مئی ۲۰۲۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مئی ۲۰۲۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

دو وقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنا

سوال : ایسی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے جو عام طور پر ظہر سے مغرب تک منائی جاتی ہیں، کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر ایک ساتھ ادا کریں؟

جواب :حنبلی مسلک کے لحاظ سے کسی بھی عُذر شرعی کی بنا پر دو وقت کی نمازوں، یعنی ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو یک جا کرکے ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے۔ اس میں نمازیوں کے لیے یقینا آسانی ہے۔ روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور بارش کے علاوہ بھی دو وقت کی نمازیں یکجا کرکے پڑھی ہیں۔ ابن عباسؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ حضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوںنے فرمایا کہ آپؐ کی اُمت کو تنگی اور مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔

اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی کسی قسم کی پریشانی ہو تو دو وقت کی نمازیں ملا کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ یہ عادت نہ بن جائے کہ ہر دو تین دن کے بعد نمازیں ملاکر پڑھی جائیں۔ واقعی عُذر کی مثال یہ ہے کہ ایک سپاہی ہے جس کی ڈیوٹی مغرب سے پہلے عشاء کے بعد تک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وہ چاہے تو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ یا ایک ڈاکٹر ہے جو دیرتک آپریشن میں مصروف رہتا ہےوہ چاہے تو دو نمازیں ملا کر پڑھ سکتا ہے۔

لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں میں شرکت کرنا کوئی عُذر واقعی ہے۔ اگر وہ واقعی سچا مسلمان ہے تو پارٹیوں کے درمیان بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس میں شرمانے اور جھجکنے کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ اسے علی الاعلان پارٹیوں کے دوران نماز ادا کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی نصیحت حاصل کریں۔(ڈاکٹر