پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


پاکستان اور مسلم ممالک کم از کم گذشتہ ۲۵سال سے ایک ایسے سیاسی خلفشار ، عدم استحکام اور سیاسی بازی گری کا شکار ہیں، جس نے نہ صرف عوام بلکہ باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی جمہوریت پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور عموماً یہ بات کہی جارہی ہے کہ:’ایسی جمہوریت سے تو بادشاہت اور فوجی آمریت ہی بہتر ہیں‘۔ اس مفروضے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’عام طور پر فوجی آمریت کے دور میں ملک کی معیشت میں ترقی ہوئی ہے، اس لیے جمہوریت کو خیر باد کہہ کر ہمیں صدارتی یا آمرانہ نظام کو اختیار کرنا چاہیے‘۔ اس کیفیت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت سے محبت کے تعلق سے قطع نظر اور جمہوری اَدوار کی بدعنوانیوں ، ظلم اور نا انصافی ، طبقاتی تناؤ اور تفاوت کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے محو کرتے ہوئے معروضی طور پر یہ جائزہ لیا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ کیا واقعی مسلم ممالک اپنی تاریخی روایات کے تناظر میں جمہوریت کے لیے ناموزوں اور بادشاہت یا آمریت کی روح اور نظام سے قریب تر ہیں؟ اور کیا واقعی ان کی نجات صرف مغربی جمہوریت میں ہے؟ اس آخری بات کو خاص طور پر تیونس کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مغربی جمہوریت 

جس نظام کو مسلم دنیا میں ’مغربی جمہوریت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ باقیات ہیں اس مغربی سامراجی نو آباد یاتی نظام کے ورثے کی جسے وہ جاتے ہوئے ہمیں تحفے میں دے گیا۔ اب ہم نے اس تحفے کی جو حالت بنائی ہے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ پاکستان ہو یا ملایشیا، مصرو شام ہو یا الجزائر ، تیونس ہو یا نائیجریا، جو مسلم خطے مغربی استحصالی سامراج کے زیر تسلط رہے اور آزادی اور حریت کی تحریکوں کے باعث آخر کار سامراج کو انھیں چھوڑنا پڑا، وہ اسی نظام کو اپنے انداز میں اپنائے ہوئے ہیں۔ مقبوضات چھوڑنے کے بعد استعماری قوتوں نے مستقبل کے ایسے انتظام پر توجہ دی جس کے نتیجے میں ان تمام ممالک میں وہی سیاسی ، قانونی اور تعلیمی نظام برقرار رہے ،جو استحصالی سامراج نے مسلط کیا تھا۔ چنانچہ یہ نظام برقرار ہے۔ تیونس فرانسیسی زبان اور ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان ، ملایشیا اور نائیجریا انگریزی میں اظہار خیال اور انگریز کی فکر، لباس اور غذا کو ترقی اور کمال سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی قانونی ، تعلیمی اور سیاسی روایت جوں کی توں ، اپنی بوسیدگی اور خستگی کے باوجود برقرار ہے بلکہ روز بہ روز زیادہ مطلوب و مرغوب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی تناظر میں پارلیمانی جمہوریت ایوان بالا اور ایوان زیریں کی شکل میں جیسی برطانیہ میں پائی جاتی ہے، اس کا ایک ناقص چربہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے، حالاں کہ خود کئی یورپی ممالک (فرانس ، جرمنی ، اٹلی) برطانوی طرزِ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے۔

مغربی جمہوریت کی بنیاد عوام کی حاکمیت اور منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے حق کے استعمال کے اصول پر کام کرنا ہے۔ جس میں قوت کا اصل سرچشمہ عوام قرار پاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے اس قوت کو تفویض کردہ اختیارات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے اور عدلیہ ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں  توازن برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ قانون سازی کہاں تک دستور یا روایات سے مطابقت رکھتی ہے؟ اس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ (عدالت ِ عظمیٰ )کرتی ہے اور عدالت عظمیٰ کی تعبیر کو حتمی خیال کیا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت کے ان تین ستونوں، یعنی پارلیمنٹ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور مسلح افواج کے کردار اور اختیار کو متعین کرنے کے بعد اسے اس کا پابند کر دیا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان چاروں اداروں کو نفسیاتی الجھاؤ کی بنا پر گڈمڈ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمارے اخلاقی زوال نے ان چاروں اداروں کو مسموم بھی کر دیا ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی پشت پناہی کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے زر خرید ہیں۔ دوسری جانب عسکری و بیرونی قوتوں سے ضرور اُمید یں باندھ لیتے ہیں اور ان کے منظور نظر ہونے پر پھولےنہیں سماتے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات بھی موجود ہیں کہ جب بعض نام نہاد وزراے اعظم نے گریہ وزاری کے لہجے میں امریکی صدورسے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ اسی طرح ایک آمر صرف ایک بیرونی کال پر ڈھیر ہو گیا۔

ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے مغربی جمہوریت کو جو مغرب کی فضا ، ، ماحول ، روایات ، نظامِ حیات ، تہذیبی اقدار اور اخلاق پر مبنی تھی ، بغیر کسی بنیادی تبدیلی کے یہ سمجھ کر اختیار کر لیا کہ  جس صورت میں یہ وہاں رائج ہے، اسی شکل میں یہاں بھی مفید ہو گی۔چنانچہ ایک فوجی آمر کے دور میں ایک فوجی افسر نے پاکستان کو یونین کونسلوں کے نظام کا تحفہ دیا جو برطانیہ میں کام کرتا ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ وہ سیاسی تربیت ، تقسیم اختیارات و قوت جو اس کی بنیاد ہے اس کے بغیر یہ کیسے کام کرے گا۔

مغربی جمہوریت کے خمیر میں جو اجزا شامل ہیں وہ ہماری روایات ، نظام حیات اور اقدار سے ٹکراتے ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کے بت کو سب سے متبرک سمجھتے ہوئے اس پر مختلف غازے چڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے لیے مناسب ہو گی۔ چنانچہ مغربی جمہوریت کے لوازمات: لادینیت، سرمایہ دارانہ ذہنیت ، مادہ پرستی ، حق کی جگہ پارٹی پرستی ، پارٹی پرستی کی جگہ شخصیت پرستی اور مفاد پرستی، مساوات مردو زن کا نعرہ لگا کر معاشرتی عدم استحکام کو تقویت دی۔ غرض مغربی جمہوریت جس نظام کو قائم کرتی ہے وہ مسلمانوں کی ثقافت ، عقیدے اور روایات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا، لیکن    ہم نے سادہ لوحی اور دین سے بغاوت کرتے ہوئے اسے ایک واجب تعظیم بُت کا مقام دے دیا ۔ آج پاکستان کی وہ تین بڑی سیاسی جماعتیں جو ہر لمحے جمہوریت کا وظیفہ پڑھتی ہیں، اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ان کا اندرونی نظام اور ملکی سیاست میں ان کا طرزِ عمل خلافِ جمہوریت کارناموں کی ’ا علیٰ ترین‘ مثال کہا جا سکتا ہے۔

مختصراً مغربی جمہوریت کے تحائف میں سرفہرست لادینیت ، مغرب پر انحصار ، ثقافتی مغلوبیت، انفرادی سطح پر خود پرستی ، معاشرتی اقدار سے بغاوت ،آزادی اور ’مذہب‘ کو مخصوص عبادت گاہوں میں محدود کر دینے کی ثقافت ہیں۔ جہاں کہیں بھی اسے اختیار کیا گیا، وہاں اس نے معاشرتی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری پیدا کی، اخلاقی قدروں کو پامال کیا اور معاشی حوالے سے ایک طبقاتی، نظام وجود میں لانے کا باعث بنی۔ مسلم ممالک میں موجودہ سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ومعاشی بحرانوں کی طویل فہرست مغرب کی اندھا دھند تقلید ہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلم ممالک کے ذہنی اور فکری طور پرمغلوب اور غلام فرماں روا کبھی خود احتسابی کی طرف راغب نہیں ہوتے۔

پاکستانی جمہوریت

ہم نے جمہوریت کا جو ماڈل پاکستان میں نافذکر رکھا ہے، اس کے لیے مناسب نام ’مفاد پرست جاگیرداریت‘ ہے۔اس کے عناصر ترکیبی میں موروثی سیاست سب سے نمایاں ہے۔ چنانچہ ناموں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں پر (صرف جماعت اسلامی کو چھوڑتے ہوئے ) نظر ڈالی جائے تو ہر جماعت اپنے لیڈر کی میراث پر فخر کرتے ہوئے اپنے مقام کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے سیاسی نعروں میں نہ کارکردگی کا تذکرہ آتا ہے ، نہ مستقبل کا لائحہ عمل بلکہ ’مرحومین‘ اور قیادت کے منصب پر فائز تاحیات شخصیتوں کے نام کو اپنا امتیاز بتایا جاتا ہے۔ یہ جاگیر دارانہ مو روثی جمہوریت پاکستان کے لیے زہرِقاتل ہے۔

دوسرا بنیادی عارضہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت علاقائیت یا صوبائیت پر مبنی ہے۔چنانچہ   نام نہاد ’بڑی‘ جماعتیں اپنی صوبائی جڑوں پر فخر کرتی ہیں اور اپنے صوبے کوبطور اشتہار پیش کرتی ہیں کہ انھوں نے ، جس صوبے پر وہ عرصے سے مسلط ہیں، وہاں یہ یہ کارنامے سرانجام دیے ہیں ، اس لیے انھیں آیندہ بھی یہ موقع دیا جائے۔فقط ایک صوبے تک محدود نظر ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جو ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کی پہچان کوئی صوبہ نہیں ہے، نہ اس کی قیادت صوبائی بنیاد پر ہے، نہ اس کی ممبر شپ کسی جاگیردارانہ وابستگی سے ہے، بلکہ وہ صرف اورصرف اپنے نظریے اور اسلام کی جامعیت و ہمہ گیریت کی بنیاد پر ہر صوبے میں اپنی دعوت کی بنیاد پر موجود ہے۔اس کے ساتھ داخلی سطح پر اس میں شورائیت اور بے لاگ احتساب کا نظام بھی قائم ہے۔

مروّجہ پاکستانی جمہوریت کی ایک اورخصوصیت سیاسی قیادت کاآمرانہ طرز عمل ہے۔  جن جماعتوں کو ہمارے ذرائع ابلاغ تین بڑی جماعتیں کہتے ہیں، ان کا قائد عملاً سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے ، اس کا نام پارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی کے اندر نہ صحیح جمہوری انتخابات کی صورت ہے اور نہ فیصلوں میں مشاورت کا کوئی نظام ہے۔

قطع نظر جمہوریت کے حوالے سے نہ تو مغربی جمہوریت اور نہ مروجہ پاکستانی جمہوریت پاکستانی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ملکی سالمیت ، استحکام اور ترقی کے لیے کارگر ہو سکتی ہے۔ہمارے نوجوانوں کا اضطراب اور جمہوریت پر اعتماد اٹھنے کا سبب ان دونوں طرز کے جمہوری نظاموں کا بنیادی نقص ہے۔اگر اس کی اصلاح بروقت نہ کی گئی تو نوجوانوں کا اضطراب انھیں غیرجمہوری یا آمرانہ نظاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے،جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ نام نہاد جمہوریت میں پارٹی لیڈر کا آمر ہونا، یا فوجی آمرکا قابض ہو کر انھی سیاسی مہروں میں سے کچھ کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرنا، یکساں طور پر ملک وملت کے لیے نقصان دہ ہے۔ان دونوں ممکنہ راستوں سے ہٹ کر شاہراہِ کامیابی اگر کوئی ہے تو وہ صرف وہ نظام ہے ، جس میں عدلِ اجتماعی ، عوام کی عزت وتکریم اور قرآن وسنت کی بالا دستی کو نافذکیا گیا ہو۔

  •  اسلامی نظام عدل:پاکستان اور مسلم دنیا کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو ہرباشعور شخص اس نتیجے تک پہنچے گا کہ مغربی سامراجیت کا تحفہ لادینی سرمایہ دارانہ جمہوریت ، جس میں مفاد پرست صنعت کار یا سرمایہ دار اور زمین دار موروثی طور پر سیاسی قیادت پر فائز ہو جا ئیں، پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے زہر قاتل ہے۔اور اسی طرح وہ نام نہاد جمہوریتیں جو مقامی علاقائیت اور لسانی قومیت کی بنیاد پر پیدا ہوئیں اور اقتدار پر قابض ہیں، عوام کو عدل و انصاف اور ملک کو استحکام اور ترقی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اگر مسلم دنیا اور پاکستان کا کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف ایسے عادلانہ نظام کے قیام میں ہے جس کی جڑیں اسلامی تصورِ حیات سے وابستہ ہوں۔
  • اسلامی نظامِ عدل کی پہچان:مغربی لادین جمہوریت کی جگہ قائد تحریک اسلامی سیّدمودودی نے جو اصطلاح اپنی بات کی وضاحت کے لیے استعمال کی وہ Theo-Democracy ہے، جسے عرفِ عام میں اللہ کی حاکمیت پر مبنی عادلانہ جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے۔ یہ نظام اپنی ساخت اور خصوصیات میں مغربی لادین جمہوریت اور پاکستانی موروثی اور صوبائی جمہوریت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔۷۰سال کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب نظام کی تبدیلی ہی مسائل کا حل ہے۔ نیا اسلامی فلاحی نظام آمرانہ بادشاہت اور مروجہ جمہوریت دونوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے خدو خال ان دونوں سے ہر پہلو سے ممتاز ہیں۔
  •  لِلّٰہیت: اس نظام کی پہلی خصوصیت اس کی نظریاتی بنیاد ہے، جو للہیت سے عبارت ہے، یعنی اللہ کو رب تسلیم کرکے اس کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر۔

للہیت سے مراد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا انفرادی ، خاندانی ، معاشرتی، سیاسی، معاشی، قانونی، غرض زند گی کے تمام کاروبار میں فیصلہ کن مقام حاصل کرنا ہے۔یہ کسی خانقاہ میں دنیا سے کٹ کر بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے نفاذ کا نام ہے۔اسلامی عادلانہ نظام میں ہرفیصلے کی بنیاد للہیت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کا م کا کرنا۔اسلام زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں دے دینے کا نام ہے۔للہیت سیاسی سرگرمی سے نہیں روکتی، بلکہ یہ اخلاقی صورت گری کا ذریعہ بنتی ہے، تاکہ سیاست کا مقصد ذاتی شہرت یا شخصیت کی مرکزیت نہ ہو، اس کی جگہ اللہ کی بندگی کو قرار دیا جائے۔ یہ ملک و ملّت کی قیادت، خدمت، عدالت، انکسار ، بے غرضی اور نمود و نمایش سے دوری کا نام ہے۔ یہ کسی مصنوعی لبادہ اوڑھنے سے پیدا نہیں ہوسکتی نہ کسی جبہ و دستار کی محتاج ہے۔یہ انسان کے روز مرہ کے طرز عمل میں پائی جاتی ہے۔ فخر و اعزاز بادشاہت کا ہو یا کسی پہنچے ہوئے فقیر کا، دونوں للہیت کی ضد ہیں۔یہ صبر و قناعت اور استقامت کا نام ہے۔

  • شریعت کی بالادستی:نئے نظام کی دوسری پہچان قرآن و سنت کی بالا دستی اور فیصلہ کن ہو نا ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کا قیام صرف اس وقت ممکن ہے جب مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ہو، یا ملکی معیشت و ثقافت و تعلیم ہو یا ابلاغ عامہ، ہرشعبے میں، ہر سرگرمی کا انحصار قرآن و سنت کی ہدایات پر ہو۔ اسلامی شریعت کا اعجاز یہ ہے کہ الہامی ہونے کی بناپر اس میں مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت وقت اور مقام کی قید سے آزادمستقل حیثیت کی حامل ہے۔ مغرب زدہ افراد کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم رہی ہے کہ اسلامی شریعت جس کا نفاذ دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ میں ہوا ،کس طرح اس دور میں نافذ ہو سکتی ہے۔ وہ انسان کے بنائے ہوئے زمان و مکان میں قید قوانین سے الہامی شریعت کا تقابل کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بنیادی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ دو ایسے نظاموں کا تقابل کررہے ہیں ، جن کی بنیاد اور ساخت بالکل مختلف ہے۔اسلامی شریعت الہامی ہے،اس لیے  آفاقی ہے اور اس کے اصول ہر دور میں یکساں طور پر رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ مغربی جمہوریت انسان کی خودساختہ ہے، اس لیے مختلف زمانوں میں اور مختلف علاقوں میں اس کی مختلف شکلیں ملتی ہیں۔ یہ یکساں طور پر سب کی رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
  •  اسلامی ثقافتی اقدار:اسلامی عادلانہ نظام کی تیسری پہچان اسلامی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر فلاحی نظام کا قیام ہے۔ اسلامی نظام نہ صرف شریعت پر مبنی قانون دیتا ہے ،بلکہ وہ انسانیت کی فلاح کی ضامن اخلاقی اقدار فراہم کرتا ہے، جن میں صدق، امانت و استقامت ، حیا، جرأت، اعلاے کلمۃ الحق ، معروف ومنکر ، حلال و حرام کی روشنی میں ترجیحات کا تعین کرتا ہے تاکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اسلامی اقدار کی پابندی کی جاسکے۔

اسلامی اقدار توحید ، عدل ، صدق ، امانت ، حیا کا عکس اسلامی قوانین کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جھوٹ اور بہتان کا سدِّ باب قرآن و سنت کے دیے ہوئے مثبت اور تعمیری اخلاقی اصولوں کے ساتھ تادیب اور تعزیر کے نظام سے کیا گیا ہے۔ہر قانونی اقدام سے پہلے مثبت اخلاقی اقدار کا وجود اور ہر خلاف ورزی کی شکل میں پہلے اصلاح ، عفو و درگزر اور آخر کار تادیب و تعزیرانسانی معاشرے میں عدل و سکون کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔یہ بات قلم اور زبان تک محدود نہیں ، اسلامی قانون کا تحقیقی مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام سزااور تعزیر سے زیادہ اپنی اخلاقی اقدار کے بل بوتے پر اور انسانی نفسیات کو اخلاق کا تابع کر کے ایک صحت مند ماحول اور معاشرہ پیدا کرتا ہے،جہاں اگر کسی سے غلطی کا ارتکاب ہو بھی جائے تو بجاے کسی کوتوال یا مخبر کے، انسان کا ضمیر نجات چاہتا ہے اور بغیر کسی گواہ کے، ملزم خود آکر اعترافِ گناہ کے ساتھ اپنے لیے سزا کی درخواست کرتا ہے۔یہ اعزاز صرف اسلامی شریعت کو حاصل ہے کہ تجسس، مخبری اور جاسوسی کے بغیر اگر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو اس کا ضمیر اسے اپنی اصلاح پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسلامی اقدارِ حیات کا اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب نہ صرف مقنّنہ،عدلیہ اور انتظامیہ اس کی برتری اور حتمی ہونے کے قائل اور اس پرعامل ہوں، بلکہ تعلیم اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اسلامی اقدار کو معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں جاگزیں کر دیا جائے۔

  • تعلیم و ابلاغِ عامہ:ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ریاست کے اعضا میں تعلیم اور ابلاغ عامہ کو وہی مقام حاصل ہو گیا ہے جو کل تک مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کو حاصل تھا۔آج ابلاغ عامہ کی فحاشی اور مخلوط محافل منعقد کروانے کی مہم اس مقام تک آگئی ہے کہ اسلامی شعائر کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ: ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی مخلوط نماز جنازہ کا برقی ابلاغِ عامہ پر پیش کرنا جو اخلاق ، دین اور دینی حمیت کے منافی ہو، اشاعت ِمنکر ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ اسلامی اخلاقیات نے زندگی کے تمام ہی مسائل اور معاملات کو جو اہم ہونے کے باوجود محدودیت اور احتیاط کا مطالبہ کرتے ہیں ،انتہائی مہذب انداز میں بیان کیا ہے۔ طہارت اور جنسی تعلق جیسے موضوعات کو بغیر کسی منفی یا ہیجانی کیفیت کے تعلیم دینے کے انداز میں قرآن وسنت اور فقہ میں بیان کر دیا ہے۔ آج ابلاغ عامہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو اس طرح پیش کرتا ہے گویا یہ فطری اور عمومی طریقہ ہے اور آخر کار ایسے مناظر کی تکرار ان کو گوارا بنا دیتی ہے۔یہ حکمت عملی اشتہارات میں، خبرناموں میں ، ڈراموں میں، گانوں میں، حتیٰ کہ تعلیمی مباحثوں اور مکالموں میں اس طرح رائج کر دی گئی ہے کہ نوجوانوں کو ان مناظر کا عادی بنا دیا جائے ،اور اس طرح اسلام کے تصورِ حیات اور مردو زن کے الگ الگ دائرۂ عمل کی جگہ مغربی تصورِ اختلاط مردو زن کو معاشرے کا عموم اور رواج بنا دیا جائے۔

اسلامی نظام عدل کا قیام اسی وقت ہو سکے گا جب قوم کے ضمیر کو اسلامی اقدار کی پابندی پر تعلیمی حکمت عملی سے آمادہ کیا جائے۔ اسلام کوڑے کے مقابلے میں زبان و قلم اور عملی مثال سے تعلیم دینےکو فوقیت دیتا ہے، اور نیا نظام ان شاء اللہ اس معاشرتی برائی کو دستوری ذرائع سے ہی درست کرے گا اور کسی تعزیر کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تعلیم کو نہ صرف انگریز سامراج نے بلکہ اس کے جانشینوں نے اس ڈگر پر قائم رکھا جس پر انگریز نے اسے چلایا تھا۔۷۰ سالہ دور میں نہ تو معیارِ تعلیم کو بلند کیا گیا اور نہ تربیت کی طرف توجہ دی گئی۔تعلیم دراصل تہذیبِ اخلاق کا نام ہے۔ حصولِ معلومات اس کا ایک پہلو ضرورہے لیکن وہ تعلیم جو تہذیب و اخلاق سے خالی ہو ، ایک بے روح جسم اور دماغ تو پیدا کر سکتی ہے، ایک مکمل انسان وجود میں نہیں لا سکتی۔

اسلام کے عادلانہ نظام کی پہچان ایسے نظام تعلیم کا نفاذ ہے جو قومی ضروریات ، فنی مہارت اور جدید ترین معلومات کے ساتھ تعمیرِ اخلاق کو اوّلیت دے۔ ملک میں امن و سکون اور رواداری اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب تعلیم اخلاق و تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہو۔تحریک اسلامی کو اس نئے نظام کے قیام کے لیے نئے نظام کے خدو خال کو بار بار پیش کرنا ہو گا،تاکہ صداقت اور حق پر گردوغبار اور غلط فہمیوں کی جو دبیزچادر ڈال دی گئی ہے، وہ دُور ہو، اور حق آجائے اور باطل معدوم ہو جائے کیوں کہ باطل معدوم ہونے کے لیے ہی ہے۔

  • تبدیلی کا طریقۂ کار :اس عزم اور مستقبل کی روشن امید کے ساتھ جو سوال بار بار اٹھتا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے، یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کو ن باندھے گا ؟ نظام کی تبدیلی کیسے ہو گی؟ تبدیلی انقلاب اور قوت کے استعمال سے آئے گی یا ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد آئے گی ؟

قرآن و سنت اور مکی اور مدنی ادوار کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق وباطل کی کش مکش اور نظام کی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے خود حق کے نظام پر مکمل اعتماد و ایمان شرطِ اوّل ہے۔قرآن کریم نے اسے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے رسول جس چیز پر مکمل ایمان لائے اور جو اہل ایمان کی ہدایت کے لیے ان پر نازل کی گئی، یعنی کتاب وشریعت۔ دوسری بنیادی شرط اس ہدایت کا اپنی زندگی میں احسن شکل میں نافذ کرنا ہے۔ فرمایا گیا کہ: کیوں  تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘(الصف ۶۱:۲-۳)۔ گویا تحریک اسلامی کی جانب سے ایسے افراد کی ایک جماعت ِکثیر کی تیاری جو اپنےعلم و عمل کے لحاظ سے پختہ کار ہوں اور نظریے سے آگہی اور نظریے کے فروغ کے لیے اپنے کردار سے آگاہ ہوں ، ایثار ، قربانی و دیگر اسلامی خصائص سے مثالی طور پر مزین ہوں، جسے ہم آج کی زبان میں افراد کار کی تیاری سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ کام محض جلسوں اور مظاہروں سے نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے پِتّا ماری کے ساتھ قرآن و سیرت سے براہِ راست تعلق ، تفقہ فی الدین، اور تحریکی مزاج کا پیدا کرنا ہے۔یہ خاصیت برسوں کی محنت سے پیدا ہوتی ہے۔  اس میں صبر و استقامت کاہونا شرط ہے۔

تبدیلی کے اس عمل کی ایک اور اہم شرط تعداد کی اہمیت کو کم کیے بغیر معیار کو فوقیت دینا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اپنی علمی ، فکری ، تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں میں صف ِاوّل میں ہونے چاہییں۔ انھیں عصر حاضر کے علوم کے ساتھ قرآن وسنت کے علوم پر مکمل عبور ہوبلکہ مقامِ اجتہاد پر فائز ہوں۔یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے قیام کے وقت جو افراد کو جمع ہوئے تھے، ان میں ایک واضح تعداد ان افراد کی تھی جو علمی اور فکری طور پر سر براہی کے مقام پر فائز ہونے کے لائق تھے۔ آج بھی تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہوں گے جو دینی اور عصری علوم، دونوں پر عبور رکھتے ہوں۔یہ کام انفرادی طور پر نہیں بلکہ اداراتی بنیاد پر کرنا ہوگا، تاکہ ایسے ادارےموجود ہوں جو محض وقتی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر بطور ادارہ متحرک ہوں، اور مطلوبہ افرادی قوت کی تیاری و فراہمی میں کمی نہ ہو۔ تحریک کے افراد کی معیاری برتری ہی تحریک کی کامیابی کی شرط ہے۔

 تبدیلیِ نظام کے لیے ایک اور شرط متبادل نقشۂ عمل اور لائحۂ عمل کی تیاری ہے۔نہ صرف ایک خاکہ بلکہ اس میں تفصیلات کی شکل میں رنگ کا بھرنا۔اگر تعلیمی نظام بدلنا ہے تو اس کا نیا نصاب کیا ہو گا؟اس نصاب کی روشنی میں درسی کتب کون سی ہوں گی؟ان کتب کو پڑھانے والا استاد کس کردار اور علمی رُتبے پر ہو گا؟اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں میں کامیابی کا معیار کیا ہوگا؟طلبہ اور اساتذہ میں کن اخلاقی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی؟ درسی کتب کے ساتھ جدید ابلاغ عامہ کو تعلیم کے لیے کیسے استعمال کیا جائے گا؟ کیا ملک کی ۱۸۵ موجودہ جامعات میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے افرادِ کار تیار ہیں جو تعلیم، تجربہ اور صلاحیت میں اعلیٰ مقام پر ہوں؟ تعلیم، ملکی معاشی پالیسی، ملک کی دفاعی پالیسی ، ملک کی صحت کی پالیسی پر جب تک تحریک کے پاس ایک واضح نظام عمل موجود نہ ہو، تو کیا محض پارلیمان میں کامیابی تبدیلی لا سکتی ہے ؟

نظام میں تبدیلی کے لیے ایک اور شرط عالمی سیا ست سے اتنی واقفیت بہم پہنچانا ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی حکمت عملی اور ملک کے اندر اور باہر مختلف عناصر کی منصوبہ بندی سے مکمل آگاہی کے ساتھ ہمارے پاس ایک متبادل حکمت عملی بھی موجود ہو، جس میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی لانے کی گنجایش ہو۔جن عالمی قوتوں سے تحریک کا سامنا ہے، وہ کسی بھی صورت حال میں حق کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں محض بدعائیں دے کر ناکام نہیں کیا جاسکتا۔ان کی سازشوں کا علم بھی کافی نہیں ہے۔ جب تک ہماری اپنی حکمت عملی ان سے بہتر اور برتر نہ ہو ، کامیابی ممکن نہیں، اور نہ کوئی تبدیلی دیرپا ہو سکتی ہے۔

ان شرائط پر غور کیا جائے تو ان پر عمل صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب دستوری ذرائع ، تعلیمی ذرائع اورتربیتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔ یہ کام کسی قوت یا طاقت کے ذریعے محض اعلیٰ سطح پر تبدیلی لانے سے نہیں ہو سکتا۔ اسلام جس نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے وہ فرد، معاشرہ ، تعلیم ، قانون، معیشت اور سیاست میں ہمہ گیر تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صبر و استقامت سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لیے تحریک کے نظامِ تربیت کا انتہائی مؤثر ہونا شرط اوّل ہے، تاکہ کارکن سے قیادت تک للہیت ، فہم دین ، تفقہ ، عصری علوم پر عبور،قرآن وسنت سے انتہائی قریبی تعلق ، معاملات میں شفافیت ، سادگی ، انکسار، ایثار و قربانی کی صفات کارکنوں کی شخصیت کا حصہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچا وعدہ ہے۔ جو لوگ اللہ کو رب مان لیں گے اور اہل ایمان کی صفات سے مزین ہوں گے تو ان کی کامیابی کی ضمانت دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر رب کریم نے خود دی ہے۔ اس کا یہ وعدہ جیسا ماضی میں حق تھا، آج بھی حق ہے۔ فرمایا:

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

قصور میں ہونے والی وحشیانہ اور جنسی درندگی کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا۔ پھر اس واقعے پر جس یک جہتی کے ساتھ قوم نے مظلوم زنیب کے ساتھ اپنی ہمدردی اور   اس درندہ صفت شخص کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے،وہ ایک قابلِ تعریف احساس ہے۔   یہ ردِعمل اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں بھی ہرپاکستانی اس وحشیانہ عمل کے سد باب اور مظلوموں کو بلاتاخیر انصاف اور مجرموںکو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا کے بارے میں یک آواز ہے (اسی نوعیت کے شرم ناک واقعات انھی دنوں کراچی، ڈیرہ اسماعیل خاں اور مردان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں)۔

حقیقت یہ ہے کہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر وہ تحفظ ، تعلیم ،محبت ، عزت اور تربیت کی جگہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر قومیں روشن مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں ۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو فضا پائی جاتی ہے ، اس میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بالغ اور معمر افراد وخواتین کو بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ یہ نظام کی ناکامی اور اجتماعی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے، جس کی اصلاح اور فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔

ہم نے انگریز سے جو نظام، وراثت میں لیا ، اس میں جا گیردارانہ نظام کا تحفظ ، پولیس ، سول انتظامیہ اور سیا سی شخصیات سے تعاون جائز تصور کیا جاتا تھا ۔ بڑی زمینداریوں کا وجود  اکثر و بیش تر انگریز سرکاری کی وفاداری کا مرہونِ منت تھا ۔خان بہادر اور نائٹ یا سر کا خطاب بھی   اِلا ماشاء اللہ، انھی کو دیا گیا جو برطانوی سامراج کی نگاہ میں بےضرر یا وفادارِ تاج برطانیہ تھے۔   یہی لوگ سیاسی لیڈر بنے اور انگریز کی نگاہ میں اپنی قوم کے نمایندہ قرار پائے۔

ہمارے ملکی نظام میں سیاسی اداروں پر انھی افراد کا قبضہ رہاجو معاشی طور پر خوش حال تھے اور جو اپنے مزدور اور کسان پر مکمل قابو رکھتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں قانون مال داروں کے تحفظ میں تو دل چسپی رکھتا تھا لیکن کمزور اور بے سہارا کے لیے انصاف حاصل کرنا جوے شیر لانا تھا۔   ہم نے اس نظام کو برقرار رکھا اور ماضی میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں ، انھیں سرعامِ برہنہ کرنے اور انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے خواتین کی بے عزتی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنائے رکھا۔      اگر معاشرے میں قانون کا احترام کم ہو جائے اور اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، تو    نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی عمر کے انسان کے ساتھ کسی قسم کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سانحے پر غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ ایسے اندوہناک واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔

ظلم کے اسباب

ہمارے ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار عموماًبیرونی امداد سے قائم ہونے والی این جی اوز جمع کرتی ہیں (جن میں حقائق سے زیادہ ظن و تخمین کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، تاہم ان کی بنیاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا)۔ پاکستان کے مقامی اخبارات نے ایک ایسے ہی ادارے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں پاکستان میں روزانہ بچوں سے زیادتی کے۱۱ واقعات ہوئے ہیں(ڈیلی ٹائمز ، ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ء، د ی نیوز، ۲۳جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان اعداد و شمار میں نمونے (sample)کا حجم کیا ہے؟ اور جب تک تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں  کسی بھی جائزے اور اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود یہ تعداد بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے ۔بچوں پر زیادتی کا جائزہ لیتے وقت مناسب ہو گا کہ ایک سرسری نگاہ بنیادی اسباب پر ڈال لی جائے۔

معاشی اسباب

بالعموم تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بااثر معاشی آقا اپنے سے کم تر طبقات کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی اخباری اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ با اثر افراد کی بنا پر اس قسم کے ظالمانہ کام کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتےہیں، اور معاشی طور پر کم زور افراد کی عزت اور ذات ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں ، کم عمر لڑکیوںکو پیسےکا لالچ دے کر ایسے کاموں میں پھنسایا جاتا ہے۔ قصور ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک گروہ کا پردہ چاک ہوا جو بچوںکی عریاں ویڈیو فلمیں بنا کر اپنی دھمکیوں کے ذریعے انھیں اپنے زیرِ تصرف لا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب معاشی بدحالی بتایا جاتا ہے۔

 لیکن تجزیہ کرنے والے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ظلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں بھی عام ہے جو ہمارے کم فہم افراد کے لیے ایک ’مثالی معاشرہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکا اس کی چشم کشا مثال ہے جہاں اس کا سبب محض غربت نہیں بلکہ نشہ آور اشیا کا استعمال ، مخلوط معاشرہ اور انفرادیت پرستی کا نظریہ اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔سب سے زیادہ بنیادی بات اخلاقی اور دینی تربیت کا فقدان ہے ، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔

نفسیاتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ بچے جو ذہنی طور پر پریشان یا کسی فطری کمی کی بنا پر اپنا اچھا بُرا نہیں سوچ سکتے،ایسے افراد کا شکار ہو جاتے ہیں جو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ لیکن نظری طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک سائنسی بنیادوں پر جمع شدہ اور مصدقہ اعداد وشمار کا ایسا کوئی جائزہ نہیں ہے جو ان بچوں کے بارے میں جن سے زیادتی کی گئی ہو یہ بات وثوق سے بتائے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے اور اس بنا پر انھیں غلط استعمال کیا گیا۔

اس کے مقابلے میں جو اعداد وشمار ملتے ہیں وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس عمر کے اتنے بچے ان مظالم کا شکار ہوئے یا ان ان صوبوں یا شہروں میں اتنے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے جائزوں میں بالعموم پنجاب میں ایسے واقعات کی کثرت بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سماجی بگاڑ اور اخلاقی فساد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے اور ہرجگہ اور ہرصورت میں ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر کچھ علاقوں میں ہجوم اور بلوہ کی کیفیت نظر آر ہی ہے ۔ قا نون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غم وغصہ مل کر جومنظر پیش کررہے ہیں، وہ انتہائی ہولناک ہے ۔ قصور اس کی ایک مثال ہے ۔

معاشرتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ایسے مقام پر آگیا ہے کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں اور بعض اوقات جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر ان خاندانی رشتوں سے احتیاط نہیں کی جاتی جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے ’خطرناک‘کہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب وہ نام نہاد مشرقیت ہے ، جس میں ایک سالی ، بھابی ، سالے یا دیور سے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوتی جو دین چاہتا ہے، بلکہ اس حد کو پار کرکے انتہائی بے تکلفی کی حد تک تعلقات کو بڑھا دیا جاتا ہے جو آخر کار کسی غیر اخلاقی عمل کی شکل میں انجام تک پہنچتا ہے۔یہ معاملہ بالغوں تک محدود نہیں ۔ اس میں بچے (اگر ہم انھیں یونیسکو کی تعریف کی رُو سے ۱۸ سال کی عمر تک بچہ کہیں) بھی شامل ہیں ۔ گویا ہمارے معاشرے میں ہندووانہ رسومات اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور مغربی معاشرت کو اتنا اپنا لیا گیا ہے کہ اب ان سے خطرناک نتائج کثرت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

قانونی مشکلات

ایک بات جو بار بار بچوں پر زیادتی کے حوالے سے سننے میں آتی ہے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں پائی جاتی ہے وہ معاشی ، دیوانی، اور فوجداری معاملات میں نظام عدل میں تاخیر ، مالی اور سیاسی اثرات اور قانونی دفعات کا غلط استعمال ہے۔ جس میں نہ صرف محرراور وکیل بلکہ پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ منصف بھی شامل ہیں جو ان قوانین کے بارے میں درست معلومات نہیں رکھتے جن کی بنیاد پر وہ فیصلے لکھتے ہیں ۔حدود کے معاملات میں صحیح اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی بناپر      ان دفعات کا استعمال کیا گیا جن کےا ستعمال کی ضرورت نہیں تھی۔خود عوام کو اپنے قانونی حقوق نہیں معلوم ، حتیٰ کہ قانون کے طالب علم اپنے ملک کے دستور کی تمام دفعات سےآگاہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کر دینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا، ایک خیالی جنت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

قانون کا ایک بنیادی کردار معاشرے کے افرادا کو تحفظ اور احساسِ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قانون کا احترام احساسِ تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر کسی معاشرے میں احساسِ تحفظ اُٹھ جائے تو پھر قانون محض ان کتابوں تک محدود ہو جاتا ہے جو کلیاتِ قانون میں پڑھائی جاتی ہیں۔قانون کا احترام قوت سے نہیں بلکہ تہذیبی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو ایک انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سننے اور اس پر عمل کرنے پر ابھارتی ہے ۔کوئی اسے اندر سے پکارتا ہے: یہ غلط ہے، یوں مت کرو!یہ احساس اور کیفیت تنہا کسی خوف سے نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں جرم اور گناہ عام ہو ، صحیح انسانی فطرت ایسے کام کو غلط ہی سمجھتی ہے ۔

جب تک ایک قوم اپنی تہذیبی اقدار پر عامل ہو،اور جب ہر ادارہ سرگرمی کے ساتھ اور شعوری طور پر بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی اہمیت سے آگاہ کرےاورعملاً مثال قائم کرے  تو یقینا اس کا مثبت اثر آنے والی نسل پر ضرور پڑے گا۔ اگر ایک تین سال کا بچہ اپنے باپ یا ماں کو کار چلاتے وقت سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو وہ خود بھی بڑا ہو کر جب کار چلائے گا تو اس کے تحت الشعور کی آوازاسے ایک غلط کام کرنے سے نہیں روکے گی۔

بُرائی کو روکنے کے لیے قانون کا احترام وہ مثبت ذریعہ ہےجو سزا کے خوف سے زیادہ قانون کے احترام کے ساتھ انسان کی پوری کیفیت کو متاثر کرتا ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم جس تہذیب کو اپنی پہچان قرار دیتے ہیں، وہ اصلاً ایک اخلاقی تہذیب ہے ۔  قرآن کریم نے اخلاق کی اصطلاح کو اس کے وسیع تر مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُقٍ عَظِیْمقرار دیا ہے، یعنی اخلاق کا نقطۂ کمال۔

