رسائل و مسائل


تصوف کی اصطلاحات

سوال : سلسلۂ تصوف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں: قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔

جواب :تصوف کی جن اصطلاحات کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان میں سے صرف ’ابدال‘ کا ذکر حضرت علیؓ کے ایک قول میں ملتا ہے۔ باقی رہے غوث، قطب اور قیوم، تو ان کا کوئی ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، یا صحابہ و تابعین کے اقوال میں نہیں ملتا، اور خود ابدال کے متعلق بھی جو عام تصورات صوفیہ کے ہاں پائے جاتے ہیں، ان کی طرف کوئی اشارہ حضرت علیؓ کے اس قول میں نہیں ہے، جس سے یہ اصطلاح لی گئی ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۵ء)


تصوف کے سلاسلِ اربعہ

سوال :  تصوف کے سلاسلِ اربعہ کے متعلق اپنی رائے عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔ 

جواب :تصوف کے ان سلسلوں کی ابتدا ایسے بزرگوں سے ہوئی ہے جو یقینا صلحائے اُمت میں سے تھے اور ان کا مقصود بھی تزکیہ و اصلاح تھا، جس کے ایک پاکیزہ مقصد ہونے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جس طرح مسلمانوں کی زندگی کے دوسرے شعبے بتدریج انحطاط کا شکار ہوئے اور  ان میں صحیح و غلط کی آمیزش ہوتی چلی گئی، اس طرح یہ سلسلے بھی اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ حالت پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے قرآن و سنت دُنیا میں محفوظ ہیں۔ ان کی راہ نمائی میں ہم جہاں اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں صحیح و غلط کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں، سلاسلِ تصوف کے افکارواعمال میں بھی یہ تمیز ممکن ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی  ، اگست ۱۹۶۵ء)


کیا تصوف مفید ہے؟

سوال :  تصوف جس کی دوسری تعبیر احسان و سلوک بھی ہے، جس کی تعلیم اکابرنقش بندیہ، چشتیہ ، سہرودیہ، قادریہ وغیرہ نے دی ہے، جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی۔ اس تصوف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یا مضر؟

جواب : ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جو کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ سے مطابقت رکھتی ہے وہ مفید ہے اور جو مطابقت نہیں رکھتی وہ مضر ہے۔اسی کلیے میں تصوف بھی آجاتا ہے۔ تصوف میں بھی کتاب و سنت کے مطابق جو کچھ ہے، حق ہے۔ اس کا مفید ہونا شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ لیکن جو آمیزش بھی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی ہے، اس سے ہم اجتناب کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔(سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۱ء)


الفاظ کا غلط استعمال

سوال : ۱- ایک صاحب نے ایک مسجد تعمیر کرائی، اس کا افتتاح ہو رہا تھا۔ ایک عالم نے جذبے سے مغلوب ہو کر اپنی تقریر میں فرمایا: ’’جس نے مسجد تعمیر کرائی ہے، اس کے ہم سب شکرگزار ہیں، یہاں تک کہ اللہ بھی ان کا شکر گزار ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟ پھر ایک اور موقعے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید الفطر میں ہم سب اللہ کے مہمان ہو جاتے ہیں اور اللہ ہمارا خادم ہو جاتا ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟

جواب :ہر زبان کے کچھ محاورے اور اسلوب ہوا کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہوش مند نہیں ہیں جو ایک زبان کے کسی محاورے یا اسلوب کو دوسری زبان میں لفظی ترجمہ کرکے جوں کا توں بول دیں، اور یہ نہ دیکھیں کہ اس دوسری زبان میں یہ الفاظ کس مفہوم و معنٰی میں مستعمل ہیں۔ مثلاً لفظ ’شکر‘ کا مفہوم عربی استعمال میں ’قدردانی‘ ہے، ’شکور‘ کے معنٰی ’قدر کرنے والا‘یا ’قدردان‘۔ جیسے قرآن میں فرمایا گیا:  اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝۳۰ (اللہ بخشنے والا ہے، قدر فرمانے والا ہے)، اور اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۝۳۴ۙ (بے شک ہمارا رب درگزر کرنے والا اور قدردان ہے) ۔اب ظاہر ہے کہ قدردانی اور قدر افزائی میں کسی طرح کا چھوٹا پن نہیں پایا جاتا، نہ اس کا مطلب ’ممنونِ احسان‘ ہونا ہوتا ہے۔ احسان بھلا اللہ پر کوئی کیا کرے گا،جب کہ تمام مخلوق خود اللہ کے احسانات میں بال بال بندھی ہوئی ہے۔

لیکن اُردو استعمال میں ’شکر گزاری‘ کے الفاظ بالکل دوسرا مفہوم اور دوسرے مضمرات رکھتے ہیں۔ کوئی بڑا اپنے چھوٹے کے لیے ’شکر گزاری‘ کا اظہار کرے، یہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ’شکر گزاری‘ کا مطلب اردو محاورے میں احسان کا اعتراف ہے، اور ’محسن‘ کا درجہ اس احسان کی حد تک اُس شخص سے بڑھا ہوا مانا جاتا ہے، جس پر احسان کیا گیا ہے۔

 لہٰذا جو صاحب آیاتِ قرآنیہ میں اللہ کے لیے ’شکور‘ کا لفظ دیکھ کر اردو میں بھی یوں فرمانے لگے ہیں کہ ’’اللہ اس شخص کا شکر گزار ہے، جس نے مسجد تعمیر کی‘‘، وہ صاحب کم سمجھ اور بدمذاق ہیں۔ ’شکر گزاری‘ جیسا کہ ہم نے کہا اعترافِ احسان کے ہم معنیٰ ہے، جب کہ قرآن کا لفظ ’شکور‘ صرف قدر دانی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قدردانی کہتے ہیں کسی عمل کا بھرپور صلہ دینے کو، فرماںبرداری پر اپنی خوش نودی کا اظہار کرنے کو۔ یہ بے شک اللہ کی شان ہے اور ایسی شان اس کی عظمت کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے، لیکن اس کے برعکس ’شکرگزاری‘ دوسری شے ہے۔ شکر گزار وہی ہو سکتا ہے جس پر احسان کیا گیا ہو، یعنی اسے اس کے حقِ واجب سے زیادہ دے دیا گیا ہو۔ بھلا اللہ کو کوئی اس کے حق سے زیادہ کیا دے گا، بہت بڑی بات ہے اگر اس کے حق کا ہزارواں حصہ بھی بندہ ادا کردے۔

اب لفظ ’خادم‘ پر نظر کیجیے۔ سلیقے کی بات یہ تھی کہ مولوی صاحب ’مہمان‘ کے مقابلے میں ’میزبان‘ کا لفظ بولتے۔ میزبانی اللہ کے شایانِ شان ہے، مگر انھوں نے ’خادم‘ کا لفظ بول کر بہت بڑی جرأت کی۔’خادم‘ اردو بول چال میں جو پست مفہوم رکھتا ہے وہ بھی محتاجِ بیان نہیں ہے۔

