رسائل و مسائل


دورانِ نماز متن یا ترجمۂ قرآن دیکھ کر پڑھنا

سوال: نماز میں خشوع اور توجہ کے لیے میں ایک الجھن کاشکار ہوں۔ رمضان میں نماز تراویح کے دوران ایک تجربے سے گزرا۔ جرمنی کے ایک اسلامک سنٹر میں تراویح کی نماز سے قبل‘ تراویح میں پڑھی جانے والی سورتوں کا مفہوم تفہیم القرآنسے دیکھ کر جاتا اور دورانِ نماز توجہ‘ انہماک اور خشوع وخضوع کے لیے قرآن کے ایک جیبی نسخے سے متن اور ترجمہ پر بھی نظر ڈالتا اور ساتھ ساتھ عربی قرأت سے بھی محظوظ ہوتا۔ اس دوران خشوع و خضوع کی جو کیفیت حاصل رہی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے ایک عالم دین سے بھی رجوع کیا کہ آیا یہ عمل درست ہے؟ مگر انھوں نے کہا کہ چاروں ائمہ کرام میں سے کسی کا مسلک اس طرح قرآن کا ترجمہ دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگرچہ وہ میری کسی بھی بات کا منطقی جواب نہ دے سکے‘ تاہم میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا کہ یہ بدعت ہے یا کوئی شرعی اقدام ہے۔ میں ان احکامات سے بھی آگاہ ہوں جن کے تحت نماز عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں ادا نہیں ہوسکتی اور قرآن کی قراء ت کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز میں اس کی اجازت نہیںلیکن نمازِ تراویح میں متن و ترجمۂ قرآن دیکھنے سے خشوع و خضوع کی جو کیفیت ہوتی ہے اور فہمِ قرآن کا جو موقع میسر آتا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب :صلوٰۃِ تراویح کے دوران قرآن کریم کے ترجمہ یا قرآن کریم کے متن کے پڑھنے کے بارے میں آپ نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ جب تک ہم اپنے اعمال کا احتساب کرتے رہیں گے ان شاء اللہ صراطِ مستقیم سے دُور نہیں جائیں گے۔

اس مسئلے کو نہ تو اس بنا پر حل کیا جا سکتا ہے کہ بعض خِطوں یا بعض ممالک کے ماننے والے کیا کرتے ہیں نہ اس کی بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ عربی دان حضرات کسی عمل کو کس طرح کرتے ہیں۔ پانچوں معروف اور دیگر غیر معروف فقہی مسالک کے بانی ائمہ عربی داں ہی تھے۔ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ ، امام جعفرؒ یا امام احمد بن حنبلؒ ان میں سے کسی نے بھی قرآن و حدیث کے ترجمے کی مدد سے دین کو نہیں سمجھا تھا۔ اس کے باوجود ان کی بعض تعبیرات و تشریحات اپنے ہم پلہ علما سے مختلف تھیں اور آج ان کے پیروکار اسی بنا پر ایک سے زائد تعبیرات پر عمل کرتے ہیں۔

آپ کے سوال میں بنیادی فکر یہ نظر آتی ہے کہ اگر محض قرآنی تلاوت سنی جائے تو غیرعربی داں کے لیے ذہن کے بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ جب کہ نماز میں قرآن کریم کو سننے کے ساتھ اس کے معانی پر غور کرنا صحیح معنی میں ایک شخص کو نماز کی حلاوت و خشیت سے زیادہ قریب کرسکتا ہے۔ گویا یہ راے قائم کرتے وقت ہم یہ تصور کر رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جو عربی زبان سے آگاہ ہوگا وہ شیطان کے ذہن کو بھٹکانے کی حکمتِ عملی کا شکار نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ عربی زبان سے واقف بے شمار افراد قرآن کی تلاوت سننے کے باوجود اس کے مفہوم سے غیرآگاہ رہ سکتے ہیں اور بہت سے افراد عربی زبان کے کماحقہ واقفیت کے بغیر بھی قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سن کر خشیت کی کیفیت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

بلاشبہہ قرآن کریم تقریباً ہر صفحے پر بار بار اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو غوروفکر‘ توجہ‘ تفقہ اور تدبر پر اُبھارتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک شخص قرآن کریم کے معانی و مفہوم سے آگاہ ہو۔ آپ کا تراویح کے لیے جانے سے قبل‘ تفہیم القرآنیا کسی اور تفسیر یا ترجمۂ قرآن کا مطالعہ کرنا ایک انتہائی مطلوب و مستحسن فعل ہے۔ جو حضرات براہِ راست قرآن کے معانی کو نہ سمجھ سکتے ہوں ان کے لیے ہی نہیں‘ بلکہ جو سمجھتے بھی ہوں ان کے لیے بھی‘ تراویح میں شرکت سے قبل متعلقہ اجزا کا مطالعہ پیشگی کرلینا بے حد فائدہ مند ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تراویح کے دوران یا پنج وقتہ نماز کے دوران جو حصہ تلاوت کیا جا رہا ہے اس سے مکمل طور پر آگاہ ہونے اور توجہ کو مرکوز رکھنے کے لیے ترجمہ کا ساتھ ساتھ پڑھنا کہاں تک قرآن و حدیث کی تعلیمات سے قریب ہے۔ اس سلسلے میں اصل بات تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اپنے بارے میں جہاں یہ بات کہی ہے کہ وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o  (الاعراف ۷:۲۰۴)، یعنی جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر رحمت ہوجائے۔ وہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ خاموش رہنے اور سننے کے ہیں‘ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتے کہ لوگ تلاوت سننے کے ساتھ ساتھ کتابِ عزیز کا مطالعہ بھی کرتے رہیں تو اس کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی تکلف نہ کیا جاتا۔ اب قرآن تو یہ کہے کہ مجھے سنو اور خاموش رہو اور میرا دل یہ چاہے کہ میں سنتے وقت پڑھتا رہوں‘ تو کیا جو دل چاہتا ہے وہی قرآن کا مدعا بھی ہے؟

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاموش رہنے میں خود بخود تفہیم کا پہلو یعنی سمجھنے کا عمل توجہ اور یکسوئی شامل ہیں اور سننے کے عمل میں کانوں کا استعمال واضح ہے‘ جب کہ ان دو اعمال کے ساتھ تیسرا عمل‘ یعنی بصارت کا استعمال غیرضروری اور اضافی ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ نہیں کیا ہے۔

اس اصولی اور قرآن کے حوالے سے وضاحت کے بعد دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یا دور خلافتِ راشدہؓ یا تابعین و تبع تابعین کے زمانے میں اُمتِ مسلمہ میں تمام مسلمان صرف وہ تھے جو براہِ راست قرآن کو سمجھتے تھے یا ایسے بھی تھے جن کی مقامی زبان عربی نہیں تھی۔ ان حضرات نے ۱۵۰۰ سال میں کیا طریقہ اختیار کیا اور کیا ان میں سے کسی کو شیطان نے وسوسے میں ڈال کر ذہنی طور پر بھٹکانے کی کوشش نہیں کی۔

بالکل واضح بات ہے کہ شیطان کوئی جزوقتی کارکن نہیں ہے کہ ویک اینڈ پر چھے سات گھنٹے کے لیے لوگوں کو ورغلا کر خود کو خوش کرلے کہ میں نے اپنا فریضۂ اقامتِ منکر ادا کردیا۔ وہ تو ہمہ وقتی کارکن ہے اور ہر دور میں ہر نمازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ وہ نہ صرف غیرعربی خواں بلکہ قرآن و حدیث کے عالم مفسر و فقیہہ کو بھی نہیں بخشتا بلکہ جو لوگ کتاب و سنت کا زیادہ گہرا علم رکھتے ہوں ان کی تاک میں زیادہ رہتا ہے کہ انھیں گمراہ کر کے وہ ایسے ہزاروں افراد کو گمراہ کر سکتا ہے جو شاید اس کی بات نہ سنیں لیکن ایک عالم و مفسر کے ایک قول کو معتبر مان کر فوراً قبول کرلیں۔

اس لیے توجہ کا ہٹنا‘ دل و دماغ میں وساوس کا آنا دو باتوں کی غمازی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ شیطان ایک اللہ کے بندے کے اچھے عمل سے‘ وہ نماز ہو یا کوئی اور عبادت‘ اتنا پریشان ہے کہ اس کی عبادت میں خلل ڈال کر اس کے اجر کو ضائع کرانا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسان خود اپنی پاسبانی نہیں کر سکتا چنانچہ اس کا حل یہ بتایا گیا کہ حالتِ نماز ہو یا کوئی اور حالت‘ فوری طور پر دل میں یا زبان سے ایک بندہ خود کو شیطان کے دائرہ اثر سے نکال کر تعوذ کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پناہ میں آجائے۔ گویا توجہ کی کنجی‘ محض ترجمہ کا پڑھنا نہیں بلکہ شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے میں ہے۔

جہاں تک سوال توجہ اور مفہوم سمجھ کر اپنے آپ کو محظوظ کرنے کا ہے تو اگر واقعی ترجمے کا  کوئی تعلق توجہ یا استحضار سے ہے تو پھر اسے تراویح تک کیوں محدود کیا جائے۔ پھر تو یہی ’حل‘    تمام نمازوں میں بھی ہونا چاہیے۔ مختصر یہ کہ تراویح سے قبل مطالعہ کرنے کے بعد اگر توجہ اور خاموشی سے امام کی قراء ت کو سنا جائے تو یہ عمل سنت اور قرآن سے زیادہ مناسبت رکھے گا اور ایک ایسے کام کا کرنا جو عبادت کا حصہ نہیں ہے بدعت ہی کہا جائے گا۔

البتہ کسی ایسے مقام پر جہاں کوئی حافظِ قرآن نہیں ہے‘ تراویح میں کسی ایسے امام کا امامت کرنا جسے مکمل قرآن یاد نہیںہے وہ جتنا قرآن اس کے حافظے میں محفوظ ہے اس کی تلاوت کرکے تراویح پڑھا سکتا ہے۔ جہاں یہ بھی ممکن نہیں ہے وقتی طور پر صرف اس وقت تک کے لیے کہ جب کوئی حافظِ قرآن مل جائے‘ امام دیکھ کر تلاوت کرے تو مجبوری کی بنا پر ایسا کرنا ایک اضطراری عمل ہوگا۔(ڈاکٹر انیس احمد)

مشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل

سوال: میری شادی حال ہی میں ہوئی ہے۔ ہم مشترکہ خاندانی نظام میںرہتے ہیں۔ میرے ساس سسر‘ جیٹھ جٹھانی اور دیور ساتھ ہی رہایش پذیر ہیں۔ میں چند مسائل کی وجہ سے ذہنی کش مکش سے دوچار ہوں۔

مجھے مطالعے کا شوق ہے اور فارغ وقت میں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرتی ہوں۔ میری ساس چلنے پھرنے سے معذور ہیں‘ چھڑی کی مدد سے تھوڑا بہت چل سکتی ہیں۔ مگر وہ چاہتی ہیں کہ میں فارغ نہ بیٹھوں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کام میں لگی رہوں۔ ان کا انداز گفتگو بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گھر کا کام تو مجھے کرنا ہی تھا مگر اس رویے سے ذہنی کوفت ہوتی ہے۔

گھر کے سربراہ سسر ہیں۔ ان کی اجازت سے ہی اپنے امی ابو سے ملنے جاسکتی ہوں بلکہ ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ہی گھر کا کام کاج کروں۔ پھر صبح جاکر شام کو لازماً واپس آنا ہوتا ہے۔ والدین کے گھر ٹھیرنے کی اجازت نہیں‘ جب کہ گھر ایک ہی شہر میں ہے۔ اگر کبھی میرے شوہر خریداری یا سیر کے لیے اپنے ہمراہ لے جائیں تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس بات سے مجھے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے کہ میں شوہر کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ سسرال والوں کی خدمت کے لیے لائی گئی ہوں۔ گویا بیوی نہ ہوئی‘ گھر میں موجودہ سسرالی رشتہ داروں کی زرخرید لونڈی ہوئی۔

میری خواہش ہے کہ میں اپنے خاوند کی خدمت کروں‘ ان کی پسند کے مطابق خود کھانا بنائوں‘ ان کے لیے آزادی سے تیار ہو سکوں‘ مجھے اتنی آزادی تو میسر ہو جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک شادی شدہ جوڑے کو دی ہے‘ اور جو ایک عورت کا حق ہے۔ لیکن ساتھ رہتے ہوئے اور جیٹھ اور دیور کی موجودگی میں تو ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں۔ پھر اگر گھر الگ لینے کی بات کی جائے تو ساس سسر ناراض ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تمام بچوں کو اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ کیا ایک بیٹا جس کے لیے ممکن بھی ہو‘ الگ گھر میں نہیں رہ سکتا‘ جب کہ دوسرے بھائی والدین کے ساتھ رہ رہے ہوں؟

شادی تو گھر کے سکون اور میاں بیوی کی خوشی و مسرت کے لیے کی جاتی ہے۔ ایسے مشترکہ خاندانی نظام کا کیا فائدہ جو دلوں میں رنجشیں پالنے اورہمہ وقت ذہنی تنائو کا سبب بنے اور انسان کو ذہنی مریض بناکر رکھ دے۔ اسلام میں تو اس کا کوئی تصور نہیں۔ میرے مسئلے کو حقیر نہ جانیے گا‘ بہت سے گھرانے اس سے دوچار ہیں۔

جواب :آپ نے اپنے سسر اور ساس صاحبہ کے حوالے سے مشترکہ خاندان کے نظام کی بعض مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمارے بیش تر معاشرتی مسائل کا سبب بزرگوں اور نوجوانوں کا دینی تعلیمات سے کم آگاہ ہونا یا بالکل لاعلم ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ تاریخی طور پر جن ادوار سے گزرا ہے ان کے نتیجے میں بہت سی مقامی روایات معاشرتی تحت الشعور سے چسپاں ہوکر رہ گئی ہیں اور نام نہاد مشرقیت کے پرستار اپنے ان تعصبات سے قطعاً لاعلم نظر آتے ہیں۔

ایک بنیادی بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ شادی کے نتیجے میں دو مختلف گھرانے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ مختلف ماحول‘ مختلف مزاج‘ رہن سہن اور معاشرت کے فرق کی بنا پر ایڈجسٹمنٹ میں مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے۔ بہو کو اس نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ والدہ کے لیے بیٹا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بہو کے آنے سے بیٹے کی توجہ بٹتی ہے۔ اگرچہ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیٹے سے وہ پہلے والی توجہ ملنا عملاً محال ہے‘ تاہم بہو کو اس نفسیاتی امر کے پیش نظر حکمت‘ صبروتحمل اور وسعت قلبی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر یہ پہلو ابتدا ہی سے پیش نظر رہے اور مشکلات کا کچھ اندازہ ہو تو بتدریج مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شادی کے ابتدائی ایام یا چند ماہ کے بعد ہی توقعات کے پورا نہ ہونے یا ہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر بہت زیادہ پریشان ہوجانا یا بہتری کے حوالے سے مایوس ہوجانا بھی مناسب نہیں۔ ہمت و حوصلے‘ تدریج اور حکمت سے یہ مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔

آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے جواب اختصار کے ساتھ عرض ہیں:

  • ساس اور سسر کی بزرگی اور ان کے بمنزلہ والدین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ محبت و شفقت کا مظاہرہ کریں‘ نئی نویلی دلھن کو بھرپور محبت دیں‘ اس کی پسند وناپسند کا خیال رکھیں تاکہ اسے ایڈجسٹ ہونے میں آسانی ہو‘ نہ کہ وہ اپنے اس استحقاق کی بنا پر اپنی عاقل بالغ اولاد کو ان کے معاشرتی حقوق سے محروم کر دیں۔ بلاشبہہ ایک بیٹے اور بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے بزرگوں کا احترام کریں‘ محبت و الفت کے ساتھ ان سے پیش آئیں‘ اور جس حد تک ممکن ہو ان کی خدمت اور ان کی خوشی کو مقدم رکھیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ نہ اپنے احباب کے ہاں جاکر کھانا کھا سکیں اور نہ گھر کی دلھن اپنے والدین کے ہاں رات گزار سکے۔ ساس اور سسر کا اپنی بہو کو ان حقوق سے محروم کرنا زیادتی ہے‘ خلافِ حکمت ہے اور دُوری کا سبب بنتا ہے۔
  • عموماً والدین کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے اور ان کی بہو ان کے ساتھ رہیں۔ یہ کوئی ناجائز خواہش نہیں ہے بالکل فطری بات ہے۔ لیکن اسلام جو دین فطرت ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ اس فطری خواہش کی تکمیل کے لیے ایک فطری ماحول پیدا کیا جائے‘ یعنی اپنے بیٹے اور بہو کو ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہونے کی بنا پر [جو قرآن کریم کا فرمان ہے] تنہائی اور آزادی فراہم کی جائے۔ اگرچہ الگ کمرے کی گنجایش تو موجود ہے مگر انھیں محض ایک کمرے میں بند کر دینا اسلامی تصور معاشرت کے منافی ہے‘ جب کہ الگ گھر بھی لیا جا سکتا ہو۔

والدین کو عام طور پر گھروں میں ایک سے زائد لڑکے اپنی بیویوں کے ساتھ رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی ایسی خواہش رکھتے ہیں تو پھر ایک شادی شدہ جوڑے کو اپنے گھر میں اتنی مکانیت فراہم کریں کہ ان کا بیٹا اور بہو آزادی کے ساتھ محض سونے کے کمرے میں نہیں گھر کے دوسرے حصوں میں بھی بے تکلف مل جل سکیں‘ اپنی پسند کا لباس اور غذا استعمال کرسکیں۔ یہ اسلام کے اصولوں کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ گھر میں دیور اور جیٹھ بھی موجود ہوں اور بہو سے کہا جائے کہ وہ پورے سنگھار کے ساتھ مشترکہ مجلس میں کھانا کھائے‘ چائے پیے وغیرہ‘ یا یہ کہا جائے کہ وہ ہر وقت عام لباس کے اوپر لبادہ پہن کر اور سوائے چہرے کے اپنے تمام جسم کو ڈھانک کر گھر میں چلے پھرے۔ اسلام کے دیے ہوئے بنیادی حقوق میں جو قرآن و سنت نے دیے ہیں اس قسم کا مطالبہ کرنا دین میں مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ چند لمحات کے لیے کسی مخصوص صورت حال میں اگر ایسا کرلیا جائے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ معمول بنا لیا جائے کہ اپنے دیور اور جیٹھ کے ایک ہی مکان میں رہنے کے سبب ایک لڑکی کو مسلسل لبادے میں رہنا پڑے تو یہ اس کے ساتھ بہرحال زیادتی ہے۔ اگر ساس اور سسر اپنے گھر میں ایسی فضا پیدا نہیں کرسکتے تو پھر انھیں اپنے بیٹے اور بہو کے الگ گھر میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خود اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ سنت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ اپنے الگ مکان میں رہے۔

