پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغربی اقوام خصوصاً امریکا کے سامراجی عزائم عملی شکل اختیار کر گئے اور مغرب کے تمام حقوق انسانی، سرحدی آزادی، ملکی خود مختاری اور امن عالم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ مغرب کے بعض نمایندہ مفکرین نے سیاسی، سامراجی عزائم کو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا چوغا پہنا کر مسلم ممالک کے توانائی کے وسائل پر عسکری قوت سے قبضہ کرنے کے گھنائونے عمل کو امریکا کی ـ’قومی سا لمیت کے تحفظ‘ کا نام دیا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی مفکر سیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں جس تہذیبی ٹکرائو کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ عملاً پہلے سے تحریر شدہ ایک کہانی کے خاکے کی طرح ستمبر ۲۰۱۱ء میں افغانستان اور عراق پر یلغار کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ واقعات کے اس منطقی تسلسل نے مسلم ممالک کی غالب آبادی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے فرماںروا جس امریکا یا مغرب دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ کتنی کھوکھلی، ناپایدار اور مغرب کے مفاد پر مبنی ہے۔

نائن الیون نے جہاں منفی تاثرات پیدا کیے، وہیں خود مغرب میں اس سانحے نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تجسّس اور حقیقت حال کو سمجھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر امریکا کے کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے جتنے نسخے انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود تھے، فروخت ہو گئے اور اسلام پر کتب کی بڑی مانگ پیدا ہو گئی۔ قرآن کریم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ بعض چیزوں سے انسان کو کراہت آتی ہے، جب کہ ان میں رحمت ہوتی ہے، اور بعض چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، جب کہ ان میں ضرر ہوتا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تازہ آویزش نے دونوں جانب دانش وروں اور محققین کو اس نئی صورتِ حال کے تجزیے اور اس کے پس ِ منظر میں چھپے اسباب پر تفکر کی دعوت دی، اور مغرب جو اپنے سامراجی دورسے استشراق کے زیرِ عنوان مسلم ممالک کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے میں مصروف تھا، اب اس کی اس کاوش میں مزید اضافہ ہوا۔

مکالمہ___ تاریخ کے تناظر میں

اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتاب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلۂ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  نامۂ مبارک، جو مختلف عیسائی و غیر عیسائی فرماںروائوں کو لکھوائے گئے تھے ، رابطے کے اولین اقدامات کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خصوصاً اہل ِکتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے مشترک بنیادوں پر اس مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔ اس بنا پر     یہ خیال کرنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اور مغرب کا مکالمہ کوئی نئی چیز ہے۔ یہ مکالمہ اسلامی ریاست اور معاشرے کے دورِ عروج میں بھی رہا اور مسلمانوں کے دورِ زوال بلکہ مغربی سامراج کی محکومی کے دوران بھی جاری رہا ،گو ہر دور کے لحاظ سے مکالمے کے دائرے اور زاویے بدلتے رہے۔

قرآنی زاویے سے اس مکالمے کا پہلا مقصد الہامی ہدایت کو ماننے والے مذاہب میں قُرب پیدا کرنا ہے، تا کہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی نظام نافذ ہو چند مشترک بنیادوں پر اہلِ کتاب کو معاشرتی اور عائلی تعلق کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے اہلِ ایمان مسلمان مردوں کو صالح اہلِ کتابیہ سے عقد نکاح کی اجازت دے کر اہلِ کتاب کے ساتھ خاندانی تعلق کے قیام کو ممکن بنایا، لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایک مسلمان خاتون کسی اہلِ کتاب سے نکاح کر سکے۔ وجوہات بڑی واضح ہیں۔ اس طرح مادی طور پر خاندانی رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے لیکن گھر کے تمام امور کا فیصلہ اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والے کے ہاتھ میں رہتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ آیندہ آنے والی اولاد بھی غیر اسلامی اصولوں پر پرورش پاتی ہے، جب کہ اہلِ کتابیہ سے شادی کی شکل میں گھر کا ماحول اور اولاد کی تربیت مکمل طور پر ایک صاحب ِ ایمان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ یہ موقع تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ خاندان، تجارت اور بین الاقوامی امور پر ہر سطح پر ظہور ِ اسلام سے رہا ہے، اس لیے کثرتیت (Pluralism) کی بات اسلام کے تناظر میں کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔

تاریخی حیثیت سے مغرب اور عیسائی دنیا کا تعلق اتنا قریبی رہا ہے کہ عموماً مغرب دوستی یا مغرب دشمنی کو عیسائی دوستی اور دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مغرب نے سولھویں صدی عیسوی کے بعد شعوری طور پر عیسائیت سے اپنا فاصلہ بڑھانے کے عمل___ آزادیِ راے، جمہوریت، انفرادیت، مادیت، مثبتیّت (Positivism) ___کو اپنی فکری بنیاد قرار دیا اور سرمایہ دارانہ فکر کو  اپنا بنیادی نظریہ اور پہچان قرار دیتے ہوئے اپنے معمولات میں ہفتہ میں ایک دن کا کچھ حصہ   اپنے مذہب کے لیے مخصوص کرنے میں اپنی بھلائی جانی، اور مذہب اور دیگر معاملات کے درمیان   عدم تعلق اور فاصلہ رکھنے کو علمی اور عملی حیثیت سے اتنی تکرار کے ساتھ پیش کیا کہ دیارِ مغرب کے باہر بسنے والے افراد بھی اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود زندگی کی اس دوئی میں عملاً مبتلا ہو گئے۔

لیکن غیر مغربی معاشروں کو جب اور جہاں بھی اس خرابی کا شعور ہوا، ان کے دانشوروں اور علما و اساتذہ نے اس پہلو پر توجہ دی۔ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں اصلاح و تجدید کی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہی رہا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔

یہاں صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مغرب سے مکالمہ ہو یا مجادلہ، دونوں شکلوں میں مشترک بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بعض بدیہی پہلو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ مغرب جس فکر کا ملغوبہ ہے اس کی روح ’مذہب‘ کو محدود کرنے میں مضمر ہے۔ چنانچہ سیکولرازم عموماً یہ نہیں کہتا کہ خالق کائنات، انسانوں کے مالک اور رب کا مکمل انکار کیا جائے، بلکہ صرف اتنی بات کہہ کر اس مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ کے دائرہ کار کو مسجد، کلیسا اور ہیکل تک محدود کر دیا جائے۔ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی وہ اپنے مقررہ دن اور مقررہ وقت پر اپنے عبادت خانے میں جا کر جو چاہے کرے لیکن ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافتی سرگرمیاں،  ان تمام معاملات میں ’مذہب‘ کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔ دین اور دنیا کی یہ تفریق مغربی ذہن اور مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسی کو ہم لادینیت یا سیکولر ازم کہتے ہیںجسے لامذہبیت یا الحاد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لادینیت مذہب کو غیر فعال بنانے اور زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دینے کا نام ہے۔ یہ ذہن اور یہ فکر اگر ایک ایسے شخص کے اندر پائی جاتی ہو جو ہر جمعہ کو نماز پڑھتا ہو اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں سر پر نماز کی ٹوپی پہن کر اسٹاک ایکسچینج میں بازی لگاتا ہو ،تو اس کا نماز کی    ٹوپی پہننا اور جمعہ کو باقاعدگی سے نماز ادا کرنا اسے غیر سیکولر نہیں بنا سکتا۔ سیکولرازم وہ بنیادی مرض  ہے جس کے زہریلے اثرات مغربی تہذیب اور مغرب کے ہر ہر شعبۂ حیات میں سرایت کر چکے ہیں، اور اب یہ زہر اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے مغرب خود اپنے اس اندرونی مرض کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔

مکالمے کی سطحیں

مغرب سے مکالمے کی طرف بڑھتے وقت اس تاریخی پس منظر پر نگاہ دوڑائی جائے تو اسلام کا مکالمہ کم از کم چھے محاذوں یا چھے سطح (levels) پر کرنا ہوگا۔

تصورِ حیات:

ان میں سب سے اول سطح تصور حیات ہے، یعنی مغربی تہذیب جس تصور حیات کی نمایندگی کرتی ہے اور اسلام جو تصور حیات دیتا ہے، ان میں کون سی چیزیں مشترک ہیں اور کہاں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کن مقامات پرمفاہمت کی شکل کا امکان ہے اور کہاں پر کوئی تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک ان حدود کا تعین نہ کر لیا جائے مکالمہ اور مکالمے کا تذکرہ ایک نمایش سے زیادہ نہ ہو گا۔ کسی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کے لیے ضروری ہے کہ قواعدِ عمل اور موضوعات کا تعین پہلے کرتے ہوئے گفتگو کو انھی نکات تک محدود رکھا جائے۔

مغربی تصورِ حیات تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اولاً: انسان کی معاشی ضروریات اس کی تمام مساعی کا محرک اور کامیابی کا پیمانہ ہیں۔ چنانچہ مادیت اور مادی ترقی زندگی کا اولین مقصد ہے۔   ثانیاً: زندگی گزارنے کے لیے خوشی اور لذت کا حصول، انسان کی تمام توجہات کا مرکز ہونا چاہیے۔ چنانچہ لذیذ کھانے، تفریحی سفر، شام کے اوقات میں ثقافت کے نام پر حصولِ لذت و خوشی کے لیے موسیقی، ڈراما اور ٹاک شوز، فیشن شوز میں شرکت ایک بنیادی داعیہ اور ضرورت ہے۔ ثالثاً: ’مذہب‘ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس لیے مذہب کو زندگی کے دیگر معاملات میں داخل ہونے سے روکا جائے اور کائنات اور انسانی معاشرہ دونوں کو کسی الٰہی ہدایت کا پابند نہ بنایا جائے ۔انسان اپنی ذاتی راے اور قوتِ فیصلہ سے اپنے معاملات طے کرے۔ اخلاق اور مذہب ایک اضافی چیز ہے۔ انفرادیت (Individualism) یا فرد کی مکمل آزادی کہ وہ جو چاہے کرے، مغربی تہذیب کی پہچان ہے۔

تصورِ حیات کی سطح پر اسلام ان تمام تہذیبوں سے اختلاف کرتا ہے، جو مغرب میں ہوں یا مشرق میں، اور جن کی بنیا داُوپر تحریر کردہ تثلیث ہو۔ اسلام انسان کو ایک اخلاقی مخلوق قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات عالم گیر اخلاقی اصولوں کے مطابق کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر جھوٹ بولنا اور عدل نہ کرنا انفرادی سطح پر غلط ہے، تو معاشرتی اور ملکی اور عالم گیر سطح پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وقت کے ساتھ نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید اور عقل کے مطابق سچ اور عدل کی تعریف کرلے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک ایسے خالق کے وجود پر نہیں ہے جو کائنات بنانے کے بعد کسی گوشے میں آرام کر رہا ہو، بلکہ وہ حي و قیوم(زندۂ جاوید ہستی) اور عزیز و علیم(صاحب ِ اقتدار و صاحب ِ علم ہستی) ہونے کی بنا پر، ہر لمحے اپنی مخلوق کی نگرانی اور بھلائی میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ انسان کو اس کی ضروریات کے پیش نظر ہدایت سے نوازتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی ہدایت کی شکل میں عالم گیر اخلاقی ضابطہ اور قانون دیتا ہے، تا کہ معاشرے میں عدل و اخوت اور رواداری قائم ہو اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالے جاسکیں۔ وہ اپنے بندوں کو مال، صحت اور وسائل دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے نمایندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں ان وسائل کو انسانیت کی فلاح کے لیے امانت کے احساس کے ساتھ توازن و اعتدال سے استعمال میں لائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات اس دنیا کو ایک تجربہ گاہ قرار دیتے ہوئے، انسان کی محدود زندگی کا مقصد تعمیری، اصلاحی اور اخلاقی طرزِ عمل سے ایک طرف مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کرناقرار دیتا ہے، جس میں ایک جانب انسان خوشی، لذت اور اطمینان پاتا ہے اور دوسری طرف اس دنیا میں اخلاقی طرزِ عمل اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ آنے والی ابدی زندگی میں انسان سے بہترین اجر اور انعامات سے نوازے جانے کا حقیقی اور سچا وعدہ فرماتا ہے۔

اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تصورِ حیات میں اختلاف کے باوجود ایسے اُمور میں جہاں انسانوں کا مجموعی مفاد ہو اسلام اور وہ تہذیبیں جو لذت، دولت اور فرد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، انتہائی محدود اور مخصوص صورتوں ہی میں تعاون علی البرّ کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ افراد کا یہ فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے تصور حیات کی وضاحت اور تعارف کے لیے دیگر تہذیبوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور مکالمے کا مناسب استعمال کریں، تاکہ حق، عدل، اخوت اور عالمی انسانی برادری کے عالم گیر اصولوں پر تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔

تعلیم و تحقیق:

مکالمے کی دوسری سطح تعلیم اور علمی تحقیق ہے، یعنی اسلام کے ماننے والے افراد اشاعت ِعلم، تصورِ علم، علم کی مختلف شاخوں اور مناہج پر عبور حاصل کرنے کے بعد نتائجِ فکر کو انسانی برادری کے سامنے پیش کریں، اور اس طرح اسلامی فکر عالمی سطح پر دیگر انسانوں کو غوروفکر اور اسلامی نظامِ حیات کی برکتوں سے متعارف کرا سکے۔ تاریخی طور پر مسلمان نہ صرف علوم اسلامی کے ماہربنے،بلکہ طب، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور دیگر علوم کے یورپ تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ اور آگے چل کر مسلم دنیا سے مغرب کی جانب علوم کی یہ منتقلی ایک علمی مکالمے کی شکل میں یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی اور یورپ بالخصوص علم کی استخراجی حکمتِ عملی (Deductive method) کی جگہ علم کی استقرائی حکمتِ عملی  (Inductive method)  سے آشنا ہُوا۔

معیشت:

مغرب کے ساتھ مکالمے کی تیسری سطح معیشت کا میدان ہے۔ جہاں آج اس حقیقت کے باوجود کہ یورپ و امریکا کے معاشی ادارے اور بین الاقوامی معاشی تنظیمات، مثلاً  عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، عالمی بنک اور آئی ایم ایف مغربی سامراجیت کے زیر سایہ ترقی پذیر اقوام کو معاشی محکوم بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مغرب میں سرمایہ دارانہ معیشت اور سودی بنکاری کی ناکامی اب نوشتۂ دیوار سے زیادہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اسلامی معیشت کے عادلانہ اصول، اخلاقی طرزِ عمل اور شراکت کی بنیاد پر تجارت کا فروغ ایسے اصول ہیں، جو آج بھی علمی اور عملی مکالمے کے ذریعے مغرب کے سامنے پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔

مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہو یا ہندو بنیے اور یہودی سود خواری کا نظام، ان نظاموں کا زوال ایک زیادہ ذمہ دار متبادل معاشی نظام کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اس نازک دور میں اسلام اور مغرب کا معاشی سطح پر مکالمہ اور اسلامی اصولوں کی اشاعت مغرب کے گرتے ہوئے معاشی نظام کو ایک نئی زندگی سے روشناس کر ا سکتا ہے۔

بنیادی اخلاقی اقدار:

اسلام اور مغرب کے مکالمہ کی ایک اور سطح ان بنیادی اقدار کے دوبارہ متعارف کرانے کا عمل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود مغرب میں بھی قابل احترام سمجھی جاتی تھیں، لیکن مادیت، انفرادیت اور لذتیت کی تثلیث پر ایمان و عمل نے ان اقدار کو متزلزل کر دیا ہے۔   ان اقدار میں نظامِ خاندان کا احیا اور اسلامی خاندان کے تصور کا مغرب کے سامنے پیش کیا جانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مغربی تہذیب ہی نہیں، کسی بھی تہذیب کی بقا اور احیا اس کی آنے والی نسلوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر آنے والی نسلوں کو اخلاقی اقدار سے روشناس نہ کرایا جائے، ان کی تربیت گھر اور تعلیم گاہ میں نہ ہو، انھیں قربانی، ایثار، حق گوئی، عدل اور رواداری کی صفات گھر کے ماحول اور تعلیم گاہ میں نظر نہ آئیں تو اس تہذیب کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ مغرب اور اس کی نقالی میں بہت سی دیگر اقوام نے خاندان کے ادارے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے، شادی دیر سے کرنے اور تنہا رہنے کے تصور کو، اور ’انسانی حقوق‘ کے نام پر حیوانی حقوق سے بھی کم تراِس تصور کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یک جنسی شادی کے تصور کو یورپ اور امریکا میں قانونی تحفظ فراہم کر کے، انسانی تہذیب کی مکمل طور پر تباہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ روم اور یونان اپنے فلسفہ اورادب کی ترقی کے باوجود، اپنی اخلاقی بے راہ روی اور خاندان کے نظام کے تباہ ہونے کے بعد سنبھالا نہیں لے سکے، تو مشینوں پر پلنے والی تہذیب اور ٹکنالوجی پر فخر کرنے والی اقوام کب تک مشینی کُل پرزوں کے سہارے تہذیب و ثقافت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دے سکیں گی۔ اس مکالمے میں اسلام، مغرب کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور عالمِ انسانیت کی بقا اور احیا کے لیے صحت مند اور آزمودہ اقدار فراہم کر سکتا ہے۔

شدت پسندی اور جہاد:

اسلام اور مغرب کے مکالمے کی ایک سطح دہشت گردی، سفاکیت اور خودکش ذہنیت کے حوالے سے وہ غلط العام ابلاغی اور دانش ورانہ یلغار ہے، جس نے اسلام اور اسلامیان کو بہت سے مقامات پر ایک معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر جہاد اسلامی کی حقیقی صورت کو واضح کیا جائے، کہ یہ ظلم و استحصال اور ناانصافی کو دور کرنے ، امن، اخوت، محبت اور انسانیت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اسلامی جہاد کے صحیح خدوخال کو واضح کیا جائے۔ اب سے تین چوتھائی صدی قبل مولانا محمد علی جوہر ؒکی خواہش پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تحریر اس حوالے سے لکھی تھی (الجہاد فی الاسلام) جدید تناظر میں اسی معیار اور وزن کی علمی تحریر کے ذریعے اس سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ابلاغِ عامہ جس تکرار کے ساتھ بعض الزامات کو دہراتا رہا ہے، حتیٰ کہ بہت سے صحیح الفکر افراد بھی اس مغالطے میں آ چکے ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور دہشت گردی کو گوارا کرتا ہے، اس پروپیگنڈے کا علمی سطح پر جواب دیا جائے اور مغرب کے دانش وروں اور ابلاغ عامہ کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف دو تہذیبوں کے باہم افہام و تفہیم کے لیے بلکہ خود دعوتِ اسلامی کے مستقبل کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس پر بلاکسی تاخیر کے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عورت کا مقام اور حقوق:

خواتین کے حوالے سے مغرب اور مغرب زدہ مسلمانوں نے جن شبہات اور اعتراضات کو بار بار دہرایا ہے ان پر بھی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر دو جانب سے رجوع کے بعد اسلام کی صحیح تعلیمات کھل کر سامنے آ سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام مساواتِ مرد و زَن کو بنیادی انسانی خمیر (Constituent) کی سطح پر تسلیم کرتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں کا خالق اللہ ہے اور دونوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس اصولی موقف کے بعد اسلام ہر دو صنفوں کے حقوق و فرائض اور معاشرے میں کردار کی روشنی میں عادلانہ بنیاد پر دائرۂ کار کو متعین کرتا ہے، اور اس میں بعض اوقات مردوں کو اور اکثر اوقات عورتوں کو فضیلت دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلم تہذیبوں کے اثرات جو صدیوں سے مسلم معاشرے میں نفوذ کرتے رہے ہیں، ان کے سبب بہت سے ایسے رواج نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ عالمی طور پر دیگر معاشروں میں رائج ہوگئے جن کا کوئی رشتہ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ یہ قبائلی روایتی عصبیت اور نام نہادمردانگی کے تصور پر مبنی رویے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں، اور بعض اوقات مسلمانوں کا انھیں اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے بعض مسلمان اپنے پیدایشی اسلام کے باوجود غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ کیا ان کے اس انحراف کو اسلام سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک یورپی جو صرف اتوار کے دن چرچ جاتا ہو اور بقیہ تمام دنوں میں سخت بد اخلاقیوں کا ارتکاب کرتا ہو، تشدد کو پسند کرتا ہو، اس کے اس عمل کی بنا پر ہم عیسائیت کو اس کی بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ لیکن جب انسانی ذہن ابلاغ عامہ کی زہر پھیلانے والی یلغار کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر عقل کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور وہ محض سنی سنائی بات پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ مغرب کے ساتھ مکالمے کا ایک اہم پہلو اسلام کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور ان کا مقامِ فضیلت ہے جس پر غیر معمولی سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ علمی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔

اسلام اور مغرب کے مکالمے کے موضوعات اورکس کس سطح پر اس مکالمے کو ہونا چاہیے، کے حوالے سے ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا مقصود کوئی حتمی فہرست ِ موضوعات پیش کرنا نہیں، بلکہ صرف اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ ٹکرائو اور آویزش کی جگہ علمی اور فکری مکالمہ  ایک ایسی تعمیری کوشش ہے جسے ہمیشہ اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر صرف ان چھے بنیادی مباحث پر علمی اور سنجیدہ مکالمے کو آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف ان سے متعلق مغا لطوں کو دُور کیا جاسکتا ہے، بلکہ اسلام اور مغرب کی آویزش میں کمی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اسلام کے عالمی پیغام کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔(بہ شکریہ مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد)

روزہ جہاں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے وہاںیہ ایک نئی ثقافت ، ایک نئی فکر اور ایک نئے تصورِ حیات سے روشناس کرانے کا نام بھی ہے۔چنانچہ رمضان ایک ایسی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے جس کی بنیاد تقویٰ اور توحید ہے۔ یہ تہذیب اپنے مظاہراور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک منفرد پہچان اور شخصیت کی حامل ہے۔ ہم عام طور پر ثقافت اس مجموعی تہذیبی عمل کو کہتے ہیںجس میں اس تہذیب کی اقدارِ حیات، فنونِ لطیفہ، شعر و ادب، فن تعمیر، قانون، تعلیم معاشرت او رمعیشت اس تہذیب کے نظریے کی عکاسی کرتی ہوں، مثلاً مغربی ثقافت کی بنیادی قدر (value) مادہ پرستی اور لذت پرستی ہے۔ چنانچہ مغربی تہذیب کی معیشت ہو یا شعر وادب، فنون لطیفہ ہو یا تعلیم اور قانون، تمام شعبوں میں مادیت اور لذت پرستی اور لادینیت کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔

مغربی ہی نہیںکوئی بھی مادی تہذیب ایسی نہیں پائی جاتی جو زندگی کو دو خانوں میں تقسیم   نہ کرتی ہو، یعنی مادی اور روحانی معاملات۔ مغربی تہذیب کے معاشی اور سیاسی نظام میں مادیت کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ اس تہذیب میں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔ گویا لادینی نظام میں مذہب کو صرف اس حد تک آزادی ہوتی ہے کہ ایک شخص جن کاموں کو مذہبی سمجھتا ہو انھیں اپنی ذات کی حد تک کر سکے۔ گرجا میں جا کر عبادت کرنی ہو یا شادی بیاہ کے موقعے پر مخصوص مذہبی رسوم، وہ ان سب کا اہتمام کرتا ہے لیکن اس کی معیشت اور سیاست میں مذہب کے لیے کوئی مقام نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں مذہب کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہوئے ایک ذاتی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کا انعکاس مغربی تہذیب کے ہر ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیاد توحید، یعنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی، سیاسی اُمور ہوں یا ثقافتی، ان سب کی بنیاد تقویٰ اور توحید کے قرآنی اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔

ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ اکثر بطور متبادل کے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ثقافت کا بڑا حصہ ان اصول و مبادی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی نظریۂ حیات کی اساس ہوتے ہیں، مثلاً وہ کائنات کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں، ان کا خالق کائنات کے بارے میں کیا عقیدہ ہے، وہ اچھائی اور برائی کے کن معیارات کو اپنی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصول و مبادی اور یہ ثقافت ایسے علم کو، ایسی معیشت کو، ایسی معاشرت کو اور ایسی تہذیب (civilization) کو پیدا کرتے ہیں جو بنیادی ثقافتی اقدار کی نمایندہ ہوں، مثلاً اسلامی ثقافت کی بنیاد توحید اور تقویٰ پر ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ   تہذیبی مظاہر (manifestations) میں شرک کا وجود نہ ہو مثلاً فن تعمیر میں جان دار تصاویر، وہ انسانوں کی ہوں یا جانوروں کی، ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ چنانچہ اسلامی فن تعمیر ہو یا خطاطی اور مصوری اس کے اعلیٰ نمونوں میں انسانی شکل اور حیوانی مجسمے اور شکلیں نہیں بنائی جاتی ہیں۔

اسلامی ثقافت کی بنیاد:

اسلامی ثقافت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ رمضان المبارک تقویٰ پیدا کرنے والا مہینہ ہے اور تقویٰ کا واضح مظہر وہ زبان، وہ لباس، وہ غذا ہوگی جو تقویٰ پر مبنی ہو، مثلاً تقویٰ مطالبہ کرتا ہے کہ لباس سادہ اور ساتر ہو، غذا حلال ہو، زبان فحش نہ ہو اور اس میں نرمی و احترام پایا جائے۔ چنانچہ جو تہذیب بھی ان بنیادوں پر قائم ہوگی اس کے ماننے والوں کے طرزِ عمل اور بودو باش میں توحید اور تقویٰ کی جھلک ہوگی۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو رمضان ایسی ثقافت کو متعارف کراتا ہے جو توحید اور تقویٰ پر قائم ہے اور جس کااظہار تہذیبی اداروں میں پایا جاتاہے۔

روزہ ایک الہامی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے، چنانچہ رمضان کا پورا عرصہ اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ایک شخص سوچنے کے زاویے کون سے اختیار کرے۔ اس کے علم کاماخذ اور مصدر کیا ہو؟ صداقت سے کیا مراد ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ عدل کی حقیقت کیا ہے؟ اسلامی ثقافت ان تمام بنیادی سوالوں کے واضح جواب فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اس مہینے کا آغاز جس چیز سے ہوتا ہے وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کی بندگی میں آنا اور حاکمیت الٰہی کا اقرار ہے کہ ایک انسان اپنی قسمت کا، اپنے معاملات کافیصلہ کرنے والا خود نہیں ہے بلکہ یہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کا خالق ، اُس کا مالک، اُس کا رب کس چیز سے خوش ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملہ کو طے کرنے کی بنیاد کیا محض ذاتی راے، محض ذاتی تجربہ، محض ذاتی مشاہدات ہوں یا فیصلے کی بنیاد اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور ہدایت ہوگی رمضان جس ثقافت کو قائم کرتا ہے اس کی پہچان للہیت ہے، یعنی ہر کام کو کرنے سے قبل یہ جائزہ لینا کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے یا ناراض۔ یہی تقویٰ کی عام فہم تعریف ہے۔

اسلامی ثقافت جس تہذیب کو قائم کرتی ہے اس میں توازن، سادگی اور تقویٰ کا اظہار ہرعمل میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لباس ایک تہذیبی علامت ہے۔ ایک شخص جو لباس پہنتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں بسنے والے افراد کو اپنے لباس کے ذریعے اپنی دولت اور معاشی مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، یا ساتر اور سادہ لباس کے ذریعے اپنی سادگی اور نمایشی کاموں سے بچنے کی عادت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔اس لیے اگر کوئی ایسا لباس استعمال کرے جس سے نمایش مقصود ہو تو ایسا لباس اسلامی ثقافت و تہذیب کے منافی ہوگا۔  رمضان کے دوران نہ صرف لباس بلکہ گفتگو میں بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رمضان میں جو ماحول پیدا ہوتا ہے وہ ہر اچھی بات کو پھیلانے میں مدد گار ہوتا ہے اور ہربُری بات کو روکنے میں امداد کرتا ہے۔

رمضان الکریم جس ثقافت کو متعارف کرانا چاہتا ہے اس کی پہچان زبان کی احتیاط ، نگاہ کی احتیاط، کان کی احتیاط، معاملات میں احتیاط ہے۔ گویا کہ یہ ایک ایسی تہذیبی تبدیلی ہے جو ایک ماہ کے عرصے میں ایک نئی تہذیبی روایت اور ماحول کو پیدا کرتی ہے۔ جس میں تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب تعاون کرو) اور وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔المائدہ ۵:۲)کی جھلک نظر آتی ہے۔

شریعت کا احترام اور اسلامی اقدار کی پابندی:

ثقافت کے عناصر ترکیبی میں قانون بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے دوران اسلامی شریعت کے ہر ہر حکم کی پیروی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس ماہ کی تربیت شریعت کے احترام اور پابندی کی عادت کو مستحکم کر دیتی ہے۔ اسلامی ثقافت کی بنیادی اقدار میں سے ایک اہم قدر خواتین کا احترام اور ان کو جنسِ تجارت  بنانے (commercialization ) سے اجتناب ہے۔ اسلامی ثقافت مطالبہ کرتی ہے کہ خواتین کے اعلیٰ مقام کو پامال نہ کیا جائے اور ان کے جسم کو معاشی فائدے کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے، چنانچہ اشتہارات میں خواتین کا استعمال اسلامی ثقافت کی ضد ہے۔ اسی طرح اسلامی ثقافت چاہتی ہے کہ مردو زن میں اختلاط نہ ہو کیونکہ یہ برائی کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ رمضان کے دوران اس ثقافتی قدر کو باربار یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اجتماعات ہوں یا تقریبات، ان میں مرد اور عورتیں الگ الگ نشست و برخواست رکھیں۔ بعض مسلم ممالک میں ابلاغ عامہ کو چلانے والے ادارے مغربی اورسرحد پار کی غیر اسلامی تہذیبوں کے زیر اثر رمضان میں بھی اپنے خیال میں جو ’دینی‘ پروگرام کرتے ہیں ان میں ایک نوجوان اور دوسری جانب ایک بنی سنوری خاتون کو بٹھا کر اسلامی معاشرت پر قرآن و حدیث کے حوالے سے بات چیت یا سوال و جواب کراتے ہیں۔ یہ رمضان کے تقدس کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ حدیث نے حیا کو ایمان کا بڑا حصہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جس میں حیا نہیں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت حیا کی ثقافت ہے اور اس ماہ میں خصوصی طور پر حیا کا اختیار کرنا روزے کو مقبول بنا دیتا ہے۔ حیا محض شرم کا نام نہیں ہے بلکہ حیا ایک وسیع تصور ہے۔  اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بزرگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کس طرح اختیار کی جائے۔

روز مرہ معاملات اور قرآنی تعلیمات:

رمضان کے دوران دین کے علم میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ مالی اختیارات میں فضول خرچی سے بچتے ہوئے ہاتھ کی کشادگی کس طرح اور کس حد تک اختیار کی جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوران اپنے اہل خانہ اور دیگر مسلمانوں پر کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ اس انفاق کی ثقافت کو کس طرح رائج کیا جائے۔ خصوصاً ایسے افراد کی امداد جو ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس کرتے ہوں، ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ گھروں میں قرآن کریم کی تعلیمات کو کس طرح رائج کیا جائے اور روایتی طورطریقے جو صدیوں سے گھروں میں رواج پا گئے ہیں کس طرح ان کی جگہ اسلامی اخلاقی ضابطوں کو نافذ کیا جائے۔ یہ پورا مہینہ ان تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں آنے کے اعلان کے ساتھ خلوص نیت سے قرآنی تعلیمات کو بتدریج اپنی زندگی میں، اپنے گھر میں اور اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے مؤثر  عملی اقدامات کیے جائیں۔

اپنے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا نام ہی توحید ہے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو ان تمام غلامیوں سے نکالتا ہے جو بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک غیر محسوس طور پر اس پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ برادری کی روایات ہوں، والدین اور بزرگوں کے سکھائے ہوئے طریقے ہوں یا معاشرے سے اخذ کی ہوئی عادات، جب ایک شخص ان سب کو جانچنے کے لیے توحید کی کسوٹی استعمال کرتا ہے، تو پھر اس کے تعلقات، فکر اور معاش، سیاست، گھر کے فیصلے، سب کی بنیاد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو جاتی ہے۔ یہی روزے کا مقصد ہے کہ انسان میں تقویٰ کی روش پیدا ہو، وہ اپنے قلب، دماغ، جسم خواہشات ہر چیز کو اللہ کی    خوش نودی کا تابع بنائے۔ یہی توحیدی ثقافت ہے جو ہر انسانی عمل کو اللہ کی بندگی میں لے آتی ہے۔

احترامِ انسانیت:

ایک اور اہم خصوصیت جو یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرتی ہے وہ احترام آدمیت اور احترام انسانیت ہے، یعنی روزے کے دوران اس بات کی شدت سے ممانعت ہے کہ ایک شخص کے ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچے، زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، اس کی گفتگوئوں سے کسی کی دل آزاری ہو۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا ایسا کرنا اسلامی ثقافت کی روح کے منافی ہوگا۔ گویااحترام انسانیت کے ساتھ وہ طرزِ عمل جوروزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے یہ ہے کہ ایک مومن نہ کسی سے بلند آواز سے مخاطب ہو، نہ کسی پر ہاتھ اُٹھائے، نہ کسی کی جان لے، نہ کسی کو تکلیف پہنچائے،بلکہ اس مہینے میں اپنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن سکے۔

احترامِ مال:

ایک اور اہم پہلو جو اس ثقافت کی پہچان ہے وہ یہ ہے کہ افراد کے ساتھ معاملات میں، بالخصوص مالی معاملات میںدیانت داری کو اختیار کیا جائے۔ چنانچہ یہ ثقافت ہمارے اندر مال کے احترام اور حُرمت کااحساس پیدا کرتی ہے کہ اگر سونے کا ڈھیر بھی کسی کے سامنے پڑا ہو تو وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگائے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ جو شخص روزے کے دوران سخت پیاس اور بھوک میں بہترین کھانا سامنے ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاتا، وہ یہ کیسے کرسکتا ہے کہ عام حالات میں کسی دوسرے کی دولت پر ہاتھ ڈالے۔ گویا اس ثقافت کی ایک بنیاد وہ احترا م ہے جو دوسرے کی ملکیت یا مال کے بارے میں یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتی ہے۔

عمل کے لیے شعوری رویہ:

اس ثقافت کا ایک اوراہم پہلو جو روزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے معاملات کی بنیاد ایک شعوری عمل ہو، عقلی رویہ ہو جس میں ایک شخص سوچنے سمجھنے کے بعد یہ طے کرے کہ مجھے کوئی کام کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔  مثلاً ایک شخص اگرمعمولی سی فہم بھی رکھتا ہو، تو وہ یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کرے، یا شراب کا استعمال کرے جو اس کواپناغلام بنا لیں۔ یہ رویہ عقل و شعور کا نہیں ہوسکتا۔ روزہ ایسی فضا پیدا کرتا ہے جس میں منشیات کے خلاف جہادکا جذبہ پیدا ہو جائے اور ایک شخص بجاے منشیات کا غلام بننے کے ایسا عقلی رویہ اختیار کرے جس میں شعوری طور پر یہ دیکھ سکے کہ اس کے لیے کیا چیز مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک ظلم یہ ہے کہ اشتہارات کے ذریعے بچوں کو بھی ایسے مشروبات پینے کی ترغیب دی جاتی ہے جو طبی معلومات کی روشنی میں صحت کے لیے مضر ہیں اور آہستہ آہستہ منشیات تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ رمضان کے دوران ان مُضِر مشروبات کے اشتہار افطاری کے حوالے سے دکھائے جاتے ہیں جو اسلامی ثقافت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

رمضان وہ ثقافت پیدا کرتا ہے جس میں محض شعوری رویہ ہی نہیں بلکہ انسانوں کے حوالے سے بھی یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطری ضروریات کو اخلاقی ضابطے میں رہتے ہوئے کس طرح پورا کرے۔چنانچہ روزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ روزے کے دوران کن کاموں سے اجتناب کیا جائے، مثلاً جنسی ضرورت کا پورا کرنا۔ اسلامی ثقافت میں جنس بجاے خود ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ روزے کے دوران جنسی تعلق قائم نہ کرنا تزکیہ اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے لیکن روزہ مکمل کرنے کے بعد جائز تعلق قائم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔ قرآن کریم رہبانیت اور مجرد رہنے کی ممانعت کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ اہل ایمان خاندانی زندگی گزاریں۔ چنانچہ وہ حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجرد ہوں ان کے نکاح کر دیے جائیں۔ رمضان میںجنسی تعلق کے حوالے سے قرآن پاک اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اگر اجازت نہ دی گئی تو بعض افراد خیانت کریں گے، اس لیے روزے کے افطار کے بعد سے سحر کے وقت تک ایک شخص کو جائز خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ گویا اس ثقافت کی بنیاد جائز تعلقات کا احترام ہے، اُن کا باقی رکھنا، اوران کے حقوق کا ادا کرنا ہے۔ روزے کے دوران بعض کاموں سے رُک جانا اور افطار کے بعد انھی کاموں کا مباح ہو جانا یہ پیغام دیتا ہے کہ روزے کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا احترام ہے۔ یہ حدود جنسی تعلقات سے متعلق ہوں یا غذا اور آرام سے متعلق، ان پر عمل کرنا ہی روزے کو باعث اجر بناتا ہے۔

محبت و اطاعتِ رسولؐ:

روزہ ہمارے اندروہ ثقافت پیدا کرتا ہے جواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کے احساس کے ساتھ ساتھ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ؐکی محبت ہمارے دلوں میں اُتارتی ہے۔ ہم ہر معاملے میں یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ خاتم النبینؐ نے کس کام کو کس طرح سے کیا۔ چنانچہ آپؐ کی سنت اور آپؐ کے عمل کی پیروی ہمارے ایمان میں وہ قوت اور تازگی پیدا کردیتی ہے جو اس با برکت موسم کا امتیاز ہے۔ روزے کے ذریعے جو ثقافت پیدا ہوتی ہے وہ گویا توحیدی ثقافت ہے۔ وہ ثقافت عدل والی ہے۔ وہ احترام اور حیا کی ثقافت ہے۔ وہ احترام مال کی ثقافت ہے۔  وہ احترام عقل و شعور کی ثقافت ہے ۔وہ اطاعتِ رسولؐ کی ثقافت ہے۔ اس کے اندر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک معاشرے کو پُرامن بنا سکتی ہیں۔ اس ثقافت کو وجود میں لانے اور اس کی حیات کو روح فراہم کرنے والی شے قرآن کریم ہے جس کے نزول کی شان میں یہ عبادتوں والا مہینہ اس کلام عزیز کے بھیجنے والے نے خود منتخب فرمایا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کا اشارہ اسی جانب ہے کہ یہ محترم مہینہ ہے جو ایسی ثقافت کو وجود میں لاتا ہے جس میں ہرعمل اللہ تعالیٰ کی رضا کا پابند ہے۔ اس مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ فرمایاگیا: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَــیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ۲:۱۸۵)، یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا جو ہدایت ہے انسانوں کے لیے۔ یہ فرق بتانے والا ہے اچھائی میں اور برائی میں۔ یہ ہر چیز کو واضح بیان کردیتا ہے اور ہمیں سمجھا دیتا ہے کہ کون سے کام کرنے کے ہیں اور کون سے نہ کرنے کے۔

عالم گیر ثقافت:

رمضان جو ثقافت پیدا کرتا ہے وہ کوئی نمایشی اور مصنوعی ثقافت نہیں ہے، بلکہ ایک عالم گیر ثقافت ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے بھلائی، ہدایت اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ مہینہ قرآن کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر صاحب ایمان کتاب کے ساتھ ایک ذاتی اور گہرا تعلق پیدا کرتا ہے۔ وہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی اکائی کے تحت زندگی کے تمام کاموں میں یک جہتی، یگانگت اور وحدانیت پیدا کرتا ہے۔

روزہ اس ثقافت کو پید ا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میںہمیں تعمیراور ترقی کے تمام مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ اُس ثقافت کی مخالفت کرتا ہے جو برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی یا ہمسایہ ملکوں کی غیر اخلاقی ثقافت کو ہم تک پہنچاتی ہو۔ یہ ثقافت، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی حدود کی غلام نہیں ہے بلکہ آفاقی اور   عالم گیر ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں یہی کہتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، چنانچہ اس کی ثقافت بھی عالم گیر ثقافت ہے۔ یہ عالمی امن، احترامِ انسانیت اور حقوق انسانی کو بحال کرنے والی ثقافت ہے۔ اس کی پہچان اخلاقی رویہ اور انسانوں کے حقوق کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرنا ہے۔ یہ حقوق و فرائض کی واضح تقسیم پر مبنی ثقافت ہے۔ (مقالہ نگار کی کتاب روزہ اور ہماری زندگی کا ایک باب۔، ناشر: منشورات، لاہور)

 حقیقت ِ حال اور مستقبل

عالمی سطح پر گذشتہ نصف صدی سے عمرانی علوم (سوشل سائنسز) کی جانب تدریسی اور تحقیقی میدانوں میں انحطاط کا رحجان محسوس کیا جا رہا ہے۔ بظاہر اس کا سبب طلبہ اور حکومتوں کا ٹیکنالوجیکل مضامین میں دل چسپی لینا اور جامعات میں انجینیرنگ، کمپیوٹر سائنس، بیالوجیکل اور فزیکل سائنسز میں داخلوں اور سہولیات پر زیادہ توجہ دینا نظر آتا ہے۔ اس رحجان کا اثر عمرانی علوم کے شعبوں میں داخلوں میں کمی اور اطلاقی علوم میں داخلوں میں کثرت کے ساتھ طلبہ اور طالبات کے تناسب میں بھی نظر آتا ہے۔ عموماً میڈیکل کالجوں اور ڈینٹل کالجوں میں طالبات کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ یہ تناسب اکثر ۶۰،۷۰ فی صد طالبات اور تقریباً ۳۰، ۴۰ فی صد طلبہ کی تعداد کی شکل میں کم از کم اسلام آباد کی جامعات میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

بالعموم عمرانی علوم کو طلبہ اور والدین وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے یہ مستحق ہیں۔ ان علوم میں تاریخ، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات اور اسلامی علوم وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ وہ طلبہ جو  اطلاقی علوم (Applied Sciences) میںداخلے نہ حاصل کر سکیں عموماً عمرانی علوم میں داخلہ لے کر  عمرانیات، نفسیات، معاشیات، سیاسیات یا اداراتی علوم میں ایم اے کرنے کے بعد عام طور پر تدریس سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ڈگری کالجوں میں اپنے مضمون کو جیسا کہ انھوں نے اپنے اساتذہ سے پڑھا تھا، پڑھا کر ایک پُرسکون زندگی گزارنے پر قناعت کرتے ہیں۔ عمرانی علوم پڑھانے والے اساتذہ میں سے بہت کم افراد ایسے ہیں جو ان علوم کے فکری اور نظریاتی ارتقا سے واقفیت اور اس پورے عمل پر گہری نگاہ رکھتے ہوں۔ اکثر اساتذہ کا ہدف کورس کی کتاب میں درج اصطلاحات و مضامین کی کچھ وضاحت اور ان میں پیش کیے گئے تصورات کو طلبہ تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ بہت کم اساتذہ ایسے پائے جاتے ہیں جو کورس کی مقررہ کتابوں کے علاوہ تحقیقی مضامین اور تازہ طبع ہونے والی کتب سے استفادہ کرتے ہوں یا طلبہ کو ان کی طرف متوجہ کرتے ہوں۔ نتیجتاً عمرانی علوم علمی حیثیت سے جس مقام پر کھڑے ہوں انھیں وہیں پر رہنے دیا جاتا ہے، جب کہ فزکس، کیمسٹری اور دیگر سائنسز کے بارے میں جدید تحقیقات، کم از کم ایم ایس اور ایم فِل کی سطح پر ضرور علم میں لائی جاتی ہیں۔ جدید علمی تحقیقات سے کما حقہ واقفیت اور ان کے تجزیہ و تحلیل کے بعد ہی ان علوم میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ۱۰ برسوں میں ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے جامعات کی زمرہ بندی اور اساتذہ کی ترقی کے حوالے سے جو علمی پیمانے بنا کر نافذ کیے ہیں     اس کے نتیجے میں کم از کم عالمی جرائد میں پاکستانی اساتذہ کے مضامین کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف تعداد کے لحاظ سے بلکہ اپنے اعلیٰ معیار کی بنا پر    ان مضامین سے نئی ایجادات میں بہت مدد ملے گی۔ اس خوش آیند پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے  اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ جو عمرانی علوم اور اطلاقی علوم ہماری جامعات میں پڑھائے جا رہے ہیں وہ کس حد تک قومی تعلیمی مقاصد و اہداف پر پورے اُترتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند گزارشات اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں:

مغربی عمرانی علوم کی فکری اساس

تاریخی طور پر عمرانی علوم یا Social Sciences اور Behavioral Sciences کی اصطلاحات متبادل طور پر استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ انھیں Human Sciences بھی کہا جاتا ہے جو شاید زیادہ جامع اصطلاح کہی جا سکتی ہے۔ اصطلاح کی افضلیت سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے پاکستان میں جو عمرانی علوم پڑھائے جا رہے ہیں یہ انگریز کے دورِ غلامی سے آج تک ایک تسلسل کی شکل میں یورپی جامعات میں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل پڑھائے جانے والے مضامین کا ایک چربہ ہیں، حتیٰ کہ نصابی کتب بھی جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ ۵۰برسوں میں یورپ اور امریکا میں ان علوم میں جو اضافے اور تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں ہماری جامعات  ان سے بڑی حد تک بے خبر انھی کتب اور تصورات کو ہمارے طلبہ کو پڑھا رہی ہیں جو انگریز کے دورِغلامی میں ہم پر لادینی نظامِ تعلیم میں نافذ کی گئی تھیں۔

جنوب مشرقی ایشیا کی بعض جامعات میں عمرانی علوم کے اِس پہلو پر علمی مکالمہ جاری ہے۔ پاکستان کے تناظر میں عمرانی علوم کے فکری اور نظریاتی پہلو پر تنقیدی نگاہ ڈالنا بہت ضروری ہے۔

عمرانی علوم کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے انسانوں کے باہمی تعلقات اور معاشی، سیاسی، قانونی، ثقافتی، تعلیمی اور عائلی تعلقات سے بحث کرتے ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی طرزِ عمل (behavior) کا جائزہ لیتے ہیں اور نہ صرف اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے بارے میں تبدیلی اور ممکنہ ردعمل سے بھی مطلع کرتے ہیں۔ چنانچہ علمِ معاشیات نہ صرف انسان کے معاشی ذرائع پیداوار، تقسیم وسائل بلکہ دولت اور وسائل کے پیداواری عمل میں لگائے جانے اور حصولِ منفعت کے حوالے سے اندازے قائم کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور انسان کے معاشی طرزِ عمل کی سمت کا تعین کرنے میں موجودہ معلومات کی بنیاد پر مستقبل کے نقشے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسے ہی علمِ عمرانیات (سماجیات) کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے بنیادی ادارہ، خاندان اور اس سے متعلقہ قانونی، اخلاقی اور دیگر پہلوئوں سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انسان کس طرح معاشرے سے متاثر ہوتا ہے، معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے اور اس کے ترقی کرنے یا زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ قانون اور تعلیم کا کردار معاشرے میں کیا ہے اور اخلاقی اقدار کیسے وجود میں آتی ہیں۔

