پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


عصرِحاضر میں جہاں کہیں بھی تحریکِ اسلامی کو سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے وہاں اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ سب سے نمایاں مثال ترکی کی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ترکی میں تحریکی قیادت نے جس حکمت عملی کو اختیار کیا اسے ترکی کی حد تک محدود سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ حکمت عملی ایک عالم گیر دعوتی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے جہاں بھی استعمال کیا جائے گا متوقع نتائج فطری طور پر وجود میں آئیں گے۔

ترکی میں تین عشروں پر محیط اس حکمت عملی کے جائزے سے کیا سبق ملتا ہے، ایک تفصیل طلب باب ہے، اور اس کے ہرمرحلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرملک اور مقام کے حالات کسی اور مقام پر مکمل طور پر دہرائے نہیں جاسکتے لیکن جن امور کی حیثیت اصولوں کی ہو، وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکی میں ۳۰سالہ حکمت عملی نے جو نتائج ظاہر کیے، ان میں سے کون سے پہلو پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور اس تقابل کے پیش نظر معمولی تبدیلی کے ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور کن پہلوئوں کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اس تقابل اور جائزے کے عمل سے گزرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تحریکات عموماً اپنے روزمرہ کے سیاسی، تنظیمی اور معاشی حالات کی بنا پر ملکی اور مقامی مسائل میں   اتنی اُلجھی رہتی ہیں کہ بعض اوقات طویل المیعاد اور مختصرالمیعاد حکمت عملی وضع کرنے، اس کی  مناسبت سے انسانی قوت پیدا کرنے اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی کی تنفیذ جیسے    اہم اسٹرے ٹیجک مراحل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دوران خود احتسابی بھی ایک بنیادی شرط ہے اور خود احتسابی ہی قلیل اور طویل المیعاد منصوبہ بندی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس تناظر میں ترکی کے ماڈل پر نظرڈالی جائے تو وہاں تحریک کی حکمت عملی کو ہم تین مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

کمال ازم کے دور میں جدوجھد

جدید ترکی کی تاریخ کا آغاز کمال ازم کے قیام (۱۹۲۳ئ-۱۹۳۸ئ) سے ہوتا ہے۔ اس عرصے میں اسلام کو ذاتی عبادات کے دائرے میں محدود کردیا گیا اور سرکاری نگرانی میں خطیب امام اسکول کے لیے ایسے امام تیار کرنے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا جو حکومت کے فراہم کردہ فرمودات کو بطور خطبہ مسجد میں بیان کریں۔ دورِعثمانی خود ایک روبہ زوال معاشرہ تھا اور خلیفہ باوجود احترام کے حکومتی معاملات میں فیصلہ کن مقام نہیں رکھتا تھا۔ اس کے باوجود خلافت علاماتی طورپر اُمت مسلمہ کے اتحاد اور قوت کا مظہر تھی۔ کمال ازم نے ریاست کو مکمل طور پر مغربی لادینیت کے تصور پر قائم کیا اور مذہبی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار، رسم الخط کی تبدیلی، اذان کا عربی میں ممنوع کیا جانا، مغربی لباس کا اختیار کیا جانا، لباس میں حجاب پر پابندی اور روایتی ترکی ٹوپی کی جگہ انگریزی ہیٹ کو علاماتی طور پر رواج دے کر ملک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

یہی وہ زمانہ ہے جب بدیع الزماں سعید نورسی(۱۸۷۶ئ-۱۹۶۰ئ) نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ قرآن کریم کے دروس کے ذریعے اور مختصر رسائل کی شکل میں اور بعض اوقات طویل خطوط کی شکل میں زیرحراست ہونے کے باوجود اپنے طلبہ تک پہنچائے، انھوں نے ان قرآنی رموز کی دستی نقول تیار کر کے جہاں جہاں ممکن ہوا اسے عام کرنے کی کوشش کی۔ استاذ سعید نورسی کی تحریک کمال ازم کے تمام سرکاری زور و قوت کے باوجود عوامی سطح پر پھیلتی رہی اور آخرکار اس دعوت کے اثرات ۷۰ کی عشرے میں ان کے انتقال کے ۱۰ سال بعد واضح ہوکر نظر آنے لگے۔

۷۰ کے عشرے کے آخری دور میں ترکی دو واضح انتہائوں میں گھرا نظر آتا ہے۔ ایک جانب دائیں بازو کے الٹرا نیشنلسٹ اور دوسری جانب انقلابی یا بائیں بازو کے اشتراکیت سے متاثر گروہ، مثلاً Neo-Markist Kurdish Worker Party یا PKK تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان پانچ ہزار سے زائد افراد ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت میں زندگی کی نعمت سے محروم ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں ترکی میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ تقابلی طور پر دیکھا جائے تو معاشی بدحالی، زر کی کساد بازاری، جرائم، بدامنی، بدعنوانی ، اقرباپروری، غرض ہر وہ خرابی جس کا رونا آج ہم پاکستان میں یا کل تک مصر، تیونس، عراق اور شام میں روتے رہے ہیں ان میں سے ہر خرابی بدرجۂ اتم ترکی میں موجود تھی۔ پھر کس جادو کی چھڑی نے ملک و قوم کی قسمت بدلی۔ یہ امر سنجیدہ، تنقیدی اور معروضی تجزیے کا محتاج ہے۔

اس ٹکرائو میں نیشنل سالویشن پارٹی (NSP) جو اسلامی رجحانات کی حامل تھی کسی بھی تشدد کی کارروائی میں ملوث نہیں ہوئی۔ ۶ستمبر ۱۹۸۰ء کو ’القدس بچائو‘ کے لیے پُرامن اور انتہائی منظم مظاہرے اور جلوس کا اہتمام کیا اور اس موقع پر ترکی میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا نعرہ تھا:’’شریعت آئے گی، سفاکیت جائے گی‘‘، ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘، ’’ہمارا دستور قرآن ہے‘‘، ’’سیکولرزم لادینیت ہے‘‘، ’’ہم ایک غیرطبقاتی اسلامی معاشرہ چاہتے ہیں‘‘۔

اس ریلی میں انھوں نے روایت سے ہٹ کر ترکی کا قومی ترانا گانا بھی پسند نہیں کیا۔   اس تحریک کی قیادت ڈاکٹر نجم الدین اربکان مرحوم نے کی۔ مظاہرے میں شامل لاکھوں افراد نے یک زبان ہوکر ان کی حمایت میں نعرے لگائے اور کہا:ہمیں حکم دیں اور ہم جان دیں گے وغیرہ۔  یہ گویا فوج اور سیکولرزم کے خلاف اعلانِ جہاد تھا اور ا س تاریخ سے ترکی کی جدید تاریخ کا دھارا  ایک نیا رُخ اختیار کرگیا۔

اس کا ردعمل جلد ہی سامنے آیا اور ۳۰؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ایورن نے اپنے خطاب میں آگاہ کیا کہ ہر اُس کوشش کو جو ترکی کے سیکولرنظام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوگی، قوت سے کچل دیا جائے گا۔ فوج میں گھس کر انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی سالمیت اور وحدت کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرے اور جو اقدامات ضروری ہوں قومی ضرورت کے طور پر ان میں کمی نہ کرے۔ چنانچہ فوج نے اعلان کیا کہ اُس نے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ یہ دور ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۳ء تک رہا۔ اس فوجی انقلاب میں ساڑھے چھے لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ۱۶ لاکھ افراد پر مقدمات قائم کیے گئے۔ ۵۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی گئی اور ۴۹؍افراد کو پھانسی دی گئی۔۱۴ ہزار افراد کی ترکی شہریت ختم کی گئی اور ۶۶۷ تنظیموں اور مؤسسات کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ ان زمینی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ قرآن کریم جس آزمایش اور امتحان کی بات کرتا ہے اس کی ایک جھلک یہاں تو موجود ہے لیکن کیا ابھی تک ایسی کوئی آزمایش تحریک کو پیش آئی ہے؟ گو، یہ ضروری نہیں کہ ہرتحریک اتنی سخت آزمایش سے لازماً گزرے۔

چونکہ NSP کسی تشدد یا عسکری سرگرمی میں ملوث نہ تھی اس لیے فوج نے اسے اپنے لیے خطرہ تصور نہیں کیا۔ فوج نے اپنی زیادہ توجہ بائیں بازو کی جماعتوں پر رکھی جو اشتراکی فکر سے متاثر تھیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ترکی میں ۵۰، ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں اشتراکی رجحانات نمایاں تھے۔ ان حالات میں فوج کا اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کو گوارا کرنا اور اشتراکیت کے قلع قمع کے لیے انھیں اپنے سے قریب لانا ایک فطری عمل تھا۔ بالکل یہی شکل مصر میں انورسادات کے زمانے میں پیش آئی اور دیگر مسلم ممالک کے فوجی اور غیرفوجی آمروں نے ہمیشہ اسی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ اشتراکیوں کے خلاف فوج کے اقدامات سے بظاہر اسلام پسند بھی مطمئن تھے، لیکن مسئلے کا حل فوج اور اسلامی رجحان والے افراد کا اشتراکِ عمل نہیں تھا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معاشرتی تحریک (social movement)کا برپا ہونا تھا جو آگے چل کر سیاسی تبدیلی کا باعث بنی۔ یہ دوسرے دور کا آغاز تھا جس میں تحریک ایک معاشرتی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔

معاشرتی تحریک کا آغاز

یہ معاشرتی یا سوشل موومنٹ جن بنیادوں پر قائم ہوئی ان میں نورسی تحریک سے متاثر حضرات کے اخوتی حلقے (brotherhoods)، تعلیمی میدان میں اسکولوں کا قیام، آزاد اوقاف کے ذریعے معاشرتی بھلائی کے کام اور روحانی پہلو پر توجہ تھی۔ اس دوران ترکی نیشنلزم کی تحریک میں Pan-Turkism کے تصور میں اسلام کو بھی بطور ایک عنصر شامل کیا گیا تاکہ اشتراکی فکر کی مخالفت کے لیے ایک زیادہ مضبوط فکر اُبھر سکے۔ علمی اور فکری سطح پر بعض مفکرین نے ترک قومیت کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا کہ یہ قومیت، سُنّی اسلام اور اپنے مخصوص معاشرتی ثقافتی خصوصاً فنِ تعمیر و طریق بودوباش سے مل کر بنی ہے۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ ترک وہ مسلمان ہے جو ترکی زبان بولتا ہے۔ گویا اس دور میں ترک قوم نے اپنی شخصیت کی تلاش شروع کی اور یہ سمجھنا چاہا کہ ان کے ترک ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اس کش مکش اور پاکستان میں پائی جانے والی سرگرم اور غالب سیکولر ابلاغ عامہ کے جتھے کی قائداعظم کو اور پاکستان کو سیکولر پیش کرنے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ پہلو بطور جملہ معترضہ قابلِ غور ہے کہ سیکولر ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا جو منفی تصور عوام اور نوجوانوں میں پھیلا رہا ہے اس کا مثبت جواب کس حد تک دیا جارہا ہے۔ اس فکر کو سیاسی محاذ پر آگے بڑھانے میں ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے غیرمعمولی اہم کردار ادا کیا اور اب یہ بات زبان زدعام ہونے لگی کہ اسلام اور ترک قومیت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔اس کا اظہار Turk Ocaklari سے وابستہ افراد نے اپنے بیانات میں خاص طور پر کیا۔ اس گروہ کے صدر Suleyman Yalcin کے الفاظ میں:  ’’ترک قوم کے زندگی، وجود اور کردار کے سرچشمے ترک تصور اور اسلامی عبادات اور تصورِجہاں دونوں پر مبنی ہیں‘‘۔(بحوالہ The Mobilization of Political Islam in Turkey, ، Banu Eligur، کیمبرج، کیمبرج یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۰، ص ۱۰۰)

اس فکر کے حامل افراد Turkish Hearths کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کے نمایندہ Yalcin نے واضح طور پر اپنے بیانات میں بغیر کسی معذرت پسندانہ رویے کے اسلامی تصورات کا اظہار کیا، اور اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں کو تنقید کا ہدف بناتے ہوئے اسلام کو بطور حل پیش کیا۔

اس فکر کے علَم بردار مفکرین نے مغربی ثقافتی سامراجیت، سیاسی بازی گری، تیزی کے ساتھ مغربی مادہ پرستی، اور نتیجتاً ترک اسلامی ثقافت و معاشرت کے فضا میں تحلیل ہونے کی سنگین صورتِ حال کو علمی سطح پر اور عوامی زبان میں پیش کرنا شروع کیا۔ Yalcin کا کہنا تھا کہ When Truks lose their faith in Islam, they disappear ۔ اس قسم کے مؤثر جملوں کو زبان زدعام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی ایک مثال یہ ہے:

ترک نسلیت اور اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ترک کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ اس لیے اسے بطور ایک ترک کے سوچنا چاہیے اور بطور مسلمان کے بودوباش اختیار کرنی چاہیے۔

 اس تحریک نے ۱۹۸۲ء کے دستور کے بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک گیر پیمانے پر اسلامی فکر رکھنے والے دانش وروں اور فوج کے اپنی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر اسلامی فکر رکھنے والے افراد کو اپنے سے قریب رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی رہنما بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنے بعض بیانات میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے، مثلاً:’’ہمارے مذہب میں کوئی فرقہ بندی نہیں ہے۔ ہم سب ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارا ایک رسولؐ ہے، ہم سب ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں۔ پھر یہ تقسیم کس لیے؟‘‘

یقین کے ساتھ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ فوجی حکمرانوں کی زبان جس بات کا اظہار کر رہی تھی وہ کہاں تک ان کے دل کی آواز تھی لیکن قومی سطح پر اسلامی فکر کے مطالبے نے انھیں لازمی طور پر ایسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا جو بعد میں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نہ صرف مصر بلکہ خود پاکستان کے فوجی حکمران بشمول ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے اسلام کے حوالے اور ترک فوجی آمروں کے اسلام کے حوالے میں غیرمعمولی مماثلت نظر آتی ہے۔ چنانچہ ترکی میں تعلیمی اصلاحات کا اعلان کرتے وقت اور لوگوں کو بچوں کو اسکول بھیجنے کی تلقین کرتے وقت جنرل ایوران نے جو زبان استعمال کی وہ انتہائی قابلِ غور ہے:

اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہم کو یہ حکم دیتے ہیں ۔محمدؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: سائنس مسلمانوں کے لیے فرض ہے۔کیا کوئی ناخواندہ صاحب ِعلم ہوسکتا ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے خواندہ ہونا چاہیے۔

اصل نکتہ جس کی طرف یہ جادو سر پر چڑھ کر اشارہ کرتا ہے وہ ایک جانب فوج کا اپنی ضرورت کے پیش نظر اسلام کا حوالہ استعمال کرنا ہے تو دوسری طرف تحریکِ اسلامی کے دانش وروں کا اس Turkish-Islamic synthesisکو اپنی حکمت عملی میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ گویا اگر جزوی طور پر ہی سہی، اشتراکیت کے خطرے کے خلاف معروف طاغوتی نمایندوں سے مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ کی بنا پر کوئی رسم و راہ رکھی گئی تو اس سے کون سے اہداف کا حصول مقصود تھا۔ بالعموم تحریک جو آئیڈیلزم اپنے کارکنوں، خصوصاً گرم خون رکھنے والی نسل کے دل و دماغ میں اُتارتی ہے اس کا شعار یہی ہوتا ہے کہ قرآن ہمارا دستور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قائد، اور شہادت ہماری تمنا ہے۔ اس کلمۂ حق سے سرشار نوجوان فوری تبدیلی اور طاغوتی قوتوں کو اپنے پائوں کے نیچے کچلنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دین کے قیام کے لیے انبیاے کرام ؑ اور صحابہ کرام اجمعینؓ نے اپنی قوتیں، وسائل اور جانیں صَرف کیں، اس میں حکمت، مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ بنیادی دعوتی اصول ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کو نظرانداز کرکے حضرت یوسف ؑ مصر میں تبدیلی نہیں لاسکتے تھے۔

تحریکی قیادت اور کارکنوں کو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ مداہنت اور حکمت عملی دومختلف چیزیں ہیں۔ آخری فیصلہ کن بات نیت، طریق کار کی شفافیت اور باہمی مشاورت کے بعد عزم الامور میں مضمر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صداقت سے بھرپور فرمان ہے کہ  اُمت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔ اس لیے اگر تحریک میں مشاورت، تنقید، تجزیہ و تحلیل کے بعد ایک پالیسی مصلحت عامہ کے شرعی اصول کی بنا پر طے پاجائے تو پھر چند نوجوانوں یا کسی بھی گروہ کا تنہا اپنی عقل کے فیصلے پر قائم رہنا دین کی حکمت سے عدم آگاہی ہے(یہ اہم بنیادی فکری بحث مزید تفصیل کی محتاج ہے جس کا یہ مقام ہے نہ موقع)۔

ترکی کی اسلام پسند قوتوں نے اس Turkish-Islamic synthesis کا بروقت اور بربناے حکمت عملی استعمال کرکے دیگر تحریکات کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کیا ہے۔ حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی کے نقطۂ نظر سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے وژن، مشن، اسٹرے ٹیجی اور وقت کے میقات کے تعین میں بے لاگ طور پر، اور پہلے سے قائم کیے ہوئے تحفظات و خدشات سے آزاد ہوکر، غور کیا جائے، چاہے اس میں ہمیں اپنے بعض سیاسی اور تنظیمی فیصلوں کی غلطی کا اعتراف کرنا پڑے۔ آخر حضرت علیؓ کے اُس قول کا اور کیا مفہوم ہوگا کہ انسان کے ارادوں کی ناکامی    اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظمت و علم کے اعلیٰ ترین ہونے کی دلیل ہے۔ہر انسانی حکمت عملی اپنے تمام تر کمال کے باوجود ایک محدود انسانی فکر پر مبنی ہوتی ہے اور ہمیشہ دوبارہ غور کرنے اور تبدیل کرنے کی مستحق ہوتی ہے۔

Hearths سے وابستہ ترک دانش ور اس فضا کی تیاری میں مصروفِ عمل رہے۔ چنانچہ ۹مئی تا ۱۰مئی ۱۹۸۱ء کو انقرہ میں ’قومی تعلیم اور دینی تعلیم‘ کے موضوع پر ایک سیمی نار منعقد کیا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ دینی تعلیم کو لازمی مضمون کی حیثیت سے سیکنڈری اور ہائی اسکولوں میں پڑھایا جائے۔ اس سیمی نار میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں مذہبی امور کے شعبے کے ڈائرکٹر طیارالکنولچ، نیکاتی اور ترگت اوزال جو اس وقت نائب وزیراعظم تھے اور بعد میں وزیراعظم بنے اور صالح تگ جو معروف مذہبی اسکالر اور مرمرا یونی ورسٹی کے الٰہیات کے ڈین تھے، شامل تھے۔ اس سیمی نار میں اور دیگر مواقع پر یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ نوجوان نسل ترکی کی وفادار نہیں ہوگی جب تک دینی تعلیم نہ دی جائے۔ مزید یہ کہ ترکی کی لادینیت اور مذہبی تعلیم دیے جانے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس علمی بحث میں برسرِاقتدار جماعت نے دینی تعلیم کی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ جو اخلاقی تعلیم دی جارہی ہے وہ کافی ہے۔

اس مقام پر یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مشرف کے دور میں تعلیمی اصلاحات کے زیرعنوان پاکستان سے اسلامی رجحانات اور پاکستانیات کو خارج کرنے کے لیے جو غیرسرکاری تنظیموں کے افراد پر ماہرین کی کمیٹیوں نے، مثلاًA.H. Nayyar اور Ahmed Salim کی رپورٹ The Subtle Subvirsion: The State Curricular and Tenthly in Pakistan (اسلام آباد، مارچ ۲۰۰۳ئ) وغیرہ کے نتیجے میں نصابی کتب سے قرآنی آیات اور اسلامی حوالوں کو نکالا گیا۔ یہ ایک عالمی طور پر آزمودہ حکمت عملی کا دھرایا جانا تھا۔ اسی طرح انگریزی کے لازمی مضمون کے طور پر پہلی جماعت سے پڑھائے جانے، ایک بڑے صوبے میں تو تدریس کی زبان کے طور پر اسے نہایت بھونڈے انداز میں قوم پر مسلط کرنے میں بھی اصل محرک پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اُردو کے بین الصوبائی اتحاد کے کردار کو مجروح کرنا مقصود ہے۔ ترکی میں تحریکی دانش وروں نے جو حکمت عملی وضع کی اس میں ترکی کے سیکولر ماضی اور حال کو دوبارہ اسلام کی طرف لانے کی فکر کارفرما تھی۔

ملک گیر فکری اور علمی بحث کے نتیجے میں جنرل ایوران جو فوجی حکومت کے سربراہ تھے ایک دینی تعلیمی مشاورتی کمیشن بنانے پر مجبور ہوئے۔ گو، کمال ازم کے زیراثر ۱۹۳۰ء میں مذہبی تعلیم کو محض ایک اختیاری مضمون قرار دیا گیا تھا اور ۱۹۳۷ء میں سیکنڈری اسکول کے نصاب سے خارج کردیا گیا تھا، اور ۱۹۳۱ء میں ابتدائی تعلیم اور ۱۹۳۸ء میں گائوں کے ابتدائی اسکولوں سے بھی خارج کردیا گیا تھا۔

۸۰ کے عشرے میں ہونے والی ان بنیادی تبدیلوں نے اسلامی فکر کے احیا اور تعلیم کے میدان میں یہ گنجایش پیدا کی کہ پرائیویٹ تعلیم میں دینی تعلیم کو بلاروک ٹوک پڑھایا جاسکے۔ ادھر تعلیمی کمیشن نے بھی تجویز کردیا کہ مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا جائے۔ یہاں پر یاد رہے کہ ان اقدامات کے پس منظر میں PKK جو کرد سوشلسٹ فکر کی حامی تنظیم تھی، اس کے نظریاتی سطح پر رد کرنے کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔

۱۹۸۲ء میں قومی ثقافتی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ترک قومیت کے عناصر ترکیبی میں اسلام شامل ہے۔ اس لیے مغرب کی نقالی اور مذہب سے دُوری ترکی کے مفاد کے منافی ہے۔ ۱۹۸۲ء کے دستور کی دفعہ۲۴ میں تعلیم کے حوالے سے یہ بات کہی گئی کہ: ’’مذہبی ثقافت اور اخلاقیات کی تعلیم پرائمری اور ثانوی کے نصاب میں شامل ہوگی‘‘۔

 گو، دستور کی دفعہ۲ میں ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا۔ اس صورت حال کو    ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ ترکی کے خصوصی حالات میں سیکولرزم کی علَم بردار فوج نے ملک کے دفاع اور سوشلسٹ خطرے کے مقابلے کے لیے ضروری سمجھاکہ اسلامی فکر کے حامل افراد کا تعاون حاصل کرے۔ دوسری جانب دینی فکر رکھنے والے افراد کو سانس لینے کا موقع ملا تو انھوں نے بھی اس موقع کو نہ صرف غنیمت جانا بلکہ ایک طویل المیعاد حکمت عملی کے ذریعے اس موقعے کو اسلامی احیا کے لیے استعمال کرنا چاہا جسے Turkish-Islamic synthesis سے تعبیر کیا گیا ہے۔

معاشی حکمت عملی

۸۰ کے عشرے میں ایک اور عنصر ترکی کی معاشی پالیسی کا سامنے آیا۔ ترگت اوزال کی معاشی پالیسی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے ملک کے باہر سے ان افراد کو ترکی میں اپنے مالی وسائل کو معیشت میں لگانے کی دعوت دی جو اسلامی رجحان بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ سعودی شہزادہ محمدالفیصل، کویتی فنانس ہائوس اور سعودی ارب پتی شیخ صالح کامل نے بڑے پیمانے پر ترکی میں تجارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی۔ ۱۹۸۳ء میں دانش ور اور علمی حلقے Hearths کی کوششوں سے دورِ عثمانی کی ثقافتی علامات، مثلاً محمدالفاتح کے زمانے میں استعمال ہونے والا فوجی نغمے اور مقامی ترک زبانوں کے احیا کی کوشش بھی کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی دہرائی گئی کہ شہریوں کی روحانی ضرورت کو پورا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب سے قبل نجم الدین اربکان مرحوم نے واضح طور پر ترکی میں    بے چینی اور بدامنی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس بدامنی کا اصل سبب تعلیم میں روحانی اور اسلامی پہلو کا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی ( Welfare Party)نے اپنے منشور میں اس بات کو شامل کیا کہ دینی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔

۶نومبر ۱۹۸۳ء کو ہونے والے عام انتخابات میں فوج نے رفاہ پارٹی کو حصہ لینے کا موقع نہیں دیا اور صرف تین سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ ان میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) جس کی سربراہی ریٹائرڈ جنر ل ترگت سونالپ کر رہے تھے۔ Populistپارٹی (PP) جس کی سربراہی ایک سابقہ سرکاری افسر Necdit Calp کر رہے تھے۔ ترگت اوزال نے ۱۹۸۳ء میں Motherland Party (MP) قائم کی اور اس کی پہچان روایت پرست آزد معیشت اور سوشل جمہوریت کو قرار دیا۔ چونکہ ویلفیئر پارٹی یا رفاہ پارٹی کو انتخاب میں شرکت کی اجازت نہ تھی اس لیے رفاہ کے بہت سے افراد نے اوزال کی پارٹی میں شرکت کی۔ اوزال نے صوفی نقشبندی سلسلے کی حمایت بھی حاصل کرلی اور اس طرح ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اوزال کی وطن پارٹی برسرِاقتدار رہی۔

یہی وہ دور ہے جس میں اسلامی عناصر نے معاشرتی فلاح کے کاموں اور شہری انتظامیہ میں اثرورسوخ حاصل کیا۔ ترکی میں اسلام پسند حضرات کا اُوپر آنا محض ان کے اسلام پسند ہونے کی بناپر نہیں تھا۔ جن لوگوں نے استنبول، انقرہ اور دیگر مقامات پر شہریوں کی سہولیات فراہم کیں اور دیانت داری سے کام کیا، ان کا کام ان کی حمایت کا سبب بنا۔ تحریکِ اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسے لمحے کی تلاش میں رہنا چاہیے جب وہ سیاسی سفینے پر سوار ہوسکے اور سیاسی توازن پیدا کرنے کے لیے اس کے وجود کو بخوشی تسلیم کیا جائے۔ MP میں کثرت سے اسلام پسندوں کی شمولیت نے پارٹی کی پالیسی پر گہرا اثر ڈالا۔ اوزال کے دور میں ترکی میں اسلامی احیا اور عثمانی ثقافت کو جدید دور میں متعارف کرانے کے لیے مثبت اقدامات کیے گئے۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کی گئیں لیکن فوج کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ اوزال نے دستوری عدالت (Constitutional Court) ، اعلیٰ تعلیمی بورڈ، یونی ورسٹیوں کے صدور کے لیے دینی رجحان والے افراد کا تقرر کیا اور سرکاری دفاتر میں بھی ایسے افراد کو داخل کیا جو دینی فکر کے حامل تھے۔ امام خطیب مدارس کو مراعات دی گئیں اور دورِعثمانی کے بہت سے اوقاف کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ معاشرتی تبدیلی آگے ہونے والی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔

انقلابی حکمت عملی کی بنیادیں

۸۰ء کے وسط میں ویلفیئرپارٹی یا رفاہ پارٹی نے ایک عالم گیر ایجنڈا بنایا جو جمہوریت کے فروغ، انسانی حقوق اور آزادی اور ’سیاسی شناخت‘پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر اربکان نے حالات، سیاسی ضرورت اور عالمی سطح پر اپنی بات کے ابلاغ کے لیے وہ زبان استعمال کی جو مغرب بھی سمجھ سکے۔ یہ نہ اصولوں پر سمجھوتا تھا، نہ دبنا تھا اور نہ مداہنت تھی بلکہ خالصتاً سیاسی اور دعوتی حکمت عملی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ۱۹۸۷ء کے سیاسی انتخابات کی مہم میں جمہوریت Democratization (یعنی حقیقتاً عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی اور اسلامی فکر کو کھل کر پیش کرنے کے حق) کو اپنے سیاسی لٹریچر میں نمایاں مقام دیا۔ اس میں بغیر کسی تصریح کے سر پر اسکارف باندھنے کا حق بھی شامل تھا لیکن اس کے لیے جو سیاسی زبان استعمال کی گئی وہ اُس سے مختلف تھی جو روایتی طور پر علما استعمال کرتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ڈاکٹر اربکان انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے لیکن ان کی دینی ثقافت کے پیش نظر انھیں ہمیشہ خوجہ، جو ترکی میں عالم کے لیے استعمال ہوتا ہے، کہہ کر خطاب کیا گیا۔

دوسری بات جو کہی گئی وہ just order  یا عادلانہ نظام سے متعلق تھی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ، عوام کو روزگار، پانی، صحت اور دیگر ضروریات کی فراہمی، ملک میں قانون کی بالادستی جس میں دینی آزادی، بیرونی فکری اور مالی غلامی سے آزادی، ترکی میں مضبوط معاشی نظام کا قیام، عالمِ اسلام میں تجارتی تعلقات کو بجاے ڈالر پر مبنی حقیقت کے براہِ راست جنس کے بدلے جنس کی تجارت کا تصور، غرض ڈاکٹر اربکان نے اپنے سیاسی منشور میں ان مسائل کو مرکزی مقام دیا جو عوامی مسائل تھے، اور لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ’عادلانہ نظام‘ کا مطلب امریکا کو بُرا بھلا کہے بغیر امریکی اور مغربی غلامی سے نجات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔

اس سیاسی زبان نے رفاہ پارٹی کو عوامی جماعت بنا دیا۔ چنانچہ ۱۹۸۴ء میں صرف ۴ئ۴ فی صد ووٹ حاصل کرنے والی رفاہ پارٹی ۱۹۹۵ء میں ۴ئ۲۱ فی صد ووٹ حاصل کر کے ۱۵۸ نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اس عرصے میں ترکی کی معیشت کی کمزوری سے عوام پریشان تھے چنانچہ رفاہ پارٹی کے معاشی منصوبے نے اس کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ رفاہ پارٹی ہو یا عدالت پارٹی(J.P)، یا بعد میں وجود میں آنے والی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی(JDP) یا عدالت و کلکینا پارٹی (AKP)، جب تک زمینی حقائق کے پیش نظر وہ سیاسی زبان جو عوام سمجھتے ہیں، جس میں لازمی طور پر نظریاتی تعلق کا کھلا اظہار ہو، لیکن عوامی مسائل کا معقول حل اور تبدیلی کے لیے پُرامیدی بلکہ یقین پایا جائے، حکمت عملی کے ایک لازمی حصے کے طور پر بھرپور اور مؤثر انداز میں استعمال نہیں کی جائے گی، تحریک کی دعوت عوام کے ذہن کو متاثر نہیں کرسکتی۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ ایک مضبوط اور فربہ گھوڑے کے مقابلے میں اس گھوڑے کو جو دوڑنے میں تیز ہو، ترجیح دیتی ہے۔ اس لیے عوام کا مطمئن کیا جانا اور یقین کا مستحکم کیا جانا سیاسی حکمت عملی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

