مارچ ۲۰۲۱

فہرست مضامین

عورت کی’مظلومیت‘ پر ایک منفرد آواز

وحید مراد | مارچ ۲۰۲۱ | مغربی تہذیب و معاشرت

Responsive image Responsive image

ایک دانش ور خاتون، خواتین کے سامنے سوال اُٹھاتی ہے:

lجدید تہذیب و تمدن کی تشکیل کس کے خون پسینے سے ہوئی، مرد یا عورت؟lعورت، جب مرد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے توگویا وہ اپنے ہی تحفظ، آرام و آسایش کے دائرے کووسیع کرتی ہے۔lتحریک و ترغیب ہی جبری زنا کی بنیادی وجوہ ہیں، اور آپ بھی اس جرم میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ lہم جنسیت کا ایجنڈا وسعت اختیار کر رہا ہے۔

کامیل اینا پالیا (Camille Anna Paglia: پ ۱۹۴۷ء)،ایک مشہور فیمی نسٹ نقاد اور یونی ورسٹی آف پنسلوینیا، امریکا میں آرٹس کی پروفیسر ہیں۔ وہ فیمی نزم اینڈ پوسٹ اسٹرکچرل ازم کے ساتھ ساتھ جدیدامریکی ثقافت کے بہت سے پہلوئوں، مثلاً وژول آرٹس، موسیقی، فلمی تاریخ وغیرہ کا گہرا تنقیدی جائزہ لیتی ہیں اوران موضوعات پر متعدد معرکہ آرا کتب کی مصنفہ ہیں۔

پالیا کا اسلوب و طرز استدلال

۲۰۰۵ء میں فارن پالیسی جرنل کی طرف سے دنیا کے سو عظیم عوامی دانش وروں کی لسٹ میں پروفیسر پالیا کا نام شامل کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں نیویارک ٹائمز نے ان کے بارے میں لکھا کہ کئی عشروں سے جاری ثقافتی جنگوں کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والے لوگ بھی پالیا کو ضرور جانتے ہیں‘‘۔ پالیا کی تنقید انتہائی مؤثر، دلائل بہت واضح، لطیف اور نتائج دھماکا خیز ہوتے ہیں۔ وہ دیگرنقادوں کی طرح تجریدی اور پیچیدہ اسلوب اختیار کرکے اصل حقائق سے راہ فرار اختیار نہیں کرتیں۔ اسی طرح فیمی نسٹ نقاد ڈاکٹر ایلین شوالٹر (Elaine Showalter، پ:۱۹۴۱ء) کہتی ہیں:  ’’ہم عصر فیمی نسٹ اسکالرز، لیڈران، عوامی شخصیات، مصنّفین، اور کارکنان کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے میں پالیا منفرد حیثیت کی مالک ہیں‘‘۔ فیمی نسٹ ماہرین بھی پالیا پر تنقید کے خوب نشتر چلاتے ہیں۔ کچھ ماہرین نے ان کی کتاب Sexual Personae (جنسی شخصیت)کو: ’’فیمی نزم کے خلاف جنگ اور اس کے بنیادی مفروضات پر کھلا حملہ قرار دیا‘‘۔

پروفیسر پالیا بتاتی ہیں کہ نیویارک اسٹیٹ یونی ورسٹی میں وومن اسٹڈیز پروگرام کےبانی ممبران نے جب اس بات سے انکار کیا کہ ہارمونز کا انسانی طرز عمل اور رویوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو ان کے ساتھ جھگڑا ہوتے ہوتے رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ عجیب ستم ظریقی ہے کہ لبرل اسکالر،  گلوبل وارمنگ کے ایشو پر تواتنے جذباتی ہیں کہ انھیں سائنسی ثبوتوں کی پروا نہیں، لیکن مرد و عورت کے جنسی امتیازات کوحیاتیات کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود بھی تسلیم نہیں کرتے ‘‘۔ ۱۹۷۹ء میں ایسے ہی ایک مسئلے پر فیمی نسٹ ماہرین تعلیم کے ساتھ گرم مباحثے بالآخر پالیا کے استعفیٰ پر منتج ہوئے۔

