ بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ افسوس ناک ہے۔ اگر بچوں کے مساجد میں آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو آیندہ نسلوں کا اسلام سے تعلق بھی کمزور ہوگا۔ اس لیے بچوں کو مساجد میں آنے پر ابھارنے اور ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں ان کے لیے ان کے ہم عمر بچوں کے تعاون سے ایسے پروگرام ہونے چاہییں جن سے وہ نہ صرف نماز میں پابندی کے عادی ہوں بلکہ دینی معلومات بھی حاصل کر سکیں۔

بچوں کو شرارت سے روکنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ مردوں کی صف میں اگر دومردوں کے درمیان ایک بچہ کھڑا کر دیا جائے تو بچے نہ شورغل کر پائیں گے ‘ نہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں گے اور نہ کسی دینی اصول کی خلاف ورزی ہوگی‘ نیز بچوں کو آخر سے پہلی صف میں رکھنے کا جومقصد ہے اس کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ جب وہ اس قابل ہو جائیں تو پھر تربیت یافتہ بچوں کی صفیں مردوں کی صفوں کے بعد بنائی جائیں۔(ا - ا)

سائنسی دَور میں اسلامی جہاد کی کیفیت

سوال : مسلمانوں کے جذبۂ ’’جہاد‘‘ کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسویں صدی میں کیا طریق کار اختیارکیا جائے گا‘ جب کہ آج کی جنگ شمشیر و سناں سے یا میدانِ جنگ میں صف آرا ہوکر دست بدست نبردآزمائی سے نہیں ہوتی بلکہ سائنسی ہتھیاروں‘ جنگی چالوں(strategy) اور جاسوسی (secret service) سے لڑی جاتی ہے؟ آپ ایٹم بم‘ راکٹ میزائل اور مشینی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی و ایٹمی  دور میں ’’جہاد‘‘ کی تشریح کس طرح کریں گے؟ کیا چاند‘ مریخ و مشتری پر اترنے  اور سٹلائٹ چھوڑنے یا فضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات  کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آسکتے ہیں؟… انتظامی امور اور مملکتی نظام (civil administration) میں فوج کو کیا مقام دیا جا سکتا ہے؟ موجودہ دور کے فوجی انقلابات سے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہوچکی ہے۔ کیوں نہ فوج کو دورِ امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجاے ہر میدان میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

جواب: جہاد کے متعلق اولین بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جہاد اور لڑاکاپن میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح قومی اغراض کے لیے جہاد اور چیز ہے‘ اور جہاد فی سبیل اللہ اور چیز۔ مسلمانوں میں جس جذبۂ جہاد کے پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ان کے اندر ایمان ترقی کرتے کرتے اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ خدا کی زمین سے برائیوں کو مٹانے اور اس زمین میں خدا کا حکم بلند کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائیں۔ سردست تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ اس جذبے کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تعلیم وہ دی جارہی ہے جو ایمان کے بجاے شک اور انکار پیدا کرے۔ تربیت وہ دی جارہی ہے جس سے افراد اور سوسائٹی میں وہ برائیاں پھیلیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہ برائیاں ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال لاحاصل ہے کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد کیسے پیدا ہوگا۔ موجودہ حالت میں یا تو مسلمان کرائے کا سپاہی (mercenary) بنے گا‘ یا حد سے حد قومی اغراض کے لیے لڑے گا۔ رہے سائنسی ہتھیار اور جنگی چالیں (strategy) تو یہ وہ اسباب ہیں جو جائز اغراض اور ناجائز اغراض سب کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اگرمسلمان میں سچا ایمان موجود ہو اور اسلام کا نصب العین اس کا اپنا نصب العین بن جائے تو وہ پورے جذبے کے ساتھ تمام وہ قابلیتیں اپنے اندر پیدا کرے گا جو اس زمانے میں لڑنے کے لیے درکار ہیں‘ اور تمام وہ ذرائع اور وسائل فراہم کرے گا جو آج یا آیندہ جنگ کے لیے درکار ہوں۔

چاند اور مریخ اور مشتری پر اترنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کولمبس کے امریکا پر اترنے اور واسکوڈے گاما کے جزائر شرق الہند پر اترنے سے زیادہ مختلف نہیں۔ اگر یہ لوگ مجاہد فی سبیل اللہ مانے جاسکتے ہیں تو چاند اور مریخ پر اترنے والے بھی مجاہدین بن جائیں گے۔

انتظامی امور اور مملکتی نظام (civil administration) میں فوج کا داخل ہونا‘ فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔ فوج بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔ اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں خواہ وہ سیاست کار (politicians) ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(civil administration)‘ ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔ فوج کا اس میدان میں اترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز (unpopular)بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے   اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔ دنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے‘ بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے برے نتائج ظاہر کر دیے ہیں۔ (مولانا مودودیؒ، رسائل و مسائل ‘ ج ۴‘ ص ۲۵۳-۲۵۶)


کتب کے غیرقانونی ایڈیشن کی اشاعت

س:  ایک معروف عالمی اشاعتی ادارے کی کتب کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کی نصابی و دیگر کتب کی مانگ بھی بہت ہے۔ چنانچہ کچھ ناشر مقامی طور پر شائع شدہ ۲نمبر ایڈیشن مارکیٹ میں لاتے ہیں جو مقابلتاً سستا ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ کیا ایک دکان دار کے لیے ایسی کتب فروخت کرنا جائز ہے؟

ج: جو قوانین شریعت کے خلاف نہ ہوں ان کی پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔ قانون کی پابندی معاہدے کی پابندی ہے۔ اس لیے کہ ایک مہذب معاشرے میں حکومت اور عوام کے ہر فرد نے درحقیقت حکومت اور حکومت کا فرد ہونے کی حیثیت سے اس بات کا عہد کیا ہوتا ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرے گا۔ کتب کی طباعت و اشاعت کا بھی ایک قانون ہے اور حکومت اور حکومت کے شہری اس قانون پر عمل اور اس کی پاسداری کے پابند ہیں۔ بین الاقوامی قوانین جو قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوں‘ان کی پابندی بھی ضروری ہے۔

اس لیے کسی ادارے کی نصابی و غیر نصابی کتب کا بلااجازت طبع کرنا اور فروخت کرنا خلافِ قانون ہونے کی وجہ سے اخلاق اور شریعت کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ جو لوگ ۲نمبرکتب شائع کر کے کمائی کرتے ہیں وہ غیرقانونی کام کے ساتھ غیر اخلاقی کام بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی اشاعتی ادارے کی کتب کی اشاعت اسی وقت کی جاسکتی ہے‘ جب کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہو۔ خلافِ قانون کام کرنے والے ظاہر ہے کہ خفیہ طور پرایسا کرتے ہیں اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اگر ان کے بارے میں علم ہوگیا تو ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی نشانی یہ بھی بیان کی ہے کہ گناہ وہ ہے جس سے تیرے دل میں خلش پیدا ہو اور تو اسے لوگوں کے سامنے کرنے کو ناپسند کرے۔ اسی لیے اس ادارے کی کتب شائع کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ بات چیت کر کے معاملہ طے کریں اور اس کے بعد اس کی اشاعت کریں۔ (مولانا عبدالمالک)


قسطوں پر گاڑی خریدنا

س: آج کل بنک لیز پر (قسطوں میں) گاڑیاں دیتے ہیں۔ ماہانہ ۶ ہزار روپے قسط ادا کرنا ہوتی ہے‘ اور تین سال کی مدت میں پوری ادایگی کرنا ہوتی ہے۔ بنک اس مد میں‘ مروجہ قیمت سے ۵۰ ہزار روپے زاید رقم وصول کرتا ہے۔ اس میں سہولت یہ ہے کہ یک مشت رقم کی ادایگی نہیں کرنا پڑتی‘ نیز دیگر کاروباروں میں بھی نقد اور ادھار قیمت کا فرق رائج ہے۔ کیا بنک کی اس نوعیت کی اسکیم جائز ہے؟

ج:  قسطوں پر گاڑیوں کی قیمت طے شدہ ہو اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے قسطیں بروقت ادا نہ کی جاسکیں تو قیمت میں مزید اضافہ نہ ہو‘ تو ایسی صورت میں گاڑیوں کی خرید وفروخت غیرسودی ہوگی اور غیرسودی ہونے کی وجہ سے ان کی خریداری جائز ہوگی۔ البتہ ایسی شکل میں بہت زیادہ منافع لینا اور بہت زیادہ مہنگی کرکے فروخت کرنا اخلاق حسنہ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں گاڑی مہنگی فروخت کرنا غیرسودی تو ہے لیکن اتنی زیادہ مہنگی فروخت کرنا کہ سودی منافع کا بدل مہنگا کرکے حاصل کر لیا جائے‘ اگرچہ حرام تو نہیں ہوگا لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کمپنیوں کو مالیت پر چیزیں بہت زیادہ مہنگی کرکے فروخت نہیں کرنی چاہییں‘ نیز اگر بروقت قسطیں ادا نہ کرنے کی وجہ سے قیمت بڑھا دی جائے یا جرمانے کے نام سے رقم لی جائے تو یہ بھی ناروا ہوگا اور سود شمار ہوگا۔ (ع - م)

رمضان میں قیامِ اللیل

سوال : براہِ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:

۱-  علماے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اول وقت میں (عشاء کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت موکدہ کفایہ ہے‘ یعنی اگر کسی محلے میں تراویح یا جماعت نہ ادا کی جائے تو اہلِ محلہ گنہگار ہوں گے اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمے سے ترکِ جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے میں کیوں‘ ایسا نہیں ہوا؟ اور اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح باجماعت نہ پڑھنے کی وجہ سے گنہگار تھے؟

۲- کیا نمازِ تراویح اول وقت میں سونے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے؟ کیا سحری کے وقت تراویح پڑھنے والا فضیلت و اولیت سے محروم ہوجائے گا؟ اگر محروم ہوجائے گا تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ التی تنامون عنھا افضل من التی تقومون؟

۳-  کیا رمضان میں نمازِ تہجد سے تراویح افضل ہے؟ اگر ایک آدمی رمضان میں عشاء پڑھ کر سو رہے اور تراویح پڑھے بغیر رات کو تہجد پڑھے (جب کہ تہجد کے لیے خود قرآن مجید میں صراحتاً ترغیب دلائی گئی ہے اور تراویح کو یہ مقام حاصل نہیں) تو اس کے لیے کوئی گناہ تو لازم نہ آئے گا؟ واضح رہے کہ تراویح اور تہجد دونوں کو نبھانا مشکل ہے۔

۴-  کیا تراویح کے بعد وتر بھی جماعت سے پڑھنے چاہییں؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تراویح سے پہلے وتر پڑھ لے اور رات کے آخری حصے میں تراویح ادا کرلے؟

۵-  تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟ کیا صحیح احادیث میں آٹھ‘ ۲۰‘ ۳۸ یا ۴۰ رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟

۶-  کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ ماذال بکم التی رایت من صنیعکم خشیت ان یکتب علیکم ولو کتب علیکم ماقتم بہ فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صلوٰۃ الــمرء فی بیتہ الالصلٰوۃ المکتوبۃ تو وہ اسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟

جواب : تراویح کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱-            نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے زمانوں کی بہ نسبت رمضان کے زمانے میں قیامِ اللیل کے لیے زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز آپؐؐ کو بہت محبوب تھی۔

۲-            صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں تین رات نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر یہ فرما کر اسے چھوڑ دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تراویح میں جماعت مسنون ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تراویح فرض کے درجہ میں نہیں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگ ایک پسندیدہ سنت کے طور پر تراویح پڑھتے رہیں مگر بالکل فرض کی طرح لازم نہ سمجھ لیں۔

۳-            تمام روایات کو جمع کرنے سے جو چیز حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی وہ اول وقت تھی نہ کہ آخر وقت میں۔ اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ ۲۰(اگرچہ ایک روایت ۲۰ کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت کی بہ نسبت ضعیف ہے)۔ اور یہ کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد واپس جاکر اپنے طور پر مزید کچھ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ وہ مزید رکعتیں کتنی ہوتی تھیں؟ اس کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں ملتی۔ لیکن بعد میں جو حضرت عمرؓ نے ۲۰ رکعتیں پڑھنے کا طریقہ رائج کیا اور تمام صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا‘ اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ زائد رکعتیں ۱۲ ہوتی تھیں۔

۴-            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانے تک باقاعدہ ایک جماعت میں سب لوگوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج نہ تھا‘ بلکہ لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں میں پڑھتے تھے یا مسجد میں متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ اسی تفرق کو دُور کر کے سب لوگوں کو ایک جماعت کی شکل میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس یہ حجت موجود تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تین بار جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی۔ اس لیے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے کو یہ فرما کر بند کیا تھا کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر جانے کے بعد اس امر کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا کہ کسی کے فعل سے یہ چیز فرض قرار پاسکے گی‘ اس لیے حضرت عمرؓ نے ایک سنت اور مندوب چیز کی حیثیت سے اس کو جاری کر دیا۔ یہ حضرت عمرؓ کے تفقہ کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ انھوں نے شارع کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور اُمت میں ایک صحیح طریقے کو رائج فرما دیا۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا اس پر اعتراض نہ کرنا‘ بلکہ بسروچشم اسے قبول کر لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ شارع کے اس منشا کو بھی ٹھیک ٹھیک پورا کیا گیا کہ ’’اسے فرض کے درجہ میں نہ کر دیا جائے‘‘۔ چنانچہ کم از کم ایک بار تو ان کا خود تراویح میں شریک نہ ہونا ثابت ہے‘ جب کہ وہ عبدالرحمنؓ بن عبد کے ساتھ نکلے اور مسجد میں لوگوں کو تراویح پڑھتے دیکھ کر اظہار تحسین فرمایا۔

۵-            حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باتفاق صحابہ ۲۰رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور اسی کی پیروی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی ہوئی۔ تینوں خلفا کا اس پر اتفاق اور پھر صحابہؓ کا اس میں اختلاف نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لوگ تراویح کی ۲۰ ہی رکعتوں کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒاور امام احمدؒ تینوں ۲۰ ہی رکعت کے قائل ہیں‘ اور ایک قول امام مالکؒ کا بھی اسی کے حق میں ہے۔ دائود ظاہریؒ نے بھی اسی کو سنت ثابتہ تسلیم کیا ہے۔

۶-  حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت ابان بن عثمان نے ۲۰ کے بجاے ۳۶ رکعتیں پڑھنے کا جو طریقہ شروع کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی تحقیق خلفاے راشدین کی تحقیق کے  خلاف تھی‘ بلکہ ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ مکہ سے باہر کے لوگ ثواب میں اہلِ مکہ کے برابر ہوجائیں۔ اہلِ مکہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ تراویح کی ہر چار رکعتوں کے بعد کعبے کا طواف کرتے تھے۔ان  دونوں بزرگوں نے ہر طواف کے بدلے چار رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ یہ طریقہ چونکہ اہلِ مدینہ میں رائج تھا اور امام مالکؒ اہلِ مدینہ کے عمل کو سند سمجھتے تھے‘ اس لیے انھوں نے بعد میں ۲۰کے بجاے ۳۶ کے حق میں فتویٰ دیا۔

۷-            علما جس بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جس بستی یا محلے میں سرے سے نماز تراویح باجماعت ادا ہی نہ کی جائے اس کے سب لوگ گناہ گار ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تراویح ایک سنت الاسلام ہے جو عہدِخلافت راشدہ سے تمام اُمت میں جاری ہے۔ ایسے ایک اسلامی طریقے کو چھوڑ دینا اور بستی کے سارے ہی مسلمانوں کا مل کر چھوڑ دینا‘ دین سے ایک عام بے پروائی کی علامت ہے جس کو گوارا کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ وہاں سے تمام اسلامی طریقوں کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر جو معارضہ آپ نے کیا ہے اس کا جواب اوپر نمبر۴ میں گزر چکا ہے۔

۸-            اس امر میں اختلاف ہے کہ تراویح کے لیے افضل وقت کون سا ہے‘ عشاء کا وقت یا تہجد کا؟ دلائل دونوں کے حق میں ہیں‘ مگر زیادہ تر رجحان آخر وقت ہی کی طرف ہے۔ البتہ اول وقت کی ترجیح کے لیے یہ بات بہت وزنی ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اول وقت ہی کی تراویح پڑھ سکتے ہیں۔ آخر وقت اختیار کرنے کی صورت میں اُمت کے سواداعظم کا اس ثواب سے محروم رہ جانا ایک بڑا نقصان ہے۔ اور اگر چند صلحا آخر وقت کی فضیلت سے مستفید ہونے کی خاطر اول وقت کی جماعت میں شریک نہ ہوں تو اس سے یہ اندیشہ ہے کہ عوام الناس یا تو ان صلحا سے بدگمان ہوں‘ یا ان کی عدمِ شرکت کی وجہ سے خود ہی تراویح چھوڑ بیٹھیں۔ یا پھر ان صلحا کو اپنی تہجدخوانی کا ڈھنڈورا پیٹنے پر مجبور ہونا پڑے۔ ھذا ما عندی والعلم عنداللّٰہ وھو اعلم بالصواب۔ (مولانا مودودیؒ، رسائل ومسائل‘ ج ۲‘ ص ۱۶۵-۱۶۹)

معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصول تعلیم: ایک وضاحت

س: ’’رسائل و مسائل‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے (ص ۹۵-۹۷) لکھا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ’’ایمان کی نشوونما‘‘ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی اور مخلوط تعلیم کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اداروں میں professional ethics نافذ کیے جائیں۔ لیکن اگر ہم قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں تو یہ بات صریحاً اور واضح طور پر ملتی ہے کہ نامحرم مرد اور نامحرم عورت اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ اسلام میں عورت کو محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایسے میں کیا مخلوط تعلیم جہالت کی علامت نہیں ہے؟ مگر ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اصل بات رویوں (attitudes)کی ہے۔ میں خود دو سال سے مخلوط تعلیم میں پڑھ رہا ہوں۔ کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ مخلوط تعلیم میں بھی وہ مرحلہ آئے کہ ’’ایمان کی نشوونما‘ ہوسکے اور ایک مثالی معاشرہ قائم ہوسکے۔

اگر مخلوط تعلیم حرام نہیں ہے تو کیا یہ مباح ہے یا مکروہ؟ براہِ مہربانی اس الجھن کی وضاحت کیجیے تاکہ ہم جو اِس مخلوط تعلیم کے سب سے بڑھ کر مخالف ہیں‘ اپنا ہدف قائم کرلیں کہ ہمیں مخلوط تعلیم ختم کرنی ہے یا پھر مخلوط اداروں میں ethics کو لاگو کرنا ہے؟

ج:  آپ نے ’’معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصول تعلیم‘‘(اگست ۲۰۰۴ئ) سے اختلاف کیا ہے جو ایک صحت مند روایت ہے۔ لیکن حوالہ دیتے وقت نہ سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھا ہے اور نہ ہی امانتِ تحریر کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ براہِ کرم دوبارہ جواب کا مطالعہ فرمائیں اور تلاش کریں کہ آپ نے جو الفاظ جواب سے منسوب کیے ہیں یعنی ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی‘ یا ’’مخلوط تعلیم کو حرام قرار نہیں دیاجا سکتا‘‘جواب میں کس جگہ استعمال کیے گئے ہیں۔ الفاظ کو سیاق و سباق سے جدا کر کے آپ جو مفہوم نکالنا چاہتے ہوں‘ اس کے لیے آپ آزاد ہیں لیکن کسی دوسرے کو quoteکرنے کے آداب کا خیال ضرور رکھیں۔ ایسا نہ کرنا اسلامی رویے کے منافی ہے۔