’خادم‘ کا درجہ ’مخدوم‘ سے کم مانا گیا ہے۔ خادم تو عموماً نوکر کےلیے بولتے ہیں، اور یہی لفظ شائستہ حضرات خود اپنے لیے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب عجز و انکسار مقصود ہو۔ خدا جانے ان مولوی صاحب نے عربی کے کس لفظ کا ترجمہ ’خادم‘ کرکے اسے اللہ کےلیے بول دیا ہے، استغفراللہ من ذٰلک۔ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی روایت میں ایسا کوئی لفظ آیا بھی ہو، جس کا ترجمہ ’خادم‘ ہو سکتا ہو، تب بھی یہ حماقت ہی ہوگی کہ اردو میں لفظ خادم کے محلِ استعمال کو نظر انداز کر دیا جائے۔

اللہ نے بندوں کی حوصلہ افزائی کےلیے بعض الفاظ بطورِ مجاز استعمال کیے ہیں، مثلاً:  وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا (اللہ کو قرضِ حسنہ دو)، یعنی اہلِ ایمان راہِ جہاد میں اپنا جو مال خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمّے قرض قرار دیا، تو کیا خود ہمارے لیے بھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرکے یہ کہتے پھرنا مناسب ہے کہ’’ اللہ ہمارا مقروض ہے!‘‘

اللہ نے فرمایا:  اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمھاری مدد کرے گا)۔ یہ بھی حوصلہ افزائی ہی کا انداز ہے اور عربی سے مخصوص۔ اب کیا خود ہمیں بھی یہ زیب دے سکتا ہے کہ جب جہاد کرنے چلیں تو اکڑ کر کہیں کہ ’’ہم اللہ کی مدد کرنے جا رہے ہیں!‘‘

جب عقل تناسب سے کم ہو تو علم صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتا، بلکہ کچا پکا باہر نکلتا ہے۔ کاش وہ صاحب الفاظ کے استعمال میں ہمیشہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کو ملحوظ رکھیں: يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا (ایمان والو! راعنا مت کہو، بلکہ اُنظرنا   کہو)۔ لفظ رَاعِنَا کے معنٰی یہی تو ہیں کہ ہماری طرف توجہ دو، ہماری رعایت کرو، اُنْظُرْنَا  بھی تقریباً یہی مفہوم رکھتا ہے، ہماری طرف دیکھو، متوجہ ہو۔ مگر یہود کی زبان میںراعِنا  احمق کو بھی کہتے تھے، اور اسی لفظ کو ذرا زبان دباکر کہہ دیجیے تو راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنٰی ہیں: ’اے ہمارے چرواہے‘۔ حضورؐ کی مجلس میں بعض یہود کی طرح کچھ صحابہؓ بھی حضورؐ سے مخاطب ہوکر راعنا  کا لفظ استعمال کرلیتے تھے، اور ظاہر ہے کہ ان کی نیتیں آبِ کوثر کی طرف پاک تھیں، پھر بھی اللہ نے اِبہام و اِلتباس سے بچانے کےلیے اور ادب و احترام کا بلند معیار قائم کرنے کےلیے اس ذومعنی لفظ کے استعمال سے روکا۔

تو کیا خود اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ ادب و احترام کا مستحق نہیں، اور جو رہنمائی اس نے قرآن میں اپنے اسمائے حسنیٰ پر دی ہے، اس کا تو کھلا تقاضا ہے کہ اس کےلیے کسی اسمِ صفت کا استعمال انتہائی احتیاط سے کیا جائے: ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ (وہ اللہ ہے پیدا کرنے والا، نکال کھڑا کرنے والا، صورتیں بنانے والا، اس کے اچھے اچھے نام ہیں)۔ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)

غلط کام پر کوفت کا احساس

سوال :  جب کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو مجھےخواہ مخواہ غصہ آجاتا ہے، حالانکہ میرا اس کام سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں ہوتا، مگر یہ سخت ذہنی اذیت کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً کوئی نماز نہ پڑھے تو مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی ہے، اس کا کوئی علاج بتائیں؟

جواب :  یہ کوئی بیماری نہیں ہے، جس کا علاج کیا جائے،یہ تو تندرستی کی علامت ہے۔ اگر کسی شخص کے نماز نہ پڑھنے پر آپ کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو خطرہ یہ ہے کہ ایک روز آپ خود بھی نماز چھوڑ بیٹھیں گے۔ اس کی تکلیف تو کم از کم آپ کو محسوس ہونی ہی چاہیے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو اسے تلقین کرنی چاہیے اور اسے اس کا فرض یاد دلانا چاہیے۔ البتہ، غصے اور کوفت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ اس کو صبر سے سمجھائیں اور تلقین کریں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ آگے بڑھ کر اس سے اُلجھ پڑیں، تو یہ ایک غیرحکیمانہ فعل اور غلط قسم کا غصّہ ہوگا۔ تاہم، یہ بات واضح رہے کہ میں ہرغصے کو حلال بھی نہیں کہہ رہا ہوں۔ البتہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کا غصہ آپ کو نہ آئے تو یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔(مولانا مودودی، ۳۰؍اپریل ۱۹۷۵ء)


غیرذمہ دار واعظ

سوال :  ہماری بستی کی مسجد میں ایک معروف واعظ صاحب نے اپنے وعظ کے دوران فرمایا: معراج کی رات حضوؐر کو خدائے قدوس کی طرف سے تین علم عطا ہوئے: (۱)علمِ شریعت (۲) علمِ طریقت (۳) علمِ حقیقت۔ حضوؐر کو ربّ کی طرف سے ہدایت ملی کہ علمِ شریعت امت کے ہر خاص و عام تک پہنچایا جائے۔ (۲) علمِ طریقت صرف چند خواص کو پہنچایا جائے۔ (۳) علمِ حقیقت صرف اپنے لیے مخصوص رکھا جائے۔   استدعا ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلے کا جواب عطا فرمائیں ؟ 

جواب : آدمی کو جب یہ پرواہ نہ رہے کہ اسے اپنے قول و فعل کا کہیں حساب بھی دینا ہے، تو پھر جو اس کے منہ میں آئے کہے اور جو دل میں آئے کرے، کون اس کی زبان پکڑ سکتا ہے؟ غیر ذمہ دار اور اللہ سے نہ ڈرنے والے واعظوں کے منہ میں لگام دینے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ جو باتیں وہ اللہ اور رسولؐ اور دین سے منسوب کرکے ارشاد فرمائیں، ان سے ان کا حوالہ دریافت کیا جائے، حوالہ نہ دے سکیں تو سامعین ان سے صاف کہہ دیں کہ ہم اپنے دین و مذہب کے متعلق کوئی ایسی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے لیے قرآن یا حدیث یا معتبر اور معروف علما و ائمہ کی سند موجود نہ ہو۔

معراج کی تفصیلات احادیث میں درج ہیں، اور حضورؐ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں انھیں نقل کیا گیا ہے۔ ان میں کہیں درج نہیں کہ شب ِ معراج میں آپؐ کو تین طرح کے علوم عطا ہوئے ہوں، اور پھر وہ ہدایات بھی اللہ کی طرف سے دی گئی ہوں جن کا ذکر واعظ صاحب نے کیا ہے۔

ویسے یہ تو معلوم ہی ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہر فرد بشر سے زیادہ تھا۔ بہتیرے ایسے حقائق و معارف ہوں گے جو حضوؐر تک ہی محدود رہے اور ان کے انکشاف و اظہار کی ضرورت انھوں نے نہیں سمجھی۔ لیکن یہ ایسے ہی معارف ہو سکتے ہیں جن کا چھپانا کھولنے سے بہتر ہو، اور جن کا تعلق دینی تعلیمات سے نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز حضورؐ نے امت سے چھپا کر نہیں رکھی جو ان کی روحانی ترقی کے لیے مفید اور تکمیلِ ایمان کے لیے مؤثر ہو۔