جہاں تک سوشل سائنسز یا عمرانی علوم کے طریقِ تحقیق کا تعلق ہے اس کا ماخذ بھی یورپ میں استعمال کیے جانے والے تجربی طریقے (Empirical Methods) ہیں۔ چنانچہ معاشیات ہو یا عمرانیات جو پیمانے ترقی(Progress, Development) کو ناپنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی فکری بنیاد یورپی تصورِ حیات (World View) ہی فراہم کرتا ہے۔ اگر سماجی ترقی کا اندازہ کرنا ہو تو یورپی تصورِ حیات میں جو معیارِ زندگی (Quality of Life)، گھر کی مکانیت اور اس میں سہولیات کا ہونا، سڑکوں، بجلی اور ذاتی سواری کا ہونا، اوسط عمر، خاندان میں افراد کی تعداد، غرض وہ بہت سے پہلو جنھیں تجربی طور پر اعدادو شمار میں لایا جا سکتا ہے وہی ترقی، کامیابی اور ڈویلپمنٹ کے اشاریے (Indicators) قرار دیے جاتے ہیں۔

اس وضاحت سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور عالمِ اسلام میں جو عمرانی علوم، عمرانیات یا معاشیات پڑھائے جاتے ہیں اور جس کی بنیاد پر کسی ملک یا معاشرے کو  ترقی یافتہ، کسی کو پس ماندہ اور کسی کو زیرِ ترقی کہا جاتا ہے ، ان سب کو ناپنے کے پیمانے ان ممالک کے اپنے حالات، تصورِ حیات، معاشرتی روایات، اقدارِ حیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد و ماخذ مغربی تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن ہیں۔

بعض حضرات اس تاثر کا اظہار کرتے ہیں کہ عمرانی علوم کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خاص ثقافت سے، یہ تو معاشرے میں پائے جانے والے حقائق کا عکس ہوتے ہیں۔ حقیقت واقعہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ تصورِ معاشرہ کا مفہوم آسان زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں جو انسان پایا جاتا ہے اس کا تصورِ حیات، تصورِ کامیابی، تصورِ فلاح اور تصورِکائنات اور تصورِ الٰہ یا رب کیا ہے؟ کوئی بھی معاشرہ اُس تصورِ حیات کا عکس ہوتا ہے جو اس میں پائے جانے والے انسان اختیار کرتے ہیں۔ مغربی علومِ عمرانی فرد، معاشرے اور ریاست کے بارے میں اور بالخصوص الٰہ، رب اور کائنات کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں وہی ان کے معاشرے کو تشخص فراہم کرتا ہے، چنانچہ مغرب میں عمرانی علوم کو جن بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے ان میں انسان ہی کائنات کا مرکز قرار پاتا ہے۔ انسانی خوشی، تسکینِ خواہش اور رضامندی ہر معاشرتی عمل کی بنیاد تسلیم کی جاتی ہے۔

فلسفیانہ اصطلاحات میں مغربی تہذیب و ثقافت کی بنیاد Individualism (انفرادیت پسندی)، Hedonism (حصولِ لذت)، Materialism (مادہ پرستی) اور Relativist Ethics (اضافی اخلاقیات) پر قائم ہے۔ چنانچہ ایک فرد طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کے لیے کتنی دولت کمائے اور اپنی نجی زندگی میں کن چیزوں کو جائز اور کن کو ناجائز قرار دے۔ گویا خاندانی تعلق ہو یا کاروباری، ملازمت ہو یا کاشت کاری، دوستی ہو یا دشمنی، وراثت کا معاملہ ہو یا سیاسی اقتدار، ہرانسانی فیصلے کی بنیاد انسان کا اپنا ذاتی مفاد، دولت، لذت یا تسکین فیصلہ کن مقام کی حامل اقدار ہیں اور انسان کو کسی بیرونی غیرجانب دار، مفادات سے بالاتر ہستی کی ہدایت کی ضرورت نہیں۔

مغربی سوشل سائنسز کے تمام شعبے اس بنیادی تصورِ حیات و کائنات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ عمرانیات کا پہلا کُلیہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے کیوں کہ وہ انسانوں کے ساتھ گروہ کی شکل میں مل جل کر رہتا ہے۔ یہاں جو بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور ایک لادینی افادیت پرست (Utilitarian) تصور کو اسلام کے عالمی اخلاقی تصور سے ممتاز کرتی ہے وہ  مغربی علوم عمرانی میں انسان کا بنیادی طور پر حیوان ہونا ہے، جب کہ اسلامی تصورِ حیات اللہ تعالیٰ کو  خالق و حاکمِ کائنات اور انسان کو اس کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور انسان کا وجود محض حیوانی نہیں بلکہ حیوانی پہلو کے ساتھ اس کی اصل شناخت اس کا روحانی، ملکوتی اور اخلاقی وجود ہے جو اسے استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا اہل بناتا ہے اور دنیا کے سارے وسائل کے صحیح تصرف کو اس کی جولان گاہ بنا دیتا ہے۔

مغربی سوشل سائنسز کی آغوش میں تربیت پانے والا ذہن آغاز سے ہی اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ انسانی نفسیات کی بنیاد اس کی انا، لذت، قوت اور قبضہ کرنے کی جبلّت (Instinct) ہے اس لیے وہ ہمیشہ ان محرکات کی بنا پر کام کرے گا۔ یہ وہی اصول ہیں جو، بصد معذرت، چوہوں پر تجربات کرکے حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر انسانوں پر لاگو کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کا دائرہ انسان کو دو پائوں پر چلنے والے بڑے چوہے میں تبدیل کر دیتا ہے جو پنیر (cheese) کی خوشبو پر بھول بھلیوں سے تیزی سے گزرتا ہوا آخر جا کر پنیر کو کتر لیتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ اور دیگر ماہرین نفسیات انسان کی زندگی کے تقریباً تین چوتھائی اعمال اور فیصلوں کو اس کے لاشعور اور تحت الشعور کا کارنامہ سمجھتے ہیں، جب کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام کاموں کو شعوری اور ارادی عمل (نیت، ارادہ) سے وابستہ قرار دیتا ہے۔ اس طرح تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق عمرانی علوم کے ہر ہر شعبے میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مسلم دانشور کا اصل مسئلہ اس کی وہ فکری اور ذہنی مرعوبیت ہے جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی عمرانی علوم کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اب وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہے تو بآسانی نہیں نکل سکتا۔ وہ گندے تالاب کی مچھلی کی طرح اپنے اردگرد کے بُرے ماحول میں فرحت محسوس کرتا ہے کیوں کہ اسے ابھی تک تازہ اور صحت مند پانی میں تیرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

نصف صدی قبل الجزائری مفکر مالک بن نبی نے اس صورتِ حال کو محض ایک لفظ میں یوں بیان کیا تھا کہ Colonizibility یعنی محکومانہ ذہنیت سیاسی اور تہذیبی محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اسی بات کو FANON نے Neo-Colonialism کی اصطلاح سے واضح کرنا چاہا۔ دراصل ہمارے علومِ عمرانی مغربی لادینی (Secular) جمہوریت، انفرادیت پسندی (Individualism)، مادیت (Materialism) اور لذتیت (Hedonism) کے ارکان اربعہ پر ایمان بالغیب لاتے ہوئے ان مفروضوں کو انسانی فکر اور معاشرے کی تخلیق و ارتقا کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ہر وہ فکر جو ان مفروضوں سے ٹکراتی ہے اسے قدامت اور روایت پرستی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے دانش ور بھی انھی تصورات کی تشہیر کرتے ہیں اور کبھی اس دامِ خیال سے باہر نکل کر ان تصورات پر تنقیدی نظر نہیں ڈالتے۔

کسی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار اس کے تصورِ حیات کی عظمت پر ہوتا ہے اور اس تصورِ حیات کا عکس علوم میں نظر آتا ہے۔ ہمارے سماجی علوم کی تشکیلِ جدید ہماری اپنی اخلاقی اقدار پر کرنے کے لیے ہمیں مغربی فکر کی اندھی تقلید سے نکل کر اسلام کی آفاقی اقدار کی بنیاد پر تصورِ علم اور اصنافِ علم کو نئے سرے سے مدون کرنا ہو گا تاکہ ہر شعبۂ علم سے وابستہ محقق کائنات اور خالق کائنات کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح اور ایک اخلاقی معاشرے، اخلاقی معیشت، اخلاقی سیاست اور اخلاقی ثقافت کی تعمیر کرسکے۔

مغربی معاشرہ ہو یا معیشت و سیاست و اخلاق، ہر ہر شعبے میں جو ترقی ایک نگاہِ ظاہر بین کو نظر آتی ہے اس کی اصل یہی چار اصول ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا۔ معاشرے کے قیام کا آغاز خاندان کی اکائی سے ہوتا ہے۔ مغربی عمرانیات اور سماجیات میں خاندان کی تعریف اور اس پر ایمان بالغیب لانے کے نتیجے میں خود ہمارے معاشرے میں اکیسویں صدی میں خاندان کی تعریف یہی کی جاتی ہے کہ شوہر بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچے۔ اسی بنیادی اکائی کی بنیاد پر ایک خاندان کی معاشرتی اور معاشی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے ایک فرد اپنے مستقبل کا نقشہ ذہن میں بناتا ہے، یعنی اگر وہ چاہتا ہے کہ اپنا مکان خود تعمیر کرے تو اس میں اس کا ماسٹر بیڈ روم ہو گا اور ان’دوبچوں‘ کے لیے ایک کمرہ تاکہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنی فکر کریں اور جو کمرہ ان کے استعمال میں تھا وہ یہ معمر ماں باپ کسی اور مصرف میں لا سکیں۔ اس مکان میں دادا دادی یا نانا نانی یا بچوں کی پھوپھی یا خالہ یا کسی بھی عزیز کے لیے تصوراتی طور پر کوئی جاے رہایش نہیں پائی جاتی۔ اس تصور کی بنیاد پر گھروں اور شہروں کی منصوبہ بندی ( Town Planning) کی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں پانی کی فراہمی، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر قرب و جوار میں کسی باغ کا بنایا جانا متوقع تعداد کے لحاظ سے بچوں کے اسکول، ہسپتال یا بازار کا تعین کیا جاتا ہے۔

گویا بنیادی مفروضہ اگر یہ ہو کہ ایک ’خوش حال‘ گھرانہ صرف وہ ہے جہاں حد سے حد ایک یا دو بچے پائے جائیں تو یہ انفرادی بلکہ اجتماعی فیصلہ جن محرکات پر مبنی ہوتا ہے وہ بقیہ تین ارکان، یعنی لذتیت، مادیت اور دنیویت (غیرمذہبی سوچ) ایک فرد کو اپنے فیصلوں میں خودمختار سمجھتے ہوئے اخلاق کو انفرادی پسند کا تابع بنا دیتے ہیں، اور وہ حد سے حد دو بچوں والے ’خوش حال گھرانے‘ کے خودساختہ تصور میں گم رہتا ہے۔ اگر صرف سماجیات اور معاشرے کے نقطۂ نظر سے اس مثال پر غور  کیا جائے تو محض دو نسلوں میں اس ’خوش حال‘ گھرانے میں پیدا ہونے والے  یہ دو بچے اگر لڑکے تھے تو جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو بذات خود بہن کے وجود سے آگاہ نہیں ہوتے اور ان کی اولاد ساری عمر کسی پھوپھی کا تصور نہیں کر سکتی۔

اگر یہ پیدا ہونے والے بچے دو لڑکیاں ہیں تو یہ خود بھائی کے وجود سے غیرآگاہ اور ان کی اولاد کسی ماموں سے مکمل طور پر ناآشنا رہتی ہے۔ اگر ان دو میں سے ایک لڑکا ہو ایک لڑکی ہو تو لڑکے کی اولاد چچا یا تایا کے رشتہ سے ناآشنا اور لڑکی کی اولاد خالہ کے تصور سے لا علم رہتی ہے۔    یہ لاعلمی محض نظری نہیں کہی جا سکتی یہ اسلامی شریعت میں ’قطع رحمی‘ کی تعریف میں آ سکتی ہے۔     یہ رشتوں کا توڑنا اور دفن کر دینا جو تہذیب و ثقافت پیدا کرے گا وہ محض فرد کے گرد گھومے گی۔ اس میں اجتماعیت نہیں پائی جائے گی اور جب اجتماعیت نہیں ہو گی تو معاشرت اور معاشرے کی بنیادی اکائی ہی ختم ہو جائے گی۔ گویا مغربی لادینی عمرانیات اور سماجیات کا یہ بظاہر ’معصوم‘ نعرہ کہ خاندان کا مطلب کیا ہے اورجسے___ بلا تخصیص تمام معاشرتی علوم کی کتب میں، پاکستان ہو یا دیگر مسلم ممالک ___ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، اور جس عمرانیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی ایک شخص یونی ورسٹی میں استاد بنتا ہے وہ اسی تصورِ خاندان اور معاشرے کی بنیاد پر تمام تحقیق اور ملک کی معیشت، سیاست اور دفاع کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

اس لیے یہ سمجھنا کہ عمرانی علوم محض تفریح طبع کے لیے ہوتے ہیں اور اطلاقی علوم ہی ترقی کی طرف لے جاتے ہیں، ایک لاعلمی پر مبنی تصور ہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک روز مرہ کی مثال سامنے رکھ کر یہ بات واضح کی ہے کہ کس طرح مغربی لادینی اور انفرادیت پسند تصورِ خاندان ایک تہذیب کُش فکر ہونے کی بنا پر انسانی ثقافت کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر انسانی معاشرے سے معاشرتی اقدار کو خارج کر دیا جائے اور خاندان جو رشتوں سے وابستہ ہوتا ہے ان رشتوں ہی کو انسانی یاد داشت سے نکال دیا جائے تو تہذیب کس بنیاد پر آگے بڑھے گی؟ آج مسلم دنیا میں مغربی لادینی علوم عمرانی کے بنیادی تصورات پر اندھا ایمان لانے کے نتیجے میں جو خاندانی انتشار، اضمحلال اور زوال پیدا ہو رہا ہے اس کے اسباب بڑے واضح ہیں لیکن ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ماہرین تعلیم اور منصوبہ بندی کو اپنے ذہن کو مغربی استعماری (Colonial) فکر کے جال سے نکالنا ہو گا۔ مغربی عینک سے ہر فکر کا مطالعہ کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا اور ایک علمی ماہیت قلبی (Epistemic Paradigm Shift) سے گزرنا ہو گا۔ گویا بنیادی اصطلاحات جن پر علوم عمران کو قائم کیا گیا ہے خود ان فکری بنیادوں کی جگہ متبادل فکری بنیاد پر علوم عمرانی کی تشکیلِ جدید کرنا ہو گی۔

اس تشکیلِ جدید کو اسلام کے تصورِ رب اور اس کے عالم گیر اخلاقی اصولوں پر قائم کرنا ہو گا تاکہ نئے علوم عمرانی ہرہر شعبے میں توحید، عدل، امانت و خلافت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بنیادی الہامی اصولوں کی روشنی میں معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ ، ادب،  تہذیب و ثقافت، غرض ہرہرشعبۂ علم میں اُس علم کے مقاصد، مناہج و اہداف اور ان کے حصول کے اخلاقی طریقوںپر عمل کرسکیں۔

اگریہ کام نہیں کیا گیا تو مغربی لادینی علوم عمرانی بشمول تصورِ جمہوریت، ہمیں غیر محسوس طور پر غلامی میں گرفتار رکھے گا اور ہم گندے پانی کی مچھلی کی طرح اپنے ماحول کے پاک صاف، ترقی یافتہ اور معیارِ زندگی میں مسلسل اضافے کے خام تصورات میں محو خواب رہیں گے۔

ترقی کی بنیاد جب تک ایک ملت کی تہذیبی اقدار، تصورِ حیات اور تصور ِ فلاح نہیں ہو گا، اگر وہ کوئی مادی ترقی کر بھی لے، اس کے ہا ں سڑکیں اور پل تعمیر ہو جائیں ، بڑے بڑے بازار  بن جائیں، سات ستاروں والے ہوٹل تعمیر ہو جائیں، جب بھی وہ ملت مفلسی کا شکار رہے گی۔    یہ مفلسی فکر میں بھی ہو گی، رشتوں کے احترام میں بھی ہو گی اور انسانیت کے احترام میں بھی۔     یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اگر ایک ملت انسانیت میں مفلسی کا شکار ہو تو پھر اس کی ٹکنالوجی میں ترقی اس کو تباہی سے نہیں بچا سکتی۔

ماضی کی اقوام جن کا تذکرہ قرآن کریم میں پایا جاتا ہے، جو پہاڑوں کو تراش کر محلات بناتے تھے، جو اہرامِ مصر جیسے حیران کن تعمیراتی کارنامے بغیر کسی ’مغربی ٹکنالوجی‘ کے انجام دے  سکتے تھے، ان سب اقوام نے جب الہامی ہدایت و اقدار کو چھوڑ کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ خود مقامِ ربوبیت پر فائز ہیں یا دوسرے الفاظ میں وہ یک قطبی طاقت ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا، (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی)، تو پھر ان کی تمام مادی قوت انھیں تباہی سے نہیں بچا سکی۔ آج ان کی ترقی کے قصے تاریخ کے صفحات میں دفن ہیں۔ روم و ایران اور یونان دیو مالائوں سے زیادہ اہم مقام نہیں رکھتے۔

مسلم ماہرین علوم عمرانی کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ کس طرح مغربی لادینی تصورِ علم سے اپنے آپ کو آزاد کریں اور علومِ عمرانی کی تشکیل وحی الٰہی، توحید، عدل، امانت، خلافت، عالم گیر اسلامی اخلاقی تعلیمات، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد پر رکھ کر ایک نئی روایت ِعلم کی تدوین توحید کی بنیاد پر کریں جو انسانیت کے لیے رحمت و ترقی کا زینہ بن سکے۔

توحید کی بنیاد پر علوم ِعمرانی اور اخلاقی علوم کی تدوین جدید کے لیے ضروری ہو گا کہ ان کی اساس قرآنِ کریم کے فراہم کردہ تصورِ علم یا Epistimology پر ہو، یعنی وحی الٰہی اور ہدایت ربانی سے جو علم حاصل ہو وہ علم کی اعلیٰ ترین اور حقیقی شکل قرار پائے اور تجرباتی، حسّی یا جبلّی ذرائع علم اس کے تابع ہوں۔ قرآن کریم ہر صفحے پر انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ و تحلیل کی دعوت دیتا ہے اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل، معروف اور حقوق کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس بنا پر وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے مطلق علم اور حواس خمسہ اور انسانی عقل کے ذریعے تخلیقِ علم میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ انسانی عقل اور وحی الٰہی کے باہمی تعامل سے اطلاقی علم وجود میں آتے ہیں۔ ایسے ہی وحی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے علومِ عمرانی میں حاکمیت الٰہی اور حقوق العباد کو مرکزی مقام ملتا ہے۔ اس طرح جو علم پیدا ہوتا ہے وہ نہ صرف انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے بلکہ وہ انسانیت کے وسیع تر مفاد، قیامِ امن اور قیامِ عدل کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے۔ آج بلا کسی تاخیر کے اس تخلیقی عمل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت عادلانہ معاشرے اور سیاسی استحکام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ (بہ شکریہ: ــمغرب اور اسلام، شمارہ نمبر ۴۰، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد )

(آخری قسط)

قرآن و سنت کی موجودگی میں دستور سازی کیوں؟

ایک اور بحث جو اُٹھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی شکل میں دستور کے ہوتے ہوئے کسی پارلیمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون سازی کرے۔ یہاں بھی پورے خلوصِ نیت کے باوجود ان اصطلاحات کا مفہوم ذہن میں واضح نہ ہونے کے سبب یہ سوال اُبھرتا ہے۔ قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان دو مصادر کو ہرمعاملے میں فوقیت حاصل ہوگی لیکن ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے لحاظ سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد، قیاس اور اجماع کے اصولوں کا استعمال کیا جائے گا۔ اجتہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ نصوص میں کوئی اجتہاد نہیں ہوتا، بلکہ جہاں نصوص خاموش ہوں وہاں نصوص کی روشنی میں راے کے قائم کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ اگر اجتہاد کی بنیاد پر ایک صورتِ حال پر دوسری کو قیاس کرنا ہو تو اسے قیاس کہتے ہیں، اور جب اجتہاد پر ایک دور کے علما کا اتفاق ہوجائے تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔  وہ تمام مسائل اجتہادی کہے جاتے ہیں، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں متعین طور پر واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔

اسلامی نظامِ حکومت میں شوریٰ کو جو مرکزی مقام حاصل ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ باوجود اپنے تقویٰ، علم اور فقہی علم کے، ایک انسان ہے۔ وہ کوئی معصوم ہستی نہیں ہے۔ اس کو دوسرے اہل الراے کے مقابلے میں اپنے یقین اور اپنی راے کو اس درجے اہمیت دینے اور    اس کے مانے جانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں دوسرے     اہل الراے کی متفقہ راے یا ان کی اکثریت کو ردّ کردے۔ اگر ایک امرِاجتہادی میں کوئی خلیفہ اپنے یقین کو اس درجے شک و شبہے سے بالاتر سمجھتا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک معصوم شخص سمجھتا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب اسلامی ریاست (مطبوعہ دارالفکر، لاہور) میں یہی پوزیشن واضح کی ہے اور اس وضاحت کے بعد مولانا اصلاحی فرماتے ہیں: ’’خلیفہ کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہونے کی اول دلیل تو وہ ہے جو صاحب ِ احکام القرآن ابوبکرجصاصؒ نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہلِ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شدومد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریکِ مشورہ کر کے ذرا ان کی دل داری اور عزت افزائی کردی جائے۔ خلیفہ کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب ِ احکام القرآن کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دل داری اور عزت افزائی نہیں، ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے‘‘۔(اسلامی ریاست، ص ۳۹)

اس دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ ’’ایک شخص کے مقابلے میں ایک جماعت کی راے اپنے اندر صحت و اصابت کے زیادہ امکانات رکھتی ہے‘‘، مولانا فرماتے ہیں: ’’اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ خلیفہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں یا اپنے ہم خیال افراد کی  راے کے حق میں اکثریت کی راے کو ردّ نہ کرے۔آخر ایک اجتہادی یا مبنی بر مصلحت معاملے میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی راے صحیح اور دوسروں کی راے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں طرف ہے لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جس طرف اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)

ہم نے اس طویل اقتباس کو اس لیے دینا پسند کیا کہ بعض حضرات پارلیمان کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں کہ اکثریت تو نااہل ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں اس وقت جو پارلیمنٹ پائی جاتی ہے اور جسے دستور شوریٰ کا نام دیتا ہے، اس میں نااہل افراد چاہے زیادہ ہوں، لیکن کیا اس بنا پر ایک اسلامی اصول کو ردّ کرنا شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہونا یہ چاہیے کہ اصول بدلنے کے بجاے پارلیمنٹ میں ہی ایسے افراد لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں۔

دین کا کام کرنے والوں کو منفی فکر کی جگہ مثبت فکر کو اپنانا چاہیے اور قرآنِ کریم میں کسی ایک لفظ کے من مانے مفہوم نکالنے سے بچنا چاہیے۔ اگر قرآنِ کریم منکرینِ حق کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو عقل استعمال نہیں کرتے یا سمجھتے نہیں، تو اکثر کا یہ مفہوم لینا کہ مسلمانوں میں بھی اکثریت جاہلوں کی ہی ہوگی، بہت نامناسب بات ہے۔ شوریٰ کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو ماننا کسی بھی جماعت کے امیر پر دینی طور پر واجب ہے۔ یہی شکل باشعور پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی جائے گی۔