جو بات جواب میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عبوری دور میں جب آپ کے پاس الگ الگ تدریسی ادارے نہ ہوں کیا کیا جائے؟ کیا جب تک طالبات کے لیے الگ میڈیکل کالج نہ ہوں‘ ان کے لیے میڈیکل تعلیم کا حصول ممنوع کر دیا جائے؟ یا حتی الامکان یہ کوشش کی جائے‘ اس عبوری دور میں ان کے اخلاق و عمل کو اسلامی تعلیمات سے مزین کیا جائے اور اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے رویے کو متاثر کیا جائے۔

اگر ایک فرد میں حق کی طلب ہو یا حق کی طلب پیدا کر دی جائے تو ایک مخلوط اور ناموافق ماحول میں بھی ہر لمحے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ تندی بادمخالف سے گھبراتے ہیں اور بہتے ہوئے پانی کے ساتھ بہنے ہی میں اپنی سالمیت سمجھتے ہیں وہ کبھی بلندیوں کی طرف پرواز نہیں کر سکتے۔ بلاشبہہ تحریکاتِ اسلامی کے اہداف میں یہ بات شامل ہے اور انھیں اس پر فخر ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کی جگہ جداگانہ تعلیم کے نظام کو رائج کرنا چاہتی ہیں اور ان سے وابستہ افراد جہاں بھی ہیں اس ہدف کے حصول کو مقصدِحیات سمجھتے ہیں لیکن جب تک ایسے ادارے وجود میں نہ آئیں‘ نامساعد حالات کے باوجود تعلیم کا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ اگر کسی مقام پر مسجد نہ ہو تو کیا اہلِ ایمان نماز پڑھنا مؤخر کردیں گے یا مسجد کی تعمیر کی جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ نماز بھی اداکرتے رہیں گے۔

مجھے آپ کی اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ اسلامی اخلاقی تعلیمات‘ یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کا ایسے ماحول میں نافذ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس ملک عزیز کی نصف صدی سے زیادہ عمرمیں ہمارے اکثر میڈیکل کالج مخلوط تعلیم پر چل رہے ہیں اور اسی ماحول میں اس ملک کی بیٹیوں نے اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایم بی بی ایس کیا ہے اور ایسے ہی   بے شمار طلبہ نے اخلاق‘ جہاد اور پاکیزگی کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ ایسے اساتذہ بھی آج زندہ موجود ہیں جو اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ میڈیکل کالجوں میں تدریس کے فرائض اداکررہے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف طبی کالج میں بعض معلمات حجاب کے ساتھ طب کی تعلیم دیتی ہیں‘ جب کہ طالبات کے لیے اسکارف کا استعمال لازمی ہے۔ اخلاقی ضابطے کے نفاذ کے لیے ایمان و یقین کے ساتھ عزم کی ضرورت ہے اور یہ ہر حال میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مطلوبہ منزل جداگانہ تعلیم ہی ہے اور رہے گی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصولِ تعلیم

سوال : ہمارا معاشرہ تیزی سے اخلاقی بگاڑ اور انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ سرعام وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں کیا خواتین کا گھر سے نکل کر بالخصوص دوسرے شہر میں جاکر تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟ پہلی بات تویہ ہے کہ محرم کے بغیر گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں‘ خواتین کالجوں میں بھی اساتذہ مرد ہوتے ہیں۔ گرلز ہوسٹلوں میں مرد ملازموں سے واسطہ پیش آتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں ایسے موضوعات پڑھنے ہوتے ہیں جہاں حیا آڑے آتی ہے۔ اگر یہ مضامین مرد اساتذہ پڑھائیں تو یہ اور بھی اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں کا ماحول تو اور بھی زیادہ غیر مناسب ہے۔ اگر ان حالات میں خواتین تعلیم حاصل کریں تو متعدد واضح اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

خواتین کی تعلیم کے حصول میں والدین کے پیش نظر ملازمت بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اسلام میں خواتین کا اہم ترین دائرہ کار گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا اور آیندہ نسلوں کی تربیت ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں انھیں گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا چاہیے اور اسی ضرورت کے تحت علم حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ خواتین کی ملازمت کے نتیجے میں گھر بھی متاثر ہوتا ہے‘ بچوں کی تربیت بھی صحیح نہیں ہو پاتی اور معاشرتی انحطاط میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل خواتین کی ملازمت کا تناسب بہت کم تھا اور معاشرتی بگاڑ اور جرائم کا تناسب بھی کم تھا۔ موجودہ صورت حال بڑی حد تک اس کے برعکس ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ موجود اخلاقی بگاڑ اور معاشرتی انحطاط میں خواتین کی تعلیم کی کیا حدود ہیں؟ کیا خواتین کو صرف اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر علم حاصل کرنا چاہیے یا ملازمت کے حصول کے لیے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔

جواب :آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور ان کا براہ راست تعلق اسلام کے نظام حیا، نظام معاشرت اور نظام تعلیم کے ساتھ ہے۔ بلاشبہہ اسلام حیا کا دین ہے اور اسے ایمان کا بڑا حصہ قرار دیتا ہے۔ حدیث نبویؐ میں بار ہا یہ ذکر آتا ہے جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ایسے ہی حیا کا ایمان کا لازمی جزو ہونا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے گھروں میں داخلے کے وقت لازمی کر دیا کہ پہلے سلام کر کے اجازت لی جائے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ جن تین اوقات میں ایک شخص استراحت کرتا ہے‘ ان میں بچے اور ملازم بھی بغیر اجازت اندر داخل نہ ہوں۔ قرآن کریم نے گفتگو اور آنکھ کے حوالے سے بھی ہدایت کی کہ اس میں حیا کا خیال رکھا جائے۔

کیا اس کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ ایک طبیب اور ایک سرجن کسی مریض کے جسم کو دیکھے بغیر غض بصر کرتے ہوئے محض قیاس اور زبانی تکلیف سننے کے بعد جراحت کر ڈالے؟ یا اسے جراحت سے قبل پہلے انسانی جسم کے اعضا‘ ظاہر ہوں یا پوشیدہ‘ سب کا جائزہ اور ان کے ایک ایک ریشے کے بارے میں تجرباتی معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ حدیث اور فقہ کی ہر مستند کتاب میں طہارت اور ناپاکی کے بارے میں عمومی اور جزوی تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ کیا ان کا بغور مطالعہ کیے بغیر ایک مسلمان مرد اور عورت دینی فرائض صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے‘ اور کیا ان معلومات کا بغور اور تحقیق کے ساتھ مطالعہ کرنے کے نتیجے میں کسی مسلمان مرد یا عورت میں حیا میں کمی واقع ہوتی ہے؟

جن علوم کا حاصل کرنا دینی فرائض کی ادایگی میں آسانی پیدا کرتا ہے‘ وہ مقاصد شریعت کی تکمیل کرتے ہیں اور ان کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘ نہ ان کی تعلیم سے کسی کو روکا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایک فقیہہ یا تفسیر و حدیث کا استاد بھی اگر ذہن میں کجی اور دل میں فتنہ رکھتا ہے تو وہ ایک سادہ سی بات کو سخت جنسی بنا سکتا ہے‘ اور اگر وہ فتنے سے خالی ذہن رکھتا ہے تو ایک جنسی مسئلے کو بھی بغیر کسی جذباتیت کے بیان کر سکتا ہے۔ اصل مسئلہ نفس مضمون کا نہیں‘ ان افراد کے رویوں (attitudes) اور طرز فکر کا ہے جو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر شعبۂ علم کی تعلیم اس طرح دی جا سکتی ہے کہ حیا اور اسلامی آداب پر پورا عمل بھی ہو اور نازک سے نازک مضامین سمجھائے بھی جا سکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو انسانی جان اور صحت کو خطرہ لاحق ہو گا جو شریعت کے مقاصد کے منافی ہو گا۔

جہاں تک معاشرتی پہلو کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ایک مسلمان خاتون بلکہ عمومی طورپر خواتین کی ذمہ داریوں میں بچوں کی تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے بغیر انسانیت کا ثقافتی سفر اور تہذیبی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ اسی بنا پر ماں کے معاشرتی مقام کو بہت بلند رکھا گیا اور اولاد کو قبل پیدایش اور بعد پیدایش سہولیات فراہم کرنے کے نتیجے میں ماں کو فضلیت سے نوازا گیا۔ اب اگر یہ ماں بچے کی پیدایش کے بعد بچے کی معاشرتی، اخلاقی اور طبعی ضروریات پورا کر رہی ہے، یا بچہ ایسی عمر میں ہے کہ وہ اسکول یا کالج جاتا ہے اور ماں ایسے علم و فن سے آراستہ ہے جس کا فائدہ معاشرے کو ہو سکتا ہے‘ تو کوئی اسلامی اصول اسے اس کام سے نہیں روکتا۔ ہاں‘ اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے وقت اس کا اپنا تحفظ، اس کی صحت اور اوقات کار کا اس کے مناسبِ حال ہونا‘ گھر میں مشاورت کے ساتھ یہ طے کرنا کہ وہ کس نوعیت کے بیرونی کام کرے اور کن سے اپنے آپ کو دُور رکھے‘ یہ سارے معاملات مباح کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں سے کسی کو دلیل شرعی کے بغیر مطلقاً حرام نہیں کیا جا سکتا۔ ذاتی پسندوناپسند کی بنا پر شریعت کی کسی اجازت کو منسوخ کرنے کا حق نہ کسی عالم کو ہے اورنہ کسی مقلد کو۔

گھر کی چار دیواری کا مطلب کبھی یہ نہ تھا کہ ایک خاتون گھر میں قیدرہے ‘نہ تعلیم حاصل کرے اور نہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ کے قرآنی حکم کی کبھی پیروی کرے۔ اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں لیا جاسکتا ہے کہ وہ ۲۴گھنٹے محض بازاروں میں گھومتی رہے کہ مشاہدہ فطرت کررہی ہے! اسلام کی تعلیمات کو توازن اور اعتدال میں رہتے ہوئے اور قرآن وسنت کے مجموعی احکام کی روشنی میں ہی اختیار کیا جائے گا۔ کسی ایک حکم کو الگ کر کے اس کی تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔

خواتین کی تعلیم کو ہمیشہ ملازمت (job) سے وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اگرایک خاتون اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرلے اور اس کی نیت کسی ملازمت کی نہ ہو‘ جب بھی اسے یہ حق قرآن و سنت نے دیا ہے۔

رہا یہ سوال کہ تعلیم کے دوران مخلوط ماحول میں رہنا کہاں تک درست ہے۔ تو اسلام لازمی طور پر یہ چاہتا ہے کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ تعلیمی سہولیات ہوں۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا کیا تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے؟

ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر سے قبل اضطراری کیفیت میں بہت سے ایسے پہلو برداشت کرنے ہوںگے‘ لیکن ایسا کرنے کے دوران ماحول، طریق تعلیم، اور رویے کو اسلامی اصولوں سے قریب ترین لانا ہو گا۔ اگر ایک طالب علم اپنے استاد کے ساتھ گفتگو میں اسلامی آداب کا خیال رکھے تو استاد کبھی اس کے ساتھ ہنسی مذاق اور بے تکلفی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے طبی کالجوں میں پیشہ ورانہ اخلاقیات (professional ethics )کو نافذ کریں اور اس پرسختی سے عمل کیا جائے۔ ایک معروف میڈیکل کالج میں جہاں ابھی تک مخلوط تعلیم ہے‘ یہ کوشش کی گئی ہے کہ طبی اخلاقیات کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور اساتذہ اورطلبا پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے ساتھ اسلامی اخلاق و آداب پر عمل کرسکیں۔

تعلیمی ماحول کو بہتربنانے کے لیے نہ صرف اداروں بلکہ آپ جیسے شہریوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گااور محض سوال کے ذریعے نہیں بلکہ مسلسل خطوط، ملاقاتو ں اور وفود کے ذریعے طبی اداروں کو اس طرف متوجہ کرنا ہو گا۔ یہ کام کسی ایک فقیہہ یا معلم کا نہیں۔ اس میں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ اسی وقت تبدیلی کا آغاز ہو گا اور آخرکار ایسا اخلاقی ماحول پیدا ہوگا جس میں طلبا اور طالبات کو مخلوط اداروں میں بھی اپنے دین و ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ ہدف بہرحال یہی رہے گا کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ اعلیٰ اور بنیادی تدریس کے لیے تعلیم گاہوں کا قیام جلد ازجلد عمل میں آ سکے۔

محرم اور نامحرم کی حدود دین نے متعین کر دی ہیں۔ جس بات کی واضح ممانعت ہے وہ خلوت ہے‘ یعنی تنہائی میں صرف ایک مرد اور عورت کا یکجا ہونا ۔ ایک کلاس میں جہاں ایک طرف لڑکیاں ہوں اور دوسری جانب لڑکے ‘ یکمشت حرام نہیں کہا جاسکتا۔ گو‘ ان کی علیحدہ تعلیم ہمیشہ افضل اور اسلامی اصولوں سے مطابق رہے گی۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے خواتین کی تعلیم کی اہمیت نہیں تھی۔ اسلام روزاول سے تعلیم کی فرضیت کا حکم دیتا ہے جس میں کوئی جنسی تفریق نہیں پائی جاتی۔ اگر کسی دور میں مسلمان اس حکم کی پیروی نہ کریں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹرانیس احمد)

انفاق کے آداب

سوال: ایک فرد کی ماہانہ بچت چار سے پانچ ہزار روپے ہے۔ اس کے نزدیک ایک طرف تحریک اسلامی کو دیگر وسائل کے علاوہ نقد رقوم کی بھی سخت ضرورت ہے‘  دوسری طرف اس شخص کو حج پر جانے کی بھی شدید خواہش ہے‘ اور تیسری طرف ایسے مستحق لوگ بھی اس کی نظر میں ہیں جنھیں لٹریچر کے ذریعے دین کا پیغام پہنچانا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ان حالات میں کیا اُسے رقم جوڑ کر حج کرنا چاہیے‘ یا دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں مال لگانا چاہیے؟

جواب: خوشی ہوئی کہ آج کے دور میں بھی معاشرے میں ایسے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو دین کی نشرواشاعت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی ضروریات پر دین کے تقاضوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبے میں مزید برکت ڈالے اور اس طرح کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔ آمین!

اس طرح کے جذبات کو بارآور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دین اور خدمتِ خلق کے کام کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں‘ ایک یا چند افراد اگر اپنی بچتیں لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے میں خرچ بھی کر دیں تو کام زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو وسعت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ افراد سے مالی اعانت جمع کی جائے۔ لوگ اپنی اپنی توفیق کے مطابق مالی اعانتیں دیں‘ پھر جمع شدہ رقوم سے ایک طرف توسیع دعوت کا کام لیا جائے‘ لٹریچر تقسیم کیا جائے اور دروس قرآن و حدیث کے اجتماعات منعقد کیے جائیں‘ اور دوسری طرف حاجت مندوں کی حاجات پوری کی جائیں۔ ایک شخص کا اپنی بچت کی ساری رقم کو فی سبیل اللہ خرچ کرنا اس وقت ضروری ہوتا ہے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ موجودہ حالات میں افراد سے اپنی ساری بچت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا تقاضا نہیں ہے‘ بلکہ اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انفاق کا مطالبہ ہے۔ ایک شخص اگر مہینے میں چار پانچ ہزار روپے کی بچت کرتا ہے‘ اور وہ خود صاحب ِاہل و عیال ہے‘ اس کے پاس اپنا مکان نہیں ہے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کچھ رقم مکان کے لیے‘ کچھ اہل و عیال کی ضروریات کے لیے اور کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مخصوص کر دے اور اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھے کہ وہ اپنی ضروریات کو خود پورا کر سکے اور بوقت ضرورت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ عام حالات میں اگر وہ شخص حج کے لیے بھی کچھ رقم مخصوص کرتا ہے تو اس کی بھی گنجایش ہے۔

صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ کیا خرچ کریں‘ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جواب نازل فرمایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ العَفْوَ (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’آپ فرما دیجیے کہ جو بہ سہولت خرچ کر سکتے ہو‘ خرچ کرو‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار پشت سے ہو۔ پہلے ان پر خرچ کرو جو تمھاری پرورش میں ہیں (بخاری،عن ابی ھریرہ)‘ یعنی پورا مال ہی خرچ نہ کر دیا جائے‘ بلکہ کچھ بچا کر بھی رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ایک دینار وہ ہے جس کو تم فی سبیل اللہ خرچ کرو‘ ایک دینار وہ ہے جس کو غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو‘ ایک وہ ہے جسے مسکین پر صدقہ کرو‘ اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ ان میں افضل وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔مسکین پر صدقہ صدقہ ہے اور قرابت دار پر دہرا اجر ہے۔ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی (احمد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ نسائی)۔ یہ تمام روایات  مشکوٰۃ میں ذکر کی گئی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقے کی اپیل کیا کرتے تھے تو صحابہ کرامؓ اپنے اپنے حالات اور جذبے کے مطابق مال پیش کر دیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے سارا مال اور حضرت عمرؓ نے نصف مال فی سبیل اللہ پیش کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت علی ؓنے بڑی بڑی رقوم پیش کیں۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس طرح کی صورت حال اگر آج پیش آجائے اور اجتماعی نظم مالی اعانتوں کی اپیل کرے تو ایسی صورت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کر کے صحابہ کرامؓ کی سنت پر عمل کرنا ہوگا۔ لیکن عام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق میں بقدر استطاعت حصہ لینے کے ساتھ اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرنے اور ان کی مالی حیثیت مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔

جب قرآن پاک کی آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے یہاں تک کہ خرچ کرو اس مال کو جو تمھیں محبوب ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت طلحہؓ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرا سب سے محبوب مال ’’بیرحا‘‘ کا باغ ہے‘ وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اسے اللہ کے ہاں ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے جہاں چاہیں صرف کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑا قیمتی مال ہے۔ میں نے تمھاری بات سن لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قرابت داروں پر خرچ کرو۔ ابوطلحہؓ نے کہا: میں اسی طرح کرتا ہوں۔ چنانچہ ابوطلحہؓ نے اسے اپنے قرابت داروں اور چچازادوں میں تقسیم کر دیا۔ (متفق علیہ)

بعض اوقات سارے مال کو خرچ کرنے پر آپ نے ناراضی بھی ظاہر فرمائی ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص سونے کی ڈلی لے آیا۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ مجھے سونے کی کان سے ملی ہے‘ آپ اسے لے لیجیے۔ یہ صدقہ ہے۔ میں اس کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا۔ وہ دائیں جانب سے آیا‘ پھر وہی بات کی۔ آپ نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ پھر وہ بائیں جانب سے آیا‘ آپ نے پھر رخ موڑ لیا۔ پھر وہ پیچھے سے آیا۔ آپ نے وہ ’’ڈلی‘‘ لے لی اوراس کو دے ماری۔ اگر وہ اسے لگ جاتی تو اسے تکلیف پہنچاتی یا زخمی کر دیتی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اپنا سارا مال لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے یہ صدقہ ہے۔ پھر لوگوں سے مانگنے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار آدمی کا ہو۔ (ابوداؤد‘ کتاب الزکوٰۃ)

اس سے معلوم ہوا کہ غریب آدمی کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جذبات میںآکر سارا مال صدقہ کرنے کے بجاے کچھ صدقہ کرے اور باقی سے اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوئہ تبوک کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓنے اپنی ساری دولت پیش کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرلیا۔ امام بخاریؒ نے اس کا جواب بخاری میں دیا ہے کہ جو شخص ابوبکرؓ کے مقام پر فائز ہو‘ صبروقناعت کر سکتا ہو‘ اس کے لیے بے شک ساری دولت خرچ کر دینے کی اجازت ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لیے یہی ہدایت ہے کہ وہ دولت کے خرچ کرنے میں اعتدال اور توازن سے کام لیں۔ اس لیے جو صاحب چار پانچ ہزار روپے ماہوار بچت رکھتے ہیں‘ انھیں چاہیے کہ وہ کچھ رقم فی سبیل اللہ خرچ کریں‘ باقی گھریلوضروریات اور حج کے لیے پس انداز کر لیں۔ دعوت واقامت دین کا فریضہ اوراس کے تقاضے اپنی جگہ اہم ہیں‘ اس کے لیے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مالی معاونین بڑھانے چاہییں۔ اس سے دینی کام زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں ہو سکے گا۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)


