پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


اسلامی معاشرے کی ایک پہچان اس میں پرورش پانے والی روایت ِعلم ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا ہر پیرو اپنے عقائد، تعلقات اور معاملات کو علمِ صحیح کی بنیاد پر استوار کرے۔ ایمان کی شہادت خود اس بات کا اعلان ہے کہ ایک شخص ہوش و حواس کے ساتھ، سمجھ بوجھ کر ایک صداقت کی گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل ہے تو وہ صرف اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علم کی بنیاد پر عمل ایمان کی پہچان ہے ۔ اس کے برخلاف اگر   قول و عمل میں تضاد پایا جائے اور وہ کچھ کہے جو وہ خود نہ کرے تو قرآن کریم اس کو سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیتا ہے: لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَo (الصف ۶۱: ۲-۳) ’’تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔

اس قول وعمل کے تضاد کو ایک دوسرے تناظر میں نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے(عبداللہ بن عمرؓ، بخاری ، مسلم)۔ قول و عمل میں یکسانیت اور عمل سے قولی شہادت کا اظہار، ایک قابل محسوس اور قابلِ پیمایش پیمانۂ ایمان ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ ہم کس طرح کسی کے ایمان کو جانچیں۔ جدید اسلوب میں ایمان کی پیمایش اعمال (outcomes) سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صاحب ِ ایمان کو پکارا جائے کہ فلاح و کامرانی کی طرف آئو اور وہ تجارتی کاموں میں لگا رہے اور دن میں پانچ مرتبہ بلند ہونے والی اللہ کی کبریائی اور عظمت کی پکار سننے کے بعد بھی اس کے قدم مسجد کی طرف نہ اُٹھیں۔ فلاح و کامرانی کی پکار کو رد کرنے کے باوجود بھی وہ سمجھتا رہے کہ اس کا ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندگیِ رب کو صدقِ دل و جان سے مانتا ہے اور اس کی شہادت اس کا ہرہر عمل پیش کرے۔

اسلامی معاشرے میں وہ فرد قابلِ تحسین ہے جو فروغ علم میں لگا ہو: ’’تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور (دوسروں کو) اس کی تعلیم دیں‘‘ (عن عثمان ابن عفانؓ، بخاری)۔ قرآنِ کریم علم کو انسانوں میں وجۂ امتیاز قرار دیتا ہے۔ اسلام نہ مال و دولت کو،      نہ عہدہ اور منصب کو، اور نہ ذات برادری سے وابستگی کو امتیازی مقام دیتا ہے، یہ ان اہلِ ایمان کو جو زیادہ علم و تقویٰ رکھتے ہیں دوسروں سے افضل قرار دیتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘ (الزمر ۳۹:۹)۔ قرآن کریم بغیر علم بحث و مکالمہ کو ناپسند کرتا ہے: ’’اور بعض لوگ جو اللہ     (کے بارے) میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۸)

قرآنِ کریم نے بے شمار مقامات پر علم اور علم سے وابستہ پہلوئوں کی طرف اشارے کیے ہیں اور عملاً ہر اہم مضمون کے ساتھ اس جملے کا اضافہ کردیا ہے کہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (البقرہ ۲:۴۴)’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ (النسائ۴:۸۲) ’’کیا وہ سوچتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ(الغاشیہ ۸۸:۱۷)’’کیا وہ دیکھتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ (السجدۃ ۳۲:۲۶)’’کیا وہ سماعت نہیں رکھتے؟ ‘‘اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(محمد۴۷:۲۴)’’کیا انھوں نے اپنے قلوب پر تالے ڈال لیے ہیں؟ ‘‘کیا تم گہرائی میں جاکر تلاش نہیں کرتے؟ کیا تم ایسی قوم ہو جو عقل سے عاری ہے؟ کیا تم نے آنکھیں موند لی ہیں؟ کیا تمھارے کان بہرے ہوگئے ہیں؟ کیا تم کائنات پر غور نہیں کرتے؟ کیا تم نے کبھی اپنے اندر چھپی ہوئی کائنات پر غور کیا؟ پھر تم کدھر چلے جارہے ہو؟ تم نے کس کو راہ نما بنا رکھا ہے؟ ان کو جو خود بینائی سے، فہم سے، شعور سے،     آگہی سے محروم ہیں؟ جو خود اپنے نفع و نقصان پر قابو نہیں رکھتے؟

یہ وہ ثقافت ِعلم ہے جو قرآن کریم اپنے ہر پیروکار کے اندر جگانا چاہتا ہے اور ہرذہن کو جھنجھوڑ کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غوروفکر کرے۔ وہ عقل کی آنکھ کھول کر زمین کو، فلک کو، جہان کو دیکھ کر، مشرق سے اُبھرتے سورج کے اُفق، مغرب میں ڈوبتے سورج کی شفق اور فضائوں کی نیرنگی کو تحقیق اور تجسس کی نگاہ سے دیکھ کر، خالق و مالک کی آیات پر غوروفکر کرتے ہوئے یہ عقلی فیصلہ کرے، کہ کیا اصل حاکم، شارع، مالک اور فرماں روا کوئی انسان، کوئی انسانی فکر یا انسانوں کے کسی گروہ کا  مل کر کسی بات کو کہنا ہوسکتا ہے، یا ہر صاحب ِ علم کے اُوپر وہ العلیم ہے جو نہ صرف علم بلکہ قوتِ عمل کی تمام ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ قوت رکھنے والا العزیز، القدیر، القوی، العلیم اور اکبر اور اعلٰی ہے!

علم کے عمومی ذرائع

اسلام جس روایت اور ثقافت ِ علم کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کا مآخذ اور بنیاد اُن تمام بنیادوں سے مختلف ہے جو انسان نے اپنی محدود عقل، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر دریافت کی ہیں۔ ان بنیادوں میں سب سے پہلے انسانی فکر اور تعقل کو شمار کیا جاتا ہے۔ قدیم ترین تہذیبوں میں انسان نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے بعض باتوں کو درست تسلیم کیا اور بعض کو ردکیا۔ عقل کو حاکم بناتے ہوئے وہ جو فلسفی کہلائے، اس بات پر مُصر رہے کہ انسانی فکر کا  منبع اور مآخذ قوتِ فکر ہے جسے تفلسف (philosophization) سے تعبیر کیا گیا، یعنی انسانی ذہن کا فکری زاویے تعمیر کرتے ہوئے اپنے فکری مفروضوں کی بنیاد پر کسی شے کی حقیقت کا دریافت کرنا۔ ظاہر ہے فکری طور پر جب سارا انحصار ایک مفروضے (hypothesis) پر ہوگا اور اگر وہ مفروضہ  خود زمان و مکان کی قید سے آزاد نہ ہو، اور بالفرض حقائق پر مبنی نہ ہو تو جو فکر یا دیوار بنے گی وہ   کجی سے نہیں بچ سکتی۔ یہی سبب ہے مغربی فکر میں جن فلاسفہ کو ارسطو اور افلاطون سے لے کر ہیگل اور کارل مارکس تک آئیڈیلزم کے مدرسے سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ انسانی سوچ کو اپنارہنما بناتے ہیں اور اگر انسانی سوچ انھیں یہ بتائے کہ اصل حقیقت مادہ یا matter ہے تو پھر وہ مادیت پرستی کا فلسفہ تعمیر کرتے ہیں، اور اگر عقل یہ کہے کہ تصور یا idea ہر شے کی بنیاد ہے تو وہ idealism کے داعی بن جاتے ہیں اور ظن و گمان کی وادیوں میں گم رہتے ہیں۔

علم کی دوسری بنیاد حواس کے تجربے کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ علم حقیقی اور یقینی سمجھا جاتا ہے جس کی تصدیق انسانی حواس سے کی جاسکتی ہو۔ اس کو مشاہداتی حقیقت ( empirical reality) قرار دیا جاتا ہے اور جو چیز مشاہداتی طور پر تجربے میں نہ آسکتی ہو اسے عموماً رد کردیا جاتا ہے۔

علم کا ایک تیسرا ذریعہ اُس ذاتی ، روحانی یامابعد الطبیعیاتی تجربے کو قرار دیا جاتا ہے جو انسان اپنی کوشش اور توجہ سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اسے بعض مخفی حقائق کا اِدراک ہوتا ہے اور جسے وہ روحانیت سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ باطنی (esoteric) علم وہ سمجھا جاتا ہے جو پردوں میں چھپا ہوا ہو، اور وارداتِ قلبی کے نتیجے میں آشکارا ہو اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والا علم معتبر اور صداقت پر مبنی سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ اس طرح وہ جو محدود ہے غیرمحدود کے ساتھ رابطے میں آجاتا ہے۔ اس رابطے کو علم و تجربے کا نقطۂ کمال سمجھاجاتا ہے۔

وحی بحیثیت علمِ حقیقی

قیاسی، تجربی اور روحانی تجرباتی ذرائع علم سے آگے نکل کر قرآنِ کریم نے علم کے جس سب سے بلند اور حقیقی ذریعے سے تمام انسانوں کو روشناس کرایا اس کا نام وحی الٰہی ہے، جو کسی انسانی کاوش کے نتیجے میں روحانی تجربے کی شکل میں واقع نہیں ہوتی اور نہ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذاتی فکر سے ہے کہ جب انسان خواہش کرے تو وجود میں آجائے اور جب خواہش نہ کرے تو معطل ہوجائے۔ یہ وہ معروضی (objective) حقیقت ہے جس کا مشاہدہ روزِ روشن میں انبیاے کرام ؑ پر نزولِ وحی کے دوران ان کے ہم عصر سیکڑوں افراد نے خود کیا، اور جس کا واضح ثبوت اپنی اصل یا تحریف شدہ شکل میں، ماضی میں آنے والی کتب ِ سماوی میں انسانی تاریخ میں پایا جاتا ہے۔

وحی الٰہی کے علم کے سب سے زیادہ یقینی، حقیقی اور حتمی ذریعہ ہونے کی مثال انبیاے کرام ؑ کا لایا ہوا وہ کلامِ الٰہی ہے جسے انھوں نے کبھی اپنے آپ سے منسوب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ یہ وہ امانت ہے جو ہمیں دی گئی ہے۔ ہمارا کام اس امانت کو جوں کا توں انسانوں تک یا بعض حالات میں مخصوص اقوام تک پہنچانا ہے۔ ہم اس میں نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنے اُوپر ظلم کریں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری شہ رگ سے پکڑ لے گا۔ گویا وحی کا ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطہ اور حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ نبی ؑ اس میں زیر، زبر کی بھی کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا۔ یہ نہ تجربی ہے، نہ قیاسی، نہ وارداتی بلکہ اپنی نوعیت کا الگ اور منفرد کلام، علم، نور اور ہدایت ہے۔ یہ اس ہستی کی طرف سے آتی ہے جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ  ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o(الحج ۲۲:۷۰) کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

چوںکہ اُس نے ہی انسان کو وحی کے ذریعے علم دیا، اس لیے کہ وہ نہ صرف پوری کائنات بلکہ جتنی کائناتیں آج تک وجود میں آئیں اور آیندہ وجود میں آئیں گی، ان سب کا علم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ انسان کے مبلغ علم سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ  o (النحل ۱۶:۱۹)’’ حالاںکہ وہ تمھارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی‘‘۔

اس علمِ حقیقی کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی دعوت کا آغاز ان پانچ آیات سے ہوا، جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

اس علم کے رکھنے والے، سمجھنے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اس کی اشاعت کرنے والے اور وہ جو اس سے آگاہ نہ ہوں، کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے انسانوں کے مراتب و درجات کا تعین ان کے رنگ، نسل، لسان، قومیت، صوبائیت سے نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر کیا:

اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَـآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط  قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۹) (کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیعِ فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔

اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا گیا:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ ج وَاِِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ  o (المجادلہ ۵۸:۱۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو، اللہ تمھیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جائو تو اُٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

وحی کے ذریعے انسانوں کو جس علم سے نوازا گیا قرآنِ کریم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک فضل، نعمت اور رحمت سے تعبیر کرتا ہے کیوںکہ اسی علم کی بناپر روشنی رکھنے والی آنکھ میں بینائی اور سوچنے والے دماغ میں جلا ہوتی ہے۔ اگر اس علم کو نکال دیا جائے تو دماغ نامی چیز رکھنے اور ذہن نامی غیرمادی شے کے دعوے کے باوجود ایک انسان، حیوان بلکہ اس سے بدتر بن سکتا ہے۔

وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (اعراف ۷:۱۷۹) اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

اسلامی روایتِ علم میںکتاب کا مقام

قرآن کریم نے اپنے لیے جس مختصر نام کا انتخاب کیا وہ ’’الکتاب‘‘ یعنی The Book ہے جو معرفہ ہونے کی بناپر قیامت تک کے لیے اصل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، اور اپنے سے قبل آنے والی تمام کتابوں میں جو حق نازل کیا گیا تھا اس کی تصدیق، اور جو اضافے اور تحریف کی گئی اس کی اصلاح کرکے احسن الحدیث کو انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے۔

قرآن کی دوسری عظیم سورت کا آغاز ہی الکتاب کے تذکرے سے ہوتا ہے جو بیک وقت کم از کم تین اہم پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔

اوّلاً: ہدایت، رہنمائی، حکمت، دانائی، نور اور صراطِ مستقیم اس کتاب میں متعین (definite) کردی گئی ہے۔ اس میں نہ کوئی ظنی بات ہے، نہ گمان نہ شبہہ بلکہ اعلیٰ ترین علم یقینی اور علم حقیقی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ الکتاب ہے۔

دوسری جانب یہ کتاب ہے، جسے قیامت تک غور اور تحقیق کے ساتھ پڑھا [قَرَائَ یَقرئُ] جاتا رہے گا۔ الکتاب کو نازل کرنے کا واضح مفہوم ہی یہ ہے کہ آئو اس علم و نور کی طرف ، اسے نہ صرف پڑھو بلکہ اس کے ایک ایک لفظ پر ایک مرتبہ نہیں سیکڑوں مرتبہ غور کرو تاکہ اس کے اندر چھپے ہوئے علم کے خزانے کی چند کرنوں سے فیض یاب ہوسکو۔ قرآنِ کریم کا نزول اور الکتاب کا آنا ایک کتابی ثقافت کا احیا تھا کہ وہ جنھیں آج تک اُمّی کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا، وہ اس عظیم کتاب کے حامل بن کر دنیا میں اس کتاب کے ذریعے علمی، فکری، ثقافتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی اور اخلاقی انقلاب برپا کرسکیں۔ اس الکتاب نے باربار متوجہ کیا کہ اس کے بھیجنے والے نے اسے انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ تو کوئی ہے جو اسے پڑھے، بار بار پڑھے اور اس پر غور کرے۔

ایک تیسرا پہلو جو الکتاب سے وابستہ ہے، وہ اس آفاقی کتاب اور تحریر کے ذریعے اس کے ماننے والوں کو خود ایک تحریری روایت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ علم محض سماعی نہ رہے بلکہ تحریری شکل میں آگے سے آگے بڑھتا جائے۔ جن خوش نصیبوں نے اس پیغام کو پڑھا اور سنا انھوں نے ایک نہیں بلکہ اس الکتاب میں اجمالی علم کی سیکڑوں تشریحات اور تفصیلات تلاش کر کے انسانی تحریری سرمایے میں گراں قدر اضافے کیے اور آج تک کیے جارہے ہیں۔

الکتاب کی اس عظمت اور اہمیت کے علی الرغم آج کا نوجوان اپنے اردگرد کے ماحول سے اپنی وابستگی کی بنا پر سوچتا ہے کہ کتب بینی کی جگہ اگر وہ برقی ذرائع علم کو اختیار کرے تو نہ صرف   برق رفتاری کے ساتھ بلکہ وسعت کے ساتھ وہ بہت سی معلومات کو حاصل کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا آج ایک ناقابلِ تردید ابلاغی انقلابی قوت ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے سیاسی انقلابات واقع ہوسکتے ہیں۔ یہ توسیع علم کا ایک اہم انقلابی ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن اس تمام فائدے کے باوجود سوشل میڈیا ایک ذریعہ (means) تو ہے، ایک ماخذ (origin) نہیں ہے۔ اس کا ماخذ افراد کے تاثرات، احساسات، تعبیرات، تجزیے اور تجربے ہیں، جو تمام تر دعوئوں کے باوجود محدود، وقتی،  قیاسی اور ظنی رہیں گے، جب کہ الکتاب علم کے حقیقی اور جامع مآخذ کا مقام رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر انسانی علم وجود میں لایا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا لازمی طور پر ایک جدید ذریعہ ہے جو علم کے نشرو ابلاغ میں غیرمعمولی طور پر مددگار ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ اب کتاب اور الکتاب کی ضرورت میں کمی ہوسکتی ہے کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوسکتا۔ ہاں، الکتاب پر مبنی علم کو آج نہ صرف تحریر بلکہ برقی ذرائع سے کم سے کم وقت میں تمام انسانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا یہ استعمال ایک دعوتی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔

کتاب سے رشتہ اور کتاب کی طرف رجوع بہرصورت ایک دینی، تحریکی اور علمی مطالبہ ہے۔ قرآن کریم نے اپنے بارے میں ’مبین‘ کے لفظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ اس کی ہر بات بیّن، مبنی بردلیل آسان اور واضح ہونے کے ساتھ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ نہ صرف خود یہ الکتاب بلکہ اس کے زیرسایہ وجود میں آنے والا علمی ورثہ اور روایت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سے استفادہ ایک بار نہیں بار بار کیا جائے۔ شاید بعض نوجوان اس بات کو مبالغہ سمجھیں لیکن    یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے زیرسایہ جو علمی روایت خود دورِحاضر میں وجود میں آئی خصوصاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہرقسم کی مدافعانہ فکر سے آزاد ہوکر، فکری اعتماد اور دلیل کی قوت کے ساتھ مثبت طور پر قرآن کی فکر کو اپنی سلیس تحریر میں بیان کیا ، وہ بھی اس بات کی مستحق ہے کہ اسے باربار پڑھا جائے۔ وہ تفہیم القرآن کے حواشی ہوں یا قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ہو یا خطبات اور دینیات یا دعوتِ اسلامی کا مقصد اور طریق کار، ان میں سے ہرہرتحریر کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے گا دعوتِ دین اور فہم قرآن کا کوئی نہ کوئی نیا زاویہ ہی علم میں آئے گا۔ الکتاب کا یہ معجزہ ہے کہ اس کے زیرسایہ ہر زمانے میں جو تحریر دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے وہ خود زندگی کی حامل بن جاتی ہے۔

الکتاب کے تصورِ علم کی اوّلین بنیاد العلیم کی جانب سے بھیجی ہوئی وہ صداقت ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر صرف ان پانچ آیات پر غور کیا جائے جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں تو جہاں علمی سفر کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا ہے وہاں ’پڑھنے‘ کا ادب کیا ہوگا۔     کیا انسان صرف اپنی بصارت اور سماعت پر بھروسا کرکے پڑھنے کا عمل کرے یا وہ العلیم اور علم کے خالق کے نام سے مطالعہ کرنے اور غوروفکر کرنے کا آغاز کرے۔

فرمایا گیا: اللہ کے نام سے پڑھو۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اس پڑھنے والے کی اپنی تخلیق اور حیثیت کیا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ تمام حیاتیاتی دنیا ( biological world) کس طرح وجود میں آئی ہے۔ وہ انسانی پیدایش کا نقطۂ آغاز ہو یا نباتات و حیوانات اور آبی حیات کا وجود، خالقِ حقیقی نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تمام طبیعیاتی دنیا (physical world) کا خالق بھی وہی ہے جس نے نہ صرف قلم سے انسان کو علم سے فیض یاب کیا بلکہ قلم ہی انسانی تہذیب کی نشوونما، سائنسی تحقیقات، ٹکنالوجی اور ابلاغی ذرائع کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنا۔الکتاب سے مسلسل طالب علمانہ تعلق ہی ایک انسان میں حق و باطل میں فرق، اخلاقی اور غیراخلاقی عمل میں تمیز اور عدل اور ظلم میں تفریق پیدا کرسکتا ہے۔

علم کی اصل بنیاد العلیم کا دیا ہوا علم ہے جس کا کچھ ضروری حصہ تخلیقِ آدم ؑ کے وقت انسانیت کو دیا گیا اور پھر وقتاً فوقتاً کتابوں کے ذریعے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، حتیٰ کہ الکتاب نے آکر علم کو حتمی شکل دے دی۔ اس قطعی اور حتمی علم کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب کردہ انبیاے کرام ؑتھے۔

انبیا ؑبطورِ معلمین

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت انبیاے کرام ؑ کو حاملینِ وحی بناکر بھیجنا اور وحی کے علمِ حقیقی کے ذریعے انسانوں کی فکروعمل کی تطہیر ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو چار مختلف مقامات پر معمولی تبدیلیِ ترتیب کے ساتھ ہمیں سمجھایا ہے۔ اختصار کی بناپر   ہم صرف ایک مقام کا تذکرہ کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا گیا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ج وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

قرآن کریم اس آیت مبارکہ اور سورئہ بقرہ (۲:۱۲۹و ۱۵۱) اور سورئہ جمعہ(۶۲:۲) میں بھی اسی پہلو کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انبیاے کرام ؑ بطور داعی جس مقصد کے لیے بھیجے جاتے ہیں وہ جامع شکل میں چار وظائف ہیں۔

  •   تلاوتِ آیات: اول یہ کہ اللہ کے کلام کو وہ جس شکل میں، جن الفاظ میں، اور الفاظ کی جس ادایگی و صحت کے ساتھ ان پر نازل ہوا ہے، اس میں بال برابر تبدیلی کے بغیر جوں کا توں  بطورِ امانت انسانوں تک پہنچا دیں۔ جو بھی اِس امانت کو وصول کرے گا اب یہ اس کا فرض ہوگا کہ ایک سچے امین کی طرح وہ بھی اس کلامِ عزیز کو آگے پہنچانے کا فریضہ ادا کرے۔

گویا تحریکی کارکن ہو یا قیادت، جب تک وہ اس کلامِ عزیز کے امین کی حیثیت سے اس کے الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہ اس بارِ امانت کو صحیح طور پر نہ سمجھے ہیں نہ اس کے اہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ انبیاے کرام بطورِ معلم اور داعی پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو اس عظیم کلام کو صحیح طور پر ٹھیرٹھیر کر پڑھنے، تلاوت کرنے اور اس پر غور کرنے کی تربیت دیں۔ یہ علمی اور فکری تطہیر کا مقدمہ ہے۔

  •   تعلیمِ کتاب: دوسرا کام اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس عظیم کتاب کی تعلیم ہے۔ یہ کام پہلے کام کا تسلسل ہے اور بنیادی فریضۂ دعوت ہے۔ یعنی ہر تحریکی کارکن اور قائد کا قرآن کریم کی تعلیمات کا براہِ راست سمجھنا، احکام کی حلّت و حُرمت، ترجیح، تطبیق، تخصیص، تدبیر سے نہ صرف آگاہی بلکہ اپنے قول و فعل میں اس کو اس طرح سمو دینا کہ جو بات کہی جائے اس کے لیے قرآن و سنت سے ایک دلیل دماغ میں موجود ہو۔ جو عمل کیا جائے، اس کے لیے فیصلے کی بنیاد قرآنِ کریم کی کوئی آیت یا شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل یا ارشاد ہو۔ تعلیمِ کتاب سے مراد محض کتاب میں درج آیات کا لغوی مفہوم اور گرامر کے قواعد کی روشنی میں کسی لفظ کا مصدر اور اس کے مختلف استعمالات کو بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ ہرہرلفظ کی آج کے حالات میں مناسبت اور تطبیق کرتے ہوئے اپنے ظن و گمان پر نہیں بلکہ خود قرآنِ کریم کے دیگر مقامات سے دلیل اور سیرتِ پاکؐ سے شہادت فراہم کرنا ہے۔
  •  تزکیہ و تربیت:تیسری اہم ذمہ داری جو انبیاے کرام ؑ اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی گئی وہ تزکیہ ہے۔ ہر وہ فرد جو ایک عام کارکن ہو یا قائد، اس پر یہ ذمہ داری قبولِ اسلام سے شعوری طور پر خود بخود عائد ہوجاتی ہے کہ وہ تزکیہ کے عمل کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ صحیح تزکیہ وہی ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم ان چار مقامات پر کرکے پھر پوری کتاب میں اس کے مختلف پہلوئوں کو بیان کردیتا ہے۔

تزکیے کے عمل کو قرآن کریم نے خود بہت وضاحت سے مختلف مقامات پر بیان کردیا ہے کہ اسے کس طرح کیا جائے اور اس کی سب سے مکمل اور عملی شکل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی شکل میں، رہتی دنیا تک ہمارے سامنے قابلِ عمل نمونے کے طور پر رکھ دی ہے۔   قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵) ’’فلاح پا گیا جس نے تزکیہ اختیار کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔

اس کی وضاحت یوں کردی: یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱-۴) ’’اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا  اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔

نماز، تہجد اور قرآن کا رشتہ انتہائی قریبی اور حقیقی ہے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز کی شکل میں اور قیام میں رکوع میں، حتیٰ کہ پہلو پر لیٹے ہوئے بھی، اللہ کا ذکر اختیار کرنا تزکیۂ نفس اور تزکیۂ ذات کی اعلیٰ شکل، خود کلامِ عزیز نے متعین فرما دی اور اسوئہ پاکؐ نے اسے تاریخ کی روشن مثال بنادیا۔

مال کے تزکیے کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی اور وقت اور تعلقات کے تزکیے کے لیے روزے کی سنت، لیکن اس میں بھی تزکیہ، نفس کشی کا نام نہیں بلکہ توازن و اعتدال سے سنت پاک کے دائرے میں رہتے ہوئے روزے رکھنا تجویز کیا گیا۔

مشہور حدیث کے مطابق، جب آپؐ کے تین اصحابؓ نے اُمہات المومنینؓ سے یہ سمجھنا چاہا کہ آپؐ کے لیل و نہار کیسے گزرتے ہیں، جب انھیں بتایا گیا تو انھوں نے آپؐ کی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ، ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ ہم معصوم نہیں، ہم تو عام انسان ہیں۔ اس لیے ہمیں عبادت میں کثرت کے ذریعے تزکیۂ نفس کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک نے قصد کیا کہ تمام رات نماز میں مصروف رہے گا۔ دوسرے نے عزم کیا کہ مستقل روزہ رکھے گا اور تیسرے نے طے کیا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، کبھی شادی نہ کروں گا۔ تزکیے کی ان تینوں شکلوں کو خاتم النبیین نے یک قلم منسوخ کرتے ہوئے توازن و عدل کے ساتھ تزکیے کی تعلیم فرمائی اور یہ اصول طے فرما دیا کہ نیکی سمجھ کر جو کام آپؐ  کی سنت کے علی الرغم کیا جائے گا وہ ایسے فرد کو آپؐ کی اُمت سے خارج کردے گا۔ اس طرح دنیا کے تمام مذاہب کے تصور تزکیۂ نفس اور ریاضت ِ باطنی کو ردفرماتے ہوئے آپؐ  نے ایک صالح شخصیت، صالح معاشرہ اور عادلانہ تہذیب کی تعمیر کے لیے اپنی سنت پر عمل کو شرطِ اوّل قرار دے کر انحراف کے تمام راستے بند کردیے۔

یہ تزکیہ ایوانِ اقتدار اور خود اقتدار کا بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجتے وقت وصیت کی گئی: ’’جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے [حد سے بڑھ گیا ہے] اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔([طٰہٰ ۲۰: ۴۳-۴۴)

یہ تزکیہ میدانِ جہاد میں بھی ہے کہ اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کو سربلند کرنے کے لیے لگا دیا جائے۔ یہ غیراخلاقی ثقافتی معاملات کا بھی ہے کہ ان سے پاک دامن رہتے ہوئے ان کی جانب کسی رجحان کے بغیر گزر جایا جائے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) ’’اور لغویات سے اعراض کرتے ہیں (دُور رہتے ہیں)‘‘۔

مزیدفرمایا گیا کہ اللہ کے بندے کس طرح اپنے اُوپر مکمل قابو کرکے اپنا تزکیہ کرتے ہیں:

رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں، جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیساکہ پلٹنے کا حق ہے__ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان ۲۵: ۶۳-۷۲)