  • اگر آپ کے شوہر کو کوئی ملازمت ایسی مل جاتی ہے جس کے بعد آپ الگ مکان میں رہ سکیں لیکن وقتاً فوقتاً اپنی ساس اور سسر سے ملاقت کر سکتی ہوں تو سب سے بہتر ہے۔ اگر ان کا بڑا بیٹا ان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے تو انھیں آپ کے الگ رہنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
  • یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ ایک بیوی کا بنیادی مقصد اور فائدہ یہ ہے کہ اس طرح لذیذ کھانے اور تازہ اور گرم روٹی یا حسبِ خواہش عمدہ قسم کی چائے مل جاتی ہے۔ ایسے ہی یہ خیال بھی غلط ہے کہ اس کا مصرف گھر کے برتن دھونا یا کپڑوں پر استری کرنا یا کمروں میں صفائی ستھرائی کے ساتھ اندرونی زیبایش کرنا ہے۔ یہ سارے کام ایک بہت کم تنخواہ پر رکھے ہوئے باورچی یا ملازمہ سے بھی کرائے جا سکتے ہیں۔ شادی تو ایک ایسا مقدس بندھن ہے‘ قول و قرار اور پایدار رشتہ ہے جو الفت و محبت‘ ایک دوسرے کی خیرخواہی‘ خوشی و مسرت اور سکون کا باعث ہے نہ کہ توہین اور تضحیک و تذلیل کا ذریعہ۔ لہٰذا اگر کوئی بہو یہ سارے کام اپنی خوشی سے کرتی ہے تو یہ اس کا اپنے شوہر کے ساتھ ایک حسنِ سلوک ہے۔ شریعت نے اُس سے صرف ایک مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کے ناموس کی حفاظت کرے اور اس کے لیے سکون کا باعث ہو۔ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ اپنے شوہر کے وسائل کی مناسبت سے مختلف کاموں کے لیے وہ خدمت گار کا مطالبہ کرسکے۔ ہاں‘ اگر باہمی رضامندی اور بلا کسی دبائو کے وہ گھر کا کوئی کام کرتی ہے تو اس کی اس خدمت کو تسلیم کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
  • اپنے شوہر کے ساتھ ایک بیوی اگر دو منٹ نہیں کئی دن کے لیے بھی کہیں جاتی ہے تو یہ اس کا اسلامی بنیادی حق ہے۔ ہاں‘ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے ساس سسر کو بے یارومددگار چھوڑتی ہے‘ جب کہ ضعیفی کی بنا پر انھیں امداد کی ضرورت ہو تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا کیوں کہ ان کا حق اولاد پر یہ ہے کہ جب وہ ضعیف ہوں تو وہ انھیں تقویت دے۔
  • ساس سسر کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ بجاے اپنی بزرگی کے ڈنڈے کو استعمال کرنے کے محبت کے ساتھ اپنی بہو سے پیش آئیں تاکہ گھر میں اتحاد و تعاون کی فضا میں اضافہ ہو۔ بہو جو کام کرے‘ اس پر جائز تعریف میں بخل سے کام نہ لیں۔ اسی طرح بہو کو بھی ساس سسر کے بزرگی کا احترام کرتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانا چاہیے۔ سب سے اہم ذمہ داری بیٹے یا شوہر کی ہے کہ وہ دونوں طرف توازن رکھنے کی کوشش کرے اور اس کی بیوی کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ وہ تنہا ہے۔ اگر کہیں مسائل حل نہ ہوپائیں تو خاندان کے ایسے بزرگوں سے مشورہ کرنا چاہیے جن کی بات سنی جاتی ہو اور جو مسئلے کو سلجھا سکیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے حقوق و فرائض کا تعین کرکے معاملات و مسائل کو احسن انداز میں حل کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دی ہے۔ ضرورت خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس‘ صبروتحمل‘ سوجھ بوجھ‘ حکمت اور  ہمدردی و خیرخواہی اور احسان کے جذبے سے معاملات کو لے کر چلنے کی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

فنڈ جمع کرنے کے لیے ورائٹی شو

سوال: میں ایک مقامی گورنمنٹ کالج میں ملازم ہوں۔ کالج میں آج کل غیرشرعی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے پریشان رہتی ہوں اور اب آپ سے مشورہ طلب کر رہی ہوں۔

آج کل حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت کم گرانٹ دے رہی ہے۔ اس لیے کالج کی انتظامیہ اخراجات کے مسئلے پر بہت مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ کالج انتظامیہ جب اخراجات کی زیادتی اور فنڈز کی کمی کی شکایت کرتی ہے تو ڈائریکٹریٹ سے جواب ملتا ہے ورائٹی شو اور مینابازار کروا لو۔ اس طرح گرلز کالجوں میں فنڈ ریزنگ کے نام پر ورائٹی شو‘ مینابازار‘ میوزک فیسٹیول اور کلچرل شو تقریباً ہر دوسرے چوتھے دن کے مسائل بن چکے ہیں جس سے ایک طرف تو ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف طالبات میں بے راہ روی پھیلتی ہے‘ اور نادار طالبات پر بوجھ بھی ہے۔ ان مینابازاروں اور کلچرل شوز میں عموماً آدھے اسٹال باہر کے مردوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ پھر مردوں والے اسٹالوں پر زیادہ رش ہوتا ہے اور آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں ناچ گانا‘ ڈانس‘ ہوٹنگ‘ چیٹنگ‘ فوٹوسیشن وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے۔ دین دار اساتذہ کو ایسی ڈیوٹیاں انجام دینے پر سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ میراتھن ریس کی ناکامی کے بعد حکومت نے خواتین کے میچوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس میں بھی کئی قباحتیں ہیں۔ جبری ڈیوٹی سے انکار پر محکمانہ کارروائی کا خوف دلایا جاتا ہے۔کیا ہمارے لیے کسی حد تک ان ڈیوٹیوں کی گنجایش نکلتی ہے؟ ہم بارِ گناہ و جرم سے اپنے آپ کو کس حد تک سبکدوش سمجھ سکتے ہیں؟

جواب :تعلیمی اداروں میں چندہ جمع کرنے کے لیے ورائٹی شو منعقد کرنا لادینی تہذیب کی ایک حکمت عملی ہے اور قیام پاکستان سے آج تک برسرِاقتدار طبقے نے ہمیشہ ایسے کاموں کی حمایت ہی کی ہے‘ الا ماشاء اللہ۔ لیکن کسی برائی کا مسلسل کیا جانا نہ اسے حلال کر دیتا ہے اور نہ اس کی خرابی میں کمی کرتا ہے۔ قرآن کریم نے ایسی برائیوں کی جاے ارتکاب پر سے الگ سے گزر جانے کا حکم دیا ہے اور لغو سے مکمل طور پر بچنے کی تلقین کی ہے۔ اس لیے ایک باشعور مسلمہ کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ ایسے کسی کام میں تعاون سے بچے۔

اس اصولی موقف کی وضاحت کے بعد زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ضرر اور منکر کو رفع کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ ایک معلمہ اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے پرنسپل کو تحریری یا زبانی طور پر مطلع کر دے کہ اس کی تدریسی ذمہ داری میں خلاف اسلام ورائٹی شو کروانا شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے اس سے رخصت دے دی جائے۔ اگر انتظامیہ معقول ہو تو اسے اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا میں ویت نام کی جنگ کے موقع پر غیرمسلم عیسائی اور دہریہ امریکیوں میں سے بعض نے حکومت کی جبری بھرتی میں جانے سے محض اپنے ضمیر کی بنا پر انکار کیا اور بعض نے ملک چھوڑنا اور بعض نے جیل میں جانا پسند کیا لیکن جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس صورت حال میں جیساکہ آپ نے لکھا ہے‘ یہ امکان ضرور رہتا ہے کہ انتظامیہ بعض قوانین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے ایسے کسی فرد کو فارغ کر دے یا احکام کی حکم عدولی کی بنیاد پر کوئی کارروائی کر ڈالے۔ گویا اس حکمت عملی میں ملازمت سے فارغ کیے جانے کا خطرہ لازماً رہے گا۔

دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ وہ معلمات جو اس سرگرمی کو غلط سمجھتی ہیں دیگر معلمات سے تبادلۂ خیال کریں اور اس کے مضر پہلوئوں پر انھیں قائل کرنے کے بعد سب مل کر متبادل طریقے تلاش کریں جن سے فنڈ بھی مل سکے اور سرگرمی اسلامی اصولوںکے منافی نہ ہو۔ اس غرض کے لیے باہمی مشاورت سے ایسے پروگرام سوچے جائیں جن میں کھانے پینے کی اشیا کی فروخت‘ جیسے bakesale ہوتی ہے‘ کے ذریعے فنڈ پیدا کیا جائے اور اسٹال صرف خواتین لگائیں‘ مردوں کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہو۔ اس کے لیے باہمی مشورے سے شرائط وغیرہ تیار کی جائیں اور ایک جائز طریقے سے فنڈز کا حصول ممکن بنایا جائے۔

اس کے ساتھ اخبارات میں کالم اور خطوط کے ذریعے راے عامہ کو کالج اور اسکول کے اس مسئلے سے مطلع بھی کیا جائے اور اسے تیار بھی کیا جائے۔ اگر معلمات کی کوئی مقامی یا مرکزی تنظیم ہو تو وہ اس مسئلے پر علمی مکالمے کاانتظام کرے تاکہ انتظامیہ کو مختلف نقطہ ہاے نظر سننے کا موقع ملے اور وہ اسے کوئی سیاسی رنگ دے کر چند ایسے افراد کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہ ہو جن پر ’’ملائیت‘‘ کی چھاپ جب چاہیں لگا سکتے ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اگر تمام مثبت کوششوں اور ابلاغ کے ذریعے اپنے مؤقف کی وضاحت کے باوجود آپ کو کامیابی نہ ہو تو کم از کم ایک برائی کو دُور کرنے کی کوشش کا اجر آپ کو ضرور ملے گا۔ ہاں‘ اگر حالتِ اضطرار میں‘ یعنی مجبوری کی شکل میں جب آپ کے پاس حلال طور پر حصول رزق کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہوئے اور اپنی حد تک برائی کو برائی قرار دیتے ہوئے‘ ایسی سرگرمی میں حصہ لیں۔

جہاں تک معاملہ طالبات کے دوڑ میں حصہ لینے‘ کرکٹ میچ‘ یا کھیلوں میں حصہ لینے کا ہے‘ اگر ایسا پروگرام کسی ایسے مقام پر کیا جا رہا ہے‘ جہاں طالبات مردوں کی نگاہوں سے محفوظ ہیں اور ان کے لباس ساتر ہیں تو دوڑنا بجاے خود کوئی غیرشرعی فعل نہیں ہے لیکن یہی کام اگر غیرساتر لباس اور مردوں کی موجودگی میں کیا جائے تو اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس سلسلے میں بھی معلمات اور طالبات میں راے عامہ کو ہموار کرنا‘ انھیںاسلامی حدود میں رہتے ہوئے سرگرمی کرنے پر اُبھارنا اور غیراسلامی طریقے کا رد کرنا آپ کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے دعوتی انداز میں حکمت عملی وضع کرنا ہوگی محض غصہ اور نفرت کے اظہار سے مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ طالبات کی جانب سے بھی اس پر رائے کا اظہار اجتماعی طور پر ہونا چاہیے لیکن اس سے قبل آپ کو کوشش کر کے طالبات اور معلمات کے ذہن کو اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ وقت کی قید سے آزاد ہوکر اور جلد نتائج پیدا کرنے سے بچتے ہوئے ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے صبرواستقامت ہی واحد ذریعہ ہیں۔ یہ جہاد ہمارے ملک کی ہر باشعور معلمہ کو کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ایسے کاموں میں برکت پیدا کرے گی‘ان شاء اللہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ

سوال: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کے بعد سے راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ کیا کروں‘ کہاں جائوں؟ کیا اپنا سب کچھ صدقہ کر دوں؟ کیا اللہ اس طرح معاف کر دیں گے؟ سخت پریشانی میں ہوں۔ میرے لیے کیا راستہ ہے؟ میری رہنمائی فرمایئے۔

جواب : جب گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہو تو یہ ایمان اور زندگی کی علامت ہے۔ جب کوئی کانٹا چبھے یا چوٹ آئے اور آدمی اسے محسوس کرے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جسم شل اور بے حس نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تجھے نیک کام کرکے خوشی ہو اور گناہ کر کے تکلیف ہو تو‘ تو مومن ہے‘‘۔(ترمذی)

گناہ کی مثال ایک بیماری کی ہے۔ جب بیماری کا آغاز ہو اور آدمی کو تکلیف پہنچے تو وہ اس کا علاج کرتا ہے۔ اگر علاج کر کے بیماری کا ازالہ کرلیاجائے تو آدمی صحت مند ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر غفلت میں مبتلا ہوجائے اور علاج نہ کرے تو بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کینسر یا ٹی بی کی طرح مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر لاعلاج ہوکر ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب یا نشہ آور چیز کا استعمال کرے تو ایک دو مرتبہ ایسا کرنے کے بعد اسے چھوڑنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر وہ نشے کا عادی ہوجائے تو پھر جان دے دیتا ہے لیکن نشہ نہیں چھوڑ پاتا۔ اگر شروع میں احساسِ گناہ ہوجائے تو یہی وقت ہے کہ اس سے باز آجائیں۔ جو پریشانی لاحق ہوتی ہے اسے دُور کرنے کے لیے استغفار کریں۔

آدمی سے جب گناہ ہوجائے تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ یہ دروازہ اس وقت بند ہوتا ہے جب آدمی پر جاں کنی کا عالم طاری ہو۔ اس سے پہلے پہلے توبہ کرے تو توبہ قبول ہوتی ہے۔ کفر‘ شرک‘ کبیرہ اور صغیرہ گناہ‘ سب قابلِ معافی ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب گناہ سرزد ہوجائے تو آدمی کو اولاً اس پر ندامت اور شرمندگی ہونی چاہیے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس پر بخشش اور معافی مانگے۔ تیسرے درجے میں ارادہ کرے کہ آیندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائے گا اور گناہ کے کاموں کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے گا‘ بلکہ نیکی کو اپنا معمول بنائے گا۔ حدیث میں ہے کہ گناہ کرنے والا جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے‘ اگر توبہ کرلے تو وہ دُور ہو جاتا ہے۔ اگر توبہ کرنے کے بجاے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے تو ایک سیاہ دھبہ مزید لگ جاتا ہے اور اگر اس طرح گناہ کرتا چلا جائے تو تاریکی دل پر چھا جاتی ہے۔ آدمی کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جو لوگ برائی کے رسیا نظر آتے ہیں‘ یہ برائی کے علم بردار‘ مبلغ اور اسے قائم و نافذ کرنے اور رواج دینے والے ہیں۔ انھیں بے حیائی‘ عریانی‘ فحاشی‘ بدکاری‘ مرد و زن کا اختلاط‘ شراب و کباب کی محفلوں میں ننگے ناچ کرنا‘ ریڈیو‘ ٹی وی‘ کیبل کے ذریعے  رقص و سرود کی مخلوط محفلیں سجانا اور گھروں میں مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کو دیکھنا‘ یہ سب ان کو نہ صرف گوارا ہے بلکہ یہ انھیں روشن خیالی نظر آتی ہے۔ پاک بازی اور پاک دامنی‘ نیکی و تقویٰ اور غیرمحرموں کے ساتھ میل جول سے احتراز‘ ان کو اچھا نہیں لگتا۔ پاک باز اور پاک دامن لوگوں کو وہ دقیانوسی‘ غیرترقی یافتہ اور رجعت پسند قرار دیتے ہیں۔ یہ سب لوگ نیکی کے مدمقابل کھڑے ہوتے ہیں‘ نیک لوگوں کے ساتھ محاذ آرائی کرتے ہیں اور کفار کے آلۂ کار اور ان کی تہذیب کے رسیا ہیں۔ یہ یک دم نہیں بلکہ تدریجاً اس مقام تک پہنچے ہیں۔ یہود بھی معصیتوں کے مختلف مراحل سے گزر کر انبیا علیہم السلام کے قتل اور کفر تک پہنچے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب در غضب کے مستحق ٹھیرے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَo (البقرہ۲:۶۱) ’’یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھے جاتے تھے‘‘۔

لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ اس طبقے میں شامل ہونے سے اپنے آپ کو بچایا جائے ۔ برائی کی شدت اور فحاشی و عریانی اورثقافتی یلغار کو دیکھ کر مایوسی بھی نہ ہو بلکہ توبہ و استغفار کی راہ کو اپناتے ہوئے گناہ کے جذبات کو کنٹرول کریں‘ قوتِ ارادی کو مضبوط کریں ‘ شیطانی وساوس اور گناہ کے لیے اُکساہٹ پر قابو پائیں۔ اپنے آپ کو معذور سمجھنا چھوڑ دیں۔ گناہ کے لیے جواز تلاش کرنے کی غلطی ہرگز نہ کریں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہیں۔ جو چاہیں کہ انھیں خودبخود ہدایت مل جائے‘ اس کے لیے انھیںکچھ مشقت اور تکلیف نہ اٹھانی پڑے‘ ایسے لوگ ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے نفس کو لگام دیں‘ اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پہنچنے دیں‘ اس پر واضح کر دیں کہ اس کی تسکین کے لیے ناجائز طریقے اختیار نہیں کرنا ہیں۔

اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو عمومی ہدایت دی ہے وہ درج ذیل ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اے نبی (آپ ہمارافرمان) ان سے کہہ دیجیے (وہ یہ ہے) کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ غفور و رحیم ہے‘‘۔

یہ آیت رہتی دنیا تک تمام گنہگاروں کے لیے‘ اپنے نفس پر زیادتی کرنے والوں کے لیے ایک نوید ہے۔ جمیعًا ، یعنی سب کے سب گناہ ایک ساتھ معاف کر دینے کی خوش خبری ہے۔ آپ معاف کروانے کے آداب کے ساتھ معافی مانگیے‘ آپ کی درخواست ہرگز رد نہ کی جائے گی۔

پس‘ سب سے پہلے توبہ کی شرائط کے مطابق توبہ کرنی چاہیے (اس کے لیے دیکھیے:   تفہیم القرآن‘ ج۶‘ ص ۳۲) ۔ دوسرے درجے میں گناہ کے اسباب کا ازالہ کرنا چاہیے‘ جو معمولات گناہ کی طرف لے جاتے ہیں‘ ان سے دُور رہیں‘ انھیں بدلیں۔اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اپنے گناہ کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ پریشانی میں آپ نے یہاں رابطہ کیا‘ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کیا‘ اس طرزِعمل پر قائم رہیں‘ کسی کے سامنے اپنے گناہ کا ذکر نہ کریں۔ حدیث میں اس کی مذمت آئی ہے کہ آدمی ایک تو گناہ کرے پھر اس کا چرچا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد کرے‘ اپنی بندگی کی سعادت بخشے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)


آمدنی کا درست استعمال

س: میں عام مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدین نے بڑی مشکل سے میری تعلیم مکمل کروائی۔ اب سی اے کر کے مجھے ۴۰ ہزار روپے کی ملازمت مل گئی ہے۔ میں یہ رقم کس طرح خرچ کروں؟ کیا اس میں بھی قرآن و سنت کی کوئی رہنمائی ہے؟

ج: ایسے معاشی حالات میں جب بے روزگاری روبہ ترقی ہو‘ ایک معقول ملازمت کا مل جانا محض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کرم ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔    اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو جیسا کہ ان کا حق ہے ادا کرنے کی توفیق دے۔

رزق میں تنگی اور کشادگی دونوں ایک بندہ مومن کے لیے امتحان کی شکلیں ہیں۔ جس طرح بعض اوقات فقروفاقہ ایک انسان کو شرک کے دروازے تک لے جاتا ہے‘ ایسے ہی دولت کی فراوانی باآسانی ایک شخص کو اسراف و تبذیر کی طرف مائل کرسکتی ہے۔ قرآن کریم نے مالی معاملات میں جو رہنما اصول دیا ہے وہ دونوں صورتوں میں اہلِ ایمان کو جادہ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا کہ نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں سے باندھو اور نہ انھیں بالکل کھلا چھوڑ دو۔ اگر ایک شخص کا خیال ہو کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلی ملازمت کم تنخواہ پر بھی اختیار کرلے گا اور اسے توقع سے زیادہ معاوضہ مل جائے تو عموماً دو ردّعمل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف مال کی کشش یہ سجھاتی ہے کہ اس مال کو سنبھال کر رکھو‘ اپنے طرزِ رہایش میں کوئی تبدیلی نہ کرو اور جیسے پہلے تنگی میں گزارا کرتے تھے کرتے رہو۔ حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابیؓ کو بظاہر خستہ حال دیکھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کے پاس وسائل ہوں تو اس کا اثر اس کے لباس اور وضع قطع پر نظر آنا تقویٰ کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ دین جو ایک اُمت وسط پیدا کرنے آیا تھا یہ پسند نہیں کرتا کہ نمود و نمایش اور اپنی برتری کے اظہار کے لیے ایسا لباس یا ایسے انداز اختیار کیے جائیں جن سے تکبر کا اظہار ہو۔