ہماری تہذیب جن دو بنیادوں پر قائم ہے وہ حلال و حرام یا طیب اور خبیث یا پاک اور ناپاک ہونے کا احساس ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی کسی معاشرے سے پاک اور   ناپاک ہونے کا تصور مٹ جاتا ہے، وہ معاشرہ درندگی ، دہشت ، ظلم و زیادتی اور بداعمالیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ابتدا ہی سے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لباس پر اس کے جسم سے نکلنے والا ایک قطرہ بھی لگ گیا تو وہ ناپاک ہو جائے گا، تو وہ مرتے دم تک نہ صرف اپنے لباس بلکہ اپنی زندگی کے ہرہر عمل کو آلودگی سے شعوری طور پر بچانا چاہتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر ایک بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی جگہ کارٹون نیٹ ورک کے سپر د کر دی جائے جو اسے روز چار سے چھے گھنٹے تک دوسروں کو تکلیف پہنچانے ، چکر دینے اور مارنے کی تعلیم دے ، پھر اس سے یہ امید رکھنا کہ اس میں اخلاقی اقدار پیدا ہوں گی ، ایک نیک خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

تہذیبی اور ثقافتی اسباب

حصولِ آزادی سے قبل غیرمنقسم خطے میں حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد کے عمل سے جو مسلمان قوم وجود میں آئی وہ اپنی ترکیب میں ایک منفرد قوم تھی۔اس انفرادیت کی بنیاد نہ ہندستان کی زمین تھی،نہ یہاںکا پانی اور ہوا،نہ ان کا رنگ و نسل ، نہ ان کے معاشی فوائد ، نہ ان کی قبائلی اور علاقائی وابستگی۔ وہ جنوب ہند سے ہوں، یا سرحد کے غیور افراد، وہ پنجابی بولنے والے ہوں یا بنگالی بولنے والے ،وہ تاجر ہوں یا ملازمت پیشہ ، ان کا رنگ گندمی ہو یا سیاہ یا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، ان سب نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا اعلان اور پاکستان کے حصول کے لیے نعرہ بلند کیا تاکہ یہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور دین کو آزادی کے ساتھ قائم کرسکیں۔ یہ تہذیب نہ بلوچی تھی ، نہ پنجابی، نہ پشتون، نہ سندھی،بلکہ اسلامی اور صرف اسلامی تھی۔لیکن ملک بننے کے بعد بانیِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو پس پشت ڈال کر عصبیت ، علاقائیت اور صوبائیت کو فروغ دیا گیا  اور ملّی یک جہتی کے لیے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ۔

اس خلا کو مغربی تہذیب اور لادینیت نے پُر کیا اورہماری تعلیم ، تجارت ، سیاست، تمدن، معیشت اور ابلاغِ عامہ نے صرف اور صرف لادینیت کی اشاعت کو اپنا مشن قرار دیا۔ تہذیبی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم اپنی نئی نسل کو گذشتہ ۷۰برسوں سے اپنی حقیقی تہذیب سے آگاہ نہیں کراسکے۔ ہماری تہذیب میں بچوں کی محبت ، ماں باپ کا احترام، ایثار اور قربانی ، رشتوں کا احترام، سچائی ، ایمان داری، حلال و حرام کا احساس، پاک اور ناپاک میں تمیز بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک فرد چاہے نمازباقاعدہ نہ پڑھتا ہو، لیکن اس میں یہ احساس ہمیشہ رہا کہ وہ رشتوں کا احترام کرے، لیکن جدیدیت ، مغربیت اور مغرب کی مرعوبیت کے نتیجے میں ہم نے نئی نسل کی  تعلیم و تربیت سے اخلاقی اقدار کو خارج کر دیا اور بزعمِ خویش ’جدیدیت‘ کے راستے پر گامزن ہوگئے۔

ہم نے پہلی جماعت کی کتاب سے لے کر بارھویں جماعت کی کتاب سے ہر اس واقعے کو نکال دیا جس سے اخلاق، مروّت، نرمی ، محبت، ایثار، قربانی کا کوئی سبق مل سکتا تھا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی کا ایک سبب یہ تہذیبی اور اخلاقی خلا ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے پیدا کیا ہےاور جسے پُر کرنے کی کوشش میں والدین بھی مکمل ناکام رہے ۔

آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے،اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔      ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں ۔

 ہماری تہذیب میں بچے کی آمد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک با برکت چیز تصور کی جاتی تھی۔کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں ۔ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدایش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کےمقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے ، جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔

ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمایش کو اپنے معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔آج ہمارے اخبارات ہوں،  ٹی وی نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور ۲۴گھنٹے جو مناظر   ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے، تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ۔

مغربی سامراجیت ، لادین جمہوریت ، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصوّر کو ’جدیدیت‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم ،معیشت، معاشرت، ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا ۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا ، ہم نے بھی اس میں خیر سمجھی کہ ’مذہب‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔

پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی ، الہامی ، اقدار و اخلاق پر تھی۔ قائداعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد ، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے، بلکہ پورانظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا ۔

مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے ۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھااور اپنے معاشرے میں ’مساوات‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا ۔ اور یہ بھول گئے کہ  یہ تجربہ خود مغرب میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کےحوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹر اینڈ میلک (Walters and Melick) کے مطابق امریکا میں ہر سال۱۲لاکھ ۷۰ ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔

یورپ اور امریکا میں آج نہیں ۷۰سال پہلے ’جنسی آگاہی‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے)، یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی ،اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہو سکیں۔

دُورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو  نے ۲۰۱۷ء میں ۲۰۱۵ءکے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے ، اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں ۱۷۴۰بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی ۔اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ٪ ۸۰واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم ۶۰کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے ۹۰ فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکارنہیں ہوئے ۔اعداد و شمار   یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال کی عمر سے ۱۷سال کی عمر تک کے بچوں میں     تین سال کی عمر والے۱۰ء۷ فی صد، جب کہ ۱۷سال کی عمر والے ۳ء۵  فی صد بچے تھے۔گویا   اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اور گذشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔

کیا کرنا چاہیے؟

مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً: اسکولوں میں جنسی تعلیم ، ثانیاً: تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے ۔یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گذشتہ ۵۰ برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے،اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔

مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’محفوظ جنسی‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں ، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے !کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو ، قابل قبول ہو سکتا ہے؟

لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے ، بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔  ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے ، کیوں کہ یہ اس کے دین ، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے ۔کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ  صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ؟ کیا خاندان صرف   ماں باپ کا نام ہے؟جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتہ داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے ۔امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں ۸۰بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے ۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟

مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔  جس میں ماں باپ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں۔ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں ۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے ۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے، نہ کسی کے اعضا دیکھے ۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دُوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے ۔وہ نگاہ کے فتنے سے ، جسم کے لمس سے ، زبان کے فتنے سے ، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے ۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی   ذمہ داری کے طور پر ادا نہ کریں توقصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا ؟

مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے ۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی ،جب کہ پاکیزگی ، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی ۔

اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے ۔بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۵۰ کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو مخلوط گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیِ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے ، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے ، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے ۔پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اولین ضرورت ہے ۔

روزنامہ جنگ  اور دی نیوز کے صابر شاہ نے ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا ۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ وبالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزاکے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی   ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ ۱۹۸۱ء میں ’پپو‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور   چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی     دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔

ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان ، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار  ادا کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے ، نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔

ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہو گا اور عریانیت، فحاشی، اور ہندووانہ ثقافت کو جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے ،خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے ، اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔

قرآن جس ثقافت کا تصور پیش کرتا ہے اس کی ابتدا انکارِ علم یا تشکیک کی جگہ اثباتِ علم سے ہوتی ہے۔ تخلیقِ آدم ؑ کے واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائک کو خصوصی علم عطا کیا ہے لیکن انسان کا علم بعض معاملات میں ملائک سے بھی زیادہ ہے۔

ایمان علمِ حقیقی یا حقیقت ِ عظمیٰ کا نام ہے۔ چنانچہ توحید کا اقرار اور شرک کا ابطال ، حی و قیوم ہونے کا علم اور العزیز الجبار،   رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ  اور رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ   تسلیم کیے بغیر کسی شخص کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں اسلامی ثقافت کو تین بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، یعنی توحید،رسالت اور آخرت۔ توحید گویا کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں اس اعلان کا نام ہے کہ اس کائنات کا خالق و مربی اور ناظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور اپنے اختیارات کے اعتبار سے سب سے بلند ہے۔

انسان عبدِمحض ہے۔ انسان کو عبد قرار دینے کے بعد قرآن اس عبد کو بہترین عبد بنانے اور انسانی تہذیب و ثقافت کے نشوونما کے لیے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن شخصیت کو بطور اسوہ کے پیش کرتا ہے۔ نبی معاشرے کا صالح اور اکمل ترین اور جامع الصفات فرد ہوتا ہے۔     وہ چوںکہ خود ایک معاشرتی زندگی گزارتا ہے اس لیے صرف اسی کا عمل دوسروں کے لیے رہنما     بن سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت میں فرد کا معیارِ مطلوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کائنات کے بارے میں تصورات کی اصلاح کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی و رہنما قرار دینے سے اسلام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے اور انسان ایک متوازن زندگی گزار سکے۔ اسلامی ثقافت میں کشاکشِ حیات کا مقصد و منتہا اُخروی زندگی کی کامیابی کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلامی ثقافت کم تر سے بلند اور بلندتر منزل کی طرف ارتقا کرتی ہے۔ ایک طرف تو تصورِ آخرت انبیاؑ کو جامع و بلند نصب العین فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف یہ تصوّر ایک ایسی مشترک بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلاتفریق رنگ و نسل و لِسان ایک اُمت وسط عالمِ وجود میں آتی ہے جو جغرافیائی اور طبعی حدود و قیود سے ماورا تہذیبی یک جہتی کی بنیاد پر ایک عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔

قرآن کی دی ہوئی ثقافت کی یہ تین بنیادیں (توحید، نبوت و آخرت) فرد اور معاشرے کو کمال، خوشی، فرض اور دیگر مقاصد ِ حیات کے محدود نظریات کی پستی سے نکال کر حقیقی خوشی، صداقت اور کمال کی رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔

اسلامی ثقافت ایک ہمہ گیر ثقافت ہے یہ محض چند نفوس کی ذاتی اصلاح اور تربیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے تمام ماننے والوں کو رشتۂ اخوت و ایمان میں جوڑ کر صالح معاشرے کی تعمیر اور عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر انسانی برادری کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اسلامی ثقافت افراد کے درمیان فلاح اور خیر کو مشترک بنیاد قرار دیتی ہے۔ یہاں پر مسابقت ہے مگر نیکی، شرافت، تعلق باللہ، اطاعت ِ رسولؐ اور ادایگیِ حقوق میں۔ اسلامی ثقافت انسانی زندگی کے ہرگوشے اور ہرعمل کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ زندگی کے ہرعمل میں خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، معیشت سے ہو، یا معاشرے سے ہو، خواہ ایک شخص کی گھریلو اور خانگی زندگی ہو یا بین الاقوامی مسائل، غرض ہرمسئلے اور ہرمعاملے میں اسلامی تہذیب رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ یہ اصول جس طرح فرد کی زندگی کی اصلاح کرتے ہیں بالکل اسی طرح معاشرے، ریاست اور بنی نوع انسان کی فلاح کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔

ماخذثقافت

اسلامی ثقافت خود کو ایک الٰہی تہذیب قرار دیتی ہے اور قرآن اس الٰہی تہذیب میں ماخذ ِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن کسی خاص نسل، قوم یا خطے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات اور دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کی بنیاد پر جو آفاقی ثقافت عالمِ وجود میں آتی ہے وہ تمام تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے بنی آدم ؑ کو اتحادِ فکر و عمل کے ذریعے ایک عظیم تر انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کی کسی اور تہذیب یا ثقافت میں یہ آفاقیت اور ہمہ گیری نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت بنیادی طورپر قرآنی ثقافت ہے۔ یہ معاش و معاد، حلال و حرام اور جائز و ناجائز، غرض تمام مسائل میں قرآن کو رہنما قرار دیتے ہوئے احکامِ الٰہی کے سامنے کامل سپردگی کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ کتاب کو ماخذ مان لینے کے بعد اسلامی ثقافت اس ہستی کو جس پر یہ کتاب نازل ہوئی، مفسرِکتاب اور شارحِ کتاب کا مقام دیتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ماخذ ِ ثانی قرار دیتی ہے۔ چنانچہ قرآن کے عطا کردہ اصول اور نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسوے میں دو بنیادی ماخذ ہیں جن پر اسلامی تہذیب کے قصر کی تعمیر ہوتی ہے۔

زبان و ادب

اسلامی ثقافت کی ان دو بنیادوں کے مختصر ذکر کے بعد اب ہم ثقافت کے ایک اہم پہلو، یعنی ذریعۂ اظہار کو لیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ جن عناصر کے سہارے وجود میں آتا ہے زبان ان میں سے  ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایک لمحے کے لیے زبان کو معاشرے سے الگ کر دیجیے ۔ حُسن، رنگ و بُو، رعنائی و نیرنگی، غرض تمام جسمانی اور نفسیاتی تجربات یکایک وجود سے عدم میں چلے جائیں گی۔ قرآن کی زبان الہامی و توقیفی ہے۔ گو، قرآن کے بیش تر الفاظ لغت ِ انسانی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنی بلاغت، ادبیت اور اعجاز کے اعتبار سے یہ اپنی مثا ل آپ ہیں۔ گویا خالص زبان کے نقطۂ نظر سے بھی قرآن بلند ترین ادبی خصوصیات کا حامل ہے۔

قرآن کے ہرکلمے میں زبردست اثرانگیزی ہے۔ قرآن اپنے نظریۂ ادب کی بنیاد کائنات کی ٹھوس حقیقتوں پر رکھتا ہے اور اظہار کے لیے صحت ِ فکر اور عصمت ِ خیال کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اگر حُسن کا معیار معلوم کرنا ہو تو حضرت یوسف ؑ کے حالات دیکھیے۔ اگر ہجر کی لذتوں کا اندازہ کرنا ہے  تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی کیفیات سے گزریئے۔ اگر صبروقناعت کا مشاہدہ کرنا ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کی واردات کا مطالعہ کیجیے۔ اگر استقامت کا مفہوم سمجھنا ہے تو راتوں کو جاگنے والے اور کمبل میں لپٹنے والے، سرورِ دوعالمؐ کے حالات کی ورق گردانی کیجیے، غرض جہنم میں لکڑیاں ڈھونے والی ابولہب کی بیوی سے لے کر حُورانِ بہشت تک ہرمضمون اور ہرموضوع پر زبان و ادب کے مکمل ترین شاہکار قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والے دل و دماغ، اور سننے والے کان کی ہے۔

قرآن کریم کے زیراثر وجود میں آنے والی ادبی روایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ اس پہلو سے دنیا کی کوئی تمدنی زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نزولِ قرآن سے آج تک اس زبان کا ادب قرآن کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے محاورے، روزمرہ اور الفاظ کے استعمالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں جو دنیا کی ساری زبانوں میں گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رُونما ہوتی رہتی ہیں، اور نتیجتاً ایک دَور کی زبان اور اس کا ادب دوسرے دور کے لیے اجنبی اور غیرمانوس ہوجاتاہے۔ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے عربی زبان کو عالم گیریت سے نوازا بلکہ قرآن کی وجہ سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ دنیا کی دوسری زبانوں میں شامل ہوئے اور ثقافتی اتصال کا ذریعہ بنے۔

شاعری

اسلامی ثقافت کے زیرِاثر وہ عرب شعرا جو زُلف ِ گرہ گیر، نگہ نیم باز، خنجروابرو، لب و رُخسار، اور حُسن و عشق کی حکایات کے لیے مشہور تھے، اب حمدباری تعالیٰ، منقبت ِ رسولؐ، فضائلِ اخلاق، حکایات اور سلوک و معرفت کی منازل جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے لگے۔ قرآن نے شرم و حیا، پاک بازی و عفت کے تصورات دے کر عرب شاعری کو حجاب کی چادر اُوڑھا دی۔ بلاشبہہ قرآن شعر نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایسی نثر ہے جس میں شعر کا بانکپن ہے۔ شعریت کا حُسن اس کی سطرسطر سے نمایاں ہے۔ اس خاص اسلوب نے صرف عربی ادب کو متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا کی جن جن زبانوں تک قرآن کا پیغام پہنچا ہے انھوں نے اس سے اثرلیا ہے۔ الفاظ، تراکیب اور جملوں کی ترتیب بھی اس سے متاثر ہوئی ہے اور محاورے، تشبیہات، استعارے بھی، غرض ہرہرچیز کو قرآن کے اسلوب نے متاثر کیا ہے، گو عربی قرآن کی زبان ہے خود اُردو پر اس کے اثرات کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی حیثیت صرف متاثر کرنے والے کی نہیں بلکہ اس پہلو سے بھی معیار کی ہے۔ اس کا اعتراف اقبال نے اس طرح کیا ہے کہ   ع        آہنگ میں یکتا صفتِ صورئہ رحمٰن

 رسم و رواج

قرآن نے قدیم رسوم و رواج کی مناسب اصلاح کی اور صرف ان رسوم کو باقی رکھا جو اسلام کے بنیادی تصورات سے متعارض نہ تھیں۔ چنانچہ وہ تمام رواج جو انسان کی فطرت سے مناسبت نہیں رکھتے تھے یا جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے ٹکراتے تھے اور صدیوں سے عربوں کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، قرآنی ثقافت نے انھیں یک قلم منسوخ کر دیا، مثلاً غم کے موقعے پر بین کرنا، بال بکھیر کر چہرہ پیٹنا، ایامِ حج میں ستر کو ظاہر کرنا، جسم کو گودنا اور ایسا بنائو سنگھار کرنا جس سے زینت ظاہر ہو اور نامحرموں کے لیے کشش پیدا ہو، منع فرمایا۔ قرآن نے ایسی تمام رسوم و رواج کو تبرج جاھلیۃ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعے پر بے جا اظہارِ شان و شوکت اور دھوم دھڑکے کو ناپسند کرتے ہوئے فرماںرواے عربؐ نے اپنی صاحب زادیوں کی شادی جس سادگی اور قناعت کے ساتھ فرمائی وہ اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس طرح قرآن نے قومی روایت کو رطب و یابس اور منکر سے پاک کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند روایت کو معاشرے کا ایک جزو بنایا اور اسے معروف سے تعبیر کیا، یعنی وہ چیز جو جانی پہچانی طور پر اخلاقی ہے۔ اس طرح یہ عظیم تصور دیا کہ دراصل نیکی انسان کی فطرت ہے اور انسان معاشرے کی اصل روایت ہے۔ اُن نیکیوں کو جنھیں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، قرآن ان کو ’معروف‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور یہ وہ بلند ترین مقام ہے جو کسی نظام میں روایات کودیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامی تعامل میں سے وہ چیزیں جو اسلام کی تعلیمات سے متصادم  نہ ہوں اور اس کی روح سے مطابقت رکھتی ہوں، ان کو اسلام اپنے نظام میں ضم کرلیتا ہے اور انھیں ’عرف‘ قرار دیتا ہے۔ پھر قرآن خدا کے رسولؐ کے طریقے کو مسلمانوں کا دائمی طریقہ بناتا ہے اور یہ سنت مسلم معاشرے کی زندہ روایت بن جاتی ہے۔ ہماری تمدنی زندگی میں ان روایات کی حیثیت وہی ہے جو کشتی کے لیے لنگر کی ہوتی ہے۔ اس طرح قرآن نے ہمارے تمدن اور ہماری ثقافت کے چاروں گوشے بھی مقرر کیے اور اس کے ارتقا اور اس کی ترسیل کے لیے بہترین راستے بھی متعین کر دیے۔

معاشرت

قرآن جس معاشرے کاتصور پیش کرتا ہے اس کی بنیادی خصوصیت، معاشرتی عدل ہے، یعنی افراد کے حقوق کا تحفظ ، امدادباہمی و تعاون ، اخوت اور بھائی چارہ اور ضروریات و حاجات کی فراہمی۔ قرآن معاشرتی زندگی کی بنیاد حُرمت اور عصمت کے تصورات پر رکھتا ہے اور متعین طور پر حرام رشتوں کی نشان دہی کردیتا ہے۔ قرآن کے قائم کردہ نظامِ عصمت و عفت میں تمسخر، تہمت،  عیب جوئی، بدگمانی ،بدنامی اور غیبت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے۔

گھریلو زندگی کو ہرقسم کے شک و شبہہ اور مناقشات و اختلافات سے پاک رکھنے کے لیے اتنی احتیاط برتی گئی کہ گھروں میں داخلے کے وقت اجازت کو ضروری قرار دیا۔ افراد کے تشخص کوبرقرار رکھنے کے لیے انھیں مختلف قبائل و شعوب میں بانٹا لیکن جہاں تک انسانی حقوق و فرائض کا تعلق ہے اس میں کوئی تفریق نہیں برتی۔ حتیٰ کہ غلاموں کو جو دنیا کی کسی بھی تہذیب میں عام انسانوں کے برابر نہیں سمجھے گئے، اسلامی ثقافت میں انھیں بھی یکساں بنیادی حقوق فراہم کیے گئے اور غلام سازی کو روکنے کے لیے اخلاقی اور قانونی ضوابط کو متعارف کروایا گیا۔ قرآن کے اس بنیادی نقطۂ نظر کا یہ اثر ہے کہ اس میدان میں بھی ہمارے ثقافتی مظاہر دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ فحش کلامی اورگالم گلوچ کے لیے یہاں کوئی گنجایش نہیں۔ غصہ اور اختلاف کے اظہار کے لیے یہاں اتقوا اللہ اور یھدیکم اللہ  کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔

امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ اگر اہلِ مدینہ کو کسی کو گالی دینی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ تجھے جمعہ کا غسل نصیب نہ ہو، یعنی ایک نیکی تجھ سے چھوٹ جائے۔ ایسی نیکی جو فرض کے درجے کی نہیں ہے۔ اہلِ عرب آج تک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لیے یا اس کی بات کاٹتے وقت تعال اللہ  عمرک  (اللہ تیری عمر میں اضافہ کرے) کہتے ہیں۔ قرآن نے کہا کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، اور توجہ دلائی کہ تم ان کا احسان نہیں اُتار سکتے۔ ان عالم گیر اور آفاقی و اخلاقی اصولوں کی روشنی میں خاندانی اور اجتماعی آداب کا ایک مکمل نظام تیار کیا۔ معاشرتی زندگی کے یہ تمام ثقافتی مظاہر قرآن ہی کا عطیہ ہیں۔

اکل و شرب اور لباس

بھوک کا رفع کرنا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کو صرف روحانی غذا ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ انھیں خوردونوش کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ قرآن نے غذا کو حلال و حرام کی دوبڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی ان اشیا کی نشان دہی کردی ہے، جو انسان کے لیے مضرت رساں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک عمومی اصول یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جن اشیا پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو ممنوعات میں سے نہ ہوں ان کا استعمال جائز ہے۔ قرآن نے حلال و حرام کے دائرۂ کار کو وسعت دے کر زندگی کے تمام معاملات کو، خواہ وہ انتہائی ذاتی ہوں یا معاشرتی، معاشی ، سیاسی یا ثقافتی، ان دو الفاظ کے ذریعے اچھائی اور بُرائی میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ حلال و حرام کا اطلاق محض خوردونوش پر نہیں بلکہ زبان سے کیا لفظ ادا کرنا ہے، کان سے کون سی بات سننی ہے، ہاتھ   کس جانب بڑھنا ہے، پائوں کو کس طرف حرکت کرنی ہے، معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، غرض حلال و حرام کی بنیاد پر ایک اخلاقی تہذیب کا وجود صرف اور صرف قرآنِ کریم کا کارنامہ ہے۔

قرآن نے قبل از اسلام کے طورطریقوں ، جن میں بعض غذائوں کا صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونا یا بعض حلال غذائوں کو اپنے اُوپر حرام قرار دے لینے سے منع فرمایا اور اس طرح انسانوں کو کفرانِ نعمت سے روکا۔ غذا کی طرح لباس بھی ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔ قبل از اسلام کی ثقافت میں تن کی عریانی ہی لباس بن چکی تھی، حتیٰ کہ حرمِ کعبہ میں برہنہ طواف کرنا ایک عام عادت بن چکی تھی۔ قرآن نے لباس کے سلسلے میں اصول بیان فرمایا کہ وہ ساتر ہو، پاک صاف ہو، سادہ ہو اور دوسری اقوام سے مختلف ہو۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے معاشرے پر نظر ڈالیے تو یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سادہ بالعموم سفید لباس پسند فرماتے تھے۔ آپؐ نے مردوں کے لیے ایسے لباس کو پسند کیا جو مشقت و محنت میں حارج نہ ہو اور جس سے تکبر پیدا نہ ہو۔ چنانچہ ریشمی اور قیمتی لباس پہننے کو ناپسند فرمایا۔ بلاشبہہ لباس کے تعین میں آب و ہوا اور مقامی اثرات کا خاصا دخل ہے لیکن قرآن کے تصورات نے دنیا کے تمام ملکوں میں مسلمانوں کے لباس کا ایک خاص رنگ قائم کر دیا۔ اس میں سادگی، طہارت، نظامِ عبادات سے ان کی مناسبت کے ساتھ حُسنِ ذوق اور سلیقہ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔

خاص مواقع پر پہننے والے لباس پر قرآن کی موزوں آیات کی کتابت بھی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے۔اس کا رواج اتنا بڑھا کہ غیرمسلم پادری تک خاص مواقع پر وہ کپڑے استعمال کرنے لگے جن پر عربی الفاظ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ مشہور مؤرخ رابرٹ بریفارلٹ اپنی کتاب تشکیلِ انسانیت میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ آج بھی اشبیلہ کے میوزیم میں ایسی کپڑے پر کاڑھی ہوئی منقش تصاویر (Tapesteries ) موجودہیں جن میں عیسائی پادری وہ چوغے پہنے ہوئے ہیں جن پر قرآنی الفاظ، مثلاً لاغالب الا اللہ تحریر ہیں۔ شاید اسی کیفیت کو اُردو محاورے میں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کہا گیا ہے۔

فنون

مفسّرین کا خیال ہے کہ قرآن میں جملہ علوم و فنون کے لیے بنیادیں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن نے جابجا غوروفکر کرنے اور تحقیق و جستجو اور تلاش کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو محض قرآن کی بنا پر بہت سے فنون وجود میں آئے، مثلاً فنِ قرأت، فنِ تجوید، فنِ کتابت، فنِ کاغذ سازی اور دیگر قسم کے ورق، طغرانویسی، آرایشی و ہندسی خطوط، اُبھارواں و کندہ خطوط، فنِ جلدسازی وغیرہ۔

قرآن کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے مزید احتیاط کے پیش نظر قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی کے تحفظ کے لیے فنِ تجوید و قرأت کو فروغ دیا، تاکہ مختلف اقوام کے اختلاط سے (جن کے لہجے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے) قرآن کے الفاظ متاثر نہ ہوں۔ گو، اسلام نے موسیقی کو پسند نہیں کیا لیکن حُسنِ صوت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ مسلمانوں نے خوش الحانی کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے ذریعے ذوقِ نغمہ کی تسکین بھی کی اور روح کے تغذیہ کا سامان بھی بہم پہنچایا۔

قرآن نے بت پرستی، لہوولعب اور ہرقسم کے شرک کی نفی کی تھی۔ اس لیے اس کے ماننے والوں کے فنون میں قرآن کی ان ہدایات کا عکس نظر آتا ہے۔ تصویر کشی عرب جاہلیہ میں بالکل عام تھی لیکن اسلامی ثقافت میں انسانی شبیہہ اور ذی حیات اجسام کی تصویرکشی کی جگہ ہندسی نمونے،     خط صغریٰ اور قرآنی آیات کے انتہائی خوش نظر نمونے بنائے جانے لگے۔ اوّل اوّل قرآنی آیات پتھروں پر کندہ کی گئیں لیکن دورِ عباسی میں فنِ تعمیر میں وسعتوں کے ساتھ عمارتوں پر ہونے والے پلستر پر، جب کہ وہ تازہ اور نرم ہوتا، سانچوں اور فرموں کی مدد سے آیاتِ قرآنی کے ابھارواں نقوش بنائے جانے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے قیمتی کپڑے تیار کیے جاتے جن میں سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کاڑھی جاتیں اور ان کو رواجِ عام حاصل ہوا۔ بالعموم مساجد کے دروازوں، محرابوں، چھت کے گرد، منبر وں اور چمڑے کے دبیز پردوں پر انتہائی خوب صورت خط میں قرآنی آیات لکھی جاتیں اور نئے نئے نمونے اور شکلیں بنائی جاتیں۔

قرآن کو تحریری شکل میں زیادہ مدت تک محفوظ رکھنے کے لیے قسم قسم کے کاغذ اور دیگر سامانِ کتابت کی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ کاغذ کے علاوہ جس کی عمر بہت محدود تھی، اریم، یعنی باریک کھال کی جھلّی، سفید رنگ کے پتھر کی پتلی پتلی اور چوڑی تختیاں (ہمارے ہاں کی سلیٹ سے مشابہ)، کتف، یعنی اُونٹ کے مونڈھے کے پاس سے تراشی ہوئی گول اور پتلی پتلی تختیاں، کھجور کی شاخوں کے چوڑے حصے سے نکالے ہوئے ورق ،بعض نرم لکڑیوں کی تختیاں جن پر تحریر کندہ ہوجاتی اور جنھیں قتب کہا جاتا، ایجاد کی گئیں۔ ان فنون کی ترقی میں سب سے زیادہ دخل قرآنِ پاک کو محفوظ کرنے کی سعی کا تھا۔ اسی طرح روشنائی سازی کا فن بہت ترقی کرگیا۔

اسلامی ثقافت محض چند مفروضوں اور چند تصورات سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہرعمل کے بارے میں واضح اور حقیقی رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتی ہے۔  یہ قول و عمل میں تطبیق پیدا کر کے انسان کے علم، عقیدہ، قانون، رسوم و رواج، معاشرت، معیشت، سیاست اور فنون، غرض ان تمام اعمال کو جو انسان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے انجام   دیتا ہے، آفاقی توحیدی ثقافت و تہذیب کے اخلاقی اصولوں کی روشنی میں ایک نئی شکل دیتا ہے اور انسانی معاشرے کو عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر قائم کرتا ہے۔ اس معاشرے میں فرد کی ذاتی تربیت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے فطری اور مناسب ماحول کی موجودگی اور ارادہ و عمل کی آزادی ایک متوازن اور صحت مند زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔

اسلامی ثقافت قرآن اور سنت نبویؐ کی بنیادوں پر وجود میں آتی ہے اور اپنی ہمہ گیری کے سبب ہر زمانے اور دور کی ضروریات و مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عربوں کے قبل اسلام کے رسوم و رواج کا نام نہیں ہے کیوں کہ اسلام کے آنے کا مقصد عربوں کو اسلام کے ضابطے میں لانا تھا، دنیا کے انسانوں کو عربیت کا رنگ دینا نہیں تھا۔ قرآن کریم کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان اپنے معانی کے بیان کے لیے عربی زبان کو منتخب کرنا ہے۔ اگر قرآن عربی زبان پر یہ احسان نہ کرتا تو عربی بھی عبرانی اور دیگر زبانوں کی طرح سے ایک مدفون زبان بن جاتی۔ قرآنی ثقافت زمان و مکان کی قید اور مشرق و مغرب کے رسوم و رواج سے آزاد ایک ایسے زاویۂ نظر اور طرزِ حیات کا نام ہے، جس نے انسانوں کو جو اپنی تعریف ’ حیوانِ ناطق‘ یا ’معاشرتی حیوان‘ کے کرتے تھے، ایک ’اخلاقی مخلوق‘ میں تبدیل کر دیا جس کا ہرہر عمل عقل و دانش اور وحی الٰہی کے تابع ہونے کی بنا پر مقبول و محمود قرار پایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عالمی تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی مقصد  اقامتِ دین کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو تحریکات اسلامی کو دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔ بعض دعوتی تنظیمیں اپنی زیادہ توجہ عبادات پر دیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا صحیح طور پر ادا کرنا دین داری کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد اسی غرض سے دُور دراز کے سفر کرتے ہیں کہ لوگوں کو عبادات کے فضائل سمجھائیں اور بالخصوص نماز کے فرائض اور واجبات سے آگاہ کریں۔ ان کی یہ خدمات قابلِ قدر اور دین کی اقامت کی کوشش کا ایک اہم ابتدائی حصہ ہیں۔ لیکن کیا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی ابتدا اور انتہا بس یہی ہے؟

قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں اس پہلو کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خصوصیت سے موجودہ عالمی حالات اور اسلام کے باب میں مغربی اور خود مسلم دنیا میں مغربی فکر کے زیراثر سوچنے والے دانش وروں اور نشری اداروں کے اسلام میں دین و دنیا اور مذہب و ریاست کے تعلق کے بارے میں فکری اور سیاسی یلغار کی روشنی میں کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔

فریضہ اقامتِ دین

تحریکاتِ اسلامی ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح کے استعمال پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔

اسلام اور عیسائیت میں ایک نمایاں فرق یہی ہے کہ عیسائیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات و عمل سے ہے اور دوسرے کا تعلق دنیاوی شان و شوکت اور معا شی اور سیاسی معاملات سے ۔چنانچہ ایک دین دار عیسائی کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہواور اپنے پڑوسی کے ساتھ محبت سے پیش آئے، حضرت عیسیٰؑ کی طرح اگرممکن ہو تو تجرد کی زندگی اختیار کرے اور آخر کار آپ علیہ اسلا م کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے تحفظ میں سولی پر چڑھ سکے تو یہ گویا اس کی مذہبی معراج ہوگی ۔ اسلام کا مطلوبہ معیار اس سے بالکل مختلف وہ اسوۂ حسنہؐ ہے، جس میں مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے امتحانات ، ظلم و تشدد سے گزرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی ثقافت اور اسلامی طریق حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثال آپؐ نے اپنے عمل سے پیش فرما کر دین کی تکمیل اور تفسیر فرمائی۔ اس طرح اپنے طرزِ عمل کی شکل میں زندگی کی اکائی کو غیر منقسم اور توحیدی بناکر ایک قابلِ عمل نمونہ قیامت تک کے لیے پیش فرما دیا ۔

تحریکاتِ اسلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جامع تصور اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے دین کی مستند تعبیر اورعملی مثال قرار دیتی ہیں۔اس بنا پر ان کے کارکنان راتوں کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی درخواست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں اسوۂ نبویؐ کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اقامتِ صلوٰۃ ، اقامتِ زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت او ران کے نفاذ وقیام اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو دین کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں ۔

سوال کیا جاتا ہے کہ ’اقامتِ دین کی اصطلاح کہاں سے آگئی ؟ ہم نے بچپن سے ارکانِ اسلام کے نام سے کلمۂ شہادت ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تو سنا ہےکہ یہ دین کے ارکان ہیں ،یہ بھی سنا ہے کہ بعض فقہا جہاد کو چھٹا رکن کہتے ہیں لیکن یہ اقامتِ دین کا تصور کہاں سے آگیا؟‘ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اسلام تو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور ظاہر ہے مذاہب عالم عمو ما ًاپنے آپ کو انسان اور انسانوں کےخدا کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں،جب کہ سیاسی اقتدار ایک مادی اور دنیاوی تصور ہے ۔ اس لیے ان کے نزدیک سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔

یہی وہ بنیادی فکری انتشار ہے جو آگے چل کر یہ بھی سمجھاتا ہے کہ نہ صرف مذہب اور سیاسی سرگرمی دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ روحانیت اور للہیت اور معاشرتی اور سیاسی سرگرمی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے نزدیک سچی مذہبیت اور روحانیت یہ ہو گی کہ انسان خاندانی جھمیلوں سے بچ کر رہے اور اپنے رب سے لو لگانے کے لیے کسی خانقاہ ، کسی پہاڑی کے غار ، کسی صحرا میں گوشہ نشین ہو کر اپنے آپ کو ہر طرف سے کاٹ کر اپنے رب کا ’ولی‘ بن جائے ۔ انسانی فکر کے ان لامتناہی تصورات کا سلسلہ کسی ایک مقام پر جا کر نہیں رُکتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حق کیا ہے ؟کیا اسلام واقعی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے یا اس کی اپنی کوئی پہچان اور خصوصیت ہے؟

قرآن کریم کی زبان میں اسلام اپنے آپ کو مذہب کی جگہ دین قرار دیتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۹)۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بارے میں ایک حرکی تصور دیتا ہے کہ یہ انسان کو تاریکی سے نکال کر نور میں لے آتا ہے ۔ اسی بنا پر ہم اسلام کو توحید کے قیام کی تحریک کہتے ہیں ۔

اقامتِ دین کا مفہوم

اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے ، اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ  ط (الکہف۱۸:۷۷) ’’دیوار (ایک طرف جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اسے سیدھا کر دیا‘‘، اور جب معنوی اشیا کے لیے بولا جائے تو اس کا معنی، مفہوم کاپورا کا پورا حق ادا کردینے کے لیے آتا ہے ۔

امام راغب الا صفہانی اقامتہ الشئی کے معنی ’’ کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کرنے کے‘‘ بیان کرتے ہیں اور قرآن سے دو مثالیں وضاحت کے لیے پیش کرتے ہیں:

 قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ط وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ج  فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ o  (المائدہ۵:۶۸) صاف کہہ دو کہ   ’’اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا، مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ﴿

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ o وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ  ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ  وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ o  (المائدہ۵:۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے) یہ   اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی برائیاں  ان سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔  اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔

 گویا اسلام سے قبل بنی اسرائیل کو جب قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ تورات کو پورا کا پورا جیسا اس کا حق ہےسمجھیں ، نافذ اور قائم کریں اور اس میں اپنے مطلب کے اجزا الگ کر کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں ۔ قرآن کریم نے نہ صرف تورات کے حوالے سے بلکہ دین حق کے حوالے سے بھی جگہ جگہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ صحیح اور سیدھا دین اگر ہے تو صرف اسلام ہی ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ  (یوسف ۱۲:۴۰) ’’یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے‘‘۔

اسی دین کی اقامت کے لیے اُمت مسلمہ کو خیر امتہ اور امت وسط قرار دیتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا گیاہے ۔ یہ کام جہاں اجتماعیت ، نظم و ضبط اور تحریک کےبغیر عقلاً ممکن نہیں ، وہاں اولین تحریک اسلامی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن تربیت یافتہ اصحاب کی ٹیم کو تیار کیا    ان سب نے اجتماعی طور پر مدینہ منورہ میں وہ نظام قائم کیا جس نے عدل، توازن ، عبودیت اور حاکمیت ِالٰہی کی قرآنی تعلیمات و احکام کو اور قرآنی حدود و تعزیرات کو عملاً قائم کر کے دین کے کامل اور قابل عمل ہونے کو قیامت تک کے لیے جیتی جاگتی مثال بنا دیا ۔ سادہ الفاظ میں اقامتِ دین کا مفہوم اسلامی عبادات کے ساتھ دین کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کا زمین پر نافذکرنا ہے ۔

اقامتِ دین کی حکمت

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقامتِ دین کا مطلب پورے کے پورے دین کو قائم کرنا ہے جسے اس دور میں بظاہر’ بدنام‘کرنے کے لیے مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو یہ’ سیاسی اسلام‘ ان ممالک میں کیسے نافذ ہو گا جہاں لا دینی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے؟قرآن کریم میں اقامتِ دین کے لیے اُمت مسلمہ کو ذمہ داری دیتے وقت یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ امت کی جواب دہی ہمیشہ بقدر استطاعت ہو گی۔ اگر مسلمان کسی اکثریتی ملک میں جہاں اہل ایمان کو یہ آزادی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو ، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی معاملات بلکہ سیاسی معاملات میں ایسے افراد کو ذمہ داری پر مامور کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہوں اور ان کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں تو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ان سےدین کی اقامت نہ کرنےپر احتساب نہ صرف عقل کا مطالبہ ہے بلکہ قرآن کے واضح احکام کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔

اگر مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جہاں وہ ’مذہبی آزادی‘کے اصول کی بنا پر دین کے ایک حصے پر عمل کر سکتے ہوں اور بغیر کسی روک ٹوک کے دین کی دعوت بھی پیش کر سکتے ہوں لیکن تبدیلیِ اقتدار ان کے اختیار میں نہ ہو، تو اقامتِ دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی اسی حد تک ہو گی جتنا انھیں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس تناظر میں انھیں یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ مقامی صورت حال کے پیش نظر دین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے اس کے سیاسی ، معاشی اور قانونی تعلیمات کے منکر ہوکر دین کو صرف انفرادی زندگی تک محدود کرکے عیسائیت کی طرح ایک روحانی مذہب بنا دیں۔یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ مذا ق اورعملی بغاوت ہوگی۔ البتہ دین کو اس کی جامعیت کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حالات کی روشنی میں عمل کریں اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں تو یہ صراطِ مستقیم سے قریب تر ہوگا۔ دین جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ___ ہاں، اس کے بعض مطالبات زمان و مکان کی قید کی بناپر اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک ان کےنفاذ کی قوت ہاتھ میں نہ آجائے۔ اس معاملے میں قرآن کریم نے ’تکلیف‘ کے اصول کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے: لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا ج (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے‘‘۔

یہ آیت ہمیں یہ اصول سمجھاتی ہے کہ انسان کس حد تک ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ اس کی جواب دہی بھی انھی معاملات میں ہے جن میں اسے اختیار ہے ۔ اس لیے یہ ساری بحث کہ امریکا میں یا یورپ میں اقامتِ دین کیسے ہو گی ؟ دین کے بنیادی حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ دین بہت سادہ ، عملی اور عقلی ہے۔ گویا اقامتِ دین سارے کے سارے دین کی تعلیمات کی دعوت اور نفاذکا نام ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ بعض احکام پر مکمل عمل امکان اور اختیار سے باہر ہو تو جس حد تک عمل ہو سکتا ہے اس کا اہتمام وہی دین کا مطالبہ ہوگا ۔ مثلاًایک شخص طاقت ور مومن ہو لیکن اسے زنجیروں سے اس حد تک باندھ دیا جائے کہ وہ صرف رکوع کر سکتا ہو سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کیا اس بنا پروہ نماز ترک کر دے گا یا رکوع کرنے کے بعد جس حد تک وہ جھک سکتا ہے ، جھکے گا اور وہی اس کا سجدہ شمار کیا جائے گا اور اس طرح ادا کی گئی نماز اور ایک آزاد فرد کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی کیوں کہ رب کریم کو علم ہے کہ اس کا بندہ مجبور ہے اور اسی حد تک جسم کو جھکا سکتا ہے جتنا قید و بند میں ممکن ہے ۔

 اقامتِ دین کے لیے تمام موجود ذرائع کا استعمال کرنا اور دین کی تعلیمات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بہترین انداز میں پیش کرنا وہ اہم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پسند فرمایا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے اس ذمہ داری پر مقرر کیا جانا ایک ایسا اعزاز ہے ، جس کا    شکر اداکرنا اس پر فرض ہے اور یہ شکر صرف اپنے تمام وسائل کو وہ مادی ہوں ، عقلی اور ذہنی ہوں یا تنظیمی ہوں، حتی المقدور استعمال کر کے ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔

 بنی اسرائیل کو جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب شریعت کو قائم کرنے پر مامور کیا گیا اور انھوں نے اقامتِ دین کے فریضے کی ادایگی جیسا کہ اس کا حق ہے نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ امت مسلمہ کو اپنے فضل سے یہ ذمہ داری سونپ دی ۔قرآن کریم اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئےکئی مقامات پر وضاحت سے بیان کر تا ہےکہ تمام انبیاے کرامؑ کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قائم کرنایا اقامتِ دین تھا۔فرمایا گیا:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط ( المائدہ۵:۶۶) کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔

تورات اور انجیل کے قائم کرنے یا اقا موا کا واضح مطلب ان کتابوں کو طبع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یا ان کو خوش الحانی سے پڑھنا نہیں ہے،بلکہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے  قوتِ نافذہ کا استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے اس قوت نافذہ کو واضح الفاظ میں اپنے کلام عزیز میں بیان فرما دیا:

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ط (صٓ۳۸:۲۶) اے داؤدؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔

 یہاں حضرت داؤد ؑسے واضح طور پر جو بات کہی گئی ہے وہ نہ صرف انھیں خلافت پر مامور کرنا ہے، بلکہ قانونی معاملات میں بااختیار حاکم اور قاضی کی حیثیت سے حق پر مبنی فیصلے کرنے کے ذریعے اقامتِ دین کرنا ہے۔اسی سورہ میں آگے چل کر حضرت سلیمانؑ کی وہ دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ اقامتِ دین کے لیے ایسی سلطنت کی خواہش کرتے ہیں جو بے مثال ہو:

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ  اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (صٓ۳۸:۳۵) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ سلطنت (مُلْکًا) دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔

قرآن کریم عیسائیت اور یہودیت کےاس ذہن کی تردید کرتا ہے جس میں قانون اور روحانیت کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد قانون کو باد شاہت کے لیے اور روحانیت کو اہل اللہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور یہی تصور صدیاں گزرنے پر نہ صرف یہودونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ذہنوں میں ، خصوصاًسامراجی غلامی کے دور میں ، جاگزیں کر دیا گیا، اور اس پر مزید ایک ظلم یہ کیا گیا کہ شریعت کے ایک بڑے حصے کو شریعت سے الگ کر کے خالص روحانیت کے نام سے تصورِ طریقت ٹھیرا کر مشہور کر دیا گیا ۔ قرآن کریم جب اقامتِ دین کا حکم دیتا ہے    تو وہ عبادت، تزکیہ، حب الٰہی، اطاعت رسولؐ، ادایگی حقوق اللہ و حقوق العباد، اجتماعی اصلاح، قیام عدل و احسان میں کوئی تقسیم نہیں کرتابلکہ سب کے مجموعے کو دین القیم کانام دیتا ہے :

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ  (البینۃ۹۸:۵) اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

اس مختصر آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین کے جامع تصورکو توحید اور اس کے دومظاہر اقامت صلوٰۃ اور اقامت زکوٰۃکے ساتھ مربوط اور واضح فرمایا ہے،یعنی یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کا پہلا مرحلہ اقامت صلوٰۃ ہے جو اقامتِ دین کی اولین شکل ہے۔ گویا محض نماز کا پڑھنا نہیں کہ پانچ وقت نما زادا کر لی گئی یا رات کی تنہائی میں اللہ کو یاد کر لیا، بلکہ اس نظامِ عدل کا قیام جس میں نماز فحشاء اور منکرات سے بچانے کا کام کرے۔پانچ وقت اس بات کا اعلان و اعادہ کہ اللہ کی زمین پر اگر کسی کی حکومت ہے اور ہونی چاہیےتو وہ صرف مالک وخالق کائنات ہی کی ہوسکتی ہے۔وہی اکبر ہے،وہی اعلیٰ ہے، وہی ہدایت دینے والا ہے، وہی فلاح کا ضامن ہے، وہی اپنے بندوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہےاور حکم واختیار صرف اور صرف اس کے لیے ہے۔

سورئہ حج میں اقامت ِ دین کی اس ذمہ داری اور مشن کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ: 

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ  ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح ایک صاحبِ مال پر فرض کر دیا گیا کہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کا حق دے۔زکوٰۃ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے اوپر احسان کرنا ہےکہ ایک مستحق کا وہ حق جو صاحبِ مال کو بطور امانت دیا گیا تھا وہ اس نے اصل مالک کوپہنچا دیا۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے ایک غریب شخص ایمان کی تکمیل اسی وقت کر سکتا ہےجب وہ زکوٰۃ میں حاصل کی ہوئی مدد کو اس طرح استعمال کرے کہ جلد ازجلد خود زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکے۔ اس طرح زکوٰۃ معاشرے میں معاشی خوش حالی اور خودانحصاری پیدا کرنے کے لیے ایک شرعی محرک بن کر صاحبِ مال اور غریب دونوں کو معاشی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے۔گویااقامت زکوٰۃ کا مطلب نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض چند افراد کی مالی امداد کا نام نہیں، نہ یہ کسی قسم کا ٹیکس ہے جو امیروں پر لگایا گیا ہے۔یہ ایک عبادت ہے۔ یہ فریضہ ہے، یہ شرعی محرک ہے تا کہ غربت دُور ہو اور معاشی استحکام پیدا ہو۔

 نماز اور زکوٰۃ کا یہ نظام دین کی اقامت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ اسلامی ریاست کے فرائض و واجبات میں یہ بات شامل کر دی گئی کہ وہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے لیے اپنی  قوتِ نافذہ کو ، حکومت کے وسائل و اختیارات کو استعمال کرے گی۔ چنانچہ سورۃ الحج میں صاف  طور پر فرمایا گیا کہ اگر ہم تمھیں زمین میں اختیار دیں تو اقامت صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام تمھاری سرکاری ذمہ داری ہے (الحج۲۲:۴۱)۔دین کی یہ جامعیت ہی ہے جو اسے دنیا کے تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہےاور جس کو نہ سمجھنے کی بنا پر مسلمان اور غیر مسلم سادہ لوحی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح دیگر مذاہب میں Charity  کا تصور ہے ایسے ہی اسلام میں زکوٰۃ کی تعلیم ہے۔زکوٰۃ نہ Charity ہے نہ کوئی ٹیکس اور ذاتی عمل، بلکہ یہ ایک معاشرتی فریضہ ہے جو اجتماعیت کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن نے اس انقلابی تصور کو بڑی خوب صورتی سے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔

اگر بنی اسرائیل اور نصاریٰ اس بات کو سمجھتے اور اقامتِ دین کرتے تو قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ان پر آسمان اور زمین سے رزق کے دروازے کھل جاتے، آسمان سے رزق برستا اور زمین سے اُبلتا لیکن وہ اقامتِ دین کے فریضے سے فرار اور دین کو انفرادی اور ذاتی مذہبی عبادت سے  تعبیر کر کے ایک بڑے انحراف میں پڑ گئے۔آج اس انحراف کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔      اس انحراف سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ کے ذریعے دین القیم کو اس کی اصل اور درست شکل میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر مبعوث فرمایااور آپؐ کے بعد اس اقامتِ دین اور شہادت حق کی ذمہ داری کوآپ کی امت پر فرض کر دیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’اُمّتِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے مرادمحض اسلام کے بعض درخشاں پہلو اچھے انداز میں بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ اسلام کی ایک ایسی عملی مثال قائم کرنا ہے،جسے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہر دیکھنے والا اسلام کی صداقت پر شہادت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بننے کا یہ کام صرف اللہ کی زمین پر اللہ کی ہدایت کے مطابق مکمل نظام عدل کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

اقامتِ دین کا اسلوب

اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے کو قرآن کریم نے جگہ جگہ مختلف حوالوں سے سمجھانے کے لیے دعوتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا ہے۔سورۃالحج میں اس اقامتِ دین کو چار اہم حکومتی فرائض کی شکل میں بیان فرمایا گیا۔ چنانچہ اہل ایمان کی تعریف (definition) یہ کی گئی کہ:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

لیکن اس سے ایک آیت قبل ان اہل ایمان کی اس ریاستی ذمہ داری کو بیان کرنے سے قبل جو بات کہی گئی تھی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا  ط وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ o نِ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ  يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ  ط (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ  وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا ربّ اللہ( ہی) ہے۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی مشرکانہ اور دہریت پر مبنی نظام میں کچھ لوگ وہ چاہے کم تعداد میں ہوں یا زیادہ اگر چپکے چپکے اپنے گھر میں، اپنی مسجد میں، اپنے کلیسا یا مندر میں دن کے اوقات میں اور راتوں کی تاریکی اور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے تو اس طرح کے روحانی عمل سے اردگرد کے معاشرے میں کسی کوکیا پریشانی یا تکلیف پہنچ سکتی تھی؟ اگر مکہ مکرمہ میں مسلمان اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کے نام کی تسبیح اور نمازیں ادا کرتے رہتے تو اس سے مشرکین کو کیوں پریشانی ہوتی؟ واضح بات ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، اقامتِ دین کے معنی محض ادائیگی نماز کا نام نہ تھا بلکہ تمام جھوٹے خداؤں کی جگہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت کا قائم کرنا تھا ۔ اگر معاملہ صرف اللہ جل جلالہ پر ایمان لانے کا ہوتا تو اہل مکہ بہ آسانی اپنےبہت سے خداؤں میں ایک اللہ کا اور اضافہ کر لیتے۔

بات بڑی واضح ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ سارے خدا جو نسل، رنگ، لسانی، قبائلی برتری، اشرافیہ کی منزلت ، دولت کی پرستش ،جنسی آزادی، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت دیتےتھے صرف اللہ کو رب مانتے ہی باطل ٹھیرتے اور مادہ پرست نظامِ معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون اور ہر شعبۂ حیات سے بے شمار خداؤں کی بےدخلی کے بعدہی توحید کا قیام ممکن تھااور یہ بات اہل مکہ کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ وہ توحید کا مطلب شاید ہم سے زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کے شدت سے مخالف تھے۔

دین کی اقامت کا مطلب واضح طور پر توحید کی اقامت تھااور اسی بنا پر مشرکین کے لیے اہل ایمان کا وجود ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ بات سمجھانے کے لیے سورۂ حج کی یہی آیت ایک اور اہم حقیقت سے پردہ اٹھا تی ہے کہ انسانی تاریخ میں ظالم اور شیطانی قوتوں کا ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ دعوت توحید کی مخالفت کریں ۔ا س لیے توحید کے ماننے والوں پر ہر دور میں ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔اسی بنا پر ان کو جنگ کی اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دینی شعائر بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کر سکیں ۔

مذاہب عالم کی تاریخ اور کتب مقدسہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اپنے ماننےوالوں پر یہ فریضہ عائد کر دے کہ نہ صرف اپنی مذہبی آزادی اوراپنے عبادت خانوں بلکہ دوسروں کے مقاماتِ عبادت کا بھی تحفظ کریں، تا کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوںمیں جا کر اپنے مذہب کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکیں ۔قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جویہ کہتی ہے کہ:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰)  اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔

یہاں جنگ کی اجازت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ یہ اجازت اجتماعی طور پر جنگ کرنے کی ہے ۔انفرادی طور پر بغیر کسی سیاسی اقتدار کے جنگ کا تصور پوری انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ اقامتِ دین نا ممکن ہو گی اگر اسے محض زبانی اور تحریری اشاعتِ تعلیمات اسلام سے تعبیر کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح اسلام کا قیام اوراسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا نا ممکن رہے گا جب تک قرآن کو قائم کرتے ہوئے اس کے قوانین کو حکومت کے ذریعےنافذ نہ کر دیا جائے۔یہ تمام پہلو قرآن کریم نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیے ہیں اور جو لوگ قانون اور دعوت کے درمیان لکیر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون تو انگریز سامراج کا ہو اور مسجد میں عبادت اللہ کی ہو ،    قرآن اس تصور کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتاہے۔تورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسورۂ مائدہ میں فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ  (المائدہ۵:۴۴) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ اس بات کو اگلی آیت میں یوں کہا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ   (المائدہ۵:۴۵)   ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

یہاں اقامت تورات اور اقامتِ دین اور اقامت قرآن کریم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ جب تک سیاسی قوت اور قانونی قوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ نہ کیا جائے دین کی مکمل اقامت نہیں ہو سکتی ۔یہاں یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن مقامات اور حالات میں مسلمان سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر پاتے وہاں ان کی جواب دہی صرف ان کے اختیار اور قدرت کی حد تک ہے لیکن اس کے باوجودوہ دین کو مختصر نہیں کر سکتے کہ  ان تعلیمات کو نظر انداز کر دیں جو دین کا لازمی حصہ ہیں ۔

اقامتِ دین کے تصور میں یہ بات فطری طور پر شامل ہے کہ نہ صرف عبادات اور معاملات بلکہ سیاسی اقتدار اور نفاذ قانون کے بغیر دین کے قیام کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔ سورۂ یوسف نے اس پہلو کو نہایت واضح الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔پہلے تو حضرت یوسف ؑ اپنے جیل کے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بہت سے خداؤں کی بندگی اچھی ہے یا ایک مالک اور اعلیٰ ترین رب کی؟ پھر آپ ان تک وہ حق پہنچاتے ہیں جس کے لیے آپ اور تمام انبیا کرامؑ بھیجے گئے:

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط   اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ   ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ  ط ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

قرآن کریم نے حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑکے حوالے سے یہ بات  وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اقامتِ دین کے لیے نہ صرف ابلاغ کے ذریعےبلکہ ریاستی ذرائع کا استعمال دین کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ دین زندگی کو دین، چرچ اور بادشاہت میں تقسیم کا روادار نہیں ہے۔ چنانچہ خاتم النبینؐ کی شکل میں نبوت اور ریاست دونوں کو یک جا کرنے کے بعد ہی آپؐ کے اس مجموعی داعیانہ کردار کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں آپؐ کا ہرہر قول و عمل ایک سنت ہے اور آپؐ کی دعوتی زندگی جو ۲۳سالوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جو مکی اور مدنی دونوں اَدوار کی اپنی پوری جامعیت کے ساتھ امین ہے اور جس کا نقطۂ عروج آپؐ کا حجِ وداع کا خطبہ ہے، آپ کی سنت ِ کبریٰ ہے جس کا دوسرا عنوان اقامت ِ دین ہے۔

 سیرت پاکؐ کی پیروی اور آپؐ کے اسوہ کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب آپؐ کے مکی اور مدنی دور دونوں پر یکساں عمل کیا جائے اور مکہ کی تیرہ سالہ آزمایش بھری زندگی کی تکمیل کے مدنی مراحل کو الگ نہ کیا جائے ۔ اسوۂ حسنہ مکہ اور مدینہ دونوں کی یک جائی کانام ہے ۔

اسوۂ حسنہ کی پیروی نامکمل ہو گی اگر صرف چند اخلاقی اصول تو اختیار کر لیے جائیں اور آپؐ کے قانونی کردار اور ریاستی معاملات میں آپؐ کےرویے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اقامتِ دین صرف اسی وقت صحیح طور پر ہو سکتی ہے جب یہ دونوں پہلو یک جا ہوں اور ان میں کوئی فاصلہ نہ پایا جائے۔

اقامتِ دین اور عصری رویـے

ان قرآنی حقائق کی روشنی میں دو اہم عصری رویوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔

  •  اول یہ کہ بعض اسلامی تحریکا ت سیاسی تبدیلی کو اس حد تک اولیت دیتی ہیں اور ان کے خیال میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی اُوپر سے نیچے کی طرف تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے دستوری اور غیر دستوری جو ذرائع بھی ممکن ہوں ان کے استعمال کو بھی درست سمجھتی ہیں۔
  •   دوسرا رویہ یہ ہے کہ راستہ صرف ایک ہے، یعنی نچلی سطح سے اُوپر کی جانب پیش قدمی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اجتماعی اُمور کو متاثر کرنے اور ان کی صورت گری کی فکر کرنا بعد کی بات ہے۔ اصل اور ساری توجہ بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف کرنی چاہیے جس کے لیے عوام الناس میں کام کیا جائے چاہے اقامتِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے انقلاب امامت و قیادت میں غیرمعمولی طویل وقت لگے۔ اس رویے کے ماننے والے مکی دور دعوت اور ابنیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں یہ راے قائم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عقیدے کی اصلاح اور تعمیرسیرت کی جدوجہد ہے۔ اگر اس دنیا میں کامیابی حاصل ہوجائے تو یہ اللہ کا فضل ہے ، اگر یہاں کامیابی نہ بھی ہو تو آخرت کی کامیابی کا وعدہ ایک مسلمان کے لیے زندگی کا حاصل ہے ۔ اس بنا پر جدوجہد کے طویل ہونے اور نتائج کے حد نظر تک نظر نہ آنے کی بنا پر مایوس ہونا اور اپنی دعوت اور اسوۂ انبیاؑ سے اخذ کردہ طریقِ دعوت پر شک کرنا ہماری بے صبری ظاہر کرتا ہے ۔ ایک مومن کی اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہاں پر کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہے۔
  •   ان دو رویوں کا جائزہ لیتے وقت ایک ضمنی پہلو یہ بھی ابھرتا ہے کہ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں یا ایسی ریاستوں میں جہاں مغربی سیکولر جمہوریت قائم ہے وہاں اقامتِ دین کس طرح کی جائے گی؟ اس اہم سوال پر غور کرنے سے قبل اگر اس بات کا جائزہ لےلیا جائے کہ دعوت دین یا دعوت حق سے مراد کیا ہے؟یہ کس قسم کی شہادت ہے جس کی دعوت قرآن کریم ہمیں دیتا ہے تو سوال کا اگلا حصہ زیادہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی انقلابی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے خالق حقیقی اور مالک کو اپنا رب مانتےہوئےاپنے آپ کو مکمل طور پر  اس کی اطاعت میں دے دےاور اس کام کوشعوری طور پر احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی لیے اس عمل کے لیے شہادت کا لفظ استعمال کیا گیا ۔شہادت قولی ہو یا عملی، ہر دو صورتوں میں انسان پورے احساس ذمہ داری، اختیاراور جواب دہی کےاحساس کے ساتھ ہی شہادت دیتا ہے۔ ایک نابینا شخص کسی واقعے کی عینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن کسی بات کی سماعت کی شہادت دے سکتا ہے۔ایک شخص جو سننے کے لیے کسی آلے کا استعمال کرتا ہوسمعی شہادت بھی صرف اس وقت دے سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ آلۂ سماعت پہنے ہوئے تھا۔اس لیےقرآن کریم جب شہادت حق کی بات کرتا ہے تو اہل ایمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے طرزعمل، طرزفکر، اپنے معاشی،سیاسی ،معاشرتی رویے سے توحید کی شہادت دیں گے۔ قرآن کریم جب کسی انسان کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو بات قولی اقرار تک نہیں رہتی فوراً اس اقرار کو ناپنے کا پیمانہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ یہ دونوں عبادات اقامتِ دین کی اوّلین مظہر ہیں اور اسلامی معاشرت کی پہچان ہیں۔مدینہ منورہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام جو کیا گیا وہ مسجد کے قیام کے ساتھ مدینہ کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ میثاقِ مدینہ قلم بند کیا گیااور اس طرح اقامت صلوٰۃ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت کا تعین نظامِ عدل کا قیام ، معاشرے سے فواحش اور منکرات کے خاتمے کی بنیادیں رکھی گئیں ۔چنانچہ فرمایا گیا:

 يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸)     اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔

اسی بات کو زیادہ وضاحت سے یوں فرمایا گیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمّت ِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

یہ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اگر اسے ادا نہ کیا جائےیا اس سے رُوگردانی برتی جائےتو قرآن اس پر وعید کرتا ہے:

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ  ط (البقرہ ۲:۱۴۰) اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟

چنانچہ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت اور غلامی مسلط کر دیتا ہے:

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۶۱)   ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔

اقامتِ دین ہی وہ واحد عمل ہے جو ذلت و محکومی سے نجات دلا تا ہے۔لیکن یہ کس طرح ہو؟ کیا محض اجتماعات میں تقاریر سے یہ کام ہو سکتا ہے،یا سال میں تین مرتبہ کسی مقام پر چند منتخب افراد کا تین چار دن کےلیے یک جا ہو کر مطالعہ قرآن و حدیث اور نوافل کا اہتمام کرنا اس کے لیے کافی ہے،یا جب تک سیاسی اقتدار حاصل نہ کر لیا جائے؟ تزکیہ و تربیت کردار کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے تبدیلیِ قیادت و نظام اور حصول اقتدار کی منظم جدوجہد کے ذریعے معاشرے کی تطہیر کی جدوجہد کا نام اقامتِ دین ہے ۔اقامتِ دین کا یہ قرآنی شعور ہر دور میں تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے ۔ ایک سادہ مثال سے مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ایک ڈاکٹرکے پاس جب ایک مریض آتا ہےجس کی نبض کی رفتار درست نہ ہو، قلب بھی صحت مند نہ ہو، خون کا دباؤ بھی زیادہ ہو ، سانس لینے میں بھی دقت پیش آرہی ہو، رات کو سو بھی نہیں سکتا، تو وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز کہاں سے  کیا جائے۔ چنانچہ معائنے کی روشنی میں ہی وہ دوائیں تجویز کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مقام پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور وہ دین کی تمام تعلیمات کی اقامت نہ کر سکتے ہوں تو اقامتِ دین کا آغاز انھی اقدامات سے ہو گا جن کے کرنے پر وہ آزاد اور مختار ہوں۔ بقیہ تعلیمات کو جوںکا توں مانتے ہوئے مناسب وقت آنے پر ان کا نفاذ کیا جائے گا ۔

اقامتِ دین کے مراحل

اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ شعوری طور پر اسلام لانا اور تطہیر افکار یا توحید خالص کا ذہنوں میں جا گزیں کرنا ہے۔ یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ دو چار برس کی با ت نہیں ۔جب مکہ جیسی تربیت گاہ میں کسی اور کو نہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منتخب کردہ خاتم النبینؐ کو ۱۳سال جدوجہد کرنی پڑی تو ہم  کیسے چار پانچ سال کی مہم میں متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں (وما توفیقی الا باللہ)۔ ضرورت    اس بات کی ہے کہ نتائج سے بے پروا ہو کر پوری قوت ، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اقامتِ دین کے پہلے نکتے پر توجہ دی جائے۔اور تطہیر ِ افکا روہ لوگ کریں جو خودنہ صرف تحریکی لٹریچر بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے سے براہ راست واقفیت رکھتے ہوں اور دعوت کو آسان اور مؤثر انداز سے پیش کر سکتے ہوں، نیز ان کی سیرت ،دعوت کی دلیل پیش کرے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

 تحریکاتِ اسلامی کے لیے اصل لمحۂ فکریہ تطہیر افکار اور فہم دین کے حوالے سے یہ جائزہ ہے کہ کیا ان کا ہر کارکن اپنی عملی زندگی اور معاملات سے اپنی دعوت پیش کررہا ہے ؟یا وہ عوامی نعروں سے متاثر ہو کر تحریک میں تو آگیا، لیکن اس کی اپنی زندگی ابھی تک اسی ڈگر پر ہے، جس پر دوسروں کو دیکھتا ہے؟ کیا اس کے معاملات وہ مالی نوعیت کے ہوں یا باہمی تعلقات سے متعلق ہوں، ان اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی آسان تشریح ایک اہم تحریکی کتاب تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات میں تحریک کے ایک خادم نے تحریر کر دی ہے، اور کیا اس نے اس تحریر کو شعوری طور پر مطالعہ کر کے جذب بھی کیا ہے؟

نتائج ہمیشہ اسباب کے تابع ہوتے ہیں۔اگر ایک دیوار کی بنیاد کمزور ہو تو عمارت کتنی بلند کیوں نہ بن جائےوہ ناپایدارہی ہو گی۔تحریک اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی ۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کی اسلامی شخصیت ہے ۔ ان کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے۔ اگر یہ ٹھوس بنیاد تعمیر ہو گئی تو نتائج چاہے صدیوں میں نکلیں تحریک ایک کامیاب تحریک ہے۔ نتائج کا نکالنا تحریک کا مسئلہ نہیں،نہ وہ ان کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ مسئلہ اس کا ہے جو اس دنیا میں اصلاح، عدل اور اپنا نظا م چاہتا ہے۔ صحیح کوشش، جدو جہد اورسعی اصل بنیاد ہے۔ کوشش اور جدوجہد ہی کا نام جہاد ہے۔ جتنی کامیابی بدر کی ہے، اتنی ہی کامیابی اُحد اور حنین کی بھی ہے۔ جو اجر بدری کو ملے گا وہی اجر احد اور حنین والے کو بھی ملے گا۔ اس لیے یہ سوال کہ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ اسمبلی نشستیں جیتنا کامیابی کا معیار ہے، قرآن و سنت سے مناسبت نہیں رکھتا۔لیکن  اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سیاسی جدوجہد کو نظرانداز کیا جائے یا سیاسی جدوجہد کے نتائج کو غیراہم سمجھا جائے۔تاہم، تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا اصل پیمانہ اور معیار محض اس کو نہیں بنایا جاسکتا۔

اقامتِ دین ایسےجامع طرزِعمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہو گا ، سیرت کے انقلاب سے ہو گا جو آخر کار معاشرت ، معیشت اور قانون و سیاست پر جا کر مکمل ہو گا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہو گا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اوّلین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔

زمینی حقائق کا اِدراک

 یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اقامتِ دین کے لیے تحریک کی حکمت عملی زمینی حقائق پر مبنی ہو نی چاہیے۔ہم کسی بھی معاشرے میں بس رہے ہوں اس کا آغازجب تک گھر سے نہیں ہو گا ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہمیں غیر اسلامی روایا ت اور رواج کو گھروں سے دور کرنا ہو گاتاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلامی گھرانہ اور اسلامی معاشرت کیسی ہوتی ہے۔ ہمیں نہ صرف تربیت کے ذریعے صالح افراد پیدا کرنے ہوں گے بلکہ معاشرے میں بہت سے موجود صالح افراد کو تلاش کرکے اپنے سے قریب لانا ہو گا۔ ان کے خدشات کو دُور کرنا اور ان سے فاصلے کو کم کرنا ہو گا اور زمینی حقائق کے پیش نظر ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔

ان صالح افراد کو بھی محض جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انھیں مزید عملی تربیت کے لیے معاشرتی کاموں میں مصروف کرنا ہو گا۔شہروں اور دیہا توں میں سڑکوں پر صفائی کی مہم ، مساجد اور مدارس میں تعاون کی پیش کش، مساجد میں حکمت کے ساتھ حلقہ ہاے قرآن کا قیام ، تعلیمِ بالغاں کے مراکز، مساجد کے قریب کسی مطالعہ گھر کا قیام جس میں قرآن و حدیث اور تحریکی لٹریچر نہ صرف کتابی شکل میں بلکہ سمعی مواد کی شکل میں بھی موجود ہو۔بستی کے یتیم و معذور افراد کی خدمت کے لیے مستقل بندوبست، مزدوروں کے مسائل سے آگاہی اور ان میں نفوذ، اساتذہ اور پیشہ ور افراد ، وکلا، تاجر برادری سے محض سیاسی مہم میں نہیں بلکہ ان سے دعوتی تعلق، ان کے مسائل میں آگے بڑھ کر ان کی رہنمائی اور حق کے لیے جدوجہد، اس اولین مر حلے کے لوازم ہیں ۔

پورے ملک میں نجی شعبے میں تعلیم گاہوں کا ایک ایسے مربوط نظام کا قیام ،جس میں وہ نصابی کتب شامل ہوں، جو کردار سازی کرتی ہیں اور طلبہ وطالبات کو ایسا ماحول میسر آئے،جس میں دین کے جامع تصور کو سمجھ سکیں ۔

یہ کام کسی بہت لمبے عرصے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس سارے کام کو حکمتِ عملی کے ساتھ کرنے میں اصل پیمانہ ہمہ تن کوشش، جذبۂ قربانی، اور اپنی تمام تر قوت کا اقامتِ دین کے لیے استعمال کرنا ہے۔ عزم الامور کے بعد نتائج کو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس پر چھوڑ دینا ہی قرآن کا طریقہ ہے۔

جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے لیے بھی اقامتِ دین کے ان مراحل میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صرف اس کے لیے مکلف ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ جس نظام میں وہ رہ رہے ہیں اس میں تبدیلیِ امامت کے لیے وہ مشروط طور پر مکلف ہیں، یعنی اگر مکمل بھلائی نہیں پیدا کر سکتے تو کم ازکم کم تر برائی کے ذریعے ایک لمبےعمل کے ذریعے بھلائی کے لانے کے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان سے سوال ان کے حالات کے مطابق اصلاح کی کوشش کے باب میں ہوگا، آخری ہدف کی میزان پر نہیں۔ بلاشبہہ ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن معاملات میں ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی، ان میں کیا کارنامہ کیا؟ کیا کسی نے ان کو اس سے روکا تھاکہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اجتماعی مطالعہ قرآن و سیرت کریں؟ کیا کسی نے حکم دیا تھا کہ بچوں کو لازماً عریاں اور جنسی کارٹون دکھائیں؟ کیا کسی نے پابندی لگائی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد مسلم اور غیر مسلموں کو اپنے کردار سے متاثر کر کے دین سے متعارف کرائیں؟ کیا کسی نے یہ کہا تھا کہ وہ باہمی تعاون کے ایسے ادارے جو تجارتی کام غیر سودی شکل میں کریں قائم نہ کریں؟

اقامتِ دین کے مراحل واضح ہیں۔ ضرورت اپنے ذہن کو صاف کرنے کی ہےاور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تحریکا تِ اسلامی نے اقامتِ دین کے جو اَبدی اصول قرآن وسنت سے اخذ کیے ہیں وہ نہ وقتی ہیں نہ جغرافیائی کہ صرف پاکستان یا مصر یا سوڈان میں قابلِ عمل ہوں اور امریکا ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا۔اصل مسئلہ اپنے ذہن کو مغرب کی مرعوبیت سےآزاد کر کے ان اصولوں پر عمل کر کے انھیں عملاً نافذ کرنے کا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو    اپنا تعلق سب سے کاٹ کر صرف اورصرف اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسولؐ سے ایک ایسے عہد کے ساتھ کریں جو صرف ان کے اور ان کے رب کے علم میں ہو ۔

قیامِ پاکستان کے ۷۰ سال ایک اہم سنگ ِ میل ہیں۔ جہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ سوچنا کہ کیا کھویا، کیا پایا؟ قوموں کی زندگی میں ایک فطری اور عقلی مطا لبہ ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ حَاسِبُوْا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا  [اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا حساب کیا جائے] لیکن احتساب نفس کا یہ عمل اس شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ نشانِ منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی قوت، صلاحیت اور کوشش کی ضرورت ہے، تاکہ یہ احتسابی عمل اُمید ، یقین اور حرکت میں اضافے کا باعث ہو ۔ کفِ افسوس ملتے رہنا زندہ قوموں کی صفت نہیں۔ اسی طرح ایک فرد کی ۷۰سالہ عمر کو ایک قوم کی عمر پر قیاس کرنا بھی تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں کہا جاسکتا۔ ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو آزادی کا سانس لینے والی اس پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام سے بہت پہلے قا ئد اعظم محمد علی جناح نے مملکت کے مقصد وجود کو ۱۲جون ۱۹۴۵ءکو سرحد مسلم اسٹوڈٹنس ایسوسی ایشن کے نام اپنے پیغام میں واضح الفاظ میں یوں کہا تھا:

Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope others will share with us (S.M. Zaman , Quaid -e-Azam and Education, National Institute of Historical and Cultural Research, Islamabad,  1995,  p384(.

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے، بلکہ ’مسلم نظریہ‘ بھی ہے، جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے، جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے، اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ ہیں۔

اسی پیغام اور عزم کی توثیق قائدنے پاکستان میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر۱۹۴۷ء ، کراچی کے نام اپنے پیغام میں ان الفاظ میں فرمائی :

In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honour, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honour to Pakistan.