ترکی کی صورت حال میں اسلام پسند جماعتیں وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خلافِ قانون قرار دی جاتی رہیں لیکن ہرقانونی یا دستوری عدالت کے حکم نامے کے بعدو ہ ایک نئے نام کے ساتھ دوبارہ اُبھر کر آتی رہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی حکمت عملی میں اگر ایک نام سے کام کرنا ممکن نہ ہو تو ایک تحریک اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرانام بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ چنانچہ National Salvation Party (NSP) یا MSP ملّی سلامت پارٹی نے ۷۲-۱۹۸۰ء کام کیا اور ۱۹۸۰ء میں فوجی مداخلت کے بعد غیرقانونی قرار دے دی گئی۔ یہی ویلفیئر پارٹی     کے عنوان سے ۸۳-۱۹۹۸ء تک کام کرتی رہی۔ اسے بھی خلافِ قانون قرار دے دیا گیا تو یہ Virtue Party، فضیلت پارٹی کے نام سے سرگرم ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۹۸ئ-۲۰۰۹ء تک یہ عوام میں مصروفِ عمل رہی۔ جب اس پر بھی دستوری عدالت نے پابندی عائد کردی تو تحریکِ اسلامی دوحصوں میںتقسیم ہوگئی۔ جسٹس اور ترقی پسند جماعت جو ۲۰۰۹ء میں اردوگان اور عبداللہ گل کی قیادت میں عمل میں آئی اور استاذ اربکان کی فضیلت پارٹی سعادت پارٹی جو ۲۰۰۹ء میں الگ ہوگئی۔

جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) جو اس وقت بھی حکمران ہے اپنے منشور کے علاوہ جس میں تعلیم، بے روزگاری، صحت، تقسیمِ دولت، سوشل سیکورٹی ، صنعت کاری، قرض پر مبنی معاشی بوجھ سے نجات، شہری سہولتوں اور ماحولیات پر واضح سوچے سمجھے اور قابلِ عمل منشور کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ عوام کی خدمت کا ایک عملی نمونہ لے کر آئی۔ چنانچہ اردوگان اور ان کے ساتھیوں نے استنبول کی لوکل باڈی اور دیگر تین بڑے شہروں کی انتظامیہ میں اپنے دور میں جو کام کیے ان سے عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ اگر یہ جماعت ملک گیر پیمانے پر کامیاب ہوگئی تو تبدیلی کا عمل واقعی ہوگا۔

۱۹۹۱ء میں ۵۶ فی صد آبادی نے انفرادی راے شمارے کے اندازوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ عوامی فلاح کا کام ریاست کی ذمہ دری ہے۔ ۵۰ فی صد نے کہا کہ وہ سیاسی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور ۴۲ فی صد نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتے۔ ۹۱ فی صد نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا، جب کہ ۶۷ فی صد نے اسلامی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ (ایضاً، بحوالہ سابقہ، ص۱۵۹)

طیب اردوگان نے استنبول کے صوبے سے سربراہ کی حیثیت سے بار بار اس بات کا اعلان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمایت پر مکمل یقین رکھتے ہیں، وہی ہماری قوت ہے، یہی ہماری منزل ہے اور اس کے بعد عوام ہماری قوت ہیں۔

طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آتے ہی جو اقدامات کیے ان میں استنبول کے صوبے میں پانی کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ، شہر کی صفائی اور کچرا صاف کرنا عوامی سفری سہولت کے لیے بسوں اور ٹرینوں کا نظام، عوامی شکایت کے وصول کیے جانے پر ۴۸گھنٹے میں اس پر عمل ، چھوٹے تاجروں کے لیے ایک مجلس مشاورت جو ان کی تکالیف کو دُور کرنے کے لیے تجاویز دے، شامل تھے۔ غرض ان تمام اقدامات نے عوام کو یہ یقین دلا دیا کہ واقعی یہ لوگ ہمارے مسائل کا حل کرسکتے ہیں، جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں وعدے، دعوے اور منصوبے تو بناتی ہیں ، ملک میں کوئی قابلِ محسوس تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ چنانچہ محتاجوں اور غریبوں کے لیے سہولتیں پیدا کی گئیں۔ ان کے لیے کم خرچ پر مکانات کی تعمیر اور مالی امداد فراہم کی گئی۔

شہروں میں اصلاح و بہتری کے لیے اور آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے فوری اقدامات نے طیب اردوگان کی حکومت اور پارٹی کو عوام میں غیرمعمولی طور پر مقبول بنا دیا۔ ۸۰ء اور ۹۷ء کے دوران شہری آبادی میں اضافہ ہوا اور وہ ۴۴ فی صد سے بڑھ کر ۶۰ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے کی بنا پر سڑکیں، پانی، رہایش، صفائی، غرض ہرہرشعبے میں مسائل میں اضافہ ہوا۔ AKP نے ان مسائل کو حل کیا اور تین بڑے آبادی والے علاقوں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پالیسی میں تبدیلی نے AKP کے سیاسی استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا۔

AKP نے اپنی انتخابی حکمت عملی میں نوجوانوں اور خواتین کو شامل کر کے لاکھوں رضاکاروں کی ایسی فوج تیار کرلی جو خلوصِ نیت کے ساتھ ملک میں عدل و انصاف کے نظام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوئی اور اس کے نتائج جلد سامنے آگئے۔

یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ اس عرصے میں سیکولر قوتیں خاموش رہیں لیکن چونکہ اسلام پسند افراد بیک وقت بیوروکریسی، طلبا، تاجر برادری، خواتین، دیہی علاقہ جات اور شہروں میں عوامی اور سیاسی سطح پر نفوذ کے نتیجے میں سرگرمِ عمل ہوگئے تھے اس لیے سیکولر جماعتوں کے اثرات میں نمایاں کمی ہوئی۔ اوزال کا اسلام پر غیرمتزلزل عقیدہ اور سیکولرزم کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا جبری نفاذ حقوقِ انسانی کے منافی ہے، ترک نوجوانوں اور عوام الناس میں ان کی مقبولیت کا بڑا سبب بنا۔

۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران ہرسال ۱۳۵ سے زائد قرآنی حلقہ جات کااضافہ ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں قرآنی کورس کرانے والے تقریباً ۵ہزار حلقے سرگرمِ عمل تھے۔ ان حلقات میں تقریباً ۱۰لاکھ نوجوانوں نے قرآنی کورس کی تکمیل کی۔ امام خطیب اسکول سے فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد ۱۹۷۵ء میں ۴۸ہزار۹سو تھی، جب کہ ۱۹۸۱ء تک یہ ۲لاکھ ایک ہزار۴ اور ۱۹۹۱ء میں ۳۰لاکھ۹ہزار ۵سو۵۳ تک پہنچ گئی۔ یہ لاکھوں تربیت یافتہ کارکن دیہات اور شہروں میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئے۔

اپنے بچوں کو منشیات، تمباکو نوشی اور اخلاقی خرابیوں سے بچانے کے لیے بہت سے والدین نے امام خطیب اسکول میں داخلہ دلوایا، اور اس طرح یونی ورسٹیوں میں جب یہ بچے پہنچے تو ملک کی جامعات میں ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہوا۔

اسلامی تحریکوں کے لیے غورطلب پھلو

 بعد میں پیش آنے والے حالات کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس طویل سوچے سمجھے سفر میں غور کرنے کے لیے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:

۱- تحریکِ اسلامی نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلیِ زمان و مکان کے لحاظ سے طویل المیعاد حکمت عملی بنائی اور سیاسی مواقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ تحریکی آئیڈیل ازم مطالبہ کرتا ہے کہ اس کا ہر کارکن اعلیٰ ترین اخلاقی طرزِعمل کی مثال ہو اور کسی بھی معاملے میں خواہ سیاسی ہو یا انفرادی کسی لچک کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ لیکن بنیادی تعمیر سیرت اور قرآن و سنت سے وابستگی پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر حالات کی مناسبت سے تحریک کے سیاسی تعلقات اور وابستگیوں میں تبدیلی اور سیاسی پابندیوں سے نکلنے کے لیے کسی نئی جماعت کے قیام کو مناسب طور پر استعمال کیا گیا۔

۲- طویل حکمت عملی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کا قیام اور موجود تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں نظریاتی کام کے ذریعے بیداری اور نظم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نتیجتاً اردوگان کی مہم میں ایک لاکھ سے زائد تربیت یافتہ کارکن ہمہ وقت سیاسی اور معاشرتی کاموں میں مصروف رہے ، جس کے بعد وہ نتائج سامنے آئے جن کی توقع تھی۔

۳- تحریک کا معاشرتی تبدیلی کے عمل میں براہِ راست متعلق ہونا تاکہ تاجر برادری اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کا ایک ایسا منظم گروہ بن جائے جو اپنی خدمات اور products میں ایمان داری اور معاملات میں شفاف ہو۔ ان حضرات نے نہ صرف تجارت اور معیشت کو بلند کرنے میں بلکہ اپنے مالی ایثار سے تحریک کو کامیاب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

۴- مرکزی قیادت تک پہنچنے سے قبل شہری انتظامیہ کے ذریعے اپنی مثبت تصویر اور کارکردگی کی بناپر عوام کی حمایت کا حاصل کرنا۔ اس سلسلے میں شہر میں سڑکوں، ٹرانسپورٹ کے نظام، بجلی، پانی کی فراہمی، شہر میں صفائی، شہر کی خوب صورتی، معاشی طور پر کم تر افراد کو روزگار کی فراہمی، تحریک کی کامیابی کا ایک بڑا سبب بنا۔

۵- تحریک کی امداد و رہنمائی کے لیے ایسے اداروں کا قیام جو ملکی اور بیرونی پالیسی سازی میں فنی رہنمائی فراہم کرسکیں۔ ان مشاورتی اور تجزیاتی اداروں (Think Tanks ) نے افرادی قوت اور ماہرین فراہم کیے اور حکومت کے حصول کے بعد مختلف شعبوں میں سربراہی کے کام انجام دینے میں مدد کی۔ کسی بھی تحریک میں جب تک اعلیٰ ذہنی اور انتظامی صلاحیت کے افراد نہ ہوں وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل نہیں دے سکتی۔

۶- عوامی سطح پر (grassroot level ) پر کام کے دوران اپنی نظریاتی تربیت کرتے رہنا تاکہ اقتدار ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے خوف کی بنا پر کسی بدعنوانی، اقرباپروری اور جماعتی تعصبات کی وجہ سے کسی کے ساتھ ناانصافی اور غیرعادلانہ رویہ اختیار نہ کیاجاسکے۔

۷- جامعات اور سرکاری شعبوں میں اپنا اثرونفوذ پیدا کرنے کے لیے تربیت یافتہ نوجوانوں کو وہاں کام کرنے پر راغب کرنا اور اسلامی فلاحی اداروں کا نیٹ ورک قائم کرنا۔ اس روابط کے نظام نے شہری اور دیہاتی سطح پر متوسط اور اس سے کم تر طبقات کو تحریک سے وابستہ کردیا اور اس طرح عوامی طاقت میں اضافہ تحریک کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔

۸- تحقیق اور مطالعہ و تجزیے کی بنیاد پر نئے معاشی راستے نکالنا تاکہ ایک جانب روزگار فراہم ہو اور دوسری جانب صنعتی ایجادات میں اضافہ ہو۔ یہ entropreneurship یا مسابقت کرتے ہوئے ایک کام کا کرنا کاروبار تک محدود نہیں رہا ،بلکہ اس نے دعوتی میدان میں نئے تجربات کی دعوت دی اور اس طرح تحریک نہ کبھی جمود کا شکار ہوئی اور نہ مایوسی اور بے دلی اس پر طاری ہوسکی۔

۹- ایک بڑا قابلِ غور پہلو مختلف دینی قوتوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی مخالفت سے اجتناب، باہمی رواداری کا اہتمام اور اپنے دائرے میں اپنے کام کو محدود رکھتے اور دوسرے کو بدنام کرنے یا اس پر طعن زنی سے بڑی حد تک گریز کرنا ہے۔

۱۰- ایک اور لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ اسلامی قوتوں نے خود اپنے ذہن اور رویے اور اپنی عام ذہنی تصویرکشی (image) میں اپنے کو تنہا رہ جانے سے بچایا اور عوام میں سے ہونے اور عوام کے لیے ہونے کا احساس اور شعور پیدا کیا۔ اپنے وژن کو محکم اور اپنے تربیتی نظام کو مستحکم رکھا مگر اس کے ساتھ ساتھ پوری کمیونٹی اور قوم اور اس کے تمام ہی عناصر سے اپنے کو مربوط رکھا۔ ان کو اپنی سرگرمیوں میں خواہ ان کا تعلق معاشرتی اصلاح، تعلیم، دعوت اور نوجوانوں کی سرگرمیوں بشمول اسپورٹس ہوں یا یقینی طور پر سیاسی اور اجتماعی اصلاح کی کوششیں اور ان میں بھی لوکل باڈیز میں مضبوط کام اور اعلیٰ مثال کے قیام جو نمونہ بنا ، اُوپر کے دائروں میں کام اور عوامی اعتماد کے حصول کا ذریعہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں نظری اور تربیتی، ہردواعتبار سے مرکزی اور اندرونی نظام کو مضبوط رکھتے ہوئے ایک وسعت پذیری (outer reach) کا شعوری اہتمام اور تحریک کے دائرۂ اثر کو مقامی سطح سے بڑھا کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچانا اس دیرپا اور خاموش حکمت عملی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں ترک آبادیاں اس عمل کا ایک مؤثر حصہ رہیں، اور جو تبدیلی ۲۰۰۰ء کے عشرے میں سامنے آئی اس کی پشت پر کم از کم ۴۰سال کی محنت، مناسب منصوبہ بندی اور اس پر مؤثر عمل کی لازوال جدوجہد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان تمام پہلوئوں سے زیادہ جو بات قابلِ غور ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے خصوصی نصرت کی درخواست اور اپنی کمزوریوں پر مغفرت مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے ہرقربانی کے لیے تیار رہنا ہے۔ انسانی کوششیں کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں جب تک رب کریم کی خصوصی عنایت نہ ہو، کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ترکی کے تجربے کو تجزیاتی نظریے کے ساتھ دیکھنے کے بعد ہمیں اور دوسری اسلامی تحریکات اور تنظیموں کو کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ ہم اس تجربے کے کن کن پہلوئوں کو اپنے حالات کے پیش نظر مناسب تبدیلی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، اور کون سے پہلو ایسے ہیں جو ترکی کے حالات کی مخصوص ضرورت تھے۔ تحریک اسلامی کو اجتہاد کے اصول کو مسلسل استعمال کرنا ہوگا اور تحریکی قیادت کو اپنی سابقہ حکمت عملی کے دفاع کی جگہ نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو بات جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں تیزرو پہاڑی دریا اور    راہ میں حائل پہاڑ کی مثال دے کر سمجھانی چاہی تھی اس پر عمل کرنا ہوگا، تاکہ مشکلات کے پہاڑ راستہ نہ روک سکیں اور نئے راستے منزل تک پہنچنے کے سفر کو کامیاب بناسکیں۔یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اس کام کے لیے خوداحتسابی، اپنے بعض فیصلوں پر نظرثانی کی ضرورت اور طویل المیعاد حکمت عملی کے نفاذ کے لیے صحیح افرادی قوت کی تیاری وہ بنیادی کام ہیں جن کے بغیر توقعات اور اُمیدیں عملی شکل نہیں اختیار کرسکتیں۔وما توفیقی الا باللّٰہ۔

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اوراُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں___ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں___ اور وہ اس آزمایش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اُس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی، لو اب وہ تمھارے سامنے آگئی اور تم نے اُسے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مرجائیں یاقتل کردیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں پھر جائو گے؟ یاد رکھو! جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکرگزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔ کوئی ذی رُوح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے۔ اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں اُن سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹-۱۴۶)

سورۂ آل عمران کی سات آیات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہر دور میں تحریکِ اسلامی کو  پیش آنے والے مطالبات، مشکلات، مغالطے اور ان سے نجات حاصل کرنے کی حکمت عملی کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ حق کے متلاشی جب ایک مرتبہ شعوری طور پر اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیںتو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جس حق کو انھوں نے پہچان کر حاصل کیا ہے، اب اس کا نفاذ اور اس کی سربلندی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ایک ماہر انجینیر جب سورج کی شعاعوں سے چلنے والی ایک موٹرکار ایجاد کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اپنی سالہا سال کی محنت کو   سڑک پر دندناتا ہوا بھی دیکھے۔ وہ اسے محض کاغذ پر یا اپنے کمپیوٹر پر دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔ یہی مشکل تحریکی قیادت اور کارکنوں کو درپیش آتی ہے۔

ایک تحریک اگر ۷۰برس سے حق کی دعوت دے رہی ہو اور اس کے بعد بھی کروڑوں کی آبادی میں اس کا انسانی اثاثہ بمشکل ۵۰ہزار یا حد سے حد ایک لاکھ افراد ہوں تو اس کا یہ سوچنا معقول نظر آتا ہے۔ جو لوگ باطل، طاغوت اور کفر کی دعوت دیتے ہیں، عصبیتوں کی طرف بلاتے ہیں، ذاتی مالی فائدے کا لالچ دے کر لاکھوں کروڑوں افراد کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں وہ دنیا میں کامیاب ہیں۔ ان کے پاس اقتدار ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، عوامی عہدے ہیں۔ ان کا حکم مقامی انتظامیہ پر چل رہا ہے۔ اور جو حق کے متوالے، دن رات اللہ کے دین کی دعوت دینے میں مصروف ہوں ان کے پاس نہ قیمتی گاڑیاں ہوں، نہ ان کے مکانات کئی کئی ایکڑ پر تعمیر ہوئے ہوں، نہ ان کو پارلیمنٹ میں بھاری وزن سمجھا جائے۔

یہ وہ پیش آنے والے مغالطے، مایوس کرنے والے مشاہدات اور غیرمحسوس طور پر قوتِ عمل کو مفلوج کردینے والے وسوسے ہیں جنھیں طبی زبان میں ’وائرس‘ کہا جاتاہے۔ یہ وسوسے غیرمحسوس طور پر تحریکی قیادت ہو یا کارکن، ان کے دل و دماغ میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر انسان کو یہ غم کھانا شروع کردیتا ہے کہ وہ کس طرح کسی شارٹ کٹ، کسی سیاسی کرتب، جوڑتوڑ، سیاسی نعرے یا اتحاد کے ذریعے ثوابِ دنیا کو حاصل کرلے۔

ایک لمحے کے لیے رُک کر جائزہ لیا جائے تو جو بات آغاز میں فرمائی گئی ہے وہ تحریکی قیادت اور کارکنوں کے لیے چونکا دینے والی بات ہے یعنی تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۔ کسی کی وقتی مقبولیت، وسائل پر قابض ہونا، پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلینا ایسا ہی ہے جیسے بدر کی فتح کے بعد اُحد اور حنین کی آزمایش و امتحان۔ اور اس کا مقصد بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ وہ چاہتاہے کہ اپنے ان مخلص بندوں کو چھانٹ لے جو دعوتِ اسلامی سے بغیر کسی مفاد اور ذاتی شہرت کے وابستہ ہوئے ہیں ۔ جن کے لیے کارکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ جو نہ عہدوں کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ان کے حصول کے لیے جوڑتوڑ اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا تھا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘‘۔ یہ فرمانے کے بعد ایک انتہائی اہم اور کانٹے کی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ اس آزمایش کی گھڑی میں کفروباطل کے ساتھ مقابلے میں جو اہلِ ایمان شہید ہوئے، دراصل اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی جماعت میں سے کچھ کو یہ اعزاز بخشناچاہتا تھا___ آج بھی پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، تحریک اسلامی کے بعض مخلص کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید ہوتے رہے ہیں___ کہ وہ جس دعوت کو لے کر اُٹھے تھے اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔

لیکن دوسرا اہم پہلو جس کی طرف صاحب ِتفہیم القرآن متوجہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ ’’اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم ا س وقت مشتمل ہو، ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شہدا علی الناس ہیں، یعنی اس منصب جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمت مسلمہ کو سرفراز کیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن،ج۱، ص ۲۹۰)

اگر تحریکی کارکنوں کا تعلق قرآن کریم سے قریبی ہوگا تو ہرچوٹ کھانے کے بعد، ہر ظاہری ناکامی کے بعد ان کے عزمِ شہدا علی الناس میں اضافہ ہوگا اور اگر ان کا زاویۂ نظر بھی یہ ہوجائے  کہ وہ کسی طرح عددی قوت کے سہارے اپنے ’ثوابِ دنیا‘ کو حاصل کرلیں تو پھر ان پر مایوسی اور پژمردگی کے اثرات ہونے لازمی ہیں۔ مقصد کے حصول میں شبہہ، منزل کے دُور ہونے کا احساس، کوششوں کے باوجود مطلوبہ مقام تک نہ پہنچنے کی حسرت اس نفسیاتی بلکہ وسوساتی کیفیت کے فطری نتائج ہیں۔

پھر یہ بات بیان کی جارہی ہے کہ جس جنت، یعنی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس دنیا میں جدوجہد کی جارہی ہے وہ محض ۷۰سال کی کوشش سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو ۹۰۰سال کی جدوجہد بھی شاید قلیل ہو۔ لیکن جن اعلیٰ مقام افراد نے ۹۰۰ سال اپنی دعوت کی کامیابی کے لیے جدوجہد کی، ان کا نام آج ان کی استقامت ، پُراُمیدی، رب پر اعتماد و بھروسے اور اللہ کی نصرت پر یقین کی بنا پر زندہ ہے۔ اگر مقصود ’ثوابِ آخرت ہے‘ تو پھر ثوابِ دنیا میںتاخیر بلکہ بعض اوقات اس کا حاصل نہ کرپانا بھی نہ تو ناکامی ہے اور نہ مایوسی کی علت۔

ان آیاتِ مبارکہ کے تناظر میں آج تحریکِ اسلامی کے ہرکارکن، متفق اور ہمدرد کے لیے جو اصل بات سوچنے کی ہے وہ اس کا خود اپنا احتسابی جائزہ لینا ہے کہ کیا وہ شہدا علی الناس کی تعریف میں آتا ہے؟ کیا اس کی پسند، ناپسند، جڑنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے یا اس میں ’ثوابِ دینا‘ کہیں نہ کہیں داخل ہوگیا ہے، اور غیرمحسوس طور پر وہ بھی معاشرتی مقام (status)، منصب اور سیاسی دوڑ میں آگے نکل جانے کے پُرکشش سراب میں تو گرفتار نہیں ہو رہا؟ اپنی ذات کو خود جانچنے کا پیمانہ اُس حدیث صحیح میں بیان کردیاگیا ہے جس کو حضرت ابوامامہؓ نے روایت کیا ہے: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے  روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا ‘‘۔(بخاری)

 وہ بہت سے سوالات جو آئے دن ہمارے ذہنوں میں اُٹھتے رہتے ہیں اور نتیجتاً مایوسی، وسوسے اور مغالطے پیدا کرتے ہیں۔ اگر قرآن کریم میں ان کا جواب تلاش کیا جائے تو اس کتاب و حکمت کی محض دو تین آیات نہ صرف ان کا جواب بلکہ پیش آنے والے مسائل کے حل کی حکمت عملی بھی سمجھا دیتی ہیں۔

قوموں کا عروج و زوال، کسی دعوت کا قبولیت ِ عام حاصل ہونا اور لوگوں کا جوق در جوق اس میں شامل ہونا اس کی کامیابی کاتنہا معیار نہیں ہے۔ ایک دعوتِ حق برس ہا برس کے مسلسل عمل کے باوجود محدود تعداد میں افراد کو متاثر کرسکتی ہے اور وہی دعوت بعض اوقات کم وقت میں تیزی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ نہ ان دو کیفیات میں کوئی تضاد ہے، نہ ایک یا دوسری کیفیت کامیابی یا ناکامی کا حتمی فیصلہ کرسکتی ہے۔

جس پہلو پر ہرلمحے توجہ کی ضرورت ہے وہ دعوت کا مرکزی نکتہ ہے۔ یعنی کیا دعوت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کی دعوت ہے یا اس میں وہ بہت سے خدا بھی شامل ہوگئے ہیں جنھیں ہم اقتدار، دولت، منفعت، شہرت، تسلیم کیے جانے کی خواہش، نفس کی تسکین وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کام ایک فرد خود ہی کرسکتا ہے لیکن یہی کام تحریکات کو اجتماعی احتساب کی شکل میں کرنا لازمی ہے۔ تحریک کا ہرفیصلہ، اس کی ہرپالیسی ابدی طور پر نہ تو درست ہوسکتی ہے اور نہ غلط۔ ایک حکمت عملی جو آج درست ہو، تبدیلیِ حالات کی بنا پر آیندہ کسی مرحلے میں غلط ہوسکتی ہے۔   وقتی طور پر، مخصوص اہداف کے لیے دیگر قوتوں کے ساتھ اتحاد کو نہیں کہا جاسکتا اور نہ کسی وقتی اتحاد کی بناپر تحریک کو قیامت تک کسی غلط فیصلے کے لیے موردِالزام ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس لیے تحریکی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات پر بغیر کسی حجاب کے کھل کر اجتماعی طور پر پالیسی یا حکمت عملی کا احتساب کرے، اور جہاں پالیسی میں کوئی جھول پایا جائے اس کی بروقت اصلاح کی جائے۔ اصلاح کرنا، اللہ کی طرف لوٹنا اور غلطی کا اعتراف کرنا، تحریک کی عظمت کی نشانی ہے۔ فیصلے میں عجلت یا تاخیر انسانی عقل کے محدود ہونے کی بنا پر ایک فطری عمل ہے۔ اس میں کسی فیصلے کے بروقت یا درست ہونے کا اعتراف کرنا اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔ جس چیز پر کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی، وہ قرآن و سنت کا بتایا ہوا مقصد حیات ہے۔

تخلیق انسان کے وقت ہی انسان اور فرشتوں کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا ؑ نے اپنی دعوت کا بنیادی نکتہ  قرار دیا، اور خاص طور پر انبیاے کرام کے طریق دعوت اور تبدیلیِ اقتدار کی حکمت کے حوالے سے قرآن کریم جہاں جہاں ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ واضح طور پر اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت یوسف ؑنے اپنے جیل کے ساتھیوں سے جو ایک طاغوتی ملوکیت پر مبنی نظام کے تحت جیل میں آپ کے ہمراہ اپنی مدت گزار رہے تھے یہی سوال تو کیا تھا کہ کیا بہت سے خدا بہتر ہیں یا صرف اللہ وحدہٗ لاشریک۔ آج کے تناظر میں یہی سوال اگر کیا جاتا تو یوں کیا جاتا کہ کیا سیاست کا خدا مغربی لادینی جمہوریت کو ہونا چاہیے؟ اور معیشت کا خدا استحصالی سودی نظام، اور ہرلمحے غربت میں اضافہ کرنے والی تجارتی سرگرمی کو ہونا چاہیے؟ کیا ثقافت کا خدا ہندووانہ اور مغربی تہذیب میں پائی جانے والی فحاشی، عریانی اور تشدد کو ہونا چاہیے؟ اور کیا معاشرت میں برادری خدا ہے، نسب، ذات اور دولت کی کثرت بنیاد ہے کہ اس کی پرستش کی جائے؟ کیا تعلیم کا خدا مادی منفعت ہے کہ تعلیم کا مقصد ہی یہ ہو کہ ایک فرد کس طرح معاشی میدان میں دوسروں سے آگے نکل سکتا ہے، یا مذہب کے شعبے میں خدا رہبانیت کی تعلیم ہے کہ ایک شخص اپنا گھربار، کاروبار، تعلقات چھوڑ کر جنگل بیابان میں جاکر بیٹھ جائے یا کسی لمبے تبلیغی سفر پر نکل جائے اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک کو شیطان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ یا اس کی معیشت ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا تعلیم، ہرہرشعبۂ حیات میں وہ صرف اُس بات کو مانے جو خالق انسان نے انسانوں پر اپنے خصوصی رحم و کرم، رحمت و محبت کی بنا پر ہدایت، بُرہان، تذکرہ اور الفرقان کی شکل میں نازل کردی ہے؟___ اور اس طرح ہرہرشعبۂ حیات میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، قدرت و اقتدار کو عملاً نافذ کردیا جائے۔ حضرت یوسف ؑ کے قصے میں اسی پہلو کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا اور فرمایا گیا کہ ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت اور اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو:

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ  (یوسف ۱۲:۴۰) ، فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سواتم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جس بات کا مطالبہ انسان سے کیا جا رہا ہے، کائنات کی ہرشے   اللہ تعالیٰ کی اُس حاکمیت کا اقرار جب سے اس کا وجود ہے رضامندی کے ساتھ یا ناپسندیدگی اور مجبوری کے ساتھ اس حاکمیت اور اقتدار کوتسلیم کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور حاکمیت کی گواہی دے رہی ہے۔چنانچہ ارحم الراحمین فرماتا ہے:

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ o قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۸۳-۸۵)، اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟   اے نبیؐ، کہو کہ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں، جو ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوب ؑ اور اولادِیعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں،اور اُن ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان اور مُسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

توحید کو عملاً اختیار کرنے کے ساتھ جب تک عملی طور پر اپنے تمام معاملات میں اللہ کے بھیجے ہوئے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی نیت اور کوشش نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن کریم نے دوٹوک انداز میں یہ وضاحت کردی کہ اللہ کی بندگی اور حاکمیت کے ساتھ اللہ کے رسول کی اطاعت اور پیروی اور سنت کو حتمی اور تشریعی سمجھے اور نافذ کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا:

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ  ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النساء ۴:۵۹)

 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اس اطاعت ِ رسولؐ کو نہ صرف مطلوب اور مثبت رویہ قرار دیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر رسولؐ کے فیصلے، ارشاد اور عمل کے بارے میں کسی تردد یا تحفظ کا اظہارکیا گیا تو یہ ایمان کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا اور ایسا عمل یا تو منافق کا ہوگا یا کافروفاسق کا۔ فرمایا گیا:

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱)، اور جب ان سے کہا جاتا ہے آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔

ایمان کی اس اوّلین بنیاد کا قریبی تعلق اُس کیفیت سے ہے جس کی طرف آیت مبارکہ کے آغاز میں اشارہ کیا گیا، یعنی انسان کا اپنی کوششوں کو متوقع طور پر کامیاب نہ دیکھنے کے نتیجے میں دل شکستہ اور غمگین ہوجانا۔ کسی بھی تحریک میں اگر جدوجہد کرتے ہوئے ۷۰سال نہیں صرف ۱۰ سال ہی گزرے ہوں تو اعلیٰ تربیت یافتہ افراد بھی پکار اُٹھتے ہیں: وہ مدد کب آئے گی جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟متی نصراللّٰہ؟ اس سوال کے پس منظر میں وہ شیطانی وسوسہ مخفی ہوتا ہے جو دل کو شکستہ اور غمگین کرتا ہے۔ اللہ اور رسولؐ پر پورے ایمان کے دعوے کے ساتھ اعلیٰ ترین تربیت یافتہ ہوں یا عام کارکن، اس سوال کا اُٹھنا حیرت انگیز نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے اس سوال کے اُٹھنے پر نہ قیادت کو اور نہ مجموعی طور پر جماعت کو حیرت ہونی چاہیے۔ ہاں، جو بات ضروری ہے وہ اس زمینی حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا قرآن و سنت میں حل تلاش کرنا ہے۔ قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عزم، ولولے اور اعتماد کو کارکنوں کے ساتھ مسلسل تبادلۂ خیال کے ذریعے ان تک منتقل کرے اور کسی لمحے تھکن، سُستی اور مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دے۔ چنانچہ مثبت اور تعمیری طرزِ فکر کے ساتھ مروجہ طریقوں کا جائزہ اور نئے طریقوں کا استعمال کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ اندرونی تنقید کا نہ صرف برداشت کرنا بلکہ دعوت دے کر تنقید پر آمادہ کرنا اور پھر بغیر مدافعانہ طرزِعمل کے مشاورت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنا تحریک سے جمود، تھکن اور سُستی کو دُور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تحریک میں قیادت اور کارکن کے درمیان اصل رشتہ ایمان اور زندگی کے مقصد کے اشتراک کا ہے۔ یہ محض کوئی انتظامی معاملہ نہیں ہے، نہ یہ حاکم اور محکوم کا سا رشتہ ہے، اس لیے جب تک تحریک کے کارکن اور قیادت ایمان کی یکساں سطح پر نہ ہوں، جمود ، سُستی اور رفتار ِ کارمیں کمی کا حل نہیں ہوسکتا۔ ایمان کے اس مقام تک لانے کے لیے نہ صرف قرآن و سنت سے تعلق بلکہ  نظامِ عبادت کا قیام اور نظامِ عبادت کی روشنی میں معاملات میں شفافیت، امانت، سچائی اور پاسِ عہد پر عمل کیا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر فکری اور شعوری طور پر ایمان کا تصور تو ذہن میں ہو لیکن اس کا اثر عبادات میں نہ ہو، اور اگر عبادات کا اہتمام ہو، نماز باجماعت ادا کی جارہی ہو، نوافل کا اہتمام بھی ہو رہا ہو، لیکن مالی معاملات، خاندانی ذمہ داریوں، کاروباری تعلقات میں،حتیٰ کہ غیرتحریکی افراد کے حقوق و فرائض کی ادایگی میں غفلت ہو، اور ان معاملات میں اللہ کی رضا کے ساتھ دیگر مقاصد شامل ہوجائیں تو قیادت اور کارکن میں فاصلہ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہوگا،اور حزن اور نااُمیدی کسی نہ کسی حوالے سے تحریک میں داخل ہوجائے گی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت کا وعدہ ذہن سے محو ہوجانے کے بعد یاس ومحرومی اور مستقبل کے دھندلانے کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

ایمان، دل شکستگی اور مایوسی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسے موقع پر بھی جب داعیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن غار کے دہانے پہنچ جاتے ہیں، غار سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، اس وقت بھی حوصلہ ہارنے کا کوئی جواز قرآن میں نہیں پایا جاتا ۔ ایسی آزمایش کی صورت میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ایمان، بھروسا اور اس کی نصرت پر اعتماد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ گویا ایسے حالات میں جب بظاہر کوئی متبادل سیاسی حل (option) نظر نہ آتا ہو، اللہ پر ایمان کا مطلب استقامت کا اختیار کرنا ہے اور بغیر نااُمیدی اور دل شکستگی کے اُمید، عزم اور یقین کے ساتھ راہِ حق پر آگے بڑھتے رہنا ہی اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

نااُمیدی، فضا کا گرد آلود ہونا اور منزل کا دھندلا جانا ایمان کے منافی ہے۔ اس لیے جس لمحے بھی تحریک کے کارکنوں کو یہ احساس ہو کہ منزل قریب کیوں نہیں آرہی، اور کتنا انتظار کرنا ہوگا، ظالم و جابر کب تک فرماں روائی کرتے رہیں گے؟ فوری طور پر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی، اور عزمِ نو کے ساتھ قیادت اور کارکنوں کو رجوع الی اللہ اور اتباعِ رسولؐ سے سہارا لینا ہوگا۔ اسلام نام ہی اُمید اور کامیابی پر یقین کا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تمام تصورات کی بندگی سے نکال کر صرف اور صرف رب کریم کی بندگی میں لے آنے کا نام ہے۔

سفر کی طوالت ، دوسروں کو بظاہر منزل سے قریب دیکھنا ہر حساس انسان میں یہ سوچ پیدا کرسکتا ہے کہ جو شریکِ سفر نہیں وہ تو منزل پر پہنچتے نظر آرہے ہیں، اور جو آبلہ پا ہونے کے باوجود سنگلاخ وادیوں کے تپتے ہوئے فرش پر چل رہے ہوں، وہ ابھی تک منزل کی طرف رواں دواں ہی ہوں؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا نہ اُبھرنا غیرفطری ہوگا۔ اس لیے اس قسم کے سوالات سے پریشان ہونے کے بجاے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی کہ کیا اس کام کے لیے جو مادی اور انسانی وسائل اور تربیت یافتہ افراد کی جماعت مطلوب ہے، اسے ہم پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں؟ کیا سمت کا تعین درست ہے؟ کیا جن قریبی اہداف کو منزل سمجھ لیا ہے وہی منزل ہیں، یا منزل اور مقصد رب کریم کی رضا ہے اور اقتدار و حکومت محض اس کا ایک ذریعہ ہے۔

ایک اور اہم پیغام جو اس آیت مبارکہ میں تحریکی کارکنوں اور قیادت کے لیے قابلِ غور ہے اس کا تعلق آزمایش سے ہے۔ یوں تو مسلمان کی تمام زندگی ہی ایک آزمایش و امتحان ہے، دن اور رات کا کون سا لمحہ ہوگا جب مومن کی آزمایش نہ کی جارہی ہو، لیکن تحریکی زندگی میں یہ آزمایش مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ کبھی یہ کثرت کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی قلت کی شکل میں۔ بعض اوقات ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تعداد کے لحاظ سے اپنا مطلوبہ ہدف بڑی حد تک حاصل کرلیا ہے اور حلقۂ اثر کو وسیع کرلیا ہے، جب کہ اگر وسیع تر منظرنامے میں دیکھاجائے تو شاید آبادی کے صرف چند فی صد تک ہی ہماری بات پہنچی ہوتی ہے۔ کبھی ہم یہ دیکھ کرکہ ۱۸کروڑ افراد میں سے صرف ایک یا دو فی صد تک بات پہنچی ہے، تو ہم اپنی قوت کو غیرمؤثر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ قرآن کریم جو اصول ہماری ہدایت کے لیے بیان کرتا ہے وہ اس منفی فکر کی تردید کرتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا  فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (انفال ۸: ۶۵-۶۶)

اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب رہیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے، اچھا اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کردیا۔ اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سے ۱۰۰آدمی صابر ہوں تو ۲۰۰ پر اور ہزار دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔

 تعداد کی قلت و کثرت سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز صبرواستقامت ہے۔ قلت تعداد سے بے پروا ہوکر جب ایک جماعت شہادتِ حق کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے تو پھر حزن و پریشانی اس کے آس پاس بھی نہیں پھٹک سکتے۔ وہ وسائل کی کمی کے باوجود اپنے سے بہت بڑے طاغوت پر  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت سے غالب آکر رہتی ہے۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ تحریکی کارکن چاہے ہلکے ہوں یا بھاری ، وہ نتائج سے بے پروا ہوکر وسائل کا انتظار کیے بغیر جو کچھ ان کے پاس ہو اسی کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوں:

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  (التوبہ ۹:۴۱) نکلو ،خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

جب جماعت اہلِ ایمان یہ طرزِعمل اختیار کرے گی تو پھر فرشتوں کے پّرے کے پّرے ان کی استعانت کے لیے آشامل ہوں گے:

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً (البقرہ ۲:۲۴۹) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔

اپنی قوت کو کم تر سمجھنا یا اس پر ناز کرنا، دونوں رویے ایمان کے منافی ہیں۔ یہ طرزِفکر بھی آزمایش کی ایک شکل ہے۔

وہ آزمایشیں جن سے تحریکاتِ اسلامی ہر دور میں گزری ہیں یکساں طور پر اہمیت رکھتی ہیں جن میں قیدوبند اور شہادت شامل ہیں لیکن ان کے علی الرغم آزمایش کی اور بہت سی شکلیں ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بڑی اور چھوٹی آزمایش میں  تحریکی قیادت اور کارکن کا وظیفہ حسبی اللّٰہ، علیہ توکلت، ونعم الوکیل ہو کیونکہ نعم المولیٰ اور نعم الوکیل سے بڑھ کر اور کوئی سہارا اور وسیلہ نہیں ہوسکتا۔ تحریکات کی عمر میں ۴۰سال تو صحیح طور پر بلوغت تک پہنچنے ہی میں لگ جاتے ہیں۔ اگر کوئی تحریک اس سے قبل بالغ ہوجائے تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے۔

ایمان کے تقاضوں میں استقامت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ظلم، طغیان، شرک، کفر اور ضلالت کو دُور کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو دعوتِ حق دیتے ہوئے اُن عملی مسائل کے حل کے لیے کہاں تک کوشاں رہے ہیں جن کے بوجھ نے ان کی کمر دہری کردی ہے۔ کیا غربت کے خاتمے کے لیے جو انسان کو شرک پر مجبور کردیتی ہے، کیا پانی کی فراہمی، بجلی کے بحران سے نجات، کیا روزگار کی فراہمی اور عوام کی صحت سے متعلق مسائل میں ہم نے اتنی ہی   پیش رفت کی ہے جتنی تنظیمی اجتماعات کی شکل میں کی گئی ہے؟ایمان کا ایک تقاضا اللہ کے بندوں کی خدمت صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہے۔

انسانی مسائل میں فکری اور اعتقادی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل، وسائل کی غیرعادلانہ تقسیم، صحت، غربت اور تعلیم کے حوالے سے اللہ کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاد کیے بغیر ہم مکمل دین پر عمل نہیں کرسکتے۔اللہ کے حقو ق کے ساتھ اللہ کے بندوں کے حقوق کو یکساں اہمیت دینا تحریکِ اسلامی کی ایک ایمانی ضرورت ہے۔

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان ہرسال لاکھوں کی تعداد میں دُوردراز سے سفر کرنے کے بعد ملّت کے قلب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رُخ کرتے ہیں اور حج اور عمرہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا کوئی عالمی میلہ نہیں ہے کہ اولمپک کی طرح سے لوگ تفریح اور سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات میں جاکر قیام کریں، بلکہ یہ ایک جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عبادت ہے جس کے صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد ایک نیا مسلمان اور  نیا انسان وجود میں آتا ہے۔ اس شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کے قلب و دماغ کے ہرہرگوشے میں پائی جانے والی کمزوریوں کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور جس طرح ایک معصوم بچہ شکمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے، ایسے ہی ایک زائر، حج کرنے کے بعد برف کے گالے کی طرح پاک و صاف ہوکر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اس عمل کو جسم میں خون کی گردش اور قلب سے گزرنے کے بعد خون کی اصلاح و پاکیزگی سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح تمام جسم سے خون کھینچ کر قلب کی طرف جاتا ہے اور قلب سے گزرنے کے بعد تزکیے کے بعدجسم کو توانائی دینے کے لیے پھر گردش میں آجاتا ہے، اسی طرح تمام اہلِ ایمان اپنی کمزوریوں، بھول و نسیان اور خطائوں کے ساتھ حرم شریف کی طرف جاتے ہیں اور میدانِ عرفات میں اپنی غلطیوں کے اعتراف ، عزمِ اصلاح اور عہدِنو کے ساتھ  گھروں کو واپس ہوتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ ہرسال ایک عملی تطہیر و تزکیے کے ذریعے تازہ قوت، بلند حوصلوں اور قابلِ عمل اصلاحی حکمت عملی سے لیس ہوسکے۔

اگر غور کیا جائے تو حج اور عمرہ اور اسلام کے تصورِ ہجرت میں ایک انتہائی قریبی معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ کی آزمایشوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کے مقام کی بلندی اور ان کے خلوص کا اعتراف قرآن و سنت نے تحسینی کلمات کے ساتھ کیا اور انھیں کامیاب اور بامراد قرار دیا۔ حضرت عمرؓ کی مشہور روایت میں نیت کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جو مثال سمجھانے کے لیے استعمال فرمائی گئی، وہ ہجرت ہی کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج اور عمرہ کا وجوب بھی قرآن کریم کی آیت مبارکہ  وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوش نودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گِھرجائو تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو‘‘، اور وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج  ۲۲:۲۷) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں‘‘، سے بطور ایک عبادت و فریضہ ثابت ہے۔ مشہور حدیث میں اسلام کے ارکان میں حج ایک رکن کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ ہرسال لاکھوں افراد اپنا مال، وقت، اور محنت صرف کر کے اس فریضے کو انجام دیں۔

  •  ھجرت اور تزکیہ: ہماری نگاہ میں قرنِ اوّل میں اہلِ ایمان نے ہجرت کی۔ فتح مکہ کے بعد جب ہجرت عملاً ختم ہوگئی تو تزکیے کے اس اہم عمل کو باقی رکھنے کے لیے حج کی شکل میں اس کا بندوبست کردیا گیا کہ قیامت تک ایک مسلمان مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بزرگ، وہ حج اور عمرے کے ذریعے سے ہجرت کے عمل سے گزر سکے۔

پہلی ہجرت ایک مومن اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ نیت کرے کہ اسے حج کرنا ہے۔ اس کا نیت کرنا اپنے رُخ اور قبلے کو درست کرنے کے بعد یہ ارادہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک عبداً شکوراً بنانے کے لیے تیار رہے۔ ہجرت کی جانب اس کا دوسرا قدم اس وقت اُٹھتا ہے جب وہ اُس مال کی طرف دیکھتا ہے جو اُس نے بڑی محنت اور مشقت کے بعد کمایاتھا اور طے کرتا ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں صرف اُس کی خوش نودی کے لیے، اس کے گھر کی زیارت کے لیے استعمال کرے۔ یہ خواہش اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس مال کو     وہ اِس غرض کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے، کیا اسے جائز اور حلال طریقے سے حاصل کیا تھا یا غیراخلاقی ذرائع سے۔ما ل کا یہ تزکیہ اس کے ایمان اور صرف حلال کمائی کے ذریعے ایک اچھے کام کو کرنے کی تربیت کرتا ہے۔

اس عمل کے دوران تیسری ہجرت کا آغاز اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے   اہلِ خانہ، دوستوں، کاروباری شراکت داروں، غرض ہرفرد کی وابستگی سے نکل کر صرف اللہ کے لیے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر صرف اللہ کی طرف لپکتا ہے اور زبان اور دل سے کہنا شروع کرتا ہے کہ میں حاضر ہوں، مالک میں حاضر ہوں۔ صرف آپ کی ایک آواز کے جواب میں، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر، آپ کے گھر کی طرف رُخ کر رہا ہوں اور یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ آپ اور صرف آپ، سب سے اعلیٰ، بلند، عزیز، حمد کے مستحق اور نعمتوں کے دینے والے ہیں۔

حج و عمرہ کے لیے نکلتے وقت وہ چوتھی ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اپنے قومی لباس، اور زبان کو ترک کر کے صرف دو سفید چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر سفر پر روانہ ہوتا ہے، اور عملاً اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسانی ضروریات کو خود اپنے ہاتھ اور ارادے سے کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ اس کی اصل پہچان نہ اس کا قومی لباس ہے نہ قومی زبان، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندہ بن جانا اسے دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

پانچویں ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے اور وہ جذبات سے بے تاب ہوکر طلب ِعفو و درگزر اور شعوری اور غیرشعوری گناہوں کے احساس کے ساتھ ایک سوالی بن کر اس عظمت والے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں جو طوفانی ریلے کی طرح اللہ کے گھر میں موجزن نظر آتا ہے، وہ عاجزی اور خاکساری اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی خاصیت پیدا کرتا ہے۔

چھٹی ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب وہ مراسمِ حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عزمِ نو کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف     اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی میں دے چکا ہے۔ اس لیے بات وہ کرے گا جو حق ہو۔ کام وہ کرے گا جو حلال ہو، نگاہ وہ ڈالے گا جو پاکیزہ ہو، اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک میں صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا، اور ان تمام رسومات سے اپنے آپ کوکاٹ لے گا جو اس کی برادری اور دوستوں نے ایجاد کررکھی ہیں۔

حج اور عمرہ کے ذریعے ہونے والی ہجرت اسے اُس مقام سے قریب تر لے آتی ہے جو اسلام کے دورِ اوّل میں اللہ کے نیک بندوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے لیے قربان کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ ہجرت فتح مکہ کے بعد اور قیامت تک اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر اُن افراد میں شامل ہوجائے جن کا جینا اور مرنا، جن کی قربانی اور عبادت،  جن کی فکروعمل صرف اور صرف احکم الحاکمین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہر بندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ہجرت زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلینے اور حسب ِاستطاعت ایک سے زائد عمرے کے ذریعے زندگی میں کئی بار بھی کی جاسکتی ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت میں دینا مقصود ہو۔

صحت مند تنقید دین کے فرائض میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ الدین نصیحۃ،      یہ حدیث مبارکہ اپنی جامعیت کی بنا پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں اور حکمرانوں اور دیگر معاصرین کے طرزِفکر اور طرزِعمل کا جائزہ لینے اور جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہو متوجہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ عالمی ترجمان القرآن کے ایک فاضل قاری نے الدین نصیحۃ کی پیروی کرتے ہوئے میرے مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ئ) پر چند سوالات اُٹھائے اور اس موضوع پر مزید چند سطور تحریر کرنے کی تحریک دی۔

محترم قاری کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ بہت ہی اچھا لگا، مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں: قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبَلَاہُ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ   الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟‘‘

عصرجدید میں ’جنسی تعلیم‘ کی اصطلاح جس تناظر میں استعمال کی جاتی ہے، اس کا مقصد عالم گیریت کے زیرعنوان مغربی اخلاقی اقدار کو تعلیمی نصاب اور کمرئہ درس میں وضاحت کے ذریعے نئی نسل کو جنسی اباحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مشرقی تہذیب دونوں میں جنسی موضوعات پر جو رویہ صدیوں سے اختیار کیا گیا ہے وہ اسلامی اقدارِ حیات اور قرآنی اخلاق کی ضد نظر آتا ہے۔ ہندوازم جو خالصتاً ایک مشرقی خطے کا مذہب ہے اپنے فن تعمیر کے ذریعے جنسی تعلقات کو سرعام مذہبی عقیدت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مغربی تہذیب میں لذت پرستی (hedonism) میں جنسی لذت کا اپنا مقام ہے اور جدیدیت (Modernism ) اور مابعد جدیدیت (Post-Modernism) اور ریخ تیگیت (Destructivism) جیسے فلسفوں نے آج کے مغرب کو جو راستہ دکھایا ہے وہ زندگی کو ایک جنسی لذتیت کے زاویے سے دیکھتا اور    جنسی لذت کے ذرائع کو وہ مقام دے دیتا ہے جو زندگی کے عام معمولات، مثلاً صبح کا ناشتہ، رات کا کھانا، بازار سے پھل خرید کر لانے سے یا چائے کی ایک پیالی پینے سے زیادہ مختلف نہیں سمجھتا۔ اسی بنا پر جنسی تعلیم کے ذریعے عالمی پالیسی پر زور دیا جاتا ہے کہ اگر اسکول کے بچوں کو یہ سکھا دیا جائے کہ وہ کس طرح محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں، تو دنیا ایڈز جیسے مہلک مرض سے محفوظ ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ جنسی تعلیم کا محرک بڑی حد تک مغرب و مشرق کے ممالک کا یہ تصور ہے کہ وہ ہندستان ہو یا امریکا، جہاں کثرت سے ایڈز کے مثبت کیس پائے جاتے ہیں، اگر انھیں کم کرنا ہے تو آنے والی نسلوں کو ان ذرائع کی تعلیم دی جائے جن کے بعد اسکول کے بچے آپس میں محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکیں۔ گویا جنسی تعلق قائم کرنا صبح کے ناشتے کی طرح کی ایک معصوم سرگرمی ہے، اور جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ناشتے میں کوئی جراثیم آلودہ غذا نہ ہو، اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے وقت کیا احتیاط کی جائے کہ اس عمل میں ملوث افراد کسی جسمانی بیماری کا شکار نہ ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس تعلیم کو دیتے وقت استاد یا معلمہ کمرۂ درس میں نہ صرف تصاویر کے ذریعے بلکہ زبانی وضاحت سے بھی اُن معاملات کو بیان کرے گی جو آج تک کمرئہ استراحت تک رہے ہیں، اور اس کے باوجود ہزارہا سال سے انسانی آبادی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔

  • جنسی مضامین کا ضابطۂ اخلاق میں لانا:قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس نازک تعلق کے بارے میں جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ حصولِ لذت کو اخلاقی ضابطے کے تناظر میں بطور اللہ تعالیٰ کی ایک آیت کی تعلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورئہ روم اور سورئہ نساء میں قرآن کریم شوہر اور بیوی کے تعلق کو جس اخلاقی اسلوب میں بیان کرتا ہے، وہ انسانی فکر کی پرواز سے بلند اور انسانی فکر کی رہنمائی کے لیے ہدایت و رہنمائی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کا اخلاقی اسلوب زندگی کے ہرعمل کے لیے اخلاقی ضابطے اور اصول فراہم کرتا ہے۔ اخلاقی اصول علومِ اسلامی کے تناظر میں اصول کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تطبیقی میدان میں احکام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی اخلاقی ضابطہ ہے کہ مثالی اسلامی معاشرے میں رشتۂ ازدواج اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم اس اخلاقی اصول کو کائنات اور مخلوقات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح  نظامِ کائنات کو اخلاقی ضابطے پر چلانے کے لیے جوڑے پیدا کیے گئے۔ اسی تسلسل میں انسان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی نفس سے اس کا زوج (جوڑا) بنایا۔

گویا عالمِ انسانی ہو یا عالمِ حیوانی ، دونوں میں زواج کا قائم کیا جانا ایک فطری، اخلاقی اور شرعی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت چونکہ انسانوں سے وابستہ ہے، اس لیے اس میں زمان و مکان کا تعین بھی کیا جانا ضروری ہے۔ سنت مطہرہ اس پہلو کی وضاحت و تشریح کرتی ہے کیونکہ سنت کو دو امتیاز حاصل ہیں۔ اوّلاً یہ کہ سنت تشریعی ہے، اور ثانیاً یہ کہ سنت تشریحی ہے۔ چنانچہ یوم الحساب جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں یہ بات شامل ہے کہ جوانی کس طرح گزاری؟ کیا عفت و عصمت کو برقرار رکھا؟ کیا جوانی کی تعمیری قوت کو معروف کی اشاعت کے لیے استعمال کیا؟ کیا جوانی میں مادی وسائل اور وقت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استعمال کیا، یا بے راہ روی اور عبث میں گزاری؟

جوانی، بلوغ اور عقل، ان سب کا قریبی تعلق ایک مومن کے جنسی معاملات کے ساتھ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عقلی رویے کا مطالبہ ہے کہ ایک شخص جو ان ہو تو یا روزے رکھے یا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔ یہ بلوغ کا تقاضا ہے کہ اس سن کو پہنچے تو اس فکر میں نہ رہے کہ جب تک کثیرمالی وسائل کا مالک نہ ہو، نکاح سے دُور رہے۔ قرآن نے اس معاشی پہلو کا دوٹوک جواب دیا ہے کہ: وَانْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۳۲) ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ مالی وسائل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کے لیے، اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے اگر یہ کام کیا جائے گا تو وہ اپنی رحمت سے مالی ضروریات پورا کرنے کا راستہ نکال دے گا۔گویا اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں اس لیے منسلک نہ کرنا کہ ابھی تنخواہ کم ہے، کاروبار سے منافع کم آرہا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے، یہ اور اس قسم کے وہ تمام تصورات جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اسلام ان کو رد کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی آیت ان رواجی تصورات کی تردید کرتی ہے۔

جنس کے حوالے سے قرآن و سنت کے اخلاقی اسلوب کے الہامی اور اعلیٰ ترین ہونے کا احساس اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک محقق کلامِ الٰہی اور دیگر مذاہب کے اساطیر کا ایک تقابلی مطالعہ کرے۔ اساطیر نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت کی کتب مقدس میں جہاں ان مسائل کا ذکر ہے صرف انھیں ایک نظر دیکھ لیں تو زمین و آسمان کا فرق کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

اس بنا پر ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام جنسی مسائل پر ایک اعلیٰ الہامی اخلاقی اسلوب اختیار کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس اسلوب کی بنیاد پر تدریس و تعلیم میں مواد اور طریق تدریس ایجاد کیے جائیں۔ فقہ ان میں سے ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس کی تعلیم بہت سے جنسی مسائل سے، بغیر کسی لذتیت کے، زمینی حقائق سے ایک غیربالغ اہلِ ایمان مرد اور عورت کو ان مسائل سے آگاہ کرتا ہے جن کو آج کل اسکولوں میں جنسی تعلیم کے زیرعنوان سکھانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جو فی الواقع طلبہ و طالبات کو بجاے اخلاقی طرزِعمل اختیار کرنے کے فحاشی و عریانی اور بے شرمی کی طرف لے جانے کا ذریعے ہوگی۔ مغرب و مشرق میں جہاں کہیں بھی عمر کے اس مرحلے میں جب ایک بچہ اور بچی تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو نتائج تباہ کن ہی رہے ہیں۔ امریکی نصابِ تعلیم میں جنسی تعلیم کی شمولیت کے بعد جس تیزی سے غیراخلاقی جنسی تعلق، قبل از وقت ناجائز ولادت اور حمل کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہرصاحب ِ علم کے سامنے ہیں۔

اس لیے جنسی تعلیم کی اہمیت کو مانتے ہوئے اصل مسئلہ اسلوب کا ہے۔ اصل مسئلہ اسے اخلاقی ذمہ داری سے منسلک کرنے کا ہے۔ اصل مسئلہ ایک پاکیزہ خاندان کے قیام کاہے، جب کہ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ مستعار اور استعمال شدہ فکر کو اختیار کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر وہ موضوع جو مغرب و مشرق کے دانش ور اُٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کو ’ترقی پسندی‘، ’روشن خیالی‘ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ایک قومی فریضہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اور غیرحکومتی مدارس میں اسلامیات کے نصاب کو، نظرثانی کے بعد بطور لازمی اور قابلِ امتحان مضمون کے جس کا اثر نتائج میں ظاہر ہو، اسلام کے جامع تصور کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس جامع نصاب میں جنسی اخلاقیات بھی بطور ایک باب کے ہو اور وہ بغیر کسی مانع حمل ذرائع کی تعلیم کے جنسی ذمہ دارانہ رویے پر روشنی ڈالے۔

یہ خبر کہ ایک الیٹ اسکول ہم جنس پرستی کے موضوع پر ۱۶جولائی کو ’میونخ ڈیبٹس‘پروگرام کے تحت مباحثہ منعقد کرنے جارہا ہے (جنگ، ۱۰جولائی ۲۰۱۲ئ)، اس خبر پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کے زیرعنوان آخر وہ کون سی منزل ہے جس کی طرف قوم کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا ہر وہ اخلاق باختہ کام جو مغرب نے ’ترقی‘، ’روشن خیالی‘، اور ’جدیدیت‘ کے عنوان سے کیا ہے، کرنا ہمارے لیے فرض سمجھ لیا گیا ہے؟

ہم شکرگزار ہیں کہ محترم قاری نے سوالات اُٹھا کر اس موضوع پر چند مزید نکات تحریر کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ جہاں تک سوال ’شانِ اجتہادی‘ کا ہے، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی جو جو بات خوش کرتی ہے اس کو اختیار نہ کرنا ہمارے خیال میں کوئی مناسب رویہ   نہیں ہے۔ حدیث معاذ بن جبل میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہی اُمت مسلمہ کے لیے ذریعۂ نجات ہے۔ اس کوشش میں خلوصِ نیت کے ساتھ جو کام بھی کیا جائے گا اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں سے مطابقت رکھے تو اس کے لیے دو اجر کا وعدہ ہے، اور اگر پورے خلوص اور کوشش کے باوجود انسانی فکر سہو کا شکار ہو، جب بھی الرحم الراحمین کی طرف سے ایک اجر کا وعدہ ہے۔    اگر دین اسی کا نام ہے تو پھر طنزاً ’شانِ اجتہادی‘ تلاش کرنا یا نہ کرنا غیرمتعلق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کے فتنوں، گمراہی، غلو اور اباحیت سے محفوظ رکھے، قرآن و سنت پر غور کرنے اور نئے مسائل و معاملات کے حل تلاش کرنے کی توفیق دے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مشرق وسطیٰ میں جو نمایاں اور اہم انقلابی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں وہ ایک جانب مغرب و مشرق کے اہلِ فکر کے لیے غور کرنے کا مواد فراہم کرتی ہیں، تو دوسری جانب مسلمان اہلِ فکر کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔

مصر میں ۸۰ سالہ دورِاستبداد کا آغاز ۱۹۵۲ء میں فوجی آمریت سے ہوا۔ یہ آمریت وقت کے دھارے کے لحاظ سے اپنی کینچلی بدلتی رہی، تاہم اس کے زہرِ استبداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس طویل دورِ استبداد کا خاتمہ مصر کی جدید تاریخ میں پہلے عوامی صدر ڈاکٹر محمد مُرسی کے منتخب ہونے پر ہوا۔ لیکن اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ طاغوتی اور فرعونی قوتیں اپنی شکست آسانی سے قبول نہیں کرتیں اور ایک زخم خوردہ سانپ کی طرح سے دائیں اور بائیں جس طرف سے ممکن ہو ڈسنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مصر میں موجود نظام (status quo) کی حامی جماعت، یعنی فوج اور عدلیہ نے اس انقلابی عوامی تبدیلی کو بے اثر اور ناکام بنانے میں اپنی مشترکہ قوت اور چال بازیوں کے ذریعے جو اقدامات کیے وہ قرآن کریم کی زبان میں کیدالشیطان کی بہترین مثال ہیں۔

یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ مغرب اور خصوصاً امریکا اور اسرائیل کی دلی خواہش اور حمایت کے باوجود حسنی مبارک کے سابق وزیراعظم کا، جو فضائیہ کا ریٹائرڈ جنرل تھا، ناکام ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں کہا جاسکتا۔ آخر وقت تک فوجی کونسل نے پوری کوشش کی کہ اور کچھ نہیں تو  کم از کم انتخابی نتائج میں تاخیر کرکے عوام کو نفسیاتی طور پر جانچا جائے کہ وہ ان کی مزعومہ دھاندلی کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں۔ جب تمام ذرائع سے انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دھاندلی نہیں چل سکے گی تو مجبوراً یہ اعلان کیا گیا کہ ایک معمولی تناسب کے فرق کی بناپر اخوان المسلمون کے نامزد صدر محمد مُرسی کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس انتخاب کو بے اثر بنانے اور فیصلہ کن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے فوج اور عدلیہ کے دماغوں نے جو کسی تبدیلی کے لیے آج بھی تیار نہیں ہیں، اور فروری ۲۰۱۱ء میں مصر میں نوجوانوں کی تحریک کے علی الرغم، جس میں جانی قربانیاں بھی دی گئیں اور پورے ملک نے حصہ لے کر فوج اور بدعنوان عدلیہ کی حاکمیت کو رد کر دیا تھا،  موجود نظام کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ ان تمام تحریکات کے لیے قابلِ غور ہیں جو بدعنوانی، اقرباپروری، ظلم و استحصال کے نظام کی جگہ عدلِ اسلامی اور معاشرتی فلاح پر مبنی نظام لانا چاہتی ہیں۔ یہ انقلابی جماعتیں چاہے مصر میں ہوں، لیبیا میں ہوں یا پاکستان میں، انھیں اسی نوعیت کے حربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خیال کہ اسلامی انقلاب محض مطالبوں، مظاہروں، نعروں اور جلسوں سے آجائے گا اور طاغوت بھلے مانس انداز میں اقتدار کی کنجی سرجھکا کر اسلامی تحریکات کے منتخب شدہ نمایندوں کے حوالے کردے گا، ایک واہمہ اور سادہ لوحی سے کم نہیں کہا جاسکتا۔