اگر پاکستان کا دستور یہ کہتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور دستور کی دفعہ یہ کہتی ہے: شوریٰ یا پارلیمنٹ جو دستورسازی بھی کرے گی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، اس کے خلاف نہ ہوگی لیکن بعض ممبران پارلیمنٹ اس کی خلاف ورزی کریں، تو معقول رویہ کیا یہ ہوگا کہ پارلیمان کو توڑ دیا جائے، دستور کو پھینک دیا جائے اور ایک ’جہاد‘ کے ذریعے نیا نظام نافذ کردیا جائے، یا پارلیمان میں ایسے افراد کو لایا جائے جو دستور کی پابندی اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کریں۔

یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ شریعت اور قانون سازی کی اصطلاحات معروف علمی اصطلاحات ہیں۔ انھیں سمجھے بغیر جو تعبیر کسی کے ذہن میں آجائے اسے لے لینا اور عاجلانہ نتائج اخذ کرلینا ایک غیردانش مندانہ رویہ ہے۔ شریعت کی اصطلاح صرف قرآن و سنت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب کہ قانون سازی روزِ اوّل سے ان اسلامی اداروں نے کی ہے، جو شریعت اور حالاتِ حاضرہ کا علم رکھتے ہوں۔ اگر قرآن کریم یا حدیث شریف میں براہِ راست ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا ذکر نہیں پایاجاتا، تو یہ کام قرآن و سنت سے واقف ماہرین کا ہوگا کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام اور بالواسطہ ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس نئے معاملے میں اجتہاد کے بعد قانون سازی کریں۔ ان کا یہ کرنا دینی فریضہ ہوگا، دین سے انحراف نہیں ہوگا۔ قانون سازی ہمیشہ انسانی اداروں نے ہی کی ہے۔ یہ ایک دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو اجتہاد کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آخر امام مالک ہوں یا امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ہوں یا امام احمد  ابن حنبل، یا امام جعفر صادق یا امام ابن تیمیہ یا امام شاہ ولی اللہ دہلوی ہوں، ان حضرات نے قرآن و سنت کی بنیاد پر جو اجتہاد کیا اور پھر اس پر اجماع ہوا اور مسلم ریاستوں نے اس کی بنیاد پر قانون سازی کی، تو کیا یہ سب شرک کے مرتکب ہوئے؟

دین میں توازن اور عدل شرط ہے۔ جذباتیت سے بلند ہوکر اور دین کے مصادر کو سبقاً سبقاً سمجھنے کے بعد ان معاملات پر راے قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نوجوان نسل کسی انتہاپسندی کی شکار نہ ہو۔ قانون سازی کی بنیاد ہمیشہ قرآن و سنت رہی ہے اور رہے گی لیکن قانون سازی    ہمیشہ ادارے اور افراد ہی کریں گے۔ اور ان کا ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفا اور بعد میں آنے والے ائمہ فقہا کی روایت پر عمل کرنا ہے۔ دورِجدید میں یہ کام پارلیمنٹ کرسکتی ہے اگر اس میں ایسے افراد منتخب ہوں، جو قرآن و سنت اور اسلامی فقہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایسے بااختیار بورڈ بنائے جو اسے قانون سازی میں مدد دیں۔ یہ خیال نہ شرعی طور پر اور نہ عقلی طور پر درست ہے کہ بغیر کسی قانون سازی کے صرف قرآن و حدیث کو دستور مان لینا مسائل کا حل ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا تعلق ہے، یہ تو  وہ بنیادی حقیقت ہے جو شرطِ ایمان ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجایش نہیں، لیکن عقلِ عام (common sense ) کو استعمال کر کے یہ دیکھا جائے کہ کیا دنیا میں کسی جگہ بھی دستور اور قانون دونوں کا مفہوم ایک پایا جاتا ہے؟ کیا ایسے ممالک نہیں ہیں جہاں تحریری دستور نہیں ہے  لیکن قانون ہے یا جہاں چند صفحات کا دستور ہے، جب کہ بیسیوں جلدوں میں قانون ہے۔ کیا  فتاویٰ عالم گیری جو اورنگ زیب عالم گیر یا مجلّہ احکام عدلیہ جو عثمانی فرماں روا نے وضع کیا، قرآن کریم اور حدیث کے ہوتے ہوئے ایک کافرانہ، مشرکانہ یا طاغوتی اقدام تھا؟

نفاذِ شریعت اور ترجیحات کا تعیّن

دعوتِ دین کی حکمت عملی اور نفاذ احکامِ شریعت کی حکمت عملی ایک اہم موضوع ہے اور جب تک اس میں اولیات یا ترجیحات (priorities) کا تعین نہ کیا جائے، حصولِ مقصد میں دقت اور مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو یا کہیں اور، قرآن و سنت اور انبیاے کرام ؑ کے طریقِ دعوت کو سامنے رکھتے ہوئے مقام اور صورتِ حال کی مناسبت سے حکمت عملی کا وضع کرنا، ہرمقام پر درست حکمت عملی ہوگی، جو حالات اور مقامات کے لحاظ سے وضع کی جائے، جب کہ ہر حکمت عملی کا مشترک نکتہ اللہ کی حاکمیت کا قیام اور طاغوت کا انکار ہوگا۔

خلافت علی منہاج النبوہ کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگرمعاملات میں ایک جانب اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ’القرآن‘ کو اور دوسری جانب قرآن کی تشریح اور اس پر مبنی تشریع کو اختیار فرمایا، اسی طرح دین کے مکمل ہوجانے کے بعد آپؐ کے بعد خلفا نے قرآن و سنت کو مصدراوّل مانتے ہوئے، حالات کی مناسبت سے مشاورت و اجتہاد کو استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے اجتہادات غیرمعمولی طور پر یہ شہادت دیتے ہیں کہ قانون سازی مشاورت کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے۔

خلفاے راشدین کے بعد سب سے بڑا سانحہ، انتخاب سربراہِ مملکت کے حوالے سے، انتخابی خلافت کو موروثی حکومت میں تبدیل کرنے کا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس تحریف کے امکان کو سمجھتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں، گو وہ علم و تجربے اور تقویٰ میں کسی سے کم نہ تھے اور خلیفہ بننے کی شرائط پر پورے اُترتے تھے، یہ حکم دیا کہ وہ مشاورت میں شامل رہیں لیکن انھیں خلیفہ نہ بنایا جائے تاکہ موروثی حکومت کا آغاز نہ ہوسکے۔ یہی شکل حضرت علیؓ کی شہادت میں پیش آئی، جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت حسنؓ کو خلیفہ بنایا جائے تو آپؓ نے فرمایا: یہ فیصلہ لوگ مسجد میں کریں گے، میں نہ منع کرتا ہوں نہ حکم دیتا ہوں۔ گویا خلیفہ کے انتخاب کا حق عوام کو دیا جانا سنت ِ خلفاے راشدین ہے۔

خلافت ِ راشدہ کے بعد جو لوگ حکمران ہوئے، بہ استثنا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، وہ حکمران تو مانے گئے لیکن انھیں خلیفہ نہیں مانا گیا۔ گو، وہ خود کو خلیفہ کہتے اور کہلواتے رہے۔ اسی بناپر اُمویوں کی حکومت دمشق میں ہو یا قرطبہ میں، فاطمین کی حکومت مصر میں ہو ، عثمانیوں کی حکومت ترکی اور  شام و عراق پر ہو،ان میں سے کسی کو بھی ہم صحیح معنوں میں خلافت اور حکمرانوں کو خلیفہ نہیں کہہ سکتے۔  ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمان سلاطین کا دور تھا۔ عثمانیوں کی حکومت کو خلافت راشدہ کا تسلسل کہنا تاریخ کے ساتھ ظلم ہے۔

ایک بنیادی سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ ہے کہ اگر ایک اُموی فرماں روا اپنی زندگی میں اپنے بعد حکومت کرنے کے لیے اپنے بیٹے یا بھائی کو مقرر کرتا ہے،  تو اس کا یہ کرنا، قرآن کریم کی آیت اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام ۶:۵۷) کے مطابق درست ہے یا غلط؟ یہی سوال فاطمین مصر اور عثمانی فرماں روائوں کے حوالے سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں چاہیے کہ جذبات سے بالاتر ہوکر قرآن و سنت کے مطالعے کے بعد پہلے یہ طے کریں کہ حاکمیت اعلیٰ سے مراد کیا ہے؟ پھر قرآن و سنت کو دستور مانتے ہوئے یہ طے کریں کہ اس دستور کی روشنی میں قانون سازی کون کرے اور جو یہ کام کرے گا اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ پھر اِن خصوصیات کے افراد کو اُن اداروں میں لایا جائے جو قانون سازی کرنے کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہوں۔

یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ چونکہ ۶۶سال میں جو لوگ پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے وہ کردار اور عمل کے لحاظ سے اچھے نہیں تھے، اس لیے پارلیمنٹ کا ادارہ ہی غلط ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عدلیہ میں ایسے جج مقرر ہوجائیں جو رشوت خور ہوں، تو کیا اس بناپر عدلیہ کے ادارے کو ختم کرنا بہتر ہوگا یا ایسی شرائط کا لگانا جن کی بناپر عدلیہ میں صرف ایمان دار لوگ آسکیں۔

پھر یہ کہنا کہ مغربی جمہوریت میں فیصلے کے لیے ۵۱ فی صد ووٹ کا ہونا کافی ہے، جب کہ اسلام کسی تناسب کا قائل نہیں ہے، سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ فقہ اسلامی کے بنیادی اصولِ اجماع کا مطلب کیا ہے؟ کیا اجماع ہمیشہ ۹۰ فی صد افراد کی راے پر ہوگا یا ۵۱ فی صد راے پر بھی اجماع ہوجائے گا؟

جمہوریت اور عملی مسائل

ایک سوال جو بار بار اُٹھایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوریت کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اگر اصلاح کی جائے تو کس طرح؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر ایک مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کیا جائے تو شاید ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایک مشرک جو سات پشتوں سے شرک میں پلابڑھا ہو، مسلمان ہوسکتا ہے یا نہیں، یا جب تک اس کے جسم کے خون کا ہرقطرہ جو حرام پر پلا بڑھا تھا، نکال کر جسم میں نیا اور پاک خون ڈال کر پہلے پاک صاف نہ کیا جائے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا تو ایسی صورتِ حال میں عقل کا فیصلہ کیا ہوگا؟

قرآن کریم نے سود کی ابدی حُرمت کے ساتھ کیا یہ بات نہیں کہی کہ جو حرام ماضی میں کھاچکے وہ کھاچکے اب آیندہ ایک رتی کے برابر سود بھی نہ لیا جائے۔ اس لیے اگر ایک تنظیمی ڈھانچا ایسا ہے جس میں ایک بادشاہ ہے یا فوجی آمر، یا غیرفوجی آمر ہے، اس کے تحت بے بس پارلیمنٹ ہے، بے بس عدلیہ ہے، بے بس پولیس ہے، بے بس سول انتظامیہ ہے اور اس تنظیم کو درست کرنا ہو تو کیا محض آمر کو مار کر تمام نظام ایک دم درست ہوجائے گا یا سارے نظام کو تہس نہس کرکے نئے سرے سے ایک تنظیمی ڈھانچا بنایا جائے گا، یا یہ طے کیا جائے گا کہ سب سے اہم اور اوّلین اقدام  کیا ہو۔ عقل کہتی ہے کہ سب سے پہلے آمریت یا بادشاہت کی جگہ ایسے افراد کو لایا جائے، جو    عدل و انصاف کے علَم بردار ہوں اور موروثی بادشاہت یا آمریت کے قائل نہ ہوں۔ ایسے ہی عدلیہ میں ایک تدریج اور ترتیب کے ساتھ ایسے افراد کو لایا جائے، جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں اور دینی علم کی دولت سے مالامال ہوں، نیز اس کے ساتھ ہی نظام میں قانون سازی سے وہ تبدیلیاں لائی جائیں جو نظام کو اسلامی اصولِ عدل کے مطابق بناسکیں۔

اس کے مقابلے میں یہ راے بھی لازماً قابلِ غور ہوسکتی ہے کہ ایک سہانی صبح کو عدلیہ، پارلیمنٹ، پولیس، فوج، قصرصدارت، کابینہ، غرض ہرادارے کو تحلیل کرکے ایک نئے نظام کا اعلان کردیا جائے۔ اس راے کے قائم کرنے سے کسی کو روکنے کا حق نہیں لیکن کیا یہ راے انسانوں کی دنیا میں آج تک قابلِ عمل ہوسکی؟ کیا افرادِکار کی تیاری، اداروں میں قانون سازی کے ذریعے اصلاح و تبدیلی اور بتدریج اصلاحی عمل کے بغیر دنیا میں کہیں بھی کوئی نظام کامیاب ہوا ہے؟ کیا صحابہ کرامؓ  کی سیرت سازی، تزکیہ و تربیت اور مصائب و مشکلات سے گزارے بغیر ممکن تھی، اور کیا آج بھی انسانوں کی ماہیت ِقلبی کے بغیر اسلامی نظام نافذ ہوسکتا ہے؟

بلاشبہہ ایک مسلمان کی معاشی ظلم کے خلاف جدوجہد ہو، مشرکانہ، کافرانہ فکر کے خلاف مہم ہو، اپنی جان و مال کے ساتھ طاغوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ہو، نفس کے مطالبات کے خلاف جنگ کرنا ہو، یہ سب جہاد کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن جہاد اسباب کی تیاری کے بغیر، جہاد حکمت عملی کے بغیر، جہاد اہداف کے تعین کے بغیر، جہاد ترجیحات کے بغیر ایک نیک خواہش تو ہوسکتا ہے، ایک تعمیری عمل نہیں ہوسکتا۔

  • ایک ضمنی بحث یہ بھی اُٹھائی جاتی ہے آخر ووٹ کیوں دیا جائے؟ بیعت کیوں نہ لی جائے؟ اس کی مثال ایسی ہی ہے اگر کسی کو پیاس لگے یا غسل کی ضرورت ہو تو وہ نہر پر جاکر چلّو سے پانی پیے اور غسل کر کے آئے کیوںکہ اب سے سیکڑوں سال قبل گھروں میں نل نہیں ہوتے تھے، اس لیے نل کے پانی سے غسل کرنا بدعت سمجھ لیا جائے۔ آخر بیعت کس چیز کا نام تھا؟ کیا بیعت کا مقصد یہ  نہ تھا کہ ایک شہری یہ وعدہ کر رہا ہے کہ وہ فلاں شخص کے احکامات کو مانے گا، جب تک ان میں کوئی بات شریعت کے منافی نہ ہو۔ اسلام میں کسی نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہو یا سیکڑوں میل دُور ایک کاغذ کے پُرزے پر یہ لکھ کر کہ میں اس شخص پر اعتماد کرتا ہوں، وہ پرچی ایک ڈبے میں ڈالی ہو، دونوں صورتوں میںاطاعت صرف معروف میں ہے، منکر میں نہیں۔ اس لیے یہ قیاس کرنا کہ اگر  ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہوگی تو حالات خودبخود درست ہوجائیں گے، صرف ایک وہم ہے۔  کیا جن لوگوں نے عباسی فرماں روائوں کے گورنروں کے ہاتھ پر بیعت کی، ان کی بیعت سے  فرماں روائوں میں روحانیت پیدا ہوگئی؟ انتخابات کے دوران کون سی اصطلاح استعمال کی جائے، ایک ضمنی بات ہے۔ کوئی حرج نہیں اگر ووٹ کو بیعت کا نام بھی دے دیا جائے، لیکن بیعت کے ذریعے اگر افراد ناکارہ اور نالائق منتخب کیے جائیں، تو کیا بیعت انھیں قابل اور ایمان دار شخص بنادے گی؟
  • بالعموم ایک سوال یہ بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ جمہوری طرزِ حکومت میں، گو انتخابات میں ہررجسٹرڈ شہری کو ووٹ کا حق ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ کسی اُمیدوار کو جانتے ہیں کہ وہ کیسا ہے۔ پھر اگر جائزہ لیا جائے تو جو لوگ منتخب ہوتے ہیں انھیں کُل آبادی کے مقابلے میں ایک بہت کم تعداد نے ووٹ ڈالے ہوتے ہیں، مثلاً ایک علاقے میں ۵۰لاکھ ووٹ ہوں تو اوّل تو اس میں سے ۳۰،۴۰ فی صد لوگ ووٹ دینے آتے ہیں۔ گویا آدھے تو آئے ہی نہیں۔ پھر ان میں تقسیم ہوتی ہے اور اگر اُمیدوار دو ہوں تو یہ دو حصوں میں اور اگر ۱۰ ہوں تو یہ ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوکر بہت کم تعداد رہ جاتی ہے، اور جو کامیاب ہوتا ہے اسے عملاً ۵۰لاکھ افراد کے ۷ فی صد افراد نے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ نمایندگی حقیقی نمایندگی نہیں کہی جاسکتی۔

یہ مسئلہ پاکستان میں نہیں، تمام دنیا میں جہاں بھی انتخابات کے ذریعے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ اس کا حل نظام کو اُٹھا کر پھینک دینا نہیں ہے بلکہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے عمل کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات سے چھے ماہ پہلے سے عوام کو ان معاملات کا شعور دلایا جائے تو ووٹروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور عوام اچھے اور نیک افراد کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی اور ابلاغی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق جمہوریت کے اچھے یا بُرے ہونے سے نہیں ہے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو چاروں خلفاے راشدین کے انتخاب میں حل و عقد کی حیثیت بنیادی تھی۔ اہلِ مدینہ نے جس کو منتخب کیا، پورے عالمِ اسلامی نے اس کی قیادت کو تسلیم کیا۔ یہ تعداد  کُل مسلم آبادی کا ایک بہت چھوٹا تناسب رکھتی تھی۔ اس کے باوجود خلافت قائم ہوئی اور لوگوں نے اس کی اطاعت اور تعاون میں کمی نہیں کی۔عوام کے انتخابات میں زیادہ تعداد میں حصہ لینے کے پہلو کو تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ووٹ کا استعمال کرسکیں۔

یہ سوال کہ کیا جمہوریت اسلام سے قریب ہے؟

ایک غیرضروری سوال نظر آتا ہے۔ اسلامی تحریکات خصوصاً جماعت اسلامی پاکستان نے ہمیشہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے اور اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے استعمال سے اسلامی نظام کے قیام ہی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن تحریکاتِ اسلامی یہ بات بھی تسلیم کرتی ہیں کہ مغربی لادینی جمہوریت کی تمام خامیوں کے باوجود اگر کسی ملک کا دستور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے تسلیم کرتا ہو اور شریعت پر مبنی قانون کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہو، تو عبوری دور کے لیے ایسے نظام میں شرکت نہ شرک کی تعریف میں آتی ہے نہ کفر اور نہ طاغوت کی۔ اگر ووٹ، عوامی راے کے استعمال اور پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اسلامی نظام تعلیم، معیشت و قانون اور ابلاغِ عامہ میں صحت مند تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس کی کوشش کرنا تحریکاتِ اسلامی کا فرض ہے۔ دین یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کیا جائے اور صرف ان کاموں سے بچا جائے، جہاں قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حلال و حرام کو قرآن و سنت نے طے کردیا ہے لیکن مباح کے دائرے میں آنے والی چیزوں کو بغیر کسی دلیلِ شرعی کے حرام قراردینا، دینی حکمت کے منافی ہے۔ جب تک ایک ملک کا دستور  اللہ کی حاکمیت کا اقرار اور شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اس دستور کے تحت سیاسی، معاشی اور دیگر سرگرمیاں  نہ شرک ہوسکتی ہیں نہ کفر۔

اگر پارلیمان کوئی قانون خلافِ شریعت بنانا چاہتی ہو جیساکہ ماضی میں ہوا کہ تحفظ خواتین کے نام پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، تو ایسے قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر کے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک غلط فیصلہ بجاے خود پارلیمنٹ کے ادارے کو قابلِ گردن زدنی نہیں بنادیتا۔یہ تصور کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر دستورپاکستان پارلیمان کو یہ حق دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کی ہرقرارداد ہمیشہ درست ہوگی۔ پارلیمان انسانوں کا اجتماع ہے اور  اگر یہ انسان قرآن و سنت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں، تو اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جو قانون بھی بنائیں گے اس کی بنیاد شریعت ہوگی۔ خلافت راشدہ میں بھی شوریٰ یہ کام کرتی تھی۔ آج بھی شوریٰ یا پارلیمان یہ کام کرسکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد دستورساز اسمبلی میں  علما پر مبنی ایک تعلیماتِ اسلامی بورڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں ملک کے جید علما بشمول مولانا سیّد سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور علامہ جعفرحسین مجتہد شامل تھے۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں دستور کا اولین مسودہ تیار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ فوجی اور غیرفوجی آمروں نے دستور پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے دیا۔ اس میں قصور نہ دستور کا ہے نہ پارلیمان کا، بلکہ وہ افراد اللہ اور اہلِ پاکستان کے سامنے جواب دہ ہیں، جو اس کام میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔

نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں میں عزم، خوداعتمادی، اللہ پر انحصار، صبر، پُراُمیدی، محنت کشی اور منزل کا شعور پایا جائے تو وہ قوم مشکل ترین حالات سے بآسانی نکل کر ترقی کے کٹھن مراحل کو بہ سہولت طے کرتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی قوم کے نوجوانوں میں بے روزگاری، عدم تحفظ، نفسیاتی دہشت گردی اور مستقبل کے تاریک ہونے کا احساس بٹھا دیا جائے اور ابلاغِ عامہ خصوصاً یہ کوشش کرے کہ ملک میں ہونے والی ہرہر بُرائی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ گویا ملک میں نہ کوئی نظم ہے، نہ تحفظ، نہ ترقی کی صلاحیت تو وہی نوجوان جو قوم کا اثاثہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اس نفسیاتی حربے کا شکار ہوکر عموماً تین راستوں پر چل پڑتے ہیں۔

تبدیلی کی راہیں اور حکمت عملی

  • پہلا راستہ فرار کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے باہر جہاں کہیں خوابوں کی جنت کی خوشبو سونگھ سکتے ہوں وہاں قرض رقم لے کر ایسے اداروں اور افراد کے ذریعے جو بیرونِ ملک روزگار کا ٹھیکہ لیتے ہیں، ملک سے فرار ہوجائیں یا حکومتی اسکالرشپ پر جاکر ملک کے باہر ہی بیٹھ جائیں اور واپس نہ آئیں۔
  • دوسرا راستہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے زبان سے حالات کا ماتم لیکن زمانے کی ہوا کے ساتھ اپنے آپ کو اُڑانے کی کوشش، چنانچہ وہ سول سروس کے ذریعے ملازمت کا حصول ہو یا کسی سفارش اور جعلی ڈگری کے ذریعے صوبائی یا مرکزی پارلیمنٹ میں ممبرشپ یا کسی زمین کے مافیا کے ساتھ شامل ہوکر عوام کو لوٹنا ، غرض کرپشن اور مادہ پرستی کے چنگل میں پھنس کر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اِس دنیا میں کامیاب ہورہے ہیں۔ چنانچہ دیکھتے دیکھتے وہ جو کل تک ویگنوں میں سفر کرتے تھے، دھوکے سے حاصل کی ہوئی دولت کے سہارے بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔
  • تیسرا راستہ جو نوجوان اختیار کرتے ہیں وہ موجودہ نظام کو چاہے وہ مصر میں ہو یا پاکستان میں، شام میں ہو یا تیونس میں، وہ اس فرسودہ، مادہ پرست اور ظلم پر مبنی نظام کو، طاغوت، کفر اور شرک سے تشبیہہ دیتے ہوئے قوت کے استعمال سے اس کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ راتوں رات اداروں پر قبضہ کر کے ملک میں شریعت، اسلامی حکومت، معروف، بھلائی اور عدل کے نظام کو قائم کردیا جائے۔ یہ راستہ دیکھنے میں بہت کم مسافت کا نظر آتا ہے اور پھر اس میں ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قوت کے ذریعے، مناسب منصوبہ بندی کے بعد بھی اگر وہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہوں تو چونکہ ’جہاد‘ کرنے والے کے لیے ہردوشکلوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے تو یہ نوجوان اپنی جان کو اس راستے میں قربان کرنے ہی میں اپنی فلاح سمجھتے ہیں۔