دین کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے ذہن میں اپنے مال کے چار حصے کرے۔ پہلے حصے میں وہ اپنی ضروریات اور حاجات کو پورا کرے‘ دوسرے حصے میں اقربا کو ان کا حق دے‘ تیسرے حصے میں غیرمتوقع حالات کے لیے ایک مقدار کو الگ کرے اور چوتھے حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ان ضروریات سے زائد مال کو استعمال کرے۔ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی صحابی نے اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں دینی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں متوجہ کیا کہ کیا وہ اپنے بعد اپنی اولاد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا بنانا چاہتے ہیں یا اس کے لیے کچھ چھوڑنے کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔

دراصل ہمارے ذہنوں میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کوئی مال چھوڑنا ایک دنیاوی اور مادی فعل ہے‘ جب کہ اللہ کی راہ میں تمام مال کو صرف کر دینا ایک دینی کام ہے۔ اسوئہ حسنہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اولاد پر خرچ کرنا بھی دین پر عمل کرنا ہے اور جو کچھ ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی دین ہے۔ دونوں شکلوں میں توازن اور عدل کرتے ہوئے قرآن وسنت کے اصولوں کو سامنے رکھنا اور ہر کام کوا للہ کی رضا کے لیے حلال طریقے سے انجام دینا ہی دین کا مقصد و مدعا ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی توقع سے زیادہ تنخواہ کی ملازمت دلوا دی ہے تو توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اُوپر ذکر کیے گئے چار حصوں کی روشنی میں اپنی تنخواہ کو تقسیم کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی دے گا اور آپ نہ اسراف کے مرتکب ہوں گے اور نہ بخل کا شکار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر نہ صرف نماز کی شکل میں بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں رویہ اختیار کرکے اور دین کے قیام کے لیے ہونے والی جدوجہد میں خرچ کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


سافٹ ویئر کے استعمال میں شبہہ

س: میرا بیٹا ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔ان کا کام ان کمپنیوں سے ہے جو زیادہ تر کار لیزنگ کا کاروبار کرتی ہیں۔ اس میں سود کا بھی لین دین ہے۔ آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا اس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟

ج: تجارت اور مالی معاملات میں قرآن و سنت کے اصول وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ سود‘ جوا‘ احتکار اور کسی منکر یا فحش کے ذریعے جو رقم حاصل کی جائے گی وہ حرام ہوگی‘ مثلاً ایک  شخص یہ جانتے ہوئے کہ ایک دکان پر صرف شراب فروخت ہوتی ہے جا کر ملازمت کرتا ہے تو وہ براہِ راست ایک منکر اور حرام کام میں شریک ہوجاتا ہے‘ لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ ایک ملک  عالمی بنک کا مقروض ہے اور ملک کا بچہ بچہ سالہا سال تک اس قرض پر سود کی رقم دینے پر مجبور ہوگا‘ اگروہ ایک سرکاری اسکول میں معلم ہے تو اس کی تنخواہ اس کے لیے بالکل حلال اور سود کی برائی سے پاک تصور کی جائے گی۔ ایسے ہی اگر ایک دستکار انتہائی محنت و مشقت سے ایک تیزدھار چاقو یا ایک عمدہ قسم کا پستول بناکر ایک گاہک کو فروخت کرتا ہے اور وہ بجاے چاقو کو گھر میں استعمال کرنے یا پستول کو دفاعی ہتھیار کے طور پر اپنے پاس رکھنے کے‘ کسی کی جان لینے کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کا کوئی گناہ دستکار پر نہیں ہوگا۔

سافٹ ویئر انجینیرنگ کو ہم ایسی دستکاری پر قیاس کریں گے جو کسی بھلے اور مفید کام کے لیے کی جارہی ہے۔ اگر کوئی ادارہ اس کا استعمال کسی ایسے معاملے میں کرے جو مشتبہ ہو تو اس کے بنانے والے پر بظاہر اس کا کوئی گناہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ ہاں‘ اگر ایک گاہک یہ کہہ کر ایک کام کرواتا ہے کہ تم جو کچھ بنا کر دو گے‘ میں اس کا ایک حرام استعمال کرنے جا رہا ہوں‘ اور ایک کاریگر اس غرض سے اسے کوئی آلہ بنا کر دے تو وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔

بلاشبہہ رزقِ حلال کی طلب اور حصول ہی ہمارے ایمان کا صحیح پیمانہ کہا جا سکتا ہے‘ لیکن جن معاملات میں بظاہر دین نے حرام کا حکم نہ لگایا ہو انھیں حرام کے دائرے میں لے آنا دین کا مقصد نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح جن معاملات میں دین کا رجحان واضح طور پر یہ ہو کہ فلاں چیز حرام ہے‘ اسے خوش گمانیوں کی بنا پر حلال کے دائرے میں کھینچ لانا بھی دین کے ساتھ ظلم ہے۔

گاڑیوں کی لیزنگ (leasing) کی بنیاد اگر سود ہو تو اسے کسی بھی شکل میں جائز نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر وہ بغیر سود کے ہو تو اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے اگر کسی سافٹ ویئر کا استعمال ایسے لیزنگ کے کاروبار میں ہو رہا ہے جو سود پر مبنی نہیں ہے تو بالواسطہ طور پر بھی سافٹ ویئر بنانے والے پر کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)

اسلامی نظام معاشرت: بعض اہم بنیادی اصول

سائل نے اپنے طویل خط میں ان عملی مسائل کا ذکر کیا ہے جو ایک گھر میں نئی آنے والی بہو کے اپنے یا معروف تصور کے مطابق احکامِ دین پر سختی سے عمل کرنے سے پیدا ہو رہے ہیں‘ یعنی ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھانا‘ بیش تر وقت اپنے کمرے میں گزارنا‘ والدہ کے ساتھ ملنے جلنے کے لیے نہ جانا وغیرہ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے تفصیل سے دین کے مزاج اور حکمت کے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر جامع جواب لکھا جو دیگر معاملات میں بھی اصولی رہنمائی دیتا ہے۔ (ادارہ)

اسلامی نظام حیات کے امتیازات میں سے ایک اہم اور بنیادی پہلو اس کا معاشرت کے تصور کو انقلابی انداز میں الہامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اسلام سے قبل ہی نہیں اسلام کے بعد بھی بہت سی اقوام کے خودساختہ تصور مذہب میں نیکی‘ روحانی ترقی اور نفس کو زیر کرنے کے لیے تجرد اور اہلِ خانہ سے دُوری کو بطور ایک نسخہ کیمیا سمجھا جاتا رہا ہے۔ بعض عیسائی راہبوں کے عبرت ناک واقعات سے پتا چلتا ہے کہ وہ اہلِ خانہ سے دُوری کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ کسی راہب کی بوڑھی ماں نے طویل مسافت کے بعد جب چاہا کہ اپنے بیٹے کی صرف   ایک جھلک دیکھ سکے تو روحانیت کی طلب سے معمور اس راہب نے اپنی محنت و مشقت کے  ضائع ہوجانے اور ماں کی محبت سے مغلوب ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر ماں کی درخواست کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ بعض مذاہب نے زندگی کے ادوار کی تقسیم کی حد تک تو یہ بات مانی کہ طالب علمانہ دور کے بعد کچھ عرصے کے لیے ایک ہندو (گرہستیا) بن سکے اور جب اس کے بال بھورے ہونے لگیں تو پھر وہ جنگل کی راہ لے اور بقیہ تمام زندگی غوروفکر اور روح کی آواز کو سننے کی کوشش میں تنہائی و تجرد میں صرف کردے۔ حتیٰ کہ اس کی انفرادی روح کائناتی روح کے ساتھ یکجا ہوجائے جس طرح قطرہ دریا میں یا جزو کل میں فنا ہوکر بقاے دوام حاصل کرلیتا ہے۔

آج بھی عیسائیت اور مثالی ہندوازم سے متاثر ذہن کے لیے‘ وہ چاہے یورپ و امریکا میں ہو یا ایشیا و آسٹریلیا میں‘ خاندانی زندگی گزارتے ہوئے روحانیت کا حصول ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ ایک مذہبی شخص کا تصور ہی یہ پایا جاتا ہے کہ خدا سے قرب حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی جسمانی خواہشوں کو سسکا سسکا کر مارنا ہوگا۔ اسلام پر بنیادی اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ جس دین کے داعی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ مکرمہ میں مصلوب ہوکر حیاتِ جاودانی حاصل کرلینے کے مقابلے میں ہجرت کرنے اور تمام عمر مجرد رہنے کی جگہ ایک سے زائد نکاح کو جائز سمجھا وہ دین کہے جانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی کے قیام اور عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل قرار دیا جب کہ نام نہاد مذہبیت اورروحانیت کے علم بردار مذاہب اسے ایک خالص مادی اور کم تر درجے کا عمل سمجھتے ہوئے حصولِ روحانیت میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی کہ بعض صحابہ نے آپ کی عبادت کے بارے میں معلومات کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں‘ معصوم ہیں‘ معصیت کا ارتکاب نہیں کرسکتے‘ غالباً اس بنا پر عبادات میں اتنی کثرت نہیں کرتے جتنی ان اصحاب نے اپنے خیال میں ضروری سمجھی تھی‘ چنانچہ یہ سوچ کر ان میں سے کسی نے طے کیا کہ تمام رات سوئے بغیر نماز قائم کرے گا۔ کسی نے طے کیا کہ مستقلاً روزہ رکھے گا اور کسی نے طے کیا کہ وہ نکاح سے دُور رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصحاب کو طلب فرمایا اور بجائے اپنے تصوراتی تقویٰ اور پاک بازی کے انھیں اپنی سنت پر عمل کرنے اور اس طرح اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔

حضرت انسؓ سے مروی اس حدیث صحیح میں جسے مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک یوں درج ہے: واللّٰہ انی لاخشاکم للّٰہ واتقاکم لہ لکن اصوم وافطروا صلی وارقد واتنزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی، ’’یعنی بلاشبہہ میں تم سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرنے والا ہوں لیکن دیکھو میں (نفلی) روزے کبھی رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا اسی طرح (رات میں) نوافل بھی پڑھتا ہوں‘ سوتا بھی ہوں‘ دیکھو میں بیویاں بھی رکھتا ہوں جو میری سنت سے بے رخی برتے وہ میرے (گروہ) میں سے نہیں ہے‘‘۔

اس ارشاد مبارک نے قیامت تک کے لیے رشتۂ نکاح کے احترام و اعزاز کو ثبات بخش دیا اور عیسائی و ہندو تصوراتِ نفس کشی اور خشیت و تقویٰ کو بنیاد سے اُکھاڑ کر صحیح تقویٰ اور خشیت کا پیغمبرانہ تصور اور عملی نمونہ ہمارے لیے بطور روشن مثال کے پیش کر دیا ہے۔

گویا معاملہ عبادات کا ہو یا معاشرتی معاملات کا‘ ہمیں اپنی پسند یا ناپسند اور اپنے ذاتی اطمینان کی بنا پر کسی عمل کو‘ کسی خاندانی روایت کو‘ کسی رسم کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہر وہ چیز جو قرآن وسنت کے اصولوں اور احکامات کے مطابق ہو‘ اختیار کی جائے گی اور ہر وہ عمل جو ان دو ناقابلِ تغیر اصولوں کے مطابق ہوگا‘ مطلوب و مقصود سمجھا جائے گا۔

اُوپر جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا وہ یہ بات بھی واضح کر دیتی ہے کہ روحانیت (spirituality) میں اضافے کے لیے اصل بنیاد نہ جسم کو بے آرام رکھنا ہے اور نہ معاشرتی زندگی کو چھوڑ کر تجرد کی زندگی گزارنا ہے بلکہ اصل روحانیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حد تک ایک کام کو کرنے کا حکم دیا ہے‘ اسی حد تک کرنے میں ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت کو ناپسند کیا (نہ چاہا) وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ اسی بناپرایک دوسری حدیث میں رشتۂ ازدواج قائم کرنے کو ایمان کی تکمیل قرار دیا گیا۔

اسلام کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ وہ دین کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کرتا ہے اور معاشرتی معاملات کو محض مادی اور دنیاوی فوائد یا حصولِ لذت سے وابستہ نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی کی اس مرکزیت کی بنا پر سورہ النساء کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے اسے ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس لیے اللہ سے تقویٰ اور خشیت کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس رشتۂ رحم کو اُس مقام پر رکھے جو اس کا حق ہے۔ نہ اس میں کمی ہو نہ زیادتی۔ نہ اس کا غلام اور بندہ بن جائے نہ اس کا باغی اور مفرور بنے۔ سورۂ روم میں اس تعلق کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور آیت قرار دیا کہ وہ دو ایسے افراد کے درمیان جو کل تک اجنبی تھے‘ گہری مؤدت و رحمت پیدا کر دیتا ہے۔

خاندان کے بنیادی ادارے کا وجود میں لانا مقاصد شریعہ میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ چنانچہ نسلِ انسانی کے تحفظ‘ انسان کی پہچان اور بقا کے لیے انسان کے خالق نے جو راستہ تجویز کیا وہ خاندان کے اخلاقی ادارے کا قیام ہے۔ سورہ النساء میں اس ادارے کے قیام کو تقویٰ یعنی اخلاقی رویے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت و استفادہ کرنے‘ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی تحفظ فراہم کرتا ہے اور بالخصوص افراد خاندان کی جان‘ دین‘ عزت و ناموس‘ املاک اور عقلی و فکری معاملات میں تقویت اور پشت پناہی کرتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ایک انسانی ادارہ ہونے کے سبب بعض فطری مسائل سے بھی دوچار رہتا ہے۔ یہ معاملات اس معنی میں فطری ہیں کہ نہ صرف انسانی معاشرے میں بلکہ کسی بھی معاشرتی نظم میں ان کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جس طرح ایک بچہ ہر لمحہ خود کو ماحول اور ضروریات کے مطابق ڈھالتا ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ چلنا شروع کرتا ہے تو وہ سطح زمین پر بھی لڑکھڑاتے ہوئے چلتا ہے۔ پھر وہ زینہ پر چڑھنا سیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق کر لیتا ہے۔ اب نہ لڑکھڑاتا ہے نہ ڈرتا ہے‘ بلکہ تیزی سے سیڑھی پر چڑھتا ہے حتیٰ کہ پلنگ پر اُچکنے کے باوجود اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ ایسے ہی خاندان میں جب وسعت پیدا ہوتی ہے اور ایک گھرانے کے چار یا چھے بھائی بہنوں اور والدین کے جانے پہچانے ماحول میں ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے تو وہ تمام مراحل جو مطابقت پیدا کرنے (adjustment) سے تعلق رکھتے ہیں فطری طور پر سامنے آتے ہیں۔

ان میں سے ایک بنیادی سوال گھر میں آنے والی دلہن یا بہو یا بھابی کے گھر کے مروجہ ماحول میں گھلنے ملنے کا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں‘ اصولی بھی ہیں اور بعض معاملات میں متعین بھی۔ لیکن چونکہ اکثر مسلمان گھرانوں میں وہ چاہے پاکستان میں ہوں‘ مراکش میں ہوں‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں ہوں یا ترکی اور وسط ایشیا یا افریقہ میں‘قرآن و سنت کی تعلیمات پر براہِ راست غور کم کیا جاتا ہے اور مقامی رواج‘ بزرگوں کے اقوال اورخاندانوں کی اپنی روایات ہی کو اسلامی ثقافت سمجھ لیا جاتا ہے‘ اس لیے بہت سے معاملات میں ہم قران وسنت سے انحراف اور بعض میں ان تعلیمات میں غلو اور شدت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نئے آنے والے فرد کا پہلے سے موجود خاندان کے ساتھ تعلق اُس اخلاقی اور قانونی ضابطے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے جسے ہم عقدِنکاح کہتے ہیں اور جو ایک معاشرتی عہد کے طور پر معاشرے کے افراد کے سامنے کیا جاتا ہے۔ عقدنکاح ان دو اجنبی افراد کو اخلاقی رشتے میں یکجا کردیتا ہے۔ ساتھ ہی ان دونوں سے وابستہ ان کے خونی رشتہ دار بھی ایک نئے اخلاقی اور قانونی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ شوہر کے والدین لڑکی کے ساس سسر ہونے کے ساتھ بمنزلہ باپ اورماں کے حرام رشتے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی بیوی کی بہن اور بھائی بھی اخلاقی اور قانونی طور پر اس نئے تعلق کے تناظر میں محترم رشتہ اختیار کرلیتے ہیں۔

اسلا م نے خونی رشتہ داروں کے حوالے سے اطاعت وفرماں برداری کی حدود‘ معاشرتی اختلاط کا دائرہ‘ مادی طور پر استفادے کا طریقہ اصولی اور قانونی طور پر وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ ایک فرد اپنے ماں باپ‘ بھائی بہن‘ خالہ‘ پھوپھی‘ ماموں‘ چچا کے گھر میں بلاتکلف (اسلامی آداب کے ساتھ) جاکر کھاپی سکتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو‘ بحث و نظر‘ حصولِ علم اور معاشرتی تقریبات میں شرکت کر سکتا ہے۔ ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر سفروحضر میں ان پر کوئی پابندی نہیںلگائی گئی۔

ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر بعض کی کفالت بھی فرض کر دی گئی اور بعض کے سلسلے میں عمومی حکم دے دیا گیا کہ انھیں دیا جائے (سورہ النحل ۱۶:۹۰)۔ اس کی مقدارکیا ہو‘ اسے موقع کی مناسبت سے متعین کرنے کا حق فرد کو دے دیا گیا۔ عمومی حکم یہی رہا کہ ’’عفو‘‘ یعنی جو بھی ضرورت سے زائد ہو۔

لیکن سسرالی رشتہ کے حوالے سے اصول تو متعین کردیے گئے لیکن تفصیلات میں سے بعض پہلوئوں کو دین میں آسانی پیدا کرنے کے اصول کے تحت مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے پیش نظر اصولوں کی روشنی میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ان میں پہلا اصول جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا دین کے آسان ہونے کا اصول ہے‘ یعنی الدین یسر۔البقرہ میں بیان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے دین میں دقّت‘ حرج اور مشکل کی جگہ آسانی چاہتا ہے۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ ایسے ہی ہر وہ عمل جو شریعت کے اصولوں سے نہ ٹکراتا ہو مباح کے دائرے میں رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل کی طرح سے کھوج لگالگا کر بار بار سوالات اُٹھاکر بلاوجہ اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ جس کا جو دل چاہے مباح سمجھتے ہوئے کربیٹھے۔ دین اپنے معاملات میں انتہائی سنجیدگی‘ تحقیق اور دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور اہلِ علم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ جو لوگ‘ دین کے گہرے فہم سے آگاہ نہ ہوں اان میں اس کو پہنچایا جائے۔کسی بھی دَور کی فضا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کی سستی اور تساہل کی بنا پر جہاں لچک کی گنجایش نہ پائی جاتی ہو وہاں بھی ’’یسر‘‘ کے اصول کے تحت ان کو اجازت دے دینا دین کے ساتھ مذاق ہے۔ لیکن جہاں پر قرآن و سنت سے دلیل تلاش کرنے کے بعد کوئی رخصت اور آسانی پائی جاتی ہو‘ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

مناسب ہوگا کہ اس تمہید کے بعد اب ایک دو ایسے معاملات پر غور کرلیا جائے جو آج ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے معاملات بن گئے ہیں۔ ان میں پہلا معاملہ ایک گھر میں آنے والی بہو کا اس کے دیوروں اور ساس سسرکے سامنے آنا اور ساتھ بیٹھ کر کھانے کا ہے۔ بعض حضرات نے اُس اہم حدیث کو جس میں دیور کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے لفظی معنی میں لیتے ہوئے یہ قیاس کرلیا ہے کہ اس سے بات چیت‘ اس کے سامنے عام ساتر لباس میں آنا یا ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا سب ممنوع ہے۔ دیور کو موت سے تعبیر کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت بغیر اطلاع کے آجاتی ہے اسی طرح اگر مناسب اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا گیا تو ایک ایسا شخص جو دن رات گھر میں موجود ہے‘ غیرمحسوس طور پر بے احتیاطی اور غیرمحتاط رویے کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنا نہیں ہے۔ احتیاط‘ خشیت‘ تقویٰ اور غلو اور شدت پسندی دو الگ چیزیں ہیں یعنی دین نام ہی تقویٰ‘ احتیاط اور خشیت کا ہے لیکن وہ تقویٰ جو سنت وطیرہ سے ثابت ہو۔ وہ نہیں جو ہم بزعمِ خود اپنے ذہن میںتعمیرکرلیں اور ان رشتوں کو اُس تعلق سے بھی کم تر قرار دے دیں جو ایک اجنبی شخص کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