اللہ تعالیٰ نے تزکیے کا کام بعد میں آنے والے کسی فرد یا افراد کی جگہ، خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قرار دے کر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ دروازے بند کردیے جن میں کوئی اور یہ تعلیم دے کہ میرے تجربے میں فلاں عمل سے یہ بات آئی ہے، اس لیے اس طریقے سے تزکیہ کیا جائے۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تزکیے کی تربیت دینے والا نہ آج تک کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ اس لیے تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم اور سیرتِ پاک میں تلاش کرے کہ سچائی کے ان دو سرچشموں نے کن کاموں کے ذریعے نفس کا تزکیہ، عقل کا تزکیہ، مال کا تزکیہ، وقت کا تزکیہ، خاندان کا تزکیہ، ثقافت کا تزکیہ، سیاست کا تزکیہ، باہمی تعلقات کا تزکیہ اور عالمی سطح پر فکر اور عمل کا تزکیہ کرنے کی تعلیم اور عملی مثال ہمارے سامنے رکھ دی ہے، تاکہ اہلِ ایمان ظن و گمان اور قیاس کی جگہ سنت ِ پاک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مال، اپنے جسم و روح، اپنی صلاحیت، اپنی فکر، اپنے اختیارات، انسانی تعلقات اور معاملات، غرض پوری زندگی کا تزکیہ کرسکیں۔ اس کام میں قائد اور کارکن میں کوئی فرق نہیں۔ جو حکم قائد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ وہ رات کے کچھ حصے کو اللہ کے حضور سرگوشی کرنے کے لیے مخصوص فرما لیں وہی حکم ایک عام کارکن   کا ہے تاکہ وہ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ حدیث کی روشنی میں کم از کم دو رکعت جیسے مختصر عمل کو    اپنا ذریعۂ تزکیہ بنالے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بظاہر چھوٹے عمل کو حدیث میں بڑے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے کیوںکہ اس چھوٹے سے عمل سے اگر اللہ اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں تو یہ دورکعت ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔ اُس سے بھی زیادہ جس کے لیے بعض مذاہب میں سنیاسی اور روحانیت کے متوالے ۳۰،۳۰ سال جنگلوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔

  •  تعلیم حکمت:انبیاے کرام ؑ کا چوتھا اہم مشن اور مقصد ِ نبوت تعلیم حکمت ہے۔ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ حکمت سے مراد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، یعنی آپؐ کا کسی کام کا کرنا، کسی بات کا حکم زبانی طور پر دینا، یا کسی بات کے واقع ہونے پر خاموشی کے ذریعے اس کی توثیق فرمانا۔ یہ حکمت اور سنت بھی قرآنِ کریم کی طرح آفاقی ہے اور جس طرح قرآن کریم پر غور اور تحقیق کرنے کے بعد تعین کیا جاتا ہے کہ شارع کا مقصد اور حکم کیا ہے، اسی طرح سنت اور حکمت پر بھی غور کرنے کے بعد اس کی تطبیق کی جائے گی۔ حیاتِ طیبہؐ نے جس طرح عبادات اور معاملات میں رہنمائی فراہم کی ہے ویسے ہی عقود (المائدہ ۵:۱) اور معاہدات میں، قانون صلح و جنگ میں، بین الاقوامی تعلقات میں، تجارت و تہذیب و معاشرت میں مستند رہنمائی فراہم کی ہے۔

تحریکی قیادت اور کارکنوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غوروفکر کرکے یہ دیکھیں کہ کس طرح آج کے حالات میں سنت اور حکمت کی تطبیق کی جائے گی۔ وہ وقتی سیاسی مفاہمت ہو یا  طویل المیعاد دعوتی، فلاحی، سیاسی اور فکری حکمت عملی، ہرہرمعاملے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سنت پاکؐ ہمیں اس حوالے سے کیا بنیاد اور دلیل فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بلکہ دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ آج کے سیاسی معاملات میں کن مصالح کو تقویت دیتا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے۔ الکتاب نے اسی بنا پر ہمیں احسن القصص سے نوازا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کا اسوہ   ہو یا حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت دائود ؑ اور دیگر  انبیاے کرام ؑ کا اسوہ، ان سب روشن مثالوں کو سامنے رکھ کر، ہم کس طرح نصوص پر مبنی سیاسی اور  دعوتی حکمت عملی وضع کریں۔

عدلِ اجتماعی کا قیام

ان چار جامع اصولوں کے ساتھ الکتاب نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیا ؑ کی دعوت اور اسوہ کے دو اہم پہلوئوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے، یعنی ان کا انسانوں کے معاشرے سے ظلم، حقوق کی پامالی، فتنہ و فساد، عناد و عداوت کو دُور کرتے ہوئے عادلانہ معاشرے کا قیام، لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(حدید ۵۷:۲۵) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔

دعوتِ دین کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام ہے، جس میں نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں اور نباتات تک کے حقوق کی ادایگی کو فریضہ قرار دے دیا گیا۔ عدل کا قیام انبیا کے مشن کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ عدل انسان کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج     اہلِ خانہ، والدین اور بیوی بچے ہوں یا پڑوسی اور محلے دار، ضرورت مند ہوں یا بے کس، یا وہ حیوانات بھی جنھیں وہ باربرداری کے لیے استعمال کرتا ہو، وہ ملازم جن سے وہ کام لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ پانی کا ایک قطرہ جو و ہ بلاضرورت بہاتا ہے، یا وہ ایک ننھی سی چڑیا ہے جسے وہ بلاوجہ مار دیتا ہے___ عدل ان تمام اُمور کا احاطہ کرتا ہے۔ غرض یہ عدلِ اجتماعی اسلامی دعوت کا وہ اہم پہلو ہے جس کے بغیر کوئی تحریکِ اسلامی اپنا مشن پورا نہیں کرسکتی۔ تحریکات اسلامی دراصل معاشرتی سیاسی، معاشی عدل کے قیام اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ کُلّی معاشرتی تبدیلی کی علَم بردار عادلانہ تحریکات ہوتی ہیں۔

اس کے ساتھ ایک اور اہم پہلو دعوتِ دین اور نظامِ اسلامی کا مکمل طور پر قائم کرنا [لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳) ’’تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘] ہے۔ گویا الکتاب جس روایت ِعلم کی طرف بلاتی ہے، وہ دین کی مکمل تعلیمات کو بغیر اس میں کوئی کمی بیشی کیے جوں کا توں، بغیر کسی مداہنت اور معذرت کے، ہر دور کی زبان میں کھل کر پیش کرنے کی تعلیم دیتی ہے، اور دوسری جانب مکمل دین کے نظام کو دنیا میں نافذ اور رائج کر کے انسانیت کی فلاح، عدل کے قیام اور اخوت کے فروغ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلام دین و دنیا کی تفریق کو   رد کرتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے تمام زمین کو مسجد بنادیا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی مکمل بندگی کے نظام کا قیام ہے۔

ثقافت علم کا اھم تقاضا

تحریکِ اسلامی کا ایک بنیادی کام تطہیر افکار اسی بنا پر ہے کہ وہ انبیاے کرام اور خاتم النبیینؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے ان چھے بنیادی فرائض کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرسکے۔ اس فرض کی ادایگی میں سب سے پہلے تحریک کو اپنی صفوں میں ثقافتِ علم کو تازہ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار کہتا ہے کہ اسے ٹھیرٹھیر کر، سمجھ کر پڑھا جائے۔

کیا تحریک میں شامل ہوتے وقت بطور ایک شرط کے چند کتب کا مطالعہ بقیہ تمام زندگی کے دوران ایک شخص کو طلب ِ علم سے بے نیاز کرسکتا ہے؟ کیا تحریکی لٹریچر کا ایک مرتبہ پڑھ لینا مقصد ِ دعوت ، طریقِ دعوت، ہدفِ دعوت، حکمت ِ دعوت، ترجیحاتِ دعوت اور تنظیمِ دعوت کے حوالے سے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کا محض ۲۰سال سے ایک تحریک سے وابستہ ہونا اس بات کی دلیل ہوسکتا ہے کہ وہ مقصد ِ دعوت، حکمت ِ دعوت، طریق دعوت اور تنظیمِ دعوت سے پوری واقفیت رکھتا ہے اور ان میں فرق کو سمجھتا ہے اور ان کے حوالے سے قرآن وسنت سے دلیل پیش کرسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے کسی اعلیٰ درجے کی سائنس کی ضرورت نہیں، صرف دو لمحات کے لیے تنہا بیٹھ کر اپنے احتساب کی ضرورت ہے اور ہرکارکن اور قائد جان سکتا ہے کہ وہ کس حد تک علم کے حسن کی خوبیوں سے آراستہ ہے اور اسے کس حد تک تطہیرفکر کے عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

تحریکی لٹریچر کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مولانا مودودیؒ اور    ان کے رفقاے کار نے ایک خاص دور کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر دین کی تشریح کی، جب کہ اب حالات بدل چکے ہیں ، اس لیے وہ لٹریچر اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے دین کی جو جامع تشریح کی اور دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اُجاگر کیا وہ تنہا ان کی تعبیر نہیں، بلکہ ان سے قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکر کا رُخ بھی یہی تھا۔ اسی پہلو کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں پیش کیا اور سیرت النبیؐ پر جو علمی کتب تحریر ہوئیں  ان سب کا مطمح نظر یہی رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی خاص دور کے لیے اور دین کے کسی خاص پہلو پر مرتکز نہیں تھی بلکہ مکمل دین کی دعوت تھی۔ اس لیے سیّدمودودیؒ کا اس دور میں انتہائی عقلی اور نصوص پر مبنی دلائل سے یہ بات پیش کرنا ہر دور کے لیے ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔

دین کے اصول وقت کے ساتھ نہ بدلتے ہیں اور نہ ان میں کوئی قدامت ہوتی ہے۔   اگر دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اب سے ۷۰سال پہلے اُجاگر کرنا ضروری تھا تو کیا آج اس کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا کل جس اسلامی نظامِ معیشت کا قیام ضروری تھا آج اُس کی ضرورت نہیں ہے؟ کل جس طرح سیاسی اقتدار ان لوگوں کے پاس ہونا چاہیے تھا جو امین اور صادق ہوں تو کیا آج یہ اصول بدل جائے گا؟ کیا کل جس شوریٰ کی ضرورت اور فرضیت تھی آج وہ باقی نہیں رہے گی؟ اس لیے یہ خیال کہ اب کسی اور دعوت کی ضرورت ہے، نہ عقل کا مطالبہ ہے اور نہ دین کے صحیح فہم کا پتا دیتا ہے۔ دین کے اصول چوںکہ عالم گیر اور آفاقی ہیں اس لیے وہ پاکستان سے باہر بھی یکساں قابلِ عمل رہیں گے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ فقہ کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودی بھی اس سے اچھی طرح واقف تھے لیکن اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے لحاظ سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ کل جو حرام تھا وہ آج حلال ہوجائے گا۔ شراب جیسے حرام تھی ویسی ہی رہے گی۔ اگر شراب کی جگہ کسی نشہ آور شے نے لے لی ہو تو وہی حکم اُس کے لیے ہوگا۔

حکمت عملی میں بھی قرآن کریم نے انبیاے کرام کی خصوصی مثالوں سے جن پہلوئوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ مستقل اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے یہ حکم دینا کہ اُس جابر، ظالم، دعواے خدائی کرنے والے سے بھی ’قول لیّن‘ (نرمی سے بات کرنا)کا استعمال کیا جائے۔ آج بھی وہی حکم ہے چاہے دعوت کا مخاطب دنیا کا سب سے زیادہ طاقت کا دعویٰ کرنے والا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ قولِ لیّن، موعظہ حسنہ، شہادتِ حق، استقامت، صبر، ایثار و قربانی، اجتہادی طرزِفکر اور جہدِ مسلسل میں لگے رہنا، وہ اصولِ دعوت ہیں جو تحریکی لٹریچر کی جان، اور قرآن و سنت سے براہِ راست ماخوذ ہونے کی بنا پر، ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔ ہاں، شہادتِ حق کے لیے دعوت کے کس مرحلے میں ترجیحات کیا ہوں گی، وقت اور حالات کے لحاظ سے توسیع دعوت کے نئے طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ اس کا تعلق اُس فقہی اصول سے ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے اور    یہ فیصلہ کرتے وقت نہ مداہنت ہوگی اور نہ باطل کے ساتھ وفاداری۔

جب تک اپنی صفوں میں روایت ِعلم کو تازہ نہ کرلیا جائے ایک تعلیمی انقلاب کے عمل کو  ملک گیر کرنے کا کام دینی صحت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ روایت ِعلم کے قیام کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جب تک ہر کارکن اور ذمہ دار مجتہدانہ مقام تک نہ پہنچ جائے صرف تطہیر فکر ہی کی جاتی رہے۔ اسلام میں پورے داخل ہونے کا آسان مفہوم یہی ہے کہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر، اس نیت سے آغاز ہو کہ زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت کی پیروی کی جاسکے۔ اس عمل کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی اور فلاح کے لیے دیگر کاموں کا کرتے رہنا ضروری ہے۔   یہ نہیں ہوسکتا کہ تطہیرفکر کے عمل کے لیے سات سال مخصوص کردیے جائیں، جب تک یہ سات سال نہ گزر جائیں کوئی اور کام نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا قرآن و سنت کی ہدایت کے منافی ہوگا۔ ہرآنے والا دن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو کچھ ایک انسان کے بس میں ہو وہ اس پر عمل کرے، اور اس انتظار میں    نہ رہے کہ جب تک وہ ایک ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جو اُس کے خیال میں ایک عالم کا ہے وہ دین کی دعوت نہ دے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ بلِّغوا عنّی ولو آیۃ کا واضح مفہوم ہے کہ ۲۳سال تک انتظار نہ کیا جائے کہ جب تک مکمل قرآن سمجھ کر اور عملاً زندگی میں نافذ نہ ہوجائے گا، ایک داعی باہر نکل کر اپنا کام شروع نہیں کرے گا۔ انسان کی جواب دہی بھی جو وہ جانتا ہے اور جو وہ جان سکتا ہے اس پر ہے، جو وہ نہ جان سکتا ہو اور نہ جانتا ہو اس پر نہیں ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کا نقطۂ آغاز وہ بنیادی اصول ہیں جن کی طرف قرآنِ عظیم ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اسلامی دعوت کے ان فکری ستونوں کو شعوری طور پر سمجھ لیا جائے تو پھر تعمیرِعمارت، تعمیرِحیات اور تعمیرِوطن کا نقشہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے، اہداف کا تعین ہوجاتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے روایت ِعلم کی حکمت عملی وضع کرنے میں آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔

اُمت مسلمہ کے حقیقی نصب العین کو قرآن کریم نے پانچ بڑی اہم اور واضح اصطلاحات میں بیان فرمایا ہے، یعنی شہادتِ حق، اقامت دین، دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اگر ان تمام اصطلاحات اور ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اظہار پر غور کیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ سب اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ اور قائم کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان سب کا مفہوم اور اقتضاء ایک ہی ہے، یعنی خود اپنے کو اور اللہ کے تمام بندوں کو نیکی کی طرف دعوت دینا، اس کے غلبے کی کوشش کرنا، اور نہ صرف خود برائی سے اجتناب کرنا اور اس کو مٹانا بلکہ اس کے شر سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ یہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

یہ نصب العین وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد اور رنگ، نسل، لسان اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اس کا قیام اُمت پر انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں فرض ہے، یعنی  مسلم اکثریتی صورت حال میں بھی اور کم تعداد کی صورت میں بھی۔ احوال و ظروف اور زمینی حقائق کی روشنی میں اس ذمہ داری کو ادا کیا جائے گا مگر ہردوصورتوں میں یہ یکساں طور پر فرض ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عالمی تناظر میں اس ذمہ داری کی ادایگی صرف مسلم معاشرے تک محدود نہیں۔ اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ حق و صداقت، قیام عدل و انصاف، تحفظ جان و مال، تحفظ عزت اور دینی و مذہبی آزادی کے لیے یہ پابندی نہیں ہے کہ اس پر صرف مسلم اکثریتی تناظر میں عمل ہوگا۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو اسلام نے ہر انسان کو بلا تفریق عطا کیے ہیں۔

قرآن کی دعوت کا مرکزی نکتہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی (طاغوت، ظلم، عدوان) سے نجات دلانا اور انسانوں اور کائنات کے رب کی اطاعت پر آمادہ کرنا ہے۔ اطاعت میں یہ پہلو مضمر ہے کہ یہ شعوری اور ارادی ہے، جبر اور لاچاری کی بنا پر نہیں۔ اس اطاعت اور زندگی میں مرکزیت پیدا کرنے کا دوسرا نام معروف، بھلائی، نیکی، حسنِ عمل، اچھائی اور حق کی دعوت اور قیام ہے۔ اس اخلاقی فریضے کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر قرآن کریم بار بار معروف کے قیام کے حوالے سے تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ ان کا بولنا معروف پر مبنی ہے (قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ، البقرہ ۲: ۲۶۳)۔ ان کی معاشرت معروف طریقے پر ہو (عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، النساء ۴:۱۹) ، حتیٰ کہ ان کی مفارقت بھی معروف کے ساتھ ہو (سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ، البقرہ ۲:۲۳۱)۔ چنانچہ ریاست کے فرائض میں بھی معروف کو مرکزی مقام دیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی جماعت کو اقتدار دے تو وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تمام ریاستی اختیارات کو استعمال کرے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

اسلام جس معاشرے اور ریاست کے قیام میں تمام انسانوں کی فلاح و کامیابی کی خوش خبری دیتا ہے، اس کی بنیاد معروف کے اخلاقی اور قانونی اصول پر ہے۔ اس اصول پر جب بھی اور جہاں بھی عمل کیا جائے گا ظلم و استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری، بدامنی اور خوف کا خاتمہ ہوگا اور معاشرے میں عدل، اخوت، بھائی چارہ، حقوق انسانی کا احترام، نسلی، گروہی، لسانی، علاقائی نفرتوں کا خاتمہ اور انسانوں کے احترام کا باعث ہوگا۔

اس اخلاقی جدوجہد اور معروف کو غالب کرنے کا دوسرا نام اقامتِ دین ہے جو تمام انبیاے کرام ؑکا مشن اور مقصدِحیات رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انبیاے کرام نے تمام انسانوں کو جو دعوت دی وہ صرف ایک قرآنی آیت میں بطور خلاصہ بیان کردی گئی ہے، یعنی اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ    وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ انسانی معاشرہ مسلم اکثریتی ہو یا نہ ہو، طاغوت کی حکمرانی میں زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جس میں طاغوت کی جگہ انسانوں کے خالق و مالک کی بالاتری اور بالادستی ہو، یہی انسانی عقل و تجربے کا مطالبہ ہے۔ معروف کا قیام اور طاغوت کے خاتمے کی جدوجہد ہی اقامت دین کی جدوجہد ہے۔

اگر کسی معاشرے میں ’حقوقِ انسانی‘ کے نام پر غیرفطری جنسی تعلق کو اخلاقاً اور قانوناً درست کہا جا رہا ہو تو ایسے معاشرے کو طاغوتی معاشرہ ہی کہا جائے گا، کیوں کہ جو عمل فطرتِ انسانی اور ہدایت ربانی دونوں کو پامال کرتا ہو اس کو قرآن کریم نے حد سے نکل جانا، اخلاق و قانون کے کناروں کوتوڑ کر معاشرے کو برائی کی لپیٹ میں لے لینے سے تعبیر کیا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں رشوت لینے کو ’حقِ خدمت‘ تصور کرلیا جائے تو یہ معاشرہ بھی طاغوتی معاشرہ ہے کہ اس میں ایک عام انسان اپنا جائز حق بھی بغیر حرام اور ناجائز کام کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر کسی معاشرے میں فرد یا کسی جماعت کی آمریت عوام الناس کی پسند کے منافی اور اخلاق و قانون کے خلاف قانون سازی کرتی ہے تو یہ بھی اس نظام کے طاغوتی ہونے کی دلیل ہے۔

اس طاغوتی، منکر، برائی اور اخلاق و قانون کے منافی معاشرے کی اصلاح اور معاشرہ و ریاست میں قانون کی بالادستی، حقوق انسانی کے قیام اور امن، بھائی چارہ، فروغِ علم، اور جان و مال اور عزت کے تحفظ کی جدوجہد ہی کا دوسرا نام اقامت دین کی جدوجہد ہے۔ گویا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں الہامی اخلاقی اقدار کا نفاذ اور محدود عقل وتجربہ رکھنے والے انسان یا انسانوں کے بنائے ہوئے خودغرضی پر مبنی طریقوں کی جگہ عالم گیر اخلاقی ضابطوں کا نفاذ۔

یہی وہ نصب العین کا شعور اور مقصدِحیات کا صحیح ادراک تھا جس کی بنا پر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی دعوت کو چند نصائح اور تبلیغی کلمات تک محدود نہ رکھا بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انھیں ایسی سلطنت عطا ہو جس کی مثال نہ ہو۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان ؑ کی یہ دعا بیان کرنے کا مقصد واضح ہے کہ اسلام امر بالمعروف کے قیام کے لیے جہاں فرد، خاندان اورمعاشرے کو    ذمہ دارقرار دیتا ہے، وہاں یکساں طور پر ریاستی قوت و اختیار کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کو ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ حضرت یوسف ؑنے مصر کی حکومت کو معاشرتی عدل، امن اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے، اور خالقِ کائنات کی اطاعت میں لانے کے لیے استعمال کیا، اور اسی بنا پر قرآن کریم حضرت دائود ؑکے حوالے سے ہمیں بتلاتا ہے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ مقرر کیے گئے تھے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ہجرت سے پہلے اور طائف کے سفر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس دعا کی شکل میں اظہار کردیا گیا کہ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۰) ’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘۔

یہ خلافت، نیابت یا امارت صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اس کی ہدایات و احکامات کا اجرا کرنے والی قوتِ نافذہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق نہ شخصی آمریت سے ہے نہ موروثی بادشاہت سے، نہ امارتِ استیلاء [جبری حکومت] سے۔ ایک حدیث صحیح نے اس خلافت و امارت کو مسئولیت کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ امارت صفاتی ہے نہ کہ موروثی۔ چنانچہ ایک امیر کو ریاست کے امور میں جواب دہ اور ذمہ دار بنایا گیا اور ایسے ہی ایک صاحب ِ خاندان کو خاندان کے اُمور پر جواب دہ، ذمہ دار اور قابلِ گرفت قرار دیا گیا ۔ گویا جو فرد بھی کسی فرضِ منصبی پر مامور ہوگا، وہ ریاست ہو یا گھر یا کوئی اور ادارہ، اس کی گرفت جواب دہی اور ذمہ داری اس ادارے میں معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی ہوگی۔ اس میں جنس، رنگ، قد اور حیثیت کی قید نہیں ہے۔ شرط صرف کسی منصب پر فائز ہونے کی ہے۔

معروف کے قیام کا نصب العین کماحقہٗ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس کے قیام کی جدوجہد ان تمام پہلوئوں سے کی جائے جن میں فرد، خاندان، معاشی اور ریاستی ادارہ شامل ہیں۔ ریاست کی قوتِ نافذہ اس لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے کہ کسی مقام پر ملکی معیشت، تعلیم، ثقافت، معاشرت، حتیٰ کہ بین الاقوامی مسائل و معاملات کا فیصلہ اگر معروف کی بنا پر ہوگا تو متوازن ترقی اور قیامِ عدل عمل میں آئے گا، اور اگر مسائل و معاملات کو ذاتی پسندو ناپسند، پارٹی کے مفاد کا پابند کیا جائے گا تو معاشرے اور ریاست میں انتشار اور نفسا نفسی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔ اسی بنا پر معروف کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اور معاشرے میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان پر مبنی نظام کا قیام انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر تقاضا ہے۔

معروف پر مبنی ریاست و معاشرے کی پہلی خصوصیت زندگی کے تضادات اور نفاق و شرک کا خاتمہ ہے۔ اسلامی ریاست کی اصل بنیاد توحید ہے، یعنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا کہ کیا اس کام سے خالقِ کائنات خوش ہوگا یا ناراض۔

قرآن و سنت انسانی جان کی حرمت پر بار بار زور دیتے ہیں، یعنی نہ صرف جان کا تحفظ بلکہ ان ذرائع کا دُور کرنا جو انسان کی زندگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں فیکٹریوں کا فضلہ دریائوں میں یا ان سے نکلنے والے غبار شہروں پر ایک دبیز تہہ کی شکل اختیار کرجائیں، اگر گاڑیاں زہریلا دھواں پھیلاتی رہیں تو ایک عام شہری کی زندگی پر اس کا اثر پڑنا ایک یقینی بات ہے۔ توحید کے اطلاق کا مطلب یہ ہوگا کہ معاشرہ اور ریاست اللہ تعالیٰ کے حکم کہ خود کو اپنے ہاتھ سے ہلاک نہ کرو (البقرہ ۲:۱۹۵) کی روشنی میں ایسے قوانین کا وضع کرنا اور نافذ کرنا مسلم معاشرے اور ریاست کا فریضہ ہوگا جو انسانوں کو پاکیزہ فضا فراہم کریں اور وہ دھوئیں اور پانی کی کثافت کی بناپر انجانی بیماریوں کا شکار نہ ہوں، اور نہ اس بنا پر ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کے نتیجے میں  ان کی زندگی مسائل کی آماجگاہ بنے۔ توحید کے اس اطلاق کا اثر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں پر یکساں ہوگا۔ دونوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا حصہ ہے۔

اسلامی ریاست اور معاشرے کے توحید (Allah's sovereignty) پر قائم ہونے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ گو، اسلامی معاشرہ اور ریاست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مامور ہے لیکن اللہ کی شریعت میں دی گئی ضمانتیں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ ریاست یکساں طور پر مسلم و غیرمسلم کی جان، مال، عزت، شہرت، نسبی پہچان اور معقول رویے کے لیے ذمہ دار ہوگی۔ اللہ کے تمام بندے اس معاشرے کے عدل، امن اور متوازن و بابرکت نظام سے مستفید ہوں گے۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کی اصل پہچان معروف کی حکمرانی ہے۔

معروف کی حکمرانی اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب نظم مملکت تنہا کسی فرد کی خواہش، راے، اور فیصلہ کا پابند نہ ہو۔ گویا نہ فوجی آمریت میں نہ بادشاہت اور نہ جمہوری آمریت جس میں کسی  نام نہاد جمہوری ملک کا صدر اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں ۹۷۰ مرتبہ ویٹو کے حق کا استعمال کرسکے۔ ایسے ہی ریاست کسی خاندان کا اجارہ نہ ہو کہ برسہا برس تک باپ کے بعد بیٹی اور پوتا یا بہو یا داماد، اپنے تعلق کی بنیاد پر حکومت کرنے کو اپنا آبائی حق سمجھ بیٹھے۔ ایسے ہی اسلامی ریاست میں کسی ’مذہبی‘ گروہ کی اجارہ داری کہ اسے الہامی طور پر اس منصب پر مامور کیا گیا ہے اور وہ منزہ عن الخطاء ہے، ناممکن ہے، جب کہ عام غلط فہمی برپا کی جاتی ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت ایک theocracy ہے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کا مطلب طالبانائزیشن ہے۔ گو، لغوی طور پر اگر غور کیا جائے تو کسی طالب علم کا بربناے علم و صلاحیت و تجربہ کسی منصب پر فائز ہونا نہ اخلاقی طور پر نہ قانونی طور پر کوئی غلطی کہا جاسکتا ہے، لیکن جو پیغام اس اصطلاح کے استعمال سے دیا جاتا ہے وہ انتہائی منفی اور اسلام کی روح کے منافی ہے، یعنی  حقوقِ نسواں کی پامالی، کوڑوں کا کثرت سے استعمال، ڈاڑھیوں کی پیمایش، تعلیم نسواں کا خاتمہ وغیرہ۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے ان تمام اتہامات میں سے کسی میں بھی ذرّہ برابر صداقت نہیں ہے۔ اسلامی نظام ریاست و معاشرے کی بنیاد ہی لازمی تعلیم و تربیت پر ہے۔ چنانچہ اسلام نے جس معاشرے کو قائم کیا اور جس ریاست کی بنیاد رکھی اس کے سربراہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زوجہ محترمہؓ مدینہ منورہ کے مشہور سات فقہا کی معلّمہ تھیں اور اُمت مسلمہ کی اس ماںؓ کی شاگرد خاتون حدیث اور علمِ حدیث میں محدثین کی معلّمہ تھی۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد اصولِ عدل پر ہے۔ یہاں کوئی فرماں بردار معصوم نہیں ہے۔ ایک خلیفۂ وقت اور ایک عام شہری قانون کی نگاہ میں مساوی ہیں۔

