پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر  بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ یہاں وہ بیان ملاحظہ فرمایئے جو قائد اعظم نےامریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے دیا :

 The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslim ___  Hindus, Christians and Paresis ___ but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan".

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔(قائداعظم : تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلد چہارم، ص۴۲۱-۴۲۲)

اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے نہ مغربی جمہوریت

اس بیان میں قائداعظم نے تین بنیادی اصول واضح کر دیے۔ اول یہ کہ چوں کہ دستورسازاسمبلی ابھی دستورر پر کام کر رہی ہے، اس لیےدستور کی آخری شکل وہ ہوگی جو اسمبلی طے کرے گی لیکن اس کی جو بھی شکل ہو گی وہ اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ہوگی۔دوئم یہ کہ سیاسی نظام نام نہاد مذہبی اجارہ داری، یعنی Theocracy پر مبنی نہیں ہوگا ۔ریاست اسلامی اصولوں کی پابند ہوگی لیکن کسی مخصوص مسلک کی پیروی نہیں کرے گی ۔سوئم یہ کہ اسلامی نظام ریاست میں غیرمسلموں کو ان کے تمام بنیادی حقوق اور تحفظات حاصل ہوں گے۔ یہ وہی تین اہم باتیں ہیں جو قرآن وسنت بار بار دُہراتے ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی انسانوں کے گروہ یا پارٹی کی نہیں ہوسکتی (فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یوسف ۱۲:۴۰)

 قرآن و سنت نے غیر مسلموں کو ان کے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی ہے اور بنیادی انسانی حقوق جان ،مال ،عزّت، مذہبی آزادی کے قیام کو مقاصد شریعت قرار دیا ہے (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔الکافرون ۱۰۹:۶)۔ مستشرقین اور اکثر مغرب زدہ مسلمان دانش وَر یورپ کی تاریخ اور فکر کے تناظر میں بار بار یہ بات دُہراتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں یورپ کی طرح ایک مذہبی یا مسلکی گروہ کی اجارہ داری ہو گی۔ اسلامی ریاست میں Theocracy نہ ہونے کو معروف اسکالر علامہ اسد یوں بیان کرتے ہیں:

Since every adult Muslim has the right to perform each and every religious function,no person or group can legitimately claim to possess any special sanctity by virtue of religious functions entrusted to them. Thus the term "theocracy" as commonly understood in the West is entirely meaningless within the Islamic environment.

چونکہ ہر بالغ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہرطرح کی مذہبی رسم ادا کرسکے، لہٰذا کوئی فرد یا گروہ قانونی طور پر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی رسومات کی ادایگی کے لیے خصوصی استحقاق دیا گیا ہے۔ لہٰذا ’تھیاکریسی‘ کی اصطلاح جیساکہ عموماً مغرب میں سمجھی جاتی ہے، اسلامی تصور میں مکمل طور پر بے معنی ہے۔ (Principles of State and Government in Islam،ص ۲۱)

نہ صرف علامہ اسد بلکہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پاپائیت (تھیاکریسی) کی مخالفت کرتے ہوئے حاکمیت الٰہی کے اصول کو یوں واضح کرتے ہیں:

اسلامی ریاست جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے، نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (Democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی اُلجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں ’اسلامی ریاست‘ کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی اُن کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:

۱-خدا کی بادشاہی قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کے معنی میں، اور

۲- پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔

ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِواقعی کا بھی اضافہ ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقیات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے، اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کرعیسائیوں کو احکامِ تورات کی پابندی سے آزاد کردیا۔ اب اپنی عبادت، معاشرت، معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان مذہبی پیشواؤں نے اپنے خودساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔

اسلام میں اس مذہبی حکومت (Theocracy) کا صرف ایک جزآیا ہے، اور وہ ہے  خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز، تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے، اوراس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو مآخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہ، امام،ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہےکہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو اصطلاح میں ’مذہبی حکومت‘ (Theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔(اسلامی ریاست، ص ۴۷۹-۴۸۰)

قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات میں یہ یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ نظام شریعت اور اسلامی ریاست نہ تھیا کریسی یا کسی فرقہ کی جابرانہ حکومت ہے، نہ لادینی مغربی جمہوریت بلکہ شریعت کے اعلیٰ عالم گیر انسانی اخلاقی اصولوں کے نفاذ کا نام ہے۔مغرب زدہ دانش وَروں کا یہ واہمہ کہ اسلامی ریاست کا مطلب ’ملاؤں‘یا ’طالبان‘ کی حکومت ہے، ایک بے معنی اور بے حقیقت دماغی خلل ہے۔

گویا ایک عرصہ سے جو واویلا مچایا جاتا ہے کہ شریعت کا نفاذ ہوا تو بیچارے غیرمسلم مارے جائیں گے، ان کے حقوق سلب ہو جائیں گے، قائداعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات اس غبارے کی ہوا نکال کر اسلامی ریاست کے منفرد ہونے کو وضاحت سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی نام نہاد،’آزاد خیال دانش وَر‘یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست ’مولویوں کے ٹولے‘ کی حکومت ہوتی ہے تو وہی جائزہ لے کہ وہ کہاں تک آزاد خیال ہے؟ کہاں تک خود ساختہ تصور ہی میں گم ہے اور نہ حق تک پہنچنے کی کوشش پر آمادہ ہے اورنہ اپنی رائے پر نظرثانی اورغور کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال میں قرآن حکیم نے یہ کہا کہ ’’ان کے پاس دل ہیں، مگر وہ سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۷۹)

علامہ اسد اور  نظریہ پاکستان

مناسب ہو گا کہ علامہ اقبال کے ایک رفیق کار جن کا تذکرہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاریخ پاکستان پر لکھی گئی کتب میں کہیں نظر نہیں آتا، حالاں کہ وہ تحریک پاکستان کے فکری قائدین میں سے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انھوں نے قومی تعمیر نوکےادارہ کے سربراہ کے طور پر جو خدمات انجام دیں، اور بعدازاں پیدایشی طور پر یورپی باشندہ کے ہونے کے باوجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے،یعنی نومسلم علامہ محمداسد۔ وہ قائد اعظم کی زندگی میں یہ بات تحریراً اپنےرسالے عرفات میں طبع کرتے ہیں :

… I do believe (and have believed for about fourteen years) that there is no future of Islam in India until Pakistan becomes a reality and that if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving it is possible to establish an Ideological, Islamic polity in our times no less than it was possible thirteen hundred years ago. But ask yourselves: Are all leaders of Pakistan movement, and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islam and nothing but Islam, provides the ultimate inspiration of their struggle?? Are they really aware of what it implies when they say, the objective of Pakistan is la ilaha illa‘Allah?? Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan??

میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کرقائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا : کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین، اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوؤں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’لا الٰہ الا اللہ ‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟  پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟(’ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی، ترتیب و تدوین: محمد اکرام چغتائی، ص ۲۹۳)

 یہ بات یاد رہے علامہ اسد کی یہ تحریر مئی ۱۹۴۷ء کی ہے جو رسالہ عرفات میں لاہور سےطبع ہوئی ۔ یہ الفاظ کسی ’فرقہ وارانہ گروہ‘کے دباؤ میں نہیں کہے گئے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے مکمل علم کے ساتھ کہے گئے اور ان الفاظ کو تحریر کرنے والا کوئی بند ذہن کا دینی مدرسہ کا فارغ نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس کی علمیت سے علامہ اقبال اور قائد پوری طرح آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے ان کی تحریر قائد کی فکر کی آواز بازگشت کہی جا سکتی ہے ۔

علامہ اسد آگے چل کر مزید وضاحت سے تحریک پاکستان کا مقصد واضح کرتے ہیں:

In the Pakistan movement, on the other hand, there undoubtedly exists such a direct connection between the people’s attachments to Islam and their political aims. Rather more than that the practical success of this movement is exclusively due to our people’s passionate, if as yet inarticulate desire to have a state in which the forms and objectives of government would be determined by the ideological imperatives of Islam – a state ,that is, in which Islam would not be just a religious and cultural “label” of the people concerned, but the very goal and purpose of the state-formation. And it goes without saying that an achievement of such an Islamic state –the first in the modern world would revolutionize Muslim political thought everywhere,and would probably inspire other Muslim peoples to strive toward similar ends; and so it might become a prelude to an Islamic revolution in many parts of the world.

بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست___ جو جدید دُنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیاسی افکار میں انقلاب برپا کردے گی، اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دُنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔(ایضاً، ص ۲۹۶)

پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے اور صرف نظام اسلامی کے لیے قائم کیے جانے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اسد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:

It is, thus, quite legitimate to say that the Pakistan movement contains a great promise for an Islamic revival, and as far as I can see it offers almost the only hope of such a revival in a world that is rapidly slipping away from the ideals of Islam. But the hope is justified only so long as our leaders, and masses with them, keep the true objective of Pakistan in view and do not yield to the temptation to regard their movement just another of the many "national" movements so fashionable in the present day Muslim world a danger which, I believe is very imminent.

اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریک پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظرجاتی ہے، تحریک ِ پاکستان ایک ایسی دُنیا میں تجدید و احیاے اسلام کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُورہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبارپر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دُنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رُونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۹۶-۲۹۷)

مزید لکھتے ہیں:

In short, it is the foremost duty of our political leaders to impress upon the masses that the objective of Pakistan is the establishment of a truly Islamic polity; and that this objective can never be attained unless every fighter for Pakistan – man or women, great or small –honestly tries to come closer to Islam at every hour and every minute of his or her life that, in a word, only a good Muslim can be a good Pakistani.

مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریک ِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہرگھنٹے، اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔(ایضاً، ص ۳۰۶)

علامہ اسد کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ مسلم لیگ میں جو لوگ اپنے مفادات کے لیے شامل ہوگئے تھے اور ایسے ہی وہ نوکرشاہی جسے انگریزکے تربیتی اداروں نے آداب حکومت سکھائے تھے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کو کبھی آپس میں ملنا بھی نہیں چاہئیے۔ مذہب ایک’ ذاتی معاملہ‘ہے اور یہ مسجد ، چرچ اور مندر تک محدود ہونا چاہیے۔ بقیہ تمام معاملات انگریز کے دیئے ہوئے ’روشن اصولوں‘ سے طے ہونے چاہییں، چنانچہ ایسی بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے امید رکھنا کہ وہ قائد کے انتقال کے بعد تصور پاکستان کے نفاذ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ایک واہمہ سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔

تحریکِ پاکستان سے متعلق خدشات

ہر وہ شخص جو معروضی طور پر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اگر ۱۹۳۳ءمیں ظفراللہ خان نے چودھری رحمت علی کے اور علامہ اقبال کے تصور قیام پاکستان کو غیر عملی قرار دے کر رد کر دیا تھا تو کیا سرحدی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پاکستان کی حدود کا تعین ایمانداری سے کر سکتے تھے؟ اگر غلام محمد ،اسکندر مرزا اور دیگر افراد نے سازشوں کے ذریعے   ملک کے نظریاتی تشخص کو دبانا بلکہ تبدیل کرنا چاہا تو ایسے افراد سے کوئی اور توقع کی جاسکتی تھی؟ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اسد کے خدشات درست تھے اور یہی وہ بات ہے جو مولانا مودودی نے کہی تھی کہ ہمارا مقصد محض ایک خطے کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کے حصول کے ساتھ ایسے افراد کی تیاری اور کردار سازی ہونا چاہیے جو اس خطے کو صحیح معنی میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور کی مثال بنا سکیں ۔علامہ اسد اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

To a Muslim who takes Islam seriously every political endeavour, must in the last resort ,drive its sanctions from religion , just as religion can never remain aloof from politics: for the simple reason that Islam, being concerned not only with our spiritual development but with the manner of our physical , social and economic existence as well , is a “political” creed in the deepest morally most compelling sense of this term. In other words, the Islamic religious aspect of our fight for Pakistan must be made predominant in all the appeals which Muslims leaders make to the Muslims masses. If this demand is neglected, our struggle cannot properly fulfill its historic mission.

ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سند ِ جواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اوراقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴)

علامہ اسداور قائد اعظم کی فکر میں اس یکسانیت کے باوجود دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو قائد اعظم کے تصور پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور وہ بھی جو اپنے مفادات کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے،اور ان کی وفاداریاں مروجہ نظام کے ساتھ تھیں۔ علامہ اسد کو ان حقائق کا پورا علم تھا ۔چنانچہ اس اندورونی تضاد یا فکری انتشار کو سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:

The need for ideological, Islamic leadership on the part of our leaders is the paramount need of the day. That some of them -though by far not all are really aware of their great responsibility in this respect is evident, for example, from the splendid convocation address which Liaquat Ali Khan,the Quaid-e-Azam's principle lieutenant, delivered at Aligarh a few month ago. In that address he vividly stressed the fact that our movement drives its ultimate inspiration from the Holy Qur’an and that, therefore, the Islamic State at which we are aiming should drive its authority from the Shari‘ah alone. Muhammad Ali Jinnah himself has spoken in a similar vison on many occasions. Such pronouncements, coming as they do from the highest levels of Muslim League leadership go a long way to clarify the League‘s aims. But a clarification of aims is not enough. If these ideal aims are to have a practical effect on our politics, the high command of the league should insist on a more concrete elaboration, by a competent body of our intellectual leaders,of the principles on which Pakistan should be built.

ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں،تو گنتی کےچند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست ِ راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریک ِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذاہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پرعملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پروضاحت و تشریح کا طریقہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے۔ جو ان اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے، جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴-۳۰۵)

It is quite possible that before these lines appear in print the Quaid-e -Azam will have sent forth a call to the Muslim nation to establish a constituent assembly for Pakistan or if this has not been done so for, is bound to be done in the very near future. Hence Muslim legislators and intellectuals must make up their minds here and now as to what sort of political structure, what sort of society, and what sort of national ideals they are going to postulate. The fundamental issue before them is simple enough; shall our state be just another symbol of the world wide flight from religion, just one more of the many  "Muslim" states in which Islam has no influence whatever on the community’s social and political behavior or shall it became the most exciting, the most glorious experiment in modern history, our first step on the road which Greatest Man has pointed out to mankind? shall Pakistan only become a means of  "national" development of Muslims in certain areas of India - or shall it herald, to all over the world , the majestic rebirth of Islam as practical political proposition.

یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثراور عمل دخل نہیں ہے۔ نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اس شاہراہ میں پہلا قدم جو انسانِ کامل نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دُنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟(ایضاً، ص ۳۰۵)۔(جاری)

قوم ، ملک، جاے پیدایش اور زبان عموماً کسی گروہِ انسان کو اپنے تشخص اور وجود کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، قبل اسلام کا دور ہو یا تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کے ادوار اور بعد میں آنے والے روشن خیالی ، نشاتِ ثانیہ اور انسان پرستی کے اَدوار، ہرزمانے میں اقوام عالم نے اپنی شخصیت اور وجود کو ان میں سے کسی نہ کسی تصور سے وابستہ کر کے خود اپنی تعریف بطور ایک خطہ میں بسنے والے افراد کے ( یونانی اقوام، افریقی اقوام ، ایشیائی اقوام)، یا رنگ ونسل کی بنیاد پر (زرد اقوام ، سفید اقوام ، سیاہ اقوام)،یا اپنی علاقائی زبان(انگلش ، فرنچ، جرمن، ڈچ) کی بنیاد پر اپنا تعارف کرایا۔حتیٰ کہ بحری راستوں کو بھی ان میں سے کسی ایک تصور سےمنسوب کر دیا ، مثلاً بحیرۂ عرب ، ساؤتھ چائنا سی وغیرہ ۔

قوم پرستی اور رنگ و نسل یا کسی خطے کی بنا پر اپنی پہچان کا تصور ، اسلام کے بنیادی عالم گیریت اور الہامی دین ہونے کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ امت مسلمہ کے لیےایک سانحہ تھا کہ سیاسی میدان میں خلافت کے اسلامی تصور سے انحراف کے نتیجے میں خاندانی اور موروثی طرز حکومت رواج پا گیا۔ اس طرح اکثر مسلم فرماں رواؤں نے اپنے دینی تشخص کی جگہ نسلی ، لسانی یا قبائلی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اموی ، عباسی ، فاطمی، مغل ، عثمانی کہلوانا پسند کیا ۔

مسلمان فرماں روا جنھوں نے طویل عرصے تک برصغیر پرحکومت کی ، اسلام کے دعوتی پہلو پر بہت کم توجہ دی۔تاہم، اپنے اقتدار کو اقلیت میں ہونے کے باوجود تقریباً آٹھ صدی سنبھالے رکھا۔ اگر وہ دین کی اشاعت کے لیے حکمت عملی بناتے تو بہ آسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوجاتی، یا وہ اسلام کے ان اصولوں کو جو شریعت نے بیان کیے تھے، نافذ کرتے تو اسلام کے عدل اجتماعی سے متاثر ہو کر بے شمار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر فرماں روا ، موروثی بادشاہت کے تحفظ کے علاوہ کسی اور اعلیٰ مقصد سے دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ بہرصورت مغلوں کی حکومت کے زوال اور انگریز سامراجیت کے یہاں پر غلبے کے بعد برصغیر میں جو غالب رجحانات پائے جاتے تھے،انھی میں سے ایک رجحان یہ تھا کہ انگریزی طور طریقوں کی پیروی کو اس تعبیر کے ساتھ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ’’انگریز نے اکثر اچھائیاں اسلام سے ہی سیکھی ہیں، گو اسلام قبول نہیں کیا‘‘۔

ایک طبقے نے انگریز کی ہر بات کو کفر اور شرک قرار دیتے ہوئے مسلسل جہاد کی حالت کا اعلان کیا ،حتیٰ کہ جمعہ کا قیام بھی ملتوی کر دیا۔چنانچہ فرائضی تحریک نے بنگال میں یہی موقف اختیار کیا ۔ ایک طبقے نے انگریز سے نجات کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن بہت جلد ان حضرات کو تجربات نے یہ سکھایا کہ یہ اتحاد ان کی نجات کی جگہ مقامی ہندو اکثریت کی مستقل غلامی پر جا کر ختم ہو گا۔اس لیے مسلمانوں کے دین ، تہذیب و ثقافت اور مفاد ات کے تحفظ کی صرف ایک ہی شکل ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک آزاد خطہ وجود میں آئے ۔ یہی وہ شعور تھا، جو تصور پاکستان کی شکل میں دو قومی نظریہ کی صورت میں وجود میں آیا اور جس کی تعمیر میں سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی  اور سب سے بڑھ کر قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت کا کردار ادا کیا۔زیر نظر مقالہ اس تصور کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے ۔

برصغیر میں اسلامی افکار کا فروغ

برصغیر میں اسلام کا تعارف ، محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے علاوہ بےشمار تاجروں اور صوفیاے کرام کی مساعی جلیلہ سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں تصوف آمیز اسلام، جو ظاہر کے مقابلے میں قلب اور داخل کی اصلاح کو فوقیت دیتا تھا، اور جو بادشاہت اور عوام کے لیے زیادہ سہولت مند تھا، رواج پا گیا ۔اس زمینی حقیقت کی بنا پر وہ علماے کرام بھی جو اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جو حاکمیت الٰہیہ کے تصور کو سمجھتے تھے، غالباً مصلحت عامہ کی بنا پر بادشاہت کی مخالفت کی جگہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی طرف راغب رہے ۔حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور اور صوفیا نے بادشاہت کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دعوتی اور اصلاحی سر گرمیوں سے نظام میں بہتری کی کوشش کی۔

اس پس منظر میں اسلام کا جو تصور برصغیر میں رواج پا یا، وہ ایک محدود مذہبیت کا تصور تھا، جو چند عبادات اور شخصی معاملات تک محدود ہو گیا ۔اسی لیے انگریز کی آمد سیاسی قیادت کی تبدیلی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی اور برصغیر میں کم از کم مسلمانوں نے یہی سمجھا کہ جب تک ہند میں مسلمانوں کو سجدے کرنے کی اجازت ہے، ان کا دین بھی آزاد ہے ۔ وہ عبادت کی آزادی کو نہ صرف مذہبی بلکہ دینی آزادی بھی سمجھتے رہے ۔یہی وہ فکر تھی جس کی علم برداری دیوبند جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ نے بھی اختیار کی، اور جسے مسئلہ خلافت جیسی علمی کتاب تحریر کرنے والے مفسر قرآن مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اختیار کیا اور ہندو کانگریس کے ساتھ مکمل تعاون کے ذریعے ’ہندستانی قومیت‘، یا ’ایک قومی نظریہ‘ کا علَم بلند کیا۔ اس طرح یہ فکر برصغیر کے مسلمانوں کے ایک طبقے میں سرایت کر گئی۔

چنانچہ مولانا حسین احمد مدنیؒ ناظم دیو بند نے ایک کتابچہ تصنیف کیا(متحدہ قومیت اور اسلام) کہ مسلمان اور ہندو دراصل ایک ہی قوم ہیں اور مذہب ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ تصور نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریز سامراج کی فکر کو تقویت اور حمایت فراہم کرتا تھا۔ اس لیے اس کی پذیرائی کی گئی ۔اس کے برعکس علامہ محمد اقبالؒ ، قائد اعظمؒ اورمولانا مودودیؒ نے دوقومی نظریہ کو تحریک پاکستان کی بنیاد بنایا ۔ علامہ اقبال نے فکری طور پر اپنے خطبات اور شاعری کے ذریعے اور خصوصاً اپنے کُل ہند مسلم لیگ کے الٰہ آباد میں صدارتی خطاب میں یہ بات واضح کی کہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ ہدایت ہے ۔ ادھر مولانا مودودیؒ نے مولانا حسین احمد مدنی ؒکے دلائل کی تردیدایک اہم علمی رسالہ مسئلہ قومیت لکھ کرکی ۔جسے مسلم لیگ کی قیادت نے ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ تحریک پاکستان کی نظری بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔

اسی طرح قائد اعظم نے ۱۹۳۰ء کے بعد اپنے تمام خطبات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین ، اپنی ثقافت ، اپنی تاریخ ، اپنے نام وَران و مشاہیر کے لحاظ سے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے ایک مکمل اور الگ قوم ہیں، جو زمین ،  رنگ اورنسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، اور ان کے دین کا تحفظ صرف اور صرف اسی شکل میں ہو سکتا ہے، جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظام حکومت ، نظام معیشت ، نظام معاشرت، نظامِ قانون ، نظام تعلیم غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں ۔ظاہر ہے یہ عمل آزاد خطہ اور سر زمین کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پاکستان کا وجود میں آنا، ایک منطقی ضرورت تھا ۔

اس مختصر مقالے کا مقصد ان ’کرم فرماؤں‘ کے خیالات کا مفصل جواب دینا نہیں ہے، جو آج بھی متحدہ قومیت کے مرض کا شکار ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ براہ راست قائداعظم سے یہ پوچھا جائے کہ ان کا تصور پاکستان ان کے اپنے الفاظ میں کیا ہے ؟ اور کیا ان کا یہ موقف ان کے اعتماد ، مستقل مزاجی اور فکری بلوغت کا مظہر ہے یا وہ کسی سیاسی دباؤ میں آکر کچھ طبقات کو خوش کرنے کے لیے، یا غیر سنجیدگی کے ساتھ محض ہوا کے رُخ کو دیکھ کر کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے رہے ۔یہ معاملہ نہ صرف ان کی شخصیت اور مقام سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اس کا بہت گہرا تعلق ملک کے تشخص، اس کی نظریاتی بنیاد اور اس کی داخلی اور خارجی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔

نظریہ   پاکستان کا ارتقا

تصورِ پاکستان، یعنی ایسی سرزمین کا حصول جس پر زمین کے اصل مالک کا نظام اس کی مرضی کے مطابق نافذ ہو ، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے ،اسی وقت وجود میں آچکا تھا، جب برصغیر میں پہلے مسلمان نےقدم رکھا۔ اس کی توثیق بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کی ۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اس خطے میں محمد بن قاسم کی آمد اور مقامی افراد کا ابن قاسم کے   عدل و احسان کے نظام کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنا، اس تصور کا ایک حقیقی عکس تھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے زوال کے دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنے کے لیے نجیب الدولہ اوراحمد شاہ ابدالی کو دعوت دینا اس عمل کا حصہ تھا ۔ خود ان کے اپنے گھر کے فرد شاہ اسماعیل شہیدکاسید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ شامل ہوکر ۱۸۲۷ء میں پشاور میں خلافت قائم کرنا، اس خطے میں احیاےاسلام اور نظام عدل کے قیام کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی میں انگریزوں کی کامیابی نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی تھی۔

 اب دہلی کی مغلیہ سلطنت ، بنگال اور دیگر مقامات پر مسلمان فرماںرواؤں کی جگہ برطانیہ کے پنشن خوار نواب اور فرماںرواؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ ایسا شگاف نہ صرف برصغیر میں بلکہ  سلطنت عثمانیہ میں بھی پیدا ہوا۔برصغیر کے بعض جرأت مند مسلمان فرماںرواؤں مثلاً میسور کے حکمران حیدرعلی اورٹیپوسلطان نے اٹھارھویں صدی کے آخر میں اپنی مقدور بھر کوشش کی اور ذلت کی زندگی کی جگہ شہادت کے اعلیٰ مقام کو منتخب کیا۔ لیکن۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں سیّد احمد کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شکل میں ایک مزید کوشش کے بعد برصغیر کے مسلمان بڑی حد تک مایوسی کا شکار ہو گئے اور اب انھیں آسان راستہ یہی نظر آیا کہ وہ انگریز کے اقتدار کو مانتے ہوئے اپنے ذاتی فوائد کے حصول کے لیےمفاہمت کارو یہ اختیار کریں۔

جو مسلمان اس پر آمادہ نہ تھے،انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی زمینیں، ان کے کاروبار ختم کردیے گئے اور ہندو زمینداروں نے بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کیا ۔بہت سے مقامات پر" ڈاڑھی ٹیکس" لگایا گیا۔ گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مساجد کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔یہ سب انگریز کی سرپرستی میں ہوا اور حکومت نے اس پر کوئی گرفت نہ کی۔

 انگریز سامراج نے مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے عسکری وانتظامی قوت کے ساتھ تعلیمی قوت کو بھی استعمال کیا اور سرکاری زبان فارسی اور عربی اور عوامی زبان اردو کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر ان تمام مسلمانوں کے لیے جو کل تک تعلیم یافتہ تھے اور حکومت کے مختلف شعبوں عدالتوں، انتظامیہ اور تعلیمی ذمہ داری ادا کر رہے تھے، ایک لمحے میں تعلیم یافتہ سے ناخواندہ میں تبدیل کردیا ۔ ہندو اس سے بہت پہلے انگریز کے ساتھ ساز باز اور تعاون کرنے میں پیش پیش تھے اور انگریزی تعلیم کو اختیار کر چکے تھے اور سرکاری مناصب کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مئی ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک مدرسے کا آغاز کیا، جو آگے چل کر اینگلو محمڈن اورینٹل کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسری جانب ہندو ۱۸۳۱ء سے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور   راجا رام موہن رائے کی کوششوں سے برطانوی حکومت ان کے ساتھ کھل کر تعاون کر رہی تھی۔ ہندوؤں کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۵۲ء تا ۱۸۶۲ء کلکتہ ہائی کورٹ میں ۱۴۱ وکلا رجسٹر کیے گئے، جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ اس صوبے کے ۲۱۴۱گزیٹڈ افسران میں صرف ۹۲ مسلمان تھے ۔ اس بات سے ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم، کاروباراور پیشہ ورانہ شعبوں میں ہر طرف ہندو چھائے ہوئے تھے، خصوصاً بیوروکریسی میں ہندو عمل دخل غیر معمولی تھا۔

انیسویں صدی میں برصغیر میں مسلمانوں کا سیاست میں کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔اس صورتِ حال میں ۱۸۸۵ءمیں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس انگریز حکمرانوں کی مشاورت اور حمایت کے ساتھ قائم ہوئی، تاکہ عوامی سطح پر بھی انگریز کی حمایت حاصل کی جائے اور مسلمان جو انگریز حکومت کے رویے سے غیر مطمئن اور شاکی تھے، ان کے مقابلے میں ایک توازن پیدا کرنے والی عوامی قوت انگریز کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ انڈین کانگریس کے ذمہ داران نے کھلے عام انگریز سے اپنی وفاداری کی بنیاد پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔

 مسلمانوں کو جگانے والا ایک واقعہ اس دوران میں یہ پیش آیاکہ ۱۹۰۵ء میں برطانوی وائس رائے ہند لارڈ کرزن نے اپنی اصلاحات میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام کا جس میں مسلمان اکثریت تھی اور اس کا مرکز ڈھاکاتھا ،مشرقی بنگال بعد میں مشرقی پاکستان بنااور دوسراحصہ مغربی بنگال جس کا مرکز کلکتہ تھا -یہ تقسیم ہندوؤں کو گوارا نہیں ہوئی ۔انھوں نے مسلسل مہم چلا کراور حکومت میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ ان حالات نےہر صاحب ہوش مسلمان کو یہ بات باور کروا دی کہ برصغیر میں بسنے والے قطعاً ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہاں صدیوں سےدو اقوام موجود رہی ہیں، جن کے مفادات ،عقائد، دین، تاریخ ،ثقافت، زبان ہر چیز دوسرے سے ممتاز ہے اور کوئی بھی حکومت جس کی بنیاد محض کثرت تعداد پر ہو مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں نواب وقارالملک کی صدارت میں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام اسی شعور کا اظہار تھا۔

 یہ جداگانہ قومی تصور ہی تھا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے مختلف وفود انگریز وائسرائے سے وقتاً فوقتاً ملے ۔ مثلاً آغا خان سوم کی سربراہی میں لارڈ منٹو سے ملاقات اور یہ مطالبہ کے جداگانہ انتخابات کرائے جائیں، اسی فکر کا ایک مظہر تھا۔ لیکن معاہدوں کی سیاست مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔ ۱۹۱۶ءسے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کے صرف ۹ ماہ بعد ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء کو شاہ آباد ،آگرہ اور اعظم گڑھ میں ۲۵ہزار ہندوؤں نے مسلم دیہات پر حملہ کر کے بہیما نہ قتل و غارت اور مسلمانوں کو زندہ جلا کر نام نہاد ’اتفاق‘کی حقیقت کو واضح کر دیا۔۱۹۲۸ء میں ’نہرورپورٹ‘ نے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے مخلوط انتخابات اور ایسی تجاویز دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کا تشخص اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

اس تاریخی تناظر میں ۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے کُل ہند مسلم لیگ کنونشن میں اپنے صدارتی خطاب میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے حوالے سے شمال مغربی ہندستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد ریاست کی تجویز پیش کی۔ ۱۹۳۳ءمیں چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم نے اپنے فکرانگیز پمفلٹ Now or Never میں علامہ کے خواب کو اپنے الفاظ کی شکل میں پیش کیا۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں ایک فیڈرل نظام کی تجویز دی گئی تھی ،اس دوران یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ کانگریس کا تصور متحدہ قومیت، یعنی زمین یا سکونت کسی قوم کی قومیت کی بنیاد ہوتی ہے، مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

انڈین نیشنل کانگریس کے تصورِ متحدہ قومیت کی حمایت میں مسلمانوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کے علما کا ایک مؤثر طبقہ سب سے آگے تھا۔ چنانچہ مولانا سیّد حسین احمد مدنی صاحب اور ان کے ہم خیال علما نے، جن میں بعض علما بعد میں سیاسی مناصب پر فائز ہوئے، پوری قوت سے کانگریس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کی۔کانگریس کے حمایتی علما میں مولانا ابوالکلام آزاد سب سے آگے تھے ، جو بعد میں مرکزی وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔

اس کے برعکس دارالعلوم دیوبند ہی کے اکابر علمامیں سے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے علاوہ مولانا مودودی نے کھل کر دو قومی نظریہ کی حمایت کی ۔

مولانا مودودی نے ایک سلسلہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش تحریر کیا اور ایک رسالہ مسئلہ قومیت تصنیف کیا جس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث پر مبنی اس رسالے نے مولانا حسین احمد مدنی کے موقف کو پُرزہ پُرزہ کردیا اور انتہائی سنجیدہ ٹھنڈے اور عقلی اور قرآن و حدیث پر مبنی دلائل سے دو قومی نظریہ پر ناقابلِ تردید تحریر پیش کی:

۱- اس رسالے کو مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا ۔علامہ اقبال نے مولانا مدنی صاحب پر سخت تنقید شعر کی زبان میں کی :

عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ

 زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیست

سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خیرز مقام محمد عربیست

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ

 اوست  اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست

 [عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفےٰ کی بارگاہ میں پہنچاؤکہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو اس تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے]۔

 اور دوسری جانب تصور قومیت، یعنی دین کی بنیاد پر قومیت کا تصور جسے مولانا مودودی نے اپنے رسالے میں وضاحت سے بیان کیا تھا اسے علامہ محمد اقبال نے یوں بیان کیا:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اس دوران مولانا عبدالماجددریابادی کے بقول یوپی صوبہ کی مسلم لیگ نے ایک مجلس قائم کی کہ جس اسلامی حکومت کے قیام کے لیے پاکستان بنانے کا خیال ہے، یہ مجلس اس کا نقشہ مرتب کرے۔ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا آزاد سبحانی ، اور خود مولانا عبدالماجد دریابادی کو شامل کیا گیا۔

 ۲- جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ہی تحریکِ پاکستان کا بنیادی مقصد تھا اور اس غرض کے لیے مسلم لیگ خود ایسے علما کی امداد حاصل کر رہی تھی، جو دو قومی نظریہ کے حامی تھے، لیکن مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے ۔

مسلم لیگ کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح، نواب بہادر یارجنگ، نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب خان نشتر ،خواجہ ناظم الدین ،مولوی اے کے ایم فضل الحق، مولانا حسرت موہانی اور قائداعظم کے قریبی حلقہ کے افراد مثلاً علامہ محمد اسد دو قومی نظریہ اور پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ جس کا اظہار ان قائدین نے بے شمار مواقع پر اپنے خطبات ،خطوط اور بیانات میں کیا۔

یہ ایک عجیب معما ہے کہ ان تمام دستاویزات کو نظرانداز کرتے ہوئے، پاکستان کے نام نہاد آزاد خیال دانش وَر صرف ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی اس تقریر کو سیکولرزم کی تائید میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں، جس میں قائد اعظم نے سیکولر یا مغربی جمہوریت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا، جب کہ قائد نے دیگر مواقع پر واضح طور پر پاکستان کے لیے اسلامی تشخص اور مغربی جمہوریت کے پاکستان کے لیے ناموزوں ہونے کا بار بار اظہار کیا ۔ قائد کے ان خطبات کو معلوم نہیں کیوں یہ دانش وَر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں ؟

اس مختصر تاریخی پس منظر کے بعد ہم قائداعظم اور ان کے رفقاء کے پاکستان کے بیانیہ کو کسی تعبیر و تشریح کے بغیر ان کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقتباسات اصل زبان میں درج کیے جا رہے ہیں تاکہ ترجمہ کرتے وقت تعبیر کا کوئی دخل نہ ہو اور اصل مدعا بالکل اسی طرح سامنے آئے، جیسے اظہار خیال کرنے والے نے بات کہی ہے ۔

علامہ اقبال کا تصور پاکستان

قائد اعظم کے فکری رہنما اور مسلم لیگ سے براہ راست وابستہ سیاسی بصیرت اور دینی فہم رکھنے والے علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے کنونشن سے ۱۹۳۰ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں جو بات تحریراً پیش کی، وہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کی نمایندہ اور مسلم لیگ کی اعلان شدہ پالیسی کا درجہ رکھتی ہے ۔علامہ نےمسئلے کی نبض پر ہاتھ رکھ کرواضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ مسلم قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے جو زندگی کو سیاسی اور مذہبی، مادی اور روحانیت کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی تعلیم کے ذریعے مسلمان کے ہر عمل کو دین کے دائرے میں اور ہر سر گرمی کی بنیاد دین کو قرار دیتا ہے:

"What, then, is the problem' and its implications?? Is religion a private affair? Would you like to see Islam as a moral and political ideal, meeting the same fate in the world of Islam as Christianity has already met in Europe?? Is it possible to retain Islam as an ethical ideal and to reject it as a polity, in favour of national politics in which  [the] religious attitude is not permitted to play any part??  This question becomes of special importance in India, where the Muslims happen to be in a minority. The proposition that religion is a private individual experience is not surprising on the lips of a European"....