پالیا کہتی ہیں کہ ’’ایک جملے کی خاطر اگر مجھے اپنا پورا کیرئیر بھی دائو پر لگانا پڑے تو مَیں اس کے لیے تیار ہوں اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’خدا… اگر انسانی تخیل بھی ہے تو انسان کے تخیلات میں سے یہ سب سے بڑا تخیل ہے‘‘۔ وہ مذہب کے آفاقی کردار کو بہت فروغ دیتی ہیں لیکن خود کوئی عملی مذہبی خاتون نہیں۔ وہ مذہب کو اس کے عالم گیر اصولوں اور علامتوں کی حیثیت سے دیکھتی ہیں۔

امریکی معاشرہ ،فیمی نسٹ تحریک کے اس قدر زیر اثر ہے کہ مختلف ادارے اس کے موقف، مطالبات اور مفروضات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سات مختلف ناشروں نے پالیا کی کتاب Sexual Personae، کی اشاعت سے انکار کردیا۔  بالآخر جب یہ ییل یونی ورسٹی پریس(YUP) سے شائع ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔ اسے دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں ساتویں نمبر کا اعزاز ملا۔ اس کتاب میں پالیا کا استدلال یہ ہے کہ ’’انسانی فطرت موروثی طور پر جنسیت کے حوالے سےایک خطرناک پہلو رکھتی ہے۔ مذہب، تہذیب، ثقافت، خاندان اور شادی کے بندھن کے ذریعے اس قوت پر قابوپانے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔

مردانگی کا جشن

پالیا نہ صرف مضبوط مردوں کا دفاع کرتی ہے بلکہ مردانگی کےجشن بھی مناتی ہیں۔ اس کا استدلال ہے کہ ’’جدید معاشی ترقی اورسائنٹفک تمدن کی تشکیل میں مردوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ ہرچند کہ آج عورتیں بھی اس میں برابر کی حصہ دار بن گئی ہیں، لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ اس تہذیب و تمدن کی خالق نہیں۔ جدید تمدن کی تعمیر میں جو پہاڑ توڑے گئے، جنگل و درخت کاٹے گئے، سرنگیں کھودی گئیں، ناہموار جگہوں پر بلڈوزر چلائے گئے، وہ سب کام مردوں کے ہاتھوں سے انجام پائے ۔ تمام سڑکیں، پل، کنکریٹ و اینٹوں کی عمارتیں، کارخانے، دفاتر اور پلازے مردوں نے تعمیر کیے۔ ریلوے لائنیں اور بجلی کی تاریں بچھائی گئیں، پول لگائے گئے، وسیع پیمانے پر معاشی پیداوار اور اس کی تقسیم کے نیٹ ورک تعمیر ہوئے، الغرض تمام خطرناک اور مشکل کاموں میں صرف مردانگی کام آئی، اس میں نسوانی طاقت کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘۔

پھر وہ لکھتی ہیں: ’’جدید تمدن کی تعمیر کے مشکل مراحل طے ہونے کے بعد جب خوب صورت، دل کش، ٹھنڈے و گرم، تمام سہولتوں سے آراستہ دفاترکی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھنے کا وقت آیا، تو خواتین کو بھی نتیجہ خیز کردار مل گیا اور مردوں نے اسے خوش گوار مسکراہٹ اور کھلے دل سے قبول کیا۔ یہ کوئی داستان، قصہ یاکہانی نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ یا تو اس حقیقت ِ حال کا صاف انکار کر دیا جائے یا پھر اس میں کام آنے والی مردانگی کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے اس کا جشن منایا جائے۔ یہ جشن صرف مردوں کے لیے نہیں، عورتوں کو بھی مردوں کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر اس میں شریک ہونا چاہیے۔ جب عورت، مرد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، تو وہ اپنے تحفظ، آرام و آسائش کے دائرے کی ہی توسیع کر رہی ہوتی ہے۔ اگر عورتیں تعلیم یافتہ ہونے کے بعد مرودں کے ساتھ محبت سے پیش آنے کے بجائے انھیں صرف طعنے اور کوسنے دیں گی یا ان کی مذمت کریں گی یا انھیں ایک جانور اور درندے کے سے رُوپ میں پیش کریں گی، تو آنے والی نسل کے مردوں کے پاس محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی کیا ترغیب ہوگی؟‘‘