اگر اختصار کے ساتھ اس معاشرے اور ریاست کے خدوخال یا خصوصیات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی اصل توحید اور عدل ہے۔ ان دو آفاقی اصولوں کی بنا پر یہ تمام انسانوں کی بھلائی، معروف کے قیام اور منکر کے خاتمے کے لیے جو نظام تجویز کرتی ہے اس میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے اور نظامِ مملکت کی بنیاد مشاورت یا شوریٰ پر ہے۔ گویا اسلامی نظام نہ صرف اہلِ دانش بلکہ عوام الناس بشمول خواتین کو اپنی راے آزادی کے ساتھ دینے کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ دورِخلافت راشدہ میں جب حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ کا انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو ان کے مقرر کردہ ’الیکشن کمیشن‘ کے ممبران نے مدینہ منورہ کی خواتین سے گھروں پر جاکر ان کی راے دریافت کی اور آخرکار اکثریتی راے کی بنیاد پر نئے خلیفہ کا انتخاب عمل میں آیا۔

اس معاشرے اور ریاست کی بنیاد امانت پر ہے، یعنی ذمہ داریاں ایسے افراد کے حوالے کی جائیں جو امانت اُٹھانے کے مستحق ہوں:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ(النساء ۴:۵۸) ،مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں   اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں تین نکات واضح طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اوّلاً کسی منصب کے لیے انتخاب کرتے وقت ایسے فرد کو منتخب کیا جائے جو اپنے کردار اور صلاحیت و تجربے کی بنیاد پر امین شمار کیا جاتا ہو، یعنی اس میں اس منصب کی صلاحیت بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتا ہو۔ ایک شخص اگر تمام عمر بندوق، توپ، ٹینک، لڑاکا جہاز چلاتا رہا ہو اور اسے اس کے قد، شکل و صورت یا عسکری کامیابی کی بنا پر کسی ملک کی عدلیہ کا یا پارلیمنٹ کا یا صدارت کا منصب دے دیا جائے تو وہ اپنی صلاحیت اور تجربے کا اس منصب پر فائز ہوکر جو استعمال کرے گا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوگا۔ ایسے ہی اگر ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر کو جو جدید و قدیم ادب، فلسفہ یا معاشیات و سیاسیات سے گہری واقفیت رکھتا ہو اور تمام عمر تدریس کے اعلیٰ فرائض ادا کرتا رہا ہو، اس کی اپنے شعبے میں علمی برتری کی بنا پر اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے تو فوج، جنگی حکمت عملی اور ملک کے تحفظ و امن کا جو حال ہوگا وہ کسی پیشین گوئی کا محتاج نہیں ہوسکتا۔

دوسرا نکتہ جو یہاں سمجھایا گیا ہے وہ یہ کہ اگر بالفرض عوام الناس اندھے بھی ہوجائیں اور وہ خود درخواست کریں کہ ایک فوجی ان کا صدر یا عدلیہ کا سربراہ بن جائے، تو وہ شخص کم از کم خود اندھا نہ بنے اور اس فرمایش کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ بھی امانت کے اصول کے منافی ہے۔

تیسری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ کسی ذمہ داری کو دینے یا نہ دینے کی بنیاد نہ  خونی رشتہ ہوگا نہ سسرالی بلکہ صرف اور صرف صلاحیت اور تقویٰ ہوگا۔

اسلامی معاشرہ اوریاست کی ایک اور بنیادی خصوصیت اس کا عصبیتوں سے پاک، قانون کی بالادستی اور روح جمہوریت پر عمل کرنا ہے۔ اسلام جس روح جمہوریت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ  نہ لادینی اباحیت پسند جمہوریت ہے نہ آمرانہ جمہوریت بلکہ یہ ہرشہری کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتی ہے۔ اس میں حاکمیت رب کریم کی اور قوتِ نافذہ اللہ کے اطاعت گزار بندوں کی ہے جو امانت، سچائی، عدل اور انصاف کے اصولوں کو تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے اپنی پالیسی کے ستون بناتے ہیں۔ یہ نظام وہ ہے جس کی بابت قرآن کہتا ہے کہ اگر اسے قائم کیا جائے تو زمین اپنی نعمتیں اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرتا ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔

اُمت مسلمہ کے نصب العین، یعنی امربالمعروف کے لیے فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست بیک وقت اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ یہ کوئی استثنائی عمل نہیں ہے کہ ہر ایک   اپنے دائرے میں کام کر رہا ہو بلکہ یہ ایک متوازی عمل ہے جس میں یہ سب بیک وقت اور باہمی مشاورت و تعاون سے نصب العین کے حصول کے لیے شعوری طور پر ایک ہی سمت میں سفر کرتے ہیں۔ اگر منزل دُور بھی ہو جب بھی اضمحلال، مایوسی اور تھکن کا شکار نہیں ہوتے بلکہ صبروحکمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ قلت تعداد سے اس لیے پریشان نہیں ہوتے کہ رب کریم نے خود یہ اعلان فرما دیا ہے کہ تم میں اگر ۲۰باہمت، باشعور، مستقیم اور صابر افراد ہوں گے تو ۲۰۰ مخالفین پر غالب آئیںگے۔(الانفال ۸:۶۷)۔ چنانچہ برسہا برس کی محنت کے بعد بھی اگر اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کی تعداد بظاہر کم نظر آتی ہو تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ حق ہمیشہ باطل، طاغوت اور ظلم کی کثرت پر بالآخر غالب آتا ہے، البتہ غالب آنے کے لیے بنیادی شرط صبر، یعنی استقامت، عزم و یقین، منزل اور نصب العین کا مکمل شعور ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی ہو تو پھر تعداد کی کثرت بھی مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتی۔ سمندر کا جھاگ کتنا ہی عظیم    نظر آئے کمزور رہتا ہے، اور حق کتنا ہی محدود نظر آئے غالب آکر رہتا ہے۔

حج کی اہمیت اور افادیت کے لیے اس کا ایک رکنِ اسلام ہونا بجاے خود کافی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے نمایاں پہلو انبیاکرام علیہم السلام کی دعوت کے مرکزی اور کلیدی پیغام کو انسانوں کے لیے ایک قابلِ عمل عبادت اور مظہر اطاعت بنا دینا ہے۔ قرآنِ کریم نے تمام انبیا کرام ؑ کی دعوت کو محض دو الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے بندے بن جائو اور ہرباغیانہ سرکشی سے باز آجائو، اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶)۔ چنانچہ میدانِ دعوت مکہ کی وادیِ غیر ذی زرع ہو یا ماوراالنہر کی عراق و شام کی سرسبز و شاداب سرزمین، ہر نبی برحق نے انسانوں کے خودساختہ معبودوں کو وہ پتھر اور لکڑی سے بنے ہوں یا وہم وگمان کی پیداوار ہوں، وہ مندر اور کلیسا میں ہوں یا نہاں خانۂ دل میں محفل جمائے ہوں، وہ معاشرتی رسوم کے خدا ہوں، یا معاشی استحکام اور سیاسی اقتدار کے حریص بادشاہ ہوں، ان تمام بے اصل سرچشمۂ ہوا و ہوس کو  جہل خرد کی باطل پیداوار قرار دیتے ہوئے انسانیت کو صرف اور صرف ایک رب العالمین، احکم الحاکمین اور خالق کائنات کی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کیا۔

حج کا عظیم مقصد زندگی کے ہر عمل کو توحید ِخالص میں رنگ کر ایک کلّی انقلاب کا برپا کردینا ہے تاکہ انسان کے انفرادی معاملات ہوں، عقیدہ و عمل ہو، مرنا اور جینا ہو، ہرممکنہ عمل صرف     اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا پابند ہوجائے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو ، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ    رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

اس توحید ِ خالص کی پکار کو قرآن کریم نداے حج کے زیرعنوان یوں بیان فرماتا ہے:  ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں رکھے گئے ہیں‘‘ (الحج ۲۲:۲۶-۲۸)۔ یہ توحید خالص کی دعوت تمام انسانیت کے لیے ہے کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے آخری اور مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

حج زندگی کی بے شمار شاہراہوں کا تزکیہ کرتے ہوئے تمام انسانوں کو صراطِ مستقیم، سواء السبیل، سراجِ منیر اور الہدیٰ کی طرف بلاتا ہے تاکہ انسان خود کو ہرنوعیت کے شرک سے نکال کر ان کلمات کی تکرار کرے جو توحید ِ خالص کے پیغامبر ابوالانبیا کی زبانِ مبارک سے نکلے تھے: اِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo (الانعام ۶:۱۹)’’جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو، میں ان سب سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ گویا میں نے تمام معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی خدائوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے مقصد ِ حیات کو پالیا ہے۔ اپنی سمت کو درست کرلیا ہے، زاویۂ نظر کی اصلاح کرلی ہے اور یکسو ہوکر صرف اور صرف اللہ کو اپنا حاکم اور مولا تسلیم کرلیا ہے۔ ’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی  طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۷۹)

اس شعوری فیصلے کا اعلان وہ تلبیہ کے ہر ہر لفظ کے ذریعے سرگوشی میں نہیں بلکہ بلندآواز سے کرتا ہے کہ کائنات کی ہر شے جس تک اس کی آواز پہنچ سکے اس راستی اور شہادتِ حق کی گواہ بن جائے۔ ہاں، ہاں، میں حاضر ہوں۔ مالک تمام عظمت، تقدس، ثنائ، حمد، تعریف صرف اور صرف آپ کے لیے ہے۔ آپ ہی ہر حمدوعظمت کے مستحق ہیں۔ آپ کے سوا کوئی حاکمیت و اقتدار میں ذرہ برابر شریک نہیں ہوسکتا اور نہ کسی تعریف و توصیف کا مستحق ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی مادری زبان، اپنے ملکی لباس کو، اپنے گھر کو، اپنے کاروبار کو، اپنے دوست اور اقربا کو، غرض ہر واسطے کو چھوڑ کر صرف دامنِ توحید میں پناہ لے لی ہے۔ میں آپ کی بندگی میں آکر تمام بندگیوں سے آزاد ہوکر اپنی متاعِ حیات کو آپ کے قدموں میں پیش کرتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ آج سے میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اس عظمت والے گھر میں کیا جانے والا ایک سجدہ مجھے ان تمام بندگیوں سے نجات دے گا جن میں مَیں آج تک پڑا ہوا تھا۔

یہ توحیدی اجتماع ہر فرد کو آغاز سے تکمیل تک کلمۂ حق بلند کرنے اور بلاخوف و خطر خالقِ حقیقی کی عظمت و جلال کو ہر ایوان میں بلندکرنے ، اور بلاخوف و ہراس وقت کے جباروں کو  للکار کر ان کی آمریت اور اللہ سے بغاوت کرنے کی روش کو رد کرتے ہوئے، زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لانے اور اپنے قبلے کی درستی کے ساتھ اپنی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔

کل تک ایک شخص کا گھنٹوں نیند کے مزے لینا اس کی ترجیح تھی تاکہ وہ تروتازہ ہوسکے۔ اب وہ یہی تازگی چند لمحات کے لیے آنکھ بند کر کے حاصل کرلیتا ہے اور وقت کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی حمدوعظمت کے بیان میں صرف کرتاہے۔ کل تک اس کی ترجیح اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت، آسایش کا حصول تھا۔ اب وہ اپنے دینی بھائی کے لیے اپنے حق کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ صبروتحمل کے ساتھ اُس سچے وعدے کے پیش نظر جو  رب کریم نے اپنے بندوں سے کرلیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو فردوس کا وارث بنا دے گا، اس دنیا میں پیش آنے والی ہر آزمایش و امتحان کو خوشی کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ وہ حج کے ظاہری فوائد اخوت، رواداری، باہمی تعارف، تجارتی فروغ، مرکز توحید اور مرکز رسالتؐ سے وابستگی، اتحادِ اُمت، تعاون باہمی، سنت ِ ابراہیمی کے احیا اور ماضی کے تمام گناہوں سے نجات کے ساتھ ایک نئے   عزم و ارادے سے مسلح ہوکر واپس ہوتا ہے۔

اب عصبیت، فرقہ واریت، علاقائیت، قبائلی اور برادری کے فخر اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے۔ اس نے اللہ کے رنگ کو اختیار کرلیا ہے۔ تمام لبادوں کو اُتار کر اللہ کی بندگی کی قبا کو پہن لیا ہے۔ اب چاہے وہ دوبارہ اپنے ملک کی زبان میں بات کر رہا ہو لیکن اب سوچ کا انداز، دل کی دھڑکن، ذہن کا رجحان صرف ایک مرکز کی طرف ہے کہ کس طرح اللہ کی زمین میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرسکے، کس طرح ظلم و استحصال کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے عدل و رواداری اور  محبت و اخوت کو رواج دے سکے۔ جس اجتماعیت کا تجربہ اسے حج کے دوران ہوا ہے وہ اس کے اعتماد اور اللہ پر توکّل میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی اُمت سے وابستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیرامۃ قرار دے کر تمام اقوامِ عالم کی سربراہی کے فریضے پر فائز کیا ہے۔ اپنے تن من دھن کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینے کے عمل کے ساتھ اب اس کا اصل کردار توحید ِ خالص کو اپنے ملک میں، اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اور خود اپنی شخصیت میں ہرہرسطح پر نافذ کرنا ہے۔

حج اسے عالمی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر کلمۂ حق کے بلند کرنے اور حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ حج کا انقلابی عمل معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے فروغ اور بدی اور فحش کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہدکا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ معاشرے کو وہ تازہ خون فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی صحت کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افرا اس نظامِ تربیت سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم سرمایہ ہے جسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دعوت الی اللہ اور حکومت ِ الٰہیہ کے قیام کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرشہر اور ہرگائوں میں اللہ کے ان بندوں تک پہنچا جائے جو اس عظیم فریضے کی تکمیل کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے ہوں اور انھیں حج کے عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے منظم ہونے اور اس تربیت میں حاصل کی گئی بھلائی کو اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ گھر اور اصلاحِ اقتدار کے لیے استعمال کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔

قرآن کریم نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے دستورِحیات اور اصلاح و تربیت کا ہدایت نامہ (manual) ہے۔ اس کا ایک اعجاز یہ ہے کہ انتہائی بلیغ انداز میں، مختصر ترین کلمات میں اپنی ہدایات کو ایک عام فہم طریقے سے دلوں اور دماغوں میں اُتار دیتا ہے، تاکہ دماغ اور دل جس معاملے میں بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے فتویٰ کی بنیاد یہ ہدایت، یہ نور اور یہ دستور ہی ہو۔

قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کی ضرورت کا احاطہ کرتے ہوئے محض چار مختصر جملوں میں یہ کتابِ ہدایت ہمیں جو یاد دہانی کراتی ہے اس کی اعلیٰ ترین مثال سورئہ عصر ہے۔ یہ ان سورتوں میں سے ہے جسے ایک بچے سے لے کر ایک ۹۰سال کے معمر شخص نے بھی حافظے میں محفوظ کر رکھاہے لیکن المیہ یہ ہے ذہن میں محفوظ رکھنے کے باوجود ہم اکثر اس کے معنی اور مفہوم اور اس میں دی گئی ہدایات پر غور نہیں کرسکے۔

وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ( العصر ۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے وہ اسلام کی دعوتِ انقلاب پر ایمان ہے۔ توحید جو اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی، مطالبہ یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ خیال کرتا ہے، اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس کے فکرو عمل میں توحید کتنی موجود ہے یا اسلام پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس نے بے شمار خدائوں کو گوارا کیا ہوا ہے؟ کیا اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہو رہا ہے یا معاشرے میں رائج رسوم و رواج، طورطریقوں اور لادینی تہذیب کی خدمت میں صرف ہو رہا ہے؟ اس کا اپنا گھر کہاں تک توحید کا نمونہ پیش کرتا ہے؟ اگر وہ ایک تاجر ہے تو جو مال وہ فروخت کر رہا ہے وہ اسی معیار کا ہے جس کی قیمت لے رہا ہے یا جلد نفع کے حصول کی خواہش نے اسے معیار پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ کردیا ہے؟ کہیں وہ اپنے معاشی معاملات میں خسارے کا حامل انسان تو نہیں بن گیا، جس کا ذکر سورئہ عصر میں کیا گیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جو انسان بھی اُن چار اُمور کی پروا نہیں کر رہا وہ خسارے میں ہے۔ یہ چار اُمور ہیں: ایمان، عملِ صالح، تلقینِ حق اور مستقل مزاجی کے ساتھ دعوتِ دین۔تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ تعالیٰ پرشعوری طور پر ایمان لانا ہے: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘۔ اس ایمان لانے کو دوسرے مقام پر یوں کہا گیا کہ ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کرلی‘‘ (حم السجدہ ۳۰:۴۱)۔ ان کی محبت اور وابستگی صرف اور صرف اللہ رب العزت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۱۶۵)

اس تعلق کا مطالبہ ہے کہ وہ جھکیں تو صرف اللہ کے سامنے، توکّل کریں تو صرف اللہ پر اور ان کی کثرت ِ تعداد اور ان کے ہمراہ چلنے والے لاکھوں افراد کا آجانا انھیں اپنی طاقت پر ناز کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ وہ افراد کے ہجوم (street power) پر بھروسا کرنے یا اپنی قلت تعداد کے باوجود اپنے رب کی نصرت اور فرشتوں کے ذریعے ان کی حمایت پر زیادہ توکّل رکھتے ہوں۔ اور  اگر اللہ انھیں بڑی تعداد میں رضاکار اور کارکن فراہم کردیتا ہے تو شکر میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں اور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اس کی تلاوت، غوروفکر کے ساتھ کرتے ہیں۔ تلاوت کے آداب اور  حق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کلامِ عزیز کی ایک ایک آیت ٹھیرٹھیر کر نمناک آنکھوں اور خشیتِ قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اگر اس کیفیت میں کمی ہے تو پھر بعد کے مراحل بھی کمزور ہوں گے۔ یہ دعوت کا پہلا زینہ ہے۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنے نفس کی تربیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

دعوتِ دین دینے اور خصوصاً ان کے قائدین کو ہر وقت سورئہ صف کی دوسری آیت کو ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o(الصف ۶۱:۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔قرآن کے نزدیک ایمان ایک قابلِ محسوس حقیقت ہے۔ یہ کسی مخفی روحانی کیفیت کا نام نہیں جس کا اظہار اللہ کی بندگی کی شکل میں نہ ہورہا ہو۔ خصوصاً جو زمانے کا رُخ بدلنے اور باطل نظام کی جگہ حق و صداقت اور عدل و رواداری کے نظام کو قائم کرنے نکلے ہوں، ان کے لیے ایمان کے اس مفہوم کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ تغیر وتبدیلی کا آغاز اندر سے ہوتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف (نفس) کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۱)

ایمان اس داخلی تبدیلی کا نام ہے ،جو عمل صالح کی شکل میں اپنا اظہارکرتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا نظامِ صلوٰۃ کا قیام ہے، جس کا تذکرہ مسلسل قرآنِ کریم میں آتا ہے:  ’’یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان اہلِ ایمان کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نظامِ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۲-۳)۔گویا ایمان کا فوری تقاضا انفرادی اور اجتماعی طور پر نظامِ صلوٰۃ قائم کرنا ہے، صف بندی کر کے طاغوت، ظلم، جہالت، قتل و غارت کے خلاف جہاد کرنا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مال کی غلامی سے نکال کر اُس مال کو جو اخلاقی ضابطے کے تحت پیدا کیا ہے، اس کے نام پر اسے خوش کرنے کے لیے خرچ کرنا ہے جس نے دیا ہے۔ جس نے ایمان کے ان دو اوّلین مطالبات کو سمجھ لیا اور پا لیا، اس نے ایک بیش بہا دولت حاصل کرلی۔ اسے آخرت میں سفارش کرنے والے دو اعمال مل گئے جو روزِ محشر ربِ کریم سے سفارش کریں گے کہ آپ کے اس بندے نے آپ کی زمین پر نماز کے نظام کو قائم کیا اور آپ کی راہ میں اپنے مال کو دل میں تنگی لائے بغیر خرچ کیا۔

العصر میں جس ایمان اور عملِ صالح کا تذکرہ آیا ہے قرآن کریم کا ہرصفحہ اس کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ یہ چار آیات دعوتِ دین کے ہر داعی کو بطور ایک انعام الٰہی نازل فرما کر یہ تاکید بھی کردی کہ اپنی ذات کی اصلاح کے ساتھ حق کی دعوت کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھو۔ اسے لے کر  گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچ جائو۔ حق کی تواصی، خود اپنے آپ کو اور تمام انسانوں کو کرنا ایمان کا تقاضا اور انسانی معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا الہامی طریقہ ہے۔

مکی سورتوں میں ۱۳سال تک مکہ مکرمہ میں ایمان اور عملِ صالح پر اسی لیے زور دیا گیا کہ آگے چل کر جس نظامِ حق کو نافذ کرنا مقصود ہے، وہ اندر کی اصلاح کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ امرواضح ہے کہ معاشرے اور نظام کی تبدیلی محض عوام کے ہجوم سے نہیں ہوسکتی۔ سمندر او ردریا میں جب طغیانی آتی ہے تو سطحِ آب جھاگ سے بھر جاتی ہے اور ساتھ ہی خس و خاشاک بھی ہر جانب   پھیل جاتے ہیں لیکن قرآن کریم ظاہری شدت کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ وہ اُس تعداد کو زیادہ قوی قرار دیتا ہے جو بندگیِ رب سے سرشار ہوکر صرف اپنے مالک پر توکّل کرکے راہِ حق میں نکلتی ہے۔

ہاں، کامیابی کی اوّلین شرط ایمان کا دل و نگاہ کی گہرائی میں بس جانا اور عملِ صالح کی شکل میں ظاہر ہونا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘(العنکبوت ۲۹:۲)

جدوجہد کے دوران کارکن اور قیادت اکثر اس سوال کا سامنا کرتی ہے کہ ہم کو کام کرتے ہوئے اتنے سال ہوگئے، مگر منزل اب بھی قریب نظر نہیں آتی۔ ہم اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال ہر چیز مقدور بھر اللہ کی راہ میں لگا رہے ہیں، لیکن نتائج وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں۔ ان سوالات کے اُبھرنے کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہماری نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ہمارے وقت کا بڑا حصہ اس دعوت کے لیے استعمال ہو رہا ہے یا اپنی تجارتی، انتظامی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد چھٹی کے دن چند گھنٹوں کے لیے دعوتی کام میں لگانے کو ہم اپنے وقت کی قربانی تصور کرلیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی قرآن فہمی، سیرت پاکؐ سے قربت و تعلق، علومِ فقہ، حدیث، اصول تاریخ میں اتنا درک حاصل کرلیا ہے کہ ہم دین کی دعوت کے لیے ہر نکتے کو قرآن و حدیث اور فقہ کے اصولوں کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے عوام الناس کے سامنے پیش کرسکیں؟ کیا ہم نے اپنے مال کے حوالے سے وہ اصول اختیار کیا ہے جس میں ایک تہائی اپنے لیے، ایک تہائی اپنی اولاد اور حادثاتی مواقع کے لیے، اور ایک تہائی اللہ کے لیے صرف کیا ہے؟ اگر ایمان کے یہ بنیادی تقاضے ابھی مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور ساتھ ہی منزل کے قریب نہ ہونے کا احساس ہو رہا ہے تو کیا ان دونوں میں واقعی کوئی منطقی ربط ہے؟

اگراہلِ ایمان ، دعوتِ دین کی تحریک کے کارکن اور قائدین،ایمان کے بنیادی تقاضوں کو جیساکہ ان کا حق ہے اختیار کرلیں تو پھر قرآن کریم کا وعدہ ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ (حم السجدہ ۴۱:۳۱-۳۲)

تواصی بالحق فرضِ عین ہے، کیونکہ سورۂ عصر کے آغاز ہی میں یہ صراحت کردی گئی کہ خسارے سے بچنے کے لیے اہلِ ایمان کے کرنے کے چار کاموں میں سے ایک یہ ہے۔ لیکن اس تواصی بالحق کے لیے حق کا جاننا اور براہِ راست قرآن و سنت سے جاننے کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا شرط ہے۔ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور جادہ صبرواستقامت ان میں گہرا اندرونی رشتہ ہے۔ یہ جڑواں اُمور ہیں انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تواصی بالحق کیا صرف نماز کے لیے ہوگی، صرف زکوٰۃ کے لیے ہوگی، صرف روزے کے لیے ہوگی، صرف حج کی ترغیب کی شکل میں ہوگی یا مکمل دین اور دین کے مکمل نفاذ کے لیے؟ بات واضح ہے قرآن کریم نہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرتا ہے اور نہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں۔

حق کی شہادت،پورے دین کے نظام کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس عمل میں ترجیحات تو ہوسکتی ہیں ، تفریق نہیں ہوسکتی۔ عین ممکن ہے کہ ایک دعوتی مرحلے میں زیادہ ضرورت معاشرتی فلاحی کاموں کی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم اہلِ ایمان کے حقوق کے حوالے سے ہدایت کرتا ہے کہ نہ صرف خونی رشتوں کا احترام ہو بلکہ جارالجنب ، یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم نشین یا پڑوسی کے حق کو بھی ادا کیا جائے۔

حق کی دعوت ایک جزوقتی (part-time) کام نہیں ہے کہ جب آدمی کو کرنے کا کوئی کام نہ ہو، فرصت ہو، عمر کے ایسے مرحلے میں آگیا ہو کہ اب وقت اپنی حد کو چھوتا نظر آرہا ہو، تو وہ اللہ کے دین کے کام کے لیے پائوں گردآلود کرنا شروع کر دے۔ یہ فریضہ ہمہ وقتی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی رخصت اور کوئی تعطیل نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے انبیاے کرام نے لیلاً ونہارًا کیا اور ایک دو سال یا ۷۰،۸۰سال نہیں کیا، بلکہ ۹۰۰ سال کیا۔ یہ کرنے کے بعد بھی شکوہ نہیں کیا کہ لوگ ہی ایسے ہیں کہ ایک کشتی بھر تعداد کے علاوہ دعوت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ آخر وقت تک، حتیٰ کہ جب طوفانِ نوحؑ کا آغاز ہوچکا تھا، اس وقت بھی مستقل مزاجی، لگن اور تڑپ کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا۔ دعوتِ حق کا کام تعداد کی قلت و کثرت سے بلند کام ہے۔ یہاں ایک فرد کو صحیح انداز سے دعوت پہنچا دینا بھی ایسے ہی نجات کا باعث بن سکتا ہے جیسے ایک پوری قوم کو ہدایت سے آشنا کردینا۔ صبرواستقامت کی کمی کا اظہار اُس پریشانی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بے اعتمادی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں پھر نتائج کیوں نہیں نکل رہے۔ کیا کسان فصل اچھی نہ ہونے پر زمین کو طعنہ دیتا ہے یا اپنی سعی اور کوشش کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے؟ قرآن کریم نے جو قولِ فصیل دیا ہے وہ حق اور قیامت تک صداقت کا حامل ہے کہ اگر واقعی صبروحکمت کے ساتھ دعوت دی جائے تو نہ صرف کارکن بلکہ قائدین کی جماعت پیدا ہوسکتی ہے: ’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے قائدین (ائمہ و پیشوا) پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔(السجدہ ۳۲:۲۴)

حق کی نصیحت نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے خاموش اور بے لوث طرزِعمل سے کرنا فی الواقع ایک صبرآزما کام ہے۔ عوامی تحریکات میں بظاہر ہزاروں افراد جمع ہوجاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی دعوت اور شخصیت کا کمال ہے۔ وقت آنے پر حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا مزاج عوامی ہنگاموں سے مختلف ہے۔ یہ محض جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے ،بلکہ فکروسوچ کو ہلادینے والی فکر اور انسان کی شخصیت کو سرتاپا تبدیل کر دینے والی تربیت کا نام ہے۔ شخصیت کی تبدیلی کے لیے ایک فرد کے ذہن اور ترجیحات کو نئے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ یہ اصلاحی عمل غیرمعمولی صبروحکمت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال مکی دور کے وہ ۱۳سال ہیں جو اپنی اثرانگیزی کے لحاظ سے ۱۳قرنوں سے کم نہیں کہے جاسکتے۔ ان ۱۳سالوں میں شخصیت وکردار کے جوہر کو ایسی جلا بخشی گئی کہ خاک کا ہر ذرّہ ایک چمکتا ہوا چاند بن کر توحید کے محور کے گرد گردش میں آگیا۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اصلاحی تحریکات بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرتی ہیں، جب کہ سیاسی تحریکات صرف سیاسی اقتدار کے حصول میں اپنی ساری قوت صرف کردیتی ہیں۔ اصلاحی تحریکات فرد، خاندان اور معاشرے میں اصلاح و تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ اپنے دور کے فکری نظریات اور معتقدات کا تنقیدی جائزہ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان مسائل کا حل پیش کرنے پر بھی مامور ہوتی ہیں۔ اس ہمہ جہت جہاد میں ان کی قوتیں مختلف محاذوں پر تقسیم ہوجاتی ہیں۔ گو ہدف تبدیلیِ نظام ہی رہتا ہے لیکن بیک وقت فکری محاذ پر معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر توجہ دینے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل قدرے طویل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں یہ کام قیادت کا ہے کہ وہ معاشرے کے دبائو کو سمجھتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر کامیابی کی رفتار کا تعین کرتی رہے۔