سوال یہ ہے کہ آج جو مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے اس کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی مذہب ایک فرد کا نجی معاملہ ہے ، اور کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کوبطور ایک اخلاقی تخیل کے توبرقرار رکھیں، لیکن اس کے نظامِ سیاست کےبجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں، جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟ ہندستان میں تو یہ سوال اور بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ باعتبار آبادی ہم اقلیت میں ہیں ۔یہ دعویٰ کہ مذہبی ارادت محض انفرادی اور ذاتی واردات ہیں، اہلِ مغرب کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا....

The religious ideal of Islam, therefore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the  other. Therefore the construction of the polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim…

لہٰذا، اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیداکردہ ہے، الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نےایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غورکرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر جو اسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔

The principle of European democracy cannot be applied to India without recognizing the fact of communal groups. The Muslim demand for the creation of a Muslim India within India is, therefore, perfectly justified....

مغربی جمہوریت کا اصول مختلف قومیتوں کی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہندستان میں نافذ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا مسلمانوں کا انڈیا میں مسلم انڈیا کی تشکیل کا مطالبہ مکمل طور پر منصفانہ ہے…

I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and  Balochistan amalgamated into a single State. Self-government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India.

میری ذاتی طورپر خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد [خیبرپختونخوا]، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہند کےمسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State ln the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times…"

میں صرف ہندستان اور اسلام کے فلاح و بہبودکے خیال سے ایک منظم مسلم ریاست کے قیام کامطالبہ کر رہا ہوں۔اس سے ہندستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پرقائم ہیں اس جمود کو توڑڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی ، بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہوجائیں گے۔

علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل واضح تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی بالکل بے معنی ہے اگر تقسیم ملک کے بعد بھی ہندوؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کوصرف اپنے مندر ، چرچ اور مسجد جانے کی اجازت ہو، اور وہ اپنی ذاتی زندگی میں روزہ، نماز ،زکوٰۃ اور دیگر مراسمِ عبودیت ادا کرسکتے ہوں۔’ مذہب‘پر اس نوعیت کے عمل سے نہ تو انگریز سامراج نے کبھی روکا اورنہ ہندو اکثریت کے ماتحت ہونےکے بعد ہندستان کا سیکولر دستور اس سے روک سکتا تھا، نہ کسی سیکولر نظام نےدنیا کے کسی بھی خطے میں یہ اعلان کیا کہ وہ عبادت کی آزادی نہیں دے گا۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا نئے بننے والے پاکستان کی بنیاد علاقائی، لسانی یانسلی قومیت ہوگی جیسے یورپ میں پائی جاتی ہے؟ اس لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بار بارجن باتوں کو واضح کیا ان میں اول یہ تھی کہ اسلام میں دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ دوم یہ کہ پاکستان کا اسلامی تشخص ہی اس کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس پختہ عزم کا اظہا کیا گیا کہ کہ نئے ملک میں اسلامی تعلیمات، قوانین ،ثقافت ، سیاسی نظام ،روایت علم اور معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اور نافذ کیا جائے گا ۔ دونوں قائدین کےواضح بیانات اور تحریر وں میں یہ با ت تکرار کے ساتھ کہی جاتی رہی، حتیٰ کہ مسلمانانِ ہند نے اس بات پر یقین کیا اور اس کے نتیجے میں عامتہ المسلمین نے جان، مال،عزّت، ہر چیز اس خطۂ زمین پر قربان کرتے ہوئے وہ عظیم قربانی دی، جس کی انسانی تاریخ میں نظیرتلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔

علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اسی کنونشن میں یہی بات بیان کی :

"Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam, God and universe, spirit and matter, church and state are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realizing itself in space and time".

لیکن اسلام کےنزدیک ذاتِ انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، کلیسااور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزاہیں ۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر جو کسی دوسری جگہ واقع ہے، ترک کر دینا چاہیے۔اسلام کے نزدیک مادہ روح کی ایک شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔

اسلامی ریاست کے اسی تصور کو علامہ اقبال اپنے خطبے The Principal of Movement  in the Structure of Islam (الاجتہادفی الاسلام) میں یوں بیان کرتے ہیں :

"The essence of Tawhid, as a working idea, is equality, solidarity and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavor to transform these ideal principles into space- time  forces, an aspiration to realize them in a definite human organization. It is in this sense alone that the state in Islam is a theocracy, not in the sense it is headed by a representative of God on earth, who can always screen his despotic will behind his supposed infallibility… All that is secular is, therefore sacred in the roots of its being.....There is no such thing as a profane world. All this immensity of matter constitutes a scope for the self-realization of spirit. All is holy ground. As the Prophet so beautifully puts it:  "The whole of this earth is a mosque"...The state, according to Islam is only an effort to realize the spiritual in a human organization.

گویا بہ حیثیت ایک اصولِ عمل، توحید اساس ہے حُریت ، مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کرظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں ۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنے مفروضہ معصومیت کے عُذر میں اپنے جورو استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے… جس کا ماحصل یہ ہے کہ مادی کے بحیثیت مادی کوئی معنی ہی نہیں ، اِلا یہ کہ ہم اس کی جڑیں روحانی میں تلاش کریں۔ بالفاظِ دیگر یہاں کسی ناپاک دنیا کا وجود نہیں… برعکس اس کے مادے کی ساری کثرت روح ہی کے ادراک ذات کا ایک میدان ہے اور اس لیے جو کچھ بھی ہے، مقدس ہے۔ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’ہمارے لیے یہ ساری زمین مسجد ہے‘‘۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسےروحانی کہتے ہیں ، اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ ہی میں کریں (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۲۲۸-۲۲۹)۔(جاری)

 امریکا میں نسل پرستی کے تناظر میں ہونے والے حالیہ واقعات ، احتجاج اور فسادات نے عالمی سطح پر بعض ایسے مباحث اور عملی مسائل کو مزید تازہ کر دیا ہے جن پر وقتی، معاشی ،معاشرتی اور صحت سے وابستہ مسائل کی بنا پر ہمارے اذہان کم توجہ دیتے ہیں۔

ان مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ اس نظریاتی اور اصولی تقابل کا ابھر کر آنا ہے، جو اُمت مسلمہ اور تحریکات اسلامی کی اساس ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کو بطور دینِ حق پیش کیا ہے  جس کا ہدف شہادتِ حق ، قیامِ عدل و توازن اورحقوقِ انسانی کا تحفظ ہے ۔وہ نسل پرستی، اوہام پرستی، وطن پرستی، مادیت اور مالی منفعت کے بتوں کو پاش پاش کر کےایک اعلیٰ اور جامع ا خلاقی تصورِ حیات فراہم کرتا ہے جس میں افراد کی زندگی کا محور اصول اور اقدار ہیں نہ کہ شخصیات،گروہ یا محض مادی و سماجی مفادات۔ وہ کسی شخصیت کو تذلیل کا نشانہ نہیں بناتا، حتیٰ کہ مشرکین کے بتوں کو بھی بُرے ناموں سے پکارنے کی ممانعت کرتا ہے لیکن شرک، ظلم ، طغیان، فساد ، حقوقِ انسانی کی پامالی کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے اور اس جدوجہد کے لیے مال اور جان کی قربانی کو عبادت قرار دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک جانب شرک اور استحصالی نظام کی بنیادی فکر پر کاری ضرب لگاتا ہے، اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کرتے ہوئے انسانی فوز و فلاح اور کامیابی کے لیے عدل و توازن پر مبنی معاشرتی، معاشی، سیاسی، دفاعی، ثقافتی اور تعلیمی انقلاب کے لیے بنیادی ہدایات اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

اُمت مسلمہ اور اسلامی تحریکات کا اصل کام یہی ہے کہ وہ ایک تہذیبی، اصولی اور نظریاتی پس منظر میں قرآن و سنت کے موقف کو عصری زبان میں پیش کریں تاکہ اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر زندگی کے اس متبادل نظام کو قائم کرسکے۔ یہ تحریکات اسلامی معروف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف ایک ایسے نظم کا نام ہے، جو جزوی اور وقتی مسائل کے مقابلے میں نظام کی اصلاح اور تبدیلیِ نظام کو اوّلیت دیتا ہے ۔اس کا مقصد اقتدار پر کسی نہ کسی طرح قابض ہونا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور پورے انسان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظام میں اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے، تاکہ ریاستی اعضا، ریاستی تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور زندگی کے ہر شعبے میں توازن پیدا ہو سکے۔

اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی واضح نشانیاں اور آیات آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں، جو دین اسلام کی سچائی ،انسانوں کے لیے اس کی ضرورت، اور اسلام کے دیے ہوئے انسانی حقوق کے تصور اور تعلیمات کی صداقت میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ اب ابلاغ عامہ کے ذرائع کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پس پردہ نسل پرستی اور منافرت کو مکمل طور پر چھپا سکیں۔ کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے حالیہ واقعات سے صرفِ نظر کر سکے۔ امریکا میں افریقی النسل امریکیوں اور اقلیتی طبقات کے ساتھ جو تعصب معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کی ایک تازہ مثال ۴۶ سالہ جارج فلوئیڈکا سفیدفام امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہے، جو پورے امریکا میں نسلی ٹکراؤ اور نسل پرستی کے خلاف ایک مہم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ نظام جس کی تعمیر میں افریقی مسلم ممالک سے لائے ہوئے مظلوم انسانوں کا کردار سفیدفام افراد سے کہیں زیادہ ہے، وہ نظام آج سیّد مودودیؒ کی پیش گوئی کے مطابق لرزہ براندام ہے۔

 امریکی صدر کی شخصیت انتہائی متنازعہ بن چکی ہے اور اس پر سفید نسل کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے ووٹ کی قوت کی بنا پر نسل پرستی اختیارکرنے کے الزامات زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ اس نسلی منافرت نے سفید نسل پرستی کے بت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے اور خود سفید نسل کے افراد کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں، تجارتی مراکز اور سیاسی محاذوں پر اپنے ضمیر کی آواز پر کھلم کھلا موجودہ سرمایہ دارانہ اور نسل پرستی پر مبنی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یورپ میں تازہ ترین واقعہ برطانیہ کی ۹۰۰سالہ پرانی یونی ورسٹی اوکسفرڈ کے احاطے میں نصب سیسل رہوڈس کے مجسمے کے خلاف مظاہرہ اور مطالبہ ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے اکھاڑ کر کہیں اور لے جایا جائے۔ اس سے قبل بھی بعض ایسے مجسموں کو، جو نوآبادیاتی غلامانہ نظام سے وابستہ قائدین کے تھے، عوام نے اپنی قوت استعمال کرتے ہوئے اکھاڑ کر سمندر برد کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ سیسل رہوڈس وہ شخص تھا، جس نےجنوبی افریقہ میں برطانوی سامراجیت کو نسل پرستی کی بنیاد پر قائم کیا اور جسے اس کی اس خدمت کے نتیجے میں قومی ہیرو قرار دیا گیا ۔اس کے نام سے تعلیمی وظیفہ جاری کیا گیا اور اس کے مجسمے کو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں نمایاں مقام پر نصب کیا گیا ۔اس دانش گاہ میں تعلیم پا نے والے طلبہ و طالبات دو سو سال سے اس بت کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے، لیکن آج وہ ’مقدس‘ بت، انھی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یونی ورسٹی کےبورڈ آف گورنرز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے بے دخل کر دیا جائے۔ تاہم، اس کو کون سی جگہ فراہم کی جائے، یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس پر یونی ورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کاخیال ہے کہ یہ بت ان کی تاریخ کا حصہ ہے، اسے چھپانے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔ ماضی کے تذکرۂ عبرت کے طور پر اسے نظروں سے محو نہ کیا جائے تاکہ یہ زندہ عبرت کا نمونہ بنارہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسے بت جو نسلی منافرت کی علامت ہوں، اس قابل نہیں کہ ان کے وجود تک کو برداشت کیا جائے ۔

 اس تناظر میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی وائس چانسلر کا بی بی سی کے ساتھ انٹرویو لمحۂ فکریہ  فراہم کرتا ہے۔ لوئیس رچرڈ سن بت کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھیں ، ان کا کہنا تھا کہ: ’’اپنی تاریخ کو چھپانا روشن خیالی کے لیے صحیح راہ نہیں ہے‘‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ :’’آٹھ سو سال تک جن لوگوں نے یونی ورسٹی کو چلایا، وہ عورتوں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ کیا ہمیں ان لوگوں کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ وہ غلط تھے، لیکن ان کے بارے میں کوئی راے قائم کرتے ہوئے ان کے زمانے کو پیش نظررکھنا چاہیے‘‘۔

گویا یونی ورسٹی کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی ذاتی راے یہ تھی کہ مجسمے کو ہٹانے سے فرق نہیں پڑے گا، جب تک ماضی کے حالات کے تناظر میں کیے گئے اقدامات کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ طے نہ کیا جائے کہ رہوڈس کا سامراجیت کو قائم کرنا درست تھا یا غلط؟معروضی طور پر خاتون وائس چانسلر کی بات میں وزن ہے کہ بجائے تاریخ کے تاریک واقعات کو کتب و مصادر سے خارج کردیا جائے،ان پر تاریخی تناظر میں غور کرنے کے بعد ان کے خلاف یا حق میں فیصلہ کرنا زیادہ دانش مندانہ رویہ ہوگا۔شاید یہی سبب ہو کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو پانی میں  گم کرنے کے بجائے اسے قیامت تک کے لیے ہر ظالم و جابر کے لیے نشانۂ عبرت بنا دیا۔

اُدھر امریکا کے بعض شہروں میں، جہاں سیکڑوں برس سے کولمبس کے مجسّمے نصب تھے، انھیں توڑدیایا گرا دیا گیا ہے، کیوں کہ کولمبس، افریقہ سے مظلوم حبشیوں کو پکڑ پکڑ کرلایا اور اس نے غلاموں کی تجارت کو فروغ دیا۔ اس کا کردار غیراخلاقی ، غیرانسانی اور قابلِ نفرت تھا۔

اسلامی تحریک کے لیے لائحہ عمل

بہرصورت حالیہ منافرت کے خلاف احتجاج نے مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے اصلی چہرے کو اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اس کے مضمرات پر غور کرے اور دعوتی نقطۂ نظر سے راہِ عمل کو واضح اور مدلل انداز میں پیش کرے ۔

l پہلی بات یہ ہے کہ شاخِ نازک پر بننے والے اس سرمایہ د ارانہ نظام اور سامراجیت کی ناپایداری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ وہ اپنے خنجر سے اپنے ہاتھوں خود کشی پر آمادہ ہوجائے!یہی وہ دعوتی مرحلہ ہے جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال عصری زبان میں اور براہِ راست    پیش کرنے کے لیے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے ۔ علمی سطح پر اعدادو شمار اور زمینی حقائق کے تجزیے کے ساتھ یہ بات نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ امریکا ہو یا یورپ، ان کا استحصالی نظام ان کے اپنے عوام کو جن میں سفید و سیاہ، سب شامل ہیں، عدل، عزّت، وقار، تحفظ اور سکون و اطمینان فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اس نظام کےامریکی علَم برداران اپنے مفادات کے پیش نظر ’انفرادی آزادی‘ کے نعرے کا استعمال مستقل طور پر اڑھائی دوسو سال سے کر رہے ہیں کہ شہریوں کو اپنے تحفظ کے لیے ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے حق کو اسلحہ بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کا بازارگرم رکھنے کے لیے برقرار رکھا جائے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہوگا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری محض کاغذ پر ہو اور لوگ ڈاکو ، چور ، قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع اپنے ذاتی اسلحے سے کریں۔ یہ اس لیے کہ امریکا میں اسلحہ سازی اور بندوق کلب سیاسی طور پر اتنے طاقت ور ہیں کہ قانون ساز ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔

l دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ انسانوں میں بعض فطری بنیادی رجحانات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ایک متعفن معاشرے میں پیدا ہونے ،پلنے بڑھنے کے باوجود بہت سے کھلے ذہن ایسے موجود ہیں، جو کھلے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سڑکوں پر آنے میں تردد نہیں کرتے ۔ یہی وہ ارواح ہیں جن تک تحریک کی دعوت اگر اس حوالے سے پیش کی جائے کہ اسلام کس طرح منافرت اور نسل پرستی کے بت کو، جو چاہے پتھر کے مجسموں کی شکل میں ہر چوک پر نصب ہو ں یا جو انسانوں کے ذہن ، قلب بلکہ خون میں گردش کر رہے ہوں، انھیں چُن چُن کر پاش پاش کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ان کے حقیقی خالق و مالک کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سامراجیت و نوآبادیت کی تاریخ اور اس کے اصل چہرے کو اس کے اپنے مآخذ کی بنیاد پر پیش کرتے ہوئے اسلام کی حیثیت وکردار کو واضح کیا جائے ۔

lتیسری بات یہ ہے کہ اگر مغرب میں ہونے والے اس ردعمل کا تجزیہ کیا جائے تو دو الفاظ کثرت سے استعمال کیے جارہے ہیں، ایک ’افریقی سیاہ نسل کے ساتھ تفریق‘ اور دوسری  Diversity  یا’تنوع کو خطرہ‘ ۔ ان دونوں اصطلاحات کے استعمال کے اندر خود ایسا زہر چھپا ہوا ہے، جو ان کی ظاہری معصومیت سے بالکل واضح نہیں ہوتا۔ یورپ و امریکا کے معاشرے میںتعلیم، معیشت اور مذہب کی جڑیں آج تک نسلی تعصب سے آزاد نہیں ہو سکیں ۔ مغرب کے لادینی جمہوری نظام میں افریقی النسل امریکیوں کو دستوری طور پر تو ووٹ کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ووٹ جسے چاہے دے سکیں، لیکن دو سو سال کی تاریخ میں کانگریس اور سینیٹ میں ہی نہیں عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی افریقی امریکیوں کا تناسب اس اصول کے منافی نظر آتا ہے۔

اگرچہ Diversity یا تنوع بظاہر ایک معقول اصطلاح ہے، لیکن اس کے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ انفرادیت پرستی کو بطور حق تسلیم کیا جائے ۔ چنانچہ ہم جنس پسندی کو ملازمت ، مذہبی قیادت ، قومی اور ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔امریکی سپریم کورٹ نے حال میں تیسری جنس کے افراد کے حق میں فیصلہ دے کر اس اصول کی توثیق کی ہے۔اس Diversity کی اصطلاح کو MDG’sملینیم ڈویلپمنٹ گولزاور پایدار ترقی (Sustainable Development) کے ’سترہ سنہری‘ اصولوں میں اسی غرض سے شامل کیا گیا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ سارے اقدامات کیے جا سکیں، جو بنیادی انسانی اخلاقیات اور خصوصاًالہامی ہدایات کے منافی ہیں اور معاشرے میں اباحیت ، فحاشی اور بد اخلاقی کو پھیلانے کا کام قانون کے تحفظ کے نام پر کیا جاسکے۔ جہاں اس گفتگو کا مقصد منافرت اور نسل پرستی کو شدت کے ساتھ ردکرنا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کرنا ہے کہ مغرب کی طرف سے اس کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ دلیل اخلاق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی اور تحریکا ت اسلامی کو ایسے تصورات سے آگاہ ہوکر اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودیؒ نے سرمایہ دارانہ نظام اور لادینیت کے خلاف ایمان، دلیل اور دانش سے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، آج اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس پروگرام اور دعوت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ افکار ونظریات وقت گزرنے کے ساتھ فرسودہ نہیں ہو جاتے ۔ یونان کے فلاسفہ نے جس ’جمہوریت‘ کو ’حق‘ قرار دیا تھا، جو دراصل ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) ہے اور جس کی بنا پر عالمی طور پر لادینی جمہوریت، سرمایہ دارانہ افراد کی اجارہ داری بن گئی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ افلاطون اور ارسطو کے خیالات فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب ہمیں کسی نئی جمہوریت کی ضرورت ہے یا جو تصورِاخلاق ارسطو اور افلاطون نے پیش کیے، اسے آج تک یہ کہہ کر رد نہیں کیا گیا کہ وہ پرانا ہوگیا ہے بلکہ وہ لذت کا حصول ہو یا خوشی کا حصول یا قوت کا حصول، ان تصورات کو نئے ناموں کے ساتھ جوں کا توں مغربی فکر میں مقدس انداز میں برقرار رکھا گیا ہے۔

ضرورت ہے کہ آج کے فکری معرکے میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ حکمت عملی کو پورے اعتماد کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ تحریکات کا وجود ہی ان کی نظری بنیادکی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی فکری بنیاد سے انحراف کریں یا ہٹ جائیں تو پھر وہ ’مرغ بادنما‘ بن جاتی ہیں، وقتی مسائل کی رو میں بہہ جاتی ہیں، اس طرح وہ مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بھی غافل ہوجاتی ہیں۔

کرونا وائرس کا چیلنج اور تحریک اسلامی

کرونا وائرس کے اثرات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپنی جانب سے تمام تر صحت عامہ کی تدبیروں اور انتظامات کے دعوؤں کے باوجود، وقت کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس وبا کے سامنے بے بس اور ناکام نظر آتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمایش میں تحریک اسلامی کا کردارغیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعوتی توسیع کو عارضی رخصت دے دی جائے، بلکہ ان حالات میں مزید  جوش اور ولولے کے ساتھ روایتی دعوتی طریقوں کو حفاظتی اقدامات اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے دعوتی کام کو وسیع کرنے کا غیبی موقع حاصل ہوا ہے۔

اس وقت عالمی سطح پر اکثر جامعات آن لائن تعلیم دے رہی ہیں۔ ان حالات میں دعوت کے نئے انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غالباً ان افراد کو جو اپنی دفتری یا تجارتی مصروفیات کے بعدوقت کا بڑا حصہ دعوتی سر گرمیوں میں دیا کرتے تھے، اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ کس طرح اپنے طرزِ عمل اور خیالات کے ذریعے تحریکی اور دعوتی فکر اور تعمیر سیرت کے اصولوں کو عملاً فروغ دے سکیں ؟ ان حالات میں خدمت عامہ کے دعوتی کردار کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور تحریکی کارکنوں نے جس خلوص اور قربانی کے ساتھ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ہے ، وہ عبادت کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔

تحریک کو اس صورتِ حال میں نئے ذرائع سے دعوتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ٹی جو بہر صورت جدید تہذیب کا ایک لازمی جزو ہے، اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود انسانی روابط، دعوت کی تو سیع ،افراد کی تنظیم اور دیگر ہرطرح کے مقاصد کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکی ہے ۔ اس صورتِ حال میں عوامی رابطہ ، تربیت کردار وفکر، اور فروغِ دین کے لیے برقی ذرائع کا استعمال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورتِ حال وہی ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ بعض بظاہر شر، پُرخطر اور نقصان دہ چیزیں ایسی ہیں، جن میں اللہ خیر کا پہلو نکال دیتا ہے۔  اس وقت ابلاغی خیر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن دروس قرآن،  آن لائن تربیت ، آن لائن رسائل و جرائد و کتب، غرض ہر وہ کام جو کل تک روایتی ذرائع سے ہورہے تھے، اب وہ برقی ذرائع سے ہو سکتے ہیں اورا س میں کسی تاخیر کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ عوام کی صحت اور طبی امداد کے حوالے سے جو کام جماعت اسلامی شعبہ ہائے خدمت نے انجام دیا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے اور ملک کے گوشے گوشے میں ایسے طبی امدادی مراکز قائم ہوں، جن میں مقامی افراد کو اپنی مدد آپ کے رضاکارانہ جذبے پر ابھارا جائے ،چاہے یہ افراد تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ کسی فرد سے اس کے مکان کا صرف وہ ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر نکلتا ہواور گھر والوں کی ذاتی آزادی میں فرق نہ پڑتا ہو، اس کے تعاون کے طور پر لیا جائے۔ کسی ڈاکٹر سے ہفتے میں ایک دن بغیر کسی معاوضے کے مفلس افراد کی خدمت ، اللہ سے اجر کی بنیاد پر دینے کے لیے کہا جائے۔کسی فرد سے کم قیمت پر ادویات فراہم کرنے کی درخواست کرکے، انھیں عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔اس کام کے لیے کسی بڑے سرمایے یا کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ نیکی کے جذبے سے سرشار سلیم الفطرت افراد سے اچھائی اور بھلائی میں تعاون کی اپیل کرکے حکمت اور دانائی سے محض رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔

 عوام کو اس کام میں شامل کرنا اور انھیں اس خیر کی وسیع مہم کا حصہ بنانا ہی توسیع دعوت ہے۔ لیکن یہ سارا کام صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول اور خدمت خلق کے بے لوث جذبے کی بنیاد پر کیا جائےتو تحریک مخالف بھی خواہش کرے گا کہ وہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے،  لیکن اگر اس کاوش میں کسی قسم کا سیاسی رنگ شامل ہوگا تو پھر اس کے نتائج مختلف ہوں گے ۔

اقامت ِ دین کے لیے ، سیاسی زمامِ کار کی تبدیلی دعوت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے لیکن دعوت کی حکمت عملی اور ترجیحات کا درست اور بروقت تعین ہی دعوت کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے اجتماعی شعور نے ظہورِ اسلام سے آج تک دو صداقتوں کو دل و جاں سے زیادہ عزیز رکھا ہے۔ اوّلاً: زمین پر توحید الٰہی کی علامت بیت اللہ کی مرکزیت اور قبلہ ہونا، اپنی سمت عبودیت، سمت معیشت ، سمت ثقافت اور اندرونی وبیرونی تعلقات کوبراہِ راست بیت اللہ کے مالک کی رضا کا پابند رکھتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے میں توحید خالص کو اختیار کرنا ہے۔ ثانیاً: اپنی زندگی کی تہذیب ، اسے سنوارنے اور بنانے کے لیے عملی نمونہ اور مثال کے لیے صرف اور صرف اللہ کے آخری رسولؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور فیصلوں کو قیامت تک کے لیے حتمی اور سند سمجھنا ہے۔

یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اجتماعی شعور کی موجودگی میں حادثاتِ زمانہ کی بناپر وقتی طور پر اُمت مسلمہ نے کسی بیرونی، فکری یا سیاسی تسلط کی بناپر یونانی فکر اور لادینی تصورات کواختیار کرلیا ہو اور ان بیرونی یا اندرونی گمراہ کن تصورات کی وجہ سے قومیت، لادینیت اور محض معاشی ترقی اس کا قومی ہدف بن جائے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی وہ ترکی ہو یا تیونس یا مصر، اُمت مسلمہ کا اجتماعی شعور وقتی انحراف سے نکلنے اوردوبارہ اپنا قبلہ درست کرنے سے غافل نہیں رہا۔

عصبیت کا  خاتمہ اور نظریاتی اساس

مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کاابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا ۔گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اورصرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی ۔اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہےکہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔یہ صرف مراسم عبودیت ، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز ، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم Nation State یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا ۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے ۔

ریاستِ مدینہ: چند خصوصیات

۱-حاکمیت الٰہی: قرآن کریم نے ریاست کی اولین ذمہ داری اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف میں واضح الفاظ میں ان تمام تصورات کو جن میں بادشاہ کو یا حاکم کو قانون سازی کے اختیارات دیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تابع کردیا ۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) ’’حکومت سواے اللہ کے کسی کی نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔گویا حاکمیت اعلیٰ نہ پارلیمنٹ کی ہے ، نہ عوام کی ، نہ کسی صدر ، وزیر اعظم یا بادشاہ کی، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ قانون کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ پارلیمان صرف اس وقت تک قانون سازی کر سکتی ہے ، جب تک اس کا ہر قانون قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہو۔

۲- مشاورت : ریاست ِمدینہ میں معاملات کے فیصلے شوریٰ کی بنیاد پر کیے جاتے تھے ۔قرآن کریم نے شوریٰ کے انعقاد اور شوریٰ کے نتیجے میں عزم الامور یا اجتماعی راے پر عمل کرنے کو فریضہ قرار دے کر انفرادی راے کو اجتماعی راے کا تابع کر دیا ۔شوریٰ کے دوران اختلاف کرنا اور اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا ہر صاحب راے کا حق ہے لیکن شرکا ے مشورہ کے یکسو ہو جانے کے بعد کسی فرد کو چاہے وہ صاحب ِامر ہی کیوں نہ ہو اپنی راےاراکین شوریٰ پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔اسے اپنی راے کو قربان کر کے اکثریت کی راے کی پیروی کرنی ہوگی۔ قرآن میں خود حضور اکرمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:  وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۝۱۵۹ (ال عمرٰن۳:۱۵۹)’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے تمام معاملات کو انجام دینے کے لیے اس ابدی اصول کو حکم ہی نہیں، ملّت اسلامیہ کے عمل اور نمونے کے طورپر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ،یعنی ان کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں (الشوریٰ۴۲: ۳۸)۔

۳-شریعت کی بالا دستی :ریاست کا بنیادی فریضہ قرآن و سنت کے احکامات کا نفاذ اور ان احکامات کی روشنی میں جدید قانون سازی ہے ۔پارلیمان صرف وہ قانون سازی کر سکتی ہے جو شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔وہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ کسی ایسے قانون کو نافذ کر سکتی ہے ۔

۴- نظام صلٰوۃ  و نظامِ زکوٰۃ: ریاست نظامِ صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنے اور اس کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔

۵-امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ: ریاست معاشرے کی اخلاقی، معاشرتی ، ثقافتی ، تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہر شعبۂ حیات میں معروف اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے اور ہربُرائی کو وہ کسی بھی درجے کی کیوں نہ ہو روکنے کی ذمہ دار ہے۔

۶- فلاح و بہبود اور بنیادی حقوق کی فراہمی:ریاست اپنی حدود میں رعایا کی فلاح کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔وہ ان کی تعلیم، صحت ،غذا، تحفظ ، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گی۔ وہ ایک رفاہی ریاست ہے ، جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہے ۔ وہ کسی فرماں روا کی ملکیت نہیں ہے۔