وہ اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتی ہیں کہ’’ یہ کائنات مرد اور عورت سے مل کر بنی ہے۔ اس میں آسمان مرد ہے اور زمین عورت۔ زمین کو کھاد باہر سے ملتی ہے اور وہ فصل اپنے پیٹ کے اندر سے پیدا کرتی ہے۔ کسان کی پیداواری علامت کا ارتکاز باہر کی طرف ہے اور وہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کھیتی کی پیداواری علامت کا ارتکاز اندر کی جانب ہے، اس لیے وہ پوشیدہ ہے۔ اول الذکر ہم آہنگی و نظم و ضبط رکھنے والا، مضبوط، طاقت ور اورسخت گیر کردار کا حامل ہے۔ مؤخر الذکر زرخیز، لبھانے والی، مسحور کرنے والی، افراتفری کا شکار، مخفی قوت رکھنے والی اور آکاس بیل کی طرح لپٹنے اور طفیلی کردار کی حامل ہے۔ مذکر سیدھی لائن میں ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے اور مؤنث گول دائرے کی شکل میں چکر کاٹتی ہے اور اس کا آغاز اور انجام ایک ہی مقام پر ہوتا ہے۔

عورت مظلوم ہے یا مرد؟

جورڈن پیٹرسن کی طرح پالیا کا خیال ہے کہ مرد مظلوم ہیں۔ مرد، مراعات کی پروا کیے بغیر سخت مقابلے کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور اُف کیے بغیر اپنے وابستگان کو بھی زندگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو کھلانے پلانے، انھیں گھر اور تحفظ فراہم کرنے کی خاطر، مرد اپنا جسم اور جذبات قربان کرتے ہیں لیکن یہ کتنا سفاک تضاد ہے کہ حقوقِ نسواں کے کسی بیانیے میں ان کی تکالیف اور کارناموں کا کوئی ذکر تک موجود نہیں۔ اس بیانیے میں مردوں کو صرف جابر، ظالم اور استحصال کرنے والے بدمست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین مظلوم کیسے ہوسکتی ہیں؟ انھیں تو ہر جگہ مراعات اور خصوصی رعایت اور مقام حاصل ہوتا ہے۔ اگر ان کی سہولیات میں کوئی کمی ہو تو وہ مختلف فیشنوں کے ذریعے اپنے لباس، بالوں، چہرے کے خوب صورت رُوپ دھارتے ہوئے، مردوں کے دل میں جگہ بناکر مراعات حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن تفریحی (فلمی) صنعت سے باہر کاروباریا عملی دُنیا میں مرد، لمبے بالوں، میک اپ، مور جیسے رنگین لباس اور مخملی سوٹ کے ذریعے کوئی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ ترقی کی سب منازل ان تھک محنت کے بل بوتے پر ہی طےکرتے ہیں، جب کہ رنگ و نزاکت انھیں کہیں خصوصی مقام نہیں دیتے‘‘۔

کام کی جگہوں اور کیمپس میں ریپ کی وجوہ

پروفیسر پالیا کے خیال میں 'جنسی سرگرمی، آمادگی اورتحریک و ترغیب ہی ریپ کی بنیادی وجوہ ہیں۔ معروف ماہرین نفسیات رینڈی تھورن ہیل (۱۹۴۴ء) اور کریگ ٹی پالمر بھی اپنے تحقیق و تجزیہ میں اس خیال کی توثیق کرتے ہیں‘‘۔ پالیا فیمی نسٹ خواتین کو اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ ’’خواتین، مردوں سے لڑنے جھگڑنے کی پارٹی لائن کی اندھا دھند پیروی کرنے کے بجائے اپنی عزّت و عصمت کی حفاظتی معلومات حاصل کریں تاکہ انھیں کوئی خطرہ لاحق نہ ہو‘‘۔

وہ کام کی جگہوں پر خواتین کو زیادہ سنجیدہ نہ لیے جانے کی وجہ ان کے لباس اور گیٹ اپ کو قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب آپ کام کی جگہ پر برہنہ ٹانگوں اور پنسل ہیل جوتوں کے اُوپر شارٹ اسکرٹ زیب تن کرتے ہوئے یہ کہہ رہی ہوں گی کہ میری جنسیت ہی میری طاقت ہے، تو آپ کی دیگر صلاحیتوں کی قدر کون جانے گا؟‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’مجھے بھی سیکسی لباس پسند ہے اورمیرا مطلب یہ نہیں کہ آپ پر کشش لباس پہننا چھوڑ دیں، مگر میرا کہنا ہےکہ اپنے آپ کو خوب صورت زیور کے طور پر پیش کرکے دیگر صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوایا جا سکتا‘‘۔

