پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


مستشرقین کے نقطۂ نظر کا جائزہ

مغربی محققین واضح تاریخی حقائق کا دیدہ دلیری سے مذاق اڑاتے ہوئے خود قرآن کریم کے حوالے سے وہ بہت سی باتیں دوبارہ اٹھا رہے ہیںجو صدیوں سے زیربحث آتی رہی ہیں اور جن پر مسلم علما اور دانش وروں نے علمی سطح پر بغیر کسی معذرت کے حقائق کو بلاکم و کاست پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

بعض مغربی ناقدین قرآن کریم کی ان آیات کے حوالے سے جن میں جہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ ایسی آیات کی موجودگی میں‘ جو ان کے بقول ان آیات کو منسوخ کر دیتی ہیں جن میں امن ‘ترقی اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے‘ اسلام کو کس طرح ایک امن پسند مذہب کہا جا سکتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۷۴ کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں۔ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور    ہم اجرعظیم عطا کریں گے‘‘ (النساء ۴:۷۴)۔


  • وائس چیئرمین ‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد

اس آیت مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد مغربی مستشرق یہ کہتے ہیں کہ اسلام لوگوں کو لڑائی اور قتل پر اُبھارتا ہے۔ کاش! یہی مستشرق اس آیت سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیتے اور پھر دونوں آیتوں کو ملا کر ان کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے۔ رب کریم اگلی آیت میں فرماتا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگارپیدا کر دے‘‘ (النساء ۴:۷۵)۔ اس آیت کو اگر صرف ایک غیرجانب دار نظرڈال کر پڑھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت کس کے خلاف جنگ پر اُبھارتی ہے ؟اگر ظلم‘ تشدد‘ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے سفاک افراد کو ان کے حال پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ ہم تو امن کے پرستار ہیں‘ ہم تلوار کو ہاتھ لگا کر گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے تو کیا یہ رویہ اخلاق کے کسی بھی پیمانے پر پورا اُترے گا؟

اسلام اور قرآن کو کوئی معذرت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر جہاد کی بات کرتا ہے تو دوٹوک‘ سیدھے اور غیرمبہم انداز میں یہ بات کہتا ہے کہ ہر ظالم‘ جابر‘سفاک کے خلاف جنگ کرنا انسانی فریضہ ہے۔ اسلام کا مقصد قیامِ امن و عدل ہے اور اس میں گفت و شنید‘ اخلاقی دبائو‘ترغیب‘ مکالمہ ہرچیز ناکام ہو جائے اور عورتیں‘بچے اور بوڑھے مسلسل ظلم کا شکار ہو رہے ہوں تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ مظلوم مسلمان ہیں یا غیرمسلم‘ ان کی نصرت و امداد مسلمان پر فرض ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو یہ دو آیتیں دیتی ہیں۔ ان میں کس جگہ یہ کہا گیا ہے کہ بلاکسی سبب کے جب اور جہاں چاہو مذہب کے نام پر خون بہائو؟

اسی طرح سورۂ توبہ کی ایک آیت کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس میں غیرمسلموں اور اہل کتاب کے خلاف قتل عام کی اجازت دی گئی: ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اوردین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘ (التوبہ ۹:۲۹)۔ یہاں بھی  قرآن کریم یہ بات واضح الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ غیرمسلم اہل کتاب ہوں یا کوئی اور‘ ان کے خلاف صرف اس وقت تک جنگ کی جا سکتی ہے جب تک وہ اسلامی ریاست کی امارت  تسلیم نہ کرلیں۔ اصل مقصد ان کو قتل کرنا‘ ختم کرنا‘ تباہ کرنا نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی اور  امن و عدل کا قیام ہے۔ جہاد کا مدعا انھیں مار مار کر قوت کے زور سے مسلمان بنانا یا صفحۂ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی ذی روح بلکہ غیر ذی روح کو بھی تشدد کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات۔ یہ صرف مغربی سامراجی طاقتوں کا طریقہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں ’’تورابورا‘‘ کرنے کا پیدایشی حق بزعم خود استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ ویت نام ہو‘ کوریا ہو‘ بوسنیا ہرذی گوونیاہو‘ چیچنیا ہو‘ آذربائیجان ہو‘ افغانستان ہو یا عراق وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا اپنا’’انسانی فرض‘‘سمجھتے ہیں۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱ کے حوالے سے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ یہود اور عیسائیوں کو دشمن کے مقام پر رکھ دیتی ہے اور اس طرح ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱)

سلسلۂ مضامین پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آیت ۴۲ سے جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے وہ اہل کتاب کا عناد‘ جھوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی طرزِعمل ہے جس میں ان کے مذہبی رہنمائوں کا اپنے ذاتی مفاد کے لیے تورات و انجیل کی تعلیمات کو بدل دینا اور اللہ کے ساتھ حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کو شریک بنانا ہے۔

پھربتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعتیں مختلف ادوار میں نازل کی ہیں ان میں بہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت بھی انھی اصولوں پر مبنی اور من جانب اللہ ہے‘ اس لیے یہود و نصاریٰ کے بہکائے میں آئے بغیر فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کیے جائیں‘ باوجود اس کے کہ یہود و نصاریٰ کی کوشش یہ ہو کہ اہل ایمان کو فتنے میں ڈال کر اپنی طرح گمراہ کر دیں۔

اس تفصیل کے بعد جو آیت ۴۲ سے آیت ۵۰ تک بیان کی گئی ہے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہود اور عیسائیوںکو رفیق نہ بنایا جائے کیونکہ یہ تو آپس ہی میں گمراہوں کے رفیق ہوسکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو سیاق و سباق کی روشنی میں اس سے زیادہ سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس سورہ کے حوالے سے مستشرقین یہ الزام اسلام کو دیتے ہیں‘ اس کا آغاز جن الفاظ سے کیا جا رہا ہے وہ ان محققین کی نگہ انتخاب سے     نہ جانے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘ (یہودی یا عیسائی) بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو‘‘۔ (المائدہ ۵:۵)

ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جن یہودی یا عیسائی نیک خواتین کے ساتھ رشتہ مناکحت کی اجازت دی جا رہی ہو گویا انھیں اپنے گھر اور اپنے معاشرے میں ایک قابلِ احترام بیوی کا مقام دیا جا رہا ہو اور جن کے ساتھ کھانے پینے کے معاشرتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہو‘ ان کے بارے میں کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ تمھارے دشمن ہیں‘ جہاں کہیں مل جائیں انھیں تہ تیغ کر دو‘ تہس نہس کر دو اور صفحۂ ہستی سے مٹا دو!

دوسری جانب کیا قرآن کریم کو یہ چاہیے کہ جو یہودی اور عیسائی بظاہر دوست بن کر آئیں‘ جب کہ ان کا واضح مقصد فتنہ و فساد ہو‘ اہل ایمان کو آپس میں لڑانا ہو‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت کے بہانے بلا کر زہر بھرا گوشت کھلا کر قتل کرنے کی نیت ہو تو کیا قرآن یا تورات کو ایسے افراد کو جگری دوست بنانے کا مشورہ دینا چاہیے؟ قرآن کریم ہی نہیں‘ کسی بھی کتاب سے ایک جملہ نکال کر اس کو اپنے من مانے معنی پہنانا نہ تو فکری دیانت ہے اور نہ اس کتاب کے ساتھ انصاف۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ کہا تھا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (المائدہ۵:۸)

ایک اور قرآنی آیت: ’’پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے‘ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘ اس کے بعد (تمھیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو‘ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘ (سورہ محمد ۴۷:۴)۔ مغربی مستشرق اس آیت کی یہ تعبیرکرتے ہیں کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو جہاں کہیں کفار مل جائیں ان کی گردنیں مارتے چلے جائیں اور کشتوں کے پشتے لگادیں‘ بالکل اسی طرح جیسے کہ بوسنیا ہرذی گوونیا میں بہت سے مقامات پر اجتماعی قبروں کی دریافت سے معلوم ہوا کہ کروٹ اور سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کو بلاتفریق جنس و عمرتہ تیغ کیا۔