۷-قانون کی یکسانیت : اسلامی ریاست میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔صدر مللکت ہو یا وزیر اعظم یا ایک یتیم بچہ، قانون ان میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ پچھلی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اعلیٰ طبقاتِ معاشرہ کے لیے الگ اور عام شہری کے لیے الگ قانون استعمال کرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، یکساں ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔

۸- مسؤلیت: اسلامی ریاست میں ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور   تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(بخاری، کتاب الا حکام، مسلم، کتاب الایمان )

۹- مناصب کا امانت ہونا :قرآن نے ریاست کو پابند کر دیا ہے کہ ذ مہ داری صرف ان کو دے جو اس کے اہل ہو ں، اور ایسے ہی عوام کو پابند کر دیا ہے کہ وہ صرف ان افراد کو منتخب کریں جو امانت دار اور اہل ہوں ۔ کسی قسم کی گروہی وابستگی کی بنا پر حمایت کی گنجایش نہیں ہے۔

 ۱۰- نظام احتساب : اسلامی ریاست نظام احتساب، یعنی حسبہ کے قائم کرنے کی ذ مہ دار ہے ۔ جس کا کام پیمانوں کا احتساب ، مال کا خالص ہونا ، قیمتوں کا مناسب ہونا ، راہ داری کا کھلا ہونا، بازاروں میںامن و عدل کا قیام ، صارف کے حقوق کا تحفظ اور ساہوکار پر نگاہ رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ وہ اہم کام ہیں جو حسبہ کے تحت دور نبویؐ سے ریاست نے انجام دیا۔

۱۱- نظامِ عدل کا قیام :ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عادلانہ فیصلوں کا اہتمام کرے۔ چنانچہ عدلیہ کا قیام، قاضی کا تقرر اور اس کے فیصلوں کا نفاذ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔

۱۲- مناصب کی طلب پر گرفت : ریاست کی ذمہ د اری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو منصب پر فائز نہ ہونے دے جو اس منصب کا طلب گار ہو۔امانت اور للہیت کے اصولوں کو قائم کرنا اور منصب طلبی، حصولِ اقتدار کی خواہش کرنے کو ختم کرنے کا نظام قائم کرنا ہے۔

۱۳- آزادی راے اور آزادی اختلاف:مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر شہری کو ریاستی معاملات میں اپنی راے دینے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کا حق حاصل تھا ۔ ایک عام خاتون سربراہ ریاست سے پوچھ سکتی تھی کہ وہ کس بنیاد پر یکساں مہر کا نفاذ کرنا چاہتا ہے ؟اس خاتون کا استدال  یہ تھا کہ قرآن مہر کی رقم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈھیر سا مال بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عمرؓ سنت رسول ؐکی پیروی کرتے ہوئے وہ مہر جو نبی کریمؐ نے امہات المومنینؓ کے لیے پسند فرمایا، اسی مہر کی رقم کو سب کے لیے مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک صحابیہؓ کے سر عام ان کو قرآن سے دلیل دینے پر وہ بغیر کسی حجت اور بحث کے اپنی راے سے دستبردار ہو گئے۔

اسلامی فلاحی ریاست کا نمایاں پہلو: تصورِ امانت

مدینہ کی اسلامی ریاست کی ان چند خصوصیات کے ساتھ اب ہم ریاست مدینہ کے ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا چاہتے ہیں ، جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے تصورِ امانت ۔

ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو تصورِامانت ہے ۔”ا م ن “سے ماخوذ اس قرآنی اصطلاح کا معنی قابل اعتبار ، اعتماد اور وفادار کے ہیں، اور ہم عام طور پر اس سے روز مرہ کے اقتصادی مالی معاملات مراد لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص بددیانتی یا کمی بیشی نہیں کرتا تو ہم اسے امانت دار سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے:

فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ۝۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۳) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔

اسی پہلو کو دیگر مقامات پر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔

 امانت کے وسیع تر مفہوم کی طرف اشارہ کرتےہوئے قرآن کریم اہل ایمان کی صفات میں سے امانت کو ایک بنیادی صفت قرار دیتا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲۠ۙ  (المومنون۲۳:۸)’’اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ یہی مضمون المعارج (۷۰:۳۲) میں دُہرایا گیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو امانت کی تشریح خود قرآن کریم سورۃ النساء میں یوں کرتا ہے:  اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ……اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸  (النساء۴:۵۷-۵۸) ’’مسلمانوں اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو… اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔

 دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ (النساء ۴:۵۹) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی ، اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔

یہاں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ امانت اس کے مستحق کے حوالے کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم (امر)ہے ۔اس حکم کی پیروی کے لیے ضروری ہو گاکہ اولاً امانت داری کے معیار کو متعین کر لیا جائے اور پھر اس فرد کو جو اس پیمانے پر پورا اترے، وہ امانت حوالے کی جائے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے کائنات، زمین اور پہاڑوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہدایت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا ۔کیوں کہ پہاڑوں اور زمین کو علم تھا کہ ان میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی کمی ہے اور اس بنا پر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکیں گے (الاحزاب ۳۳:۷۲)۔ پہاڑوں کی معذرت سے یہ اصول واضح ہو گیا کہ اگر ایک شخص کو کوئی امانت سپرد کی جارہی ہو اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے بارِ امانت کو صحیح طور پر نہیں اٹھا سکے گا، تو اسے وہ امانت قبول نہیں کرنی چاہیے۔اس تناظر میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی اس حدیث کے مفہوم پر غور کیا جائے جس میں فرمایا گیا ہے:’’اس کا ایمان نہیں جوامانت دارنہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جوعہد کا پابند نہیں‘‘ (مسند امام احمد، حدیث:۱۲۳۲۴)۔

سورۃ النساء(۴:۵۶-۵۹)میں دی گئی ہدایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امانت اور عہد میں کتنا قریبی تعلق ہے اور دونوں ایمان کے مظاہر ہیں ۔ایمان کا اظہار ایک جانب دی گئی ذمہ داری کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے سے ہوتا ہے، اور دوسری جانب جس کسی کو ذمہ دار بنایا جائے اگر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یقینا اس سے بڑھ کر اور کوئی محرومی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص دنیا اور آخرت دونوں کو کھو بیٹھے ۔

فقہاکا اس بات پر اتفاق ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور ووٹ کا حق دار کو دیا جانا ہی اس امانت کا ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عام مشاہدہ ہے کہ ووٹ دینے اور ووٹ طلب کرنے والا دونوں ہی اس کے دینی اور شرعی تقاضوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں ۔

منصب چھوٹا ہو یا بڑا، ایک امانت ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک تعلیمی ادارے کی سربراہی کے لیے ایک ایسےشخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس میں انتظامی ، مالی اور تادیبی امور کو سمجھنے اور یکسوئی اور اعتماد سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، تو نہ صرف منتخب کرنے والے بلکہ وہ فرد خود بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گاکہ اس نےوہ ذمہ داری کیسے قبول کر لی جس کی صلاحیت اس میں نہیں پائی جاتی تھی ؟

امانت ،عہد اور عدل جن کی طرف مندرجہ بالا سورۂ نساء اور المؤمنون کی آیات نشان دہی کرتی ہیں، اپنی وسعت کے لحاظ سے حالیہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر کسی تنظیم میں داخلے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک شخص حلال و حرام کے فرق کو سمجھتا ہے اور مالی معاملات میں جس حدتک ممکن ہو منکر کا ارتکاب نہیں کرتا، تو اپنی تعداد میں اضافے کی خواہش کے باوجود صرف    ان کو تحریک میں شامل کیا جانا چاہیے جو حرام سے مکمل اجتناب ہی نہ کرتے ہوں بلکہ مشتبہ اُمور سے بھی اجتناب کرتے ہوں۔ گویا ان اُمور سے بھی جو حلال و حرام کی سرحد پر ہوں جنھیں ہم عموماً گرے ایریا (Gray Area)کہتے ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاتے ہوں ۔ حدیث نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ گرے ایریا ہی ہمیں حرام کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس لیے نظامِ تربیت سے گزارنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بجائےتعداد بڑھانے کے تطہیرِ فکر کے ساتھ تعمیرِ سیرت پر توجہ دی جائے، تاکہ ایک تربیت یافتہ فرد کا تحریک میں اضافہ دس غیر تربیت یافتہ افراد کے اضافے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک ہو یا حکومت، ہر ایک کے پاس ایک جامع نظام تربیت ہونا چاہیے، جس سے گزرے بغیر کوئی ایسا فرد ذمہ داری کے مناصب پر فائز نہ ہوسکے جس کی فکر اور سیرت میں کمزوری پائی جاتی اور جو دیانت اور صلاحیت ہردو اعتبار سے معیارِ مطلوب پر پورا نہ اُترتا ہو۔

اسی طرح کسی عہدے کی طلب یا کسی عہدے پر کسی کو لانے کے لیے راے عامہ ہموار کرنا بھی اسلامی ریاست مدینہ کی روایات و ضوابط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔کسی عہدے کی خواہش کرنا اس سے بھی بڑھ کر ظلم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے :’’اللہ کی قسم! ہم اس کام کی نگرانی پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرسکتے، جو اسے مانگتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘(صحیح ابن حبان، کتاب البر ، باب الخلافہ والامارہ)۔ یہی وجہ ہے کہ دور خلافت راشدہ میں لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگتے تھے اور کسی عہدے کی طلب نہیں کرتے تھےاور اگر ان پر کوئی ذمہ داری اس کی خواہش اور طلب کے بغیر ڈال دی جاتی، تو اس کے مطالبات کو پوراکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کا مقصد ذمہ داری کے حوالے سے سہولیات اور status کا حصول کبھی نہیں ہوتا تھا ۔اس احساس ذمہ داری اور احتساب و جواب دہی کی بنا پر اقربا پروری کا امکان تھا ، نہ دوست نوازی کا۔ مناصب کی طلب کی بجائے ان سے دُور رہنے کی خواہش ان میں بے لوثی پیدا کرتی تھی اور عہدے کی طلب اور ذاتی نمودونمایش کے جذبات کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ امانت ، عہد اور عدل، وہ تین بنیادیں ہیں جو احساس ذمہ داری کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان میں کمی تنظیم میں انتشار فکری اور گروہ بندی کو ہوا دیتی ہے۔

مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے کے مطابق آج کے دور میں سوسائٹی اور ریاست کے قیام کے لیے فرد کی اصلاح، معاشرے کی اخلاقی تعمیر اور حکومت، ریاست اسلامی کے تمام اداروں اور پالیسیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد ، معاشرہ اور ریاست، ہرسطح پر اسلامی تعمیرنو کو ایک تحریک کی شکل میں انجام دیا جائے۔ اس اخلاقی تعمیر کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انابت الیٰ اللہ ہے___ اللہ کی طرف پلٹنا، رجوع کرنا ، اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کے سامنے حاضری کی تیاری کرنا!

قرآن کریم اپنے بارے میں جونام استعمال کرتا ہے ان میں الکتاب کے ساتھ ، الہدیٰ، ذکریٰ ، الفرقان ،البرہان، البیان، سب ہی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو حق و باطل کے فرق کو بین اور واضح کر دیتی ہے ۔الفرقان ظن ، گمان اوروہم سے مکمل طور پر نجات دلاکر دل و دماغ کو ایمان اوریقین سے منور کر کے عین الیقین کی کیفیت پیدا کرتا ہے، تاکہ کلام عزیز کا ہر طالب علم اس عظیم ہدایت پر مکمل اعتماد کے ساتھ ذہن کو شک و شبہہ سے پاک کرکے عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن کریم اہل ایمان کو بار بار متوجہ کرتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۝۰ۭ (النساء۴:۱۳۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔
یعنی ایک مرتبہ شہادت حق دے کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانا کافی نہیں، بلکہ خود ان کو بھی جو خود کو صاحب ِایمان کہتے ہیں بار بارایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایمان کا براہِ راست تعلق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اس لیے ہر لمحہ ایمان کو تازہ کرنے کے لیے قرآن و سنت کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل ہی ہمیں صراط مستقیم اور ہدایت پر قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک مرتبہ زبانی شہادت دینا کافی نہیں، بلکہ ہرلمحے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا عمل کس بات کی شہادت دےرہا ہے اور ہماری ترجیحات میں اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ؐکی ترتیب کیا ہے؟ ہمارے گھریلو معاملات ہوں، تلاش معاش ہو یا اقامت دین کے لیے سیاسی سرگرمی میں شرکت ہو، ان سب معاملات میں کہاں تک ان کا حوالہ صرف اور صرف اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی اطاعت اور وفاداری ہے۔
مسلمان اور مومن کے ایمان کو جانچنے کے لیے قرآن نے چار عملی صورتوں کا ذکر کیا ہے: اس کے ایمان کی شہادت اورایمان کے وجود کا ثبوت، اس کی صلوٰ ۃ ،قربانی اور مراسمِ عبودیت، نیز اس کی زندگی اور موت___ ان سب کا مقصد اگرصرف اللہ کی رضا کا حصول ہے تو ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز ، اپنی قربانی ، اپنی زندگی اور اپنی موت کو صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے خالص کر دے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (الانعام ۶:۱۶۲) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔
حق وباطل کو واضح کر دینے کے ساتھ قرآن کریم اہل ایمان اور کفار و مشرکین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بھی وضاحت سے سمجھاتا ہے۔ شرک سے مکمل اجتناب کے ساتھ مشرکین کی کفر میں شدت کی بنا پر ان سے مایوس ہوکر انھیں ان کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ مستقل طور پر دین کی دعوت حکمت کے ساتھ دے کر انھیں عذاب سے بچانے اوراللہ کی رحمت کے سایے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ یہ مسلسل دعوتی عمل زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر حالت میں کیا جائے گا۔ دعوتِ دین دینے اور اگر حصول مقصد میں حضرت نوح علیہ السلام کی طرح نو سو سال مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی منزل کا حصول نہ ہو سکا ہو ،جب بھی داعی کی اصل کامیابی اس کا خلوصِ نیت کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوتِ کار کو اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دینا ہے۔ اس کے بعد اگر اپنی خصوصی رحمت سے ارحم الراحمین دنیا میں کامیابی دے دے تو یہ صرف اس کا فضل ہے ورنہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی کا وعدہ ہے۔ سالہا سال کی جدوجہد، دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی میں کسی قسم کی مداہنت اور کفر و شرک کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا ۔ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کا بنیادی دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ مخالف کے طرزِ عمل سے قطع نظر اہل ایمان اپنا دعوتی فریضہ ہر حالت میں ادا کرتے رہیں ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ انھیں کب کامیابی سے نوازتا ہے؟ یہ اس کے طے کرنے کا معاملہ ہے۔ تمام انسانی اندازے قیاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
اقامت دین کی جدوجہد میں مشکلات ،مصائب اور رکاوٹوں سے گھبرانے یا ان سب کے نتیجے میں مایوس ہونے اور مطلوبہ نتائج میں تاخیر کی بنا پر اپنی دعوت اور طریقۂ کار پر شک و شبہہ کا کوئی امکان اسلام میں نہیں پایا جاتا۔استقامت کا مطلب ہے کہ دعوت ہر صورت حال اور ہرمرحلے میں جاری رکھی جائے۔ مکی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مخالفت اور دعوت کو رد کرنے کے باوجود ابو جہل ، عتبہ اور دیگر سردارانِ قریش کو دعوتِ دینا معطل نہیں کیا تھا اور نہ اپنے طریقۂ دعوت پر شک وشبہہ محسوس کیا، بلکہ ہر ممکن موقعے کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے استعمال فرمایا۔

طاغوت اور کفر کا ایک ملت ہونا 

قرآن کریم حق وباطل کے معرکے میں طاغوت اور کفر کی قوتوں کو حزبِ شیطان اور ملت ِواحدہ سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے مقابل حق کی قوتوں کو بنیان مرصوص، یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے تعبیر کرتا ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ منکر کو مٹانے کے لیے اہل ایمان کو بھی ایک منظم جماعت کی شکل اختیار کرنی ہوگی، یعنی شہادت ِحق کے لیے تعمیر کردار کے ساتھ تنظیمِ افراد بھی مطلوب ہے۔ طاغوتی جماعت کی کثرت کے باوجود حق پر مبنی جماعت اپنی قلت تعداد کے باوجود منکر کے ساتھ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کرے گی۔ 
تحریک اقامت ِدین ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و سنت سے اخذ کردہ عالم گیر اصول ہیں۔ اس بنا پر یہ وقت کے ساتھ اپنی بنیادی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ تاہم، دعوتِ دین کے ابلاغ واشاعت کے لیے ان تمام اسالیب اور طریقوں کو استعمال کر سکتی ہے، جو ہردور میں حاصل ہوں، البتہ وہ اس کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہوں،مثلاً سوشل میڈیا کا استعمال، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیغام کی اشاعت ، غیر اسلامی تنظیموں یا افرادسے مکالمہ اور مذاکرہ وغیرہ۔لیکن ابلاغ کے وہ ذرائع جو شخصیت پرستی کی طرف لے جائیں، یا جو دوسروں کی نقالی کرتے ہوئے اختیار کیے جائیں، جس میں اختلاف کے باب میں اخلاقی اصولوں اور آداب کا لحاظ نہ رکھا جائے، مثلاً اسٹیج پر گانے بجانے کا استعمال یا خطابات میں تضحیک آمیز انداز میں دوسروں کا تمسخر اڑانا، انھیں بُرے القاب سے یاد کرنا وغیرہ۔ ان سب طریقوں کی تحریک اسلامی میں کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ سورئہ حجرات نے واضح طور ان چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔قولِ لیّن (نرمی سے گفتگو) قرآن کریم کا وہ حکم ہے جسے انبیا ؑ اور ان کے ماننے والوں پر فرض کر دیا گیا ہے۔دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ اپنی بات دلوں میں اتارنے کے لیے نرم گفتاری اور بے لوثی کے ساتھ کام کیا جائے اور بھلائی کے کاموں میں نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم کے ساتھ بھی تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اُدْعُ   اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ ط (اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ النحل ۱۶:۱۲۵)  ہی تحریک اسلامی کا شعار اور اس کی پہچان ہے۔

نیکی کے کام میں تعاون

قرآن کریم حکمت ِدعوت کے پیش نظر حق و باطل میں امتیاز کی وضاحت کے ساتھ ایسے معاملات میں جہاں بر، نیکی ، تقویٰ اور بھلائی کو تقویت پہنچتی ہو صرف نیکی کی حد تک غیر مسلموں سے بھی تعاون کی اجازت دیتا ہے: 
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲)جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ 
دعوت و اصلاح کے لیے اگر ایسا مرحلہ درپیش ہو کہ قوت نافذہ داعیان حق کے ہاتھ میں نہ ہو اور مستقبل قریب میں اتنی اکثریت حاصل کرنا کہ تحریک خود بعض اصلاحات نافذ کر سکے ممکن نظر نہیں آ رہا ہو، تو کیا جو نظام موجود ہو اس پر صرف گرفت کافی ہو گی یا خود اس نظام کے زبانی دعوؤں کو بنیاد بنا کر برسراقتدار جماعت کی نظریاتی امداد، اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم ، ابلاغ عامہ ، صحت، معیشت اور معاشرت میں اصلاح کا منصوبہ بنا کر فراہم کیا جانا مصلحت عامہ کا تقاضا ہو گا، تاکہ اتمامِ حجت کردیا جائے۔ گو، اس طرح کے تعاون میں دنیا میں اس کا کوئی اجر (credit) حاصل نہ ہو۔ 
تفصیلات میں جائے بغیر حضرت یوسف علیہ السلام کا اصلاحِ احوال میں اپنا کردار ادا کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’حلف الفضول‘ کے حوالے سے مشرکین کے ساتھ تعاون کرنے کی خواہش کا اعلان فرماناظاہر کرتا ہے کہ اختلافات کے باوجود بعض متعین بھلائی کے کاموں میں اشتراکِ عمل کیا جا سکتا ہے ۔پاکستان کے تناظر میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مروجہ سیاسی نظام ایسا ہو کہ اس میں مستقبل قریب میں زمامِ کار تحریک کے ہاتھ میں آنا ممکن نظر نہ آتا ہو، تو کیا حزبِ اقتدار کے بھلے عناصر کے ساتھ تعاون کا راستہ تلاش کر کے برسرِ اقتدار گروہ کے ذریعے اصلاحات کے نفاذ کی کوشش وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى کی ایک شکل ہوگی؟ اوریہ جاننے کے باوجود کے ان اصلاحات کا تحریک کو کریڈٹ نہیں ملے گا  ، کیا ایسا کرنا دعوتی حکمت عملی ہوگی؟ اگر مکمل نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تحریک کے پاس انسانی ، معاشی اورسیاسی وسائل موجود نہ ہوں، تو کیا برسرِاقتدار جماعت کے ذریعے حالات میں تبدیلی لانے کا عمل مصلحتِ عامہ کے اصول پر عمل ہو گا؟کیا اس طرح کا تعاون تحریک کی اصلاحی اور دعوتی تصویر کو بہتر بنائے گا اور طویل دورانیے میں تحریک کو اس کا سیاسی فائدہ ہو گا ؟
تحریک کو ان سوالات پر غور ضرور کرنا چاہیے کیونکہ تحریک کا مقصد نظامِ زندگی کی اصلاح ہے۔ اگر مکمل نظام کی تبدیلی قریب المعیاد نگاہ میں مشکل نظر آرہی ہو، تو جزوی تبدیلی سیاست شرعیہ، مصلحتِ عامہ اورکم تر خرابی پر عمل کے اصول کے پیش نظر اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔

نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت

داعی کا دعوتی اسلوب خود حق وباطل ، ہدایت اور گمراہی ، شرک و توحید ، بندگیِ نفس اور بندگیِ رب میں فرق کو واضح کر دیتا ہے اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب اہل ایمان اپنے آپ کو دیگر انسانوں سے کاٹ کر الگ ہو کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ انھیں خیر خواہی کے ساتھ ہدایت و فلاح کی طرف بلاتے رہیں (الدین نصیحہ، رواہ مسلم، دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے)۔ اس کام میں شارع علیہ السلام کی قائم کی ہوئی تدریجی حکمت عملی اہمیت رکھتی ہے ۔ یعنی کلمۂ حق، دعوت خیر و فلاح و سعادت صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو ،اللہ کے رسولؐ کے لیے ہو، اور پھر جو صاحب ِامر ہوں ان کی اور عامۃالمسلمین کی اصلاح اور مصلحت عامہ کے لیے ہو۔
دعوت اسلامی کے علَم برداروں بلکہ عام کارکنوں کی بھی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طاغوت اور کفر و شرک کے خلاف شدت کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں۔ بلاشبہہ ایمان اور کفر میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی ، لیکن اسلام کی دعوت کا مزاج مخالف کو اپنی قوت سے شکست دینے کی جگہ دلیل کی قوت اور نرمی ومحبت سے دل جیت کر دائرہ اسلام میں شامل کرنے کا ہے ۔اس لیے دعوت کی زبان میں شدت کی جگہ نرمی اسلام کا شعار ہے ۔ رب کریم نے حضرت موسٰی کو واضح ہدایت فرمائی:
اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝۴۳ۚۖ  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴ (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۴) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
فن خطابت اور سیاست کاری کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کس طرح مخالف کو دباؤ میں لاکر گفت و شنید پر آمادہ کیا جائے ۔ قرآن کریم غور و فکر اور آیاتِ کائنات اور اپنے وجود پر غور کی دعوت دے کر ہمدردی کے ساتھ نصیحت اور تذکیر کا اسلوب اختیار کرتا ہے ۔اس لیے اسلام کا داعی اور کارکن اپنے مخالف کو تضحیک واستہزا کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ وہ اسے چور اچکا کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا ،گو زبان کے ذریعے دعوت ایک معروف طریقہ ہے لیکن قرآن کریم اس سے بھی زیادہ مؤثر طریقے کی طرف متوجہ کرتا ہے، یعنی اپنے عمل کے ذریعے دعوتِ دینا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ (الصف ۶۱:۲-۳)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
 اس آیت کی روشنی میں دعوت کا بہترین اسلوب ایک داعی کا اپنا طرز عمل ہے کہ وہ اپنی سیرت وکردار سے کیا پیغام دے رہا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے داعی کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ جس بات کی دعوت دیتا ہے اس پر پہلے خود عمل کر کے اس کے قابلِ عمل ہونے کو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر تا ہے ۔
عملی شہادت ہی دعوت کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اپنے آخری خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر تمام حاضرین سے یہ شہادت لی تھی کہ آپؐ نے اپنے عمل و کردار کے ذریعے کیا اس علمِ ہدایت اور پیغام کو پہنچا دیا جو بطور امانت آپ کے سپرد کیا گیا تھا؟

فریضۂ اقامت دین ہی تحریکات اسلامی کے وجود کا سبب ہے اور اس کی صحیح ادایگی ہی آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔دین کا مذاق اڑانے والوں اور کفر وشرک کے علم برداروں کو دعوت الیٰ اللہ دینا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاہم، مخالفین کو کس طرح مخاطب کیا جائے؟ اس سلسلے میں قرآنی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ کس طرح طاغوت کے نمایندہ کے ساتھ بھی قول لیّن اختیار کیا جائے ۔ شرک ظلم عظیم ہے۔اس کاردّ پوری قوت سے کیا جائے اور منکر کو مٹانے کے لیے اپنی تمام قوت لگا دی جائے، لیکن مشرکین کے خداؤں کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا جائے جو انھیں مشتعل کرکے نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے پر اُبھار دیں۔ دین ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم مخالفینِ دعوت کو بھی بُرے القاب سے نہ پکاریں۔ ان ہدایات پر عمل ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
 قرآن کریم ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز کرتا ہے ، اس میں دانشمندی ، حکمتِ دعوت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور دین مداہنت، موقع پرستی اور تجاہل عارفانہ کو ناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس کا اصل ہدف کفر و شرک ، گمراہی اور ضلالت ہے،کسی کی ذات نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فرد کو برائی سے نکال کر غم گساری اور نرمی کے ساتھ حقیقی کامیابی سے روشناس کرادے۔یہ کام فرد کوہدف اور نشانہ بنا کر نہیں ہو سکتا۔اس میں فرد کی جگہ نظام پر گرفت و تنقید اور متبادل نظام کا پیش کیا جانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔قرآن کریم اپنی دعوت کا آغازباطل نظام کی نفی سے کرتا ہے اور متبادل نظامِ عبودیت کو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کر کے برہانِ قاطع کی حیثیت سے اپنی بات کو انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام کا اصل کارنامہ کوئی فلسفیانہ نظام پیش کرنا نہیں تھا بلکہ ایسی قابلِ عمل اخلاقی، معاشرتی، سیاسی ، ثقافتی تعلیمات کا پیش کرنا ہے جن کی عملی تفسیر داعی کی ذاتی زندگی ، گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعلق ، پڑوسی کے حقوق کا ادا کرنا ،حتیٰ کہ راستے کے حقوق پر عمل کرنا کہ راستے تک میں کوئی غلاظت اور رکاوٹ نہ ہو، جس سے راہگیر پریشان ہوں۔ تجارت میں کس طرح حلال و حرام میں تمیز، صارف کے ساتھ رویہ، غرض تجارتی، معاشرتی ،سیاسی معاملات میں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جانا ہے۔
گویا اسلامی نظام حیات ایک جانب کفر اور شرک پر مبنی نظام پر سخت فکری تنقید کرتا ہے اور دوسری جانب عملاً ایک متبادل نظام کو خاندان اور معاشرے میں نافذ کر کےمعروف اور نیکی کی برتری کو ایک قابل محسوس شکل دے دیتا ہے۔

فرد اور نظام میں فرق

قرآن و سنت کی تنقید و احتساب کا ہدف باطل نظام ہے ۔ لیکن باطل نظام میں بھی ایسے پاک نفوس پائے جاسکتے ہیں جن کو دعوتِ حق حکمت اور محبت سے دی جائے تو دائرۂ حق اور اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ یہ کام طنز، طعن اور تضحیک یا تحقیر سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لیے اعلیٰ ظرف کے ساتھ دعوتِ حق دینے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور وہ تحریکِ اسلامی کے پرچم تلے آنے میں رکاوٹ محسوس نہ کریں ۔ اس کام میں شفقت ، رحمت، عفو و درگزر اور اللہ کے لیے مخالفین کے ہر ظلم کو بھلا دینا ہی دعوت کی حکمت عملی ہے۔ 
اسلام اور کفر و ظلم کے مقابلے میں دین کا مدعا کسی فریق کو شکست دے کر چت کر دینا نہیں ہے، بلکہ فریقِ مخالف کے دل کو جیتنا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی اَنا کی بنیاد پر بہت سے معاملات میں عقل کے خلاف کام کرنے میں بھی حرج نہیں محسوس کرتا ۔داعی کا کام یہی ہے کہ وہ مخالف کی مصنوعی اَنا کو مجروح کیے بغیر، اسے نشانۂ تضحیک و تذلیل بنائے بغیر اپنی وسعت قلب کے ساتھ دائرہ حق میں ظلمات سے نور کی طرف لے آئے۔ دین اپنی تعلیم و فہم کے ذریعے دین کی دعوت کی عظمت و حقانیت سے آگاہ کرتا ہے اور ایسے افراد بھی جو صدیوں سے اپنی برادری کی عظمت اور چودہراہٹ کے شکار رہے ہوں داعی کی ہمدردی ، غمگساری اور محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ وہ اہل مکہ جو اپنی قبائلی عصبیت و برتری اور معاشی خوش حالی اور مذہبی قیادت کے سہ آتشہ نشے اوررعونت کےشکار تھے ۔ ایسے اَنا زدہ افراد بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، نرمی، عفوودرگزر کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکے ۔آج تحریکات اسلامی کو یہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قول لَیِّن ہی وہ برہان قاطع ہے ، جس سے دلوں کی دنیا فتح کی جاسکتی ہے اور جس کی تعلیم خود خالق کائنات نے اپنے انبیا ؑکو دی ۔
انبیاے کرامؑ کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ مشرکین کے بتوں کو اور مشرکین کو سخت الفاظ سے مخاطب کرتے اور انھیں چور، ڈاکو ، قاتل ، شیطان جو چاہتے کہتے اور ان کا یہ کہنا نامناسب بھی نہ ہوتا۔ –اس کے برخلاف انبیاے کرامؑ نے اور خصوصاً نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی انسانیت کو بنیاد بنا کر بار بار انھیں دعوت کی طرف متوجہ کیا ۔ قرآن کریم کی یہ دعوتی نفسیات انبیاے کرامؑ کے طریق دعوت کاحصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کل تک جو اپنے ظلم ، جہل اور گمراہی کی بنا پر طاغوتی تھا، دین کی دعوت اور نصیحت نے اسے اللہ کا مددگار بنا دیا اور جان کے دشمن، جاں نثاروں میں تبدیل ہوگئے۔
دعوتِ قرآن نے جس شدت کے ساتھ جاہلیت ، استحصا ل ،ظلم اور کفر کو رد کیا وہیں اس سے زیادہ دلیل کی قوت کے ساتھ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی ،انفرادی ، مالی اور سیاسی تزکیہ کے اصول پیش کر کے ایک مکمل متبادل نظامِ حیات سامنے لا کر رکھ دیا کہ اس نور و ہدایت کی وجہ سے ظلمتِ کفر و شرک سکڑنے پر مجبور ہو جائے ۔حق آجائے اور باطل کوقطعی شکست ہو جائےکیونکہ باطل تو شکست کھانے ہی کے لیے ہے۔ چنانچہ نور حق کفر و شرک پر غالب آگیا اور ایک قابل محسوس اسلامی معاشرہ ، اسلامی خاندان ، اسلامی تجارت و معیشت و کاشتکاری ، اسلامی نظامِ عدل، اسلامی بین الاقوامی قانون کے وجود نے باطل نظام کو ایک اعلیٰ اخلاقی نظام سے تبدیل کر دیا۔

غیرمتعصبانہ رویہ اور تعمیری کردار

تحریکات اسلامی کے لیے ایک قابل غور امر یہ بھی ہے کہ طویل عرصہ حزبِ اقتدار پر تنقید و احتساب کرتے کرتے اس کا اپنا طرزِ عمل کہاں تک غیر متعصبانہ رہا ہے کہ وہ پانی کے نصف بھرے گلاس کو ہمیشہ نصف خالی قرار دے یا نصف بھرا ہوا؟دعوت کی نفسیاتی حکمت یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی معمولی سی خیر پائی جائے ، اس خیر کو بنیاد بنا کر اس کی ہمت افزائی کر کے برائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اسی کا نام مثبت تعمیری فکر ہے جو تحریک اسلامی کا امتیاز ہے اور جو قرآن بار بار یا ایھا الناس کہہ کر ہمیں یاد دہانی کراتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ روایتی حزب اختلاف کے طرز عمل سے ہٹ کر ہم اپنی پہچان حق گو جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرائیں۔ اس طرح ہماری بات میں مزید وزن اور اہمیت پیدا ہو گی۔
 اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تعمیری طرز فکر کے ساتھ تحریک اپنا منشور صرف انتخابات کے زاویے سے نہیں، بلکہ اپنی تعمیری تجاویز کو عملی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی بنیاد پر مرتب کرے۔ نیز حزبِ اقتدار کو بھی ان امور کو نافذ کرنے کی دعوت دے کیوں کہ تحریک کا مقصد اور ہدف اپنی ذاتی کامیابی کا سرٹیفکیٹ لینا نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں اسلام اور اسلامی نظامِ عدل و انصاف کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہے۔ اگر یہ کام کسی اور کے ہاتھ سے ہو جائے تو یہ بھی تحریک کی کامیابی ہے۔ اگر اسلامی نظامِ معیشت ، معاشرت ، ابلاغ عامہ وغیرہ کا نفاذ حزبِ اقتدار کر دیتی ہے، تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ تحریک اسلامی کی شکست ہو گی یا کامیابی ؟