آمرانہ ذھنیت

فوج نے عوامی صدر کے انتخاب کے حتمی اعلان سے قبل موجود نظام کے تحفظ اور اپنی مدافعت کے لیے جو اقدامات کیے ان میں اولاً: بدعنوان عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی  منتخب کردہ پارلیمنٹ کو اس بنا پر تحلیل کرنا کہ اس کی ۳/۱ نشستوں کے انتخاب میں ان کے خیال میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کو ملک کے ۸۰سالہ دورِآمریت و استبداد میں پہلی مرتبہ ۴۴ فی صد سے اکثریت حاصل ہوئی تھی۔

ثانیاً: دستور کی معطلی کا اعلان اور نئے دستور کی تشکیل کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کی جگہ فوجی کونسل کو منتقل کرنے کا حکم نامہ۔

 ثالثاً: ملک کے داخلی، خارجی اور مالی معاملات میں فیصلے کا اختیار فوج کو دیا جانا، یعنی بجٹ اور ملک کی اندرونی و بیرونی پالیسی فوج طے کرے گی۔

رابعاً: پارلیمنٹ کے آیندہ انتخابات کا فوج کی مرضی کے مطابق کیا جانا، اور عدلیہ میں تقرر کا حق بھی فوج کے ہاتھ میں رہنا۔

خامساً: ملک میں عملاً مارشل لا لگانا کہ فوج جسے چاہے امن عامہ کے خطرے کی بنا پر گرفتار کرسکے۔

یہ تمام مدافعانہ اقدامات جس ذہن کا پتا دیتے ہیں وہ مصر میں نہیں، ہر اُس ملک میں پایا جاتا ہے جہاں بدعنوان، لالچی، بے ضمیر، ظالم، خودغرض، اقرباپرور فرماں روا عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط ہیں۔ یہ اقدامات ایک شکست خوردہ ذہن کی دلیل ہیں جو اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اردگرد کے ہرتنکے اور شاخ کے سہارے اپنے انجام سے بچنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن کو بھول جاتا ہے۔

مصر میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی کو نہ صرف مصری فوج اور عدلیہ نے بلکہ مغرب خصوصاً امریکا نے بھی ایک انتہائی تلخ گھونٹ کے طور پر گوارا کیا ہے۔ دونوں کی مسلسل کوشش ہے کہ اب بھی کسی طرح مصر کے منتخب صدر کو یا تو مکمل طور پر بے اثر کردیا جائے اور تمام اختیارات فوجی کونسل اور عدلیہ کے ہاتھوں میں رہیں، یا مُرسی کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اخوان المسلمون سے وابستہ اُمیدیں ٹھنڈی پڑجائیں اور اخوان کی تصویر مصری عوام میں داغ دار بن جائے۔ چنانچہ بار بار یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان المسلمون ایک انتہائی قدامت پرست جماعت ہے اور عیسائی اقلیت اور خواتین کے لیے سخت خطرہ ہے۔

اس بات کو بار بار دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مُرسی سرکاری طور پر یہ اعلان کریں کہ وہ عیسائی اقلیت اور خواتین کو کابینہ اور دیگر مناصب میں ان کے عمومی تناسب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔ مُرسی کے حالیہ بیان سے کہ ان کے ایک نائب صدر عیسائی اور ایک خاتون ہوں گی، اس حکمت عملی کے اثرات کی جھلک نظر آتی ہے۔

مغربی قوتوں کا دل کی ناگواری اور مجبوراً مُرسی کو صدر مان لینے کا یہ مطلب لینا بھول ہوگا کہ وہ واقعی ان کے اقتدار کی حمایت اور تائید کریں گے۔ مغربی سیاست کاروں کا متفقہ عقیدہ    آج تک یہی ہے کہ ایک سیکولربدعنوان اقرباپرست اور اخلاقی طور پر کنگال جماعت یا فرد کو،    ایک اسلام پسند لیکن حق گو، مخلص اور ایمان دار شخص یا جماعت کے مقابلے میں فوقیت دینا ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی شکل میں دل کی آمادگی کے ساتھ ایک اسلام پسند کو برسرِاقتدار دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ یہ بات بھی بار بار دہرائی جارہی ہے کہ اسلام پسند جماعت کا برسرِاقتدار آنا، اسرائیل کی سالمیت کے لیے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں امریکا اور اسرائیل دونوں کے ہاں اس وقت گھڑیال کی شکل اختیار کرجائیں گے جب صدر بھی اسلام پسند ہو اور پارلیمنٹ میں بھی اخوان کی اکثریت ہو۔ اس بات کو سیاسی زبان میں بار بار دہرانے کامقصود یہی ہے کہ صدر مُرسی اسرائیل کو یقین دلائیں کہ اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، ساتھ ہی امریکا کو بھی یقین دہانی کرائیں کہ وہ اس کے دشمن نہیں ہیں۔ مغربی صحافت اس بات کو بھی اُچھال رہی ہے کہ مُرسی نے امریکا کی مشہور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا (USC) سے تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے بچے وہاں پیدا ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر بچوں کی شہریت امریکی ہے، تاکہ اخوان اور دینی حلقوں میں ان کی وفاداری اور امریکا کی جانب رویے کو مشتبہ بناکر اندرونی کھنچائو پیدا کیا جاسکے۔ خصوصاً نوجوان اخوان کو، جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا میں ہر اُس فرد کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا کوئی تعلق امریکا سے ہو ،     یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مُرسی پر بھروسا نہ کرو۔ یہ منفی سیاست طاغوتی قوتوں کا خاصا ہے، اس لیے اس پر کسی حیرت کی ضرورت نہیں۔

خطرات

مغربی صحافت اور سیاست کار جن خطرات کو مبالغہ آمیز انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں (گو، ان کا تذکرہ ایک تکرار ہی ہوگا)، اختصار سے تین شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں:

اوّلاً: قانون کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان برسرِاقتدار آکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں پر شرعی سزائیں نافذ کریں گے۔ یہ وہ ہوّا ہے جو ہرمسلم ملک میں برسرِاقتدار طبقہ قیامت تک استعمال کرتا رہے گا اور اس بنیاد پر سیکولر افراد کے تحفظ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً ۲۰فی صد عیسائی اقلیت ہو، اسلام کا نفاذ ظلم ہوگا۔ ان اعتراضات کو اُٹھاتے وقت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی کی بنا پر قرآن و سنت کو بالواسطہ طور پر عملی زندگی سے  خارج کرنے کی طرف واضح اشارے بھی کیے جاتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔

دوسرا اہم خطرہ مطلق العنانی دور کا غالب آجانا ہے۔ مغربی اور سیکولر طبقہ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر ہمیشہ اسلام کو مذہب اور مذہب کو مذہبی آمریت اور مطلق العنانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ خود پاکستان کے نام نہاد دانش ور یہ بات ہرمحاذ پر دہراتے ہیں، حتیٰ کہ عوام کو اس جھوٹ پر یقین آجائے۔ یہ لوگ اپنی ڈفلی بجاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ  حسنی مبارک، قذافی، اسد، صدام اور الجزائر، تیونس اور مراکش کے آمروں نے جس مطلق العنانی کا   عملی مظاہرہ ایک آدھ سال نہیں ۳۰،۳۰ سال کیا، اس کی بنیاد مذہب تھا یا سیکولرزم؟

یہ ایک اہم اندرونی خطرہ ہے جس کا مُرسی اور ان کے رفقا کو صبروحکمت کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انھیں تبدیلیِ اقتدار کے بعد اپنے طرزِعمل کو قابو میں رکھنا اور اقتدار کی بنا پر اقرباپروری اور مراعات کا غلط استعمال نہ کرنا، عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بھلے انداز سے قائم رکھنا، اور نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اُترنا جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن تحریک کی تربیت کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔ اس لیے پوری اُمید کی جاسکتی ہے کہ اخوان سے وابستہ افراد اس زیادہ نازک امتحان میں پورے اُتریں گے، ان شاء اللہ۔

امریکی مفادات

صدر مُرسی اور امریکی انتظامیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور امریکا کس حد تک مصر کے عوامی صدر کی حمایت کرے گا؟ یہ امکانات سے بھرا ہوا ایک سوال ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی نوعیت چینی بازی گر کے رسی پر ہاتھ چھوڑ کر چلنے سے کم مشکل نہیں ہوگی۔

مصر میں امریکا کے ایک سابق سفیر ایڈورڈ ایس واکر کا تبصرہ :

ہمارے لیے اخوان المسلمون کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ ہم گذشتہ ۳۰ برس سے انھیں نظرانداز کرکے تنہا کرتے رہے ہیں۔

اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ بادل ناخواستہ ہی مُرسی سے بات چیت کرے گی،  جب کہ پس پردہ مصری فوجی قیادت کے ساتھ سازباز میں برابر کی شریک رہے گی۔ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کے لیے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ جسے عموماً جمہوریت، حقوق انسانی، اور عالمی امن کادورہ پڑتا رہتا ہے اور جس نے عملاً ان تینوں معاملات میں ہمیشہ منفی کردار ادا کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے مقابلے میں فوجی اور شاہی آمروں کی حمایت کی ہے اور آج بھی کررہی ہے،  اس حکومت نے خود اپنے ملک میں اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی پر سواے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ وہی انتظامیہ صدر اوباما کے بقول یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

جب مصری عوام جمہوریت، عزت و وقار اور امکانات کے لیے آگے بڑھیں گے، اور اپنے انقلاب کے وعدوں کو پورا کریں گے تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ (ترجمان وائٹ ہائوس، اتوار، ۲۴ جون ۲۰۱۲ئ، بحوالہ نیویارک ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ئ)

امریکا نے گذشتہ ۳۰ سال سے زائد عرصے میں اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں مصر کی فوجی آمریت اور اسرائیل کے صہیونی ظالم حکمرانوں سے اپنے آپ کو مکمل وابستہ رکھا ہے۔ اب بدلے ہوئے سیاسی نقشے میں اخوان المسلمون کے صدر کے ساتھ جو اخوان کا سابق رکن بھی ہے تعلقات استوار کرنا دو طلاقوں کے بعد رجوع سے کم مرحلہ نظر نہیں آتا، لیکن اس تلخ گھونٹ کو مسکراتے ہوئے پئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں۔

اگر امریکا میں تھوڑی بہت عقل ہو تو اسے اس وقت مصری عوام کا مزاج اور جذباتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو فوج سے دُور اور عوامی نمایندوں سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکی سیاست کی ۵۰ سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ذہانت سے ایسے دانش مندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اخوان کی حکمت عملی

اخوان المسلمون کی حکمت عملی کے تین پہلو بہت نمایاں نظر آتے ہیں:

اوّلاً: عوامی دبائو کو برقرار رکھنا۔ چنانچہ تحریر چوک پر ہزارہا اخوان کی موجودگی اس مطالبے کے ساتھ کہ پارلیمنٹ بحال کی جائے، فوج اپنی قوت اور چالاکی سے لیے ہوئے دستوری اور حفاظتی اختیارات سے دستبردار ہو اور صدر کو اس کے اختیارات دیے جائیں___ دن رات اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

دوم: صدر مُرسی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر جن میں سیکولر جماعتیں شامل ہیں، یہ کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کی برتری اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں۔

سوم: صدر مُرسی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ بھی مذاکرات بند نہ ہوں، اور انھیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سیاسی اختیارات سے دستبردار ہوں۔  یہ سب سے زیادہ نازک، حساس اور مشکل معاملہ ہے اور فوج پر کسی مسئلے میں بھی بھروسا کرنا   جوے بازی سے کم نہیں۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں ضرورت کی بنا پر اِس اقدام کو کرنا ہوگا تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے۔

تحریر چوک پر دھرنا کافی نہ ہوگا۔ اخوان المسلمون کو ملک کے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ایک ملک گیر مہم جیسی فروری ۲۰۱۱ء میں چلائی گئی، چلانا ہوگی۔ یہ کام محض دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک فوج اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے کہ عوامی قوت اسے بہا لے جائے گی، اس وقت تک فوج اپنی موت کے حکم نامے پر دستخط نہیں کرے گی۔

مجوزہ حکمت عملی

ان حالات میں جس حکمت عملی پر اخوان کی سیاسی قیادت کو غور کرنے کی ضرورت ہے، اسے پانچ نکات میں اختصار سے پیش کیا جاسکتا ہے:

اوّل: ملک گیر پیمانے پر نوجوانوں کی ایک پُرامن مہم جس میں فوج کے منتخب شدہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ذریعے برخواست کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے، اور یہ تجویز کیا جائے کہ  اگر عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستوں پر یہ اعتراض تھا کہ ان میں کوئی بے ضابطگی کی گئی ہے تو ان ۳/۱ نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرائے جائیں، نیز جن نشستوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی انھیں برخواست کرنا عدل کے منافی ہے۔ یہ کام سیاسی مہم سے کرنے کا ہے اور عوام کو ساتھ لے کر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

دوم: اس بات کی ضرورت ہے کہ اخوان کی قیادت اپنے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے لیے جمہوریت کے تحفظ کی بنیاد پر ان سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے جو چاہے اسلام سے دل چسپی نہ رکھتی ہوں لیکن ملک میں جمہوریت کا نفاذ دیکھنا چاہتی ہیں۔

تیسرے، عوامی مہم کے ذریعے فوجی کونسل کے لامحدود اختیارات کو جن میں بجٹ،    خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کی منظوری شامل ہے، پارلیمنٹ کو منتقل کرنا تاکہ پارلیمنٹ عوام کی نمایندہ ادارے کی حیثیت سے ان معاملات پر فیصلہ کرسکے۔ دستوری عدالت (Consititutional Court) کے جج جنھیں حسنی مبارک نے اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ دستوری مباحث میں جو کچھ آمر چاہتے ہوں عدالت بھی اسی کی توثیق کردے، یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے عوامی مہم چلانا ہوگی۔ اگر عوامی مہم حسنی مبارک کو ہٹاسکتی ہے تو یہ کام بھی کیے جاسکتے ہیں۔

چوتھے، نئی حکومت کو ردعمل دینے کے بجاے اقدامی طور پر بعض فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا: سیکولر اور امریکی لابی بار بار وہ مسائل اُٹھائے گی جن پر صدرمُرسی کے مثبت یا منفی موقف اختیار کرنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ اگر صدرمُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہیں کہ وہ امریکا کے دشمن نہیں ہیں بلکہ دوستی چاہتے ہیں، تو وہ نوجوانوں کی حمایت کھوبیٹھیں گے، جو بظاہر ایک امریکی اور فوجی ہدف معلوم ہوتا ہے۔ فوج اور امریکا، دونوں یہ چاہیں گے کہ اخوان کی صفوں میں انتشار واقع ہو، اور کم از کم اخوان کے علاوہ جو مذہبی جماعتیں خصوصاً سلفی حضرات ہیں ان کے ساتھ اختلافات میں اضافہ ہوجائے تاکہ پارلیمنٹ بننے کی شکل میں اخوان کی قوت مؤثر نہ ہو۔ اگر صدر مُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ امریکا کے مخالف ہیں تو اسے بھی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، کہ فوج کی رگ جان ۱ئ۳ بلین ڈالر کی امریکی امداد اگر بند ہوجاتی ہے تو مصر کیا کرے گا؟ گویا بجاے ردعمل کے طور پر کوئی بات کہنے کے صدر کو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موقف اپنانا ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی نوجوان قوت کو مایوس کریں اور نہ امریکی اور فوجی عزائم کو کامیاب ہونے دیں۔

ترکی سے سبق

یہ کہنا فطری طور پر بہت آسان ہے کہ اخوان کو چاہیے کہ وہ مصر میں ترکی کا ماڈل اختیار کریں۔ اپنی تصویر کو جو اس وقت تک قدامت پرست، بنیاد پرست، جہادی، خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والی، اور اقلیتوں کو تہس نہس کردینے والی جماعت کی ہے، بدلنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی ایک متوازن، معتدل اسلامی جماعت کی شبیہ اُبھر کر سامنے آئے۔ لیکن ہماری اس تمام تر خواہش کے باوجود فوری طور پر یا مختصر عرصے میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ ذہنی تصویر کا درست کرنا ایک طویل نفسیاتی اور ابلاغی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے اور اخوان المسلمون ان شاء اللہ اسے کر بھی سکتے ہیں لیکن مقابلتاً ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے۔

طیب اردگان کو جس مقام پر وہ آج پہنچے ہیں، اس کے لیے ۳۰سال سے اُوپر واضح منصوبہ، ہدف اور افرادی قوت کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ تب جاکر وہ اپنا یہ تشخص بنا سکے اور وہ مقام حاصل کرسکے جس کی بنا پر آج مغرب ہو یا مشرق، ترکی کے ماڈل کی بات کرتا ہے۔

یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس پر علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ صدر مُرسی کو اپنے بیانات میں اردگان کی طرح توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ایک جانب وہ اپنی اصل قوت نوجوان اخوان کو جو نظریاتی طور پر کفر کے ساتھ تعاون کو کفر قرار دینے کے عادی ہیں، نہ تو مایوس کریں اور نہ انھیں کوئی الگ پریشر گروپ (pressure group) بننے دیں اور اسی قوت کو تحریکِ اسلامی کے لیے صحیح طور پر استعمال کرسکیں۔

ڈاکٹر مُرسی ایک غیرجذباتی شخصیت رکھتے ہیں لیکن انھیں موجودہ حالات میں عوامی قوت کو ساتھ رکھنے کے لیے چند ایسے اقدامات لازماً کرنا پڑیں گے جن کا تعلق ملک کی معیشت اور عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہے، جب کہ سلفی بھائیوں کی ترجیح اسلامی شریعت کے بعض پہلوئوں کے نفاذ کی ہوگی۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ مکی دور سے مدنی دور تک کے تدریجی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی بالادستی کو متاثر کیے بغیر پہلے شریعت کے اُن پہلوئوں کو نافذ کیا جائے جن کا تعلق اللہ کے بندوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ سے ہے، یعنی ان کے معاشی اور انسانی حقوق۔  اس کے بعد ان پہلوئوں کا نفاذ ہونا چاہیے جنھیں عام تصور میں شرعی نظام کہا جاتا ہے جس سے مغرب و مشرق اپنے خطرے اور خوف کا اظہار کرتا رہا ہے۔

ترکی کے تجربے میں ہمیں کیا مطالعاتی نکات ملتے ہیں، اور کیا مصر اور پاکستان کے مسائل کا حل ترکی کے تجربے کے دہرانے سے ہوسکتا ہے، ایک تفصیل طلب موضوع اور علیحدہ گفتگو کا مستحق ہے۔

دنیا کی تمام معلوم تہذیبوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذہب اور جنس کا تصور پایا جاتا ہے۔ مغربی مذہبی مفکرین عموماً اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مذاہب سے صدیوں قبل بھی انسان کسی نہ کسی ماورا ہستی کی طرف اپنے تحفظ اور اپنی ضرریات کے حصو ل کے لیے متوجہ ہوتا تھا۔ ان تمام تہذیبوں اور مذاہب نے جنس کے بارے میں عموماً دو طرزِ فکر اختیار کیے۔ بعض تہذیبوں نے جنس کو نظرانداز کرنے کو روحانیت سے تعبیر کیا، اور بعض نے جنس کو قابلِ پرستش خیال کیا۔ کلاسیکل ہندوازم میں جنس پرستی مذہب کا ایک جزولاینفک رہی۔ دوسری جانب اسی شدومد کے ساتھ ہندوازم میں ایسے واضح رجحانات بھی موجود رہے ہیں جن میں جنس کو دبا کر اور بالخصوص عائلی زندگی کو ترک کرکے جنگل، بیابان یا صحرا اور پہاڑوں میں جاکر تجرد اختیار کرنے کو روحانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔

یہ افراط و تفریط اور جنس کے بارے میں دو انتہائیںدیگر مذاہب میں ہی نہیں، مسلم معاشرے میں بھی نظرآتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنس کے موضوع پر بات کرنا، اور وہ بھی کھلی محفل میں، مہذب معاشروں میں عموماً معیوب اور غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنس کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے کسی بھی انسانی معاشرے کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ پھر انسان کیا کرے؟ اسلام افراط و تفریط کی جگہ توازن و اعتدال کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے، اور اُمت مسلمہ کو ’اُمت وسط‘ کہنے کے ساتھ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں عدل کو اختیار کرے۔ اسی بنا پر اسلام کا تصورِ جنس مشرق و مغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔

جدید دنیا یا دورِ جدید سے عموماً وہ دور مراد لیا جاتا ہے جو یورپ میں نشاتِ ثانیہ کے بعد مادہ پرستی ( Materialism)، افادہ پرستی (Utilitarianism)، انفرادیت پسندی (Individualism) اور لادینیت (Secularism) کی چار بنیادوں پر تعمیر ہوا۔ جدیدیت کے اس روایتی طرزِفکر نے اس تصور کی فلسفیانہ بنیادوں کو معرضِ بحث میں لاتے ہوئے ایک جدید تثلیث کو جنم دیا۔ یہ تثلیث اُس روایتی تصور سے بالکل مختلف تھی جس نے قرونِ وسطیٰ میں کلیسائی چرچ کو عروج دیا اور جس کی بنیاد عیسائی عقیدہ تھا۔ اس قدیم روایتی تثلیث میں خدا، روح القدس اور حضرت عیسٰی ؑ تین بنیادی عناصر تھے۔ نوجدیدیت نے جس تثلیث پر اپنی بنیاد رکھی اس میں اثباتیت (Positvism)، ارتقائیت (Evolutionism) اور جنسیت بنیادی ارکان قرار پائے۔ چنانچہ آگسٹ کومٹے August Comte(۱۷۹۸ئ-۱۸۵۷ئ) کی فکر نے مادے کی صداقت اور حسّی تجربے کی قطعیت کا پرچار کیا جس کی کوکھ سے کارل مارکس  (۱۸۱۸ئ-۱۸۸۷ئ) کی فکر نکلی۔ ایسے ہی چارلس ڈارون (۱۸۰۹ئ-۱۸۸۲ئ) نے حیاتیاتی ارتقا (Biological Evolution) کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف حیوانات و نباتات، بلکہ علومِ عمرانی میں بھی ارتقائی فکر کے متعارف ہونے کی راہ ہموار کردی۔ اسی دوران سگمنڈ فرائڈ (۱۸۵۶ئ-۱۹۴۰ئ) نے جنس، لاشعور اور تحت الشعور کی بنیاد پر انسانی رویوں اور طرزِعمل کی تعبیر کا تصور پیش کیا۔ نتیجتاً اس کی فکر میں شعوری عمل کی اہمیت کو کم اور تحت الشعور اور لاشعور کو زیادہ بنیادی مقام حاصل ہوگیا۔

جدیدیت (Modernity)، نوجدیدیت (Post Modernity) اور ماوراے نوجدیدیت (Beyond Post Modernism) کی تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بعض اجزا مشترک نظر آتے ہیں۔ ان اجزا میں اوّلین مقام مادیت اور حسّی تجربے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے علم کو حاصل ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپی فکر کے ان تینوں ارتقائی اَدوار کی بنیاد محدود اور قابلِ یقین تصورِ علم (epistimology)پر ہے جو حسّی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا اہم عنصر انفرادیت پسندی، اور اس سے ملحقہ تیسرا عنصر اخلاقی اضافیت (ethical relativism)ہے۔

یورپ میں جنس کے حوالے سے بیداری، آزادی اور انحراف کی فکری بنیاد حسّی تصورِ علم ہی ہے۔ اس بنا پر یورپ میں انسانی معاشرتی علوم کی بنیاد بعض ایسے مشاہدات پر رکھی گئی ہے جو بنیادی طور پر حیوانی مشاہدات کہے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کی بنیاد چوہوں کا بھول بھلیوں کے پیچ دار راستوں سے گزر کر پنیر کے ٹکڑے تک پہنچنا، انسانی نفسیات کے بہت سے مفروضوں کی بنیاد بنا۔ اس کے نتیجے میں انسان کا مخالف جنس کی طرف جبلّی طور پر ملتفت ہونا، یا انسان کا معاشی حیوان ہونا، یا انسان کا معاشرتی حیوان ہونا وہ اصطلاحات ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ مغرب میں علوم عمرانی انسان کو بنیادی طور پر حیوان تصور کرتے ہوئے اس کے رجحانات، ترجیحات، ضروریات، حاجات اور تحینات کا اندازہ قائم کرتے ہیں۔

دورِ جدید کی اس تثلیث میں انسانی تہذیب کو جن تین بنیادی ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق انسان کے وجود کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اسے بتایا گیا کہ انسان ایک ارتقا یافتہ حیوان ہے۔ اس لحاظ سے اس میں بے انتہا حیوانیت پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی اعمال بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک معاشی حیوان ہے اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور معاشی فلاح ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک جبلی انسان ہے۔ اس کے اندر بعض instincts (فطری جبلتیں) اور drives (کچھ کرنے کا جذبہ) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ جو کام بھی کرتا ہے ان کی وجہ سے کرتا ہے۔

انسان فطری طور پر اقتدار اور قوت اپنی جبلی قوت کی بنا پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جرمنی کے بعض مشہور مفکرین نے جہاں اسے اپنی فکر کی بنیاد بنایا، وہاں فرائڈ نے یہ تصور پیش کیا کہ انسانی اعمال کے پسِ پشت ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے جس کا اصل مقصد اور اصل محور ایک ناقابلِ تعبیر (ineffable) چھپی ہوئی طاقت ہے جس کو آپ الفاظ سے واضح نہیں کرسکتے۔  فرائڈ اس کو Libido (مخفی قوت) کا نام دیتا ہے، اس کے مطابق یہ انسان کے ان تمام افعال کے پسِ پشت قوتِ محرکہ ہے جو وہ معاشرے میں کرتا ہے۔

ان تین بنیادی تصورات نے مغرب کی لادینی تہذیب کو اس کا تشخص دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام تصورات جو قدیم کہلاتے تھے، جن میں خاندان کی اقدار کا احترام تھا، معیشت کے حوالے سے یہ احساس تھا کہ وہ محض منفعت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور مقاصد بھی ہونے چاہییں، ان تمام چیزوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جس نے انسان کی حیوانیت کو، خواہ وہ انسان کی ساخت کی بنیاد پر ہو ، یا معاشی بنیاد پر، یا جنس کی بنیاد پر، انسان کی اصل پہچان قرار دیا۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا اصل کارنامہ اس کا وہ تصورِ علم نظر آتا ہے جس نے روایت پرست انسان کو الہامی علم کے ذریعے توہمات سے نکال کر، حیوانیت کی سطح سے بلند کر کے اشرف المخلوقات قرار دیا، اور جنس کے موضوع کو بجاے ایک جبلت کے، یا ایک instinctive drive کے، ایک شعوری اور اخلاقی عمل قرار دیا۔ اس غرض کے لیے نہ صرف اخلاقیات کا ایک ضابطہ فراہم کیا گیا، بلکہ اس کے لیے اجر اور ثواب کو بھی متعین کردیا گیا، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی فکر تھی جو اسلام نے پیش کی ، لیکن اس سارے کام کو کرتے ہوئے جو دائرہ کار مقرر کیا گیا وہ جنس کو آزاد کر کے اور اسے انسانی دائرے سے نکال کر نہیں، بلکہ جنس کو خاندان کے اخلاقی دائرے میں رکھتے ہوئے زیربحث لاتا ہے۔

آج جب جنسیت، sexulaity ، libido کی بات ہوتی ہے تو ہم اکثر مغربی فکر کے ارتقائی مراحل اور فکری پس منظر کو نظرانداز کرجاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جنس ایک مستقل موضوع ہے جو خاندان سے الگ ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ جنس پر اخلاقی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے بات کرے اور خاندان کے تناظر میں جنس کو زیربحث لائے۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کے   طور پر، ایک امانت کے طور پر اور ایک احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اور اللہ ہی نے تمھارے گھروں کو تمھارے لیے سکون کی جگہ بنایا‘‘ (النحل ۱۶: ۸۰)۔ ایسے ہی فرمایا گیا: ’’اور  اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ بلاشبہہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا۔

اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ رشتہ جو جنس کے ذریعے قائم ہونے جا رہا ہے، اس رشتے سے قبل ایک اخلاقی تعلق پیدا کیا جائے جو سکون، رحمت اور مؤدت کا ہو ، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بھلائی مل سکے۔ یہ وہ فریم ورک ہے جو اسلام نے فراہم کیا ہے۔ اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر حلال و حرام کے دائرے کو سمجھتے ہوئے لذت کا حصول ہو، تو وہ ایک بُری چیز نہیں ہے، بلکہ ایک اچھی اور مطلوب چیز ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتی ہے، لیکن اس لذت کے حصول میں بھی اصل مقصد سامنے رہنا چاہیے۔

ہمارے ہاں یہ سوال بار بار اُٹھایا جاتا ہے کہ اگر دورِ جدید میں ہمیں جنسی بے راہ روی کو روکنا ہے تو اس کے لیے جنسی تعلیم لازمی کردینی چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی فکر کی علامت ہے۔ تعلیمی نصاب میں الگ سے جنسی تعلیم فراہم کرنا اور ’محفوظ طریقوں‘ سے اپنی خواہش پوری کرنا سکھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ ہے۔ مسئلے کا اصل حل تعلیمی حکمت عملی ہے۔ جب تک ہم اپنے نصاب کے اندر خاندان کی اہمیت، خاندان کے حقوق اور فرائض کو شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ سمجھنا کہ اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے، جنسی امراض کیا ہوتے ہیں اور ان سے کس طرح سے بچا جائے، اس سے ایک باعفت اور باعصمت معاشرہ وجود میں آجائے گا تو یہ سراسر ایک واہمہ ہے۔ یہ صداقت سے خالی مفروضہ ہے! اس لیے ہمیں اپنے فکری زاویے کو تبدیل کرنا ہوگا اور بجاے اس بات کو دہرانے کے جو مغرب بار بار کہہ رہا ہے، یعنی اگر ایڈز کے مہلک اور جان لیوا مرض کو روکنا ہے تو جنسی آگاہی ( sexual awareness) پیدا کی جائے، کنڈوم کلچر کو عام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح سے محفوظ جنسی بے راہ روی اختیار کرسکتے ہیں(گویا ناجائز جنسی تعلق بجاے خود کوئی بُری بات نہیں ہے)۔ اس نوعیت کے تمام نعرے اسلامی تصورِحیات کے منافی ہیں۔ جس چیز کو اسلام نے حرام  قرار دے دیا ہو آخر اس کو ’محفوظ سیکس‘ کہہ کر کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ اختیار فرد یا معاشرے یا ریاست کو کس نے دیا ہے؟ گویا جو بات مغرب کہہ رہا ہے ہم اسے کسی بھی انداز میں کہیں،      وہ نقصان ، خرابی اور تباہی کی طرف ہی لے کر جائے گی۔

مسئلے کو اصولی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہمیں خاندان کی اہمیت کو اپنے نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی جنس سے متعلق بات کی گئی ہے اس کا انداز تعلیمی اور اسلوب اخلاقی ہے۔ اسلامی فقہ طہارت، بلوغ اور اس سے وابستہ مسائل کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقع پر حلال اور اخلاقی طریقوں پر زور دیتا ہے اور لذت کے حرام طریقوں کو فحش سے تعبیر کرتا ہے۔  شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک نوجوان کا شادی سے قبل صالحیت کے ساتھ زندگی گزارنا، اسلام زندگی کے ہر دور میں اخلاقی ضابطے کے ذریعے اس کی خواہشات کو تعمیری انداز میں ترقی کے موقع فراہم کرتا ہے۔

احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے ایک کا تعلق جوانی گزارنے سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے،ا س سے قبل نہیں۔حدیث یہ بھی تعلیم دیتی ہے کہ جب بچہ عمر کے اس مرحلے میں داخل ہو رہا ہو جب جنسی لذت کا احساس جنسِ مخالف کے جسم سے مَس کرکے ہوسکتا ہے تو بچوں کے بستر الگ کردیے جائیں۔یہ ایک مہذب طریقہ ہے جس سے بچے کو یہ احساس ہوگا کہ وہ اب بلوغ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ فقہی کتب کے ذریعے احتلام اور ماہواری کی تعلیم دینی فرائض میں سے ہے۔ ایسے ہی جسم سے فاضل بالوں کے صاف کرنے کا تعلق نہ صرف طہارت سے بلکہ اعضا کی صحت سے ہے۔ یہ سب اُمور تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے فقہ کے حوالے سے بغیر جنسی تعلق پیدا کرنے کی خواہش بیدار کیے سمجھائے جاسکتے ہیں۔ ان کے لیے پوشیدہ اعضا کی تصویرکشی کی نہ ضرورت ہے اور نہ حکمت۔

جنس کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی جنس کی بات کرتے ہیں تو اسے ہم عام طور پر خواتین سے وابستہ کردیتے ہیں لیکن انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنسی تعلق ان دو اکائیوں کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ جن میں سے ایک اکائی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہرلحاظ سے پُرکشش بنایا ہے۔ اس بنا پر ہمارا ادب ہو یا زمینی حقائق، وہ اس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بنا پر صنفِ نازک کو کمرشلائز کردینا، اس کو ایک object بنا دینا، یہ لازمی طور پر ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے لازماً بچنا چاہیے۔ اسی طرح مرد کو بھی حُسن دیا گیا ہے۔ اس میں بھی کشش پائی جاتی ہے لیکن اگر مقابلتاً دیکھا جائے تو ہمارے ادب اور شعر کا مرکز اگر کوئی رہا ہے تو وہ خاتون ہی رہی ہے اور اس میں دونوں پہلو شامل رہے ہیں ، جمال کے بھی اور جنس کے بھی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلامی تصورِ حیات کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کے بارے میں بجاے جنسِ محض ہونے کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے جسے اخلاقی وظیفے سے آراستہ کیا گیا ہے، غور کیا جائے۔ گویا برتری اور فضیلت کی بنیاد نہ محض جنسی کشش ہو، نہ کسی کا مونث یا مذکر ہونا بلکہ اخلاقی تفضیل۔ یہی وہ فضیلت و برتری ہے جسے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر وضاحت سے بیان کیا ہے۔ خصوصاً سورئہ احزاب میں (۳۳:۳۵) جہاں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاقی طرزِعمل کی بنیاد پر اجر و انعام کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔

بچوں میں جنس کے بارے میں فطری طور پر تجسس ہوتا ہے جسے نہ دبانے کی ضرورت ہے نہ اُبھارنے کی، بلکہ تعلیمی نفسیات کی روشنی میں عمر کے مرحلے کے لحاظ سے تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی دوسرے کے اعضا کی طرف اس لیے نہیں دیکھیں کہ یہ گناہ ہے، اپنے اعضا  کسی کو دکھائیں نہیں کہ یہ بھی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ انھیں جس جنس میں پیدا کیا ہے اس پر اللہ کا شکر کریں اور بلوغ کے قریب، جب جنسی اعضا کا زیادہ احساس ہوتا ہے، ذمہ داری اور ضبطِ نفس کے ساتھ پیش آئیں۔ عصمت و عفت کی تعلیم اور شرم و حیا کا تصور دراصل جنسی تعلیم ہی کے اجزا ہیں۔ اس کے برخلاف جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کو تولیدی عمل سے آگاہ کرنا انھیں پریشان خیالی اور بے راہ روی کی طرف لے جانے کا ایک بہت ’کامیاب‘ طریقہ ہے جس سے لازمی طور پر بچنا ہوگا۔ ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کو مل کر ان مسائل پر مناسب لوازمہ تیار کرنا ہوگا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گفتگو کا موضوع عالمِ اسلام ہو یا اُمت ِمسلمہ، ایک بنیادی سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ    ہم بات کس اُمت مسلمہ کی کر رہے ہیں اور کیا اس کا کوئی حقیقی وجود بھی پایا جاتا ہے یا یہ محض ایک نظری مسئلہ ہے؟ گو، گذشتہ چند ماہ میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف اُمت مسلمہ کے وجود کے عینی شواہد فراہم کر دیے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں جان ہے، حرکت ہے، فعّالیت ہے اور وقت کے جباروں اور بیرونی قوتوں کے پروردہ حکمرانوں اور ان کے ظالمانہ نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اُمید کا  دمکتا سورج بھی اگر بعض مایوس ذہنوں میں جو زندگی کا صرف تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوں اُمید کی کرن روشن نہ کرسکے اور عوامی صحافت کے مایوس کن تبصروں کے زیراثر قنوطیت کے طلسم سے  نہ نکال سکے، تو قصور روشنی کا نہیں ان کی اپنی فکرونگاہ ہی کا ہوسکتا ہے۔

اُمت مسلمہ وہ اُمت ہے جسے روزِ اول سے اس کے خالق و مالک نے توحید کے اصول کے پیش نظر دو حوالوں سے اپنے کلام عزیز میں بیان فرمایا ہے۔ اوّلاً: کل بنی نوع آدم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذُریت ہونے کی بنیاد پر اُمت واحدہ فرما کر اس عالم گیر اصول کی تشریح کر دی کہ تمام انسان اصلاً ایک خاندان سے ہیں۔ ان کے رنگوں کا اختلاف، زبانوں میں فرق کا پایا جانا، ان کے قد، غذا، لباس وغیرہ میں بظاہر تنوع پایا جانا ایک ظاہری معاملہ ہے۔ قرآنی عمرانیات اور علم الانسان میں نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، نہ کسی امیر کو کسی غریب پر، نہ کسی نام نہاد اعلیٰ منصب والے کو   کسی بظاہر کم حیثیت والے فرد پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے تمام انسانیت ایک اُمت واحدہ ہے:

وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹) ابتدائً سارے انسان ایک ہی اُمت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے۔

اسی بات کو انسان کے اخلاقی عمل کے حوالے سے ایک اور مقام پر یوں فرمایا گیا:

یٰٓـاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا    اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اُمت کا تصور اور نصب العین

گویا اُمت ِمسلمہ نہ کسی زبان سے وابستہ لسانی گروہ ہے، جس کا غلط اعادہ اکثر مغربی تجزیوں میں بجاے اُمت مسلمہ کے ’عرب دنیا‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ نہ یہ کوئی نسلی اُمت ہے کہ اسے عرب یا عجم کے کسی قبیلے سے منسوب کیا جائے، اور نہ یہ کوئی جغرافیائی اُمت ہے کہ اسے ایشیائی، افریقی یا وسط ایشیائی لوگ کہا جائے۔

قرآن کریم اس اُمت کو صرف اس کے اللہ کی بندگی اور حق و صداقت پر قائم ہوجانے کی بنا پر اس کے اخلاقی عمل کی بنیاد پر اُمت مسلمہ قرار دیتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اس میں بڑائی کا معیار تقویٰ، پرہیزگاری، عملِ صالح اور عملِ خیر ہے۔ جو ان صفات میں دوسروں سے بڑھ کر ہوگا وہ اللہ کی نگاہ میں عزت کا مستحق ہوگا اور وہی اس دنیا میں اللہ کا زیادہ محبوب بندہ ہوگا۔

قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کے اس صفاتی پہلو کے پیش نظر اُمت مسلمہ کی تعریف ہی یہ بیان کی ہے کہ یہ وہ اُمت ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقصد سے وجود میں لائی گئی ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس سے قبل اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایاگیا تھا: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔

ان دونوں آیات پر اس تناظر میں غور کیا جائے کہ آغاز میں اُمت ِانسانی ایک تھی۔ ایک ماں باپ کی اولاد کا نظریۂ حیات، عقیدہ اور عمل مختلف نہیں ہوسکتا لیکن وقت کے گزرنے اور تعداد میں اضافہ ہونے اور فطری طور پر سیروسفر اور ضروریاتِ زندگی کی تلاش و حصول کے نتیجے میں دُوردراز علاقوں میں جاکر بس جانے کی بنا پر عقیدہ و عمل کے اختلاف صدیوں کے عمل کی بناپر وجود میں آگئے۔ انسانیت کو دوبارہ قریب لانے کے لیے یہ امر منطقی ہے کہ اسے پھر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف بلایا جائے اور اس کی بندگی کی دعوت دے کر دلوں کو جوڑا جائے۔ اس غرض کے لیے     اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہ بیان فرمایا کہ یہ وہ اُمت ہے جو بھلائی، خیر،   معروف اور حق کی طرف بلاتی ہے اور برائی، ظلم، ناانصافی اور جہالت کو دُور کرنے اور مٹانے کے لیے اپنے تمام وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ گویا قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقصد کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اس کا مقصد محض اقتدار، محض دولت، محض  تسلط نہیں ہے بلکہ معروف اور حق کا پھیلانا اور برائی کا مٹانا ہے۔ یہ ایک مشن رکھنے والی اُمت ہے، اور اگر اسے وسائلِ حیات پر قدرت اور حکومت و اقتدار کے حصول کی دعوت دی گئی ہے تو وہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ اور تدبیر کی حیثیت سے ہے۔

اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن کریم اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتا ہے اور اسے ایک متحرک، بااصول اور بامقصد افراد کی جماعت قرار دیتے ہوئے نیکی کے قیام، حق و صداقت، عدل و اخوت کے نظام، اللہ رب العزت کی حاکمیت کے قیام یا دوسرے الفاظ میں اقامت دین کو اُمت مسلمہ کا نصب العین قرار دیتا ہے۔

قرآن کریم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک اصطلاح یا ایک مختصر جملے میں علم و عرفان کے ایک ذخیرے کو بیان کردیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ اقامت دین کی جائے تو ان دو الفاظ میں ایک انقلابی منشور فراہم کردیتا ہے جس کا شعور حاصل کرنا اور جسے عملاً اللہ کی زمین پر عملاً نافذ کرنا اُمت مسلمہ کا نصب العین اور ہدف قرار پاتا ہے۔

نصب العین کے تقاضے

قرآن کریم اس نصب العین کو مسلمان کے بنیادی عقیدے سے وابستہ کرتا ہے اور اللہ پر ایمان کا پہلا تقاضا قرار دیتا ہے۔ ایک فرد جب شعوری طور پر اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے اردگرد کے بے شمار خدائوں کو چھوڑ کر، ان سے اپنے آپ کو کاٹ کر صرف اور صرف خالق کائنات کی بندگی میں دے دیا ہے، تو پھر یہ اقرارِ عظمت و حاکمیت اُس کے دل و دماغ کی دنیا تک محدود نہیں رہتا۔ پھر اس کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، آرام کرنا اور سعی و عمل، دوستیاں اور دشمنیاں، پسند و ناپسند، غرض ذاتی معاملات ہوں یا معاشی اور معاشرتی، یا سیاسی اور بین الاقوامی، ہرہرمعاملے کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے رب کریم، حاکم ارض و سما ناراض ہوگا یا خوش۔ وہ شعوری طور پر پکار اُٹھے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶: ۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔

اقامتِ دین کا اُمت مسلمہ کے نصب العین کے طور پر تعین کیے جانے کا واضح مطلب   یہ ہے کہ اس کا ہر فرد دین کی اقامت کے لیے پانچ سطح پر کام کرنے کے لیے مامور کیا گیا ہے:

  • انفرادی زندگی میں نفاذ: دین کو اپنی ذاتی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے قرآن و سنتِ رسولؐ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان ہدایات و تعلیمات کی بنیاد پر اپنی تعمیر سیرت و شخصیت کرنا۔ اسی لیے فرمایا گیا: یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o (الصف ۶۱:۲-۳)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔

حدیث شریف میں ایک شخص کے ایمان لانے کو اُس کے عمل سے وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے کہ: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘(عن ابوامامہ، بخاری)۔ گویا ایک شخص کا قول و عمل ہی نہیں بلکہ اس کی پسند و ناپسند کا اللہ تعالیٰ کی خوشی کاتابع ہو جانا ہی اس کے عبد اور بندے ہونے کا ثبوت ہے، ورنہ وہ مسلمانوں جیسے نام کے باوجود اپنے رب کا باغی ہی رہتا ہے۔

  • اھلِ خانہ میں نفاذ:دوسری سطح پر نصب العین کا تقاضا ہے کہ وہ خیر، بھلائی،   معروف اور حق کو اپنے خاندان میں نافذ کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو قرآن کریم اسے ہوشیار کرتا ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔

خاندان پر اس جواب دہی اور مسئولیت کو ایک حدیث صحیح میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ’’تم میں سے ہرشخص محافظ و نگران ہے، اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی (مسئولیت) میں دیے گئے ہیں۔ پس امیر جو لوگوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور مرد اپنے گھر والوں کی نگران ہے، پس اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور بیوی شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اور اس سے اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی (عن ابن عمر، بخاری، مسلم)۔ گویا انفرادی سطح پر اقامت دین کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اہلِ خانہ کے حوالے سے دین کی ہدایات کا نفوذ اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا نصب العین ہے۔

  • اصلاحِ معاشرہ :اس ذمہ داری اور مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن و سنت نے اُمت مسلمہ کے نصب العین، یعنی اقامت دین کو معاشرے کی سطح پر واضح الفاظ میں ایک فریضہ  قرار دیا ہے۔ چنانچہ اصلاحِ معاشرہ، معروف کا قیام اور فحش، منکر اور برائی کو دُور کرنا، اسے بے اثر بنانا اور اس کی جگہ حق کے نظام کے قیام کا ایک اہم مرحلہ معاشرے میں معروف کا قیام ہے۔

حدیث شریف نے اس اصلاحِ معاشرہ کے فریضے کو واضح الفاظ میں یوں سمجھایا ہے کہ  ’’وہ شخص جو اللہ کے احکام کو توڑتا ہے اور وہ جو اللہ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر اسے ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی اور قرعہ ڈالا۔ اس کشتی میں اُوپر نیچے مختلف درجے ہیں۔ چند آدمی اُوپر کے حصہ میں بیٹھے اور چندنچلے حصے میں۔ جو لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے تھے وہ پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس سے گزرتے تاکہ دریا سے پانی بھریں تو اُوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی۔ آخرکار نچلے حصے کے لوگوں نے کلھاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے۔ اُوپر والے حصے کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: تم یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور دریا سے پانی اُوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور تم ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے ہو، تو اب کشتی کے تختوں کو توڑ کر دریا سے پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ حضوؐر نے یہ مثال بیان کر کے فرمایا: اگر اُوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے تو انھیں بھی ڈوبنے سے بچا لیتے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیتے۔ اور اگر انھیں ان کی حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی کرتے ہیں تو انھیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔ (عن نعمان بن بشیر، بخاری)

اس خوب صورت مثال سے واضح ہے کہ اگر معاشرے میں برائی پھیلے گی ، وہ فحاشی ہو، بدامنی ہو، چوری ہو، بداخلاقی ہو، یا جھوٹ اور بے ایمانی ہو، تو معاشرے کا ہر فرداس سے متاثر ہوگا۔ اگر معاشرے میں بھلائی، معروف اور حق پھیلے گا تو معاشرے کے ہر فرد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح اگر نفسانفسی کی بنا پر معاشرے کی اصلاح نہ کی گئی تو جو لوگ چشم پوشی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیں گے۔

  • ریاستی سطح پر نفاذ:اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے چوتھی سطح ریاست میں اقامت دین اور حق کا قیام ہے۔ قرآن کریم نے سورئہ حج میں اس پہلو کو وضاحت سے بیان فرما دیا ہے: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱)’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

قرآن کریم بار بار اپنے ماننے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہیں، این تذھبون۔ اصل حاکم و مالک کو بھول کر عارضی اور بذاتِ خود مجبور ’خدائوں‘ کی طرف کیوں مدد کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ اصل حامی و ناصر، قوت والا اور تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب کریم ہے، جس کے ہاں تمام انسانوں کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ کی طرف رجوع اور زمین پر اس کی حاکمیت و اقتدار کو قائم کرنا، گویا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا چوتھا تقاضا ہے اور اس کی تکمیل کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔

  • عالمی نظامِ عدل کا قیام: پانچویں سطح پر اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نہ صرف ملک میں اصلاح کے نظام کو قائم کرنا ہے، بلکہ عالمی طور پر نظامِ عدل و انصاف کا قیام کرنا ہے۔        وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاo (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے (اے مسلمانو) تمھیں ایک معتدل اُمت بنایا تاکہ تم (تمام) انسانوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔ گویا جس طرح خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت مسلمہ کو دین کی دعوت پہنچاکر اور مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست قائم کرکے عملاً دکھا دیا کہ دین کی اقامت کس طرح ہوتی ہے، اسی طرح اب اُمت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر دعوتِ حق کو پیش کرے۔ نہ صرف ان مقامات پر جہاں اسے سیاسی اقتدار حاصل ہو، مثالی اسلامی ریاست قائم کرے بلکہ اسلام کے مثالی نظام عدل و حکومت کو دیگر اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے تاکہ جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال ہے، وہاں عدل و انصاف کا قیام ہو اور اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر احکم الحاکمین کی بندگی میں لایا جاسکے۔ مختصراً اسلام ایک ایسے عالمی نظام کا داعی ہے جو اللہ کی بندگی اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام پر مبنی ہو۔

اھلِ حق اور نصرتِ خداوندی

اسلام جس تبدیلیِ نظام کی دعوت دیتا ہے، وہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا نقطۂ آغاز رہا ہے۔ چنانچہ تمام انبیاے کرام نے ایک ہی بات کی دعوت دی: یعنی وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ’’ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ اگر اُمت مسلمہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے یکسو ہوکر جدوجہد کرے گی تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو کم تعداد میں ہونے کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت پر بھی غلبہ دے گا۔ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۴۹)’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔

اقامت دین کے لیے جدوجہد میں بالعموم کفر اور ظلم کی کثرت کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حق اتنے بڑے ہجوم پر کیسے غالب آئے گا؟ شیطان وساوس کے ذریعے اس احساس کو بعض اوقات نفسیاتی یقین تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن کریم اس کارد کرتے ہوئے ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ  اہلِ ایمان کو اس مقابلۂ حق و باطل میں دل مضبوط کر کے اپنے رب پر اعتماد کر کے اپنی قوت کو بازی پر لگانے میں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میںسے ۲۰ آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

اس آیت میںتین اہم پیغام اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے پوشیدہ ہیں:

پہلا یہ کہ کفر کی کثرت انھیں حق کے قیام اور دین کی سربلندی کی جدوجہد سے غافل نہ کردے۔ اس لیے فرمایاگیا کہ اے نبیؐ! انھیں مسلسل جدوجہد اور جہاد پر اُبھاریے۔

دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ کا اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ایک بابرکت عمل ہے کہ اس میں اللہ کی مدد سے ۲۰ صابر و باشعور ۲۰۰ بے شعور افراد پر غالب آئیں گے۔ گویا اصل بنیاد تعداد (quantity)نہیں ہے بلکہ کیفیت (quailty) ہے۔ اسی لیے جو اصطلاح مجاہدین کے لیے یہاں استعمال کی گئی وہ صابروں کی ہے، یعنی وہ اسلامی کارکن جو مقصدِحیات کے شعور کے ساتھ مسلسل مشکلات میں اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، جو مخالف قوتوں کی تعداد سے خائف نہیں ہوتے بلکہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے مستقلاً استقامت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وہ صابرین، مجاہدین اور متقین ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔

آخری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ مخالف افراد وہ ہیں جو شعور نہیں رکھتے، جب کہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل افراد کو زندگی کے مقصد کا شعور ہے، اور وہ نصب العین سے آگاہ ہیں۔ وہ حدِ نگاہ تک نہ صرف اپنے مقصد و ہدف سے آگاہ ہیں بلکہ مستقل طور پر منزل پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ اور تذبذب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود انھیں اس دنیا اور آخرت میں کامیابی پر پورا یقین ہے۔

نصب العین کا یہ ادراک اور وژن کا نہ صرف واضح ہونا بلکہ اس پر عین الیقین ہی وہ بنیاد ہے جو عمل میں تبدیل ہوتی ہے تو مشکلات کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں، اور ظلم و طغیان کی آندھیاں زمین بوس ہوجاتی ہیں، اور اللہ کی نصرت دائیں سے اور بائیں سے، اُوپر سے اور نیچے سے آکر اپنے صابر بندوں کو کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔

اہلِ کتاب کے سیاق و سباق میں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نصرت و رحمت کے حوالے سے غور کرنے والوں کے لیے اہم مواد فراہم کرتا ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوِش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔

گویا اعتصام بالقرآن والسنہ وہ نسخہ ہے جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکتی ہے۔ اللہ کا جو وعدہ اہلِ کتاب سے ہے وہی اُمت کے ان افراد سے ہے جو نصب العین کا شعور رکھتے ہوں اور صبرواستقامت کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔

قرآن و سنت کے مثبت اور تعمیری نقطۂ نظر پر غور کیا جائے تو بعض اوقات شیطان انسان کو جن حیلوں، بہانوں سے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے مایوسی، نااُمیدی اور نصب العین کے بارے میں شکوک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ کبھی وہ یہ کہتا ہے کہ کفروطاغوت اور فحاشی کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ اتنی مختصر جماعت کے ساتھ کب تک کرو گے؟ بہتر ہے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا سیکھو۔ جو جھوٹ، مکر اور فریب کی سیاست عام سیاسی بازی گر کرتے ہیں، تم بھی وہی کرو کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اس فتنے کے دور میں اضطراری طور پر ایسے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جو عام حالات میں شریعت کے منافی ہیں۔ کبھی وہ اس طرف لے جانا چاہتا ہے کہ مکمل دین کی اقامت کی جگہ دین کی بعض وہ تعلیمات جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، انھیں اختیار کرلیا جائے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کے ادوارزوال میں عموماً روحانیت اور قلبی کیفیات پر زیادہ توجہ ہوجاتی ہے، اور طاغوتی نظام کو ایک مجبوری کے طور پر پہلے گوارا اور بعد میں بلااِکراہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ نماز کے فرائض و واجبات اور مکروہات کی تفصیل تک محدود ہوجاتا ہے اور معاشی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں شیطان اور اس کی ذُریت کو چھا جانے کا پورا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔

اقامتِ دین کا مفہوم مکمل دین کی اقامت ہے، یعنی چاہے کوئی معاملہ ذاتی زندگی سے متعلق ہو یا معاشرت سے یا معاش و سیاست سے، ہرہرشعبۂ حیات میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کو بغیر کسی معذرت کے نافذ کرنا ہی اقامت ِ دین ہے۔ اقامت دین کے جن پانچ مراحل کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، یہ الگ الگ کرنے کا کام نہیں ہے بلکہ ان سب کو متوازی طور پر کرنے کا نام اقامت دین ہے۔ نصب العین کا شعور، ترجیحات کا تعین، حکمت عملی کی تشکیل اور قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وہ ذرائع ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس پُرآشوب دور میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے نصب العین کے پیش نظر ایسی حکمت عملی وضع کرے جو بغیر کسی مفاہمت، معذرت یا مقصدِحیات سے انحراف کے، قوم کو اعتماد، یک جہتی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترقی کی طرف لے جاسکے۔

مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بالعموم منفی تاثر پایا جاتا ہے جو مبنی برحقیقت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل ’بنیاد پرست، ’دقیانوس‘، ’دہشت گرد‘، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا پر شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں، نیز مغرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک طویل عرصہ سے جہاد کے بارے میں بھی مغرب میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ان غلط مفروضوں اور مبہم اور غیرحقیقی تصورات کی بنیاد پر مغرب کی عالمِ اسلام کے بارے میں بنائی جانے والی حکمت عملی مزید غلط فہمیوں کو پھیلانے اور نتیجتاً مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی موقف کیا ہے، اور ان کا پُرتشدد ردعمل کن وجوہات کی بنا پر سامنے آرہا ہے؟ بالکل اسی طرح  مغرب کی حکمت عملی کا حقیقت پسند اور غیرجانب دار جائزہ، نیز مسائل کے حل کے لیے مبنی برانصاف لائحہ عمل کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مغربی مفکرین کی طرف سے کوئی معروضی مطالعہ سامنے آئے تو ایسے جائزے کو عالمی امن کے قیام کی کوششوں کی طرف  ایک صحت مند اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

راجر ہارڈی نے اپنی کتاب The Muslim Revolt [مسلم بغاوت ] میں سیاسی اسلام کے تناظر میں مذکورہ بالا مسائل کے پیش نظر جامع تجزیہ پیش کیا ہے اور سوڈان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملایشیا، پاکستان اور ایران میں درپیش مسائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لیا ہے۔ مصنف بی بی سی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مسلم مفکرین، سرگرم لوگوں (activists) اور عوام سے براہِ راست رابطے میں رہا ہے۔ ہارڈی نے بہت سے عصری سیاسی و سماجی مسائل پر مسلم اسکالروں، عوام اور حکمران طبقے کے ردعمل پر مبنی قیمتی معلومات تنقیدی نقطۂ نظر سے پیش کی ہیں۔

’سیاسی اسلام‘ کا سفر اسلام کو بطور معاشرہ اور تہذیب کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش سے ہوتا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ہارڈی یہ محسوس کرتا ہے کہ عربوں نے اصولی طور پر اسلام کو تلوار کے زور پر مسلط نہیں کیا۔ ان کی زبان عربی منصفانہ انداز میں بتدریج پھیلی اور مذہب مزید آہستگی سے اب بھی پھیل رہا ہے۔ یہ صرف ۱۰ویں اور ۱۳ویں صدی عیسوی کا زمانہ ہی نہ تھا جب مشرق وسطیٰ کے باشندوں نے اسلام قبول کیا....عملی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست نے ایک خالص عرب مہم جوئی کے بجاے بطور مسلم ریاست کردار ادا کیا۔ (ص ۱۱-۱۲)

ہارڈی مسلمانوں میں عالمی سطح پر پائی جانے والی اسلامی ریاست یا شریعہ بطور قانون کے نفاذ کی خواہش کو جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس نے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو جس سادگی سے پیش کیا ہے اس پر اسے موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اس کے تجزیے میں بھی قائداعظم کے بارے میں عمومی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہ وہ سیکولر اور لبرل تھے (ص ۵۹)۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کے تصور کو بارہا پیش کیا (دیکھیے: امریکی عوام سے خطاب، ۲۳ فروری ۱۹۴۸ئ)۔ اپنے ایک دوسرے بیان میں انھوں نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جنھوں نے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے: ’’بلاشبہہ جب ہم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کی تحسین نہیں کرتے۔ اسلام محض اصولوں، روایات اور روحانی طریقوں کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہرمسلمان کا ضابطۂ حیات بھی ہے جو اس کی زندگی اور رویے کو ترتیب دیتا ہے، حتیٰ کہ سیاست اور اقتصادیات کو بھی۔ یہ عزت و احترام، اعلیٰ اخلاقی اقدار، صحیح رویے اور سب کے لیے انصاف جیسے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے‘‘۔

ہارڈی کا یہ نقطۂ نظر کہ مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں اور    ان کے ووٹ بنک کا موازنہ جب دیگر سیاسی جماعتوں سے کیا جاتا ہے تو محدود ہے، تنقیدی تجزیہ چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام ووٹر کو کبھی بھی سیکولر اور ’مذہبی‘ گروہوں کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ جو ’سیکولر‘ کہلاتے ہیں ہمیشہ عوام کی اسلام سے وابستگی کو استعمال کر کے ان کا استحصال کرتے رہے اور ان کی حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی جذبات کو سیاسی  طور پر اس وقت استعمال کیا جب انھوں نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جو متفقہ طور پر ان کے دورِ امارت میںمنظور کیا گیا، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستوری طور پر ریاست کو اس بات کا قانوناً پابند کیا گیا کہ ۱۰ سال کے اندر اندر پاکستان کا قانونی نظام مکمل طور پر اسلامی کردیا جائے گا۔ان تاریخی حقائق کے تناظر میں جب ضیاء الحق کو پاکستان میں اسلامائزیشن کا علَم بردار (چیمپئن) قرار دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ غیرضروری فیاضی اور  بے جا تحسین کے مترادف ہے۔ (ص۳۱-۶۳)

ہارڈی مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔   اس کے خیال میں یہ کہنے میں کہ قانون کا احترام کرنے والے اور محنتی مسلمانوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح پیش آیا جاتا ہے، ناگزیر حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کی مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے، ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ انفرادی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی لائیں، اور ریاستی سطح پر   دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر قانون سازی میں سختی کے نتیجے میں شہری آزادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مغرب کے اس دہرے اخلاقی معیار کے نتیجے میں وہ اسلام کا نیا حریف بن گیا ہے۔ ہارڈی کی یہ تصنیف کثیرثقافتی باہمی بقا کا بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ (ص۱۸۵)

مصنف دہشت گردوں اور اسلام پسندوں کو ہدف بنانے کے نام پر بے گناہ شہریوں پر قوت کے استعمال اور ڈرون حملوں کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ مراد ہوف مین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرد جنگ کی طرح یہ نئی جنگ بھی ایک نظریاتی جہت رکھتی ہے جوکہ ’سوفٹ پاور‘ (سفارت کاری، انٹیلی جنس، پروپیگنڈا، اقتصادی امداد وغیرہ) جیسے ہتھیاروں کے حساس استعمال کی متقاضی ہے لیکن سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو امریکا کی لازمی طور پر حکومتوں سے محاذآرائی تھی نہ کہ عوام سے جو اتحادی یا امکانی اتحادی تھے۔ اب امریکا ریڈیکل اسلام کے خلاف جسے ہمیشہ عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے، غیرمقبول مسلم حکومتوں کا اتحادی ہے۔ یہ پوری دلجمعی کے ساتھ کسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ کمزور موقف ہے‘‘۔ (ص ۱۸۷-۱۸۸)

ہارڈی عالمی جہاد کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا سبب انسانیت کی تذلیل پر مبنی روایات ہیں۔ ان روایتوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب___  روایتی فوجی اور اقتصادی طاقت اور عالم گیریت کے نئے ہتھیار سے مسلح___ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ (ص۱۹۱)

مغرب کی جارحیت فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور وسطی ایشیا کی جمہوریائوں سے محاذآرائی پر مبنی خطے میں پوری طرح عیاں ہے۔ جہاد کے حمایتی تشدد کو مغربی جارحیت سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا جواز مذہب سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تذلیل سے نجات دلاتا ہے اور ندامت کو  فخر سے اور بے بسی کو قوت میں بدل دیتا ہے (ص ۱۹۲)۔ اس موقف کا اظہار بھرپور تاثر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہارڈی کی راے میں جڑواں ٹاور پر حملہ جہادیوں کے  اس مضبوط موقف کی تسکین کا باعث تھا۔القاعدہ کا نقطۂ نظر مسلم نوجوانوں کو تشخص، نظریہ اور ایک ایسا ذریعہ فراہم کرنا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں کیوں اس پر عمل کرنا چاہیے،اور  کیا کرنا چاہیے۔ (ص ۱۹۳)