اس آیت مبارکہ کے نزول سے قبل سورۃ الحج کی آیت ۳۹ اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۹۰ جہاد کی اجازت کے سلسلے میں آچکی تھیں۔ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی قانونِ جنگ کی وضاحت جنگ پیش آنے سے قبل ہی کر دی جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر مشرکین و کفار کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو دبانے اور مٹانے کے لیے اورتمھیں مدینہ سے بے دخل کرنے کے لیے پوری قوت سے مدینہ پر حملہ آور ہو کر اس دعوتِ حق کی روشنی کو بجھا دیں تو جہاد کی اجازت کی روشنی میں تم بھی ان کی قوت توڑنے میں تکلف نہ کرو۔ ’’گردنیں مارنا‘‘ محض قتل کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ واضح طور پر ان کی قوت توڑنے کے معنی میں استعمال ہواہے۔

کسی بھی جنگ کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ مخالف کی قوت کو توڑا جائے۔ اس لیے قرآن کا یہ کہنا اخلاق و عدل کے اصولوں پر مبنی صحیح ترین عمل نظر آتا ہے۔ ہاں اگلی بات یہ سمجھا دی گئی کہ مقصود ان کا بے رحمانہ قتل نہیں بلکہ اگر ان کی قوت ٹوٹ جائے تو انھیں قید میں آنے کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا‘ہرقیدی کو عزت و احترام کے ساتھ لباس‘ کھانا‘ تحفظ دیا جائے گا اور اس کے سامنے یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو فدیہ دے کر آزاد کرا لے یا اسلامی ریاست ان پر احسان کر کے رہا کر دے یا تبادلۂ اسیران میں اسے رہا کر دیا جائے۔ ہمارے علم میں کسی انتہائی ’’پُرامن‘‘ فلسفے پر مبنی مذہب کا کوئی ایسا اصول نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ جب دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دروازے کھول کر سرجھکا کر ادب سے اس کا استقبال کرتے ہوئے اپنی گردنیں قلم کرانے کے لیے پیش کرو اور یقین کرلو کہ تمھاری طرف سے ایک انگلی بھی نہ اُٹھے‘ نہ اس میں سے ایک قطرہ خون ٹپکے!

مستشرقین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ علم کے مدعی بات کرنے سے قبل حصول معلومات بھی کرلیتے‘ مثلاً یہ کہنا کہ مسلم معذرت خواہ (apologists) یہ کہتے ہیں کہ تمام غلط فہمی اس بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے انگریزی تراجم ناقص ہیں‘ اس بنا پر جہاد اور قتال کے بارے میں غلط تصورات پائے جاتے ہیں (الراوندی "Islam and Armageddon")۔ یہ نصف سچائی پر مبنی ایک بیان ہے۔ ہمارے خیال میں بعض صورتوں میں اس کا امکان تو ہے لیکن اصل مسئلہ ترجمے کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کا مفہوم اپنے ذہنی مفروضوں کی روشنی میں متعین کرنا ہے۔

تحقیق کا بنیادی اصول ہے کہ زیربحث مسئلے کو براہِ راست اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے‘ اس کے بعد کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ مستشرقین بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو بنیادی اسلامی علمی اصطلاحات سے ان کی ناواقفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ مکّی آیات رحم و عفو و محبت سے بھری ہوئی ہیں‘ جب کہ مدنی آیات‘ مثلاً ’’مشرکین کو جہاں پائو قتل کر دو‘‘ نے ۱۳۴ ایسی آیات کو جو رحم و لطف سے متعلق تھیں منسوخ کر دیا ہے (الراوندی‘ایضاً) نہ صرف مکی و مدنی آیات سے ناواقفیت ظاہر کرتا ہے بلکہ نسخ فی القرآن جیسے اہم مضمون سے مکمل لاعلمی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

حقیقت واقعہ یوں ہے کہ ۹ ہجری میں جب مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں پہلا حج کیا تو سورۂ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان مشرکین سے اپنی برأت کا اعلان کیا جن سے اس سے قبل بعض معاہدے ہوئے تھے اور وہ ان کی   خلاف ورزی کرتے رہے تھے۔ انھیں مہلت دی گئی کہ وہ آیندہ چار ماہ تک اپنے بارے میں طے کرلیں اور اگر کہیں اور جاکر آباد ہونا ہو تو بلاروک ٹوک چلے جائیں یا اپنی روش بدلنی ہو تو ایساکرلیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف عام اعلان جنگ کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی گئی کہ ان چار ماہ کے بعد مشرکین کے خلاف اس وقت تک جنگ ہوگی جب تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف (توبہ) کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ پر عامل نہ ہو جائیں۔

چنانچہ اس آیت سے اگلی آیت میں مشرکین کے حوالے ہی سے یہ ہدایت کی گئی کہ گو ان کے خلاف جارحیت کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی مشرک حالت جنگ میں بھی اہل ایمان سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دی جائے اور اسے قرآن سننے اور اہل قرآن کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پھر اسے مجبور کیے بغیر اور اس پر کسی قسم کا تشدد کیے بغیر اس کے گھر تک اپنی امان اور حفاظت میں پہنچانا مسلمانوں کا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘۔ (التوبہ ۹:۵)

دونوں آیات کو ملا کر پڑھیے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ’’مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو‘‘ کے حکم کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ یہ ایک مطلق اجازت نہیں ہے کہ جہاں کسی مشرک کو دیکھا اور نشانہ بنا دیا بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری اصل جنگ شرک و کفر کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی مشرک حصولِ معلومات کے لیے اہل ایمان سے پناہ طلب کرتا ہے تو قرآنی حکم کی اطاعت میں اسے نہ ہاتھ لگایا جائے گا نہ قیدی بنایا جائے گا بلکہ اپنی حفاظت میں اسے اس کے گھر تک لے جایا جائے گا۔ یہاں بھی آیت کے ایک حصے کو سیاق و سباق سے الگ کرنے کے نتیجے میں مستشرقین ایک گمراہ کن تعبیرکرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خود قرآن سے فلسفۂ تشدد کو ثابت کردیا۔

مغرب میں آج کل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ہفت روزہ نیوزویک نے ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ (دسمبر ۲۰۰۱ء-فروری ۲۰۰۲ء) شائع کیا ہے جس میں مسلمانوں سے موجودہ کش مکش کے منظر کو موضوع بنایا گیا۔ ’’اختتام تاریخ‘‘ شہرت یافتہ امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کا مضمون اسلامی احیائی تحریکات کے حوالے سے توجہ کا مستحق ہے۔

وہ پہلی بات یہ کہتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کے اصل دشمن ’’اس دور کے فاشسٹ‘‘ ، ’’اسلامی انقلابی‘‘ (Radical Islamists) ہیں۔ یہ لوگ جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو‘ جو فوکویاما کے تصور میں انسانی تاریخ کی بہترین ممکنہ معاشرتی ارتقائی شکل پیش کرتی ہے‘ نفرت‘ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی کا مظہر تھا۔ ان کا وجود اس جدید تہذیب کی حیات اور بقا کے سلسلے میں بنیادی سوال بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس مخالفانہ رویے کو اختیار کرتے وقت‘ اس کے خیال میں‘ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ہی نے صومالیہ‘ بوسنیا‘ کوسووا اور چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

فوکویاما کے یہ خیالات ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی تحریکات کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ یعنی "Islamo Facists"۔ اس کے بقول:

"The Islamo fascist sea within which the terrorists swim constitutes an  Ideological challenge that is in some ways more basic than the one posed by communism" (p  58)

اسلامی فاشزم کا سمندر‘ جس میں دہشت گرد تیرتے ہیں‘ ایسا نظریاتی چیلنج ہے جو بعض اعتبار سے کمیونزم کے چیلنج سے زیادہ بنیادی ہے۔

فوکویاما کی نظر میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا وہ ’’جدیدیت‘‘ (modernity) کے ساتھ ایک امن کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انھیں سیکولر ریاست اور مذہبی رواداری کو اختیار کرنا ہوگا (ص۵۹)۔ موصوف کے یہ خدشات تو بڑی حد تک ہن ٹنگٹن کی فکر کا تکملہ نظر آتے ہیں‘ لیکن مغرب کی نمایندہ فکر ہونے کے سبب سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