 یونی ورسٹی کیمپسوں (یا مخلوط تعلیمی اداروں) میں جنسی حملوں کے بارے میں پالیا کہتی ہیں کہ مردوں کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ جنسی تجربے کی تلاش میں ہوتے ہیں اور خواتین کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟۔ اگر انڈر گریجوئیٹس کی کسی پارٹی میں سب لڑکیاں، لڑکے نشے کی حالت میں ہوں۔ اس پارٹی میں شریک کسی لڑکی سے کوئی نوجوان یہ پوچھے کہ کیا آپ میرے کمرے میں جانا پسند کریں گی اور اگر نشے کی بے خودی میں لڑکی کا جواب ’ہاں‘ میں ہوتو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ بے راہ روی کے لیے رضامند ہے‘‘۔

اسقاط حمل و ہم جنسیت

پالیا، فیمی نزم کے اندھے معیار کو مسترد کرتی ہیں اور انھیں اسقاط حمل کے ان استعماری اثرات پر سخت تشویش ہے، جن کی وجہ سے بدکاری کو الگ شناخت دے کر ایک فرقہ بنا دیا گیا۔ وہ ہم جنسیت کے فکروعمل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ’ایک ایسا سیاسی ایجنڈا‘ قرار دیتی ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کی خاطر وسعت اختیار کر رہا ہے۔ انھوں نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ہم جنس زدگان کی شناخت اور ’صنف و جنس کی سیاست‘(Gender Politics)  کو چیلنج کیا تھا اور آج تک اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

پالیا کا استدلال ہے کہ ’’جنس کی متعصب اور دقیانوسی تعریف کے ذریعے خواتین کے کردار اور خودمختاری کا تعین کسی طور درست نہیں۔ اس کا مطلب ان غریب خواتین کی خوداعتمادی اور عزت نفس کو نقصان پہنچانا ہے، جو سلیبرٹیوں کی طرح امیر، مشہور اور پُرکشش نہیں، یا جوفیمی نسٹ گروہ میں شامل نہیں ہو سکتیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ غریب اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تربیت و رہنمائی ہو، تاکہ انھیں اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہو سکے‘‘۔

وومن اسٹڈیز اور  جینڈر پالیٹکس

وہ اپنی کتاب Provocations  (فتنہ انگیزی)میں حیاتیات کے مطابق صنف کی وضاحت کرتے ہوئے ،مردانگی کے کچھ روایتی اصولوں کا دفاع کرتی ہیں۔ وہ یونی ورسٹی نصاب میں مذہبی مرکزیت کو فروغ دینے پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ محض معاشرتی اتفاق ہوتا ہے۔ کسی خاص خطے میں پایا جانے والا نظریاتی اتفاق رائے ہر عہد میں بدلتا رہتا ہے، اس لیے اسے تمام انسانوں کا عام فہم تصور نہیں کہا جا سکتا‘‘۔

وومن اسٹڈیز اور جینڈر پالیٹکس پر تنقید کرتے ہوئے پالیا کہتی ہیں کہ ’’وومن اسٹڈیز کے مضامین ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو پہلے سے آرام دہ اور پُرسکون ماحول میں رہنے کا عادی ہے۔ اس گروہ کی سیاست رومانوی، جذباتی اورزبانی جمع خرچ پر مبنی ہے اور ہر روز تبدیل ہونے والے رجحانات کے ساتھ فیشن کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ یہ خواتین کاایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ ہے جو اپنے ضمیر پر مراعات کے بوجھ کو تو محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس ندامت و شرمندگی اور محروم طبقات کو گلے لگانے سے دُور بھاگتا ہے‘‘۔