قرآن و سنت نے حرام و حلال کو مبہم نہیں چھوڑا ہے‘ اس لیے کسی بھی عمل کو حرام و حلال کرنے کا حق اگر ہے تو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ متشابہات سے بچنا بھی ایمان کا تقاضا ہے لیکن مباح کو بلاوجہ حرام کے دائرہ میں لے جانا بھی دین کی حکمت کے منافی ہے۔

اسلام کی ستروحجاب کی حدود معروف ہیں۔ کوئی بھی غیرساتر لباس میں‘ خواتین کا سب کے سامنے آنا جائز قرار نہیں دے گا۔ اگر ایک لڑکی ساتر لباس میں اپنے چہرے اور ہاتھ کو چھوڑتے ہوئے تمام جسم کو ڈھانکے ہوئے ہے تو جس طرح وہ اس حالت میں گھر سے باہر جاسکتی ہے اسی طرح وہ گھر کے اندر ان کے سامنے جن سے اس کا رشتہ بازار میں پھرنے والے افراد کے مقابلے میں مختلف ہے بغیر کسی تکلف کے آسکتی ہے۔ جس عمل کو سنت نے جائز قرار دیا ہو اسے خاندانی روایات کی بنا پر ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چہرے کے بارے میں دو آرا کا پایا جانا اس میں وسعت پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دین کے مجموعی مزاج کو دیکھتے ہوئے گھر میں مل جل کر رہنے پر ایسی ناروا پابندیاں نہ لازم کر لی جائیں‘جو لگائی نہیں گئی ہیں۔

اس کا ایک انتہائی اہم معاشرتی پہلو یہ ہے کہ نکاح محض شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اخلاقی اور قانونی رشتہ نہیں پیدا کرتا بلکہ دو خاندانوں کے درمیان باہمی بھلائی اور معروف کے قائم کرنے میں تعاون کا رشتہ پیدا کرتا ہے جس کا مقصد انھیں قریب لانا ہے‘ فاصلے اور دُوری پیدا کرنا نہیں ہے۔ لیکن قریب لانے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایک شادی شدہ خاتون چونکہ شادی شدہ ہے اس لیے وہ اپنے دیور کے ساتھ ہنسی مذاق کرے‘ اس کے ساتھ جسم ملا کر بیٹھے‘ اس سے مصافحہ کرے ‘ اس کے ساتھ تنہا کار میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے یا اس کے ساتھ تنہائی میں ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے۔ ان تمام باتوں کو چونکہ دین نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ متعین کر دیا ہے اس لیے ان کی ممانعت شریعت سے ثابت ہے۔

لیکن اُس سے بات کرنا‘ مناسب انداز میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا‘جس طرح ایک لڑکی اپنے حقیقی بھائی کی بھلائی چاہتی ہے اس کی بھلائی چاہنا یہ تمام معاملات نہ صرف مباح بلکہ بعض اوقات فرائض کے دائرہ میں آئیں گے۔ انھیں ممنوع قرار دینے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔

بظاہر دین کا مدعا یہی نظر آتا ہے کہ شادی کے بعد ایک لڑکے اور لڑکی کو اتنی آزادی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے جس طرح کا لباس شوہر کو پسند ہو پہن سکے یا وہ سنگھار کرسکے جو وہ دیور یا دیگر اعزہ کے سامنے نہیں کر سکتی اور یہ اسی وقت ہوگا جب اس کے پاس محض ایک سونے کا کمرہ نہ ہو بلکہ مکان میں اتنی وسعت ہو کہ وہ بغیر کسی اور کے دیکھے آزادی سے اپنا زینت کرنے کا حق استعمال کرسکے۔ گویا دین کا رجحان یہی نظر آتا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو اتنی آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی پسند کے مطابق شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا لباس اور بنائوسنگھار کرسکے جو رشتے میں مزید قربت پیدا کرنے میں مددگار ہو۔ جب قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کو بمنزلہ لباس قرار دیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ بلاتکلف اور رکاوٹ ایک دوسرے کو اپنی زینت میں شریک کر سکیں جو وہ دیگر رشتوں کے سامنے حتیٰ کہ حقیقی رشتوں کے سامنے بھی نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب رہایش ایسی ہو جس میں ایک لڑکی اپنا یہ حق استعمال کر سکتی ہو۔

لیکن فرض کرلیا جائے کہ کسی گھر میں اتنی گنجایش نہیں ہے تو ایسی شکل میں بغیر سنگھار کے ساتر لباس میں اس کا گھر والوں کے ساتھ آکر بیٹھنا‘ ان کے ساتھ باہمی گفتگو میں شرکت کرنا‘ کھانا کھانا کسی بھی اسلامی اصول سے نہیں ٹکراتا۔

یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ ایک شادی شدہ لڑکی بنائوسنگھار سرے سے نہ کرے کیونکہ یہ حرام ہے۔ زینت کی نمایش کی ممانعت خصوصاً ان رشتوں کے سامنے جو حرام ہیں قرآن وسنت سے ثابت ہے لیکن اس کے بھی تین دائرے ہیں۔ ایک وہ جو صرف شوہر کی حد تک ہے۔ دوسرا وہ جو حقیقی ماں باپ‘ بھائی بہن کے سامنے ہے اور تیسرا وہ جو ان کے علاوہ دوسروں کے سامنے ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کئی گھنٹے تک بنائو سنگھار کروانے کے بعد جس طرح نیم عریاں لباس میں ایک دلہن کو محفل میں پیش کیا جاتا ہے وہ نکاح کے بعد صرف شوہرکے سامنے کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی ماں باپ کے سامنے بھی نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن سرجھاڑ منہ پہاڑ بنا کر رہنا بھی تقویٰ اور خشیت کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام تو اس حد تک معاشرتی زندگی کی اہمیت کا قائل ہے کہ ایک حدیث کے مطابق جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ حضرت ابوحجیفہ نے روایت کیا ہے دو انتہائی قابلِ احترام اصحابِ رسولؐ یعنی ابوالدردائؓ اور سلمان فارسیؓ کے حوالے سے جنھیں نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد بھائی بھائی بنا دیا تھا یہ روایت ملتی ہے کہ جب ایک مرتبہ سلمان ابوالدرداء سے ملاقات کوگئے تو دیکھا کہ ابوالدردائؓ کی بیوی معمولی لباس میں ہیں‘ کوئی بنائوسنگھار نہیں ہے‘ تو انھوں نے پوچھا تمھارا ایسا حال کیوں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: تمھارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں رہا ۔پھر میں بنائوسنگھار کس کے لیے کروں؟ جب ابوالدردائؓ گھر آئے تو سلمانؓ نے ان کا روزہ تڑوا کر ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ رات کو نوافل کی جگہ انھیں ان کی بیوی کے پاس جاکر سونے کے لیے کہا اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوری بات بیان کی جس پر آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان نے صحیح بات کہی‘‘۔

گویا اپنے گھر میں ساتر لیکن ایسا لباس جو بدنما نہ ہو‘ ایسا سنگھار جو عریاں کرنے والا نہ ہو‘ اختیار کرنا سنت کا مدعا ہے۔ اسی کا نام توازن و اعتدال اور سنت کی روشنی میں عمل ہے۔

حدیث معاشرتی تعلقات کی نوعیت کو واضح کرتی ہے کہ بعض صورتوں میں انتہائی شخصی نوعیت کے معاملات میں بھی ایک دینی بھائی ’’دخل در معقولات‘‘ کرسکتا ہے اور اس کے ایسے معاملات میں بات چیت کرنے پر کوئی ممانعت دین نے عائد نہیں کی۔

بعض گھرانوں میں دیور یا سسر کے سامنے آتے وقت گھر میں پہننے کے عام لباس مثلاً شلوارقمیص‘ دوپٹہ کے اُوپر عبایا پہن لیا جاتا ہے۔ دین نے جو پابندی عائد کی ہے وہ زینت کے ظاہر نہ ہونے کی ہے۔ اگر شلوار قمیص اور دوپٹہ اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے کہ سینہ اور تمام جسم ڈھک گیا ہے اور صرف چہرہ اور ہاتھ کھلا ہے تو اس کے اوپر سے مزید عبایا پہننا غیرضروری ہے۔ شلوارقمیص کے ساتھ جو جسم سے چپکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی اتنا باریک ہوکہ جسم کی جلد اوراُبھار نظر آرہے ہوں اہلِ خاندان کے سامنے آنے میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اپنے آپ کو اہلِ خانہ سے کاٹ کر اپنے کمرے میں بند ہو جانا دین کے مدعا سے ٹکراتا ہے۔

دین نے جن معاملات میں دو ٹوک ممانعت کی ہے مثلاً تنہائی میں کسی غیرمحرم کے ساتھ بیٹھنا اس میں کسی قسم کی لچک پیدا نہیں کی جاسکتی لیکن ایک خاندان کے افراد ہوتے ہوئے جب کہ رہایش اس نوعیت کی ہو کہ الگ باورچی خانہ نہ بنایا گیا ہو‘ الگ بیٹھ کر کھانا غلو ہی کہا جائے گا۔

اسلام کے معاشرتی نظام کی بنا پر اخلاقی روایات اور دین کی تعلیم آنے والی نسلوں میں تربیت کے ذریعے مستقل ہوتی چلی آئی ہے۔ اس میں نہ صرف بزرگوں کا بلکہ ایک بیوی کا بڑا اہم کردار ہے۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر بلکہ اپنے ساس سسر اور دیوروں کو اپنے اخلاقی طرزعمل سے دین کی تعلیمات سے آگاہ اور متعارف کرا سکتی ہے۔ یہ اس کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور ابلاغ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا‘ اس لیے ایسے مواقع کا صحیح استعمال کرنا اور نئے حالات میں اپنا مقام اس کے اپنے لیے اور پورے خاندان کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جس تیزی کے ساتھ دو رجحانات فروغ پا رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ ایک طرف بعض حضرات ہر مغرب مستعار ’’ترقی پسند‘‘ عمل کو حلال کرنے کی فکر میں لگے ہیں۔ دوسری طرف بعض حضرات دین کو شدت پسند بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دین وسط کے راستے کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ حرام سے بچتے ہوئے منکرات و فواحش سے بچا جائے اور مباح کو اختیار کرتے ہوئے‘ معروف کی ترویج و تلقین کے لیے تمام وسائل کو استعمال کیا جائے۔

طبی اخلاقیات اور دوا ساز کمپنیاں

سوال: میں ایک دواساز کمپنی میں میڈیکل نمایندہ ہوں۔ ہماری دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سے اپنی ادویات لکھوانے کے لیے ان کو نقد رقوم یا قیمتی اشیا تحائف کے طور پر مہیا کرتی ہیں جس کے بدلے ڈاکٹر ان کمپنیوں کی ادویات لکھتے ہیں جس سے مارکیٹ میں ان ادویات کی طلب بڑھتی ہے اور کمپنیوں کو بہت سا منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کمپنیوں کی حالت ہے جو چھوٹی نیشنل کمپنیاں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں اگرچہ وہ ڈاکٹر صاحبان کو رقم مہیا نہیں کرتی ہیں لیکن اکثر اوقات ڈاکٹروں کو تحائف‘ پنج ستارہ ہوٹلوں میں کھانے اور اپنے خرچ پر ان کو بیرون ملک کے دورے کراتی ہیں جس سے ان کا کام ہوتا رہتا ہے۔ نمایندے کو کمپنی پالیسی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اس سارے عمل میں شریک ہوتا ہے۔

۱- ڈاکٹروں سے اپنی کمپنی کی ادویات لکھوانے کے لیے نقد رقوم یا بڑے تحائف دینا جائز ہے یا یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے؟

۲- بعض ڈاکٹر صاحبان ان رقوم یا تحائف کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیایہ واقعی ان کا حق ہے؟

۳- اگر یہ طریقۂ کار ناجائز ہے تو کیا میڈیکل نمایندہ اور کمپنی دونوں برابر کے شریک اور گناہ گار ہیں۔

۴- کیا بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا طریقہ کار جائز ہے؟

۵- اگر متبادل روزگار نہ ہو‘ اور اگر ہو بھی تو اس سے گھریلو اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں تو کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

جواب: اسلامی نظامِ حیات کا ایک امتیاز زندگی کے مختلف شعبوں میں پیش آنے والے جدید مسائل کا اخلاقی حل فراہم کرنا ہے۔ طبی اخلاقیات اس حیثیت سے اسلامی نظام حیات کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ عیادت اس کے بندوں کا حق ہے۔ ایک فرد کی جان بچانا تمام انسانوں کی جان بچانے کی طرح ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ وہ واحد ہستی ہے جو بندوں کو امراض سے شفا دیتی ہے‘ اس نیک کام میں معاونت بہترین اجر کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔

طبی امداد‘ مریضوں کی دیکھ بھال‘ مرض کی تشخیص کرنا اور اس کا علاج تجویز کرنا ایک طرح کی خدمت خلق اور اسلامی اخلاقیات کی عملی تطبیق ہے۔ ایک طبیب ہو یا جراح‘ اس کا بنیادی اخلاقی فریضہ مریض کو ہمدردانہ‘ مخلصانہ اور مصلحانہ مشورہ دینا اور اگر ضرورت پڑے تو جراحت کے ذریعے صحت یاب ہونے میں امداد فراہم کرنا ہے۔ اس لیے مناسب دوا کا تجویز کرنا اور مناسب دوا کا ایجاد کرنا اور فراہم کرنا اگر خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل دوسروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا بنانے اور ان کی تکلیف کے سہارے اپنے لیے عیش و آرام کے سامان پیدا کرنے کا سبب ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور سخت جواب دہی کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک طبیب سے اخلاقی طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ دوا تشخیص کرتے وقت نہ صرف دوا کی اثرانگیزی بلکہ مریض کی مالی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے جو دوا کم قیمت ہو لیکن ضروری اجزا اس میں پائے جاتے ہوں‘ تجویز کرے۔ اگر ایک ڈاکٹر محض اس بنا پر ایک مہنگی دوا تجویز کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی دوا ساز کمپنی کو فائدہ ہوگا‘ جب کہ انھی اجزا کی اتنی ہی مؤثر دوا مقابلتاً کم قیمت پر بازار میں موجود ہو تو یہ ایک حیثیت سے جھوٹی شہادت کی تعریف میں آئے گا۔ہاں‘ اگر ایک زیادہ قیمت والی دوا میں کیمیاوی اجزا زیادہ بہتر معیار کے ہوں اور دوسری دوا جو چاہے اُس سے ملتی جلتی ہو لیکن اس کے اجزا میں جلد اثر کرنے کی صلاحیت کم پائی جاتی ہو تو ایک ڈاکٹراپنی فنی رائے کی بنا پر مہنگی دوا بھی تجویزکرسکتا ہے۔

دراصل ان تمام معاملات کا انحصار ڈاکٹر کے ایمان و خلوص کے ساتھ ہے۔ اگر وہ صاحبِ ایمان ہے اور مریض کے لیے اخلاص رکھتا ہے تو بعض اوقات مہنگی اور بعض اوقات سستی قیمت کی دوا تجویز کرے گا جس کی بنیاد مریض کا مفاد ہوگا‘ نہ کہ دواساز کمپنی کا مفاد نہیں۔ اگر صرف دواساز کمپنی کے مفاد کے لیے کوئی دوا تجویز کی جائے گی تو یہ نہ صرف طبی اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا شہادت زور‘ یعنی جھوٹی شہادت شمار ہوگی۔

بالعموم دوا ساز کمپنیاںاپنے تعارف یا اپنی دوا کے تعارف کے لیے بعض چیزیں بطور promotional کے دیتی ہیں‘ مثلاً بال پن‘ نسخہ لکھنے کے لیے لیٹرپیڈ‘ دیوار پر لٹکانے کے لیے صحت مند غذا وغیرہ کے حوالے سے چارٹ۔ اگر ان چیزوں کی بنا پر بھی کوئی صرف ایک کمپنی کی ادویات تجویز کرتا ہے تو یہ بھی ایک غیراخلاقی حرکت شمار ہوگی۔ لیکن اگر قلم یا کاغذ کا استعمال کرنے کے باوجود ایک ڈاکٹر دوا تجویز کرتے وقت ان تحائف کو مدنظر نہیں رکھتا اور جو دوا وہ زیادہ مفید سمجھتا ہے تجویز کرتا ہے تو ان اشیا کے استعمال میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ہاں‘ اگر بعض دوا ساز کمپنیاں اس نیت سے کسی ڈاکٹر کو بیرون ملک یا اندرون ملک سیروتفریح کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ دیتی ہیں کہ اس احسان کے نتیجے میں وہ ڈاکٹر ان کی مہنگی ادویات مریض کو تجویز کرتا ہے تو یہ ایک غیر اسلامی اقدام ہوگا۔

اس سے ایک صورت استثنا معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہر تجارتی ادارے کے مستقبل کا تعلق تحقیق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی دواساز کمپنی کسی مرض کا علاج دریافت کرنے کے لیے جس کا فائدہ عام انسانوں کو پہنچے گا‘ اپنے سالانہ بجٹ میں سے ۵ فی صد اس غرض سے رکھتی ہے کہ طبی تحقیقاتی کانفرنسوں‘ طب کے طلبہ کے وظائف یا ایسے طبی اداروں کی امداد کی جائے جو اس کے مرض پر تحقیق کر رہے ہوں تو چونکہ اس کا مقصد علمی اور سائنسی تحقیق کے نتیجے میں مصلحت عامہ یا عمومی انسانی فلاح و فائدہ ہے‘ لہٰذا اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔

اگر کسی ڈاکٹر کو انفرادی حیثیت میں کار‘ ریفریجریٹر‘ سفر کرنے کے لیے ٹکٹ یا کوئی اور favour اس لیے کی جائے کہ وہ ڈاکٹر صرف اُس کمپنی کی تیار کردہ ادویہ تجویز کرے تو یہ اسلامی اصول عدل کی صریح خلاف ورزی بھی ہوگی۔

کسی دوا سازکمپنی میں جو اپنی شہرت کے لیے اشتہارات طبع کرتی ہو ‘ ڈاکٹروں کو promotional اشیا فراہم کرتی ہو‘ ملازمت کرنا محض اس کے اس فعل کی بنا پر حرام نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ جو شخص وہاں ملازمت اختیار کرتا ہے وہ محض اپنی فنی خدمت کا معاوضہ لیتا ہے‘اُس کا کوئی دخل کمپنی کی promotional پالیسی میں نہیں ہوتا۔ دوا ساز کمپنیوں کا ڈاکٹروں کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ایک غیر اسلامی فعل ہے اور اس کی اصلاح کے لیے طبی اخلاقی ضابطے کی سختی سے پابندی کروانے کے لیے صارفین اور طبی اداروں کی طرف سے ان پر دبائو ڈال کر اس غلط روایت کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

اگر ایک کمپنی کے نمایندے کو یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ دوا کے بارے میں کمپنی کے دعوے غلط اور سائنسی تحقیق کی بنا پر وہ نہیں ہیں جو وہ کرتی ہے تو ایسی ادویہ کی فروخت یا اس کے ساتھ تعاون ایک غلط کام میں تعاون ہے۔ اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ خود کو ایسے کام سے بچائے جس میں جھوٹ‘ دھوکادہی اور دیانت کے منافی کام کیا جا رہا ہو۔ برائی میں شرکت اور برائی کے کرنے میں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر علمی تحقیق سے ثابت ہو کہ جو دوا وہ فروخت کر رہا ہے وہ وہی صفات رکھتی ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے تو یہ ایک بھلائی کا کام شمار ہوگا کیونکہ اس طرح   اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مرض سے شفا ملتی ہے۔