اطاعت امیر کی حدود

س:قرآن حکیم امیر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے(النساء ۴:۵۹)۔ کیا امیر کے ہرحکم کی اطاعت و پیروی لازمی ہے یا بعض صورتوں میں نافرمانی بھی کی جا سکتی ہے؟ ہمیں قرآن و سنت سے کیا ہدایات ملتی ہیں؟

ج: آپ نے سورۂ نساء کی آیت کے حوالے سے جو سوال کیا ہے اس کا اصولی جواب خود اسی آیت میں موجود ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اپنے اولوالامر کی۔ اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے واقع ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو‘ اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘(النسائ۴: ۵۹)۔ اس آیت مبارکہ میں پہلی حقیقت یہ واضح کر دی گئی کہ جن اولی الامر کی اطاعت کی بات کی جارہی ہے وہ خود اُمت مسلمہ ہی کے اولی الامر ہیں۔

دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیرمشروط اور   ہمہ وقتی ہوگی۔ ان سے اختلاف اور روگردانی جائز نہیں۔ اس لیے اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کو غیرمشروط رکھا گیا ہے۔ دوسرے مقام پر اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰)،’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ پھر ایک تیسری سطح اطاعت کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جس میں اصحابِ امر کی اس وقت تک مشروط اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کر رہے ہوں۔ اگلی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر صاحب ِ امر سے کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے‘ جو ایک مسلمان شہری کا بنیادی حق بھی ہے‘ تو پھر صاحب ِ امر اور ایک عام شہری کے اختلاف کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں صاحب ِ امر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا حکم اور فیصلہ عوام الناس پر زبردستی نافذ کرے اور عوام الناس کے لیے ایسے حکم کی پیروی واجب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہیں کہ اگر وہ عدل قائم رکھ سکتا ہو تو ایک سے زائد نکاح کرسکتا ہے‘ لیکن اگر ایک حکمران یہ حکم دے کہ دوسری شادی غیرقانونی ہے تو ایسے قانون کی اطاعت جو شریعت سے ٹکراتا ہو‘ قطعاً جائز نہ ہوگی۔

صاحب ِ امر سے عموماً فرماں روا یا حاکم مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنے وسیع تر مفہوم میں اس میں وہ سب حضرات شامل ہیں جو کسی ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوں‘ مثلاً علما و فقہا‘ کسی ادارے کے سربراہ‘ وہ متخصص افراد جو اپنے اپنے میدان میں فیصلہ کُن مقام رکھتے ہوں۔ اس غرض سے ایک اسکول یا کالج کے پرنسپل‘ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر‘ ایک فیکٹری کے مینیجر یا ایک سربراہِ خاندان‘ ہر ایک کے لیے حکم یکساں ہوگا اور اُس کی اطاعت اسی وقت تک ہوگی جب تک وہ حکمِ شریعت‘ یعنی قرآن و سنت کی پیروی کر رہا ہو۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور حدیث لاَطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (اللہ کی نافرمانی میں کسی کی فرماںبرداری نہیں)‘ میں اس اصول کو متعین فرما دیا کہ اگر ایک شوہر‘ بیوی کو یا بیوی‘ شوہر کو کسی ایسے کام کے لیے کہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے تو اطاعت نہیں کی جائے گی۔ یہی شکل دیگر شعبہ ہاے حیات میں ہوگی‘ مثلاً ایک سرکاری دفتر میں کسی افسر کا وہ حکم جو براہِ راست قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو‘ قابلِ تعمیل نہیں قرار پائے گا۔

قرآن و سنت کے احکام میں اگر ایک سے زائد تعبیرات کا امکان ہو تو کسی ایک تعبیر کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان تعبیرات اور قرآن وسنت کے بنیادی اصولوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔

غیرشرعی احکام کے نہ ماننے کا طریقہ کیا ہوگا اور کن حالات میں کسی صاحب ِ امر کے خلاف کھلم کھلا عوامی مظاہرہ کیا جائے گا؟ یہ سوالات ہمارے معروف فقہا کے بھی پیش نظر تھے۔ چنانچہ ’سیاست شرعیہ‘ کے زیرعنوان اس مسئلے پر تفصیلی مباحث مختلف مقامات پر ملتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒنے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ پہلی بات جو ہمارے علما نے واضح طور پر بیان کی‘وہ یہ ہے کہ جب بھی صاحب ِ امر گمراہی کی طرف جائیں انھیں نصیحت کی جائے‘کیونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ   (بخاری)۔  مسلم کی روایت ہے کہ ’’تین چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم سے بہت خوش ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اسی کی عبادت کرو‘ اور کسی کو اس کا شریک نہ گردانو۔ دوسری یہ کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو‘ فرقے فرقے مت بن جائو۔ تیسری یہ کہ جس شخص کو اللہ نے تمھارا صاحب ِ امر بنایا ہے اس کو نصیحت کیا کرو‘‘۔

نصیحت کے تمام ذرائع جب ناکام ہوجائیں تو راے عامہ کو ہموار کرنا اور ملک میں  فتنہ و فساد برپا کیے بغیر تبدیلی ٔ امامت اُمت مسلمہ پر واجب ہوجاتی ہے کیونکہ اسلامی شریعت کے قیام و نفوذ کے لیے صالح امامت کا ہونا ہی اُمت مسلمہ کے عمومی مصالح کا تحفظ کرسکتا ہے۔ چنانچہ جہاں تک ممکن ہو تشدد اور قتل و غارت سے بچتے ہوئے تبدیلی ٔ قیادت کی جدوجہد کرنا اُمت مسلمہ کا فریضہ بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)

جادو اور وہم

سوال: کچھ عرصہ قبل میری ایک عزیزہ کی شادی ہوئی۔ ایک سال تو بخیروخوبی گزر گیا لیکن پھر لڑائی جھگڑوں کا ایک طوفان بپا ہوگیا۔ لڑکے والوں کا خیال ہے کہ لڑکی والے ان پر تعویذ گنڈے اور جادو ٹونا کروا رہے ہیں۔ اسی دوران لڑکی کے سسر کا انتقال ہوگیا اور یہ موت اچانک نہیں ہوئی۔ مرحوم برسوں سے ہائی بلڈپریشر کے مریض تھے۔ اس پر لڑکے والوں کا شک یقین میں بدل گیا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ لڑکی والوں نے شک دُور کرنے کے لیے قرآن پر قسم اٹھا لی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔  بہ ظاہر وہ مان گئے مگر ان کے دل مطمئن نہ ہوئے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد لڑکے نے کہا کہ وہ خود عامل ہے اور اس نے استخارہ کیا ہے اور اسے اپنے سسرال والوں کی شبیہہ نظرآئی ہے کہ وہ جادو کرتے ہیں۔ اس دوران لڑکی کا بھائی حادثے کا شکار ہوا اور ساتھ ہی اس کی دادی پر فالج کا حملہ ہوگیا تولڑکے نے کہا کہ یہ اس نے کروایا ہے۔

اب ایک طرف لڑکی والے قرآن پر قَسم اٹھا کریقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ جادو وغیرہ نہیں کر رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکا استخارے کی بنیاد پر انھیں ہی موردالزام ٹھیراتا ہے اور مؤخر الذکر واقعات کو اپنا کارنامہ سمجھتا ہے۔ ان حالات میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ:

استخارے کی کیا حیثیت ہے اور کن کاموں کے بارے میںکیا جاسکتا ہے؟ قرآن پر قَسم اٹھانے کے بعد بھی استخارے کی گنجایش رہ جاتی ہے؟ اور اگر قَسم اٹھانے پربھی شک دُور نہ ہو توکیا کیا جائے؟

جادو اور تعویذ گنڈے کا انسانی زندگی میں کتنا عمل دخل ہے؟

جواب: یہ معلوم کر کے انتہائی دکھ ہوا کہ آپ کی عزیزہ کے شوہر جو آپ کے عزیز بھی ہیں‘ اپنی اہلیہ کے بارے میں بلاجواز وہم و گمان کا شکار ہیں۔ آپ کی عزیزہ اوراس کے والدین نے قرآن پاک پر حلف بھی اٹھایا لیکن ان کا وہم و گمان پھر بھی دُور نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اِناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے۔

ایک مسلمان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ قرآن و سنت ہیں‘ جن میں بلاجواز وہم و گمان سے سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔

جب کوئی شخص حلف اٹھا لے تو اس کے بعد بدگمانی ختم ہوجانی چاہیے‘ نیزبدگمانی کے اسباب و آثار سامنے نہ آئیں تو پھر بدگمانی بھی بلاوجہ ہونے کے سبب گناہ شمار ہوگی۔ کیا آپ کی عزیزہ اور خاندان کی طرف سے تعویذ گنڈے اور جادو کے ایسے نشان ملے ہیںکہ جس کی بنا پر شوہر اور ان کے خاندان والے بدگمانی میں مبتلا ہوئے؟ ظاہر بات ہے کہ ایسے کوئی نشان نہیں ملے۔ جہاں تک بلڈپریشر اور دوسری بیماریوں کا تعلق ہے۔ وہ اس بات کی علامت قطعاً نہیں ہیں کہ مریض پر جادو کیا گیا ہے اور فلاں شخص جادو کا مرتکب ہوا ہے۔

استخارہ ایک جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں دعاے خیر کی مخصوص صورت کا نام ہے۔ اس کا کسی الزام یا بدگمانی کی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ استخارے یا خواب کے ذریعے سے کسی پر جادو کے الزام کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ شریعت میں خواب کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ کسی نے کسی پر جادو کیا ہے۔ یہ خواب سے ثابت ہونے والی چیز نہیں کہ کسی کی شبیہہ کے نظرآنے سے سمجھا جائے کہ صاحبِ شبیہہ نے جادو کیا ہے۔

جادو ظاہری اسباب کا نہیں‘ بلکہ مخفی اسباب کے ذریعے عمل کا نام ہے۔ بلڈپریشر‘ ایکسیڈنٹ تو ظاہری اسباب ہیں‘ ان کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جادو تو ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوکر کمزور ہو جاتا ہے کہ حکیم اور ڈاکٹر اس کا سبب معلوم نہ کر سکیں۔ لیکن جس شخص کو ایسی بیماریاں لاحق ہوں جو ڈاکٹروں اور اطبا کو معلوم ہوں‘ یا موت کے ایسے اسباب ہوں جو لوگوں میں معروف ہوں‘ جیسے ایکسیڈنٹ وغیرہ‘ تو اس کو جادو کا نتیجہ نہیں کہا جائے گا۔ آپ کی عزیزہ کے شوہر جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے بذاتِ خود جادو کیا ہے اور ان کے جادو کے سبب فلاں فلاں واقعات ہوئے ہیں‘ یہ بھی ان کا وہم ہے۔ وہ اپنے آپ کو گنہگار کر رہے ہیں اور لوگوں کی تکلیف اور حادثات کو اپنے جادو کا نتیجہ قرار دے کر گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ فی الحقیقت ان حادثات کا تعلق ان کے عمل سے نہیں ہے۔ اس لیے آپ کسی قسم کی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ آپ کا اور آپ کی عزیزہ اور خاندان کا رویہ اسلام کے مطابق ہے اور شوہر اور ان کے خاندان کا رویہ شریعت سے ہٹا ہوا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ وہم کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔ شرعی ثبوت کے بغیر کسی پر جادو اور کسی دوسرے جرم کا الزام عاید نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعویذ گنڈوں اور جادو کے وہم سے نکالے۔ بہت سے گھر اس وہم اور بدگمانی کی وجہ سے اجڑ گئے ہیں۔ آپ کی عزیزہ کے شوہر کی بدگمانی کو اللہ دُور کرے۔ اس کو اور اس کے بچوں کو ظلم سے محفوظ فرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)


مجاہدین کی آڑ میں مفاد پرست

س : مجاہدین کی صفوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو جہاد فی سبیل اللہ کے مقصد اور فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں یا اپنے کسی مفاد کی خاطر جہادی تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بعض اوقات مجاہدین کو عوامی سطح پر بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی روک تھام کیسے ہو؟ ان سے کیسا سلوک کیا جائے اور کیا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ دشمن ایسے افراد کو ہماری صفوں میں بھیج کر انتشار نہ پیدا کر سکے؟

ج: آپ کے سوال میں تین اہم پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ کے مقصد اور ایسے افراد سے ہے جو اس مقصد سے صحیح طور پر آگاہ نہ ہوں۔ دوسرا پہلو ایسے افراد کی پہچان سے ہے جو محض دکھاوے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ایسے افراد سے ہمارا طرزعمل کیا ہو۔ اور آخری بات جو آپ نے اٹھائی ہے کہ اگر ایسے افراد کو پہچان لیا جائے تو آیندہ پیش بندی کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔

سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشی اور رضامندی کے لیے مجبور‘محکوم و مظلوم انسانوں کو ظلم سے نجات دلانا اور ان کے حقوق بحال کرنے کے لیے اپنی جان اور مال کے ساتھ جدوجہد کرنا ہے۔ یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے اور جب بھی اُمت مسلمہ کے کسی گروہ کو محکوم بنالیا جائے‘ اس پر ظلم کیا جائے تو صاحب ِ استطاعت افراد پر ان کی امداد کرنا اور انھیں نجات دلانے کے لیے جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب‘ ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر‘‘۔(النساء ۴:۴۹)

جہاد کے آغاز کے بعد مجاہدین کی صفوں میں اگر ایسے افراد بھی شامل ہوجائیں جو بظاہر تو جہاد کی غرض سے آئے ہوں‘ لیکن ان کا اصل مقصد مجاہدین کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا یا اپنے مفادات کا حصول ہو‘ تو عام حالات میں کسی کے لیے یہ کھوج لگانا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ دلوں کے حال سے تو صرف اللہ ہی واقف ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر ان کا طرزِعمل مشتبہ ہو تو ان پر نگرانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ شریعت کے احکام کا نفاذ ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ اگر ان کی نقل و حرکت سے ثابت ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دشمنِ اسلام قوتوں کے اشارے پر تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں تو پھر باقاعدہ تحقیق کے بعد‘ ثبوت ملنے پر اور ان کو صفائی کا موقع دے کر انھیں جماعت سے علیحدہ کیا جائے۔ محض شبہے کی بنا پر کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہے‘ بلکہ قرآن کریم واضح طور پر اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ کسی فاسق کی اطلاع پر وہ کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھیں جس کے بعد انھیں شرمندگی ہو۔

جو لوگ درپردہ مخالفینِ اسلام کے ساتھ ہوں‘ لیکن ان کے ظاہری اعمال ایسے ہوں جو ایک مومن سے متوقع ہیں‘ ایسے افراد کے بارے میں قرآن و سنت سے جو ہدایات ملتی ہیں ہم عموماً ان کی پابندی نہیں کرتے۔ کسی کے بارے میں اُڑتی ہوئی اطلاع پر اعتماد کر کے اس کے نشرمیں مصروف ہوجانا ایک منافق کا کام ہے۔ عبداللہ ابن ابی جو نماز‘ روزے اور دیگر اسلامی عبادات کا پابند اور صحابہؓ کی جماعت میں شامل تھا۔قرآن و سنت سے یہ ہدایت نہیں ملتی کہ اسے ماروپیٹو یا قتل کر دو کہ وہ منافق ہے‘ بلکہ انھی کے صاحبزادے اور آنحضورؐ کے جاں نثار صحابیؓ نے آپؐ سے اپنے منافق باپ کے قتل کی اجازت طلب کی تو رحمۃ للعالمینؐ نے اس سے منع فرما دیا۔

اتنی واضح اور مستند سنت کے باوجود آج کسی حافظ قرآن یا داعی کے بارے میں کہیں صرف یہ افواہ اڑا دی جائے کہ اس نے کسی صحابی کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں‘ یا وہ کسی جماعت مجاہدین کے سربراہ کے بارے میں یہ بات کہتا ہے‘ تو بغیر کسی تحقیق کے ہم وہ کچھ کربیٹھتے ہیں جس کی اجازت ایک منافق بلکہ مشرک کے بارے میں بھی نہیں ہے۔

اس لیے جماعت مجاہدین ہویا کوئی دوسری تنظیم جو اسلام کے اصولوں پر قائم ہوئی ہو‘ اس میں افواہوں‘ نجویٰ‘ غیبت اور بلاتحقیق الزامات لگانے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ دین کا مدعا اصلاً‘ تربیت و فلاح ہے۔ وہ زبردستی کسی نہ کسی عذر سے خواہ مخواہ افراد کو تعذیب‘ تکلیف اور تعزیر دینے کا قائل نہیں ہے۔ ہاں‘ جہاں بربناے تحقیق ایک جرم ثابت ہوجائے اور بات محض الزام کی نہ ہو‘ وہاں اسلام سخت سے سخت سزا دیتا ہے۔ اسی لیے ایسے جرائم کی سزا مخفی نہیں‘ بلکہ سرعام دی جاتی ہے‘ تاکہ وہ محض سزا کا کام نہ کرے بلکہ معاشرے میں برائی کو روکنے اور کم کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔

عوامی سطح پر جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ خلوص‘ قربانی اور دینی ہدایات پر حتی المقدور عمل ہے۔ بلاشبہہ پبلسٹی کی مہم بعض اوقات اچھے خاصے بھلے افراد کی تصویر کو مسخ کردیتی ہے۔ لیکن  حق بہرحال آخرکار غالب آتاہے‘ مثلاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے یہ بات  پھیلا دی گئی کہ وہ جہاد کشمیر کو درست نہیں سمجھتے‘ جب کہ ان کی تحریریں نہ صرف جہاد کی سب سے زیادہ پُرزور حمایت کرنے والی ہیں‘بلکہ بیسویں صدی میں جرأت اور بغیر کسی مدافعانہ ذہنیت کے  قرآن و سنت کی بنیاد پر‘جہاد کو ایک اصلاحی عمل اور فریضہ قرار دیتے ہوئے‘ اس کی اشاعت کرنے والی ہیں۔ خود ان کی برپا کردہ جماعت نے جہاد کشمیر کو مقبوضہ اور آزاد کشمیر ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں متعارف کرایا اور اس کے لیے عالمی مہم چلائی۔

ایسے افراد پر بھی‘ جو کسی جماعت کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوں‘ دعوتی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا قوی امکان رہتا ہے کہ وہ تربیت و اصلاح کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنی غلط روش سے تائب ہوکر خلوصِ دل کے ساتھ اہلِ حق کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور وہ اپنے ذاتی مفاد کے بجاے اُمت کے مفاد کے لیے اپنی جانیں اور اپنا مال بطور نذرانہ پیش کردیں۔ اس لیے ان کو بھی مسلسل خلوصِ دل کے ساتھ دعوت ِدین دیتے رہنا چاہیے۔(ا-ا)