ان تمام خدشات کی بنیاد چار غلط فہمیوں پر ہے۔

اولاً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تحریکات احیاے اسلام دراصل ماضی پرست تحریکات ہیں۔ حالانکہ اسلامی تحریکات دراصل اجتہادی تحریکات ہیں اور اسی بنا پر خود مسلم ممالک میں جو طبقات روایتی مذہب پرستی کے قائل ہیں وہ ان تحریکات کی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ حقیقتاً ماضی پرست تو وہ ہیں جو اسلاف کی ہر عادت کو جامہ تقدس پہنا کر اپنے اُوپر فرض کر لیتے ہیں‘ جب کہ تحریکات اسلامی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نئے حالات کی روشنی میں تجزیے اور عقل کی بنیاد پر ایک لائحہ عمل پیش کرتی ہیں جس میں اسلام محض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ جدید معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ تحریکات آج کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں اور کسی پہلو سے بھی قدامت پرست اور ماضی کی پرستار نہیں کہی جاسکتیں۔

دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات شدت پسند تحریکات ہیں اور مغرب سے اپنے غصے‘ نفرت اور دشمنی کے پیش نظر اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے فوکویاما کو ایک انتہائی غلط اور بے بنیاد بات پر بھی یقین کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر تعصبات سے بلند ہو کر دیکھا جائے تو اسلامی احیائی تحریکات‘ مثلاً انڈونیشیا میں ماشومی‘ ترکی میں حزب رفاہ‘ سوڈان میں اخوان المسلمون‘ الجزائر میں فاس‘ پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح بنگلہ دیش‘ ہندستان‘ سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی‘ حتیٰ کہ شام‘ عراق‘ اور اُردن کی اخوان المسلمون نے کبھی تشدد‘ انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کو نظری اور عملی حیثیت سے اختیار نہیں کیا۔ مصر میں صرف ایک محدود وقت کے لیے اخوان المسلمون نے خفیہ طریقہ اختیار کیا لیکن وہ بھی دوسرے مرشدعام حسن الہضیبی کے دورسے کھلے اور جمہوری ذرائع پر عامل تحریک بن گئی۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات پر تحریکاتِ حریت برپا ہیں‘ وہ فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ ان پر دیگر تحریکات کو قیاس نہ    کیا جائے۔

تیسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ تحریکات اسلامی جو اپنا تشخص دعوت و اصلاح کو قرار دیتی ہیں اور رنگ‘ نسل‘ زبان اور قومیت سے بلند ہو کر یورپ اور امریکہ کی اقوام کو اسلام کے پیغام امن کی دعوت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں‘ کیا عقلی اور منطقی طور پر ان اقوام کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنا سکتی ہیں؟ کیا اتنا بڑا تضاد ممکن ہے؟ فوکویاما اور اس قسم کے مفکرین اسلام کے بنیادی اخلاقی تصور کو نظرانداز کر جاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ وہ جہالت‘ ظلم اور بغاوت و فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ اگر فرعون جیسا ظالم اور سرکش اسلام کی دعوت کو سوچ سمجھ کر قبول کر لے تو وہ ولی حمیم بن سکتا ہے۔ اسی لیے خود خالق کائنات نے اپنے رسول حضرت موسٰی ؑکو یہ حکم دیا کہ جائو اور وقت کے باغی کو انتہائی نرمی سے دعوت امن و فلاح دو۔ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے مکہ اور طائف میں اس سنت پر عمل کیا۔ آج بھی تحریکات اسلامی اس پر عامل ہیں۔ گویا تحریکات اسلامی کی دشمنی جہالت‘ فحاشی اور فتنہ و فساد سے ہے۔ جو لوگ ان برائیوں میں پڑے ہوں اگر وہ اخلاقی رویہ اختیار کر لیں تو وہی بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا نہیں ہے اور نہ اس پر ناجائز قوت کا استعمال کرکے اپنی عظمت کا سکّہ منوانا ہے۔ فوکویاما کا ایک تبصرہ اس حوالے سے چونکا دینے والا ہے۔ وہ جرمن فاشزم کی مثال دے کر کہتا ہے:

"German Fascism did not collapse because of its internal moral contradiction; it died because  Germany was bombed to rubbles  and occupied by the Allied armies (p 58-59)

جرمن فاشزم اپنے اندرونی داخلی تضادات کی بنیاد پر منہدم نہیں ہوا۔ اس کی موت اس لیے واقع ہوئی کہ جرمنی کو بم باری کرکے ایک ڈھیر بنا دیا گیا اور اتحادی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔

اس تبصرے میں ایک واضح پیغام "Islamo-fascists" کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی موجود ہے جو ایسے ممالک اور افراد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے بیسویں صدی کی شدید ترین بم باری کے ذریعے افغانستان کو نشانہ بنا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا۔

جہاں تک سوال تشدد اور قوت کے استعمال کا ہے‘ اسلامی تحریکات اپنی ساخت‘ طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے فاشزم سے کوئی مماثلت نہیں رکھتیں بلکہ تاریخی طور پر مکی دور سے آج تک فاشسٹ قوتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد جو اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ایک صحیح الفہم مسلمان کو متحرک  توکرتا ہے‘ متشدد نہیں بناتا‘ اور نہ اس میں ’’مذہبی جنون‘‘ پیدا کرتا ہے۔

کاش مغربی مفکرین اسلامی تحریکات احیا کو معروضی طور پر مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کرتے!

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پر بے شمارانعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت و مودت کا قائم فرمانا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اس احسان عظیم کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ بلاشبہہ اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ-الحجرات ۴۹:۱۰)‘ اور ان کے باہمی تعلّق کو قریب ترین قرار دیتے ہوئے ان کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ آپس میں رحمت و محبت سے پیش آتے ہیں (رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ- الفتح ۴۸:۲۹)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے کا دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ مددگار اور ہم رکاب قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَیُوْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط (التوبہ ۹:۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیا اور رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے منع کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔

اپنے اس انعام اور احسان کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بات بھی فرما دی گئی کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح‘ رواداری اور عدل ہے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا کودو‘ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی … النحل ۱۶:۹۰)۔ اس لیے اہل ایمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری ڈال دی گئی کہ اگر ان میں اختلاف اور تنازع ہو جائے تو صلح کرائی جائے اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی جائے۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر سورہ النحل کی یہ آیت دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا:  وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا ج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ (الحجرات ۴۹:۹) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو‘‘۔

اسلامی اخوت کوحضور نبی کریمؐ نے ایک محکم و مضبوط عمارت سے تعبیر فرمایا ہے: المومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم ثبت من اصابعہ (بخاری‘ مسلم) ’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا‘‘۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ،مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کر دیتا لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کس طرح مدد کروں۔ آپؐ نے فرمایا‘ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری ‘مسلم)

مسلمان بھائی کی خیر خواہی‘ اس کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ہے گویا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا واضح حکم ہے کہ اگر کسی بنا پر آپس میں کوئی رنجش ہو جائے تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے‘ خواہ زیادتی کسی کی بھی ہو۔ بحالی تعلّقات کے لیے‘ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (بخاری ‘  مسلم)

انسانیت کی تشکیل جدید کے لیے اسلام کی نگاہ میں ایک ایسی اُمت کا قیام ضروری ہے جو نہ صرف اخوت و محبت کے جذبات سے سرشار اور متحد اور یک جان ہو بلکہ اس میں وہ صفات موجود ہوں جو زندہ رہنے اور قیادت کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کی مطلوبہ صفات کو بے شمارمقامات پر بیان کرنے کے ساتھ سورہ المومنون میں اختصار اور جامعیت سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یقینا فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں‘ اپنے فروج کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں… یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے…‘‘ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)

یہ وہ اجتماعی اخلاق ہیں جو انھیں مصلحین‘ صائمین‘ ذاکرین‘ ساجدین‘ راکعین‘ شاکرین‘ کاظمین الغیظ اور عباد الرحمن بننے میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مقام عبدیت کو اہل ایمان کے لیے سب سے اعلیٰ مقام قرار دیتے ہوئے اس صفت کی بنا پر خیر امۃ اور قائم بالقسط‘ عادل اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔

انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور جادہ عدل کو نظرانداز کرتا ہے۔ پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رَدّ کرتا ہے اور دوسری جانب طاغوت کو ‘ کبر و انانیت کو‘ بغاوت و سرکشی کو‘ ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم انھیں ضالین‘ گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمربستہ رہتا ہے اور انھیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی‘ لالچ‘ طمع‘ حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ نتیجتاً اہل ایمان عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی زبان‘ کبھی علاقائیات و قبیلہ و برادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت‘ رواداری اور عدل کے علم بردار اہل ایمان فرقہ پرستی‘ منافرت اور باہمی جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فرقہ واریت