الغرض ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ ان میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کر دیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اَتم موجود ہو، اور وہ اس طرح کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بن جائے۔(کتاب مذکورہ بالا، ص ۴۳۲)

تعلیمی پالیسی پر قائد کی اتنی واضح ہدایات کے بعد مستقبل کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے:

  •  اول :ہمارے تعلیمی نظام کو اسلامی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ یا اسلام کے نظامِ حیات ہونے کے بنیادی تصور کو علم کے ہر شعبے میں اختیار کرنا ہوگا۔ اسلام کو اسلامیات کے مضمون تک قید نہیں کیا جائے گابلکہ معاشرتی اور طبیعیاتی علوم میں بہ الفاظِ دیگر ہرہرشعبۂ علم میں اسلام کے تصورِ علم (وحی الٰہی اور سنت کی مرکزیت ) کی روشنی میں اسلامی اقدار کو مکمل طور پر سمو کر یا integrate کرکے نصاب، درسی کتب اور طریق تدریس میں اختیار کرنا ہو گا۔ یہ کام ۷۰سال گزرنے کے باوجود انجام نہیں دیا جاسکا۔ جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کریں اور ہرفرد کو بلاامتیاز علم و تحقیق اور صلاحیت ِ کار کے زیور سے آراستہ کریں، اور ہرشعبۂ علم میں قائدانہ حیثیت حاصل کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو مدنظر رکھیں، نیز تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی کو مساوی اہمیت دیں۔ یہ ہماری اوّلین قومی ضرورت اور خود قائداعظم کے تصورِ علم اور تصورِ پاکستان کا بھی مطالبہ ہے۔
  • دوم :اپنے پیغام میں قائد نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات (Muslim Ideology ) کو معیشت اور معاشرتی ترقی میں مکمل طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ مُسلم آئیڈیالوجی کی اصطلاح خود استعمال کر کے قائد نے ان تمام ممکنہ گمراہیوں کا خاتمہ کر دیا جو تعلیم کو اقدار سے بے نیاز ( Value Free) اور معیشت کو محض ایک مادی سرگرمی سمجھنے کی شکل میں ہو سکتی ہیں ۔ قائد کے دونوں پیغامات، ایک قیام مملکت سے قبل اور ایک اس کے فوری بعد سےقائد کی فکری ہم آہنگی اور مقصد کے واضح شعور کا پتا چلتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی عقل ، اور مشاہدہ اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کر ے تو وہ قائد اور اپنے اُوپر ظلم کرتا ہے ۔
  • سوم : تعلیمی پالیسی میں آزادی اور خود انحصاری کو بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ نہ تو لارڈ میکالے کی غلامانہ سامراجیت کو مستحکم کرے اور نہ آج کی جدید مغربی درس گاہوں میں مروجہ نظام اور ذخیرہ علم کو حق اور صداقت سمجھتے ہوئے اس کی غلام ہو۔ ہم اس وقت بلکہ ۷۰سال سے دوسروں کے علم کے صارف (Consumer) رہے ہیں ۔ ہم نے اپنی اقدار اور نظام حیات پر مبنی علم کے پیدا کرنے کو جو ایک اجتہادی عمل ہے ، جان بوجھ کر پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ پاکستان میں آج بھی ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو نصاب اور کتب کی تشکیل قائد کے تصور کی بنیاد پر کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک جو مطالبوں کی سیاست اختیار کی گئی ، اس کی جگہ آگے بڑھ کر اس تعلیمی مواد اور ان تعلیمی سفارشات کو یک جا کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے، جو آخر کار عوامی اور معاشرتی دباؤ کی شکل میں قانون سازی کرنے والے افراد کو اپنی فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر سکے ۔ یہ ایک تعمیری عمل ہے اور تحریک اسلامی اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم و عمل اس میں قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تعلیمی حکمت عملی اور تعلیم سے وابستہ شعبوں میں تحقیق پر مبنی مواد کی فراہمی تحریک کی اوّلیات میں سر فہرست ہونی چاہیے ۔ یہ طویل المیعاد لیکن یقینی تبدیلی کی طرف ایک مثبت اقدام ہو گا۔ اس میں اور عمومی سیاسی جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
  • چہارم: ملک گیر پیمانے پر اہل علم کو چاہے وہ کتنے ہی نظریاتی اختلاف رکھتے ہوں، اس بات پر دعوت فکر دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوریا ، چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، اپنی قومی زبان میں تعلیم و تحقیق کر سکتے ہیں تو ہم اپنی قومی زبان میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ زبان کسی خطے کے افراد کی مقامی بولی کا نام نہیں ہے ، یہ اقدار حیات ، تصور زمان و مکان ، قومی تشخص اور قومی ورثے کی امین ہوتی ہے ۔ یہ افراد میں خود اعتمادی اور مستقبل کی تعمیر میں اینٹ اور گارے کا کام کرتی ہے۔ یہ ملک کی یک جہتی کا ذریعہ اور صو بائیت اور قبائلی عصبیت کو ختم کرتی ہے ۔ یہ اُمت مُسلمہ کو جسدِ واحد میں جوڑ دیتی ہے ۔ اس لیے تعلیمی حکمت عملی میں اس کی بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ اگر ہم نے اس  طرف توجہ نہ کی جو نوجوان نسل آج موبائل فون کے ذریعے اردو رسم الخط کی جگہ رومن میں پیغامات بھیجنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، اس نسل اور اس کے بعد کی نسل کے لیے غالب، شبلی، حالی، اقبال اور مودودی ہی نہیں اُردو کاتمام ادبی سرمایہ ناقابل فہم بن جائے گا اور اسے محض میوزیم کی زینت بنادیا جائے گا ۔ جن قوموں کا ماضی نہیں ہوتا ان کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا ۔ زبان مستقبل کی تعمیر و بقا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔

اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہمارے ملک کے دستور کی نہ صرف شق 2-A بلکہ آرٹیکل نمبر۱اور ۲ (جس میں ریاست کے مذہب کو متعین کر دیا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہو گا)، باب دوم میں ان انسانی حقوق کا  ذکر جو اسلام دیتا ہے ، آرٹیکل۲۹ تا ۴۰ میں ریاست کے راہنما اُصولوں کی شکل میں جو واضح ہدایات ہیں ، ان سب کا مکمل اظہار تعلیمی پالیسی میں ہونا ایک دستوری تقاضا ہے ۔ اس کے خلاف پالیسی بنانا دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے، انھیں کون پیدا کرے گا ؟ اگر تعلیم اس کا ذریعہ نہیں ہو گی اور قائد کے قول، یعنی ’ تعمیر کردار‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا تو کیا سو سال بعد بھی آرٹیکل۶۲ اور ۶۳پر عمل ہو سکتا ہے؟

 مختصر یہ کہ دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قائداعظم دونوں کی واضح ہدایات کو تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنا لیا جائے، تو ہمارے ہاں کے وہ تضادات جو بیک وقت تین یا چار قسم کے انسان پیدا کررہے ہیں، ان کی جگہ یکساں نظام تعلیم ملکی وحدت ، اسلامی تشخص، پاکستانی ثقافت اور ایک باہمت، غیور ، آزاد ذہن رکھنے والی ، خود انحصاری پر عمل پیرا نوجوان نسل پیدا کرے گا جو وہ کام کرسکتی ہے، جس کو ۷۰ سال اس کے بزرگوں نے نظر انداز کیا ۔

اپریل ۲۰۱۷ء میں پیش آنے والے دو انتہائی تکلیف دہ اور اسلامی تصور عدل اور انسانی اخلاقی اقدار کے منافی واقعات نے انتہا پسندی اور دینی مدارس سے اس کے تعلق کے حوالے سے غوروفکر کے لیے بعض نئے زاویوں کو نمایاں کر دیا ہے ۔

اب تک اخباری اطلاعات کے مطابق ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے مردان کی ولی خان یونی ورسٹی میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعے میں زدوکوب کرنے اور آخر کار سفاکانہ طور پر قتل کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور   نہ مقتول کسی مسلکی گروہ کا حصہ تھا۔

اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالج میں تعلیم پانے والی طالبہ یا اس کے بھائی یا والدین کا کوئی تعلق کسی مذہبی یا انتہا پسند گروہ سے نہیں تھا، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق لڑکی کا گھرانا لبرل شمار کیا جاتا تھا۔ زمینی حقائق کچھ بھی ہوں، ملک کے میڈیا اور لبرل حلقوں کا وتیرا ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ہرتخریبی واقعہ اور خصوصیت سے ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے ہر واقعے کا رشتہ ـ ’مذہبی شدت پسندوں‘ سے جوڑا جاتا رہا ہے اور تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کیا جائے، تعلیمی  نصاب سے اسلام کو خارج کیا جائے اور ریاست اور دین کے رشتے پر نظرثانی کرکے پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنایا جائے‘‘۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی

ان حالیہ واقعات پر برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں صحافیانہ نگارشات میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اگر ان کا تجزیہ کیا جائے، تو مختلف زاویۂ ہاے نگاہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔

اولاً: اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اصل ذمہ دار ’مذہب‘ اور مسلکی فرقہ پرستی ہے۔ چنانچہ جب تک اسلام کو یورپی تجربے کی روشنی کے مطابق ایک ’ذاتی مذہب‘ قرار دے کر زندگی کے تمام شعبوں سے خارج نہیں کیا جائے گا ’ـمذہبی انتہا پسندی‘ اور’شدت پسندی‘ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس طر ح بھی ہو ’مذہب‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ گویا ان دانش وروں کے خیال میں اس وقت جو معاشرتی اور ثقافتی ماحول پاکستان میں پایا جاتا ہے اس میں اسلام ہماری معیشت، معاشرت، ابلاغ عامہ ، تعلیم ، عدلیہ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور یہـ ’مذہبیت‘ ہی ہے جو انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔

تجزیہ اور تحقیق کا دوسرا بیانیہ ان صحافیانہ کالموں میں ملتا ہے، جو جملہ واقعات کو یکجا کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی ، اور شدت پسندی محض ’مذہبی طبقے‘ میں نہیں ہے ، یہ ہر جگہ ہے۔  اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان طلبہ و طالبات کا جن کا کوئی آس پاس کا تعلق بھی’مذہب‘سے نہیں پایا جاتا، اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ ، اپنے والدین کے ساتھ رویہ ،آپس میں گفتگو،سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی زبان ،ابلاغ عامہ پر ہر لمحہ ’ خبر توڑ‘ (بریکنگ نیوز) سر خیوں میں مسلسل اور بار بار تشدد کو دکھا یا جاتا ہے اور اس طرح انتہا پسندی ذہن اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ابلاغِ عامہ کے بیش تر ادارے کسی مثبت رویےکی ترویج اور صحت مندانہ سوچ کی آب یاری سے لاتعلق نظر آتے ہیں، اس لیے محض ’مذہبی‘ فکر کے افراد کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک تشدد پسندی کا بدترین نمونہ فراہم کرتا ہے ۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں صرف عبرت ناک سزاؤں کے نفاذ سے آج تک اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسلام خصوصاً اس فکر کے برعکس جو حل پیش کرتا ہے، اس میں سزا کا بھی ایک مقام ہے، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے جو حکمت عملی اسلام نے دی ہے، اس میں مرکزی اہمیت جرم اور اس کے اسباب کے انسداد کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس کے لیے اولیں اہمیت فکری اصلاح کو دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ انسان کے کردار،رویے اور طرزِ عمل کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد جو کل تک بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، اپنی خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ، اور انتقام کے نام پر مخالف کی لاش تک کی بے حُرمتی کرنے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہی لوگ اسلامی اخلاق کے زیر اثر خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ، عورت اور لڑکی کے عزت و احترام اور قبائلی عصبیت کی جگہ عالمی اخوت و بھائی چارے کے پیغام بر بن گئے۔

یہاں ہمارا مقصود محض یہ نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے بلکہ  یہ بتانا بھی ہے کہ اسلام، قانون اور سزا کے مقابلے میں تادیب اور تہذیب کے ذریعے تشدد کا انسداد کرتاہے۔یہ قانون اپنے ضوابط کو سدّراہ (deterrence) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بعض حالات میں سخت سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔ بہرصورت محض سخت سزا دینا یا قوت کا  بے مہابا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔کیا امریکا کی ان بیس سے زیادہ ریاستوں میں جہاں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے اور زہریلی گیس یا برقی کرسی پر بٹھا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا قانون کا حصہ ہے ، تنہا اس قانون نے قتل کے واقعات کو ختم کردیا ؟ کیا سخت سزاؤںنے شکاگو،ڈیٹرائیٹ، نیویارک ، واشنگٹن اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں قتل کے روزانہ بیسیوں واقعات کو روک دیا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ تنہاسخت سے سخت سزا بھی کسی جرم سے نہیں روک سکتی،اس کے لیے کچھ اور عوامل درکار ہیں۔

تجزیے کا تیسرا زاویہ بجا طور پر یہ بات کہتا ہے کہ: سرکاری یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار دینی مدارس کے فارغ علما یا ان کے بعض ’فتاویٰ‘نہیں ہو سکتے بلکہ دراصل یہ ہمارے درآمد کردہ نظام تعلیم کی ناکامی کی علامتیں ہیں۔ اس نظام میں تعلیم پانے والے اپنی اصل شخصیت گم کر بیٹھے ہیں۔اخلاقی اقدار سے خالی تعلیم اور بالخصوص گذشتہ تین عشروں میں لبرل ازم کی تحریک نے انھیں اپنی معاشرتی شنا خت سے محروم کردیا ہے۔ مروجہ تعلیم انھیں حصولِ روزگار کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں بتاتی۔ دینی تشخص ہی نہیں وہ قومی تشخص کو بھی صوبائی عصبیتوں کی نذر کر بیٹھے ہیں ۔ وہ عملاًفضا میں معلق ہیں اور کوئی بھی پُرکشش شے انھیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہے ۔ یہ بآسانی اپنے نفسیاتی دباؤ سے نجات کے لیے منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ یہ لبرل معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور نشے کے کاروبارمیں پھنس سکتے ہیں۔ یہ عصبیت کا جنون اور صوبائی آزادی اور قومیت کے زیر عنوان ہر سرکاری کیمپس میں طلبہ کی جماعتیں بنا سکتے ہیں۔ یہ زبان کے نام پر قومیت پرست بن سکتے ہیں۔ غرض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اگر اپنی اخلاقی اور نظریاتی شناخت سے محروم ہوجائیں اور معاشرتی پہچان کھو بیٹھیں تو انھیں کوئی بھی، کسی قسم کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری تعلیم انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انھیں کسی بھی متاثر کن نعرے کے زیر اثر گھناؤنے سے گھناؤنے کام کرنے پر  آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس بات میں وزن ہے لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ محض ’ثقافتی شناخت‘کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تصورِ حیات ، مقصدِحیات ، طرزِ حیات ، طرزِ عمل اور رویے کو اخلاقی ضابطے کی روشنی میں پروان چڑھانے کا ہے ۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔

 ان تینوں زاویہ ہاے نظر کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ نہ کچھ حقائق کا عکس نظر آتا ہے۔  لیکن ہماری نگاہ میں جو بات واضح ہو کر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا افراد سے جوڑنا نا انصافی ہے ۔ سیکولر افراد میں بھی اتنی ہی شدت پسندی پائی جاتی ہے، جتنی شدت پسندی کا دعویٰ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ گویا   یہ ایک ملک گیر مرض ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک عالم گیر متعدی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔  نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ، سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم یا مسلم افراد، یہ مرض عالمی طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کے اسباب محض معاشی نہیں ہیں ، محض غربت نہیں ہے کیوں کہ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں طلبہ صرف غریب خاندان سے نہیں آتے۔ اس کے باوجود ان میں بغاوت، سرکشی اور شدت پسندی یکساں طور پر نظر آتی ہے ۔

جہاں تک ناموسِ رسالتؐ کا سوال ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک باعمل مسلمان ہو یا بے عمل، اقبال جیسا فلسفی ہو، عالم دین اور قانون کا سمجھنے والا ہو، یا محض نسلی مسلمان ہو ، ہر فرد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ایک حقیقت ہے ۔ اقبال نے صحیح کہا تھا  ع

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

علامہ اقبال کو جب غازی علم الدین شہید کی پھانسی کی خبر ملی تو ان کا بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ’ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا اور ہم باتیں کرتے رہ گئے‘۔ جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمنٹ اور سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قانون بنایا ہو ، اس قانون کو نظرانداز کرکے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس لیے کہ قانون سے باہر کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام عدل اور قانونی کی حکمرانی کا قائل ہے۔ ایک ملزم کو قانونی ضابطے ( due process of law) کے عمل سے گزار کر ہی اس کے جرم کا تعین کیا جاسکتا ہے، اور جب قانون خود تحقیق کے بعد سزا تجویز کرتا ہو، تو کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے طور پر بغیر تحقیق کے جس پر چاہے ہاتھ اٹھا لے ۔ اس لیے قانون کا احترام پیدا کرنا تعلیم اور نظامِ عدل کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے۔ 

اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔

انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب

انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔

  • lمروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا  دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
  • اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال  یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟

یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور   وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس  عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !

اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔ 

حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔

  • معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں  فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔

معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔

  •  انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔

جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

  •  لادینیت  :لادینیت یا سیکولر ازم کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر ہے۔ اس کا اصل ہدف الہامی ہدایت کو معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی سے خارج کرکے دنیا کے معاملات محض دُنیاوی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔ اس کا فطری نتیجہ معاشرت،معیشت اور سیاست میں اخلاقی اقدار کے خاتمے اور محض ذاتی ،گروہی یا پارٹی کے مفاد کو خدا بنا لینا ہے ۔خودغرضی امیر کو امیر تر بناتی ہے اور معاشرے میں ٹکراؤ پیدا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں لا دینیت کو اختیارکیا گیا وہاں طبقاتی کش مکش رُونما ہوئی ہے اور غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔مزید یہ کہ سیکولرازم یا لادینیت جہاں کہیں بھی رائج ہو گی ، معاشرے کی بنیاد نسل پرستی ، عصبیت اور لسانیت بن جائے گی۔

خود پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے بعض فوجی اور سیاسی فرماں رواؤں نے ملک کی اصل بنیاد اور مقصد وجود کو نظر انداز کر کے، ملک میں عصبیت، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پر تفریق کے نعرے بلند کیے اور ملکی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ قرآن و سنت نے جو تصور دین دیا ہے وہ ملّی یک جہتی کا ضامن اور نفرتوں کو دُور کرنے والا ہے، جب کہ لادینیت اتحاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے ۔ملک میں امن اور میانہ روی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دینی اقدار کو فروغ دیا جائے اور لادینیت کو ختم کیا جائے۔

  •  ثقافتی غلامی  : ایک الجزائری مسلمان مفکر نے بڑی قیمتی بات کہی ہے کہ: ’’جو لوگ ثقافتی طور پر غلام ہونا قبول کر لیتے ہیں ، انھیں سیاسی آزادی بھی آزاد نہیں کر سکتی‘‘۔ انھی کے ایک  ہم عصر الجزائر ی ماہر نفسیات فرانتس عمر فانن (م: ۱۹۶۱ء) نے نفسیاتی زاویے سے الجزائر میں فرانسیسی تسلط اور پھر اس سے آزادی کے حوالے سے اپنا تجزیہWretched of the Earth [زمین کے بدبخت] کے زیر عنوان کتاب میں پیش کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’جب بھی کوئی سامراجی ثقافت مسلط کی جاتی ہے ، اس کا ردعمل جذباتی اورنفسیاتی طور پر بڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی مناسب ذریعہ نہ ملے تو وہ جوابی ثقافتی انقلاب( Counter Cultural Revolution) کی شکل اختیار کر تا ہے‘‘۔ بعض وہ نوجوان جو نجی تعلیمی اداروں میں مستعار فکر اور مغربی مرعوبیت کے ماحول میں پرورش پارہے ہیں، ان میں ثقافتی انقلاب کا جذبہ بطور رد عمل کے پیدا ہوتا ہے اور    وہ بآسانی جذبات میںبہہ کر غیردستوری ذرائع کے استعمال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ شکل خصوصاً یورپ اور امریکا میں زیادہ نظر آرہی ہے ۔اور اس کی بنا پر وہاں کے مراکزِ دانش واضح طور پر اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کررہے ہیں۔

ایک تجویز پاکستان کے حوالے سے بھی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی تھی کہ صوفی ازم کو فروغ دیا جائے تاکہ تحریکات مزاحمت اور نام نہاد سیاسی اسلام(Political Islam ) کا مقابلہ اندر سے کیا جاسکے۔ اسی بناپر ایک سابقہ فوجی آمر کے دور میں ایک مشہور سیاسی لیڈر کی سرکردگی میں ’قومی صوفی کونسل‘ قائم کی گئی تھی اور صوفیانہ کلام اور موسیقی کے ذریعے روحِ جہاد کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا ۔ ہماری نگاہ میں مسئلے کا حل اسلام کو صوفی ازم بنا کر پیش کرنے سے نہیں ہوگا، نہ اس طرح ہو گاکہ نصابی کتب سے اقبال کے انقلابی کلام کو خارج کردیا جائے کیوں کہ جب بھی عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوتی ہے وہ ارد گرد کی زنجیروں کی پروا کیے بغیر اپنے  مقصد کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے بجاے اس کو صحیح خدو خال کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ فحاشی اور نوجوانوں اور ملک کو ہندووانے کی مہم کے ردعمل کے طور پر تشدد کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے ۔

  •  جھنجھلاہٹ اور نفسیاتی اضطراب : جب بھی کسی معاشرے میں مظلوم طبقات کے حقوق پر مسلسل ڈاکا پڑتا ہے اور ان کی آواز کو نہیں سنا جاتا، نہ انھیں جائز حقوق دیے جاتے ہیں، تو ایک اجتماعی اضطراب اور جھنجھلا ہٹ کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مناسب راستہ نہ ملنے پر یہ تشدد کی تحریک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب قوت سے نہیں دیا جا سکتا۔ قوت کا استعمال اس کو مزید بڑھاتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی ماہرین اور سیاسی مفکر دہشت گردی (Terrorism ) اور سیاسی مزاحمت اور بغاوت (Insurgency  ) میںبنیادی فرق کرتے ہیں۔

دہشت گردی کے مسئلے کو شاید زیادہ قوت کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے ا ور ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے سطح آب پر سکون محسوس کیا جا سکے لیکن اندرونی ارتعاش اور لہریں موقع ملتے ہی اُبھر آتی ہیں۔ تحریکاتِ آزادی اس سے بہت مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب ممالک آزادی کی تحریکات ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور یہ تحریکات بنیادی طورپر سیاسی تھیں مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک مرحلے میں ریاست کی قوت کے مقابلے میں عسکری مزاحمت بھی کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی تحریکاتِ مزاحمت کو کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا گیا۔

آج کے حالات میں اس کی بہترین مثالیں فلسطین اور کشمیر کی تحریکات آزادی ہیں جو مقامی جڑوں پر قائم ہیں ۔ یہ بیرونی سازش یا امداد کی بنا پر پیدا نہیں ہوئیں۔ فلسطین میں مزاحمتی تحریک عرب ممالک کی غیر ذمہ داری اور عدم دل چسپی کے باوجود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ کبھی قومیت پرست سیکولر قیادت کے زیر اثر ،کبھی شیعہ ملیشا کے زیر اثر ، کبھی صرف مقامی افراد مثلاًشیخ احمد یاسین کی مزاحمتی تحریک (حماس)کی شکل میں جو مٹھی بھرافراد اور گولی کے جواب میں پتھر سے شروع ہوئی، لیکن اس تحریک نے اہل فلسطین میں ایک نئی سوچ اور اسلام سے وابستگی میں تازگی پیدا کر دی۔

 یہی شکل مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی ہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں یہ تحریک آج بغیر کسی بیرونی سہارے اسی رُخ پر چل رہی ہے ، جس رُخ پر تیونس میں انقلاب پبا ہوا۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد تحریکات عموماً بیرونی طاقتوں کی امداد سے اُبھرتی ہیں، جیسا کہ ہم بلو چستان میں دیکھتے ہیں،مگر ایسی تحریکات کا مستقل حل بھی محض قوت کا استعمال نہیں ہے ۔ مقامی مسائل کو مقامی افراد کو اعتماد میں لے کر حل کرنے سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں انتہا پسندی، شدت پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کا آسان طریقہ تمام اہم فریقوں کو   یک جا کر کے ایک قومی تعمیری اور اصلاحی منصوبے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کا پہلا اور مؤثر ترین اقدام طویل المیعاد ہو گا، یعنی تعلیمی حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ ۔

نئی تعلیمی حکمت عملی

اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے حکومت وقت کو متفرق نظام ہاے تعلیم کی جگہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنا ہوگا، جس کے لیے ایک مشترکہ قومی تعلیمی نصاب کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نافذ کرنا ہو گا۔ چاہے یہ نجی اسکولوں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مسئلہ محض وسیع البنیاد تعلیم سے حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی دینی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جدید ترین یورپی اور امریکی نصابات کا پاکستان کے مدارس اور جامعات میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں ان نصابات کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن یورپی ممالک اور امریکا کے لیے یہ نصاب بنائے گئے ہیں، کیا ان کی قومی ترجیحات ، مقاصد، ثقافتی، دینی اور معاشرتی ضروریات اور ہماری ثقافت،  نظریۂ حیات اور اہداف میں کوئی قدرمشترک ہے؟کیا یہ نام نہاد ’وسیع بنیادوں والی تعلیم‘ نظریۂ پاکستان پر اعتماد کو بڑھائے گی یا مزید کمزور کرے گی؟کیا یہ درآمد کی ہوئی فکر پر مبنی تعلیم ہماری نسل کو اسلامی اقدار ، اسلامی کردار اور خصوصاً سیرتِ پاکؐ کے رحمت ، درگزر، امانت ، سچائی ، شہادت حق ،ظلم کے خلاف استقامت کے ساتھ جہاد کرنے ، علم کی اشاعت اور عدل کے قیام کی کوششوں کو نوجونوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟

 مسئلے کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں براہِ راست علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کے خیالات کو قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے، تاکہ آج سے ۱۰سال بعد جو نسل تعلیم گاہوںمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے، پاکستان کے حوالے سے اس کی    نظریاتی بنیاد مضبوط ہو اور وہ کسی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لا دینیت سے زیادہ انتہا پسند فکر آج تک وجود میں نہیں آئی۔ کیوںکہ لادینیت خود کو اعلیٰ ترین سچائی قرار دے کر صرف اپنی ہی سچائی کی ڈفلی بجاتی ہے اور نقار خانے میں کسی اورکی آواز کو سننے کی روادا ر نظر نہیں آتی ۔

 تعلیمی حکمت عملی میں قرآن کریم کی اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سیرتِ پاکؐ کے ہر پہلو پر ذہن سازی کی جائے ۔ عالم اسلام سے نوجوانوں کی وابستگی کو بڑھایا جائے ۔ انھیں اس ملک کے عوام کی قربانیوں سے جو انھوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے دیں، ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور پھر پڑوسی ملک کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں اور عوام نے اپنا سب کچھ بازی پر لگایا، اس تاریخی اثاثے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ قومی تشخص کو نہ صرف سمجھیں بلکہ پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔

ہمہ گیر معاشرتی حکمت عملی

 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ گھر کی تربیت گاہ سے ہوتا ہے، جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آج خاندان برقی اوراخباری صحافت دونوں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کا تحفظ اور اسلامی خاندانی اخلاقیات کو آنے والی نسل کے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ کام تعلیم گاہ ، خود گھر کے افراد ، اساتذہ، سب کو مل کر کرنا ہو گا۔جتنا گھر مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک اور قوم مضبوط ہو گی ۔ اس وقت ابلاغ عامہ اور درسی کتب نوجوانوں کوجو تعلیم دے رہے ہیں، اس میں تاخیر سے شادی کرنا ،خاندان کو مغرب کے زیر اثر صرف شوہر ، بیوی اور ایک دو بچوں تک محدود سمجھنا اور باقی سارا وقت کاروبار،گھومناپھرنا ، کھانے کا لطف اٹھانا اور لوگوں سے گپ بازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ہمیں زندگی کے مقصد اور معاشرتی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے بنیادی تصورات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں استاد کی عزت اور مرتبے کو بلند کرنا ہو گا۔ایک اجتماعی حکمت عملی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہی مسئلے کا صحیح حل کر سکتی ہے۔

ابلاغ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کا نفاذ

بدقسمتی سے آج ہمارے ابلاغ عامہ کا اہم کام بے حیائی کو معاشرے میں عام کرنا بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف شدید رد عمل کو دعوت دے رہا ہے، بلکہ ہمارے قومی اخلاق کو تباہ کر نے میں مصروف ہے۔ اس لیے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابلاغِ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کو پوری قوت سے نافذکرنا ہو گا۔ اس وقت ایک ا یسے ملک میں جہاںغیر مسلموں کی تعداد محض ۳فی صد ہے،  ابلاغِ عامہ کی آزادی کے نام پر ۲۰نجی چینل صرف ہندو ازم ، عیسائیت اور قادیانیت کی تبلیغ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ عوام میں کر رہے ہیں۔بھارت سے فحاشی ، پاکستان دشمنی  اور ’مہا بھارتی‘ تصور کو فروغ دینے والے پروگرام کثرت سے نشر ہو رہے ہیں ۔  یہ پروگرام صوبائی عصبیت اور خود مختاری کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے چارمسلک پرست طبقے اپنے اپنے مسلک کے لیے برقی ابلاغ عامہ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ صرف ایک مسلک کے آٹھ سے زائد چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم ملکی امن ، رواداری ، محبت اور یک جہتی پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ’ابلاغی آزادی‘ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہے؟ کیا اس طرح رواداری، برداشت اور محبت پیدا ہو سکتی ہے؟

۴- قرآنی تصور :میانہ روی و اعتدال

حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک تصور ہے ۔ قرآن کریم نے کسی اور کو نہیں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو، انسان کامل کو،کسی اور معاملے میں نہیں عبادت کے معاملے میں، یہ ہدایت فرمائی کہ وہ عبادت میں بھی اعتدال اختیار کریں ۔ آج اگر ہم کسی اللہ کے بندے کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ وہ تمام رات عبادت کرتا ہے تو ہم اسے اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن اپنے رسولؐ سے کہتا ہے آپ تمام رات قیام نہ فرمائیں بلکہ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم یاکہیں اس سے زیادہ وقت نماز میں صرف کریں۔ قرآن کسی اور معاملے میں نہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے بارے میں فرماتا ہے کہ نہ ہاتھ گردن سے باندھو،  نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو۔ وہ گفتگو میں توازن کے لیے کہتا ہے کہ نہ آواز زیادہ بلند ہو نہ محض سرگوشی ہو۔ وہ کھانے پینے کے بارے میں ، لباس کے کے بارے میں ، غرض زندگی کے ہرہرعمل کے بارے میں انتہا پسندی کو شدت سے منع کرتا ہے ۔ اگراللہ کے کلام کے مفہوم اور معانی کو ایک بچہ بچپن سے اپنے دل ودماغ میں جاگزیں کر لے تو کیا وہ دہشت گرد بن سکے گا؟

قرآن جس اعتدال،توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال اس واقعے میں ہے جس میں تین اصحابِ رسولؐ نے اُمہات المومنینؓ سے جا کر یہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کیا ہیں؟انھیں بتایا گیا کہ آپؐ کس طرح زندگی گزارتے ہیںلیکن جب وہ یہ سن کر واپس لوٹے تو انھوں نے سوچا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے شاید اللہ نے آپ کو رخصت دی ہے کہ تمام رات عبادت نہ کریں لیکن ہم تمام رات نماز پڑھیں گے۔ مزید یہ بھی سوچا کہ وہ کبھی نفلی روزے کا ناغہ نہیں کریں گے،اور نیکی کے حصول کے لیے شادی سے بچیں گے۔آپ ؐکو جب ان کے ان ارادوں کا علم ہوا تو انھیںطلب فرمایا اوران سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ کچھ کہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، توآپؐ بات کا آغاز یو ں فرماتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور خشیت کرتے ہیں۔ وہ عام دنوں میں کبھی روزہ رکھتے ہیںاور کبھی ناغہ بھی کرتے ہیں۔ کبھی رات کو قیام بھی کرتے ہیں اور کبھی آرام بھی کرتے ہیں اور نکاح بھی آپ کی سنت ہے اور جو اس کو ناپسند کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ گویا جو شخص جان کر اس لیے نکاح نہ کرے کہ یہ دنیاوی چیز اور تقویٰ کے خلاف ہے ،وہ نبیؐ کی امت میں سے نہیں ہے۔

ان واضح ارشادات کو جو بھی غور سے پڑھے گا، کیا وہ رہبانیت کا راستہ اختیار کرکے کسی خانقاہ میں بیٹھ کر، گھر بار اور معاشرت کو چھوڑ کر اللہ سے قریب ہوناچاہے گا؟___ یہ وہ متوازن ، عادلانہ اور میانہ روی کا رویہ ہے جو سیرت پاک ؐسے اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر یہ پہلو تعلیم کے ذریعے ذہن میں جاگزیں ہوتو کیا دہشت گردی، انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے ؟مسئلے کا حل سزائیں نہیں اخلاق کی تعلیم و تر بیت ہے اورسیرتِ پاکؐ کی لازمی تعلیم ہے جس کے نتیجے میں پایدار امن اور عدل کے نظام کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔

دنیا کی تمام اصلاحی تحریکیں حصولِ مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کرتی ہیں۔ پھر اہداف کے حصول یا ان کے حصول میں مزاحمت، مسائل اور مشکلات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً،  ہدفِ منزل کو  نگاہ سے اوجھل کیے بغیر ،حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرتی ہیں۔ حکمتِ عملی کی تبدیلی نہ تو مقصد سے انحراف کی علامت ہوتی ہے اور نہ حصولِ مقصد کے عزم میں کمی یا مایوسی کا مظہر۔

مکہ مکرمہ کو دوبارہ تمام انسانیت کا قلب اور مرکز اور اہلِ ایمان کا قبلہ بنانے کا ہدف    مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد، مدینہ منورہ میں ایک اسلامی معاشرے اور ریاست قائم کرنے کے آٹھ سال بعد حاصل کیا گیا۔ اس دوران جو وقت لگا، اس کا ایک ایک لمحہ اصحابِ رسولؐ کے لیے ایک ایک دور سے کم نہ تھا۔

چنانچہ بار بار متٰی نصراللّٰہ کے الفاظ دل و زبان سے ادا ہوتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت آن پہنچی اور فتح مکہ نے تکمیل رسالت اور حصولِ مقصد کا دروازہ کھول دیا۔ لوگ جوق در جوق قافلۂ حق میں داخل ہونے لگے۔ وہ دین جسے اس کے روحانی مرکز سے قوت کے بل پر بے دخل کرنے کی طاغوتی کوشش کی گئی تھی، قیامت تک کے لیے دوبارہ مرکزِ ابراہیمی کا دستور بن گیا۔ اس آٹھ دس سال کے عرصے میں، دین متین کے پیغام بَر کے دل و دماغ میں جو تلاطم بپا رہا ہوگا، اس کا اندازہ صرف رب کریم ہی کو ہوسکتا ہے، لیکن جس استقامت اور صبر کے ساتھ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمتِ عملی کے ہرمرحلے کی تکمیل فرمائی، وہ آیندہ ہرعہد کی تحریکاتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ فراہم کرتی ہے۔ اس طویل اور صبر آزما حکمتِ عملی میں بدروحنین بھی ہیں، حدیبیہ جیسے نازک مراحل بھی ہیں، اُحد و اَحزاب جیسی آزمایش بھی ہے اور  خیبر اور مکہ کی فتوحات بھی۔ اس تمام دورانیے میں نبی خاتم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غیرمتزلزل عزم، مقصد و ہدف کا واضح ہونا، اور مناسب حال حکمتِ عملی کا وضع کرتے رہنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

نبی اکرمؐ کی انقلابی حکمتِ عملی

انبیاے کرام ؑ کو یہ امتیاز اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ جو حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں ، اسے براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے، اور اگر کسی موقعے پر اس میں کسی نظرثانی یا اصلاح کی ضرورت ہو تو وحی کے ذریعے اسے استوار کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ فتحِ بدر کے بعد مفتوح کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یا حدیبیہ کے موقعے پر معاہدے کی نوعیت کیا ہو؟  یا مکہ کو فتح کرنے کے لیے کس طرح لشکر کو ترتیب دیا جائے؟ فتح کے بعد کیا شکل اختیار کی جائے؟ ان تمام معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست وحی کے ذریعے اپنی حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہ شکل بعد کی اسلامی تحریکات میں نہیں ہوسکتی۔ انھیں تو اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی محدود عقل کو جہاں تک وہ پہنچ سکے، استعمال کرکے ہی وقتاً فوقتاً اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ لیکن لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا کی یقین دہانی تو موجود ہے، بس شرط جَاھَدُوْا فِیْنَا کی ہے،جس میں جدوجہد کا حق ادا کرنا اس کی اصل اور روح ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی حکمتِ عملی کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔  اوّلاً: اصلاحِ قلب اور روحانی حکمتِ عملی، ثانیاً:تعلیمی اور دعوتی حکمتِ عملی، اور ثالثاً: رفاہی اور اجتماعی زندگی کی تبدیلی کی حکمتِ عملی۔

  •  روحانی حکمتِ عملی: روحانی حکمت عملی کا نقطۂ آغاز اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے براہِ راست تعلق کو قائم کرنا اور اس کی بندگی کے وہ طریقے اختیار کرنا ہے جو خود وحی الٰہی نے تعلیم کیے ہوں۔   یہ فرمانے کے ساتھ کہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینانِ نصیب ہوتا ہے‘‘___ اللہ کے ذکر کرنے کو مبہم نہیں چھوڑا گیا، ورنہ عقلِ انسانی اپنی بساط کے مطابق اپنی پسند کے طریقے نکال لیتی۔ یہی وجہ ہے کہ  اللہ کو الٰہ اور رب تسلیم کرنے اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقدِ اطاعت کا رشتہ قائم کرنے کے بعد صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام، حج اور جہاد کی شکل میں اللہ کے ذکر کے طریقے مقرر فرما دیے گئے اور ان پر عمل کے لیے سنتِ رسولؐ کی شکل میں ایک مکمل نقشۂ کار متعین فرما دیا گیا۔ اللہ کا ذکر اس سے بہتر شکل میں اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں دن میں پانچ مرتبہ بلند میناروں سے اس کی عظمت، کبریائی، حاکمیت اور دیگر تمام خدائیوں کا انکار ہو اور صرف اسی سے فلاح کا رشتۂ اُمید قائم کیا جائے، اور اس بات کا تذکرہ ہو کہ انسانوں کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل و تقلید ہوسکتی ہے، تو وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ اس کی صداقت کی شہادت ہر ہر اذان میں دنیا کے ہرگوشے میں دن میں پانچ مرتبہ دی جاتی ہے۔

تعلق باللہ کی ایک دوسری عملی شکل صیامِ رمضان میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح نماز میں مکمل بندگی و اطاعت کا اظہار، زبان کی ہرہر جنش اور جسم کی ہر ہر حرکت سے ہوتا ہے، ایسے ہی روزے کے دوران ایک نوعمر ہو یا بوڑھا، جوان ہو یا بچہ، تنہائی میں ہو یا محفل میں، پورے ایک ماہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت موجود ہونے کے احساس کے ساتھ، دن اور رات کے ہرلمحے میں اللہ کی خوش نودی کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن، قرآن پر غوروفکر، انفاق و صدقات میں کثرت، دوستوں اور غیروں کی ضیافت میں اضافہ، غرض عبادات ہوں یا معاملات، ہر معاملے میں اللہ کی بندگی ہی پیش نظر رہتی ہے۔ ایک ماہ کی مسلسل تربیت ِروحانی ایک مسلم مرد اور عورت کو اپنے لیل و نہار کو پابندیِ وقت کے ساتھ اپنے رب کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا عادی بنا دیتی ہے اور اس تربیت کے اثرات سال کے بقیہ مہینوں تک برقرار رہتے ہیں۔ یہ تعلق ربانی تصورِ حیات میں انقلابی تبدیلی  لاتا ہے اور تزکیۂ نفس کے ان آداب سے آگاہ کرتا ہے جو سنت ِمطہرہ میں پائے جاتے ہیں۔

پھر حج اس کا ایک مجرب نسخہ ہے۔ اللہ سے تعلق اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اس کے لاکھوں بندے اس کے بتائے ہوئے مہینے اور دنوں میں اپنے قومی لباس اور زبانوں کو خیرباد کہہ کر یک زبان ہوکر لبیک اللھم لبیک اور  اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ کا نغمہ بلندکرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی آنکھوں سے حرمِ کعبہ کو دیکھ لیں۔ بات یہاں آکر نہیں رُک جاتی۔ اب تک اللہ سے قرب اور تعلق کا اظہار زبان سے اس کی تکبیرات سے ہو رہا تھا، اب نگاہ ہو یا قلب، قدم ہوں یا پیشانی اور ہاتھ، ہر ہر عضو جسم اللہ کے گھر میں اس کی عظمت و احسانات کے پیش نظر فرش گیر ہوجاتا ہے۔

اللہ سے تعلق و قربت، نہ صرف عمرہ اور حج کی شکل میں، بلکہ پیداوارِ دولت کے ذریعے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک تاجر ہو یا کسان، اس کی ہرمعاشی کوشش کا مرکزی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ     وہ کس طرح اپنے مال کو حلال اور مباح طریقے سے پیدا کرے اور اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے اس کا بہترین حصہ اس کی راہ میں خرچ کر کے عاجزی سے اس کی قبولیت کی درخواست کرے۔

 یہ تعلق باللہ رات کی تاریکی میں ان تنہائیوں میں بھی ہوتا ہے جب بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہی تعلق باللہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ظلم و جبراور ناانصافی کے خلاف، طاغوتی نظام سے نجات اور حق کے نظام کے قیام کے لیے اپنے مال اور نفس کو اللہ کے حضور پیش کردے۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی اباحیت کو روکنے کے لیے اس کا اپنے مال اور صلاحیت اور وقت کا استعمال بھی رب کریم کے ذکر کی ایک شکل ہے۔ تعلق باللہ اور روحانی ترقی کا ایک اور مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم کی رفاقت ہے۔ جب قرآن کریم ایک صاحب ِ ایمان کا رفیق بن جاتا ہے تو پھر اسے کسی اور کی رفاقت کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ یہ پُراز حکمت خزینہ اس کے تمام مسائل اور مشکلات کا جامع حل بدلتے حالات میں فراہم کرتا ہے۔

روحانی حکمتِ عملی کے بغیر دیگر مراحل، منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کوئی امداد فراہم نہیں کرسکتے۔ روحانی حکمتِ عملی محض چلّوں اور مراقبوں کا نہیں، میدانِ کارزار میں جان و مال کے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ روح و جسم اور قلب و ذہن کی دوئی کو ختم کر کے اللہ کے بندے کے مکمل وجود کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی زندگی اور موت اور تمام معاملات کو صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں دے دینے سے حاصل ہوتی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲) ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔

روحانی حکمتِ عملی ایک شخص کو تمام غلامیوں سے نکال کر ایک ایسا مردِ حُر بنادیتی ہے کہ وہ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ دبتا ہے، بلکہ مکمل طور پر اللہ کا عبد بن جاتا ہے۔ اللہ کی عبدیت کا حصول ہی اگلے دائرے کی طرف پیش قدمی کرنے والا پہلا قدم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ کیا ہے : یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۴) ’’جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

انبیاے کرام ؑاور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ایک دعوتی، تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی کے ذریعے معاشرتی انقلاب تھا۔ اسلام میں روحانیت، معاشرے سے کٹ کر تجرد میں نہیں بلکہ معاشرے کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہوئے ضبط نفس اور استقامت کے ساتھ قیامِ حق کی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ تقویٰ اور نیکی محض مشرق یا مغرب کی طرف رُخ کرلینے کا نام نہیں ہے بلکہ شعوری طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب، رسولؐ کو اپنا قائد، اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ضابطہ حیات، اور اس کے ساتھ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی خبرگیری اور امداد، انھیں قرضوں سے نجات دلاکر، بھوک اور افلاس سے نکال کر ایک باوقار اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ یہ معاشرے سے برائی کو مٹانے اور حق و صداقت کو غالب کرنے کی پیہم کوشش کا نام ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت البر اس پہلو کی وضاحت کرتی ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo  (البقرہ۲: ۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کودل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