امریکا کی ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر جارحیت نے مغرب کی اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے القاعدہ کے موقف کی تصدیق کردی۔ اس کی مزید تائید ابوغرائب جیل میں قیدیوں کی تذلیل کے قصے اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے کردی۔ اس سب نے نام نہاد القاعدہ کے حربوں اور حکمت عملی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی پالیسیوں کی مسلم دنیا میں ناپسندیدگی اور حمایت سے محرومی میں اضافہ کیا۔

ہارڈی کے تجزیے کی روشنی میں ۲۰۰۹ء میں وائٹ ہائوس کی مسلم دنیا سے متعلق حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، اوّلاً: سی آئی اے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو تیزی سے اس کے صحیح مقام پر واپس لانے میں زیادہ سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں متعین اہداف پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی القاعدہ کو   اپنے دفاع پر مجبور کردیتی ہے۔ دوم: سرکاری بیانات میں ’جہادی‘ یا ’مسلم‘ دنیا کی اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے ’دنیا میں پائے جانے والے مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔  گو، اس سے حتمی تجزیے کے طور پر امریکا کے مسلمانوں کے بارے میں رویے میں امریکا اور بیرونِ امریکا میں کوئی بڑا تغیر واقع نہیں ہوا، اور نہ مسلمانوں کے امریکا کے مسلمانوں کے مفادات کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کے تصور میں ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سوم: ان حالات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جو تشدد اور انتہاپسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غربت کے خاتمے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کے پروگراموں نے توجہ حاصل کرلی ہے۔ چہارم: امریکی حکام اور ماہرین پر یہ بات بھی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ مسائل کو فوجی قوت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے پسے ہوئے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔ پنجم: امریکا کو مسلم دنیا میں اپنی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کے لیے دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ناٹو افواج کی افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں براہِ راست مداخلت نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو ایک کثیرقومی جدوجہد بنادیتی ہے۔ ششم: عراق، افغانستان اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے غیرمعمولی کاوشیں لازماً کی جانی چاہییں۔ یہ نئی حکمت عملی ایک عام آدمی میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا میں آمر حکمران، اسلام پسندوں، بنیاد پرستوں اور جہادیوں کو پیدا کرنے کا سبب ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی آزادی، حریت ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علَم بردار ہیں۔ تاہم کوئی بھی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر، تیونس، مراکش، یمن وغیرہ کے جابروں اور آمروں کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جنگ ِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آمر حکمرانوں کی تخلیق کے پیچھے تھے۔

نائن الیون کے بعد نام نہاد لبرل جمہوری معاشرے کے ودیعت کردہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکا اور یورپ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے مسلمانوں کو بھی پہلے سے قائم تصورات کی بنا پر ’ماڈریٹ‘، ’ریڈیکل‘، ’لبرل‘،’دقیانوسی‘یا ’بنیاد پرست‘ قرار دیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کے بارے میں قائم کیا گیا تاثر ان کی شخصیت کا حقیقی عکس نہیں ہے۔ یہ عمومی تاثر کہ ’مسلمان جمہوریت سے نفرت‘ کرتے ہیں یا ’مسلمان ہماری آزادی سے نفرت‘ کرتے ہیں، جیساکہ بش نے دعویٰ کیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی تصور کو جاننے میں ایک رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔

لاعلمی یا حقیقی مسائل کو پوری طرح قصداً جانے بغیر کیے جانے والے فیصلے صحیح پالیسی فیصلوں کے نہ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ہارڈی کا یہ تاثر مبنی برحقیقت ہے: ’’مسلم دنیا کے مرکز سے لے کر موریتانیہ سے مینڈانائو تک بیش تر علاقوں میں مسلمانوں کو بُری حکمرانی کا سامنا ہے،  ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، اور ان کی معاشی ترقی روک دی گئی ہے۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور مغرب کو ان کا براہِ راست ذمہ دار بھی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ لیکن بیرونی قوتوں کے کردار کو نظرانداز کرنا___ ان کی غوروفکر سے عاری مداخلت، ان کی آمر حکمرانوں پر عنایات، ان کا انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں دہرا معیار___  مسئلے کے ایک اہم پہلو سے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہے‘‘۔ (ص ۲۰۱)

غلط تصورات پر مبنی خارجہ پالیسی کسی بھی ابلاغی خلا کو پُر نہیں کرسکتی، اور نہ باہمی اعتماد ہی کو قائم کرسکتی ہے۔ امریکا اور یورپی حکومتی پالیسیوں کی عالمی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی ناقص ڈھل مل خارجہ پالیسی، اور یہ تصور ہے کہ فوج، طاقت اور دولت ہی مسئلے کا حل ہیں۔ سابق برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈگلس ہرڈ یہ کہنے میں پوری طرح حق بجانب تھے: ’’ہم نے غزا، فلوجا اور چیچنیا میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے رویے سے اسرائیلی، امریکی اور روسی ہر وقت دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بی بی سی ریڈیو- ۴، ۲۲؍اپریل ۲۰۰۴ئ)

مسلمان ممالک پر طولانی قبضہ اور ڈرون حملے صورت حال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، جب تک کہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا جائے، اور تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن تبدیل کرنے کی نرم پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔ ایسے میں محض متاثرہ علاقوں میں سماجی ترقی کے لیے دی جانے والی خیراتی امداد کوئی بہتری نہیں پیدا کرسکتی۔

مغرب اور عالمی مسلم کمیونٹی کے باہمی تعلقات کے مستقبل کا انحصار نام نہاد امن افواج کے انخلا میں ہے جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عوام پرکھلم کھلا حملوںمیں ملوث ہے۔ یورپ اور امریکا کی اسرائیل، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ایک حقیقی تبدیلی مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔  یہ مغرب اور بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے اور مسلم دنیا میں مجروح عوام کے احترام اور حقوق کی بحالی کے لیے مزاحمت اور تصادم کو کم کرے۔

زیرتبصرہ کتاب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالم اسلام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں مثالی تبدیلی تجویز کرتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت، آزادی (لبرلا ئزیشن) اور عالم گیریت کے نام پر مسلم دنیا کے معاملات میں بلاجواز مداخلت مسلمانوں کو مزید برگشتہ کرے گی اور پُرامن بقاے باہمی کے امکانات کو مزید کم کرے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا میں غیرمقبول،    کرپٹ آمر حکومتوں کی خفیہ یا کھلی حمایت اور سرپرستی بھی بند ہونی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں ایک پُرامن عالمی نظام چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات، اسلامی اقدار اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ایک مخلصانہ سوچ کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’ایک نئی سوچ کے بغیر جو کہ اسلام کے تصورِ حیات اور عالمِ اسلام کے عدم اطمینان کی وجوہات پر یقینی گرفت رکھتی ہو یہ ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی بغاوت صدیوں تک جاری رہے گی‘‘ (ص ۲۰۲)۔ (تبصرہ: مسلم ورلڈ بک ریویو، برطانیہ، جلد ۳۲، شمارہ ۲، ۲۰۱۲ئ۔ ترجمہ: امجد عباسی)

The Muslim Revolt: A Journey Through Political Islam )

راجر ہارڈی، ناشر: C.Hurst & Co ، لندن، ۲۰۱۰ئ، ISBN: 9781849040327، صفحات: ۲۳۹)

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓئً ا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (الرعد۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔

اُمت مسلمہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو دو حقیقتیں واضح طور پر نوشتۂ دیوار نظر آتی ہیں: اوّلاً یہ ایک اُمت ِ مرحومہ ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہِ رحم اور عفو و درگزر ہے اور بے شمار خامیوں کے باوجود اس میں نمو اور زندگی کی رمق کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی خصوصی عنایت سے ۱۵۰۰ سال سے باقی رکھا ہے۔ جس وقت بغداد تباہ ہو رہا تھا اور علم کے اس مرکز کے بیش قیمت کتب خانے اُس دور کی یک قطبی طاقت کے ہاتھوں اس طرح تباہ ہو رہے تھے جس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے بغداد کی حالیہ تباہی میں لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے، شفاخانے تباہ کیے گئے، مساجد و مدرسے مسمار کردیے گئے___ اور یہ سب کچھ کس عنوان سے ہوا؟ جمہوریت کی برآمد، تہذیب ِ مغرب کی تعلیم اور روشن خیالی کے کھوکھلے نعرے! عین اسی لمحے اُمت مسلمہ میں ایسے مفکرین اور قائد اُبھر رہے تھے جنھوں نے اس اُمت کو اس کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جب ہلاکو خان بغداد کے علمی مرکز کو تباہ کر رہا تھا تو دیکھنے والی آنکھیں ہرطرف خون، قتل و غارت، تباہی، مسلمان کی بے بسی، کس مپرسی اور بے وقعتی کو دیکھ رہی تھیں، لیکن دوسری جانب علم و حکمت، آگہی اور اُمید و رجا کی دو شمعیں نہ صرف روشن ہو رہی تھیں، بلکہ افسردہ و پژمردہ حال کو روشن مستقبل میں تبدیل کرنے کی تدبیریں کر رہی تھیں۔ یہ دو شمعیں اُمت مسلمہ کو ہمت، جوش، ولولہ، عزمِ نو کی تعلیم اور تغیرِ حالت کے لیے جہادِ نو کی طرف دعوت دے رہی تھیں۔ اس دورِ ابتلا نے جن شخصیات کو  وجود بخشا وہ کوئی اور نہیں، امام تقی الدین ابن تیمیہ (۱۲۶۳ئ-۱۳۲۸ئ) اور مولانا جلال الدین رومی (۱۲۰۷ئ-۱۲۷۳ئ) تھے۔

یہ حقیقت واقعہ، اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اُمت ِمسلمہ اپنی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جب بھی اپنے ہاتھوں پستی کی طرف گئی، اللہ تعالیٰ نے اسی اُمت میں سے اُمید کی لہر پیدا کی ہے۔ جب سلطنت مغلیہ کا چراغ گُل ہو رہا تھا اور ادیب و شاعر شہرآشوب تحریر کر رہے تھے، اسی دوران میں مدوجزر اسلام بھی تحریر ہو رہی تھی اور تحریکاتِ جہاد وجود میں آرہی تھیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ علمی محاذ پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشین اسلامیانِ ہند ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ چنانچہ جلد ہی علامہ اقبال اور سیدمودودی کی فکر نے اُمت کو اُمید اور منزل و مقصد ِ حیات کا شعور دینے کے ساتھ تبدیلیِ قیادت کے لیے بنیادی لوازمات کی نشان دہی کے ساتھ ایک لائحہ عمل بھی تجویز کیا۔

مشرق وسطیٰ بھی گذشتہ ۶۰برسوں سے ایسے ہی دورِ زوال، اندرونی عدمِ استحکام، بیرونی سیاسی، معاشی و عسکری تسلط و دخل اندازی اور اپنوں کی بے وفائی کا شکار رہا ہے۔ عموماً یہی وہ عوامل ہیں جو قوم کو مایوسی، نااُمیدی، نفسانفسی اور انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون بھی عجیب ہے کہ وہ مُردہ زمین سے لہلہاتی کھیتی پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات عاقبت نااندیشی کرنے والے ہاتھوں سے خود اپنے ہاتھوں لگائی، لہراتی کھیتی کو تہس نہس کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے۔ آج تیونس میں جو اُمید کی لہر، مستقبل کی تابناکی اور قوم میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں، یہ اس دورِمایوسی ہی کی پیداوار ہیں، جو اَب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سورئہ رعد کی درج بالا آیت مبارکہ نے جن     دو اُمور پر ہمیں متوجہ کیا ہے وہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز اندر سے ہوگا، بتدریج ہوگا، صبروحکمت سے ہوگا اور  ایک حکمت عملی وضع کرنے سے ہوگا۔ جب تک افرادِ کار کی ایسی قوی جماعت صبرواستقامت کے ساتھ تیار نہ کی جائے جو شدید آزمایشوں میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، جن کے سامنے قریب المیعاد اور طویل المیعاد اہداف و مقاصد واضح ہوں اور جو مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہیں، اس وقت تک تبدیلی کا آغاز نہیں ہوسکتا۔

تیونس میں اسلامیان نے اس صبرآزما اور استقامت والے راستے اور جمہوری عمل کے ذریعے سے جسے بعض اوقات کفروشرک سے تعبیر کیا جاتا ہے، حکمت کے ساتھ آج وہ مقام حاصل کرلیا ہے جس کے نتیجے میں وہ بنیادی اسلامی تبدیلیاں جمہوری اور دستوری ذرائع سے لاسکتے ہیں جنھیں مغرب اپنی دوغلی اخلاقی شہرت کے باوجود ’بنیاد پرستی‘، ’طالبانائزیشن‘، ’انتہا پسند قبضہ‘ نہیں کہہ سکتا۔ مغربی صحافت اس وقت جو بات بار بار دُہرا رہی ہے وہ یہ ہے کہ راشد الغنوشی کی حرکت نہضت معتدل اسلامیان (moderate islamists) کی جماعت ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام سے مکمل وابستگی اور اسلامی شعائر کے اہتمام کے باوجود اور جب کہ راشد الغنوشی کی فکر، اخوان المسلمون کے مقابلے میں سید موددوی سے زیادہ متاثر ہے، اور ان کی صاحب زادی اسکارف کے استعمال کے ساتھ پارٹی کی طرف سے سیاسی بیانات دیتی ہیں، نہضت پارٹی کو   ’بنیاد پرست‘ کیوں نہیں کہا گیا، دوسرے الفاظ میں حکمت عملی میں کس نوعیت کی تبدیلی تحریکِ اسلامی کی امیج یا ابلاغی تصویر میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔

تیونس میں نہضت پارٹی نے ۲۱۷ کی پارلیمنٹ میں ۸۸ نشستیں حاصل کر کے ۴۱ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں اور دیگر جماعتوں سے تناسب کے لحاظ سے یہ فرق بہت بھاری ہے۔ ڈیموکریٹک فورم نے ۱۰ فی صد، کانگریس براے ری پبلک نے ۱۴ فی صد، پروگریسیو پارٹی نے چھے فی صد، پاپولرفرنٹ نے ۱۳ فی صد اور دیگر جماعتوں نے ۱۶ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں۔

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ تیونس کے عوام نے مغربیت، اباحیت، شراب اور فواحش کے سرکاری سرپرستی کے طویل دور سے گزرنے کے باوجود واضح اکثریت کے ساتھ تحریکِ اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاموش اکثریت کو اگر صحیح حکمت عملی سے پیغام پہنچایا جائے تو تبدیلیِ قیادت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اگر اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو تو یقینی ہے۔

تیونس میں مغربی سیکولر جمہوریت کے زیراثر ہونے والے انتخابات میں نہضت پارٹی کی شرکت اسلامی شریعت کے فقہی اصول ضرورۃ کی ایک عملی مثال ہے۔ گویا ایسے حالات میں کہ جب دوبرائیاں سامنے ہوں اور ایک کم تر برائی میں اُمت ِمسلمہ کی مصلحت ہو تو اس نیت کے ساتھ کہ اگر کوشش کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے نوازتا ہے تو اس غیراسلامی سیاسی نظام کے تحت کوشش کرکے اسے بدلا جاسکے گا، تو ایسا اقدام اسلامی شریعت کے منشا کے مطابق ہوگا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک ایسے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اُس نظام میں ذمہ داری قبول کرنا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے اور جھوٹے خدائوں کی جگہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اور نظامِ خلافت کے قیام کے لیے حکمت عملی کے طور پر ایسے     وقتی اقدامات کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی ہوگی اور اسے اسلام سے ’انحراف‘ یا مغربی جمہوریت کی توثیق نہیں کہا جاسکے گا۔

تیونس میں تحریکِ اسلامی کی دستوری جدوجہد سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ان تحریکاتِ اسلامی کے لیے خاص طور پر قابلِ غور ہیں، جو صلاحیت اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود توڑ پھوڑ اور اسٹریٹ پاور یا شب خونی انقلاب کے مقابلے میں دیرپا اصلاحی اور تعمیری عمل کے بعد (جو ممکن ہے سو سال سے بھی زیادہ طویل مدت کا متقاضی ہو) متوقع تبدیلی قیادت لانے میں یقین رکھتی ہیں، جن کا شعار قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے‘‘۔

سورئہ عنکبوت کی اس آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہلِ ایمان خصوصاً تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے معانی کا ایک خزینہ بند کر دیا ہے۔

اسلام کی دعوت ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ یہ ظلم، طاغوت، استحصال، ناانصافی، غیرعادلانہ تقسیم دولت، آمریت، شخصی حکومت، انانیت، کبر، غرض ان تمام صفات کے خلاف اعلانِ جہاد ہے جو عموماً عصری سیاسی اور معاشی قائد قوتوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دعوتِ انقلاب انسان کی فکر، شخصیت، معاملات اور طرزِعمل کو ہرقسم کی خود پرستی اور مفاد پرستی سے نکال کر توجہ کا مرکز صرف    ایک چیز کو بنادیتی ہے، اور وہ ہے: خلوصِ نیت کے ساتھ ہرکام کو ربِ کریم کی خوشی کے لیے کرنا۔ تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ وہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اسی جانب اشارہ ہے کہ ہمارے جو بندے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے مجاہدہ، جہاد، جدوجہد اور انتہائی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں مصائب و آزمایش برداشت کرنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ دیتا، وہ انھیں صحیح راستہ سُجھاتا ہے۔

لیکن اس الٰہی ہدایت کی نوعیت کیا ہے۔ اس پر سبُلنا کا استعمال یہ واضح کرتا ہے کہ جب    اہلِ ایمان اپنے رب کی خوشی کے لیے دنیا سے ٹکر لیتے ہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ اصول سے تھوڑا سا انحراف بڑے فائدے دلوا سکتا ہے،اصول پر قائم رہتے ہیں، اور مجاہدہ اور جہاد کے راستے کو اختیار کرتے ہیں، تو پھر رب کریم انھیں مشکلات و مصائب میں نہ تو مایوس ہونے دیتا ہے اور نہ  بے بسی میں چھوڑتا ہے بلکہ انھیں ہدایت کے راستے دکھاتا ہے۔ قرآن کریم نے بار بار ہمیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ راستہ (صراط مستقیم) تو صرف ایک ہی ہے: اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا، لیکن یہاں پر ’راستے‘ فرما کر یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو جہاد اور مجاہدہ کیا جائے گا، اور حصولِ مقصد کے لیے کون کون سی حکمت عملیاں اور نقشہ ہاے عمل اختیار کیے جائیں گے، اور کس طرح فتح مکہ اور مدینہ منورہ کے راستے عمل میں لائی جائے گی۔

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ مکہ مکرمہ میں دعوت کا مرکزی نکتہ توحید و رسالت تھا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی معاشی، سیاسی اور اعتقادی حاکمیت منزل و مقصد تھی جس کی سزا حضرات بلالؓ، خبابؓ، صہیبؓ ، سلمانؓ ، ابوبکرؓ، ابوذر غفاریؓ، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس شہر میں دی جارہی تھی جو امن کا، سلامتی کا، رحمتوں کا اور فضل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ لیکن جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب پر ظلم و تعذیب کا بازار گرم تھا، کیا اللہ نے انھیں تنہا چھوڑ دیا؟ کیا انھیں مکہ میں کفروشرک کی قوتوں کے ہاتھوں ختم ہونے دیا؟ یا ہجرت کو سبیل بنایا اور اس حکمت عملی کے مزید آٹھ سال بعد اسباب و افراد کی تیاری کے بعد مکہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کو سربلند (علیا) کرنے کے ہدف تک پہنچایا۔

ہجرت ایک حکمت عملی اور ایک سبیل تھی۔ اس آیت مبارکہ میں سمجھایا جارہا ہے کہ تحریک اسلامی کو چاہیے کہ اخلاصِ نیت اور ہدف کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر، مستقل مزاجی اور صبرواستقامت سے جادۂ حق پر قائم رہتے ہوئے ایک سے زائد راستے اللہ کی ہدایت پر تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو جو اپنا رُخ اس کی طرف کردیں (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ …) ’راستے‘ دکھاتا ہے۔ ان راستوں کو اختیار کرنا ہی مجاہدہ اور جہاد ہے۔ جہاد کی افضل ترین شکل کو قیامت تک کے لیے نفس اور مال کے ہدیے سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن و سنت یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کھلے ذہن، واقعات کے تجزیے اور ترجیحات کی روشنی میں مختلف حکمتوں اور متبادل راستوں پر غور کریں۔

تبدیلیِ قیادت جہاں ایک ہدف ہے، وہیں ایک راستہ اور حکمت عملی بھی ہے۔ اسی بنا پر سورئہ حج میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (الحج ۲۲:۴۱)۔گویا حصولِ اقتدار بذاتِ خود کوئی حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ امربالمعروف، نہی عن المنکر اور نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے نفاذ کا ذریعہ ہے۔ اگر اللہ کے دین کو مکمل طور پر قائم کرنا تحریکاتِ اسلامی کا مقصد ہے تو انھیں سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ طویل، صبر آزما دور سے گزرنا ہوگا اور اس جہاد کے بعد جب اقتدار حاصل ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو ہر شعبۂ حیات میں بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔

سورۂ عنکبوت کی مندرجہ بالا آیت میں چار نکات ہمارے لیے زیادہ قابلِ غور ہیں:

اوّلاً: نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کی شرطِ اول خلوص نیت ہے، نہ اپنی ذات کو نمایاں کرنا، نہ یہ سمجھنا کہ کوئی فرد تنہا نجات دہندہ ’مہدیِ موعود‘ اور ’مسیحا‘ بن کر اقتدار سنبھالتے ہی چھڑی گھماکر انقلابی تبدیلیاں لے آئے گا۔ تمام جدوجہد اور جہاد کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہی ہو، اپنی ذات، حتیٰ کہ جماعت کو بت نہ بنا دیا جائے بلکہ ہر سرگرمی کو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وابستہ کر دیا جائے۔

دوسری بات یہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ ’مجاہدہ‘ میدانِ جہاد میں بھی ہوگا اور معیشت وسیاست اور معاشرت کے میدان میں بھی۔ گویا جہاد کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سامنے رکھنا ہی قرآن کریم کا مطلوب ہے۔ تیسرا اہم پہلو جو اس سے وابستہ ہے، یہ ہے کہ اس جہاد کے راستے پر چلتے وقت خلوصِ نیت سے جو قدم اُٹھایا جائے گا، اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو ’راستے‘ اور سبیلیں سجھائے گا۔ ضرورت، زمینی حقائق اور ترجیحات کی روشنی میں ایک سے زائد حکمت عملیاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے نتیجے میں سوچنی ہوںگی اور وسیع تر مصلحتِ عامہ کے دائرے میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

تحریکی کارکنوں کے لیے خصوصاً یہ بات سوچنے کی ہے کہ قرآن کریم کس طرح ایسے مراحل کے لیے جب ہم یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو دعوتی یا سیاسی حکمت عملی ہم نے سوچی تھی وہ کام کیوں نہیں کررہی، مطلوبہ نتائج کیوں ظاہر نہیں ہو رہے، سُستی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے تمام مواقع پر جہاں مایوسی اور جمود کا امکان ہوتا ہے، ہمیں اللہ پر اعتماد کے ساتھ نئے راستے تلاش کرنے کی ہدایت کرتا ہے،۔ گویا جو تحریکات اپنی کسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے میں تردد و تکلف کرتی ہیں وہ قرآن کی اس ہدایت کے خلافِ عمل کرتی ہیں۔ ہم نے تیونس کی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کی طرف اس بنا پر اشارہ کیا ہے کہ وہ اُس دور سے گزری جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ یہی شکل مصر میں رہی جس پر ہم اس تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

چوتھا اہم پہلو جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا قدم قدم پر رہنمائی کرنا اور اپنے ’محسن‘ بندوں کو تنہا نہ چھوڑنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ملجا و ماویٰ، ان کا  حقیقی سہارا، ان کی حتمی اُمید اگر کوئی ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ تعلق اور اس کی نصرت و مدد کی طلب ہے۔ ’مجاہدہ‘ دستوری جدوجہد ہو یا میدانِ کارزار میں سرگرمی، پُرامن حکمت عملی ہو یا عسکری منصوبہ بندی، حکمت عملیاں مختلف ہوسکتی ہیں اور بعض بظاہر ایسی بھی ہوسکتی ہیں جنھیں مداہنت (compromise) سے تعبیر کیا جائے گا لیکن تحریک کی زندگی اور کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد راستوں (options) اور سبیلوں پر کھلے ذہن کے ساتھ آمادہ رہے اور کسی ایک حکمت عملی کی شکار اور اس کی مقید نہ ہوجائے۔

تیونس کے حالیہ انتخابات میں ایک دل چسپ اور قابلِ غور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ ایک ایسی جماعت اریدھا یا پٹشن پارٹی، جو تیونس میں کوئی شہرت نہیں رکھتی تھی، جس کا بانی اور قائد ہاشمی حمدی لندن سے ایک سیٹلائٹ ٹی وی چلاتا ہے، اس جماعت کو بھی ۱۳ فی صد نشستیں صرف  اس بنا پر مل گئیں کہ اُس نے اپنے علاقے کے مفلوک الحال عوام سے فوری طور پر معاشی آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ گویا انتخابی حکمت عملی کا درست ہونا، عوام الناس کے مسائل سے وابستہ ہونا اور مناسب اندازمیں رُوبہ عمل لانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور ایک غیرمعروف جماعت بھی صحیح حکمت عملی کی وجہ سے اچھی خاصی نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔

اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی کے لیے آگے بڑھنے اور عوام الناس میں موجود تبدیلی کی خواہش کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے امکانات بے حد روشن نظر آتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ایک سے زائد سیاسی حکمت عملی سوچ سمجھ کر وضع کی جائیں اور خود اپنے بازوئوں کو مضبوط کرکے اپنے وسائل اور انسانی قوت کا صحیح استعمال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے تبدیلیِ قیادت اور نظامِ اسلامی کا قیام کوئی مشکل کام نہیں۔

اس عمل میں جو بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ اس بات کا اعادہ ہے کہ ہمارا مقصد کیا صرف سیاسی قوت کا حصول ہے یا تبدیلیِ قیادت، نظامِ ظلم، نظامِ تفریق اور بدعنوانی کی جگہ نظامِ حق، نظامِ عدل اور قانون کی بالادستی ہے۔ اگر ہمارا نقطۂ آغاز دین حق اور نظامِ عدل کا قیام ہے تو پھر ہمیں اپنی نظریاتی اساس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ تربیت ِ کردار اور ان صفات کے پیدا کرنے پر خصوصی توجہ کرنی ہوگی، جو تبدیلیِ قیادت کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں طویل المیعاد اور قریب المیعاد اہداف میں فرق کرتے ہوئے اسی مناسبت سے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔

قرآن کریم نے تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کو بار بار ہمارے سامنے رکھا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے کہ آپؐ نے اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ، دعوت اور دین کو اختیار فرمایا اور تبدیلیِ قیادت کے ذریعے کفروظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و حق پر مبنی اسلامی ریاست قائم فرمائی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت کے حوالے سے قرآن کریم کا فرمان ہے: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے۔ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے۔ ابراہیم ؑتو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اُس سے کہا: ’مسلم ہوجا‘ تو اس نے فوراً کہا: ’مَیں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا‘۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑاپنی اولاد کو کرگیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔ پھر کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم    اس ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے الٰہ مانا، ہم اس کے مسلم ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۳۰-۱۳۳)

ان آیاتِ مبارکہ میں تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے خصوصی ہدایات ہیں:

اوّلاً: دین اصلاً اسلام ہی ہے جس کی تعلیم حضرت ابراہیم ؑ اور ان سے قبل حضرت نوحؑ نے دی (الصفات ۳۷:۸۳) اور جسے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اصل حالت میں ہمارے سامنے عملاً نافذ کرکے دکھا دیا، اس لیے دنیا کے تمام نظام وہ اشتراکی ہوں یا سرمایہ دارانہ، وہ جاگیردارانہ حیلے اور ظلم ہوں یا ساہوکارانہ دھوکے، ان سب کی جگہ اسلام کا نفاذ ہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا پہلا اور بنیادی نکتہ تھا اور یہی تحریکِ اسلامی کی دعوت ہے۔

اسلام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرست معیشت، قوت واقتدار کی ہوس والی سیاست، اور برادری اور ذات پات والی معاشرت ان سب کی جگہ اللہ کی بندگی والی سیاست، حلال پر مبنی معیشت اور حقوق و فرائض اور عفو ودرگزر اور محبت پر مبنی معاشرت کا قیام تحریکِ اسلامی کا مقصد ہے۔ یہی دعوتِ ابراہیمی ؑہے۔ یہی اسوئہ محمدیؐ ہے۔

دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور بعدکے انبیاؑ کی طرح تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ہرمتفق پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دین کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کرے کہ مرتے وقت اولاد بھی اسلام پر عامل رہنے اور جھوٹے خدائوں کو اختیار نہ کرنے کی شہادت دے سکے گی۔ یہ جھوٹے خدا قومیت، لسانیت، برادری، ذاتی مفاد اور غیراللہ سے اُمیدیں باندھنا، اور وقتی طور پر اُبھر آنے والی بیرونی قوتوں کو اپنا سہارا ماننا ہے۔ اہلِ ایمان کا واحد سہارا  اگر کوئی ہے تووہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک، مالک الملک ہے اور وہی اپنے بندوں کی مدد کرسکتا ہے۔

تیسری بات ہمارے سمجھنے کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے اسوے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال ہے جو قیامت تک کے لیے ایک نمونہ اور آیت بنا دی گئی ہے، یعنی  ذبحِ عظیم، اس پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہم نے نہ صرف عیدقربان کے موقع پر بلکہ ہر امتحان کے موقع پر اپنی کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کیا ہے اور کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کرنے پر آج آمادہ ہیں۔ یہ محبتیں اولاد کی ہوں، اہلِ خانہ کی ہوں، مال کی ہوں، صاحب ِ اختیار افراد سے قربت کی ہوں، ذاتی مفاد کی ہوں یا خودساختہ احتراموں کی ہوں، ان سب محبتوں کو صرف اور صرف اللہ کی بندگی کے عوض قربان کرنا ہوگا۔ جب تک ان پرتیز چھری نہ پھیری جائے، جانور کی قربانی محض خون کا بہانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔ اسے تو صرف وہ بندگی،      وہ اطاعت، وہ سپردگی، وہ ادا پہنچتی ہے جس میں ہرعمل کا مقصد صرف اس کی خوشی ہو۔

ابوالانبیا ؑ کے اسوے میں ہمارے لیے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے، مستقیم بندے کو جو مقامِ امامت دیا اور اس نیک بندے کے ذریعے جو تبدیلیِ قیادت عمل میں آئی اس کے لیے اسے بھی آزمایش سے گزرنا پڑا۔ ’’یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا تواس نے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۲۴)

کیا تحریکِ اسلامی اور اس کے کارکن واقعی ایسی آزمایشوں سے گزرچکے ہیں کہ    تبدیلیِ قیادت کا وعدہ پورا کر دیا جائے اور اقتدار کا انعام، زمین پر خلافت کی صورت میں عطا کردیا جائے، یا ابھی آزمایش سے مزید گزرنا ہوگا کہ وہ منزل جس کا وعدہ ہے، آنکھوں کے سامنے آجائے؟