عملی مثالیں قائم کرنے کی ضرورت

اپنے اہداف کے حصول کے لیے تحریک اسلامی کو کسی ایک لگے بندھے طریقے کا پابند نہیں ہونا چاہیے، بلکہ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ عدل کے قیام کے لیے ہر ممکنہ ذریعے کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس عمل کے دوران جہاں کہیں اسے معمولی سا اختیار بھی حاصل ہو، اس چند میٹر رقبے پر خود اسلامی نظام کو قائم کر کے عملی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔ مثلاً اگر کسی یونین کونسل میں تحریک کا اثر ہے اور تحریک وہاں سڑکوں کی صفائی ، صاف پانی کی فراہمی ، دکانوں پر ناپ تول کے نظام کی درستی کے لیے اقدامات ، فحاشی کے مراکز کاخاتمہ ، اسکولوں میں بچوں کی صحت اور تعلیم کے معیار کی بہتری کا اہتمام کر لیتی ہے، تو یہ نیکی کے چند قابل مشاہدہ جزیرے اسلامی نظام پر طویل اور مدلل تقاریر سے زیادہ مؤثر دعوتی پیغام پہنچا سکتے ہیں ۔دعوتی کام کا یہ طریقہ صرف ان مقامات تک محدود نہیں ہے جہاں تحریک کا کوئی اثر پایا جاتا ہو، بلکہ ان مقامات پر بھی جہاں اس کے متاثرین کی اکثریت نہ ہو۔ کراچی میں بلدیہ کے تحریکی میئر نے جس خلوص اور توجہ سے اصلاحات کیں، ان کا اعتراف تحریک کے مخالفین نے بھی کیا اور عوام کو اعتماد ملا کہ اگر وہ اپنا ووٹ صحیح افراد کو دیں تو ملک میں اصلاح ہو سکتی ہے۔
دعوت وہ نرم قوت (soft power) ہے جو سنگلاخ چٹانوں کو موم کی طرح نرم بنا سکتی ہے۔ قرآن کریم نے جہاں شقاوت قلب کا تذکرہ کیا ہے وہاں خشیت قلبی کو بھی بیان کیا ہے اور خاشعین ہی کو اپنا انسانِ مطلوب قرار دیا ہے ۔ تحریک کے کارکنوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ

وہ کس طرح ہر ممکنہ صورتِ حال (opportunity ) کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی جب صاحبِ اختیار اسلام کی تعلیمات کے نفاذ کا زبانی وعدہ کررہے ہوں۔کیا ان کی نیت پر شک کا اظہار کیا جانا ضروری ہے؟ جہاں احتساب ضروری ہے، وہیں یہ بھی مطلوب ہے کہ ایک ظاہر بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تحریک کی جانب سے ایسی تجاویز کو باقاعدہ منصوبۂ عمل کی شکل میں پیش کر دیا جائے    جس کے نفاذ سے ملک میں اسلامی نظام عدل کے قیام کا امکان بڑھ جائے۔ –تحریکات اسلامی نے اس حکمت عملی کو مصر ،سوڈان اورترکی میں جزوی طور پر اختیار کیا ۔اس پہلو سے تنقیدی جائزے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے تناظر میں مکمل تبدیلیِ نظام کی جدوجہد کرتے ہوئے تبدیلی کے لیے متعین دائروں میں کون سی اصطلاحات کی جاسکی ہیں ان کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ بالفرض     یہ پُرخلوص کوشش کسی بناپر مطلوبہ نتائج پیدا نہ بھی کرسکے، تو تحریک عند اللہ جواب طلبی سے اپنے  آپ کو بچا سکتی ہے کہ جو اس کے اختیار میں تھا اس نے اس میں کوئی کمی نہیں کی۔
معروف کے قیام ، بر اور تقویٰ کے حصول کے لیے جو کوشش بھی رضاے الٰہی کے لیے کی جائے گی وہ ربِ کریم کےعلم میں ہوگی۔ اس کا مقصد نہ کوئی کریڈٹ لے کر سیاسی کامیابی ہوگی، نہ یہ دعوتِ اسلامی کے طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ حکمت دعوت کے قرآنی اصول کی تطبیق اور اتمامِ حجت کی ایک شکل ہوگی۔ اس حکمت عملی کے ذریعے مصلحت عامہ کا حصول، دعوت کی کامیابی اور اس کی اصولی فتح ہوگی کہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی اس نے پیشہ ور حزبِ اختلاف کی جگہ قرآنی اصول پر عمل کرتے ہوئے، اپنی سیاسی تصویر (image )کی پروا کیے بغیر اللہ کے بندوں کی بھلائی اور دین کی اقامت کی غرض سے اقتدار کے وسائل کو صحیح راہ پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔

معروف میں تعاون کی حکمت عملی 

قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اس حکمت عملی کو نہ مداہنت کہا جاسکتا ہے اور نہ اپنے اصولوں سے انحراف۔ دعوت کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ جو کل تک اس دعوت کا مذاق اڑاتا رہا  ہو وہ خود اس دعوتی ابلاغ اور دعوتی اسلوب کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مولانا مودودیؒ کا کارنامہ محض اسلام کی اجتماعی دعوت کو مدلل انداز میں پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے لہجے اور اسلوب کا وہ اثر ہے کہ آج وہ لوگ بھی جو اپنی عملی زندگی میں اسلامی طرزِ حیات کی مکمل پیروی نہ کرتے ہوں، اسلامی نظریۂ حیات ،مدینہ کی اسلامی ریاست اور بلاسودی بینک کاری کے تصورات کو بار بار دُہرا کر نظریۂ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔دعوت اور دعوتی فکر کا یہ وہ نفوذ ہے جو دعوت کے حق ہونے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے کی ایک علامت ہے اور تحریک کے لیے اُخروی کامیابی کی ایک شکل ہے کہ ایوان اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی وہ صاحب ِاقتدار افراد سے وہ کام کروانے میں کامیاب ہو گئی جو شاید ۵۰سال بعد اس کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد وہ خود اپنے ہاتھ سے کر سکتی۔
ایک چھوٹی سی مثال سے یہ بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ تحریک اسلامی خود ایک فکری ، تربیتی و دعوتی تحریک ہونے کی بنا پر تعلیم و تعمیر کردارکوتبدیلیِ نظام اور پورے ملک میں تبدیلی لانے کا بنیادی ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس بنا پر گذشتہ ۷۲ برسوں سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت وقت اسلامی نظام تعلیم کو سرکاری سکولوں میں نافذ کرنے کا اعلان کرے لیکن اس کی یہ خواہش اور تمنا پوری نہیں ہوسکی۔ اس کے سامنے تین واضح امکانات اور عمل در آمد کی شکلیں ہیں۔اوّل: وہ اس وقت تک اس نصاب تعلیم،نصابی کتب اور تربیت یافتہ اساتذہ کو اپنے دامن میں لیے رہے جب تک اقتدار میں نہ آ جائے، اور جیسے ہی اسے اقتدار ملے وہ اپنے کیے ہوئے ہوم ورک کو نافذ کر دے۔ یہ آئیڈیل شکل ہے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ وہ حکومت پرمستقلاً گرفت ، تنقید ، احتساب کرتی رہے۔ نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے مطالبے کے ساتھ جہاں جس حد تک اصلاح ممکن ہو اس کی راہیں تلاش کرے۔ 
ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ  کے اصول کی روشنی میں اپنے تیار کردہ تعلیمی منصوبے، نصابی کتب ،تربیت استاد کا نظام، طلبہ کی تعمیر سیرت کے لیے عملی پروگرام، غرض جو بنیادی کام (home work) اس نے کیا ہے وہ سب ایک ایسی حکومت کے سامنے رکھ دے جو بظاہر تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ اگر حکومت اصلاح کے پروگرام کو کُلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر اختیار کرلیتی ہے ، تو کیا یہ تحریک کی کامیابی نہ ہوگی؟ 
ایک آخری شکل وہ بھی ہے جس پر ایک حد تک عمل ہورہا ہے، یعنی تحریک کی فکر سےمتاثر پورے ملک کے مختلف صوبوں میں جہاں جہاں بھی اسلامی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے ہیں، یا کم از کم وہ ادارے جن کے بانی حضرات کبھی تحریک کے کارکن یا ذمہ دار رہے ہوں وہ اپنے زیراثر تمام اداروں میں مخلوط تعلیم کو یکسر ختم کر دیں ۔ ان کے کالج اور یونی ورسٹی میں طالبات اور طلبہ کے لیے الگ الگ سرگرمیاں ہوں۔ کالج کے مباحثے مشترک نہ ہوں یا طلبہ و طالبات کے ریسرچ پراجیکٹ الگ الگ ہوں ۔ تمام طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت کے لیے  ٹائم ٹیبل میں مستقل جگہ رکھی گئی ہو ۔ ان کے اساتذہ کے لیے سال میں مناسب تعداد میں تربیتی کورس رکھے جائیں ۔ان کے تمام اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی معاشرتی علوم ،تطبیقی علوم، ہرشعبۂ علم قرآن و سنت کی تعلیمات کو نفسِ مضمون کے ساتھ اس طرح یک جا کر دیا جائے کہ طلبہ و طالبات کیمسٹری ہو یا طبیعات اور علم سیاست، ہر مضمون کے حوالے سے اسلامی اصول اور فکر سے مکمل طورپر آگاہ ہو سکیں ۔یہ تمام ادارے باہمی مشورے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک نظریاتی نظام تعلیم کو ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ (HEC) اور دیگر بورڈوں کی عمومی ہدایات کے اندر رہتے ہوئے اپنی فکر اور دعوت کوجس حد تک ممکن ہو، نافذ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان تینوں طریقوں پر بیک وقت بھی عمل کیا جائے۔ اگر صرف یہ کام کر لیا جائے تو ایک عام پاکستانی اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے کہ تحریک کل ایوان اقتدار میں آکر نہ صرف تعلیم کو معیاری ، اخلاقی اور عالمی پیمانوں پر لے جا سکتی ہے، بلکہ معیشت اور قانون کا نفاذ بھی کر سکتی ہے ۔ 

تحریکات اسلامی کا تصور ان افراد کے ذہن میں جو اپنے آپ کو روشن خیال یا بعض اوقات سیکولر مسلمان کہتے ہیں یہی ہے کہ یہ نماز پڑھا سکتے ہیں اور عام طور پر جھوٹ نہیں بولتے، مالی معاملات میں اکثر شفاف ہیں لیکن حکومت ان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کا ایک سبب تحریک کا بعض مسلکی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنا بھی ہے۔ سیکولر یانام نہاد روشن خیال طبقہ ان جماعتوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔تحریک کا ان سے تعاون تحریک کے تصور کو ان کی نگاہ میں مجروح کرتا ہے  لیکن اگر تحریک سے وابستہ افراد کے ادارے ایک کامیاب مثال پیش کریں تو تحریک کی صلاحیت، خلوص اور معاشرتی اہمیت، ہرشہری کی نگاہ میں مستحکم ہوسکتی ہے۔
اس کے ساتھ اگر تحریک آگے بڑھ کر ایک تفصیلی دستاویز معاشی ، ابلاغی ، صحت عامہ، معاشرتی ، دفاعی پالیسی یا ملکی اور بین الاقوامی حکمت عملی مرتب کرکے پیش کرے جو عملی مسائل پر اسلامی راہنمائی فراہم کرتی ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ تحریک کے بارے میں موجود منفی تاثر مثبت رویے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ یہ کام نہ صرف محنت طلب ہے ، بلکہ اس میں صبر و استقامت بنیادی شرط ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر اس کام کو مسلسل کرنا ہی تحریک کی اصل کامیابی ہے ۔
تعلیم کے علاوہ معیشت کے میدان میں بھی تحریک سے وابستہ یا ہم خیال افراد کے صرف چند تجارتی ادارے اگر سود میں ملوث ہوئے بغیر کام کرکے ایک کامیاب تجارتی ماڈل پیش کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک اپنی مطلوبہ تبدیلی کی مثال پیش کر کے عوام کو اپنی دعوت کے قابلِ عمل ہونے پر قائل نہ کرسکے۔ اگر ۱۰؍اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آیندہ ۵۰ برسوں میں صرف دو اعلیٰ تعلیمی نجی ادارے وہ ہوں جو اسلامی ماحول اور اسلامی اصولوں کو اپنے نصابات میں سموکر طلبہ وطالبات کو علمی صلاحیت اور سیرت وکردار سے مزّین کر دیں اور یہ طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی معیار اور اخلاقی طرزِ عمل میں مثالی ہوں اور ان دو جامعات میں مخلوط تعلیم نہ ہو، تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
 تحریک اسلامی کے لیے قرآنی منہج بڑا واضح ہے کہ وہ پہلے وہ کام کر دکھائے جس کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ آغاز ان ا داروں سے ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو تحریکی فکر سے قریب سمجھتے ہیں ۔ پاکستان آج بھی انسانی دولت سے مالا مال ہے ۔ یہاں وہ پاک نفوس کثرت سے ہیں جنھیں ہم نے آج تک تلاش نہیں کیا۔ ہمیں اپنے محدود حلقے سے نکل کر محض ووٹ کے لیے نہیں، بلکہ  دعوتِ دین اور اقامت دین کے لیے ان پاک نفوس تک پہنچنا ہے جن تک دعوتِ حق پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، اور جو ہمارے لیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔
تحریک ِ اسلامی کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلامی نظام معیشت ، نظام سیاست ، نظام معاشرت، نظام ابلاغ عامہ،نظام صحت و تحفظ حیات ، نظام ماحولیات، غرض ہرہر شعبے میں نظام عمل کا تفصیلی خاکہ تیار کر کے عوام اور حزب اقتدار کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جہاں بھی کسی ادارے میں تحریکی فکر سے ہم آہنگی پائی جائے، اس ادارے کو مثالی ادارہ بنا کر اپنی دعوت کی عملی شکلی پیش کرنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جب معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور معاشری اشاریے (indicators) یہ پتا دے رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو اس کے اسباب کا پتا لگانا ایک معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اخلاقی امراض، یعنی معیشت میں دھوکا اور فریب، سیاست میں آمریت وکنبہ پروری اور بے ایمانی ، معاشرت میں حقوق کی پامالی اور رشتوں کا احترام ختم کر دینے اور ثقافت میں رنگ رلیوں اور عریانیت کو ’آرٹ‘ اور’فن‘قرار دے دینے کا بنیادی سبب کیاہے؟   کیا یہ اُس دورِ غلامی کا نتیجہ ہے جس سے مسلمان مغربی سامراج کے تسلط کے دورسےگزرے ہیں، یا یہ فلاح اور کامیابی کے معیارات کوگڈ مڈ کرنے کا نتیجہ ہے، یا مقصدِ حیات کے شعور کا صحیح ادراک نہ ہونے کی بنا پر ہے؟ کیا یہ خرابی اچانک رونما ہو گئی ہے، یا مسلم ملت گذشتہ دو سوسال میں جن آزمایشوں سے گزری ہے، اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے ؟ 
قرآن کریم نے اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ 
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی ، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے ۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی ، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics  (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی روایت میں قرآن کریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاکؐ کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔

مغرب کا ترقی کا معیار

 ہم جس مادی دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ترقی اور عروج کا پیمانہ: بیرون ملک میں محفوظ سرمایہ ، کاروبار میں خواتین کے قائدانہ کردار، مختصر خاندان، ذاتی مکان اور کار اور مغربی تعلیم کے حصول کو قرار دیا جاتا ہے ۔چنانچہ ایک ملک یا قوم کے ترقی یافتہ ، کم ترقی یافتہ ، یا عدم ترقی یافتہ ہونے کا فیصلہ ’انسانی ترقی‘ کے انھی خودساختہ معیارات پر کیا جاتا ہے۔
ترقی اور استحکام کو ناپنے کے یہ پیمانے سامراجی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جنھیں سرمایہ دارانہ فکر کے علَم برداروں نے اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں ایجاد کیا اور خود کو غالب تہذیب قرار دیتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو جانچنے کے لیےانھی ’مقدس پیمانوں‘کو معیار قرار دیا۔ ان کی بنیاد پر اقوام عالم کی درجہ بندی کرنے کے ساتھ اقوام عالم کو یہ بات باور کروا دی کہ وہ انھی پیمانوں کی روشنی میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر بن سکتی ہیں۔ اسی معیار کے پیش نظر ان ممالک کی تعلیم ، معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کو قدیم، غیر ترقی یافتہ قرار دے کر انھیں اس دوڑ میں لگا دیا گیا کہ وہ خود کو مغرب کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلا ہوسکیں۔
مغربی فکر کی نمایندگی کرتے ہوئے معروف امریکی تجزیہ کار سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اس حقیقت کا سادہ الفاظ میں یوں اظہار کیا:

To be successful you must be like us, our way is the only way "The argument is that the religious values, moral assumptions and social structures of these (non-western)  societies are at best alien and sometimes hostile to the values and practices of industrialism"(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, London, 1997, p73).

کامیابی کے لیے آپ کو لازماً ہمیں پسند کرنا ہوگا۔ ہمارا راستہ ہی صرف واحد راستہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ان (غیرمغربی اقوام) کی مذہبی اقدار، اخلاقی تصورات اور سماجی ڈھانچے، ہمارے سماجی و معاشی اور صنعتی نظام کی اقدار و روایات (انڈسٹریل ازم) کے لیے صرف نامانوس ہی نہیں بلکہ بسااوقات دشمنی پر مبنی ہیں۔

گویا ترقی کے لیے صنعتی انقلاب کے بعد لادینی اور سرمایہ دارانہ مادیت جس کو یورپ نے اختیار کیا، ان کو اپنائے بغیر کوئی غیر یورپی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

اسلام کا ترقی کا پیمانہ

اس کے مقابلے میں اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔   جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں تو ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی، اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں جنھیں کوئی فرد بھی جو دو آنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا ۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا،اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاؤس اور آزادی کے علامتی مینارزمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی ما دی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اور تباہی کو نہیں روک سکی۔
ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نےجس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میںتعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رُونما ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کے فرق کو سمجھتے ہوئے صرف حلال روزی کو اختیار کرنا اور خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا ،انفرادی سطح پر اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرنا___ یہ تصورِاسلامی، اسلامی ثقافت میں ایسی روایت بن گیا کہ کہ دورِ زوال کے کئی حکمران اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔ ایسے فرماں روا مثالی اسلامی نظام حکومت سے انحراف کرچکے تھے اور خلافت کے بجاے بادشاہت جیسی حکمرانی کے مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کر کے جو رقم ملتی، اسے اپنی ذات پر خرچ کرتے۔ گو ان کے سیاسی معاملات مکمل طور پر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی زندگی دوسرے اربابِ اقتدار سے بڑی مختلف تھی۔برعظیم میں اورنگ زیب عالم گیر اور دور عثمانی کے کئی بادشاہ اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔
دورِ حاضر کے معاشی نظام اور معاشی ترقی کا بڑا انحصار سودی لین دین پر ہے ۔وہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت ، فرد ہو یا ادارہ اپنے کارو بار کے آغاز کے لیے کسی بنک سے قرض لینے کو ایک بنیادی ضرورت سمجھ کر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر ساری عمر سود کی مقررہ شرح ادا کرنے کے لیے بھاری نفع پر اشیا فروخت کر کے ایک جانب سود کی اقساط ادا کرتا ہے ساتھ ہی صارفین کو اضافی نرخ پر اشیا فراہم کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے ۔
بظاہر مادہ پرستی پر مبنی نظام پھلتا پھولتا نظر آتا ہے لیکن ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بھونچال نے یہ بات ثابت کردی کہ سرمایہ دارانہ نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور اشتراکیت کے بعد اب اس کی مکمل تباہی کی باری ہے ۔ ۲۰۰۸ء میں دنیا کے ۱۰۰ سے اُوپر معاشی مراکز میں اس نظام کے خلاف اسی نظام کے پروردہ افراد نے مظاہرے کیے اور عالمی منڈی میں بینکوں ، تعمیراتی کمپنیوں اور معاشی اداروں نے اپنے کنگال ہونے کے کاغذات داخل کر کے اس نظام کے ناکام ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیے ۔
مادیت اور ذاتی افادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلام جو نظام تجویز کرتا ہے وہ اخلاق کے اعلیٰ اصولوں، صدق شعاری ، امانت و دیانت ، پاس داریِ عہد ،اشیا کی معیاری ضمانت  (Quality Assurance)اور عدم استحصال کو معاشی پالیسی کے ستون قرار دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ترقی کے لیے خاندان کی اخلاقیات کو بنیاد قرار دیتا ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہردو سطحوں پر یہ نظام خود انحصاری کا علَم بردار ہے۔قرآن کریم انبیاے کرامؑ کے معاشی معاملات میں خود انحصاری اختیار کرنے کی مثالیں دے کر سمجھاتا ہے کہ صیحح رویہ کون سا ہے؟حضرت نوح ؑ کا  کشتی سازی (Ship Building) کی صنعت کو نقطۂ کمال تک پہنچانا اور حضرت داؤدؑ کا فولاد سے زِرَہ ، تلوار، ڈھال اور دیگر آلات کا تیار کرنا خود انحصاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں ۔
قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دہانی کراتا ہے کہ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی کا اگر کوئی درست طریقہ ہے تو وہ صرف قرآنی اخلاق اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔چنانچہ ماضی کی اقوام نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ تباہی کے گڑھے میں جاگریں۔

اخلاقی انحطاط کا سبب

آج مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان جن زمینی مسائل کا شکار ہے،ان میں سر فہرست مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔برقی ابلاغ عامہ نے معاشرے کے اخلاقی ناسوروں کو ضرورت سے زیادہ   بے نقاب کر کے اخلاقی گراوٹ کے احساس کو اور زیادہ شدید کر دیا ہے۔ملک میں چلنے والے ہر ٹی وی چینل پر اگر کوئی خبرسرخی بنتی ہے تو وہ اخلاقی دیوالیے اور زوال ہی کی کسی شکل کو ظاہر کرتی ہے ۔ مختلف اوقات میں بچوں اور خواتین کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات کو ’نشر فحش‘کا فریضہ سمجھ کر ابلاغی ادارے سنسنی اور مبالغے کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے پاکستان اخلاقی خرابیوں میں ’سربراہی‘ کا مقام رکھتا ہو۔
 اسی طرح اگرملک میں طلاق کے رجحان کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم امریکا کو جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طلاق زدہ ملک ہے ، کچھ عرصے میں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ معاشی بدعنوانی، کرپشن کی خبریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد معاملگی اور کرپشن میں شاید  ہم ہی سرفہرست ہیں ۔ تعلیم میں دیکھا جائے تو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بدمعالگی عروج پر نظر آتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار کیے بغیر کہ واقعتاً یہ مسائل معاشرے میں پائے جاتے ہیں، مگر ابلاغ عامہ جس تباہ کن انداز میں انھیں پیش کر کے قوم میں مایوسی اور خود فراری کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اسے قومی اور ملکی مفاد کے منافی اور طاغوتی فکر کی ایک سازش سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صبح سے شام تک بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ، خواتین کے عدم احترام، اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اشتہارات میں خواتین کے جنسی استحصال، تعلیم میں معیار کی گراوٹ ، سیاست میں اصول فراموشی، معیشت میں حلال کی جگہ حرام کی پذیرائی اور معاشرت میں ہندووانہ اور مغربی رسموں اور رواج کو شعوری طور پر متعارف کرانے میں ایک ٹی وی چینل دوسرے سے بازی لے جانے میں لگا ہے، تو وہ سوچتا ہے کہ شاید ہم زوال کے اُس درجے پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور ہروقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ پورا نظام دھڑام سے گرنے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ ذہنی اور نفسیاتی تاثر ہے جو ہمارا ابلاغ عامہ اوراس ابلاغ عامہ کی پرورش اور اسے غذا فراہم کرنے والے پس پردہ افراد اور ادارے چاہتے ہیں کہ قوم مایوس ، دل برداشتہ اور نااُمید ہو۔ اسے یہ بات سمجھائی جائے کہ مغرب میں قانون کا احترام ہے ، انسانی حقوق ہیں ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات ہے، اس لیے اپنے ’مذہب‘ اور روایات کو چھوڑ کر ہمارے لیے راہِ نجات مغربی لادینی معاشرت و سیاست ، معیشت کو اختیار کرنے ہی میں ہےتاکہ ہم ترقی یافتہ بن سکیں۔ یہ وہ اصل ہدف ہے جو قوم میں مایوسی اور اضمحال پیدا کرنے کے نتیجے میں حاصل کرنا مقصود ہے ۔
قبل اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کی طرف آئیں، اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دن رات مایوسی ، دہشت گردی ،جنسی درندگی کی خبریں سن سن کر ایک احساس یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہ قوم ہے ہی ایسی بدکردار اور بد بخت کہ اسے صرف کوئی جابرانہ اور آمرانہ نظام ہی آکر ٹھیک کر سکتا ہے ۔اس تناظر میں سابقہ آمرانہ ادوار کی طرف بھی اشارے کیے جاتے ہیں کہ جب بھی آمرانہ دور آیا معیشت میں بہتری ہوئی۔ اس لیے آج جو مسائل پائے جاتے ہیں انھیں کوئی آمر ہی ڈنڈے کے زور سے ٹھیک کر سکتا ہے۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اسی قوم کے افراد جب امریکا کے اعلیٰ ترین ہسپتالوں میں یا برطانیہ کے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں، تو مقامی گوری نسل کے افراد سے کہیں زیادہ فنی مہارت اور ایمان داری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس قوم کے کم تعلیم یافتہ معاشی کارکن جب متحدہ عرب امارات میں گاڑی چلاتے ہیں تو مکمل طور پر ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے انجینیر اعلیٰ معیار کی سڑکوں کا جلیبی نما جال بچھانے میں دنیا بھر میں اپنی مہارت کا لوہا منواتے ہیں ۔گویا مسئلہ نہ جین (gene)کا ہے ، نہ قوم کی فطرت کا، بلکہ اس کی تربیت اور نظام زندگی میں بنیادی خرابی کا ہے۔ مزید یہ خود اپنے بارے میں اپنی کم حیثیتی (underestimation) کا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ہی نہیں پورے خطے میں پاکستان ایک بڑی جوہری قوت ہے۔ ملک میں بہ ظاہر بجلی کی کمی کے باوجود اس ملک میں آیندہ ۵۰۰ سال کے لیے کوئلہ کی شکل میں قوت کے ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کا ایک بڑا سرمایہ اس کے ۷۰ فی صد کے قریب نوجوان ہیں جن کی صیحح تعلیم و تربیت نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی طور پر انسانی وسائل کے استعمال سے صنعتی ، سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ مٹی نہ صرف نم ہے بلکہ اس میں مکمل روئیدگی موجود ہے۔ صرف اسے اخلاق کے تریاق سے کامیابی تک لے جانے کی ضرورت ہے ۔

  • معاشی اخلاقیات: قرآن کریم نے تجارت کو نہ صرف حلال قرار دیا ہے اور ناپ تول کے پیمانوں کو ایمان داری سے استعمال کرنے پر زور دیا ہے، بلکہ تجارت کو خصوصاً اور کاشت کاری کو عموماً معاشی فلاح کے فروغ کی ایک بنیاد بتایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ معاشی اخلاقیات پر عمل نہ کیا گیا تو انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایمان دار تاجر کے بارے میں پیش گوئی کی ہے کہ وہ آخرت میں انبیاؑ ، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل ہو گا ۔اسلام نے اس دنیا میں ایسے کردار پیش کیے، جو مکہ سے آئے تو خالی ہاتھ تھے، لیکن مدینہ کے بازار میں جاکر صرف پنیر سے کاروبار کا آغاز کر کے اپنی ایمان داری کے سبب اُس دور کے کروڑ پتی افراد میں شامل ہوگئے ۔ دوسری جانب یہ کتابِ عزیز ان کرداروں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن کی مالی کثرت ان کے خزانوں کی کنجیوں کے بوجھ سے ظاہر ہوتی تھی لیکن وہ دنیا اور آخرت میں اپنی معاشی بدمعاملگی کی بناپر تباہ و برباد کر دیے گئے ۔ ہامان اس رویے کی نمایندگی کرتا ہے۔
  • سیاسی اخلاقیات: سیاسی میدان میں خود نمائی ، مشاورت پر عمل نہ کرنا ، اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھنا بلکہ خود کو انسانوں کا رب سمجھنا، وہ عظیم غلطی ہے جو بڑی بڑی تہذیبوں اور مضبوط اقوام کی تباہی کا سبب بنی۔فرعون اور اس جیسے سیاسی فرماں روا،یونان اور روم و ایران کے ایوانِ اقتدار پر قابض افراد،سب سیاسی شرک اور اللہ کی حاکمیت کا انکار کرنے کے سبب تباہ و برباد ہوئے ۔
  • ثقافتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی تہذیب کو لھو الحدیث(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ق ، اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔ لقمان ۳۱:۶) کی شکل دے دی اور قصہ گو ، رقص اور تماشے کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور مثال بنایا اور انھیں اعلیٰ قومی اعزا ز دیے، جب کہ اہل علم و فکر وتقویٰ کے لیے زمین کو تنگ کردیا___ وہ اقوام اپنی تمام تر مادی قوت کے باوجود صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ وہ شام اور مصر کی تہذیب ہو یا روم و کسریٰ کے تخت ہوں، کوئی قوت ان کو زوال سے نہ روک سکی۔
  • معاشرتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی معاشرت کو ہواے نفس کا تابع بنا دیا اوراللہ کی جانب سے عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو رد کرکے ان کی جگہ وہ طریقے ایجاد کیے جو غیرفطری تھے، اور اس سے پہلے انسانیت میں استعمال نہیں ہوئے تھے ( قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ قومِ لوط کا عمل ان سے پہلےانسانوں میں رائج نہ تھا)، تو نتیجتاً انھیں بربادی سے کوئی نہ روک سکا۔ آج کے دور میں جنسی آزادی کے زیر عنوان ان غیر فطری اعمال کو ’بنیادی انسانی حقوق‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلم معاشروں میں بھی بچوں کی تعلیم میں ان ’حقوق‘ کے ’احترام‘ کو داخل کیا جارہا ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر طریقے جن میں مخلوط تعلیم ،ا بلاغ عامہ کا ہر موقعے پر مخلوط ماحول کو نمایاں کرنا اور معاشرت میں بد اخلاقی کے سبب طلاقوں کا بڑھ جانا، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تہذیب اور ملت کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتےہیں۔ نتیجتاً پورا معاشرہ یکایک اپنی عظیم الشان ظاہری شکل کے باوجود زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

نظامِ زندگی کا مقام

اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کے رویے، طرز عمل اور معاملات ان کے  تصورِ زندگی اور مقصد ِحیات کا عکس ہوتے ہیں ۔اگرایک قوم یہ سمجھتی ہے یا اس کی تعلیم و تہذیب اسے یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی زندگی کا مقصد مسخرا پن (fun)، لذت اندوزی (enjoyment)، پُرسُرور مشغولیت (entertainment ) اورذاتی نفسیاتی انگیخت (self-stimulation )کا حصول ہے، تو پھر معیشت ہو یا معاشرت یا ثقافت، ہر شعبے میں اس کا عکس پایا جاتا ہے۔ معیشت کے میدان میں وہ اشیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں، غیر ضروری بن جاتی ہیں ۔ ساری معیشت وہ سامانِ عیش و عشرت پیدا کرنے میں لگ جاتی ہے جو خود پرستی اور مصنوعی طور پر اپنی ذات کو نمایاں کرنے میں مدد گار ہو۔ آرایشی مصنوعات (cosmetics)،  طرح طرح کے جنسی ترغیب والے عطریات اور غازے نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ مردوں کے لیے، اور جنسی آوارگی کے بہت سے پُرتعیش سامان معیشت کے میدان پر چھا جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی بڑے شاپنگ سنٹر میں کثرت سے وہ دکانیں نظر آتی ہیں جہاں یہ سامان موجود ہوتا ہے۔ اس میں نشہ آور ادویات ، مشروبات ، نیم عریاں لباس ، فحش کتب ، ویڈیو اور آڈیو مواد، حتیٰ کہ موبائل پر تمام خبیث اور فحش مواد کی فراہمی معیشت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
اگر مقصد ِحیات محض دولت کا حصول ہو تو پھر تعلیم گاہوں میں وہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کی بازار میں مانگ ہو اور ہر طالب علم سرمایہ دارانہ نظام کا ایک گرگا بن کر نکلتا ہے، جو انسانوں کا خون چوس کر اپنی ہوس پوری کرنے کو اپنی معاشی فتح سمجھ کر شادیانے بجاتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر مقصدِ حیات ایک ذمہ دارانہ اخلاقی زندگی گزارانا ہو تو معیشت ہو یا سیاست، ثقافت ہو یا معاشرت، ان سب کی اقدار اور بنیادیں بدل جاتی ہیں اور وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں مدینہ اور مکہ کی جھلک نظر آتی ہے۔لیکن ایسا کیوں نہیں ہو پاتا ؟ انسانی ذہن اس طرف کیوں نہیں جاتا؟ وہ کیوں چمک دمک میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور زندگی جیسی قیمتی شے کو مشروب کے ایک پیمانے میں ڈبو کر غرق کر دیتا ہے؟
بات کچھ ایسی مشکل بھی نہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام امراض کے پیدا ہونے اور معاشرے میں فتنہ و فساد ، معیشت میں سودی لعنت ، معاشرت میں ظلم و استحصال ، ثقافت میں عریانیت و لذت پرستی اور سیاست میں فرعونیت کو دور کرنے کا آسان حل تجویز کیا ہے اور وہ ہے توحیدی نظام۔ یعنی زندگی سے تضادات کو ختم کر کے بہت سارے خداؤں کی جگہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ کی بندگی میں آ جانا۔یہ کام محض انسانوں کے اللہ کی بندگی میں آجانے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پورے نظام کو آمریت ، لادینیت اور ثنویت کے بتوں سے نجات دلا کر  اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں لانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