حق مہر کا نامناسب مطالبہ

سوال: میںیہ جاننا چاہتا ہوں کہ نکاح سے قبل اگر حق مہر کا تعین نہ کیا جائے اور نکاح کے وقت عین آخری لمحے پر دلہن کے گھر والے ایک نامناسب مطالبہ کر دیں اور دولہا کے لیے قبول کرنے یا رد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو‘ جب کہ بھاری حق مہر کی ادایگی اس کی استطاعت سے باہر ہو‘ تو وہ کیا کرے؟ اگر شادی سے چند روز قبل اس طرح کا مطالبہ کیا جاتا اور لڑکے والوں کی طرف سے انکار کر دیا جاتا تودلہن کے گھر والے قدموں میں گر جاتے اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتے۔ لیکن عین نکاح کے موقع پر جب بھاری حق مہر کا مطالبہ کیا جائے اور انکار کی صورت میں بدمزگی ہو‘ نکاح نہ ہونے کا خدشہ ہو‘ جب کہ اس کی ادایگی دولہا کی استطاعت سے باہر ہو لیکن وہ وقتی طور پر جھوٹ بولے اور مہر کی ادایگی کا اقرار کرلے تو کیا اس مجبوری کی حالت میں ایسا کرنا مناسب ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہوگا‘ نیز اگر وہ حق مہر ادا کیے بغیر مر جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب: آپ کے سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر دلہن کے گھر والے عین آخری لمحے پر نکاح کے وقت نامناسب مطالبہ کریں تو اسے رد کر دینا چاہیے۔ اگر رد نہ کیا جائے تو پھر انسان اس بات کا پابند ہو جائے گا۔ محض یہ کہ عین نکاح کے وقت مطالبہ کیا گیا‘ ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے مجبوری قرار دیا جائے۔ اسلام میں مجبوری اور زبردستی یہ ہے کہ چھری‘ چاقو یا گولی سے ڈرا کر بات منوائی جائے۔ ظاہر ہے کہ ایساتو نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں جو مہر طے ہوا ہو‘ وہ دینا پڑے گا۔ بعد میں بیوی سے پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرا لیا جائے۔اسے کہہ دیا جائے کہ موقع پر تو میں نے اتنا مہر دینا قبول کر لیا تھا تاکہ تقریب نکاح میں بدمزگی پیدانہ ہو لیکن اس قدر مہر دینا میری استطاعت سے باہر ہے۔ اس لیے آپ پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دیں۔ شادی سے قبل یا شادی کے بعددونوں صورتوں میں آپ لڑکی سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ نکاح کے وقت مہر مقرر کر دینے کے بعد مہر کی معافی یا کمی کا اختیار لڑکی کا ہوتا ہے۔ اس سے لڑکی کے والدین یا خاندان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ اس لیے آپ یہ مطالبہ لڑکی سے کریں کسی اور سے نہیں۔

اگر مہر ادا کیے یا معاف کرائے بغیر آدمی فوت ہو جائے تو بیوی آخرت میں اپنے حق کا مطالبہ کرے گی اور اس کا یہ حق دینا پڑے گا۔ آخرت میں ادایگی بہت مشکل اور انتہائی کٹھن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہر جو مقرر کیا گیا ہو‘ ادا کیا جائے‘ یا پھر اسے اپنی زندگی میں بیوی سے معاف کرا لیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)


اسکارف ‘گائون اور پردہ

س : میں میڈیکل کی طالبہ ہوں۔ ہم سفید کوٹ کے اوپر سے اسکارف سے نقاب کرلیتی ہیں اور گائون کے طور پر علیحدہ سے لباس کے اوپر کچھ نہیں پہنا جاتا۔ سفیدکوٹ کی لمبائی تقریباً قمیص یا اس سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ اس طرح سے سارے کپڑے نہیں چھپتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ حال ہی میں میرے علم میں یہ اعتراض آیا ہے کہ چونکہ کپڑے زینت ہیں‘ اس لیے ان کا پورا چھپانا ضروری ہے۔ سفیدکوٹ تو ہمیں ہر صورت میں پہننا ہوتا ہے‘ چاہے اسے کپڑوں کے اوپر پہنا جائے یا گائون کے اوپرسے۔ دوسرے طریقے میں خاص طور پر گرمی میں بہت مشکل ہے لیکن اگر صرف سفیدکوٹ پہن لینا کافی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس طریقے کو چھوڑنا ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے درکار ہے کیونکہ میں الجھن میں مبتلا ہوں۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ ہم لوگ عام برقع کا ہی پورا استعمال کرتے ہیں۔

ج : دورِ جدید کی باشعور نوجوان نسل نے جس طرح اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ قابلِ قدر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین سے وابستہ رہ کر دورِحاضر کی وسعتوں سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں آپ کا سوال اسلام کے تصورِ لباس و زینت سے تعلق رکھتا ہے۔

لباس زینت کو چھپاتا بھی ہے اور زینت دیتا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے     سورۂ نور کی آیت ۳۱ میں یوں فرمایا ہے: ’’اور اے نبیؐ،مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور اپنی زینت (بنائوسنگھار) نہ دکھائیں بجزاُس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائوسنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر‘ باپ‘ شوہروں کے باپ‘ اپنے بیٹے‘ شوہروں کے بیٹے‘ بھائی‘ بھائیوں کے بیٹے‘ بہنوں کے بیٹے‘ اپنے میل جول کی عورتیں‘ اپنے لونڈی غلام‘ وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں…(۲۴:۳۱)

یہاں زینت جس کا ترجمہ صاحب ِتفہیم القرآن نے بنائوسنگھارکیا ہے‘ اگر غور کیا جائے تو جہاں زینت کا مفہوم وہ زینت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں رکھ دی ہے ‘یعنی جسم کے خدوخال وغیرہ‘ وہاں اس سے مراد وہ زینت بھی ہے جو زیور یا غازہ وغیرہ کی شکل میں اختیار کی جاتی ہے۔ چنانچہ سینوں پر اوڑھنیوںکے آنچل ڈالنے کا تعلق اللہ کی بنائی ہوئی اور زیورات والی زینت سے نظرآتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر لباس شوخ اور چمکدار یا متوجہ کرنے والا ہو‘ یا گلے کانوں میں زیور پہنا ہو تو اوپر سے چادر کو یوں گرا لیا جائے کہ     خوب صورتی چھپ جائے۔ قرآن کریم نے زینت کے حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں وہ نہ صرف متوازن ہیں بلکہ انسان کی ان خواہشات کے پیشِ نظر دی گئی ہیں جو وہ عام حالات میں پوری کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایک خاتون زیورات کا استعمال کرنا چاہتی ہے تو وہ انھیں استعمال کرے لیکن نمودونمایش اور دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ نہ بننے دے۔ اسی لیے آیت کے آخری حصے میں یہ نہیں کہا گیا کہ پائوں میں پازیب کا استعمال منع ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ پائوں کو اس طرح مار کر چلنا کہ وہ اس پازیب کو ظاہر کر دے‘ ممنوع ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے پائوں کو اس طرح جنبش دینا کہ گویا پازیب تو نہ پہنی ہو لیکن فیشن پریڈ میں چلنے کا تاثر بن جائے تویہ بھی غلط قرار پائے گا۔

بعض زینتوں کو اسلام نے جائز بلکہ مستحسن قرار دیا ہے‘ جیسے شوہر کے لیے زینت کا اختیار کرنا‘ یا مسجد جاتے ہوئے مردوں کا اچھا لباس اور وضع قطع اختیار کرنا (الاعراف ۷:۳۱)۔ پھر یہ بات بھی اسی سیاق میں فرما دی گئی کہ ’’اے نبیؐ، ان سے کہو ‘ کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے اللہ کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟‘‘(۷:۳۲)

جہاں تک سوال لباس کے اوپر گائون کے استعمال کا ہے اگر آپ غور کریں توسادہ لباس خود جسم کی زینت کو چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر اس پر گائون استعمال کرلیا جائے تو پھر زینت کے چھپانے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ چاہے گائون کی پیمایش قمیص کے لگ بھگ ہی ہو۔ لباس اگر ساتر ہے‘ یعنی شلوار قمیص جسم پر چست نہیں ہے‘ کپڑا اتنا باریک نہیں ہے کہ جسم نظر آئے تو صرف ایسی چادر جو جسم کے اوپر کے حصے کو پوری طرح ڈھانپ لے اور جس سے سر کے بال اور گردن یا سینہ نظر نہ آئے ‘جلباب کی تعریف میں آتی ہے جسے خود قرآن کریم نے متعین کردیا ہے۔ آپ کے حوالے سے گائون اور اسکارف وہی کام کرتا ہے جو جلباب کا ہے۔ اس سے برقع کا مقصد بڑی حد تک حاصل ہو جاتا ہے۔ گائون سفید ہو یا برائون یا گرے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ بھی اسکارف کے ساتھ گائون نما کوٹ کا استعمال پردے میں شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ گائون بڑی حد تک برقع کا قائم مقام ہے اور خود زینت نہیں بلکہ زینت کو چھپانے کا ذریعہ ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)


انعامی بانڈ: ایک ذہنی الجھن

س: ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور مالی وسائل کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر اسٹیٹ بنک کے توسط سے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ خاص ڈیپازٹ اسکیم‘ نیشنل پرائز بانڈ وغیرہ‘ اور دیگر مالیاتی اسکیموں کا اجرا کیا جاتا ہے۔ میرا سوال انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کے بارے میں ہے۔

انعامی بانڈ منسٹری آف فنانس کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے جاری ہوتے ہیں جو مختلف مالیت کے ہوتے ہیں۔ یہ بانڈ خریدنے کے بعد کسی بھی وقت دوبارہ بھنائے جاسکتے ہیں اور بغیر کسی کٹوتی کے پوری رقم واپس مل جاتی ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے انعام دیا جاتا ہے اور حکومتی سرپرستی کی وجہ سے دھوکا دہی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انعام نہ نکلنے کی صورت میں اصل زر بھی محفوظ رہتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ انعامی بانڈوں کے بارے میں ہمارے علما میں ذہنی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ کچھ اسے سود اور قماربازی اور جوا کہتے ہیں۔ کچھ اس اسکیم کو جائز کہتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ لاٹری اور جوے کی مانند ہے‘ اور انعامی رقم جائز نہیں ہے۔ آپ وضاحت فرما دیجیے کہ انعامی بانڈ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

ج: کسبِ مال کے ضمن میں قرآن پاک یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے۔ اکتسابِ مال کے ضمن میں سود کو حرام کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۷۵-۲۷۹)‘ خواہ اس کی شرح کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ شخصی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی وصنعتی اور زراعتی ضروریات کے قرضوں پر۔ اسی طرح جوا (قمار) اور تمام وہ طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا‘ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو‘ بھی حرام ہے۔ (المائدہ ۵:۹۰)

انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کی صورت کچھ یوں ہے کہ حکومتِ پاکستان مختلف حوالوں سے قرض لیتی ہے۔ اس قرض کی مختلف صورتیں ہیں جن میں بیرونی ادارے اور ممالک‘ مثلاً آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک وغیرہ شامل ہیں‘ اور ملکی سطح پر حکومت کمرشل بنکوں کے علاوہ عوام سے بالواسطہ طور پر قرض حاصل کرتی ہے۔ یہ قرض ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ اسپیشل سیونگ سرٹیفیکیٹ اور انعامی بانڈ کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ حکومت اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے لیے گئے ان قرضوں پر سود ادا کرتی ہے اور پاکستان کے بجٹ کی سب سے بڑی مد یہی سود اور قرضوں کی ادایگی (debt servicing)ہی ہوتی ہے۔

انعامی بانڈ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈ بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہروثیقہ دار (انعامی بانڈ خریدنے والے) کو اس کی دی ہوئی رقم پرفرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کر کے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے انعامات کی شکل میں دیا جاتا ہے اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ انعامات کن کو دیے جائیں گے‘ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا ہے… یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روحِ قمار بھی۔ جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بہ صورتِ انعام دی جاتی ہے اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس طرح لاٹری میں لوگوں کے نام انعامات نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے‘ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل  رقمِ قرض نہیں ماری جاتی۔ (ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۶۳ئ‘ بہ حوالہ رسائل و مسائل، حصہ سوم‘ ص ۲۳۹)

مولانا سیدابوالاعلیٰ موودیؒ نے یہ جواب ۱۹۶۳ء میں دیا‘ اس کے بعد ۱۹۶۹ء میںربا کے مسئلے پر غورکے دوران پاکستان کی اسلامی مشاورتی کونسل نے انعامی بانڈ پر ملنے والی رقم کے بارے میں یہ رائے دی: ’’انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے وہ ربا (سود) میں شامل ہے‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے جو کہ حکومت ِ پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے انعامی بانڈ کے ضمن میں اپنی سفارش بذریعہ مراسلہ نمبر۷ (۴۴) ۸۳-آر سی آئی آئی‘ ۲۲ فروری ۱۹۸۴ء کو وزارتِ مذہبی امور کو اور وزارتِ خزانہ کو بتاریخ ۶مارچ ۱۹۸۴ء ارسال کی جس میں حکومت سے کہا گیا: ’’لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل وجوہاتِ مندرجہ ذیل کی بنا پر حکومت سے پرزور سفارش کرتی ہے کہ حکومت سابقہ کونسل کی سفارش کو فوری طور پر نافذ کر کے اس پر سختی سے عمل کرائے۔ چونکہ انعامی بانڈاسکیم کی لعنت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ انعامی رقم سود ہے جوازروے شریعت ممنوع و حرام ہے۔ چونکہ انعامی بانڈ کی رقم پر ٹیکس نہیں ہوتا اس لیے لوگ اپنے کالے دھن کو چھپانے کے لیے انعامی بانڈ اسکیم کا سہارا لے رہے ہیں۔ سرمایہ کاروبار سے نکال کر اس اسکیم میں لگایا جا رہا ہے جس سے کاروبار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ انعامی رقم بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے جو کہ میسر ہے جو ازروے قرآن حرام ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پر زور دیتی ہے کہ انعامی بانڈ اسکیم اور دیگر اسی قسم کے کاروبار کا جو میسر کے زمرے میں آتے ہیں‘ مکمل طور پر قلع قمع کیا جائے۔ (اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ‘ براے سال ۸۴-۱۹۸۳ئ)

لہٰذا انعامی بانڈ کی نوعیت ِ معاملہ‘ مولانا مودودیؒ کی تفصیلی رائے‘ اسلامی مشاورتی کونسل (۱۹۶۹ئ) اور اسلامی نظریاتی کونسل (۱۹۸۴ئ) کی دو ٹوک رائے کی روشنی میں‘ انعامی بانڈ پر ملنے والی انعامی رقم سود ہے اور جس انداز اور قرعہ اندازی کے ذریعے انعام کا تعین کیا جاتا ہے وہ قمار کی صورت ہے۔ مزیدبرآں انعام پانے والوں کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے کہ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے اور اس پر ’’اللہ کا خاص فضل و کرم‘‘ ہے، جب کہ انعام سے رہ جانے والے لوگ کبھی تو اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں اور اپنے مقدر کو کوستے ہیں‘ اور کبھی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سننے میں آتی ہیں جو منافی اسلام ہیں۔

مندرجہ بالا آرا اور دلائل کی بنا پر اور اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انعامی بانڈ اور اسی طرح کے دوسرے سودی اور قمار پر مبنی کاروبار یا لین دین سے پرہیز کیا جائے اور اپنے دین کی حفاظت کی جائے اور دنیا کے فوری اور قلیل فائدے کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمداکرم)

ناخلف بیٹے سے رویہ

سوال: کچھ عرصہ قبل ’رسائل و مسائل‘میں اپنے باپ کے نامناسب رویے پر ایک بیٹے کا جواب ’والد سے حق کی وصولی‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) شائع ہوا تھا۔ میں ایک باپ کی حیثیت سے ناخلف بیٹے کے رویے کے بارے میں قرآن و سنت سے رہنمائی چاہتا ہوں۔

میرا بڑا بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ مکان میں رہتا ہے۔ ۲۰سال قبل اپنی معاشی پریشانی کے پیشِ نظراپنے باپ سے مدد کے لیے کہتا ہے۔ بحیثیت والد اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے ایک دکان خرید کر بیٹے کے حوالے کر دیتا ہوں اور کاروبار کی بہتری کے لیے امکانی حد تک تعاون کرتا ہوں۔ میرے بیٹے نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس دکان کے آپ ہی مالک ہیں اور جیسے آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ میرا بیٹا تحریکِ اسلامی سے بھی وابستہ ہے‘ رکن ہے۔ لیکن اچانک ایک روزبغیرکسی مشورے اور اطلاع کے میرے بیٹے نے وہ دکان فروخت کر دی۔ اب میں اس پیرانہ سالی میں انتہائی کس مپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہا ہوں‘ اپنی بیوی اور بیٹی کے اخراجات برداشت کر رہا ہوں۔ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے اور خیرات اور زکوٰۃ پر گزربسر کرتے ہوئے مجھے شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ سرِدست خدا کی ذات پر بھروسا اور صبر کا سہارا ہے۔ اپنے حق کی وصولی کے لیے میرا کیا طرزِعمل ہو‘ نیز ایسے بیٹے کے ساتھ ایک باپ کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟

جواب: آپ نے اپنے صاحبزادے کے طرزِعمل کے بارے میںجو تفصیلات لکھی ہیں وہ ہر حساس اور اللہ سے ڈرنے والے کے لیے تکلیف کا باعث ہیں لیکن حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک ہر دو جانب سے بات نہ سن لی جائے‘ کوئی قطعی راے نہ قائم کی جائے۔ ویسے تمام تفصیلات لکھنے کے باوجود آپ کے خط میں کوئی واضح سوال بھی نہیں اٹھایا گیا۔ غالباً مدعا یہی ہوگا کہ اس طرح کے طرزِعمل کے بارے میں ایک باپ کا ردعمل کیا ہو۔ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے اس میں آپ کا ردعمل وہی نظر آتا ہے جو اسلام چاہتا ہے یعنی اپنی اولاد کی طرف سے مایوس کن اور غیرمتوقع رویے کے باوجود قطع رحمی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر بہترین اجر دے اور صبرواستقامت کے ساتھ اس تکلیف دہ صورت حال کو برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔

آپ نے خط میں جو مسائل اٹھائے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے بیٹے کو ایک دکان خرید کر دی جس کی ملکیت اس کے نام ہے اور آپ اس کا انتظام ونگرانی کر رہے ہیں تو کیا قانونی طور پر اسے اس دکان کو فروخت کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں بات واضح ہے۔ اگر آپ نے دکان اس کے نام سے خریدی ہے تو اصل مالک تو بیٹا ہی ہوا۔ اب یہ آپ کا ایک انتظامی معاملہ تھا کہ آپ دکان پر بیٹے سے تعلق کی بنا پر محنت کے ساتھ وقت دیتے رہے۔ دراصل مالی معاملات میں قرآن کریم نے بلاتخصیص یہ اصول رکھا ہے کہ ہر معاہدے کو تحریر میں لے آیا جائے۔ اگر آپ نے یہ بات تحریر کرالی ہوتی کہ جب تک آپ حیات ہیں اس وقت تک آپ دکان کے مالک و منتظم ہوں گے توآپ کا بیٹا بھی اس معاہدے کا پابند ہوتا۔

یہاں تک تو بات قانونی نوعیت کی تھی۔ اس معاملے کا دوسرا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن وسنت نے والدین کو جو مقام خاندان میں دیا ہے‘ اس کے پیشِ نظر اگر ایک باپ مفلس بھی ہو اور بیٹا مال دار ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: وہ اور اس کا مال سب اس کے باپ کا ہے۔ اس حدیث کی تعبیر بعض حضرات یہ کرتے ہیں اس میں ترغیب و تعلیم ہے تشریع نہیں ہے۔ لیکن اگر حدیث کے سیاق پر غور کیا جائے تو بات محض اخلاقی وعظ کی نہ تھی بلکہ ایک باپ نے حضورؐ سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تھی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ باپ اور بیٹا دونوں صحابی تھے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اصحاب رسولؐ ہر لحاظ سے ہم سے زیادہ اللہ کا خوف کرنے والے اور تربیت یافتہ تھے۔ گویا اس تربیت کے باوجود ایک بیٹا بوجوہ‘ اپنے باپ کی ضروریات سے لاپروائی برتتا ہے حتیٰ کہ باپ کو نبی کریم ؐ سے شکایت کی نوبت آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان صحابی کی مثال کی روشنی میں آج کا بیٹا باپ کی ضروریات سے لاپروا ہوجائے یا ایسے معاملات میں جن میں مشاورت کا حکم دیا گیا ہے خود کو بالغ سمجھتے ہوئے جو چاہے کرڈالے‘ بلکہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے پر باپ کا کتنا زیادہ حق ہے‘ اس لیے آپ کے صاحبزادے نے آپ کے بیان کے مطابق جو کچھ کیاہے‘ وہ مناسب نہیں۔ انھیں آپ سے مشورے کے بعد دکان کا معاملہ طے کرنا چاہیے تھا اور آپ کے حقوق کا مکمل احترام و اہتمام کرنا چاہیے تھا۔