قرآن کریم نے اس نوعیت کی صورتِ حال کا تذکرہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کے تناظر میں بار بار کیا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ  ’’آخر اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘۔ جواب ظاہر ہے جو لوگ اپنے رب پر مکمل ایمان کے ساتھ اس کے دین کی سربلندی کے لیے، اس کے بتائے ہوئے طریقے سے ہلکے اور بھاری نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان کی امداد کے لیے فرشتوں کے پَرے کے پَرے اُترتے ہیں اور دشمن کے جوڑ جوڑ پر چوٹ لگا کر اسے پسپا کردیتے ہیں۔ ہاں،یہاں پھر  شرط اوّل اللہ پر مکمل ایمان اور صبرواستقامت کا رویہ ہے۔

کامیابی کی کنجی احتساب کے عمل میں ہے کہ ہرہرفرد اپنا احتساب کر کے دیکھے کہ وہ کس حدتک ان مطالبات پر پورا اُترتا ہے جو تحریک اپنے کارکنوں سے کرتی ہے۔ وہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی اور طلب کیے جانے پر بروقت حاضر ہو یا مالی اعانت یا نمازوں اور دیگر عبادات کا اہتمام، قرآن کریم کی تلاوت و فہم ہو یا اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے گائوں، گلی کوچے میں جاکر ان کی امداد کرنا یا اپنے گھر میں اہلِ خانہ او ر رشتہ داروں کو دعوتِ حق پہنچانا، احتساب کا عمل ہی ہمیں صحیح جواب فراہم کرسکتا ہے کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے۔

العصر کا پیغام بہت آسان ہے ۔ اپنی سیرت و کردار کو مثالی داعی کی شکل دی جائے تاکہ ہمارا ہرعمل دعوت کی پکار بن جائے اور ربِ کریم کے ہاں مقبول ہوجائے۔ تبدیلیِ زمامِ اقتدار کو اپنی تمام اہمیت کے باوجود انتہائی منزل و مقصد نہیں کہا جاسکتا۔ انتہائی مقصد تو صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے لیے معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔

مسلم دنیا ابھی مصر میں فوجی قیادت کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل اور تحریکِ اسلامی مصر پر نئی ابتلا و آزمایش ، تیونس میں فوجی قوت کے استعمال کے بغیر اسلامی پارٹی کی گرفت ڈھیلی ہونے، عراق میں شیعہ اور سُنّی ٹکرائو اور شام میں بشارالاسد اور اسلام دوست شامی آبادی کے درمیان مسلح آویزش کے صدمات سے دوچار ہی تھی کہ یمن میں ایک نئے محاذ کے کھلنے سے خطے میں امن، سلامتی اور تحفظ کے نئے مسائل اُبھر کر سامنے آگئے۔

تقریباً ایک عشرہ قبل اُردن کے شاہ عبداللہ نے صدام حسین کا تختہ اُلٹنے کے موقعے پر امریکا کے اس اقدام پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے میں shia cresent کا اثر بڑھے گا۔ گویا مسلم دنیا کو شیعہ سُنّی کی عینک سے دیکھ کر اس میں نااتفاقی اور ٹکرائو کا پیدا کیا جانا مغرب زدہ ذہن اور مغربی مراکز دانش (think tanks) کا محبوب موضوع آغاز ہی سے رہا ہے۔ عرب بہار ایک اعلیٰ جمہوری مقصد کے لیے برپا ہوئی تھی۔اسے بھی مغربی طاقتوں نے کامیاب نہ ہونے دیا اور شرق اوسط میں مسلم ممالک میں بدامنی، لاقانونیت اور آمریت کے فروغ کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرنے میں اپنی حکمت عملی کا استعمال کیا۔

عراق میں ایرانی تربیت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی قوت نے ان خدشات کو تقویت دی لیکن جلد ہی حزب اللہ نے اپنے اثر کو شام میں بھی بڑھا دیا۔ ایران کے معروف عسکری ماہر جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں بطور عسکری مشیر ایران کے القدس بریگیڈ کو جو ایران کے انقلابی Revoltionery guards کی شاخ ہے، براہِ راست اپنی نگرانی میں متحرک رکھا ہوا ہے۔

ان حالات میں ۲۶مارچ ۲۰۱۵ء کو سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اس کی فوج پڑوسی ملک یمن میں کارروائی کر رہی ہے تاکہ ’حقیقی حکومت‘ کو بحال کیا جاسکے۔ اس سے قبل منصور ہادی کو    ان کے قصرِصدارت پر قبضہ کر کے حوثی قبیلے کے جنگ  ُجو افراد نے عدن بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور جب حوثی قبیلے کی افواج عدن کے قریب پہنچیں تو وہ سعودی عرب میں پناہ گزین ہوگئے۔

حوثی قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں کی فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں اور قبائلی نظام میں ایک سے زائد فقہی مسالک کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس لیے ان میں ایک بڑی تعداد زیدی فقہ کو ماننے والوں کی بھی ہے جو شیعہ مسلک میں سب سے زیادہ اہلِ سنت کے قریب فرقہ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے دوران حوثی قبیلے نے اپنے آپ کو بہت منظم کرلیا ہے اور اب یہ گوریلا جنگ کے تمام طریقوں سے مکمل طور پر لیس ہے۔ یمن کے چپے چپے سے ان کی واقفیت، یمن کی معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار کی بنا پر انھیں عوام کے ایک طبقے کی حمایت بھی حاصل ہوچکی ہے۔ اس لیے اس پورے قضیے میں فیصلہ کن امر جنگ اور اسلحے کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ بعض مغربی مبصرین کا یہ انتباہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں امریکا کے لیے ویت نام ایک مسئلہ بناتھا، ایسے ہی شرق اوسط میں موجودہ تنازع بڑی قبیح اور خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔

ان حالات میں یمن کے عبوری صدر (transitional president) کی دعوت اور ان کی حکومت کے دفاع اور بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدام نے شرق اوسط کی صورت حال کو مزید  گمبھیر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کا کردار بھی بڑا مخدوش اور حالات کو بگاڑ کی طرف لے جانے والا ہے۔ خانہ جنگی اب ایک علاقائی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو پورے شرقِ اوسط کے لیے بڑی خطرناک ہے۔

تازہ ترین اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ مصر اور ۱۰ ہمسایہ ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کی ہوائی فوج کے حملوں میں حصہ لینے کے باوجود ابھی تک اس کارروائی کے متوقع اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔ مغربی ابلاغِ عامہ کے تبصروں اور تجزیوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تنہا ہوائی حملوں سے حوثی قبیلے کی پیش قدمی پر کوئی فیصلہ کن اثر پڑنا مشکل ہے۔ ان حملوں کے باوجود حوثی قبیلے نے عدن کی اہم بندرگاہ پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ ہادی کی ہمدرد فوج میں بھی پھوٹ کے آثار ہیں اور ان میں سے کچھ حوثی قبیلے کے ساتھ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ اس بنا پر مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ ہادی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور حوثی بغاوت پر قابو پانے کے لیے زمینی افواج کو میدان میں اُتارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جو خود اپنے اندر بے پناہ خطرات اور ایک مستقل جنگ کے امکانات رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم دوبدو جنگ سے کہیں زیادہ گوریلا جنگ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا سلسلہ لامتناہی ہوسکتا ہے اور جس کی تباہ کاریاں بڑی بڑی عسکری طاقتوں کے لیے طویل عرصے تک برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں مسلم دنیا اور مغرب دونوں کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ خطے کو مزید خون خرابے اور طویل عدم استحکام سے بچانے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

اس تناظر میں سعودی عرب کے ہمسایہ اور دوست ممالک کا کردار کیا ہو اور مسئلے کو حل کی طرف کس طرح لے جایا جائے؟ یہ نہ صرف ہر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے لیے بلکہ مسلم دنیا کے ہر شہری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

مصر اور سعودی عرب کو اس سے قبل ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جنوبی اور شمالی یمن کے باہمی تنازع کے تناظر میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے، اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک قوت کے استعمال کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے بلکہ سعودی عرب کو اپنی جغرافیائی حدود کا ایک حصہ کھونا پڑا۔ مصر نے دوبارہ خلیج کی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو اجتماعی فوج بنائی ہے اس میں اپنی افواج کو شامل کرایا ہے اور مصری بحری بیڑے نے عدن پر گولہ باری بھی کی ہے۔ عربوں کی مشترکہ فوج جو کچھ کر رہی ہے اس کے مثبت نتائج کا نکلنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔

اس نازک صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر جو محتاط موقف اختیار  کیا ہے۔ اسے سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں گوپسند نہیں کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ    سعودی عرب کے ساتھ مکمل جذباتی اور دینی اتحاد کے پس منظر میں پاکستان کا کردار ایک قلبی دوست اور رفیق کار ہی کا ہونا چاہیے۔ جس کا ہدف جنگ کی آگ کو بجھانا، امن کے حالات پیدا کرنا، یمن کی بغاوت کو بطریق احسن قابو میں لانا، حقیقی مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرنا اور علاقے میں دوبارہ دوستا نہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور علاقے میں ایران کے کردار کو ان حدود کا پابند کرنا ہے جو علاقائی امن کے لیے ضروری ہے۔ نیز علاقے کو   فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت سے بچاکر اُمت کی وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کی راہوں کو استوار کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن کرنے کا اصل کام یہی ہے۔

اسلامی بین الاقوامی قانون کی بنیاد اصلاح اور ٹکرائو کو دُورکرنے پر ہے۔ سورئہ حجرات میں فرمایا گیا:

وَاِِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ج فَاِِنْم بَغَتْ اِِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِِنْ فَآئَتْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الحجرات ۴۹:۹) اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر  اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ      اللہ انصاف کرنے والوں کو  پسند کرتا ہے۔

اس آیت ِ مبارکہ میں قرآن کریم اہلِ ایمان کے درمیان قانون صلح و جنگ کے اصول کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔ پہلی بات جو بطورِ فریضہ بیان کی گئی ہے دو مسلمان گروہوں کے درمیان جنگ کی شکل میں صلح کروانا ہے۔ مسلمان تماشائی بن کر جنگ و جدال کو گوارا نہیں کرسکتا۔ امن اور صلح کی تمام کوششیں، ہرقسم کے دبائو کا استعمال جب ناکام ہوجائے تو پھر حکم دیا گیا ہے کہ یہ تحقیق کی جائے کہ ظالم کون ہے چاہے وہ کسی مسلمان کا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ہم قبیلہ اور ہم برادری ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ تحقیق سے مراد مغربی میڈیا کی بے بنیاد افواہوں پر اعتماد نہیں ہے بلکہ اپنے ذرائع سے صحیح معلومات کاحصول ہے۔ اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوجائے کہ ایک فریق ظلم کر رہا ہے تو پھر مظلوم کے ساتھ مل کر ظالم کی اصلاح کے لیے جنگ میں حصہ لینا فرض کردیا گیا ہے۔ یہاں بھی مطلوب یہ نہیں ہے کہ ’ظالم‘ کا صفایا کردیا جائے۔ اس کے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو بغیر کسی تحقیق کے آگ کے شعلوں میں تباہ کردیا جائے بلکہ ظالم کی اصلاح مقصود ہے۔ اس لیے فوراً یہ بات فرمائی گئی کہ اگر جنگ کے نتیجے میں ظالم راہِ راست پر آجائے تو پھر انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ عدل مطالبہ کرتا ہے کہ ظالم کے زیر ہوجانے کے بعد نہ اسے غلام بنایا جائے ، نہ اسے ابدی دشمن سمجھا جائے، نہ اس کے بارے میں دل میں نفرت اور شک و شبہے کو جگہ دی جائے بلکہ اب وہ دوبارہ تمھارا بھائی ہے۔ سبحان اللہ! کتنا عادلانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہے کہ جنگ کے زخموں کو اب اخوت کی محبت و درگزر کے مرہم سے مندمل کردیا جائے۔ یہاں کوئی مستقل حزبِ اختلاف اور دشمن گروہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ کام اللہ کے تقویٰ، خوف اور خشیت کے ساتھ کیا جائے تاکہ مستقل امن اور اعتماد بحال ہوسکے۔

قرآن کے اس بین الاقوامی قانون صلح و جنگ کے سلسلے میں اہلِ ایمان کے درمیان جنگ کی شکل میں ہدایت کی موجودگی میں مسلم ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں رہتی کہ وہ قرآن کے حکم پر خلوصِ نیت اور عظیم تر جدوجہد کے ساتھ اپنی حد تک کوشش میں کمی نہ کریں اور حالات کی سختی سے قطعاً نااُمید اور متاثر نہ ہوں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کا محتاط رویہ اسی قرآنی اصول کا مظہر نظر آتا ہے۔ سعودی عرب سے ہمارا گہرا اور دیرینہ تعلق ہماری خارجہ پالیسی کا ایک ستون ہے اور پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے دوست اور پشتی بان اور دُکھ درد اور خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں۔ حرمین شریفین کی تقدیس اور ان کا تحفظ ہماری مشترک ذمہ داری ہے۔ اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہو تو خطرے کی اس گھڑی میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہمارا فرض ہے۔ لیکن اس واضح common interest کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سعودی عرب کے حقیقی دوست کی حیثیت سے اسے ہر اس گرداب میں پھنسنے سے بچانے کی کوشش کریں جو اس کے اور خطے کے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث ہوسکتا ہے کہ حقیقی دوستی اور خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے۔

ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سعودی عرب کے مفاد کے پیش نظر مصالحت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پورا علاقہ ایک طویل المیعاد جنگ اور تنازعے کی دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ ہماری اس راے کی بنیاد وہ زمینی حقائق ہیں جنھیں مغربی ابلاغِ عامہ غیرمعمولی طور پر غلط سلط کرکے پیش کر رہا ہے۔ یہ بات زوروشور سے اور بار بار کہی جارہی ہے کہ حوثی شیعہ قبیلہ ہے، جب کہ اس قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں مسالک کے پیروکار موجود ہیں۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یمن میں اندرونی خانہ جنگی میں شیعہ سُنّی آپس میں نبردآزما ہوگئے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یمن میں زیدی فقہ کے ماننے والے اور شافعی مذہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ معاشرتی تعلقات کے ساتھ موجود ہیں۔

بعض معتبر ذرائع نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حوثی قبیلے نے بیش تر اسلحہ وہ استعمال کیا ہے جو ہادی کی حمایتی فوج کے ذخیروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایرانی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کچھ ایرانی نیشنل گارڈ کے کمانڈر اور کارندے بھی حوثی قبائل کے ساتھ ہیں۔ یہ بہت تشویش ناک صورت حال ہے لیکن اس قضیے کو شیعہ سُنّی جنگ سے تعبیر کرنا حقائق اور مصالح دونوں کے خلاف ہے۔ گو،مغربی طاقتوں کی حکمت عملی آج سے نہیں، عراق کی جنگ سے یہی رہی ہے کہ کسی طرح شیعہ سُنّی کو ٹکرایا جائے تاکہ اندرونی امن قائم نہ ہو اور مغربی طاقتیں جس طرح چاہیں خطے کے وسائل سے فیض یاب ہوتی رہیں۔

سعودی عرب کے وسیع مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سعودی عرب اور یمن میں جلد از جلد جنگ بندی ہو اور اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے۔ یہ مسئلہ دوممالک کی سرحدوں پر ہونے والی جنگ کا نہیں ہے بلکہ خود اندرونی استحکام کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ یمنی الاصل افراد پر مبنی ہے اور یہ شیعہ نہیں بلکہ سُنّی ہیں۔ ماضی میں بعض معروف شخصیات جو سعودی عرب کی اعلیٰ وزارتوں پر فائز رہی ہیں ان کا قبائلی تعلق یمن کے قبائل سے ہے۔ دو معروف وزرا میں تیل کے وزیر اور وزیرتعلیم کا تعلق یمن سے تھا۔ اس لیے یہ تنازع دو ملکوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔

اگر اس مسئلے کو فوری طور پر صلح اور مصالحت کی طرف نہیں لے جایا گیا تو یہ آگ محض سرحدوں پر نہیں رہے گی۔ پاکستان کا دوستی، اخوت اور ہرلحاظ سے قربت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس آگ کو پھیلنے سے روکیں کیونکہ جنگ اس کا حل نہیں ہے۔سعودی عرب سے یگانگت کے اظہار کا صحیح راستہ اس جنگ کو روکنا ہے اور ایران سے دوستی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے اس علاقے میں ہر ایسے کردار سے روکا جائے جو فساد کا باعث ہو۔ یہ راستہ نازک اور مشکل راستہ ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے۔

اس کے مقابلے میں امریکی مفاد یہی ہے کہ مسئلے میں زیادہ سے زیادہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر معاشی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو اور وہ اپنی اسلحے کی سوداگری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکے۔ وہ بظاہر یہی کہتا رہے گا کہ سعودی عرب اس کا روایتی حلیف ہے۔ اس لیے اس کی افواج اور اسلحہ اس کے لیے حاضر ہے ، جب کہ سعودی عرب کے تیل کو کم قیمت پر خریدنے کے بدلے اسلحہ دے کر وہ اپنی معیشت کوچمکاتا رہے گا اور سعودی عرب کو ایک ختم نہ ہونے والی جنگ میں دھکیل دے گا۔

ایران کو اس عرصے میں خطے میں جو برتری حاصل ہوئی ہے اور جس طرح اس کے روایتی ’بڑے شیطان‘ کے ساتھ تعلقات میں استواری آئی ہے خواہ وہ اس کی بڑی سیاسی فتح ہو، لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق اور شام میں اس کے کردار نے بڑے بنیادی سوالات کو اُٹھا دیا ہے۔  ایران کی ضرورت علاقے میں سب کے ساتھ دوستی ہے، علاقے میں تفرقہ اور گروہی اور فرقہ وارانہ تصادم سے بالآخر اس کو اور علاقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔اسی طرح شام میں بشارالاسد کی حمایت میں ایران کے رضاکاروں کا حصہ لینا، اسلحہ فراہم کرنا ، لبنان اور عراق میں عسکری تربیت یافتہ  حزب اللہ کا کردار، ایران کے خطے میں عزائم کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔

پاکستان اور ایران کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اس نازک موقعے پر ایران سے تعلقات کو کشیدہ نہ کرے بلکہ دونوں ممالک سے وسیع تر مفادات کے پیش نظر مصالحت اور صلح جوئی کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔

مغرب کی حکمت عملی اس تنازعے میں واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ وہ جنگ جو آغاز میں اسلام اور مغرب کی جنگ قرار دی جارہی تھی، اور وہ دہشت گردی جس کا ہدف مغرب کو قرار دیا جا رہا تھا، اب وہ مسلمانوں کی اندرونی جنگ بن جائے اور وہ تمام مسلح گروہ جو کل تک مغرب کو نشانہ بنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے اب مسلکی اختلاف، قبائلی عصبیتوں اور علاقائی مفادات کے غلام بن کر ایک دوسرے کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنائیں۔ شام میں نام نہاد اسلامی حکومت کا قیام بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔

پاکستان کو اس نازک مرحلے میں عالم گیر اسلام دشمن قوتوں کے عزائم اور حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانے کے لیے ہوش اور عقل کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ جذبات اور وقتی مصالح سے بلند ہوکر ملّت کے وسیع تر مفاد کی بنیاد پر قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں مصالحت، بھائی چارہ اور جنگ کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس عظیم کردار کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

نوٹ: یہ شذرہ طباعت کے لیے جا رہا تھا کہ سعودی عرب کے ایک فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمدالعسیری کے بیان اور یمن کے صدر منصور ہادی کے اعلان سے یہ دل خوش کُن اطلاع ملی کہ سعودی حکومت اور اتحادی قوتوں نے فضائی آپریشن روک دیا ہے ، اور مسئلے کے سیاسی حل کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ نیز انسانی بنیادوں پر متاثرین کی امداد کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔

اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی فرمائے اور انھیں مل جل کر اپنے تمام اختلافی اُمور کو حل کرنے اور اپنے وسائل کو اُمت مسلمہ اور انسانیت کی خدمت میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ اور مغرب کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے پیٹ بھرنے کے بجاے اپنے عوام کی مشکلات کو دُور کرنے، غربت کا خاتمہ، صحت اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کرنے کا سامان کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تمام ممالک میں حقوقِ انسانی کی پاسداری، انصاف کے قیام اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی سعی کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوسکے۔

اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ    خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غورو فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنت ِانبیا ؑبنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑسے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔

اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجاے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک   تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلاشبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال برعظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔

یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کردیا جائے گا۔

تصورِ خلافت

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورئہ نور میں فرمایا گیا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔

اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :

وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا  یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o (النور ۲۴:۵۵) ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔

استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورئہ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ  ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸-۱۲۹) موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔

سورئہ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:

وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o (الانعام ۶:۱۳۳)تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔

ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔

اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت

یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative)کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کرلیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں،   ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جاسکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنادیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہوجاتی ہے    ؎

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

بلاشبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اورترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic )عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گوداور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہرلمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔

بلاشبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ  صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہرفرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خریدوفروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ  o (التوبہ ۹:۱۱۱-۱۱۲) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔

سورئہ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،    تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میںاحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرام ؑنے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہرہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامت ِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے۔

فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہرادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّــہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ o وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۴-۲۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملت ِ اسلامیہ او رحزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال   ؎

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے  تقاضوں کے صحیح ادراک اور  ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔

حاکمیت اعلٰی کا اختیار

اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ 

اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔

قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کردی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ   وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰)اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کرکے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereign نہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں،   یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔

اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامت ِبندگی بن جائے۔

خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹرشپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔

خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیاے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت دائود علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی   اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کردینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دارالتذکیر ۲۰۰۲ئ) کے صفحات ۱۸ تا ۲۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔

مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ ۲- یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ ۳- یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۴- یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔ ۵- اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔ ۶- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔ ۷- یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ ۸- یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔

اسلام میں تصورِ قومیت

اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ  (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علماے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصور ِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:

ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ئ، ص ۶۷)

قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ـ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ برعظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔

مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان   بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس   غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔

ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محـصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکروفحش کو   دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔

آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرناہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔

یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ’’ ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔ اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔

آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفروشرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دوٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o (التوبہ ۹:۷۳)’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جاے قرار ہے‘‘۔

شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔  ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں،  یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط ِمبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ راے بلاشبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔

قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمت ِمسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔

انتھا پسندی کی تکرار

ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دودہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جارہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟

کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو  کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔

یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبروتحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کردینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟

اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکات ِاسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علماے پاکستان یا جمعیت علماے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پرعمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔

حقیقت پسندی کا تقاضا

پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہرطالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہدنامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔

اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خداخوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔

اسلامی ریاست انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میںصرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔

ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصد ِ شریعت جو مقاصد ِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔

اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی راے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہوجائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔

مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور  تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتربیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theology اور کہیں Christian Democracy کے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔

 یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation State ہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کرکے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Order قائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آچکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔

اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہرغلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست  کے تصور ہی کو غیرضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 

سوال: دعوتِ دین اور سیاسی و انتخابی جدوجہد دو بالکل مختلف میدانِ کار ہیں جو بالکل مختلف افراد کار، دعوت و پیغام، اسلوب اور طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو غور طلب ہیں:

۱- جب ایک دینی جماعت عوام کو دعوتِ دین دیتی ہے تو وہ سچائی، نیکی، عملِ صالح اور آخرت کی دعوت دیتی ہے اور اس میں وہ عوام کی پسند وناپسند کو سامنے نہیں رکھتی، جب کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے پیغام یا دعوت میں عوام کی پسندو ناپسند کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔

۲- دینی جماعت جب عوام کو حق اور عملِ صالح کی دعوت دیتی ہے تو عوام کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کل ہم سے یہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے، جب کہ سیاسی جماعت کا معاملہ ایک سودے بازی (bargaining) یا کچھ لو اور دو (give & take) والا ہوتا ہے کہ عوام آج ہمیں ووٹ دیں، کل ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔

۳-دینی جماعت سے عوام کو کوئی توقعات نہیں ہوتیں، جب کہ سیاسی جماعتوں سے عوام توقعات وابستہ کرتے ہیں۔

۴- دینی جماعت کو نتائج کی پروا نہیں ہوتی، چاہے لوگ اس کی دعوت قبول کریں یا نہ کریں، جب کہ سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کو ووٹوں اور نشستوں کی تعداد سے پرکھا جاتا ہے۔

۵- دینی جماعت کا کارکن نیکی و حق کا کھلم کھلا نمونہ ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ وہ اپنے قائد یا کارناموں کی بات نہیں کرتا، جب کہ سیاسی جماعت کا کارکن عوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنی قیادت اور پارٹی کے کارنامے گنواتا ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاتا اور ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔

۶- دینی جماعت کا کارکن تشہیر یا پروپیگنڈے پر بہت کم توجہ دیتا ہے، جب کہ ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں تشہیر و پروپیگنڈے کی بہت اہمیت ہے اور ان کا مقصد حصولِ اقتدار ہے۔

یہ وہ ابہام (confusion) ہے جو مجھے اُوپر سے نیچے تک ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہم نے کام تو بہت بڑا اُٹھا لیا ہے___ دعوتِ دین ، سیاسی جدوجہد، رفاہی کام، بین الاقوامی معاملات___ لیکن ہرمیدان کی وسعت اور جزئیات کا پوری طرح اِدراک نہیں کرپائے۔ خیال رہے کہ کامیابی کے لیے صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ واضح حکمت عملی بھی درکار ہے۔

جواب: ان سوالات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستہ ساتھیوں میں سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ تنقیدی ذہن کے ساتھ سوچنا ہی تحریک کو زندہ رکھتا ہے۔ اسی بناپر حدیث نبویؐ میں اختلاف راے کو رحمت قرار دیا، اور قرآنِ کریم نے اس پہلو کو  ایک زیادہ جامع اصطلاح، یعنی شوریٰ سے تعبیر کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنے تمام اُمور میں مشاورت کرو۔ ظاہر ہے مشاورت اسی وقت ہوگی جب ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں اور ہرتجویز پر غور کرنے کے بعد جب کسی ایک راے پر اتفاق یا اجماع ہوجائے توپھر عزم اور توکل کا سہارا لیا جائے۔

 سوالات کی ترتیب کے لحاظ سے چند قابلِ غور پہلو تحریر کیے جارہے ہیں۔

یہ طے کرنے کے لیے کہ کیا دعوتِ دین کی جدوجہد اور سیاسی اور انتخابی جدوجہد دو مختلف میدان ہیں، ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن کریم میں انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ، حضرت دائود ؑاور حضرت یوسف ؑنے، جن اُمور کو ہم آج سیاست اور گورننس سے تعبیر کرتے ہیں، نہ صرف اپنی دعوت کا لازمی جزو سمجھا بلکہ عملاً نظامِ حکمرانی کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا:

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ  o وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط (یوسف ۱۲:۵۵-۵۶) یوسف ؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔

گویا حضرت یوسف ؑ کا دائرۂ اختیار محض مالیات تک محدود نہ تھا بلکہ آپ تمام اُمور مملکت پر اختیار رکھتے تھے اور جہاں جہاں عزیزِ مصر کا اثر تھا وہاں وہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔

 حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں بھی ملتا ہے: ’’یاد کرو جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا‘‘۔(المائدہ ۵:۲۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مکی دور میں جو دعا رب کریم نے آپؐ کو     تعلیم فرمائی وہ محض مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے ذریعے اقامت دین کی دُعا تھی۔’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں کہیں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار [سُلْطَانًا] کو میرا مددگار بنادے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰)

