دسمبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

تحریکِ اسلامی کا مستقبل

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | دسمبر ۲۰۱۴ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

  1. اسلام کے علاوہ جتنے بھی نظریات ہیں ان سب کو دورِحاضر میں جانچ اور پرکھ کر دیکھا جاچکا ہے اوروہ سب ناکام رہے ہیں۔ باطل قوتوں کے پاس آج کوئی نظریہ باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا اب ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں فی الواقع لوگوں کے لیے کشش ہو۔ ہم اِس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انھیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آنا پڑتا ہے۔ ان کے کھوکھلے پن کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہوگا۔
  2.  اِس ملک میں جتنے بھی گروہ اور جتنی بھی قوتیں موجود ہیں، وہ ایک ایک کر کے آزمایش کے مقام پر آتے چلے جارہے ہیں، اور اپنی نااہلی اور نالائقی ثابت کرتے چلے جارہے ہیں۔   خواہ آپ سیاسی گروہوں کو لیں، خواہ دوسرے طبقات کو، ہر ایک آزمایش کی کسوٹی پر کھوٹا ثابت ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم ان میں سے ایک ایک سے مایوس ہوتی جارہی ہے اور  ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سے بالکل مایوس ہوجائے گی۔ اور قوم میں خود ہی کسی قابلِ اعتماد عنصر کے لیے پیاس پیدا ہوگی، بلکہ ان حضرات کی کارگزاریوں کی وجہ سے پیدا ہونی شروع بھی ہوگئی ہے۔ جیسے جیسے یہ پیاس بڑھے گی___ اور اسے لازماً بڑھنا ہے ___ ویسے ہی ویسے ان شاء اللہ  تحریکِ اسلامی کے لیے مواقع پیدا ہوتے جائیں گے۔
  3. باطل کی قوتیں اگر متحد ہوتیں تو پھر شاید کچھ خطرناک ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دوسرے کا حریف اور دشمن بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی طاقت کو توڑنے اور اس کے اعتماد کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ان کی مخالفت میں بہت سا کام جو تعمیری قوتوںکو کرنا تھا یہ حضرات خود اپنے ہی ہاتھوں کر رہے ہیں۔ اس نے تحریکِ اسلامی کی قوت کو بڑھا دیا ہے۔
  4. جن حالات سے آج ہمیں سابقہ پیش ہے اور جس سمت میںاس ملک کو لے جایا    جا رہا ہے، وہ ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے معاشرے میں جو بگاڑ راہ پارہا ہے اور جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہمارے پاس اس وقت وہ ذرائع موجود نہیں جن سے ہم اس کو روک سکیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ان شاء اللہ اس بگاڑ کے باوجود تحریکِ اسلامی کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ ہم اس مفروضے پر تو کام کر نہیں رہے کہ شیطان کو معزول کردیا جائے اور ہمیں کھلی چھٹی مل جائے گی، یا تحریک اسلامی کے لیے کوئی ایسا مخصوص میدان ہے جہاں شیطان کا عمل دخل نہ ہو۔ ہم اِس قسم کی کوئی توقع نہیں رکھتے اور انھی حالات میں اپنے لیے راہ نکال رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس میں کامیاب ہوں گے۔ جو لوگ حالات کے بگاڑ سے مایوس ہوجاتے ہیں، مَیں ان سے کہتا ہوں کہ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اِس سے بدرجہا زیادہ خراب حالات کے باوجود اور انتہائی جبروتشدد کے استعمال کے باوجود آج تک [اشتراکی] روس سے اسلام کو خارج نہیں کیا جاسکا [بلکہ آج وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں روس کے چنگل سے نکلنے کے بعد آزاد ریاستیں ہیں]۔ ترکی میں اسلام کو غیرمؤثر بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہاں آج بھی اسلام کے ساتھ دل چسپی اسی طرح ہے۔ یہ ان قوموں کا حال ہے جہاں دین سے انحراف اور معاشرتی بگاڑ کے خلاف کوئی جوابی چیز موجود نہ تھی، جہاں لوگوں کے لیے دُور دُور تک اُمید کی کوئی شعاع نہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام سے وابستہ رہے اور کوئی طاقت اسلام کو مٹا نہ سکی۔ ہمارے ملک میں ایک مثبت جوابی تحریک موجود ہے۔ یہ مسلسل کام کر رہی ہے۔ لوگوں کو ایک سہارا نظر آتا ہے۔ اس لیے بگاڑ کی رفتار خواہ کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو مجھے مایوسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، بلکہ جب خود اسلامی تحریک کی ترقی اور اس کے اثرات کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سر خدا کے حضور شکر سے جُھک جاتے ہیں۔ میرے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی مایوسی کے جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ مَیں حالات کو ہر لحاظ سے اُمیدافزا سمجھتا ہوں۔
  5. پھر مجھے اِس بات پر مکمل یقین ہے کہ اگر کسی حق بات کے لیے موزوں طریقے پر  کام کیا جائے، اور کام کرنے والے بھی موزوں ہوں، اور کام بھی حکمت و دانش مندی کے ساتھ  کیا جائے تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں بلکہ کامیابی ناگزیر ہے۔ حق کی فطرت میں کامیابی ہے۔  ضرورت جس امر کی ہے وہ موزوں طریقے پر صحیح آدمیوں کے ذریعے اور حکمت و تدبر کے ساتھ  کام کرنا ہے اور الحمدللہ یہ کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہا ہوں اور آج بھی پُرامید ہوں۔ ان شاء اللہ اسلام غالب ہوکر رہے گا۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو، اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۴)