بعض خوش فہم کہتے ہیں کہ ’’آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت علیؓ کو بعض ایسے معارف و اَسرار سے آگاہ کیا تھا جنھیں کسی اور پر منکشف نہیں فرمایا‘‘۔ یہ بھی محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، اور خود حضرت علیؓ کی زبانی اس کی تردید ملتی ہے۔ ان واعظ صاحب سے ضرور پوچھیے کہ شبِ معراج کی جو تفصیل آپ پیش فرما رہے ہیں وہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی؟ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)

امانت رکھنے کے اصول

سوال : امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہییں؟

جواب :امانت اصل میں دو آدمیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے، وہ گویا اس پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ اپنی حد ِ استطاعت تک پوری ایمان داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص اس امانت کو اپنی حفاظت میں لینا قبول کرتا ہے، وہ بھی امانت رکھنے والے پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ ایک جائز قسم کی امانت اس کےپاس رکھ رہا ہے، کوئی چوری کا مال یا خلافِ قانون چیز نہیں رکھ رہا ہے، نہ اس امانت کے ذریعے سے کسی قسم کا دھوکا یا فریب کرکے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پس دونوں پر اس کے سوا کسی اور چیز کی پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ اس اعتماد کا پورا پورا حق ادا کریں۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)


قرضِ حسن کے آداب

سوال : قرضِ حسن دینے اور لینے میں کن اُمور کا لحاظ ضروری ہے؟

جواب : قرض دینے اور لینے میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حتی الامکان فریقین کے درمیان شرائط ِقرض صاف صاف طے ہوں، مدت کا تعین ہوجائے، تحریر اور شہادت ہو۔ جوشخص قرض دے وہ اس قرض کے دبائو سےکسی قسم کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ مقروض کو احسان رکھ کر نہ ذلیل کرے اور نہ اذیت پہنچانے کی کوشش کرے۔ اور اگر مدت گزر جائے اور فی الواقع مقروض شخص قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کو جہاں تک ممکن ہو مہلت دے اور اپنے قرض کی وصولی میں زیادہ سختی نہ کرے۔ دوسری طرف قرض لینے والے کو لازم ہے کہ جس وقت وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو اسی وقت ادا کردے اور جان بوجھ کر ادائے قرض میں تساہل یا ٹال مٹول نہ کرے۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)


حرام کام کرنے والے کے ساتھ کاروبار

سوال : مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھرفاجرمیں شراب نوشی ، سودی کاروبار وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟

جواب :تجارت اگر بجائے خود حلال نوعیت کی ہو اور جائز طریقوں سے کی جائے، تو  اس میں کسی پرہیزگار آدمی کی شرکت محض اس وجہ سے ناجائز نہیں ہوسکتی کہ دوسرے شُر کا اپنا مال حرام ذرائع سےکماکر لائے ہیں۔ آپ کا اپنا سرمایہ اگر حلال ہے، اور کاروبار حلال طریقوں سے کیا جارہا ہے، تو جو منافع آپ کو اپنے سرمایے پر ملے گا، وہ آپ کے لیے حلال ہوگا۔(فروری ۱۹۴۴ء)


کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا

سوال : کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب : کاسب ِ حرام کی دو نوعیتیں ہیں: ایک تو وہ جس کا پیشہ فحشا کی تعریف میں آتا ہے، مثلاً زنان بازاری کا کسب۔ اس کے قریب جانا بھی جائز نہیں ، کجا کہ اس کے ہاں نوکر ہونا۔ دوسرا وہ کاسب ِ حرام ہے جس کا پیشہ حرام تو ہے ، مگر فحشا کی تعریف میں نہیں آتا، جیسے وکیل یا سودی ذرائع سے کمانے والا۔ اس کے کسی ایسے کام میں نوکری کرنا جس میں آدمی کو خود بھی حرام کام کرنے پڑتے ہوں، مثلاً سود خور کی سودی رقمیں فراہم کرنے کا کام یا وکیل کے محرّر کا کام، یہ حرام ہے۔ لیکن اس کے ہاں ایسے کام پر نوکری یا مزدوری کرنا جو بجائے خود حلال نوعیت کا ہو، مثلاً اس کی روٹی پکادینا یا اس کے ہاں سائیس یا ڈرائیور کا کام کرنا ہو، یا اس کا مکان بنانے کی مزدوری، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رہا اس کے ہاں کھانا کھانا تو اس سے پرہیز ہی اولیٰ ہے۔(فروری ۱۹۴۴ء)

حضورؐ کی بعثت سے قبل اسلام کا وجود

سوال : کیاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی اسلام موجود تھا؟ جس قرآنی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ’مسلم‘ ہونے کی خبر دی گئی ہے، اس میں اسلام سے مرادکیا یہی دین اسلام ہے، جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟

جواب :اسلام کا مفہوم ہے اپنی ذات اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکانا اور اس کا مکمل مطیع و فرماں بردار بن جانا، یعنی اللہ کی توحید کا اقرار کرنا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا۔ یہی ہے وہ طریقۂ زندگی،جسے لے کر تمام انبیا و رُسل علیہم السلام آئے۔ تمام نبیوںؑ اور رسولوںؑ نے اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ اس لیے یہی بات حقیقت ہے کہ تمام انبیاؑ ورُسل کا مذہب، دینِ اسلام ہی تھا، کیوں کہ درحقیقت جو دین، اللہ کے نزدیک اَزل سے محبوب اور مطلوب ہے، وہ دین اسلام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ عظیم میں فرماتا ہے:

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ   (اٰل عمٰرن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

دوسری آیت میں ہے:

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ ۝۰ۚ (اٰل عمٰرن۳:۸۵) اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ تمام انبیا و رُسل علیہم السلام نے اسی دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور فرمایا:

وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۷۲(یونس ۱۰:۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود مسلم بن کر رہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا:

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۝۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۳۱ (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا یہ حال تھا کہ جب اس کے ربّ نے کہا: مسلم ہوجا، تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا بلقیس کے پاس بھی اسی اسلام کا پیغام بھیجا تھا:

اَ لَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۝۳۱ۧ (النمل۲۷:۳۱) میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہوجائو۔

آنحضور محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی دینِ اسلام کی دعوت دی۔ اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو بلایا۔ یہ الگ بات ہے کہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کا لایا ہوا دین، ایک مکمل دین ہے۔ حضورؐ کوئی نیادین لے کر نہیں آئے تھے ۔ انھوں نے بھی اسی دین کی دعوت دی، جس کی دعوت تمام انبیاؑ و رُسل نے دی تھی۔ البتہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ پچھلی شریعتوں میں جو بھی کمی رہ گئی تھی، اسے دُور کرکے دین کو مکمل کریں۔ لوگوں نے جو تحریفات کردی تھیں، ان کی تصحیح کریں اور ایک مخصوص انسانی طبقے کے بجائے تمام عالم کو اس دین کی دعوت دیں۔

یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ پچھلی شریعتوں اور شریعت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین بعض فروعی مسائل میں واضح فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتیں اپنے وقت اور حالات و ضروریات کے مطابق تھیں، جب کہ شریعت محمدیہ، رہتی دُنیا تک کے حالات و ضروریات کے عین مطابق ہے۔