جہاں تک متبادل روزگار ملنے تک کسی ایسے ادارے میں کام کرنے کا سوال ہے‘ قرآن وسنت نے صرف ضرورت کی حد تک‘ یعنی کم سے کم وقت میں پوری جدوجہد کے ساتھ متبادل روزگار ملنے تک‘ کسی ایسے کام کی اجازت دی ہے جو عام حالات میں مناسب نہ ہو‘ مثلاً بنک کی ملازمت جو ظاہری طور پر سودی کاروبار کا حصہ ہے لیکن اگر بنک سودی کاروبار نہ کر رہے ہوں اور اسلامی اصولوں پر کام کر یں تو وہاں ملازمت کرنا جائز ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب(ڈاکٹر انیس احمد)

ہیومیوپیتھک ادویات میں الکوحل کا استعمال

سوال: حضرت وائل بن حجر حضرمیؓ سے روایت ہے کہ طارق بن سویدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میں تواس کو دوا کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے(مسلم)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہیومیوپیتھک ادویات الکوحل سے ہی بنتی ہیں اور اس کی طاقتوں کو بڑھانے کے لیے ۹۹فی صد الکوحل اور ایک فی صد دوا استعمال ہوتی ہے اور یہ بھی شفایابی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف دیکھاجائے (جو کہ بعض لوگ ہیومیوپیتھی کو صحیح ہونے کی دلیل دیتے ہیں) کہ ایلوپیتھک ادویات میں بھی کثیر مقدار میں الکوحل استعمال ہوتی ہے‘ جیسے سکون آور ادویات اور کھانسی کے شربت وغیرہ۔ سعودی عرب میں بھی شعبہ طب کے حوالے سے اسے صحیح نہیں سمجھا جاتا اور قانوناً اس کا استعمال جرم ہے۔ اس صورت حال میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی پریکٹس نہ کی جائے۔

میں نے شراب سے متعلق دیگر احادیث بھی پڑھی ہیں۔ ان کے مطابق صرف وہ شراب حرام ہے جو نشہ پیدا کرے۰ لیکن ہیومیوپیتھک ادویات نشہ نہیں پیدا کرتیں‘ بلکہ شفایاب کرتی ہیں۔ میں خود ہیومیوپیتھک ڈاکٹر ہوں لیکن اس مسئلے کی وجہ سے پریشان ہوں اور پریکٹس نہیں کر پارہی۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: دورحاضر کے علما نے تحقیق کے بعد اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ایسی دوائوں کا استعمال جن میں الکوحل شامل ہو‘ جائز ہے۔ مفتی دارالعلوم دیوبند مفتی نظام الدین فرماتے ہیں: ابتدائی دور میں الکوحل شراب کا جوہر یا پھر شراب کی تلچھٹ ہوتا تھا‘ اس لیے فقہا نے اُسے شراب کے زمرے میں شمار کر کے اس کو ناپاک اور حرام قرار دیا تھا اور اس کے عمومی اور دوا میں استعمال کو ناجائز قرار دیا تھا۔ مگر اب الکوحل سائنٹفک طریقے سے بننے لگی ہے۔ اس طرح وہ شراب نہیں رہتی بلکہ سرکے کے حکم میں آجاتی ہے اس لیے اس کا استعمال جائز ہے‘‘۔ البتہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ الکوحل شراب کا جوہر یا تلچھٹ ہے تو پھر اس کا استعمال ممنوع ہوگا۔

مولانا گوہر رحمن فرماتے ہیں: الکوحل خود نشہ آور اور حرام ہے لیکن دوائوں میں استعمال ہونے والی الکوحل سے نشہ آور مادہ کیمیائی عمل کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ فقہا کی تصریح کے مطابق‘ شراب سے اگر سرکہ بنا لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ ناپاک تیل‘ ناپاک چربی اور مُردار کی چربی سے جو صابن بنایا جائے وہ انقلابِ ماہیت کے سبب پاک ہے۔ اسی طرح الکوحل ملی ہوئی دوائیوں کا استعمال بھی جائز ہونا چاہیے۔

شراب کی اصل حقیقت نشہ آور ہونا ہے‘ دوائوں میں ملانے سے نشہ آور ہونے کی خاصیت اڑ گئی تو شراب ہونے کی خاصیت بھی ختم ہوگئی اور صفت بدلنے سے حکم بھی بدل گیا۔ (تفہیم المسائل‘ ج اول‘ ص ۲۶۴)

لہٰذا آپ ہیومیوپیتھی طریقۂ علاج کو شرح صدر کے ساتھ جاری رکھیں۔ ہیومیوپیتھی دوائیں تیار کرنا‘ ان کا استعمال اور ان کی خرید و فروخت‘ سب جائز ہے۔ (مولانا عبدالمالک)


زکوٰۃ کی رقم سے اسکول کی تعمیر

س: ایک تحریکی ساتھی نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیرانتظام‘ اپنے ہاں عصری تعلیم کے لیے ایک اسکول بنوایا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اپنے طور پر مخیر حضرات سے مرکزی اور صوبائی سطح پر زکوٰۃ‘ صدقات‘ اعانت اور چرم قربانی وصول کرتا ہے‘ جب کہ مذکورہ بالا تحریکی بھائی نے دارالقرآن اور المحصنات للبنات کے نام سے رسیدیں بنوا رکھی ہیں اور تحریکی قائدین سے اپنے کام کو بڑھانے کے لیے تزکیہ بھی لے رکھا ہے۔ مگر موقع پر نہ دارالقرآن کا وجود ہے اور نہ المحصنات للبنات کا۔ وضاحت فرمایئے :کہ ۱-کیا ایک ادارے کی رقم دوسرے ادارے پر خرچ ہوسکتی ہے؟

۲-کیا مخیرحضرات کی رقوم جو کہ خالصتاً دینی امور پر خرچ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں غزالی اسکول کی تعمیروترقی پر خرچ ہو سکتی ہیں‘ جب کہ طلبہ و طالبات سے داخلہ فیس اور مناسب ماہانہ ٹیوشن فیس بھی وصول کی جاتی ہے؟

واضح رہے کہ مخیر حضرات اپنی رقوم دیتے وقت تخصیص بھی کرتے ہیں کہ اتنی رقم دارالقرآن کے لیے اور اتنی رقم المحصنات للبنات کے لیے مختص ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر یہ بھی صراحت فرمایئے کہ ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

ج: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کر دیے گئے ہیں۔ ان میں تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔ ان مدات میں ۱-فقرا‘ ۲-مساکین‘ ۳-عاملین زکوٰۃ‘ ۴- تالیف قلب‘ ۵- غلاموں کو آزاد کرنا‘ ۶- غَارِمِیْن‘ یعنی وہ لوگ جو قرض یا کسی دیگر مالی معاملے میں بوجھ تلے دبے ہوں‘ ۷-فی سبیل اللہ اور ۸- مسافر۔ (التوبہ ۹:۶۰)

فی سبیل اللہ میں جہاد‘ اقامت دین کی جدوجہد اور قرآن و حدیث کی تعلیم شامل ہے۔ لکھائی پڑھائی‘ اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم جو مسلمان اور کافر سب حاصل کرتے ہیں وہ فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے غزالی اسکول زکوٰۃ کی رقم اپنی تعمیرات‘ اسکول کی ضروریات اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کے لیے جمع نہیں کرسکتا۔

۲- جو رقم جس ادارے کے لیے حاصل ہو‘ اسے اسی ادارے پر صرف کرنا لازم ہے‘ اور اگر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور اس کے نام پر زکوٰۃ جمع کر کے کسی دوسرے ادارے پر صرف کی جاتی ہے تو یہ بددیانتی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کی برائی کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے۔ جو صاحب اس کے مرتکب ہوں ان کے لیے پہلا حکم تو یہ ہے کہ رقم واپس کریں‘ تاکہ اسے اُس ادارے پر صرف کیا جائے جس کے لیے رقم اکٹھی کی گئی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ رقوم دینے والوں کو واپس کی جائیں۔ اس کے بعد وہ جس مصرف کے لیے دینا چاہیں‘ ان سے اس مصرف کے لیے وصول کریں اور اسی میں صرف کیا جائے۔(ع - م)


حج کی تڑپ اور وسائل کی کمی

س: مجھے عمرے کی سعادت بفضل خدا تعالیٰ نصیب ہوچکی ہے۔ حرم پاک میں گزرے ہوئے لمحات و واقعات اور عبادات کا انہماک یہی وہ جذبہ ہے جو حج کے لیے بار بار اُکسا رہا ہے۔ مگر وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔ چنانچہ درج ذیل صورتوں میں اگر وسائل میسرآسکیں تو ان کے استعمال سے حج شرعاً جائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔

۱- جی پی فنڈ سے رقم نکلوا کر حج کرنا۔

۲- ایڈوانس تنخواہیں لے کر ۔ آج کل بنک ایڈوانس تنخواہ دیتے ہیں جس پر ۱۱ یا ۱۴    فی صد سود لیتے ہیں۔

۳- اپنی کوئی ذاتی ملکیت کی چیز رہن رکھ کر‘ مثلاً زرعی رقبہ‘ رہن رکھنا یا بیوی کی اجازت سے اُس کے زیور رہن رکھنا۔

ج: عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد حج مبرور کی طلب اور تڑپ مبارک ہو!

اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے کو اپنے گھر میں بلانا ہوتا ہے‘ اس کے دل میں اپنی اور اپنے گھر کی محبت پیدا کر دیتے ہیں اور جب محبت شباب کو پہنچتی ہے تو بلاوا آجاتا ہے اور اسباب و وسائل بھی میسر آجاتے ہیں۔ حلال اور طیب مال سے حج کی سعادت حاصل کرنے کی فکر اللہ تعالیٰ کا  فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو حج کی سعادت بھی عطا فرما دیں گے۔ آمین!

جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو مختصر جواب یہ ہے کہ جی پی فنڈ میں ملازم کی تنخواہ اورادارے کی طرف سے اس کے برابر جمع کردہ رقم تو اس کی ملازمت کا عوض ہے۔ اگر وہ اتنی مقدار میں مل سکتی ہو کہ اس سے حج کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہو اور حج سے واپسی تک‘ اہل و عیال کے نان و نفقہ کا انتظام بھی موجود ہو‘ توپھر اس رقم سے حج کیا جا سکتا ہے۔ جی پی فنڈ میں ملازم اور ادارے کی طرف سے جمع کردہ رقم تو سود کے شائبے سے پاک ہے‘ اس کو وصول کرنا اور اس سے حج کرنا تو بلاشبہہ جائز ہے۔ البتہ ادارہ اس رقم کو بنک میں جمع کر کے اس پر سود بھی حاصل کرتا ہے اور جب ملازم کو وہ جی پی فنڈ جاری کرتا ہے تو اس میں یہ رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے سود ہونے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ رقم سود کے نام سے ادارے کو   ملی ہے اور ادارہ اس رقم کو اسی نام سے ملازم کو دیتا ہے۔ لہٰذا اس رقم کو مصارف حج میں شامل نہ کیا جائے بلکہ مستحق فقرا پر صدقہ کر دیا جائے۔ اس لیے کہ سود کی اس رقم کے اصل حق دار تو وہ لوگ ہیں جن سے جی پی فنڈ کی رقم پر سود حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن ان افراد کا پتا چلانا ممکن نہیں ہے اور شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جب کسی مال کا مالک معلوم نہ ہو تو وہ ’’لقطہ‘‘ (گری پڑی چیز) کے حکم میں ہوتا ہے۔ ایسے مال کو اصل مالک کی طرف سے فقرا اور مساکین کو دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ رقم ادارہ اور بنک میں نہ چھوڑی جائے بلکہ اسے ادارے سے لے کر فقرا کو دے دیا جائے۔ سود کی رقم کو فقرا کو دینا ان لوگوں تک پہنچانے کے مترادف ہوگا جن سے اس جی پی فنڈ کی رقم پر سود لیا گیا ہے۔

۲- ایڈوانس تنخواہ پر ۱۱ یا ۱۴ فی صد سود دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا حج کے لیے اس صورت کا تصور ذہن سے نکال دیجیے۔

۳- اسی طرح رہن رکھ کر بنک سے قرض لینے پر بھی سود لیا جاتا ہے اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ حج کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف احرام کی حالت میں نکل کھڑے ہونے کا نام ہے۔ لہٰذا خبیث اور ناپاک مال کو حاصل کرنا‘ پھر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کرنا‘ اللہ تعالیٰ سے دعواے محبت کے منافی بلکہ دین کے ساتھ استہزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو آدمی اپنے دل میں اس طرح پرورش دے کہ سودی رقم سے حج کر کے بے اعتدالی اور بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے۔

نہ صرف حج‘ بلکہ تمام دینی و دنیاوی کاموں میں سود کی رقم کے استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔(ع - م)


جامعات کا ماحول اور دینی تعلیم

س:’’رسائل و مسائل‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) میں ’’خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں‘‘ کے تحت پیش کی گئی رائے سے اتفاق نہیں۔ والدین اگر بچیوں کو یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تو بجا ہے۔ اس لیے کہ جامعات کا عربی اور قرآن و سنت کے حوالے سے معیار ناقابلِ اطمینان ہے‘ جب کہ دینی مدارس اس حوالے سے ایک معیار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ عموماً جامعات کی تعلیم لادینی اور مخلوط ماحول میں ہوتی ہے جو شرعاً صحیح نہیں اور والدین کے لیے عدمِ اطمینان کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا خواتین کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے۔ خواتین کا بنیادی فریضہ گھر اور بچوں کی تربیت ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں تعلیم ملازمت کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ یونی ورسٹی وغیرہ میں خواتین کے حصولِ تعلیم پر اس قدر زور دینا مناسب نہیں۔

ج:کسی بھی شخص کو دلیل اور تجزیے کی بنیاد پر کسی بھی رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے۔ لیکن دینی مدارس اور سرکاری یا غیر سرکاری جامعات سے سندِفراغت لینے والے‘ عربی اور اسلامیات کے شعبوں کے طلبہ و طالبات کی علمی صلاحیت کے بارے میں عمومی فتویٰ شاید کچھ زیادتی ہے۔ میرے اپنے طلبہ میں ایسے افراد شامل ہیں جو کسی دینی مدرسے سے فارغ نہ تھے‘ لیکن انھوں نے ایم اے کا مقالہ عربی زبان میںتحریر کیا جسے عرب ممتحنین نے جانچا اور معیاری قرار دیا۔ ان طلبہ اور طالبات میں سے بعض اس وقت اندرون و بیرون ملک تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ سرکاری جامعات میں ایم اے اسلامیات کے نصاب میں چونکہ عربی پر عبور نہ شرط ہے اور نہ اس کے لیے دوران تعلیم کوئی اہتمام کیا جاتا ہے اس بنا پر کسی کا اسلامیات میں کسی جامعہ سے ایم اے کرنا‘ عربی پر عبور کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ گذشتہ ۳۵ برس میں جن فارغ التحصیل حضرات کے انٹرویو مَیں نے خود کیے ہیں‘ ان میں یہ معاملہ محض سرکاری جامعات نہیں‘ بلکہ خود دینی مدارس سے فارغ التحصیل حضرات کے ساتھ بھی پیش آیا ہے اور وہ عربی میں تقریباً یکساں معیار کے پائے گئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ!

میری گزارشات نظری نہیں‘ بلکہ عملاً تین دہائیوں سے زائد عرصے سے شعبۂ تعلیم سے وابستگی کی بنا پر ہیں۔

جامعات کے ماحول کا مجھے پوری طرح علم ہے لیکن کیا اس بنا پر اصلاح کے عمل کا آغاز ہی نہ کیا جائے۔ کیا اس ملک میں ایسی ہزاروں لاکھوں بچیاں آج موجود نہیں ہیں جو انھی جامعات سے مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ‘ اسلام کی دعوت دینے اور اس پر خود عامل ہونے کی اعلیٰ مثالیں پیش کرتی رہی ہیں‘ اور آج انھی میں سے  بعض‘ پارلیمنٹ میں اسلامی تشخص کے ساتھ ملک کے معاشرتی‘ سیاسی‘ تعلیمی اور معاشی مسائل پر‘ بربناے علم و تجربہ مناسب مشورہ دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

والدین کے نقطۂ نظر سے اپنی اولاد کا تحفظ اور خصوصاً دین و حیا کی فکر ایک فطری امر ہے لیکن یہ سمجھنا بے بنیاد ہے کہ ہر طالبہ جو یونی ورسٹی میں داخلہ لے گی معصیت کی مرتکب ہوکر رہے گی‘ اور ہر وہ طالبہ جو بی اے یا میٹرک کرکے گھر میں بیٹھ رہے گی‘ لازماً تقویٰ‘ علم اور معروف کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگی۔

بلاشبہہ‘ اسلام نے ایک معاشرتی ترجیحی حکمت عملی تجویز کی ہے۔ لیکن خود گھر کے اندر اسلام پر عمل کرنے اور کرانے کے لیے بھی خاتونِ خانہ کو اعلیٰ ترین تعلیم کی ضرورت ہے۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف اس کی اجازت دی‘ بلکہ ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے دین‘ نسل اور عقل کے تحفظ کے لیے علم حاصل کرے۔

ممکن ہے بعض صورتوں میں ایسا ہی ہو کہ یونی ورسٹی میں تعلیم کا مقصد محض اسناد کا حصول ہے۔ لیکن چند افراد کی اس محدود اور جامد فکر کی بنا پر مصالح عامہ کے خلاف‘ خواتین کو حصولِ علم کے اعلیٰ مواقع سے محروم کر دینا دین کے مقاصد کے منافی ہے۔ اگر موجودہ تعلیمی مراکز میں بعض پہلو کمزور ہیں تو اس کمی کو دُور کیجیے‘ جامعات کے معیار کو بلند کیجیے‘ وہاں ایسے اساتذہ لایئے جو علم پر پورا عبور رکھتے ہوں۔ طالبات کے لیے ایسی جامعات بنایئے جہاں پورے کا پورا عملہ صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ لیکن جب تک یہ سارے کام بحسن و کمال پورے نہ ہو جائیں‘ طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنے کی غلطی نہ کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)

کیبل نیٹ ورک کا استعمال

سوال: میرا تعلق تحریک سے وابستہ ایک گھرانے سے ہے مگر میرے شوہر حافظِ قرآن ہونے کے باوجود گھر میں کیبل لانے کے ذمہ دار ہیں۔ میں ٹی وی اور لوکل چینل شوق سے دیکھتی تھی‘ پھر کیبل بھی دیکھنا شروع کر دی۔ لیکن اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ کیبل اخلاق و کردار کو تباہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ میری شادی کو ابھی چار سال ہوئے ہیں اور میری دو چھوٹی بچیاں ہیں۔ بچیوں اور شوہر کو منع کرتی ہوں مگر منع کرنے پر کبھی تو وہ رک جاتے ہیں اور کبھی دیکھتے رہتے ہیں۔ دیگر اہلِ خانہ بھی ٹی وی اور کیبل کو برا جانتے ہیں مگر دیکھنے سے اجتناب نہیں کرتے۔ ایسے میں میرا کردار کیا ہونا چاہیے‘ جب کہ   ٹی وی میرے اپنے کمرے میں موجود ہے۔

جواب: آپ نے اپنے خط میں جس عملی تضاد کا ذکر کیا ہے‘ تحریکات اسلامی کی کامیابی کی راہ میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شعوری طور پر اسلام کے مان لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک شخص اپنی فکر‘ نظر‘ فہم‘ معاملات و تعلقات کو جذبات و احساسات کے بجاے عقلی رویے کا عادی بنائے۔ اس کی نظر‘ سماعت اور طرزِعمل نفسی خواہش کی بنا پر نہ ہو‘ بلکہ وہ اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں دے دے۔ اس کا شعار قرآن کریم کی وہ آیت بن جائے جسے آپ اور میں بارہا سنتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے‘ یعنی قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لاَ شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمْرِتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)‘کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