توحیدی نظامِ حیات

شرک محض اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کی جگہ تین یا بہت سے خداؤں کے ماننے کا نام نہیں ہے، بلکہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دینے کا نام ہے۔ ایک خانہ حصول مال کا، ایک خانہ حصولِ اقتدار کا، ایک خانہ تفریح اور لذت کے حصول کا، اور ایک خانہ ہفتے میں ایک دن عبادت یا دن میں چند بار اللہ کو یاد کرلینے کا۔ اس کے مقابلے میں توحید کا مطالبہ ہے کہ انسان زندگی کے    تمام معاملات کو الہامی اخلاقیات کے ضابطے میں لائے ۔ اس کی معیشت حلال اور غیر استحصالی ہو۔ اس کی معاشرت باحیا ہو۔ اس کی ثقافت تعمیری ہو۔ اس کی سیاست عدل و توازن پر مبنی ہو۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟
اس خرابی کا ذمہ دار اس کا زندگی کا تصور ہوتا ہے،یعنی وہ زندگی کو ایک اکائی تصور نہیں، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتاہے۔ایک کو مذہب و اخلاق کا نام دیتا ہے اور باقی زندگی کو دنیا۔ اس طرح زندگی میں ثنویت اور دو رنگی (dualism )  اور لادینیت یا سیکولراز م کو رائج کرتا ہے ۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں جب تک یہ تقسیم رہے گی، وہ ان تمام کمزوریوں کا شکار رہے گا جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔جب تک ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بطور سیاست دان جو وعدے چاہے کر سکتا ہے تاکہ اسے ووٹ ملیں، اور وہ کسی نہ کسی طرح سربراہ مملکت بن جائے، اور ساتھ ہی وہ پابندی سے نماز بھی پڑھتا ہے، تو وہ عملاًایک سیکولر شخص ہے۔ اگرچہ وہ ہرچھے ماہ میں عمرہ کرتا ہو۔ ساتھ ہی اس کا سارا کاروبار سودی قرض پر چل رہا ہو اور وہ تجارتی معاملات میں صرف اپنے مفاد اور منافع کو اپنا ’خدا‘ مانتا ہو۔اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود ایسا شخص صحیح معنوں میں سیکولر ہے۔
اگر ایک استاد اپنی یونی ورسٹی یا کالج یا مدرسے میں جو مضمون پڑھاتا ہے،اس مضمون کی بنیاد عوام کی حاکمیت کے تصور پر ہے یا صرف دولت اور قوت کے حصول پر ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہوکوئی حکمت عملی اختیار کر کے وہ اقتدار پر قابض ہو جائے اور معاشی وسائل پر قبضہ کر لے تو وہ سیکولر تصورِ حیات کی تدریس کر رہا ہے، چاہے وہ پنجگانہ نماز کے ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہو، اور اس نے قرآن کریم کے اجزا بھی حفظ کر رکھے ہوں ۔ چونکہ وہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک رات کی تنہائی میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اظہارِ بندگی اور دوسرے دن کے ہر لمحے میں دولت ، اقتدار ، شہرت کے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا۔جب تک زندگی سے یہ دوعملی یا لا دینیت خارج نہیں ہوتی،  جس کو اسلام نے لا الٰہ الا اللہ کے جامع کلمے سے تعبیر کیا ہے ، اس وقت تک اس شخص نے توحید کو سمجھا، نہ اس کا مزہ چکھا ۔
قرآن ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج (البقرہ ۲:۸۵) ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘ اور تمام انسانوں سے جو اللہ کی حاکمیت کے منوانے کے دعوے دار ہیں، مطالبہ کرتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ اس لیے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنا شیطان کا راستہ ہے، رحمٰن کا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
امام ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے اس جامع تصور کو پیش کیا ہے۔ اس میں اقامت دین کا مطلب وہ کوشش ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہو،اورا س جدو جہدکو کرنے کے لیے وہ افرادِ کار تیار کیے جائیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی شناخت ِ نو (re-branding) کی جگہ اپنی دعوت، اسلام کا مکمل نظام، اور اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو جانے کا عزم رکھتے ہوں۔ جس میں ذاتی زندگی ، معاشی معاملات، سیاسی سرگرمی اور اہداف، ہر چیز توحید کے تحت ہے ۔اس میں خالص سیاسی اور خالص تربیتی اور  دعوتی تقسیم کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی ۔ روایتی علما نے جو دین اور دنیا کی تقسیم کے قائل تھے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور بعض نے اس بنا پر جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔جماعت اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کی دعوت محض انفرادی اصلاح تک محدود نہیں، یہ کام تو صوفیہ اور بہت سے دوسرے اللہ کے بندے انجام دے رہے تھے۔ اس کی دعوت زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے افراد کی تیاری اور تنظیم کی تھی اور ہے، جو اسلام کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر نافذ کر چکے ہوں۔   اس کی قوت عددی یا پارلیمنٹ کی نشستوں میں نہیں تھی بلکہ افرادِ کار کے علم ، تقویٰ اور فراستِ دینی میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ دعوتی سعی و جہد، تزکیہ اور سیرت سازی کی مساعی ہے۔ اجتماعی اور سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد ایک دوسرے سے مربوط اور کُلی تبدیلی کے مختلف پہلو اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کاذریعہ ہیں۔
جب تعلیم کی بنیاد سیکولر ازم پر ہو جیسا کہ آج عملی طور پر ہو رہا ہے،تو پھر مسلم دنیا کے مدارس وہ دینی ہوں یا دنیوی، دونوں نظام دین و دنیا کی علیحدگی کے اصول کو عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں، اور ثنویت اور دو رنگی کی وجہ سے معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔  وہ اسلام کے توحیدی تصور سے دورغیر شعوری طور پر قریب المیعاد سیاسی کامیابی کے حصول پر توجہ کے سبب طاغوتی جال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیکولر ازم کے زیر سایہ  جو نظام بھی کام کرے گاوہ آج نہیں تو کل انسانی ذہن کو الحاد کی طرف لے کر جائے گا ۔ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والا ایک شخص جو کل تک ایک چھوٹی دکان کا مالک تھا، آج   ایک بڑے کاروبار کا مالک ہے، تو زندگی کی تقسیم کے زیر اثر یہ سوچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اصل زندگی تو دولت اور قوت والی ہی ہے ۔ اس طرح شیطان اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کا اظہار اس نے جنت سے نکالے جانے سے قبل کیا تھا کہ وہ انسانوں کو لبھائے گا ، للچائے گا ، بہکائے گا، اور گمراہی میں مبتلا کر کے ایسے کلمات تک کہنے پر آمادہ کر دیتاہے کہ: اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  (النزعٰت ۷۹: ۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں‘‘۔

مسائل کا حل: اسلامی نظامِ حکومت

آج جو اخلاقی زوال ، بے راہ روی، گمراہی، جنسی جرائم ، قتل و غارت ، چوری اور ذخیرہ اندوزی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی شکل میں ہمیں نظر آ رہا ہے، اسے دُور کرنے کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو ہادی اعظمؐ اور محسن انسانیتؐ نے اُس دورِ جاہلیت میں استعمال کی جو آج کے دورِجاہلیت سے مختلف نہ تھا۔ اُس بگڑے معاشرے کی فکری تطہیر اور عمل کے تزکیے کے لیے توحید کاصحیح شعور پیش کرنا لازم کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح آج الکتاب سے وابستگی اور براہِ راست اس کی ہدایات کو سمجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کا چیلنج درپیش ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ان صالح افراد کو تلاش کرنا ہے، جو معاشرے میں اگرچہ موجود ہیں اور وہ ہدایت کو تلاش بھی کررہےہیں، لیکن ہم ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ آگے بڑھ کر ہمیں ان کو منظم کرنا ہو گا۔    ان کے ایسے حلقے قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ قرآن و سنت کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کا ذریعہ بن سکیں اور اس طرح عملی شکل میں اس کے نمونے بن سکیں۔ نیز اس تنظیم کے افراد کے ذریعے معروف کو قائم کرنے اور منکر، بدی اور برائی کو دُور کرنے کے لیے غیر حکومتی بنیادوں پر ایسے ماڈل نظامِ عدل و احسان کو قائم کرنا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات و ہدایات کو ایک محدودپیمانے پر معیشت، معاشرت ، سیاست ،ثقافت اورتعلیم کے میدان میں، غرض زندگی کے تمام اہم شعبوں میں، اپنی اپنی جگہ عملی طور پر ایک چھوٹی ریاست کی شکل میں قائم کرکے دکھا دیں۔ 
دین کی یہ اقامت معاشرتی سطح پر وہ نمونہ پیش کرے گی جو تحریک اسلامی ملکی سطح پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کی نصرت اورامداد کا وعدہ رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ وہ ان افراد کی استعانت کرے گا جو اس کے راستے میں نکلیں گے اوراللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اپنی ذاتی زندگی میں، گھر اور خاندان میں ، معاشرے اور معیشت میں ،ثقافت و تعلیم میں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کی مدد فرشتوں سے کرے گا ۔
اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو معاشرے کے صالح عنصر کو منظم کرنا ہوگا اور ایسا نظامِ تربیت تیار کرنا ہو گا جو فکری اور عملی لحاظ سے ہر گاؤں اور قریے میں ایسے افراد معاشرے کے سامنے پیش کر سکے ، جنھوں نے تمام حاکمیتوں کی نفی کرکے صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو اپنی فکر ، اپنے خاندان ، اپنے کاروبار ، اپنی سیاست اور اپنی دعوتی زندگی میں رائج کر دیا ہو۔ اصل سرمایہ وہ اخلاقی رویہ ہے جو غیر نمایشی ہو ،خلوصِ نیت پر مبنی ہو، اور جسےصلے کی طلب نہ ہو۔   انبیاے کرامؑ کا کہنا صرف یہ تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور ان سے کوئی اجر نہیں مانگتے۔ ربِّ کریم اس طرز عمل سے خوش ہو کر انھیں زمین میں اپنا وارث بناتا ہے اور اس طرح وہ اخلاقی انقلاب برپا ہوتا ہے جو معاشرے کو مثالی نمونہ بنا دیتا ہے ۔یہ جدوجہد بالآخر اسلامی نظامِ حکومت کے قیام پر منتج ہوکر رہتی ہے۔
معاشرے میں صالح افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا ایسا کام جس میں صلے کی خواہش نہ ہو، صرف ربّ کی رضا مقصود ہو ، کامیابی کی ضمانت ہے۔خدمت خلق کسی منفعت کے حصول کے لیے کرنا، تمام اُخروی اجر کو ضائع کر دینا ہے۔ یہی وہ دعوت کی کامیابی کا راز ہے    جسے ایک عام نظر نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ ایک عام نظر قریبی فاصلوں اور منزلوں کو حقیقی سمجھتی ہے۔ ایک دُور رس تحریکی نگاہ اُخروی کامیابی کے پیش نظر فوری مفاد کو نظر انداز کر کے استقامت ،صبر اور حکمت دینی کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا تن من دھن ، فکر و صلاحیت، اپنا ہر سانس اور ہرقطرۂ خون دعوت کی آبیاری میں لگا دیتی ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی ہے۔ دنیا میں صرف رب کریم کی عنایت و فضل سے اگر اختیار و اقتدار ملے تو وہ صرف اُس کی میراث ہے اور وہی اس میراث کو دینے والا ہے ۔اُسی کو علم ہے کہ وہ کتنے عرصے میں میراث اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ اسلامی انقلابی دعوت وقت کے پیمانوں سے آزاد ہے۔اس کا سارا تعلق اخلاص نیت اور بےلوث جدوجہد سےہے ۔ یہ اللہ کی رضا کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتی ہے، اور جب یہ کام استقامت سے کیا جاتا ہے تو بالآخر زمامِ کار اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہتا ہے۔

نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔ 
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

تحریک اسلامی اور خود احتسابی

پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ  جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج  پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:

ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے  یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔

اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:

  1. یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اورجو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
  2. یہ کہ جوشخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر ے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
  3. یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہنمائی و امامت نظری اور  عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔

اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت  کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔

ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔

تشکیلِ نو کا پہلو

انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی   بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔ 
 موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا  نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت اور شخصی رابطہ

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔ 
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے  اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔

کامیابی کا معیار

دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی  تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔

اصولی حکمت عملی

جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں  تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔

دعوتی اور سیاسی پہلو میں توازن

ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟  کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔

قرآن کریم کی تعلیمات سے واضح اور قطعی ثابت ہے کہ بعثت ِ انبیا ؑ کا مقصد روے زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قیام ہے۔ جملہ انبیاے کرام نے اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کی۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عبادت ،بندگی کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر اور ہر قسم کے طاغوت،بغاوت، سرکشی ، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے مکمل اجتناب رہا ہے :
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
 اللہ کی بندگی ، عبادت اور اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سپرد کر دینا ہی اسلام اور ایمان ہے ۔گویا صالح فرد، خاندان ، معاشرہ اورریاست کے قیام میں جو منطقی ربط پایا جاتا ہے، وہ اسلامی ریاست کے قیام کا منہج اور انسانی معاشرے میں معروف کے قیام اور منکر کے رفع کرنے کا اسوۂ انبیاؑ اور خصوصاًاسوۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔قرآن کریم نے اس پورے عمل کو صرف ایک اصطلاح ’اقامتِ دین‘ میں سمو دیا۔ نہ صرف حضرت یوسفؑ کے ہاتھوں قیامِ عدل و اصلاح بلکہ ہر دور میں اور ہر مقام پر دعوت،اصلاح اور معروف کے قیام کے لیے اس ایک اصطلاح میں وہ تمام پہلو شامل ہیں، جن کی تفصیل مقاصد ِشریعہ کی شکل میں ہمارے فقہا اور علما نے بیان کی ہے۔ جس کے تحت پورے دین کا قیام یا بالفاظِ دیگر قیام حاکمیت ِالٰہی ہے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۰(یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی (الدِّیْنُ القَیِّمُ )ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے نہ صرف اسلامی ریاست بلکہ انسانی زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ کن اور حرفِ آخر قوت کو صرف اور صرف اپنے لیے مقرر فرما دیا ہے، کہ حاکمیت سیاسی ہو یا معاشی ، دفاعی ہو یا ثقافتی اور علمی___ ہر شعبۂ حیات میں معیارِ حق صرف اور صرف یہ ہو گا کہ کیا اس بات سے رب کریم راضی ہے یا اس کی جگہ کسی اور چیز نے وہ فیصلہ کن مقام حاصل کر لیا ہے، جو صرف مقتدر اعلیٰ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔یہ توحید ذات اور توحید صفات کا جامع اظہار اور تعریف ہے۔
تصورِ توحید 
قرآن کریم کی روشنی میں ’توحید‘ ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام اعمال کو متعین اور منظم کرنے والا اصول ہے۔ اگر ایک فرد اپنے خاندان میں معروف کو قائم کرنا اور منکر کو ختم کرنا چاہتاہے تو اسے سوچنا ہو گا کہ اس کے گھر میں جو رسوم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، یا  ان کا تعلق جاہلیت کے طور طریقوں سے ہے، کیا وہ توحید سے مطابقت رکھتے ہیں؟ وہ شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا شوہر اور بیوی کا تعلق یا رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا رویہ ہو،ان سب کی بنیاد توحید اور اللہ کو ربّ ماننا ہے۔ کیا اپنے بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت معیارِ انتخاب تقویٰ ، حُسنِ کردار اور  دین کاعلم اور اس پر عمل ہے یا لڑکے کی مادّی حیثیت، اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا ، بڑا تاجر ہونا، سیاسی رہنما ہونا یا کسی خاص برادری اور ذات سے وابستگی ہے؟اگر بنیاد محض ذات برادری سے وابستگی اور مادی بلند مرتبت ہے تو یہ توحید کی نفی ہے ۔ اگر صلۂ رحمی کی بنیاد بدلے میں فائدہ حاصل کرنا، احسان جتانا، یا لوگوں کو دکھانا مقصود ہے تو واضح احادیث کی روشنی میں اس نیت کا انجام خیر نہیں ہے ، فلاح نہیں ہے ، کامیابی نہیں ہے بلکہ ذاتی تفاخر و نمایش ہے جو توحید کی ضد ہے ۔
اگر ایک شخص کے کاروباری مشاغل کا ہدف اپنی جگہ محض قا رون بننا ہے، تو اس کی تمام کوشش و جدو جہد کا کوئی تعلق اللہ کی بندگی یا توحید سے نہیں ہے بلکہ سیم و زر اور دولت ہی اس کے ’ربّ‘ ہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص سیاسی اقتدار اس لیے حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے کہ   وہ تمام انسانوں پر حکم چلائے، اس کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہ خاص الخاص سمجھا جائے، تو اس کی جدو جہد ایک انتہائی وقتی ، محدود اور ناپایدار احساس کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی عملی تعلق اس کے اس زبانی دعویٰ سے سے نہیں ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے تحقیق کردہ اورمتعین کردہ مقاصد شریعہ(امام غزالی اور امام شاطبی کے زیر اثر) جو روایتی طور پر پانچ قرار دیے جاتے ہیں اور جس میں بعد کے فقہا و علما نے مزید اضافے کیے، ان سب کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ توحید ذات اور توحید صفات ہے۔اور وہ حدیث محور ہے جو دین کے تمام معاملات کو ربِّ کریم کے لیے خالص کر دینے کی اخلاص نیت کو قرار دیتی ہے۔
تحریکاتِ اصلاح و دعوت جس بنا پر فرد، خاندان ، معاشرے اور ریاست کو مشرف بہ ایمان کرنا چاہتی ہیں، وہ یہی تصور توحید ہے کہ اللہ سبحانہٗ کی حاکمیت محض مسجد میں نہ ہو، نہ محض گھر میں ہو، اور نہ محض حرم کعبہ میں ہو بلکہ تمام انسانی معاملات کا محرک اور مقصد توحید کا قیام ہو۔ اسلام حقیقتاً دین و دنیا کی تفریق کو ختم کر کے تمام روے زمین کو اللہ تعالیٰ کی مسجد قرار دیتا ہے۔ تاکہ اخلاقِ حسنہ کی بنیاد پر تجارت ، سیاست ، معاشرت ، ثقافت، تعلیم ، علمی تحقیق اور سائنسی ترقی، غرض ہر انسانی کاوش کا مقصد بندگیِ ربّ بیان کرتے ہوئے بندگانِ رب کی فلاح ، مصالح عامہ اور ان حقوق کا تحفظ ہو جنھیں نفس، مال ،عقیدے اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہ صرف اسی وقت پوری طرح ممکن ہے جب حاکمیتِ ربّ قائم ہو، اقامتِ دین ہو اور زندگی کے ہر کاروبار سے طاغوت ، ظلم ، بے اعتدالی اور انتہا پسندی کو دور کر کے عدل اجتماعی اور امن و صلح کا قیام عمل میں لایا جائے۔ – یہ بنیادی اور جوہری تبدیلی محض دعاؤں یا تسبیحات یا جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں آسکتی۔ یہ منطقی طور پر فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست کے ایمان لانے، یعنی عملاًقرآن و سنت کو اختیار کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ یہی انبیا کرامؑ کی دعوت ہے، یہی اسوہ نبویؐ اور یہی منہج قرآن ہے۔

حاکمیتِ الٰہی اور اقامتِ دین 

حاکمیت ِالٰہی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب اقتدار اعلیٰ خالق کائنات کا ہو، جمہور کا نہ ہو۔ مغربی لادینی جمہوریت کا نقطۂ آغاز حاکمیت ِجمہور ہے اور اس بنا پر وہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں نافذنہیں کی جاسکتی۔ جو نظام جمہور یا عوام کو حاکم بناتا ہے، وہ توحید کی نفی کرتا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس نظام کو احکام الٰہی کا باغی کہا جائے گا۔قرآن نے حاکمیت ِجمہور کی جگہ حاکمیت ِالٰہی  اور خلافتِ جمہور کا تصور دیا ہے، یعنی اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور ان کا بنیادی فریضہ اقامت دین کے لیے اللہ کی حاکمیت کو اجتماعی کوشش سے نافذ کرنا ہے اوریہ کام باہم مشاورت سے انجام دینا ہے۔ گویا ہر صاحب ِایمان مردوزن، قرآن کریم کے حکم (البقرہ۲:۳۰) کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ لہٰذا تمام مسلم جمہور اصلاً خلیفہ فی الارض ہیں،اگر وہ ان صفات سے متصف ہیں جو خود کلام الٰہی نے بیان کر دی ہیں، پھر وہ حاکمِ کُل ، جو کائنات کا خالق اور رب ہے وہ انھیں بطورِ امانت اختیارات دیتا ہے، جو اقامت دین کے لیے ضروری ہیں۔
اقامتِ دین کا تصور جو سورۂ یوسف کی آیت میں حاکمیت الٰہی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے،یہ ہے کہ دین حق وہ ہے جو دین شاہ کے مقابلے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کو معاشرے میں نافذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم نے قوتِ نافذہ کے قیام کے حوالے سے  دین کی ہر اس تعلیم کو، جسے ہم نے اپنی محدود فکر کی بنا پر کسی خاص مفہوم میں قید کر دیا ہے ، جگہ جگہ واضح فرما دیا ہے۔ اگر صلوٰۃ ہے تو محض تنہائی میں ربّ کے حضور بندگی کے اظہا ر کے لیے کسی گوشے میں کھڑے ہو کر چند رکعتوں کا ادا کر دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا باقاعدہ قیام، اُمت مسلمہ پر فرض ہے۔ اگر زکوٰۃ ہے تو وہ کسی پراحسان کرتے ہوئے مالی امداد نہیں ہے، بلکہ اس نظام کی اقامت کا نام ہے، جس میں رزقِ حلال پیدا ہو، پھر اس رزقِ حلال میں سے وہ حصہ جو اللہ نے اس رزق میں دیگر افراد کے لیے پہلے سے رکھ دیا تھا، وہ ان تک پہنچانے کا نظام قائم کیا جائے۔ اسی طرح روزہ فقط تزکیۂ نفس کے لیے اپنے آپ کو کھانے پینے سے روکنے کا نام نہیں،بلکہ پورے عالم میں جہاں کہیں اہل ایمان پائے جاتے ہوں، وہ اجتماعی طور پر روزوں کے اہتما م کے ساتھ وہ نظام تربیت قائم کریں ، جس میں جھوٹ سے اجتناب ، شہوت پرستی سے دُوری، غصے اور انتقامی جذبات کا خاتمہ ، غرض تمام فواحش سے اجتناب ہو اور تمام حسنات ، بھلائیوں ، نیکیوں ، معاشرے کے معذور افراد کی دیکھ بھال، انھیں کھانا کھلانے ، کپڑا پہنانے ، ان کی مشکلات کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو۔

ہرشعبۂ زندگی میں نفاذ

اقامتِ دین محض محاسنِ اسلام پر ایک علمی مقالہ لکھنے کا نام نہیں، بلکہ دین کو مکمل طور پر تمام شعبہ جات میں نافذ کر دینے کی جدوجہد کا نام ہے، تاکہ:
وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۝۰ۚ (الانفال ۸:۳۹)دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔
 اپنی زمین پر اپنا نظام قائم ہوتے ہوئے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ وہ اس کام کے لیے انسانوں کو اپنا خلیفہ بنا کر انھیں اعلیٰ اجر کا مستحق بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کوئی انسانی گروہ اس سے بندگی کا عہد کرنے کے بعد بھی، اس فریضے کو ادا نہ کرے تو وہ اس گروہ کی جگہ کسی اور قوم کو لاکر یہ مقصد پورا کر سکتا ہے:
اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۰ۥۙ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۳۹ (التوبہ ۹:۳۹)تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک سزا دے گا ، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا ، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اقامت دین کا واضح مفہوم قرآن و سنت کی جملہ اخلاقی تعلیمات کا نافذ کرنا ہے ، جس میں معاشی، معاشرتی ، تعلیمی ، سیاسی ، دفاعی، ثقافتی، غرض تمام ممکنہ انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔حاکمیتِ الٰہی اور اللہ کی بندگی چند مخصوص اوقات اور چند مخصوص مقامات تک محدود نہیں کی جا سکتی ۔ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا مفہوم کبھی یہ نہیں تھا کہ سیاسی حاکمیت تو عوام کی ہو، اور صرف مسجد کے اندر حاکمیت اللہ کی ہو۔ حاکمیت ِجمہور کے برعکس خلافت ِجمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جمہور بطور خلیفۃ اللہ،    اللہ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے وہ نظام وضع کرے، جس کے ہر شعبۂ حیات میں قرآن وسنت کی پیروی کی جائے ۔
تحریکاتِ دعوت و اصلاح اسی بنا پر حاکمیت الٰہی اور خلافت جمہور کو اپنے منشور کا نقطۂ آغاز قرار دیتی ہیں ۔ اپنے آپ کو اللہ کا خلیفہ ثابت کرنے کے لیے ایک مسلمان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا، جسے قرآن کریم نے اہل ایمان کی صفات کی شکل میں تقریباً ہرصفحے پر بیان کر دیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلب ایمان سے روشن ہیں ۔جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور ان کی یہ یاد انھیں حصولِ دولت اور حصولِ اقتدار میں بھی اللہ کے خوف اور محبت سے وابستہ رکھتی ہے ۔ اس لیے جمعے کی نماز مکمل ہونے پر جب وہ زمین پر پھیلتے ہیں تو اپنے ساتھ اللہ کی یاد کو مسجد میں چھوڑ کر دولت و اقتدار کے بندے نہیں بن جاتے۔ اللہ کے فضل کا حصول اور اللہ کے ذکر کا اہتمام ہر جگہ ان کا شعار ہوتا ہے۔ بازار ہو یا پارلیمنٹ وہ جہاں بھی ہوں وہ عوام کی حاکمیت کے علَم بردار نہیں بنتے، خلافتِ جمہور اور حاکمیت الٰہی کے لیے اپنی تمام جدوجہد کو مرکوز کر دیتے ہیں ۔ اسلام جب تمام زمین کو اہل ایمان کے لیے مسجد قرار دیتا ہے تو پھر پارلیمنٹ ہو یا بازار، ہر جگہ اللہ کی حاکمیت کو اس کے خلیفہ کی حیثیت سے نافذ کرنے کا نام خلافتِ جمہور ہے ۔ یہ حاکمیت ِجمہور کی ضد اور تردید ہے۔ –یہ انسان کا مقصد تخلیق ہے ۔ 
دین کا یہ جامع اور اجتماعی تصور ہی تحریکاتِ دعوت و اصلاح کی پہچان ہے ۔ وہ دین کی محدود تعبیر کی جگہ دین کے کُلّی مفہوم کی علم بردار ہیں اور اس بنا پر انھیں محض ’نظریاتی‘ سمجھنا یا کہہ دینا ان کے عملی پہلو کو نظرانداز کر دینے کے مترادف ہے ۔ نظریات عموماً انسانوں سے وابستہ ہوتے ہیں، جب کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ فکر وعمل ہے۔ یہ دستور حیات ہے ، یہ وہ ہدایت نامہ ہے جو اَبدیت کا حامل ہے ۔یہ کسی وقتی معاشرے کی پیداوار نہیں ہےکہ کسی انسانی تاریخ کے کسی مخصوس دور میں پیدا ہوا ہو،اور وقت کے ساتھ معدوم ہوجائے۔ – یہ ابدی صداقت اور ابدی عملیت سے آراستہ ہے ۔ کیوں کہ اس کی تعلیمات کسی انسان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ یہ خالق کائنات کا براہ راست کلام ہے ۔اسی بنا پر اس میں اَبدیت پائی جاتی ہے اور ہر دور کے لیے افادیت ، فلاح، سعادت اور کامیابی کے اصول فراہم کر دیے گئے ہیں۔ 
اسلام انسانوں پر ’عربیت‘نافذ کرنے نہیں آیا ہے بلکہ عربوں کو اسلامیانے اور اسلام کا  علَم بردار بنانے کے لیے آیا تھا ۔تاکہ یہ علَم برداری کسی رنگ ، نسل، خطے میں نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور عمل کی بنا پر انسانیت کی میراث بن جائے اور اس کی عالم گیریت اس کو تمام دیگر نظام ہاے حیات سے ممتاز کر دے۔

خلافت جمہور کے لوازم 

قرآن کریم نے سورۂ مومنون میں اجمالی طور پر ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کو اقوام عالم کی قیادت کے لیے تیار کرتی ہیں: 
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (المومنون ۲۳:۱-۱۱) 
قرآن کریم آخرت کی کامیابی اور فلاح کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور نفاذ سے مشروط کرتا ہے ۔چنانچہ ایمان کے ساتھ ایمان کے پیمانے، یعنی وہ نماز جو خشیت الٰہی والی ہو، وہ زکوٰۃ جو نظام زکوۃ کے ساتھ ادا کی جائے ، وہ جنسی اخلاقیات جس میں جنسی تعلق صرف وہ ہو جو ربّ کریم نے جائز قرار دیا ہے ۔ 
اسی طرح ذمہ داریوں کو امانت اور اہلیت کے ساتھ پورا کرنا اور معاملات میں جو عہد و پیمان اللہ کی مخلوق کے ساتھ کیےہوں، وہ چاہے معاشی عہد ہوں، سیاسی وعدے اور ووٹ ہو ، بین الاقوامی معاہدے ہوں ، ایک شوہر کا بیوی کے ساتھ عقد نکاح ہو، غرض یہ کہ ہر وہ عہد اور معاہدہ جو انسانی معاشرے میں کیا گیا ہو، اگر اسے جیسا اس کا حق ہے پورا کیا گیا ہو، تو رب کریم جنت کا وعدہ فرماتا ہے کہ ایسے اہل ایمان کو میراثِ جنت ملے گی۔ یہ میراث محض جنت کی حد تک نہیں ہے بلکہ زمین میں اقتدار و خلافت کی شکل میں بھی بطور انعام عطا فرمائی جاتی ہے: ’’ اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد کہہ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے(النبأ ۱۰۵:۲۱)۔ اسی بات کو مزید وضاحت سے حضرت موسٰی کے حوالے سے فرمایا گیا:
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا ، ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا’’ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے ، اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھا را رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ ۔(الاعراف۷:۱۲۸-۱۲۹) 
 قرآن کریم نے زمین پر وارث بنائے جانے یا خلافت جمہور عطا کیے جانے کو جن شرائط سے وابستہ کر دیا ہے، وہ قرآن کریم نے جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہیں ۔یہاں تقویٰ اور صبر کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل عہد و امانت ، قیام نظامِ صلوٰۃ اور صنفی اخلاقیات کو اور دیگر مقامات پر صحیح ناپنے تولنے کو ، صلہ رحمی کو ، معروف کے قیام اور منکر کے خلاف جدوجہد کرنے کو ، قوانین الٰہی کے قیام کے ذریعے حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو ، غرض کثیر مقامات پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ خلافت جمہور اسی وقت بطور انعام عطا کی جاتی ہے ، جب اقامت دین صبر وحکمت اور بغیر کسی مداہنت کے اختیار کی جائے۔
اس خلافت یا وراثت پر جن افراد کو مامور کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ان پر یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ یہ خلافت تمھارا امتحان ہے کہ تم کس طرح اللہ کی بندگی ، اقامت دین اور نفاذ احکام الٰہی کرتے ہو ۔ اگر حصول اقتدار کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم اپنی ووٹ کی قوت سے یا سڑیٹ پاور سے یا اپنے عوامی نعروں کی بنا پر کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے اب جو چاہے کریں تو بہت جلد ان کو زوال آجاتا ہے اور اگر وہ اسے عطیۂ الٰہی سمجھتے ہوئے ، امانت سمجھتے ہوئے ، امانت کا حق ادا کرتے ہیں، تو زمین ان کے لیے اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں وہ جنت کے وارث قرار پاتے ہیں ۔اقامتِ دین اور نظام اسلامی کے قیام کے لیے، جن خصوصیات اور ذمہ داران کو جن صفات کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کو بھی آسان اور متعین الفاظ میں طے کر دیا ہے، تاکہ اہل ایمان کسی ابہام یا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔

حاکمیت الٰہی 

اسلامی سیاسی نظام کی پہلی اور سب سے نمایاں خصوصیت شخصی آمریتوںکی جگہ حاکمیت ِالٰہی کا قیام ہے، یعنی ریاستی پالیسی اور فیصلوں کی بنیاد الہامی ہدایت ، قرآن و سنت کی حاکمیت ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہے ۔ کوئی صدر اور کوئی پارلیمنٹ حاکمیت الٰہی سے برتر نہیں ہے اور نہ صدر ، نہ وزیر اعظم ، نہ پارلیمنٹ یا اس کا کوئی رکن قانون سے برتر یا مستثنیٰ (immune) ہے۔ کسی صدر یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو قرآن و سنت کی دی ہوئی شریعت کے کسی حکم میں تبدیلی یا معافی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔مثال کے طور پر اگر قانونی کارروائی کے بعد ایک قاضی یا جج کسی قاتل یا باغی کو شریعت کے مطابق سزا دیتا ہے، تو وہ سزا نہ صدر، یا وزیر اعظم معاف کرسکتا ہے اور نہ سپہ سالار اعظم۔ 
شورائیت
دوسری اہم خصوصیت اسلامی نظامِ سیاست کا شورائی، یعنی مشاورتی اور consultative ہونا ہے ۔جو دین شارحِ اعظمؐ کو مشاورت سے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور پابند کردیتا ہے ، وہ کسی نام نہاد صدر یا وزیر اعظم کو ویٹو (veto)کا حق نہیں دے سکتا ۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں حکمران شوریٰ کے پابند ہیں۔ کیا وجہ تھی کہ اموالِ فئے کےمعاملے میں صحابہ کرام ؓتین دن رات مصروف شوریٰ رہے اور جب ایک نص قرآنی مل گئی، تو پھر عزم الامور اختیار کیا۔کیا وجہ تھی کہ زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف اقدام پر مسلسل شوریٰ ہوئی اور جب خلیفۂ وقت نے قرآنی دلیل کی بنا پر ثابت کیا کہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے منکر کے خلاف جہاد شریعت کا تقاضا ہے، تو انشراح قلب کے ساتھ سب نے اس پر عمل کیا۔ کیا وجہ تھی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر و حنین اور کئی دیگر مواقع پر اجتماعی راے پر عمل کرتے ہوئے قرآن کے اصول کو عملاً نافذ فرمایا۔شوریٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اصحاب شوریٰ مصالح امت کے پیش نظر پوری قوت سے مسئلے کے ہر پہلو پر بحث و گفتگو کریں۔ لیکن جب ایک بات طے ہو جائے، چاہے اس کے لیے ایک تعداد کو اپنی راے کی قربانی دینی پڑے تو پھر اجتماعی فیصلے کی برکت پر اعتماد کرتے ہوئے وہی راے سب کی راے ٹھیرے، اور کسی کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ مجلس سے باہر اپنی دانش وری کے دعوے کرتا رہے ۔
امانت واہلیت 
تیسرا اہم اصول ذمہ داریوں کا صرف ان افراد کو دیا جانا ہے، جو ان ذمہ داریوں کے   اہل ہوں۔ قرآن کے اس واضح حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو جو خود تعلیم کا مستحق ہو، وزیر تعلیم بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو طب کی الف با سے بھی واقف نہ ہو وزیر صحت بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو اُمورِمملکت کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہو، محض اس کی شکل وصورت اور صحت مندی دیکھ کر اُمورِمملکت اس کے حوالے کر دینا قرآنی اصول اور روح کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ 
پاکستان کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ پر اگر خلوصِ نیت سے عمل کیا جائے، تو اس غلطی کے امکان کو بہت کم کیا جاسکتا ہے ۔امانت سے مراد محض مالی امانت نہیں ہے، بلکہ بات اور زبان کی ا مانت ، صلاحیت کی امانت ، جو اختیارات کسی کے سپرد کیے جائیں، ان کی حفاظت، خود اپنے دینی شعور کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ، غرض یہ امانت واہلیت اسلامی نظام حکومت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔

احتساب 

اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین افراد کوبھی جو ذمہ داری دی گئی ہو، اس کے لیے وہ عوام الناس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی بات سننے سے پہلے عوامی اجتماع میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کُرتا جو آپ نے پہنا ہے، اس کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا ؟ اس سوال کے اٹھانے پر نہ خلیفہ کے محافظ سوال اٹھانے والے پر لپکے اور نہ اسے کسی نے گھور کر دیکھا بلکہ خلیفۂ وقت نے اپنے بیٹے سے جواب کے لیے کہا، جس نے عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دی کہ چوںکہ وہ کپڑا جوخلیفہ کے حصے میں ایک عام شہری کی طرح آیا تھا چھوٹا تھا، اس لیے اس نے اپنے حصے کا کپڑا بھی باپ کو دے دیا، تاکہ اس سے کم از کم اس کے باپ کا ایک کُرتا بن جائے۔ یہ احتساب اختیارات کا بھی ہے ، ذاتی زندگی کا بھی، مالی معاملات کا بھی اور ریاستی حکمت عملی کا بھی۔ اور یہ محض پارلیمان یا شوریٰ کے افراد کا حق نہیں ہے بلکہ ہر عام شہری یہ حق رکھتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی پارلیمنٹ کا ارتقا اس مقام تک پہنچا ، جس سے اسلام اپنی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کرتا ہے !

حکمرانوں کی صفات 

  • اسلامی ریاست کا مقصد حاکمیت ِالٰہی اور اقامت ِدین کا نفاذ ہے۔ اس لیے اس کا نفاذ کر نے والوں کا ریاست کی بنیاد اور مقصد اور ہدف پر یقین اور دل و جان سے خلوص نیت کے ساتھ جدو جہد کرنا شرط اوّل ہے۔یہ ایسا کام نہیں ہے کہ اسےٹھیکے پر یا کرایے پر کام کرنے والوں کو دیا جائے،یعنی out source کر دیا جائے اور محض ایسے پیشہ ور ٹیکنو کریٹ افراد جو انتظامی اُمور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہوں لیکن ریاست کے نظریے پر یقین نہ رکھتے ہوں، انھیں ذمہ داری دے دی جائے۔
  • حاکمیتِ الٰہی کے قیام اور اقامت دین کے لیے وہ افراد ہی موزوں ہو سکتے ہیں، جو قرآن و سنت ، فقہ، اداراتی امور سے پوری واقفیت رکھتے ہوں ۔یہی مفہوم ہے امانت و دیا نت کا ، یہی مفہوم ہے ایفاے عہد کا۔ یعنی صرف وہ جو عہد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی اس کام کو صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں ۔اس کو یوں سمجھیے کہ اقامت ِصلوٰۃ کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کے اردگرد رہنے والوں میں جو قرآن سے زیادہ تعلق رکھتا ہو،قرأت کے اصول جانتا ہو، جس کا کردار و عمل محلے والوں کے لیے مثالی ہو، وہی امامت کرے، لیکن عموماً ہر جگہ یہ شکل ممکن نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک امام کا تقرر کر دیا جاتا ہے۔ عموماً امام وہی ہو تا ہے جو خود قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہو ، حفظ اور قرأت میں دوسروں سے افضل ہو ، ایمان داری اور تقویٰ میں معروف ہو۔ ہم کسی مسجد میں کسی ایسے فرد کو، جو نہ قرآن کو اپنی کتاب مانتا ہو، نہ رسول کے خاتم النبیینؐ ہونے پر یقین رکھتا ہو، لیکن ہوبہت خوش آواز، اس کی خوش آوازی کی بنا پر امام مقرر نہیں کرتے۔ یہ ’عہدہ‘ کسی گویے کو  نہیں دیا جا سکتا۔ اس ذمے داری کے کچھ مطالبات ہیں جن پر اس کو پورا اُترنا چاہیے ۔ایسے ہی اسلامی ریاست میں سربراہی کی ذمہ داری کے سزاوار صرف وہ ہیں، جن میں مطلوبہ صفات ہوں اور خود اس کے طالب نہ ہوں۔ ان کو اس ذمہ داری پر مقرر کیا جاسکتا ہے،چاہے وہ پارلیمان کے ذریعے منتخب ہوں یا براہِ راست منتخب ہوں۔ گویا پہلی صفت ذمہ داران کا خود اسلام کا علم اور اس پر مستقل عمل کرناہے ۔
  • ایمان ، علم ، تقویٰ اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ ساتھ منتخب کرنے والوں کا اعتماد بھی ایک بنیادی شرط ہے۔بہترین حکمران وہ ہیں جو اپنے عوام سے محبت کریں اور عوام ان سے محبت کریں ۔ وہ فرماں روا جو عوام سے خائف ہوں اور جن کے آگے پیچھے محافظوں کی ایک فوج ہر وقت انھیں اپنے عوام سے ’بچانے‘ کے لیے موجود رہے ، اسلامی ریاست کے لیے سخت ناموزوں افراد سمجھے جاتے ہیں۔ 
  • ریاستی امور چلانے کے لیے فرما ںروا میں اجتہادی صلاحیت کا ہونا بھی ایک شرط ہے۔ یہ اجتہاد محض معاشرتی مسائل کا نہیں بلکہ دفاعی معاملات میں ، بین الاقوامی تنازعات میں ، ملک کی معاشی ، تعلیمی حکمت عملی میں، غرض یہ کہ ان تمام معاملات میں اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے تاکہ   وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کر سکے ، ایک بنیادی شرط ہے ۔
  • یہ خیال بے بنیاد ہے کہ اسلامی ریاست عیسائیت کی طرح تھیا کریسی(پاپائیت) کی قائل ہے۔اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پادریت یا برہمنیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔ کوئی خاص طبقۂ علما یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ حکومت کرے۔ اس بنا پر اسلام میں نہ تھیا کریسی ہے اور نہ فرقہ واریت بلکہ صحیح معنی میں خلافت جمہور ہے ۔ عوام میں سے جو بھی باصلاحیت فرد اپنے تقویٰ،  علم اور تجربے کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہو، وہ بڑی سے بڑی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے ۔ اسی طرح ریاست کسی فرقے یا مسلک کی ریاست نہیں ہے۔ گویا اس کا کوئی فقہی مسلک یا مذہب نہیں ہے۔ یہ صرف شریعت کی بالادستی چاہتی ہے اور معاملات میں عام شہری جس فقہی مسلک کے قائل ہوں، اس کی روشنی میں ان کے معاملات طے کیے جاتے ہیں ۔ریاست مسالک سے بلند ہوکر قرآن و سنت کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔
  • اسلامی ریاست کے خدوخال کے حوالے سے یہ امید رکھنا کہ قرآن کریم یا سنت میں علم سیاست اور اداراتی علوم کی کسی نصابی کتاب کی طرح ہر موضوع پر الگ ابواب قائم کیے گئے ہوں، قرآن سے ناواقفیت کی علامت ہے ۔ قرآن و سنت واضح عالم گیر اصول اور چند صورتوں میں متعین احکام دیتے ہیں، تاکہ انسانی معاشرے میں تبدیلی و ارتقا ہوتا رہے اور یہ اصول اس تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر تبدیل شدہ حالت کے بارے میں رہنمائی فراہم کر سکیں ۔ 

ہم نے مختصر طور پر محض چند بنیادی امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی ریاست کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس کے قیام اور بعد کے اَدوار پر مفصل اور تحقیقی موادکی کمی نہیں ہے ۔ ایک جامع کتاب محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلامی ریاست ہے ، دوسری محترم مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکہ آرا تصنیف اسلامی ریاست ہے۔ پھر ڈاکٹر حمید اللہ کے مضامین پر مبنی Muslim Conduct of State  ایک وقیع علمی کتاب ہے ۔ علامہ محمد اسد کی اسلام کا سیاسی نظام  (انگریزی میں ) ایک اہم تصنیف ہے ۔ 
انگلستان سے اسلامک کونسل آف یورپ نے تین نہایت اہم بیا نیے (declaration  ) شائع کیے:lUniversal Declaration of Islam, lInternational Declaration of Islamic Human Rights, lA Model Islamic Constitution یہ ڈیکلریشن اسلام کے پورے نظام کو جدید حالات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں اور انھیں عالم اسلام کی مقتدر شخصیات نے مرتب کیا ہے۔پھر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صدارت میں جاری ہونے والا بیانیہ الوسطیۃ  بھی اس سلسلے کی ایک قیمتی دستاویز ہے۔مختصراً جماعت اسلامی کے ۱۹۵۸ء سے ۲۰۱۸ء تک کے انتخابات کے جاری ہونے والے منشور بھی اس سلسلے میں تبدیلی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی اور آج کس طرح اس کی روشنی میں ریاست قائم ہو؟ کوئی قیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی واضح اور ٹھوس حقائق کی شکل میں، ان تمام سوالات کے جواب تحریری شکل میں موجود ہیں ۔ ایسے واہمے بعض حضرات اسلامی مصادر سے دُوری کی بنا پر یا اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اٹھاتے ہیں ۔اس تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ عصر حاضر میں تحریکاتِ دعوت و اصلاح ، اقامت دین اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں، اختصار سے ان کے تصور کے خدوخال کیا ہیں، اور یہ بتانا ہے کہ نہ تو وہ کسی مغربی لا دینی ، اشتراکی یا سرمایہ دارانہ تصور سے متاثر ہیں اور نہ ان کی دعوت اور مغربی لادین جمہوریت میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اسلام حاکمیت الٰہی اورخلافت جمہور کا علَم بردار ہے،جو مغربی تصور ِریاست سے بالکل مختلف تصور ہے۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ اسے سمجھے اور مدّنظر رکھے بغیر صحیح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔
 

مسلم دنیا میں گذشتہ نصف صدی کے دوران مصر، سوڈان ، ترکی ، تیونس ، پاکستان ، لبنان اور بنگلہ دیش میں تحریکات اسلامی کو جن مسائل کا سامنا رہا ہے ،ان میں اکثر کو نظر انداز کرتے ہوئے ابلاغ عامہ ہی نہیں خود تحریکی کارکن تحریک کی مقبولیت یا ناکامی کو صرف ایک ہی پیمانے پر ناپنے لگے ہیں اور وہ ہے سیاسی محاذ پر پارلیمان میں نشستوں کی تعداد اور حکومت میں عمل دخل۔ بلاشبہہ سیاسی کامیابی کسی تحریک کی توسیع،مقبولیت اور اثر کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہو سکتا ہے لیکن محض سیاسی عینک سے ہر چیز کو دیکھنا تحریکی مزاج اور مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتا۔

اگر تحریک اسلامی ، دعوت اسلامی ، اقامت دین ، تبدیلیِ قیادت کی اصطلاحات کا صرف ایک سیاسی مفہوم ہی ہے تو یہ فکر کی ایک بنیادی غلطی ہے ۔ دنیا کی تمام اسلامی تحریکیں قرآن و سنت سے اخذ کر دہ ترجیحات کی بنا پر تبدیلی کا آغاز فرد، خاندان، معاشرہ اوراداروں کی تبدیلی و اصلاح سے کرتی ہیں۔سنت انبیاؑ بھی یہی ہے اور اسی کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ تحریکات اسلامی اور دیگر تحریکات اصلاح نفس کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر تحریکات فرد کی اصلاح کو اپنا اعلیٰ مقصد قرار دے کر اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں اُلجھ جاتی ہیں اور بعض اوقات مثالی انفرادی کردار پیدا کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود فرد کی اصلاح سے امت کو کوئی اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا۔گو نظری طورپر یہی کہا جاتا ہے کہ جب سارے افراد درست ہو جائیں گے تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا ۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو اللہ تعالی کو اقامت صلوٰۃ فرض کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھ لیا کرتے اور نفس کی اصلاح کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ۔ نہ روزہ کو ایک پورے مہینے کے لیے اجتماعی طور پر فرض کرنے کی ضرورت تھی، نہ جہاد فی سبیل اللہ کو افضل و اعلیٰ کہنے کی ضرورت تھی۔ لوگ مجاہدۂ نفس کرکے اپنے خیال میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے مستحق بن جاتے اور سیاست، معیشت، ثقافت ہر شعبے کو آزاد چھوڑ کر کسی غیبی قوت کے ذریعے اچانک معاشرے میں عدل و انصاف، امن و محبت اور حقوق و فرائض کے نظام کا قیام ہو جاتا ۔ نہ حضرت موسٰی کو وقت کے جباروں سےٹکرانے کی ضرورت تھی، نہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کو زمین پر خلافت الٰہی قائم کرنے کی خواہش ہونی چاہیے تھی۔

 تحریکی فکر اور عام دینی فکر میں فرق یہی ہے کہ اسلام کی اجتماعیت ، جو اس کی روح ہے،  کو بنیاد بناتے ہوئے فرد، خاندان معاشرہ اور زمام اقتدار کی تبدیلی اس کے واضح اہداف ہیں ۔

ظاہر ہے انسانی معاشرے میں کوئی کام اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اس کام کے کرنے والےباصلاحیت اور ماہرانہ اہلیت رکھتے ہوں ۔ اگر ہم ایک مکان نہیں، ایک شلوار قمیص بھی سلوانا چاہتے ہیں تو بہترین درزی تلاش کرتے ہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گروہ معاشرے اور ملک کی اصلا ح کرنے چلے اور اس کے پاس افراد وہ ہوں جو نہ دین سے آگاہ ہوں ، نہ انتظامی معاملات میں مہارت رکھتے ہوں ۔ اس لیے افراد سازی بذریعہ تطہیر افکار وہ پہلا قدم ہے جس کے بغیر کوئی دعوتی، اصلاحی اور اقامت دین کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سب انسان ایک سانچے میں ڈھل کر یکساں نہیں ہو سکتے ۔کیا سارے صحابہؓ اور عشرہ مبشرہ برابر تھے۔؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہؓ میں کوئی خامی پائی جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مصدقہ طور پر اخلاص کے باوجود نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرؓ سے یہی تو کہا تھا کہ ہم تمھیں  کسی ذمہ داری پر نہیں لگائیں گے کیوں کہ اس کے لیے جو صلاحیت درکار ہے وہ تم میں نہیں ہے۔  یہ نہ ان کے تقویٰ پر ، نہ دین کے علم پر کسی قسم کے شبہہ کااظہار تھا۔ اسی لیے ہر تحریک اسلامی کو اپنے فرد مطلوب کے لیے ایک معیار اور پیمانہ طے کرنا ہوتاہے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۳عقیدہ کے زیر عنوان اپنے فرد مطلوب کے تصور کو واضح کر تی ہے ۔ دستور کی دفعہ۴ یہ وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہے، جزوی اصلاح کی یا مکمل دین کی اقامت۔اسلامی نظام زندگی سے مراد محض عبادات ہیں یا انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی اور  ملکی سطح پر قرآن و سنت کی تعلیمات کا نفاذ و قیام اور اس کام کے لیے اجتماعی جدو جہد لازمی ہے ۔

یہی وہ فرق ہے جو کسی تحریک کو تحریک اسلامی بناتاہے لیکن کیا جب تک ہر فرد انسانِ مطلوب کے معیار کا نہ ہو جائے ، دعوتی ، اصلاحی  اور سیاسی سرگرمیوںکو معطل کر دیا جائے ؟نظری طور پر تو  یہ بات شاید معقول نظر آئے، عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک کم سے کم معیار کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اگر ایک فرد نہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہو، نہ اس کے گھر کا ماحول طہارت وپاکیزگی کا عکاس ہو ، نہ اس کا کاروبار حلال و حرام کا فرق کرے لیکن اس سب کے باوجود بھی اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے تو یہ دستور کے منافی ہو گا۔ہاں، اگر وہ باوجود کوشش کے تین نمازیں جماعت سے ادا کرپاتا ہو ، اپنے گھر میں تمام کوشش کے باوجود ابھی کامیاب نہیں ہوا ہو اور اپنے کاروبار سے حرام کے عنصر کو نکالنے میں لگا ہوا ہو اور جلد اسے پاک کر لے گا، تو اس سعی و کوشش اور خلوص نیت اور مسلسل جدوجہد میں لگنے کی بنا پر اسےتحریک میں شامل تو کر لینا چاہیےلیکن ساتھ ہی اس کی تربیت و تعمیر سیرت کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ قرآن کاا صول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی برداشت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا ۔ جو چیز ایک فرد کی طاقت سے باہر ہو اس پر اس کی گرفت نہیں کی جاسکتی۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جا سکتا کہ ایک سیاسی کارکن جو اپنے علاقے میں اثر و رسوخ تو رکھتا ہو لیکن عبادات و معاملات میں بہت پیچھے ہو پھر بھی محض اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے  کے لیے اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے ۔ تحریک کو فرد کی اصلاح کے معیار پر سختی سے عمل کرنا ہو گا ۔کیوں کہ اس کا ہدف کثرت افراد نہیں ، تطہیر و تبدیلی افراد ہے اور ایسے افراد کو پوری محبت و احترام کے ساتھ موقع دینا ہو گا کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کر یں اور اس کے بعد ہی تحریک کا حصہ بنیں ۔

            ایسے ہی تطہیر افکار اور تربیت افراد کسی خلا میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ایک ایسی  جماعت کے وجود کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کے مواقع پیدا کرتی ہو اور جس میں افراد کی شمولیت کا مقصد محض سیاسی قوت کے حصول کی جگہ باصلاحیت، فکری اور عملی قیادت کی تیاری ہو ۔یہ کام ایک طویل المعیاد عمل ہے ۔ یہ دو تین تربیت گاہوں یا اجتماعات میں شرکت کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مسلسل عملی تربیت کی ضرورت ہے،جو صرف دعوتی میدان ہی میں ہو سکتی ہے ۔ کوئی ایک ہفتہ یا تین دن کا کورس اس کام کو حتمی طور پر نہیں کر سکتا ۔

تزکیہ فکر اور تربیت اخلاق محض نئے آنے والے افراد کے لیے نہیں،تحریک میں ہر سطح کی ذمہ دار قیادت کے لیے بھی ضروری ہے ۔اگر قیادت ایک مقام فکر وعمل پر رُک جائے اور اس میں مسلسل ترقی کی کوشش نہ کرے تو وہ کارکنوں کو قابل عمل مثال فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ تھوڑے یا عبوری عرصے کے لیے کارکن اپنی بے چینی کا اظہار نہ کریں اور حُسنِ ظن رکھتے ہوئے قیادت کے ساتھ چلتے رہیں لیکن جلد ان کے ذہنوں میں گمان ، ظن اور بدگمانی پیدا ہو نا ایک فطری عمل ہے۔تحریک اسلامی میں جس لمحے کارکنوں میں یہ بے چینی پائی جائے فوری طور پر اسے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور تعمیری انداز میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

اس فکر کا پایا جانا اس پہلو سے تو اچھا ہے کہ تحریک میں لوگ اپنی سوچ اور فکر کا استعمال کررہے ہیں اور تحریک جامد اور ساکت نہیں ہے ۔لیکن ہر فکر خود اپنی جگہ پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی اور بعض تصورات بہت معصوم ہوتے ہیںلیکن وہ تحریک کے مقصد وجود کی ضد ہوتے ہیں ۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی تبدیلی الگ الگ دائروں کا نام ہے یا دعوت اصلاح میں سیاسی اصلاح ایک لازم و ملزوم عنصر ہے؟ تحریکات اسلامی اور جماعت اسلامی کو دیگر تحریکات سے ممتاز کرنے والا یہی وہ پہلو ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا مقصد چند ایسے زاہد و عابد افراد کا پیدا کرناکبھی نہ تھا جو علم کے موتی بکھیرتے رہیں اور معیشت ، معاشرت ، ثقافت اور سیاست و قانون پر شیطانی فکر غالب رہے بلکہ روز اول سے اس کا نصب العین اقامت دین رہا ہے ۔ جس میں سیاسی تبدیلی ایک لازمی مرحلہ ہے اور کام وہاں جاکر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ملکی اداروں کی تبدیلی و اصلاح کا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ نظام کی تبدیلی محض پارلیمان میں چند نشستوں پر جا کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے ، بلکہ ملکی معیشت ، تعلیم ، قانون، ابلاغِ عامہ، غرض ہر شعبے میں افرادی قوت ، نظریاتی اور مقصدی اصلاح کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام چند وزراتوں یا کسی طرح وزارت عظمیٰ تک پہنچ جانے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک طویل اور مسلسل عمل ہے جس میں نصرتِ الٰہی کے ساتھ صحیح حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔

یہ خیال کمزور ہونے کے باوجود بذاتِ خود بحث اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی کام کو معطل کر دیا جائے یا دو الگ دائرے طے کر لیے جائیں۔ درحقیقت یہ تصور  جماعت کے قیام و مقصد اور دستور کے منافی ہے ۔اگر ایسا کیا جائے گا تو جماعت اسلامی اس تصور کی توثیق کرے گی جس میں بعض حضرات نے تبلیغ کو اختیار کر لیا اور بعض افراد نے سیا سی محاذ سنبھال لیا ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اگر ایسا کیا جائے تو یہ سیکولر افراد کی تقویت اور خوشی کا باعث ہو گا اور جو حضرات جماعت اسلامی سے کسی نہ کسی وقت بھلائی کی امید رکھتے ہیں ان کی امیدوں کو چکنا چور کرنا ہو گا ۔نہ صرف یہ بلکہ خود وہ لوگ جو جماعت میں اس بنا پر شامل ہو ئے کہ یہاں دین کا ا جتماعی تصور ہے، اور یہاں وہ توازن ہے جو دین چاہتا ہے۔ یہاں اخلاص نیت ہے ۔ یہاں عہدوں کی طلب نہیں ہے۔ یہاں حصول امارت یا شوریٰ کے لیے نجویٰ اورcanvassing نہیں ہے۔ یہاں کسی لسانی یا صوبائی وابستگی کی بنیاد پر کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ۔یہ اور جماعت کے کلچر سے وابستہ دیگر وجوہ جو کسی کے جماعت سے قریب آنے کا سبب بنتی ہیں ، ان تمام توقعات کو ختم کر دینا ہو گا۔

جماعت اسلامی کے بانی امیر نے اس طرف تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل  میں متوجہ کیا تھا:’’یہ کہنا کہ جماعت اسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کے اخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے،اپنے پیچھے اخلاق کی تیاری کا یہ تصور رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کرکے لائے جاسکتے ہیں۔ حالاںکہ یہ تصور اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر تیراک ہوسکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے ‘‘۔(ص ۱۱۶)

تاہم، جس چیز پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم تحریک کی کامیابی و ناکامی کو صرف سیاسی پیمانے ہی سے ناپنا چاہتے ہیں تو گذشتہ دو اور حالیہ الیکشن کے اعداد وشمار سامنے رکھ کر دیکھا جائےکہ ہمارے مجموعی حاصل کر دہ ووٹوں میں کس تناسب سے کمی یا اضافہ ہوا ہے؟ہم نے کس عمر ، قابلیت ، تجربہ کے افراد کو انتخابی نمایندہ بنایا اور ہر صورت حال میں کامیابی و ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟ اس پہلو سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۱۰ سال میں ہماری ترجیحات کیا رہی ہیں؟ ہمارے وقت ، مالی وسائل ، صلاحیتوں، منصوبہ بندی کا کتنا تناسب ، قیادت کی اپنی تربیت ، مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے ہر فرد کی کارکردگی اور مالی ، فکری تعاون میں صرف ہوا؟ اور کتنا صوبائی اور ضلعی بنیاد پر افراد کے تقرر ، ان کی صلاحیتوں کی نشو ونما (grooming )، ان کا احتساب،  ان کی کارکردگی کے معروضی جائزے پر صرف ہوا؟

اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ۱۰ سالہ مدت میں سیا سی منصوبہ بندی اور تنظیمی دوروں اور معاملات میں وقت کا استعمال اور دعوت پر غور وفکر، فکر مودودی سے استفادہ،  قرآن و سنت کا براہِ راست مطالعہ اور تجزیہ ، جماعت کی مجموعی فضا سیاسی رہی یا دعوتی؟ للہیت کے پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ سیاسی محاذ پر مقصود محض شکست دینا تھا یا ہماراطرزِ عمل مصلحانہ اور دعوت کار ہے یا پیشہ ور حزبِ اختلاف کی طرح ہر بات پر منفی طرزِ عمل و تنقید کرتے رہے ، یا وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ المائدہ۵:۲)پر عمل ہو رہا ہے یا صرف عدم تعاون پر عمل رہا؟ مخالف کا دل جیتنے کے لیے اپنے اہداف و طریقۂ کار سے ایک انچ ہٹے بغیر کیا اقدامات کیے ؟ دیگر تحریکات اسلامی خصوصاً تیونس اور ترکی جہاں تحریک اسلامی کو سیاسی کامیابی ہوئی ، کیا ان کا علمی، تاریخی جائزہ لیا گیا؟ تیونس میں خصوصاً جس طرح النہضۃ نے اپنے مخصوص حالات میں تبدیلی اختیار کی ہے، کیا اس کے بعد وہ ہمارے لیے مثال بن سکتی ہے؟ ترکی میں طیب اردگان کو لانے میں نجم الدین اربکان کا کتنا دخل تھا اور پھر باہمی اختلافات کے بعد آج وہاں پر دعوتی اور تحریکی کام کی شکل کیا ہے؟غرض علمی اور تحقیقی جائزے کے بغیر کسی بھی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کو کسی دوسرے مقام پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ کیا واقعی جماعت کی حکمت عملی میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ جب تک تیونس اور ترکی سے تریاق نہیں آئے گا، کام نہیں ہو سکتا یا ہم نے خود بعض فیصلے غلط کیے ہیں ، جن کی بنا پر ہم دعوتی اور سیاسی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ان تمام پہلوؤں پر ان حضرات کو غور کرنےکی ضرورت ہے جو خود میدان میں کام میں مصروف ہوں۔ چند دانش وَر کسی بھی تحریک کو مسائل کا حل نہیں دے سکتے ۔ گو، حکمت مومن کی گم شدہ پونجی ہے اور جہاں سے بھی ملے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔

 اس امر کی ضرورت ہے کہ ترجیح اوّل کے طور پر کارکنوں کی فکر ی تربیت اور دعوتی میدان میں شرکت کے ذریعے عملی تربیت کو اختیار کیا جائے اور ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں، صالح اور مکمل طور پر تحریکی فکر رکھنے والے افراد کو متعارف کروایا جائے جو ۱۰ سال بعد ملکی سطح پر تحریک کو قیادت دے سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ قرآن کریم کا غیرمعمولی ادبی اعجاز ہے کہ وہ انسانوں کے لیے اپنی ہدایت کی تعلیمات کو انتہائی مختصرالفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ ان الفاظ میں نہ کہیں جھول پایا جاتا ہے، نہ ابہام، نہ فلسفیانہ اُلجھن بلکہ سلاست ِبیان کے ساتھ محض چند الفاظ معانی کے سمندر کو سمو لیتے ہیں۔ سورئہ صف میں چند الفاظ میں انبیاے کرام ؑ کو مقرر کرنے کا مقصد، دعوتِ دین کی جامعیت، دعوت و اصلاح کا مقصد اور آخرکار ایک ایسے معاشرے اور نظامِ عدل کے قیام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شرک و کفر اور زندگی میں ظلم، فساد اور دو رنگی سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جاتا ہے:

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ۧ (الصف۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

منصبِ رسالتؐ

یہاں پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی طور پر بھیجا جانا اس غرض کے لیے ہے کہ وہ ہدایت اور دین حق کو، جیساکہ وہ ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے اس میں سے کسی بات کو نظرانداز کیے بغیر، بلاکم و کاست اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام اور شبہہ نہ رہے اور حق ظاہر ہوجائے۔ لیکن یہاں ساتھ یہ بات بھی سجھائی جارہی ہے کہ دینِ حق اور ہدایتِ الٰہی کو محض پیش کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حق کو باطل، شرک اور فسق پر غالب کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دعوت کا حصہ اور مقصود ہیں۔ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ شرک و و الحاد کو، نفس پرستی اور آبا پرستی کو ، اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے انسانی زندگی کو پاک کرے، جھوٹے خدائوں سے انسانیت کو نجات دلائے، اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اللہ رب العزت کی سربلندی اور حاکمیت کے قیام کے ذریعے سے اللہ کی زمین پر صرف اس کی مرضی کو رائج اور قائم کردے۔ یہ دعوتِ دین کے کسی خاص جزو یا حصے پر  عمل پیرا ہونے کی نہیں بلکہ مکمل دین کی دعوت ہے۔ توحید فقط اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اور صرف اس کی بندگی میں آجانے کا نام ہے۔

اسلام دین و دنیا کی ثنویت یا دو رنگی (dualism) کی جگہ دین و دنیا کی وحدت کا داعی ہے اور یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا، تجارت کرنا، تفریح کرنا، غرض ہرانسانی عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشی اور مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔      یہ عیسائیت کی طرح ہفتے میں ایک دن چرچ جا کر اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکومت اور دائرۂ کار کو جس طرح مسجد میں قائم کرتا ہے، اسی طرح خاندان، تجارت، سیاست، معاشرت، قانون و ثقافت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور احکام کے تابع کرتا اور اس کی رضا کے حصول کا میدانِ کار بنا دیتا ہے۔نعوذ باللہ یہ ایسے خدا کا قائل نہیں جو مسجد یا خانقاہ تک محدود ہو اور باقی تمام کاروبارِ حیات شیطان کے حوالے کردے۔ اسلام اس تقسیم کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے اور یہی منصب نبوت کا تقاضا ہے۔ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۝۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) ’’اللہ کے بندے بن جائو اور طاغوت سے مکمل اجتناب کرلو‘‘۔ یہی وہ دعوت ہے جسے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانوں تک پہنچایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔

ہدایت و رہنمائی

اگلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انبیاے کرام ؑ ہی ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور تمام انبیاےکرامؑ نے انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ گویا یہ دین ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ اللہ ہے جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انھیں گمراہ نہیں دیکھنا چاہتا، جو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے انبیا ؑ بھیجتا رہا اور جس نے آخرکار پوری ا نسانیت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور پیغامبر بنا کر بھیجا۔ دین کو مکمل شکل میں محفوظ کیا اور اسے قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم اور نجات کا راستہ قرار دیا۔ نیز یہ کہ نبی کا کام نہ صرف تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب ہے بلکہ تزکیہ اور حکمت کی تعلیم و تربیت دینا بھی ہے۔ ان چاروں وظائف کو عملاً نافذ کرنے کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یعنی تلاوتِ کتاب کے ذریعے انسانوں تک ہدایت اور دین حق کو جیساکہ وہ ہے پہنچانا، نبی کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ افراد کا تزکیہ کرنا، جسے ہم کردار سازی اور صلاحیت ِ کار میں ترقی کہتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کو اُبھارنا اور انھیں دعوتِ دین کی حکمت عملی سے آگاہ کرنا نبی کے مشن کا حصہ ہے۔ نبی کے بعد دعوت کا پہنچانا ہو یا ہدایت کی وضاحت کرنی ہو، قانون کا نفاذ کرنا ہو، یہ سب کام نبی کے بعد اُس اُمت کے سپرد کر دیے گئے جو نبی پر ایمان رکھتی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تم وہ خیراُمت ہو جسے پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانوں کو اچھائی ، نیکی، بھلائی اور معروف کا حکم دو اور گمراہی، منکر اور فواحش سے روکنے اور بچانے کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرو۔(اٰل  عمرٰن ۳:۱۱۰)

یہاں بات فقط وعظ و تلقین کی نہیں کی جارہی بلکہ اس کے امرونہی کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پر قوتِ نافذہ کی طرف اشارہ ہے اور جس کے ذریعےمتوجہ کیا جارہا ہے کہ منکر اور بُرائی کو مٹانے کے لیے ہرممکن ذریعۂ اصلاح کا استعمال ضروری ہے۔

یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت مکمل ہے، یہ زندگی کے کسی خاص پہلو تک محدود نہیں، یہ محض روحانیت کا نام نہیں، نہ یہ محض ’ذاتی‘ اور ’نجی‘زندگی کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف جامع اور مکمل ہے بلکہ یہی حق ہے یہی ’دین الحق‘ ہے اور  اس ’دین الحق‘ کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کرنا نبی اور ان کے بعد نبی کے ماننے والوں کا کام ہے۔ تحریک اسلامی کا اصل مقصود، دین حق کا قیام اور باطل اور طاغوت سے انسانیت کو نجات دلانا ہے۔

مخالفین کا ردعمل

یہ بات بھی واضح کی جارہی ہے کہ اس دین حق کی دعوت اور جدوجہد کو کفر، ظلم، طاغوت کے علَم بردار برداشت نہیں کریں گے۔وہ اسے سخت ناگوار سمجھتے ہوئے اپنی تمام قوت اس کا راستہ روکنے میں لگائیں گے اور نہ صرف مقامی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دین حق کو دبانے اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو خوش نصیب ہدایت کو قبول کرلیں گے اور اس پر استقامت سے جم جائیں گے، وہ اپنے رب کی نصرت و حمایت سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود بالآخر کثرت پر غالب آئیں گے۔ اسلام قلت و کثرتِ افراد کی جگہ افراد کی تاثیر اور قوت کردار و اخلاق کا اصول پیش کرتا ہے کہ اگر وہ صرف ۲۰ صالح اور مجاہد افراد ہیں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے ۔ گویا کامیابی کا معیار تعداد نہیں تربیت ہے، کردار اور طرزِعمل ہے۔ مخالفت کی ہوائیں جتنی بھی تندوتیز ہوں گی، حق اتنا ہی زیادہ بلندی کی طرف جائے گا۔

تحریکاتِ اصلاح کا اصل تشخص

جو اسلامی تحریکات اپنے قیام کا مقصد اور اپنی سرگرمیوں کا ہدف حاکمیت ِالٰہی کا قیام قرار دیتی ہیں، ان کے لیے قرآن کا دیا ہوا اصول یہی ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کے لیے ایسے افراد تیار کریں جو چاہے تعداد میں کم ہوں لیکن اپنے ایمان اور کردار میں غیرمتزلزل اور میدانِ کارزار میں چٹان کی طرح جم جانے والے ہوں، جو سر تو دے دیں لیکن ان کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے اور ایمانی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کریں۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل سرمایہ یہی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں، جو اللہ کے حضور شب گزاری کے ساتھ ساتھ کارزارِ حیات میں، رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح ہوں۔

اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہدایت ربانی اور مکمل دین کے اظہار اور حق کو قائم کرنے کے لیے محض عددی قوت یا عوامی احتجاج کی طاقت (street power)کا استعمال کامیابی کی شرط نہیں ہے۔ تحریکی کارکنوں کی وہ کم تعداد بھی جو قوتِ کردار سے آراستہ ہو، باطل اور طاغوت کے بڑے سے بڑے لشکر پر غالب آسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ معرکۂ بدر ہو یا غزوئہ احزاب، اہلِ ایمان کی کم تعداد اپنی قوتِ کردار اور اعلیٰ تربیت یافتہ اخلاق کی بناپر منکرینِ حق کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان پر غالب آئی۔

خلافتِ جمہور کا مفہوم

پارلیمنٹ یا معاشی منڈی یا تعلیم گاہ جہاں کہیں بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نظام چل رہا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی حاکمیت، آمریت اور بادشاہت کی جگہ مالکِ حقیقی کی حاکمیت کو  خلافتِ جمہور کے ذریعے رائج کیا جائے۔ یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں اسلامی شریعت کو قائم کیا جائے لیکن خلافت کے قیام اور خلافت ِ جمہور کے ذریعے نظامِ عدل کا قیام چند بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی و اصلاح کا داعی اور اس کے رفقا سب سے پہلے خود دین کی شہادت دیں، چنانچہ فرمایا گیا:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۵)رسول اور اہلِ ایمان اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔

زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو رائج کرنے والوں کو پہلے اپنی دعوت پر غیرمتزلزل یقین ہو۔ وہ اس کا اظہار و اقرار نہ صرف زبان سے کر رہے ہوں بلکہ عملاً شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے میں قیادت کریں۔ چنانچہ جب تک تحریک کا ہر کارکن تجدید ِ ایمان کرتے ہوئے اللہ کی بندگی اور تحریک سے وابستگی اور دین کی سربلندی اور کامیابی پر مکمل ایمان نہ لائے وہ دین کی دعوت، استقامت و اعتماد سے نہیں دے سکتا۔ اس کا لہجہ اور اس کی ہر ہر ادا( body language) اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اپنی دعوت کی صداقت پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتاہے اور کسی فکری انتشار (confusion)کا شکار نہیں ہے۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی مقابلے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو شہادتِ حق میں لگا دے گا۔ اس کا اصل ہدف دین حق کا قیام ہو جس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ایک ضروری وسیلہ تو ہے، اس کی منزل نہیں۔ وہ فتح اور ناکامی سے بلند ہوکر اپنی تمام قوت اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا دے۔

خلافتِ جمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو حکمت و محبت کے ساتھ اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ ہر تحریکی کارکن کی شخصیت، اور اس کی سیرت اور اس کا کردار خود دعوت کی زبان بن جائے۔ زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر وہ اپنے وجود سے ایک دیکھنے والے کو یہ بات پہنچا دے کہ وہ سچ پر قائم اور سچ کو غالب کرنے والا ہے۔ وہ بے غرض ہے۔ اسے اپنی لیڈری مطلوب نہیں ہے۔ وہ دراصل دین کا کارکن ہے۔ وہ نہ شہرت چاہتا ہے نہ کوئی معاوضہ یا بدلہ طلب کر رہا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اپنے رب کی خوش نودی کے حصول کے لیے لگادینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔

خلافتِ جمہور اور مغربی جمہوریت کا جوہری فرق ہی یہ ہے کہ خلافت اللہ کی ہدایت کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اوراس میں کسی فرد کی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اور نہ اس میں اکثریت کے نام پر استبداد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت جمہور کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے آنکھیں بند کر کے محض افراد کے ووٹوں کی کثرت پر نہ کیے جائیں بلکہ جس اصول پر فیصلہ ہو وہ یہ ہے کہ انسانیت کا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے۔ گویا ووٹ کا استعمال لازماً کیا جائے لیکن ووٹ اپنی قوت قرآن و سنت سے حاصل کرے اور اس کا تابع ہو۔ نیز جن اُمور کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا جائے اور جو معاملات انسانوں کی عقل اور تجربے پر چھوڑے گئے ہیں ان میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جمہور کی مرضی کے مطابق معاملات طے ہوں۔ شوریٰ کے نظام کی روح جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے وہیں فیصلہ سازی میں عوام اور ان کے نمایندوں کی ایک ایسے انتظام کے ذریعے مؤثر شرکت ہے جو افراد اور گروہوں کی آمریت سے پاک ہو۔

خلافتِ جمہور کی روح یہ ہے کہ فیصلے کی طاقت محض حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ تمام باشعور افراد قرآن و سنت کی روشنی میں اُمورِ سلطنت چلانے کا اہتمام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں مخالفت براے مخالفت اور محض عصبیت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر اطاعت اور ہم نوائی کے مقابلے میں وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠  (المائدہ ۵:۲) کو رہنما اصول قرار دیا گیا ہے۔ خلافت ِ جمہور میں کسی پیشہ ورانہ حزبِ اختلاف کا تصور نہیں پایا جاتا کہ اسے لازماً حزبِ اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے بلکہ کسی بھی بات کی صداقت براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر مان لینے کا نام نیابت و خلافت ہے۔ خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بجاے خود کوئی حتمی حیثیت نہیں رکھتی، البتہ شریعت کے ذریعے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی جدوجہد آئینی ذرائع سے کی جائے تو وہ خلافت ِ جمہور کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی، دفاعی، ثقافتی اور قانونی مسائل، ہر معاملے میں مشاورت یا شوریٰ کو بنیاد بنایا جائے۔ شوریٰ کی روح اختلاف ِ راے ہے، جتھابندی نہیں ہے، نجویٰ نہیں ہے، غیبت نہیں ہے بلکہ کھل کر معاملات پر گفتگو و تبادلۂ خیالات کے ذریعے اجماع یا اتفاق راے کا پیدا کرنا ہے۔ اور اگر اتفاق راے نہ ہوسکے اور معاملہ حکمت اور مصلحت کا ہو اور جو معصیت سے پاک ہو تو پھر اکثریت کی راے ہی معتبر ہوگی لیکن اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۳۰۵۴) ’’خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔

یہاں فیصلہ مغربی یا مشرقی قوموں کے بنائے ہوئے ضوابط پر نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے حریت و آزادی، امانت و دیانت اور تقویٰ و احسان کے ضوابط پر ہے۔ یہاں ہرراے اور عمل کا پیمانہ ہدایت ِ الٰہی اور اسوئہ نبویؐ ہے۔

خلافت جمہور کا مطلب وہ نظام ہے جس میں احتساب پر عمل کیا جارہا ہو۔ قائد سے لے کر ایک عام کارکن تک کا احتساب اجتماعی ضوابط کی روشنی میں کیا جاسکتا ہو اور کیا جا رہا ہو۔ خلافتِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے اس لادینی نظام کو ختم کیا جائے جس میں دین و دنیا میں تفریق کرکے خالق کائنات کو مسجد تک محدود کر دیا جاتا ہے اور مسجد سے باہر مادی قوتوں اور عوام کی خوشی اور خواہشوں کو اپنارب بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی فکر کے تمام خودساختہ بتوں کوپاش پاش کرنے کے بعد بے لوث اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ، باصلاحیت، خدمت کرنے والوں کو مناصب کے لیے نامزد کیا جائے۔

خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ انفرادیت پسندی، قومیت اور صوبائی اور لسانی عصبیت جیسے تمام بتوں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور شریعت کو زندگی کے تمام معاملات میں نافذ کردیا جائے۔

خلافت جمہور کے لوازمات

خلافت ِ جمہور کا قیام ضروری نہیں کہ چند ہفتوں، چند مہینوں یا چند برسوں میں تکمیل کو پہنچ جائے۔ قوموں اور تحریکوں کی زندگی میں ۷۰سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تحریکی کارکنان کو اپنی سوچ کو درست رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک حکایت ہے کہ ایک ۹۹سالہ بوڑھا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے کھجور کی گٹھلی بو رہا تھا کہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ تحریک کی دعوت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کی جدوجہد براے خلافت جمہوربھی  فوری نتائج سے بے پروا ہوکر اچھائی کے بیچ سنگلاخ زمین کے کچھ حصے کو نرم کر کے ڈالنا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی جڑیں چٹانوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے تنے کو مستحکم کردیں اور اس کی شاخیں تمام انسانیت کے لیے سایہ، سکون اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔

دعوتِ دین کا شجر طیبہ بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس شجر طیبہ کے لگانے اور اس کی پرورش کی کچھ شرائط اور لوازمات ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ پودا درخت نہیں بن سکتا اور درخت پھل نہیں دے سکتا۔ ان شرائط میں سب سے اوّل دعوت حق دینے والے کا خلوصِ نیت ہے۔

دین میں خلوصِ نیت بنیاد ہے۔ نماز ہو یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ کی ادایگی میں خلوصِ نیت نہ ہو تو یہ سب ریا بن جاتے ہیں اور اپنا ثواب یا اجر کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایک درسِ قرآن اس لیے دیا جارہا ہو کہ مقرر کو عالمِ دین سمجھا جائے۔  اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو، اس کا چہرہ سوشل میڈیا پر بطور ایک تحریکی رہنما کے لوگوں کو نظر آئے، اس کے درس کی رپورٹ تصویر سمیت کسی رسالے یا اخبار میں طبع ہو، تو یہ عمل اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم رہے گا اور سیکڑوں افراد کے درس کو  سن لینے کے باوجود تبدیلیِ فکر، تطہیرقلب اور تعمیرکردار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر درسِ قرآن دینے والے کی نیت بغیر کسی اجر اور علمیت کے اظہار کے، صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول ہے، تو یہ عمل چاہے بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد یا گھر میں محض پانچ سات افراد کی مجلس میں کیا گیا ہو لیکن نتائج کے اعتبار سے زیادہ تعمیری اورثمرآور ثابت ہوگا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے تمام انبیا ـؑ نے اپنی دعوت پیش کرنے کے بعد ایک ہی بات تو کہی تھی کہ: ’’میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے‘‘۔

اگر اللہ کے بندوں کی خدمت (وہ طبی امداد ہو، تعلیم ہو، بیوائوں، یتامیٰ کی خبرگیری ہو، ضعیفوں کی نگہداشت ہو اور اس طرح کے دیگر رفاہی کام) اس غرض سے کیے جائیں کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی ذاتی فائدہ مطلوب نہیں تو صرف اس صورت میں ان کاموں کے اثرات، دعوت کی تو سیع کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر رفاہی کاموں کا مقصد ووٹ کا حصول ہوگا تو آخرت تو ہاتھ سے گئی ہی، دنیا بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی۔

گویا خلافت ِ جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول ہونا چاہیے۔ اگروہ ہمارے کام سے خوش ہوکر لوگوں کے دلوں میں دین کی دعوت کے لیے جگہ پیدا کردے ، اور جو کل تک مخالف تھے ان کو ولی بنا دے تو یہ اس کا کرم اور رحمت ہے۔ ہمارا کام تو  اس کام کے بتائے ہوئے طریقے سے، اس کے بھیجے ہوئے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اطاعت و بندگی کی شہادت پیش کرنا ہے۔

خلافت جمہور کا ایک لوازمہ یہ ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہردور میں ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد حقیقت پسندی اور افراد کی سیرت سازی پر ہو۔ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہیں۔ اگر وہ تربیت کے مراحل سے گزر کر معاشرے میں کام کریں گے تو ان کی مالی ایمان داری، امانت اور بے لوثی و بے غرضی ، ان کی سادگی، ان کا حق کی حمایت کرنا اور ظلم کی مخالفت میں سب سے آگے ہونا، ان کی زبان سے ایک لفظ ادا کیے بغیر خود ان کا عمل اور کردار دعوت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے گا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس کی دعوت سیرت و کردار دیتے ہیں۔ اس لیے تحریک کا سارا زور تعمیر کردارکے لیے مطالعے کے حلقے ، رفاہِ عام کے کام، مقامی افراد کے مسائل کے حل کی کوششوں کی شکل میں ہو،تو اس کے نتائج سامنے آنے یقینی ہیں۔

تنظیم اور تحریک

دعوتِ دین کا منظم کام کرنے کے لیے اگرچہ تنظیم ضروری ہے تاکہ ہرفرد کو اپنی ذمہ داری اور دائرہ کار کا احساس ہو اور وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرسکے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تحریکات محض تنظیم بن جاتی ہیں جن میں دستوری دفعات پر الفاظ کی حد تک تو عمل ہوتا ہے لیکن دستور کی روح نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جن میں نظم اور امارت، اپنے اختیارات کا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن وہ دلوں میں گھر کرنے اور اپنی اخلاقی قوت سے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ شاید اس کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسی ’تنظیم‘ ہمیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔

رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہمارے بے لوث کارکن جو کام کرتے ہیں، اس کی اطلاع جمہور تک پہنچنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو ابلاغ عامہ کا صحیح استعمال نہیں آتا۔ ہمیں لازمی طور پر ابلاغِ عامہ، ٹی وی اور تقریبات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن انھیں شخصیت پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری نگاہ اور توجہ ہماری دعوت کی توسیع پر، اپنی کردار سازی پر، علمی قیادت پر اور ملک کے سیکولر ذہن کے افراد کو اسلام کے قریب لانے پر ہونی چاہیے۔ملک کے مختلف طبقات تک ان کی ذہنی صلاحیت اور طلب کے پیش نظر اپنی دعوت ان تک پہنچانے پر ہونی چاہیے۔ دعوت کے طویل المیعاد منصوبے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس منصوبے کو قرآن و سنت کے حدود میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

موجودہ نظام کو لادینیت سے، لادینی جمہوریت سے، انفرادیت پسندی سے، عصبیت سے، جہالت، ظلم اور تفریق سے، غرض ان تمام منفی صفات کو جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے والی ہیں، ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی جگہ اجتماعیت، دین کی جامعیت اور للہیت کو توجہ کا مرکز بنانا خلافت ِ جمہور کی شرط ہے۔ ہم جتنا اپنی تربیت اور فکری اصلاح پر توجہ دیں گے اور ہر فرد اپنے ذاتی نصاب کے مطالعے کے ذریعے علم میں اضافہ اور مصادر سے براہِ راست استفادے کی کوشش میں لگ جائے گا تو نتائج خود بولیں گے۔ ایک اصولی جماعت ہونے کی بنا پر ہمارا فکری محاذ پر متحرک ہونا کامیابی کی ایک بنیادی شرط ہے۔مظلوم طبقات کی حمایت، معاشی طور پر ضرورت مند لوگوں کی حاجت روائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اللہ کے بندوں کی خدمت کو ہماری ترجیحات میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ہم آیندہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ دعوت، تربیت اور تنظیم کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور خود اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کریں اور اس پر سختی سے عمل کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی دعوتی اور اصلاحی ترجیحات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کام کی نئی منصوبہ بندی کریں، تو ان شاء اللہ خلافت ِ جمہور کا راستہ بہت آسان اور مختصر ہوسکتا ہے۔

اصل چیز عزمِ مصمم، استقامت، صبر اور توکل علی اللہ کے ساتھ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتوں کو مجتمع کردینا اور دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں جھونک دینا ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور اس پر قائم ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کی تمام قوتیں ان کے لیے حمایت اور تعاون کے دروازے کھول دیتی ہیں اور آخرت اور دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ کیا ہم اپنا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْن۝۳۱ۭ

نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۝۳۲ۧ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۝۰ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝۳۵  وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۳۶ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۶) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اِس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اُمت ِ مسلمہ کی تاریخ کے روشن ترین اَدوار میں بھی بعض ایسے لمحات نظر آتے ہیں جن میں ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک حق پر ہے؟ معرکۂ اُحد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایمان و یقین اور صبرواستقامت کے بعض پہاڑ بھی ایک لمحے کے لیے لرز اُٹھے لیکن یہ کیفیت آگے نہیں بڑھنے پائی اور فوری طور پر دل و دماغ نے یکسو ہوکر ایک ہی بات کہی کہ اگر اس معرکۂ حق میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تو پھر اسوئہ حسنہ کی پیروی میں جس اصول اور حق کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پیش کی، اس حق کی شہادت اپنی منزل اور مقصد پر اعتماد میں کمی کے بغیر پورے عزم و ارادے کے ساتھ اپنی متاعِ حیات کو اس بازی پر لگانا ہی شرطِ وفاداری ہے۔

یہ وہ پُراُمید (optimistic )رویہ اور طرزِعمل ہے جو کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے جس میں کسی تعبیر اور تاویل کی گنجایش نہیں۔ جو اگر نگاہ کے سامنے ہو تو دل و دماغ میں مایوسی، نااُمیدی، دل گرفتگی، پشیمانی اور ظن و گمان جیسی کیفیات کا گزر نہیں ہوسکتا۔

اپنی تاریخ کے ان روشن ابواب کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی بھی یکساں ضرورت ہے کہ ایک مومن ہرلمحہ انفرادی و اجتماعی احتساب سے گزرتا رہے اور یہ ایک رسمی عمل نہ ہو کہ کسی کارکنان کے اجتماع میں ایک ذمہ دار چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ حالات درست ہوگئے ہیں۔ احتساب دراصل پلٹنے کا عمل ہے۔  یہ اللہ کی طرف پلٹنے اور اس طرح پلٹنے کا عمل ہے کہ فرد اور جماعت اپنے ماضی کے فکروعمل اور شعوری اور غیرشعوری فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد، اصلاحِ احوال اور تعمیر مستقبل کے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ مومن تعلق باللہ، یعنی توحید خالص کے ساتھ ربِ کریم کی امان، پناہ اور رحمت میں آتے ہوئے اس کی رضا کے لیے بے غرض، بے لوث اور جذبۂ ندامت کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس کے دین کی سربلندی میں لگا دیتا ہے۔

تحریک اسلامی کی غرض و غایت

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی جماعت کا مقصد ِ وجود اور نصب العین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو سلطانی ِ جمہور کی جگہ خلافت ِ جمہور کی شکل میں نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنی متاعِ حیات بنالے۔ اقامت ِ دین کو اس کے تمام مطالبات کے ساتھ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش اسی کا نام ہے۔

قرآنِ کریم نے انبیاے کرام ؑکے مبعوث کیے جانے کا بنیادی مقصد اقامت ِ دین کو قرار دیا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ۝۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہوجائو۔

انبیاے کرام ؑ نے جس اقامت دین کے لیے جدوجہد کی اور دن رات ایک کر دیے، جب اہلِ کتاب اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیادت کی جگہ محکومیت میں مبتلا کر دیا:

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۶۵ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝۰ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۝۶۶ۧ (المائدہ ۵:۶۵-۶۶) اگریہ اہلِ کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی (تقویٰ)کی راہ پر چلتے تو ہم ان کی بُرائیاں ان سے دُور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انھیں داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انھیں پہنچی ہیں، قائم کرتے (اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ) تو اپنے اُوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔

انبیاے کرام ؑ کی سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی شکل میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچی اور قرآنِ کریم نے اسوۂ رسولؐ کی پیروی اُمت مسلمہ پر لازم کرتے ہوئے یہ طے فرما دیا کہ جس طرح رسولِ رحمتؐ نے حق کی شہادت دیتے ہوئے اقامتِ دین فرمائی، اسی طرح اب یہ کام اُمت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں فرض کر دیا گیا ہے:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

یہی شہادتِ حق اور اقامت ِ دین اس دور کی تحریکات دعوت و اصلاح کا بنیادی ستون اور ان کے منشور اور مقصد ِ وجود کی غایت ہے۔ دین کا جامع تصور ان تحریکات کے اقامت ِ صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام اور حج کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ قیامِ عدل و قسط کے لیے اللہ کی شریعت کو نہ صرف اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں بلکہ اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی قائم کریں۔ چنانچہ تحریکات دعوت و اصلاح کے دائرۂ کار میں عبادات کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات، ثقافت و معیشت اور اقتدارو حکومت (گویا زندگی کے ہرشعبے میں اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کی برتری یکساں اہمیت کے ساتھ) شامل ہے۔ تحریکات دعوت و اصلاح کا یہی پہلو انھیں دیگر تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے اور ان کے تشخص کو نمایاں کرتا ہے۔

سیاسی جدوجہد اور حصولِ تمکین کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حیا اور نظامِ معروف کا قیام اور منکر، فواحش اور عدوان کا خاتمہ کرنا ان کے فرائض میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

گویا فکروعمل، معیشت اور سیاست میں قیادت کا حصول اقامت ِ دین کی جدوجہد کا ایک جزو ہے اور دین کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت یوسف ؑ کی مثالیں قرآنِ کریم میں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک مقصد اور ہدف واضح طور پر اقامت ِ دین ہے، اس کے لیے سیاسی ذرائع کا استعمال عین تقاضاے دین ہے۔

یہ کام سنت ِ رسولؐ کی شکل میں کس طرح کیا جائے گا؟ دعوت کس بات کی، کس کو، کس طرح اور کب دی جائے گی؟ خود یہ دعوت کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قرآن و سنت ہر قدم پر فراہم کرتے ہیں اور ان سے اخذ کردہ فکر وہ فکر ہے جسے فکر مودودی کہا جاتا ہے۔ تحریک اسلامی اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس میں زمینی حقائق بظاہر وہ نہیں ہیں جو توقع کیے جارہے تھے۔ لہٰذا، اس بات کی ضرورت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل کو تنہا کسی ایک نشست تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے اس اعتماد و یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندےاس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اس نے دس قدم قریب آنے کا وعدہ کیا ہے، اور مزید اس یقین کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور ہم اس دعوت پر مکمل یقین کرتے ہوئے قائم ہوگئے ہیں تو پھر وہ اپنی غیبی طاقتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ احتساب بار بار اور جب اس اعتماد سے کیا جائے گا تو ہرمرتبہ ایمان و عزم میں اضافہ اور اُمید میں چمک پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

ان ابتدائی گزارشات کے بعد، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کو وقتی طور پر جس صدمے کا سامنا ہے اس کے اسباب میں جائے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ تحریک آیندہ ایسی صورتِ حال سے کس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے؟ بظاہر ہماری یہ بات عجیب تصور کی جائے گی کہ بغیر مرض کی تشخیص کے علاج تلاش کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے اسباب پر لمبی لمبی بحثیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے پُرامیدی و احتساب کے ساتھ وہ اصول ذہن میں تازہ کیے جائیں جو دعوت اور اسلامی تحریک کی کامیابی کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ وقت اور قوتِ عمل کا زیادہ مناسب استعمال ہے۔

۱- اصول کی برتری

پہلی چیز جو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ان اصولوں کی برتری ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دیے ہیں۔ ان میں اوّلین اصول توحید اور زندگی پر اس کی تطبیق ہے، یعنی کس طرح اپنی انفرادی، خاندانی ، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی زندگی میں توحید کو رائج کیا جائے اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کا واحد سبب یہی توحید یا لا الٰہ الا اللہ کا سہارا تھا، یعنی اپنی ذات، برادری، اپنے سیاسی تعلقات، ووٹ بنک، اجتماعات میں کثیر تعداد کا جمع ہونا، ان تمام پر بھروسے کی جگہ دل و دماغ کو شعوری طور پر اللہ کا عبد بنانا اور عبودیت پر قائم ہو جانا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی ایک لمحے کے لیے کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ فلاں اتحاد اور فلاں برادری کے وعدے کامیابی کو قریب لے آئیں گے، ہم جادئہ توحید سے دُور ہوجائیں گے۔ ایسے تمام خیالات سے ذہن کو خالی کرنا ہی توحید پر عمل کرنا ہے۔

دوسرا اصول سنت ِ رسولؐ کی مکمل اطاعت ہے، یعنی تحریک سے وابستہ ہرفرد ان تمام اُمور سے اپنا تعلق منقطع کرلے جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ وہ ایسے کاروباری قرضے ہوں جس میں سود کی آمیزش ہو یا ایسے معاملات ہوں جن میں برادری کی روایات کی پیروی دین کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو، وہ معاشی معاملات میں لین دین میں عدم احتیاط یا عائلی معاملات میں حقوق کی ادایگی کا نہ کرنا ہو۔ دراصل اسلامی تحریک کی اصل قوت اس کی قوتِ کردار ہے کہ اس کے کسی فرد یا نمایندے کے بارے میں کوئی کسی مالی، خاندانی، باہمی تنازعے میں یہ بات نہ کہہ سکے کہ وہ حق کے منافی رسوم و رواج کی پیروی کرتا رہا ہے۔ اسلام نام ہی رسوم و رواجِ جاہلیہ سے بغاوت کا نام ہے۔ جب اور جہاں اس اصول کی پیروی ہوگی اللہ کی مدد اور استعانت اور رحمت کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآنِ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق پر ہونا ہے۔ خود احتسابی میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے جس فرد کو نامزد کیا جائے اس کی سیرت و کردار آئینے کی طرح ہو، چاہے ایسے افراد تلاش کرنے اور تیارکرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔

اصول کی برتری کا ایک واضح تقاضا یہ ہے کہ ہماری محبت اور جڑنا اور مخالفت اور کٹنا صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایک فرد یا گروہ جو کل تک اختلاف کر رہا تھا، ہمارے اصولوں کے قریب  آنے کا اعلان کرے تو ہم ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے مثبت طرزِفکر کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے معروف میں اس کے ساتھ تعاون پر تیار ہوجائیں۔ اگر ایک شخص، گروہ یا جماعت کل تک اسلام سے دُوری کا اظہار کرتی ہو اور آج وہ اس بات کی قولی شہادت دے کہ وہ اسلامی عدلِ اجتماعی کو نافذ کرنا چاہتی ہے تو اپنے تمام تحفظات کے باوجود تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی راے پر نظرثانی کرلی جائے۔

اصولی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہرلمحہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہماری قوت، وقت، انسانی اور مادی سرمایے کا کیا تناسب تعمیرِ کردار و سیرت پر لگایا جارہا ہے، اور کیا ہم واقعی مکّی دور کے ان صبرآزما مراحل سے گزر رہے ہیں جنھوں نے ہر صاحب ِ ایمان کو استقامت اور حکمت دینی سے نواز دیا تھا اور ان کے کردار کے اثر سے وہ جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ وَلِیٌّ حَمِیْم بن گئے تھے۔

۲- نظریاتی جہاد

تحریک ِ اسلامی ایک نظریۂ حیات کی علَم بردار جماعت ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل اور اسلام اور جاہلی نظریۂ حیات میں ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ، حضرت موسٰی کا مکالمہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ کتاب کے ساتھ انھیں دعوتِ مکالمہ دینا، انبیاے کرامؑ اور دعوت اسلامی کی سنت ہے۔ لیکن اس مکالمے اور نظریاتی جہاد کے لیے انبیاے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود تربیت دے کر ان عقلی دلائل سے آراستہ کیا تھا، جن کا کوئی جواب باطل پرستوں کے پاس نہیں تھا اور وہ صرف مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ داعیانِ حق کی طرف سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ: قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۶۴   (النمل۲۷:۶۴)۔ یہ بُرہان قاطع ہی وہ چیز ہے جسے قرآن و سنت اور فکر اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں قرآن و سنت اور فکرِ مودودی کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا صرف چند نصابی کتابچوں کا سرسری مطالعہ رکن بنتے وقت کرلینا فکرِ مودودی کو ذہن و قلب میں راسخ کرسکتا ہے؟ کیا صرف قرآن کے ماہانہ درس میں شرکت، قرآن کی انقلابی دعوت سے روشناس کرا سکتی ہے؟ ہمارے وقت کا کتنا حصہ قرآن و حدیث سے گہرے تعلق میں گزرتا ہے اور کتنا وقت محض تنظیمی معاملات میں گزرتا ہے؟ اس وقت کا کتنا حصہ اہلِ خانہ کو   دعوت دینے میں، کتنا حصہ اہلِ محلہ کے ساتھ مسجد میں ملاقات کر کے انھیں قرآن کی دعوت سے متعارف کرانے میں گزرتا ہے؟ مکّہ اور مدینہ میں اسلامی جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشمول داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھا۔ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں ہے تو جو ہربات کا علم رکھنے والا ہے، کیا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم کہاں کھڑ ے ہیں، ہمیں ہرمرحلے میں کامیابی سے نواز دےگا؟