مزید یہ کہ اگر وہ جانتے ہیں کہ آپ کتنی سخت مالی مشکلات میں ہیں تو قرآن کا حکم    ان کے لیے واضح طور پر یہ ہے کہ اپنے والدین پر خرچ کرو‘ بطور احسان نہیں بلکہ بطور فریضہ۔  اور آپ کو بھی ان سے مالی خدمت لینے میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ آپ کا حق ہے۔   اللہ تعالیٰ اولاد اور والدین دونوں کو راہِ راست پر چلنے کی توفیق دے۔ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ ایسے معاملات میں اگر لڑکا کسی ناانصافی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے تو تحریک کے نظم یا خاندان کے ایسے افراد سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو لڑکے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)


میڈیکل کالج میں دعوتی حکمت عملی

س :  میں سندھ میڈیکل کالج کراچی کی طالبہ ہوں۔ ہمارے کالج میں شہر کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ آتا ہے‘ تاہم یہاں کا ماحول ان کے لیے زہرقاتل کا کام انجام دے رہا ہے۔ کالج میں طلبہ کی سیاسی تنظیموں کی بھرمار ہے اور ہرتنظیم بدی کو پھیلانے میں اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہے۔ خصوصاً ایم کیو ایم کی اے پی ایم ایس او‘ پنجابی پختون ایسوسی ایشن‘ سندھی میڈیکوز وغیرہ۔ ان تمام تنظیموں کی دو طرح کی سرگرمیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف کالج میں بدی اور بدامنی کا فروغ ہے۔ تفریح کے نام پر میوزیکل کنسرٹ‘غزل نائٹ‘ اسپورٹس ویک جیسے پروگرام اتنے تواتر سے ہوتے ہیں کہ تقریباً ہرماہ ایک پروگرام ضرور کالج میں ہورہا ہوتا ہے۔ جس دن یہ پروگرام ہوتے ہیں اُس سے ایک ہفتہ پہلے ہی یہ تنظیمیں پورے کالج کی تعلیمی سرگرمیاں بند کرا دیتی ہیں اور پھر ریہرسل کے نام پر پورا پورا دن تیز میوزک‘ ڈانس اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں کالج کے اندر ہوتی رہتی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کی کثیرتعداد ان سرگرمیوںمیں بھرپورحصہ لیتی ہے۔ دین کی سمجھ اور اللہ رب العالین کی عطا کردہ غیرت رکھنے والا دل‘ یہ سب کچھ بہت مشکل سے برداشت کرپاتا ہے۔ ان حالات میں ہم‘ اسلامی جمعیت طالبات‘ میوزک کے حوالے سے پوسٹرز‘ جن میں قرآنی آیات درج ہوتی ہیں‘ کالج میں لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبات سے خصوصی ملاقات کر کے انھیں اس حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ وہ ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں بلکہ جمعیت طالبات سے کترانے بھی لگتی ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے کالج میں ’فرسٹ ایئرفولنگ‘کے نام پر انتہائی قبیح برائی جاری ہے جس میں نئے آنے والوں کو محض بے وقوف بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ لیکچر کے دوران ساری تنظیموں کے لڑکے اور لڑکیاں کلاسوں میں داخل ہوکر‘ٹیچر کو کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں اور کمرے بند کر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک حرکتیں کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر جمعیت طالبات نے پرنسپل سے بات کی‘ اساتذہ سے ملاقاتیں کیں کہ وہ اس غلط حرکت کو روکیں‘ تاہم پرنسپل تو عموماً ان اوقات میں غائب ہوجاتے ہیں‘ ٹیچر بھی کچھ نہیں کرتے اور ایک دفعہ تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق رفیق‘ ہمارے ٹیچر نے اُلٹا ہمیں ہی ڈانٹ دیا کہ ’’آپ یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہیں مسلمان نہیں۔ اسلام کو مسجد تک رہنے دیں‘‘۔ غرض اس طرح کا رویہ اساتذہ کا ہے۔ جہاں تک طلبہ و طالبات کی بات ہے تو واقعی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ان تمام چیزوں سے محظوظ ہوتی ہے۔ یقین کیجیے کہ اُس وقت دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے جب پورا کالج گانوں کی آواز سے گونج رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی لڑکے لڑکیاں اس آواز پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں ہم کالج میں ہفتہ وار درسِ قرآن رکھتے ہیں۔ دو سال پہلے تک طالبات کی اچھی خاصی تعداد اس میں شرکت کیا کرتی تھی‘ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ درس میں صرف اور صرف کارکنان ہی آتی ہیں۔ طالبات کے ساتھ ملاقاتیں کی جاتی ہیں جس میں کبھی ان کے ساتھ مل کر حدیث یا قرآن کا مطالعہ کرلیا جاتا ہے‘ کبھی کوئی اور اچھی بات‘ لیکن گذشتہ دو برسوں سے ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اب طالبات ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔ اگرچہ پورے کالج میں عام تاثر یہ ہے کہ جمعیت سے وابستہ طالبات اخلاق اور پڑھنے کے لحاظ سے بہت اچھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔ امدادِ طالبات کے حوالے سے ہمارا بھی کافی کام ہے۔ مستقل بُک بنک ہے‘ کتابوں کی لائبریری ہے‘ طالبات کی ضرورت کے حوالے سے نوٹس وغیرہ بھی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ غرض طالبات اپنے کاموں کے لیے تو ہمارے پاس خوشی خوشی آتی ہیں لیکن اگر ہم ان کے پاس قرآن یا پھر اس حوالے سے کسی اور پروگرام کے لیے جاتے ہیں تو وہ فوراً کسی دوسری طرف چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ جب گرلز کامن روم میں درسِ قرآن ہوتا ہے تو باہر ہی سے دیکھ کر وہ اُلٹے قدموں واپس لوٹ جاتی ہیں۔

ہم اپنے تئیں انھیں مثبت تفریح فراہم کرنے کے لیے کالج کی سطح پر بہت بڑا میلہ بھی منعقد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف پروگراموں میں ڈرامے وغیرہ بھی ہوتے ہیں لیکن طالبات کی شرکت بہت کم رہتی ہے۔ غرض یہ کہ ہم ہر طرح سے کوشش کرتی ہیں کہ انھیں تفریح بھی فراہم کریں اور اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیں۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتی ہیں کہ ہماری تمام کوششیں اور محنتیں اس وقت ضائع ہوجاتی ہیں جب لوگ ہماری بات تک سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ قریبی سہیلیاں تک دُور ہو جاتی ہیں۔ یہ تاثر بھی ہے کہ لوگ ہم سے اس لیے دُور ہوجاتے ہیں کہ ہم روک ٹوک کرتی ہیں۔ ہم لوگ آزمایش اور کام کی محنت سے تو نہیں گھبراتے لیکن بس یہ بات پریشان کر دیتی ہے کہ کیا دعوت کا کام رُک جائے گا‘ دعوت محدود ہو جائے گی؟

ازراہ کرم ہماری رہنمائی فرما دیجیے کہ ہمیں اپنی تربیت کے کن پہلوئوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟ دعوت کے کٹھن میدان میں آنے والی ان مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے اور کیا حکمت عملی اختیا ر کی جائے‘ اور کن دعوتی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے‘ نیز اس طرح کے حالات کو انقلابِ اسلامی کے لیے ہونے والی کوشش اور ان کے اثرات کے حوالے سے کس نظر سے دیکھا جائے؟

ج: آپ نے اپنے میڈیکل کالج میں جس ماحول کا تذکرہ اپنے مفصل خط میں کیا ہے‘ وہ آپ کے کالج تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ ۵۵سال سے قوم کی غفلت اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے سبب ایک سرطان کی طرح ملک کی تمام درس گاہوں میں پھیل چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ نہ بھولیے کہ ان ۵۵ برسوں میں نوجوان نسل میں آپ جیسی باشعور‘ بااصول اور باہمت قیادت کرنے والی بچیاں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں اور انھوں نے خراب سے خراب ماحول میں اپنے کردار‘ اپنے لباس ‘ اپنے تعلیمی نتائج غرض ہرحیثیت سے اپنے آپ کو ممتاز حیثیت میں پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کفر اور فحاشی اور عریانیت کے سورمائوں کے مقابلے میں ایک باشعور اور باکردار بچی کا اپنے دین پر قائم رہنا زیادہ بھاری ہے اور اس کا وجود کفراور فحاشی کے ایوانوں کو لرزانے کے لیے کافی ہے۔

جہاں تک محافلِ موسیقی اور دیگر غیر اخلاقی پروگراموں اور ان کی ریہرسل کے ذریعے‘ طلبا تنظیموں کی جانب سے تدریسی عمل میں خلل ڈالنے کا سوال ہے تو اس میں آپ کو ایک جانب کالج کی انتظامیہ پر کام کرنا ہوگا اور دوسری جانب یہ دیکھنا ہوگا کہ جو طلبہ اور طالبات موسیقی اور گانوں کے اسیرہوچکے ہیں‘ انھیں کس طرح اس لت سے نکالنا ہے۔ قرآن کریم نے اہلِ مکہ کے حوالے سے ہمیں بتایا ہے کہ وہ بھی دعوت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے دلائل کے بجاے لہوالحدیث ہی کو لائے تھے‘ چنانچہ ناچنے گانے والے اور قصہ گو طائفوں اور موسیقاروں کے ذریعے انھوں نے اہلِ مکہ کو منکرات میں اُلجھانا چاہا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہ کی۔ اور ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں یہ بات کہی کہ اگر تم قصوں کو اہمیت دیتے ہو تو ہم تمھیں احسن القصص سناتے ہیں گویا ایسے کوائف جو بجاے منکر کے مُعروف اور بھلائی اور نیکی کی طرف لے جانے والے ہوں۔

آپ ایک جانب کالج کی انتظامیہ کے لیے ایک حکمت عملی بنائیں کہ ان میں کون سے افراد ایسے ہیں جو دلی طور پر فحاشی کے حامی نہیں ہیں لیکن ماحول کی وجہ سے خاموش ہیں اور  کون لوگ آپ کی سی فکر رکھتے ہیں اور کتنے افراد فحاشی کی حمایت کرنے والے ہیں۔ آخری قسم کو چھوڑ کر بقیہ کے لیے ایک منصوبہ بنائیں‘ ان سے کالج میں ہونے والے واقعات پر‘ ایسے وفود کی شکل میں ملیے‘ جس میں نہ صرف باحجاب بلکہ ایسی لڑکیاں بھی ہوں جو حجاب نہ کرتی ہوں لیکن آپ کی مخالفت بھی نہ کرتی ہوں اور برائی کو برائی سمجھنے میں آپ کی ہم خیال ہوں۔ یہ کام صبر اور ہمت سے کافی عرصہ کرنا ہوگا جب اس کے اثرات نظرآئیں گے۔

دوسری جانب بجاے محض پوسٹرلگانے یا محض درسِ قرآن یا درسِ حدیث کرنے کے‘ دیگر ایسے موضوعات پر پینل ڈسکشن یا ڈائیلاگ کروائیں جن میں دیگر طالبات کو بھی دل چسپی ہو۔ شام غزل میں اگر آپ لوگ ایسے شعرا کا کلام منتخب کریں جس میں کوئی فحاشی نہ ہو‘ چاہے وہ شعرا اسلامی ادب کی تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ اردو شاعری میں میرتقی میر‘سودا‘ غالب‘ مومن‘ ذوق‘ حالی سے اقبال‘ حسرت‘ اصغر‘ جگر‘ ماہر‘ فضلی‘ نعیم صدیقی اور منیرنیازی تک ہر شاعر کے یہاں اچھی غزلیں اور نظمیں ہیں جن کو جائز تفریحی پروگراموں میں بلاتکلف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبات کو ایک متبادل ماحول دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یاد رکھیے جب کوئی شخص آپ سے بھاگنا شروع کر دے تو اس پر الزام دینے کے بجاے اپنی حکمت عملی پر غور کیجیے کہ اس میں کیا کمی یا خامی ہے۔ بعض اسلامی فکر رکھنے والے افراد نے ایسے نغمے لکھے ہیں جو محفلوں میں پیش کیے جاسکتے ہیں‘ مثلاً یوسف اسلام کے بعض نغمے۔ جو حضرات اسلام کو مسجد میں قید کرنے کے قائل ہیں انھیں بھی lost case نہ سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے کر انھیں بھی آپ سے قریب لاسکتا ہے۔

اپنے متعین سوالات کے حوالے سے پہلی بات یہ یاد رکھیے کہ گفتگو کا مقصد تو لازماً قرآن و سنت سے قریب لانے کی خواہش میں ہونا چاہیے لیکن گفتگو کے موضوعات میں کرکٹ میچ‘ کسی ٹی وی ڈرامے کی کہانی‘ شہرمیں ہونے والا کوئی واقعہ‘ کالج کی سرگرمیوں پرتبصرہ‘ کسی طبی فنی معاملے میں ہونے والی کوئی تحقیق‘ جس میں اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہو‘ عالمی حالات‘ ملک کی معاشی صورت حال‘ ثقافت کس چیز کا نام ہے‘ کیا ہندو ثقافت اور ہماری ثقافت میں کوئی اشتراک ہے؟ کیا اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرنا درست ہے؟ کیا امریکہ‘ افغانستان‘ مشرق وسطیٰ اور دیگر مقامات پر دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ مسائل کا حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ گویا قرآن و حدیث تک لانے کے لیے زندگی کے تمام معاملات پر گفتگو کو اختیار کریں۔ اس میں آپ کو بھی مطالعہ وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی اور آپ کی image محض درسِ قرآن کی نہیں رہے گی۔ ان تمام موضوعات پر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا نقطۂ نظر کیا ہو۔ اگر اس پہلو پر آپ کی سوچی سمجھی رائے دوسروں کے سامنے آئے گی تو یہ بھی دعوت دین ہی ہے۔

دعوت کے ضمن میں یہ بنیادی بات ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک آپ خود ان لوگوں کے قریب نہ ہوں جنھیں قریب لاکر پیغامِ ربانی پہنچانا مقصود ہو تو دعوت کا اثر بھی کم ہوگا۔ طالبات میں امدادی کام‘ امتحانی پرچوں کی فراہمی‘ نوٹس اور کوچنگ اس حوالے سے ملاقات اور تعاون کا ایک اچھا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن اس میں مزید نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مثلاً مختلف قسم کے کھانوں کا بازار‘ جس کا مقصد نہ صرف متنوع کھانے فراہم کرنا ہو بلکہ دو تین دن تک اس بہانے عام طلبہ سے تعارف ہو تاکہ آپ بعد میں ان کو دعوت دے سکیں۔

جہاں تک سوال اپنی تربیت کا ہے‘ وہ اس مخالف ماحول میں سوچ سمجھ کر‘ صبرواستقامت‘ اور حکمت کے ساتھ کام کرنے سے ہی خود بخود ہوتی رہے گی۔ اس کے لیے آپ کو الگ سے کوئی ہفتہ تعمیر سیرت منانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتے وقت یہ سوال سامنے ضرور لائیں کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ صورتِ حال درپیش ہوتی تو آپؐ اس کا کیا حل نکالتے۔ کس حد تک جاتے اور کن باتوں کونظراندازکرتے‘ کن پر گرفت کرتے‘ جس چیز کا نام اسلامی انقلاب ہے وہ ایک مسلسل تعمیری عمل ہے۔ اس میں فکری تبدیلی‘ عملی اصلاح‘ اجتماعی تربیت و تزکیہ اور آخرکار اداروں کی تبدیلی شامل ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کام چند دنوں میں نہیں ہوسکتے۔ اس میں وقت‘ مال‘ انسانی کاوش ہر ایک کا حصہ شامل ہوگا۔ لیکن یہ یقین رکھیے کہ اس تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ جلد اس کے اثرات نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔(۱-۱)

جہیز اور مہر کی حیثیت

سوال: ہمارے ہاں شادی کے موقع پر جہیز کا بڑا اہتمام ہوتا ہے۔ کچھ لڑکیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی ہوجانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ شریعت میں اس کا کیا مقام ہے‘ نیز مہر کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی رہنمائی زندگی کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)‘ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج وَھُوَ  فِی  الْاٰخِرَۃِ  مِنَ  الْخٰسِرِیْنَo (۳:۸۵)‘ یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ تو اللہ کے ہاں صرف اسلام ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ ڈھونڈ نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا اور ایسا فرد آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ شادی غمی بالخصوص نکاح کے لیے بھی اسلام نے اپنا ایک طریقہ اور نظام قائم کیا ہے اور وہ یہ کہ مرد گھر بسانے اور آباد کرنے کا مکمل ذمہ دار ہے۔ گھر والی کے جملہ اخراجات بھی شادی کے بعد مرد ہی ادا کرے گا‘ عورت کسی چیز کی ذمہ دار نہ ہوگی۔ البتہ عورت گھر کا انتظام سنبھالنے‘ بچوں کی اچھی تربیت کرنے اور شوہر کی تمام جائز ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرنے کی پابند ہوگی۔

اس طرح گھر کی آبادکاری اور جملہ ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔ البتہ اگر لڑکی خود یا اس کے والدین اور سرپرست بچی کے ساتھ بطور جہیز کے کچھ سامان یا چیزیں دینا چاہیں تو ان کے دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ جہیز فراہم کرنا اپنے اوپر ہر حال میں لازمی کر لینا صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی گھرانے کے مالی حالات جہیز دینے کی اجازت نہیں دیتے تو بالکل جہیز نہیں دینا چاہیے‘ بالخصوص ادھار اور قرض لے کر بچی کو بھاری بھرکم جہیز دینا نہ کوئی  عقل مندی ہے اور نہ اسلام اس کی اجازت ہی دیتا ہے۔

لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکی سے جہیز کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ سامان فراہم کرنا مرد کی اپنی ذمہ داری ہے اور دوسروں سے اس کی توقع رکھنا مردانگی کے خلاف ہے۔ رشتہ خاتون سے ہونا چاہیے نہ کہ جہیز کے سامان سے۔ حضوؐر پاک کی سنت بھی یہ ہے کہ حسب استطاعت بچی کو بطور تحفہ کچھ سامان جہیز میں دیا جائے۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں جہیز دینا یا اس کی توقع رکھنا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اسلام میں مرد اور عورت دونوں کے درمیان نکاح کے وقت مہر کے طور پر کوئی بھی رقم متعین کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ رقم کسی بھی صورت میں اتنی نہیں ہونی چاہیے جس کی ادایگی ہی ناممکن ہو اور خاندان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو۔ حضور پاکؐ نے کم مہر کو پسند فرمایا تاکہ شادی کا کلچر عام کیا جاسکے۔  سیدہ نساء اہل الجنۃ بی بی فاطمہؓ حضوؐر کی بڑی پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کا رشتہ حضرت علیؓ سے صرف ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے مہر سے طے پایا تھا جو ۵۰۰درہم کے برابر تھا یعنی تقریباً ۱۲‘۱۳ تولے چاندی جو آج کے مطابق تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپے بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مہر کی رقم دولہا کی مالی حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ نہ تو اتنا کم ہو‘ جیسے بعض علاقوں میں ۵۰اور ۴۹روپے رکھا جاتا ہے جو محض خانہ پُری ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ مہرکا تعین لاکھوں میں کر دیا جائے جس کی ادایگی پھر مرد کے لیے ممکن نہ رہے۔