آج ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اگر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو وہ اس یقین میں اضافہ کرتے ہیں کہ عالمی طور پر لادینی قوتوں کا دور ختم ہورہا ہے اور ان معاشروں میں بھی جہاں بظاہر فواحش کا دور دورہ تھا، وہ خاموش اکثریت جو کل تک بے اثر تھی، ایک فیصلہ کن قوت میں تبدیل ہوگئی ہے اور استحصالی نظام کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ صبحِ نو جس کے انتظار کی طوالت نے اُمت ِمسلمہ میں عارضی مایوسی پیدا کر دی تھی، نگاہوں کے سامنے ہے۔ قومیت و عصبیت کے جھوٹے خدائوں کی جگہ مالکِ حقیقی کا حکم اس کی زمین پر نافذ ہونے کا وقت آگیا ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنان، رب کریم کے ان بندوں کے لیے جنھیں سورئہ عنکبوت میں ’محسنین‘ کہا گیا ہے، یعنی وہ جو اپنے رب کی اطاعت میں احسان، حُسن و اتقان اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ یاد دہانی موجود ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تبدیلیِ نظام، تبدیلیِ قیادت اور نفاذِ شریعت کے لیے مسلسل جہاد کو اپنا شعار بنانے کے ساتھ زمینی حقائق کے پیشِ نظر، وسیع تر تحریکی اور دینی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ ایک سے زائد حکمت عملی پر    غور کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ وسیع تر تحریکی مصالح کے پیشِ نظر طویل المیعاد اور قریب المیعاد منصوبہ بندی وضع کرنے کے لیے اجتہادی طریقہ اختیار کریں۔ تحریکاتِ اسلامی دراصل اجتہادی تحریکات ہیں، جو دین کے بنیادی مقاصد اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر دور میں نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا مسلسل جہاد انھیں اُس قوتِ ایمانی سے نوازتا ہے جو مشکلات کے پہاڑوں سے نہ گھبراتی ہے، نہ مایوس ہوتی ہے اور نہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑتی ہے۔ اس کے کارکنوں کا اعتصام باللہ انھیں اپنے رب کے قریب ہونے کا مسلسل احساس دلاتا ہے اور آخرکار ان کی جدوجہد کا انجام کلمۃ اللہ کے سب سے زیادہ بلند ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

مصر میں انتخابات کے پہلے دور کے نتائج نے مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں، مسلم دنیا کے لادین عناصر، اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ ممالک کو ان زمینی حقائق سے روشناس کردیا ہے جن کو دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ تقریباً ۶۰برس سے مصر پر مسلط لادین عناصر اپنی تمام تر سیاسی حکمت ِعملی، عارضی فوجی کونسل کی حمایت اور مغربی ممالک کی ’نیک خواہشات‘ کے باوجود ہرمحاذ پر ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں ۶۰برس سے جبروتشدد اور ظلم واستحصال کا نشانہ بننے والی تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے، ان مقامات پر بھی جو قدرے اباحیت پسند شمار کیے جاتے ہیں اور جہاں پر شہری آبادیاں بظاہر دینی معاملات میں کچھ زیادہ روشن خیال شمار کی جاتی ہیں، کامیابی سے ہم کنار کیا۔ نہ صرف تحریکِ اسلامی کو بلکہ غلو کی طرف مائل سلفی اُمیدواروں کو بھی قابلِ ذکر نمایندگی حاصل ہوئی۔

انتخاب کے تینوں مراحل کے نتائج اب آگئے ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق حزب الحریہ والعدالہ (Freedom & Justice Party) کو جو اخوان المسلمون کا سیاسی محاذ ہے، کُل ووٹوں کا ۴۶ فی صد حاصل ہوا ہے، اور اس طرح ۴۹۸ کے ایوان میں ان کو الحمدللہ ۲۳۰ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں اور ۹ کی مزید توقع ہے (یہ ان ۱۸ نشستوں کے سلسلے میں ہیں جن کا انتخاب دوبارہ ہو رہا ہے)۔ سلفی تحریک کے سیاسی محاذ حزب اللہ کو ۲۳ فی صد ووٹ اور ۱۱۳ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام پسند قوتوں کو دو تہائی ووٹ (۶۹ فی صد) کی تائید حاصل ہے۔

یہ تناسب نہ صرف مصر کے لادین عناصر بلکہ خود یورپ اور امریکا کے دانش وروں کے لیے ناقابلِ یقین تصور کیا جارہا تھا۔ اسرائیل جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے مصر کو عملاً اپنا حلیف سمجھتا رہا ہے، اسلامی عناصر کے اُوپر آنے سے سخت مضطرب ہے کیونکہ تحریکِ اسلامی کا فلسطین کی آزادی پر موقف ۱۹۴۸ء سے آج تک اسرائیل کی آنکھ کا سب سے بڑا کانٹا رہا ہے۔ مصر میں تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کا وجود میں آنا اور ایک مناسب سیاسی حکمت ِعملی کا وضع کیا جانا دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مشن اور مقصد حاکمیت ِالٰہی کے قیام کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے ایک ہمہ جہتی نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام دلوں کی تائید اور انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی کے تمام اداروں کی کارکردگی کے ساتھ خود سیاسی قوت کے تعمیری استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ دعوت و اصلاح کا عمل جہاں فرد اور ْخاندان کی اصلاح کرتا ہے وہیں معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عملی طور پر شریعت کے کُلی نظام کے نفاذ کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ سیاسی حکمت ِعملی اس کُلی عمل کا ایک لازمی عنصر ہے۔

۸۳برس تک مسلسل جدوجہد کرنے، سخت آزمایشوں اور ابتلا سے گزرنے اور تقریباً ۵۸برس تک جابرانہ حکومتوں کے کالے قانون کے زیراثر غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود مصر میں تحریکِ اسلامی کا اُبھرنا، جہاں دعوت کی صداقت کی دلیل ہے وہاں قرآن کریم کی اُس پیش گوئی کی عملی تعبیر بھی ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم انھیں اعلیٰ انعامات سے نوازیں گے۔ یہ جہاد فکری، اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی بھی اور ضرورت پڑنے پر عسکری بھی۔ البتہ تحریکاتِ اسلامی کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں جہاد کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے۔

مصر کے حوالے سے جو تجربہ کیا گیا اسے اختصار کے ساتھ چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

  • جدید تشخص کی تعمیر: ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کے جہاد فلسطین میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے اور بعد میں جمال عبدالناصر کے جابرانہ دور میں ’تخریبی‘ اور ’جہادی‘ تحریک کا نام دیے جانے کے نتیجے میں نہ صرف عرب دنیا، بلکہ مغرب میں اخوان المسلمون کو ایک ’انتہاپسند‘ اور’ بنیاد پرست‘ تحریک کا نام دے دیا گیا، اور ہر قابلِ ذکر علمی تجزیے میں سید قطب شہید اور سید مودودی کے ناموں کو ’بنیاد پرست‘ اور ’مائل بہ عسکریت‘ مفکرین کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔  یہ کام اتنے تواتر سے کیا گیا کہ ایک عام قاری کے ذہن میں اخوان کی تصویر بڑی حد تک وہی بنی جس کی تصویرکشی مغربی میڈیا، سیاست دان اور دانش ور کر رہے ہیں۔ اس کی قریبی مثال پاکستان کے تناظر میں جہادکشمیر پر جماعت اسلامی پاکستان کے موقف سے دی جاسکتی ہے۔ ایک خفیہ ایجنسی کے نمایندے کے ایک نظری سوال کے جواب میں جو اصولی بات مولانا مودودیؒ نے بیان کی اسے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک فتنہ کھڑا کردیا گیا، اور اسے اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس شاطرانہ پروپیگنڈے کے زیراثر آگئے۔ ایسے ہی قیامِ پاکستان کے حوالے سے ایک احراری رہنما کے قائداعظم محمدعلی جناح پر تبصرے کو مولانا مودودی سے منسوب کر کے     سفید جھوٹ کو ایک شبہے کی شکل دے دینا بھی ابلاغِ عامہ کے کمالات میں سے ایک ہے۔

بالکل اسی طرح اخوان کی تصویر (image) کو مشرق و مغرب میں عسکریت پسند، تشددپسند ، انتہا پسند مشہور کر کے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اخوان المسلمون کے سوچنے سمجھنے والے افراد نے اس تاثر کی اصلاح کے لیے نہ تو مداہنت اختیار کی،نہ جہاد پر کسی معذرت کا اظہار کیا اور نہ اپنی سرگرمیوں کو صرف عقائد و عبادات تک محدود کرنے پر غور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عصرِحاضر کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اصل مشن ’’اللہ ہماری غایت ہے، رسولؐ ہمارے قائد و رہنما ہیں، اور جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ سے انحراف کیے بغیر اپنی تربیتی اور تنظیمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک آزاد سیاسی محاذ کو قائم کیا، جو مقامی اور ملکی مسائل پر عوام کے تعاون سے حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس حکمت ِعملی سے ایک جانب اخوان کے حلقۂ اثر میں وسعت پیدا ہوئی، تو دوسری جانب نیا خون اور نئے چہرے ملک میں اصلاح کے عمل کی خواہش کے ساتھ سامنے آئے، اور نوجوان آبادی کو خصوصاً اپنے آپ کو منظم کر کے قیادت کا فرض ادا کرنے کی تربیت ملی۔

ملکی مسائل میں غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی ترقی کا حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد وہ مسائل تھے جن پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے مقابلے میں وہ مسائل جو کہ بنیادی ہیں لیکن جن سے عوام کی سوچ پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، مرکزِ توجہ نہیں بنائے گئے۔ اخوان کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ  وہ امریکااور اسرائیل کو شدت سے ناپسند کرتے ہیں لیکن سیاسی حکمت ِعملی میں ان کا زیادہ زور جمہوری روایت کا احیا، خواتین کے حقوق کی فراہمی اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر رہا۔

حصولِ مقصد کے لیے حکمتِ عملی بنانے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ جو ترجیحات ۵۰،۶۰برس پہلے طے کی گئی تھیں، ان سے سرموانحراف نہ کیا جائے، بلکہ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے حکمت ِعملی وضع کرنا خود شریعت کا مطالبہ ہے۔ بلاشبہہ مقاصد اور اخلاقی اور روحانی اقدار کے فریم ورک میں نئے حالات کی روشنی میں مسائل کے نئے حل کی تلاش شریعت کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم میں تبدیلی شرعی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس لیے اخوان المسلمون کا اپنے دعوتی اور تربیتی نظام کے ساتھ بطور تحریک اسلامی قائم رہنا اور ایک سیاسی محاذ کا بنانا شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

  • متوازن اور روشن خیال گروہ: سیاسی محاذ نے اپنے بیانات اور طرزِ عمل سے ایک متوازن اور روشن خیال (moderate) گروہ ہونے کا اظہار کیا۔ یہ آسان کام نہ تھا اور نہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے دینی معاملات میں کوئی مفاہمت یا مداہنت کی روش اختیار کی۔ ہمارے سامنے ترکی کی مثال ہے کہ منتخب صدر اور وزیراعظم کی بیویوں کو صرف اس بنا پر کہ وہ اسکارف استعمال کرتی ہیں، عسکری اداروں نے سرکاری تقریبات میں شرکت سے روک دیا لیکن انھوں نے نہ مفاہمت کی، نہ شدت پسندی کا رویہ اختیار کیا۔ نتیجتاً انھیں ترکی میں ماڈریٹ کا نام دیا گیا۔ اخوان نے بھی مصر میں اپنے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے ایمان دار اور دیانت دار افراد پر مشتمل ایک سیاسی محاذ قائم کیا جس نے اپنے آپ کو ایک متبادل اور معتدل قیادت کے طور پر پیش کیا اور جذباتی نعرے بازی اور دھمکیوں کی جگہ ٹھوس فلاحی کاموں پر توجہ دی۔

ترکی میں بھی تحریکِ اسلامی نے اپنا تاثر ایک معاشی اصلاح، اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند رفاہِ عامہ کے کاموں کو اہمیت دینے والی جماعت کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں بہت سے ذہنوں سے وہ خدشات جو مغرب کے منفی پروپیگنڈے سے پیدا کیے گئے تھے، آہستہ آہستہ دُور ہوئے۔ ترکی پر اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر صرف اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بعض اوقات تحریکاتِ اسلامی کو اپنے مقصد، منزل، طریق کار پر پورے اعتماد کے ساتھ ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنی پڑتی ہے جو حصولِ مقصد کے لیے مباح اور ترجیحات میں تبدیلی کی متقاضی ہو۔

  • تشخص کا تحفظ:سیاسی محاذ نے ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کے بجاے    اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے طویل جدوجہد کو فوقیت دی، اور آخرکار ۸۳سال کے بعد اس کوشش اور جدوجہد کے پھل سامنے آئے۔ تحریکاتِ اسلامی کا ایک خاصّہ یہ بھی ہے کہ مؤسسین کے بعد جو افراد جماعت میں شامل ہوتے ہیں، وہ بار بار یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ ہم کب تک بے لوث جدوجہد کرتے رہیں گے، جب کہ مفاد پرست جماعتوں کے قائد ہوں یا کارکن، وہ غیرشفاف ذرائع سے نہ صرف اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے دورِ اقتدار میں ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے صالح اور دیانت دار قیادت کے اُوپر آنے کے امکانات دھندلے نظر آنے لگتے ہیں؟ہمارے خیال میں ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ حضرت عیسٰی ؑکے حواریوں نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا اور حضرت موسٰی ؑکو جب معرکہ درپیش تھا تو ان کی اُمت نے بھی یہی کہا تھا کہ تم اور تمھارا رب جاکر مقابلہ کریں ہم تو یہاں بیٹھے نتائج کا انتظار کریں گے۔ ان سوالات کا اُبھرنا کوئی حیرت کی بات نہیں، جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کی قیادت کا مقصد اور ہدف کا نظروں سے اوجھل ہوئے بغیر حصولِ مقصد کے لیے صحیح حکمت ِعملی کا اختیار کرنا۔

مصر میں تحریکِ اسلامی نے اپنے نظم اور نظامِ تربیت کو برقرار رکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اختیار کی ہے وہ دیگر تحریکات کے لیے غوروفکر کا ایک اہم پہلو نمایاں کرتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو حکمت ِعملی کسی ایک مقام پر کامیاب ہو، بعینہٖ وہی حکمت ِعملی کہیں اور بھی اختیار کی جائے۔ ہاں، اگر زمینی حقائق کا تجزیہ یہ بتائے کہ اس حکمت ِعملی سے حصولِ مقصد میں آسانی ہوگی تو محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ حکمت ِعملی کسی اور مقام پر کارگررہی،لہٰذا اس کے اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے، مناسب نہیں۔نیز ضروری نہیں کہ ایک مقام کے تجربات کو من و عن دوسری جگہوں پر اختیار کیا جائے۔ مختلف اجزا اور پہلوئوں میں انتخاب اور ترمیم و تصحیح (modification) کا عمل بھی جذب و انجذاب کے اس وسیع ترعمل کا حصہ ہے۔

مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہوں سے جب یہ کہا گیا کہ وہ مصر میں ترکی ماڈل کیوں نہ اختیار کریں، تو ان کا جواب یہی تھا کہ ہم اپنا ماڈل خود تعمیر کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تحریکی ضرورت ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت ایسے معاملات میں کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر کرے اور ایک دوسرے کے تجربات و مسائل سے آگاہی اور استفادہ کرے۔

  • خدشات: مصر میں انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے ساتھ ہی جو خدشات اُبھر رہے ہیں ان پر بھی معروضی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ فوج کی نگران کونسل نے جب انتخابات کا وعدہ کیا تو اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ پارلیمنٹ کو دستور میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہ ہوگا اور دستور کی تدوین کے لیے ۱۰۰؍افراد کی ایک مجلس کام کرے گی، جس میں فوج کو بہت سے حالات میں آخری فیصلے کا حق ہوگا۔ گویا پارلیمان دستورسازی کے معاملات میں بااختیارہوگی بھی اور نہیں بھی۔ اس مسئلے پر تحریکِ اسلامی نے جو موقف اختیار کیا، وہ جمہوریت کی روح کے مطابق ہے، یعنی پارلیمان کو کُلی اختیارات کا دیا جانا اور فوج کو پارلیمان کے ماتحت کام کرنا ہوگا۔ فوجی کونسل اور اس کے سربراہ جو ۳۰ برس سے حسنی مبارک کی زیرسرپرستی کام کرتے رہے ہیں، اپنے اختیارات کو یوں ہاتھ سے جاتا دیکھ کر کیسے خوش ہوسکتے تھے۔ چنانچہ آزادی کے چوراہے (تحریر اسکوائر) میں اس حوالے سے انتہائی کامیاب مظاہرے کیے گئے جن کو فوج نے تشدد کے ذریعے ختم کرنا چاہا اور مظاہروں میں شریک خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔ انھیں زدوکوب کیا گیا اور بعض کے کپڑے چاک کرکے بے پردہ کیا گیا۔ اس واقعے پر مشہور ایٹمی سائنس دان محمد البرادی نے سخت احتجاج کیا۔  گو، البرادی کا تعلق روشن خیال مغرب زدہ افراد میں کیا جاتا ہے لیکن ایسے افراد بھی فوج کے جبروتشدد پر احتجاج کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ فوج کا یہ اقدام اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ فوج انتخابی نتائج سے خائف ہے اور کسی بہانے اپنے اختیارات کو مزید توسیع دینا چاہتی ہے۔ یہی اندرونی کش مکش امریکی قیادت کو درپیش ہے۔ ایک جانب وہ حسنی مبارک کی جگہ ایک نیا چہرہ اقتدار پر فائز دیکھنا چاہتی ہے، ساتھ ہی ملک گیر تحریک جمہوریت کی مخالفت بھی نہیں کرسکتی اور اس جمہوری تحریک کے زیراثر جو اسلامی عناصر سیاسی محاذ پر اُبھر کر آرہے ہیں، ان کا آنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
  • حکمتِ عملی کی بنیادیں: اخوان المسلمون کی طویل حکمت ِعملی کو تین نکات میں اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:

اوّلاً، گذشتہ ۸۳برس کے عرصے میں اقامت ِدین کی جدوجہد میں نظامِ تربیت کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو اپنے مقصدحیات کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن کا تعلق زندگی کے ہرشعبے سے ہو۔ چنانچہ ڈاکٹر، انجینیر، اساتذہ، تاجر، قانونی ماہرین اور کسان، ہرہرطبقے میں دعوت کے نفوذ کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے کے لیے متبادل قیادت اور ایک ایسی افرادی قوت کی تیاری جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہو،اخوان کی حکمت ِعملی کا حصہ رہی۔

ثانیاً، نوجوان نسل میں اسلامی فکر کا احیا اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی حکمت ِعملی۔ اس غرض کے لیے دعوت کے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے ساتھ عوام تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اس جماعت کے افراد ایمان داری، حق پرستی اور مستقل مزاجی اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ملک میں امن، عدل، تعلیم اور معاشی خوش حالی چاہتے ہیں۔ اخوان کے دفاعی اور تعلیمی ادارے اور اجتماعی زندگی میں، syndicates میں ان کی مؤثر کارکردگی نے قوم میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ ان کے ذریعے دیانت دار اور اہلیت کی حامل قیادت برسرکار آسکتی ہے۔یہی وہ عنصر ہے جو اخوان کے سیاسی محاذ کے طور پر حالیہ واقعات میں اُبھر کر سامنے آیا اور جس پر مصری عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔

ثالثاً، تحریک اور اس کے سیاسی محاذ میں قریبی ربط کے باوجود ایک فاصلہ رکھنا تاکہ    عملی معاملات میں اصولوں سے انحراف نہ ہو، اور سیاسی مہم میں پیش آنے والے بعض معاملات میں سیاسی محاذ کو رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ یہ احتیاط اور توازن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تحریک کے مرکز قوت پر اس کے دیگر اعضا میں عدم تعاون کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔

اس پورے عرصے میں اخوان المسلمون نے اپنی امریکا مخالف پالیسی میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی، لیکن اپنے دروازے امریکا کے اہلِ فکر کے لیے بند بھی نہیں کیے۔ یہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر اخوان کے بارے میں جو تاثر پہلے ہی سے قائم کرلیا گیا تھا، اس میں ان کا غیرجمہوری اور تشدد پسند ہونا مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اور تحریک کے نئے تشخص میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جمہوری ذرائع سے اسلام کی عظمت چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اخوان کی مذاکراتی (dialogue)پالیسی کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔

  • تحریکِ اسلامی پاکستان کے لیے غور طلب پھلو: پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کا دستور اور اس کی گذشتہ ۷۰سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ اسلامی انقلاب کے لیے دستوری ذرائع ہی کو درست سمجھتی ہے۔ گو، اپنی پوری سیاسی تاریخ میں صرف ایک موقع پر دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے تحفظ اور جمہوری نظام کے قیام کی غرض سے بمشکل چند ماہ ایک ایسی حکومت میں شامل ہوئی جس کا سربراہ فوجی تھا، اور جیسے ہی اندازہ ہوا کہ اس مقصد کے حصول میں رکاوٹیں ہیں، وہ قومی اتحاد کی حکومت سے الگ ہوگئی، جب کہ بقیہ سیاسی جماعتیں جو اپنی پاک دامنی کا دعویٰ کرتی ہیں ایسی اخلاقی جرأت کے اظہار میں ناکام رہیں۔

بظاہر تین مسائل غور طلب ہیں: کیا اپنے اصولی موقف کے ساتھ تحریکِ اسلامی نے  داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو عوام میں اُمید اور ان کے مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرسکے؟ امریکا کی مخالفت اور ملک کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ملک میں اس کے عمل دخل کو ختم کرنے کی جدوجہد، وقت کی ایک اہم ضرورت ہے،    لیکن ضروری ہے کہ ان اُمور کے ساتھ قوم کو پوری قوت سے ان اُمور پر مرکوز کیا جائے جن کا تعلق ایک عام آدمی کی زندگی سے ہے۔ ایک مزدور اور کسان اور تاجر جن مسائل کا سامنا روزانہ کرتا ہے،   ان کا تعلق اس کی معاشی بدحالی، انرجی کی قلت، قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، غربت، عدمِ مساوات، تعلیم اور صحت سے محرومی، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ سیاسی معاملات میں ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال ہے۔ پاکستان ہویا کوئی اور ملک، آج سیاسی جنگ دراصل ابلاغی جنگ ہے۔ جب تک ایک سیاسی جماعت کو ابلاغِ عامہ میں مرکزی مقام حاصل نہ ہو، اپنی تمام تر تنظیمی، افرادی اور اخلاقی قوت کے باوجود وہ عوام کی نگاہ میں ایک سیاسی جماعت تو رہتی ہے لیکن جیتنے والی جماعت کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ ابلاغی جہاد کو جب تک مرکزیت حاصل نہیں ہوگی علمی و فکری اور سیاسی و رفاہی کام کے اثرات معاشرے میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ نیز ابلاغ کے میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں گذشتہ تین چار عشروں میں ہوئی ہیں اور   جن میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، ان سب کا مؤثر استعمال ہماری جدوجہد کی کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے۔

تیسرا اہم مسئلہ عوامی سطح پر متعین طور پر ایسے مقامات کا انتخاب جہاں پر تحریک سے وابستہ افراد نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو، اور ان مقامات سے ایسے بااثر افراد کا منتخب کرنا جن کی ساکھ ایک ایمان دار شخص کی ہو، اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہوں، کو سیاسی محاذ پر متعارف کرانا اور ان سے مسلسل رابطے کے ذریعے ان کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ راے عامہ کے آزادانہ جائزے ( polls) کے ذریعے عوامی رجحانات کا اندازہ کرنے کے بعد حکمت ِعملی وضع کی جائے۔ گو، تحریکی ذرائع سے ملنے والا فیڈبیک بھی اہمیت رکھتا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے آنے والی معلومات بعض اوقات غیرمتوقع طور پر اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی اور اس کے نفاذ کے مدارج کو واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ تمام عناصر یک جا ہوں اور متوقع اہداف کے حصول میں آسانی پیدا ہوسکے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کے راستے پر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ بلاشبہہ اس کی نصرت کے بغیر کوئی حکمت ِعملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنo (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنّا کرو گے وہ تمھاری ہوگی،  یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔

۸ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل مصری عوام، فوجی آمرحسنی مبارک کے ۳۰سالہ جابرانہ دور کے عوامی قوت کے ذریعے خاتمے کے باوجود اپنے خوابوں کی تعبیر کے منتظر اور نام نہاد سپریم کونسل کی شاطرانہ چالوں کا ہدف ہیں۔ حسنی مبارک کی جانشینی ان فوجی سربراہوں نے اختیار کی جن کی اپنی سلامتی حسنی مبارک سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے میںتھی، اور جو ہوا کے رُخ کو دیکھ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ اب حسنی مبارک کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وہ معصوم چہرے کے ساتھ عوامی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے اور مصری انقلابی نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ چند ہفتوں میں اقتدار عوام کے حوالے کردیںگے۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ عموماً اسی عہد کے ساتھ پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں بعض نام نہاد نجات دہندہ     سامنے آئے ہیں اورپھر سالہا سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد بھی بخوشی کرسی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔

مصر کے تناظر میں جہاں فوج حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور میں معاشی اور سیاسی فوائد سے فیض یاب ہوتی رہی، وہیں فوج کی تربیت اور اس کی فکری رہنمائی امریکی حکومت کے ہاتھ میں رہی۔ اس بنا پر فوج کی اعلیٰ اور درمیانہ قیادت امریکا کی پروردہ ہونے کے سبب امریکا نواز تسلیم کی جاتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کو جس میں اس نے سپریم کونسل سے کہا ہے کہ وہ    جلد اقتدار کی منتقلی کی کارروائی شروع کرے، اگر بغیر کسی پس منظر کے پڑھاجائے تو بہت جمہوریت پسندانہ نظر آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری عوام امریکا کے مصر میں عمل دخل کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔  چونکہ فوج امریکی حکومت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس لیے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کا اصل مقصد خود اپنی صفائی پیش کرناہے کہ امریکا فوجی کونسل کے مستقل طور پراقتدار پر قابض رہنے کی حمایت نہیں کرتا۔ گو حقیقتاً یہ امریکا ہی تھا جس نے ۳۰سال حسنی مبارک کی اندھادھند حمایت کی، اور جہاں کہیں بھی فوجی یا غیر فوجی آمر مسلم دنیا میں اقتدار پر قابض ہوئے امریکا نے ہمیشہ ان کی حمایت اور سرپرستی کا نیک فریضہ جمہوریت کے وظیفے کے ساتھ جاری رکھا ہے۔

عوامی موقف

جہاں تک عوام کے تاثرکا تعلق ہے وہ خود مغربی ذرائع کے مطابق واضح طور پر اسلامیان (Islamists) کے حق میں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار کے مطابق ۸۰ فی صد عوام اخوان المسلمون کو پسند کرتے ہیں اور اگر آج غیر جانب دار انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کامیاب ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ کی ۴۹۸ نشستوں کے لیے تقریباً ۶ہزار اُمیدواروں کو میدان میں آنا ہے۔ ملک کی زرعی علاقوں اور دیہاتوں کی آبادی روایتی طور پر اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اگر اسے بغیر کسی دھاندلی اور دبائو کے ووٹ کا حق دیا جائے تو اسلامی جماعتوں خصوصاً اخوان المسلمون کو ووٹ دے گی۔ اخوان نے ۱۹۲۸ء سے عوامی سطح پر کام کیا ہے، عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہر دور میں آمروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے عزم و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو دیہاتوں اور شہروں میں ہرجگہ بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔

آج بھی اخوان کے رہنما عدل و حریت کا علَم لے کرمیدان میں آئے ہیں اور اپنے روایتی شعار کی جگہ نئی سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل روٹی، روزگار، پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اہم بنیادی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنارہے ہیں۔ نتیجتاً مصر کی آبادی کا بڑا حصہ مصر میں اسلامی عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی بحالی کے لیے اخوان کے موقف کی تائید کرر ہاہے۔ یہ امر امریکی حکومت کے لیے بہت اضطراب اور فکرمندی کا باعث ہے۔ گو وہ عرصے سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ غیرسرکاری طور پر اخوانی رہنمائوں سے رابطہ رکھے لیکن اس کی اپنی ترجیح فوجی یا نیم فوجی قیادت کے دوبار ہ آجانے میں ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد سے معاملہ طے کرتا ہے، جب کہ عوامی نمایندوں کی حکومت کی شکل میں اس کے لیے اتنی تعداد میں افراد کا خریدنا اور انھیں امریکی مفاد کی حمایت پر قائم رکھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ظاہری طور پر امریکی حکومت عوامی خواہش کواچھی طرح جاننے کے باوجود کوشش کرے گی کہ اسلامی قوتوں کے درمیان آپس میں مقابلہ ہوکر ووٹ تقسیم ہوجائیں اور سیکولر اور سوشلسٹ ذہن کی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہو اور اس طرح اسلامی قوتوں کو واضح اکثریت نہ مل سکے۔

تیونس میں بھی امریکی حکمت عملی یہی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہاں تحریک اسلامی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عشرے میں جو بظاہر تحریکاتِ اسلامی کا عشرہ نظرآرہا ہے، مصر میں حالات جس رُخ پر جارہے ہیں اس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شاء اللہ اخوان المسلمون مناسب اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ گو مصر کی قبطی عیسائی آبادی جو اندازاً ۱۰ فی صد بتائی جاتی ہے اسلامی تحریک کی کامیابی کی مخالفت کرے گی ۔ نہ صرف عیسائی بلکہ بعض آزاد خیال مسلمان بھی تحریکاتِ اسلامی کے بارے میں یہ غلط تصور رکھتے ہیں کہ یہ ’قدامت پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ماضی میں بسنے والی جماعتیں ہیں۔ حقیقت حال بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کی بڑی تعداد ان افراد پر مبنی ہے جو مغرب کی اعلیٰ درس گاہوں سے انجیینرنگ، میڈیکل سائنسز، عمرانی علوم اور دیگر شعبہ ہاے علم میں اعلیٰ سندات لے کر مصروفِ عمل ہیں۔ اخوان کے رہنما عصام العریان نے اپنے حالیہ بیان (۱۷نومبر ۲۰۱۱ء) میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت اور جمہوری ذرائع پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں انھیں تسلیم کریں گے۔ انھوں نے مزید یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت حقوقِ انسانی کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اخوان کے زیراثر جو سیاسی جماعت میدان میں ہے اس کا ایک نائب صدر ایک عیسائی قبطی ہے۔

دوسری جانب مصر کی فوجی سپریم کونسل عوامی انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات تو ہو جائیں لیکن فوج کو فیصلہ کن مقام حاصل رہے۔ اس کے لیے اس کا اصرار ہے کہ اصل فیصلے فوج کی اعلیٰ قیادت کرے، چنانچہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ  پارلیمنٹ کے ۱۰۰ نمایندوں پر مبنی ایک کمیٹی بنے گی جو ملک کے نئے دستور کومرتب کرے گی جس میں دستوری طور پر سپریم کونسل کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا!