اگر تینوں راستوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تیسرے راستے والے بظاہر ہرلحاظ سے کامیاب نظر آتے ہیں کہ اگر دنیا میں کامیاب ہوئے تو کم عرصے میں کام کرنے کے باوجود تبدیلی لے آئیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے جب بھی آخرت تو بن گئی۔ ایک مسلمان کے لیے ا س سے  بڑھ کر کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے ماضی کے تمام گناہ، غلطیاں، بے راہ روی ہرہر بُرائی معاف ہوجائے اور شہادت کے حصول کے بعد وہ سیدھا جنت میں جائے، جہاں اللہ کی ساری نعمتیں اس کا انتظار کر رہی ہوں گی۔

ایک بات جو ان تینوں راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے وقت غور کرنے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے آپ کو تمام تصورات سے آزاد کرکے سوچنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت جن کے نفاذ اور قیام کے لیے یہ ساری جدوجہد کی جاتی ہے وہ خود کس راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہ دنیاطلبی، مفاہمت، وقت پرستی یا پھر بس شہادت کے حصول اور طلب کو مقصد حیات قرار دیتے ہیں یا شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے انبیاے کرام ؑ کے اسوہ اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔

کسی بھی مسلمان کے لیے وہ جوش اور ولولے سے بھرا ہوا نوجوان ہو یا سکون و ٹھیرائو کے ساتھ سوچنے والا معمرشخص، جو بات فیصلہ کن ہے وہ اس کا اپنے ذہن سے ایک تصور قائم کرلینا نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت رسولؐ اللہ کی سند اور دلیل کی بنیاد پر اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہے۔    اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات اس تعمیری عمل میں ایک سے زائد لائحہ عمل ایسے ہوسکتے ہیں جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسی شکل میں سنت کا اصول سیدہ عائشہؓ کی روایت کی روشنی میں وہ ہے جو زیادہ ’یسر‘ پر مبنی ہو اور جس کی دلیل سنت ِ رسولؐ میں پائی جاتی ہو۔

گویا راستے کا تعین، حکمت عملی کا انتخاب اور تبدیلی کا طریقہ طے کرتے وقت منزل محض حصولِ شہادت نہیں ہوسکتی بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے وہ تمام ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہوں اور جو آخرکار شہادت تک لے جانے والے ہوں۔

انبیاے کرام ؑ کی حکمت عملی

انبیاے کرام ؑ کی بنیادی دعوت حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک صرف یہی رہی ہے کہ تمام انسان اپنے خالق، مالک اور رب کی بندگی میں آجائیں اور اللہ جل جلالہٗ کے سوا تمام بندگیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر کے اس کے عبد یا تابع دار بن جائیں۔

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول ؑ بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

عبدیت قرآنِ کریم کی ایک جامع اور اہم اصطلاح ہے جس میں نہ صرف نماز اور دیگر عبادات بلکہ زندگی کے تمام ممکنہ معاملات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو حاکم، مالک، آقا اور فیصلہ کرنے والاتسلیم کیاجانا شامل ہے۔ ایک مسلمان اسلام لانے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی حد تک تو اللہ ہی کی عبادت یا بندگی اختیار کروں گا لیکن میرے سیاسی معاملات لادینی جمہوریت کے اصول طے کریںگے اور معاشی معاملات کو سرمایہ دارانہ معیشت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا اور معاشرتی، ثقافتی معاملات میں فلاں علاقہ یا ملک کے کلچر او رروایات پر عمل کروں گا۔ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک فرد اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)’’اے ایمان والو!   تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

آیت مبارکہ بلاکسی ابہام کے یہ بات واضح کرتی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرسکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ جمعہ کے دن وہ اللہ کا بندہ ہو، جب کہ تجارتی معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام کا تابع ہو اور سیاسی معاملات میں مفادپرست، لادینی سیاسی نظام پر ایمان لے آئے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے تمام ذاتی، گھریلو، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات میں ایک فرد اور جماعت صرف اور صرف اللہ کی حاکمیت پر ایمان رکھے اور اس کا عمل اس کی شہادت پیش کرے۔

کلمۂ شہادت کا مطلب ہی یہ ہے ایک شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کواپنے تمام معاملات میں حاکم اور شارع مان کر اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ عقیدہ اور ایمان، اسلام کی نگاہ میں ایک خفیہ اور ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک عوامی شہادت (public testimony)ہے کہ ایک شخص اپنے دل و دماغ اور عمل سے صرف اللہ کی بندگی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر راضی ہوگیا ہے۔

بعض سادہ لوح افراد اسلام میں داخل ہونے اور اسلام کے نفاذ کے عمل کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیتے ہیں، جب کہ یہ ایک ہی مرحلے سے تعلق رکھنے والا عمل ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے لاالٰہ کا عمل ہوگا اس کے بعد الااللہ کا۔ ہمارے علم میں نہ قرآن میں اور نہ سنت مطہرہ میں کوئی ایسی شہادت ہے، جو اس تعبیر کی تصدیق کرتی ہو۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ، جہاں کہیں بھی کسی نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا تو اسلام میں پورے داخل ہونے کے ساتھ ہی کیا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پہلے مرحلے میں صرف کفروشرک کا رد کیا جائے اور پھر کسی دوسرے مرحلے میں اللہ کی بندگی اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو رب اور مالک ماننے کا مطلب بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ سب کا انکار کیا جائے، ’لاالٰہ‘ اور ’الااللہ‘ ایک ہی عہد اور میثاق کا حصہ ہیں، اس لیے شہادت کو دو مراحل میں تقسیم کرنا ایک غیرضروری بحث ہے۔ اللہ کی بندگی کی مثبت دعوت خود بخود تمام منفی تصورات کو جڑبنیاد سے اُکھاڑ کر انسان کے دل و دماغ اور عمل کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ مکہ کے دورِ ابتلا میں دعوتِ توحید قبول کرنے والے ہرمتنفس کو اس بات کا مکمل شعور تھا کہ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی تمام خودساختہ خدائوں کا رد اور انکار ہے۔ اگر مسئلہ محض مکہ کے اندر مانے جانے والے ۳۶۰ سے زائد خدائوں میں ایک اور کے اضافے کا تھا تو اس پر مشرکینِ مکہ کو نہ کوئی اعتراض تھا، نہ شکایت۔ اگر وہ ۳۶۰بتوں سے تعلقات بنا کر رکھ سکتے تھے تو اس میں ایک کے اضافے سے انھیں کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ اصل مسئلہ یہی تھا کہ ایک اللہ کو ماننے کے بعد وہ ۳۶۰سے زائد خدا سب کے سب بے اصل اور بے اثر ہوجاتے۔ شرک کا آسان سا مطلب یہی ہے کہ   اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ دوسروں کو اس کی ذات یا صفات میں شامل کرلیا جائے۔ مشرکین میں سے بھی بعض افراد اللہ کو مانتے تھے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جب یہ مشرکین سمندر میں طوفان میں گھِر جاتے ہیں اور انھیں اپنی مضبوط کشتی ڈولتی اور ڈوبتی نظر آتی ہے تو وہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب سفر پر جانا ہو، جنگ کرنی ہو، اولاد کی خواہش ہو یا بارش کی ضرورت ہو تو وہ اپنے مقرر کردہ خدائوں ہی سے رجوع کرتے تھے۔

آج کے جدید دور میں ان خدائوں کے نام بدل گئے ہیں۔ کسی کا نام آئی ایم ایف اور ورلڈبنک ہے، جس سے لوگ قرضوں کی التجا کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہماری روزی اور روزگار دینے والا خدا یہی ہے۔ بعض کسی نام نہاد عالمی طاقت کو اپنی فرماں برداری کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ انھیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد فراہم کرے گی اور وہ اُس کے سہارے عوام پر حکومت کرسکیں گے۔ بعض اپنے ملکی دفاع کے لیے کسی بڑی عسکری طاقت کے قدموں کو بوسا دیتے ہیں کہ وہ انھیں اسلحے کی بھیک دے کر ان کے دفاع کو مضبوط بنانے کا ضامن بن سکے۔ یہ نئے ادارے اور نام ایجاد کرنے کے ساتھ اگر ایک شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ وہ بندہ تو اللہ کا ہے لیکن خادم کسی بیرونی مالی طاقتوں کا یا کسی نام نہاد عسکری قوت کا یا کسی ثقافتی سامراج کا ہے تو یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی تعریف میں آئیں گے۔

توحید اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی۔ یہ ہرہرمعاملے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا ماننے کے عمل کا نام ہے۔ حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک اللہ کے ہرنبی ؑ نے صرف ایک دعوت دی کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے لیے خالص کرو۔ اسلام نے   جن بتوں کو پاش پاش کیا ان میں نہ صرف عصبیت، قبائلیت، نسلیت، لسانیت کے بت تھے بلکہ وہ تمام تصورات بھی شامل تھے جنھیں انسانوں نے اپنے ذہن اور قیاس کی بناپر قائم کرلیا تھا، اسلام   ان سب کا رد کرنے کا نام ہے اور دعوت الی الحق کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات میں صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم مان لینا اور اس کی شہادت اپنے عمل سے دینا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی و قانونی تمام معاملات کو طاغوت کے نظاموں کے اثر سے مکمل طور پر آزاد کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی بنیاد پر اور اس کی رہنمائی کی روشنی میں مرتب اور منظم کیا جائے۔ دورِ جدید کی تمام تحریکاتِ اسلامی کا، وہ جماعت اسلامی پاکستان ہویا اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر یا جماعت اسلامی ہند، ان سب کی دعوت کا بنیادی ستون ہی قیامِ حاکمیت الٰہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے بعد اسی بنیادی دعوت کی طرف اللہ کے بندوں کو بلایا ہے اور اسلامی ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک بتدریج تبدیلی کی حکمت عملی وضع کی ہے۔ اس حکمت عملی میں رہنمااصول انبیاے کرام کا طریق دعوت اور قیام حاکمیت الٰہی کے لیے ان کی حکمت عملی کی روشنی میں لائحہ عمل کو وضع کرنا شامل ہے۔

مغربی لادینی جمہوریت

جدید تحریکاتِ اسلامی کے مفکرین امام حسن البنا شہید ہوں یا مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی یا سیدقطب شہید یا ڈاکٹر محمدناصر، ہرصاحب علم نے مغربی لادینی جمہوریت کی فکری بنیادوں کو رد کرتے ہوئے ہی اسلامی ریاست کو بطور متبادل نظام کے پیش کیا اور جو تحریکات ان مفکرین کو اپنا رہنما کہتی ہیں انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اس موقف سے انحراف نہیں کیا۔ اس لیے کسی نظری بحث میں اُلجھے بغیر ہمیں ان ضمنی سوالات پر غور کرنا ہوگا جن پر بہت سے مخلص، دردمند اور اسلام کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگانے والے نوجوان مکمل صورتِ واقعہ کو سامنے نہ رکھنے کے سبب جذبات کی رُو میں بہہ کر عجلت کے ساتھ نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔

پہلی بات یہ طے ہوجانی چاہیے کہ کیا مغربی لادینی اور اباحیت پسند جمہوریت اسلامی نظامِ حکومت کی ضد ہے اور اس کی بنیاد یں اسلام کی بنیادوں سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ بات بھی طے ہوجانی چاہیے کہ کیا تحریکاتِ اسلامی نے، بشمول جماعت اسلامی پاکستان، کسی موقع پر بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تائید کی ہے یا اس کی جگہ نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت اور اس مقصد کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ کیا مصر میں حالیہ واقعات میں ہزارہا افراد کی جانی قربانی، مصر کی ’طاغوتی جمہوریت‘ کے لیے دی گئی یا خالصتاً اللہ کے دین کے قیام کے لیے یہ قربانیاں دی گئیں۔ کیا اسی اخوان المسلمون نے جو ایک وقت زیرزمین سرگرمی کو حکمت عملی کے طور پر صحیح سمجھتی تھی، گذشتہ ۳۰سال کے عرصے میں جمہوری ذرائع سے جدوجہد کو اختیار نہیں کیا اور حسنی مبارک کے آمرانہ دو ر میں مصرکی پارلیمنٹ میں دعوتی حکمت عملی اور سیاسۃ شرعیہ کی پیروی کرتے ہوئے شرکت نہیں کی۔ رہا یہ سوال کہ وہ تبدیلی جو وہ چاہتے تھے کہاں تک آئی اور کیا فوجی مداخلت کی بناپر یہ کہنا درست ہوگا کہ جمہوری ذرائع ناکام ہوگئے، ایک الگ بحث ہے۔

دوسری بات یہ بھی طے ہوجانی چاہیے کہ اگر مرض پُرانا ہو اور جراحت اس کا تنہا علاج نہ ہو تو ایک ماہر اور مخلص طبیب ہی یہ طے کرسکتا ہے کہ کس ترتیب کے ساتھ کون سی دوائیں دی جائیں تاکہ مرحلہ بہ مرحلہ مریض صحت یاب ہوتا جائے۔ یہ طے کرنا کہ پھیپھڑے دل یا جگر میں جو خرابی تمام جسم کو فاسد مادوں سے بھر رہی ہے اسے یک دم جراحت کرکے ختم کردیا جائے یا بتدریج ادویات، غذا، ورزش، آب و ہوا کی تبدیلی، عادات کی تبدیلی اور دیگر ذرائع کا استعمال کر کے مریض کو ایک صحت مند انسان بننے میں مدد دی جائے، ایک ماہر طبیب ہی کا کام ہے۔ اس میں بھی شبہہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی مریض اور ایک ہی مرض کو اگر دو یا تین ڈاکٹر دیکھیں تو ان کی تشخیص میں فرق ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر تین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تمام ممکنہ امتحانات اور جائزے کروانے کے بعد اس پر متفق ہو کہ مریض کا علاج بغیرجراحت کے ہوسکتا ہے اور ایک ڈاکٹر یہ کہے کہ چونکہ مرض مہلک یا طاغوتی نوعیت کا ہے اس لیے پہلے جراحت کرو بعد میں مریض کی قوتِ برداشت، اور دوائوں کے ذریعے صحت مندی کی طرف لائو تو اس کی راے اس کے اپنے خیال میں تو درست ہوسکتی ہے لیکن مریض کی جان اور دیگر اطبا کے اجتماعی تجربے کے مقابلے میں کیے گئے فیصلے کے سامنے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ ہاں اس بات کا امکان بہرصورت رہتا ہے کہ کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد مریض مکمل صحت یاب ہوجائے یا ڈاکٹر اپنی راے تبدیل کرلے۔ اسی طرح بالکل یہ امکان بھی رہتاہے کہ اگر تنہا ایک ڈاکٹر کی راے پر جراحت کردی جائے تو جراحت کے دوران ہی مریض انتقال کرجائے۔ اس لیے محض امکانات پر فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ ماضی کی تاریخ، اجتماعی تجربے اور   طبی حکمت عملی کے پیش نظر ہی دنیا میں صحت کا نظام چل رہا ہے۔

جہاد پر مبنی حکمت عملی

اس روزمرہ کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ جہاد ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور اگر کسی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو اور انھیں مستضعفین فی الارض بنادیا گیا ہو تو ان کی امداد کرنا اہلِ ایمان پر فرض ہے۔ وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) ’’(ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کردیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرعظیم    عطا کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوںکی خاطر  نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔

 اسی طرح فتنہ اور فساد فی الارض کو دُور کرنے کے لیے بھی اسلامی ریاست کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَo (البقرہ  ۲:۱۹۳) ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کی تمام زندگی ہی جہاد ہے۔ ظلم کے خلاف، نفس کے خلاف اور طاغوت کے خلاف۔

آیاتِ جہاد پر غور کیا جائے تو دو اصول بالکل واضح ہوکر سامنے آتے ہیں: اوّلاً کسی بھی ظالم اور طاغوتی نظام میں محض مظلوم بن کر رہنا، اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ طاغوتی نظام میں دو ہی راستے ہوسکتے ہیں: اوّلاً: اس کے خلاف جدوجہد کہ اس کی جگہ عدل کا نظام آئے اور اگر تمام تر کوششوں کے بعد صبروتحمل کے ساتھ تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی تو پھر وہاں سے ہجرت۔ اس میں اگر عجلت کی گئی تو وہ غلط ہوگا  [حضرت یونس ؑ کی مثال ہمارے سامنے رہنی چاہیے]۔ یہی شکل مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے ثابت ہوتی ہے کہ ۱۳برس تک ہرہرآزمایش اور تعذیب سے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی حکم دیا تو ہجرت کی گئی، ورنہ مکہ میں بذریعہ قوت قریش کی حکمرانی کو ختم کردینا بھی ایک امکانی اقدام (option) تھا۔ حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود مشرکین کے سرداروں کو ایک رات میں قتل کر کے اسلامی نظام قائم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

قرآن کریم نے جان اور مال کے ساتھ جہاد کو افضل قرار دیا ہے اور بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں میدانِ جہاد میں آنے والوں کے لیے اعظم درجے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سورئہ نساء میں فرمایا گیا: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہرایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ، اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

سو، فساد میں اس بات کو دوٹوک انداز میں واضح کردیا گیا۔ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اعظم و افضل رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

جہاد قرآن کریم میں ایک جامع اصطلاح ہے جس میں افضل ترین شکل وہ نہیں ہے جو بعض حضرات ایک ضعیف حدیث کی بناپر سمجھتے ہیں بلکہ میدانِ عمل میں طاغوتی قوتوں کے خلاف مناسب حکمت عملی اور تیاری کے ساتھ جہاد کرنا قرآن کریم کا مقصود ہے۔ اس جہاد کے بارے میں یہ بات بھی سمجھادی گئی ہے کہ اگر اہلِ ایمان طاغوتی قوتوں سے عددی لحاظ سے کم بھی ہوں تو وہ اپنے خلوص، اللہ پر اعتماد، صبر اور حکمت عملی کے صحیح ہونے کے سبب کامیاب ہوں گے، چاہے ان کا تناسب ایک اور دس کا ہی کیوں نہ ہو، یعنی اہلِ ایمان ۲۰ ہوں اور طاغوتی قوت ۲۰۰ کے لگ بھگ ہو۔

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَo (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزارآدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

اسی چیز کو اہلِ ایمان نے بدر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب اُحد اور حنین میں حکمت عملی پر صحیح عمل نہ کیا تو دوسری نوعیت کے نتائج سامنے آکر رہے۔ مکہ مکرمہ میں ۱۳برس کا عرصہ بھی عرصۂ جہاد تھا کہ ہرہرسطح پر مزاحمت کا سامنا تھا۔ تعذیب تھی، امتحان تھا، ظلم تھا لیکن یہاں جہاد کی ایک خاص شکل تھی اور مدنی دور میں حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی دوسری شکلیں سامنے آئیں گی، لہٰذا یہی جہاد مدینہ منورہ میں معاشرے کی تعمیر، عدل کے نظام کے قیام اور اہلِ کتاب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت طے کرنے میں میثاقِ مدینہ کی شکل اختیار کرگیا اور پھر بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ، تبوک،  فتح مکہ، حنین اور خیبر سب ہی جہاد کے مختلف رُخ ہیں۔گویا جہاد اہلِ ایمان کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن جہاد ہی ہے، جو اُمت مسلمہ کے جسم کو زندہ اور متحرک رکھتا ہے۔

جہاد فرض ہونے کا سوال

جہاد کے میدان کا تعین کہ کہاں پر کیا جائے، اور کیا کیا جائے، نیز جہاد کے وقت کا تعین کہ کس مرحلے میں کون سی شکل اختیار کی جائے، جہاد کے ہدف کا تعین کہ اصل مطلوب کیا ہے ۔ ان تمام معاملات میں فیصلہ کن حیثیت محض انسانی عقل کی نہیں ہے بلکہ انسانی عقل کو اسوئہ نبیؐ کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ کس صورتِ حال میں شارعِ اعظمؐ نے کیا حکمت عملی اختیار فرمائی۔ مکہ سے ہجرت جہاد کی ایک شکل تھی اور پھر مدنی دور کے تمام ہی سال جہاد کے مختلف مراحل کی تیاری اور ان کی انجام دہی کے سال ہیں۔ فتح مکہ جہاد کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی کہ  خون بہائے بغیر اللہ کی حاکمیت کو قائم کیا گیا، لیکن یہ بھی اس کا ایک پہلو ہے کہ جن پر حق کی قوتوں نے غلبہ حاصل کیا ہے، ان سے کیسے معاملہ کیا جائے، یعنی یہ طے کرنا کہ مکہ میں کن مشرکین کو     قتل کرنا ہے اور کن کو ان کی ساری زیادتیوں کے باوجود معافی دے کر ان کے دلوں کو فتح کرلینا ہے۔ یہ سب کچھ اسوۂ حسنہ ہی تو ہے، جس پر غور کیے بغیر جہاد کا مقام، جہاد کا وقت اور جہاد کی حکمت عملی طے نہیں ہوسکتی۔ حدیبیہ کے موقع پر جانوں کی قربانی کرنے کا عہد جہاد ہی تھا لیکن اس کے باوجود بظاہر دشمن کے حق میں ہونے والی شرائط پر معاہدہ کرنا بھی جہاد کی حکمت عملی تھا اور وقت نے ثابت کردیا کہ شارع اعظمؐ کی نگاہ جن نتائج کو دیکھ رہی تھی ان تک فاروق اعظمؓ تک کی نگاہ اس خاص لمحے نہ پہنچ سکی۔ نہ یہ ان کے ایمان کی کمزوری تھی نہ فراست میں کمی۔ اصل چیز منہجِ نبوت کی اس کے تمام پہلوئوں کے ساتھ، تعلیم اور تعیین تھی اور اس منہج میں یہ تمام پہلو قوسِ قزح کی طرح ہمیشہ کے لیے موجود ہیں اور رہیں گے۔

جہاد کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس کا اعلان کون اور کب کرے گا؟ امام ابن تیمیہؒ اور دیگر علماے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ چونکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک معاملہ ہے کہ اس میں اُمت مسلمہ کی جان اور مال دونوں کا دخل ہے اس لیے یہ فیصلہ ذمہ داری اور عواقب پر غور کے بعد کیا جائے گا۔ اور یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ استثنا کی شکل میں یہ کام ان علما کا ہے جو کسی سیاسی یا معاشی مفاد کے زیراثر یہ کام نہ کریں بلکہ  اُمت مسلمہ کے مفاد اور مصلحت عامہ کے اصول پر غیرجذباتی طور پر غور کرنے کے بعد کریں جیساکہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی نے سکھوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور حضرت سیّداحمداور شاہ اسماعیل شہید نے تحریکِ مجاہدین کا آغاز کیا۔

لیکن کسی مسلم ریاست کے خلاف خروج اور خود مسلمانوں کے خون کو حلال کر لینا اس سے بہت مختلف معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ محض اس قیاس پر نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ حکومت کے فلاں ذمہ دار نے کسی بیرونی قوت سے ایک understanding یا ایک خفیہ معاہدہ کرلیا ہے، اس لیے اس سے وابستہ کسی بھی فرد کو جہاں کہیں چاہیں ہلاک کردیں۔ اس کی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں مثال خوارج کی ہے۔