’’ وومن اسٹڈیز کی تعلیم کا ارتکا ز صرف ’سیکس ازم‘ (جنس زدگی) اور صنفی تعصب پر ہے۔ فیمی نزم ایجنڈے پر کام کرنے والی خواتین، نہ تو عام خواتین کی نمایندگی کرتی ہیں اور نہ قومی اور عالمی جذبات و احساسات ہی کی ۔ اکیڈیمک فیمی نسٹ ماہرین یہ سوچتی ہیں کہ ان کے معصوم اور کتابی کیڑے نما شوہر ہی دنیا بھر میں پائی جانی والی مردانگی کا مثالی نمونہ ہیں۔ فیمی نسٹ ماہرین کا یہ مسلسل دعویٰ ہے کہ تاریخ مردوں نے رقم کی اور اس میں عورت ہر جگہ مظلوم نظر آتی ہے کیونکہ ذہین اور تخلیقی صلاحیتیں رکھنی والے عورتوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ عصری فیمی نزم کی یہ بنیاد ابتدا سے ہی ایک جذباتی وہم اور بے بنیاد مفروضے پر مبنی ہے‘‘۔

پھر یہ کہ ’’جینڈر اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں خدمات پیش کرنے والے لوگ منظم اجارہ داری (Cartel) پر مشتمل ہوتے ہیں۔اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں میں خواتین فیکلٹی ممبرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے ۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میں بائیں بازو کے مستند لوگوں کا وجود ہی نہیں، لیکن بوژوا چیئرز پر ہر جگہ ماہرین تعلیم براجمان ہیں اور ان کے زیر نگرانی کیمپس 'نرسری اسکول کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے طالب علموں کی مثال انکوبیٹر سے پیدا ہونے والے مرغی کے بچوں کی سی ہے، جو ویکیوم کلینر کو بھی دیکھ کر اپنی ماں تصور کرتے ہیں‘‘۔

پروفیسر پالیا کا دعویٰ ہے کہ ’’وومن اسٹڈیز پڑھانے والوں کی اکثریت بے ہودہ، اناڑی، لکیر کے فقیر، خوشامدی، تصوراتی، رونے رلانے ،شکوے شکایتیں کرنے والے، پارٹی کے کارکنوں اور خفیہ ایجنسی کے کارندوں کی طرح ہوتی ہے۔ اعتدال پسند اور معقول فیمی نسٹ اسکالر اس پاپولر فیمی نزم سے اب پیچھے ہٹ گئے ہیں، اوروہ ’امن پسند‘ جرمنوں کی طرح بدمست فاشزم کے سامنے خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جتنی بھی عظیم خواتین اسکالرز پیدا ہوئیں وہ سب مردانہ کلاسیکی روایت کے دانش ورانہ نظم و ضبط کا نتیجہ ہیں، نہ کہ موجودہ ’فیمی نزم‘ کا ۔ یہ ’پاپولر فیمی نزم‘ تو خواہشات اور جذبات سے مغلوب، معافی تلافی کرنے والی آیا ہے جس سے اوّل درجے کی کوئی تخلیق سامنے نہیں آئی‘‘۔

جدید نوجوان خواتین کو  مشورہ

 پالیا کا مشورہ ہے کہ ’’جدید نوجوان خواتین کے لیے ۱۹۶۰ کے عشرے کی متحرک خواتین کاکردارایک نمونہ ہے۔ 'آپ بھی اس بات میں برابر کی ذمہ دار ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ آپ کوہر وقت یہ راگ نہیں الاپنا چاہیے کہ ’میں اس طرح ہوں کیونکہ میرے والدین اور خاندان نے مجھے اس طرح بنایا ہے‘۔ ’میں ایسی ہوں کیونکہ میرے شوہر نے مجھے اس طرح بننے پر مجبور کیا ہے‘۔ ہاں، ہم ان حادثات اورممکنات کے ذریعے ہی بنتے ہیں، جو آئے روز ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں، لیکن اگر یہ سب کچھ آپ کو قبول نہیں تو پھر ہر طرح کی ذمہ داری آپ کو قبول کرنی ہوگی۔ کیا آپ اپنی سب چیزوں کی ذمہ داری اپنے سرلینے کو تیار ہیں؟‘‘

پھروہ لکھتی ہیں: ’’ایک عورت وہی رہتی ہے جو وہ ہوتی ہے،جب کہ ایک مرد کومرد بننا ہوتا ہے۔ مردانگی خطرناک اور انوکھی چیز ہے۔ یہ کردار، نسوانی سطح سے اوپر اٹھنے، جدوجہد ومشقت کرنے، جرأت و حوصلہ سے کام لینے، ذمہ داری اور عہد نبھانے، اپنے آپ کو قربان کرنے اور خطرات مول لینے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کردار کی تصدیق صرف دوسرے 'رجال ہی کر سکتے ہیں‘‘۔