گویا اس جمہوری جدوجہد اور قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد بھی وہی ڈھاک کے تین پات! فرق صرف یہ ہے کہ حسنی مبارک کی جگہ فیلڈمارشل طنطاوی اور اس کا ٹولہ ملک پر قابض رہے اور پارلیمنٹ محض ایک غیرمؤثر عوامی نمایندوں کے ادارے کے طور پر کام کرتی رہے۔ اس بات کا اظہار مصر کے معروف اخبار الاھرام کے تجزیہ نگار عماد جاد نے بھی کیا ہے کہ مصر کے عوام کی ۵۰فی صد آبادی اس امر پر متفق ہے کہ مصری سپریم کونسل انقلاب کو ناکام بنانے اور اس کی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس بنا پر انتخابات کا عمل شروع کرانے اور اقتدار منتقل کرنے میں شعوری طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ۲۰۱۳ء تک یہی کونسل حکمران رہے گی۔

نیوزویک کے تبصرہ نگار نے مصری عوام سے براہِ راست انٹرویو کرنے کے بعد جو راے قائم کی ہے وہ بھی ہمارے لیے غور کے زاویے فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کو بعض حلقے ’سلفی‘ کہہ کر ان کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے اپنے تجربے کے مطابق جن کو سلفی کہا جا رہا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جو نماز، روزے کی پابندی کے ساتھ عوامی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چنانچہ غریبوں کو طبی امداد کی فراہمی اور غریبوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے اور دیہی آبادی میں غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔

ا س کا کہنا ہے کہ ملک کی ایک اقلیت ضرور یہ راے رکھتی ہے کہ حکومت میں اسلام کا   عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام الناس کی بھاری اکثریت جو کُل آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد ہے، قرآنی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لوگ بدعنوانی، بے ایمانی، حکمرانوں کی نفسا نفسی اور اپنی ذات کے لیے ہرکام کرنے کی روش سے تنگ آچکی ہے۔ اب وہ عدل و انصاف چاہتے ہیں اور اس بنا پر اخوان المسلمون کا اپنی سیاسی جماعت کے لیے حریت اور عدل کا اختیار کرنا عوامی جذبات کی صحیح نمایندگی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے لیے غور کرنے کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ انتخابی حکمت کے حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن مسائل کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اندرونی مسائل اور بیرونی مسائل میں ترجیحات کا تعین غیرمعمولی طور پر معروضیت اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔

پاکستان میں تحریکِ اسلامی نے امریکا کی دخل اندازی کی پالیسی کی ہرسطح پر مستقلاً مخالفت کی ہے اور عوامی سطح پر ’بھاگ امریکا بھاگ‘ کے نعرے کو عوامی مقبولیت کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھاجائے تو جماعت کے اس طرزِعمل کا عکس تقریباً عالمی تحریکاتِ اسلامی کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ مصر ہو یا تیونس، تحریکاتِ اسلامی نے امریکی دخل اندازیوں پر مسلم مفاد کے خلاف  بین الاقوامی پالیسی اختیار کرنے پر امریکا کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن کیا اسے الیکشن کا ایشو بنانا عوامی حمایت کے حصول میں مددگار ہوگا یا اس کے مقابلے میں ملک میں بجلی کا بحران، ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے، بے روزگاری، ملکی اداروں کی تباہی، عدلیہ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا، اہم مناصب پر نااہل افراد کی تقرری، ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور عدم تحفظ، فرقہ واریت کا برداشت کیا جانا اور ملک میں کرپشن کا طوفان وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایک عام شہری سے ہے، اور کسی بھی نمایندہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنا مجوزہ حل پیش کرے۔

خارجہ پالیسی کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ focus کا ہے، یعنی وہ چیز جو عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ اسلامی مصر نے سیاسی محاذ پر ایک نئے نام سے جدوجہد کا آغاز کر کے یہ مثال قائم کی ہے کہ تحریک بغیر کسی تضاد کا شکار ہوئے اپنے دستوری اہداف کے حصول کے لیے نیم خودمختار تنظیم یا ادارہ قائم کرسکتی ہے جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ایسے ادارے سے وابستہ افراد تحریک کی اخلاقی اور دستوری پابندیوں سے آزاد تصور کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو تحریک کے سیاسی مقاصد کے حصول میں راے عامہ ہموار کرسکے۔ اس کا یہ مطلب لینا بھی درست نہ ہوگا کہ تحریک صرف تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق کے لیے ہے اور ذیلی سیاسی جماعت سیاسی ہنگامہ خیزی کے لیے۔ نہ اسے کوئی اصولی انحراف کہا جاسکتا ہے۔ تحریکات کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور حرام سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کس طرح حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی پیدا کی جائے۔ اگر کسی ایسی حکمت عملی سے تحریک کی پہنچ زیادہ وسیع دائرے تک ہوسکتی ہے تو ایسا کرنا تحریکی مفاد اور دستور کی روح کے مطابق ہی سمجھا جائے گا۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً دو محاذوں پر مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شریعت کا نفاذ، دوسرا خواتین کی آزادی کا مسئلہ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصولوں سے انحراف کیے بغیر واضح طور پر یہ بات سمجھائی جائے کہ شریعت کے نفاذ سے ہمار ی مراد کیا ہے۔ کیا اسلام کا نظامِ قانون صرف سزائوں پر مشتمل ہے یا اسلامی شریعت دراصل عدل و انصاف کے قیام کا نام ہے۔ اس عدل میں نہ صرف انفرادی طور پر عدل شامل ہے بلکہ ایک فرد کے اپنے نفس کے حقوق کا صحیح طور پر ادا کرنا، اہلِ خانہ کے حقوق کی ادایگی، اعزہ و اقربا اور دوستوں کے حقوق کی ادایگی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہمسایوں اور خصوصاً اہلِ حاجت کے حقوق کی ادایگی معاشرے میں بھلائی کے قیام اور بُرائی کے مٹانے کی کوشش، معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی عدل کا قیام بھی۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں خواتین کو جو حقوق اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے، ان کا نفاذ، ان کی تعلیم، صحت، عزت و احترام، گھر اور معاشرے میں ان کا تحفظ۔ پھر ثقافتی میدان میں عدل کا قیام کہ جن اقدار پر ثقافت کی بنیاد ہے، ان کا فروغ اور جو صفات اسلام ناپسند کرتا ہے، ثقافت سے ان کا خاتمہ۔ غرض عدل و انصاف کا قیام بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر ایک عام شہری کو اس کی زبان میں اس کے معاشرے کی مثالوں کی مدد سے بات سمجھائی جائے تو وہ سب سے بڑا شریعت کا حامی بننا پسند کرے گا۔ اسی طرح خواتین کی آزادی کی حدود، اور ان معاملات میں ان کے حقوق کے لیے جنگ جنھیں ہمارے معاشرے میں برادری، قبیلے کی روایت اور ذات پات کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ ان معاملات پر کھل کر موقف کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے۔

یہ تمام امور انتخابی منشورمیں وضاحت سے آنے چاہییں اور اس کے ساتھ چھوٹے بڑے اجتماعات، ٹی وی پر گفتگو، اخبارات میں بیانات، پمفلٹ اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ آج کی اصل زبان سوشل میڈیا کی زبان ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیکس بُک وغیرہ کے ذریعے پیغامات اور دیگر ذرائع کا استعال ہی ان موضوعات پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرسکتا ہے۔

امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کے ساتھ عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ایسے معاملات میں تعاون کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جن میں مسلمانوں کا مفاد شامل ہو، یا جو آج کے عالم گیریت کے ماحول میں ہرملک کے لیے اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے خود ان ممالک کے بارے میں سوچی سمجھی راے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں ایک طرف اُمت مسلمہ کے مفاد کے خلاف اقدام کا مقابلہ کیا جائے وہیں انسانیت کے مشترکہ مفاد اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے، اور عدل اور مشترکات کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھلا رکھا جائے۔

مصر، تیونس، لیبیا، شام، یمن، کویت، بحرین، غرض مسلم ممالک میں حالیہ صورت حال پر باربار مختلف زاویوں سے غور کرنے اور اس تناظر میں تحریکِ اسلامی کی اپنی حکمت عملی پر تنقیدی نگاہ سے غور کرنا ہی تحریک کے آگے بڑھنے اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی اور مقبولیت میں اضافے کے گہرے نقوشِ نظر آرہے ہیں۔عزم و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ ان حالات کے جائزے کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں نئی صبح کے انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کی تنظیمِ نو کرنی ہوگی۔

 

انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ وہ مایوس، افسردہ،  دل برداشتہ اور نااُمید انسان کے دل میں جو اپنی غلطیوں، سیاہ کاریوں اور گمراہیوں کے سبب ہمت ہار بیٹھا ہو اور مایوسی کے عالم میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو ختم کرنے میں نجات سمجھنے لگا ہو، اُمید اور عفو و مغفرت کی شمع روشن کرتا ہے۔ یوں اس کا اعتماد بحال کرکے اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت کے ذریعے کامیابی کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ تباہی کے گڑھے تک پہنچی ہوئی انسانیت کو ترکِ دنیا، نفس کشی اور عزلت کی جگہ بلندی، کامیابی اور کارزارِ حیات میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تعلیم و ہدایت دیتا ہے۔ یہ ہدایت نظری نہیں بلکہ عملی طور پر اسے نااُمیدی کے اندھیروں سے نکال کر مستقبل کی تعمیر میں سرگرم کردیتی ہے۔ اسلام نام ہے: سلامتی کا، فلاح و سعادت کا، اور دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کا۔

اس کے علی الرغم انسان اپنی محدود نظر، متعین فکر اور محدود تجربے کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات، مصائب اور وقتی آزمایشوں سے پریشان ہوکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جن مصائب کا شکار ہے، ان سے کوئی نجات نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً جب کسی قوم یا ملک کو اس کے قیام ہی سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو جن میں صالح، پُراعتماد اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہو، اور سیاست کار ہوں یا دیگر کارندے، وہ مستقلاً ملک و قوم کے اثاثوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہوں، تو قوم کا سیاست دانوں اور حکمرانوں سے مایوس ہونا ایک قابلِ فہم عمل ہے۔ اگر غیر جانب دار طور پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ایسے حالات سے گزرا ہے جس میں ہرمشکل کے موقع پر بعض حضرات نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بڑی آزمایش اور کیا ہوگی؟ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا اپنے خواب کو ناتمام چھوڑ کر رخصت ہو جانا اور ان کے جانشینوں کا جماعتی سیاست اور جوڑتوڑ میں اُلجھ جانا خود ایک ایسا سانحہ تھا جسے فالِ بد  سمجھا گیا۔ بعد میں پیش آنے والی ہر آزمایش کے موقع پر بعض افراد یہی کہتے رہے کہ اب ملک کا سنبھلنا اور اصلاح کا ہونا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر تاریخ کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو پاکستانی اُمت مسلمہ نے ہر آزمایش اور امتحان کا مقابلہ عزم، ہمت اور جواں مردی سے کیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ ہو یا کشمیر پر بھارت کا قبضہ اور بیرونی ممالک کا دبائو ہو، یا اندرونِ ملک پیدا ہونے والے خلفشار، پاکستانی قوم نے اپنے مالی وسائل کی کمی اور افرادی قوت کے محدود ہونے کے باوجود سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں مشکلات کا سرتوڑ مقابلہ کیا۔ اس عرب دنیا کے مقابلے میں جس میں جو آمر مسلط ہوا وہ ۴۰، ۵۰ برس تک اقتدار پر قابض رہا، پاکستان میں کوئی آمر ۱۰برس سے زیادہ اپنے اقتدار کو باقی نہ رکھ سکا۔ مکمل معاشی بے سروسامانی میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستانی قوم نے اپنی آزادی کے ۱۰سال کے اندر معاشی ترقی کا ریکارڈ قائم کیا، اور جب بھارت کی معیشت سنبھلنے کی ہرکوشش کے باوجود مسلسل بحران کا شکار تھی اور اس کی عدم ترقی کے ریکارڈ کو  ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ کا نام دیا جا رہا تھا، پاکستان کی معیشت سے اوسطاً ۵ سے ۶ فی صد سالانہ کا ریکارڈ قائم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا کی مخالفت اور معاشی اور سیاسی پابندیوں کے گرداب میں گرفتار ہونے کے بعد اپنی ایٹمی صلاحیت کو اس انداز میں ترقی دی کہ دنیا ششدر رہ گئی، اور یورینیم کی افزودگی کا وہ عمل جس کے لیے امریکا نے ۱۰سال کا عرصہ لیا تھا اسے سات، آٹھ سال میں حاصل کرکے دنیا میں اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر منوا لیا۔

اگر صرف اس پہلو پر غور کیا جائے کہ یہ قوم اپنے سائنس دانوں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سبب عوام کی غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن سکتی ہے، تو یہ اس کے باصلاحیت اور پُرعزم ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

پھر ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ آج ملکی صحافت ہو یا برقی میڈیا پر تجزیہ کار اور میزبان سب کی تان جس بات پر آکر ٹوٹتی ہے اس کا نام مایوسی، نااُمیدی اور کسی حل کا نظر نہ آنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو مایوسی اور نااُمیدی گذشتہ ۲۳برس سے مغربی میڈیا پاکستان کے بارے میں پھیلاتا رہا ہے کہ خاکم بدہن یہ ایک ناکام ریاست ہے اور اس کے خیالی نقشے بھی شائع کیے گئے۔ اس بیرونی فکر نے کس طرح خود ہمارے ملک کے صحافیوں اور برقی ذرائع ابلاغ کے ذہنوں کو اپنا ہم آہنگ بنالیا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتاہے عالم گیریت کے زیرعنوان ابلاغِ عامہ کے ذریعے جس فکر کو مغربی حکمت ساز فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے خود ملک کے باشندوں کے اذہان کو متاثر کرتے ہیں، اور پھر ان کے ذریعے جس ملک میں انھیں عدم توازن پیدا کرنا ہو، مایوس کن اطلاعات اور تجزیوں کے ذریعے عوام الناس کو بھی اس نااُمیدی میں مبتلا کردیتے ہیں۔

قرآن کریم کا مطالعہ اس حوالے سے کیا جائے تو اقوامِ سابقہ میں بھی اس مرض کے سرایت کرجانے کے شواہد ملتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ اس مرض کا علاج کس طرح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے انبیاے کرام علیہم السلام کو ہرمرحلے میں شدید آزمایش و ابتلا کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پیروکار عموماً یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ، اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان دو قرآنی الفاظ کی تفصیل تلاش کی جائے تو یہ ایسے مواقع پر استعمال ہوئے جب دین حق پر عمل کرنے والوں کو طاغوت، کفر اور ظلم و استحصال کے نمایندوں نے قوت کے نشے میں کبھی زندہ دفن کیا، کبھی گڑھوں میں ڈال کر آگ میں جلا دیا اور کبھی ان کے جسموں کو آروں سے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

ان انفرادی اور اجتماعی آفات و آزمایشوں سے گزرتے ہوئے اہلِ ایمان یہ سوال کرتے ہیں کہ کب تک ظلم کو برداشت کیا جائے گا؟ کب تک اہلِ ایمان کا خون بہے گا؟ آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جو عدل وانصاف اور حق کے غلبے کا پیش خیمہ ہو؟ سورۂ بقرہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کے لیے ایک سرمایہ فراہم کردیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، اُنھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوںگی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۷)

بات کا آغاز اس ہدایت سے کیا گیاکہ اہلِ ایمان کے صرف دو سہارے ہیں: یعنی صبر اور نماز۔ صبر نہ تو لاچاری کا نام ہے، نہ مایوسی کا، نہ غم و اندوہ سے نڈھال ہونے کا، نہ اُمید کا دامن چھوڑ دینے کا، بلکہ استقامت، پامردی، اُمید، اعتماد و ایمان کے ساتھ رب کریم کی ہدایت پر جم جانے اور ایمان کی بقا کے لیے ہرشے کو بازی پر لگادینے کا نام ہے۔ صابرون اور مجاہدون کا استعمال قرآن کریم نے بطور مترادف کے کیا ہے، یعنی وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد جادۂ حق پر جم جائیں، استقامت اختیار کرلیں۔

اس استقامت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر، ظلم اور طاغوت اہلِ ایمان کو کمزور کرنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ابلیس، جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمایشوں کے صرف تاریک پہلو کو انھیں دکھانا چاہے گا اور اہلِ ایمان کو یہ سوچنے پر اُبھارے گا کہ آخر ہم مسلمان ہیں تو پھر خوف، خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں میں گھاٹے میں کیوں مبتلا کیا جا رہا ہے؟

ان آیات پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کے حالات کے پیش نظر اس وقت نازل ہورہی ہیں جب پاکستانی اُمت مسلمہ روزانہ یہ دیکھتی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پُرامن اور نہتے اہلِ پاکستان کے ان کے گھروں، ان کی جانوں، ان کے مالوں اور ان کی ہر چیز کو تباہ    کیا جارہا ہے۔وہ روز یہ دیکھتی ہے کہ وہ روپیا جو کل تک قوی تھا اپنی قوت کھوچکا ہے اور آمدنیوں میں شدید کمی واقع ہوگئی ہے۔ وہ یہ دیکھتی ہے کہ ملک کے اندر جانوں کا تحفظ اور ملک سے باہر پاکستانیوں کی عزت و احترام، ہرہرمعاملے میں اس کی آزمایش ہورہی ہے۔

اس فکر کا جواب ہدایت ِ ربانی میں دے دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان جو صبر کرنے والے ہیں وہ مصیبت پڑنے پر اپنے آپ کو اپنے رب سے جوڑتے ہیں، اس کی طرف لپکتے ہیں، اس کا دامن تھامتے ہیں، اُس سے مدد طلب کرتے ہیں، اس کے سامنے سربسجود ہوکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور آیندہ ان کا اعادہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اس کی رحمت طلب کرتے ہیں۔

اہلِ ایمان کے اس مبنی بر صبر رویے کا انجام بھی اللہ کی کتاب میں واضح کر دیا گیا:’’انھیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوگی۔ اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے لوگ ہی راست رَو ہیں‘‘۔

آج پاکستان جس پُرآزمایش دور سے گزررہا ہے اس میں بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ قوم اپنے سیاسی رہنمائوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ فوج جو ماضی میں ایک ممکنہ لیکن وقتی حل سمجھی جاتی تھی، وہ بھی فوجی حکمرانوں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے اَدوار کے پیش نظر اپنا وقار کھو چکی ہے۔  دو نام نہاد ’بڑی پارٹیوں‘ کا معاملہ بھی قوم کی نگاہ میں بدتر اور کم بدتر برائی کا ہے۔ پھر اُمید کی کرن کہاں سے روشن ہوگی؟ یہ عجب انسانی نفسیات ہے کہ جب اسے کوئی صدمہ پیش آتا ہے، غم کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس سے وقتی طور پر مغلوب ہوکر سمجھتا ہے کہ بس دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور ہر بات اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اب کوئی اصلاح نہیں ہوسکے گی!

وہ اپنے سامنے کے حقائق کو بھول جاتا ہے یا ابلیس اسے ان کی طرف سے غافل کردیتا ہے اور ان میں مایوسی کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ لغوی طور پر ابلیس بروزن  افعیل اِبلاسٌ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت نااُمیدی کے باعث غمگین ہوکر ششدر و متحیر ہوجانے کے ہیں، جب کہ قرآن کریم انسان کو ہدایت کرتا ہے۔

(اے نبیؐ) کہہ دو، اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اُس کے قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمھیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۵)

ابلیس کا بہترین، اسمِ بامسمّٰی حربہ اہلِ ایمان کو مایوس کرنا ہے اور مایوسی کامیابی، فتح و کامرانی اور حصولِ مقصد کی دشمن ہے۔ قومیں جنگ اسلحے کی کمی یا زیادتی کی بنا پر نہ ہارتی ہیں نہ جیتتی ہیں بلکہ صرف اور صرف اُمید، اعتماد اور اللہ کی مدد پر یقین کے سہارے فتح مند ہوتی ہیں۔ قرآن اہلِ ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف قدم بڑھائیں، اسی کی امداد اور سہارا انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔

اسلام جس اُمید اور اعتماد کی تعلیم دیتا ہے اس کی عملی مثال اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے۔ جس وقت مکہ مکرمہ میں آپؐ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ہر جانب سے مخالفت، مزاحمت اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ آپؐ کے عزیز چچا محبت بھرے انداز سے آپؐ کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ایسے معاندانہ ماحول میں جب کہیں سے روشنی نظر نہ آرہی تھی، آپؐ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر  چاند لاکر رکھ دیں، تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آئوں گا۔ اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود ہی اس پر نثار ہوجائوں گا‘‘ (سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی، ص ۲۲۱)۔ اللہ پر اعتماد، مایوسی کو قریب نہ آنے دینا، اللہ سے کامیابی کی مسلسل مدد طلب کرنا ہی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے۔

اسوئہ حسنہ پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ مشکل ترین مصائب و خطرات کا سامنا کرتے وقت جو کلمات دہن مبارکؐ سے نکلتے ہیں، وہ اُمت کے لیے قیامت تک مشعلِ راہ کا کام دیتے رہیں گے۔ آپؐ ہجرت فرماتے ہیں، راستے میں غار میں آپؐ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ موجود ہیں۔ دشمن آپؐ  کو تلاش کرتا ہوا عین غارکے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر اُمید، نصرتِ الٰہی اور ایمان کا اظہار جن الفاظ سے ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی بھی مصیبت سے سامنا ہو، اسے کسی قیمت پر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے: تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں (حضور نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ) غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔

پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بجلی کے مصنوعی بحران کے باوجود، اس ملک کے پاس ۲۰۰ سال کے لیے توانائی کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ملک دنیا کا دودھ برآمد کرنے والا پانچواں اور پھل برآمد کرنے والا چوتھا ملک ہے۔ اس کی آبادی میں ۶۰ فی صد سے زیادہ ۳۰سال کی عمرکے نوجوان ہیں۔ اس ملک کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ یہ سال کے چار موسموں والا ملک ہے۔ بے شک یہاں کے حکمران نااہل خائن اور بدعنوان ہیں اور حالات ایسے تھے کہ تبدیلی کا امکان نظر نہ آتا تھا، اور عام تاثر یہ تھا کہ فوج کی پشت پناہی رکھنے والے آمر (مشرف) کو کوئی نہیں ہلاسکتا، مگر ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۷ء میں وکلا کی عوامی تحریک کے ذریعے وہ حالات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدالت تو بحال ہوئی مگر مغرور آمر کو ملک سے رخصت ہونا پڑا۔

اس قوم کے نوجوانوں میں اسلام سے جو محبت اور تعلق پایا جاتا ہے اس کا ایک اظہار ۱۵۔۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو لاہور کی جامعہ پنجاب میں منعقد ہونے والا اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا سالانہ اجتماع ہے جس میں ۵۰ہزار نوجوانوں نے پورے ملک سے ایسے حالات میں شرکت کی، جب لوگ لاہور سے دُور رہنے میں اپنی سلامتی سمجھتے تھے۔ یہ نوجوان اُس لاہور میں جمع ہوئے جہاں ہر فرد ڈینگی بخار کے خوف میں مبتلا تھا اور جہاں کسی لمحے بھی تخریبی کارروائی کا امکان ہوسکتا تھا لیکن ان تمام خدشات کے باوجود یہ صالح نوجوان جس عزم اور جس نعرے کے ساتھ جمع ہوئے وہ پوری قوم کے لیے پیغامِ اُمید ہے، یعنی ’’امید بنو، تعمیر کرو سب مل کر پاکستان کی‘‘۔

مشرق وسطیٰ میں واقع ہونے والی عرب بہار (Arab Spring) کی طرح یہ پاکستانی نوجوانوں کی بہار ایسے وقت آئی ہے جب ملک کا ہر باشندہ اشیاے فروخت کی مہنگائی، بجلی و توانائی اور گیس کی نایابی، ڈرون حملوں اور امریکا کی دھمکیوں کی بنا پر خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔ اس  اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس قوم کا لہوگرم ہے، اس میں زندگی اور توانائی ہے، اسے اپنے مقصدِ وجود سے آگاہی ہے اور اس پر فخر کے ساتھ آگے بڑھنے، تعمیر وطن کرنے اور پاکستانی موسمِ بہار کی نوید بننے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اجتماع کے بعد ایک لاکھ نوجوانوں کا لاہور میں پُرامن مارچ قوم کے اعتماد کی بحالی اور خود طاری کردہ مایوسی سے نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

۲۰۱۰ء میں مسلم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو مختلف ممالک میں بڑی مضبوط آمریتیں قائم نظر آتی ہیں۔ تیونس ہو یا مصر، یمن ہو یا شام اور لیبیا، ملک میں کوئی فوجی آمر یا بادشاہ ۳۰،۴۰سال سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور ظلم و استحصال اور جبرواستبداد کے بل بوتے پر قابض   چلا آرہا تھا۔ ان کے عوام مہنگائی، عدم تحفظ کا شکار اور معاشرتی عدل سے محروم تھے۔ ان کا ایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی اور روزمرہ ضروریات بھی بمشکل حاصل کرپا رہا تھا۔ ستم بالاے ستم کہ مصر جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، اور اربوں ڈالر کی غیرملکی امداد وصول کررہا تھا، اس کے عوام ۴۰فی صد غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، جب کہ حسنی مبارک کے ذاتی حساب میں ۴۰؍ارب ڈالر موجود تھے۔ ۸لاکھ کی آبادی والے ملک لیبیا کا فوجی آمر قذافی مغربی ممالک میں ۲۰۰؍ارب ڈالر اپنے اور  اپنے خاندان کے حسابات میں رکھے ہوئے تھا جس پر اب مغربی اقوام کا قبضہ ہے، لیکن ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی غربت میں مبتلا تھا۔ یہ حکمران اس زعم میں مبتلا تھے کہ ان کے لیے کوئی     یومِ حساب نہیں لیکن اللہ کا قانون کچھ اور ہی ہے۔ آج تاریخ ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔     ان حالات میں، جب کہ پولیس، فوج، خفیہ ادارے، ہر شعبہ ان جابروں کا حامی تھا ان ممالک کے عوام نے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اُٹھ کر ان ظالم فرماں روائوں کو ان کے انجام تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔

پاکستان تاریخ کے جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں بھی الحمدللہ ایسی ہی بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ملک کے نوجوان اور عوام اب مزید ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اب اس دستور کو بدلنا ہے۔ ایک نئی صبح طلوع ہونی ہے۔ ظلم کی بساط کو لپیٹنا ہے اور عدلِ اجتماعی کے اسلامی اصولوں پر مبنی نظام کو برپا ہونا ہے      ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ کل تک جن نظاموں کو بڑا مستحکم کہا جاتا تھا، آج لوگ ان پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔ اشتراکیت کو جس طرح اپنی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں شکست ہوئی اور سابقہ سوویت یونین شکست و ریخت کا نشانہ بنا، بالکل اسی طرح آج دنیا کے ۸۰ممالک کے ۹۷۰ شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام الناس یک جہتی کے مظاہرے کررہے ہیں جن میں دانش ور اور نوجوان پیش پیش ہیں۔ سودی کاروبار اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس ناکامی کا بنیادی سبب وہاں کے بنکار اور سیاست کاروں کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ امریکا اور یورپ کی حکومتیں قرضوں پر چلنے والی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوامی بنکوں سے لی ہوئی رقوم کو ڈوبتی معیشت کو وقتی طور پر بچانے کے لیے جو کچھ کررہے ہیں، وہاں کے عوام اس سے آگاہ ہیں اور اس استحصالی نظام کو مزید ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۷۰سال قبل جو پیش گوئی کی تھی کہ: ’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘ (شہادت حق)___ آج وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔کل تک جو سرمایہ دارانہ نظام سوویت یونین کے انتشار کے بعد یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولر جمہوریت فتح مندی کے ساتھ دنیا کا واحد نظام ہیں، وہی دانش ور آج امریکا اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کی تدفین کے منتظر ہیں۔

ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ ایک اہم اور فطری سوال ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف چند نکات پر اکتفا کریں گے:

پہلی بات جو شرطِ ایمان ہے یہ کہ پاکستان کی اُمت مسلمہ اپنے رب سے اپنا رشتہ تازہ اور مستحکم کرے۔ یہی وہ رشتہ ہے جو شاہراہ ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں کمی لازمی طور پر عدم استحکام اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔

دوسرا اہم پہلو اپنے آپ کو مایوسی سے نکالنا ہے۔ مایوسی اسلام کی نگاہ میں کفر ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھنے اور مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

تیسری چیز معاشرے کے صالح عناصر کو یک جا کرنا، انھیں منظم کرنا اور عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں۔ اب انھیں نکلنا ہوگا اور جس طرح وکلا کی پُرامن تحریک نے ایک فوجی آمر سے نجات دلائی، ایسے میں عوام کی پُرامن تحریک امریکا نواز فرماں روائوں سے نجات دلا کر صالح قیادت کو اُوپر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

چوتھی قابلِ توجہ چیز ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی ترقی کے لیے غوروفکر کے بعد ایک  قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد منصوبے کی تیاری ہے۔ اس کام میں عوام، دانش ور، طلبہ، وکلا، غرض ہر شعبے کے افراد کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا رب ماننے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی امداد فرماتے ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں توبۃً نصوحاً کے ساتھ اس عزمِ نو کی ضرورت ہے کہ قوم اس ملک میں صحت مند تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد کو اپنا نمایندہ بنائے جو دین کی عظمت، ملکی مفاد اور ملک کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے لیکن انھیں اب نکلنا ہوگا اور قائداعظمؒ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہوگا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی عدل کی بنیاد پر وہ جمہوری نظام قائم ہو جس میں قرآن و سنت کو فیصلہ کن مقام حاصل ہو۔


گذشتہ تین مہینوں (اگست، ستمبر، اکتوبر) میں ہمارے رفقا نے پورے ملک میں عالمی ترجمان القرآن بہت سے نئے ہاتھوں میں پہنچایا ہے۔ اس مہم میں جس نے جو کام کیا، اس کے لیے دوڑدھوپ کی، کچھ پیسے خرچ کیے، کسی سے بات کی، کسی کے لیے دعا کی، ہر کام کراماً کاتبین نے لکھا ہے اور یقینا اس کا اجر ملے گا۔ لیکن اس اجر کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جن کو نمونہ پہنچایا گیا ان سے رابطہ کر کے باقاعدہ مطالعے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جس گھر میں یہ رسالہ جائے گا اور چھوٹے بڑے اسے پڑھیں گے اوراس کی وجہ سے کوئی نیک کام کریں گے یا زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی تو صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا اجر اس کام کو کرنے والوں کو ملتا رہے گا۔ اس لیے نمونہ پہنچادینے ہی کو مکمل کام نہ سمجھیے اور فقط اسی پر اکتفا نہ کیجیے۔

سہ ماہی مہم تو آپ کو متحرک کرنے کا اور اس طرف توجہ دلانے کا ایک بہانہ تھی۔ یہ رسالہ ایک پیغام کاعلَم بردار ہے۔ اس کا ایک مشن ہے، اس کا تاریخی کردار ہے جو یہ آج بھی ادا کررہاہے۔ جب بھی آپ اس رسالے کو پڑھیں، ضرور یہ سوچیں کہ جو اس سے محروم ہیں ان تک کس طرح پہنچائیں۔ رشتہ داروں میں، دوست احباب میں، طالب علموں میں، دفتر اور کاروبار کے ساتھیوں میں___ یہ سب آپ کے اس مشن کا ہدف ہونا چاہییں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سرگرم ہونے کا، اور بہت زیادہ اجر سمیٹنے کا جذبہ دے اور آسانیاں فراہم کرے، آمین۔             پروفیسر خورشیداحمد