نئے گھر میں رہایش سے قبل قربانی

سوال : بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ’’نئے گھر میں رہایش کے موقعے پر ایک قربانی کرنی چاہیے ورنہ جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھر والوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘۔ کیا یہ عقیدہ صحیح ہے؟

جواب : درحقیقت جنوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو جنوں کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ صرف انھی چیزوں پر یقین کرتے ہیں، جسے وہ دیکھ سکیں یا محسوس کرسکیں۔ ان کے بالمقابل کچھ ایسے لوگ ہیں، جو جنوں کے وجود کے اثرات کو ثابت کرنے میں غلو کرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہرچھوٹے بڑے معاملات میں جنوں کی دخل اندازی کے قائل ہیں۔ ان کے ذہنوں پر جِنّ اس طرح سوار ہوگیا ہے کہ ہرحادثے میں انھیں جِنّ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ گویا ساری دُنیا پر جنوں کی حکمرانی ہوگئی ہو۔ یہ دونوں عقیدے غلو کا شکار اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں۔

جنوں کے معاملے میں اسلام کا عقیدہ افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اسلام نے جنوں کے وجود کا انکار نہیں بلکہ اقرار کیا ہے۔ جنوں کی اپنی ایک الگ دُنیا آباد ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر جنوں کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ لوگ جو روحوں کو بلانے کا عمل کرتے ہیں، وہ بھی دراصل جنوں کوبلاتے ہیں۔ جنوں کے اقرار کے ساتھ ساتھ اسلام کاعقیدہ یہ بھی ہے کہ جِنّ اس حدتک بااختیار اور بااثر نہیں ہیں کہ تمام کائنات پر حکمرانی کریں۔ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کام کریں۔ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کی منشا اور تصرف کےماتحت ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک ادنیٰ سی جنبش پر بھی قادر نہیں ہیں۔

رہا لوگوں کا یہ عقیدہ کہ ’’نئے گھر کو بسانے سے قبل اگر قربانی نہ کی جائے تو جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھروالوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘ تو یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے۔ یہ تو غیب کی بات ہے۔ عقیدے اور غیب کی بات جب تک قرآن سے ثابت نہ ہو ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ لہٰذا، نئے گھر میں رہایش کے وقت قربانی کرنے والی بات بالکل بے بنیاد اور لغو ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف القرضاوی، ترجمہ: سیّد زاہد اصغرفلاحی)

ذکرِ الٰہی کے مختلف طریقے؟

سوال : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے ہیں، تو غصے میں فرمایا کہ ’’کیا تم اصحابِ رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟‘‘ دوسری روایت میں ہے: حضر ت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو مَیں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟‘‘دوسری طرف صحیح البخاری اور مسلم میں ہے کہ ’’فرشتے ذکر ِ الٰہی کی مجالس کو ڈھونڈتے ہیں اور ان میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ ان احادیث کی روشنی میں ’حلقۂ ذکر‘ کا بدعت ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟

جواب : لفظ ’ذِکر‘ کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے: اس کے ایک معنی ’دل میں اللہ کو یاد کرنے‘، یا ’یاد رکھنے‘ کے ہیں۔ دوسرے معنی ’اُٹھتے بیٹھتے ہرحال میں طرح طرح سے اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں، مثلاً: موقع بہ موقع الحمدللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کہنا۔ بات بات میں کسی نہ کسی طریقے سے اللہ کا نام لینا، رات دن کے مختلف احوال میں اللہ سے دُعا مانگنا، اور اپنی گفتگوئوں میں اللہ کی نعمتوں اور حکمتوں اور اس کی صفات اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر کرنا‘۔ تیسرے معنی ’قرآن مجید اور شریعت ِ الٰہیہ کی تعلیمات بیان کرنے کے ہیں، خواہ وہ درس کی شکل میں ہوں، یا باہم مذاکرہ کی شکل میں، یا وعظ و تقریر کی شکل میں‘۔ چوتھے معنی’تسبیح و تہلیل و تکبیر کے ہیں‘۔

جن احادیث میں ذکر ِ الٰہی کے حلقوں اور مجلسوں پر حضوؐر کے اظہارِ تحسین کا ذکر آیا ہے، اُن سے مراد تیسری قسم کے حلقے ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جس چیز پر اظہارِ ناراضی کیا ہے، اس سے مراد چوتھی قسم کا حلقہ ہے ، کیونکہ رسول ؐ اللہ کے عہد میں حلقے بنا کر تسبیح و تہلیل کا ذکر جہری کرنا رائج نہ تھا، نہ حضورؐ نے اس کی تعلیم دی، اور نہ صحابہؓ نے یہ طریقہ کبھی اختیار کیا۔ رہا پہلے دو معنوں میں ذکر ِ الٰہی ، تو ظاہر ہے کہ وہ سرے سے حلقے بنا کر ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ لازماً انفرادی ذکر ہی ہوسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)

حقیقی توبہ کیسے؟

سوال : اس سے قبل میں مبتلائے کبائر تھا، مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اللہ کا شکر ہے کہ ایک ’شعوری مسلمان‘ ہوگیا ہوں۔ لیکن دن رات اپنے اُخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجائے دُنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں، مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون رائج نہیں ہے۔ آپ میری مدد کریں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں۔

جواب : اللہ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچّے دل سے نادم ہو کر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔ توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہِ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اللہ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اللہ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۲ء)

غیرمسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے

سوال : کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں، جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق اقتصادی، فوجی،فنی امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قراردے گی؟ پھر مادّی، صنعتی، زرعی اور سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص مسلم ممالک یا اس ایٹمی دور میں Have اور Have Not کے درمیان حائل ہے، کس طرح پُر ہوسکے گی؟ نیز کیا اندرونِ ملک تمام بنکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع اور گڈوِل (Good Will) اور خریدوفروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟

جواب : اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیرمسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔ لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی اُن کی شرائط پر۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یہ تعلق، اِس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادّی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سُدھارنے کی کوشش کرے گی۔

اخلاقی حالت سُدھرنے کےمعنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کارپرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں۔اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں۔ اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو، جس کے لیے جان و مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو، اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔

یہ صورتِ حال اگر پیدا ہوجائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے، وہ سو فی صدی وصول ہوں گے اور سو فی صدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے۔ نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہوگی اور نہ ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہوگی۔ اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایے کا ایک بڑا حصہ رضاکارانہ چندے کی صورت میں، اور ایک اچھا خاصا حصہ غیرسودی قرض کی صورت میں، اور ایک حصہ منافعے میں شرکت کے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہوجائے گی۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے، تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہوجائے گا۔

بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر صورت پیش آہی جائے، یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہو اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے، تو مجبوراً دوسروں سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بند کیاجاسکتا ہے اور پورا مالی نظام (Financial System) سود کے بغیر چلایا جاسکتا ہے۔ میں اپنی کتاب سود میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ بنکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (Profit Sharing) کے اصول پر چلایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح انشورنس کے نظام میں ایسی ترمیمات کی جاسکتی ہیں، جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقے اختیار کیے بغیر حاصل ہوسکیں۔ دلالی، منافع، پگڑی، کمیشن یا گڈوِل (Good Will) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا تو اس کا جائزہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔ یہ کام لامحالہ ماہرینِ شریعت اور ماہرینِ  مالیات کو مل جل کر کرنا ہوگا۔(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۶۱ء)

غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا

سوال :   غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟

جواب :ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوں میں آپ کھانا کھاسکتے ہیں، اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی، اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرما دیں، اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔(اپریل ۱۹۶۰ء)


دوائوں اور غذائوں کی حلّت و حُرمت

سوال : غذائوں اور دوائوں کی حلت و حُرمت کے بارے میں شرعی احکام کیا ہیں؟

جواب :دوائوں اور غذائوں میں کیا چیزیں پاک ہیں اور کیا ناپاک؟ اس کو جاننے کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک احکامِ قرآنی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کو تفہیم القرآن سے کافی مدد مل جائے گی۔ مگر پھر بھی حدیث اور فقہ کے مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے ، تاکہ آپ اصولی احکام سے بھی واقف ہوجائیں اور جزوی مسائل سے بھی۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب تک میڈیکل کالج کی تعلیم میں شرعی احکام کی تعلیم شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ آخر ہم کیسے اُس چیز کی ضرورت محسوس کرلیں، جسے ہمارے ’استاد‘ (انگریز) نے غیر ضروری سمجھا تھا۔(جون ۱۹۵۳ء)


مریض کے جسم میں خون داخل کرنا

سوال : کسی مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا بعض علما کے نزدیک ناجائز ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟

جواب :آدمی کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا میرے نزدیک تو جائز ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کو حرام کہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ غالباً اسے خون پینے اور کھانے پر قیاس کرکے کسی صاحب نے حرام کہا ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ غذا کے طور پر خون پینا اور کھانا بلاشبہہ حرام ہے، مگر جان بچانے کے لیے مریض یا زخمی آدمی کے جسم میں خون داخل کرنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح حالت ِ اضطرار میں مُردار یا خنزیر کھانا۔(جون ۱۹۵۳ء)


ڈاکٹر کی فیس

سوال : ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟

جواب :ڈاکٹر کی فیس اُصولاً تو جائز ہے ، مگر ڈاکٹروں نے بالعموم فیس کے معاملے میں ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں، جو گناہ اور ظلم، اور سخت قساوت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ تمام ڈاکٹروں کو حکومت کی طرف سے کافی وظیفے ملنے چاہییں، اور انھیں مریضوں کا مفت علاج کرنا چاہیے۔(جون ۱۹۵۳ء)


نفس، دماغ اور جسم کا باہمی تعلق

سوال : نفس (mind) دماغ (brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا ذہن ایک غیرمادی چیز ہے؟

جواب :’دماغ‘ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے، جس کے ذریعے سے ’ذہن‘ اپنا کام کرتا ہے، اور ’جسم‘ وہ مشین ہے جو اُن احکام کی تعمیل کرتی ہے، جو دماغ کے ذریعے سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (crude) مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹرکار کا۔ ڈرائیور ’ذہن‘ ہے ۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی ’دماغ‘ ہیں۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے، روح اور موٹرکار کی باڈی ’جسم‘ ہے۔ (مارچ ۱۹۶۷ء)

اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات

سوال : نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے معاشروں میں موجودہ گھریلو زندگی، اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

جواب :ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں:

  • ایک تحفظ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیا ہے، پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زن و مرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کردیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔
  • دوسرے تحفظ نظامِ عائلہ جس کے لیے مرد کو گھر کا’قوام‘ بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔
  • تیسرے حُسنِ معاشرت، جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کردیئے گئے ہیں، مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اورعدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیئے گئے ہیں، اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاحِ ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہےتاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔
  • چوتھے صلہ رحمی، جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے اور اس غرض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔

افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔

رہے طرزِ زندگی کے مظاہر ، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانی ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو، وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردو بدل نہ ہو۔(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۵۹ء)


اللہ تعالیٰ کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال :  میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنےپر مجبور ہوں۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ تشویش میں مبتلا رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف یہ محسوس کرتا ہوں کہ اقامت ِدین کی جدوجہد میں  ذمہ داری ادا کرنا ضروری ہے۔ پھر یہ بھی جانتا ہوں کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل  ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں کہ میرے والد صاحب  میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں۔آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟

جواب :والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجۂ پریشانی بنا رہتا ہے، جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہمدردی نہیں رکھتے۔ میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو، تو والدین اس کے ہزاروں میل دُور رہنے کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں کہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انھیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انھیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں، جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو خدمت ِ دین کے لیے وقف کردیتا ہے، حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے ’حقوق‘ ادا کرے بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، اس کی ہربات انھیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔ یہ صورتِ حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اورجماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑرہا ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورتِ حال ہے۔ اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے۔ آپ جہاں کام کر رہے ہیں، وہیں کرتے رہیں۔ جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو،و ہ بھی کرتے رہیں، بلکہ اپنے اُوپر تکلیف اُٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں، اور حسب ضرورت وقتاًفوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورتِ حال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو، تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۶ء)


صلہ رحمی کا مفہوم

سوال :  ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم کیا ہے اور اسلامی شریعت میں اس کی اہمیت کس حد تک ہے؟

جواب : ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم رشتہ داری کے تعلق کی بنا پر ہمدردی، معاونت، حُسنِ سلوک، خیرخواہی اور جائز حدودتک حمایت کرنا ہے۔ اس کی کوئی حد نہ مقرر ہے، نہ کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہ عام معروفات میں سے ہے، جنھیں لوگ خود ہی جانتے ہیں۔ اور صلہ رحمی میں کوتاہی کرنا یا قطع رحمی کرنا، ان بڑے گناہوں میں سے ہے، جن کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۶ء)

کیا ذبیحہ کے لیے تسمیہ شرط نہیں؟

سوال : یہاں کینیڈا میں شرقِ اوسط سے آئے ہوئے عرب بھائیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’اہلِ کتاب کا ذبیحہ جسے قرآن میں حلال قرار دیا گیا ہے ، اُس کے تحت وہ تمام گوشت آجاتا ہے جو یہاں کی دکانوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ اکبر یا بسم اللہ کہنا ضروری نہیں ہے، یعنی تسمیہ ذبح کے لیے شرط نہیں۔ جو گوشت بھی مشینوں سے کٹ کر بازاروں میں آتا ہے اُسے کھاتے وقت بسم اللہ کہہ دینا کافی ہے؟‘‘

جواب :یہ بات عجیب و غریب ہے کہ ذبح کے لیے تسمیہ شرط نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ کا نام لے کر ہی جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اُسے مت کھائو‘‘ (انعام۶:۱۲۱)۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ اور طعام اُنھی شرائط کے تحت حلال ہے، جو قرآن میں دوسرے مقامات پر مذکور ہیں۔ ورنہ اہلِ کتاب کے کھانے میں تو خنزیر بھی ہوتا ہے۔ اگر اہلِ کتاب کا کھانا (طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ) مطلقاً حلال ہوتا تو خنزیر کو بھی حلال ہونا چاہیے تھا۔ ان کے طعام کی حلِّت کے متعلق حکم ایسا مطلق نہیں ہے، جسے دوسرے قرآنی احکام مقیّد نہ کرتے ہوں۔ ہمارے ائمہ میں صرف امام شافعیؒ کا ایک قول مروی ہے کہ ’’مسلمان اگر اللہ کا نام نہ لے تب بھی اُس کا ذبیحہ حلال ہے‘‘، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کا عقیدہ اور نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے، اس لیے اُس کا زبان سے ذکر نہ کرنا حلِّت پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ امام شافعیؒ سے اس کے بالمقابل دوسرا قول بھی مروی ہے جس میں تسمیہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ میرے علم میں کوئی دوسرا امام یا فقیہہ نہیں، جو بغیر تسمیہ کے ذبیحۂ اہلِ کتاب کو حلال سمجھتا ہو۔ (جسٹس ملک غلام علیؒ، ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)