سیّد مودودی نے فکر کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، اس میں دین کی اجتماعیت اور شورائیت اور حاکمیت ِالٰہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کی روشنی میں اپنی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی مرتب کی؟ قرآن کریم میں سات سالہ منصوبہ بندی کا ذکر سورئہ یوسف میں ہے۔ مکہ میں دعوت و تربیت کا کُل عرصہ ۱۳برس تھا۔ سات سالہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ۱۴برس کی جگہ ۱۳برس ہی میں وہ نتائج حاصل ہوگئے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔ قریب المیعاد سات سالہ حکمتِ عملی میں ہماری ترجیح میں صوبے یا مرکز میں، پارلیمان میں نمایندگی کے ساتھ توسیع دعوت اور تعمیرکردار کا کیا تناسب رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا یا محض تحریر و تقریر کو کافی سمجھا؟ کیا اصولی اور نظریاتی انقلاب صرف اچھی خواہشات کی بنا پر آتا ہے یا سنگلاخ وادیوں سے گزر کر تربیت ِ اخلاق سے آتا ہے؟

۳- غیبی حکمت

اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ وہ بظاہر پریشان کن حالات کو بھی اسلامی تحریک کے لیے بہتری اور بھلائی کا پیش خیمہ بناسکتا ہے۔ گذشتہ ۷۰برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو نہیں توڑا جاسکا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے عنصر کے ذریعے ان دونوں کے اثرات کو محدود کر دیا ہے اور طاقتی مراکز کو متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح حکمت الٰہی سے میدانِ دعوت میں اچانک زیادہ وسعت، قبولیت اور نفوذِ دعوت کا امکان اُبھر کر آگیا ہے۔ جن برادریوں کے جال کو تحریک ۷۰سال میں نہ توڑ سکی، اللہ نے اپنی حکمت سے اس میں شگاف پیدا کر دیا۔ اب یہ تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح حکمت، محبت اور خدمت کے ذریعے ان مظلوموں تک پہنچے جو پہلے اپنے ’آقا‘ کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اب دعوت کی نئی راہیں کھلی ہیں۔

۴- دعوت کی نئی راہیں

دعوت کے لیے ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال سنت ِانبیاے کرام ؑ ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ خصوصیت سے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اب سوشل میڈیا میدان پر چھا گئے ہیں۔ گذشتہ چاردہائیوں میں بار بار ہر سطح پر اس پر غور کیا گیا لیکن یہ کبھی نہ ہوسکا کہ اس کو تجویز سے آگے بڑھا کر ترجیحی بنیادوں پر ، جس طرح انتخابات کے مالی وسائل آخرکار جمع کیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیا کے لیے وسائل پیدا کرکے اسے دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ابلاغِ عامہ کا سیاسی کردار جتنا اس دور میں اُبھر کر آیا ہے پہلے کبھی نہ تھا لیکن ہمارا ابلاغِ عامہ وہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تجربہ قوم کرتی ہے۔ اس پر فوری طور پر ایک ٹاسک فورس جو تین ماہ میں مکمل نقشہ بنا کر دے، بنانے کی ضرورت ہے۔درحقیقت تحریک کا نصب العین رضاے الٰہی کا حصول ہے ، صرف پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصول نہیں ہے جن کا رضاے الٰہی کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں ملنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ جب نیت واضح طور پر صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول، دعوتِ حق، شہادتِ حق اور اقامت ِ دین ہوگی، اللہ کی غیبی امداد قلّتِ تعداد کو کثرت پر غالب کردے گی۔ دعوت کے لیے نوجوانوں کو ان کی اپنی زبان میں ان کے مسائل کی روشنی میں دعوت دیے بغیر ہم ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہے۔ آخردو روایتی سیاسی اجارہ دار جماعتوں کو نوجوانوں کو متحرک (mobilize) کرکے ہی شکست دی گئی۔ اگر ایک شخص یہ کام ۲۲سال میں کرسکتاہے تو کیا یہ کام ایک نظریاتی جماعت آیندہ ۱۵برس میں نہیں کرسکتی؟

نوجوانوں کو ان کی نفسیات کی روشنی میں، ناچ گانے کے کلچر سے دامن بچاتے ہوئے کس طرح اپنے اندر شامل کیا جائے؟ اس کے لیے خود قیادت کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ روایتی طریقوں کے ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہم سے قریب لاسکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کچھ نوجوان ہمارے سامنے آنے کے باوجود ہم سے دُور بھی ہوئے۔ اس کے اسباب کو دُور کرنا ہوگا۔ خود اعلیٰ قیادت چاہے برس ہا برس تحریک سے وابستہ رہی ہو، ہرمرحلے میں مزید تربیت کی محتاج رہتی ہے۔ دنیا کی دس بڑی صنعتوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے CEO's بھی تربیتی ورکشاپس سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ نوجوانوں میں دعوت کے لیے خصوصی تربیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

۵- خواتین میں کام

نئے راستوں میں خواتین تک ہمارا پیغام کسی مداہنت کے بغیر پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارا رویہ نہ معذرت پسندانہ ہو اور نہ روایتی بلکہ آج کے خواتین کے مسائل کے پیش نظر اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کو اپنی قوت کا ذریعہ بنا سکیں۔

۶- مظلوموں کی مدد

ان نئی راہوں میں مظلوم عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بالخصوص جو فاٹا، بلوچستان، اندرونِ سندھ و پنجاب میں غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حقیقی مسائل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔

۷- اہلِ قلم کی تیاری

ان نئی راہوں میں ایسے اہلِ قلم پیدا کرنے ہوں گے جو نوجوانوں میں پھیلنے والی جدید دہریت کا مدلل جواب ان کے فہم کے مطابق دے سکیں۔ ایسے اہلِ قلم جو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دعوت کو آسان اور دل نشین انداز میں پیش کرسکیں۔

۸- تعلیمی ادارے

ان نئی راہوں میں ان تمام تعلیمی اداروںکو دعوت کا ہدف بنانا ہوگا جو اس وقت گو تحریک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے نصابات، ان کے اساتذہ، ان کا ماحول دیگر اداروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو ہم نے آج تک دعوت کے لیے صحیح طور پر استعمال کیا ہی نہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم اسلامی شکل اختیار کرلے تو جو ادارے ہمارے ہم فکر افراد چلا رہے ہیں، ان میں ہمیں تجرباتی طور پر اپنے تصورات کو اساتذہ کے ذریعے، نئی نصابی کتب کے ذریعے، طلبہ و طالبات کی جداگانہ سرگرمیوں کے ذریعے ایک قابلِ عمل مثال کے طور پیش کرنا ہوگا۔ اگر ہم صرف پانچ ایسے ادارے جو ملک کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر میں معیاری تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت ِکردار کر رہے ہوں، آیندہ پانچ برسوں میں قائم کرلیں تو یہ ہماری دعوت کو مستند بنانے کا ایک اعلیٰ نمونہ ہوگا۔ اگر قوم صرف ایک ہسپتال کے چلا لینے کی بنا پر کسی کی صلاحیت کی قائل ہوجاتی ہے، تو کیا ہرصوبے میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد کوئی اسلامی نظامِ عدل کی مخالفت کرسکے گا؟

۹- دعوتی حکمت عملی کے اصول

۸۰ سال قبل سیّد مودودی نے دعوتی حکمت ِعملی کے لیے جن تین اصولوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان کے صحیح ادراک اوران کی روشنی میں طویل المیعاد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ تین اصول یہ تھے:

۱- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت

۲- قوم پرستی کے مقابلے میں ملّت ِ اسلامی

۳- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت

آج کے حالات میں جس طرح تعلیم، سیکولر لابی کے دانش وروں اور ابلاغِ عامہ نے ہرپاکستانی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے، اسے دلائل کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، ہر چیز قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہو جیساکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مدعا ہے۔

ایک فوجی آمر نے ایک جذباتی نعرہ یہ دیا کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ، جس کا مطلب یہ تھا کہ بقیہ تمام معاملات کو الگ کردیں اور ایک زمینی خطے کو جس کا نام پاکستان ہے، اسے اوّلیت دی جائے۔ حالاں کہ اس خطے کے وجود میں آنے سے قبل ہی ملت اسلامیہ نے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمیں وہ خطہ چاہیے جہاں لا الٰہ الا اللہ ہر شعبے میں رائج ہو۔ گویا اوّلین چیز وہ ہے جسے خود بانی ِ پاکستان نے اپنے تین اصولوں میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی شکل میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان اس کلمے کی  عملی شکل ہے۔ اس لیے جغرافیائی، نسلی، لسانی قوم پرستی کی جگہ نظریۂ پاکستان کی برتری کو حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کے قیام کی بنیاد اس کا نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو نظرانداز کردیا گیا تو ملک کی بقا اور قیام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

تیسرا اصول غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب فراہم کرتا ہے جو مروجہ جمہوری نظام کے ساتھ تعاون کرنے پر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک اسلامی کا ہدف اور مقصد اللہ کی زمین اور بندوں پر صرف اس کی حاکمیت قائم کرنا ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ منتخب کیا گیا ہے، وہ نہ حاکمیت ِجمہور ہے اور نہ پارلیمان کی مطلق حاکمیت بلکہ ’خلافت ِ جمہور‘ کے ذریعے اصل مالک، آقا اور حاکم کے احکامات کا نفاذ ہے۔

آمریت، بادشاہت اور پارلیمان کی مطلق حاکمیت کو دستورِ پاکستان رد کرتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کو مملکت کا مقصد قرار دیتا ہے۔ تحریک اسلامی روزِ اوّل سے دستورِ پاکستان کی روح اور الفاظ کا احترام کرتے ہوئے دستوری ذرائع سے ملک میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے جسے ایک شب و روز میں نہیں کیا جاسکتا۔ دستورِ پاکستان اس کے لیے جو طریقہ تجویز کرتا ہے وہ راے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے اسلامی قانون سازی ہے یا پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد ہے۔ یہ کفر و شرک کے نظام میں شرکت نہیں ہے بلکہ خلافت ِ جمہور کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی تو کرسکتے ہیں، اس کے خلاف نہیں کرسکتے۔

تبدیلی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی استعانت سے جلد بھی طے ہوسکتا ہے اور کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ذہن کو تیار کرنے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس کو اہمیت نہیں دی جائے گی ہماری خواہشات کے باوجود یہ کام اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔ اس میں سب سے اوّل مکمل بندگیِ رب پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی مؤثر تربیتی نظام کی ضرورت ہے  جو براہِ راست فکرِ مودودی اور مصادر اسلام کے مطالعے پر مبنی ہو۔ فکر کی تطہیر اور ہم آہنگی کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ وطن پرستی کی جگہ ملت اسلامی اور اُمت اسلامی کے تصور کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مستحکم ہوسکے۔

فلاحی کاموں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہر کام حکومت کی سطح پر کرنے کا مطالبہ اپنی جگہ پر لیکن ساتھ ساتھ خود ایسے اداروں کا قیام جو تعلیم، صحت اور خاندانی نظام کو مستحکم کریں، یہ دعوت کا لازمی حصہ ہے۔ تحریک کو اسے اہمیت دینی ہوگی۔

۱۰- سیاسی حکمت عملی

ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عنقریب مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ نچلی سطح پر کام ہی تحریک کو دعوت کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ تحریک جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، کیا اس کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور اگر لوکل انتظامیہ میں صالح عناصر آنے کے بعد مقامی فلاحی کام کرسکتے ہیں تو کیا صوبائی، مرکزی سطح پر بھی وہ ایسا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس اعتماد کو بحال کیے بغیر محض صوبائی اور مرکزی سطح پر کام کرنا، مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہماری فوری ضرورت ہے جو صالح نوجوان ہوں، جن کا کردار، سچائی، امانت اور خدمت کا پیغام دیتا ہو۔ افراد کے انتخاب میں ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے ہوئے دھوم دھام کی جگہ سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔ اس کام کے لیے سیاسی شعور رکھنے والے افراد کے ساتھ مشاورت اور ملک گیر پیمانے پر منتخب مقامات کا تعین کرکے ان پر آج ہی مناسب افراد کا تعین کرنا ہوگا، تاکہ بھرپور عوامی رابطے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کا عمل مناسب انداز میں سرانجام دیا جاسکے اور دعوتی حکمت عملی کے اثرات سیاسی میدان میں مطلوبہ نتائج پیدا کرسکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گذشتہ چند برسوں سے اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ایک سوال بار بار اٹھا یا جا رہا ہے کہ: ’کیا اسلامی تحریکات کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟‘ یا مغربی صحافت و ابلاغ عامہ کے اس قیاس کو درست مان لیا جائے کہ: ’اب نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو چکا اور یہ صدی سرمایہ دارانہ نظام کی صدی ہے؟‘ لہٰذا، دنیا کے دیگر تمام سیاسی نظاموں کوموجودہ حالات کے تناظر میں اپنے اندرتبدیلی اور لچک پیدا کرکے سرمایہ دارانہ طرز فکر اور نظام کے ساتھ تعاون و اشتراک کی شکلیں اختیار کرنی ہوں گی۔

 مغربی اور مغرب زدہ مصنّفین نے اس تصور کو اتنی تکرار کے ساتھ علمی جرائد، اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ میں پیش کیا ہے کہ آج ایک نوجوان یہی سوچتا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی جنگ اب لاحاصل ہے ۔ اس لیے مقابلے کے لیے دو ہی راستے ہیں: زیر زمین سرگرمی کے ذریعے کسی عسکری انقلاب سے نظام بدلا جائے، یا پھر مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت سے سمجھوتا کرکے اسلام کے آفاقی اصولوں کو کچھ عرصے کے لیے کسی سردخانے میں ڈال دیا جائے اور وقت کی راگنی کے ساتھ اپنی لَے ملا کر سیاسی زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ اس فکری انتشار کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اسلامی نظام کے قیام کو شک کی نگاہ سے دیکھنےپر مجبور اور اپنی’دینی وابستگی‘ اور ’سیاسی وابستگی‘ میں فرق پیدا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس نازک اور فیصلہ کن دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی تناظر میں اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور ایک مثبت زاویۂ نظر فراہم کیا جائے ۔

موجودہ عالمی کش مکش

 عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس سرد جنگ کا آغاز جنگ عظیم اول سے شروع ہوا تھا وہ ایک مختصر وقفے کے بعد آج بھی نئی شکل میں برقرار ہے، اور اس سردجنگ کے علم بردار یورپی ممالک اور امریکا دنیا کے نقشے پر اور خصوصاً مسلم دنیا کی بندر بانٹ کرنے میں پہلے سے زیادہ سفّاکی اور چالاکی کے ساتھ سر گرم عمل ہیں ۔ دوسری جانب مسلم ممالک کے فوجی، موروثی اور سیاسی حکمران اپنے ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے مسلم مفاد سے قطع نظر مغربی شاطروں کو ہی اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے انھی کے اشاروں پر سر گرم عمل ہیں ۔یورپی طاقتوں خصوصاً برطانیہ ، فرانس اور امریکا ’ناٹو‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم دنیا کو مزید تقسیم کرکے انھیں مجبور و محکوم بنانے میں مصروف ہیں ۔ادھر روس اس ’مال غنیمت‘ میں سے اپنا حصہ بٹورنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، جب کہ مسلم ممالک کے حاکم طبقے، ان خطرات کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں ایسی اصلاحات کر رہے ہیں، جو مغربی طاقتوں کو یقین دلا سکیں کہ انھیں مسلم دنیا سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلم دنیا تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ان کی نذر کرتی رہے گی، تا کہ اس وفاداری کے نتیجے میں مسلم ممالک کے حاکموں کو اقتدار سے بے دخل نہ کیا جائے۔

خود مغربی مفکرین تاریخی شواہد کے ساتھ یورپی ممالک کے عزائم اور عملی کردار پر واضح الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں، مگر مسلم ممالک کے سر براہ اور مغرب زدہ مسلم دانش و ر اس کھلی کتاب کو پڑھنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء میں شائع شدہ ایک اہم کتاب قابلِ ذکر ہے، جس کے مصنف ایم ای میک ملن نے تاریخی دستاویزات کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور روس نے باہمی تعاون کے ساتھ مسلم دنیا میں عدم استحکام ، انتشار اور جمہوریت کے قیام کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جمہوری عمل کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میک ملن کا شائع کردہ تاریخی جائزہ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار ، مسلم دشمنی اور مفاد پرستی کی سچی تصویر پیش کرتا ہے اور نام نہاد حقوقِ انسانی، مساوات انسانی، جمہوریت پرستی کے غبارے کی ہوا نکال دیتا ہے۔(دیکھیے: From the First World War to the Arab Spring. What's Really going on in the Middle East?، ناشر: پالگریو میک ملن، امریکا، ۲۰۱۶ء)

اس جملۂ معترضہ کے ساتھ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم دانش وَر جو یہ بات باربار کہتے ہیں کہ سابقہ سویت یونین کا منتشر ہونا سرمایہ داری کی فتح ہے، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دو ایسے نظاموں کا مقابلہ کر رہے ہیں ، جن کی بنیاد ہی مادہ پرستی، انفرادیت پرستی، اور محسوسات پر مبنی نظام حیات (Empiricism) پر ہے ۔مادہ پرستی کی طرف سے اس تقابلی مطالعے کو سادہ لوحی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغربی سرمایہ داری، وسائل پر غیرمحدود کنٹرول حاصل کر لینے کو کامیابی قرار دیتی ہے،   جب کہ اشتراکی تصورِ معیشت ، ریاست کی معاشی اجارہ داری کو اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ اس طرح دونوں کی اصل، مادہ پرستی اور معاشی قوت کا استحصالی استعمال رہا ہے۔ اس لیے ایک کا منتشر ہو جانا دوسرے کی فتح نہیں کہا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ روس اور چین دونوںمیں نجی ملکیت اور سرمایہ کاری اور مارکیٹ کی معیشت کے فروغ کے باوجود امریکا ، یورپ اور سابقہ اشتراکی دنیا ایک طرح کی ملی جلی معیشت (mixed economy )کا نقشہ پیش کررہے ہیں اور معاشی دلدل سے نکل نہیں پار ہے۔

نظریاتی کش مکش کے خاتمے کا دعویٰ

اس مختصر نظریاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ پہلے بھی اور آج بھی اگر مقابلہ ہے اور مقابلہ ہوسکتا ہے، تو اُن کے درمیان جو اصل کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ ماضی میں بھی اور آج بھی اگر   مادہ پرست سرمایہ دارانہ یا اشتراکی معاشی نظاموں کے مقابلے میں کوئی متبادل نظام عوام الناس کو فلاح، کامیابی اور سکون فراہم کر سکتا ہے تو وہ اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست ہی ہے ۔    یہاں امر بھی پیش نظر رہے کہ اگر واقعی نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے تو پھر سرمایہ داری کے علَم بردار ممالک ’مسلم ریاست‘ اور اسلام کے نام سے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟  ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل ہر اس کوشش کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے کہ جو اسلامی تصورِ حیات کو دنیا میں کسی بھی خطے میں رائج کرنے کے لیے کی جا رہی ہو۔جس سے یہ بات متعین ہوتی ہے کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم نہیں ہوا اور ختم نہیں ہوسکتا۔

 مغرب کے بہت سے مفکرین گذشتہ دو عشروں سے برابر کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب  کی برتری اورخصوصاً امریکی قیادت کا دور ختم ہو رہا ہے اور ایک ایشیائی قوت، چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر بعض مسلمانوں میں کچھ دانش ور اس حقیقت کے باوجود یہ راے رکھتے ہیں کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے، تو یہ ان کی سادہ لوحی اور حقائق سے نظریں چرانا ہے ۔  زمینی حقائق یہ ہیں کہ خصوصاً مغرب، اسلام سے خائف ہو کر اپنے تمام وسائل کو مسلم دنیا میں باہمی ٹکراؤ پیدا کرنے اور مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل دخل اندازی کر رہا ہے، وہ اسی نظریاتی ٹکراؤ اور جنگ کا ایک محکم ثبوت ہے۔ اگر اسلامی نظریے میں وہ دم خم نہ ہوتا، تو پھر مغرب پر اسلام کا ہوّا کیوں سوار ہے؟ وہ کیوں ہرتخریبی اور منفی کارروائی کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی وغیرہ کا نام دے کے اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کردیتاہے۔

 ہمارے خیال میں یہ ذہنی محکومیت اور مغربی مفروضوں کے تناظر میں اسلامی ریاست اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مستقبل سے مایوسی کا رویہ ہے، جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گذشتہ زمانے کی اشتراکی معیشت کی اخلاقیات اور موجودہ زمانے کی حکمران مغربی سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بنا پر ان دونوںکا مقابلہ اگر کسی نظامِ فکر سے ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو اپنے ماخذ اور تشکیل کے لحاظ سے ایک بالکل مختلف تصور کی نمایندگی کرتا ہے ۔

یہ جائزہ نا مکمل ہو گا اگر اس طرف اشارہ نہ کیا جائے کہ اگر واقعی اسلام اور سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظاموں کے درمیان نظریاتی اور سیاسی جدوجہد کا دور ختم ہو چکا ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ  مصر میں اخوان المسلمون ۷۰ سالہ آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود سابقہ انتخابات میں محض نظریاتی اساس کی بنیاد پر کامیاب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظریاتی کامیابی کو عالمی جمہوریت کے اجارہ داروں نے برداشت نہیں کیا اور جمہوری عمل کو من پسند فوجی آمریت کے ذریعے غیراخلاقی اور غیر قانونی دخل اندازی کر کے ناکام بنانے کا شرمناک کھیل کھیلا ۔

 تحریک اسلامی الجزائر [FIS: اسلامک سالویشن فرنٹ] نے ۱۹۹۰ء کے آغاز میں اسلامی نظریے کی بنیاد پر جمہوری ذرائع سے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کی ۔ یہ واضح طور پر نظریے کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام کی طرف ایک اہم قدم تھا ۔ اس کو ناکام بنانے کے لیے  فرانسیسی سامراج کی پروردہ الجزائری فوج نے پُر امن جمہوری انقلاب کو خونیں انقلاب میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ہزاروں بے گناہ شہریوں کو لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔

 اسی طرح تیونس میں تحریک اسلامی نے نظریاتی بنیاد پر واضح کامیابی حاصل کی۔ اور پھر ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر اقتدار میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اس حد تک شریک کار بنایا، جس سے خود النہضہ کے اسلامی تشخص پر شبہہ کیا جانے لگا ۔ اس طرح تیونس کی تحریک اسلامی نے ووٹ سے کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو بقاے باہمی کے اصول کے تحت شریک ِ اقتدار کرکے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، جو بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔ کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اسلامی تحریکات اصولی اور نظریاتی سیاست کی بنیاد پر دستوری ذرائع سے سیاسی میدان میں سر گرم ہیں؟

دراصل یہ سب مقابلہ نظریۂ حیات کا ہےاور اصل مدمقابل باطل نظام ہاے زندگی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی نظریے کی صداقت کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا   عملی تجربہ ہماری اپنی نگاہوں کے سامنے ہو۔ کارل مارکس پر یقین رکھنے والوں نے آج تک اس کے نظریے کو کسی عملی تجربہ گاہ کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے فکری اور منطقی استدال کی بنا پر درست تسلیم کیا ہے۔  یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ سابقہ اشتراکی روس میں اور نہ عوامی جمہوریہ چین میں آج تک     کارل مارکس کی ’خیالی جنت‘ کا وجود عمل میں آیا اور نہ آنے کا کوئی امکان ہے، اس کے باوجود بطور ایک نظریہ اشتراکیت کا وجود پایا جاتا ہے۔

 اس کے برعکس اسلامی نظریۂ حیات ایک فلسفی کا خواب نہیں بلکہ یہ پندرہ سو سال سے کہیں جزوی طور پر اور کہیں مکمل شکل میں نافذ رہ چکا ہے۔خلافت راشدہ کے بعد بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ  کے مختصر دور میں دوبارہ یہ نظریہ عملی شکل میں نافذ ہوا، اور پھر ملوک و سلاطین کی تمام خامیوں کے ساتھ ان اَدوار میں اس کے اہم اجزا ، قضا،معاشرت اور معیشت عملاً نافذ رہے، البتہ سیاسی نظام میں انحراف کے سبب معاشرہ اسلام کی تمام برکات سے مستفید نہیں ہو سکا ۔

                یہ بات بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم دو قوتوں کا تذکرہ بار بار کرتا ہے۔ ایک حق کی قوت اوردوسری باطل کی قوت۔ جس کا مقابلہ قیامت تک زندہ رہنے والے اسلامی  نظریۂ حیات سے ہے اور رہے گا ۔ اس معرکۂ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھاؤفطری عمل ہے۔   حق و باطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے، وہاں اُحد و حنین اور موتہ بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ حق اپنی صداقت کے باوجود مطلوبہ شرائط پوری نہ ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن آخر کار حق کو غالب آنا ہے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے: وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ زندہ تصورِ حیات وقتی طور پر غالب نظر نہ آرہا ہو لیکن اپنی عنصری صداقت کی بنا پر اس کو غالب ہو نا ہے اور باطل جو جانے اور ختم ہونے کے لیے ہے، اسے فرار ہونا ہے۔ یہ وہ الہامی اصول ہیں جن سے قرآن کریم کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔

حصولِ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ

ایک بات اکثر صورت حال کی تہہ تک نہ پہنچنے کی بنا پر بعض ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے کہ اگر تحریکاتِ اسلامی کے پاس قوتِ نافذہ (تمکّن فی الارض) نہیں ہے تو وہ کس طرح اپنا کردار  ادا کر سکتی ہیں؟ اس طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب تک اسلام کو ایک خطے میں عملاً نافذ کر کے نہ دکھا دیا جائے عوام اس کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے اور تحریکات اسلامی کو ووٹ دے کر کامیاب نہیں کرائیں گے۔ اس کے مقابلے میں مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت یورپ اور امریکا میں عملاً نافذ ہے، اس لیے اسلام کے علم برداروں کو اپنے اندر لچک پیدا کر کے مغربی لادین جمہوریت سے تعاون و اشتراک کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دراصل ان تمام خدشات و شبہات اور مغالطوں کی جڑ میں جو بات فکری طور پر بیٹھی ہوئی ہے وہ وہی ’خودساختہ نظریہ ‘ ہے ، جس میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معیشت کو دنیا کا واحد قابلِ عمل تصور قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں یہ نظام پھل پھول رہا ہے، جب کہ مقابل نظریہ ( اشتراکیت) شکست کھا کر میدان چھوڑ چکا ہے، اس لیے اب کسی اور تیسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے ، دنیا کے انسانوں کو چپ چاپ اس نظام کو اپنا لینا چاہیے ۔

ایسی بات کرنے والے اتنی ہمت تو نہیں رکھتے کہ یہ پوری بات زبان یا قلم سے ادا کریں، لیکن اسی تصور کو گھما پھرا کر اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اسلامی تحریکات کی نظریاتی سیاست کا دور  ختم ہو چکا، اب لادینی جمہوریت کے اصول کو اپنا کر ہی کوئی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس لیے پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں بے اصولی کی سیاست کرنے کے باوجود کہتی ہیں کہ وہ ’اصولی سیاست‘ کر رہی ہیں ، حالاں کہ ان جماعتوں کا اصول صرف ایک رہا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار پر قابض ہو سکتی ہیں۔

 ان تمام شبہات کا مختصر اورآسان حل قرآن کریم نے فراہم کر دیا ہے کہ باطل نظریات و تصورات کی طغیانی صداقت و حق کے نورکو گل نہیں کر سکتی، نہ اس پر غالب آ سکتی ہے۔یہاں اصل غور طلب امر یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور صحیح افرادی قوت کی فراہمی اور ترجیحات کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ان میں جب بھی صحیح تناسب اور درست توازن ہو گا ، اللہ کی نصرت اور کامیابی یقینی ہے ۔

لا دینی سرمایہ دارانہ جمہوریت و معیشت جو امریکا اور یورپ میں نافذ ہے، کیا وہ کامیاب ہے، اور کیا اس کے ساتھ تعاون ہی میں نجات ہے؟ وہ کشتی جو خود شکستگی سے دوچار ہے، اس پر تکیہ کرنا کوئی دانش مندی ہو گی؟ جس ملک کے عوام و خواص اپنی قیادت پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، جہاں درجنوں بنکوں کو کنگال کر دیا گیا ہو، جو حکومت خود کئی ٹریلین ڈالر کی مقروض ہو، کیا ایسی گرتی ہوئی دیوار کے سایے میں پناہ لینا مسلم دنیا کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے؟

یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ تحریکات اسلامی کا علمی ، فکری ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر باطل تہذیب اور جاہلی نظام کے ساتھ معرکہ جاری رہنا ہی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جس چیز پر غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس طرح مصر میں سیاسی اور دستوری ذرائع سے کامیابی کے بعد ایک فتح بیرونی دخل اندازی سے ناکامی میں تبدیل کر دی گئی ، کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا یا تاریخ کےدھارےکو  موڑا جاسکتا ہے ؟

مجوزہ حکمت عملی

اسلامی تحریکات جس دعوت کو پیش کر رہی ہیں، وہ دعوتِ حق ہے۔ اس میں سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور آخرت میں اجر ہے ۔ اس لیے اگر سیاسی جدوجہد میں انھیں کوشش کے باوجود ہدف حاصل نہیں ہوتا تو کیا انھیں ناکام کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال سے بھی زیادہ    غورطلب پہلو یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی دعوتی حکمت عملی ، ترجیحات اور نظام تربیت کا تنقیدی جائزہ اور خود احتسابی کے ذریعے ان اسباب کا تعین ضروری ہے، جو حصول ہدف میں رکاوٹ کا باعث رہے ہوں۔

قرآن کر یم نے ’گھوڑوں کو تیار رکھنےکے حکم‘ کے ذریعے ہمیں لازمی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے تعین اور حکمت عملی کے وضع کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس لیے تحریکات اسلامی کو اپنے مقصد اور منزل پر پورے اعتماد کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک خلوص ،  ایثار و قربانی اور بے لوثی کے ساتھ اپنا سب کچھ اقامت دین کے لیے لگادینے والی ٹیم تیار ہورہی ہے؟

 امرِواقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی سیاسی کامیابی ایک ضمنی پھل ہے۔ ان کا اصل حاصل وہ جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں وہ صالح افراد کی جماعت پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے وہ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  اور اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ  ہیں، جو بنیان مرصوص اور عبادالرحمٰن ہیں (الفتح  ۴۸:۲۹)۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر صرف سمعنا واطعنا کہنے اور عمل کرنے کے قائل ہیں۔ جب اور جہاں یہ تربیت یافتہ افراد پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت سے وہ باطل پر غالب آتے ہیں :

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ (حٰمٓ السجدة۴۱: ۳۰)    جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ 'نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کے دوران مختلف درجوں کی سرگرمیاں اپنی جگہ، لیکن تبدیلی اور کش مکش کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور پایدار اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز وہ مسلسل تعلیمی و تربیتی عمل ہے، جس میں قرآن کریم کا براہِ راست مطالعہ ، سیرت النبیؐ سے براہِ راست تعلق ، عبادات اور حقوق العباد کا شدت کے ساتھ اہتمام ، انفاق فی سبیل اللہ اور اپنے اصولوں پر سختی سے جم جانا شامل ہے ۔ اگر معاشرے میں اخلاق باختگی ہے تو اس کےخلاف کھڑا ہونا ، اگر معاشی استحصال ہے تو ا س کے خلاف صف آرا ہونا ، اگر عدل و انصاف نہیں ہو رہا تو اس کے قیام کی جدوجہد کرنا، راتوں کواللہ کے حضور کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا، دن میں رزق حلال کے حصول کی کوشش اور زندگی کے ہر لمحے کو صرف دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا شرطِ اوّل ہے ۔

یہی وہ راستہ ہے جس نے ہر دور میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو وقار بخشا اور آخرت میں قبولیت کا امکان روشن کیا۔ –تحریکی ترجیحات میں تعمیر کردار کو اولیت دیے بغیر محض افرادی کثرت پر توجہ، دین کا مدعا نہیں ہے۔ تحریک کا سرمایہ اس کےوہ باکردار افراد ہی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی دعوت اور تبدیلی و اصلاح کے طریق کار کو اختیار کریں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر تطہیر افکار، تعمیر سیرت اور معاشرتی عدل رائج کر سکیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان صادق اور امین نمایندوں کو منتخب کریں جو شریعت کی بالا دستی اور ملک میں اسلامی عدل اور معیشت کے نظام کو رائج کر سکیں ۔

تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ایسے افراد کی تیاری ہے جو ذاتی مفاد کے بندے نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف خالق حقیقی کے بندے بن کر اس کے حقوق کو ادا کریں اور خلق خدا کے حقوق کے تحفظ میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں ۔ ان افراد کی تیاری کے بغیر جو تبدیلی بھی آئے گی وہ وقتی اور جزوی ہو گی۔ دعوتِ دین ایک ہمہ جہت اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا نام ہے۔ اس کا ہر محاذ اہم اور ہر محاذ دوسرے سے مربوط اور اس کی معاونت کا محتاج ہے۔ جسے مسلسل خونِ جگر سے سینچنے ہی سے عصر حاضر میں تحریک اسلامی اپنی منزل سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