خوارج کی فکری غلطی

خوارج نے اپنی فکری غلطی کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ نے بجاے براہِ راست قرآن کو حکم بنانے کے دو نمایندوں کے سپرد یہ کام کردیا کہ وہ قرآن کی روشنی میں طے کریں کہ مسئلے کا حل کیا ہو۔ اس لیے یہ دونوں حضرات خوارج کی نگاہ میں کفراور شرک کے مرتکب ہوگئے۔ چنانچہ ان کا خون ان کے لیے حلال ہوگیا۔ اس بناپر خوارج نے یہ طے کیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو جہاں کہیں وہ پائے جائیں قتل کیا جائے اور ان کے ساتھ جو لوگ شامل ہوں وہ بھی قتل ہوں۔ اُمت مسلمہ کی تاریخ گواہ ہے کہ خوارج کی اس فکر کو اجماعی طور پر رد کیا گیا اور انھیں ایک گمراہ فرقہ قرار دیا گیا۔ گو ،ان میں سے بہت سے افراد وہ تھے جو دن میں حضرت علیؓ کے خلاف جنگ کرتے تھے، راتوں کو تہجد اور قرآن سے رشتہ جوڑتے تھے۔ ان کے چہروں پر محرابیں تھیں اور وہ قرآن کے حافظ تھے۔ فکری غلطی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص غیرمخلص اور دھوکے باز ہو۔ انتہائی خلوصِ نیت کے ساتھ اور دین کا جامع تصور نہ ہونے کے سبب اللہ کا ایک بندہ فکری غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔

جو چیز دیکھنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی جان کے دشمن افراد کے بارے میں کیا پالیسی ا ختیار کی اور کیا آپ کا یہ کرنا اسلام تھا یا اسلام سے انحراف! آپؓ نے حکم دیا کہ اگر وہ حملہ کریں تو جواب دیا جائے گا کہ جان کا تحفظ کرنا دین کا اصول ہے، لیکن ان کا پیچھا نہ کیا جائے، نہ انھیں غلام بنایا جائے نہ ان کی املاک پر قبضہ کیا جائے، جب کہ وہ کھلی بغاوت کے مرتکب تھے۔ دین کسی ایک پہلو کا نام نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہرپہلو کو سمجھ کر حکمت عملی وضع کرنے کا نام ہے۔

جس طرح خوارج نے یہ فیصلہ کرلیا کہ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ  کو فیصلہ کرنے پر مامور کرنا شرک اور کفر تھا، قرآن کے حکم ماننے کا انکار تھا، ایسے ہی بہت سے  سادہ لوح افراد دین کے نام پر خلوصِ نیت کے ساتھ یہ عاجلانہ فیصلہ کربیٹھتے ہیں کہ اگر کسی نے   نام نہاد طاغوت کے کسی نمایندے سے بات کرلی، مصافحہ کرلیا، کسی ایسے اجتماع میں یا کانفرنس میں شرکت کرلی جس میں طاغوتی نمایندے موجود ہوں تو وہ شرک اور کفر کا مرتکب ہوگیا، اس لیے واجب القتل ہوا۔ اس قسم کی منطق اختیار کرنے سے قبل دین اسلام کے مقصد و مدعا، نبی کریمؐ کے اسوہ اور  حکمت عملی کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں ذمہ دارانہ اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے جذباتی انداز میں نہیں کیے جاسکتے۔

خوارج اور اس طرح کے افراد نے جو شکل اختیار کی، اُمت کی تاریخ نے اس پر کیا فیصلہ دیا، یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اُمت نے جس چیز کو اسوہ نبویؐ کے مطابق سمجھا وہ خوارج کی فکر نہ تھی بلکہ بتدریج، مرحلہ بہ مرحلہ، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، وقت کے لحاظ سے موجود ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا اور وقت کی قید سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوت اللہ کے دین کے قیام کے لیے لگادینے ہی کو سواء السبیل قرار دیا۔

یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دین میں شرعی احکام کا نفاذ صرف اور صرف ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی کھلی اور چھپی ہوئی سرگرمیوں کے باوجود  نبی کریمؐ نے منافقین کے قتل کا حکم نہیں دیا، جب کہ وہ اہلِ مکہ کے ساتھ خفیہ سازشوں میں    شریک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے انسانی جان کی حُرمت کو جو مقام دیا ہے ہم اُس سے بہت دُور نکل چکے ہیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نبی کریمؐ کو بہت عزیز  تھے لیکن جب حضرت اسامہ نے ایک شخص کو دورانِ جنگ یہ کہنے کے باوجود کہ وہ ایمان لاتا ہے قتل کردیا تو نبی رحمتؐ نے اس پر سخت غصے کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ اور یہ کہ وہ دل سے مسلمان ہوا تھا یا دکھانے اور جان بچانے کے لیے! اس لیے کسی کی تکفیر کردینا اور مشرک قرار دے کر اس کے خون کو حلال کرلینا نہ  قرآن سے ثابت ہے اور نہ سنت سے۔ خوارج کا بھی عجیب معاملہ تھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو تو وہ قتل کے لائق سمجھتے تھے لیکن ذمیوں پر جو غیرمسلم تھے، اس بنا پر کہ ان کی جان کا ذمہ اللہ اور رسولؐ نے لیا تھا، ہاتھ اُٹھانا حرام سمجھتے تھے۔ فہم کی غلطی انسان کو کہاں تک پہنچادیتی ہے کہ  وہ تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھتا ہے اور اس پر نازاں بھی ہوتا ہے کہ اصل اسلام پر وہ عمل کر رہا ہے۔ خوارج خلوصِ نیت سے یقین رکھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور جیساکہ پہلے عرض کیا یہ تہجدگزار اور قرآن کے حافظ تھے  اس کے باوجود فکر کی غلطی نے انھیں گمراہ کردیا۔

اسلامی نظامِ حکومت میں دستور اور قانون کی تدوین کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن و سنت کو دستور مان لینے کے بعد نہ کسی مزید دستور کی ضرورت ہے نہ کسی قانون کی۔ اسلام کا ہر طالب علم یہ جانتا ہے کہ قرآن و سنت کا دوسرا نام شریعت ہے اور شریعت نے جو حدود متعین کردی ہیں انھیں دنیا کے تمام مسلمان مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن جن معاملات کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح ہدایت موجود نہ ہو، ان کا کیا کیا جائے۔ ظاہر ہے کوئی نئی وحی تو آنہیں سکتی۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فلاں معاملے میں اس پر یہ وحی آئی ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور رسولؐ اللہ پر جھوٹ باندھے گا۔

اختلاف راے اور اجتہاد

اس کا حل خود قرآن کریم اور سنت رسولؐ نے یہ بتایا کہ ایسے تمام معاملات میں اجتہاد، قیاس اور اجماع پر عمل کیا جائے گا لیکن اس پورے عمل میں اسلامی نظامِ حکومت کی اصل روح مشاوت کا کرنا ہے، حتیٰ کہ دورِ نبویؐ میں بھی بہت سے اہم معاملات مشاورت کے بعد طے کیے گئے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ نبی کریمؐ اپنی فراست اور وحی الٰہی کے جاری رہنے کی بناپر اگر چاہتے تو بغیر کسی سے پوچھے فیصلے فرما سکتے تھے اور آپؐ کا ہرفیصلہ صحابہؓ کے لیے قابلِ قبول ہوتا لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا تاکہ آپؐ کی اُمت اسلامی نظم مملکت کے اس اصول کو عملاً دیکھ کر اس کی اہمیت سے آگاہ ہوسکے۔ غزوئہ بدر میں میدان کے انتخاب کا معاملہ ہو یا اُحد کے موقع پر مدینہ منورہ میں ٹھیر کر مقابلہ یا باہر نکل کر مقابلہ، غزوئہ احزاب میں دفاعی حکمت عملی ہو یا احزاب کے بعد یہود کے ساتھ طرزِعمل کا سوال، ہر اہم معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کو نہ صرف قائم کیا بلکہ اس کی راے کا پورا احترام فرمایا۔

آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مانعین زکوٰۃ کے معاملے میں اور اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی کے سلسلے میں جو فیصلے کیے، انھیں معلومات نہ ہونے کی بناپر بعض حضرات ان کا veto کرنا کہتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ پہلے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس دلیل اپنی راے کی نہیں تھی بلکہ قرآن میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی یکساں مرکزیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صحیح احادیث کی تھی جن کے واضح الفاظ کی پیروی میں انھوں نے یہ اقدام کیا۔ چنانچہ آپ نے نبی کریمؐ کا ارشاد سنایا کہ: ’’مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کریں۔ جب وہ اقرار کرلیںگے تو ان کی جانیں اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہوجائیں گے، مگر  اس کلمہ کے کسی حق کے تحت اور ان کے باطن کا محاسبہ اللہ کے ذمے ہے‘‘۔دوسری حدیث جو آپؐ نے بیان فرمائی اس کے الفاظ بھی بہت اہم ہیں:’’مجھے حکم ملا ہے کہ مَیں تین چیزوں پر لوگوں سے جنگ کروں: کلمہ لاالٰہ الا اللہ کی شہادت پر، نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ کی ادایگی پر‘‘۔

ان احادیث کے دلیل قطعی ہونے کی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ کرنا دلیلِ شرعی اور واضح نص پر تھا ۔یہاں معاملہ شوریٰ کے دائرے سے باہر تھا۔ قرآن و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کا کام صرف ان احکام کا نفاذ تھا۔ مشاورت کس بات پر کی جاتی؟

اسی طرح جس لشکر کو تیار کروانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے علَم حوالے کیا ہو، کیا اسے روکنا رسول اللہ کی اطاعت تھی یا اسے آپ کی منشا کے مطابق روانہ کرنا ادایگی فرض تھا۔ یہاں بھی معاملہ نہ شوریٰ کا تھا نہ اکثریت یا اقلیت کا۔

یہ خیال کہ خلیفہ صرف اللہ کو جواب دہ ہے قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شوریٰ اور مشاورت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد ان کے خلفا اپنے تمام اُمور میں مشاورت کریں اور مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد جس راے پر اکثریت کا اتفاق ہو اسے نافذ کیا جائے۔ شوریٰ کا مقصد محض نمایشی طور پر تفنن طبع کے لیے لوگوں کی راے معلوم کرنا نہیں ہے کہ تمام بحث و مباحثے کے بعد کرے وہی جو خلیفہ خود چاہتا ہو۔(جاری)

تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد اگر آج سے ۵۰سال قبل کے منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دعوت اور دعوت کے طریقوں میں کتاب کا مقام مرکزی نظر آتا ہے۔ بہت سے ایسے افراد جو تحریکی شخصیات اور دعوت سے مخالفت براے مخالفت یا سرکاری ملازمت کی بنا پر اپنے آپ کو فاصلے پر رکھنا پسند کرتے تھے، اگر محض حادثاتی طور پر انھیں تحریکی کتب میں سے کسی کتاب کے مطالعے کا موقع مل گیا، تو وہ دعوت اسلامی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان میں سے بعض محض ایسے ہی کسی حادثے کے نتیجے میں اس حد تک متاثر ہوئے کہ سرکاری ملازمت کو ترک کرکے تحریک کے ایک عام کارکن بننے پر آمادہ ہوگئے۔ کتاب اور تحریر کا یہ جادو محض ادبی اسلوب کی بناپر نہیں، بلکہ ایک بات کے حق ہونے اور حق کو بلاکسی تصنع، مداہنت یا شدت پسندی کے صرف سادہ الفاظ میں بیان کردینے  کی بنا پر ہوا۔ بلاشبہہ اس میں تحریر کے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ ہونے کا بڑا دخل ہے لیکن کتاب اور تحریر کا یہ پہلو دعوتِ اسلامی کی اشاعت اور قبولیت کا ایک ناقابلِ تردید واقعہ ہے۔

اگر غور کیا جائے تو دعوتِ اسلامی کے الہامی طریق کار میں آسمانی صحیفوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ قرآن کی جانب دعوت اس عظیم ترین کتاب کا بغور مطالعہ کرنے، اس کے مفہوم کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات کو عملی شکل دینے کی دعوت تھی۔ اسی لیے باربار پکار کر کہا گیا: فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ o اِِنْ ھُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ o لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ  o (التکویر ۸۱:۲۶-۲۸) ، یعنی  تم کدھر بھٹکے چلے جارہے ہو؟ آئو اس کتاب کی طرف! یہ کتاب تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے، تم میں سے ہراس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ’’یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں، بلندرُتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں‘‘۔(عبس ۸۰:۱۲-۱۶)

الکتاب کی اہمیت کو جگہ جگہ بیان کرتے ہوئے تعلیم دی گئی کہ ’’اس کا مطالعہ ٹھیرٹھیر کر ہرہرلفظ پر غور کرتے ہوئے کیا جائے‘‘ (المزمل ۷۳:۴-۵) ۔اس کی تلاوت میں بھی تیزی اور جلدی نہ اختیار کی جائے کیونکہ اس کا اصل مقصد محض ثواب کا حصول نہیں بلکہ اس کتابِ ہدایت کو سمجھ کر اسے زندگی کے معاملات میں نافذ کرنا ہے۔ اسی بنا پر بار بار یہ یاد دہانی کرائی گئی کہ یہ کتاب چونکہ ہدایت ہے اس لیے اسے سادہ اور آسان بنادیا گیا ہے تاکہ ایک عام طالب ِ حق بھی اس سے رہنمائی حاصل کرسکے۔ ’’بلاشبہہ ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنا دیا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘ (الدخان ۴۴:۵۸)۔اس عظیم کتاب سے دُوری اور تعلق میں کمی نہ صرف دنیا کی زندگی میں انسان کو ہدایت سے دُور کرتی ہے بلکہ آخرت میں محرومی اور سخت جواب دہی سے دوچار کرتی ہے۔ ’’اور رسولؐ کہیں گے: اے پروردگار!میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز  کیا ہوا تھا‘‘۔(الفرقان۲۵:۳۰)

قرآنِ کریم سے قریبی تعلق اور اس پر مسلسل غور تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا مطالبہ ہے۔ پورے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریکِ اسلامی، ترجمۂ قرآن، یعنی قرآن کو اپنے معاملات میں نافذ کرنے کی دعوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک سے وابستگی اور فکر کو تازگی دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان تحریرات کا مطالعہ کیا جائے جو قرآن و سنت پر مبنی فکر کو پیش کرتی ہیں اور آج کے مسائل کے اسلامی حل کی طرف نشان دہی کرتی ہیں۔

یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ایک تحریکی کارکن نے اگر تحریک سے تعارف کے وقت چند کتابچوں کا مطالعہ کرلیا تھا اور تحریک میں شامل ہوگیا تھا، یا نصابِ رکنیت پر سرسری نظر ڈال کر   رکن بن گیا تھا اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ذمہ دار بھی بن گیا، تو اس کا وہ سرسری مطالعہ اسے دین کا معتبر علم دینے کے لیے کافی ہے۔

تحریک کے متحرک رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہرکارکن متحرک فکر رکھتا ہو اور نہ صرف اساسی کتب بلکہ اسلامی مصادر سے بھی پوری واقفیت رکھتا ہو۔ تحریک جس بات کی دعوت دیتی ہے  وہ محض سڑکوں پر اپنی قوت اور تعداد کا مظاہرہ نہیں ہے، بلکہ اسلام کی فکر کی برتری، تازگی اور عصری مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ ہرلمحے قرآن کریم کے علم میں اضافہ ہو۔ اگر اُس نے تفہیم القرآن کا اوّل تا آخر مطالعہ کرلیا ہے تو خود تفہیم القرآن کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوگا کہ عصری تفاسیر میں سے کم از کم تین چار تفاسیر کا مطالعہ کرے۔ اور پھر دیکھے کہ قرآنِ کریم کی جامع اور عملی تعلیمات کس طرح آج کے دور میں جاری و ساری کی جاسکتی ہیں۔

اسے نہ صرف قرآن کریم بلکہ سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اس زاویے سے کرنا ہوگا کہ آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ آج کے دور کے مسائل کے بارے میں کیا ہدایات دیتی ہے، اور اس کی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی زندگی میں اس مطالعے کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں۔

اسے فقہ کی کم از کم اتنی معلومات ہوں کہ وہ حلال و حرام میں فرق کرسکے اور بنیادی عبادات و معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرسکے۔ ایک داعی محض ایک جوشیلا مقرر نہیں ہوتا کہ دوسروں کو گفتار میں شکست دے سکے، بلکہ اس کا اصل کام شکست دینے کی جگہ دوسرے کو جیتنا، اپنے سے قریب لانا اور مخالف کے کیمپ سے وابستہ افراد کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنا ہے۔ دین کی حکمت نہ کبھی یہ تھی نہ آج ہوسکتی ہے کہ مخالفین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اپنے ہرتیز اور نوکیلے جملے سے انھیں مجروح کرکے لطف اُٹھایا جائے، بلکہ دین کا مطالبہ ہے کہ جو کل تک دشمنِ جان تھے انھیں اپنے قولِ لیّن اور حکمت و محبت سے وَلِیٌّ حَمِیْمٌ بنایا جائے۔داعی کی بات اور طرزِعمل  وہ ہو جو پھول کی پتی سے ہیرے کے جگر کو دولخت کردینے والا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب  سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اسلوبِ دعوت، استقامت و صبر اور دعوت کی حکمت کو سمجھنے کے لیے کیا جائے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جو کارکن اور ذمہ داران تحریک سے ۱۰،۲۰ یا ۳۰سال سے وابستہ ہیں انھوں نے اس عرصے میں سیرتِ پاکؐ کے حوالے سے اپنی معلومات اور علم میں کتنا اضافہ کیا ہے اور سیرتِ سرورعالمؐ کے علاوہ کون سی کتاب گذشتہ دوبرسوں میں پڑھی، اور کیا واقعی سیرتِ سرورعالمؐ کو بھی اس طرح پڑھا ہے جیسا اس کا پڑھنے کا حق ہے؟

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسلامی لٹریچر کے علاوہ اپنے زمانے کے افکار، تصورات، تحریکات کا بھی دقت ِنظر سے مطالعہ کیا جائے، اور اسلام اور اسلامی تحریکات کو جو فکری اور تہذیبی چیلنج درپیش ہیں ان کو سمجھ کر ان کے مقابلے کی علمی اور عملی استعداد پیدا کی جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کارکن اور قیادت ان پہلوئوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھیں اور صرف ماضی کے سرمایۂ فکر پر قناعت نہ کریں۔

تحریکِ اسلامی کی ترقی اور کامیابی کا پہلا زینہ خود داعی کی فکری ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر مطالعہ نہیں کیا جائے گا تو ہمارا ذہن نئے زاویوں اور متبادل حل تلاش کرنے سے قاصر رہے گا اور ہم روایت کے شکنجے میں گرفتار ہوکر ایک ضابطے کی جماعت بن جائیں گے، جو دستور اور ضوابط کی تو پابند ہو لیکن دستور کی روح اور ضوابط کی حکمت سے مکمل طور پر ناآشنا ہو۔ اس کا نام جمود ہے، اس کا نام fossilization ہے ، اس کا نام قدامت پرستی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے روایت، اشرافیت اور تقویٰ کا نام دے کر اپنے آپ کو خوش کرلیں۔

کتاب کا کلچر جب تک زندہ رہے گا تحریک بھی زندہ اور متحرک رہے گی۔ ہر نئی آنے والی فکر ایک داعی کو قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے اور وہاں سے ہدایت حاصل کرنے پر راغب کرے گی، اور وہ اس نام نہاد عالم گیریت کے دور میں نوزائیدہ مسائل پر اجتہادی راے دے سکے گا۔ اگر اُس نے مطالعہ ترک کردیا تو وہ مقلد تو بن سکتا ہے قائد نہیں بن سکتا۔ تحریکِ اسلامی کی بنیادی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ ہرکارکن میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرسکے اور وہ ہرصورت حال سے تحریکی ذہن اور اسلام کے بتائے ہوئے اخلاقی ضابطے کی روشنی میں نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکے۔

تحریکات کی زندگی کا تعلق ان کی قیادت کی طرف سے مسلسل فکری غذا کا فراہم کرنا ہے۔ یہ فکری غذا نہ صرف سیاسی مسائل پر بلکہ خالصتاً علمی مسائل پر بھی یکساں طور پر ضروری ہے۔ اگر  ہمارا عالمی سطح پر معاشی، معاشرتی، ابلاغی، بین الاقوامی معاملات پر مطالعہ سطحی ہوگا تو تحریک بھی   دن بدن فکری محدودیت اور افلاس کا شکار ہوگی۔ اگر اس کے ساتھ صورتِ حال کچھ یوں بھی ہو کہ تحریکِ اسلامی کی قیادت نے اب سے ۵۰سال قبل جو تجزیہ اور مسائل کا حل تجویز کیا ہو، اس پر بھی تحقیقی نگاہ نہ ہو تو پھر تحریک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اس عمل کے جاری رکھنے کے لیے تحریکی قیادت کو خود اپنی مثال پیش کرنی ہوگی اور نئی فکر کی تخلیق کے ذریعے فکر کے نئے زاویوں کی طرف نشان دہی کرنی ہوگی۔ ۱۹۶۲ء میں مولانا مودودیؒ نے جس بناپر ایک تحریکی تحقیقی ادارے کی بنیاد کراچی میں رکھی تھی، اس کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے، مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک ایسی ٹیم کی تیاری تھی جو نہ صرف ان کی فکر کو بلکہ ان کی فکر سے آگے علم و عمل کے نئے اُفق تلاش کرے اور تحریک کی علمی ترقی میں تعمیری کردار ادا کرسکے۔

یہ مستقبل کے لیے ایک علمی اثاثہ تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔ یہ اس عزم کا اظہار تھا  کہ تحریک کو ٹھوس علمی بنیاد پر قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ، سیرت پاکؐ اور مسلم علما و مفکرین کے کاموں سے براہِ راست روشناس کرانے کے بعد نئے تحریکی لٹریچر کی تصنیف اور فکری قیادت کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ محض مولانا کے اپنے رسائل کے ترجمے یا انھیں مختلف مجموعوں میں مرتب کردینے کا کام نہ تھا بلکہ بدلتے حالات میں جرأت، ذمہ داری اور نصوص پر مبنی علم کے ذریعے ملک اور بیرونِ ملک ہدایت کے طالب انسانوں تک دعوت پہنچانے کے لیے ایک پوری نسل کو تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔

آج تحریک جس دور سے گزر رہی ہے اس میں نہ صرف تازہ فکر کی بلکہ جو فکر سیدمودودیؒ نے پیش کی خود اس کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ کی بعض تحریرات ایسی ہیں  کہ انھیں جتنی مرتبہ پڑھا جائے اتنی مرتبہ کوئی نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بطور ایک پالیسی کے تحریک سے وابستہ افراد میں مطالعے کی ثقافت کو حلقہ ہاے فکر کے ذریعے زندہ کیا جائے اور  کھلے ذہن کے ساتھ نہ صرف تحریکی قائدین بلکہ دیگر اسلامی مصادر کے تحقیقی مطالعہ کو اختیار کیا جائے۔

دعوتِ اسلامی کا پہلا مرحلہ فکری انقلاب ہے۔ جب تک فکر تبدیل نہ ہو، معاشرتی تبدیلی، سیاسی انقلاب اور تبدیلیِ قیادت ایک زیبایش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں بن سکتی۔ دل و دماغ کا پورے اعتماد کے ساتھ یک سو ہونا دعوتی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ اگر کمزور ہوگا تو آسمان کی بلندیوں تک جو عمارت بنے گی وہ ٹیڑھی اور بودی بنیاد پر ہوگی۔ اس کی ظاہری عظمت اسے زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ وہ زمین کی معمولی حرکت سے بلندیوں سے گر کر نشیب کی شکل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