اس صورت حال کو دیکھ کر ایک مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی یہ سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کے مذہب نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت‘ تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں ۲۵۰ سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی‘ جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔

اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے حوالے سے تشدد اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔

عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے اختلافات‘ باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں‘ تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین سا آجاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہوگا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے شہروں مثلاً نیویارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار‘ جن میں قتل‘ جنسی جرائم‘ چوری اور ڈاکا ہر چیز شامل ہے‘ کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹائم‘ نیوزویک یا  ایشیا ویک‘ نیز سی این این ہو یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں‘ جب کہ ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجے کی تفرقہ بازی زیربحث آجاتی ہے اور بین السطوریہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری‘ تشدد پسندی اور مذہبی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علما اور ائمہ‘ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی یہ انتہا پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لاقانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود  بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اورکسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوئوں سے اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن نوبت یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علما نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں‘بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ ان میں بعض شقی القلب تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالف فقہی مسلک کے افراد پر عین حالت قیام صلوٰۃ و قیام اللیل‘ حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی’’جہاد‘‘ سمجھتے اور ایسے افعال کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ انھیں رحماء بینھم کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے___ یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے۔

اسلام کا نقطۂ نظر

ان ابتدائی گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے کہ تفرقہ ہے کیا چیز‘کیا یہ محبوب و مقصود ہے یا مردود و مکروہ ہے۔ قرآن کریم میں فرقہ‘ تفرقہ اور تفریق کے حوالے سے تقریباً ۲۱ مقامات پر مختلف سیاق میں ذکر آیا ہے۔کہیں یہ بات فرمائی گئی کہ علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں بٹ نہ جائو (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۵) ۔کہیں اس علم کو رَدّ کیا جو شوہر اور بیوی میں فرق ڈلوا دے (البقرہ ۲:۱۰۲)۔ کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی‘ اعتصام باللہ بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں (التوبہ  ۹:۱۰۷)۔ اور اسی حوالے سے سورہ اٰل عمران میں اعتصام باللہ کے حوالے سے وہ حکم بھی آیا‘ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا‘ کہ فرقوں میں نہ بٹ جائو (۳:۱۰۳)۔ سورہ الشوریٰ میں تفرقہ بندی کو ایک منفی اور سلبی عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دُور کرنے کی تعلیم دی گئی۔ یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘۔

گویا اسلام‘ تفرقہ بندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھہ بندی کرنے کی مکمل طور پر مذمت و ممانعت کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام‘ قرآن و حدیث پر غوروخوض کرنے کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آرا قائم کرنے کی مخالفت کبھی نہیں کرتا ‘بلکہ قرآن کریم اسے محبوب و مطلوب قرار دیتا ہے۔ وہ جہاں دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے‘ وہاں دوسری جماعت (فرقہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے‘ فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے‘ تاکہ اسلام کی معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشۂ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سورہ توبہ(آیت ۱۲۲) میں اسے تفقہ فی الدین کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اورفقہا کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں‘ مجاہد اور عالم‘ دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شخصیات میں فکروفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ استثنائی مثالیں نہیں ہیں۔ عصرحاضر میں جدید تحریکات اسلامی کے بہت سے رجال ان دونوں حیثیتوں کو یک جا کرنے والے افراد تھے۔ انھوں نے اجتہاد‘ مسائل اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں کو اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کام بیک وقت انجام دیے جا سکتے ہیں۔

اس اصطلاحی وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجایش ہے؟ کیا قرآن و سنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیروکار ہونا بھی فلاح و کامیابی کے لیے ضروری ہے؟

قرآن کریم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ  حلال و حرام میں فرق معلوم ہو سکے۔ حدیث شریف بھی حکم دیتی ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘ اس لیے اس واضح حرام و حلال کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر و تفہیم پر اُبھارتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا جائے۔ ایک موقف پر مطمئن ہونے سے قبل مقدور بھر بحث و مباحثہ کر لیا جائے۔ چنانچہ مشاور ت کو فریضہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن ہو کر یکسو ہو جائیں تو پھر عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۵۹  اورالشوریٰ ۴۲:۳۸)

کیا ہر مشورہ‘ ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کر لے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت‘ علمی عبور‘ اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد آرا و مسالک یکساں طور پر دین کے دائرے میں ہوں‘ جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا جسے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ فلاں مقام کی طرف جائو اور وہاں پہنچ کر صلوٰۃ عصر ادا کرنا۔ صحابہؓ کی ایک جماعت نے غالباً قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ صلوٰۃ مومنین پر کتابا موقوتا ہے اور خود حضورؐ کے ارشاد پر کہ عصر کواوّل وقت پڑھ لیا جائے‘ عمل کرتے ہوئے راستے میں نماز پڑھی‘ اور دوسری جماعت نے اس خیال سے کہ شارع علیہ السلام اور مومنین کے سردار نے حکم دیا کہ صلوٰۃ عصرفلاں مقام پر ادا کی جائے‘ وہاں پہنچ کر نماز ادا فرمائی۔ واپسی پر جب معاملہ آپؐ کے حضور پیش کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں فرمائی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو‘ سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘ (المائدہ ۵:۶)۔ یہاں مسح کے حوالے سے ایک سے زائد تعبیرات پائی جاتی ہیں اور آج تک علما و مفسرین نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف ایک تعبیر ہی درست ہے۔

ہماری اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔ میدان بدر کے انتخاب کا فیصلہ‘ احد میں مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ‘ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر‘ صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا‘ غرض بے شمار مواقع پر آپؐ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اوّلیت دی۔

ابھی آپؐ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آرا سامنے آئیں۔ خود آپؐ کی تدفین کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ ابھی ریاست کے معاملات طے ہو رہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا‘ ساتھ ہی منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہؓ میں اختلاف کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوں مگر صلوٰۃ ادا کر رہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھے کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جا رہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املاک پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں گی یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا‘ جو زمینیں اس طرح زیرنگیں آئیں گی وہ عشری ہوں گی یا خراجی۔ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی‘ اعتقادی‘ معاشرتی و انتظامی مسائل‘ ہر نوع پر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔    اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا‘ اصل بات یوں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اور دیگر خلفاے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علیؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے بول چال بند کردی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علیؓ بنفس نفیس ،حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمانؓ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟

گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے اور نہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے اُمت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا‘ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ علما نے اس کی مخالفت کی۔ حضرت امام مالکؒکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے خلیفہ وقت کی خواہش کو رَدّ کرتے ہوئے حدود مملکت میں فقہ مالکی رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو اُمت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔

دَور صحابہؓ  اور بعد کے ادوار میں فقہا و علما اُمت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کا رجحان نظر آتا ہے‘ یعنی وہ اپنی ذات‘ انا‘ یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔

امام ابویوسفؒ اور امام محمد الشیبانی ؒ سے بڑھ کر امام ابوحنیفہؒ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہوگا۔ دونوں ان کے جانشین اور شاگردانِ رشید ہیں‘ لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔ کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استادکے مرتکب قرار دیے جائیں گے؟ گویا ہماری علمی و ثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل‘ رواداری‘ کشادہ دلی‘ اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔ منافرت‘ مقاطعہ‘ مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی‘ اُمت مسلمہ کی ہَوا اکھڑی (اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہَوا اکھڑ جائے گی۔ انفال ۸:۴۶) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے تر نوالہ بن گئی۔ اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔

کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسولؐ مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولؐ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوٰۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اورکسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔  اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ وہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے‘ فکر ونظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔

فرقہ واریت کے اسباب

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے‘ ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو اس طرزعمل کے پیچھے تین بنیادی عناصر کارفرما نظر آتے ہیں:

اوّل: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے فرقے کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اور غیر مصدقہ معلومات پر بھروسا کرنا۔