  •  تعلیمی و دعوتی حکمتِ عملی: ایک معلم اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ خود اپنی تعلیم کا مرقع ہو۔ تعلیم اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہے جب وہ حکمت و دانائی سے پُر ہو۔ مکی دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمی حکمتِ عملی اختیار کی، اس نے نہ صرف فکری تربیت کی بلکہ اُنھیں سیرت سازی کے عمل سے بھی گزارا۔ اس عمل میں اُنھیں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کی    ابتلا و آزمایش کی بھٹی سے بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ کندن بن کر نکلے۔ یہ تربیت نظری کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عملی تھی۔ جو اس تربیت کے نظام سے گزر گیا وہ اپنا گوہرِ مقصود پا گیا، اللہ اُس سے خوش اور وہ اللہ سے خوش ہوگیا۔

اس نظامِ تعلیم و تربیت میں وقت کی اہمیت اور پابندی کی صفت پیدا کرنے کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو ذریعہ بنایاگیا۔ چنانچہ ہر موسم میں دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، نماز کو مقرر اوقات پر قائم کرنے کے نتیجے میں تحریک کا ہرکارکن ایک آواز پر مقررہ وقت پر حاضر ہونے کا عادی بن گیا۔ اس نظامِ تعلیم میں بے غرضی، خلوص، ایثار و قربانی، اپنے مال اور جان کو اللہ کے لیے حاضر کردینے کی تمنا ہرہرکارکن کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ اس نظامِ تربیت میں سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ ہرمعاملے میں مشاورت کو اختیار کیا گیا اور اس طرح کارکنوں میں وابستگی کا احساس پیدا کیا گیا۔ اب وہ بکھرے ہوئے موتیوں کے مانند نہ تھے بلکہ ایک تسبیح کے دانوں اور ایک ہار کے موتیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوکر ایک دوسرے کے لیے قوت اور سہارا بن گئے تھے۔ ان کی گفتگو نصیحت کی گفتگو تھی کہ تمام معاملات میں دوٹوک راے کے ذریعے ایک مجموعی راے تک پہنچا جاسکے۔ جب تک مسلم معاشرے میں تعلیم و تربیت کا یہ نظام برقرار رہا، مسلم معاشرہ ترقی کرتا رہا۔ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت بڑھتی رہی لیکن جب شورائیت کی جگہ خودرائی، تنہا ایک شخص کا اپنی راے کا دوسروں پر مسلط کرنا عام ہو گیا، اور جن سے مشورہ کیا جاتا، وہ بھی یہ دیکھ کر مشورہ دینے لگے کہ کہیں مشورے سے ان پر کوئی زد نہ آئے، تو پھر معاشرے کا زوال شروع ہوگیا۔ اس تبدیلی کو خلافت سے ملوکیت اور شخصی حکمرانی کی طرف رجعتِ قہقری کے تناظر میں بھی پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

تعلیمی حکمتِ عملی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایک خاموش اور دیرپا انقلاب لے کر آتی ہے۔ اس کی پہچان کارکنوں اور قیادت میں اسلامی شخصیت کا پایا جانا ہے۔ جس طرح ایک پھل والے بیج کی شخصیت اُس پھل کے درخت میں ظاہر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اسلامی تعلیمی حکمتِ عملی کے زیراثر تربیت پانے والی ہرشخصیت ایک پھل دار درخت کی طرح مستحکم و مستقیم ہوتی ہے۔تعمیرِ کردار اور تربیتِ سیرت سے وہ افرادِ کار تیار ہوتے ہیں جو سخت سے سخت آزمایش کا مقابلہ مسکراتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صلحا، شہدا اور انبیا ؑکے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے۔ تعلیمی حکمتِ عملی وہ مردانِ کار تیار کرتی ہے جو اقامت دین کی جدوجہد  نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ اپنے گھر میں، محلے میں،مسجد میں، کاروبار میں، معاشرتی تعلقات میں، غرض ہرممکنہ انسانی شعبۂ حیات میں اختیار کرتے ہیں اور زبان سے زیادہ ان کا طرزِعمل دوسروں کے لیے تربیت و تعلیم کا ذریعہ بنتا ہے۔ تعلیم دعوت کا ایک حصہ ہے اور دعوت تعلیم کا ثمرہ اور مقصد و مطلوب۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

  • رفاھی اور اجتماعی تبدیلی کی حکمتِ عملی:رفاہی حکمت عملی اولین دو اجزا کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ جب ایک تحریکی کارکن یا تحریکی قیادت تعلق باللہ کی بنیاد پر اپنے روحانی تعلق کو تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی میں ڈھالتی ہے، تو پھر دعوت کا دائرہ خدمت خلق میں داخل ہوجاتا ہے اور اللہ کی بندگی اور اس کے حقوق کی ادایگی کے ساتھ تحریک کو اپنی توجہ اللہ کے بندوں پر مرتکز کرنی پڑتی ہے۔ اسلامی انقلاب اور تبدیلیِ قیادت کی راہ میں یہ ایک لازمی قدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ رب العزت ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ یوم الحساب وہ خود اپنے ایک بندے سے پوچھیں گے: مَیں بھوکا تھا اور تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ اور جب بندہ حیرت سے یہ بات کہے گا کہ رب کریم آپ تو دنیا کو کھلانے والے ، کائنات کی ہرشے کے مالک ہیں، مَیں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا؟ تو جواب دیا جائے گا: میرا فلاں بندہ تیرے پاس بھوکا آیا، تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اسی طرح یوم الحساب میں بندے سے جو اگلا سوال کیا جائے گا اس کا تعلق اللہ کے بندوں کی عیادت سے ہوگا، اور ایسے ہی ایک سوال اللہ کے بندوں کو پانی فراہم کرنے سے متعلق ہوگا۔ گویا اگر ہمیں اپنے رب کو اپنے قریب دیکھنے کی تمنا ہے تو حدیث قدسی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ جو شخص کسی کی عیادت کرنے جائے گا ، جو کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا اور جو کسی کو پانی فراہم کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نزدیک پائے گا۔

تعلق باللہ، تعلیم و دعوت اور رفاہ و خدمت ہی دراصل وہ تعمیراتی اینٹیں ہیں، جن سے وہ تعمیر وجود میں آتی ہے جسے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کہا جاتا ہے۔ جس کا نقطۂ فراز، انقلابِ قیادت ہے، جیساکہ مدینہ کی ریاست کی شکل میں ہوا اور اس نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تحریک اسلامی کے مکّی دور کے ۱۳سال اور   مدنی دور کے ۱۰سال اور خلافت راشدہ کا روشن دور اسلام، اس کی دعوت، پیغام، مشن اور انقلابی تبدیلی کے لیے نمونے (model) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کا ہر حصہ دوسرے سے مربوط اور ایک وسیع تر دعوت کا حصہ ہے۔

اسلامی تحریکوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اعلیٰ پیمانے کے شفاخانے،اور فلاحی کاموں کے ادارے قائم کر کے اس جواب دہی سے بچنے کے لیے محدود سطح پر کام تو کیا ہے، لیکن اسے تحریکی انقلابی حکمتِ عملی کے ایک بنیادی مرحلے کے طور پر اختیار کرنے کا خواب ادھورا ہے۔ پاکستان میں جس کام کا آغاز ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کراچی میں مرحوم چودھری غلام محمد امیرجماعت اسلامی کراچی نے کیا تھا، اسے وہ وسعت نہ دی جاسکی جس کا وہ متقاضی تھا۔ اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو ترکی میں تحریکِ اسلامی کی فکر رکھنے والے افراد کا ۳۰سالہ جدوجہد کے بعد اختیار و اقتدار میں آنا جہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خاص عنایت و رحمت ہے، وہاں اس میں بڑا دخل اس تیسرے مرحلے کا بھی ہے، یعنی فلاحی حکمتِ عملی۔

اگر سیلاب زدگان کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، اگر بھوکے افراد کو کھانا فراہم کیا جائے اور وہ بھی کیسے؟ یعنی ایک مٹھی بھر گندم یا چاول گھر گھر سے جمع کر کے، تو نہ صرف عوامی شرکت کے ذریعے بلکہ ذاتی اور انفرادی سطح پر کارکنوں کی ایسی لگن کے ذریعے، جس میں معاشرے کی دست گیری، دُکھ درد میں شرکت اور جائز مدد کا ہر پیمانہ شامل ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک جانب فرد کی حسنات میں اضافہ ہوگا، دوسری جانب لوگوں کے دُکھ درد کم ہوں گے، اور تیسری جانب خود تحریک کا تاثر محض ایک سیاسی یا انتخابی تحریک کی حد تک محدود نہ رہے گا۔ یہ تاثر ایک دینی، اصلاحی، فلاحی اور سیاسی تحریک کی مجسم تصویر میں ڈھل جائے گا۔

 فلاحی حکمتِ عملی میں بیوائوں کے لیے امداد، یتیموں کی تعلیم و تربیت، بیماروں کی تیمارداری اور صحت کے ایسے مراکز کا قیام شامل ہے جہاں تحریک سے وابستہ ڈاکٹر انھیں مفت مشورہ اور    کم قیمت پر دوائیں فراہم کرسکیں۔ محلوں اور بستیوں میں صفائی مہم، عدم تحفظ کے شکار عوام کو قانونی مشورہ فراہم کرنا یا  ان کے محلے میں کمیٹی بنا کر اپنی حفاظت کے لیے چوکیدار، سڑک کے ناکے پر پوچھ گچھ کا انتظام وغیرہ، ایسے کام ہیں، جن میں کسی بھاری مالی صرفے کے بغیر انتظامی اقدامات اور افرادی قوت کو منظم کر کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہرعلاقے میں تحریک کے افراد خود سوچ کر اپنے لیے ترجیحات مقرر کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے مرکز سے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، کہ تحریک نے روزِ اوّل سے ہدایت دے رکھی ہے۔

فلاحی حکمتِ عملی دراصل اسلامی تحریکوں کے اجتہادی ہونے کی دلیل ہے۔ یہ ان کا     ایک امتیاز ہے۔ ان کا اجتہادی ہونا، یعنی مسائل سے گھبرائے بغیر، مایوسی کو پاس نہ آنے دینا اور بصیرت و بصارت کے استعمال سے نئے راستے نکالنا ان کا طرئہ امتیاز ہے۔ سید مودودیؒنے ۱۹۶۳ء میں جماعت کے اجتماع میں جو بات ایک مثال دے کر سمجھائی تھی، اس کا تعلق صرف اس وقت کی صورت حال سے نہ تھا، بلکہ وہ ایک تاریخی حقیقت اور تحریک کے لیے ابدی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی صورت حال میں اس کی اہمیت اور افادیت کچھ اور بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ جب حیات بخش پانی کا ایک چشمہ یا دریا یہ دیکھتا ہے کہ اس کا راستہ پہاڑ نے روک لیا ہے تو وہ پہلو بچا کر نیا راستہ نکال لیتا ہے اور پہاڑ اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔   نہ صرف یہ بلکہ پہاڑ سے کنارہ کرتا ہوا پانی کا ریلا اسے غیرمحسوس طور پر گھستا رہتا ہے، حتیٰ کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور پانی کا ہر نرم و نازک قطرہ شاداں و کامیاب رہتا ہے۔

تبدیلیِ قیادت کا مرحلہ

آج جب ملک میں بار بار یہ بات ابلاغِ عام میں دہرائی جارہی ہے کہ حالیہ بدعنوان حکومتی جماعت کو عوام رد کرچکے ہیں اور سابقہ حکومتی جماعت کے بے اصولی پن نے اسے متبادل کے مقام سے گرا دیا ہے، اور نگاہیں کسی بڑی تبدیلی لانے والی قوت کی طرف اُٹھنے لگی ہیں خواہ    وہ اس کٹھالی سے گزری ہی نہ ہو جو لوہے کو فولاد بناتی ہے۔ زمینی اور سیاسی حقائق جس طرف اشارہ کررہے ہیں، وہ تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی اللہ کا قانون اور تاریخ کا سبق ہے کہ ایسے حالات میں تبدیلی کے لیے انقلابی لہروں کا فروزاں ہونا ضروری ہے۔ہمارے لیے یہ بات سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ ابلاغِ عامہ سے قطع نظر ،کیا سڑک پر چلنے والا ایک عام شہری یا گائوں کا ایک   سادہ لوح انسان، جو موجودہ اور سابقہ حکمرانوں سے یکساں نالاں ہے، مستقبل کی جماعت کی حیثیت سے تحریکِ اسلامی کی طرف دیکھتا ہے؟ اگر معروضی طور پر یہ بات ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی رفتار کا ر میں سو گنا بلکہ ہزار گنا اضافہ کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اللہ کی نصرت سے ہم تبدیلیِ قیادت کی خدمت انجام دے سکیں۔لیکن اگر ایک سرِراہ چلنے والا راہی بھی ابلاغِ عامہ کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تحریک اور اصلاحی قوتیں ایسی تیسری ترجیح نہیں بن سکے ہیں، تو پھر ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا کہ اس تاثر کو کن ٹھوس، قابلِ حصول، متعین اقدامات کے ذریعے کم سے کم وقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ممکن ہے اس خود احتسابی کے عمل میں ہمیں کچھ وقت لگے لیکن کم از کم ایک ایسی حکمتِ عملی فوری طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیمی، دعوتی اور فلاحی کاموں کو بنیاد بناتے ہوئے ایک عام شہری کو یہ پیغام دے سکے کہ تحریکِ اسلامی اس کی فلاح چاہتی ہے اور ملک کو تباہی سے بچانے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اصل اور آخری ہدف، یعنی رضاے الٰہی کا حصول جو تحریک اسلامی کا ہدف ہے، اور قریب المیعاد حکمتِ عملی میں ربط اور تسلسل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ فلاحی کاموں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا اس بات سے نہیں روکتا کہ ان کے بارے میں نہ جاننے والوں کو بغیر کسی تعلّی کے معلومات فراہم کی جائیں اور وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ اگر پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہے تو اسے کون لوگ یہ مقام دلا سکتے ہیں۔ وہ جو خودغرض، جھوٹ کا کاروبار کرنے والے ہیں، یا وہ جو اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی کے لیے اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال لگانے میں مصروف ہیں۔

’نیکی کر دریا میں ڈال‘ کی اخلاقی کیفیت اپنی جگہ لیکن رنگ و بو کی اس دنیا میں نیکی ہی  نہیں، نیکوکاروں کی خدمات کا ابلاغ (projection) بھی تعلیم، دعوت، خدمت اور انقلاب کی  حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔ یہ دنیا ظاہر (image) اور تصور (perception) کی دنیا ہے اور   اچھے لوگوں اور نیک خدمات کا صحیح ابلاغ خودپسندی یا خودنمائی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ   دعوتی حکمتِ عملی کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کا پیغام اور ان کی خدمات کا صحیح صحیح اِدراک ہر خاص و عام میں کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔

اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مصر ، تیونس اور مراکش میں کیا صرف منفی نعروں، یعنی سامراجی قوتوں کو ماربھگانے کے تذکرے سے یا مثبت نعروں، یعنی عوام کی فلاح، معیشت، تحفظ، صحت، تعلیم، روزگار اور حصولِ عدل کو اپنی حکمتِ عملی کے بنیادی نکات بنایا، اور پھر ایک عرصہ اس حوالے سے عوامی سطح پر کام کرکے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

ایک ایسے دور میں جب ہم اعتماد کے فقدان، خلوص کے افلاس اور اُمید سے محرومی کا شکار بنادیے گئے ہیں، ہم عوام الناس کو ان ذہنی اور روحانی امراض سے کس طرح اور کتنی جلد نجات دلا سکتے ہیں؟ نجات اور رہنمائی کے اس عمل کے لیے ہمیں اسلوبِ بیان اور تکنیک میں کس تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ کیا آج تک اختیار کی گئی سیاسی زبان اور دعوتی اسلوب اس مقصد کے حصول کے لیے کافی ہے؟ ہمیں اس کے لیے اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا، تاکہ اُس برکت کے نتیجے میں جو اجتماعی مشورے کا خاصا ہے، ہم ایسی فلاحی حکمتِ عملی وضع کرسکیں جو یوم الحساب سرخروئی اور اس دنیا میں عادلانہ نظام کے قیام اور عوام الناس کو مایوسی سے نجات دلانے کا ذریعہ بن سکے۔

تحریکاتِ اسلامی کا نصب العین معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کا برپا کرنا ہے ۔ اس نصب العین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ اس لیے منصب رسالت پر فائز کرتے وقت داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معلمانہ کردار سے آگا ہ کیا گیا تھا اور اولین ہدایت یہ دی گئی تھی کہ:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) (اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے  جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

ان اولین نازل ہونے والی پانچ مختصر آیات میں ربِّ کریم نے جہاں اُمیّون میں سے منتخب کیے جانے والے سراجاً منیراً  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے رب کے نام سے تلاوت آیات کریں، وہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ وہ علم نہیں ہے جو انسانی عقل تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعے انھیں دیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے ان تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنھیں آغاز میں خالق کائنات نے جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے پیدا کیا اور پھر شعور و آگہی سے نوازا ۔ ایک اور مقام پر تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا کہ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیںرکھتے، وہ برابر نہیں ہو سکتے ہیں:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟

مزیدیہ بات بھی فرما دی گئی کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، وہ ایسے عباد(بندے) ہیں جو اپنے رب کے شاکر بندے ہونے کے ساتھ اپنے رب کاخَشیَہ یا تقویٰ اختیار کرتے ہیں:  اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ  مِنْ عِبَادِہِ  الْعُلَمٰٓؤُا ط (الفاطر۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔جو شعوری طور پر اس کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور بندگیِ رب کے پیغام کو ہمہ وقت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔    داعیِ اعظمؐ نے خود اپنے بارے میں یہی بات فرمائی کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا -  مشکٰوۃ)۔ چنانچہ پہلے دن سے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مکہ مکرمہ میں دارِ ارقم اور مدینہ منورہ میں صُفہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم فرمائے ۔

 گویا تحریکاتِ اسلامی کے لیے مکہ اور مدینہ ہر دو مقامات سے جو راہ نما اسوہ ملتا ہے،    وہ اداراتی بنیاد پر تعلیم کی اشاعت ہے، یعنی یہ معاملہ محض انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اس لیے تحریکاتِ اسلامی کی ایک اہم ترجیح، تعلیم بطور ایک ادارہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اس غرض سے تحریکاتِ اسلامی اپنے کارکنوں کی علمی تربیت کے لیے مطالعاتی حلقہ جات،  اُسرے ، تربیت و تعلیم گاہوں ، خصوصی خطابات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی، تاکہ کارکنوں کے علم میں اضافے کے ذریعے ان میں خشیت اور تقویٰ پیدا ہو اور ضروری استعداد و آگہی کے ساتھ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں ۔

 دعوت کے تناظر میںتحریکاتِ اسلامی کا د ائرۂ عمل ہمارے ہاں مروّجہ روایتی تصور تبلیغ سے بہت مختلف ہے ۔وہ علم کو اس کی ایک جہت تک محدود تصور نہیں کرتیں۔جہاں جہاں ان کے   تصور میں نکھار ہے، وہاں اسلامی تحریکیں علم کے وسیع تر تصور کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں معاملہ فرد کی اصلاح کا ہو یا فکر کی تطہیر کا، معاشرے کی تشکیلِ نو کا ہو یا سیاست کی تدوینِ جدیدکا ، ثقافت و تہذیب کے تصور کا تزکیہ ہو یا مذہبی منافرت دُور کرنے کا، مسلکی اختلافات میں اعتدال کی راہ تلاش کرنی ہو یا ملکی اور عالمی معیشت کا تنقیدی جائزہ لینے کا، اور نئے اسلامی عالمی نظام معیشت کا تعارف کا معاملہ ہو، اسلامی تحریکات ان اُمور سے آنکھیں بند نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح گھرمیں اہل خانہ کے درمیان محبت و رحمت کے تعلق کی پرورش سے لے کر معاشرے سے تضادات دُور کرنے تک یا افراد ،خاندان اور معاشرے میں برداشت ، قبولیت (acceptability) اور تعاون کی مضبوط بنیادیں استوار کرنے کے کام ہوں، تحریکاتِ اسلامی کا تصور دعوت و ابلاغ ان تمام اور دیگر ممکنہ انسانی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ذریعے وہ اپنے اصلاحی اور انقلابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانا چاہتی ہیں۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف تحریکاتِ اسلامی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی جو حکمتِ عملی بھی وضع کی جاتی ہے ، اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی طور پر غلامی و بے اختیاری کے شکنجے میں کسی گئی اقوام کو محکومیت کے زنجیروں میں اس طرح جکڑے رکھیں کہ وہ زنجیروں کو ’زیور‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ اس خود سپردگی کو ’حسن و دانش‘  باور کرانے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار کو وہ تعلیم ہی کا نظام سمجھتی ہیں اور اسی کو ذریعہ بناتی ہیں۔  برعظیم پاک و ہند ، انڈونیشیا ، ملایشیا، الجزائر، تیونس ، مصر، شام ، سوڈان، فلپائن، غرض کہ جہاں جہاں یہ مغربی سامراج گیا، اس نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اور سیاسی غلامی کو گہرا کیا۔

تعلیمی منصوبہ بندی اور تقاضے

پاکستان کے پس منظر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی اگر مناسب تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے تو دستورِ پاکستان کی روشنی میں بغیر کسی غیرجمہوری ذریعے کے،معاشرتی انقلاب کی راہ   ہموار کی جاسکتی ہے جو کلی انقلاب کے لیے ممد و معاون ہو گی۔ یہ تعلیمی معاشرتی انقلاب تحریک کی حکمت و دعوت اور طریق کار سے پوری مناسبت رکھتا ہے ، اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد   منصوبہ بندی کے ذریعے تحریک کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے ۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وہ مراکز ہیں، جہاں سے  وہ افراد کار فراہم ہوتے ہیں جو سامراج کی چھوڑی ہوئی روایت کا حصہ بن جائیں تو نوکر شاہی میں  بابو بن کر خوش و خرم رہتے ہیں ۔یہی افراد کار اگر اُس تعلیم سے گزریں جو سیر ت وکردار کی تعمیر اور عقل ود انش کی تہذیب کے ذریعے انھیں اپنے دین و روایات پر فخر کرنا سکھائے اور اسلام کو زندگی کا مقصد اور مشن بنانے کا داعیہ پیدا کرے، تو یہ افراد کار دنیا کے بڑے سے بڑے طاغوتی نظام کو اپنی حکمت عملی سے ایک عادلانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

 تحریکِ اسلامی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ آج پاکستان کے تمام صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اس کی فکر سے نظری اتفاق رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس  زمینی حقیقت سے ذہانت اور حکمت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے اورایک جامع حکمت عملی اس موجود سہولت کو ایک قیمتی افرادی اثاثے میں تبدیل کر دے اور یہ افرادی اثاثہ تحریک اسلامی کے  نصب العین کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

تعلیم وتربیت معاشرتی تبدیلی کی شاہراہ ہے، لیکن یہ اسی وقت صحیح نتائج پیدا کر سکتی ہے جب نہ صرف نصاب ، تدریسی کتب ، ادارے کا ماحول بلکہ معلمین و معلمات کاذاتی کردار سیرت اور اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہو۔انبیاےکرام کا مقصدمحض کتاب کا پہنچا دینا نہیں تھا، ان کا اصل کارنامہ وہ اسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا، جو ان کی تعلیمات کا مرقع اور ہر پیروکار کے لیے قابلِ عمل مثال ہو۔ اسی بنا پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں فرمایا گیا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

 یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ملک گیر پیمانے پر ان کا نصاب ، اساتذہ کی صلاحیت ، تجربہ و کردار و سیرت اور نصابی کتب اور راہ نما کتب کے انتخاب میں بنیاد محض تعلیمی کمال نہ ہو بلکہ تربیتِ اخلاق ہو۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے روشن دماغ قائد ، اخلاقِ حسنہ کے نمونے ، جرأت و خود اعتمادی کے امین،  حلم و بُردباری اوربرداشت  (tolerance ) اور استقامت کے نمایندے ،روحانی بالیدگی اور باہمی رحمت و مودت کے علَم بردار نوجوان پیدا ہو سکیں گے۔

یہ کام نہ تو مشکل ہے اور نہ کوئی خام خیالی۔ آج بھی جہاں کہیں صحیح اخلاقی تربیت، سائنسی علوم کی اعلیٰ تعلیم ، صبر و استقامت اور سچائی اور خود داری کی تربیت د ی جائے گی، وہاں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو عصر حاضر کے نام نہاد سامراجی اجارہ دارقوتوں کا ایمان و اعتماد کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔

اسلام کی شورائی اور جمہوری اقدارکے ساتھ، خودانحصاری ، سچائی ، امانت، دیانت اور للہیت رکھنے والی شخصیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم ہی کے ذریعے اپنے نصب العین کے واضح شعور کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور صبر وتوکل کے سہارے یہ کام کرنا ہو گا ۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مدینہ کا راستہ مکہ اور حبشہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مکہ کا صبر آزما دور اور حبشہ کی غریب الوطنی وہ مراحل ہیں جن سے گزرے بغیر عدل واحسان پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔ وہ چاہے مٹھی بھر افراد ہو ں لیکن ان مراحل سے گزر چکے ہوں تو وہ وقت کے جباروں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرسکتے ہیں، جب کہ افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو، لیکن ان تمام مراحل سے نہ گزراہو تو وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

الحمدللہ، آج تحریک اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اس سے وابستہ افراد کے تعلیمی ادارے تقریباً پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معیاری اخلاقی تعلیم دینے میں کامیاب ہوئے ہیں،جو نئی نسل میں ذہنی انقلاب برپا کر دے اور انھیں مستقبل کی تعمیری اور اصلاحی قیادت کے لیے تیار کر دے؟

حکمتِ دعوت اور ابلاغ

 اس تعلیمی جہاد کے ساتھ دوسرا لازمی میدان وہ ہے، جسے قرآن کریم نے حکمتِ دعوت و ابلاغ سے تعبیر کیا ہے جو ہدایتِ الٰہی کو آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا ہے۔    آج ہم جسے ابلاغِ عامہ کہتے ہیں، یہ چاہے طبع شدہ الفاظ کی شکل میں ہو یا برقی پیغامات کی شکل میں،  اس کا بنیادی مقصد مطلوبہ پیغام کو جاذبِ نظر بنا کر دل و دماغ میں اتار دینا ہے ۔ غالباً اسی بنا پر قرآن کریم کی آیات میں اثر انگیزی اور معرفت کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ہر آیت جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ لامتناہی مفہوم کی امین ہے، اور ایک طائرانہ نظر سے دیکھنے والے اور ایک تفقہ والی نگاہ رکھنے والے ، ہر دو کے لیے معانی و مفہوم کے خزانے فراہم کردیتی ہے۔

 اس دور کا المیہ یہ ہے کہ کہ آج اولین تعلیم گاہ آغوشِ مادر اور اسکول اور مدرسے کے کردار کو برقی ابلا غ عامہ نے فنی مہارت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس مجرمانہ تہذیبی ڈاکے پر بے چین نظر نہیں آتے۔

تحریکِ اسلامی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اولاً اس اہم معاشرتی اور تہذیبی مسئلے سے قوم کو دلائل اور شواہد کی بنیاد پر آگاہ کرے ۔ ماں کی تربیت اورخاندان کی مرکزیت و عظمت کی تجدید اور حیاتِ نو کے لیے منظم جدوجہد کرے۔ ساتھ ہی اپنی دعوت کو پہنچانے کے لیے اس مؤثر ذریعے کو اخلاق کی پابندیوں اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار کرے۔ تعلیم گاہوں سے وہ نوجوان نکلیں جو نہ صرف سیرت و کردار بلکہ عصر حاضرکے مسائل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کی لادینی فکر کا رد ، عقلی دلائل سے اور اسلام کے جامع نظامِ عدلِ اجتماعی کی وضاحت اپنے علم و تجربے کی مدد سے کر سکیں ۔

 اس حوالے سے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ صحافیوں، ابلاغِ عامہ سے وابستہ ماہرین اور مصنّفین کے لیے ایک مستقل ادارہ ایسا قائم کیا جائے، جہاں تبادلۂ خیالات ،علمی تحقیق  اور نوجوان نسل کی تربیت اس طر ح ہوسکے کہ نہ صرف ابلاغِ عامہ اور اجتماعی ابلاغ( Mass Communication) کی اعلیٰ ترین تربیت ہو، بلکہ انھیں اسلام کے نظام عدل اور پاکستان کی نظریاتی اساس و تاریخ پر پورا عبور حاصل ہو۔ یہی نوجوان تحریک کے نصب العین کے حصول کے لیے افرادی سرمایہ فراہم کریں گے اور تحریک کی تحریکیت کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوںگے ۔ ہر تحریک اسی وقت تک اپنا وزن اور اثر رکھتی ہے جب تک اس میں نیاخون ، فکری یک جہتی، اجتہادی صلاحیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ نیا خون اگر تحریکی فکر میں سطحی معلومات کے ساتھ شامل ہوگا، تو جلد یا بدیر جذبات کا شکار ہوجائے گا، اور اگر وہ تحریکی فکر کے رنگ میں رنگ گیا تو صبر و استقامت اور کامیابی کی علامت بن جائے گا۔

اداراتی نظم کی ضرورت

 تعلیمی اور ابلاغی جہاد کا آغاز کرنے کے لیے وسائل اور خام مواد پہلے سے موجود ہے ۔ تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے بہت سے ادارے اس میدان میں کام کر رہے ہیں، لیکن تاحال ایسی کوئی تنظیمی شکل اور انتظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایک فطری انداز میںانھیں باہمی تعارف و راہ نمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ کام ان کی آزادی کو متاثر کیے بغیر سر انجام دیا جانا چاہیے۔ علمی، نصابی اور تربیتی حوالے سے ایسے راہ نما خطوط (Guide lines) باہمی مشورے سے باآسانی تیار کیے جاسکتے ہیں ، جن کی پابندی کا اہتمام سب ادارے بہ حسن وخوبی کر سکیں۔

تعلیمی اداروں کی صوبائی اور مرکزی سطح پر اداراتی تنظیم سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مرکزی نظم کے تحت آجائیں اور اپنی ترقی ، خودمختاری اور تنوع سے محروم ہو جائیں۔ قطعاً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں نصب العین اور حکمت عملی پر اتفاق ہو، وژن اور منزل واضح ہو او ر ہر طالب علم اتالیق کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی شخصیت اور فکرکی صورت گری کر سکے، اور ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اپنے مستقبل کانقشہ ذہن میں لے کر تعلیمی ادارے سے نکلے ۔ جس سے معلوم ہوسکے کہ طالب علم کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے کس شعبے میںممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔تجارت میں ، سرکاری ملازمت میں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں، عدلیہ اور دفاع کے نظام میں یا ذاتی کاروبار کرناہے، ہنریا جو شعبہ بھی اسے پسند ہے ا س میں کس مقام تک اور کتنے وقت میں وہاں پہنچنا ہے ۔ جب تک یہ عملی زندگی کا منصوبہ، تعلیمی مراحل کے دوران میں واضح نہیں ہوگا، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے  اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔

تحریک اسلامی کی کامیابی کا راز اس منصوبہ بندی میں ہے، جو زمینی حقائق کے پیش نظر، مطلوبہ اہداف کا حصول ایک مقررہ وقت کی میعاد میں کر سکے ۔ یہ تعلیمی حکمت عملی نابغہ (genius) افرادپیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ترجیحات کی فہرست میں اسے سب سے اول ہونا چاہیے ۔ ابلاغِ عامہ کو ہم نے اس بنا پر اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ تعلیمی مقاصد ابلاغ کی مناسب حکمت عملی کے بغیرحاصل نہیں ہو سکتے ۔

اس مہم میں نہ کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے اور نہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی حاجت ہے ۔ صرف ترجیحات کی ترتیب پر غور اور موجودہ آزاد اداروں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی فکری تنظیم بندی ، اہداف پر یکسوئی اور اساتذہ کی تربیتی حکمت ِ کار، نصابی کتب اور نصاب پر نظر ثانی کرنا ہے۔ پھر ان تمام مصادر کو اس طرح استعمال کرنا ہے، جو تحریک کے    نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ تحریک کا نصب العین، در حقیقت پاکستان کا نصب العین ہے۔ اس لیے نصب العین کے اس اتحاد کی بنا پر تحریک کو اپنے کام کے لیے مکمل اخلاقی جواز حاصل ہے شرط صرف یہ ہے کہ اس کام کو ذمہ داری سے کیا جائے، تاکہ یہ محض رسمیت (formality) کا شکار نہ ہو اور اپنی اصل روح کے ساتھ ملک گیر بنیادوں پر زیر عمل لایا جاسکے ۔ ہر اس انسانی کوشش اور سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلوصِ نیت سے اور کسی دنیاوی اجر ، تمغے اور اعزاز کے حصول کی طمع کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جائے گی تووہ اس میں کامیابی دے گا ۔ یہ ابدی اصول ہے۔ اس میں کسی قوم اور زمانے کی قید نہیں۔تعلیمی حکمت عملی ہی کامیابی کا راستہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔

قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ  انبیاے کرام ؑ اپنی دعوتی سرگرمی میں دن رات تمام قوتوں کے ساتھ مصروف رہنے کے باوجود، لوگوں سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی دعوتی سرگرمی بھی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہے، تو وہ خود اپنے فضل و کرم سے تحریک کے لیے مشکلات کو دور کرے گا ، آسانیاں پیدا کرے گا،لیکن اگر نیت محض شہرت یا مادی ہدف ہو تو پھر ممکن ہے کہ دنیاوی ہدف تو حاصل ہو جائے، لیکن آخرت کا معاملہ مشکوک ہو جائے گا ۔ دوسری جانب اگر تمام تر کوشش ، خلوصِ نیت سے رضاے الٰہی کے لیے ہے، تو پھر چاہے فور ی نتائج حاصل نہ ہوں لیکن وہ جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس کا فرمان ہے: وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل  عمرٰن۳:۱۳۹) ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

 تحریکِ اسلامی سے وابستہ کسی قائد یا کارکن کے لیے ذہن میں اس تذبذب کا پیدا ہونا کہ: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ ہم کب تک یونہی جدو جہد کرتے رہیں گے؟ اسلامی تبدیلی اور انقلاب آکیوں نہیں جاتا؟ ایک عاجلانہ نفسیات کا پتا دیتا ہے۔ تحریکی نفسیات اُخروی زندگی کی کامیابی سے منسوب ہوتی ہے، جس میں یہاں کی ہر ناکامی اس کے جوش اور ولولے میں غیر محدود   عزم و ارادے کا اضافہ کرتی ہے۔تحریکی نقطۂ نظر کی اصل کامیابی رضاے الٰہی کا حصول ہے اور اِس دنیا میں کامیابی اس کی طرف سے اضافی انعام ہے ۔

علوم کی تدوینِ جدید

 تعلیمی حکمتِ عملی کا ایک اہم مقصد اور ہدف علوم کی تدوینِ جدید ہے ۔ علوم چاہے معاشرتی علوم ہوں یااطلاقی (applied) جب تک ان کے بنیادی تصورات کودرست نہ کیاجائے، وہ ذہن اور معاشرہ پیدا نہیں کر سکتے، جو صرف اللہ کو رب مانتا ہو اور اصلاحِ احوال پر منتج ہو۔ غورو فکر اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک کن علوم کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے مدون کیا ہے اور بقیہ علوم کی اسلامی تشکیل جدید کا بنیادی کام کتنے عرصہ میں کر لیا جائے گا ۔ یہ وہی عمل ہے جس کے لیے قائد تحریک اسلامی نے خود بیش قیمت کام کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے فکر اسلامی کی روشنی اور تشکیلِ نو کے خطوط کی نشان دہی کی اور فکر کو ایک نئے رخ سے آشنا کیا ۔  علومِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے واضح خطوطِ کار بھی متعین کیے ، اس کام کو مختلف میدانوں میں کرکے دکھایا اور نئے چراغ روشن کیے ۔ اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر اداروں کے قیام کی فکر بھی کی لیکن اس کام کو جاری رکھنے اور نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو کمی کوتاہی ہے اس کی تلافی کی فکر بلا تاخیر کرنا چاہیے ۔

اس وقت وطنِ عزیز میں مروجہ تعلیمی نظام کی بنیاد، زندگی میں تقسیم کے اصول پر ہے۔ چنانچہ اس طرح جو ذہن پیدا ہوتا ہے وہ انسانی زندگی کو دنیاوی اور روحانی خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے ذاتی روحانی سکون سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادی ترقی ، قوت اور دولت سے ۔ اسلام اس تقسیم کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور تمام علوم کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں مادی اور تجرباتی معیار کی جگہ ابدی اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے تمام اطلاقی علوم (Applied Sciences) کی تدوینِ جدید کے ذریعے ایک ہمہ گیر فکری انقلاب کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ اسلام رنگ و نسل، جنس اور زبان کی قید سے بلند ہو کر معاشرے کے ہر فرد پر کم از کم اتنی تعلیم کا حصول فرض قرار دیتا ہے، جس سے وہ شعوری طور پر ہرعمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا فیصلہ کر سکے اور حلال و حرام میں تمیز کے قابل ہو ، اسے طہارت اور نجاست کا فرق معلوم ہو۔ یہ طہارت محض جسمانی نہیں، فکری بھی ہے اور معاملات کی بھی ۔

خدمتِ خلق کا وسیع تر معاشرتی تناظر

تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قرآن کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی،معاشرتی،سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے ۔ جس طرح انسانوںپر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند ، مسکین ، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زائد ہو، وہ اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے ۷۰گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔

اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے ۔خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں ۔ اس حوالے سے سب سےپہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے ۔

یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’الخدمت‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمت ِ خلق کے لیے موجود ہیں ۔یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کی فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے ؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعےہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات  پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے، کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ۔

طبی سہولیات مختلف شکلوںمیں فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ بہترین شکل تو مفت طبی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے بآسانی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو ،اس میں طبی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو،رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جا سکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹوروں سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویات نہیں خرید سکتے،خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویات اس طبی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں ۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے ۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک سکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔

طبی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جا سکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انھیں ادویات بھی تجویز کرے ۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے ہسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انھیں کسی قریب کے ہسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویات کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔

ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی ہسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اورطالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انھیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میںطلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے توجذبۂ انفاق پیدا ہو گا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی ۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے ۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے ۔ مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں ۔

ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے ۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں، اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میں آئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔

اداروں کی تعمیرِنو

 ہمارے ابلاغِ عامہ کے اداروں نے گذشتہ ۲۰سال کے عرصے میں جس طرح قوم کو بداخلاقی ، بد اطواری اور بد معاملگی کی تعلیم دی ہے، اس سے قوم کو نجات دلانے کے لیے تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے، محض تنقید اور احتجاج سے کام نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی مزید تاخیر کے  دعوتِ دین کے حوالے سے یہ چیز اب واجب کا مقام رکھتی ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد کم از کم ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں ، جو تعلیمی ، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر ایسے پروگرام بنائے،   جو فنی طور پر اعلیٰ معیار کے ہوں اور تحریک کی دعوت کو پیش کرتے ہوں۔

جب تک ابلاغِ عامہ کے ہم خیال ادارے نہیں قائم ہوتے، کم ازکم جو روایتی ادارے موجود ہیں انھیں شعوری طور پر توسیعِ دعوت ، تعمیر فکر و کردار کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کرنا ہو گا ۔اس کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز [چوپال] کو استعمال کرنا ہو گاکہ عوام میں مسائل کا شعور اور ان کے حل کے لیے آگاہی پیدا ہوسکے۔ مفت مشاورت فراہم کرنے والے مراکز ہرگاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں، جن میں مقررہ اوقات میں رضاکارلوگوں کے مسائل سنیں اور انھیں قرآن و سنت کی روشنی میں حل سے آگاہ کریں۔