ہمارے معاشرے کی غلط رسوم و رواج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو شادی کے وقت نظر لڑکی کے جہیز پر ہوتی ہے کہ ساتھ کیا کچھ آتا ہے تو دوسری طرف مہر کا تعین اتنا زیادہ کر دیا جاتا ہے کہ بعد میں اس کا مہیا کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی عورت کو فارغ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ مہر کس طرح ادا کیا جائے گا۔ لہٰذا عورت کو درمیان میں لٹکا دیا جاتا ہے‘ نہ اس کو فارغ کیا جاتاہے اور نہ اس کو آباد ہی کیا جاتا ہے‘ جب کہ مطلوب یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط  (النساء ۴:۴)‘یعنی اپنی بیبیوں کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو۔ اورحضوؐر پاک کا ارشاد ہے کہ ان اوفی الشروط ما استحللتم بہ الفروج‘ یعنی شادی کے وقت جو شرائط مہروغیرہ کی صورت میں تم متعین کرلو اس کو پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ جہیز اور مہر دونوں کے بارے میں میاں بیوی اور ان کے خاندان والوں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کیونکہ اسلام تو نام ہی اس اصول کا ہے کہ لا ضرر ولا ضرار‘ یعنی نہ خود نقصان اٹھائو اور نہ اوروں کو نقصان پہنچائو۔ نہ کسی کے ہاں سے جہیزکی امید پر جیو‘ نہ قرض لے کر جہیز دو۔ نہ زیادہ مہرکا تقاضا کرو‘ نہ اتنا زیادہ مہر دینے کا وعدہ کرو جو تمھاری برداشت اور تحمل سے زیادہ ہو۔ اسی صورت میں دونوں خاندانوں کے باہم مربوط اور خوشحال رہنے کے زیادہ امکان ہوں گے‘ شادی کا کلچر عام ہوگا‘ بدکاری اور فحاشی پروان نہیں چڑھے گی اور معاشرہ   صاف ستھرے ماحول میں پوری صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ روبہ ترقی ہوگا۔ دنیا میں بھی سکون نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہمارا مقدر ہوگی۔ (مولانا مصباح الرحمٰن یوسفی۔ بہ شکریہ دعوۃ‘ جولائی ۲۰۰۳ئ)


ٹائی کا استعمال

س: ادارے میں ٹائی پہننے کے حوالے سے شدید دبائو رہا ہے لیکن میں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس معاملے کو ٹالتا رہا ہوں‘ اس لیے کہ علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے مزید ایسا کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ میری رہنمائی فرما دیجیے۔

ج: اسلام نے لباس کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول ہمیں دیے ہیں ان میں جسم کا تحفظ‘ زینت اور سادگی کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو اس سے تکبر کا اظہار ہو اور نہ جان بوجھ کر لاپروائی اور غربت کا اظہار کیا جائے۔ گویا ایک شخص اپنی استطاعت اور ضرورت کی مناسبت سے لباس کی وضع قطع اور اس کے لیے مناسب کپڑے کا استعمال کرے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ٹائی کے استعمال کی کوئی روایت نہیں ملتی‘ جب کہ مغربی لباس سے وابستہ روایت میں اس کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ اس استعمال کے حوالے سے ایک دور تھا جب اہل ثروت ٹائی کا استعمال رسمی لباس کے حصے کے طور پر کرتے تھے۔ بعض عیسائی فرقوں میں ایک ڈوری کالر کے گرد باندھ دی جاتی تھی جو گلے میں لٹکتی رہتی تھی۔ کبھی اس میں کوئی پتھر یا موتی نما چیز اور کبھی صلیب بھی لٹکا لی جاتی تھی۔ یہ رواج آہستہ آہستہ متروک ہوگیا اور ٹائی کا استعمال وہ سب لوگ کرنے لگے جو مذہب کو اہمیت دیتے ہوں یا اس کے مخالف۔ گویا اس کی نسبت کسی خاص طبقے‘ فرقے یا مذہبی مسلک سے نہ رہی۔ فقہ کا ایک کلیہ یہ ہے کہ اگر ایک چیز کی حالت تبدیل ہو جائے تو حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایک لباس کسی خاص طبقے یا فرقے کی اجارہ داری یا پہچان نہ رہے تو اس کی کراہت بھی باقی نہیں رہے گی۔ یہی شکل کوٹ پتلون اور ان لباسوں کی ہے جو وقت کے ساتھ کسی خاص قوم‘ مذہب یا فرقے سے وابستہ نہیں رہے۔

جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ کوٹ پتلون یا کالر والی قمیص کس حد تک ساتر ہے۔ اس میں کوئی نفس کے فتنے کا سامان تو نہیں۔ گویا ٹائی ہو یا پتلون اور کوٹ‘ اس کے عمومیت اختیار کرلینے کے سبب اس پر وہ حکم نہیں لگے گا جو کسی قوم سے مشابہت کا ہے۔ اس کے حلال یا حرام ہونے سے قطع نظر اگر محض شریعت کے اس اصول پر غور کیا جائے جس میں شریعت ہمارے لیے آسانی چاہتی ہے تو عقل یہ کہتی ہے کہ ٹائی آسانی کی جگہ دقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اگردو بھلے آدمیوں میں سے ایک کو ٹائی پہنا کر اور دوسرے کو بغیر ٹائی کے کھلے کالر کی قمیص کے ساتھ آپ کسی بند کمرے میں جہاں ہوا کا گزر نہ ہو بٹھا دیں تو ۱۵ منٹ کے بعد جس نے ٹائی کس کر باندھ رکھی ہے‘ ٹائی ڈھیلی کر کے یا مکمل طور پر گلے سے اُتار کر الگ رکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ جن دفاتر میں رسمی طور پر ٹائی استعمال کرائی جاتی ہے جیسے ہی کھانے کا وقفہ ہوتا ہے بھلے آدمی ٹائی کو کھول کر رسّی کی طرح گلے میں لٹکا لیتے ہیں یا اُتار کر اس کو رکھ دیتے ہیں اور پھر جب دوبارہ دفتر کی کرسی پر واپس جانے کا وقت آتا ہے تو گلے میں کس کر تیار ہو جاتے ہیں۔

آخر یہ کون سا حکیم لقمان کا نسخہ ہے کہ جب تک ٹائی نہ ہوگی اچھا sales person نہیں بن سکتا یا اچھا مینیجرنہیں بن سکتا۔ اس لیے دین کے سہولت پسند ہونے کی بنا پر اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ گو اسے حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کا حق صرف شارع کو ہے‘ کسی انسان کو نہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)


حصص کا کاروبار

س: میرے کچھ دوست مختلف کمپنیوں کے حصص کے لین دین میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ لیکن میرے علم کے مطابق بعض علما کے نزدیک حصص کا کاروبار اسلامی نقطۂ نگاہ سے درست نہیں۔ وہ اس کی یہ وجوہات بیان کرتے ہیں:

  •   یہ کمپنیاں اپنے معاملات سود کی بنیاد پر طے کرتی ہیں‘ اس لیے اُن کا حصے دار بننا گویا سودی کاروبار میں حصے دار بننا ہے۔
  • اس کاروبار میں کوئی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔

میرا خیال ہے کہ نفع اور نقصان کے اس کاروبار میں برابر کا امکان ہے اور بازارِ حصص (shares market) کا تجزیہ بذاتِ خود ایک مشقت طلب کام ہے جو اس کاروبار میں محنت کے عنصر کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔

اس بات پر کہ چونکہ یہ کمپنیاں اپنے معاملات سودی نظام کے تحت طے کرتی ہیں‘ اس لیے ان کا حصے دار بننا جائز نہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی کاروبار یا ملازمت‘ چاہے وہ نجی نوعیت کا ہو یا سرکاری‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح موجودہ نظام کے تحت اُس کی کڑیاں سودی نظام ہی سے جا ملتی ہیں۔ اس صورت حال میں کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے؟

ج: قرآن کریم نے بیع اور تجارت کو حلال (البقرہ ۲:۲۷۵) قرار دے کر چھوٹے اور بڑے کاروبار کرنے والوں کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرنے کے ساتھ اہل ایمان کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے صرف جائز ذرائع کو استعمال کریں۔لیکن کاروبار میں سرمایے کی فراہمی ایک مستقل مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کی ایک شکل یہ پائی جاتی ہے کہ ایک سے زائد صارف مل کر ایک کاروبار میں سرمایہ لگائیں اور اپنے سرمایے کے تناسب سے نفع یا نقصان میں شریک ہوں۔ اس غرض سے بہت سی کمپنیاں حصص کی فروخت کا اعلان کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے منصوبے کے لحاظ سے عوام ان کے حصص خرید کر حصے دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح جو نفع ایک حصے دار کو ملتا ہے وہ نہ سود کی تعریف میں آتا ہے نہ قمار اور جوئے کی تعریف میں آتا ہے۔ اس پورے عمل میں جوچیز بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ کمپنی کی سرگرمی ہے۔ اگر وہ کمپنی کسی ممنوعہ اور حرام کام میں رقم لگا رہی ہے تو یہ کاروبار اور اس کے شرکا‘ حرام کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگرکمپنی کی سرگرمی حلال اور جائز نوعیت کی ہے تو اس سے ملنے والا نفع کم ہو یا زیادہ‘ حرام کی تعریف میں نہیں آتا۔

اس لیے کسی کمپنی کے حصص لیتے وقت یہ تحقیق کر لیجیے کہ وہ کس نوعیت کا کاروبار کرنے جا رہی ہے۔ اگر وہ کاروبار حلال ہے تو اس میں حصص لینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا- ا)


بنک میں ملازمت کا مسئلہ

س:  بنک کی ملازمت کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے بالخصوص ایسے بنک جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اُن کے نظام کا بنیادی ڈھانچا اسلامی بنک کاری پر مبنی ہے؟

ج: اسلام انسان کی معاشی ضروریات کو ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اکلِ حلال کے حصول میں ہدف اور ذرائع دونوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ ایک شخص   نیک نیتی کے ساتھ چوری کرکے غربا و مساکین کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ بنک سود کی بنیاد پر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی واضح شکل ہے جیسے ایک ناچ گھر یا شراب خانے کا کاروبار کھلے طور پر حرام پر مبنی ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص اپنے اور اپنے بچوں کو فاقے اور موت سے بچانے کے لیے جگہ جگہ ملازمت تلاش کرتا ہے لیکن کہیں کامیابی نہیں ہوتی اور آخرکار اسے ایک ناچ گھر پر چوکیداری کی ملازمت مل جاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہاں پر حرام کا ارتکاب ہورہا ہے لیکن اس کے سامنے انتخاب یہ ہے کہ وہ یا تو فاقے سے مر جائے یا صبح سے رات تک چوکیداری کی مشقت کر کے اتنی رقم حاصل کرلے کہ بچے اور وہ خود فاقے سے نہ مریں۔ ایسی صورت حال میں شریعت اس کے لیے ایسی روزی کو اس وقت تک حلال قرار دیتی ہے جب تک اسے ایک حلال روزگار نہ مل جائے۔ انسانی جان بچانا شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے جو اصول دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایسی مجبوری آپڑے جس میں بغیر کسی باغیانہ روش کے اضطراراً ایک ممنوعہ شے استعمال کرنی پڑے تو صرف ضرورت کی حد تک اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رہا معاملہ ایسے بنکوں کا جو غیر سودی بنیاد پر کام کر رہے ہوں تو ان کی ملازمت اس زمرے میں نہیں آتی۔ وہاں پر کام کرنا ہر لحاظ سے جائز ہے۔ (ا- ا)


منگنی: نکاح کی ایک صورت؟

س: اسلام میں نکاح کا جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں بہ رضا و رغبت آپس میں شادی پر راضی ہوں اور اس پر کم سے کم دو گواہ موجود ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر منگنی لڑکے اور لڑکی کی خوشی سے اور اُن دونوں کے والدین کی باہمی رضامندی سے طے پائی ہو تو کیا اس کو نکاح کی ایک صورت تصور کیا جا سکتا ہے؟

ج: ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان عقد نکاح دراصل ایک ایجاب و قبول کا معاہدہ اور اعلان ہے جس میں لڑکی کی طرف سے اس کے ولی یا وکیل کا گواہوں کے سامنے یہ اظہار کرنا کہ لڑکی بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے نکاح پر آمادہ ہے اور رشتے کو منظور کرتی ہے‘ اور لڑکے کا گواہوں کے سامنے اس بات کے اظہار کا نام ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہے۔ اگر لڑکے اور لڑکی کے والدین نے آپس میں رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن لڑکے نے گواہوں کے سامنے قبولیت کا اعلان نہیں کیا تو اسے عقد نکاح تصور نہیں کیا جائے گا۔ہاں‘ اگر کسی مجبوری کی بناپر لڑکا خود قبولیت کا اعلان نہ کر سکتا ہو تو اس کا وکیل اس کی طرف سے ثبوت یا شہادت کی بنیاد پر قبولیت کا اعلان کر سکتا ہے۔ گو‘ اتنے اہم اور ذمہ داری کے معاملے میں خود لڑکے کا قبولیت کا اعلان کرنا لازماً افضل اور روح عقد کے مطابق ہے۔

رہا سوال منگنی کا‘ تو اس کا کوئی تعلق عقدنکاح سے نہیں ہے۔ یہ ایک مقامی رسم ہے جس کی کوئی سند قرآن و سنت سے نہیں ملتی اور یہ رشتے کو حلال نہیں کرسکتی۔ صرف عقدِنکاح ہی رشتے کو قائم و حلال کرتا ہے۔ (ا- ا)

شادی پر ویڈیو بنوانے سے انکار

سوال: میں الحمدللہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوں اور شرعی پردہ بھی کرتی ہوں۔ میری شادی عنقریب ہونے والی ہے۔ میرے گھر کا ماحول اسلامی ضرور ہے لیکن پھر بھی میرے گھر والے تصاویر اتروانا اور ویڈیو فلم بنوانا پسند کرتے ہیں۔ میری شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے۔ میرے چچا کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ میرے لیے یہ بات باعث ِپریشانی ہے کہ اب میں کیا کروں‘ جب کہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر کوئی کسی سے زیادتی کرے تو گناہ زیادتی کرنے والے کے سرجاتا ہے۔ میرے چچا بھی یہی کہتے ہیں کہ گناہ تو ہمارے ہی سرہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ میں کوئی کوشش ہی نہ کروں۔ پریشانی صرف میری شادی تک ہے۔ بعد میں وہ مجھے پردے کے حوالے سے کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن میرے لیے تو شادی پر بے پردہ ہونا بھی بہت بڑی بات اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے‘   جب کہ شادی کے معاملے میں میرے گھر والے اور چچابات ماننے کو تیار نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ نہ میری مووی بنے اور نہ میری تصویریں ہی اتاری جائیں۔ میرے تمام خاندان والے ایک طرف ہیں اور میں توکل علی اللہ ایک طرف ہوں۔ براہ مہربانی رہنمائی  فرما دیجیے کہ اس سلسلے میں مجھے کیا انتہائی اقدام کرنا چاہیے اور شادی کے وقت اپنا چہرہ کتنا اور کس حد تک کھول سکتی ہوں؟

جواب: شادی کے موقع پر ویڈیو فلم (مووی) بنوانا غیرضروری شغل ہونے کے علاوہ فحاشی اور عریانی کی اشاعت کا ذریعہ بھی ہے۔ شادی کے موقع پر دلہن بنی سنوری ہوئی ہوتی ہے اور جو خواتین شادی میں شرکت کرتی ہیں وہ بھی بن سنور کر آتی ہیں۔ ایسی صورت میں جو مووی بنے گی‘ اور دکھلائی جائے گی‘ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ ایسی مووی جب بنائی جاتی ہے تو اس وقت بھی منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس موقع پر صرف دلہن ہی نہیں دوسری   خواتین جو شادی میں شریک ہوتی ہیں‘ ان سب کی بھی مووی بنتی ہے‘ جو بے نقاب اور زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں‘ بعض نیم عریاں لباس میں بھی ہوسکتی ہیں‘ سب کی تصویر اس میں آئے گی۔ مرد و زن مخلوط ہوں‘ تو بیک وقت دونوں کی‘ اور الگ الگ ہوں تب بھی دونوں فلم میں یک جا ہوجائیں گے۔ مووی بنانے والا اور اس کے رفقا خواتین کی مجلس میں جائیں گے‘ ان کے مختلف پوز دیکھیں گے اور ان کا عکس لیں گے۔ گویا فلم کی تیاری میں بھی فحاشی اور عریانی ہے اور بعد میں جب اسے دکھایا جائے گا تب بھی محرم اور غیرمحرم‘ تمام اسے دیکھیں گے اور ان میں جنسی جذبات اُبھریں گے اور اس کے نتیجے میں برائی کے میلانات پروان چڑھیں گے۔ یہ تو پہلی خرابی ہے۔

دوسری خرابی اس میں بے غیرتی اور بے حمیتی کو فروغ دینا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی‘ اور ماں باپ اپنی بیٹی کو حسن و جمال کے مظاہرے کے لیے پیش کریں تو اس میں غیرت و حمیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

تیسری خرابی یہ ہے کہ ایک خاتون شادی کے موقع پر شرم و حیا کا پیکر ہوتی ہے۔ باکرہ خاتون کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے ’’اس کا اِذن خاموشی ہے‘‘۔ اس لیے کہ اس موقع پر اس کی زبان گنگ ہوتی ہے۔ وہ یہ لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتی کہ میری طرف سے نکاح کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں اس کی مووی بنانا اس کے شرم و حیا کے جذبات پر ظلمِ عظیم ہے۔

ایسے میں کسی خاتون کا یہ کہنا ہے کہ میں اپنی مووی نہیں بنوائوں گی‘ قابل قدر و تحسین ہے۔ اس کی یہ خواہش ایسی ہے کہ پورے خاندان اور ہونے والے شوہر کو اس کا پورا احترام کرنا چاہیے۔ معاشرے کو ایسی خواتین کی خواہش کی تکمیل کے لیے فضا پیدا کرنا چاہیے اور مووی بنانے کے رجحان کو روکنا چاہیے اور روکنے میں مدد دینا چاہیے۔ خود بچی کے والدین اور اقربا کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نکاح جیسی پاکیزہ اور بابرکت محفل کو فحاشی و عریانی اور غلط رجحانات کے فروغ اور دین کے واضح احکام کی نافرمانی کر کے منکرات کے مرتکب ہونے کی جرأت‘ خدا کے مقابلے میں کس حوصلے پر کر رہے ہیں! کیا ان میں خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کی جرأت ہے؟ انھیں تو اپنی بچی کی اس خواہش پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور خدا کا شکرادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انھیں ایسی شرم و حیا اور سچے ایمان والی بچی سے نوازا ہے‘ چہ جائیکہ والدین اور بزرگ ایسی قبیح رسوم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر دین دار گھرانے بھی ایسا کریں اور یہ روش عام ہو جائے تو ہماری اخلاقی اقدار کا کیا بنے گا اور معاشرتی انحطاط کس تیزی سے وقوع پذیر ہوگا-- - یہ بات بھی سوچنے کی ہے!

ایسی صورت میں اگر کوئی بچی اپنی اس شرعی خواہش کو کہ اس کی شادی کی مووی نہ بنائی جائے‘ اپنے والدین تک پہنچاتی ہے‘ انھیں قائل کرنے کی اور ہم نوا بنانے کی پوری کوشش کرتی ہے‘ سسرال والوں تک بھی اپنے جذبات اور آواز پہنچاتی ہے اور اس کے بعد بھی اگر وہ نہ مانیں‘ تو وہ حکمت و تدبیر اور ماں باپ کے آداب کو ملحوظ رکھ کر دھمکی بھی دے سکتی ہے کہ اگر مووی بنائی گئی تو وہ نکاح کی اجازت نہ دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ دھمکی کارگر ہو جائے۔ البتہ ان ساری کوششوں کے باوجود اگر موقع پر مووی بنانے والے آجائیں تو ایسی صورت میں ایک حد تک رکاوٹ ڈالنے کی تدبیر کرے لیکن اگر شرم و حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو پھر نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالے کیونکہ نکاح ایک ایسی سنت ہے جس پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔

موجودہ حالات میں اگر کسی بچی کو ٹھیک شریعت کے مطابق رخصت نہیں کیا جاتا اور  اس میں مووی وغیرہ منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے تو وہ رخصت ہوتے وقت انکار کر کے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا نہ کرے۔ ایسی صورت میں اگر منکرات کا ارتکاب یا ان میں اضافہ ہوگا تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنھوں نے اس کی اجازت دی‘ اور پورے معاشرے پر ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ وہ اسے روکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کی سفارش کی ہے۔ اگر کھانوں کے رواج کو حکومت روک سکتی ہے تو مووی جیسی ناروا سرگرمی کو کیوں نہیں روک سکتی۔ اگر حکومت اس کے لیے تیار نہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔ نیک لوگوں کو ایسی شادیوں میں شامل ہونے اور علما کو نکاح پڑھانے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو اس برائی کا انسدادہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم!