دوم: ہر فارغ التعلیم بلکہ طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتا و قضا پر بٹھا دینا۔ نتیجتاً وہ ایسے بہت سے معاملات میں جن میں فیصلے کا حق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو حاصل ہے بلا کسی تردد کے اپنا فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخر حضور نبی کریم ؐ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب فرماتے ہوئے یہ بات کیوں فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے قبل اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے قبل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اور حضور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ سربراہِ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔ حضور نبی کریمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ لیکن ہمارا روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے‘ ہرکس و ناکس کے بارے میں محض افواہ اور غیرمصدقہ معلومات کی بنا پر بلاکسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے‘ بدعتی ہونے کے سبب ضالین میں سے ہوگیا ‘ اس لیے اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگیا۔

سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید اپنے بین الانسانی تعلقات کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا  گیا ہے اور جب کسی مسلک کے ماننے والوں کا کسی لادینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

پاکستان میں شیعہ سنی کھچائو کی جڑیں عموماً سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر اور یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح منافرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہوگی‘ خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انھیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔

دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان‘ خون اور رشتہ کا احترام ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں (جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا     تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔  المائدہ ۵:۳۲) قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پرست گروہ وجود میں آگئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان حضور نبی کریمؐ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ‘ اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓنے شدت سے منع کیا گیا ہے؟

فرقہ واریت کا سدباب: ممکنہ حل

ہمارے خیال میں اس کی ذمہ داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے     ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اورآپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے  قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (ground reality) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

۱- اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟

۲- فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔

۳- تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دُور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یافرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

۴- ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہو گئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأ ت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔

۵- جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (confindence building) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

۶- مختلف مسالک کے جیدعلماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رُخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔

۷- قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟

تحریک اسلامی کی ذمہ داری

یہ مسئلہ ملک کی بقا سے وابستہ ہونے کے سبب تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اوّلاً تحریک کی بنیاد ہی حریت فقہ پر ہے۔ چنانچہ جماعت کی تاسیس (اگست ۱۹۴۱ء) سے آج تک جماعت نے اپنے دروازے ہر مسلک کے ماننے والے متلاشیان حق کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی‘ جو دعوت دین کے بنیادی مزاج کے منافی ہے‘ ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ہے۔ ثانیاً تحریک اسلامی کا مقصد اس ملک عزیز میں اقامت دین اور صالح افراد کی قیادت کا قیام ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایک دوسرے کے لیے احترام‘ محبت اور اخوت کے جذبات ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی ڈھال تھے۔ ان کے ہاتھ‘ ان کی زبان‘ بلکہ ان کے ذہن تک ایک دوسرے کے بارے میں برے خیالات سے محفوظ تھے۔

جو جماعت صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور اسوہ رسولؐ کو بنیاد بنا کر معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی و قانونی اصلاح کی داعی ہو‘ اس کے لیے یہ بات فریضے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنے دو دینی بھائیوں کو مقابل دیکھے فاصلحوا بین اخویکم کے ابدی عالمی اسلامی اصول کی روشنی میں صلح جوئی کی کوشش اور دلوں کوجوڑنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔ ثالثاً تحریک اسلامی نے اس ملک کے قیام میں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے سے جو نظری اور عملی کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ نے محترم مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ قومیت (جس میں انھوں نے وجودِ پاکستان کے لیے نظری بنیاد فراہم کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں ہیں‘ چنانچہ ہماری ثقافت‘ ہماری تاریخ‘ ہمارے ہیرو سب ان سے مختلف ہیں) کو کثیر تعداد میں جگہ جگہ تقسیم کیا۔جس طرح اس ملک کے قیام میں تحریک نے کردار ادا کیا اور ایسے ہی اس میں اتحاد و یک جہتی کے قیام کے لیے بھی اسے قیادت کرنی ہوگی۔ رابعاً اس ملک میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے تحریک اسلامی کو ان تمام قوتوں کو اپنے سے قریب لانا ہوگا جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان جماعتوں میں اپنے مخالف مسلک کے افراد کے لیے کم از کم عداوت اور دشمنی کے جذبات نہ ہوں۔

رواداری اور صبروتحمل وہ اعلیٰ دینی اقدار ہیں جن پر عمل کرنا مومن کے ایمان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ صوبائی ‘ ضلعی‘ شہری اور محلہ کی سطح پر رواداری کے لیے ایک مسلسل تعلیمی جہاد کرنا ہوگا۔ اس جہاد کے نتائج ممکن ہے آج نظر نہ آئیں لیکن یہ کام آنے والی نسلوں کی طرف سے ایک قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلکی اختلافات سے بلند ہونے کے سبب تحریک اسلامی ہی وہ ادارہ ہے جو  اس کام کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ غیر جانب داری سے کر سکتا ہے۔

 

مسلم ممالک بالخصوص عرب دُنیا میں جمہوری روایت کے نشوونما و ارتقا پر بات کرتے وقت مغربی  تجزیہ نگار عموماً اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہیں اور بادشاہت یا فوجی آمریت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت دُنیا کی ۱۸۹ اقوام میں سے تقریباً ۱۲۰ میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اور اس میں سے حد سے حد نصف مقامات پر جمہوری روایت مستحکم ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تقریباً ایک درجن ممالک میں جمہوریت کو صدمہ پہنچا۔ اس سلسلے کی آخری مثال ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہونے والا پاکستان کا پرُامن فوجی انقلاب تھا۔

ان ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ ان میں خصوصاً انصاف اور قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا فقدان اور عدلیہ کا خودمختار نہ ہونا ایک بنیادی سبب کہا جا تا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوں پر مبنی معاشی ترقی بھی ایک بنیادی سبب بتائی جاتی ہے جس میں سیاست دانوں اور نااہل نوکرشاہی کی طرف سے مالی بددیانتی اور فنی قابلیت میں کمی کا بھی بڑا دخل سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میںتقریباً ۴۰ فی صد قومی معاشی پیداوار صرف قرضوں کے سود کی ادایگی پر صرف ہو جاتی ہے‘ جب کہ قرضے وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح معاشی اضمحلال کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان ممالک کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ اس میں رہی سہی کسر سیاست دانوں اور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانی پورا کر دیتی ہے۔ ایسے معاشی حالات میں جمہوریت کو جس کی روح احتساب اور جواب دہی کے تصور میں ہے‘ کس طرح پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔ گویا نوکرشاہی ہو یا اختیارات پر قابض سیاست دانوں یا فوج کا گروہ‘ ہر ایک جمہوریت کے موضوع پر اپنی گل افشانی کے باوجود حقیقی جمہوریت کے لیے ہمیشہ سنگ راہ بنا رہتا ہے۔

یہ فطری بات ہے کہ عدل و انصاف کا فقدان ‘ تحفظ کا نہ ہونا‘ حکمرانوں کی بے اصولی اور مالی استحصال کا آنکھوں کے سامنے پایا جانا‘ نظم مملکت پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے اور crisis of governanceگہرے سے گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔ انتظامیہ اور سیاست دان ایسی بگڑی ہوئی صورت حال میں اپنی نااہلی اور جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ایسے قضیوں کو ہوا دیتے ہیں جن میں اُلجھ کر عوامی توجہ بدعنوان حکمرانوں کی طرف سے ہٹ جائے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کارگر حیلہ مذہبی تفرقہ بازی ہے۔چنانچہ اکثر عرب حکومتوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر کبھی اسلامی تحریکات کو قیدوبند اور ظلم کا نشانہ بنایا اور کبھی انھیں وقتی آزادی دے کر دوسرے نظریاتی دشمنوں کی قوت کو توڑنے یا اپنے حق میں ایک توازن پیدا کر کے ان تحریکات پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں رہی۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں باری باری ملک اور عوام کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ خودمسلکی جماعتوں نے خواہ وہ دیوبندی مکتب فکر کی علم بردار ہوں یا بریلوی‘ اہل حدیث یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہوں‘ کبھی اپنے آپ کو ایک پارٹی سے وابستہ کیا کبھی دوسری سے اور اپنی سیاسی پشت پناہی کے بل پر اپنی مخالف مسلکی جماعت کے افراد کو زک پہنچانے میں کبھی تکلف نہیں کیا۔ لیکن ایک پرانی کہاوت کے مصداق ’’کرے مونچھوں والا‘ پکڑا جائے ڈاڑھی والا‘‘ مذہبی تشدد کا الزام بلااستثنا مسلکی جماعتوں پر ہی رکھا گیا۔ دوسری جانب ان میں سے کئی جماعتوں نے خود بھی اپنی قوت بازو کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ذیلی نیم عسکری تنظیمیں قائم کر کے اس الزام کے لیے خود بنیاد فراہم کر دی۔