موجودہ معاشرتی مسائل کچھ اس رُخ سے اُلجھتے جارہے ہیں کہ خاندان میں معمولی معمولی اختلاف کے نتیجے میں طلاق کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے ۔ قرآن و سنتِ رسولؐ کی روشنی میں جو چیزسخت ناپسندیدہ ہے اسے ڈراموں ، فلموں اور ٹی وی شوز میں مضحکہ خیز شکل دے کر لوگوں کو دین سے  دُور کیا جار ہاہے ۔نہ صرف طلاق بلکہ سگریٹ نوشی نے بھی صحت کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کی آگاہی کے لیے وقتاً فوقتاً کسی ایک مسئلے پر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ جس میں علمی بحث بھی ہو، اور جمہوری ذرائع سے عوام کی تعلیم بھی ۔ جب تک ہم مقامی مسائل کو سمجھنے کے بعدحل پیش نہیں کریں گے،ہماری دعوت نامکمل رہے گی اور تحریک کی متوقع دعوتی کا میابی کی منزل قریب نہیں آسکے گی۔

 مختلف شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ افراد کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی، جن میں ماہرین فن اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے طور پر ان اداروں سے وابستہ ہوں اور معاشرتی تعلیم و انقلاب کے عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ اس حوالے سے پہلے سے قائم شدہ تنظیموں کا جائزہ اور ان کے کام کی رفتار ، اہداف کا تعین اور حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا کہ انھیں کس طرح مزید مؤثر بنایا جائے۔ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کا مقصد بھی غیر سیاسی انداز میں تربیت اور اصلاحِ اخلاق ہو نا چاہیے تاکہ خلوص اور بے غرضی کا احساس ان اداروں سے وابستہ افراد میں راسخ کیا جاسکے ۔ دعوت کے کام کے غیر سیاسی پہلو سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی کام دعوتی کام سے مختلف ہے ۔

خواتین کی فکری تطہیر و تنظیم

تعلیمی اور معاشرتی انقلاب اور اصلاح کے کام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کے، صحیح شعور کے ساتھ، قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے حل تجویز کیے جائیں جو جدید تعلیم یافتہ خواتین کو مطمئن کر سکیں ۔ بیرونی امداد پر چلنے والے بے شمار رفاہی اداروں نے حقوق نسواں کے نام پرخواتین میں اشتعال اور اسلام سے دُوری پیدا کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تحریک اسلامی کو ان موضوعات پر اپنا موقف اور زیادہ واضح انداز سے پیش کرنا ہو گااور بلاکسی معذرت کے اسلامی تعلیمات کو جدید زبان میں اس طرح پیش کرنا ہو گا کہ عقلی دلائل اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اسلام کے صحیح خدوخال کا فہم عام کیا جاسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں خواتین میں ملک گیر بنیادوں پر ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ایک جانب بہت سی وہ خواتین ہیں، جو کل تک اسلام کے بارے میں مخصوص پروپیگنڈے کے زیراثر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اب اسلام سے قریب آئی ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کلچر نے بہت سی نوجوان خواتین کو اسلام سے دُور بھی کیا ہے ۔ اس پہلو سے بھی مناسب حکمت عملی کے ساتھ اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کی فکری تطہیر اور تنظیم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور سوچنے سمجھنے والا دماغ عطا کیا ہے، جن کی مدد سے وہ کائنات اور خود اپنے وجود میںیاد دہانی کروانے والی آیات (نشانیوں) کا اِدراک کرسکتا ہے۔ اگر ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ وہ صرف اپنے وجود کا جائزہ لے، تو اس کا فطری رویہ اپنے خالق و مالک کے حوالے سے شکر اور حمد کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔بہت سے اہل نظر کے لیے طلوعِ صبح اورغروبِ آفتاب کا منظر ہی قبول حق کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کا پورا وجود انسانوں اور کائنات پر احسانات کرنے والے رب ، الرحمٰن اورالرحیم کے اعتراف عظمت میںروبہ سجود ہو جاتا ہے اور وہ  بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا  الْاِحْسَانُ۔

دوسری جانب ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو تابناک سورج کی روشنی میں بھی بصیرت اور قلب کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے حق کا اعتراف نہیں کرتے اور یوںوہ اپنے نفس پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک صحت مند جسم ، روشن دماغ اور دردمند دل رکھنے والا شخص ان تینوں صلاحیتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک جانب ہرقسم کے شرک سے بے زاری اور دوسری جانب توحید خالص کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اپنے سارے وجود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی میں دے کر اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوجائے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً)۔

اسی احسانِ الٰہی کے حوالے سے انسان کو شعورِ حیات دیا گیا اور اسی احسانِ الٰہی کی بنا پر انسان کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطہ مرتب کر کے وحی الٰہی کے ذریعے اس کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ وہ آنکھ ، کان ، دل و دماغ رکھنے کے باوجود اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ گزارے، بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے مشاہدے ، بصارت و بصیر ت اور قلب و ذہن کی ہم آہنگی (synergy) کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی فرائض کو پورا کر سکے ۔یہ ادایگی فرض رنگ و نسل کی تفریق سے بلند ہے۔ اس میں جغرافیائی قومیت یا مذہبی اور مسلکی اختلاف کا کوئی دخل نہیں ہے ۔یہ ہر ذی حیات انسان کے لیے، وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصارت، سماعت اور شعور کی صلاحیت کی اخلاقی جواب دہی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘۔

اسلامی تحریکات اس بنیادی شعور اور جواب دہی اور احتساب کے احساس کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہیں کہ اس دور میں اقامتِ دین ان پر ایک فریضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ  دین کی جدوجہد: تحریکات اسلامی کا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی ۔ ان کی حیات، نمو اور ارتقا کا براہِ راست تعلق اقامتِ  دین کے ایک جامع اور کلی تصور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یہ تصورخودمتحرک ہے، حتیٰ کہ اگر وقتی طور پر ایک اسلامی تحریک سکڑتی بھی نظر آرہی ہو، تب بھی یہ تصور متحرک رہتا ہے ۔ یہ حرکی تصور، تحریک اسلامی کے ضمیر کو بار بار جھنجوڑتا ہے اور اپنی منزل، طریق کار اور حکمت عملی کے حوالے سے بار بار یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تو دیکھا جائے کہ کمی یا نقص کہاں پر ہے ؟

اسی بنا پر ان تحریکاتِ اسلامی میں، جو بظاہر تیزی کے ساتھ منزلیں سر کرتی نظر نہ آرہی ہوں، کارکنوں کی سطح پر اضطراب کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ ان کے ہاں یہ احساس کہ اصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا ، تربیت میں کمی آرہی ہے ،ترقی نہیں ہو رہی ہے، ایثار و قربانی کا جذبہ کم ہو رہا ہے ، قیادت میں فیصلوں کے ساتھ چلنے کے بجاے فیصلے نافذ کرنے کا سا انداز پیدا ہو رہا ہے، یا پھر یہ شکایت کہ ضرورت سے زیادہ فروتنی اور اپنے آپ کو کم تر سمجھا جارہا ہے۔ یا پھر اپنی قوت کے بارے میں یہ  غلط احساس پیدا ہو گیا ہو کہ ہم جب چاہیں شاہراہیں روک کر اپنی قوت کو منوا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروںکے مقابلے میں خود کو زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب علم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ بے شمار اچھے پہلو ہوں یا بعض کمزوریاں ، ان کا پایا جانا، ان پر باہمی مکالمہ کرنا درحقیقت زندگی کی علامت ہے۔ان تمام احساسات و جذ بات کا وجود بنیادی طور پر تحریک اسلامی کے متحرک ہونے کی دلیل ہے۔ اگر تحریک جامد اور ساکت ہوتی تو کارکن ہوں یا قیادت یا دعوت کے مخاطب ، ان میں یہ اضطراب نہ پایا جاتا۔ اضطراب کا پایا جانا ہی حیات کا ثبوت ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حنظلہ ؓ کے دل میں تھا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو جو دل کی کفیت ہوتی ہے وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جو گھر پر یا بازار میں پائی جاتی ہے اور جسے دونوں اصحابِ رسولؐ نے نفاق سے تعبیر کیا تھا ۔

                تحریک اسلامی ہر دور میں اس کیفیت سے دوچار رہی ہے اور رہے گی، کیونکہ اس کے تحریک ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا قلبِ مضطرب ، سوتے جاگتے اسے پکار پکار کر کہتا کہ کہیں اس میں نفاق تو نہیں آگیا ۔ یہ احساس اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے ، اپنے احتساب اور اپنی ترجیحات کے جائزے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔

یہ خیال کہ بعض تحریکات پر سیاست غالب آگئی ہے اور تعلق باللہ ، للہیت ، تقویٰ و احسان مفقود ہو گئے ہیں، ایک قابل قدر احساس ہونے کے باوجوداس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ سیاسی سرگرمی اور سیاسی تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ جدوجہد اقامتِ دین اور حاکمیت الٰہیہ کے لیے کی جاری ہے یا محض سیاسی سرگرمی؟ کیااس کا مقصد سینٹ یا پارلیمنٹ میں علامتی وجود کو برقرار رکھنا ہے یا اقامتِ دین کے لیے ان ایوانوںمیں مؤثر کردار ادا کرنا ہے، جو قوم و ملک کی قسمت سے انصاف بھی کرسکے اور عوام پر ظلم اور ان کے استحصال کے مرتکب عناصر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکے؟ کسی بھی اسلامی تحریک کو اس نوعیت کے سوالات پر باربارغور کرنا چاہیے اور جذبات سے بلند ہو کر، نفع ونقصان کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور تحریکی سفر کے مراحل کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ کرنی چاہیے۔

ہمارے لیے اصل میزان قرآن وسنت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ذاتی اور اجتماعی احتساب اور اپنی حکمت عملی پر مسلسل غور وفکر کا عمل جاری رکھیں اور ظن و گمان سے بچتے ہوئے یہ کام انجام دیں کہ بہت سے گمان اور ظن گناہ کے دائرہ میں آتے ہیں (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲)۔ یاد رہے تحریکی کارکنوں اور قیادت کے درمیان شفافیت اور احتساب کا مسلسل عمل اور باہمی اعتماد ہی سفر کے جاری رہنے کی ضمانت ہے۔تحریک اسلامی کا ارتقائی سفر (Progressive Process ) کسی ایک مرحلے کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ اسلامی تحریک  مکہ مکرمہ سے حبشہ اور مدینہ پہنچی اور مدینہ منورہ سے پوری دنیا کے لیے ایک عالم گیرتحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس کے تاریخی مراحل میں مکی دور ہو یا حبشہ کی ہجرت کا دور یا آخر کار ہجرت مدینہ منورہ اور قیام حاکمیت الٰہی، یا وہ فکری، اخلاقی، سیاسی اور ہمہ پہلو انقلاب جو دین کی تکمیل کے اعلان کا باعث بنا۔ ان تمام تاریخی مراحل میں قیامت تک کے لیے وہ راہنما اصول موجود ہیں ، جن کا صحیح شعور و ادراک تحریکات اسلامی کو صراط مستقیم پر رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔

منزل اور اس کے تقاضے

تحریکات اسلامی کی سفر کی منزل صرف اور صرف ایک ہے ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ـ :

 اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ۔

یہ حاکمیت سب سے پہلے ایک فرد اپنے چندفٹ لمبے جسم پر قائم کرتا ہے۔ چنانچہ قران کریم نے جہاں کہیں بھی اسلام لانے کے بعد ایمان کا تذکرہ کیا ہے، فوری طور پر ایمان کو ناپنے، تولنے اورجانچنے کا پیمانہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیاہے۔ البقرہ کی ابتدائی آیات پر غور کریں تو یوں نظر آتا ہے کہ جو شخص بھی وہ مرد ہو یا عورت ، بچہ ہویا جوان ، بوڑھا ہو یا توانا اور صحت مند یا معذور جب ایمان لاتا ہے، تو اس کاعملی اظہار کرنے کے لیے ایمان کے پہلے تقاضے، یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کو اپنے عمل کا حصہ بنالے۔

 انسانوں کی جو بڑی اقسام قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ : وہ جو ایمان لاکر مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کے اسلام اور ایمان کی پہچان اقامتِ صلوٰۃ (صرف نماز پڑھ لینا یا ادا کردینا نہیں بلکہ نماز کے ذریعے تزکیۂ نفس اور پھر نیکی اور عدل کا قیام اور فواحش کا ابطال) اور مالی معاملات میں ’انفاق‘ (اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرنا )ہے۔

’انفاق‘ کی اصطلاح زکوٰۃ اور صدقات سب کا احاطہ کرتی ہے ۔زکوٰۃ بطور فریضہ لازم ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی ادایگی ایک شخص کو صدقات اور انفاق سے بری نہیں کر دیتی ۔ گویا ایمان کا پہلا پیمانہ اور تقاضا نظامِ صلوٰۃ اور نظام انفاق کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور میں ان دونوںہتھیاروں سے لیس اہل ایمان نے وہ مجاہدہ کیا ، جس نے ایک ایسی قوت کو وجود بخشا جو عددی لحاظ سے چاہے کم تھی، لیکن اپنی اثر نگیزی میں دنیا کے بڑے سے بڑے لشکر سے زیادہ قوی اور حقیقی معنی میں ایک بُنیانٌ مَرصوصٌ بن کر طاغوت ،ظلم ، شرک و کفر کے خلاف ایک انقلابی اور اصلاحی تحریک بن کر ابھری اور کفر، جہالت اورظلم کی تاریک فضا کو اس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد اور نصرت کے سہارے، اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی طاغوتی قوتوں پر فتح حاصل کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کفر و ظلم کے بادلوںکو اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے سبک ہواؤں میں تبدیل کر دیا :

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔

مکی و مدنی اَدوار:  تحریک کا ارتقائی سفر

 یہ تصور کہ مکی اور مدنی ادوار مکمل طو ر پردو الگ اکائیاں ہیں ، تحریک اسلامی کے ارتقائی سفر کے تناظر میں غیر عقلی نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حاکمیت الٰہی کے قیام کے بعد یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔اب دین کی حکمت: یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘___ جسے رب کریم نے بارہا اپنے ایک انعام کے طور پر قرآن کریم میں دُہرایا ہے، کے پیش نظر تحریکی قیادت کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ عین مدنی دور کے دوران مکی حکمت عملی کو کس طرح استعمال کیاجائے اورعین مکی دور سے گزرتے ہوئے مدنی دور کی کسی حکمت عملی پر کیسے عمل کیا جائے؟ گویا ایک مرتبہ نظام اسلامی کے قیام کے بعد تاریخی زاویے سے یہ دونوں اَدوار الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیے جا سکتے۔

دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی بناتے وقت دونوں ادوار میں اختیار کی گئی حکمت عملی اور نظام تربیت سے بیک وقت مدد لینی ہو گی۔ اب دعوت اسلامی کے وسیع تر تناظر میں اقامتِ دین کے جامع مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی وضع کی جائے گی، جس کے لیے دونوں ادوار سے مناسب حد تک استفادہ کرنا ہو گا۔اس نکتے کو سمجھنے میں اللہ رب العزت کی اس حکمت عملی میںبھی بڑی رہنمائی ہے کہ قرآن پاک میں جہاں مکی اور مدنی سورتوں کی نشان دہی کردی گئی ہے، وہیں قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے مطابق نہیںبلکہ اللہ کی ہدایت کے تحت اس ابدی اور آفاقی ہدایت کو اس طرح مرتب فرمایا گیا ہے کہ مدنی آیات کے ساتھ ساتھ مکی دور کی آیات کوپیوست کر دیا ہے۔

 اس پس منظر میں تحریک اسلامی پر ایک ارتقائی سفرکے زاویے سے غور کیا جائے: تو چاہے اس نے اپنے کارکنوں اور قیادت کوفکری طور پر اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے آگاہ کر دیا ہو اور قرآن و سنت ، فقہ ، تفسیر اور اعلیٰ اسلامی ادب سے پوری طرح واقف کرا دیا ہو، اس کے باوجود ہرکارکن اور قائد کو ہر لمحے جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے، تو اس کا سبب کیا ہے ؟

ہم نے آغا ز میں سوال اٹھایا ہے کہ کمی، کوتاہی یا نقص کہاں ہے ؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں خود اپنے کردار اور ترجیحات کاجائزہ لینا ہوگا۔ نیز یہ دیکھنا ہو گاکہ جو افرادی قوت پیش نظر تھی اس میںمطلوبہ خصوصیات پیدا ہوئیں یا نہیں؟ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ: کیا افرادی قوت اسی معیار پر تیار ہورہی ہے جو ہم چاہتے تھے اور کیا ہماری حکمت عملی اور حصول مقصد کے ذرائع، مطلوبہ نتائج ( Outcome) کے لیے مفید ثابت ہوئے؟ یا جو ذرائع ، حکمت عملی اور طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان سے وہ معیارِ مطلوب (End Product) حاصل نہیں ہواجس کی خواہش اور طلب دل و دماغ میں پائی جاتی تھی ۔ اگرہماری خواہش یہ ہو کہ ہم فصل آنے پر اعلیٰ قسم کے آم کا مزا لیں جبکہ ہم نے درختوں میں نہ قلم لگایا ہو، نہ ارد گرد پھیلے ہوئے کیڑوں ، مکوڑوں کو دور کیا ہو اور محض تخمی پودا لگا کر اعلیٰ آموں کے خواب دیکھتے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اور نتائج میں کبھی بھی یگانگت نہیں ہو سکتی۔

تحریکاتِ اسلامی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا مکی دور کبھی ختم نہیں ہوتا (بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال اور مصر میں گذشتہ ۷۰سال کا جائزہ اس جانب اشارہ کرتا ہے)۔ یہ مکی دور دراصل تحریک کا تعمیری دور ہے ۔ اس میں افراد سازی ، ذہن سازی ، کردار میں تبدیلی ، رویوں کی تبدیلی، انسانی تعلقات کی نئی تعبیر ، تصور حیات میں بنیادی اصلاح ، اپنی ذات، گھر اور معاشرے میں اپنے کردار پر غور، اور سب سے بڑھ کر طاغوت اور کفر کی طرف سے مزاحمت اور ہر قدم پر رکاوٹوں اور آزمایشوں کے پہاڑوں کا پایا جانا شامل ہے ۔ قرآن کریم نے اس اصول کو واضح فرما دیا کہ جب حق کی بے لاگ دعوت پیش کی جائے گی تو کفر و شرک کا رد عمل صرف یہ ہو گا کہ یا تو ہم سے قدم ملاکر تعاون کرو اور وہی راستہ اختیار کرو، ورنہ ہم تمھیں اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے:

آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یاتو تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۱۳)

گویا مکی دور مدینہ پہنچ جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا ۔ فکری بنیادوں کی آبیاری پر ہی تحریک کی اٹھان کا انحصار ہوتا ہے ۔چنانچہ مدنی دور کے مطالبات میں: چاہے سیاسی محاذ پر بین الاقوامی قانون کی تدوینِ جدید ہو یا مسلمانوں میں باہمی تعلق و اخوت کا قیام ، یا مدینہ کے دفاعی نظام کا مستحکم کرنا شامل ہو۔ اسی طرح ان تمام ریاستی مطالبات کے ساتھ ، تعمیر سیرت ، فکری بلوغت ، تعلق باللہ، توحید کا صحیح شعور ، عدلِ اجتماعی کا فہم ، اقامتِ دین کی بنیادوں ، عبادات، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ  وہ پہلو ہیں جو تحریک کا قلب و روح ہوتے ہیں۔ ان پر اگر شعوری طور پر کام نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ تحریک عوام کا ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لے اور ایوانِ نمایندگان میں اچھی خاصی تعداد میں کامیاب ہو کر بھی آجائے ، لیکن وہ اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کر سکے گی ۔ اس کی کامیابی تعداد پرمنحصر نہیں ہے بلکہ ان باشعور افراد کی تیاری ، اس معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جو وقت کے ہر امتحان میں پوری اُترے اور تحریک ہوا کے رخ سے بے پروا ہو کر شاہین کی طرح اپنے ہدف کی طرف سفر کو جاری رکھ سکے۔

قرآن کریم کا دیا ہوااٹل اصول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے صالح افراد کی جماعت ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت جو چاہے تعداد میں مختصر ہو ،اگر اس کا کردار اور تربیت معیاری ہو گی تو اسے ایک کثیر جماعت پر غالب آنا چاہیے ۔ اصل ضرورت ان افراد کی ہے جو منزل کا واضح تصور رکھتے ہوں، ان کی سیرت اُسوہ نبویؐ کی عکاسی کرتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی جان ، مال، علم ہر چیز کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بازی پر لگانے کے لیے آمادہ ہوں:  قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ  ج (انعام۶:۱۶۲-۱۶۳)

یہی قرآنی اصول بنی اسرائیل کے لیے تھا ، یہی امت مسلمہ کے لیے ہے ۔تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو ہر لمحے اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ ان دونوں پہلوؤں میں کس حد تک توازن و اعتدال برقرار رکھ سکی ہے اور کہاں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

دورِ جدید اور فکری تقاضے

 فکری غذاکے سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جب تک تحریکی فکر میں نئے سوتے پھوٹتے رہیں گے ، تحریک کی اثر انگیزی اور وسعت میں اضافہ ہو گا ۔ اس کی فکر طاغوتی مادہ پرستانہ فکر کے مقابلے میں اپنی برتری تسلیم کرائے گی ۔لیکن اگر یہ فکری سوتے خشک ہونے لگیں تو تحریک بھی ایک سوکھے درخت کی طرح اپنی جگہ قائم تو رہے گی، لیکن امت مسلمہ اس کی گھنی چھاؤں اور اس کے میٹھے پھل سے محروم رہے گی۔اس لیے تحریک کو علمی اور فکری میدان میں مسلسل ترقی کی فکر کرنی ہو گی۔

 یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ دور جدید میں تحریک اسلامی کے فکری رہنماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیااور جو حل تجویز کیے وہ وقت اور جغرافیائی سرحدوں میں محدودہیں۔ اگر امام حسن البنا بالاکوٹ یا لاہور میں پیدا ہوتے تو ان کی دعوتی زبان اُردو ہی ہوتی ، اسی کے محاورے ان کی     نوک زبان پر ہوتے ، ایسے ہی اگر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کی تحریری زبان ترکی ہی ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امام غزالی نے بغداد میں یا قاہرہ میں بیٹھ کر عربی زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے دہلی میـں بیٹھ کر عربی اور فارسی میں جو کچھ تحریر کیا  ان کے مخاطب نہ صرف عربی سمجھنے والے افراد تھے بلکہ آج تک ان کی فکر کی تازگی اور دینی حکمت سوچنے سمجھنے والے افراد کو متاثرکرتی ہے ۔ کیا اقبال محض پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئے تھے یا اقبال کی قدر اس کی جاے پیدائش والوں سے زیادہ وسط ایشیا کے افراد نے کی اور کر رہے ہیں ۔

پھر یہ بنیادی مقدمہ کہ کیا فکر (thought) وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے ؟ قرآن وحدیث کو زمان و مکان کی محدودیت اور کسی علاقے یا وقت میں قید کر دینا ایک انتہائی مریضانہ ذہنیت ہے، جو غیر شعوری طور پر مغرب کی لادینی اور استشراقی فکرسے متاثر بعض مسلمان دانش ور پیش کررہے ہیں۔یہ بالکل اُسی طرح ہے، جس طرح مغرب میں ہر تھوڑے عرصے میں ایک ’دانش وارانہ ‘نعرہ بلند ہوتا ہے کہ: ’’ماضی کے تصورات اب پرانے ہو گئے ہیں اس لیے نئے نظریات کی ضرورت ہے‘‘۔

جس طرح مغرب میں جدیدیت کے بطن سے نو جدیدیت (Post Modernism) کی ولادت ہوئی اور جس طرح مغرب نے تاریک دور (Dark Ages) سے دور عقلیت (Rationalism) میں قدم رکھا، اور بالخصوص آگسٹ کومے، ہیگل اور کانٹ کے تصورات کی روشنی میںعیسائیت کی جگہ عقلیت ، اباحیت، آزاد روی، مادیت پرستی اور دیگر تصورات کو ’روشن خیالی‘ کے زیرعنوان فخریہ طور پر اختیار کیا گیا، بالکل ایسے ہی ان مغربی فکر سے متاثر ’دانش وروں‘ کے خیال میںمسلم اہل فکر کو بھی قرآن و حدیث کو جدیدیت کی چھلنی سے گزارناچاہیے ۔ یہ وہ سادہ لوحی پر مبنی گمراہی ہے جو آج بعض مسلم دانش ور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور تحریکات اسلامی کے قائدین کی فکرکے حوالے سے وقتاً فوقتاً دُہراتے رہتے ہیں۔

یہ ’مسلم دانش ور‘ سمجھتے ہیں کہ حق و صداقت کے معیارات کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور ہر دور میں ایک ’من پسند نو تراشیدہ اور شتر بے مہار اسلام‘ وجود میں آنا چاہیے ۔اپنی اس خواہش کے باوجود یہ لوگ اگر سنجیدگی سے اسلامی قانون سمجھانا چاہتے ہیںتوائمہ اربعہ کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیںکر سکتے۔ دوسری طرف دورِ جدید کے تحریکات اسلامی کے مؤسسین کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ ان کی فکر آج بھی ویسی ہی تازہ، کارآمد اور relevant ہے جیسے ۸۰برس قبل تھی۔

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی جامعات یا مغربی نظام تعلیم میں تربیت پانے والے اکثر مسلمان مصنفین یہ نعرہ بلند کرنے لگے ہیں کہ:’’ چونکہ وہ Postmodernism  [مابعد دورِ جدیدیت]  عہد میںبس رہے ہیں، اس لیے تحریکات اسلامی کو بھی ایک بالکل نئی فکری بنیاد کی ضرورت ہے‘‘۔      بہ ظاہریہ بات بہت دل پسند معلوم ہوتی ہے اور اسے اور بھی معتبر بنانے کے لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی لسان /زبان میں انبیاؑ کے ذریعے اپنا پیغام اور ہدایت بھیجی۔ اس کا واضح مفہوم یہی نظرآتا ہے کہ ہر دور کے حالات کی رو شنی میں، وہ اسلوب جو اس دور میں زیادہ مؤثر ہو استعمال کیا جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر نئے دور کے لحاظ سے نبی کی دعوت بھی مختلف ہویاہر دور میں توحید ، رسالت اور آخرت کا ایک نیا تصور پیش کیا جائے ؟ قرآن نے یہ بات قیامت تک کے لیے طے کر دی ہے کہ تمام انبیا ؑکی دعوت دو نکات ہی پر مبنی تھی، اللہ کی مکمل بندگی اور طاغوت کا مکمل رداور مخالفت:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶ ) ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(مزیدملاحظہ ہو:الزمر ۳۹:۱۷)

تحریکاتِ اسلامی کی دعوت انبیا ؑ کی دعوت ہے ۔ یہ اللہ کی مکمل حاکمیت اور نظامِ عدل کے قیام کی دعوت ہے، جس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، حکمت عملی اور ترجیحات ہر دور کے لحاظ سے متعین کی جائیں گی۔جہاں تک دعوت کا تعلق ہے اسے قرآن اور سنت رسولؐ کی شکل میں مکمل کر دیا گیا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ( المائدہ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔

جیساکہ پہلے کہا گیا کہ لازمی طور پر تحریکات کی زندگی کا تعلق فکر کی تازگی کے ساتھ ہے۔ لیکن بعض افکار صدیا ںگزر جانے کے باوجود تازہ رہتے ہیں۔آج غالب گو انتقال کیے ڈیڑھ سوبرس گزر چکے ہیں۔ کیا اس کے باوجود اردو شعر و ادب کا کوئی طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ غالب کا دور گزر گیا ہے، اس لیے اب غالب کا مطالعہ کرنے کے بجاے نو آموز شعرا کے کلام پر اکتفا کیا جائے اور ادبی سفر اور ادبی نقد کا آغازصرف جدید شعرا کے کلام سے کیا جائے ؟اس تخیل کو وزن دینا تو دُور کی بات، ایسی بات کہنے والے کی عقل کو ناقص سمجھا جائے گا۔

یہاں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ فکر مودودی ہو یا فکر اقبال یا فکر امام حسن البنا اس کو مصادر کی روشنی میں سمجھ کر آگے بڑھانے کے لیے وہ زاویے اور وہ راستے تلاش کیے جائیں، جن کی طرف ان فکری قائدین نے اشارے کیے ہیں اور جن کی تفاصیل وہ بیان نہ کر سکے یا ایسے پہلو جو کسی بنا پر ان کی نگاہ سے اوجھل رہ گئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب ان کی فکر کو ہضم کر کے حکمت دعوت کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کے ارتقائی سفر کے مطالبات کی روشنی میں حل تلاش کیے جائیں۔

عصرحاضر کی حکمت عملی: بنیادی خطوط

غور سے دیکھا جائے تو مکی دور کے نمایاں پہلوؤں میں سب سے واضح پیغام توحید خالص کا تعارف ہے (سورۂ ا خلاص اور الفاتحہ توحید کا ایک جامع تصور پیش کرتی ہیں)۔ اس کے ساتھ ہی شرک کا رد اور دلیل کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت کہ اسلام جس دین کا نام ہے، وہ شرک کی کسی قسم کو برداشت نہیں کر سکتا (الکافرون میں اس سے مکمل براء ت کا اعلان کر دیاگیا۔(مزید دیکھیے: سورۂ یوسف۱۲:۴۰)

مکی معاشرے میں ’شرک‘ جس طرح سرایت کرگیا تھا، آج بالکل وہی شکل پائی جاتی ہے ۔   یہ ’شرک‘ فکر میں ، معاش میں، اخلاق میں ، معاشرت میں ، سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں رچ بس گیا تھا اور مشرکانہ معاشرہ شرک و نفاق کا اس طرح عادی ہو چکا تھا،جس طرح ایک متعفن نالے کے کنارے بسنے والے لوگ فضا کے تعفن کے عادی ہوجاتے ہیں۔

آج شرک کے روپ اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن ان سب کی خاصیت ایک ہی ہے۔ کہیں یہ سود کی شکل میں ، کہیںسیاست میں برادری اور دولت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی شکل میں، یامعاشرت میں اسلام کے دعوے کے باوجود ایسی بہت سی رسوم رواج کی شکل میں موجود ہے، جو خالصتاً ہندو ازم سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہیں ایشائی تہذیب اور معاشرت کے نام پرا پنی مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیںاور ہمارے گھر وں ، بازاروں ،اقتدار کے ایوانوں، حتیٰ کہ مذہبی حلقوں تک میں پائی جاتی ہیں۔ کسی کا خدا دولت ہے، کسی کا شہرت ، کسی کا اخلاقی اباحیت ، کسی کا عسکری قوت اور کسی کا بیرون ملک فرماں رواؤں سے ذاتی دوستی کا فخر۔

ایسے حالات میں سوچنا ہو گا کہ مکہ میںکیاحکمت عملی اختیار کی گئی تھی اورآج ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیا توحید پر ایک مدلل درس اور شرک پر ایک بھرپور تقریر یا کسی جلسے میں اعلان جہاد مسئلہ حل کرسکے گا ؟ مکی دور کا مطالعہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاںایوانِ اقتدار پر بیٹھے قریش کے سر داروں کومخاطب کیا، وہیں معاشرے کے ہر ہر طبقے کے افراد کو اقامتِ دین کی دعوت دی ۔ جہاںآپ عتبہ ، ابو طالب ، ابوجہل ، ابو سفیان ، کو براہِ راست دعوتِ دین دینے میں مصروف عمل رہے ، وہیں آپ نے حضرت بلال ، آل یاسر اورمعاشرے کے ان افراد کو، جو طبقاتی سطح پر محرومیوں کا شکار تھے، اپنی دعوت کا ہدف بنایا اور ان سے بڑے قیمتی ساتھی حاصل کیے۔

اسلام صرف ایک نظری دعوت بن کر نہیں آیا بلکہ معاشی استحصال، اخلاقی فساد اور سیاسی خلفشار کو ایک ہمہ گیر الہامی اور فطری ہدایت کے ذریعے مکہ کے محروم طبقات کی نجات کے لیے    ان کے مسائل کو حل کرنے کا عزم بھی لے کر آیا۔ مکّہ کی مذہبی، سیاسی اور معاشی مقتدرہ نے ۳۶۵بتوں کی ڈھال کی آڑ میں ہر آنے والے دن کی قسمت پہلے سے طے کررکھی تھی۔ یہاں معاشی سطح پر دولت پرستی نے آقاؤں اور غلاموں کے دو طبقات پیدا کر دیے تھے۔ (آج کے ’روشن خیال‘ زمانے میں یہ تقسیم نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور ان کی معاشی و فکری غلام اقوام میں پائی جاتی ہے)۔ مسلم دنیا اپنی معیشت، تحفظ، دفاع،تعلیم اور سیاست، غرض ہرشعبۂ حیات میں مغرب کی لادینی فکری اور علمی روایت کی اندھی تقلید میں مبتلا ہے۔ یہ ’جدید شرک‘ جوہری اعتبار سے اس شرک سے مختلف نہیں ہے،جس میں ہر خواہش کے لیے ایک بت تراش لیا گیا تھا۔ ہوش کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مکی دورِجاہلیت ہی کی ایک جدید شکل ہے ۔ اس لیے ہمیں مکی دور کی حکمتِ عملی کو سمجھ کر آج کے حالات کے لحاظ سے مناسب شکل دینی ہو گی۔

مکہ میں توحید خالص کا عملی مطالبہ یہ تھا کہ تمام جاہلی روایات سے تعلق توڑ کر صرف اللہ  رب العالمین اور اس کی نازل کرد ہ ہدایت کو معیشت ،معاشرت، سیاست ، ثقافت اور علم، قانون، غرض ہرشعبۂ حیات میں نافذو قائم کرنے کے لیے مجاہدہ کیا جائے۔یہ اقامتِ دین کا جامع تصور ہے،  جس نے مکی دورِ ظلمت کوایک تابناک دور میں میں تبدیل کر دیا  ۔ حق آگیا اور حق آنے ہی کے لیے تھا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے کے لیے ہی تھا۔(انفال ۸:۸، بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)

 اس دور کی حکمت عملی جو ہمارے ارتقائی سفر کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، مکی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ آیات آج بھی اسی طرح عملیت پسندانہ (pragmatic) سوچ اور حکمت عملی لیے ہوئے ہیں ، جس طرح اپنے نزول کے وقت تھیں ۔ قران کریم اور سنتِ مطہرہ کا ایک ایک لفظ وہ ابدیت لیے ہوئے ہے، جو کسی انسانی فکرمیں نہیں پائی جاسکتی۔ مکی دور کی یہ آیات وقت اور مقام کی قید سے بلند آج بھی تحریکات اسلامی کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 قرآن کریم عالم گیر انسانیت کے اولین مرکز ، ایک بے آب و گیاہ وادی کو قیامت تک کے لیے مرکز نگاہ بنا دینے والے شہر مکہ معظمہ کی قسم کھا کر جس حکمت عملی کا ذکرکرتاہے وہ آج بھی ہر اسلامی تحریک کے لیے کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتی ہے ۔ فرمایا گیا:

نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی، اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے، اور قسم کھاتا ہوں باپ (یعنی) آدمؑ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ کیا اس نے یہ  سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑادیا۔کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا ؟ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان   اور دوہونٹ نہیں دیے؟ اور ( نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟ مگر اس نے دشوا رگزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزارگھاٹی؟کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کوصبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ (البلد ۹۰: ۱-۱۸)

آغاز جس بات سے کیا جارہا ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہے، یعنی کیا انسان کو قوت مشاہدہ اور قوت بیان سے نہیں نوازا گیا کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور ذہن وقلب سے جو اس کا تجزیہ کرتا ہے  اس پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھا رہے، بلکہ کم از کم اپنے ہونٹوں اور زبان کا استعمال کر کے     حق وباطل میں فرق اور تمیز کرتے ہوئے نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھتے ہوئے ، حق کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہو۔ اس سفر کی دشوار گزار گھاٹی کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتا آگے بڑھتا چلا جائے۔

اقامتِ دین کی جدوجہد کی سربلندی کے لیے جن رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، ان میں ’’کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا ہے‘‘، یا ’’کسی فاقہ کش کو فاقے سے بچانے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے‘‘، یا کسی ’’قریبی یتیم رشتہ دار کو‘حالت محرومی سے نکال کر مقام قیادت تک پہنچا دینا‘‘ بھی شامل ہے ۔

جب تحریک سے وابستہ فرد یہ کرے گا تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا:’’جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور(مخلوق پر)رحم کی تلقین کی‘‘۔ یہ افراد اس سورۂ مبارکہ کی روشنی میں کامیاب ہونے والے ہیں ، دائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے ۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے (ناکام لوگ) ہیں ۔ اس سورۂ مبارکہ میں جو منشور تحریک اسلامی کو دیا گیا ہے وہ ایک لفظ میں ’خدمت خلق‘کے ذریعے خالق کی رضا کا حصول ہے ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، گردن کا چھڑوانا یا آزاد کرانا اس غلامی تک محدود نہیں ہے جو روم ، یونان ، ایران اور ہندستان میں ظہورِ اسلام سے قبل پائی جاتی تھی۔ بلاشبہہ وہ بھی اس میں شامل ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر یہ فکری غلامی ، ثقافتی غلامی ، معاشی غلامی ، سیاسی غلامی ، علمی غلامی ، غرض غلامی کی تمام اقسام کا احاطہ کرتی ہے، اور تحریکات اسلامی کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ مادیت کا دور ہو یا بادشاہتوں کا، فوجی آمریتوں کا دور ہو یا لادینی جمہوریتوں کا زمانہ، یہ غلامی ہی کی شکلیں ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی جب تک ان بتوں کی جگہ حاکمیت الٰہی کا قیام عمل میں نہیں لاتیں، اس وقت تک ان کا ارتقائی سفر صحیح سمت میں نہیں ہو گا۔ یاد رہے مکی دور کی حکمت عملی مکہ تک نہ محدود ہے اور نہ اسے اُس حد میں محدود تصور کرنا چاہیے۔ یہ مدنی دور میں بھی اتنی ہی بنیادی اور مؤثر رہے گی، جتنی مکہ میں تھی۔

 اگلی بات جو وضاحت سے بیان فرمائی گئی ہے وہ بھوکے کو کھانا کھلانے سے متعلق ہے ۔  آج دنیا کی آبادی کاایک بڑاحصہ بھوک کا شکار ہے۔ یہ بھوک اس سودی استحصالی نظام کی عطا کردہ ہے جس کی بنیاد معاشی ظلم پر ہے، جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ تحریکات اسلامی کو اس معاشی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مو جودہ نئے عالمی معاشی نظام (New Ecnomic World Order)  کی جگہ ایک اخلاقی معاشی عالمی نظام کو متعارف کرانا ہو گا ۔ جس کا آغاز محدود پیمانے پرغیر سودی قرضوں سے کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کامیابی سے نوازاہے(پاکستان میں ’الخدمت‘ اور ’اخوت‘ نامی اداروںنے اس کو کامیابی سے کیا ہے ، کچھ دیگر ادارے بھی غیر سودی بنیاد پر یہ کام کر رہے ہیں، گویا یہ محض ایک خیال نہیں ہے ایک عملی شکل ہے)۔بھوک کو دور کرنے کی ایک شکل بھوکوں کو مچھلی کھلانے کی جگہ مچھلی پکڑنے کی تربیت دینا ہے۔

 مکی دعوتی حکمت عملی میں یتیموں کا ذکر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ بہت سے قیمتی جواہر جو یتیم ہونے کے سبب کسی تاج کی زینت نہیں بن پاتے، اگر انھیں صیح تربیت مل جائے تو یہ انسانی سرمایہ معاشروں میں انقلاب پرپا کر سکتا ہے ۔

ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں جو عملی اقدامات اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے اور تحریک اسلامی کے دعوتی ارتقا ئی سفر کے دوران کیے جاسکتے ہیں،ہم نے ان میں سے صرف تین کی طرف نشان دہی کریں گے ۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید اہداف کا تعین کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ تحریکی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجوزہ عمل ہمیں مزید ایسے پہلوؤں کی طرف    لے جائے، جن کے تجزیے اور حل کے ذریعے ہم اپنی دعوت کو مزید وسعت دے سکیں اور اپنی منزل سے مزید قربت حاصل کر سکیں ۔