زکوٰۃ و عُشرکا مختلف سرکاری ٹیکسوں سے فرق

سوال :  ایک نشست میں زکوٰۃ و عُشر کا مسئلہ زیربحث آگیا۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ عُشر دسویں حصہ پیداوارِ ارضی پر عائد ہوتا ہے ، اور زکوٰۃ جمع شدہ دولت کا صرف چالیسواں حصہ ہے، لیکن مالیہ اور آبیانہ اراضی کی پیداوار کے نصف پر تشخیص ہوتا ہے اور جمع شدہ دولت پر انکم ٹیکس ایک بھاری شرح سے لگایا جاتا ہے۔ یہ تمام ٹیکس وصول ہوکر حکومت کے بیت المال میں داخل ہوتے، رفاہِ عامہ، یعنی مدرسے، ہسپتال اور دیگر قسم کی ضروریاتِ عالم پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے عُشر اور زکوٰۃ کا دینا اب لازم نہیں آتا۔ مجھے اس رائےسے اتفاق نہیں تھا اور اپنی یہ رائے پیش کی کہ اوّل تو تحصیل اور انکم ٹیکس کے دفاتر بیت المال کی تعریف ہی میں نہیں آتے۔ دوسرے، ان رقوماتِ وصول شدہ کا مصرف حکمِ قرآنی کے مطابق نہیں ہوتا۔ آپ بتائیں کہ میری رائے صحیح ہے یا جج صاحب کی؟

جواب :زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآنِ مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے، جو ہر زمانے میں انبیائے کرامؑ کا دین رہا ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے۔ اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اُس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اسی طرح اُس کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا، جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے۔(جسٹس ملک غلام علیؒ،ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء)

جرأتِ عمل اوراقامت ِدین

سوال : اگر ہم سے پہلے لوگ،  لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے، تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت ِ دین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

جواب :انسان جب تک انسان ہے، اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہرشخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیرارادی لغزشوںکو معاف فرمائے۔ (سیّدابوالاعلٰی مودودیؒ)


جماعت کے پیچھے تنہا نماز کا حکم

سوال : تنہامقتدی اگر جماعت میں سب سے پیچھے نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح ہوگی؟

جواب :امام احمدؒ اورابن ماجہؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا۔ جب وہ شخص جانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اپنی نماز کا اعادہ کرو کیونکہ تنہا پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ کی ایک دوسری روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے اس شخص کی نماز کے بارے میں دریافت کیا جو جماعت میں سب سے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنی نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔

یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دوسری صحیح احادیث ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین اور امام احمد بن حنبلؒ کا یہی مسلک ہے۔البتہ ان کے علاوہ تینوں ائمہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہوجائے گی مگر کراہت کے ساتھ۔

مذکور احادیث کی روشنی میں امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ حکمت اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہ ہو کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے ، جو اتحاد کی تعلیم دیتا ہے، جماعت کی رغبت دیتا ہے۔جماعت سے کٹ کر رہنا اور شذوذ کا راستہ اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی دراصل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق سکھانے کی عملی تربیت ہے۔ اب ظاہر ہے جو شخص اتحاد و جماعت کا راستہ چھوڑ کر شذوذ و انفرادیت کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے اور اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

بہرحال، یہ حکم اس حال میں ہے کہ جب کوئی شخص بے عُذر اور بغیر کسی سبب کے جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز ادا کرے۔ البتہ اگر کسی عُذر کی بناپر ایسا کرتا ہے، مثلاً یہ کہ صف مکمل ہوچکی ہو اور کوئی جگہ نہ ہو اور مجبوراً پیچھے تنہا ہی نماز ادا کرتا ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز صحیح ہوگی۔ بعض علما کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ بہتر ہوگا کہ وہ اگلی صف سے کسی شخص کو کھینچ کر پیچھے اپنے برابر میں کرلے، تاکہ اس صف میں ایک کے بجائے دو ہوجائیں۔ مگر بعض علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر پچھلی صف میں نہیں لانا چاہیے، اس سے اُس کی نماز میں توجہ متاثر ہوتی ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی)


پٹی بندھی ہونے کی حالت میں وضو

سوال : ہاتھوں میں یا انگلیوں میں پٹی بندھی ہو تو کیا اس پر وضو کرنا جائز ہے؟ کیونکہ پٹی کھول کر وضو کرنے کی صورت میں زخم کے بڑھنے یا مزید تکلیف دہ ہونے کا اندیشہ ہے؟

جواب :اگروضو کی جگہ پر کٹنے، جلنے یا ایسی ہی کسی وجہ سے پٹی بندھی ہو تو اس پر مسح کرکے وضو کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔

فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ لیکن میری نظر میں راجح قول یہ ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو شرط نہیں ہے۔ اگر اس نے وضو کے بغیر ہی پٹی باندھ لی ہوتو اس پر بھی مسح کرسکتا ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی)

تلاوت ِ قرآن کے آداب

سوال : کسی تقریب میں یا بالخصوص کہیں بھی اسٹیج پر قاری حضرات قرآنِ مجید کی جب تلاوت کرتے ہیںتو بعض اوقات رُموزِ اوقاف، مثلاً: لا، یا  م یا ط کا خیال نہیں کرتے اور جوشِ قرأت میں بآوازِ بلند پورے زور سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے چلے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک قاری صاحب نے سورۃ الضحیٰ کی تلاوت کی۔ شروع میں پہلی آیت پروقفہ کیا۔ پھر اکٹھی پہلی دو آیات پڑھ کر سانس لیا۔ پھر اکٹھی پہلی تین آیات پر رُک کر سانس لیا،حتیٰ کہ آخری بار پوری گیارہ آیات یعنی پوری سورت تلاوت کرکے سانس لیا۔ لطف یہ کہ سامعین کا تحسین و آفرین ’سبحان اللہ‘ وغیرہ کا سلسلہ بھی بلندتر ہوتا چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی طرزِتلاوت واقعی قابلِ تحسین ہے؟ کیا حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں اس طرح کی تلاوت کی مثالیں ملتی ہیں؟ ہمیں توپڑھایا گیا تھا کہ آیات کو الگ الگ کرکے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمادیں۔

جواب: قرآن مجید کی تلاوت کا مقصود اس میں غور و فکر ، تدبّر و تفکّر اور عبرت پذیری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ٹھیر ٹھیر کر پڑھا جائے ۔ جلدی جلدی پڑھنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو شخص قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہو اسے بھی ٹھیر ٹھیر کر پڑھنا چاہیے، اس لیے کہ یہ تلاوت ِ قرآن کے آداب میں سے ہے۔

سورۂ مزّمّل بعثت ِ نبویؐ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جہاں یہ فرمایا ہے کہ رات کا بیش تر حصہ، یا نصف ، یا اس سے کچھ کم بیدار رہ کر نماز پڑھا کرو، وہیں اس کا یہ بھی ارشاد ہے:

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۝۴ۭ(المزّمّل۷۳:۴) اور قرآن کوخوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

’ترتیل ‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اس کا ایک ایک حرف ، ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت الگ الگ ہو ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام ِ الٰہی کے مفہوم و مدّعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات ِ تشکّر سے لب ریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے، یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے؟ غرض یہ قراء ت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں ،بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ (تفسیر سورۂ مزّمّل، حاشیہ ۴، تفہیم القرآن، ج۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت ِ ربّانی پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا ۔ چنانچہ متعدد صحابہؓ و صحابیاتؓ نے بیان کیا ہے کہ آپؐ کس طرح تلاوت ِ قرآن کیا کرتے تھے ؟

اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں:

اِنَّ قِرَاءَ ۃَ النَّبِيِّ ....قِرَاءَ ۃً  بَطِیْئَۃً (احمد:۲۶۷۴۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سست رفتاری سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔

دوسری روایت میں ہے:

اِنَّ النَّبِيَّ   کَانَ  یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ( ترمذی:۲۹۲۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت میں الفاظ الگ الگ ہوتے تھے۔

بعض دیگر روایتوں میں ہے کہ انھوں نے مثال دے کر آپؐ کا طریقۂ تلاوت سمجھایا۔ انھوں نے فرمایا:

کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ، یَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ ، ثُمَّ یَقِفُ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ ، ثُمَّ یَقِفُ، وَ کَانَ یَقرَؤھَا مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ (ابو داؤد:۴۰۰۳ ، ترمذی : ۲۹۲۷)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے۔ مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ پڑھ کر رک جاتے ، پھر الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ پر ٹھیرتے، اس کے بعد رُک کر مٰلک یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ِ خاص حضرت انس بن مالک ؓ سے سوال کیا گیا کہ آپؐ کیسے قرآن کی تلاوت کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: کَان یمدُّ مدّاً (بخاری: ۵۰۴۵)’’آپ ؐ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے‘‘۔

دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے مثال کے طور پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپؐ اللہ ، الرحمٰن ، الرحیم کو مَد کے ساتھ پڑھتے تھے۔

بعد میں علما نے تجوید کے قواعد و ضوابط وضع کیے اور رموز ِ اوقاف متعین کیے،چنانچہ مصاحف کی طباعت ان رموز کے ساتھ ہونے لگی ، تاکہ لوگ درست طریقے سے قرآن کی تلاوت کر سکیں۔ تلاوت ِ قرآن کے دوران میں ان قواعد کی پابندی اور رموزِ اوقاف کی رعایت ضروری ہے۔ مشہور ماہر قراء ت امام ابن الجزری (م:۸۳۳ھ) کا شعر ہے:

وَالْأَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَازِمٌ
مَن لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ آثِمٌ

(قواعد ِ تجویدکی رعایت کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔جو شخص قواعد ِ تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے)۔

رہا یہ سوال کہ جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے آداب ِ تلاوت کی رعایت نہ کرے اور ایک سانس میں کئی آیتیںیا پوری چھوٹی سورت پڑھ لے، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علما نے کہا ہے کہ اگر حروف کے مخارج درست ہوں اور معنٰی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ افضل کے خلاف ہے۔بعض علما اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے یہ سوال کیا گیا :’’ قرآن مجید پڑھتے ہوئے بہت ساری جگہوں پر وقف اور وقف ِ لازم ہوتا ہے۔ وقف کرتے وقت اگر ہم آخری حرف کو سکون دیں ، لیکن نئی سانس نہ لیں اور قرآن پڑھنا جاری رکھیں تو کیا یہ جائز ہے ؟ اگر جائز نہیںہے تو کیا حرام ، مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی ہے؟‘‘ تو اس کا یہ جواب دیا گیا: ’’ سکون دے کر سانس کا انقطاع نہ کرنا اور آگے پڑھنا درست نہیں، اصولا ً غلط ہے، جس کا حاصل کراہت ہے۔ اسی طرح وقفِ لازم پر وقف نہ کرنا اچھا نہیں۔اس کا حاصل مکروہ ہے۔‘‘ (جواب نمبر۱۹۷۸۴)،فتویٰ نمبر (ھ) :۳۱۶=۲۹۴-۱۴۳۱؍۳)

قرآن مجید کی تلاوت اس کے تمام آداب اور قواعد ِ تجوید کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنی چاہیے کہ یہی حکم ِ الٰہی ہے اور اسوۂ رسولؐ بھی ۔(مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


مسلم معاشروں میں اسلامی تحریکوں کے لیے چیلنج

سوال : ماضی قریب کی تواریخ ہمیں بتاتی ہیں کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ مسلم تحریکیں جب کامیابی کی ایک سطح کو پہنچتی ہیں تو اس کے بعد مسلم قوم پرست یا درست الفاظ استعمال کیے جائیں تو سیکولر گروہ ان پر یا ان کے پیداکردہ مواقع پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکیں، مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟

جواب :یہ ایک بڑا بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں مسلم معاشرے ،سیاسی شکست کے نتیجے میں زوال پذیر ہوچکے ہیں، مگر  قومی زوال کا آغاز محض سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ بلاشبہہ شکست ایک بڑی تلخ شے ہے، مگر زندگی کے مدّوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا اور اسی پوزیشن پر قانع ہوجانا، پہلے مرحلے میں جمود اور حتمی نتیجے میں موت کے مترادف ہے۔

فکری تحریکیں میدانِ جدوجہد میں نشیب و فراز سے گزر کر بھی نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور مسلم تاریخ ایسی ایمان افروز مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک، اضمحلال، تھڑدلی، تذبذب یا لاتعلقی کی سی کیفیت کا شکار ہوجائے۔ اس لیے شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک تسلسل ہیں۔ بلاشبہہ اسلامی تحریکات بڑا قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں، البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری تگ و دو اور لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔

ان گوناگوں مشکلات کا ایک سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں ایک طرف برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی جاری تھی، دوسری طرف وزیراعظم  سعدزغلول [م:۱۹۲۷ء] رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے علی الاعلان شراب نوشی کرتا تھا، اس سب کے باوجود لوگ اسے زندہ باد کے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری [م:۱۹۶۶ء] کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلّی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء]نے بہت بنیادی بات کہی تھی کہ:

تھا جو ’ناخوب‘ بہ تدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ اس کا بنیادی کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں: پہلا یہ کہ فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب، اور دوسرا قیادت کا انقلاب اور اجتماعی تبدیلی___ یاد رہے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو  انیسویں اور بیسویں صدی کے دین اور سیاست میں عملی تفریق کے باب میں ایک بڑے فکری چیلنج کا سامنا تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری جانب ان کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ مسلم معاشروں کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، محقق، ادیب، اساتذہ اور اہل حل و عقد شامل ہیں، انھیں مخاطب کیا جائے۔

لیکن، شاید اسلامی تحریکی قیادتیں اس امر کا بروقت اور درست اندازہ نہ لگاسکیں کہ ان کے اپنے ملکوں کی مقتدر قوتوں اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوچکے ہیں اور انھیں ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں دعوت، تنظیم اور کش مکش کا سامنا ہے۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس جان جوکھم جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ تمام مدِمقابل قوتوں کا مقابلہ کرنے اور قائل کرنے کے لیے، ہم سخن اور ہم مقصد لوگوں یا گروہوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کمزوری کا شکار ہیں؟ کیوں کہ انجامِ کار ایک ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع نہیں ہوسکی۔

یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف، محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف تحریک پاکستان کے دوران مولانا شبیراحمد عثمانیؒ [م: ۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء] تو بلاشبہہ کُل ہند مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند کی اکثریت ساتھ نہیں آتی۔ اس اعتبار سے اسلامی تحریکات کی سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت___ ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں اور وہ عوامی جذب و انجذاب (transformation) کا درجہ حاصل نہیں کرسکیں۔ لیکن یہ روح فرسا حادثہ بھی ہوا ہے کہ الجزائر اور مصر میں پاپولر ووٹ اور رائے عامہ کی فیصلہ کن حمایت حاصل کرنے کے باوجود، ان ممالک کی افواج نے نہایت سفاکی سے ان کا راستہ روک دیا۔

یہی ہے وہ دوراہا کہ ایک طرف ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں، لیکن نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں جاری وساری کریں___ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تو تیارہے، لیکن وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیارنہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے نفرت ضرور کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک بڑا عظیم چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے،جس کا جواب مختلف ممالک اور مختلف معاشروں میں مختلف استدلال کی گنجایش رکھتا ہے۔

مولانا مودودی نے تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان اُمور کو واضح کیا ہے کہ اسلامی تحریکات کو کن دائروں میں، کس ترتیب سے اور کس لگن سے کام کرنا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران کون کون سے اُمور ایسے ہیں، جن میں ترتیب اور ترجیح کا اَدل بدل ہوسکتا ہے، اور کون سے اُمور ایسے ہیں کہ جن میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔اس ضمن میں کام کے دوران وقتی صورتِ حال کے تحت بسااوقات کسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دینا پڑسکتا ہے، مگر اُس کے باوجود شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمیں توازن کی طرف پلٹنا ہے، کسی ایک ’جزو‘ کو کُل نہیں بنانا۔(پروفیسر خورشید احمد)


کیا اسلامی تحریکیں، عوام کا رُخ نہیں پھیرسکیں؟

سوال : اسلامی تحریکات، عوام تو ایک طرف ، بلکہ خود خواص کے دلوں کو بھی اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا ان تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟

جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس وقت ہماری سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے، اس کو نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کیا جاسکا ہے اور نہ اسے اپنی جگہ سے پوری طرح ہلایا جاسکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی تعمیرکردہ آہنی رکاوٹ کو پوری طرح عبور بھی نہیں کیاجاسکا۔ چنانچہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں کا (اسلامی تحریکوں کا نہیں) تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتا چلا آرہا ہے۔

ہم ان تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے تنظیم کے اندر مضبوطی لاتے ہوئے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا ہوگی، عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہوگا۔ ایسی بھرپور کاوش ہی سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی، احتساب اور ڈسپلن رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعروں کے آہنگ سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبول نعروں اور نری تشہیر سے کبھی پایدار بنیادیں فراہم نہیں ہوسکتیں۔(پروفیسر خورشید احمد)


اسلامی تحریکوں کی جدوجہد میں توجہ طلب کام

سوال : قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کی جدوجہد میں بنیادی کمی کس چیز کی دکھائی دیتی ہے؟

جواب: بے لوث، مخلص اور دین و ملّت کا درد رکھنے والے نہایت قیمتی افراد کا ساتھ ہونے کے باوجود، اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر علمی و فکری بنیاد میں کمی ہوگی اور سماجی شعور میں ضعف موجود ہوگا اور ریاستی پاوراسٹرکچر کی قوت و حکمت کار اور پھیلائو کی جہتوں کے بارے ادھورا فہم در آئے گا، تو یہ پہلو تحریک اسلامی کی کارکردگی اور مستقبل پر نہایت منفی اثر ڈالیں گے۔

علمی وفکری پہلو سے جہاں جدید سماجی علوم اور تازہ ترین معلومات سے کماحقہٗ واقفیت رکھنا قیادت کا وصف ہونا چاہیے، وہیں دینِ اسلام کا بنیادی علم، اسلامی تہذیب کی بنیادوں کا فہم اور اُن کی موجودہ کیفیت کو پرکھنے کا ذوق اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں تقویٰ راسخ ہونا چاہیے۔ ان میں کمی واقع ہو تو اُن کی فکر ہونی چاہیے اور مواقع پیدا کرنے کی تڑپ ہونی چاہیے۔

دوسرے یہ کہ معاشرے کے مزاج، مقامی کلچر پر نظر، سماجی تضادات کو دیکھنے اور ’عرف‘ یعنی وہاں کے رسم و رواج کی حقیقت جاننے کا فہم ہونا چاہیے۔ دلوں پر دستک دینے کے لیے ان معلومات تک رسائی ایک ضروری چیز ہے۔

تیسرے یہ کہ پاور اسٹرکچر کی قوت اور کمزوری کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہونا چاہیے۔ پاور اسٹرکچر میں: قبیلہ، برادری، جاگیردارانہ سماج، سرمایہ دارانہ گرفت، فوجی قیادتوں کا ذوقِ حکومت، میڈیا کی قوت اور بروئے کار پارٹیوں کے طریق کار، ڈسپلن وغیرہ کو جاننا چاہیے۔

ان پہلوئوں کا ادراک جہاں پہلی اور دوسری سطح کی قیادتوں میں ہو، وہیں ان معاملات پر غوروفکر کارکنان کی مجالس میں بھی ہونا چاہیے، کیونکہ قیادت، کارکنان ہی سے پروان چڑھتی ہے، اور کارکنان ہی معاشرے کے اندر تبدیلی کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔(س م خ )

دو وقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنا

سوال : ایسی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے جو عام طور پر ظہر سے مغرب تک منائی جاتی ہیں، کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر ایک ساتھ ادا کریں؟

جواب :حنبلی مسلک کے لحاظ سے کسی بھی عُذر شرعی کی بنا پر دو وقت کی نمازوں، یعنی ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو یک جا کرکے ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے۔ اس میں نمازیوں کے لیے یقینا آسانی ہے۔ روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور بارش کے علاوہ بھی دو وقت کی نمازیں یکجا کرکے پڑھی ہیں۔ ابن عباسؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ حضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوںنے فرمایا کہ آپؐ کی اُمت کو تنگی اور مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔

اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی کسی قسم کی پریشانی ہو تو دو وقت کی نمازیں ملا کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ یہ عادت نہ بن جائے کہ ہر دو تین دن کے بعد نمازیں ملاکر پڑھی جائیں۔ واقعی عُذر کی مثال یہ ہے کہ ایک سپاہی ہے جس کی ڈیوٹی مغرب سے پہلے عشاء کے بعد تک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وہ چاہے تو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ یا ایک ڈاکٹر ہے جو دیرتک آپریشن میں مصروف رہتا ہےوہ چاہے تو دو نمازیں ملا کر پڑھ سکتا ہے۔

لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں میں شرکت کرنا کوئی عُذر واقعی ہے۔ اگر وہ واقعی سچا مسلمان ہے تو پارٹیوں کے درمیان بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس میں شرمانے اور جھجکنے کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ اسے علی الاعلان پارٹیوں کے دوران نماز ادا کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی نصیحت حاصل کریں۔(ڈاکٹر