ان زمینی حقائق کے پیش نظر اور بالخصوص مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حوالے سے مغربی مصنفین کے اعتراضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس صورتِ حال کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ کہ (۱) کیا نام نہاد ترقی پذیر ممالک (عرب دُنیا میں یا ایشیائی ممالک) میں مذہبی منافرت اور تشدد پسندی کے باوجود جمہوریت کا کوئی مستقبل ہے؟ (۲) کیا جمہوریت واقعی اسلام کی ضد ہے؟ اور (۳) کیا تحریکات اسلامی ان بگڑے ہوئے حالات میں اسلامی نظام حکومت کو بطور متبادل نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں؟

مغربی مصنفین ان تینوں سوالات کا جواب عموماً نفی میں دیتے ہیں‘ یعنی جمہوریت اور اسلامی احیائی تحریکات میں نبھائو بہت مشکل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکات ’’جہاد‘‘ پر ایمان رکھنے کے سبب تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اس لیے ایک معتدل (modrate)اور آزادی پسند(liberal) نظام اور ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاً جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان پیدا ہوتا ہے اسے قصرجمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید خطرے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح deductive logic  یا منطق استخراجیہ میں ایک مفروضہ دوسرے مفروضے سے ملحق ہوتا ہے اور ایک متوقع منطقی نتیجے کی طرف لے جاتا ہے‘ بالکل اسی طرح یہ تصورات مغربی ابلاغ عامہ اور علمی حلقوں میں متواتر پیش کیے جا رہے ہیں جن کا اظہار عمانویل سیوان (Emmanuel Siven)نے اپنے مضمون (Arabs & Democracy: Illusions of Change) میں واضح طور پر کیا ہے۔

ہمارے خیال میں اپنی تمام تر معروضیت کے باوجود مغربی مصنفین اسلام اور جمہوریت کے بنیادی تضاد‘ تحریکات اسلامی کے انتہاپسند اور جہاد کے ’’مذہبی جنون‘‘ ہونے کے بارے میں اپنے طے شدہ تصورات اور ذہنی تحفظات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ساون کے اندھے کی طرح انھیں ہرچیز ہری ہری نظرآتی ہے۔ گو سوشل سائنس کی تحقیقی حکمت عملی (research methodology) میں نام نہاد معروضیت کے باوجود داخلیت کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔

مندرجہ بالا تینوں فکری اغلاط کی اصلاح تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے۔ ہم انتہائی اختصار سے یہاں صرف تین نکات کی طرف اشارہ کریں گے:

۱-  اسلام اور جمہوریت بلاشبہ بنیادی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت کی عظمت اور مطلق بالادستی پر ہے‘ جب کہ جمہوریت نظری طور پر عوام کی بالادستی کا نام ہے۔ اس بنیادی فرق کے ساتھ اسلامی نظم مملکت کی بنیاد شوریٰ کے الہامی اصول پر ہے اور اسلامی نظام خلافت فرد یا طبقۂ علما کی آمریت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ مغرب کے ذہن میں لفظ مذہب جو ارتعاش پیدا کرتا ہے اس کی ہر لہرسے تھیاکریسی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پھر بعض حادثات زمانہ بھی مغرب کے اس تصور کی کسی حد تک تائید کر دیتے ہیں‘ مثلاً فی زمانہ ’’طالبان‘‘ کا ذہنی ہّوا جسے مذہبی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے لادینی فکر رکھنے والے دانش ور‘ ہر دو دن کے بعد انگریزی کے کسی روزنامے میں کسی مضمون یا ادارتی نوٹ کے ذریعے اس خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں کہ ’’طالبان دستک دے رہے ہیں!‘‘ اور اس طرح ’’مذہبی جنونیت کے غبارے‘‘ میں ہوا بھرتے رہتے ہیں تاآنکہ عوام الناس کے ذہن میں مذہبی عناصر کے لیے سوائے نفرت کے کوئی جذبہ باقی نہ رہے۔

۱-  اسلام روح جمہوریت کا علم بردار لیکن انسان کی خدائی کا منکر ہے۔ وہ انسان کو ایک باشعور‘ آزاد‘ فیصلہ کرنے والی مخلوق کی حیثیت سے ارادے کی آزادی دیتے ہوئے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اپنی قوت فیصلہ کے صحیح استعمال کی دعوت دیتاہے لیکن ساتھ ہی ہر قدم پر انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ نہ وہ اقتدار کا بندہ ہے نہ عوام کا بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ جب تک اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین نہ کر لیا جائے خیالات اور تصورات کا تاج محل بنیادی پتھرکے ٹیڑھے ہونے کے سبب تاثریا کجی اور ٹیڑھ سے خالی نہیں ہوسکتا۔

۲-  مسلم ممالک خصوصاً عرب دُنیا میں ملوکیت‘ فوجی آمریت یا غیر جمہوری نظاموں کے پائے جانے کے اصل سبب پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایک جانب خلافت راشدہ کے بعد خاندانی اور شخصی ملوکیت کے دَور کا آغاز ہوا اور تھوڑے عرصے بعد مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال کے ساتھ ہمسایہ تہذیبوں کے زیراثر بادشاہت کی مختلف شکلوں نے رواج کی شکل اختیار کرلی۔ دوسری طرف اٹھارھویں صدی سے مغربی سامراج نے مسلم ممالک میں جہاں جہاں قدم جمائے بادشاہوں اور آمروں کو اپنے حق میں بہتر جانا اور اپنے جمہوریت کے عشق کے دعووں کے باوجود اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آمروں اور جابروں کی حمایت و طرف داری کی۔ دَورِ جدید میں مغربی فکر اور حکمت عملی کا ایک واضح تضاد مغربی طاقتوں کی خارجہ ‘ معاشی اور ابلاغ عامہ کی پالیسی میں واضح ہو کرسامنے آجاتا ہے۔ عرب دُنیا کی بادشاہتوں اور سابق شاہِ ایران اور شمالی افریقہ کی آمریتوں کو تحریکات اسلامی نے نہیں جمہوریت کے مدعی مغرب نے پروان چڑھایا‘ کھل کر ان کی مکمل حمایت و امداد کی اور ان ممالک کی اسلامی تحریکات کو ان کی جمہوریت پسندی کے باوجود اپنا دشمن سمجھا۔

۳-  اکثر تحریکات اسلامی نے اپنے سیاسی پروگرام اور منشور میں جن باتوں کو اوّلین اہمیت دی ہم ذیل میں صرف نکات کی شکل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نکات خود ان تحریکات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی کی اصلاح کے لیے کافی مواد فراہم کرتے ہیں‘ اور تاریخی اور دستاویزی طور پر ان تحریکات کے ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’انتہا پسند‘‘ یا ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہونے کی مکمل تردید کردیتے ہیں۔ پاکستان‘ سوڈان ‘ ترکی اور اُردن کی تحریکات اسلامی یقین رکھتی ہیں کہ:

  •  ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی راہ کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد ہی صحیح طریقۂ انقلاب ہے۔
  •  ملک و قوم کی اصلاح تعلیمی‘ دعوتی‘ فلاحی اور سیاسی حکمت عملی کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے تبدیلی و اصلاح کے لیے ایک طویل سفر صبرو استقامت کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔
  • ایک صالح اور عادلانہ نظام کا قیام صالح اور آزاد قیادت کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ فرماں روا طبقہ جو بیرونی طاقتوں کی خواہشات کا غلام ہو اور ان کے اشاروں پر ناچنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہو محب وطن قیادت فراہم نہیں کر سکتا۔ اس لیے صالح افراد کی تیاری اور ان کی تنظیم و تربیت ایک عادلانہ نظام کا پیش خیمہ ہے۔
  • good governance یا حسن انتظام کے لیے اسلام کے دیے ہوئے ضابطہ ء اخلاق کی پیروی لازمی ہوگی اور ایسے افراد کا بے لاگ احتساب ضروری ہوگا جو ملک و قوم کے استحصال پر پلے اور بڑھے ہوں۔
  • قانون کا احترام اور بالادستی قائم کرنے کے لیے عدلیہ کو سیاسی اور حکومتی اثرات سے پاک کرنا ہوگا اور اہل کاروں کو باوقار اور باعزت طور پر زندگی گزارنے کے لیے مناسب اعزازیے کے ساتھ احتساب کی چھلنی سے گزرنا ہوگا تاکہ صرف وہ حضرات مناصب پر ہوں جن کا دامن خود داغ دار نہ ہو۔
  • اہل کاروں کے انتخاب میں صرف اور صرف صلاحیت کو بنیاد بنانا ہوگا‘ سفارش‘ اقربا پروری اور صوبہ پروری کا کلچر یکلخت ختم کرنا ہوگا۔
  •  اقتصادی خودمختاری کے لیے سودی کاروبار کو ختم کر کے اسلامی اصولوں پر معیشت کو استوار کرنا ہوگا۔
  •  سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ضابطہ ء اخلاق کی پابندی لازمی ہوگی اور کم از کم انھیں خود جمہوری اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ موروثی سیاست (کہ باپ کے بعد بیٹی یا بیٹا یا بیوی سیاسی جماعت کی قیادت پر قابض ہو جائے) کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
  •  مسلکی تشدد اور منافرت کی جگہ رواداری‘ اور باہمی احترام کو جگہ دینی ہوگی۔
  •  نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلی کے ذریعے سیکولر ذہن کی جگہ ایک دین سے محبت کرنے والا‘ انسانی جان و مال‘ عزت اور اختلافات کا احترام کرنے والا انسان وجود میں لانا ہوگا۔

ان نکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دُنیا بھر میں اسلامی تحریکات نے نہ تو کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ہے اور نہ ہلّہبول کر ہی نظام اسلام کے نفاذ کی قائل ہیں بلکہ اس کے برعکس صبرواستقامت اور دستوری ذرائع سے اصلاح اور قیامِ عدل کے لیے کوشاں ہیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریکات اسلامی کے مغربی نقاد یا تو ان تحریکات کے دساتیر‘ منشور اور اصلاح و تجدید کے تصورات سے براہِ راست واقفیت نہیں رکھتے اور ثانوی ذرائع معلومات پر انحصار کرتے ہوئے‘ ان کے بارے میں ایک ذہنی تصویر بنا لیتے ہیں‘ یا تحریکات اسلامی نے خود اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ایک تہذیبی اور فکری مکالمے کے ذریعے دوسروں کو اپنے مقاصد اور طریق کار سے آگاہ کرنے میں غفلت برتی ہے۔ مسئلے کا حل نہ الزام تراشی ہے نہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا۔ تحریک اسلامی کے بارے میں گمراہ کن تصورات کی اصلاح اگرمغرب کی ضرورت نہ بھی ہو جب بھی تحریکات اسلامی کو اپنے دعوتی اور اصلاحی تشخص کی بنا پر خود آگے بڑھ کر ایک ثقافتی اور علمی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا جو آخرکارخود اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے ناقص اندازوں کی اصلاح میں مددگار ہوگا۔

۱۹۷۹ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کئی پہلوئوں سے امت مسلمہ اور خصوصاً اسلام کی تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے نفاذِ اسلام کی ایک نوید بن کر اُبھرا۔تاریخی نقطہ نظر سے علاماتی (symbolic)خلافت عثمانیہ کے زوال سے جو دَور شروع ہوا‘ اس میں امت مسلمہ اپنے مستقبل اور اختیار و قوت کے دوبارہ حصول کے لیے مسلسل سرگرداں رہی۔ چالیس کی دہائی سے مسلم ممالک میں سیاسی آزادی کا دَور شروع ہوا اور یہ امید بندھی کہ پاکستان‘ انڈونیشیااورشرق ا وسط کے بہت سے ممالک‘ سیاسی آزادی کے ساتھ ثقافتی اور نظریاتی آزادی بھی حاصل کر لیں گے‘ لیکن یہ امیدیں بڑی حد تک ناتمام رہیں۔ اس پس منظر میں ایرانی انقلاب اسلامی قوتوں کے لیے غیر معمولی طور پر اپنی جدوجہد پر اعتماد میں اضافہ کا باعث بنا۔ تحریکات اسلامی کے قائدین نے نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر ایران میں طاغوتی ملوکیت کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے قیام کے عزم کو خوش آمدید کہتے ہوئے نمایندہ افراد کے وفد کی شکل میں تہران جا کر امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک غیر اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں‘ اسلامی انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔

یہ انقلاب ان قوتوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا جو ایران کو اپنی بین الاقوامی سیاست کا سب سے زیادہ مستحکم ستون سمجھتے تھے۔ یورپ و امریکہ کے بیشتر ممالک نے اسے لادینی جمہوریت‘ اباحیت اور مغرب زدگی کے لیے ایک’’بنیاد پرست‘‘ خطرہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنی شروع کی۔ اسی دوران ایرانی طلبہ کی جانب سے (پاسدارانِ انقلاب کے تعاون سے) امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے کے واقعے نے ایران کے خلاف امریکی جذبات کو مشتعل کرنے اور ایران میں امریکہ

کے خلاف نفرت اور غصہ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ بعض قوتوں کے لیے ایک منطقی ضرورت ہو لیکن اس ایک واقعہ کے اثرات معاشی‘ سیاسی اور جذباتی سطح پر ایران کے حوالے سے پورے عالم اسلام پر پڑے۔ اس مفروضہ کو حقیقت مانتے ہوئے کہ اسلام اور مغربی سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی مکالمہ اور تبادلہ خیال‘ اظہار قوت کے علاوہ نہیں ہو سکتا‘ نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلم ممالک کے خلاف بھی معاشی اور سیاسی پابندیوں کا حربہ استعمال کیا گیا۔

اس حکمت عملی کا ردعمل واضح تھا۔ چنانچہ ہر دو جانب سے زبانی جنگ اور موقع ملنے پر ایک دوسرے کو زِک پہنچانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس دوران میں نہ صرف مغربی سامراج بلکہ خود ایران میں زمینی حقائق کے پیش نظر ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے پر بھی غور ہوتا رہا۔ داخلی حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ یہ عمل سرعت سے ہو‘ لیکن نئی صدی کے آغاز پر صدر خاتمی کی ایرانی قیادت نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے اور بڑے ’’شیاطین‘‘ کے ساتھ بھی مکالمہ کو ممکن قرار دیتے ہوئے اس کے آغاز کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔

مغربی سامراج اور اہل فکر نے بھی اس دوران اپنے موقف پر واضح نظرثانی کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کیا جائے اور اگر ایران نئی صدی میں کوئی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو عالم گیریت (globalization)کی حقیقت کو مانتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی کرے‘ نعروں کی نفسیات سے اپنے آپ کو آزاد کرے‘ اپنے تیل کے ذخائر پر بے جا اعتماد و فخر پر نظرثانی کرے‘ اپنے عوام کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ تجارتی تعاون پر غور کرے اور خاص طور پر خود پیدا کردہ اندرونی معاشی اضمحلال کو کسی بیرونی ’’شیطان‘‘ کے سرمنڈھنے کی کوشش ترک کرے‘‘۔

مغربی پالیسی سازوں کا کہنا یہ ہے کہ تیل فروخت کرنے والی اقوام کو تیل خریدنے والی اقوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا اور ]نام نہاد[ جدید معاشی نظام (N.E.O)میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر بعض بنیادی سمجھوتے (adjustment)کرنے ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ کے زیر اہتمام تہران میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایران کے پالیسی ساز مغربی مفکرین کے ان خیالات کو تحمل اور صبر کے ساتھ سننے کے بعد ایک نسبتاً زیادہ عملی(pragmatic) حکمت عملی وضع کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی فقہ کا ایک مستقل مضمون سیاست شرعیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بدلتے حالات میں شریعت کے ابدی‘ کلی اور جامع اصولوں کی مددسے کس طرح ایک نئی صورت حال کا حل تلاش کیا جائے۔ مصلحت عامہ کا اصول بھی (جسے مصالح مرسلہ بھی کہا جاتا ہے) وسیع تر حکمت کے پیش نظر‘ شریعت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے‘ ایک صورت حال کا حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔

بہ ایں ہمہ اس طرح کی صورت حال میں چند بنیادی سوالات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اولاً ایک نظریاتی انقلاب کی مدعی جماعت کے لیے اصل اہمیت طویل المیعاد ہدف و حکمت عملی کی ہے یا قلیل المیعاد اور فوری حصول منفعت کی؟ اور کسی فوری اور قلیل المیعاد مقصد کے حصول کے لیے کس حد تک اصل ہدف کو وقتی طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ثانیاً عملیت پسندی (pragmatism) کی سرحدیں کہاں تک ہیں؟ ایک حدیث نبویؐ میں جہاں حلال اور حرام کے بیّن ہونے کے ساتھ ساتھ مشابہات سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے‘ اس کی روشنی میں ’’اضطرار‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کی حدود کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ثالثاً مادی طور پر ایک مستحکم فریق کے ساتھ مادی طور پر ایک غیر مستحکم فریق کے مکالمے اور احترام مفادات کی شکل کیا ہوگی؟

یہ امر بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کہ عالم گیریت (globalization)اور یک قطبی (unipolar) قوت ہونے کی دعوے دار ریاست کے ساتھ معاشی تعلقات کا تانا بانا کیا صرف معیشت کے میدان تک محدود رہے گا یا غالب معاشی قوت کی ثقافت‘ اس کی اقدار حیات‘ اس کا طرزِ زندگی اور مقصد حیات‘ محسوس اور غیر محسوس اثرات بھی معاشی سرگرمی اور تعلقات کے ہمراہ سرحدیں پار کر کے کم ترقی یافتہ ممالک پر اثرانداز ہوں گے؟ حقیقت واقعی یوں ہے کہ ابلاغ عامہ کے انقلاب نے جغرافیائی سرحدوں کو اضافی بنا دیا ہے اور ثقافتی اثرات‘ ایسے مقامات پر بھی جن کے نظریاتی ثقل کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے‘ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک معمولی مشاہدہ جو میں نے خود کانفرنس کے دوران کیا ‘یہ تھا کہ بعض ایرانی خواتین روایتی ’’مانتو‘‘ (سیاہ چادر) تو لازماً استعمال کر رہی تھیں‘ جس سے وہ تمام شرعی تقاضے پورے ہو رہے تھے‘ جو ایک مسلمان خاتون کی پہچان کہے جا سکتے ہیں‘ لیکن گذشتہ دس سال کے عرصے میں اس چادر کی پیمائش میں قابل محسوس فرق واقع  ہوا ہے۔ انقلاب کے فوراً بعد یہ ٹخنوں بلکہ پائوں تک تھی جب کہ آج یہ نصف پنڈلی پر آگئی ہے جس کی بنا پرجینز جو پہلے مکمل طور پر چھپ جاتی تھی‘ غیر ثقافت کے اثرات کی چغلی کرتی نظر آتی ہے (یہاں صرف اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ شدت جو بہرصورت دین کا جزو پہلے بھی نہ تھی اب وسعت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اور اس بنا پر ان طبقات کی پریشانی‘ جو دین کو غلو اور شدت ہی کے تناظر میں درست سمجھتے ہیں‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں)۔

ایرانی طرزِ عمل اور طرزِفکر میں محسوس یا غیر محسوس طور پر سامنے آنے والی اس تبدیلی کے مثبت اور  منفی اثرات نہ صرف ایران بلکہ ان تمام افراد پر پڑیں گے جو ایران کے انقلاب کو ایک شیعی انقلاب کے تصور سے بلند ہو کر عالمی تناظر میں اسلام اور طاغوت کی کش مکش کا مظہر سمجھتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قدامت پسند لیکن بااختیار حلقوں میں ایسی کسی تبدیلی کی مضبوط مخالفت بھی موجود ہے۔ خود تحریکات اسلامی کے لیے بھی یہ صورت حال لمحہ فکریہ فراہم کرے گی کہ نظریے سے مکمل وفاداری اور اصولیت کے باوجود وہ کون سے دائرے ہیں جہاں ’’عملیت‘‘ اختیار کرنی ہوگی اور کس طرح ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائے گی جو تحریکات اسلامی کی نظریاتی اساس اور امتیاز کو تحلیل کیے بغیر ان کے دور رس اہداف کے حصول میں مددگار ہو سکے۔

اسلام کا مزاج اصلاً دعوتی اور اصلاحی ہے‘ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت ترین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعہ تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ اس کی واضح مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے سچّے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہنا ہے کہ جائو اور فرعون کو دعوت اسلام دو‘ وہ حد سے گزر گیا ہے‘ اور یہ بات بھی واضح فرما دی تھی کہ اس مکالمے کا مزاج اور انداز متشدد نہ ہو‘ بلکہ ’’قول لیّن‘‘ انتہائی مناسب اور نرم انداز گفتگو اختیار کیا جائے تاکہ وہ ہدایت کی طرف آ سکے۔ گویا شرک اور طاغوت سے نفرت تو کی جائے گی لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ یہاں نفرت شرک سے ہے ‘مشرک سے نہیں۔

مغرب سے جس مکالمہ کی طرف صدر خاتمی نے اپنی متعدد گفتگوئوں میں اشارہ کیا ہے ہمیں اس کی اخلاقیات کے تعین کے لیے بھرپور طور پر‘ قرآن و حدیث سے مدد لینی ہوگی اور واضح اصول اور نظریاتی بنیادوں پر اس کے خدوخال کا تعین کرنا ہوگا۔ اسلام کا دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ اسلامی فکروعقیدہ‘ ثقافت اور معاشرت کی ترویج و تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے‘ ہاں فکر وعقیدہ کی مکمل آزادی کے ساتھ دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ پراعتماد طور پر مکالمہ اور تبادلہ خیالات اسلامی دعوت کے منشور کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اہل کتاب کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو اے اہل کتاب ‘ہم کیوں نہ ایک مشترک بنیاد سے اس مکالمہ کا آغاز کریں اور دیکھیں کہ کن معاملات میں تعاون ہو سکتا ہے اور کن معاملات میں اختلاف کے باوجود ایک احترام کا تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مکالمہ کو نظری سطح سے آگے بڑھاتے ہوئے معاشرتی سطح پر قیامت تک کے لیے عملاً قائم کر دیا گیا اور نہ صرف اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو‘ جو مکالمہ اور تبادلہ خیالات کا ایک موثر ذریعہ ہے‘ جائز قرار دیا گیا بلکہ ان کے ساتھ معاشرتی تعلق‘ جس میں سب سے زیادہ قریبی تعلق شوہر اور بیوی میں ہو سکتا ہے‘ ممکن قرار دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان مرد کو کسی اہل کتاب خاتون سے نکاح کی اجازت اس جانب ایک مثبت اور عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عقیدہ کے تحفظ کے لیے ایک مومنہ کے کسی اہل کتاب مرد سے نکاح کی ممانعت بھی کر دی گئی ہے۔

ہمیں اپنے تجزیہ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ میں اس مکالمے کے لیے کون سے اصول طے فرمائے تھے۔ بالخصوص انسانی حقوق اور معاملات کے حوالے سے میثاق مدینہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں انسانی جان اور عزت کا احترام ایک قدر مشترک ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ بین الانسانی مساوات کے اصول کی بھی پیروی کی جائے گی۔ قرآن کریم  نے یہ بات بھی متعین کر دی ہے کہ مقامات عبادت خواہ وہ مسجد ہو‘ کلیسا ہو یا سیناگاگ اور ٹمپل‘ امت مسلمہ ان کے تحفظ اور آزادی کے لیے ہمیشہ اپنے وسائل کا استعمال کرے گی۔ اس عمومی پس منظر میں دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالم گیریت کے نام پر کس طرح مغربی سامراجی طاقتیں اپنی پسند کی معیشت‘ معاشرت اور ثقافت کو تمام انسانوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

مزید یہ کہ بادی النظر میں عالم گیریت کے نام پر جو تہذیب و ثقافت اور معاشرت دیگر ممالک پر برضا و رغبت یا بالجبر مسلط کی جا رہی ہے‘ کیا یہ انسانی حقوق پر ایک حملہ نہیں ہے؟ ایک بامعنی ثقافتی مکالمے کے آغاز سے پہلے ہمیں اس ثقافتی یلغار کی گرفت اور اس کے وسیع اثرات و مضمرات کا اندازہ کرنا ہوگا۔ یہ اور دیگر متعلقہ پہلو ہمیں مزید غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