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے عزم اور جذبے کی جزا دے‘ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے اور آپ کے اہلِ خاندان کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر دے۔ (مولانا عبدالمالک)


اذان کے بعد کی دعا ___ ایک شبہہ

س:  پاکستان ٹیلی ویژن پر نمازِ عشاء کی اذان کے بعد دعا پڑھی جاتی ہے: ’’اے اللہ! اس اذان کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب‘ تو محمد(ﷺ)کو وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقامِ محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘۔ ہم جو مقامِ رسالتؐ کی معرفت رکھتے ہیں تو کیا ہم گنہگاروں کو زیب دیتا ہے کہ ہم اللہ سے آپؐ کے لیے وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجے کی دعا کریں؟ کیا آج ۱۴۲۰ سال کے بعد حضوؐر کو مقامِ محمود نصیب نہیں ہوا؟ اور پھر ان سفارشات کے بعد ہم اللہ کو یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا توہینِ رسالتؐ ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس پر بصیرت افروز روشنی ڈال کر مجھے ممنون فرمایئے۔

ج :  دراصل دعا کی حیثیت نہ صرف ایک درخواست کی ہے جو عموماً کسی ایسی چیز کی بابت کی جاتی ہے جس سے ہم محروم ہوں بلکہ دعا شکر اور احساسِ ممنونیت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا‘ ہم جب پیاس بجھانے کے لیے پانی پیتے ہیں تو شکر کے جذبات کے ساتھ بے ساختہ دعا زبان پہ آتی ہے کہ اس رب کی تعریف و حمد جس نے پینے اور کھانے کو دیا اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔

اذان کے بعد دعا کے حوالے سے آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس طرح       ہم  توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ یہ ایک دل چسپ الٹی منطق معلوم ہوتی ہے۔ دراصل اس دعا کو بخاری میں باب بعدالاذان میں حضرت جابربن عبداللہؓ سے روایت کیا گیا ہے جس میں حضور نبی کریمؐ یہ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ دعا اذان سننے کے بعد پڑھی تو قیامت کے روز اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔

اگر اس دعا کی تعلیم خود شارع اعظمؐ نے اپنے ماننے والوں کو اس وعدے کے ساتھ دی ہے کہ وہ خود اس دعا کے کرنے والے کی شفاعت فرمائیں گے تو اس سے توہین کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس لیے میں نے اسے الٹی منطق سے تعبیر کیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ بخاری اور مسلم میںحضورؐ     کے بار بار استغفار کرنے کا بیان آتا ہے اور بعض احادیثِ صحیحہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپؐ ۷۰ مرتبہ یا زائد مرتبہ استغفار صرف ایک دن میں فرماتے تھے۔ اگر آپؐ کی بیان کردہ الٹی منطق استعمال کی جائے تو کیا نعوذباللہ اس کا سببؐ آپ کی طرف سے کسی بھول چوک کا ہونا تھا‘ جب کہ آپؐ معصوم تھے۔ اس لیے بجاے الٹی منطق کے‘ ہمیں دین کو جو سیدھا ہے ‘آسان ہے اور قابلِ عمل ہے‘ اس کے مصادر ‘یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست اخذ کرنا چاہیے اور ذہن کو گم راہ ہونے سے بچانا چاہیے۔

احادیث یہ وضاحت بھی کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے اپنے اصحاب سے ذکر فرمایا کہ جنت میں ایک مقامِ محمود ہے‘ جو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایت سے کسی ایک نبی کو دے گا اور یہ فرمایا کہ آپؐ کی خواہش ہے کہ وہ نبی آپؐ ہوں۔

اذان سننے کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے جو احسانِ عظیم کیا ہے‘ یعنی تعلیمات اور اس کی عملی شکل کو ہمارے لیے آسان بناکر پیش کیا ہے‘ اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہم یہ اذان سننے کے بعد رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی کریمؐ کو مقامِ محمود عطا کرے۔ یہ کم سے کم شکریہ ہے جو نبی کریمؐ کے اُمت پر احسانات کا ہم ادا کرسکتے ہیں۔

اذان میں وسیلے کا ذکر اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہم اُردو میں اسے استعمال کرتے ہیں کہ فلاں صاحب کے وسیلے سے کوئی کام کروا لیا جائے۔ یہ بھی مقامِ محمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر‘ قرآن کریم کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)


جلدبازی شیطان کا کام

س:  دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘‘ اور دوسرا یہ کہ ’’سب سے بھلی نیکی وہ ہے جو جلد کر لی جائے‘‘۔ کیا یہ دونوں مقولے احادیث نبویؐ ہیں؟ اگر ہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط؟

ج:  پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبوی کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:

الأناۃ  من  اللّٰہ  والعجلۃ  من الشیطان (ترمذی)‘ ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہر قوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیرٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہرزمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:  فی التأنی السلامۃ وفی العجلۃ الندامۃ‘ سوچ بچار کر ٹھیرٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے‘ اور جلدبازی میں ندامت ہے۔

ابن قیم فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن‘ غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار‘ بردباری اور ثبات سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج ہمیشہ برے ہوتے ہیں۔ حدیث نبویؐ ہے: یستجاب للعبد مالم یستعجل(بخاری)‘ بندے کی دعا قبول ہوتی ہے اگر وہ جلدی نہ مچائے۔

رہا دوسرا مقولہ تووہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا ایک قول مروی ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ: لا یتم المعروف الا بتعجیلہ، بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے۔ اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا‘ ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف     فرمائی ہے:  اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱) ’’یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری آیت ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) ’’بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو‘‘۔ چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے گرچہ یہ حدیث نہیں ہے۔ اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔

علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابل تعریف اور جلدبازی کو قابل مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایاہے:

۱-  پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو اگر اطاعت الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتاہے تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا‘   نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبیؐ نے حضرت علی ؓ کو ہدایت کی تھی کہ اے علی ؓ!تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا: نماز جب اس کا وقت ہوجائے‘ جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے‘ اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے۔ (ترمذی)

مشہور عالم دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو موسٰی ؑکبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ: وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o  (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہو جائے‘‘۔

۲-  وہ جلدبازی قابل مذمت ہے‘ جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کر لینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

۳-  ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کر دے کہ مقصد ہی فوت ہو جائے‘ یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کف ِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی‘ ترجمہ:  سید زاہد اصغر فلاحی‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ ص ۵۵-۵۷)

عشائیہ براے عطیات

سوال: امریکہ اور یورپ میں عرصۂ دراز سے یہ رواج قائم ہے کہ جب سوسائٹی کی کسی ضرورت کے لیے چندا کیا جائے تو اُس کے لیے ’’فنڈ ریزنگ ڈنر‘‘ (عشائیہ براے عطیات) کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اِس ڈنر میں اکثر ملک کے نامور اور شہرت یافتہ فنکار حصہ لیتے ہیں‘ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں (جس میں ناچ‘ گانا‘ موسیقی‘ مزاح اور ڈراما وغیرہ شامل ہوتے ہیں) اور لوگوں سے فنڈ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ اِس ڈنر کی تیاری مہینوں پہلے کی جاتی ہے‘ اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے‘ ویڈیو اور سلائڈز بنوائے جاتے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ کھانے کے لیے بہترین (مہنگے ہوٹل) جگہ اور اعلیٰ قسم کے مختلف ورائٹی کے کھانوں کا اہتمام اسراف کی حد تک کیا جاتا ہے۔ اکثر مخلوط مجالس ہوتی ہیں‘ جس میں لوگ بہترین لباس اور خواتین میک اَپ‘ خوشبو اور جیولری کی چمک دمک کے ساتھ’’بے پردہ‘‘حاضر ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل سے معاشرے کے غریب طبقات غیرحاضر ہوتے ہیں کیونکہ اس ڈنر کا ایڈوانس ٹکٹ قیمتاً فروخت کیا جاتا ہے‘ جس میں سنگل اور فیملی پیکج ہوتا ہے اور اُس کے بغیر کوئی اِس جگہ داخل نہیں ہو سکتا۔

اِس ڈنر کے دوران چندا جمع کرنے کے لیے مسابقت کی ایک دوڑ شروع کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوائی جائے۔ زبردستی وعدہ فارم (pledge form) بھروائے جاتے ہیں اور مجلس کے دوران بہت زیادہ دکھاوا اور نمود و نمایش واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ دورانِ مجلس افراد کی تعریف و تحسین کرکے اُن کے نفس کو پھلایا جاتا ہے تاکہ زیادہ رقم وصول کی جائے۔ بعد میں اس فنڈ سے ہوٹل اور کھانے کے اخراجات‘ فن کاروں کی آمدورفت اور رہایشی اخراجات کے بڑے بڑے بل ادا کیے جاتے ہیں۔ اکثر حاصل شدہ فنڈ سے فن کاروں کی فی صد بھی طے شدہ معاملے کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔

اسلامی تنظیموں نے بھی اپنی ضرورت کے لیے کچھ ترمیمات کے ساتھ مغرب کی اس روایت کو اپنا لیا ہے۔ اسلامی تنظیمیں جوفنڈ ریزنگ ڈنر کرتی ہیں‘ اُس میں صرف رقص و موسیقی نہیں ہوتی‘ بقیہ تمام وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔ فن کار کی جگہ ہم کسی ایسے لیڈر یا مقررین کا اہتمام کرتے ہیں جو لوگوں کو قرآن اور حدیثیں سُنا کرجوش دلاتے ہیں اور ہر طرح کی کوشش کر کے مسابقت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ فنڈ دینے والوں کی دورانِ مجلس منہ پر تعریف کرتے ہیں (جسے اللہ کے رسولؐ نے ناپسند فرمایا ہے) کم فنڈ دینے والوں کو کم تر درجہ دیتے ہیں (بعض اوقات تحقیر کے درجے تک) اور حددرجے کا ڈرامائی ماحول بناتے ہیں۔ کبھی رُلاتے ہیں‘ کبھی ہنساتے ہیں‘ کبھی جوش دلاتے ہیں اور اس طرح ایک طرح کی عجیب مصنوعی فضا تیار کرتے ہیں۔ اسلامی تنظیمیں ایسے افراد کو بعض اوقات طے شدہ فی صد بھی جمع شدہ فنڈ سے ادا کرتی ہیں۔ بعض اوقات مقررین بعض افراد کے لیے دورانِ مجلس اپنی جانب سے زبردستی رقم مقرر کرتے ہیں‘ جسے وہ مجلس میں شرمندگی کے باعث قبول کرلیتے ہیں۔ ایڈوانس ٹکٹ (سنگل اور فیملی) فروخت کیے جاتے ہیں۔ مخلوط ماحول ہوتا ہے‘ خواتین و حضرات سج دھج کر آتے ہیں۔ بعض خواتین پردے میں اور اکثریت بغیر پردے کے ہوتی ہے۔ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور جوش دلانے کے لیے اپنی جیولری مجلس میں پیش کرتی ہیں‘ جسے کوئی دوسرا خرید کر اُس کی رقم فنڈ میں دے دیتا ہے۔

اسی طرح زبردستی وعدہ فارم بھروائے جاتے ہیں(جسے اکثریت بعد میں بھول جاتی ہے)۔ بہترین جگہ اور اعلیٰ قسم کے کئی طرح کے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے اور تمام تر اخراجات کی ادایگی حاصل شدہ فنڈ سے کی جاتی ہے۔ براے مہربانی عامۃ الناس کے استفادے کے لیے یہ بتائیں کہ---

۱-  شرعی لحاظ سے اس قسم کے پروگرام کی کیا حیثیت ہے؟ کیا سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ ملتا ہے یا پھر یہ ایک بدعت (innovation) ہے۔

۲- کیا شرعی لحاظ سے کوئی عام پروگرام ایسا ہو سکتا ہے جس میں سوسائٹی کے امیرطبقات کو آنے کی اجازت ہو اور غریب طبقے کو غیرمحسوس طریقے سے روک دیا جائے؟

۳-  کیا شریعت کسی ایسے پروگرام کی اجازت دیتی ہے جس میں نمود و نمایش ہو‘ منہ پر تعریف کی جائے‘ زبردستی تحریری وعدے لیے جائیں‘ غیرضروری اخراجات (اسراف کی حد تک) کیے جائیں‘ فنڈ دینے کی اپیل کرنے والے مقررین کو مناسب فی صد ادا کیا جائے‘ یہاں تک کہ یہ اُن کا پیشہ (profession) ہی بن جائے؟

۴-  کیا کسی نیک مقصد کے لیے جمع کیے جانے والے اس فنڈ سے اُس کے دینے والے فرد کے کھانے اور تقریب کے دیگر اخراجات کی ادایگی کی جا سکتی ہے؟

۵-  بعض اوقات اس تقریب کے اخراجات اس پروگرام کے جمع شدہ فنڈ سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں‘ جن کی ادایگی بعد میں بیت المال سے کی جاتی ہے۔ کیا یہ فنڈ اور بیت المال کا غلط استعمال تو نہ ہوگا؟

۶-  کیا شرعی لحاظ سے زبردستی وعدہ لینا جائز ہے؟ جس شخص سے وعدہ لیا گیا اور وہ اُسے بھول جائے یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو کیا یہ گناہ تصورہوگا۔ منتظمین کس حد تک اس کے ذمہ دار ہوں گے؟

۷-  بعض اوقات لوگوں کو جوش دلانے کے لیے ارادتاً بعض افراد بڑی بڑی رقومات کا وعدہ کر لیتے ہیں اور ادا نہیں کرتے‘ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم اگر ایسا نہ کرتے تو دوسرے لوگ فنڈ نہ دیتے ‘یعنی ارادتاً جھوٹ پر مبنی عمل کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح کوئی چیز کی جا سکتی ہے؟

جواب: آپ کے سوال کا تعلق دورِ جدید میں دعوت کے مسائل سے ہے۔ آپ کی یہ بات قابلِ قدر ہے کہ جدید ذرائع کا استعمال کرتے وقت آپ کی خواہش یہ ہے کہ ایک تعمیری اور اصلاحی کام کے لیے بھی ذرائع جائز و مباح ہوں۔ آپ کے سوال میں بیک وقت کئی اصولی باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلی چیز یہ کہ انفاق کے حوالے سے قرآن و سنت کیا ہدایات دیتے ہیں؟ دوسری چیز یہ کہ دعوت و اصلاح کے لیے کن جدید ذرائع کا استعمال درست ہوگا اور اس کی اصولی حیثیت کیا ہوگی؟ تیسرے ‘آپ نے ہمارے ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی معاشرت اور اجتماعیت میں مرد و زن کے باہمی ربط کی حیثیت کیا ہے؟ نیز آپ نے ایسی تقریبات میں اسراف کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔ ان چاروں امور کے بارے میں ترتیب کے ساتھ چند نکات پر غور کیا جائے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

۱-  اللہ کی راہ میں کام کرنے کے لیے‘ خواہ وہ ظلم و تعدی کے خلاف مسلح جہاد ہو یا ایک اسلامک سنٹرکی تعمیر کے ذریعے عام انسانوں کو اللہ کے دین کی دعوت پہنچانا‘کسی رفاہی تعلیمی ادارے کا قیام ہو یا کسی مدرسے کے ذریعے علم و حکمت کا فروغ‘ قرآن و سنت ان تمام حوالوں سے اللہ کی راہ میں انفاق کرنے اور صدقات کرنے کو اللہ کو قرضِ حسن دینے اور حقوق العباد کے ادا کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا بعض صورتوں میں انفاق فی سبیل اللہ فرض ہوگا اور بعض صورتوں میں اس کی حیثیت ان صدقات کی ہوگی جو درجے کے لحاظ سے فرض کے قریب ترین ہیں۔ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں مال اور نفس سے ایثار کیا ‘ان کے اس عمل کو ایسی تجارت کہا گیا جس کے نفع کا وعدہ رب کریم نے خود کیا ہے۔ چنانچہ تقریباً۱۸ مقامات پر قرآن کریم نے صدقات اور صدقات دینے والوں کے بارے میں وضاحت سے فرمایا کہ اللہ انھیں وسعت اور فراخی دیتا ہے (البقرہ ۲:۲۷۶)۔ گویا جو کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا جاتا ہے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے‘ اور اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ جو سب کو دیتا ہے اور پھر بھی اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی‘ اس کو قرض دیا جائے (الصافات ۳۷:۵۲)۔ مزید ملاحظہ ہو‘الحدید ۵۷:۱۸۔

۷۰ سے زائدمقامات پر قرآن کریم انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اسے      اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت قرار دیتا ہے (النساء ۴:۳۴)۔ یہاں پر یہ بات خصوصاً واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن انفاق کے معاملے میں چھپا کر دینے اور علانیہ دینے کو یکساں مقام دیتا ہے (الرعد ۱۳:۲۲)۔ اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ اگر کسی عطیات جمع کرنے کی تقریب میں علانیہ رقم دی جائے‘ یا اس پر ابھارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

قرآن کریم کے اس طرح چھپے اور ظاہراور علانیہ دینے میں زکوٰۃ‘ صدقات‘ عام انفاق‘ تینوں شامل ہیں۔ البتہ جس چیز کی فکر کی ضرورت ہے وہ ریا اور تملُّق ہے‘ یعنی نہ تو دکھاوے کے لیے کوئی چیز دی جائے‘ اور نہ کسی کی تعریف و توصیف کھلے بندوں کی جائے۔ خصوصاً کسی کے منہ پر تعریف کرنا خود موصوف کے لیے مہلک ہے۔

۲-  فنڈ ریزنگ ایک جدید اور جامع اصطلاح ہے جس میں عطیات کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں‘ مثلاً ایک لیکچرہال میں کسی معروف عالم کی تقریر جس میں داخلے کی فیس ہو اور وہ رقم کسی کارِخیر میں استعمال کرلی جائے۔ کسی جگہ کھانوں کا بازار لگایا جائے اور کھانوں کی فروخت سے جو رقم ملے وہ کسی سینٹر یا تعلیمی ادارے یا شفاخانے کی تعمیر پر خرچ کی جائے‘ یا اخبارات میں اشتہار دے کر اپنی ضرورت سے آگاہ کیا جائے اور جواب میں عطیات مل جائیں۔ گویا یہ تعلقاتِ عامہ کے ذریعے مالی وسائل پیدا کرنے کی ایک حکمت ِعملی اور طریقے کا نام ہے۔

اس کی نظیر اگر سنت میں تلاش کی جائے‘ تو غزوات کے موقع پر اہل ایمان سے اپیل کے ذریعے جو وسائل جمع کیے گئے ان میں مل سکتی ہے۔ متعدد واقعات ہمیں ملتے ہیں جن میں بعض صحابہؓ نے اپنی کل ملکیت‘ بعض نے آدھی‘ کسی نے سیکڑوں سواروں کے لیے سازوسامان پیش کر دیا‘ اور بعض صحابیات نے اپنا زیور اللہ کی راہ میں دیا۔ اس اصولی مماثلت کی بنا پر جدید دور میں نہ صرف قیادت کی طرف سے اپیل بلکہ ان بہت سے ذرائع کا استعمال بھی کرنا ہوگا جوقرونِ اولیٰ میں معروف نہ تھے‘ مثلاً فنڈ ریزنگ ڈنر۔