ان قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو انبیاے کرام کے مشن میں دعوتی تسلسل، دعوتی ہمہ گیریت اور خود مقصد ِ نبوت میں اسلامی اقتدار کا قیام بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اگر مکہ مکرمہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ہوتی تو مشرکینِ مکہ کو اس پر معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر انھوں نے حرمِ مکہ میں تین سو سے اُوپر خدائوں کو جگہ دے رکھی تھی تو ان میں ایک کے اضافے سے قیامت نہیں آجاتی۔ اس لیے مسئلہ ایک نئے  خدا کے اقرار کا ہی نہ تھا بلکہ توحید یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لے آیا جائے ا ورتمام خدائوں کو یک قلم منسوخ کردیا جائے۔   آخرانگریز کے دورِ غلامی میں مسلمان برعظیم پاک و ہند سے حج کے لیے بھی جاتے تھے، مسجدیں بھی آباد تھیں اور صاحب ِ نصاب حضرات زکوٰۃ بھی دیتے تھے اور بھلائی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اصل مسئلہ یہی تھا کہ اگر توحید کو قبول کرلیا جاتا تو پھر سود کا بت، قبائلی فخر کا بت،  تبرجات الجاہلیہ پر مبنی ثقافت و معاشرت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی بندگی میں آنا پڑتا۔ توحید کو ماننے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر ارباب کو زندگی سے خارج کیا جائے اور معیشت ہو یا سیاست، عبادت ہو یا ثقافتی سرگرمی، ہرہرکام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا جائے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں اللہ کی حاکمیت ہو اور پارلیمان میں، عدلیہ میں، معاشی منڈی میں کوئی دوسرا اسلوب ، طریقہ اور اصول کارفرما ہو۔ مسجد میں سجدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کیا جائے اور تجارت میں مالی مفاد کو خدا بنا لیا جائے اور جب ایک شخص پارلیمنٹ میں ہو تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بات کرے! اس لیے دعوت کا میدان اور سیاسی میدان دو الگ چیزیں نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا مقصد  اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اس زمین پر قائم کرنا ہے۔

جو سوال اُٹھایا گیا ہے یہ اس سے قبل بھی بہت سے ذہنوں کو پریشان کرتا رہا ہے، چنانچہ فکری اور معاشرتی اصلاح پہلے یا سیاسی انقلاب پہلے پر سیدمودودیؒ کا جامع تبصرہ یہ ہے: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا… حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع، اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں‘‘۔(رسائل و مسائل، چہارم، ص۱۷۹-۱۸۸)

تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے ایک طریقۂ کار تو یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کے پیش نظر اس سے اپنے آپ کو الگ کر کے تعمیر کردار پر توجہ دی جائے اور جب ایک طویل عمل کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوجائیں تو پھر سیاسی تبدیلی کی طرف توجہ دی جائے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عسکری قوت کے ذریعے پورے نظام کو درہم برہم کر کے نئے سرے سے نظام کو صالح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسا مکان خریدیں جس کی چھت ٹپک رہی ہو، دروازے بوسیدہ ہوں، بجلی کا نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو توبجاے پورے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے مکان تعمیر کرنے کے آپ ترجیحات کا تعین کریں اور مکان کی خرابیوں کو دُور کرتے جائیں۔ انسانی معاشرہ اور میکانکی معاشرہ میں یہی فرق ہے۔ اس میں بیک وقت دعوتِ نماز اور دعوتِ قیامِ عدل پر عمل کیے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔

دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا ’دینی جماعت‘ تو عملِ صالح کی دعوت دے اور سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنے کے لیے سیاسی حربے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرلے۔ کیا یہ دوعملی اسلام کا مقصود و مطلوب ہے؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِ رسولؐ یا خلفاے راشدین کی سیاسی زندگی سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ بات بڑی آسان اور واضح ہے۔ اسلام جس سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے، اس کی بنیاد تقویٰ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ، شفافیت، عدم مداہنت، اصول پرستی، حق کے اظہار، عدل کے قیام، امانت، اہلیت اور احتساب پر ہے۔ اسلام میں صرف سیاست یا صرف دین کا کوئی تصور، نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ سنت ِ رسولؐ ، نہ خلفاے راشدین کی مثال میں۔ خلفاے راشدین نے اقتدار کو دین کے قیام اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ یہی وہ دعوت ہے جو تحریک اسلامی کی قیادت خصوصاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری طور پر پیش کی۔

یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ ’دینی جماعتوں‘ کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نشستوں کی تعداد ہے۔ کیا حضرت نوحؑ کی طویل دعوتی جدوجہد اور حضرت موسٰیؑ کے اپنی قوم کو دعوت دینے کے نتیجے میں ساری قوم یا اس کی اکثریت آپ کے ساتھ آگئی تھی؟ کیا یہ ان حضرات علیہم الصلوٰۃ کی ناکامی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان میں نشستوں کی تعداد نظریاتی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا   حتمی پیمانہ نہیں ہوسکتی۔ ان کی کامیابی کا پیمانہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور ربِ کریم پر اعتماد و توکّل ہے۔ ترکی میں اب سے ۲۰سال قبل وہاں کی اسلامی تحریک نے ۱۰ فی صد سے بھی کم نشستیں حاصل کیں لیکن اگلے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا، اور آخرکار تیسرے انتخاب میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہمارے ہاں انتخاب کا نظام، انتخابات میں قوت کا استعمال اور نفاذِ تحریکِ اسلامی کی حکمت عملی کا بروقت بننا اور صحیح روح کے ساتھ اس کا نفاذ، یہ اور دیگر تنظیمی اور مالی وجوہات مل کر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود سیاسی سرگرمی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک دعوتی سرگرمی ہے جس میں کارکن اور قیادت عوام کے سامنے اپنی دعوت اور مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں معمولی سی کوتاہی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ دوسری جماعتیں جو خالص سیاسی مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں، ان کی کامیابی کا سبب تنہا ان کا ’نظریہ‘ نہیں ہوتا بلکہ اکثر وہ غیراخلاقی ذرائع ہوتے ہیں جن کا استعمال تحریکِ اسلامی کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیراخلاقی ذرائع سے کامیابی سے افضل چیز اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی نشست کا کھو دینا ہے، تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ اصولی سیاست کے فروغ کا ناگزیر تقاضا ہے۔

یہ بات غیر اسلامی سیاست میں تو ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کے ذریعے ووٹ لے لیے جائیں لیکن اسلامی تحریک کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا کہ دینی جماعت سے عوام کوئی توقعات نہیں رکھتے، مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی تین مسلکی جماعتیں اپنے واضح مسلکی پس منظر کے باوجود عوام کی نگاہ میں ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر انھیں ووٹ ملتے ہیں۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسے مسلکی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی رکنیت کے لیے کسی کا دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا جعفری ہونا شرط نہیں ہے۔ ہرمسلمان جو اس کے دستور سے اتفاق رکھتا ہو اس میں شامل ہوسکتا ہے، جب کہ جو جماعتیں مذہبی کہلاتی ہیں ان کے نام ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ دراصل مسلکی جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انھیں ان کے مسلک سے وابستگی کے باوجود ووٹ توقعات کے پیش نظر ہی دیتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ تحریکِ اسلامی کی سیاسی جدوجد کا بنیادی مقصد اپنی دعوت کا پہنچانا ہے۔ اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہوکر اللہ کی رضا کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں اگر رب کریم اپنے فضل اور نصرت سے اسے کامیاب کردے تو یہ اس کا انعام ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکن کسی کو جتائے بغیر خلوص سے معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ خود مخلص اور مطلبی افراد میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور تشہیر کے مقابلے میں تحریک تحدیث ِنعمت کی تعلیم دیتی ہے، ناگزیر تشہیر کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ تاہم قیادت اور کارکن دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفس کے شیطان سے ہمہ وقت چوکنے رہیں اور باہمی احتساب کے ذریعے ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرتے رہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مذاکروں میں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرمی کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیے۔ اگر ماضی میں اس پہلو سے کوئی کمی رہی ہے تو اسے اب دُور کیا جانا چاہیے۔

دعوتِ دین، عوامی مقبولیت اور حصولِ اقتدار میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی شرعی قباحت جیساکہ حضرت سلیمان ؑ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی سلطنت کی توفیق دے جس کی کوئی مثال نہ پائی جاتی ہو۔ پھر تحریکِ اسلامی جس کا مقصد معاشرہ، معیشت اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لانا ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرسکتی۔ اس جدوجہد اور انبیا ؑ کے دعوت و طریق کار میں تضاد کہاں پایا جاتا ہے۔

دعوتِ دین اور سیاسی جدوجہد دو الگ دائرے نہ قرآن کریم میں ہیں، نہ سنت ِ رسولؐ میں اور، نہ سنت خلفاے راشدین میں۔ اس لیے تحریک ِ اسلامی بھی اس فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے تمام ذرائع کا استعمال شریعت کی رُو سے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو خالص سیاسی جماعت کہتی ہیں وہ دین کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں،   اس لیے صرف سیاست کرنے میں لگی رہتی ہیں۔تحریکِ اسلامی اس لحاظ سے ایک ’خالص سیاسی جماعت‘ نہ کبھی تھی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اس کی دعوت ہمہ گیر ہے۔ یہ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتی اور یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کو رد کرتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

پاکستان کی تاریخ میں ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء ایک تاریک ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن دہشت گردوں کے ہاتھوں ۱۳۴ ؍اسکول کے معصوم بچوں کا سفاکانہ قتل ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس نے نہ صرف ہرپاکستانی بلکہ دنیا کے ہردردمند دل کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔ عملے کے ۱۰؍افراد بھی شہید ہوئے اور ۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔اس سفاکی پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے وہ  کم ہے۔ ایسے سانحے قوموں کو ان کے خوابِ غفلت سے بیدار کردیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اس امتحان اور آزمایش کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے اور آیندہ ایسے واقعات کی پیش بندی کے لیے کیا اقدامات اُٹھاتی ہے۔

پاکستانی صحافت، دانش ور، کالم نگار، ایک عام شہری بلکہ جہاں کہیں بھی دو افراد چند لمحات کے لیے مل بیٹھتے ہیں اس واقعے پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ایک چیز جو ان گفتگوئوں میں مشترک نظر آتی ہے وہ ان سفاک افراد کے بارے میں یہ راے کہ ایسے گھنائونے کام کے کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہ لازماً سرحدپار سے آنے والے وہ افراد تھے جو پاکستان میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور عالمی تناظر میں پاکستان کی معاشی ساکھ اور ترقی کو مجروح کرنے اور پاکستان میں کسی بیرونی سرمایے سے تجارتی فروغ کے دروازے بندکرنے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے نہ صرف  یہ کہ یہ مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ یہ پاکستانی بھی نہیں ہوسکتے۔ پھر یہ کون تھے؟ کیوں آئے اور انھیں اندر کیوں آنے دیاگیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شہری کو پریشان کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں پہلی بات بڑی واضح ہے کہ سانحۂ پشاور کو پاکستان میں دہشت گردی کا تنہا واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ جنرل ضیاء الحق کی اندرونِ ملک پالیسی نے سندھ میں ایک دینی جماعت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے جس لسانی تحریک کو آنکھیں بند کر کے پنپنے کا موقع دیا اور جس کے ہمسایہ ممالک کے حساس اداروں سے روابط سے پردہ اُٹھانے پر صلاح الدین مدیر تکبیر کو شہید کیا گیا، اور پھر ٹارچر سیل قائم کر کے معصوم نوجوانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ یہ سب ہمارے ماضی کا حصہ ہیں۔   نہ صرف سندھ، بلوچستان میںسیکڑوں افراد کا اغوا اور قتل مختلف عنوانات کے تحت ہوتا رہا، بلکہ بلوچستان میں مسلکی منافرت پھیلانے کے لیے بڑی تعداد میں ہزارہ شیعہ فرقے کے افراد کی شہادت اسی سرگزشت کا ایک باب ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں تھوڑے عرصے کے بعد کبھی کسی دیوبندی یا بریلوی عالم یا عسکری جماعت کے اہم فرد کا قتل، کبھی شیعہ عالم پر حملہ اور قتل کیا جانا،  کبھی کسی سیاسی شخصیت کا قتل کیا جانا، یہ سب واقعات ایک تسلسل کے ساتھ گذشتہ ۳۰سال سے     دن دہاڑے ہوتے رہے ہیں۔ انتظامیہ ہو یا نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے اس پر سواے  ایک وقتی ردعمل کے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جو مسئلے کی جڑ کو تلاش کرنے کے بعد اس کا جڑ سے خاتمہ کرے۔ اس کی جگہ صرف ایک بات تسلسل سے کہی گئی کہ اس تمام قتل و غارت کی بنیاد ’مذہب‘ یا دینی مدارس ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کو ختم کیا جائے اور ملک سے مذہب کے اثرات کو دُور    کیا جائے تاکہ یہاں ’روشن خیالی‘ اور لادینیت کا فروغ ہوسکے۔ اس فکر کو آگے بڑھانے میں ہمارے ابلاغی ذرائع خصوصاً برقی ابلاغی ذرائع نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ ابلاغ عامہ نے ایک جانب تو ایسے تمام واقعات کو بنیاد بناکر ’مذہبی‘ افراد اور دینی مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،  اور دوسری جانب دہشت گردی اورقتل و غارت گری کو مسلسل دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ کو  دہشت گردی کے مناظر کا عادی بنادیا کہ کسی شہر میں ۱۰،۲۰؍افراد کا قتل ہوجانا، حتیٰ کہ بعض افراد کا زندہ جلادیا جانا بھی ان نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کو جگانے میں ناکام رہا ہے۔

لیکن ۱۳۴ معصوم بچوں کے خون نے، اس سے قطع نظر کہ ان کے والدین کا تعلق فوج سے تھا یا نہیں، قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور جس سول سوسائٹی کے اصرار نے اسلامی شریعت سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان میں قتل کی سزا کو منسوخ کر انے میں بنیادی کردار ادا کیا، آج وہی سول سوسائٹی اس سانحے کے بعد اس کے ذمہ داروں اور دیگر دہشت گردوں کے لیے سزاے موت کے نفاذ کی حمایت کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اسلام کے نظامِ عدل میں جو احکامات خالق کائنات نے انسانوں کے معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے دیے وہ ابدی حیثیت رکھتے ہیں اور آخر انسان ٹھوکریں کھاکر ان کی طرف پلٹتا ہے۔

خوداحتسابی کی ضرورت ہے، الزام تراشی کی نہیں۔ اس سانحے میں فوج کے محفوظ مقام تک آنے کے لیے کئی سیکورٹی چیک پوسٹ عبور کیے گئے ہوں گے۔ مجرم دندناتے ہوئے آئے اور قتل و غارت گری کرگئے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

سانحۂ پشاور کو اگر گذشتہ ۳۰سال کے تناظر میں دیکھا جائے تو جن تنظیموں سے وابستہ یا ماضی میں ان سے وابستہ اور اب خود آزاد وجود کی حامل تنظیموں نے ملک میں بدامنی اور انتشار کی فضا پیدا کی ہے۔ ان کے وجود میں آنے کی تاریخ پر بھی تنقیدی نگاہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کرایے پر کام کروانے کے لیے تنظیموں کا بنانا بجاے خود ایک اخلاقی، دستوری اور شریعت کے نقطۂ نظر سے مباح فعل ہے؟ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسلام کے ابدی قانون اور پیغام میں قتلِ ناحق کو چاہے وہ صرف ایک انسان کا ہو، تمام انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا اسلامی شریعت میں کہیں بھی اس بات کی گنجایش پائی جاتی ہے کہ عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں، سفاکانہ قتل کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا نبی رحمتؐ نے کسی موقعے پر ایسے فعل کو جائز قرار دیا؟ کیا خلفاے راشدین نے بچوں، عورتوں اور معمر افراد کے قتل پر آنکھیں بند رکھیں؟ اگر یہ تاریخی حقیقت ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کی پیروی کا دعویٰ بھی کرے اور قرآن وسنت کے واضح احکام کو پامال بھی کرے۔

پھر مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا چھاپہ ماروں کو مروجہ عسکری طریقوں سے کیفرکردار تک پہنچایا جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کے دیگر مقامات پر چھاپہ مار تنظیموں کو روایتی فوجی کارروائی سے ختم کیا جاسکا؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلح ماردھاڑ کرنے والوں کے وجود میں آنے کا سبب ان کی نام نہاد مذہبی شدت پسندی ہے یا وہ پیشہ ورانہ دہشت گرد ہیں جنھیں سرحدپار سے اسلحہ ، مالی امداد اور تربیت دے کر پاکستان کو غیرمستحکم رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً یہ بات قومی اخبارات میں آتی رہی ہے کہ بھارتی ساخت کا اسلحہ ملک کے مختلف حصوں میں پکڑا گیا ہے۔ یہ بات بھی بار بار سامنے آتی رہی ہے کہ افغان سرحد اس کام کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اگر یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے تو پھر اس دہشت گردی کا الزام ’مذہب‘ کے سر تھونپنا ایک گھنائونی سازش ہے۔

اس فتنے سے نکلنے کے لیے ایک سہ رُخی قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے:

اوّلاً: ملک کے نظامِ تعلیم میں سوشل اسٹڈیز، اُردو اور انگریزی زبان کے نصابات میں ایسے موضوعات پر مؤثر تحریرات کی شمولیت جو اسلام کے نظامِ عدل، حقوقِ انسانی اور خصوصاً حقوقِ نسواں، معاشی عدل، معاشرتی اداروں خصوصاً خاندان کا تحفظ اور خاندانی اقدار پر مبنی ہوں۔ ان تحریروں کو پہلی جماعت سے بارھویں جماعت تک سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر نہ صرف پڑھایا جائے، بلکہ طلبا اور طالبات کو الگ الگ ایسی سرگرمیوں میںمشغول کیا جائے جہاں وہ ان تعلیمات پر عمل کرسکیں۔ غریبوں، بے آسرا افراد، بیماروں اور مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے کے ذریعے اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔

ثانیاً: جو نوجوان انتہاپسند عسکری تنظیموں کے زیراثر یہ سوچنے پر آمادہ ہوگئے ہیں کہ جو کچھ انھیں ’جہاد‘ کے نام پر سمجھایا گیا ہے صرف وہی اسلام ہے، انھیں براہِ راست قرآن وسنت سے روشناس کراتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے جامع تصور سے آگاہ کرنا اوراس بات کو یقینی بنانا کہ لازمی طور پر افضل جہاد وہی ہے جسے قرآن کریم نے نفس اور مال کے ساتھ جہاد کہا ہے، لیکن    اس افضل جہاد سے قبل جس اہتمام اور تیاری کی ضرورت ہے کیا اس کے بغیر جو، جب اور جہاں چاہے اور جس طرح چاہے جہاد کرسکتا ہے؟ یہ کام علماے کرام کا ہے کہ وہ بغیر کسی معذرت اور مداہنت کے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کریں اور نوجوانوں کو اپنے موقف پر نظرثانی کا موقع فراہم کریں۔

کوئی بھی نظریاتی گروہ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح نظری شکل کو پیش کیا جائے اور ایک کھلے مکالمے کے ذریعے ذہنوں کے زاویوں کو بدلا جائے۔ یہ عمل صبر طلب ہے۔ یہ عمل قرآن و سنت کے جادۂ عدل و اعتدال کو براہِ راست پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کلامِ عزیز انسانوں کے قلب و دماغ کو تبدل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتا ہے۔

ثالثاً: معاشرے اور ملک سے استحصال، اقرباپروری، پارٹی کی بندگی، معاشی ظلم، اخلاقی زوال اور گھنائونی حد تک بداخلاقی کے رواج میں ابلاغ عامہ جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کی اصلاح ریاستی، معاشرتی اور انفرادی، ہرسطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابلاغِ عامہ کا کام نہ صرف صحت مند انداز میں کمزوریوں کی نشان دہی ہے بلکہ ان کے حل کی طرف اُمیدافزا انداز میں راہ دکھانا بھی شامل ہے۔ اگر ایک عام شہری کو عدالتوں سے عدل نہ ملے ، ہسپتالوں میں دوا نہ ملے، تجارتی اداروں میں ملازمت نہ ملے، اور گھراور معاشرے میں ہرجگہ فحاشی، استحصال اور ظلم کا دور دورہ ہو، تو اس کا موجودہ نظام کے خلاف کھڑے ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مغربی ممالک کے زیراثر ان کے مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لینے کی بھی اصلاح کی جائے، اور اپنے قومی مفاد کو مغربی سامراجی طاقتوں کے مفادات سے الگ کر کے ترجیحات میں تبدیلی کی جائے۔ زوال کی کم تر حد تک پہنچ جانے کے باوجود آج بھی اس ملک اور قوم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جو انعامات ہیں وہ اَن گنت ہیں۔ اس نے ہمیں چاروں موسم دیے ہیں اور ان کے لحاظ سے پھل، میوے اور ہرقسم کی غذائیں دی ہیں، معدنیات دی ہیں، ایسے افراد دیے ہیں جو اس گری ہوئی حالت میں بھی دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کے نام پر خیرات کرتے ہیں اور پاکستان تمام دنیامیں سب سے زیادہ خیراتی اور فلاحی کاموں پر خرچ کرنے والی قوم ہے۔ ان تمام اچھی خصوصیات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مثبت فکر کے ساتھ قوم کی تعمیرنو کے لیے قرآن و سنت کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری فلاح ہے، اسی میں ہمارا مستقبل ہے، اسی میں ہمارا اتحاد اور بقا ہے۔

ان مثبت اقدامات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے گھنائونے جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا ملے۔ سیاسی جماعتوں کا معاشرے میں جرم، ناانصافی، قتل و غارت گری کو برداشت کرنا ہی بگاڑ اور تباہی کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے میں ظلم اور جرم دونوں کا تدارک نہیں کیا جاتاوہ تباہی سے نہیں بچ سکتا۔

اس سانحے کے پیش نظر فوری او ردیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔ پورا نقشۂ کار بننا چاہیے اور اس کے مطابق اقدامات اُٹھانے چاہییں۔ ہزاروں میل کا فاصلہ پہلے قدم سے ہی طے ہوتا ہے۔ منزل کے تعین کے بغیر جو قدم اُٹھے گا وہ بے سمت ہوگا۔

بلوچستان میں مسلکی بنیاد پر ہزارہ شیعوں کی تعداد ہزاروں کے بجاے سیکڑوں میں لکھی جائے۔

گذشتہ دو عشروں سے پاکستان کے صحافیانہ حلقوں میں، خصوصاً انگریزی زبان کے اخبارات و رسائل میں، بار بار ایک سوال مختلف انداز سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا ریاست کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے کسی نظریے کی ضرورت ہے؟ یا ریاست بغیر کسی نظریے سے وابستگی کے شہریوں کے حقوق ادا کرسکتی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات کا اُٹھایا جانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ وہ صحافی اور دانش ور جو انگریزی اخبارات میں مقالہ نویسی کرتے ہیں عموماً جن کتب سے پاکستان کی تاریخ اخذ کرتے ہیں وہ برطانوی اور امریکی جامعات میں  جنوبی ایشیا کے شعبوں سے وابستہ ان اساتذہ کی لکھی ہوئی ہیں، جو مغربی علمی روایت میں فکری تربیت پانے کے بعد مغربی ذہنی سانچے اور پیمانوں سے تحریکِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں۔ چونکہ  ان کا مفروضہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی سیاسی تحریکات یا تو ردعمل کے طور پر وجود میں آتی ہیں، یا معاشی استحصال کو دُور کرنے اور معاشی ترقی میں مقام پیدا کرنے کے لیے، اور یا پھر کسی جذباتی وابستگی کی بناپر جسے عموماً ’مذہبی انتہاپسندی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخی اور سیاسی مطالعہ جس ملک کا بھی ہو تحقیقی مفروضے عموماً ایک ہی رہتے ہیں۔

یہ ایک ایسا غیرمحسوس عمل ہے جسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی عموماً محسوس نہیں کرپاتے۔ طریق تحقیق اگر تجربی(empirical) ہو تو نتائج بھی اعداد وشمار کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تحقیق کی بنیاد دین و سیاست کی تفریق پر ہو اور نتیجہ تحقیق دین و سیاست کی یک جائی کا نکل آئے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال سے نہ صرف یورپ و امریکا بلکہ ان تمام ممالک میں جو کبھی ان کے غلام رہے ہوں یا ان کی ذہنی غلامی کے شکار ہوں ان سب دانش وروں نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ جہاں کہیں ایسے امکانات نظر آئے تو ’مذہب‘ کو منافرت، شدت پسندی، عسکریت اور جذباتیت سے تعبیر کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کردی۔

انگریز کی چھوڑی ہوئی علمی روایت اور نظامِ تعلیم نے وہی ذہنی سانچے تیار کیے جو انگریز کی غلامی سے سیاسی آزادی کے باوجود زبان، ثقافت، تعلیم، معیشت و معاشرت میں ہمیشہ انگریز کو اپنا معیار سمجھتے رہے۔ان کے ترقی کے پیمانے اور نگاہ کے زاویے وہی رہے جو انگریز سے وراثت میں پائے تھے۔ اگر شعوری طور پر کچھ دانش ور یہ انتخاب کرتے ہیں کہ وہ صرف مغربی فکر کے پیمانوں سے ہرچیز کو ناپیں اور تولیں گے تو اس میں علمی طور پر کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں لیکن علمی اور تحقیقی دیانت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے علمی تعصب کے ساتھ معروضیت (objectivity) کا دعویٰ نہ کریں۔ اگر ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ ’مذہب‘ بطورِ ریاست کی نظریاتی بنیاد نہیں ہونا چاہیے تو وہ اپنی بات دلائل سے پیش کرسکتا ہے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ اصرار بھی کرے کہ صرف ا س کا تجزیہ اور اخذکردہ نتائج حق ہیں اور باقی سب کچھ محض جذباتیت ہے۔

ان کلمات کے ساتھ ہم موضوع پر نظری او رتاریخی حقائق کی روشنی میں ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

ریاست اور نظریہ:

ریاست کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے: ’’حدودِ مملکت، ریاستی اداروں، مثلاً مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور دفاع یا ایک خودمختار ریاست کی سیاسی ثقافت (political culture)‘‘۔ ایسے ہی وطنی ریاست (nation state) کو ایک ریاست کے شہریوں اور نظام کے تشخص سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ بھی جو ایک زبان، نسل، جغرافیائی خطہ یا ایک مشترکہ تاریخ و ثقافت سے وابستہ ہوں ایک خودمختار علاقے کی بنیاد پر وطنی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی ریاست وجود میں نہیں آئی جس کا کوئی ’مذہب‘ نہ ہو، حتیٰ کہ وہ جو اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتے ہیں، لادینیت کو ان کے نظام میں وہی مقام تقدس حاصل ہوتا ہے جو اٹلی میں پائی جانے والی ویٹی کن (Vatican) یا کیتھولک ریاست میں عیسائیت کا ہے۔

پاکستان کا وجود اور نظریہ:

برعظیم میں مسلمانوں نے تقریباً ۸۰۰ سال حکومت کی اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اسلامی قانون اور معاشرت میں بنیادی اسلامی اصولوں کا احترام و عمل جاری رہا۔ سربراہانِ حکومت میں سے بعض نے بادشاہت کی غیراسلامی روایت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار سے اعلیٰ اسلامی رویے کا اظہار کیا اور اکثر نے اسلام سے اپنے روایتی تعلق سے آگے اور کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہ: ’’برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا تھا‘‘۔ گویا وہ سلاطین ہوں یا مغل شہزادے، اپنی تمام بے راہ روی کے باوجود انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی کو ہرسطح پر برقرار رکھا۔ لیکن جب مسلمان فرماں روا نااہلیت،  ناعاقبت اندیشی، خودغرضی، عیش وعشرت اور نفسانفسی کا شکار ہوگئے تو پھر ریاست کا زوال یقینی ہوگیا۔ قوانین فطرت مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں ہیں۔

چنانچہ سمندر پار سے آنے والوں اور گھر کے باغیوں کے تعاون سے تجارتی منڈیوں کے بہانے آنے والے انگریزوں نے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور پھر تقریباً ۲۰۰ سال مسلمان غلامی کا شکار رہے۔ اس غلامی سے نکلنے کے لیے جس سیاسی تحریک کا آغاز ہوا وہ آغاز میں مشترک تھی، لیکن جلد مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اپنے مفادات کا تحفظ وہ ہندو اکثریت کے حوالے نہیں کرسکتے اور انھیں اپنے دین و ثقافت پر عمل کرنے کے لیے ایک آزاد خطے کی ضرورت ہے۔ اس احساس کے تین اہم پہلو اس وقت بھی او رآج بھی غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں:

  • اوّلًا: اگر اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور محض نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے، تو اس کا قیام اور اس پر عمل ایک آزاد ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام اور پاکستان کے اس تعلق کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ پاکستان بننے کے بعد بعض بااثر علما نے سیاست دانوں پر دبائو ڈال کر یا بعد میں آنے والے فوجی آمر نے پاکستان کے اصل تصور کو جو بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے دیا تھا ،اپنے مفاد کے لیے اسلام سے وابستہ کردیا__ ایک تاریخی جھوٹ اور    بانیِ پاکستان کے تصور سے فکری اور سیاسی بغاوت ہے۔ پاکستان کے قیام سے قبل ۱۵جون ۱۹۴۵ء کو فرنیٹر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس کو اپنے تحریری پیغام میں قائداعظم کے الفاظ اس پہلے پہلو کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیتے ہیں:

میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔

ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں،   نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظری بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔ (فرنٹیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام، ۱۵جون ۱۹۴۵ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ص ۴۳۸)

  • دوسرا اہم پہلو غیرمنقسم برعظیم کے تناظر میں مسلمانوں کے معاشی مستقبل کا تھا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہندو سودخوار مالی وسائل پر قابض ہو ، کسی بھی مسلمان کے لیے سودی کاروبار سے بچنا ناممکن تھا۔ اسی بناپر بعض علما نے برعظیم کو حالت ِ جنگ میں تصور کرتے ہوئے ۵۰ فی صد بُرائی کو مجبوری کی بناپر وقتی طور پر مباح قرار دے دیا تھا، یعنی مجبوری کی شکل میں ایک مسلمان سود پر رقم قرض لے۔ گویا سود ادا تو کردے لیکن خود سود وصول نہ کرے۔ اگر بطورِ مفروضے کے انگریز سامراج کے جانے کے بعد مسلمان ایک غیرمسلم اکثریت کے ملک میں بطور اقلیت کے رہتے تو کیا قیامت تک یہ ممکن تھا کہ وہ سودی نظام سے نکل سکیں؟ اسی بات کو مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے قائداعظم کے نام اپنے خط میں واضح الفاظ میں رکھا۔

۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال، قائداعظم کو لکھتے ہیں:

روٹی کا مسئلہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰سال میں نیچے ہی نیچے جا رہا ہے۔ عام طور پر وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ ہندوئوں کا مقروض ہونا یا سرمایہ داری ہے۔ جواہرلال کے الحادی سیکولرازم کی مسلمانوں سے زیادہ پذیرائی کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟

خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے ارتقا میں ایک حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ قانون سمجھا جائے اور اس کا اطلاق کیا جائے تو ہرشخص کو زندہ رہنے کا حق مل جائے گا۔ لیکن اس ملک میں ایک مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اسلامی قانون اور اس کا نفاذ اور ترقی ناممکن ہے۔

  • تیسرا اہم پہلو خالصتاً سیاسی تھا، یعنی وہ تمام نام نہاد ’دانش ور‘ جو آج پاکستان میں یہ فکر رکھتے ہیں بشمول بعض ہندستانی علما اور ماہرین تعلیم کے جو یہ ایمان رکھتے تھے کہ غیرمنقسم خطے میں مسلمان کو اپنے مفادات کا تحفظ پارلیمنٹ میں متناسب نمایندگی حاصل کرکے مل جائے گا۔ وہ اگر آج زندہ ہوتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ بھارت کی پارلیمنٹ میںمسلمانوں کا وزن اور اثر کیا ہے؟ [ہمارا اشارہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اورڈاکٹر محمد مجیب رحمہم اللہ کی طرف ہے]۔

لیکن قائداعظم کی نگاہ دُوربین نے اس سیاسی پہلو کو بہت پہلے بغور سمجھنے کے بعد جو بات کہی وہ آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسی وہ اس وقت تھی۔ ان کے اپنے الفاظ میں:

دو سال قبل مَیں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی نظام ہندستان کے لیے نامناسب ہے۔ کانگریس پریس میں ہر طرف میری مذمت کی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتاجو غیرمسلموں کی اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔ ہم ایسے نظامِ حکومت  کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض عددی برتری کی وجہ سے ہم پر حکومت کریں اور غالب رہیں۔ مجھ سے سوال کیا گیا کہ جمہوریت نہیں تو پھر میں کیا چاہتا ہوں __ فاشزم، نازی ازم یا آمریت؟ میں کہتا ہوں کہ جمہوریت کے ان چیمپینز نے اب تک کیا کیا ہے؟ انھوں نے ۶کروڑ لوگوں کو اُچھوت بناکر رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے ایسا نظم بنایا ہے جو ایک گرینڈ فاشسٹ کونسل کے علاوہ کچھ نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیںقائم کیں جو مقننہ یا راے دہندگان کے سامنے نہیں بلکہ گاندھی کے ایک منتخب گروہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ پھر جمہوریت مغرب کے مختلف ملکوں میں مختلف انداز رکھتی ہے۔ اس لیے فطری طور پر مَیں اس نظریے پر پہنچا ہوں کہ ہندستان میں جہاں حالات مغربی ممالک سے بالکل مختلف ہیں، حکومت کا برطانوی پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر نامناسب ہیں۔(مسلم یونی ورسٹی یونین، علی گڑھ، ۶مارچ ۱۹۴۰ء سے خطاب، Speeches, Statements & Messeges of the Quaid-e-Azam ، جلد دوم، ص ۱۱۵۸-۱۱۵۹)

پاکستان کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بانیِ پاکستان کے تصورِ پاکستان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ ۱۵جون ۱۹۴۵ء کے مندرجہ بالا بیان میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اسی بات پر آخردم تک قائم رہے۔ چنانچہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:

لمحہ بھر کے لیے بھی اس خیال کو اپنے دل میں نہ لایئے کہ آپ کے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں، اسے معمولی بھی نہ خیال کیجیے۔ اپنے دلوں میں جھانکیے اور دیکھیے کہ کیا آپ نے اس نئی اور عظیم مملکت کی تعمیر میں اپنا حق ادا کردیا ہے؟

کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآب دار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم بھی نہیں۔ اوروں کی طرح، اور خود اپنے آباواجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابل، صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔

اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر    آمادہ ہوگا جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے۔(پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں عوام سے خطاب، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم،ص  ۳۸۹-۳۹۰)

قائداعظم نہ صرف ایک سیاسی مدبر تھے وہ ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے ایک ایک لفظ کے معنی اور اثرات سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے نقاد بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ   وہ کھرے انداز میں بات کرنے کے قائل تھے اور کبھی ذومعنی با ت نہیں کہتے تھے۔ اپنے مقام کا احترام رکھتے ہوئے انھوں نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے فروری ۱۹۴۸ء میں دستورِپاکستان کے حوالے سے جو بات کہی وہ ان کے تصورِ پاکستان کی پوری وضاحت کردیتی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو۔ غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو  حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپنا جائزکردار ادا کرسکیں گے۔ (امریکا کے عوام سے نشری خطاب،کراچی، فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۱-۴۲۲)

اس اقتباس میں دستور سازاسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے بغیر دستوریہ کی راے کو متاثر کیے محتاط الفاظ میں وہ آخری فیصلہ دستور ساز اسمبلی کا تسلیم کرتے ہوئے ہر بات صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ بہرصورت جو بھی دستور بنے گا وہ بنیادی طور پر اسلامی اصولوں کا مظہر و مرقع ہوگا اور اُس جمہوریت کا عکس ہوگا جو۱۳سو سال پہلے اسلام نے عہدنبویؐ میں قائم کی تھی، جس میں انسانی مساوات، عدل اور شفافیت پائی جاتی تھی۔

ساتھ ہی وہ یہ بات بھی وضاحت سے کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام تھیاکریسی یا پاپائیت نہیں ہوگا جس میں چند مذہبی علَم بردار خدا بن کر فیصلہ کریں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو مرحوم مولانا مودودی نے، علامہ اقبال نے، علامہ محمد اسد نے اپنی تحریرات میں کہی کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے۔ خلافت اور شورائیت کا واضح مفہوم اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے سامنے جواب دہی اور احتساب کے ساتھ حکومت کرنا ہے جو اسلام کی روح ہے۔ اس میں کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین اپنے آپ کو  منزہ عن الخطاقرار دے کر تھیاکریسی کے طرز پر فیصلے صادر نہیں کرسکتا۔

دستور سازی کی بنیاد کو واضح طور پر بیان کرنے کے ساتھ ہی قائداعظم نے ان تمام غباروں میں سے ہوا نکال دی جو دین و سیاست کے الگ ہونے اور ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کی ڈفلی بجابجا کر اپنے آپ کو خوش اور دوسروں کی آنکھ میں دن کی روشنی میں دھول ڈالنے میں آج بھی ملک میں دانش ورانہ ادائوں کے ساتھ مصروف پائے جاتے ہیں۔ بانیِ پاکستان کے اپنے الفاظ میں:

آپ نے دنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطہ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔(ملیر چھائونی میں فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء،  قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۱۹)

بانیِ پاکستان نے بات محض جمہوریت کی نہیں کی بلکہ جو اصلاح استعمال کی وہ Islamic Democracy ہے اور اس کے ساتھ اسلامی معاشرتی عدل کا اضافہ کیا۔ اگر بانیِ پاکستان کے ذہن میں ’مذہب‘ ایک ذاتی معاملہ تھا تو اُوپر درج کیے گئے تمام بیانات سے ان کا مدعا کیا تھا؟ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ ان کے نقاد بھی ان کے خلوص، نڈر، دوٹوک بات کرنے اور نفاق سے پاک رویے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اتنے واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ان پر تہمت لگاتا ہے کہ وہ پاکستان کے دستور کو اسلام سے خالی اور ملک کو ’سیکولر‘ بنانا چاہتے تھے تو اس میں قصور بانیِ پاکستان کا نہیں ان نام نہاد دانش وروں کی دانش کا نظر آتا ہے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳فروری ۱۹۴۸ء کو بانیِ پاکستان جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں انھیں پڑھنے کے بعد صرف بصیرت اور بصارت سے محروم شخص ہی ان کے تصورِ پاکستان کو ’سیکولر‘ کہہ سکتا ہے، جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے کسی ایک خطاب یا بیان میں لفظ سیکولر نام لینے کو ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔  بانیِ پاکستان کہتے ہیں:

یہ مملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (امریکاکے عوام سے نشری خطاب، کراچی، فروری۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۰)

بانیِ پاکستان کی نگاہ میں اسلام اور پاکستان کا رشتہ کیا تھا اسے سمجھنے کے لیے نہ صرف بانیِ پاکستان کے بیانات و تقاریر بلکہ خود ان کی اپنی فکر اور حیات کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔  بعض اوقات ہم تک تاریخی معلومات بھی آدھی یا اُس سے کم پہنچتی ہیں اور بقیہ معلومات غیرارادی یا ارادی طور پر نظروں سے اوجھل کردی جاتی ہیں۔ خواجہ عبدالرحیم تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو قراردادپاکستان کے ایک دن بعد انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر عمائدین کو مدعو کیا۔ بانیِ پاکستان نے وہاں پر جو بات کہی وہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے:

تم نے اور چودھری رحمت علی نے جو نام ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا اس پر بہت سرگرمی سے ہندو پریس میں بات ہورہی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائداعظم سے پوچھا: پھر آپ کے خیال میں مملکت کا نام کیا ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کرچکے تھے۔ اس پر قائداعظم نے کہا: اگر تم لوگ اور مسلم قوم کو یہ نام پسند ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سواے اس کے کہ پمفلٹ پر تم نے جو نام لکھا ہے وہ Pakistan ہے ، اس میں ’I‘ اسلام کے لیے اضافہ کردو جو ان تمام صوبوں کے درمیان جوڑنے والی کڑی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو پہنچایا جو اُن دنوں کراچی میں آئے ہوئے تھے۔ چند دنوں کے بعد قائد علی گڑھ گئے جہاں ان کا استقبال ’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے ہوا۔اس پر آپ نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ ایک فانی شخص کو زندہ باد کہا جائے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان زندہ باد کہا جائے۔ پھر آپ نے دہرایا کہ ’’اگر ہند کے مسلمان اپنے ملک کا یہ نام رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں صرف اس میں ’I‘ کا اضافہ کرلے جو اسلام کی علامت ہے اور جو تمام صوبوں کے درمیان اتحاد کا حصہ رہے۔ (سلطان زہیر اختر، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات، ۱۹۹۸ء، ص ۲۴)

گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی صحافت اس مضحکہ خیز سطح پر اُتر آئی ہے کہ ملک کے انگریزی اخبارات میں قائداعظم کا خاکہ نصف چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے! مسلمان کو تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جو اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے احسان اور شکر کا اظہار کرے، کجا یہ ہ وہ اس کا خاکہ اُڑا کر اپنے نفس کی تسکین کرے! کاش! تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر گمراہ کن انداز میں دیکھنے اور پیش کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۹۳۹ء کے خطاب کو ایک نگاہ ڈال لیتے جو۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو لاہور کے روزنامہ انقلاب میں طبع ہوا۔ قائد کے الفاظ یہ تھے:

میں نے بہت دنیا دیکھی ہے اور کافی دولت مند ہوں۔ زندگی کی تمام آسایشوں کا مَیں نے لطف اُٹھایا ہے۔ میری واحد خواہش یہ ہے کہ مسلمان ایک آزاد کمیونٹی کی حیثیت سے پھلے پھولیں۔ میں اس دنیا کو ایک صاف ضمیر کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں اور   اس احساس اور اطمینان کے ساتھ کہ جناح نے اسلام کے مقاصد سے دھوکا نہیں کیا۔ مجھے آپ سے کسی تعریف یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں میرا دل، میرا ضمیر اور میرا ایمان میری موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح اسلام اور مسلمانوں کے مقاصد کا دفاع کرتے ہوئے مرا۔ اللہ یہ شہادت دے کہ جناح کفر کی طاقتوں کے خلاف اسلام کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ایک مسلمان کی طرح جیا اور مرا۔(صفدر محمود، Quaid Wanted Islamic Democratic Progressive State ڈان، ۲۳ مارچ ۲۰۰۲ء)

نہ صرف یہ بلکہ جولائی ۱۹۴۷ء میں قائد نے ۱۰-اورنگ زیب روڈ، دہلی اپنے گھر پر مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کو دعوت دی۔ مولانا نے پوچھا: پاکستان کا دستور کس نوعیت کا ہوگا؟ بانیِ پاکستان نے جواب دیا: قرآن پاکستان کا دستور ہوگا۔ میں نے قرآن ترجمے کی مدد سے پڑھا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی دستور قرآنی دستور سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ میں نے یہ جنگ (آزادی) مسلمانوں کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جیتی ہے۔ میں قرآنی دستور کا ماہر نہیں ہوں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اور آپ کی طرح کے دیگر علما مل کر قرآنی دستور تیار کریں۔ (سعید راشد، قائداعظم گفتار و کردار، لاہور، مکتبہ میری لائبریری ۱۹۸۶ء)

اسلام اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تحقیقی شعبے کا افتتاح کرتے وقت یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ پہلے جو خطاب کیا وہ یہ شہادت دیتا ہے کہ قرآنی دستور کی طرح وہ اسلامی معاشیات اور بنکاری کو پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں:

آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتطار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے  گذشتہ صدی میںدو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیںگے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیںگے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب، کراچی، یکم جولائی ۱۹۴۸ء ، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)

ان مصدقہ بیانات اور خطابات کے بعد کسی کا معصوم سی شکل بناکر یہ کہنا کہ ہم نہیں جانتے قائد کس طرح کا پاکستان، کس طرح کا دستورِ پاکستان اور کس طرح کی معیشت ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، اگر بدنیتی نہیں تو کم از کم تاریخی حقائق سے مذاق نظر آتا ہے۔

جن بنیادی اُمور کو بانیِ پاکستان نے اپنی واضح اور مدلل بات سے طے کردیا تھا انھیں نئے سرے سے ایک issue بنانا بجاے خود منفی اور فکری انتشار کا پتا دیتا ہے۔ ان تمام حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک علمی بددیانتی یہ بھی کی جاتی ہے کہ قائد کے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے دستورساز اسمبلی کے خطاب کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے محض دو جملوں کو بار بار دہرا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ’مذہب‘ کو ایک ذاتی معاملہ اور سیاست سے الگ تصور کرتے تھے۔ یہ بانیِ پاکستان پر    ایک گھنائونا اتہام ہے کیونکہ اس پورے بیان میں انھوں نے نہ سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ اس طرف کوئی اشارہ کیا۔ جو بات انھوں نے کہی اگر ان کے اپنے الفاظ میں سُن لی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر محض بطور مفروضہ ہم وقتی طور پر یہ مان بھی لیں کہ اس خطاب میں انھوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا تو اُوپر درج کیے گئے سارے بیانات جو قیامِ پاکستان سے قبل اور اس تنہا تقریر، یعنی ۱۱؍اگست کے بعد دیے گئے ہیں، ان کی حیثیت کیا تھی؟ ان تمام  تقاریر و بیانات میں جو ۱۱؍اگست کے حوالے کے بعد والے ہیں وہ واشگاف الفاظ میں نہ صرف اسلام بلکہ شریعت کی بنیاد پر پاکستان کے نظام کا ذکر کرتے ہیں۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں خالق دینا ہال میں بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،    یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔

قائداعظم نے فرمایا: آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳سو برس پیش تر ہوتا تھا.....

جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔

اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔

ہم نے صفحات کی تنگی کے پیش نظر قائد کے واضح اور بلندآہنگ بیانات کو صرف نقل کردیا ہے۔ ان میں سے ہرخطاب اور بیان پر اگر کوئی تجزیاتی مضمون تحریر کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خصوصی طور پر ان خطابات کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستانیات کے نام سے انھیں جو کچھ پڑھایا گیا ہے اس کے ماخذ برطانوی اور امریکی مصنّفین کی پاکستان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جن کا بنیادی مفروضہ ہی یہ ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفروضے حق و صداقت سے دُوری اور قیاس و گمان کی بنیاد پر تاریخ مسخ کرنے کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بانیِ پاکستان اور پاکستان کے تصور کو جانے اور سمجھے بغیر اخباری اور برقی صحافت میں غیرمعتبر باتوں کو اتنی کثرت سے بیان کیا جائے کہ ناظرین افواہ کو حقیقت ماننے پر مجبور ہوجائیں۔

انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظرآتا ہے جیسے مکافاتِ عمل کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کرنے سے کامیابی یا زوا ل اور تباہی کا راستہ واضح شکل میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو سورج کی روشنی بھی منظر کو صاف طور پر نہیں دکھاسکتی۔ قرآن کریم نے اسی انسانی فطرت کے پیش نظر جگہ جگہ اور باربار نئے سے نئے پیرایے میں اہلِ دانش، اہلِ ہوش اور اہلِ فکر کو پکارا ہے: کدھر جارہے ہو؟  این تذھبون! آنکھیں کھولو، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ، زمین کو، آفاق کو، اپنی ہستی کو تجزیاتی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ اشیا میں ایسی خوب صورتی ، ایسا تناسب، ایسا حُسن رکھ دیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اس کی قدرت، کمال اور قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے کے پاس نگاہِ بینا ہو اور اس نے عقل کے دروازے بند نہ کردیے ہوں۔ فرمایا گیا: دیکھو آسمانوں اور زمین میں، رات اور دن کے اختلاف میں منہ بولتی روشن نشانیاں ہر اُس فرد کے لیے رکھ دی گئی ہیں، جو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔  (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰)

کلامِ عزیز کی روشن آیات اور حق و صداقت کے یہ جواہر باشعور تحریکی کارکنوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ: بازار میں اور دفتر میں، گھر میں اور مسجد میں، جہاں کہیں بھی ہوں، اس کی حمد، اس کے کلام پر غوروفکر اور اس کے حضور رات کی تنہائی میں اپنی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کریں گے، ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہوگی۔

اس عظیم کتابِ ہدایت، ذکریٰ اور نور کے سایے میں زندگی گزارنے کا عہد کرنے والے ہرلمحے اپنے رب سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں ان افراد میں سے کردے، جنھیں وہ خود جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور اپنے دامنِ عفو و مغفرت میں، اپنی اُس رحمت میں جس کی وسعتیں زمین اور آسمانوں کی مجموعی وسعتوں سے زیادہ ہیں، لیتے ہوئے نہ صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی میں، یہاں کے کاروبارِ حیات میں شرمندگی اور ناکامی سے بچاتا رہے، اوران میں شامل نہ کرے جو اپنے اُوپر ظلم کرنے والے ہوں۔ ان ابدی کلماتِ ہدایت کو اگر روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نقشۂ عمل بڑا واضح نظر آتا ہے۔

  • اوّلاً :اس بات کا شعوری طور پر اعلان کہ اصل قوت، اقتدار اور حاکمیت صرف اور صرف  اللہ رب العالمین کی ہے۔ چنانچہ اردگرد پائی جانے والی بیرونی قوتیں ہوں یا عوام کی طاقت،   عالمی منڈیوں پر سرمایہ دارانہ نظام قابض ہو یا نام نہاد سائنسی اور ٹکنالوجی پر عبور رکھنے والوں کے عظمت و کمال کے یک قطبی دعوے، یا پھر حکومت پر قابض افراد کا اپنی انتظامیہ اور قانونی اداروں اور عسکری قوت کی بنا پر بزعمِ خود ناقابلِ فنا اور غالب قوت ہونے کا دعویٰ ہو__ ان تمام ظاہری قوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اللہ کے جو بندے حق کی گواہی کے لیے کھڑے ہیں، وہ بندے صرف  ایک بات کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، اس کی صداے حق نے بندگیِ رب کی دعوت دی اور ہم نے بندگی کی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ ہم نے اپنے آپ کو، اپنے نفس، اپنی برادری،اپنے خاندان، اپنی نسلیت، اپنی زبان، اپنے رنگ اور خون، اپنی سیاسی وابستگی ، اپنی مسلکی وفاداری، اپنے مادی مفادات، اپنے بزرگوں کی روایات و رسوم، غرض ہرہر چیز کو نکال کر صرف اُس ہستی کی بندگی میں دے دیا جو تمام مراسمِ عبودیت، قربانیوں ، دعائوں، سجدوں اور اعترافات کی مستحق ہے___ اسی کا نام توحید ہے۔

اس اعلانِ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے والا ہر شخص اور خصوصیت سے  تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ جس مالک کی بندگی میں آنے کا اعلان زبان سے کرتا ہے، اُس عہد کا پاس کرتے ہوئے اُس نے اپنی زندگی کے ایک دن میں، ہفتے کے   سات دنوں میں اور مہینے کے ۳۰دنوں میں کتنا وقت اپنے کاروبار اور پروفیشن کی ترقی میں صرف کیا، اور کتنے لمحات احتسابِ نفس کرتے ہوئے، اپنے ہرہرکام کو ستایش اور خودپرستی کی شکل میں نہیں، بلکہ اپنے کام میں کمی اور کمزوری تلاش کرنے میں صرف کیے۔

معاشرتی بگاڑ اور فریضۂ اقامت دین

یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے، جو بدنظمی کے عادی اور قانون شکنی پر فخر کرتے ہیں، جو مادیت کے غلام اور سیاسی مفادات کے بندے ہیں۔ یہ لوگ ہلڑبازی،     ناچ گانے کے رسیا ہیں۔ ہماری باتیں سن کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ بھلا ہم انھیں کیسے تبدیل کریں؟ کیوں نہ ہم بھی انھی نسخوں کو استعمال کریں؟ شاید اسی طرح بات دلوں میں اُتر جائے! لیکن وہ شعور جو قرآن کریم دیتا ہے وہ ایک نئے زاویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حسنِ صوت کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن چیخ پکار اور دھمکیوں کی سیاست کی جگہ حکمت ِدعوت اورموعظۂ حسنہ کی حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔

یہ حکمت عملی وہی ہے جو انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اختیار کی۔ یہ دعوت بھی وہی ہے جسے   انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اپنے دور کے اُن جباروں، ناچ گانوں کے رسیا اور اپنی ذاتی عظمت اور اپنی شخصیت اور بزعمِ خود اپنی کرشمہ سازی پر فخر کرنے والوں کے سامنے پیش کی۔ یہ لوگ انبیا ؑ کی دعوت کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود انبیاے کرام ؑ بددل نہیں ہوئے، مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے دعوت کا کام جاری رکھا۔ ایسے افراد ہر دور میں رہے ہیں اور دعوتِ دین کا اعجاز یہی ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو گمراہی کے گرو سمجھے جاتے ہوں، انھیں خیارکم فی الاسلام میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ دعوت ان لوگوں کو جو ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوں،   پلک جھپکتے شمعِ رسالت کے پروانے بنادیتی ہے۔ یہی تو وہ چیلنج ہے، جسے ایک داعی اور ایک کارکن کو اپنے رب کی نصرت پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ کر اختیار کرنا ہے۔ یہی اقامت ِ دین کا تقاضا ہے۔

اس دعوت اور دعوت کے طریق کار کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نمود و نمایش اور ریا کا کوئی دخل نہ ہو۔ خودستائی اور ہربات کی تان ’میں‘ پر آکر نہ ٹوٹتی ہو۔ اس دعوت کے طریقے میں حکمت ِ دین کو اختیار کیا گیا ہو، یعنی دعوتی ترجیحات متعین ہوں اور ایک ترتیب سے ،ایک منصوبے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ اگر رب کریم نے ایسے مواقع پیدا کردیے ہوں کہ کسی مقام پر برسوں سے قابض سیاسی قوتوں کی نااہلی، خرابی اور بدمعاملگی کی بنا پر عوام کوئی اور راستہ تلاش کرنے لگے ہوں، تو ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ اپنی وابستگی میں اضافہ، اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کی نصرت کے سہارے روشن مستقبل کی حکمت عملی پر بلاتاخیر دن رات کی محنت سے کام میں لگ جانا ہی دینی مصلحت ہے۔

اقامت ِ دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کو دن اور رات کی متاعِ حیات سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے، اس تگ و دو اور جہاد کا مقصد نہ محض حصولِ اقتدار ہو، نہ عوامی مقبولیت و شہرت،     نہ علمی کمال کا اعتراف، بلکہ صرف اور صرف وتوفنا مع الابرار کی تمنا اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے ہمہ تن شہادتِ حق میں مصروف ہوجانا ہو۔

اس جدوجہد میں مصروف ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا ہر چھوٹا یا بڑا عمل، وہ جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ایک عام دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں کسی اجتماع گاہ میں کرسیوں کی صف بنانا، یا دریاں بچھانا، یا شرکاے اجتماع کا خوش دلی سے استقبال کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن وہ جو  سراپا رحم و رحمت ہے، وہ ایسے کام کو بھی جس میں جیب سے ایک پیسا خرچ نہ ہو رہا ہو، ایک صدقہ قرار دیتا ہے۔ لکھنے والے اس چھوٹے سے عمل کو بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے اس نے اپنی جیب سے سونے کا پہاڑ اللہ کی راہ میں انفاق کر دیا ہو۔

مستقبل کی حکمت عملی کے تقاضے

اقامت ِ دین کی مستقبل کی حکمت عملی کا ہدف جہاں اس دنیا میں متوقع نتائج کے تناظر میں ہونا ہے، وہاں اُس سے بھی زیادہ آخرت میں کامیابی کے نقطۂ نظر سے طے ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں سیاسی اتحاد ہو یا معاشی اتحاد، وقتی افہام و تفہیم ہو یا طویل المیعاد اسٹرے ٹیجک تعاون، ایسے تمام معاہدوں پر غور کرتے ہوئے مقصود و مطلوب حصولِ اقتدار نہیں بلکہ حصولِ رضاے الٰہی ہونا چاہیے۔ اس جادۂ حق پر عمل کرتے ہوئے حصولِ مقصد کے لیے عمرنوح ہی کیوں درکار نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بُرہانِ قاطع ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ کبھی اسلامی جماعت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہودو نصاریٰ کے رویے پر اصولی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو وہ طرزِعمل غیریہودی اور غیرنصاریٰ میں بھی پایا جاسکتا ہے، یعنی جو اپنے وعدوں کو مسلسل توڑنے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہوں۔