جہاں تک سوال کسی گھر میں کیبل کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے‘ موجودہ دور میں    صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ‘ یعنی پی ٹی وی کے مختلف چینل کسی کیبل کے محتاج نہیں ہیں اور ہر گھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ وہ خود اتنے عریاں اور فحاشی کا ذریعہ بن گئے ہیں کہ اگر کیبل نہ بھی ہو جب بھی ایک شخص کے اہلِ خانہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ جہاں کہیں برائی ہو رہی ہو‘ قرآن کریم نے وہاں سے ایک مومن کے گزر کا جو طریقہ بتایا ہے وہ بڑا واضح ہے‘ یعنی وہ ایسی لغو اور غیراخلاقی چیز پر سے گزر جاتے ہیں اور اس سے چپک کر نہیں رہ جاتے۔ (الفرقان ۲۵:۷۲)

قرآن کریم نے ہمیں سماعت‘ بصارت اور قلب (فواد) کی جواب دہی کی طرف بھی  متوجہ کیا ہے اور دو ٹوک انداز میں ہدایت کر دی ہے کہ ان ذرائع کو (جو دراصل حصولِ علم کے  ذرائع ہیں) فحش اور عریانیت سے آلودہ نہ ہونے دیا جائے۔ ایک مرتبہ یہ عمل شروع ہو جائے تو پھر حدیث کی روشنی میں یہ غیرمحسوس داغ یا دھبہ‘ جو نگاہ پر قلب پر اور دماغ پر لگ جاتا ہے‘ آہستہ آہستہ پورے قلب کو اپنی تاریکی میں لپیٹ لیتا ہے۔

اس اصولی صورت حال کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ آج تحریک اسلامی کے مرکز میں واقع کوئی گھر ہو یا ملک کے دور ترین گوشے میں کوئی کچی آبادی‘ آپ کو ہر جگہ پر ٹی وی انٹینا‘ ڈش یا زیرزمین کیبل کے آثار مل جائیں گے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عالمی ابلاغی انقلاب کے بعد معلومات اور اپنے آپ کو دنیا کے واقعات سے آگاہ رکھنے کا ایک اہم اور سریع ذریعہ ٹی وی اسکرین ہے‘ تو صرف معلومات کے حصول کی حد تک اس کا استعمال ایک ضرورت (مجبوری) بنتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر ہونے والے ناچ گانے اور ڈرامے میں ہر قاتلِ اخلاق کردار کا شوق اور توجہ سے نظارہ کیا جائے۔

اس میں خود آپ کو اور آپ کے بزرگوں اور آپ کے شوہر کو اپنے نفس پر ضبط کرنا ہوگا اور اپنی نگاہ اور سماعت کو بھی اللہ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ اللہ کی بندگی جزوی نہیں ہوسکتی کہ گلے کی حد تک اس کے کلام کی تلاوت کر دی جائے اور نگاہ اور سماعت پر اس کا عمل دخل نہ ہونے دیا جائے۔

آپ نے دو بچیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ گو وہ ابھی چھوٹی ہیں لیکن دو سال کی عمر سے ہی ایک بچہ اپنے ماحول سے الفاظ‘ طرزعمل اور رویے کو اخذ اور جذب کرتا ہے۔ اگر وہ آج کیبل کی عادی ہوں گی تو پھر اُن کے بڑے ہونے پر‘ آپ انھیں مارپیٹ کے ذریعے بھی اس عادت سے نجات نہیں دلا سکتیں۔ اگر بچیوں کے لیے کارٹون دیکھنا‘ آپ کے خیال میں ان کی ’’شرعی ضرورت‘‘ ہے تو پھر ہر کارٹون کا تجزیہ کر کے انھیں یہ بھی بتائیں کہ فلاں کردار کیوں غلط ہے اور انھیں اس سے بچنا چاہیے۔ اگر آپ یہ اصلاحی کام نہیں کر سکتیں اور بچیوں کو محض خاموش اورمصروف رکھنے کے لیے انھیں کارٹون نیٹ ورک کے حوالے کر دیتی ہیں تو جو کچھ بچیاں دیکھیں گی اس کے اثرات ان کے ذہن اور یادداشت میں آپ کے نصیحتی خطبات سے کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوں گے۔ پانچ یا دس سال بعد ان کے ذہن سے ان اثرات کو محو کرنا آسان نہیں ہوگا۔

کیبل اگر آپ کی ضرورت ہے تو پھر اس کے پروگراموں کو محدود رکھیے اور جو پروگرام آپ کے خیال میں مضر نہیں ہیں‘ مثلاً نیشنل جیوگرافک کی کوئی تعلیمی documentary یا Discovery کا کوئی ایسا پروگرام جو اخلاق کو خراب نہ کرتا ہو‘ ایسے پروگراموں کو دیکھتے وقت بھی اپنے ذہن کو کھلا رکھیے اور جہاں ضروری ہو تجزیہ و تبصرہ کر کے اس کے مضر اثرات کو دُور کرنے کی کوشش کیجیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


مشکوک آمدنی اور دعوتِ دین

س: بعض لوگ مشکوک آمدنی کی بنا پر حلال و حرام میں بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی رفیق یا کوئی فرد جس تک میں دعوت دین پہنچانا چاہتا ہوں‘ اگر اُس کے گھر والوں کی کمائی کا ذریعہ حرام ہے تو کیا میں اُس کے ہاں کھاپی سکتا ہوں؟ یا اگر کبھی اُس نے کھانے وغیرہ کی دعوت دی تو میں کیسے ردّ کر سکتا ہوں‘ جب کہ دعوت قبول کرنا سنت رسولؐ ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ تحقیق کے بعد ہی کسی کی دعوت یا تحفہ قبول کرتے تھے۔ اگر کسی شخص کی کمائی کے بارے میں ہمیں شک ہو یا معلوم ہو کہ اُس کی کمائی حرام ہے‘ تو ایسی صورت میں کیا رویہ اپنایا جائے؟

ج: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ حلال (بھی) واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے‘ اور دونوں کے درمیان شبہے کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا‘ اس نے اپنے دین و آبرو کو محفوظ کرلیا‘‘۔ (بخاری ‘مسلم)

اس حدیث میں ہماری رہنمائی کے لیے تین بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اول: حلال کواللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر دیا ہے اور طیبات کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے___ یہ طیبات اور حلال نہ صرف کھانے پینے میں‘ بلکہ بصارت‘ سماعت‘ معاملاتِ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلال نگاہ وہ ہے جو صرف ان اشیا کو دیکھے جن کا دیکھنا اخلاقی طور پر درست ہے۔ ایسے ہی صرف ان چیزوں کو کھایا اور پیا جائے جو بجاے خود پاکیزہ اور صحت بخش ہوں۔

دوسری بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ حرام کو واضح اور متعین کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اس سے مکمل طور پر بچا جائے اور اس کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے۔ قرآن و حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کوئی شخص اپنی پسند ناپسند سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار نہیں دے سکتا ۔ حتیٰ کہ اللہ کے رسول کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز کو‘ جسے اللہ نے اس کے لیے حلال کیا ہو‘ اپنے اُوپر حرام کرلے۔ (التحریم ۶۶:۱)

اسی بنا پر امام مالکؒ نے جو اصول بیان کیا ہے اس پر تقریباً تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ اصلاً تمام اشیا مباح ہیں جب تک انھیں قرآن و سنت حرام قرار نہ دے دیں۔ وجہ ظاہر ہے      اِنَّ الْحَلَالُ بَیِّنٌ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ’’یہ دونوں چیزیں شریعت نے ظاہر اور واضح کر دی ہیں۔

تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جن معاملات میں قرآن و سنت کا واضح حکم موجود نہیں ہے‘ یعنی مشتبہات‘ تو ان میں احتیاط کا رویہ اختیار کیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دین اہلِ ایمان کو غیر ضروری طور پر مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ قرآن کریم نے یہ اصول دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دین میں آسانی چاہتا ہے (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ حدیث میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ دین میں آسانی اختیار کی جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ کے سامنے ایک راستہ آسان اور ایک قدرے مشکل ہوتا تو آپؐ آسان کو اختیار فرماتے تھے‘ تاکہ آپؐ اپنی سنت کی پیروی میں اُمت کو غیر ضروری طور پر دقت اور مشکل میں نہ ڈالیں۔

آپ کی جانب سے احتیاط کا رویہ اختیار کرنا اچھی عادت ہے۔ لیکن اس کی بنا پر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ لینا اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہو جانا بھی دین کا مدّعا نہیں ہے۔ دین کے تمام احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے۔ اگر تحقیق کے بعد ایک بات آپ پر ظاہر ہو کہ ایک شخص دین کا باغی اور دشمن ہے تو آپ لازماً اس کے ہاں کھانا کھانے سے بچیں۔ لیکن محض  گمان کو سورۃ الحجرات میں گناہ شمارکیا گیا ہے۔ (الحجرات ۴۹:۱۲)

ایک بات یہ بھی سمجھ لیجیے کہ جب تک ایک شخص کا اپنا حصولِ رزق کا طریقہ صحیح ہے‘ اسے اپنے ذہن کو ہر شبہے سے خالی کر کے‘ اللہ کے دیے ہوئے رزق کو مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے اور ہر شخص کی روزی کو آلودہ سمجھ کر اس سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ایک شخص کو جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کے والد کس طرح روزی کماتے ہیں اور وہ اپنے گھر کا کھانا استعمال نہ کرے‘ عقل کے منافی ہے۔ جب تک آپ کو تحقیق سے یہ معلوم نہ ہو کہ ایک شخص کی روزی حرام ہے‘ محض گمان کی بنا پر اس سے قطع تعلق کرنے کی بنیاد علم نہ ہوگا بلکہ ظن و گمان ہی ہوگا جس سے قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں منع کیا ہے۔ اسلام کا مثبت اصول یہ ہے کہ جب تک ایک چیز کے ممنوع ہونے کا حکم نہ ہو اسے مباح سمجھا جائے۔

اس لیے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اگر کسی نے آپ کو مدعو کیا یا کھانے کو کوئی چیز بھیجی تو اسے استعمال کرنے میں تردّد نہ کریں۔ جب تک آپ تحقیق سے یہ نہ جان لیں کہ وہ حرام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا -ا)

کاروبار میں احتیاط کا پہلو

سوال: ہمارا آبائی کاروبار جنرل سٹور کا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ ہے۔ جب میں تعلیم سے فارغ ہو کر کاروبار میں آیا تو کچھ عرصہ سٹور پر بیٹھنے کے بعد میں نے یہ کاروبار جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ خواتین سے بات چیت‘ دن رات کی مصروفیت اور صبح شام روپے پیسے کی آمدورفت انتہائی خطرناک کام محسوس ہوا۔ انتہائی سوچ سمجھ کر پرنٹنگ پریس کا انتخاب کیا کہ وقت بھی کھلا مل سکتا ہے‘ خواتین سے بھی واسطہ نہیں پڑے گا‘ لہٰذا سکون سے دال روٹی چلتی رہے گی۔ پریس لگ گیا اور ماشاء اللہ بہت کامیابی ملی‘ تاہم اس میں چند چیزیں ایسی ہیں جو غور طلب ہیں۔

۱- ہمارے کاروبار کا زیادہ دارومدار شادی کارڈوں کی اشاعت پر ہے۔ کیا ایسے شادی کارڈ بیچنا جائز ہیں جن پر تصاویر ہوتی ہیں؟ اس کو ایک بڑے اہلحدیث عالم نے جائز کہا تھا کہ یہ مصوری نہیں ہے۔ پھر یہ تصاویر آپ خود پرنٹ نہیں کرتے بلکہ چھپے چھپائے کارڈوں پر شادی کا مضمون لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے جید علما ان تصاویر کو جائز بھی قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ حرام ہے تو ایسی ہر چیز بیچنی حرام ہے جس پر تصویر ہو۔ مگر اب تو ہر چیز کی پیکنگ پر تصاویر ہیں۔

۲- ہمارے کام کا دوسرا بڑا حصہ حکومتی کاموں کا ہوتا ہے۔ کیا کسی ایسی حکومت کے کسی ادارے کا کام کیا جاسکتا ہے جو اللہ کی نافرمانی پر قائم ہو؟ مثلاً محکمہ اوقاف وغیرہ۔

۳- ہمارے کاروبار کا تیسرا بڑا حصہ پوسٹرز کی طباعت پر مبنی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے پوسٹر نہ شائع کیے جائیں جن پر شرکیہ جملے‘ فرقہ پرستی کی دعوت ہو‘ نیز فلمی پوسٹر اور میوزک سنٹر کے اشتہارات‘ دیگر چھاپ دیتے ہیں۔

۴- ہمارے علاقے میں ایصالِ ثواب کے لیے منعقدہ محافل‘ مثلاً قل خوانی‘ رسم چہلم کے کارڈ اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہیں ہوتا‘ چھاپتے ہیں۔ البتہ ہم ایسے دعوت نامے بھی احتیاطاً شائع نہیں کرتے جن کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں خلافِ شریعت بات ہوگی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں شائع کردہ کارڈوں اور پوسٹروں وغیرہ کے تحت ہونے والی محفلوں اور تقریبات میں جو خلافِ شریعت کام ہوں گے ان کے ہم بھی ذمہ دار ہوں گے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا ہماری کمائی جائز ہے؟ ان حالات میں کیا کیا جائے؟

جواب: تجارت اور بالخصوص ایسی تجارت جس میں شعوری طور پر آپ نے محنت کے ساتھ حلال رزق کے حصول کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کیا ہو لائقِ تحسین ہے بلکہ اگر اس انتخاب میں کم تر برائی کا فقہ کا قاعدہ بھی پیش نظر ہو‘ جب بھی اس کا اختیار کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی میں شمار کیا جائے گا۔ آپ نے آخر میں جو سوالات اٹھائے ہیں ان میں سے جن کا تعلق کمائی کی حیثیت اور اس کے استعمال سے ہے‘ ان کا جواب مندرجہ بالا اصول سے خود بخود سامنے آجاتا ہے۔

جہاں تک سوال ایسے مواد کی اشاعت کا ہے جس پر آپ نے آپ کے بقول جید     اہلِ حدیث علما سے فتویٰ حاصل کیا ہے اوروہ ایسے مواد کی اشاعت کو ناجائز یا حرام نہیں کہتے‘ تو پھر آپ کو چاہیے کہ بار بار اس پر غورکرنے کے بجاے ان علما کی رائے اور تفقہ فی الدین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے وقت کو مثبت اور تعمیری فکر میں لگائیں‘ اور اپنے وقت کا استعمال معروف اور بھلائی کے پھیلانے اور برائی کو روکنے میں صرف کریں۔

ایسے مواد کی اشاعت جس میں ایسی تقریبات کی دعوت ہو جو آپ کے نقطۂ نظر سے مناسب نہیں ہیں لیکن بعض مخلص اور دینی علم رکھنے والے افراد کی تعبیر آپ سے مختلف ہے اور وہ اسے جائز سمجھتے ہیں‘ تو ایسے تمام معاملات کو بظاہر مشتبہ سمجھا جائے گا ۔ حدیث میں ایسے مشتبہ معاملات سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مشاعرہ ہو یا دنگل یا محفلِ نعت اور سیرت پاکؐ کا جلسہ‘ ان میں بظاہر کسی شریعت کے اصول کی تردید نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشتی میں حصہ لیا ہے اور سنت کی بنا پر اس کا جواز موجود ہے۔ ہمارے اسلاف علما نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ کشتی میں لباس کی شکل کیا ہو اور سترعورۃ کی پابندی کرائی جائے۔

البتہ جہاں معاملہ شرک اور کفر کا ہو وہاں آپ کو تجارتی اخلاقیات کے پیشِ نظر یہ حق حاصل ہے کہ بعض کاموں کے لیے ایک تحریری پالیسی بنا کر رکھ لیں کہ اس قسم کے کاموں کو قبول نہیں کریں گے اور اس میں کسی کو آپ سے شکایت نہیں ہوگی۔ ہاں‘ یہ خیال رہے کہ فقہی مذاہب میں اختلاف کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ آپ صرف اپنے مکتب فکر سے وابستہ افراد کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ اور غیرحق پر سمجھتے ہوئے کسی اور مقام پر رکھ دیں۔ دین رواداری اور اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے باہمی اخوت اور مواسات کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ اصول تجارت میں بھی استعمال کرنا ہوگا۔

اس گمان کی بنا پر کہ کسی محفل میں لازماً خلافِ شریعت بات ہی کہی جائے گی‘ محفل کا  دعوت نامہ چھاپنے سے انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ وزیرآباد کے کاریگر چاقو بنانا اس لیے بند کر دیں کہ بعض عاقبت نااندیش اور گمراہ حضرات چاقو کو قتل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ظاہری برائی سے پرہیز کیجیے اور اگر کہیں کوشش کے باوجود کوئی بھول ہو جائے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے استغفار کیجیے۔ وہ سب سے زیادہ رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


حصولِ علم کے لیے خواتین کا سفر و قیام

س: ہم میڈیکل کی طالبات گرلز ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عورت اپنے محرم کے بغیر تین دن اور رات کا سفر اکیلے نہیں کر سکتی۔ اس طرح تو ہم یہاں رہ کر جتنا بھی کام کریں‘ سب کا سب بغاوت یا حدود توڑنے کے ضمن میں آئے گا۔ کیا ایک بالغ عورت اپنے محرم کے بغیر دین یا دنیا‘ کسی بھی قسم کے علم کے حصول کے لیے گھر سے باہر رک سکتی ہے؟

ج: آپ نے اپنے سوال میں دو باتوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ جہاں تک کسی ایسے مقام تک سفر کا تعلق ہے جس میں تین دن رات کی مسافت درپیش ہو‘ حدیث میں بات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ اور اگر معمولی سا غور کر لیا جائے تو اس کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایسے سفر کے دوران ایک مسلمہ کو تنہا ہونے کی صورت میں ایسے ممکنہ حالات پیش آسکتے ہیں جن میں وہ محرم کے ساتھ ہونے کی شکل میں اپنے آپ کو تکلیف‘ پریشانی اور خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی سہولت اور آسانی کے پیشِ نظر اسلام کی سفری اخلاقیات میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اگر وہ دو افراد بھی ہوں تو اپنے میں سے بہتر کو اپنا امیر بنالیں تاکہ سفر کے دوران نظم و ضبط برقرار رہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین کی نام نہاد حریت کے باوجود خود مغرب میں خواتین کو تنہائی کی بناپر جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سفر کے حوالے سے اس ارشاد نبویؐ کی عملی تصدیق کرتے ہیں۔

دوسری بات جو آپ کے سوال میں اٹھائی گئی ہے وہ یہ کہ اگر ایک خاتون تین دن رات کی مسافت طے کرکے یا اس سے کم یا زاید مسافت طے کر کے کسی محفوظ مقام پر سکونت اختیار کرتی ہے‘ تو کیا اس سکونت پر سفر کا حکم لگے گا؟ اگر آپ اپنے سوال پر غور کریں تو طالبات کا ہاسٹل سکونت کی تعریف میں آئے گا جس پر کسی حدیث میں پابندی نہیں لگائی گئی۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر کوئی خاتون تنہا حج کے لیے جانا چاہے تو سوائے فقہ جعفریہ کے بقیہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے ساتھ  محرم ہونا چاہیے۔ اس کی حکمت واضح ہے۔ لیکن اگر ایک خاتون خواتین کی ایک جماعت کے ساتھ سفر کررہی ہو اور ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا محرم ہو تو اکثر فقہا کو ایسے سفر پر کوئی اعتراض    نہیں ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ حصول علم ایک دینی فریضہ ہے جس میں وہ علوم بھی شامل ہیں جو خواتین کی جان‘ دین‘ عقل اور نسل کے بقا و تحفظ کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً بعض خواتین کا طب کے عمومی شعبہ‘ بعض کے شعبۂ اطفال‘ بعض کے شعبۂ بصارت‘ بعض کے شعبۂ بچگان‘ بعض کا شعبۂ قلب میں تخصص حاصل کرنا ایک فرضِ کفایہ ہے۔ اسی طرح قرآنی علوم‘ علوم الحدیث‘ علم الفقہ وغیرہ کے حوالے سے بھی خواتین کو حصولِ علم سے بری الذمہ نہیں کیا گیا۔ ان تمام علوم کے حصول کے لیے سفر کرنا بمنزلہ عبادت ہے۔ اور اگر حصولِ علم کے لیے وہ گھر سے دُور بھی ہوں‘ لیکن سکونت محفوظ ہو تو اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی غیرشرعی فعل صادر نہیں ہوتا۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ علم کا مجموعی حصول قرآن و سنت کے واضح مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے۔ اس لیے نہ یہ بغاوت ہے‘ نہ حدود کا توڑنا‘ نہ شریعت کی خلاف ورزی بلکہ مقاصد شریعہ کے حصول کے لیے ایسا کرنا بعض صورتوں میں فرضِ عین اور بعض میں فرضِ کفایہ‘ دونوں کی تعریف میں آتا ہے۔ حلال و حرام کا علم چاہے باب طہارت میں ہو‘ طب و جراحت میں یا معیشت و معاشرت میں‘ اس کا حصول فریضہ ہے‘ اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر خصوصی میدانوں میں چند افراد کا حصول علم فرضِ کفایہ۔ ظاہر ہے جو عمل اس نوعیت کا ہو وہ دین داری کا عمل ہے جسے شریعت کے منافی کہنا عقلی اور نقلی‘ دونوں حیثیت سے مناسب نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)