دعوت و اصلاح کے لیے جدید ذرائع کا استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے اپنے زمانے میں مروجہ تمام طریق دعوت کو استعمال فرمایا‘ مثلاً خطابت‘ خط وکتابت‘ تربیت یافتہ دعاۃ کے وفود‘ حتیٰ کہ بڑے خطابات کے موقع پر مکبرین کا استعمال جو آج کل کی اصطلاح میں ایک طرح کا پبلک ایڈریس سسٹم کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے فنڈ ریزنگ ڈنر میں کسی معروف اسکالر کو بلاکر لوگوں تک بھلی بات پہنچانے کے ساتھ ان سے انفاق و صدقات کی اپیل کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں۔ شریعت کا اصول ہے کہ ہر وہ کام مباح ہے جس کی ممانعت نہ آئی ہو۔

یہاں یہ بات واضح کرنی بھی ضروری ہے کہ ایک اخلاقی اور اصلاحی مقصد کے لیے  اسلام اس کے حصول کے طریقوں کو بھی اخلاقی اور اصلاحی دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ پیشہ ور  گانے والوں اور نام نہاد ثقافتی پروگرام کرنے والوں کو مدعو کرنا‘ لہوولعب کی محفل سجانا‘ اس کی قرآن و سنت میں واضح ممانعت ہے۔ اگر ایسی تقریبات میں نوجوان ایسے نغمے پیش کریں جن میں روحِ جہاد اُبھارنے کی تلقین ہو‘ یا چھوٹی بچیاں ایسے نغمات پیش کریں‘ جیسے انصار کی بیٹیوں نے حضورنبی کریمؐ کی آمد پر گائے تھے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

جہاں تک سوال ایک ہی تقریب میں نشستوں کے لحاظ سے معاوضے کا ہے‘ اس پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے جو زیادہ رقم ادا کر کے اگلی نشست پر بیٹھے گا اور جس نے کم رقم پر پیچھے کی نشست حاصل کی ہے‘ تفریق پائی جائے گی۔ بات بہت معقول نظرآتی ہے لیکن کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں سے یکساں اجر کا وعدہ کیا ہے‘ یا جو اس کی راہ میں زیادہ قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے زیادہ بلند درجات دیں گے! بنیاد کسی کی تملیک نہیں ہے بلکہ قربانی ہے۔ چنانچہ ایک انتہائی غریب صحابی اگر رات بھر کھیت میں پانی دے کر مٹھی بھرکھجور کماکر نبی کریمؐ کو پیش کرتے ہیں تو بظاہر اس کم قیمت صدقے کو سب کے مال پر بھاری قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا اصل بنیاد کسی کی غربت یا امارت نہیں بلکہ جذبۂ انفاق ہے۔

اگر تمام افراد سے ایک ہی مقررہ رقم‘ فرض کیجیے ۵۰ روپے لی جائے تو ۵۰۰ افراد کے جمع ہوجانے کی شکل میں ۲۵ہزار روپے جمع ہوتے ہیں۔ اگر ۵۰ کے علاوہ ۵۰۰‘ ۵ ہزار اور ۵۰ ہزار روپے کے ٹکٹ بھی ہوں اور ۱۰‘ نہیں محض دو افراد ایسے مل جائیں جو ۵۰‘۵۰ ہزار کے ٹکٹ خرید سکتے ہوں اور ۱۰۰ ایسے جو ۵ ہزار کے اور ۴۰۰ ایسے جو ۵۰۰ کے‘ تومطلوبہ فنڈ کی شکل بالکل مختلف ہوگی۔ کم دولت والے اور زیادہ دولت والے افراد کو یکساں موقع فراہم کرنا لیکن ان سے ان کی حیثیت کے لحاظ سے توقع رکھنا‘ نہ اسلام کے منافی ہے اور نہ سرمایہ پرستی۔

جس نے کم قیمت والی جگہ کا ٹکٹ لیا ہے اسے کم اہمیت دینا‘ ایک سخت غیر اسلامی رویہ ہے۔ اس کی اصلاح بہرصورت ہونی چاہیے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہوائی جہاز میں جو فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس یا اکانومی کلاس کا ٹکٹ لے کر سفر کرتا ہے وہ بحیثیت مسافر یکساں حقوق رکھتا ہے لیکن اس کی نشست اور کھانا ٹکٹ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اسے تفریق نہیں کہا جا سکتا۔

ضمناً یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اگر فنڈ ریزنگ کی تقریب کے شرکا کو اس بات کا علم ہے کہ جو رقم وہ بطور عطیہ دیں گے اسی میں سے تقریب کا خرچ بھی نکلے گا اور بقیہ رقم جس کارِخیر کے لیے عطیہ کی جا رہی ہے اس میں استعمال ہوگی تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ فنڈ ریزنگ کے نام پر دھوم دھام سے عشائیہ جس کا خرچ فنڈ ریزنگ کی رقم کے برابر یا اس سے بڑھ جائے‘ ایک ناعاقبت اندیشانہ بات ہے اور کسی بھی بھلے انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی حماقت کرے گا۔

شرکاے محفل کو ترغیب دینا‘ انفاق پر اُبھارنا اور ان سے عطیات کا حصول ہی تو تقریب کا سبب ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر ایسے خطابات ضروری ہیں جو اس تصور میں مددگار ہوں۔ ہاں‘ ریا اور دکھاوے یا اپنے نام کے لیے کوئی رقم دینا وہ چھوٹی ہو یا بڑی‘ ایک خودفریبی ہے۔ میرے علم کی حد تک کسی بھی تقریب میں زبردستی فارم نہیں بھروائے جاتے۔ یہ سارا کام رضاکارانہ ہی ہوتا ہے جو مطلوب و مقصود ہے۔

اسلامی تحریکات میں ایک کارکن جو ۱۰ روپے اعانت دیتا ہے ایک حیثیت سے انفاق میں اس سے بڑھ کر ہے جو کروڑوں کماتا ہے اور اپیل کرنے پر ۵۰ ہزار کا ایک چیک بھیج دیتا ہے۔ آپ حضرات کو امریکہ میں خصوصاً اس کی فکر کرنی چاہیے کہ وہاں کے مادہ پرستانہ معاشرے میں محض مادی برتری کی بنیاد پر احترام نہ کیا جائے۔ اسلام نے اِکرام کی جو بنیاد ہمیں دی ہے وہ تقویٰ اور علم کی ہے۔ اس بنا پر جو متقی ہے وہ دوسروں سے افضل ہے‘ اور جو علم زیادہ رکھتا ہے وہ کم علم کے مساوی نہیں۔

۳- آپ کے سوال میں تیسری اہم چیز مخلوط محافل سے متعلق ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تشکیل کرتا ہے ‘ وہ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاشرہ ہے۔ ہر وہ چیز جو اخلاق کو نقصان پہنچانے والی ہو‘ اس کی نگاہ میں غیرمطلوب ہے۔ اسی لیے معاشی میدان میں سود ایک غیراخلاقی حرکت ہے۔ معاشرت میں بے حیائی ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔ گفتگو اور خطابت میں دوسرے پر چیخنا چلانا‘ برا بھلا کہنا‘ حتیٰ کہ آواز بلند کرنا‘ قرآن نے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ابلاغ کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ تجویز کیا ہے۔ اسی طرح ایسی محفلوں کو ناپسند کیا گیا ہے جہاں آزادانہ طور پر مرد و زن کا اختلاط ہو۔

جہاں ناگزیر شکل ہو‘ جیسے حج یا عمرہ یا مسجد نبویؐ میں نماز باجماعت‘ وہاں صرف اس حد تک اجازت ہے۔ اس بنا پر اسے عموم نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر امریکہ میں عطیات کے حصول کے لیے فیملی ڈنر کیا جائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ بیٹھیں۔ ۱۹۶۹ء سے امریکہ میں ISNA اور ICNA کے پروگراموں میں تعلیم و ترغیب کے ذریعے کوشش کی گئی کہ کھانے پینے کا موقع ہو‘ یا کنونشن ہال میں نشست و برخاست‘ مردوں اور خواتین کی نشستیں الگ ہوں‘ اور اس میں کامیابی بھی ہوئی۔ اگر بعد کے ادوار میں کوئی اپنی ’’روشن خیالی‘‘ یا احساسِ کمتری کی بنا پر اس پر عمل نہ کرے‘ تو یہ اس کا اپنا غیر دانش مندانہ فعل ہوگا۔ میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۱ء تک عدمِ اختلاط کی روایت قائم کرنے میں‘ میں خود شریک رہا ہوں۔ اس لیے جو کچھ عرض کیا گیا وہ نظری نہیں عملی بات ہے۔

ایسے بڑے اجتماعات میں جہاں ایک بڑے ہال میں کسی عملی مشکل کی بنا پر مکمل طور پر الگ انتظام ممکن نہ ہو‘ ہال کی ایک جانب خواتین اور دوسری جانب مردوں کی نشست کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہمارے تشخص اور اقدار کے فرق کو ظاہر کرے گی۔

۴- جہاں تک خواتین کے زیبایش کر کے مجالس میں جانے کا تعلق ہے‘ قرآن و حدیث نے دو ٹوک انداز میں اسے تبرج جاہلیہ سے تعبیرکیا ہے۔ پاکستانی ثقافت کے نام پر ناچ گانا نظریۂ پاکستان سے بغاوت اور اسلام کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ڈنر یا شو میں اس قسم کی سرگرمی کو حکمت اور دعوتی دل سوزی کے ساتھ بدلنے کی کوشش کرتے رہنا آپ کا دینی فرض ہے۔ کھانے کی دعوتوں میں ورائٹی کی گنجایش تو ہے لیکن اسراف قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔ اگر محض عطیات کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے‘تب بھی اسراف کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توازن پر قائم رہتے ہوئے اپنے دین کی خدمت کے مواقع فراہم کرے۔ (پروفیسر ڈاکٹرانیس احمد)

والد سے حق کی وصولی

سوال: میری عمر ۳۰ سال ہے۔ میں کوئی چھ سات مہینے کا تھا کہ میرے والد اور والدہ میں علیحدگی ہوگئی۔ دونوں نے دوسری شادی کرلی۔ مجھے میری پھوپھونے پالا ہے۔اب بھی وہی میرے اخراجات برداشت کرتی ہیں۔ میں گریجوایٹ ہوں لیکن بے روزگاری کی وجہ سے‘پھوپھو کی دکان میں‘ اپنے انکل کے ساتھ کام کرتا ہوں جس سے گزربسر ہوجاتی ہے۔

میرے والد ۱۹ ویں گریڈ میں‘ محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہیں۔ شہر کے مرکز میں ان کی پراپرٹی ہے جو انھوں نے کرائے پر دی ہوئی ہے لیکن میرے والد اور سوتیلی والدہ‘ میری کسی قسم کی کفالت کرنے یا مجھے میرا کوئی جائز حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور مجھے بدنام کرنے کا ہر طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مجھے عاق کر دیں۔ دو تین دوستوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو والد صاحب نے ان سے بولنا ہی چھوڑ دیا۔ ماں کی محبت سے تو میں ہمیشہ ہی محروم رہا اور والد صاحب نے بھی‘ نہ توروحانی تربیت کا ہی کوئی اہتمام کیا اور نہ مالی طور پر ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ میری یہی کوشش رہی کہ میں اپنے والد کو کسی مصیبت یا تکلیف میں کبھی اکیلا نہ چھوڑوں۔ لیکن وہ ہیں کہ مجھے میرا حق تک نہیں دینا چاہتے۔

میں کاروبار کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور اپنے ’’ایمان کی تکمیل‘‘ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنے جائز حق کے حصول کے لیے اپنے والد صاحب کو عدالت میں لے جائوں۔ کیا مجھے صبر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یومِ حساب پر بات ڈال دینی چاہیے‘ یا اپنے حق سے دستبردار ہوجانا چاہیے؟ مجھے اپنے جائز حق کے حصول کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب :  اسلام انسانوں کے لیے ان کے پیدا کرنے والے پروردگار کی طرف سے بھیجا ہوا ضابطہ ء حیات ہے جس میں ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ نیز ان اخلاق و آداب کی بھی تعلیم دی گئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں ایک پُرسکون‘ پُرمسرت‘پُرامن اور ایک ترقی یافتہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے‘ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔

مسلمان والد کی حیثیت سے اسلام نے ہر باپ کی یہ ذمہ داری متعین کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ بالغ ہونے سے قبل تک اس کی معقول انداز میں حسب استطاعت کفالت کرے‘ اور اس کو معاشرے میں ایک اچھے مفید مسلمان عنصر کی حیثیت میں پیش کرے۔ تمام میسرنعمتوں‘ سہولتوں اور مال و دولت میں سے اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا ضرور چھوڑ جائے کہ وہ دَر دَر کی بھیک مانگنے سے بچ سکے‘ نیز اپنی اولادکو کچھ دینے میں بھی کسی کو کسی پر ناجائز فضیلت اور ترجیح نہ دے۔ یہ ایک باپ کی شرعی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے۔

ایک بیٹے اور اولاد کی حیثیت سے اسلام ہماری یہ رہنمائی کرتا ہے کہ باپ کا رشتہ بڑا ہی مقدس ہے۔ اس کے احترام اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ اس بات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں شرک سے بچنے اور توحید کی تعلیم دی ہے وہاں والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اپنانے کا واضح حکم دیا ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّا ٓاِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا o       (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ: ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ‘ مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔

جہاں تک صورت مسئولہ کا تعلق ہے تو اس میں اگر آپ کے والد محترم کو تذکیر اور     یاد دہانی کے طور پر صلۂ رحمی اوراولاد کے حقوق سمجھائے جا سکتے ہوں تو یہ کام کیا جانا چاہیے لیکن آپ کے لیے یہ بات مناسب نہ ہوگی کہ آپ ان کی شہرت کو نقصان پہنچائیں‘ یا ان کی غیبت کرتے پھریں۔ بالغ ہوجانے کے بعد آپ کے والد کو اخلاقی طور پر تو آپ کی مدد اور کفالت کا پابند ہونا چاہیے لیکن یہ ایسا حق نہیں ہے کہ جس کے لیے آپ قانونی جنگ لڑیں یا اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ لہٰذا انھوں نے آپ کے بچپن کے دوران آپ کے حق میں جو کوتاہی کی ہے ‘ اُس سے درگزر کریں یا اُس معاملے کو احکم الحاکمین پروردگار کی عدالت میں یومِ قیامت کے لیے اُٹھا رکھیں جہاں پر ہر حق دار کو اپنا حق مل کر رہے گا۔

یہ آپ کے والد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے حقوق کی ادایگی کرتے ہوئے آپ کی جو مدد کرسکتے ہیں وہ کریں‘ صلۂ رحمی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اولاد مفلوک الحال ہو اور والد مدد کرسکتا ہو اور نہ کرے تو وہ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے۔

اگروہ ایک غلط روش کے مرتکب ہو رہے ہیں تو خاندان کے بڑے بزرگ‘ ان کے دوست احباب اور وہ لوگ جن کا کچھ اثر ورسوخ ہو‘ ان سب کو موثرانداز میں انھیں اس طرف توجہ دلانی چاہیے کہ وہ حق تلفی نہ کریں اور اس کے لیے ہر قسم کا سماجی دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ کسی طرح وہ اپنے بھائی کو خدا کا عذاب مول لینے سے روک سکیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ آپ کو تنہا نہ چھوڑیں اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔

آپ دنیا میں اس مسئلے کو اپنے لیے مسئلہ نہ بنائیں۔ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ مانگنے اور مفت مل جانے کی توقعات کے خیالات کو ہی دل سے نکال پھینکیں۔ لومڑی بن کر دوسروں کی باقی خوراک کے انتظار میں گھٹتے رہنے کے بجائے شیروں کی طرح اپنی خوراک کا خود انتظام کرنا سیکھیں اور دوسروں کو دینے کے قابل بنیں۔ اپنے والد صاحب کے لیے دعاے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کا ذکر کھلے دل سے کیا کریں۔ اپنے حقوق کی کھوج لگاتے رہنے کی بجائے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی فکر کریں کہ یہی کامیاب زندگی گزارنے کا گُرہے۔ اور اسی سے اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کا حصول بھی ممکن ہے۔

جب آپ کو اپنے والد صاحب کی اس لاپروائی اور غفلت کی یاد آئے تو ان کی عظمت‘ تقدس اور مقام و مرتبے کا خیال بھی ذہن میں تازہ کیجیے کیونکہ وہ ایک باپ ہیں۔ دنیا میں آپ کے وجود کا باعث اور رب کریم کے بعد آپ کے عظیم محسن ہیں جن کی خدمت و احترام آپ کا انسانی‘ دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو صبر و یقین کی دولت سے مالا مال رکھے‘ اور اس حسنِ سلوک پر استقامت نصیب فرمائے ‘ اور آپ کی ضروریات کو اپنے خزانہ غیب سے پورا فرمائے۔ آمین۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)


شیطانی وسوسہ

س:  ایک عرصے سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر شک ہونے لگا ہے۔ میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں: ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔ اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ ان وسوسوں سے نجات پانے میں رہنمائی فرمایئے۔

ج:  ہر مومن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے‘ جب شیطان اسے بہکاتا اور ورغلاتا ہے۔ اسے وسوسوں میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں:

۱-  پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ مال و دولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنھیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے‘ اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔ مال و دولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں‘ یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ نکل آتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو غریبوں کی طرح پیٹ بھرکر کھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خریدسکتے۔ بھوک ہے تو موٹاپے کے خوف سے پیٹ بھرکرنہیں کھاسکتے۔ مان لیجیے وہ پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟ کیا اپنے پیٹ میں زمین و آسمان کو سمولیں گے؟ کیا اپنی دولت کو قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔

معلوم ہوا کہ مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔ اب آپ ذرا خود پر غور کیجیے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے‘ کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟ یہ جو قوت سماعت آپ کو ملی ہے‘    اسے سونے چاندی کے بدلے آپ فروخت کرسکتے ہیں؟ غرض کہ ہاتھ‘ کان‘ناک‘ پائوں اور دوسرے سارے اعضا اللہ کی وہ نعمتیں ہیں‘ جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے۔ اللہ فرماتا ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا o  (ابراھیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘۔ ہر چیز کو مادیت کی نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔

۲-  دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضا  یہ تھا کہ سارے انسان مال و دولت میں برابر ہوتے۔

بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمایش ہوسکے اور معلوم ہوسکے کہ کون شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔

اللہ نے جو یہ زمین و آسمان پیدا کیے‘ ہماری تخلیق کی‘ تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟ کیا ہمیں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مرجائیں؟ اگر سب کو برابر پیدا کرنا ہوتا تو وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا۔ نہ ہمیں لباس کی ضرورت ہوتی نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔ پھر توامیر و غریب کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں۔ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔ آزمایش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔ اگر کوئی احسان و بھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ بھلائی کرے۔ اگر کوئی صبرکرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔ اگر سب برابر ہوتے تواس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔ کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ ساری رونق حیات مفقود رہتی۔ دن اور روشنی کی اہمیت و منفعت کا احساس ہمیں اسی لیے توہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہم انسان‘ خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہو جائے‘ دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ اب آپ بتائیں کہ خدا کس کس کی سنے؟ کس عمل میں حکمت پوشیدہ ہے؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

یہاں پر ایک قصے کا بیان قرین سیاق معلوم ہوتا ہے۔ ایک باغ میں باپ بیٹے محو گفتگو تھے۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظرنہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرکم پھل کو کمزور سی بیلوں میں جنم دیا کہ     یہ بیلیں زمین سے اوپر نہیں جاسکتیں۔ باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔ اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیٹے کے سر پر آگری۔ بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ کھجور کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باپ نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔ گرچہ یہ ایک قصہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔

آپ کو چاہیے کہ جو شیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیں۔ خدا سے توبہ کیجیے‘ اپنے ایمان کا اعادہ کیجیے۔ نمازیں پڑھنی شروع کر دیجیے اور جب کوئی شک ذہن میں آئے تو فوراً اہل علم کی طرف رجوع کیجیے۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی ‘ ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی‘ ص ۱۰۱-۱۰۴‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ بھارت)