اس تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کو اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے یہ سخت فیصلہ کسی نہ کسی مرحلے میں کرنا پڑتا ہے کہ ایک وقتی مفاد کو ترجیح دی جائے یا ابدی کامیابی کے لیے طویل جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میںحکمت دین (جو اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے) کے ساتھ زمینی حقائق کا جامع علم رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کہیں مڈٹرم انتخابات کا معاملہ ہو تو اپنی مقبولیت و شہرت کا اظہار کرنے کے لیے ہرہرمقام سے افراد کو قیادت کے لیے کھڑے کر دینا جذباتی اعتبار سے تو شاید قابلِ فہم ہو مگر طویل عرصے کی حکمت ِعملی کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار اصولی اور اخلاقی برتری پر ہے، عوامی برتری پر نہیں۔ ممکن ہے قریب تک دیکھنے والی نگاہ کے لیے ایک اچھا کام ہو، لیکن وہ جو دُور رس نگاہ رکھتا ہو اس کے لیے فوری اور بھاری کامیابی کی جگہ وہ عمل جو چاہے چھوٹا نظرآئے مگر دیرپا ہو اور مطلوبہ تبدیلی کے لیے مؤثر ذریعہ بنے، کہیں زیادہ اہم ہے۔ انبیاے کرام ؑ اور اہلِ حق کی نظر ظاہری سے زیادہ اس کامیابی پر رہی ہے جو جوہری اعتبار سے دین کے قیام کے لیے ممدومعاون ہو اور سب سے بڑھ کر جو آخرت میں جواب دہی کے وقت ساتھ دے سکے۔ گویا سیاسی حکمت عملی ہو یا انسانوں کو دین کی طرف بلانے کے ذرائع، ہرشعبے میں اصل ہدف آخرت کی کامیابی اور ’ابرار‘ کے ساتھ جنت میں داخلے کی طلب ہو، تو پھر دنیوی اعتبار سے بھی مفید اور دیرپا اثرات رُونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی یہی توشۂ نجات ہوں گے۔ اس پس منظر میں ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار محض دنیا طلب قوتوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی یہاں کی ظاہری ہاری ہوئی بازی بھی بہت بڑی کامیابی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ایک ظاہربین نگاہ کے لیے تو قریب المیعاد کامیابی ہی قوت کا مظہر ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائے۔ کسی طرح ایک مروجہ نظام کو چیخ پکار کے ذریعے ایک نام نہاد، غیرمنصفانہ، غیرجمہوری نظام قرار دے کر گلی کوچے میں ہلڑبازی کرنے والوں کی مدد سے گرا کر کرسیِ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر ایسی تبدیلی صرف قصرِاقتدار کے پہرے داروں کی تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو بجاے خود نہ اقتدار کا طالب ہو، نہ سیدھے یا ٹیڑھے قوتِ نافذہ پر قبضہ کرلینے کو فتح سمجھتا ہو، بلکہ اُس کے لیے اصل مقصود اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے، وہ اُس راستے کو اختیار کرتا ہے جو چاہے طویل ہو لیکن ہرقدم انبیاے کرام ؑ کے نقوشِ پا کی پیروی میں آگے بڑھ رہا ہو۔

وہ جو روشن مستقبل اور اُخروی کامیابی کے لیے پکارتے ہیں، جو نمازوں میں خشیت اختیار کرتے اور اپنی عبادات میں توازن و اعتدال اختیار کرتے ہیں، جو اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں، جو اپنی پاک بازی پر قائم رہتے ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کو اپنے عمل سے دعوت دے کر نارِ جہنم سے بچانے والے ہوتے ہیں___ ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں صرف ۲۰ افراد ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ دنیا ہجوم جمع کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور غضب ناک ہجوم کے بل پر نظاموں کو تہس نہس کرنے کا اعلان کرتی ہے، جب کہ ربِ کریم ان اہلِ ایمان کی صرف ۲۰ کی نفری کو جنھیں ہم کسی شمارقطار میں نہیں لاتے ۲۰۰؍افراد پر بھاری ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ وہ ۲۰؍ افراد کیا اپنی قوتِ ایمانی،  ایثار و قربانی، مقصد کی لگن، منزل کے واضح شعورسے کس حد تک آگاہ ہیں۔ اگر ان کا تصورِ منزل دھندلا گیا ہو، اگر ایثاروقربانی کی جگہ نفسا نفسی ہو، اگر قوتِ ایمانی کی جگہ محض افرادی قوت کو کامیابی کا پیمانہ بنابیٹھیں، تو یہ قصور حکمت ِعملی کا نہیں ان افراد کا ہے جو آغازِ سفر ہی کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہوں۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو راہِ حق میں داعی بن کر نکلا ہے، کیا اُس نے واقعی وہ ہجرت کی ہے جو اسے ان تمام تعلقات اور وابستگیوں سے آزاد کرے، جو ماضی میں اس کی زندگی کا حصہ رہی ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنے کاروبار میں وسعت و برکت کی بنا پر اپنے آپ کو طاقت ور انسان سمجھتا ہے؟ کیا وہ اب بھی قیادت و سربراہی کرنے والے افراد کے اردگرد رہ کر اپنے مستقبل کے روشن امکان تلاش کرتا ہے؟ کیا وہ منظرنامے میں نظر نہ آنے کو پسند کرتا ہے اور اُس اینٹ کی طرح جو منوں  ملبے کے بوجھ تلے دب کر بنیاد کا حصہ بن جاتی ہے اور جسے کبھی کوئی پرچم لگاکر نمایاں نہیں کیا جاتا، خاموش کارکن کی حیثیت سے اپنے دعوتی کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ کیا وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نہ صرف اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال، بلکہ اپنی جان کو بھی بازی پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔

ایسے افراد کے لیے ان جنتوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں ہر وہ شے ہے جو ایک متلاشیِ حق کو خوش، مطمئن اور مسرور کرسکتی ہے۔ اس حقیقی منزل تک پہنچنے کا راستہ جس وادی سے گزرتا ہے، وہ یہی چند روزہ دنیا ہے جہاں اصل کارزارِ حیات حق و باطل کی کش مکش ہے۔ جہاں ایک شخص کو صرف اور صرف ہدایتِ الٰہی اور سنتِ رسولؐ سے اپنی حکمت عملی اور  طریق کار کو اخذ کرنا ہے۔ ہمارے لیے غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم ان ۲۰؍افراد میں سے ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ وہ ہستی کر رہی ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے!

اس منزل کے حصول کے لیے جو وصیت قرآن کریم فرماتا ہے وہ بڑی واضح، عملی اور جامع ہے، یعنی اہلِ ایمان کا صبر کی روش کو اختیار کرنا اور مضبوطی کے ساتھ، یکسو ہوکر اسلامی دعوت میں لگ جانا۔ موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ساتھ دین کو بلاکسی تردد اور مداہنت کے پیش کرنا۔ وہ ایوانِ حکومت ہو یا عوامی اجتماع، حق کی بات کو پہنچانا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بعض سیاسی اتحادوں سے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں، جو شاید دعوت کی توسیع میں آسانی پیدا کردیں گی، اس کے باوجود ان قوتوں کے ساتھ شامل نہ ہونا جو اپنی ذاتی زندگی میں اور سیاسی تاریخ میں دین کا احترام نہ کرتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ کشاکش کا حصہ بننے سے تنہا صدیوں تک جدوجہد کرنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔

بلاشبہہ بعض مشروط اتحاد ایسے ہوسکتے ہیں جو وقتی مصلحت کی بنا پر کیے جائیں لیکن وہاں بھی اس بات کا خیال رکھنا کہ تحریک کسی ایسے کام میں تعاون نہ کرے جو دین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہو۔ جس طرح کفر ملت واحدہ ہے ایسے میں قرآن کریم چاہتا ہے کہ اسلامی جماعت کے افراد کی پہچان صبر، ربط باہمی اور تقویٰ ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۲۰۰) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر پر قائم ہوجائو، صبر پر ثبات کے ساتھ قائم رہو، آپس میں جڑجائو، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سے، تمھارے دل اور تمھارے احساسات سب یک جان ہوجائیں‘‘۔

اصْبِرُوْا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا اور فوری طور پر کہا گیا وَ صَابِرُوْا، یعنی یہ ایک انفرادی صفت ِ محمودہ نہیں ہے بلکہ اسے اجتماعی طور پر اختیار کیے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس صبر کا مفہوم    نہ صرف انفرادی طور پر استقامت ہے بلکہ تحریک کا مجموعی طور پر اس طرزِعمل کو اختیار کرنا ہے جو  اس کے اخلاص، تقویٰ، بے لوثی اور صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول کا مظہر ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کی مستقبل کی حکمت عملی میں جائزہ و احتساب کو مرکزیت حاصل ہے کہ ہماری آج تک کی پالیسی میں کہاں خلا تھا، کہاں عاجلانہ اقدام کیا گیا، اور کہاں مستقبل کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی گئی، جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہوں، تو پھر وہ غیبی نصرت، جس کا وعدہ ماضی میں انبیاے کرام ؑ کی اُمتوں سے کیا گیا تھا، جس کا وعدہ اُمت محمدیہؐ سے کیا گیا ہے، وہ نصرت آئے گی۔

حالیہ سیاسی بحران: چند غورطلب پہلو

قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھے کہ ملک میں افراتفری ہے،قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور مہذب معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے، حکومت ماضی اور حال سے کوئی سبق لیے بغیر اپنی روش پر قائم ہے، معیشت غیرمستحکم ہے، ثقافتی یلغار جاری ہے۔ جس ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہماری شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور سیاسی بیانات میں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے وہ باتیں دہرا رہے ہیں جن کا ہرلفظ زہر، عناد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت میں دھرنے کی شکل میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت اور قوت کے مظاہرے کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا کردی کہ اچھے خاصے باشعور افراد بھی ملک کی سالمیت، یک جہتی اور تحفظ کے حوالے سے خاصے فکرمند نظر آتے ہیں۔

اس تناظر میں کیا ایک عام شہری سیاسی منظرنامے کے پیش نظر مستقبل کو روشن اور کامیابی سے ہم کنار دیکھ رہا ہے یا اُس میں ہمت اور ارادے میں کمی اور شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟ اس حوالے سے برقی ابلاغ عامہ نے خصوصاً جو کردار ادا کیا ہے، قوم اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اس عرصے میں جو سیاسی مطالبات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، ان کے کیا اثرات ملک کے اندر اور عالمی تناظر میں پاکستان کی تصویر (image) پر پڑ رہے ہیں؟ ملک میں سیاسی ارتقا کے نقطۂ نظر سے دو جماعتوں کی مہم جمہوری روایت کو تقویت دے گی یا تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ دوبارہ قوم کو اُس مقام پر لاکھڑا کرے گا کہ ماضی کے چار مارشل لائوں کی طرح ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ سیاسی بساط کو لپیٹ دیا جائے، اور فوج ملک کی نجات دہندہ بن کر ایک پیشہ ورانہ نمایندہ حکومت  اپنی سرپرستی میں قائم کرنے کے بعد یہ طے کرے، کہ اسے دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہے، یا ماضی کی طرح کم از کم ۱۰ برسوں کے لیے ملک میں اصلاح کے نام پر فوج کو سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح جمہوریت کے احیا کے نام پر جمہوریت کا قتلِ عام کرنا ہے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج قوم کے ہرباشعور فرد کو پریشان اور متفکر کر رہے ہیں۔ یہ سوالات کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ ماضی میں جب بھی فوج نے سیاسی اقتدار سنبھالا تو اسی نوعیت کے سوالات قوم کے ذہن میں اُبھرے تھے۔ اب ان کی شدتِ تاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ عامہ مسلسل مایوسی اور الزام تراشی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت مخالف صحافتی اتحاد اور دوسری جانب حکومت حمایتی صحافتی اتحاد جس طرح حالات کا رُخ دکھا رہا ہے،   اس نے ابلاغ عامہ کی غیرجانب داری اور معلومات کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنے اور براہین پر مبنی واقعات پیش کرنے پر سے قوم کے اعتماد کو اُٹھا دیا ہے اور ابلاغ عامہ صحافتی دیانت (professional integrity) سے عوام کو حالات و واقعات سے مطلع کرنے کے بجاے خود سیاسی پریشر گروپوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔

جب برقی ابلاغ عامہ دن کے کم از کم ۱۰ گھنٹے مسلسل دو متضاد تصاویر پیش کر رہے ہوں،  ایک حکومت کے اقدامات کی توثیق اور عقلی جواز اور دوسری جانب چند ہزار افراد کے ایک ہجوم کا مطالبہ کہ اپنی ناکارہ کارکردگی کی بنا پر حکومت ِوقت مستعفی ہوجائے اور پانچ سال تک انتظار کرنے کے بجاے فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور چند ماہ میں تازہ انتخابات کرائے جائیں، تو نہ صرف مغالطہ بلکہ حالات سے مایوسی کا رجحان بھی تقویت پکڑنے لگتا ہے۔

ان حالات سے نجات کی راہ کیا ہو اور کس طرح فوج کی دخل اندازی کے بغیر حالات کو  صحت مند اور تعمیری رُخ پر لے جایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہرباشعور شہری کو  غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دو سیاسی جماعتوں کے گذشتہ مہینوں کے احتجاجی منظرنامے نے بعض بنیادی پہلو اُجاگر کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے عوام پاکستان میں دو پارٹیوں اور فوج کے یکے بعد دیگرے ملک پر حکمرانی کرتے رہنے سے تنگ آچکے ہیں اور اب دو نام نہاد بڑی پارٹیاں عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں۔ دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ فرق صرف انیس بیس کا ہے۔ جب ایک پارٹی پانچ سال حکومت کرتی ہے تو لوگ ایک ایک دن گن کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں کب ان سے نجات دے گا، اور جب دوسری پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو محض چند دن کے لیے تویہ احساس اُبھرتا ہے کہ شاید یہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوکر قوم کو معاشی، سیاسی، اخلاقی اور اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ کرنے میں کوئی پیش رفت کرے گی، لیکن چند ماہ کے بعد ہی یہ اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اور پھر تبدیلی کے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

لیکن آخر کب تک؟ یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج نے قوم کی ایک نفسیاتی ضرورت کو پورا کیا اور اسے بلندآواز سے یہ اعلان کرنے کا موقع دیا کہ وہ دو موروثی سیاست والی جماعتوں کی جگہ ایک تیسری نجات دہندہ قوت کی منتظر ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت طرزِعمل ہے جو اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

اس فضا میں جو سوالات ہرباشعور شہری کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں وہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف یا ۶۰ فی صد حصہ نوجوان آبادی کا ہے اور کم از کم ایک سیاسی پارٹی نے ان نوجوانوں کو سابقہ انتخابات اور حالیہ احتجاج کی مہم میں شامل کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کو صحیح طور پر متحرک کیا جائے تو ملکی حالات میں اصلاح کے لیے ایک تیسرے عنصر کا اُبھرنا اور کامیاب ہونا ایک ممکن بات ہے۔ بزرگ اور معمر سیاست کاروں کی سیاسی دانش مندی، تجربہ اور حکمت کے اعتراف کے ساتھ اب دَور نوجوان قیادت کا ہی ہے۔ اس لیے وہی سیاسی جماعت قیادت کی زیادہ مستحق ہوگی جو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کی قوت کو تعمیری رُخ دے اور روایتی سیاست سے ہٹ کر قومی مفادات کے حصول اور عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خود قوم کی عملی شرکت کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت پر قومی اجماع ہے لیکن تبدیلی کون سی؟ اور نوجوانوں کو متحرک کرنے والا کون سا نعرہ؟مستقبل کی تعمیرواصلاح کی کون سی حکمت عملی اور کون سا ٹھوس قابلِ عمل منصوبہ قوم کو اس دلدل سے نکال سکے گا؟

۱۸ کروڑ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے تبدیلی کے نام پر ہرشب نوجوانوں کو موسیقی اور رقص میں مصروف جو منظر دیکھا، اس پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تبدیلی لانے کے دعوے دار   ایک جانب جس معاشی اور سیاسی حل کا ذکر کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے اور کیا ایسی ٹیم موجود ہے جو اہلیت اور دیانت کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا سفر کامیابی سے انجام دے سکے؟ محض جوش اور بھنگڑوں کے ذریعے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے جہاں نوجوان خون ازبس ضروری ہے، وہیں مقصد اور منزل کا صحیح شعور رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت اور اچھے اخلاق کی حامل نئی قیادت بھی بشرط لازم ہے۔ ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دیے ہوئے تصورِ پاکستان پرسنجیدگی سے یقین رکھتے ہوں۔ جن کے شب و روز اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف ہورہے ہوں، جنھیں محض موسیقی اور رقص کی کشش کھینچ کر نہ لائی ہو بلکہ وہ سوچ سمجھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن سے اعلیٰ کارکردگی اور بہترین اخلاق دونوں کی توقع کی جاسکے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک طوفان کی طرح تبدیلی کا نعرہ اُبھرا اور اسے پذیرائی ملی، اس رفتار سے شام کی محفلوں، بیانات اور عمل میں تضاد نے اُس تیسرے راستے (option ) کی اُمید کی لَو کو مدہم کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انھیں محض شورشرابے اور اُچھل کود کی جگہ ایک واضح نقشۂ عمل دے کر متحرک کیا جائے، تاکہ قوم مایوسی اور نااُمیدی سے نکل سکے اور نوجوان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے سکیں۔

ملک کی دو آزمودہ سیاسی پارٹیوں اور دیگر جماعتوں نے اس سیاسی ارتعاش کے دوران جس عزم کے ساتھ دستورِ پاکستان کی پاس داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، چاہے اس کا سبب ان کی اپنی کوئی ذاتی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں جن جماعتوں نے دستور اور اسمبلی کے ادارے کو یا عدلیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ماوراے دستور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، شاید انھیں جلد یا بدیر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوجائے گا۔

سیاسی عمل کا تحفظ اور تسلسل ملکی مسائل کے دیرپا حل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک سے افلاس، بھوک، تعلیم کی کمی، مغرب کی اندھی تقلید اور غلامی، ریاستی اداروں کی کمزوری، فرقہ واریت، اسلام کے نام پر تشدد کا استعمال، اور تشدد کو دُور کرنے کے بہانے اسلام پر ہاتھ صاف کرنے کی خواہش، جہاد کو دہشت گردی سے وابستہ کرنا، بعض علاقائی اور قبائلی روایات کو پہلے اسلام قرار دینا اور پھر ان کے پردے میں دراصل اسلام پر تنقید کرنا، ان مسائل کو جو ہمارے آج اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، انھیں بلاضرورت اُبھار کر پیش کرنا___ یہ اور ان جیسے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ قوم کے سامنے ایک ایسا واضح اور قابلِ عمل نقشۂ کار پیش کیا جائے جو بجاے نظری حل پیش کرنے کے، عملی حل پیش کرے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کا فیصلہ تو مفکرِپاکستان علامہ اقبالؒ اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ۱۰۰ سے زیادہ ارشادات کی روشنی میں قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں دوٹوک الفاظ میں رقم کیا جاچکا ہے کہ اس ملک کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ دستور میں دیے ہوئے قومی پالیسی کے اصولوں کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، مفاد پرست طبقات کی گرفت سے قوم کو نجات دلائی جائے اور تعمیرو تشکیلِ نو کے لیے صحیح ترجیحات کے تعین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی اور مدت کے تعین کے ساتھ نقشۂ کار پیش کیا جائے، تاکہ قوم جس تیسری قیادت کی تلاش میں ہے، اُس قیادت کی طرف سے قوم کے سامنے ایک قابلِ عمل منصوبہ آسکے۔ نعروں، احتجاجوں اور دھرنوں کی جگہ معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی، ضلعی سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل شریعت کی روشنی میں ترتیب دینے کے ساتھ، ملک کے نوجوانوں کو اُس تبدیلی کے عمل میں مصروف کیا جائے جو مصلحانہ جہاد کا درجہ رکھتی ہو۔

تحریکِ اسلامی کے لیے امکانات

قرآنِ کریم نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ِعملی شیطان کی سو حکمت ِعملیوں پر غالب ہوتی ہے۔ پاکستان لازمی طور پر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جب عوام نے ایک تیسرے حل اور تیسری پسند کے بارے میں کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی نے اس بحران میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے ناقدین اور حامیوں اور حمایتیوں دونوں کی نگاہ میں ایک اچھا مقام حاصل کیا ہے، اور آج پاکستانی عوام اس بات کے شاہد ہیں کہ سنجیدہ،  بے لوث، قابلِ اعتماد اور تعمیری رُخ پر لے جانے والی قیادت تحریک میں موجود ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بلاتاخیر ملک کے نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے شہروں اور ضلعوں کی بنیاد پر ایک منصوبۂ عمل بنایا جائے۔ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ   ہم کن تعمیری سرگرمیوں کو اختیار کرسکتے ہیں اور کم سے کم مدت میں نوجوانوں کی کتنی تعداد کو دعوتِ حق سے روشناس کرانے کے بعد ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کردار کی تبدیلی اور    خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کیے بغیر نوجوانوں کا کوئی جمِ غفیر ایک ہجوم تو فراہم کرسکتا ہے، حقیقی سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا۔

آج تحریک کے لیے سنہری موقع ہے کہ تاریخ اسلامی تحریک کو ایک کلیدی کردار کی دعوت دے رہی ہے جس میں ملک و ملّت سے تمام مخلص اور خیرخواہ عناصر کو جمع کر کے اور نوجوانوں کی قوت کو صحیح طور پر منظم کر کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کی اس منزل کی طرف رواں دواں کیا جاسکتا ہے جو تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد اور ہدف تھا۔

اس تبدیلی کی بنیاد محض ہمارے دعوے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں قوم اور خصوصیت سے نوجوانوں کو  متعین طور پر ایک ایسا منشور اور نقشۂ کار دینا ہوگا جو ان کی اُمنگوں، قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت رُخ پر لے جائے، اور وہ ہنگاموں اور بھنگڑوں کی ثقافت سے نکل کر اقبال کے شاہینوں کی طرح نئے اُفق اور نئے محاذوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سہارے ملک و ملّت کا پرچم سربلند کرسکیں۔

قرآنِ کریم تعداد کی قوت کی جگہ تقویٰ، ایمان، اخلاص اور ایثار و قربانی کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تعمیر چاہتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا وہ صرف ایسے ۲۰ باشعور، مخلص، عادل نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ یہ ۲۰ اللہ کے سپاہی، ۲۰۰ مسلح اور اعلیٰ ٹکنالوجی سے لیس افراد کو بآسانی شکست دے سکیں گے۔ گویا سوال صرف ۲۰ نوجوانوں کا ہے۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان جن کے سامنے منزل واضح ہو اور لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرلیا گیا ہو، اپنے سے ۱۰گنا زیادہ باطل نظام کے ماننے والوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ اعلان اُس کی طرف سے ہے جو انسانوں اور کائنات کا خالق ہے۔ جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ نوجوانوں کو متحرک و سرگرم کرکے  ملک گیر پیمانے پر عوام کی انتظار کی گھڑیوں کا جواب فراہم کیا جائے!

قرآن کریم نے توحید کو انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہراُمت کو دعوت دیتے وقت انبیاے کرام ؑ نے صرف یہی کہا : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)، یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔ توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیربندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ  اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔

قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ط وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۱۵)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادایگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۲-۱۶)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘۔ یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o(الحج ۲۲:۷۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔

سورئہ ماعون میں مزید فرمایا گیا: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون۱۰۷:۱-۳)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادایگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادایگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔ حقوقِ انسان کی ادایگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامت ِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادایگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تو سارے جہانوں کا پروردگار، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔

اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)

حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کا راستہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔ اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ (red warning) کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کر دیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیاطلبی، منافع خوری اور دولت کے  جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیساکہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے ۔ اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہہ اللہ کی گرفت سب سے زیادہ شدید گرفت ہے اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔

قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندئہ مومن اور خصوصاً ان افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔  اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولادکی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، اسے مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا: ’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایے سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)

اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو  رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں،  پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔

معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)

اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں او ر مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبرہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)

اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا: ’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح    اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ ان اللہ کے بندوں پر جو اجنبی اور غیرمعروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔احادیث صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔

صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔

صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجاے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمایش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔

احادیث ِ شریفہ میں خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت اعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)

موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو  یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی   اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ  الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے    کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو    یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحب ِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)

حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لَایَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسُ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)

جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے  کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستایش نہ تمغہ، نہ سرٹیفیکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔

ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوںگے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفیدپوش ،خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ  نہ صرف ان کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کر رہے ہوں، بلکہ ان کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں ، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب ِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)

خدمت ِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بناپر حدوشمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے، ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو   موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)

عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔ معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور  ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

اگست ۲۰۱۴ء کا یہ مہینہ پاکستان پر بہت ہی بھاری پڑا ہے۔ اس وقت ملک اور قوم جس خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس پر ہر محب وطن دل گرفتہ اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دُعا ہے کہ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والے دونوں ہی گروہ ذاتی اور گروہی مفادات اور اَنا کے ہر جذبے سے بلند ہوکر، اس ملک کے مفاد میں، جو تاریخ اور ملت اسلامیہ پاک وہند کی ہم سب کے ہاتھوں میں بڑی قیمتی امانت ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی حل نکالیں، اور جو خطرات سیاسی اُفق پر منڈلا رہے ہیں ان کے پورے اِدراک کے ساتھ تصادم اور خون خرابے کی ہرشکل سے اجتناب کریں۔ جماعت اسلامی نے الحمدللہ اس زمانے میں مفاہمت اور مسائل کے سیاسی حل کے لیے جو کوششیں بھی کی ہیں ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ    ان کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد میں تنہا نہیں، دوسری سیاسی اور دینی قوتیں بھی اپنااپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں توقع ہے اور شب و روز اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہے ہیں کہ وہ ان کوششوں کو بارآور فرمائے اور یہ ملک تصادم، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تنقید اور تنقیص میں ہرحد کو پامال کردینے اور کفن اور قبرستان کے المیے سے بچ جائے، اور ملک و ملت کے بدخواہ جو خطرناک کھیل پورے عالم اسلام میں کھیل رہے ہیں اس سے پاکستان محفوظ رہے۔ بلاشبہہ حالات بے حد سنگین ہیں لیکن ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہرسطح پر اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حدوحساب ہے اور اس کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اہلِ ایمان کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں (لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط  الزمر ۳۹:۵۳)۔

یہ صورتِ حال کیوں رُونما ہوئی، بگاڑ کے اس مقام تک پہنچنے میں کس نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا اور مسئلے کے مستقل حل خصوصیت سے نظامِ حکمرانی کی اصلاح، حقیقی اسلامی جمہوریت کے فروغ، اور ایک عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام، انتخابی نظام کی تشکیلِ نو، سیاسی اختلاف اور تبدیلی کے طریقے کے بارے میں صحیح حدود کا تعین اور ان کے مطابق عملی جدوجہد کے آداب کا تعین اور ان کا احترام، اختلاف کی حدود اور تنقیدواحتساب کی زبان___ یہ سب وہ اُمور ہیں جن پر کھل کر بات کرنے اور قومی اتفاق راے کے ذریعے سیاست کو صحیح خطوط پر استوار کرنے، اور ہرسطح پر اور ہر قوت کے لیے دستور اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق جدوجہد کرنے کے مکمل اور کھلے مواقع فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان شاء اللہ !