تعلیم کا میدان

اولاً،مستقبل کی حکمت عملی ہی میںنہیں آج کی حکمت عملی میں بھی تعلیم اور علم کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔مکہ مکرمہ میں دعوت اسلامی کے قیام اورفروغ کے لیے دار ارقم کو مرکز بنایا گیا ۔ یہ تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز تھا ۔ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر تعلیم کے شعبے میں کام کیا ہے اور تحریک سے وابستہ افراد نے بہت سے نجی ادارے بھی قائم کیے ہیں، جو ایک بھلائی کا کام ہے۔ تاہم، اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تعلیم گاہ میں (جو دار ارقم کے تاریخی کردار سے وابستہ خیال کرلی گئی ہے ،نصاب ، تعلیمی و تربیتی ماحول ، کردار سازی کے لیے نفسیاتی اور تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی حکمت عملی، اساتذہ کی ایسی تربیت کہ ان کا ہر عمل طلبہ کے لیے نمونہ ہو) کا اہتمام کیا گیا ہے؟ یا عملا ً کاروباری بنیاد ہی پر توسیع ہورہی ہے؟ کیا ان مطلوبہ مقاصد اور دعوت کا پورا شعور رکھتے ہوئے اس کا انعکاس ہورہا ہے؟ ایک تعلیمی ادارے کے نصاب، اساتذہ کے کردار، ، امتحانی معیار ، کامیابی کے تناسب اور کامیابی کی درجہ بندی میں کیا وہ تصورات موج زن ہیں؟ کیا طالب علموں کے اخلاق و کردار میں مسلسل ترقی ہورہی ہے؟ غرض یہ کہ جب تک تعلیم میں فنی مہارت اور تعمیر سیرت و کردار کو یک جا نہیں کیا جائے گا وہ انسان تیار نہیں ہو سکتے جو اسلامی انقلاب برپاکرنے کا ذریعہ بنیں۔

ترکی کی کالعدم تحریک ’حزمت‘کی حکمت عملی میں کئی سبق ہیں۔ ’حزمت‘ نے اپنے لیے ایک۳۰ سالہ منصوبہ تیار کیا، جس میں تعلیم کے ذریعے دعوت کا فروغ مقصد قرار دیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے امام بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل و تعلیمات کو ایک ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا ایک جال پورے ملک میں۳۰سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ پھیل گیا۔ ان اسکولوں سے نکلنے والے نوجوان ملک کے عام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی گئے اور بعض ان کی اپنی جامعات میں داخل ہوئے ۔ ان کو تعلیمی مشاورت کے ذریعے عدلیہ ، فوج، انتظامیہ اور کاروباری دنیا میں متعارف کروایا گیا، حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کے   فارغ طلبہ کی فیصلہ کن مقامات تک پہنچ گئی ۔ یہ کام کاروباری انداز میں نہیں بلکہ مشن اور مقصد کے ساتھ کیا گیا اور سوچ سمجھ کر علامہ سعید نورسی کے رسائل کو اس لیے استعمال کیا گیا کہ ملک کے دین دار طبقات میں ان کا خیر مقدم ہو سکے ۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ۔

یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے کہ ان کے اور طیب اردگان کے درمیان پچھلے انتخابات میں اتحاد کس طرح ہوا اور حالیہ صورت حال میں دونوں میں ٹکراؤ کیوں اور کیسے ہوا؟ پھر یہ بھی اس وقت زیر بحث نہیں کہ’حزمت‘ کو اس کی قیادت نے کن وجوہ اور کن قوتوں کی ایما پر غلط سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟اس وقت ہمارے لیے جو پہلو قابل غور ہے، وہ ان کی تعلیمی حکمت عملی میں باہمی ربط اور مواصلاتی نظام کے ذریعے حصول مقصد ہے۔ طویل المیعاد تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے آیندہ ۲۵سال میں مختلف شعبہ ہاے زندگی میں قیادت کے قابل افراد کو تعلیم و تربیت کے ایک معیاری نظام سے گزار کر تیار کیا جاسکتا ہے، جن کی سیرت و کردار پر تحریکی مزاج غالب ہو۔ فر ض کیجیے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود، وہ سیاسی ہدف جو دعوت کا ایک لازمی حصہ ہے حاصل نہ ہو سکا، جب بھی اقامتِ دین کاایک اہم ہدف، یعنی افراد کار کی تیاری ، اور ان کے ذریعے خاندان اور معاشرے پر اثرانداز ہونا تو ہاتھ سے نہیں جا سکتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے بالآخر اجتماعی تبدیلی رونما ہو کر رہے گی۔ یہ مسلسل جدوجہد تحریک کے ارتقائی سفرکو منز ل کی جانب رواںرکھے گی۔

کیا آج اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کی کوششوں کے نتیجے میں باہر کے حلقے میں نہیں، خود تحریکی حلقوں میں فرد، خاندان ، معاشی سرگرمی اور معاشرتی تبدیلی کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکے ہیں؟ تحریکی فکر کا ایک لازمی حصہ مسلسل احتساب کا عمل ہے کہ ہم اپنے اہداف سے کتنے قریب ہیں؟ اس لیے اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتو ہمیں اسے تحمل مزاجی کے ساتھ دیکھنا ہو گا اور جو کمی رہ گئی اسے دُور کرکے شعور اور جذبے سے آگے بڑھنا ہو گا ۔کسی ایک مقام پر رک جانا اور   محض ماضی کے تذکروں سے عظمتیں گنتے رہنے اور محض طاغوت کی برائیاں بیان کرتے رہنے سے پیش آمدہ مسائل حل نہیںہو سکتے۔

 تعلیمی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے، جیسا کہ اوپر صرف ایک مثال دے کر وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح تعلیمی میدان میں قومی سطح پر حکمت عملی وضع کر کے اس کے نفاذ کے لیے جدو جہد کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت وقت سے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن خود تحریک کے پاس جتنے کچھ انسانی وسائل موجود ہیں، انھیں اعلیٰ معیار پر تعلیم و تربیت کے نظام کے قیام کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ آج غیر سرکاری تعلیم ، سرکاری تعلیم سے زیادہ انقلابی نتائج دکھا سکتی ہے۔ جو ادارے خود کو تحریکی پہچان سے منسوب کرتے ہیں، اگر وہ تحریکی اہداف کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ امر تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اصلاح کی ضرورت اور اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔

تعلیمی اداروں، خصوصاً اسکول سسٹم کو دعوتی نقطۂ نظر سے غیر معمولی مرکزیت حاصل ہے۔ انھیں ایک یا دو شفٹ میں چلا کر ایک اچھی آمدن پیدا کرنا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعے طلبہ و طالبات کے والدین تک پہنچ کر، ان کی فکری تربیت ایک اہم مقصد اور ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سکول کے احاطے کو محض اسکول کے لیے نہیں، بلکہ ہر ہفتہ کسی ایسی دعوتی سرگرمی کے لیے جو نہ صرف والدین اور طلبہ بلکہ پورے معاشرے کے لیے مفید ہو، استعمال نہ کرنا کفران نعمت کے مترادف ہے۔یہ درس قرآن سے لے کر صحت کے اصو لوں پر گفتگو ، قومی دنوں پر تحریکی نقطۂ نظر سے تقریبات کے انعقاد، اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی اصلاح کے لیے مطلوب سرگرمیوں کے مرکز بن سکتے ہیں۔ یہ کام غیر سیاسی ہونا چاہیے تاکہ ہم خیال اور اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس میںشرکت کرنے میں تنگی محسوس نہ کریں، اور یوں وہ تحریک کی فکر اور دعوت کو سمجھ سکیںگے۔ اس سرگرمی کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا نہیں ہے۔ یہ با ت ذہن میں رہے کہ جس طرح پہلا دعوتی مرکز دار ارقم تھا، ایسے ہی مدینہ منورہ میں بھی دعوتی مرکز صفہ تھا اور دونوں کا ہدف فکر و عمل کو یکجا کر کے علم اور تقویٰ و احسان کے ذریعے اسلام کی مطلوب شخصیت کی تعمیر تھا۔ یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔

معاشی میدان

دوسرا اہم میدان معاشی طور پہ پریشان افراد کی خدمت ہے ۔ اس میں مائیکرو فنانس (یاچھوٹے قرضوں کی فراہمی) جس کا تذکرہ اشارتاً پہلے آچکا ہے، تحریک کی توجہ کا مستحق ہے ۔   تحریک کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جو اس شعبے کا فنی تجربہ رکھتے ہیں اور خالص اسلامی بنیادوں پر اسے چلا سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے آیندہ ۲۵سالہ حکمت عملی کے طور پر اس شعبے کو ترجیح دی جائے۔ یہ کام پورے پاکستان میں پھیلانے کے بجاے مختلف اضلاع کو متعین کر کے شروع کیا جائے اور پھر     بہ تدریج اس کے دائرے کو بڑھایا جائے لیکن فیصلے سے پہلے غیر جانب دارانہ میدانی جائزہ ضروری ہے۔

تحریکی ترجیحات میں ہمیںتعلیمی اور معاشی اداروں میں بلوچستان اور سندھ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس کے بعد پختوانخواہ پر توجہ دی جائے ، اس وقت ان دونوں مقامات پر نظریاتی خلا اپنے عروج پر ہے۔ اگر اس وقت تحریک یہ کام نہیں کرے گی تو اسے بعد میں زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

صحت کا میدان

 تیسرا شعبہ صحت کا ہے۔ اس میں مفت طبی امداد کے مراکز ، فری شفا خانے کاتصور اور ایسے طبی مراکز کا قیام ضروری ہے جو گاؤں ، قصبے اورضلعے میں تشخیص کے بعد ایک مریض کوصحیح مشورہ دے سکیں کہ مریض مقامی طور پر علاج کرائے یا کسی دوسرے مرکز میںجا کر مزید تشخیص کے بعد اس کا علاج ہو ۔ اس سلسلے میں دُور دراز مقامات کو ترجیح دی جائے۔ یہ اہم کام بآسانی ملک گیر بنیاد پر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے بھی جائزے کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ عقل یہ کہتی ہے بلوچستان کو اولین اہمیت دی جائے ، اس کے بعد سند ھ اور خبیر پختونخوا ترجیحی بنیاد پر ہو۔

 ان گزارشات میں صرف تین عملی میدانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر اس رخ پر غور کیا جائے تو کئی اور اہم شعبے ہیں، جن میں ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں پر یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ تحریکی نگارشات خصوصاً مولانا مودودی کی تحریرات میں وہی تازگی اور مطابقت (relvance) موجود ہے جو اب سے ۵۰سال پہلے تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سمجھتے ہوئے ان کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے ۔ماچھی گوٹ کے اجتماع میں مولانا محترم کی تقریر اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور آج بھی روشنی کا مینار ہے۔

آج کے حالات میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل Action Planیا حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے بانی نے جو ترجیحات مقرر کیں ، ان سے ہم میں سے اکثر حضرات واقفیت رکھتے ہیں یعنی تطہیر افکار و تعمیر افکار، صالح افراد کی تیاری ، اجتماعی اصلاح اور آخر کار نظام حکومت کی اصلاح۔ بلاشبہہ چوتھا مرحلہ بھی اہم اور فیصلہ کن ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا تحریک کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے لیکن اولین تینوں نکات بھی بے حد اہم ہیں اور چوتھے مرحلے کی کامیابی کے لیے ان پر قرار واقعی توجہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہماری خاص توجہ کی جرورت ہے یہ اس لیے بھی کہ خود بانی تحریک نے تیسرے مرحلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح  شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع ہوں۔اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اورہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں ، کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف، کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو ، کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے ہو، کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو ، کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کرے اور کوئی علم وتحقیق کے میدان میں ۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہاے کار الگ الگ ہوں مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔یہ کام صرف وعظ ہو تلقین ، نشرو اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے مثلاً یہ اصلاح کرنے والے جہاں کہیں اپنی تبلغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں وہاں انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کریں اور ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کریں ، جس کے چند اجزا یہ ہیں : بستی میں مسجدوں کی اصلاح احوال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروانا ، تعلیم بالغان کا نظام ، کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام ، لوگوں کو ظلم  و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدو جہد ، باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظان صحت کی کوشش، بستی کے یتیموں، بیواؤں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، مذہبی تعلیم کاا یسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کاانتظام ہو‘‘۔ (مسلمانوں کا ماضی ، حال ،اور مستقبل، ۱۱نومبر، ۱۹۵۱ءکراچی، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، ص ۳۳۱-۳۳۲، مطبوعہ ۱۹۹۸ء)

ہم جس ارتقائی سفر Progressive Process  سے گزر رہے ہیں ،اس میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ہم نے اس تیسرے مرحلہ کے تقاضوں کو مطلوبہ اہمیت اور توجہ دی ہے؟ کیا ا س سے قبل کے دو مراحل ضروری حد تک سر کیے جا چکے ہیں، یہ اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں میدانوں کو بیک وقت مخاطب کرنا ہو گا اور مکی اور مدنی تقسیم کی جامد تعبیر سے نکل کر ایک چومکھی جہاد کو اپنی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا ۔اس امر پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ کیااس حکمت عملی میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے ہم نے اپنی ترجیحات میں غیر مسلموں کو دعوت، ماحولیاتی مسائل ، معاشرتی مسائل ، خاندان کا تحفظ، بچوں پر ہونے والی زیادتیوں،خواتین کے جائز حقوق، معاشی و تعلیمی حیثیت سے کمزور افراد کے مسائل کا حل اور اسلام کے معاشرتی عدل کے قیام کے لیے معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اداروںکے قیام کی فکر کہاں تک کی ہے ۔ ہمارے ارتقائی سفر کے لیے ان تمام پہلو ؤں کا شعور اور ان پر ایک واضح حکمت عملی اور اس حکمت عملی کے حصول کے لیے مناسب اور مؤثر پروگرام اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

 ترجمہ: احمد حاطب صدیقی

 مغرب میںاسلام اور مسلمانوں سے علمی دل چسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مستشرقین، مؤرخین، ماہرین علوم انسانی اور ماہرین عمرانیات ڈیڑھ سو سال سے زائدمدت سے دنیا کے مختلف خطوں کے اسلامی معاشروں کے اندرونی محرکات کا فہم حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔البتہ کچھ حالیہ بلکہ نا خوش گوار واقعات نے اہل مغرب کومسلم ذہن پر ایک تازہ نظر ڈالنے   اور مسلم دُنیا میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے عمل سے اسلامی روایات کا تعلق دریافت کرنے کی ضرورت اور طلب میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔

برطانیہ اور یورپ میں ’اسلامو فوبیا‘ کے ظہور کے بعد سے اور امریکا میں ’دہشت گردی کا خبط‘ پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ریڈیکل اسلام (انقلابی اسلام)، خانہ ساز دہشت گرد،مسلم بنیاد پرست، قدامت پسند سلفی اورجہادیوں جیسے موضوعات پر تصنیفات کا ایک سیلاب اُمڈ آیاہے۔ اس امر کی حقیقی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نہ صرف مسلم دنیاکی تازہ ترین تبدیلیوں پر، بلکہ اسلام اور سیاست، اسلام اور خواتین اور اسلام اور سماجی تغیرات وغیرہ کے باہمی تعلق پر بھی علمی، معروضی اور مستند مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے کام کیا جائے۔

 دو جلدوں پر مشتمل زیر نظر تحقیقی کام’اسلام اور سیاست‘ جس میں ۴۱۲ مقالات ہیں، اس ضرورت کی تکمیل کی طرف ایک سنجیدہ کوشش ہے۔اس میں ۲۰۰ سے زائدمقالات نئے ہیں،جب کہ بقیہ تمام مقالات اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف دی اسلامک ورلڈ ۲۰۰۹ء (مدیر:جان ایل ایسپوزیٹو) سے ماخوذ ہیں، جن پر مزید تنقیح کرکے انکی ترتیب نو کی گئی ہے۔مدیر اعلیٰ عماد الدین شاہین نے تمام معلومات کو جس پُرمعنی انداز سے باہم مربوط کرنے کابھاری بھرکم اور کٹھن کام کیا ہے اس پر  وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔

مضمون نگاروں میں مغربی اور مسلم دُنیا کے معروف محققین شامل ہیں۔اس قسم کے منصوبوں میں جس بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایسے صاحبِ علم کو تلاش کیا جائے جو مطلوبہ معلومات تک راست رسائی رکھتا ہو۔ مستشرقین کا ایک بڑا کمال یہ رہاہے کہ وہ اپنے زیرتحقیق افراد کی زبان و تہذیب کا علم رکھتے تھے۔ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں پر کیے جانے والے جدید علمی کاموں میں بالعموم اس بنیادی شرط کا فقدان پایا جاتاہے۔حتیٰ کہ اِس قابل توجہ کاوش میں بھی بیش تر انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں ہی کے مآخذ پرانحصار کیا گیا ہے۔ صرف چند مصنّفین نے اُردو، عربی، فارسی،ملائی، انڈونیشی، ترکی، سواحلی اور مسلم دنیا کی دیگر زبانوں میں پائے جانے والے اصل مآخذ پر نظر ڈالی ہے۔ یہ پہلوخاص توجہ کا مستحق ہے۔ اِس مفید کام کی آیندہ طباعتوں کی تیاری کے وقت،اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

موضوعات کا تنوع باعث دل چسپی ہے اورنظریات کے وسیع سلسلے کا احاطہ کرتاہے۔   چند روایتی موضوعات، مثلاً خلافت، فقہ، اُصولِ فقہ، اجتہاد اورمتعدد جدید مسائل، جیسے اقتدار اور قانونی جواز، آئین اور اُصولِ آئین،تعلیم، حکمرانی،علم کی اسلامی تشکیل اور القاعدہ جیسے موضوعات پر ان دونوں جلدوں میں پیش کیا جانے والا تحقیقی کام اہلِ مغرب کے لیے ایک حوالہ بن گیا ہے، اور اس کا مطالعہ اسلام اور موجودہ اسلامی دنیا کا علم حاصل کرنے والے ہر مغربی طالب علم کے لیے مفید ہے۔ گو، مضامین عموماً اسلام اور سیاست ہی کے گرد گھومتے ہیں۔

انسانی کوشش ہونے کے سبب ہرانسانی کام کی طرح اس تحقیقی کام میں بھی مزید بہتری اورتازہ ترین معلومات شامل کرنے کی گنجایش موجود ہے۔ بے شمار اعلیٰ درجے کی تصنیفات میں بھی تحقیقِ مزیدکا دریچہ کھلا رکھا جاتا رہا ہے۔ چناں چہ چند ایسے گوشے نشان دہی کے لایق ہیں، جن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہٗ(م: ۶۳۴ئ) پر مضمون میں’رِدّہ‘(ارتداد) کو ’سیاسی بغاوت‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے (جلد:۱، ص:۱۶)۔ لفظ’رِدّہ‘ایک دینی اصطلاح ہے، سیاسی نہیں۔اس کا سادہ مطلب ہے مرتد ہو جانا،یعنی کچھ قبائل کی طرف سے اسلام کے پانچ  بنیادی عقاید میں سے ایک کا انکار کر دینا۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردینا جو فرض ہے، اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون اور عبادت ہے۔ عبادت کو مسئلہ کہنا نفس مضمون سے گمراہ کن حد تک ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔

احمدیت پر مضمون اگرچہ خوش اسلوبی سے لکھا گیا ہے، مگر نقائص اور سنگین اغلاط نے اس کا ناس مار دیا ہے۔مصنف کی یہ حجت کہ یہ معاملہ …’احمدیت اور سوادِ اعظم کے سنی اسلام کے مابین تنازع‘ … تھا، یا …’مذہبی مقتدرین سے تنازع‘… تھا(ص ۵۰-۵۱)۔ یا علماے دین سے تنازع تھا___ حقیقی صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔

 یہ بھی درست نہیں کہ …’’تنازع میں اشتعال انگیزی اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ علما نے احمدیت کی مخالفت میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلّم] کے ناموس کے جذباتی مسئلے پر ساری توجہ مرکوز کردی‘‘(ص۵۱)۔مزید برآں یہ تبصرہ بھی گمراہ کن اور بعید از حقیقت ہے کہ …’’احمدیت اُن علما سے تصادُم پر مجبور تھی، جو محسوس کرنے لگے تھے کہ اسلام کے متولی کی حیثیت سے اوراسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کے شارح و ترجمان کی حیثیت سے انھیں جو مقام اور منصب حاصل ہے اُس کی جڑیں کھودی جارہی ہیں‘‘-(ص۵۱)

حقیقت میںتنازع احمدیت اور ’سنی سوادِ اعظم کے اسلام‘ میں نہیں ہے، جیسا کہ خیال ظاہر کیا گیا ہے۔احمدیت کو اسلام کے تمام مکاتب فکر شیعہ، سنی ، سلفی، ہر ایک دائرۂ اسلام سے خارج تسلیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت کے معاملے میں احمدیوںکا ایسامؤقف ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مسلم علما اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔    دعواے نبوت کرنے والا ، خواہ اس کے دعوے کی کوئی بھی شکل ہواور ایسے کسی شخص کے دعوے کی تصدیق کرنے والا،خواہ وہ کوئی بھی ہو، خود بخود دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اس مسئلے کا تعلق نہ کبھی علماکے کردار سے رہا ہے، نہ اس میں کسی ایک آیت یا کسی حکم کی تعبیر و تشریح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ موقف مسلم اُمہ کا غیر مبہم اجماعی مؤقف ہے اور متفق علیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی  ۱۰۰فی صد مسلم آبادی احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔

اپنے طور پر وہ جو بھی تعبیر پیش کرتے ہوںاس سے سنیوں یا شیعوں کی قانونی تعبیر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید اس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے کہ خود احمدی اُس ۱۰۰فی صدمسلم آبادی کے متعلق، جو دنیا بھر میں ۶ئ۱؍ارب سے زائد ہے، کیا نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں؟احمدیت کے حقیقی نمایندے، یعنی اُن کے خلیفہ سے پاکستان کی پارلیمان میں سوال کیا گیا کہ احمدیوں کے نزدیک غیر احمدی کیا ہیں؟ اُس کا جواب بڑا سادہ ساتھا: ’غیر مسلم‘۔ بہ الفاظ دیگر احمدیوں کو اسلام کا ایک ’فرقہ‘ کہنا  اس لیے مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ دنیا کی پوری غیر احمدی آبادی کو جس میں دنیاکے تمام مسلمان شامل ہیں’غیر مسلم‘ گردانتے ہیں۔احمدیوں کے نزدیک پوری مسلم اُمہ ہی ’غیر مسلم‘ ہے۔انھیں امت مسلمہ کا ایک ’فرقہ‘ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟

یہ بات بھی صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ علما کی بالادستی کبھی اصل مسئلہ نہیں رہی ۔ یہ بنیادی مسئلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت پر ایمان کا مسئلہ ہے اور اصل تنازع مرزا غلام احمد کا یہ باطل دعویٰ ہے کہ وہ مسیح ہے، مصلح ہے اور غیر قانون ساز (غیر تشریعی) نبی ہے، جس کی بنا پر   مرزا نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان دو بنیادی مختلف فیہ عقاید کے سبب دنیا بھر کے تمام شیعہ اور سنی علما نے احمدیت کو ایک نیا مذہب قراردیا جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

دیوبند تحریک پر مضمون (جلد اوّل، ص:۲۶۱-۲۶۴) میں اس تعلیمی تحریک اور مسلک کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے …’’برصغیر کے علما کے مسالک میں سے ایک بڑا مسلک جو دیگر فرقہ وارانہ مسالک شیعہ، احمدی،جماعت اسلامی،علی گڑھ اوردوسرے معتدل حریف سنی گروہوں، مثلاً بریلوی (اہل سنت و الجماعت) اور اہل حدیث سمیت متعدد مسالک کی صف میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے‘‘ (ص:۲۶۲)۔یہاں ’مسلکی تقسیم‘ کی اصطلاح نے بات کو الجھا دیا ہے اور مسالک اور غیراسلام میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیںجو اپنے آپ کو’فرقہ‘ قرار دیتے ہیں نہ انھیں ’فرقہ‘ کہا جاسکتا ہے۔علی گڑھ سے مراد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے جو ایک تعلیمی ادارہ ہے، مسلک نہیں۔جماعت اسلامی ایک سماجی-سیاسی تحریکِ احیاے دین ہے۔ اس  میں شمولیت کے دروازے تمام مسالک پرکھلے ہوئے ہیں اوراس کے ارکان میں مختلف مسالک کے لوگ شامل ہیں۔یہ جماعت کسی خاص مسلک سے وابستہ ہے نہ اس کا اپنا کوئی فقہی مسلک ہے۔دوسری طرف احمدیت کوئی مسلک یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک مذہب ہے جس کا اپنا الگ پیغمبر ہے اور اس کے الگ پیروکار ہیںجو اسے ایک علاحدہ مذہب اور ایک جداگانہ اُمت بناتے ہیں۔یہ غلط مبحث مقالات کے علمی مقام کو بہت گرا دیتا ہے۔

جماعت اسلامی پر مضمون (جلد اوّل، ص۶۲۷- ۶۲۹) میں اس جماعت کی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، مصنف نے کسی ایک بھی اصل اُردو ماخذ کا حوالہ نہیں دیا۔ مزیدبرآںمصنف کے کچھ بیانات متضاد ہیںاور کچھ بے بنیاد۔مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ: ’’پاکستانی حکام نے جماعت پر بھارت نواز جذبات رکھنے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا‘‘(ص۶۲۷)۔ ایک نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اشاعتی مرکز سے طبع ہونے والے دائرۃ المعارف میں یہ بے بنیاد الزام، اور ایک نیک نام تحریک کو بدنام کرنے والے غیر مصدقہ بیان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں اپنی ابتدا ہی سے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر کام کر رہی ہے اوراس نے برطانوی حکومت کے دور میں سیاست میں حصہ نہیں لیا۔پاکستان میں جب ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر لی گئی تو جماعت نے ایک دینی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی تنظیم نو کی، فرقہ وارانہ فکر سے اس کی وابستگی کبھی نہیں رہی۔ برعظیم پاک و ہند کے باقی حصوں میں جماعت اسلامی کے نام سے چار قطعاً آزاد جماعتیں بھارت، بنگلہ دیش،نیپال اور  سری لنکا میں کام کر رہی ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ دستور ہے، علاحدہ قیادت ہے، اور جداگانہ نظریاتی، سماجی اور معاشی لائحہ عمل ہے۔

لشکر جہاد پر مضمون(جلد دوم، ص ۱)ہمیں قیمتی معلومات فراہم کرتاہے، اگرچہ درست املا Laskar Jihad نہیں Lashkar-i-Jihad  ہے۔ مصنف اس کے بانی جعفر عمر طالب کے حوالے سے کہتا ہے:’’اس کی تعلیم سلفی/ وہابی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے میں ہوئی ۔پھراس نے سید مودودی انسٹیٹیوٹ لاہور، پاکستان جاکراپنی تعلیم جاری رکھی جہاں سلفی فکر سے اُس کی وابستگی برقرار رہی‘‘(جلد دوم، ص ۱)۔مضمون نگار نے ان دو متضاد باتوں کو خلط ملط کرکے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سنگین غلطی کی ہے۔ سلفی مکتبۂ فکرمحمد بن عبدالوہاب کے افکار پر مبنی ایک مذہبی اور عملی تشکیل ہے۔سید مودودی انسٹی ٹیوٹ، لاہور کا کسی طرح سے بھی اس مکتبۂ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے نتھی کرنا بالکل گمراہ کن ہے۔

ایک اور سازشی قسم کا تضاد مولانا مودودی پر مضمون (جلد دوم، ص:۴۳-۴۷) میں پایا جاتا ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’مودودی کا مجددانہ مؤقف جامد فرقہ واریت تھا۔ مسلمانوں کے حقوق پر زور دیتا تھا،ان کی سلامتی اور ترقی کے لیے لائحہ عمل تجویز کرتا تھا، اوراسلام کو خالص رکھنے کے مفاد میں ہندوؤں سے ہرقسم کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی تعلقات کے مقاطعہ کا مطالبہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ تہذیبی وطن کی وکالت بھی وہ بہت بڑھ چڑھ کر کرتا رہا‘‘۔(جلد دوم،ص۴۵، خط کشیدگی از مبصر)

اس بیان کے بعد اسی مضمون میںاس امر کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ:’’جلد ہی اُسے ریاست کے دشمن کی حیثیت سے شناخت کر لیا گیا۔ اُس پر پاکستان کی مخالفت کرنے کا اوربھارت کا تخریبی آلۂ کار ہونے کا الزام لگایا گیا‘‘(جلد دوم، ص ۴۶)۔ یہاں مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو خطرناک حدتک الجھاکر اورسراسر غلط پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس نظریے کی تشریح کی تھی کہ مسلمان اپنے عقیدے، اپنے دین اور اپنی ثقافت کی بنیاد پرایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔علاحدہ وطن کا سوال اسی دینی اور ثقافتی شناخت کے تناظر میں اُٹھا تھاتاکہ ہندستان کے اُن خطوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں سیاسی اقتدار حاصل ہو سکے۔ہندوؤں کے ساتھ سماجی و سیاسی تعلقات کا سوال اصل مسئلہ ہی نہیں تھا،کیوں کہ یہ دونوں فریق بڑے دوستانہ اور  پُرامن طریقے سے ایک ہزار سال تک مسلم دورِ حکمرانی میں دو جداگانہ تہذیبی دھاروں کی حیثیت سے ساتھ رہ چکے تھے، اور توقع تھی کہ دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے بھی پُرامن بقاے باہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ساتھ رہیں گے۔ بدقسمتی سے مصنف اصل صورتِ حال کو اس کے درست ، نظریاتی اور تاریخی پس منظرمیں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس مضمون کے تضادات کو دیکھ کر اس کا قاری الجھ کر رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت کو بھی درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک دینی تحریک ہونے کے سبب سیاسی جماعت ہے۔ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی نمایندگی ہے اوراس کے ارکان وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم وزارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔

پاکستان پر مضمون (جلد دوم، ص: ۲۲۵-۲۳۲) میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۹ء تک پاکستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔تاہم، یہ موضوع مزید عمیق تجزیہ پیش کرنے کا متقاضی تھا۔اس میں اُن اسباب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی، جنھوں نے برعظیم کے مسلمانوں کو اقبال اور قائد اعظم کے تصورات سے تحریک حاصل کرکے قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔پاکستان کی انفرادیت اس دعوے میں مضمر ہے کہ یہ ملک ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، جس نے قومیت کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور قومیت کی بنیاد دین اور ملت اسلامیہ کے تصور پر ہے ،یہ محض کسی خطۂ ارضی پر نہیں بلکہ نظریے اور اجتماعیت پر،رنگ، نسل،اور زبان کا امتیاز کیے بغیر تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر ہے۔

پاکستان میں رہنے والے چھوٹے فرقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے اسماعیلیوں کا ذکر کیا ہے… ’جو اثناعشری فرقے کا ایک ذیلی فرقہ ہیں‘ (جلد دوم، ص:۲۲۵)۔ان معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اسماعیلی اپنا روحانی تعلق امام جعفر کے بعد امام اسماعیل سے جوڑتے ہیں،جب کہ ۱۲؍ اماموں کو ماننے والے یا اثناعشری یہ پختہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام موسیٰ الکاظم    بن جعفر الصادق امامت کے جائز حق دار ہیںاور اُن کی پیروی اُس وقت تک کی جاتی رہے گی جب تک کہ بارھویں امام محمد (قائم آلِ محمدؐ) کا انتظار باقی ہے۔ (دیکھیے: محمد بن عبدالکریم شہرستانی، کتاب الملل و النحل، ترجمہ:A.K.  Kazi and J.G. Flynn, London, Kegan Paul International, 1984, pp.144-145)۔ اسماعیلی اور اثناعشری دو علاحدہ وجود ہیں اور  اوّل الذکرکواثنا عشریوں کا ذیلی فرقہ نہیں کہا جاسکتا۔

دو جلدوں پر مشتمل یہ تحقیقی کام مسلم دنیا پر عصری محققین کے سیاسی جائزوں پر مبنی معلومات کا  ایک ذخیرہ ہے لیکن واضح طور پر مضامین مغربی زاویۂ نظر کی نمایندگی کرتے ہیں ۔مصنّفین نے بیش تر مغربی ذرائع علم پر بھروسا کیا ہے،جب کہ ان موضوعات پر عربی ،فارسی، ترکی،اُردو اور دیگر مسلم زبانوں میں اعلیٰ تصنیفات موجود ہیں۔

(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلام اینڈ پالیٹکس، مدیر اعلیٰ: عماد الدین شاہین۔ ناشر: اوکسفرڈ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۴ئ۔ صفحات: جلد اوّل: ۷۱۴،جلد دوم:۶۹۵۔)

اسلام کے نظامِ عبادت کا بنیادی مقصد بندے اور رب کے تعلق کو مستحکم کرنا اور للہیت پر مبنی اجتماعیت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ عبادات بھی جو انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں، ان کی روح بھی اجتماعیت ہی میں ہے۔ حج کو چھوڑتے ہوئے، کیوںکہ وہ تو ہوتا ہی اجتماعی سطح پر ہے نماز روزہ اور زکوٰۃ اجتماعیت اور للہیت پیدا کرنے کے عملی ذرائع ہیں۔ رمضان الکریم ہر سال اہل ایمان کو ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مستحکم کریں، بلکہ اللہ کے بندوں کو روزہ افطار کراکے ، اللہ کے بندوں کو لباس پہنا کر، اور اللہ کے بندوں پر سے کام کی مشقت کم کرکے رب کی قربت حاصل کر لیں۔

رمضان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت رحمت کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنی فیاضی اور کرم سے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اپنے لیے کیے گئے اس عمل کو قبول فرما کر اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کا بندوبست کر دیتا ہے۔ یہ کرم بالاے کرم ہی تو ہے جسے ایک حدیث میں رحمت کے اس بادل سے تعبیر کیا گیا ہے جو مومن بندوں پر رمضان میں سایہ فگن ہوتا ہے اور اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں کی عبادت کے مثل ہو جاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی عام دنوں کے مقابلے میں ستّر گنا بلکہ سات سو گنا اجر کا سبب بن جاتی ہے۔

اس مہینے کا اول عشرہ رحمت، وسط کا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کا سامان کرتا ہے۔اگر اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ عمدہ لذیذ کھانوں سے نہیں،محض دودھ کے ایک گلاس یا ایک کھجور سے افطار کرا دیا جائے اور پیٹ بھر کھانا کھلا دیا جائے تو رب کریم اپنے بندے کو حوضِ کوثر سے پانی پلوانے کا وعدہ فرماتا ہے جس کے بعد اس خوش نصیب کو میدانِ حشر میں بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔

یہ مہینہ ایمان کی بہار اور انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کی تربیت گاہ ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا علم صرف بندے اور رب کریم کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو جسمانی طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن روزہ جس طرز عمل کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی کیفیت اور قوت کا اظہار کرتا ہے روزہ دار کی گفتگو ہو یا معاملات میں طرزِعمل، روزہ کے دوران باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و فضیلت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے، اس کا حق  ادا کرنے، اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی کوشش کی جانی چاہیے۔

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان عموماً دن میں پانچ مرتبہ قرآنِ کریم کی پُراز حکمت آیات کی تلاوت سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی مختصر سورہ کی شکل میں کرتا ہے لیکن غوروفکر کی عادت سے محرومی کے سبب ان آیات کے انتہائی واضح مفہوم پر غور کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کا یادداشت یا کتابِ عزیز کو سامنے رکھ کر پڑھنا بلاشبہہ اجروثواب کا کام ہے لیکن کیا قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم ترین ہدایت نامے کے بارے میں کہیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے صرف اجروثواب کے لیے نازل کیا گیا ہے یا بار بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کلام پر غور، فکر، تدبر، تعقل، تحقیق اور تفقہ کی دعوت دیتے ہیں۔

ہم اکثر اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ کہتے تو ہیں کہ اس کا سبب قرآنِ کریم سے دُوری ہے۔ لیکن کیا بیماری کا سبب جاننے کے بعد نسخہ اور مشکلات کا حل کرنے والی چابی کی طرف متوجہ ہوکر مرض کے علاج اور شفا کے لیے اس اکسیر کا استعمال کرنے کے لیے اپنے وقت میں سے کوئی حصہ نکالتے ہیں؟

ایمان کی کسوٹی

انسانی تاریخ میں آج تک مسائل و مشکلات کا حل نہ خواہشات سے ہوا ہے نہ محض اُمید سے۔ عملی اقدامات کے بغیر کسی بھی مسئلے کا حل نہ عقل مان سکتی ہے اور نہ تجربہ۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف حکمت و دانائی سے لبریز ہے اور بغیر اس کی فلسفیانہ تعبیرات کے، صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے معانی پر غور ہمارے مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتا ہے۔

تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ربِ کریم نے محض ایک کلمے میں ہمارے طرزِعمل، معاملات، ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کی طرف نشان دہی فرما دی ہے۔ سورئہ نساء میں ایک آیت پر اگر غور کیا جائے تو اس میں انسانیت کا پورا منشور رقم کر دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ٰامِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا o(النساء ۴:۱۳۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر اور اُس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔

اہلِ ایمان کو ’اے ایمان والو‘ کہنے کے بعد یہ فرمانا کہ ’ایمان لائو‘ ہر صاحب ِ فہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض ایک ادبی اسلوب ہے یا ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں دوبارہ ایمان لانے پر متوجہ کرنے کا مفہوم کچھ اور ہے؟آیت ِ مبارکہ کابقیہ حصہ اُس ایمان کی وضاحت کرتا ہے جو ہم ہرمسلمان بچے، جوان اور معمر فرد کو زبانی یاد کراتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر نازل کردہ اس کتاب، اور ہر اُس کتاب پر جو آپ کی شریعت سے پہلے نازل کی گئی، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ایمان ہے۔ اور جو اس کا منکر ہے وہ گمراہ ہے جسے ہدایت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کی طرف لانے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈال دی گئی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو ارشاد ربانی کہ ’ایمان لائو‘ کی وضاحت خود کلامِ عزیز تفصیل کے ساتھ ہرصفحۂ کتاب پر کرتا ہے تاکہ ایمان کسی مخفی کیفیت تک محدود تصور نہ کیا جائے ،بلکہ ایمان کا واضح اظہار طرزِعمل (behaviour) اور قابلِ محسوس رویے میں ہو، اور جسے انسانی نگاہ اور ذہن عقلی پیمانوں کے ذریعے پیمایش کرکے اور ناپ تول کر یہ طے کرسکے کہ ایمان، ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا تنزل کی طرف جارہا ہے۔ ایک حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب کوئی مومن کسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل میں کم سے کم تر ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔

گویا جدید علوم انتظامی میں جس چیز کو کارکردگی کے قابلِ پیمایش پیمانے KPI (Key Performance Indicators) کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہیKPI بھی بیان کردیا جاتا ہے، تاکہ ایمان ایک طرزِعمل کی شکل اختیار کرجائے اور ایک مخفی کیفیت تک محدود نہ رہے۔

کاملیت و جامعیت

اس پس منظر میں پہلا پیمانہ یا KPI دین کو جامع نظامِ حیات ماننا ہے۔ اس صداقت پر یقین کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص زندگی کے کاروبار میں روایتی تقسیم کرتا ہے یا توحید ِ خالص اور اطاعت ِ رسولؐ کی بنا پر اپنے ذاتی، گھریلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور دفاعی، تعلیمی معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بناتا ہے۔ اگر اس کا ایمان تو اللہ اور رسولؐ پر ہے لیکن اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار اس کی برادری یا حلقۂ احباب کا کسی کام کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یا دوستوں یا اہلِ خانہ کا عبد یا بندہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنی پارٹی (حزب) کو اپنا خدا    بنالیتا ہے۔ اگرچہ وہ کلمۂ شہادت  پڑھ کر اعلان تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا لیکن اس کی اَنا، نفس، ذاتی مفاد، اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہیں تو وہ ایمان لانے کے باوجود ایمان نہیں لایا۔ خاتم النیینؐ نے اس عملی صورتِ حال کو، جو ہم میں سے ہر فرد کو دن میں بارہا پیش آتی ہے، اپنے ایک قولِ بلیغ میں یوں ارشاد فرما دیا:

مَن اَحبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاعْطٰی لِلّٰہِ  وَمَنَعَ  لِلّٰہِ  فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (بخاری، عن ابوامامہؓ) جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا ، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

گویا ایمان کوئی غیرمرئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا احساس و اظہار طرزِعمل میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی اصطلاحات ایمان، فسق، نفاق، کفر اور ظلم طرزِعمل پر مبنی اصطلاحات ہیں۔ یہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے آزاد واضح اور آسان خطوط پر مبنی ہیں۔

جو شخص روایتی تقسیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بعض معاملات ’دینی‘ ہیں اور بعض ’دنیاوی‘ ہیں، وہ دین کی کاملیت اور جامعیت کا عملاً انکار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ دین محض نماز اور روزے کا اہتمام کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے، جب کہ اس کی پسند و ناپسند کا پیمانہ کبھی مغرب، کبھی مشرق، کبھی اپنا نفس، کبھی اس کی جماعت اور پارٹی ہو اور کبھی برادری اور معاشرے کا خوف ہو۔  یہ وہ پہلا پیمانہ ہے جو ہمیں آئینے میں اپنا صحیح چہرہ دکھا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک صاحب ِ ایمان ہونے کے باوجود حاملِ ایمان ہیں اور ہمارا عمل کس بات کی شہادت دے رہا ہے۔

اس تمام تفصیل کو کلامِ عزیز نے محض ایک آیت ِ مبارکہ میں یوں بیان فرما دیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے اس مرکزی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (التوبہ ۹:۲۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ   ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔

صداقت

دوسر ا اہم پیمانہ کسی فرد کا ایمان لانے کے بعد صداقت، سچائی اور بھلائی اور خیر کا بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی زندگی کے معاملات میں رائج کرنا ہے۔ یہ صداقت اور سچائی محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص جب بات کرتا ہے تو وہ سیدھی ، سچی اور کھری ہو، یا اس میں کوئی لگاوٹ،  اخفا یا ذومعنی الفاظ کا استعمال یا کسی حیلہ کا استعمال کیا جا رہا ہو، بلکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب بات کی جائے تو خیرخواہی کی ہو۔ اس میں اپنے بھائی کو چکّر دینے اور اپنے فائدے کے لیے اسے صرف اتنی بات بتانا جس سے خود اپنا فائدہ اُٹھایا جاسکے یا پورے حقائق، اور پورے حق کا اظہار نہ کرنا بھی شامل ہے۔

قرآنِ کریم اس رویے اور طرزِعمل کو قولاً سدیداً سے تعبیر کرتا ہے۔ قولِ حق و صداقت کا تعلق محض ایک سیدھی بات کہہ دینے سے نہیں ہے بلکہ حق کو پہچاننا اور باطل، ظلم، طاغوت کے ساتھ فرق کو سمجھنا، مداہنت سے بچنا اور اپنے ذاتی فائدے سے بلند ہوکر حق کا ساتھ دینا ہے۔   اسی پہلو کو قرآنِ عظیم نے یوں واضح فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۹)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔

سچ اور صداقت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ باطل اور ناحق کو ہاتھ اور زبان سے دُور کرنا اور حق و صداقت کو بغیر کسی ملاوٹ کے مشکل ترین حالات میں حکمت دین کے ساتھ واضح کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس کے بغیر کارِ نبوت مکمل نہیں ہوتا۔ ابھی نزولِ وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن صاحب ِ قرآن کے طرزِعمل اور رویے نے اہلِ مکہ کو آپؐ کی صداقت اور سچائی اور امانت کے برملا اقرار پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آپؐ  کو سچا اور صادق ماننے کے باوجود اپنے عملی تضاد کی بنا پر آپؐ کے لائے ہوئے حق اور صداقت کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔

اکیسویں صدی کے تناظر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مغرب ہو یا مشرق، انسان کے خودساختہ نظام انسانیت کو فلاح، سعادت اور سکون دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق تک قولِ حق اور قولِ سدید کو پہنچانے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوچکی ہے۔ اب یہ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کو بغیر کسی مداہنت اور قولِ حق کو بغیر کسی مفاہمت کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حکمت ِ دعوت کے ساتھ تمام موجود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ کام کرتے ہوئے ایمان کے ایک اور مطالبے، یعنی ربِ کریم کی حمد، شکر اور ذکر کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرے۔

للہیت اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محض اپنی عددی طاقت پر بھروسا، عوامی مقبولیت اور عوامی نعروں پر اعتماد ایک ناپایدار تصور ہے۔  دعوتِ دین اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ یہاں ۱۰ تربیت یافتہ ، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے کارکن اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ باطل کی قوت کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ (اے نبیؐ) مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے‘‘ (انفال ۸:۶۵)۔ قرآنی تصورِ قوت ایک نرالا تصور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ پہلے ۶۰لاکھ لوگ جمع کرو، تب تم street power بن کر انقلاب لائو گے، بلکہ وہ واضح طور پر کم تعداد میں وہ قوت مجتمع کردیتا ہے جو بڑے بڑے طوفانوں اور کفر کے سیلاب کو اپنی قوتِ ایمانی سے انگیز کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کفروظلم کی کثیرطاقت پر کامیابی حاصل کرسکے۔ بدر کا معرکہ ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔

یہاں مطالبہ تزکیۂ نفس کا، قرآن سے تعلق کا، سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگ جانے کا ہے۔ یہاں صبرواستقامت پر اُبھارا جا رہا ہے۔ صابرون  سے مراد وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں جو ہرمیدان میں ایمانی بصیرت کے ساتھ مہارت رکھتے ہوں۔ وہ میدان معیشت کا ہو، تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو یا فکر کا ہو یا عسکری جہاد، یہ صابرون ان تمام شعبوں میں قیادت کی صلاحیت کے ساتھ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے جب اس کی راہ میں نکلتے ہیں تو پھر راستے کی رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے ایمان کو ناپنے کا ایک پیمانہ اللہ کی یاد، ذکر اور تذکرہ ہے جو قلت تعداد کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت کو لرزہ براندام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo

(احزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان لانے والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

اللہ کا ذکر اپنی مکمل شکل میں نماز میں پایا جاتا ہے۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۵)’’اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی‘‘۔ لیکن یہ ذکر اور یاددہانی محض صلوٰۃ فجر اور عشاء تک محدود نہیں۔ ایک مومن کا ہرلمحہ، ہر سانس، ہرعمل بندگیِ رب میں کیا جا رہا ہو تو اس کا ہرعمل عبادت اور ذکر شمار کیا جاتا ہے اور ارحم الراحمین مزید فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی خامیوں اور کمزوریوں کو قوتوں اور حسنات سے بدل دیتا ہے۔

تزکیہ نفس

ایمان کی کیفیت کا تیسرا پیمانہ یا KPIایک فرد کا مسلسل تزکیہ میں مصروف رہنا ہے۔ تزکیہ ایام بیض کے روزوں یا قیام لیل تک محدود نہیں ہے۔ اس کا پہلا میدان گھر اور خاندان ہے کہ ایک فرد کہاں تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کررہا ہے جو محبت، ہمدردی اور نصیحت کا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے جو روزی کما رہا ہے، وہ حلال ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔  وہ اپنے گھر والوں پر جو خرچ کر رہا ہے، اس میں کہاں تک اعتدال ہے، وہ اسراف سے کتنا محفوظ ہے۔ وہ اپنے والدین اپنے اقربا اور اپنے احباب کے حقوق کس حد تک ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام اعمال ایمان کے پیمانے ہیں۔ ایک حدیث صلہ رحمی کے حوالے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اقربا کی طرف سے ناشکرگزاری کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ فرد کا تزکیہ اس کے مال کا بھی ہے، صلاحیت کا بھی، وقت کا بھی اور سنن اور نوافل کے اہتمام کا بھی۔ تزکیہ بھلائی اور خیر کے مسلسل بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ ایک جامع ذاتی ترقی کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں شخصیت و کردار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

جادۂ عدل

چوتھا پیمانہ جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد کا طرزِعمل ایمان کا پتا دیتا یا تقویٰ سے دُوری کی نشان دہی کرتا ہے، جادئہ عدل کو اختیار کرنا ہے۔عدل قرآنِ کریم کی بنیادی اصطلاحات میں سے ایک اہم تعلیم اور اصول ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم وہ ہے جو ہم میں سے ہرایک بخوبی جانتا ہے، یعنی کسی تعصب، لاگ لپیٹ، ذاتی پسند ناپسند، نفرت یا محبت، قبائلی نسبت، خونی اور خاندانی تعلق، نظریاتی اتحاد، غرض ہر تعلق سے آزاد ہوکر اللہ کی خاطر، سچائی اور حق کی گواہی دیتے ہوئے ایک مشرک کے ساتھ بھی عدل کا رویّہ اختیار کرنا۔ اسی کا نام تقویٰ اور اسی کا نام توحید ہے۔

عدل کا مطالبہ ہے کہ تمام مراسمِ عبودیت ، اطاعت ، فرماں برداری، محبت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اس میں کسی کو شریک کرلیا گیا تو اسی کا نام ظلم عظیم، یعنی شرک ہے۔ بالکل اسی طرح کسی گروہ کی دشمنی یا دوستی سے بلند ہوکر شہادتِ حق دیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا جو عدل کا مطالبہ ہو تقویٰ ہے۔ گویا عادلانہ رویہ وہ پیمانہ یا KPIہے جو یہ بتلاتا ہے کہ ایک شخص ایمان اور تقویٰ سے کتنا قریب ہے۔ یہاں بھی ایمان کسی مخفی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک واضح طرزِعمل اور قابلِ محسوس رویّہ ہے جیسے ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن بغیر کسی الجھائو کے محسوس کرسکتا ہے۔ ایمان کے اس پہلو کو کتابِ حکمت و رُشد و ہدایت یوں بیان کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط

اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(المائدہ ۵:۸) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی  تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

یہاں تحریکی کارکنوں کے لیے اہم دعوتی پہلو واضح کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی یا مخالفت مستقل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہر مشرک، فاسق اور ظالم ایک ممکنہ مومن ہے۔ فرعون کی فرعونیت کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ سے فرمایا گیا کہ تم دونوں جائو اور اسے نرم اور دل نشین انداز میں دعوتِ حق دو شاید وہ بھلائی کی طرف آمادہ ہوجائے۔ گویا سیاسی مخالفین ہوں یا نظریاتی دشمن، اُن تک دعوت کا پہنچانا ہر تحریکی کارکن کا ہدف ہونا چاہیے۔

نظم و اطاعت

ایمان کے وجود اور قوتِ ایمانی کا ایک پیمانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اطاعت کا وہ   رشتہ ہے جس میں ایک مرتبہ منسلک ہونے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان تمام غلامیوں اور ہرقسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہ طوقِ اطاعت ہے جو ایک شخص کو تمام غلامیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کے احکام چاہے وہ مشکل نظر آئیں یا آسان، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے طاغوت، اپنے زمانے کے معاشی طاغوت، سیاسی طاغوت، ثقافتی طاغوت اور سیاسی برتری اور قوت کے طاغوت سے آزاد ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں کو، اپنے تمام معاملات کو، اپنے تمام مفادات کو صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بناتے ہوئے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ فرماں روا اور اولی الامر جن سے اس کا روز واسطہ پڑتا ہے، اگر وہ اللہ اور رسولؐ کے نظام پر عمل نہ کر رہے ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا رُخ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتا ہے۔

یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جو روزِ روشن ہو یا شام کی دھندلاہٹ، ہر صورتِ حال میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فرد کہاں تک اللہ کا عبد ہے اور کہاں تک مصلحت ِ وقت کا۔ یہ ایمان کو بے حجاب کردیتا ہے۔ ایمان اپنی ماہیت کے لحاظ سے چھپنے اور دبنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا جوش اور ولولہ اسے ہرسطح پر واضح طور پر نمایاں کردیتا ہے۔ یہ ایک قابلِ محسوس، قابلِ پیمایش رویہ اور طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے خَیْرٌ وَّاحْسَنُ تَاْوِیْلًا  سے تعبیر کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج  فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo(النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ اور آخرت پر ایمان کو جس طرزِعمل اور رویے سے منسلک کر دیا ہے وہ ہرلحاظ سے قابلِ محسوس ہے۔ تین پیمانے ہمیں بتا دیے گئے ہیں یہ جانچنے کے لیے کہ ایمان کی سطح کیا ہے:

اوّل: ایک کارکن یا ذمہ دار فرد کہاں تک فیصلے کرنے میں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں بنیادی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ وہ فیصلہ کسی اتحاد میں شامل ہونا ہو یا کسی عوامی ریلی میں شرکت، اس میں بنیاد رضاے الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ ہے یا کوئی قریب المیعاد سیاسی مفاد۔ اپنی شہرت و مقبولیت ہے یا ہر مفاد سے بلند ہوکر صرف اور صرف رضاے الٰہی۔ اور جب ایک فیصلہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی بنا پر کرلیا گیا تو پھر اس فیصلے پر کس شدت سے عمل کیا جا رہا ہے۔

دوم: اُولی الامر اور نظم کی اطاعت کرتے وقت کہاں تک نظم کی رضا مقصود ہے اور کہاں تک صرف اور صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی بنیاد ہے۔ جب اولی الامر کے حکم اور  اللہ اور رسولؐ کے حکم میں انتخاب ہو تو پھر ایمان کا تقاضا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اللہ اور آخرت پر ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔

سوم: اگر کسی مسئلے میں تنازع کھڑا ہوجائے تو ایسے آزمایشی مواقع پر حق پر قائم رہنا، موقع پرستی اور مداہنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قولِ سدید اور شہادتِ حق دینا ایمان کا وہ پیمانہ ہے جسے اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ثابت قدمی

ایمان کو جانچنے کا ایک پیمانہ وہ رویّہ اور طرزِعمل ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رشتۂ اخوت میں جوڑ دے اور وہ محض ایک جماعت کے کاغذی ممبر نہ رہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا اور قوت بن جائیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں برابر کے شریک ہوں۔ اگر تحریک کے ایک حصے میں جو سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو، کوئی آزمایش ہو تو وہ اس میں خاموش تماشائی نہ ہوں بلکہ ان کا دل و دماغ اور جسم اس تعلق کی وجہ سے بے چین ہو۔ وہ نہ صرف مظاہروں کے ذریعے بلکہ بین الاقوامی دبائو اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع استعمال کریں اور ربِ کریم کے حضور شب و روز دعائوں کا ایسا سلسلہ شروع کریں کہ اس کی رحمت جوش میں آجائے اور وہ تحریکِ اسلامی کی آزمایش کو ان کے لیے رحمت کا ذریعہ بنا دے۔

فلاح، کامیابی اور کامرانی کو قرآنِ کریم نے اس اخوت کی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جس پر ہر تحریکی کارکن اور قائد اپنی جانچ خود کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا قف وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو،    باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پائو گے۔

ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے: ’’ایمان نام ہی صبروسماحت کا ہے۔ حضرت عمرو بن عتبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور سماحت کا(مسلم)۔ گویا راہ کٹھن ہو یا آرام دہ، عزم، جدوجہد اور جہد مسلسل پوری استقامت کے ساتھ جاری رہے۔ اور اللہ کے راستے میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات، اپنی قوت، اپنی حکمت عملی، اپنی سیاسی مقبولیت اور ذہانت، غرض ہر اُس طرزِعمل سے بچا جائے جو عالی ظرفی کے منافی ہو اور ہر وہ بات اختیار کی جائے جس سے خاکساری اور نرم خوئی میں اضافہ ہو۔

جب ایک مرتبہ سوچ سمجھ کر تحریک کی دعوت کو قبول کرلیا ہو تو پھر اپنی اَنا، ذاتی رنجش، اختلاف راے اور نظرانداز کیے جانے کے باوجود تحریک سے وابستگی، اپنی ذاتی راے کو اجتماعی راے کا تابع بنانا اور جماعت سے وابستگی اور دین کی دعوت کے لیے ہر سرگرمی میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لینا، کسی لمحے بھی مایوس اور شاکی نہ ہونا ثابت قدمی و استقامت کا تقاضا ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا فضل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بندے کو ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی توفیق دے جو معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ یہ تو شکر کے رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں شکایت، برہمی، مایوسی اور پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔

جھاد فی سبیل اللّٰہ

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کا ایک تقاضا   یہ بھی ہے کہ اپنی جان، اپنے مال اور اپنی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کے قیام کی جدوجہد میں مکمل طور پر لگا دیا جائے۔

یہ جدوجہد جزوقتی نہیں ہے کہ ’دنیا‘ کے بہت سے کاموں کے ساتھ، چاہے وہ ذاتی معاش کے لیے ہوں یا اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرکے شہرت کے لیے ہوں، یا اپنے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے ہوں۔ غرض ہر وہ کام جسے عام طور پر دنیاوی کہا جاتا ہے، اس میں اپنی تمام تعمیری صلاحیت اور قوت کو صرف کرنے کے بعد ہفتہ کے آخر میں دو دن جب ’دنیاوی کاموں‘ سے فرصت حاصل ہوتو اس وقت کو دعوتی کام میں لگا دیا جائے اور سمجھا جائے کہ اقامت دین کا فریضہ ادا کر دیا۔ درحقیقت دن رات کے ہرلمحے میں حضرت نوح ؑ کے عزم اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو انجام دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ انقلابی عمل ہے جس میں ایک فرد کا رویہ اور طرزِعمل، قرآن و سنت سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی دوستی کا معیار دعوتِ حق کو بناتا ہے۔ ان سے جڑتا ہے جو حق کی طرف راغب ہوں، ان سے محتاط ہوتا ہے، جو  بے مقصد زندگی میں گم ہوں۔ ہاں، انھیں ا س سراب سے نکالنے کے لیے لازماً کوشاں رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دوستی کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں سے قربت، اور نمایش اور چمک دمک کی طرف لپکنے والوں سے فاصلہ ہوتا ہے۔ وہ ہرلمحہ اپنے رب سے اچھی اُمید اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔وہ اپنے رب کے فضل کو اس کی مغفرت میں تلاش کرتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (انفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی [بھلائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت] بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کردے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

قرآنِ کریم نے اس طرزِعمل کو دوسرے مقام پر ایک ایسی تجارت سے تعبیر کیا ہے جس میں صرف کرنے والے کے لیے نفع ہی نفع اور خسارے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں بھی ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ ایک قابلِ محسوس طرزِعمل اور رویہ ہے، یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت انسانوں کے لیے بھیجی ہے، اسے اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور نظامِ عدل اور حق و صداقت کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، اثاثے اور دولت کو لگادینا،کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے کسی مداہنت سے کام نہ لینا، اور قولِ سدید کے لیے اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں لگا دینا۔ اس سے زیادہ قابلِ اعتبار سودا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس سایے کے مانند پائی جانے والی دنیا میں، زندگی کے لمحات کو اللہ کے راستے میں لگانے کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں نجات اور عذاب سے نجات مل جائے۔ یہ سودا نہیں، یہ تو رب کریم کی ایک عظیم بخشش ہے، ایک انعام ہے جو مالکِ کائنات ہی دے سکتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ راہ رو جو اس راہِ مستقیم پر رواں دواں ہوں جن کی آبلہ پائی انھیں یومِ حساب کی شرمندگی سے محفوظ کردے، اور وہ ان میں شامل ہوجائیں جن سے ہلکا حساب لیا جائے گا:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف ۶۱:۱۰-۱۱) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

اللہ کے دین کی دعوت دینا اور اس بابرکت سرگرمی میں اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو لگا دینا وہ تجارت ہے جس میں نقصان آس پاس بھی نہیں آسکتا۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ نہ صرف عذابِ الیم سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ وہ مومن جو خلوص نیت کے ساتھ شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے، رب کریم اسے ان جنتوں سے نوازتا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جہاں اس بندۂ مومن کے لیے ہر ممکنہ آسایش اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ایمان و عمل کا رشتہ انتہائی قریبی ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، خاندان اور محلے کے دعوتی حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اجتماعیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ حقیقی کامیابی کا راز اجتماعیت ہی میں ہے۔ اجتماعی جدوجہد اور اللہ کی راہ میں جہاد دین حق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا۔ ایسی سعادت ہے جو خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہے۔ قابل مبارک باد ہیں اللہ کے وہ انصار جو بادِ مخالف کی پروا کیے بغیر اپنا تمام اثاثہ اس جدوجہد میں لگاتے ہیں، جن کی نماز اور جن کا جینا اور مرنا صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت:۱۳ روپے،سیکڑے پر خصوصی رعایت)

عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات میں مسلم معاشروں میں عورت کا مقام و کردار ایک مرکزی موضوع کا مقام اختیار کرگیا ہے اوربعض غلط العام تاثرات کی تکرار نے بہت سے مسلم اہل قلم کو مدافعانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ کسی بھی عصری مسئلے کا علمی جائزہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب اوراس سے نکلنے والے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے معروضی طورپر یہ دیکھا جائے کہ جس بنیادپر دلائل کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، کیا وہ درست ہے یا اس کی ٹیڑھ پوری عمار ت کے ایک جانب جھک جانے کاسبب ہے اورکیا واقعی مقصود ایک ٹیڑھی عمارت ہے یا سیدھی تعمیر۔

تقابلی مطالعوں میں عموماً ایک محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مواد کو یک جا کردے جو تحقیقی مفروضے سے مطابقت رکھتاہو اور منطقی طور پر وہ نتیجہ حاصل کرلے جو پہلے قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اکثر مغربی تجزیوں کا آغاز مسلم دنیا میں پائی جانے والی چند بے ضابطگیوں سے ہوتا ہے جنھیں عموم کا مقام دے کر وہ نتیجہ حاصل کرلیا جاتاہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے مواد جمع کیا گیا تھا۔مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ کوئی انسان جو کسی معاشرے اورکسی علمی روایت سے وابستہ ہو مکمل طورپر اپنے آپ کو اپنے ثقافتی ماحول سے آزاد نہیں کرسکتا، لیکن اگرایک محقق کو اپنی محدودیت اوراپنے تصورات کا پورا اِدراک ہو اورساتھ ہی وہ دیگر نظریات کو عادلانہ نظر سے دیکھے جس کا حکم قرآن کریم نے شہادت کے حوالے سے دیا ہے کہ چاہے وہ شہادت ایک فرد کے خونی رشتہ دار ہی سے تعلق رکھتی ہو، شہادت حق ہی ہو اوراس میں رشتے کا تعصب نہ آنے پائے۔ چنانچہ علمی جائزے میں بھی اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ ایک مسلمان محقق اسلامی نظام حیات کی حقانیت پر ایمان رکھتاہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور دیگر تصورات کو معروضی طورپر ایک کھلے ذہن کے ساتھ اورپہلے سے تصورکردہ مفروضوں سے نکل کر جائزہ لینے کے بعدایک قول ِفیصل تک پہنچے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرحاضرمیںمغربی فکر اورمغرب زدہ مفکرین جن امور پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں انھیںاسلام میں خواتین کے حقوق خصوصی دل چسپی کا باعث نظر آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیونکہ خود مسلم اہل فکر نے اس موضوع پر یا توفقہی نقطۂ نظر سے فقہی احکام کی تشریح کرتے ہوئے عورت اورمرد یا شوہر اوربیوی کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی ہے، یا بعض اختلافی مسائل میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قانون اورفقہی آرا کا دفاع کیا ہے۔ چنانچہ حدود اورقصاص ودیت کے معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی حیثیت کیا ہوگی، وراثت میں تقسیم کا جو تناسب اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے اس پر کوئی ’نظرثانی‘ ہوگی یا نہیں، ایک شادی شدہ شخص کو دوسری شادی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اورریاست اس سلسلے میں کیا قدغن لگا سکتی ہے___ وہ موضوعات ہیں جو توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اسلامی قانون کے حوالے سے بحث کرتے وقت عموماً جو رویہ اختیار کیا جاتاہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ اکثر مغربی جامعات سے فارغ التحصیل مسلم مفکرین، مغربی فلسفۂ قانون کے مطالعے اور اس کے بنیادی مفروضوں پر ایمان لانے کے بعد اسلامی فقہ اورقانون کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ فکری بنیاد مغربی فلسفۂ قانون ہوتا ہے، اس لیے بار بار وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو نئے ہیں اورنہ منطقی طورپر صحت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قانون جو ساتویں صدی عیسوی میں یا نویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا، آخر کس طرح اکیسویں صدی کے تغیر شدہ ماحول و حالات میں قابل عمل ہو سکتاہے، یا یہ کہ قرآن کے احکامات جو خواتین سے متعلق ہوں یا مردوں سے یا معاشرے کے مسائل سے ، آج کس طرح نافذ ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم ’بدوی‘ معاشرے سے آگے نکل چکے ہیں!

خواتین کی قانونی شہادت ، وراثت میں تناسب، تعلیم کا حصول ، گھرمیں فیصلہ کن معاملات میں مقام، سیاسی کردار، معاشی میدان میں عمل دخل، فوج اورپولیس میں یکساں نمایندگی، نکاح میں مرد کی طرح ایک سے زائد شوہروں سے زواج قائم کرنا، نماز میں امامت اورجمعہ کا خطبہ دینا وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر اس انداز سے بات کی جاتی ہے گویا یہ مسائل اچانک دریافت کرلیے گئے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورشارع اعظم کے علم میں ان کا کہیں آس پاس بھی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان مسائل سے لاعلمی پر مبنی ایک شریعت ہمارے حوالے کردی گئی، اوراب چونکہ یہ مسائل یکایک دریافت ہوگئے ہیں اس لیے وہ شریعت جو ان سے لاعلمی کی بناپربنی تھی خود بخوداپنی قانونی قوت کھوبیٹھی ہے!

علمی اورمعروضی تحقیقی حکمت عملی کا بنیادی مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بات طے کرلی جائے کہ شریعت ہے کیا؟کیا یہ ایک مردانہ ذہن کے پیداکردہ تصورات اورحدود و قیود پر مبنی ہے، یا اسے خالق کائنات اورصانعِ انسان نے انسان اورانسانی معاشرے کی ضروریات، مستقبل کے مطالبات اورضروریات کے پیش نظر نازل کیا ہے؟ اگر شریعت زمان و مکان کی قید میں ہے تو لازماً اسے   تغیر و تبدیلی سے گزرنا ہوگا لیکن اگر شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد اُن آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جن پر انسانی خمیر کی تعمیر کی گئی ہے، تو اس میں آفاقیت ہوگی اورتبدیلیِ زمان و مکان سے اس کی قانونی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔

مرد اورعورت سے متعلق جو ہدایت نامہ قرآن کریم کی شکل میں اور اس کا عملی نمونہ حیاتِ مبارکہ سید الانبیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، ان دونوں میں  عدم تغیر، آفاقیت اورعالم گیریت کو اپنی مکمل شکل میں رکھ دیا گیا ہے ۔اس بنا پر قرآن کریم نے سنت کو تشریعی مقام دیا ہے۔ سنت، مدینہ اورمکہ کی زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ محض اخلاقی نصائح تک محدود نہیں ہے۔ یہ حدود کے اجرا، بین الاقوامی معاہدات، سفرا کے تقرر، قاضیوں اورمفتیوں کی نامزدگی، زکوٰۃ کے نصاب، مرتدین کے خلاف قتال، معاندین زکوٰۃ کی سرکوبی، غرض ان تمام معاشرتی ، معاشی ،سیاسی اورقانونی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو منصب ِنبوت کے فرائض میں شامل تھے۔

بعض سادہ لوح افراد قرآن فہمی کے دعووں کے ساتھ جب یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ’رجم‘ کا ذکر نہیں پایا جاتاتو یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم شارع اعظم کو حکماً یہ اختیاردیتاہے کہ وہ تحلیل و تحریم کریں۔ نتیجتاً ان کے تحکیم کردہ معاملات کو حتمی مقام حاصل ہوجاتاہے:’’(پس آج   یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسول نبی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتاہے۔ وہ انھیں نیکی کاحکم دیتا ہے بدی سے روکتاہے۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتاہے، اوران پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اوروہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف ۷:۱۵۷)۔ یہاں پر براہِ راست رسولؐ کو تحریم و تحلیل کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؐ کافیصلہ اللہ کے فیصلے کی طرح ہے اورجو اس فیصلے کو قرآن کے احکامات سے الگ سمجھتا ہے اس کا مقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ایمان کی شرائط میں سے یہ شرط قرآن کریم خود بیان کرتاہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورفیصلے کو کشادہ دلی کے ساتھ، بلا کسی تردد کے نہ مانا جائے، اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتاہے: ’’ نہیں، (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘(النساء ۴:۶۵)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ سبحانہ کی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرقانِ حکیم فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ،اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اورجو منہ موڑ گیا، تو بہر حال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘(النسائ۴:۸۰)۔ اس سلسلے میںحرف ِآخر وہ فرامین ہیں جو یہ کہتے ہیں:’’مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسولؐ کی اطاعت کرو اوراپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو‘‘ (محمد۴۷:۳۳)۔ مزید یہ کہ ’’اورجب ان سے کہا جاتاہے کہ آئو اس چیزکی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے تو ان منافقوں کو    تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء ۴:۶۱)

اس ضمنی توضیح سے قطع نظر، جو بات بلاجھجک کہنے کی ضرورت ہے وہ بہت آسان ہے۔    وہ یہ کہ اسلام اپنے تصورِ عدل کی بناپر مرد اورعورت دونوں کے حوالے سے جوہدایات دیتا ہے ان کی بنیاد جنسی تفریق نہیں ہے، جب کہ مغربی اورمشرقی فکر چاہے وہ مذہبی مصادر میں ہو یا معاشرتی علوم میںاس کی بنیاد جنس(gender)کی تفریق (discrimination)پرہے۔ چنانچہ اسلام نے جو حق خواتین کو ساتویں صدی عیسوی میں دیا کہ وہ ریاستی امور میں اپنی راے خلیفہ کے انتخاب کے موقعے پر دیں (حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقعے پر مدینہ کے ہر گھر کی خواتین سے ان کی راے سرکاری طور پر لی گئی )، وہ حق یورپ میں ۱۸۹۲ء میںصرف اصولی طور پر تسلیم کیاگیا، جب کہ اس پر عمل بیسویں صدی میں ہوا۔

آج بھی مغرب اورمشرق میں خواتین کاغذی حد تک تو بعض حقوق رکھتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔

اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ ’عدل‘ ہے۔ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک فرد پر اس کی برداشت اوراستعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کی وسعت کے لحاظ سے اس کی  جواب دہی ہو۔ یہ قرآنی اصول کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)، ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔

چونکہ اسلام ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قرار دیتا ہے اورمذاہب عالم کے تمام تصوراتِ ’تقویٰ و پاک بازی‘ کے بر خلاف رشتۂ ازدواج اورشوہر اوربیوی کے صحت مندانہ اخلاقی تعلق کو تقویٰ اورایمان کی علامت سمجھتا ہے، اس بنا پر عدل کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی سیاسی، معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کو خاندان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے شریعت کے بنیادی مقاصد اور ’مصلحت‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک ’کمائو بیوی‘کا حصول نہیںہے بلکہ آنے والی نسلوں کی معمار اورگھر کے اندر سکون، رحمت اورموّدت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔

اسلام کا تصورِ اجتماعیت اس کے عدلِ اجتماعی سے منطقی طور پر وابستہ و پیوستہ ہے اور یہ تصور مغربی اور مشرقی تصورِ انفرادیت کی مکمل ضد ہے۔ اس میں فرد کو جائز قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مقام کا تحفظ دیتے ہوئے معاشرتی رشتے میں جوڑا گیا ہے، جب کہ دیگر نظاموں میں، وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فرد کو عبادات میں محض اپنے خدا سے رشتہ جوڑنے کا تصور اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی تصورِ عبادت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان ایک نجی (private)اور ذاتی(personal) رشتہ ہے۔ اسلام اس کی تردید کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ نماز جماعت کی شکل میں قائم کرو اور اجتماعی طورپر نہ صرف نماز بلکہ صیام ،حج اور زکوٰۃ کو ادا کرو۔ قرآن کریم ان عبادات کے لیے ریاست کو ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ ان کے قیام اور تحفظ کے لیے اپنی قوت نافذ ہ کا استعمال کرے۔ یہ بنیادی نظریاتی فرق اگر سامنے نہ رکھا جائے تو پھر اہلِ علم بھی اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب یا مشرق عورت کو کون سے ’انفرادی حقوق‘ دیتا ہے اور مقابلتاً اسلام کون سے ایسے حقوق دیتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیںہے کہ انفرادی حقوق کی دوڑ میں کون کس سے آگے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عدل کس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ عدل ہوگا کہ ایک خاتون سے یہ کہا جائے کہ وہ اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرے،ایمان کی تکمیل کے لیے شادی کرے اور اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو جو وہ ایک سماجی معاہدے کے ذریعے اختیار کرتی ہے، پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک کم از کم ۸گھنٹے ایک معاشی کارکن کے طور پر کام کرے، اور جب گھر واپس آئے تو پھر اپنے خاندانی وظائف میں مصروف ہوجائے اور اس بات پر فخر کرے کہ وہ ’مرد کے شانہ بہ شانہ‘ ، ’معاشی دوڑ‘ میں اپنا کردار ادا کررہی ہے! چاہے اسے اس دوڑ کے لیے اپنے اعصابی تنائو کو قابو میں رکھنے کے لیے صبح شام ادویات کا استعمال کرنا پڑے، ہر روز کام پر جانے کے لیے دو گھنٹے سخت ہجوم میں ٹیکسی،بس یااپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرنا پڑے اور دفتر میں جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑے، لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے کرے کہ مغربی اور مشرقی تہذیب ایک کارکن خاتون کو زیادہ پیداآور (productive) کہتی ہے ! اگر معروضی طور پر صرف اس آمدنی اور اس خرچ کا ایک میزانیہ تیار  کرلیا جائے جو ایک ’کارکن عورت‘ اپنی ’دفتری ضرورت‘ کے طور پر ذاتی تزئین پر خرچ کرتی ہے تو ـ’معاشی ترقی‘ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اندازہ ہو جائے گا کہ جو آمدنی گھر لائی جا رہی ہے اور جس کا تذکرہ بطور ’دو تنخواہوں‘ کے ہر صحافیانہ تحریر میں پایا جاتا ہے وہ اصلاً کتنی آمدنی ہے۔

مسئلہ آسان ہے۔ مغرب و مشرق کا ذہنی سانچہ جنسی تقسیم اور استحصال پر مبنی ہے۔ مغرب کی پوری تہذیب میں، جواب مشرق میں بھی عام ہے، عورت ایک ’شے‘ (commodity)سے زیادہ مقام نہیں رکھتی اور وہ بھی ایسی شے جس کااستحصال کر کے ایک مرد انہ معاشرہ اپنے مقاصد حاصل کرے ۔ اس کے بر خلاف اسلامی شریعت کی بنیاد عدل کے اصول پر ہے جو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ  کسی فرد پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اوراسے اس کی ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔

مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی شریعت کے آفاقی پہلو کو اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کو، جو عدل اجتماعی پر مبنی ہو، مرکزِگفتگو بناتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ اطلاقی سطح پریہ اصول کہاں تک مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ مغربی معاشرے میں عورت کا استحصال، اس کی عصمت وعفت پر حملے، اس کے حقوق کی پامالی کی داستان ایک اذیت ناک کہانی ہے لیکن مسئلے کا حل محض یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ مغرب خواتین کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ ہمیں خود اپنے معاشروں میں ہونے والے مظالم کو ختم کرنا ہوگاجن کی بنیاد وہ جاگیر دارانہ ذہن ہے، جس کے لیے یہ شرط نہیںہے کہ کوئی فرد جاگیردار ہی ہو۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو ایک مزدور میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاسکتی ہے جتنی ایک لاکھوں ایکڑکے مالک وڈیرے یا سردار میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اوردین کے نام پر دوانتہائوں کا پایا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ایک جانب یہ ایسی شدت پیدا کرتی ہے کہ ایک خاتون اپنے گھر میں اجنبی اور ایک کمرے میں مقید ہو کررہ جائے اور وہ صرف شوہر اور حقیقی اولاد کے ساتھ تو بات چیت کر سکے، بلاتکلف کھانے میں شریک ہو سکے لیکن ان کے علاوہ اقربا اور رشتہ داروں سے مکمل قطع رحمی پر مجبور کرد ی جائے۔ دوسری طرف وہ انتہا بھی ہے کہ حجاب کو محض نگاہ تک محدود کردیاجائے اور جسم کی عریانی کو معاشرتی ضرورت قرار دے دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں انتہائوں سے نکلنا ہوگا اور    مدینہ منورہ کے معاشرے میں صحابیاتؓ کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اور اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا۔ وہ معاشرہ جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں، شرم و حیا، عفت و عصمت، پاک بازی اور تقویٰ کو عملی زندگی میں ڈھال کر پیش کرسکے۔

اس سلسلے میں تعلیمی حکمت ِعملی ، معاشرتی رسوم و رواج کی تبدیلی، اور سب سے بڑھ کر افراط و تفریط والے ذہن کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پوری دیانت اور نفس کے تجزیے و احتساب کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے دائرے میں لانا ہوگا۔

شریعت کادائرہ نہ قیدو بند پر مبنی ہے نہ مادرپدر آزادی پر۔ یہ وہ حد و دہیں جو معروف پر مبنی ہیں۔ یہ معروف وہ ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی و ارتقا کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن و سنت کی طرح سے آفاقیت اور عالم گیریت کا حامل ہے۔ اگر گفتگو معروف ہو، اگر معاشرت معروف ہو، اگرمہر معروف ہو، اگر رخصتی بھی معروف ہو، اگر معیشت معروف ہو تو پھر عدل کا قائم ہونا ایک منطقی عمل ہے۔

اس قیامِ عدل کے لیے راستہ صرف ایک ہے: قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق، اس کی تعلیمات و احکامات کا کسی حیل و حجت کے بغیر اور مغرب و مشرق کی فکری غلامی سے آزادی کے ساتھ اس کا نفاذ۔

اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے نہ رنگ و نسل اور زبان کی تفریق ۔ یہ آفاقی اور عالمی حیثیت کے اصولوں پر مبنی وہ شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے اصولِ حکمرانی فراہم کرتی ہے اور وعدہ کرتی ہے کہ کسی متنفس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حقوق کی علَم بردار اور ان کے عملی نفاذ کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ انسان کو وقار، عزت، اکرام اور معاشرتی وجود سے نوازتی ہے۔ یہ محض مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس پر عمل کیا جائے گا ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ و امریکا کے وہ بے شمار متلاشیانِ حق جو اپنے معاشروں کے ظلم و استحصال سے بے زار ہیں   یہ جاننے کے باوجود کہ یہ زریں اصولِ شریعت بہت سے مسلم ممالک میں بھی ابھی تک اجنبی ہیں اور مسلم ممالک کے غلام ذہن رکھنے والے فرماںرواان اصولوں کے مفید اور قابل عمل ہونے کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ متلاشیِ حق بادِ مخالف کے باوجود اسلام کے سچا اور برحق دین ہونے اور اس دور میں قابلِ عمل ہونے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اسلام کی کامیابی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اپنی معاشرتی مثال کا کوئی دخل نہیں۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں بھی اسلام کو وہ مقام حاصل ہو جائے جو ان متلاشیانِ حق کے دلوں میں اسلام کو حاصل ہے، تو پھر پوری انسانیت کو اس عدل کو دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے جوقیامت تک کے لیے صرف اورصرف حق و صداقت ہے اور انسانیت کو معراج پر لے جانے کا واحدراستہ ہے۔