دھات سے بنی اشیا کا استعمال اور نماز

س: سونے ‘چاندی ‘ پیتل ‘ کانسی وغیرہ کی انگوٹھی یا بٹن یا گھڑی کی چین پہن کر مرد کا نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اس حوالے سے ایک پوسٹر مساجد میں آویزاں کیا جارہا ہے جس میں مختلف فتووں کو جمع کیا گیا ہے (پوسٹر منسلک ہے)۔آپ وضاحت فرمایئے کہ کیا دھات کی بنی اشیا پہن کر مردوں کا نماز ادا کرنا جائز ہے؟

ج: دھات سے بنی ہوئی گھڑی کی چین اور زنجیر کو پہننا ممنوع اور پہننے والے کی نماز اور امامت کو مکروہ تحریمی کہنا صحیح نہیں ہے۔ اشتہار میں جو احادیث ذکر کی گئی ہیں وہ انگوٹھی سے متعلق ہیں‘ گھڑی کی چین اور زنجیر سے متعلق نہیں۔ اگر لوہے اور دوسری دھاتوں سے بنی ہوئی چین یا زنجیر ممنوع ہوجائے تو اس سے لازم آئے گا کہ خود گھڑی بھی ممنوع ہوجائے‘ اس لیے کہ وہ بھی تو لوہے یا کسی دوسری دھات کی بنی ہوئی ہوگی۔ اسی طرح لازم آئے گا کہ لوہے اور دھاتوں سے بنی ہوئی تمام اشیا کا استعمال ممنوع ہوجائے جو قطعاً باطل ہے۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ حرام وہ چیز ہوگی جسے حرام کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی چیزیں حلال ہوں گی۔ چونکہ گھڑی کی چین اور زنجیر جو لوہے یا دھات سے بنی ہوئی ہوں‘ کی حُرمت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں آیا‘ اس لیے یہ حلال ہوں گی اور ان کو پہن کر نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ رہی انگوٹھی توا س کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات سے حُرمت نکلتی ہے‘ جیسے کے اشتہار میں ذکر کی گئی روایات سے ثابت ہوتا ہے اور بعض سے لوہے کی انگوٹھی کا جواز بھی نکلتا ہے۔ مشکوٰۃ میں پہلے حضرت بریدہؓ کی اس روایت کا ذکر ہے جو اشتہار میں سب سے پہلے درج کی گئی ہے اور اس کے بعد فرمایا: وقال محی السنۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وقد صح عن سھل بن سعد فی الصداق ان النبیؐ قال لرجل التمس ولو خاتمًا من حدید (مشکوٰۃ‘ باب الخاتم‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱) ’’کہا ہے محی السنۃ رحمہ اللہ علیہ نے اور سہل بن سعد سے مہر کے بارے میں صحیح روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔ اس روایت کو صاحب  مشکوٰۃ نے پہلی روایت کے بعد ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لوہے یا دھات کی بنی ہوئی انگوٹھی پہننا حرام نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہے‘‘۔ (مظاہر حق جدید‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱)

اس لیے یہ پوسٹر بلاجواز ہے اور لوگوں کو بلاوجہ پریشان کرنے کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی شارح صحیح مسلم نے جو اہل السنت بریلوی مکتب فکر کے متبحر عالم دین ہیں‘ اپنے اکابر علما ‘اساتذہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ علیہ کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ تمام دھاتوں کا چین‘ زنجیر‘ چمچ وغیرہ روز مرہ استعمال کی اشیا جائز ہیں۔ جب یہ جائز ہیں تو ان کو باندھ کر یا پہن کر نماز پڑھنا بھی جائز ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم‘ کتاب اللباس والزینۃ‘ ج ۶‘ ص۳۴۷-۳۵۰۔ بحوالہ فتاویٰ النوریہ رضویہ‘ ج ۱‘ ص ۵۲۱)۔ (مولانا عبدالمالک)

خواتین اور اسمبلیاں

سوال : آج کل اخبارات و رسائل میں دینی جماعتوں سے وابستہ اور ذمہ دار خواتین کی جو تصاویر شائع ہو رہی ہیں اُن میں پردے کی کیفیت غیرشرعی ہے۔ دونوں آنکھیں کھلی ہیں‘ جب کہ قرآن حکیم کے مطابق عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ جب گھر سے باہر نکلے تو چہرے پر نقاب ڈالے تاکہ پہچانی نہ جائے۔ جہاں تک آنکھیں کھولنے کی اجازت ہے وہ صرف ایک آنکھ کھول کر پورے چہرے کو ڈھانپنا ہے۔ یہ بھی‘ بہ امر مجبوری ہے‘ نہ کہ عام حالات میں۔ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ لیکن وہاں پر اسلامی تشخص کی حامل خواتین مردوں سے بھی خطاب کرتی ہیں۔ کیا یہ اصولوں سے انحراف اور مغرب کی تقلید نہیں ہے؟

جواب: یہ بات کہنا کہ اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ صحیح نہیں ہے بلکہ اصول کے عین مطابق عمل ہو رہا ہے۔ عام حالات اور مخصوص حالات میں فرق خود اصول کے اندر موجود ہے۔ دین کے لیے آواز اٹھانا اصول کا حصہ ہے۔ اھون البلیتین بھی اصول کا حصہ ہے۔ اصول کے تمام اجزا کو پیش نظر رکھا جائے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔

’’آواز‘‘ کا پردہ ایسی نوعیت نہیں رکھتا کہ کلمۂ حق کہنے میں رکاوٹ بن جائے۔ اقامت دین‘ تعلیم و تبلیغ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مردوں کی طرح خواتین پر بھی فرض ہے۔ حسب ضرورت ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (اٰل عمران ۳:۲۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وُاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمران۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں‘اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریںگے وہی فلاح پائیں گے۔

اس حکم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے تقریر و تحریر کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اسی طرح روز مرہ کے معاملات‘ سوالات و جوابات کے سلسلے میں بھی گفتگو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کیا گیا ہے اور کبھی بھی پردہ اور اس کی مختلف شکلوں کو اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنایا گیا۔ ازواجِ مطہرات نزولِ حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیرمحارم سے بات کرتی تھیں‘ سوالات کے جواب دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، اور دیگر ازواج مطہرات سے مروی احادیث کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ ان کی راوی صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی ہیں۔ مردوں نے بھی ازواج مطہرات سے علم حدیث حاصل کیا اور اسے آگے بیان کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات کے مواقع پر ان کا علمی اور عملی کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ صحیح بخاری کی ایک راویہ کریمہ بنت احمد بھی ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے پردے کے احکام اور اس میں نرمی کی صورتوں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بوقت ضرورت‘ بقدر ضرورت نرمی کی جا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’حدود و حجاب کی سختی آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ ان میں نرمی کہاں اور کس ضرورت سے کی گئی ہے‘‘۔

مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صرف کر دی جائے۔ ایسی حالت میں اسلام قوم کی خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اس کے پیش نظر ہے کہ جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں تیروخنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ اس لیے وہ عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لیے تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم عورتوں سے مصافی [جنگی]خدمات لینا اور انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے۔ وہ جنگ میں ان سے صرف یہ خدمت لیتا ہے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں‘ پیاسوں کو پانی پلائیں‘ سپاہیوں کے لیے کھانا پکائیں اور مجاہدین کے پیچھے کیمپ کی حفاظت کریں۔ ان کاموں کے لیے پردے کی حدود انتہائی کم کر دی گئی ہیں‘ بلکہ ان خدمات کے لیے تھوڑی ترمیم کے ساتھ وہی لباس پہننا شرعاً جائز ہے جو آج کل عیسائی ننیں پہنتی ہیں۔

تمام احادیث سے ثابت ہے کہ جنگ میں ازواج مطہرات اور خواتین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتیں اور مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ یہ طریقہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہا ہے۔ (بخاری‘ باب حمل الرجل المراۃ فی الغزو)

ترمذی میں ہے کہ اُم سلیمؓ اور انصار کی چند دوسری خواتین اکثر لڑائیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی ہیں۔ (ترمذی‘ باب ماجاء فی خروج النساء فی الغزو)

بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے لیے دعا فرمایئے کہ میں بھی بحری جنگ میں جانے والوں کے ساتھ رہوں۔

آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعلھا منھم (بخاری‘ باب غزوۃ المراۃ فی البحر)

جنگِ احد کے موقع پر جب مجاہدین اسلام کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر پانی کے مشکیزے لاد لاد کر لاتی تھیں اور لڑنے والوں کو پانی پلاتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اس حال میں‘ مَیں نے ان کو پائنچے اٹھائے دوڑ دوڑ کر آتے جاتے دیکھا۔ ان کی پنڈلیوں کا نچلا حصہ کھلا ہوا تھا۔ (بخاری‘ باب  غزوۃ النساء وقتالھن مع الرجال۔ مسلم‘ باب غزوۃ النساء مع الرجال‘ ج۲‘ ص ۷۶)

ایک دوسری خاتون اُم سلیط کے متعلق حضرت عمرؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: جنگ اُحد میں دائیں اور بائیں جدھر میں دیکھتا‘ اُم سلیط میری حفاظت کے لیے جان لڑاتی ہوئی نظر آتی تھی [ہنگامی حالت میں خواتین نے تلوار بھی ہاتھ میں اٹھائی ہے اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے]۔

اسی جنگ میں ربیع بنت معوذ اور ان کے ساتھ خواتین کی ایک جماعت زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول تھی اور یہی عورتیں مجروحین کو اٹھا اٹھا کر مدینے لے جا رہی تھیں۔ (بخاری‘ باب مداوات النسائ‘ الجرحی فی الغزو)

جنگِ حنین میں اُم سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگیں کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ (مسلم‘ باب غزوۃ النساء مع الرجال)

اُم عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت‘ سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا‘ زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ‘ باب العید والنساء یشہدون مع المسلمین)

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ جو خواتین اس قسم کی جنگی خدمات انجام دیتی تھیں ان کو اموالِ غنیمت میں سے انعام دیا جاتا تھا۔ (مسلم‘ باب النساء الغازیات یرضح لھن)

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی پردہ کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی سی نہیں ہے جس میں مصالح اور ضرورت کے لحاظ سے کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضروریات پیش آجائیں وہاں اس کے حدود کم بھی ہوسکتے ہیں‘ نہ صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے جاسکتے ہیں‘ بلکہ جن اعضا کو ستر عورت میں داخل کیا گیا ہے ان کے بھی بعض حصے اگر حسبِ ضرورت کھل جائیں تو مضائقہ نہیں‘ لیکن جب ضرورت رفع ہو جائے تو حجاب کو پھر انھی حدود پر قائم ہوجانا چاہیے جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی پردہ نہیں ہے‘ اسی طرح اس کی تخفیف بھی جاہلی آزادی کے مانند نہیں۔ مسلمان عورت کا حال یورپین عورت کی طرح نہیں ہے کہ جب ضروریات جنگ کے لیے اپنی حدود سے باہر نکلی ‘تو اس نے جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی حدود میں واپس جانے سے انکار کر دیا‘‘۔ (پردہ‘ ص ۲۹۱-۲۹۴)

موجودہ حالات میں‘ پارلیمنٹ میں خواتین شوق سے نہیں مجبوراً آئی ہیں اور ایسے حالات میں آئی ہیں کہ آئے بغیرہ چارہ نہ تھا۔ دینی جماعتوں کے حلقوں سے تقویٰ اور دین داری کے زیور سے مزین مسلمان بہنیں بڑی تعداد میں رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ جن حالات میں یہ پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں‘ ان میں کوئی بھی عالم دین اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی عالم دین ایسی صورت میں پارلیمنٹ کو سیکولر خواتین کے لیے کھلا چھوڑ دینے کی رائے نہیں دے سکتا۔ دینی حلقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے پارلیمنٹ میں پہنچ کر نفل نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کیا ہے اور حکمران گروہ کے سیکولر ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حتی المقدور رکاوٹ ڈال دی ہے۔

باصلاحیت اور دین دار خواتین کا پارلیمنٹ میں آجانا سیکولر اور مغرب پرست اہل حل وعقد کے عزائم کی راہ میں ایک بڑی بامعنی رکاوٹ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان خواتین کی رکنیت موجب شکرگزاری ہے جن کی بدولت علما اور مرد ارکان پارلیمنٹ مطمئن ہیں کہ انھیں آزاد خیال اور مغرب زدہ خو اتین کو جواب دینے کے لیے زحمت نہیںاٹھانی پڑتی۔ کیونکہ یہ خواتین علمی اور عملی‘ ہر سطح پر ان عناصر کو جواب دینے کے لیے کافی اور شافی ہیں۔

جہاں تک پردے کا تعلق ہے تو اس میں بے شک احتیاط کرنا چاہیے‘ لیکن دینی ضرورت کے لیے جب باہر نکلنے کی اجازت ہے تو اپنے تحفظ کے لیے مجبوری کی صورت میں ایک آنکھ کی جگہ دو آنکھیں بھی کھولی جاسکتی ہیں۔ ایک آنکھ کھولنے کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بوقت ضرورت دوسری آنکھ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں تک زینت کے ظاہر ہونے کا تعلق ہے تو جو زینت مجبوراً ظاہر ہو وہ  الا ما ظھرمنھا میں شامل ہے۔ اس میں برقع اور آنکھیں وغیرہ سب شامل ہیں۔

جب تک موجودہ سسٹم موجود ہے اس میں دینی خواتین کی تعداد اتنی زیادہ ہونی چاہیے‘ کہ سیکولر خواتین کا راستہ بند ہوجائے۔ اسے اھون البلیتین کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: جب تم دو مصیبتوں سے دوچار ہوجائو تو پھر ان میں سے اس صورت کو اختیار کرو‘ جس میں مصیبت کم ہو۔

اس لیے موجودہ حالات میں اسلامی اور دینی جذبے سے سرشار خواتین شوقیہ نہیں بلکہ اھون البلیتین کے اصول کے تحت اسمبلیوں میں گئی ہیں۔ اگر نہ جاتیں تو پھر ان کی نشستیں    مادر پدر آزاد مغرب زدہ خواتین حاصل کرلیتیں‘ جو ملت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا حادثہ ہوتا۔

الحمدللہ اس وقت دینی جماعتوں سے وابستہ خواتین حدود و حجاب کی پوری پابندی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دعوتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ جو قابلِ قدر اور خراجِ تحسین کے لائق ہے۔ دینی ضرورت اور وقت کے تقاضے کے پیشِ نظر وہ پارلیمنٹ میں بھی گئی ہیں‘ مختلف ’’دینی ایشوز‘‘ کی خاطر جلسے‘ جلوس اور احتجاجی ریلیاں نکالتی ہیں‘ خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں لیکن ان تمام حالتوں میں پردے کی پابندی کرتی ہیں‘ جان کی حفاظت اور ٹکرائو سے بچنے کے لیے حسب ضرورت پردے کے احکام میں نرمی سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں لیکن بہت کم‘ صرف اتنا کہ ایک آنکھ کے بجاے دونوں آنکھیں کھلی ہوں۔ ان خواتین نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کر دیا ہے کہ عورت کس طرح شرعی آداب اور پردے کی پابندی کرتے ہوئے اقامتِ دین کی جدوجہد میں حصہ لے سکتی ہے۔ زمانۂ حاضر اور مستقبل کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی گئی ہے جس کو پیشِ نظر رکھ کر ان شاء اللہ ’’خاتون‘‘ پہلے کی طرح آج کے دور میں بھی دعوتِ دین اور اقامتِ دین میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے گی۔(مولانا عبدالمالک)

نقد‘ اُدھار اور قسطیں

سوال : نقد اور اُدھار قیمت کے فرق کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر بنک جو گاڑیاں اقساط پر دیتے ہیں‘ وہ اضافی قیمت لیتے ہیں۔ عموماً بنک بھی اسے سودی کاروبار کہتے ہیں۔ لہٰذا اضافی قسط‘ انٹرسٹ‘ منافع یا ایگریمنٹ یا کوئی اور نام رکھنے سے بلاسود بنک کاری نہیں ہوجاتی۔ اگر کوئی خریدار مقررہ وقت پر گاڑی کی قسط ادا نہ کر سکے تو کیا جرمانہ سود نہ ہوگا؟دوسرا پہلو یہ ہے کہ رضامندی سے طے شدہ زائد ظالمانہ رقم اگر سود نہیںتومجبوراً ادا کیا جانے والا جرمانہ تو سود ہی ہوگا۔ قسطوں کے کاروبار میں نقد اور اُدھار کے فرق پر شرعی نقطۂ نظر واضح کریں۔

جواب:   نقد اور اُدھار کی قیمتوں کے فرق کی گنجایش کو ایسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنا دینا چاہیے جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے اور جس میں سودی ذہنیت کارفرما ہو۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں سود اور بیع کا فرق بیان کرتے ہوئے اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے: ’’تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے‘ اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی‘ اس کے تمام وسائل معیشت حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے‘‘(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۱۲-۲۱۳)۔ مزید تفصیل کے لیے حاشیہ ۳۱۸‘ جو آیت وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرہ ۲:۲۷۵) ’’حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘ کی تفسیر کے سلسلے میں تحریر کیا گیا ہے‘    کا مطالعہ فرمائیں۔

اقساط کی صورت میں وہ منافع جو غیرسودی ہے اور وہ جو سودی ہے‘ کا فرق اس طرح   ملحوظ رکھا جائے کہ قسطیں طے ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ کسی صورت میں نہ ہو تو یہ بیع اور غیرسودی کاروبار شمار ہوگا‘ جیسے کہ تفہیم القرآن میں وضاحت ہوگئی ہے کہ بیع میں منافع طے شدہ ہوتا ہے اور ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے‘ اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور اگر اس میں اضافہ ہوتا رہے تو پھر وہ اقساط سود شمار ہوں گی۔ نیز کسی شے کا بہت زیادہ مہنگا ہونا جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے‘     وہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ طے شدہ ہونے کی صورت میں ہم اسے سود نہیں بلکہ منافع ہی کہیں گے۔واللّٰہ اعلم!  (مولانا عبدالمالک)


حج کے بعد عمرہ

س : حج کے بعد عمرہ ادا کرنے کے متعلق دو آرا ہیں۔ ایک رائے ہماری وزارت مذہبی امور کی ہے جن کے مطابق حج کے بعد عمرہ کرنے کی کھلی اجازت ہے:

منیٰ سے واپس آکر جب تک مکہ مکرمہ میں قیام رہے بکثرت طواف کرتے رہیں۔ یہ سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ اگر وقت ملے تو عمرے بھی کریں۔ (انوارحرمین‘ حصہ اول‘ وزارت مذہبی امور اسلام آباد‘ص ۵۱)

دوسری رائے سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کی ہے جو حج کے بعد عمرہ ادا کرنے کے خلاف ہے۔ ان کا خیال ہے حج کے بعد عمرہ ادا کرنا مشروع نہیں:

جو لوگ حج کے بعد تنعیم یا جعرانہ وغیرہ سے بکثرت عمرہ کرتے ہیں تو اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں… تنعیم سے حضرت عائشہؓ کا عمرہ مخصوص سبب سے تھا… لہٰذا جس کو حضرت عائشہؓ جیسا عذر درپیش ہو‘ اس کے لیے اجازت ہے کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کرے[عام اجازت نہیں ہے]۔(حج و عمرہ اور زیارت‘ علامہ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازؒ، ترجمہ: شیخ مختار احمد ندوی‘ وزارتِ اسلامی ‘سعودی عرب‘ ص ۴۳-۴۴)

ان دو متضاد آرا کی وجہ سے زائرین حج اُلجھن میں پڑجاتے ہیں کہ کیا صحیح اور کیا   غلط ہے؟

ج: جب یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حج کے بعد عمرہ کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حج کے بعد عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت عائشہؓ کا عمرہ اس عمرہ کی قضا تھی جو ان سے رہ گیا تھا‘ تو اس سے حج کے بعد عمرہ کو قضا کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کے بعد نفل عمرہ کیا جاسکتا ہے جس طرح عمرہ کی قضا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ عمرہ قضا ہو یا ادا‘ واجب ہو یا سنت‘ اس کا طریق کار‘ شرائط‘ واجبات اور سنن میں کوئی فرق نہیں ہے‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جعرانہ سے مستقل عمرہ کیا تھا۔ حج کے بعد عمرہ کی نفی اس وقت کی جاسکتی ہے جب نبی کریمؐ نے اس کی نفی یا حمایت کی ہو یا حضرت عائشہؓ کو عمرہ کرنے کے موقع پر فرمایا ہو کہ جس کا عمرہ رہ گیا ہو وہ حج کے بعد عمرہ کر سکتا ہے۔ دوسرا شخص جس نے حج سے پہلے عمرہ کر لیا ہو‘ وہ بعد میں عمرہ نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ حج کے بعد عمرہ کو معمول نہیں بنایا تو اس سے بھی حج کے بعد عمرہ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ بیان جواز کے بعد معمول نہ بنانے سے جواز کی نفی نہیں کی جاسکتی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت عائشہؓ کو حج کے بعد عمرہ کروا کر اس بات کا جواز بیان کر دیا کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ آج کل بھی حجاج کرام کا معمول نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد تنعیم سے عمرہ کریں۔ کچھ لوگ عمرہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ محض طواف پر اکتفا کرتے ہیں۔ دونوں طریقے صحیح ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ کسی کی اپنی طرف سے نفی نہ کی جائے کہ یہ شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ غلو اور افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)


ایک امام کی تقلید

س : کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے؟ کیا بیک وقت تمام ائمہ میں سے جس کی جو بات پسند آئے‘ لی جا سکتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے مطابق اورکچھ باتیں امام شافعیؒ کے مسلک کے مطابق‘ جب کہ تمام ائمہ ایک ہی دین کے پیروکار تھے؟

ج: آپ نے دریافت کیا ہے کہ کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک سوال اتباع کا ہے‘ قرآن نے سورۂ آل عمران میں اس کو واضح کردیا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اتباع غیر مشروط ہے‘ جب کہ اولی الامر کی اتباع مشروط ہے‘ یعنی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی پیروی کرتے اور کرواتے ہیں ان کی پیروی کی جائے گی (اٰل عمرٰن ۳:۵۹)۔ اسلام کے اس اصولِ اطاعت کو حدیث نبویؐ میں یوں واضح کر دیا گیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، یعنی خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان عورت اور مرد اپنے تمام معاملات کا فیصلہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی ہدایات کی روشنی میں کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرمسلمان خود قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے کی عادت ڈالے اور قرآن و سنت کے طریق و حکمت سے واقفیت پیدا کرے۔ ہماری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہمارے ادوارِ زوال میں بھی اعلیٰ طبقات کے افراد ہی نہیں وہ بھی جنھیں آزادی سے محروم کر کے غلام بنا لیا گیا تھا‘ اجتہادی صلاحیت رکھتے تھے‘ حتیٰ کہ اگر ادب کا مطالعہ کیا جائے تو الف لیلہ و لیلہ میںایسے واقعات ملتے ہیں جب ایک خادمہ ہر ہر سوال کے جواب میں صرف قرآنی آیات سے جواب دیتی ہے۔ اس صلاحیت کا تعلق اس ثقافتِ علم سے ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ایسی مثالی صورت حال پیدا نہ ہو توکیا کیا جائے؟ ظاہر ہے بغیر علمی وسائل کے اگر ہر فرد اپناامام خود بن جائے تو گمراہی کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس لیے علما وفقہا یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد جس امام کی تعلیمات پر ایک فرد کا دل مطمئن ہو یا وہ جس مسلک فقہی میں پیدا ہوا ہو اور اُس سے مطمئن ہو‘ اس پر قائم رہے۔ تاآنکہ وہ خود مصادر شریعہ کو سمجھنے اور اصول و قواعد فقہ کے استعمال سے واقف ہو جائے۔

فقہا و حکما کا کہنا یہ بھی ہے کہ چونکہ انسانی فطرت سہولت طلب ہے‘ اس لیے اگر ہر ہر فقہ سے صرف آسان ترین راستے اختیار کر لیے جائیں تو یہ دین کی وسعت کا صحیح استعمال نہ ہوگا۔ دین لازمی طور پر آسانی چاہتا ہے لیکن سستی اور کاہلی کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کسی ایک مسلک کو اختیار کرنا بہتر ہوگا تاکہ اس کی بعض بظاہر مشکلات کے ساتھ بہت سی آسانیوں سے بھی فائدہ حاصل کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

غیروارث قربت داروں میں تقسیم میراث

سوال : ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کچھ زمینیں تھیں اور عرصہ ۴۰ سال سے اس پر قبضہ تھا۔ ہمارے والد صاحب یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ہم کل چار بہن بھائی تھے‘ دو بہنیں اور دو بھائی۔ ہم لوگ کراچی میں رہایش پذیر تھے۔ زمین بہاولپور میں ہے اور مقدمے کے لیے پہلے لاہور‘ بعدازاں اسلام آباد جانا پڑتا تھا۔ مقدمہ کا فیصلہ ہونے سے ایک سال پہلے ہمارے والد صاحب اور بڑے بھائی صاحب مقدمے کی پیشی سے واپس کراچی آرہے تھے کہ راستے میں حادثہ ہوگیا اور دونوں باپ بیٹا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد چھوٹے بھائی نے مقدمہ لڑا۔ بالآخر ایک سال بعد ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا‘ یوں ہم زمین لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے بھائی صاحب جو کہ والد صاحب کے ساتھ ہی وفات پاگئے تھے ان کی بیوی‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ دادا کی وراثت میں پوتوں کا کوئی حق نہیں ہوتا‘ اگر صلبی اولاد حیات ہو۔ اب ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں‘ جب کہ دوسرے بھائی کے بچے ہیں۔ آیا دادا کی وراثت میں ان کا کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ ہم لوگ اس بارے میں بہت متفکر ہیں۔ اس دنیا میں کسی حق دار کو اس کا حصہ دینا بہت آسان ہے مگر اگلے جہاں میں بہت مشکل ہے۔ براہ مہربانی آپ قرآن و حدیث کے حوالے سے اس مسئلے کا حل پیش کریں۔

جواب: آپ کے والد صاحب اور بڑے بھائی کا حادثے میں شہید ہونے کا بڑا صدمہ ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر اور اجر سے نوازے۔ آمین!

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب بڑے بھائی والد صاحب کے ساتھ ہی فوت ہوگئے ہیں توا ن کے بیٹوں اور بیٹی اور بیوہ کو ترکے کا ۳؍۱ حصہ قانونِ وصیت کے تحت دینا چاہیے۔ یہ صلہ رحمی کا بھی تقاضا ہے جس کی قرآن و حدیث میں بڑی تاکید کی گئی ہے‘ نیز قرآن و حدیث نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے قرابت داروں کے لیے جن کا وراثت میں حصہ نہیں ہے‘ وصیت کریں (البقرہ ۲:۱۸۰)۔ یہ وصیت پہلے وارث اور غیروارث سب کے لیے فرض تھی لیکن آیت میراث کے نزول کے بعد وارثوں کے لیے وصیت کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ غیروارث قرابت داروں کے لیے جو وصیت فرض تھی‘ وہ اس کے بعد بھی باقی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ غیروارث قرابت داروں کو میراث میں سے بذریعہ وصیت حصہ دلانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ آدمی وصیت کرنے سے عاجز ہوتا ہے‘ جیسے آپ کے والد صاحب کو حادثہ پیش آیا اور بڑے بھائی ان کے ساتھ ہی شہید ہوگئے۔ ایسی صورت میں بڑے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوی کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی تھی۔ جب اس طرح کی صورت حال پیش آجائے تو وارثوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی جسے ان کے فوت ہوجانے والے سرپرست نے پورا کرنا تھا‘ اسے وہ پورا کریں کہ مقصد تو اللہ کی مرضی کو پورا کرنا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائیں گے‘ شہید ہوجانے والے بھائی کی روح بھی خوش ہوجائے گی اور بھتیجے اور بھتیجی اور مرحوم بھائی کی بیوہ بھی راضی ہو جائیں گے۔

غیروارث قرابت داروں کے لیے شریعت کی اس ہدایت پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ بعض نے تو فوت ہونے والے پر غیروارث کے لیے وصیت کو فرض قرار دیا ہے اوراگر فوت ہونے والا کسی وجہ سے اس فرض کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے تو انھوں نے ورثا پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے اس فرض کو باہمی مشورے و رضامندی سے عملی جامہ پہنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی طرف سے یہ فرض کی ادایگی شمار ہوگی۔ ابن جریر طبری‘ ابن حزم ظاہری‘ دائود طاہر‘ اسحاق بن راہویہ اور امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ آیت الوصیۃ (البقرہ۲:۱۸۰) وارثوں کے حق میں تو منسوخ ہے لیکن غیروارث اقارب کے لیے منسوخ نہیں ہے‘ بلکہ ان کے لیے وصیت حسب سابق فرض ہے۔ آیت المیراث اور حدیث لاوصیۃ لوارث (وارث کے لیے وصیت نہیں) کے ذریعے میراث کے مستحق والدین اور قرابت داروں کو آیت وصیت سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے‘ لیکن غیروارث اقربا کے استثنا کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ابن جریر طبری آیت الوصیۃ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی سوال کرے کہ کیا صاحبِ مال شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے ان والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کرے جو اس کی میراث نہیں لے سکتے‘ غیرمسلم ہیں یا دوسرے ورثا کی وجہ سے محروم ہیں‘(جیسے پوتے بیٹوں کی موجودگی میں) تو جواب میں کہا جائے گا کہ ہاں فرض ہے۔ پھر اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب اس نے کوتاہی یا تفریط کی وجہ سے وصیت نہ کی ہو تو کیا وہ فرض ضائع کرنے پر گنہگار ہوگا۔ جواب دیا جائے گا: ہاں!گنہگار ہوگا۔ اس کے بعد اگر کہا جائے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ تو کہا جائے گا کہ دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ ’’فرض کر دی گئی تم پر جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے وصیت کرنا والدین اور قرابت داروں کے لیے‘‘۔ پس جان لو کہ یہ وصیت ہم پر اس طرح فرض کی گئی ہے ‘ جس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ باوجود قدرت کے روزے نہ رکھنے والا شخص اللہ کے فرض کو ضائع کرنے والا ہے اور گنہگار ہے۔ اس طرح صاحبِ مال شخص والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت ترک کرنے پر گنہگار ہوگا۔ ابن جریر طبری نے عبداللہ بن عباس‘ حسن بصری‘ جابر بن زید‘ طائوس‘ قتادہ‘ ضحاک‘ مسروق‘ عبدالملک بن یعلی‘ ربیع‘ مسلم بن یسار‘ علا بن زیاد اور یاس بن معاویہ جیسے اسلاف کے اقوال اس حوالے سے بطور دلیل نقل کیے ہیں‘‘۔ (جامع البیان لتاویل القرآن‘طبع بیروت ۱۹۸۸ئ‘ ص ۱۱۵‘ ۱۱۶‘ ج ۲ بحوالہ تفہیم المسائل‘ ج ۵‘ ص ۴۸۹ تا ۴۹۸)

مفسر عصرِحاضر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’’بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہوکر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے‘ جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے (غیر وارثوں کے لیے)۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں گے جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں‘ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ‘ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کیا چاہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ یتیم پوتے اور دوسرے قرابت داروں کے لیے وصیت کی جائے اور انھیں بھی حصہ دیا جائے۔ فوت ہونے والے کے لیے یہ حکم تھا‘ اگر وہ اس کی تعمیل اس لیے نہ کر سکا کہ اسے اس کا موقع نہ مل سکا‘ تب اس کی تعمیل ورثا کو کرنا چاہیے۔ اس لیے دو بہنوں‘ ایک بھائی کو چاہیے کہ وہ فوت ہونے والے بھائی کے دو بیٹوں ایک بیٹی اور بیوہ کو ۳؍۱ جو غیروارث کے لیے بطور وصیت رکھا گیا ہے‘ دے دیں اور ۳؍۲ آپس میں تقسیم کرلیں۔ کل جایداد کو چھے حصوں میں تقسیم کر کے دوحصے‘ یعنی کل جایداد کا ۳؍۱شہید ہونے والے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوہ کو ان کے حصصِ وراثت کے مطابق دے دیں اور بقیہ چار حصے اس طرح تقسیم کریں کہ دو حصے بھائی کو اور ایک ایک حصہ بہنوں کو مل جائے۔(مولانا عبدالمالک)


جمہوریت کی اصطلاح کی شرعی حیثیت

س : آج کل دنیا میں پرامن تبدیلی اور آمریت کے مقابلے میں جمہوریت اور جمہوری نظام کا چرچا ہے۔ اسے تمام مسائل کا حل تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کے حوالے سے واضح فرما دیں کہ جمہوریت کی اصطلاح کا مفہوم کیا ہے اور کیا اس کا وجود قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے؟

ج: اس اہم سوال کا براہ راست جواب دینے سے قبل مناسب ہوگا کہ اس بات پر غور کرلیا جائے کہ گو ہم قرآن کریم اور سنت رسولؐ یا حدیث کے بارے میں یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہی ہمارے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں‘ لیکن کیا ہدایت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکنہ موضوع پر تفصیلات بھی فراہم کرے‘ یا ہدایت کا اصل مقصد بنیادی اصول اور بعض ایسی منتخب عملی مثالیں فراہم کرنا ہوتا ہے جو مختلف حالات میں رہنمائی فراہم کریں۔

قرآن و سنت بلاشبہہ قیامت تک کے لیے واحد جامع ہدایات ہیں لیکن ان میں دنیا کے ہر موضوع پر ایک مفصل باب تلاش کرنا یا ہر علمی اور فنی اصطلاح کا پایا جانا ایک غیر ضروری خواہش ہے۔ اس سب کے باوجود وہ جمہوریت ہو یا طب‘ فلکیات ہو یا بحریات‘ علمِ الارض ہو یا علمِ موسمیات‘ فلسفہ ہو یا ادب یا دیگر علوم و فنون‘ ان سب کے لیے اخلاقی اصول اور بنیادیں قرآن و سنت میں پائی جاتی ہیں جس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ قرآن طب یا کیمیا یا فلکیات کی کتاب ہے۔

جہاں تک سوال جمہوریت کا ہے ‘ اس اصطلاح سے عموماً ہم وہ سیاسی نظام مراد لیتے ہیں جس کی فکری بنیادیں یورپی فکر میں افلاطون کی کتاب ’’جمہوریت‘‘ سے جاکر ملتی ہیں‘ یاوہ نظام مراد لیتے ہیں جس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ امریکا یا بعض یورپی ممالک کرتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکا یا یورپی ممالک جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مغربی جمہوریت کی بنیاد لادینیت (secularism) پرہے۔ لیکن مغربی جمہوریت میں آزادیِ راے‘ اختلاف کا حق‘ اکثریت کی رائے کا احترام‘ آزادانہ انتخاب کے ذریعے ذمہ دارانِ ریاست کا انتخاب وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جنھیں روحِ جمہوریت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ لادینیت اس کا جسم کہا جا سکتا ہے۔

اسلام نے سیاست اور حکومت کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول دیے ہیں ان میں روحِ جمہوریت اپنی اعلیٰ ترین شکل میں پائی جاتی ہے اور اس نظام کے خدوخال اور  جسم بجاے لادینیت کے قیامِ دین پر مبنی ہے۔ گویا قرآن و سنت نے ایک جمہوری‘ عادلانہ اور دینی معاشرہ و ریاست کے قیام کے لیے ہمیں واضح اصول دیے ہیں جو مغربی جمہوریت سے بلندو برتر ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو قرآن کریم نے بنیادی سوال یہ اٹھایا ہے کہ انسان اس دنیا میں شترِبے مہار ہے یا وہ اپنے خالق اور مالک کے نمایندے کی حیثیت رکھتا ہے؟ چنانچہ سورہ بقرہ میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ انسان کا اصل مقام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے (البقرہ ۲:۳۱)۔ اس خلیفہ کا انتخاب یا تقرر کس طرح ہوگا‘اس کے لیے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر ہدایات دی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ مشاورت کر کے ایسے فرد کا انتخاب کیا جائے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اہلِ ایمان کے تمام معاملات مشاورت سے طے ہوتے ہیں (الشوریٰ ۴۲:۳۸)۔ پھر اسی بات کو یوں بیان کیا گیا کہ اپنے امور میںمشورہ کرو اور جب کسی فیصلے پر پہنچ جائو تو پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دو (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)۔ ظاہر ہے انتخابِ ذمہ داران سے بڑھ کر اور اہم معاملہ کیا ہو سکتا ہے‘ اس لیے اس کی بنیاد عوامی شوریٰ ہی ہوگی اور مشورے کے بعدلوگ جسے منتخب کریں وہی ذمہ داری پر مقرر کیا جائے گا۔ تاریخ سے اس کی مثال حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا انتخاب ہے جس میں شوریٰ کی بنیاد پر ان حضرات کو منتخب کیا گیا۔

اسلام کے سیاسی اورمعاشرتی نظام میں ذمہ داریاں کن حضرات کو دی جائیں گی‘ سربراہِ مملکت ہو یا دیگر شعبوں کے سربراہ ہوں وہ کس بنیاد پر منتخب کیے جائیں گے‘ اس کی بھی قرآن و سنت میں ہدایت دی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ذمہ داریاں صرف ایسے افراد کو دی جائیں جو اس کے اہل ہوں (اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا - النساء ۴:۵۸)۔ اس اہلیت کو بھی دیگر مقامات پر سمجھا دیا گیا کہ اس سے مراد کیا ہے‘ یعنی وہ افراد جو دیانت دار ہوں‘ امین ہوں‘ علمی اور جسمانی لحاظ سے قوی ہوں‘ فیصلے کی قوت رکھتے ہوں‘ جن پر لوگوں کو اعتماد ہو‘ جو خود منصب کے پیچھے نہ بھاگ رہے ہوں وغیرہ۔

ان ہدایات کو سامنے رکھیں تو جس چیز کو جمہوریت کہا جاتا ہے اسلام کا دیا ہوا نظام اس سے بلند اور روحِ جمہوریت میں اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔ اس نظام میں اللہ کا رسول بھی اپنے صحابہؓ سے مشورہ کرتا ہے اور صحابہ کرامؓ پورے ادب و احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپؐ جوفیصلہ کر رہے ہیں کیا یہ وحی کی بنیاد پر ہے یا آپ کی اپنی رائے ہے؟ اگررسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی بنیاد وحی نہیں تو صحابہؓ کی تجویز پر عمل کیا جاتا ہے (غزوئہ بدر)۔ گویا آمریت‘ بادشاہت اور تنہا ایک فرد کی عقل و فیصلے کی جگہ مشاورت پر فیصلے ہوتے ہیں اور صاحبِ امر مشاورت کی پیروی کرتا ہے‘ اسے ویٹو نہیں کرتا۔ اسی کا نام روحِ جمہوریت ہے ‘ جب کہ مغربی جمہوریت بالکل مختلف بنیادوں اور اصولوں پر قائم ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)