آیندہ ہم ان اُمور کے بارے میں اپنی معروضات پیش کریں گے لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت، رہنمائی اور توفیق کی دعائوں کے ساتھ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والی قوتوں سے پوری دل سوزی کے ساتھ یہی درخواست کرتے ہیں کہ تصادم سے ہرقیمت پر پرہیز کریں۔ ہرپارٹی چند قدم پیچھے ہٹائے اور ملک و قوم کے اعلیٰ مفاد میں بیچ کا راستہ نکالنے اور ماضی کے اُمور پر انتقام کی جگہ آگے کے حالات کی اصلاح کو اولیت دے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے بھی مناسب ماحول بنانا ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ احتساب قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے،  ورنہ احتساب انتقام بن جاتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس سے بچنا اس وقت ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

ان حالات میں، اس دُعا اور گزارش کے ساتھ ہم اس مہینے کے ’اشارات‘ کو کچھ اصولی باتوں کی یاددہانی کے لیے مخصو ص کر رہے ہیں تاکہ ہم سب اپنا اپنا جائزہ     لے سکیں اور نفس کی اُکساہٹوں سے بلند ہوکر اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ایک مظلوم قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر وہ راستہ اختیار کریں جو فساد سے پاک اور خیروصلاح کی راہوں کو استوار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا سکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (اعراف ۷:۲۳) ’’اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘___ (مدیر)

قرآنِ کریم نے اہلِ ایمان کی جماعت اور معاشرے کو باہم دگر محبت ، نرمی، رواداری،  گرم جوشی، عفو و درگزر اور اخوت و یک جائی کی صفات سے متصف جماعت قرار دیا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو اہلِ ایمان کے اپنے رب کو رب مان کر اس پر مستقیم ہوجانے اور اپنی عبادات اور قربانیوں کو صرف اللہ کے لیے خالص کردینے کے نتیجے میں شخصیت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ ان صفات پر مبنی جماعت جہاں آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتی ہے، وہاں ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح بیک وقت گرفت کرنے والی اور شفیق، اور ایک درگزر کرنے والے بھائی کی طرح نظرانداز  کرنے والے معاشرے کی مثال ہوتی ہے۔

ربِ کریم نے اس جماعت کے بارے میں یوں بیان فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اہلِ ایمان کی دو بنیادی صفات کو، جو ان کی پہچان قرار دی گئی ہیں نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک مثبت صفت جس کا تعلق ان کے باہمی تعلقات اور معاملات سے ہے۔ یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اپنے جائز حق کو بھی اپنے بھائی کے لیے قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب ان کے ایک بھائی کو دنیا کے کسی خطے میں تکلیف پہنچتی ہے وہ غزہ ہو، بنگلہ دیش ہو، تھائی لینڈ ہو، کشمیر ہو، عراق ہو، مصر ہو یا شام، اس کے درد کی کسک وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ایک رحیم شخصیت ہونے کی بنا پر اس کو سکون پہنچانے، امن دینے، ان کی جان و مال کے تحفظ میں اپنی تمام قوت صرف کردیتے ہیں۔

ایک رحیم ماں یا باپ یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کا لخت ِ جگر درد میں مبتلا ہو اور وہ سکون کی نیند سو سکیں۔ ان کی بے چینی اور اضطراب محض پریشانی کی حد تک نہیں بلکہ ان کے عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ آگے بڑھ کر اپنا مال، اپنی جان، اپنی قوت، اپنی صلاحیت ہرشے کے ساتھ اپنے بھائی کو ظلم سے بچانے، اس کی جان کا تحفظ کرنے، اس کے مال کو ظالم سے بچانے کے لیے بے خطر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہ ایک عظیم عطیہ الٰہی ہے کہ وہ جو کل تک ایک دوسرے کے مال پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے، قبائلی تعصبات اور نسلی دشمنیوں میں گھرے ہوئے تھے، اس نے انھیں آپس میں رحیم بنا کر ان کے دلوں کو، ان کی روحوں کو، ان کی فکر کو، ان کے طرزِعمل کو ایک اعتماد کے رشتے میں جوڑ دیا اور وہ دیکھتے دیکھتے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔

 دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کفار پر سخت (اشداء) ہوتے ہیں۔ ایک تو خود   کفر میں سخت ہونا ہے جس کا تذکرہ سورئہ توبہ میں یوں ہوا: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا (التوبہ ۹:۹۷) ’’یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں‘‘۔کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو شدید قرار دیا گیا ہے: وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ دوسری جانب کفار پر سخت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اور اہلِ کفر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں تو پھر خون اور خاندان یا قبیلے کی محبت درمیان میں نہیں آتی۔ نظریاتی جنگ میں اہلِ ایمان اہلِ کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ دین کے معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے اور اپنے موقف پر جم کر استقامت کے ساتھ کفر کو اس کے انجام تک پہنچاتے ہیں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کبھی فرقہ پرستی کے نام پر اور بعض اوقات قبائلی عصبیت اور جغرافیائی قومیت کی بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے کے سامنے صف آرا ہوجاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ جنھیں باہم شیروشکر ہونا چاہیے تھا نہ صرف زبان سے بلکہ ہاتھ سے اپنے بھائی کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں؟انفرادی اور معاشرتی سطح پر تشدد، عدم رواداری اور عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کا علاج مزید شدت، عسکریت اور قوت کے ساتھ اس کو دبانے سے کیا جاسکتا ہے یا ان برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کسی خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے؟ اس تحریر کا مقصد ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

انسانی معاشرے میں بُرائی، ظلم و استحصال اور طاغوت کا آغاز غیرمحسوس طور پر ایک بظاہر معصومانہ غلطی سے ہوتا ہے اور وہی غلطی جو کل تک غیرمحسوس تھی انسان کو گھنائونے جرم تک لے جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ برائی کا آغاز انسان کے دل پر ایک چھوٹے سے داغ سے ہوتا ہے۔ اگر مسلمان توبہ کرلے اور نیکی کی طرف پلٹ آئے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ غلطی کا ارتکاب کرے تو یہ داغ بڑھتا رہتا ہے، حتیٰ کہ یہ پورے قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جب پورا قلب اس کی گرفت میں آجاتا ہے تو پھر انسان کے ذہن سے برائی کے برائی ہونے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ہم عموماً یہ بات کہتے ہیں کہ کیا کوئی انسان ایسا گھنائونا جرم کرسکتا ہے کہ وہ ایک بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنائے، یا کسی مسلمان بھائی پر قتل کی نیت سے ہاتھ اُٹھائے، یا کسی راہ چلتے کو، یا مسجد میں اللہ کے حضور اپنا سر جھکانے والے کو مسجد میں گھس کر  نشانۂ قتل بنائے؟ اس حدیث ِ مبارکہ میں سمجھایا گیا ہے کہ شقاوتِ قلبی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم جن دلوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ شقاوتِ قلبی میں پتھر بلکہ اس سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیںکیونکہ بعض پتھر ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی کا چشمہ رواں ہوجاتا ہے۔ لیکن جو قلب احساسِ بندگی کو دبا کر نفسی نفسی کے زیراثر داغ دار ہوچکے ہوں پھر وہ انسان جن کے دل میں ایک دھڑکنے والا قلب ِ سلیم نہ ہو بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہو تو وہ نہ اپنی آنکھ سے سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرسکتے ہیں، نہ اپنے کان سے اچھی اور فحش بات میں تمیز کرسکتے ہیں۔   قرآن کریم نے صحیح کہا ہے: صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸) ’’یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔

عدم رواداری، شدت پسندی، ظلم، ناانصافی، حقوق پر ڈاکا، بچوں اور خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ، معاشرے میں دھوکا دہی، رشوت، عدم تحفظ، غرض تمام برائیوں کا آغاز ایک فرد کے دل کے داغ دار ہو جانے سے ہوتا ہے اور جب کئی دل داغ دار ہوجائیں تو پورے معاشرے میں فساد و بدامنی پھیل جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

اس داخلی سبب کے ساتھ ساتھ بعض بیرونی عناصر بھی انسان میں انتقام، توڑ پھوڑ، ظلم و استحصال کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانوں کے حقوق کا پامال کرنا ہے۔ اگر ایک معاشرہ یا ریاست اپنے باشندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے اور خود آسایش اور ثروت کی زندگی گزارے تو حقوق سے محروم افراد میں انتقامی جذبہ اُبھرنا ایک فطری عمل ہے۔ ایک حدیث میں اس طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کو عمدہ اور قیمتی پھل نہ کھلا سکتا ہو تو  کم از کم پھل کھانے کے بعد ان کے چھلکے اپنے دروازے کے سامنے گلی میں نہ پھینکے۔ احساسِ محرومی اور فقر انسان میں جو ردعمل پیدا کرتا ہے حدیث میں اسے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور شرک ایک شخص کو کسی بھی ایسے کام پر آمادہ کرسکتا ہے جو اسلام کے اعلیٰ اخلاقی رویے کی ضد ہو۔ چوری، ڈاکا، قتل کا ایک سبب یہی احساسِ محرومی ہوتا ہے کہ ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ جس دولت میں سے اسے کچھ ملنا چاہیے تھا وہ صرف چند افراد کے قبضے میں ہے، اس لیے وہ اسے غیر اسلامی ذرائع سے چھین کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ریاست اور معاشرہ اپنی اس ذمہ داری سے اسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا ہے جب وہ ناداروں کو ان کا حق دے، بے علم افراد کو تعلیم سے آراستہ کرے اور بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرے۔ یہ شہریوں کے وہ حقوق ہیں جو اسلام نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل قرآن اور سنت کے واضح احکامات کی شکل میں ہم کو دیے ہیں۔ ہم نہ ان احکامات سے واقفیت حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ انھیں معاشرے اور ریاست میں نافذ کرنے کی۔ آخر زکوٰۃ کو ایک عبادت اور فریضہ قرار دینے کا مقصد اور کیا تھا۔ زکوٰۃ کو ایک ٹیکس قرار دینا زکوٰۃ کے مفہوم اور روح سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یہ دراصل معاشرے سے افلاس، فقر، بھوک، جہالت، بیماری اور     عدم تحفظ کے خاتمے کے شرعی نظام کا نام ہے۔ نہ صرف زکوٰۃ بلکہ وسیع تر پیمانے پر صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اسلامی معاشرے کے ہر مجبور، نادار اور ضرورت مند کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

تعلیم

معاشرے اور فرد میں بغاوت و انتقام کا جذبہ پیدا کرنے میں جہالت کا کردار اہم ہے۔ اسی بنا پر قرآن و سنت میں تعلیم کو ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم محض چند صلاحیتوں کا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ بنیادی اخلاقی رویوں کے اختیار کرنے کا نام ہے۔ وہ تعلیم اُمت کے لیے زہر ہے جو اخلاق و آداب اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک اعلیٰ معاشی مزدور تو پیدا کرتی ہو لیکن اسے اخلاق، عدل و انصاف، سچائی، پابندیِ عہد اور انسانوں کے حقوق سے آگاہ نہ کرتی ہو۔

گھر کا ماحول

انسانی کردار کی تعمیر کی پہلی بنیاد گھر کی چار دیواری میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ایک بچے کو  ماں باپ کی طرف سے محبت، توجہ اور اچھے اخلاق و عادات کو پیدا کرنے پر متوجہ نہ کیا جائے اور بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے سوالات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے  ٹی وی اسکرین کے حوالے کردیا جائے، تو پھر وہ روزِ اوّل سے تشدد ، ماردھاڑ ، قتل و غارت، چالاکی ، دھوکادہی اور عریانیت و فحاشی کو کارٹونوں کی شکل میں بار بار دیکھ کر اُس حدیث کے مصداق احساسِ مروت، احساسِ شرم، احساسِ فرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں جس میں دل کی سختی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔جدید تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ایک بچہ عموماً دن میں چار تا آٹھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے گزارتا ہے، اور مسلسل چار تا آٹھ گھنٹے تک جب آنکھ کے پردے پر تشدد کے مناظر دہرائے جائیں تو ان کے نقوش یادداشت کے پردے پر مرتسم ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک بچے کا ہنسنا، رونا، روٹھنا، مطالبہ کرنا، چلنا، اپنے چہرے سے مختلف قسم کے تاثرات کا اظہار کرنا، غرض اس کا پورا کردار کارٹون کے کردار کا ایک چربہ بن جاتا ہے۔

گھریلو رویے

جنسی مساوات (Gender Equality) کے زیرعنوان خاندان کے تقدس و احترام کو بڑی تیزی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے اور اس میں ابلاغِ عامہ اور سرکاری تعلیم کے نصاب کا بڑا دخل ہے۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، دونوں شکلوں میں جو کتب استعمال کی جارہی ہیں ان میں انفرادی امتیازات (individualities) اور جنسی مساوات کو مثالوں اور بیانات کی شکل میں بار بار دہرایا جاتا ہے،حتیٰ کہ ایک طالب علم اس مغربی تصور ہی کو حق سمجھتا ہے۔ یہ تصور نہ صرف  اس کی ذاتی شخصیت بلکہ اس کی خاندانی زندگی کو اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایک شوہر اور بیوی دونوں اپنی اَنا، ذاتیت اور انفرادیت کے خول میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان کی فکر، ان کا طرزِعمل، ان کا اظہارِ محبت بھی اسی کا اسیر ہوتا ہے اور کسی لمحے بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے  آمادہ نہیں ہوتے۔ شوہر کی ہرمعاملے میں اپنی پسند ، وہ کھانا ہو، لباس ہو، گھر کا رہن سہن ہو، تفریح ہو، باہمی تعلقات ہوں، اور ایسے میں بیوی کا اپنی ذاتی پسند پر اصرار ، گھریلو عدم تعاون، جذباتی فاصلے اور آخرکار گرم گفتاری اور پھر گھریلو تشدد تک پہنچتا ہے۔ جدید اعداد و شمار، انتہائی تشویش ناک حد تک یہ پتا دیتے ہیں کہ اس وقت ۸۰، ۸۵ فی صد شادیاں اس بحران یا انتشار سے دوچار ہیں۔ یہ وبا ایک معاشرتی کینسر کی شکل اختیار کرگئی ہے اور جب تک تشدد، خودرائی اور انفرادیت کے بتوں کو گھر کے اندر مسمار نہیں کیا جائے گا، ان بتوں کی پرستش سے معاشرہ پاک نہیں ہوسکتا۔

جو بچے ایسے ماحول میں تربیت پائیں گے جہاں گھر روزانہ ایک معرکۂ جنگ کی شکل پیش کرتا ہو وہ معاشرے کو امن و سکون نہیں دے سکتے۔ جو بچہ باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہے یا جو  ماں باپ اپنے بیٹے کو اپنی بہن کو دھکا دے کر گرانے پر سزا نہیں دیتے وہ گھریلو اور معاشرتی فساد کو کبھی نہیں روک سکتے۔

معاشی استحصال

جس کھیت سے دہقان کو تو روزی میسر نہ ہو لیکن اس کھیت کے مالک کے گھر میں ہر شام محفلِ موسیقی اور پُرتکلف دعوتیں ہورہی ہوں وہ کب تک اپنی ناداری پر نازاں ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں معاشی ظلم و استحصال جب بھی بڑھے گا ، عدم تحفظ، تشدد اور توڑپھوڑ کے عمل میں اضافہ ہوگا۔ اس برائی کا دُور کرنا نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے۔ اجتماعی اصلاح کا احساس اس کے لیے مناسب اداروں کا قیام اور سیاسی اور سماجی تحریکات کا ان معاملات میں آگے بڑھ کر اصلاح کا آغاز کرنا ہی معاشرے کو دوبارہ امن و سکون دے سکتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام

معاشرے میں جب سیاسی عدم استحکام ہوگا اور کسی کو یقین نہیں ہوگا کہ کل کیا ہونے والا ہے، حکومت کتنے دن کی مہمان ہے تو قانون نافذ کرنے والے  اداروں کا تقدس بھی متاثر ہوگا، اور جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اثر معاشرے میں نہیں ہوگا تو بدامنی ، قانون شکنی اور فساد زمین پر پھیلے گا۔ بیرونی دشمن ہمیشہ یہی حکمت عملی اختیار کرتا ہے کہ کسی ملک کو اندورنی خلفشار میں مبتلا کردے تو پھر بغیر کسی جنگ یا عسکری فتح کے وہ دوسرے ملک کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام اور بدامنی ہوگی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوگا تو یہ مزید استحصال، ظلم اور    عدم تحفظ کو پیدا کرے گا۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رُخ کرتے ہوئے ہچکچائیں گے  اور مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہیںگے۔ نتیجتاً معاشی انتشار، زوال اور بے روزگاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔

اس لیے معاشرتی توڑ پھوڑ کے عمل کو چند خوب صورت سیاسی بیانات سے دُور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے حکومت ِ وقت اور معاشرے کے ذمہ دار ارکان کو یکساں طور پر اپنے فرائض کو پورا کرنا ہوگا۔

اخلاق و کردار

کسی بھی معاشرے کے بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا  ہوتا ہے۔ اگر اخلاق گر گیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی   صاف ستھرا، پُرامن اور پُرسکون ہوگا۔

ہم نے مغرب کی اندھی نقالی میں اپنے اخلاقی سرمایے کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہرہرشعبے میں مغربی اخلاق و اقدار کے منفی پہلوئوں کو عالم گیریت کے نام پر سینے سے لگا لیا ہے۔ چنانچہ مغرب کی پابندیِ وقت، محنت کرنے کی عادت، عوام کو جواب دہی، عدالتوں میں قانون کی بالادستی جیسی عادات کی جگہ مغربی فحاشی ، آزادی کے نام پر احترام اور تقدس کو تارتار کرنا، مساوات کے نام پر خواتین کا استحصال اور انھیں ایک معاشی کھلونا بنا دینا، دین کی جامع تعلیمات کی جگہ اسلام کو مذہب قراردینا اور پھر مذہب کو تمام معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات سے خارج کرنے کو ترقی پسندی کا نام دے دیا ہے۔

اسلام کے اعلیٰ اخلاقی نظام کی جگہ ہم نے لادینی مفاد پرست اخلاقیات کو ہرسطح پر رائج کرنے کے لیے اپنے ابلاغِ عامہ کو بداخلاقی کے ہراول دستے کا مقام عطا کردیا ہے۔ ہمارا ابلاغِ عامہ ملک سے مایوسی، ملک کے محافظوں سے نفرت، ملک کی اخلاقی اقدار کی جگہ ہندوانہ ثقافت کو رائج کرنے میں پیش پیش ہے، اور ہر وہ بُرائی جو سرحد پار کے معاشرے میں رائج ہو اسے مزید بدتر شکل میں ہمارے ہاں متعارف کرانے میں مصروف ہے۔

اس غیر اخلاقی عمل کو ہم نے ’ابلاغِ عامہ کی آزادی‘ کے خوش کن نعرے کی شکل دی ہے اور آزادیِ اظہار کی ایک نئی تعریف ایجاد کی ہے جس کے نتائج معاشرے میں جابجا نظر آرہے ہیں۔

رواداری اور برداشت : اسلامی حکمت عملی

ہر وہ معاشرہ جو اسلامی تصور صبر، قناعت، مسابقت فی الخیرات، اخوت، قربانی اور   تعاون علی البر کی جگہ درآمد کیے ہوئے ہندوانہ یا مغربی تصورات و اقدار کو اختیار کرے گا، اس میں معاشرتی توڑ پھوڑ کا عمل فطری طور پر ہوگا اور قوتِ برداشت کی جگہ فوری فائدے کے حصول کی نفسیات کارفرما ہو گی۔

قرآن و سنت کا دیا ہوا حل نہ صرف آسان ہے بلکہ انتہائی عملی ہے۔ زندگی کے ہرمرحلے کے لیے اس نے جو حکمت عملی دی ہے ہم نے اسے اپنی ناسمجھی کی بنا پر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام کایہ حل نہ وقت میں قید ہے نہ مکان میں بلکہ ہر دور میں اور ہرمقام پر یکساں قابلِ عمل ہے۔ اس حکمت عملی کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:

فرد میں اعتدال:

توازن اور عدل کا رویہ:قرآن کریم کاہر فرمان ایک فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست ہر سطح پر امن و سکون پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہمیں اسے گھر، تعلیم گاہ اور معاشرے میں متعارف کرانا ہوگا۔

قرآنِ کریم کی بنیادی تعلیمات میں توحید کے بعد سب سے اہم تعلیم، عدل، توازن اور اعمال کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے کی ہے۔ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ توازن سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کی روش سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ عدل انسان کے ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور بین الانسانی معاملات میں خوب صورتی اور حُسن پیدا کرتا ہے اور اس عدل کی کمی ، ظلم، استحصال اور ناانصافی کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے عدل کے بغیر کسی معاشرے میں بھلائی اور اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ معاشی بدحالی سے زیادہ عدل کا فقدان تباہی کا باعث بنتا ہے۔

معاشرتی حقوق کی ادایگی:

وہ حقوق والدین کے ہوں یا بیوی اور بچوں اور پڑوسیوں کے، ہمیں انھیں اولیت دینا ہے اور مغربی انفرادیت کے خول سے نکل کر اسلام کے اجتماعیت کے تصور کو اختیار کرنا ہے۔اسلام ایک جامع اجتماعی نظام ہے، یہ محض ایک فرد کی انفرادی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے۔ حقوق کی ادایگی باہمی رواداری، اخوت کو پروان چڑھانے اور طبقاتی نظام سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔ فقرا و مساکین کی ضروریات کا پورا کرنا کوئی ’خیراتی‘ کام نہیں ہے۔   یہ انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس لیے فرمایا گیا: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)یعنی’’ تمھارے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔

مسلمان کے مسلمان پر حقوق کو تعلیم گاہوں، دفتروں، تجارتی مراکز، غرض ہر مقام پر تعلیمی اور دیگر ذرائع کا استعمال کرکے ان حقوق کی آگاہی اور ان پر عمل کو ضابطہ بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں جو کم از کم عملی کام کرنے ہوں گے وہ اختصار سے درج ذیل ہیں:

غصہ پر قابو:

یہ وہ شیطانی عمل ہے جو ایک انسان کو چند لمحات کے لیے عقل و دانش کی جگہ انتقام اور زیادتی کی طرف لے جاتا ہے۔ ارشاد رحمۃ للعالمینؐ ہے: ’’جو (خلافِ حق بولنے سے) اپنی زبان کی حفاظت کرے گا، اللہ اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا، اور جو اپنے غصے کو روکے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذاب کو اس سے ہٹائے گا،اور جو خدا سے معافی مانگے گا خدا اس کو معاف کردے گا‘‘۔(عن  انسؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسٰی ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ’’اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے پیارا ہے؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، مشکوٰۃ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقعے پر اپنے اُوپر قابو رکھتا ہے (یعنی غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جو اللہ او رسولؐ کو ناپسند ہو)۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری)

جھوٹ سے نجات:

ہر وہ شے جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے گئے معاہدۂ اطاعت و فرماں برداری سے ٹکراتی ہو۔ ایفاے عہد، خوش کلامی، عفو و درگزر، امانت داری یہ وہ احکامات ہیں جن کے خلاف کوئی عمل کرنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے، اور جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے اس کا جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے‘‘۔(عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری، مسلم)

تعلقات کی اصلاح اور دوغلے پن سے نجات:

ہمارے معاشرے میں دوعملی اور دورُخاپن ایک بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے جو آخرکار تشدد و ٹکرائو کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں دورُخے پن کو ختم کر کے اخلاص اور بھلائی کی تلقین کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جو شخص دنیا میں دو رُخاپن اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی‘‘۔( عن عمارؓ، ابوداؤد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن بدترین آدمی اُس شخص کو پائو گے جو دنیا میں دو چہرے رکھتا تھا۔ کچھ لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا تھا اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ‘‘۔(متفق علیہ)

صوبائی،قبائلی ، سیاسی عصبیت:

ظلم اور عدم رواداری کا ایک بڑا سبب برائی کا دفاع، اپنی برادری یا قبیلے کا ساتھ دینے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ ایک عظیم گناہ اور معاشرتی بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ جو شخص اس مرض میں گرفتار ہوا اس کی آنکھ وہی دیکھتی ہے جو اس کی برادری، قبیلہ یا جماعت اسے دکھائے۔

ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی نشان دہی یوں فرمائی: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیںہے جو عصبیت کی دعوت دے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے، اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مرے‘‘۔( عن جبیر بن مطعمؓ، ابوداؤد)

راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔(عن ابونسیلہؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص (کسی ناجائز معاملے میں) اپنی قوم کی مدد کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی اُونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور یہ اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا ہو تو یہ بھی اس کے ساتھ جاگرا‘‘۔(عن ابن مسعودؓ، ابوداؤد)

جھوٹی گواھی:

ہم اکثر اپنی وابستگیوں اور تعلقات کے اتنے غلام ہوجاتے ہیں کہ عدل اور حق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ لسانی عصبیت ہو یا قبائلی اور نسلی عصبیت ان بتوں کو پوجنے کے لیے ہم ایسی اصطلاحات ایجاد کرلیتے ہیں جو ہمیں محبت کے نام پر نفرتوں کو پھیلانے کی آزادی دے دیں۔

کسی طاغوتی طاقت کو امن و سلامتی کا رکھوالا سمجھنا، کسی سودی قرض دینے والے ادارے کی ہرطرح کی شرائط تسلیم کرکے قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبا دینا، کسی نام نہاد عالمی ادارے کو خوش کرنے کے لیے اسلامی شریعت کے منافی دستوری ترمیمات کے ذریعے شرعی احکام کو پامال کرنا، اپنے ذاتی مفاد اور معاشی فائدے کے لیے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دینا___ یہ سب معاملات شہادت زور (جھوٹی گواہی) کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک ان سے توبۃ النصوح نہ کی جائے اور ان کی طرف پھر کبھی رُخ نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون، رواداری اور اخوت و محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔

آج شہادت زور ٹی وی اسکرین پر ہو یا عدالت میں یا کسی عظیم الشان اجتماع میں، اسے ایک فنکارانہ صلاحیت اور چابک دستی قرار دیاجاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے بغیر معاشرہ اور فرد بھلائی اور سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے: ’’خریم بن فاتکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب لوگوں کی طرف رُخ پھیرا تو بیٹھے رہنے کے بجائے آپؐسیدھے کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا: ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر کے گناہ ہیں‘‘۔(ابوداؤد)

پھر آپؐ نے پڑھا: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ (تو تم ناپاکی یعنی بتوں سے دُور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے دُور رہو اور خدا کے لیے یک سُو ہوجائو، شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو)۔

شہادتِ زور کو الرجس قرار دینا خود اس کے گھنائونا ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جھوٹی گواہی محض عدالتوں میں نہیں بلکہ ایمان کے دعوے کے بعد نماز کی ادایگی نہ کرنا، زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا، ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا، طاغوتی قوتوں کے خلاف کلمۂ حق بلند نہ کرنا غرض زندگی کے تمام معاملات میں اس اہم تعلیم کا دخل ہے۔ اسلامی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ہوسکتی ہے جب شہادتِ زور سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جائے۔

افواھوں کی سرکوبی:

آج آزادیِ صحافت اور آزادیِ راے کے نام پر جس بے دردی کے ساتھ حقائق کا گلا کُندچھری سے ذبح کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ بن گیا ہے۔ یہ افواہیں بُرائی کے فروغ اور ظلم و استحصال کے لیے سازگار فضا پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو ورغلا کر سڑکوں پر آکر توڑپھوڑ اور معصوم شہریوں کی اِملاک کو نقصان پہنچانے پر اُبھارتی ہیں۔ اس فتنے کی اصلاح بلاتاخیر کرنی ہوگی۔ دین کی حکمت کو قیامت تک سب سے زیادہ سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’شیطان آدمی کے بھیس میں کام کرتا ہے، وہ لوگوں کے پاس آکر جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے۔ پھر لوگ جدا ہوجاتے ہیں (یعنی مجلس ختم ہوجاتی ہے اور یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں) تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ مَیں نے یہ بات ایک آدمی سے سنی ہے جس کا چہرہ تو مَیں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا‘‘۔ ( عن ابن مسعودؓ، مسلم)

خیرخواھی اور حق گوئی:

معاشرے کے ہر کلمہ گو فرد کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اصلاح اور نیکی کے قیام کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔ وہ افراد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ سمجھتے ہوںان پر یہ فریضہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرہرسطح پر اپنے ہاتھ،اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور خیرخواہی اور نصیحت کے فریضے کو انجام دیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ یہ بات آپؐ نے تین دفعہ فرمائی۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کس کے لیے خلوص اور خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے سربراہوں کے لیے، اور عام اہلِ اسلام کے لیے‘‘۔(عن تمیم داریؓ، مسلم)

خلوصِ نیت سے اصلاحِ احوال کے لیے بھلائی کا مشورہ دینا، امر بالمعروف کرنا اور اس مشورے میں کوئی تخصیص نہ کرنا دین کا تقاضا ہے۔ یہ نصیحت ہرہرسطح پر کرنی ہوگی۔ وہ ایوانِ اقتدار ہو یا کسی تحریک کا نظم، وہ عام کارکن ہوں یا مرکزی ذمہ داران، اس سے کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک یہ پُرخلوص تنقید ہوتی رہے گی ادارے، تحریکات اور ملک کے سربراہان راہِ راست پر رہیں گے۔ جب مصلحت، بزرگی اور منصب کے احترام کی بنا پر حق بات کا نہ کہنا عام ہو جائے تو پھر نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی گھر، نہ کوئی جماعت اور نہ کوئی ملک صحیح خطوط پر ترقی کرسکتا ہے۔

 تعلق باللّٰہ:

دین کے تمام معاملات کا انحصار تعلق باللہ پر ہے۔ اس لیے امربالمعروف اور نصیحت ہو یا افواہوں کو رد کرتے ہوئے حق کی گواہی دینے کا مرحلہ، تحریک کے اندر کسی کمزوری کی نشان دہی اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش ہو یا احتسابِ نفس اور ذمہ داران کا احتساب، ہرہرعمل کی بنیاد تعلق باللہ پر ہے۔ جتنا ہمارا تعلق اپنے رب سے، اس کے بھیجے ہوئے  کلامِ قرآنِ مجید اور اس کے مقرر کردہ ہادی اعظمؐ اور خاتم النبیینؐ سے انتہائی قریبی نہیں ہوگا، ہماری کوئی کوشش بارآور نہیں ہوسکتی۔ ربِ کریم کا وعدہ ہے اور اس کا ہر وعدہ حق ہوتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اللہ کو رب مان کر اس پر استقامت سے جم جاتے ہیں اور کسی اور کی حاکمیت ماننے کو تیار نہیں ہوتے، تو وہ اَن دیکھی قوتوں سے ان کی نصرت کرتا ہے اور کامیابی کو ان کا مقدر بنا دیتا ہے۔

معاشرہ، خاندان اور ریاست سے تشدد کا خاتمہ مزید تشدد سے نہیں دین کی حکمت اور دین کی واضح تعلیمات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے۔ عدل کا قیام، سچائی کا فروغ اور امانتوں کا ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