جس شجرطیبہ کی مثال قرآنِ کریم نے دی ہے اس کی بنیاد کتابِ عظیم پر ہے، اور کتابِ عظیم یہ حکم دیتی ہے کہ نہ صرف ایک عام کارکن اور ذمہ دار بلکہ خود ہادی اعظم ؐ اقرأ کے حکم پر عمل کریں۔ قرآن کریم اور تحریکی لٹریچر کا بغور اور باربار مطالعہ ہی تحریک کو نئی فکر کی تخلیق کی طرف اُبھار سکتا ہے۔ جب تک فکر میں ندرت اور تازگی نہ ہو، تحریک قومی اور عالمی اُفق پر مقامِ قیادت حاصل نہیں کرسکتی۔

وائس چانسلر ،رفاہ اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد

۳۰جون ۲۰۱۳ء کو مصر میں جمہوریت کا قتل عرب بہار (Arab Spring) پر خزاں کا ایک ایسا حملہ ہے جس نے ہرباشعور شخص کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ وزیردفاع کا فوج کے ذریعے جمہوری انتخابات میں اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر اور اس کی کابینہ کا برطرف کرنا اور عوامی راے سے براہِ راست منتخب کیے ہوئے صدر کو نظربند کرنا اور فوجی مداخلت کے خلاف جمہوری مزاحمتی جدوجہد کو قوت، دھونس اور دبائو کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش اور فوجی حکم نامے کے ذریعے ایک عبوری حکومت بنانے اور عارضی دستور کے نام پر ایک من مانا نظام مسلط کرنے کو فوجی قبضے (coup deta)کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

 جمہوریت کے اس قتل عام پر یورپ اور امریکا کا ردعمل شرم ناک ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مغرب کا اپنا مفاد اگر فوجی آمروں اور بادشاہتوں سے وابستہ ہو تو اسے کبھی جمہوریت کی یاد نہیں آتی اور اگر ایک عوامی جمہوری انتخاب کے بعد قائم ہونے والی ایسی جمہوریت ہو جس میں مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے اپنا صدر منتخب کیا ہو تو وہ ایسی جمہوریت کے مقابلے میں دوبارہ فوجی آمریت کے قیام میں سرگرم نظر آتا ہے۔

مغربی طاقتوں کی یہ دوعملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلم دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ مغرب کی دوعملی کی زندہ مثال ہے۔ لیکن اس اندوہناک واقعے نے بہت سے اہم اور بنیادی سوالات کو ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے اور اُمت مسلمہ کے ہرباشعور شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یورپ اور امریکا، ایشیا اور افریقہ آخر کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں، کیا ایک جمہوری صدر اور حکومت کو فوج کے ذریعے زیرحراست لاکر فوج کی طرف سے ایک عارضی صدر کا مقرر کیا جانا جمہوریت ہے؟ کیا تحریر چوک میں چند لاکھ افراد کے مظاہرہ کرنے اور مصر کی عوامی اکثریت کے منتخب کردہ صدر کے خلاف نعرے لگانے سے فوج کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت کو برطرف کردے؟

کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدرمرسی نے حلف اُٹھایا اور ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو ایک سال گزرنے پر فوج نے انقلاب برپا کرکے انھیں نظربند کردیا؟ یا یہ سب ایک سال سے پلنے والی ایک سازش ہے جس میں فوج، عدلیہ اور مصر کے سیکولر افراد کے ساتھ مغربی طاقتیں اور ان کے زیراثر بعض مسلم ممالک جو مصر میں اسلامی احیا اور بالخصوص اخوان المسلمون کے برسرِاقتدار آجانے کو کسی صورت ہضم کرنے کو تیار نہ تھے، شریک تھے۔ ان ممالک نے بھی اس غیرجمہوری فوجی مداخلت کو پسند کیا اور جمہوریت کے قتل پر اطمینان کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔

نیویارک ٹائمز کے گلوبل اڈیشن میں قاہرہ سے اس کے نمایندوں Ben Hubbard اور David D. Kirkspatrick اپنے مقالے میں ہمارے اس بیان کی تصدیق جن الفاظ میں کی ہے، وہ ہر صاحب ِ عقل کے لیے سوچنے کا مواد فراہم کرتے ہیں:

ریاست کے مختلف ادارے پٹرول کے ذخیروں سے لے کر اسے ملک بھر میں گیس اسٹیشن تک پہنچانے والوں ٹرکوں، سب نے اس بحران کو پیدا کرنے میں حصہ لیا۔

وہ مزید کہتا ہے: پس منظر میں کام کرنے والے حسنی مبارک کے قریبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی اور ملک کے چوٹی کے جرنیلوں نے ان لوگوں کو مالیات فراہم کرنے، مشورہ دینے اور منظم کرنے میں مدد دی جو اسلامی قیادت کو اُکھاڑ پھینکنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے۔ ان میں نجیب سویریس بھی شامل تھا جو ایک ارب پتی ہے اور اخوان کا معروف کھلادشمن ہے۔ اور تہامی الجبالی بھی جو سپریم دستوری عدالت کے جج جو حکمران جرنیلوں کے بہت قریب ہیں۔

وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ فوجی کو (Coup) کے بعد یکایک سڑکوں پر پولیس اور پٹرول پمپوں پر پٹرول کی فراوانی ہوگئی اور اچانک پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی گویا فوج، عدلیہ اور سول انتظامیہ اور مال دار طبقہ سب نے مل کر صورت حال خراب کی تاکہ اسلامی قوتوں کو ناکام کرسکیں۔

اس افسوس ناک واقعے پر غور کرتے وقت ہمیں چند پہلوئوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس پورے عمل میں ابلاغِ عامہ کے کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ابلاغ عامہ کا کردار

مصر میں اخوان المسلمون اور دیگر اسلام پسند جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی مصر کے سیکولر عناصر خصوصاً میڈیا کے لیے سخت غم و غصے کا سبب بنی۔ چنانچہ روزِ اوّل سے برقی ابلاغِ عامہ خصوصاً نجی چینلوں نے اخوان دشمن مہم کا آغاز کردیا اور عیسائی اقلیت کے حوالے سے بار بار یہ بات اُٹھائی کہ اخوان شریعت نافذ کریں گے اور عیسائیوں کو ’ذمی‘ کا درجہ دیتے ہوئے دوئم درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ اس بات کو بھی اُچھالا گیا کہ اسلامی سزائوں کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان غیرمسلموں کو پہنچے گا وغیرہ۔ پھر ابلاغِ عام نے مصر کی معاشی صورت حال کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کیا کہ روٹی اور پانی کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے، جب کہ یہی صورت حال حسنی مبارک کے دور میں تھی اور میڈیا اس پر خاموش تھا۔ دستور میں بعض دفعات کے اضافے اور شریعت کی بالادستی پر بھی میڈیا نے احتجاج اور مخالفت کی مہم چلائی۔ یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ اسلامی حکومت میں مصر کی سیاحت کی انڈسٹری ختم ہوجائے گی جو قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔

۳۰سالہ دورِ آمریت میں حسنی مبارک نے مصر کو جس معاشی بدحالی میں مبتلا کر دیا تھا اور جو حسنی مبارک کے خلاف عوامی مہم اور انقلاب کا ایک سبب تھا اسے ابلاغِ عامہ نے نظرانداز کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ گویا معاشی زوال سب کا سب مرسی کے آنے کا نتیجہ ہے۔

ابلاغ عامہ کی اس سازش میں مصر کا مال دار ترین شخص نجیب سویریس جو ٹی وی چینل اور اخبار کا مالک ہے اور حسنی مبارک کا قبطی دست ِ راست رہا ہے، پیش پیش تھا۔ (اس کا اپنا بیان نیویارک ٹائمز نے ان الفاظ میں کیا ہے: Tammarrud did not even know it was me, I am not ashamed of it. ’تمرد‘ کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ مَیں تھا۔ مجھے اس پر کوئی شرم نہیں ہے)۔ اس نے سب سے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل کے ذریعے اس مہم کو چلایا۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مصر مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بیرونی امداد وصول کرنے والا ملک رہا ہے۔ ۳۰سال سے گرتی ہوئی معاشی حالت کو ایک سال سے کم عرصے میں عروج و ترقی کی طرف لے جانا ایک اچھی تمنّا تو ہوسکتا ہے لیکن عملاً ایک ناممکن ہدف ہی کہا جاسکتا ہے۔ جس میڈیا نے حسنی مبارک کو ۳۰سال کی مہلت دی کہ وہ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات چاہتا ہو کرے، اسی میڈیا نے صدر مرسی کے سلسلے میں ۳۶۵ دن کی مہلت کو بھی ضرورت سے زیادہ مدت قرار دیا اور بار بار اس بات کو دہرایا کہ حکومت معاشی اصلاح میں ناکام ہوگئی ہے۔ کیا اسی کا نام عدل ہے۔ کیا یہی غیر جانب دارانہ صحافت ہے۔ کیا دنیا میں کسی عوامی منتخب حکومت کو چار پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جائے، اور پھر ایک سال کے بعد یہ کہہ کر کہ وہ ناکام ہوگئی ہے دوبارہ فوج کو مسلط کردینا مسائل کا حل ہوسکتا ہے؟ یا یہ صرف فوج اور عدلیہ کی طرف سے ایک ردعمل ہے تاکہ وہ جس طرح ۳۰سال سے عوام پر حکومت کر رہی تھی اور فوائد حاصل کر رہی تھی، دوبارہ پرانے نظام کو لاکر اصلاح اور تبدیلی کی کوششوں کو قوت کے ذریعے کچل سکے۔

واضح رہے کہ مصر کی معاشی صورت حال کو بگاڑنے اور تیل اور گیس کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں مفادپرست عناصر کا ہاتھ تھا اور اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ فوجی مداخلت سے دوسرے دن ہی چشم زدن میں تیل،گیس اور بجلی بحال ہوگئی اور یہ بھی لطف کی بات ہے کہ صدرمرسی کی وزارت میں جو غیراخوانی وزیر، وزیرداخلہ اور وزارتِ پٹرولیم کے وزیر تھے، فوج کی بنائی ہوئی نئی وزارت میں وہی ان وزارتوں پر براجمان ہیں۔

پولیس اور فوج کا کردار

۳۰سالہ دورِ استبداد میںپولیس اور فوج نے جن مراعات کو حاصل کرلیا تھا اور جن اختیارات پر ان کو تسلط حاصل ہوگیا تھا وہ اب اس تبدیلی سے سخت برہم تھے۔ چنانچہ وزارتِ داخلہ میں وہ عناصر جو سابقہ دور میں بااختیار تھے پسپا نہیں ہوئے۔ نیویارک ٹائمز کے نمایندے David Kirkspatrick نے اپنے یکم جولائی کے مراسلے میں جن دو اُمور کا تذکرہ کیا وہ حالات کی سنگینی اور ان میں پولیس اورفوج کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ کہتا ہے: mismanagement or sabotage of the institutions of the old government has stunned the transition to democracy یعنی سابقہ حکومت کے اداروں کی بدانتظامی اور سبوتاژ نے جمہوریت کی طرف تبدیلی کے عمل کو بالکل روک کر رکھ دیا۔ وہ آگے چل کر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے الفاظ کو بیان کرتا ہے:

وہ لوگ جو جیلوں میں تھے آج صدر ہیں۔ اگر اتوار کو اخوان کے دفتر کی حفاظت کے لیے کوئی ایک افسر بھی گیا تو میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اسے گولی ماردی جائے گی۔ جنرل صلاح زیدان نے یقین دلایا: ہم سب نے متفقہ طور پر طے کیا ہے کہ اخوان المسلمون کے ہیڈکوارٹر کو کوئی سیکورٹی نہیں فراہم کی جائے گی۔

پولیس کے ذمہ داران اور فوجی جنرل کا یہ باغیانہ بیان اخوان کے مخالف سیکولر عناصر نے موبائل فون پر ایک دوسرے کو پہنچا کر مزید ہمت بڑھائی کہ اخوان کے خلاف وہ جو کارروائی کرنا چاہیں کریں۔ فوج اور پولیس کے کردار کونرم ترین الفاظ میں ایک جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

کامیابی کا پیمانہ

ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں کس جمہوریت میں ۳۶۵ دن کسی نومنتخب حکومت کی کامیابی یا ناکامی کے لیے پیمانہ قرار دیے جاسکتے ہیں؟ نہ صرف یہ بلکہ کہاں پر ایک نومنتخب صدر اور اس کی کابینہ کو حزبِ اختلاف کے مظاہرے اور صدر کی کسی پالیسی سے اختلاف کی بنا پر فوج کو یہ حق حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ ایک منتخب صدر کو محبوس کرے اور نہ صرف اس کی کابینہ کو برطرف کردے بلکہ فوج کی طرف سے مقرر کیا ہوا ’عارضی‘ صدر ملک کے منتخب کردہ ایوانِ بالا کو بھی برطرف کردے؟ ظاہر ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد اخوان المسلمون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایوانِ بالا میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے۔ اخوان اور اسلامی قوتوں نے ایک نہیں پانچ بار عوامی راے سے انتخاب اور استصواب جیتے ہیں اور انھیں عوامی ووٹ کی قوت سے ہٹانا ناممکن تھا۔ اس لیے پہلے مبارک دور کی مقرر کردہ عدالت کے ذریعے منتخب ایوان کو برطرف کرنے کا اقدام کیا گیا اور پھر فوج نے بلاواسطہ مداخلت کر کے جمہوری بساط کو لپیٹ دیا۔

جمھوریت کا کردار

موجودہ حالات کے تناظر میں سب سے اہم اور کلیدی سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ کوئی فوجی سربراہ یا وزیرداخلہ یا وزیردفاع کسی جمہوری حکومت کو اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق نہ پاتے ہوئے برطرف نہیں کرے گا؟ اگر ایک مرتبہ فوج کے اس استحقاق کو مان لیا گیا تو وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا پیدایشی حق سمجھے گی اور جب چاہے گی کسی بھی منتخب حکومت کو قوت کے ذریعے برطرف کر کے خود اقتدار پر قابض نہیں ہوجائے گی۔ اس سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا فوج قانون سے بالاتر ایک ادارہ ہے؟ یا ملک کا دستور اور قانون دونوں فوج سے بلند شمار کیے جانے چاہیں اور فوج کو بھی دستور کی پابندی کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرفوجی جب عہدے کا حلف اُٹھاتا ہے تو دستور کی پابندی کا عہد کرتا ہے۔ فوج دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے دستور کے تحت قانونی عمل کے ذریعے دستور کا پابند کرنا ہوگا۔ اگر صرف ایک فوجی سربراہ پر دستور کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر عوامی عدالت میں بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے تو صرف ایک مرتبہ اس عمل کے بعد کسی فوجی کو دستور کو توڑنے اور خود آگے بڑھ کر حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش اور خیال بھی نہیں آئے گا۔

مصر میں ۳۰سالہ فوجی آمریت نے جو کلچر پیدا کیا اس میں نہ صرف فوج اور انتظامیہ نوکرشاہی ذہنیت اور بادشاہ نوازی کے طرزِعمل کی عادی بنی بلکہ فوج کے زیراثر عدلیہ میں بھی ایسے افراد کو مقرر کیا گیا جو ہاں میں ہاں ملانے کے لیے قانونی نکات تلاش کرنے میں ماہر ہوں۔ اس سہ طرفہ اخلاق باختہ نظام کے خلاف بغاوت اور تبدیلی کا عمل کسی بھی پیمانے سے ایک سال میں مکمل ہونا ناممکن تھا۔ ہاں جس بات کی ضرورت تھی وہ یہ کہ درجہ بدرجہ تبدیلی کے عمل کو اختیار کیا جائے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدر مرسی نے جو اندازے قائم کیے وہ اپنی مثبت فکر اور حسنِ ظن کی بنا پر تھے، جب کہ ایک سازشی اور نوکرشاہی ذہنیت رکھنے والی انتظامیہ اور اقتدار کا مزہ اُٹھانے والی فوج اور ان دونوں کے پشت پناہ اسلام دشمن غیرمسلم اور مسلم حکمران ان سب نے مل کر وہ طریقہ اختیار کیا جسے قرآن کریم نے شیطان کے مکر سے تعبیر کیا ہے۔ شیطان کا مکر بظاہر بہت متاثرکن، غلبہ رکھنے والی اور قوت سے بھرپور نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر آخرکار کامیاب ہوتی ہے۔ اس بظاہر اَبرآلود فضا میں بھی ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بجلی کا کڑکا آئے گا اور تاریکی روشنی میں تبدیل ہوگی کیونکہ آخرکار حق ہی کو غالب ہونا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت سے صدر مرسی نے حلف اُٹھایا اسی وقت سے مخالف قوتوں نے اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے بعد اس پر عمل کا آغاز کردیا ۔دوسری جانب اخوان نے یہ قیاس کیا کہ فوج اور عدلیہ جمہوری طور پر منتخب افراد اور اداروں کا احترام کرتے ہوئے کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جو جمہوری روایات کے منافی ہو۔ چنانچہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد صدرمرسی نے ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے زمانے کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو برطرف کردیا۔ صدرمرسی کا یہ اقدام ایسا ہی تھا جسے ایک بپھرے ہوئے سانپ کو زخمی کردیا جائے۔ تین ماہ بعد ۳۰نومبر کو صدر مرسی نے دستور میں اسلامی دفعات کے اضافے کے بعد ایوانِ بالا میں پیش کیا جس نے اسے منظور کرلیا۔ صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے صدر مرسی نے ۲۲نومبرکو خصوصی اختیارات کا اعلان کیا تھا جسے حزبِ اختلاف نے ایک قومی مسئلہ بناکر ان کے خلاف مہم شروع کی تو صدرمرسی نے ۸دسمبر کو صدر کے وہ اختیارات ختم کردیے۔

۱۵تا ۲۰ دسمبر کو ملک گیر ریفرنڈم میں ۶۴ فی صد افراد نے دستوری ترامیم خصوصاً اسلامی دفعات کی دو رائونڈ کے بعد توثیق کردی۔ اس کے باوجود افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اور ۵؍اپریل ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے شمال میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی۔ ۷مئی کو صدر نے اپنی کابینہ میں ردوبدل کیے لیکن عدالت عالیہ نے جون کی ۲تاریخ کو اسلامی اکثریت رکھنے والی سینیٹ کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ عموماً جب تک پارلیمنٹ کے انتخابات نہ ہوں، سینیٹ فعال رہتی ہے۔ یہ گویا عدالت عالیہ کی طرف سے صدر اور اخوان کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳جون کو وزیردفاع جنرل عبدالفتاح السّیسی نے بیان دیا کہ اگر ملک میں ہنگامے ہوئے تو فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ ۲۸جون کو امریکی سفارت خانے نے اپنے غیرضروری عملے کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی اور ۲۹جون کو صدر اوباما نے صدر مرسی کو مشورہ دیا کہ وہ تعمیری رویہ(constructive) اختیار کریں۔ گویا جو لوگ جمہوری طور پر منتخب صدر اور حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے اور کھلی بغاوت (rebellion) یا تمرد میں مشغول تھے، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمرد کرنے والوں پر ایک خالی فائر بھی نہ کیا گیا جب کہ جہاں کہیں اخوان یا ان کے ہمدردوں نے پُرامن مظاہرہ کرنا چاہا ان کی روک ٹوک کے ساتھ ان پر گولیاں برسائی گئیں اور ۳۰جون کو سرکاری طور پر ۳۰۰، جب کہ غیرسرکاری طور پر کئی ہزار اخوان کو  قید میں ڈال دیا گیا۔

حالات کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ صدر مرسی کے حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی ایک گھنائونی سازش تیار کرلی گئی تھی جس پر قدم بہ قدم عمل کیا گیا اور آخرکار برہنہ قوت کا استعمال کرتے ہوئے فوج نے مداخلت کر کے جمہوری عمل کو منجمد کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مرسی کے چند اقدامات بظاہر جلدی میں کیے گئے فیصلے نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھیں کسی نہ کسی مقام سے تبدیلی کے عمل کا آغاز کرنا تھا۔ حسنی مبارک کی میراث ۲ء۱۳ فی صد بے روزگاری جس میں ۱۵ تا ۲۹سال کے افراد کا تناسب ۷۷فی صد تھا، کسی طلسماتی عمل سے ہی ایک سال میں اس مسئلے کا حل کیا جاسکتا تھا۔ امریکا اپنی ۱۲فی صد بے روزگاری کو صدر اوباماکے دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے باوجود حل نہ کرسکا تو صدرمرسی ایک سال میں اسے کیسے حل کرسکتے تھے۔ لیکن جھوٹ، افواہوں اور ابلاغِ عامہ و اخبارات میں باربار یہ بات دہرائی گئی کہ حکومت اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمون حکومت کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے اور نہ حکومت کرنا جانتے ہیں، یا یہ کہ صدر مرسی اور حسنی مبارک میں کوئی فرق نہیں ہے وغیرہ۔ ۳۰جون کو تحریر چوک میں چند ہزار افراد کے دھرنے اور مظاہروں کو  حسین کمال نے، جو حسنی مبارک کے خفیہ ادارے کے سربراہ کے دست ِ راست تھے اور گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل بیانات داغ رہے ہیں، اس مظاہرے کے بارے میں فرمایا کہ ہم اسے عوام کا ریفرنڈم سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے، تحریر چوک میں جو افراد جمع ہوئے، خواہ ان کی تعداد کتنی ہی ہو، وہ پورے ملک کے نمایندہ کیسے ہوگئے؟ پھر جو لوگ وہاں جمع ہوئے، وہ کھلے طور پر ان پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے جو صدر کی مخالف ہیں۔ اس لیے ان کا نعرہ لگانا ایک بے معنی بات ہے۔ نیز ان کو فوج کی کھلی سرپرستی حاصل تھی جس نے کئی بار fly past کر کے، اور جھنڈے جہازوں سے چھوڑ کر ان کے ساتھ اپنی شرکت کا اظہار کیا جسے ٹی وی پر دکھایا گیا اور خود فوجی ہیلی کوپٹرز نے فلم بناکر میڈیا کو دی۔

اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو ایک جانب نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ وہ افراد بھی جن کے بال سفید ہونے لگے ہوں، یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر جمہوریت میں رکھا ہی کیا ہے کہ ہم صبح و شام اس کی تسبیح پڑھتے ہیں جب کہ مغرب ہو یا مشرق، فوجی اور غیرفوجی آمر انھیں جب بھی موقع مل جائے وہ جمہوریت کے عمل کو قوت کے استعمال کے ذریعے برسوں پیچھے پھینک دیتے ہیں۔ کیوں نہ خونیں انقلاب کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر کے اسلامی نظام کو نافذ کردیا جائے۔

یہی وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ متٰی انصراللّٰہ ’’اللہ کی وہ مدد کب آئے گی‘‘ جس کے انتظار میں بلالؓ مکہ کی گلیوں میں تپتی ریت پر گھسیٹے جارہے ہیں اورخبابؓ کو دہکتی آگ پر لٹا کر اسلام سے پھرنے کے لیے کہا جا رہا ہے اور وہ اپنے رب کی بندگی سے ایسے خوش ہیں کہ آگ ان کے خون اور پسینے سے ٹھنڈی ہوجاتی ہے مگر وہ جادۂ حق سے سرمُو ہلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ مدد کب آئے گی؟ یہ سوال بالکل فطری ہے لیکن اس کا جواب اپنی محدود عقل اور محدود تجربے کی روشنی میں نہیں، حکمت نبویؐ اور صبرواستقامت ِ صحابہؓ کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔

ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ نوجوانوں کی ایک جماعت فوج میں بعض افراد کو ساتھ ملا کر ایک مبارک رات میں قصرِصدارت، ٹی وی اسٹیشن اور پارلیمنٹ پر اپنا جھنڈا لگاکر اعلان کردیتی ہے کہ اسلامی خلافت قائم کردی گئی ہے۔ صبح فجربعد سے شریعت کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اعلان کے بعد وہ انتظامیہ جو ۶۰ سال سے اللہ کے باغی نظام کو چلارہی تھی، وہ فوج جو بیرونی امداد کے سہارے نہ صرف فوائد بلکہ حاکمانہ اختیارات پر قابو کیے ہوئے تھی، وہ پارلیمنٹ جس کی اکثریت غاصب اور ظالم افراد پر مبنی تھی، کیا وہ سب ایک مبارک رات میں تبدیل ہوکر اسلام کے متوالے نوجوانوں کے اعلان پر اپنا ’مذہب‘ تبدیل کر کے ان کے حواری بن جائیں گے۔ کیا انبیاے کرام ؑ کی دعوت پر طاغوت کی پرستش کرنے والے افراد نے ایسا ہی جواب دیا تھا؟ کیا مکہ اور مدینہ منورہ میں ایک رات میں معجزاتی تبدیلی کے بعد سارا معاشرہ اللہ کا تابع دار معاشرہ بن گیا تھایا مکہ میں تیرہ سال شب و روز کی مشقت اور تزکیے کے عمل سے گزرنے کے بعد حبشہ تک ہجرت کرنے اور جان، مال، گھر، ہرہرشے کی قربانی کرنے کے بعد کامیابی کا راستہ مکہ سے حبشہ ہوتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا اور ان تمام قربانیوں اور صبرآزما مراحل کے باوجود منافقین کی سازشوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اسلام کی کامیابی کا عمل ایک صبرآزما عمل ہے۔اس کی منزل محض پارلیمنٹ اور ایوانِ اقتدار نہیں ہے بلکہ وہ ابدی کامیابی ہے جس کے مقابلے میں محض دنیاوی کامیابی اور پارلیمنٹ میں ۹۰ فی صد نشستیں حاصل کرلینا یا صدارت اور وزارت کے عہدے پر بیٹھ جانا ایک قابلِ تعریف کام نہیں ہے۔ اصل کامیابی وہی ہے، اصل منزل وہی ہے ۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور خصوصی کرم ہے کہ وہ اس جدوجہد میں اپنے بندوں کو اس زمین میں خلافت کا منصب بخش دے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی عنایت ہے اگر وہ اسے مؤخر کرتا ہے تو بھی اس کی حکمت سے وہی آگاہ ہے۔ اگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس دنیا میں کامیابی نہیں دیتا تو اس کا وعدہ کہ وہ صابرین، مجاہدین اور صادقین کو آخرت میں بلند مقامات دے گا، یہ اتنا قیمتی وعدہ ہے اس کے لیے اس دنیا میں پیدایش سے موت تک قربانیاں کرنا ایک سستا سودا ہے۔

اصل بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ جمہوری عمل کا اسلامی جواز کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں اسلام بھلائی، اچھائی اور نیکی کی طرف دعوت کا نام ہے۔ یہ تمام نظاموں کو ایک طرف رکھ کر، اللہ تعالیٰ کے دین کو انسانی معاشرے میں نافذ کرنے کا نام ہے۔ اس میں حکومت، اور حکومتی ادارے ایک اہم مقام رکھتے ہیں جن کا صحیح استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ ان اداروں کی اصلاح بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی افرادِکار کی۔ جمہوری عمل سے مغربی لادینی جمہوریت مراد لینا سادہ لوحی ہے۔ اسلامی تحریک نے کسی بھی مرحلے میں مغربی لادینی جمہوریت کو نہ تسلیم کیا اور نہ اس کی حمایت کی۔ اس کی جگہ تحریکاتِ اسلامی نے مروجہ جمہوری نظام کو پہلے مرحلے میں دستوری تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کی راہ میں ایک زینہ کی حیثیت دی اور اسے بااِکراہ اس حد تک بطورِ حکمت عملی کے اختیار کیا جس سے اس کا اصل ہدف یعنی نظامِ اسلامی کا قیام عمل میں آسکے۔

حالت ِ جنگ میں اگر حکمت عملی کا مطالبہ ہو کہ وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر دشمن کو اپنی زمین پر قبضہ کرنے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اسلامیان پشت پھیر کر اپنی دعوت سے پھر گئے۔ تحریکاتِ اسلامی نے تبدیلیِ قیادت کے لیے حکمت عملی کے طور پر بعض ممالک میں دستور میں تبدیلی کے ذریعے، مثلاً پاکستان میں اور ابھی حال میں مصر، اور بعض مقامات پر بغیر دستور میں تبدیلی لائے پہلے مرحلے میں ایوانِ حکومت میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کی اور پھر ان اداروں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جو لادینیت پر مبنی تھے مثلاً ترکی میں دستوری ترمیمات کے ذریعے فوج کے عمل دخل کو ختم کرنا، گو آج بھی ترکی اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتا ہے۔ اس طویل حکمت عملی میں جب تک ہدف اور منزل واضح ہو اور اس کے لیے اخلاقی ذرائع استعمال کیے جارہے ہوں کم تر بُرائی کا گوارا کرنا تاکہ مناسب وقت پر بُرائی کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے، دین کی حکمت کا لازمی حصہ ہے۔

فقہ اسلامی میں سیاسۃ شرعیہ، مصالحِ عامہ اور قواعد فقیہہ کی روشنی میں غور کیا جائے تو بغیر کسی مداہنت اور مفاہمت کے دین نے شریعت کے نفاذ کے لیے عملی راستے تجویز کیے ہیں۔ یہ ہماری اپنی ناسمجھی ہے کہ ہم اپنے اصل ہدف کو بھول جائیں اور جزوی بحثوں میں اُلجھ کر اپنا وقت ضائع کریں۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا حصولِ مقصد کے لیے اصل طریقہ اور مثال انبیاے کرام ؑ کا دعوتی اسلوب ہے، دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے، حق کی دعوت کو بہترین طریقے سے پہچانا ہے ، دین میں کسی مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ اگر دینی مصالحت کا تقاضا ہو کہ قوت کے استعمال کو مؤخر کیا جائے تو یہ نہ بے ہمتی ہے نہ بزدلی بلکہ یہ عین دین کا تقاضا ہے۔ قرآنِ کریم نے صبر کی اصطلاح کو جس مفہوم میں استعمال کیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صبر کی ایک شکل وہ ہے جو حضرت ایوبؑ کو پیش آئی یعنی جسمانی تکلیف کو اللہ پر اعتماد کے ساتھ بخوشی برداشت کرنا ، یہی شکل حضرت یعقوب ؑ کو پیش آتی ہے لیکن صبر کی ایک شکل وہ ہے جو قرآن کریم سورئہ انفال میں سمجھاتا ہے کہ اگر باطل اور طاغوت کے ساتھ مقابلہ ہو اور صرف ۲۰؍افراد صابر یا مجاہد ہوں تو وہ ۲۰۰پر غالب آئیں گے یعنی تعداد کی کثریت اصل مسئلہ نہیں ہے جب تک ایمان مستحکم ہے، اہلِ ایمان کی چھوٹی جماعت بھی باطل کی بڑی تعداد پر غالب آئے گی۔ حضرت موسٰی ؑکی اُمت میں طالوت اور جالوت کی معرکہ آرائی قرآنی آیات کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے۔

جمھوری جدوجھد کا مقصد

جمہوری جدوجہد سے دراصل جو چیز مراد لی جاتی ہے وہ اس دور کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے ’عوامی رابطہ براے دعوت و اصلاح‘ہے۔ یہی وہ جادئہ حق ہے جسے انبیاے کرام نے اپنے اپنے دور میں اختیار فرمایا اور گھر گھر جاکر شب و روز اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے حتیٰ کہ بعض نے سیکڑوں سال یہ اعلیٰ فریضہ ادا کیا اور اس کے باوجود مطلوبہ نظام قائم نہ کرسکے جب کہ بعض نے مثلاً حضرت یوسف ؑ نے دینی حکمت عملی پر گامزن رہتے ہوئے باطل نظام کو صالح اور عادل نظام سے بتدریج تبدیل کیا، چاہے اس راستے میں انھیں قیدوبند کے مراحل سے گزرنا پڑا ہو۔

دعوتی طریقہ افراد تک پہنچ کر انھیں ایک رشتۂ اخوت میں وابستہ کرنے کے بعد ان کی اخلاقی اور دینی تربیت کے ذریعے انھیں ایک اخلاقی قوت میں تبدیل کرنے کا مرحلہ ہے۔ یہ قوت اگر تعداد میں زیادہ ہو تو کامیابی کا امکان بھی زیادہ ہوگا۔ لیکن اگر یہ قوت تعداد میں زیادہ نہ ہو جب بھی داعی ناکام نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس کی خصوصی امداد کرتا ہے لیکن شرط صرف ایک ہے یعنی صبرواستقامت، مسلسل عمل، اَن تھک کوشش، ہرہروسیلے اور ذریعے کا استعمال، حتیٰ کہ اللہ کی نصرت آن پہنچے اور وہ کم تعداد والے صابرین، صادقین اور مجاہدین کو ان کے خلوصِ نیت کی بنا پر بڑی تعداد والے منکر اور گھمنڈ کرنے والے افراد پر غلبہ دے دے۔

جمہوری عمل سے تبدیلی لازماً صبرآزما عمل ہے اور اسی بنا پر ہرلمحہ انسان سوچتا ہے کہ برسہا برس سے جدوجہد کر رہے ہیں، آخر تبدیلی کب آئے گی؟ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قابلِ قدر کام وہ سعی اور کوشش ہے جو صرف اسی کے لیے کی جارہی ہو۔ نتائج اگر مطلوبہ اندازے کے مطابق ہوں تو یہ صرف اس کی عنایت ہے۔ ہمارے زورِبازو کی بنا پر نہیں ہیں اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے چاہے وہ تاخیر برسوں کی ہی کیوں نہ ہو، تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ صرف وہ ہے جو کسی عمل کی بھلائی اور بُرائی سے آگاہ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ ایک کام کی تاخیر سے وہ اپنے بندے کے لیے کس طرح کی خیر اسے دینا چاہتا ہے۔

اس زاویے سے اگر مصر کا جائزہ لیا جائے تو حالیہ آزمایش جہاں ہر صاحب ِ شعور کے لیے تکلیف و اذیت کا باعث ہے اور واضح طور پر مغربی دوعملی جمہوریت کی ڈفلی بجانے کے ساتھ فوجی آمریت کی حمایت اور اسلام دشمنی کی کھلی دلیل ہے، وہاں وہ لوگ بھی جنھوں نے انتخابات میں صدر مرسی کو ووٹ نہیں دیا فوج کے اس شب خون کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ صدر مرسی نے بعض فیصلے غلط کیے ہوں لیکن کیا کوئی غلط فیصلہ کرنا ایسا جرم ہے کہ اسے ایک جمہوری حق سے محروم کردیا جائے؟ کیا آج تک امریکی صدر کا ہرفیصلہ درست تھا اور اگر اس نے ۱۰۰ فیصلے غلط کیے تو کیا اس بنا پر امریکی عوام ایک سال کا موقع دینے کے بعد اسے منصب سے ہٹاسکتے ہیں ؟ کیا اسی کا نام مغربی جمہوریت ہے؟ گویا اس شر میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خیر کا پہلو یہ پیدا کردیا کہ اخوان کے وہ مخالفین بھی جنھوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا تھا وہ بھی اس جابرانہ عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب اخوان کے رہنماے اعلیٰ نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم قوت کا استعمال نہیں کریں گے جب کہ ایک دن میں قاہرہ یونی ورسٹی میں ۱۷نوجوان اخوان کی حمایت کرنے والے شہید کردیے گئے۔ ایک دن میں پُرامن مظاہرہ کرنے والے عوام پر فوجی یلغار رہی، ۵۳ افراد شہیدہوگئے۔ اخوان کے مرکز اور ملک بھر میں اس کے متعدد دفاتر کو نذرِآتش کردیا گیا ہے اور اخوان کی تحریکِ مزاحمت میں سو سے زیادہ افراد بشمول چار خواتین شہید ہوچکے۔ اس سب کے باوجود اخوان کی پوری تحریک دستوری (legitimacy) اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے اور پُرامن ہے۔ فوج اور پولیس کا نشانہ اخوان کی تحریک ہے، جب کہ تحریر چوک پر مظاہرہ کرنے والے صدر مرسی کے مخالفین پر نہ پولیس نے نہ فوج نے ایک ہوائی فائر تک نہیں کیا ہے بلکہ تازہ اطلاعات کی روشنی میں فوج اور پولیس کے علاوہ بھی غنڈوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اخوان کی مزاحمتی تحریک پر حملہ آور ہورہی ہے۔

اگر مصری عوام صرف دو آنکھیں رکھتے ہوں تو وہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ فوج اور انتظامیہ خصوصاً وزارتِ داخلہ کس طرح دو معیارات کا استعمال کر رہی ہے کہ اخوان کے مظاہروں پر آنسوگیس اور گولی، جب کہ اخوان کے خلاف مظاہروں پر رحمت و تحفظ۔ وزارتِ داخلہ، پٹرولم کی وزارت اور فوج کی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کا کردار جمہوریت کش اور اخوان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو ناکام بنانا تھا۔ بدقسمتی سے خود صدرمرسی کی وزارت میں ایسے لوگ موجود تھے جو حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت کو ناکام کرنے میں مصروف تھے۔ صدرمرسی کی accomdate کرنے کی پالیسی اس خطرناک انتہا تک گئی کہ دشمنوں کو بھی وزارت میں جگہ دی لیکن اس سے بھی ان پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کو ساتھ نہیں لیا۔

اخوان المسلمون جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پُرامن ہیں لیکن سی این این ، سکائی نیوز اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ انھیں جنگجو ( millitant) کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، جب کہ جمہوریت کے باغی سیکولر اور غیرمحب وطن افراد کو عوامی مہم کہا جارہا ہے۔ یہ ابلاغی تعصب کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے، لیکن مغربی اور مصری ابلاغِ عامہ کا بار بار ایک بات کو دہراتے رہنا اخوان المسلمون کے بارے میں صرف ایک ہی تاثر کو گہرا کرتا ہے کہ وہ حکومت چلانے کے قابل افراد نہیں ہیں، جذباتی اور شدت پسند ہیں، جب کہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اخوان تشدد کا نشانہ ہیں اور ملک میں جمہوری عمل سے اصلاح لانے کے عمل سے قوت کے ذریعے روک دیے گئے ہیں۔

حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں اس بات کا امکان ہے کہ ملک گیر بدامنی پیدا ہونے دی جائے تاکہ دوبارہ اخوان پر پابندی لگائی جاسکے اور وسیع پیمانے پر انھیں زیرحراست لاکر حزبِ اختلاف کو بے بس کیا جاسکے۔ مسلم ممالک میں کویت، یواے ای اور سعودی عرب میں فوجی انقلاب لانے والے ٹولے کو فوری طور پر مجموعی امداد کی ۱۲ملین ڈالر رقم کا اعلان کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض مسلم ممالک اسلامی قوتوں سے کتنے خائف ہیں۔

تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس میں اہم سبق یہ ہے کہ ۶۰ فی صد کامیابی کے باوجود تبدیلی کے عمل کو صبروحکمت کے ساتھ کرنا ہوگا تاکہ تبدیلی پایدار ہو، ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور بعض ایسے پہلوئوں کو جو عوامی نفسیات کی روشنی میں بڑے اہم اور بنیادی نظر آتے ہوں اپنی مہم میں اہم مقام دینا ہوگا تاکہ کلمہ طیبہ کا یہ پودا مضبوط تنے اور شاخوں کے ساتھ ایک مرتبہ مستحکم ہوجائے اور اس کا سایہ ہر مظلوم و محکوم کو اپنی آغوش میں لے کر یہ بات باور کرادے کہ صبرواستقامت کے بعد جب اسلامی نظامِ عدل قائم ہوتا ہے تو وہ ہر انسان کے لیے برکت کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں عدل ہے انسانوں کی جان، مال، عزت کا تحفظ ہے اور رنگ، نسل اور زبان کی قید سے آزاد معاشرہ کی تعمیر ہے۔

(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن)

 

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں لیکن اللہ کی ان نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا اور اس کا وہ جس شوق کے ساتھ استقبال کرتے تھے، اس کا احساس اور ذکر خود  ایمان افروزاور اس انعامِ الٰہی کی قدرومنزلت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ آپؐ رجب کا چاند دیکھتے تو دعا فرمایا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبْ وَشَعْبَان وَبلغنَا رَمضَان، اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔

اور پھر جب رمضان کا چاند نظر آجاتا تو لسان نبویؐ سے یہ الفاظ گوہر بن کر ضوفشاں ہوتے:

اَللّٰھُمَّ اَھْلِہٗ عَلَیْنَا بِالْامْنِ وَالْاِیمَانِ والسَّلَامۃِ والْاسِلَام ربّی وربَّک  اللّٰہ (بخاری) اے اللہ ! ہم پر یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ (اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ دیا جس میں رمضان کے بابرکت مہینے کے استقبال کے لیے ہمیں اس طرح تیار فرمایا:

اے لوگو! بہت بڑی عظمت اور بابرکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اور رات کے قیام ( مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے ایک نیکی کا کام کرے گا اس کو دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر ثواب ملے گا، اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔ یہ ’صبر‘ کا مہینہ ہے، صبر کا اجر جنت ہے اور یہ غریبوں کی مالی ہمدردی اور امداد کا مہینہ ہے۔ (مشکٰوۃ)

رمضان کی برکتوں کا ذکر فرماتے ہوئے آپؐ نے اس خطبے میں روزے کے دو اہم پہلوئوں کو اُجاگر فرمایا ہے جو روزے کی روح اور مقصد کو سمجھنے میں مد د دیتے ہیں، یعنی صبر کا مہینہ اور مواساۃ کا مہینہ، یعنی غریبوں اور دوسرے انسانوں کے لیے مالی ہمدردی اور امداد کا مہینہ۔ صبر کا تعلق خواہشات اور جذبات پر قابوکی صلاحیت پیدا کرکے اور رب کی اطاعت اور حق کی راہ میں    ثابت قدمی سے ہے، اور مواساۃ کا تعلق دوسرے انسانوں کے لیے رحمت اور اخوت کے جذبات کو پروان چڑھاکر ایک دوسرے کے لیے سہارا بننے اور انسانی معاشرے کو محبت، تعاون اور سلامتی کا گہوارا بنانے سے ہے۔ قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کے بندوں کے لیے رحمت کی صفات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

روزے کے باب میں قرآن نے تین چیزوں کی طرف خصوصیت سے ہمیں متوجہ کیا ہے:

  •  لَعَلَّکُمْ یَتَّقُوْنَ، تاکہ ہم صاحب ِ تقویٰ بن جائیں۔
  •  لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، تاکہ تم اپنے رب کا شکر ادا کرو۔ اس کی اس نعمت پر کہ اس نے تم کو قرآن سے جو عطیہ فرقان و ہدایت ہے، نوازا اور اس مہینے میں اس کا نزول شروع ہوا۔
  •  لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ،تاکہ تم اس انعام خداوندی اور عطاے ہدایت ربانی پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور قرآن کے پیغام کو پھیلااور بلند کرکے اس انعام کا شکر ادا کرو۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبارک مہینے سے فائدہ اُٹھانے کا مؤثر ترین نسخہ    اس طرح بیان فرمایا : ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبارک مہینے کو نیکیوں کی فصلِ بہار قرار دیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک انعامِ خاص ہے کہ پاکستان کا قیام اس مبارک مہینے میں بلکہ ۲۷رمضان المبارک کو ہوا اور اس سال بھی ۱۱مئی کے انتخابات کے بعد یہ مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو رہا ہے۔ آیئے رمضان المبارک کے نعمت خداوندی ہونے کے مختلف پہلوئوں پر غور کریں اور پھر اس مبارک مہینے میں اپنے، اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے حالات پر ایمان اور احتساب کے ساتھ  نظر ڈالنے کی کوشش کریں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی توفیق سے نوازے اور پاکستان، اُمت مسلمہ اور تحریکِ اسلامی کو بھی ان اخلاقی، مادی اور اجتماعی قوتوں کے حصول کی سعادت سے فیض یاب کرے جو دورِحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لائق بنائیں۔


روزہ اسلام کے نظامِ تربیت و اصلاح کا ایک بنیادی رکن ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام کے نظامِ تربیت میں عبادات اور معاملات کے ذریعے نہ صرف فرد، بلکہ معاشرے اور پوری انسانیت کے لیے کرنے کے ایسے کام فرض کیے ہیں جن میں سے ہر ایک اس نظامِ تربیت کو قوت اور سہارا دیتا ہے ۔ روزے کے بارے میں جامع تعریف مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے یوں فرمائی ہے: ’’روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے   میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، لاہور، ۱۹۷۷ء، ص ۶۷)۔ اسی پہلو کو کچھ مختلف الفاظ میں محترم مولانا یوں فرماتے ہیں : ’’نہ صرف روزہ بلکہ تمام عبادات کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے آدمی کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنادیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے‘‘(خطبات، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۱۹)۔ گویا عبادات انسان کے مقصد وجود کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo  (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت و بندگی کریں‘‘۔

ایک بنیادی فرق روزے اور دیگر عبادات میں یہ ہے کہ ان کی ادایگی ایک قابلِ محسوس شکل رکھتی ہے، جب کہ روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جسے صرف وہ جس کی عبادت کی جارہی ہے، جانتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ابن آدم کا ہر (نیک) عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰نیکیوں کے برابر، حتیٰ کہ ۷۰۰ گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے سواے روزے کے جو صرف میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔(مسلم، حدیث ۱۱۵۱)

یہ دوسروں کو نہ نظر آنے والی عبادت اثرات و نتائج کے اعتبار سے صحیح معنی میں جہادِاصغر کہی جاسکتی ہے، کیونکہ اس میں نفس میں پائی جانے والی اور مخفی بغاوت (طاغوت) اور انانیت (شیطان) جو ایک انتہائی بھلے اور راست باز انسان کو وقتی طور پر اپنے قابو میں لے آتی ہے، اس کو پورے ایک ماہ کے لیے ایک نظر نہ آنے والے قیدخانے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے بیڑیاں پہناکر قیدکردیا جاتا ہے۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: تمھارے پاس رمضان کا مہینہ آپہنچا۔یہ بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے، اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس میں شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی، حدیث۲۱۰۶، بخاری، حدیث۳۲۷۷)

عام دنوں میں شیطانی وساوس مومن کو بہت سے نیک کاموں سے روکنے کے لیے نئی نئی شکلوں میں مزاحم ہوتے ہیں لیکن رمضان ایسا موسمِ بہار لے کر آتا ہے جس میں فضا بھلائیوں کے لیے سازگار اور بُرائیوں کے لیے سدِراہ بن جاتی ہے۔ روزہ ایک ڈھال بن کر آتا ہے۔ اس لیے اگر کسی روزہ دار کو کوئی شخص جھگڑے پر آمادہ کرنا چاہے تو وہ صرف یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ    ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ (بخاری، حدیث ۱۹۰۴، مسلم، حدیث ۲۷۶۰)

یہ ہمت، یہ اعتماد اور یہ حوصلہ کہ ایک دھمکی کا جواب ہاتھ سے دینے کی صلاحیت ہو اور پھر بھی صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا جائے میں روزے سے ہوں، صرف ایسی صورت حال ہی میں ہوسکتا ہے جب ایک شخص کو یہ شعور اور آگہی ہو کہ وہ ایسے نظامِ تربیت سے گزر رہا ہے جس میں ہرنفسیاتی ردعمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی کے تابع ہو۔ یہ ضبط نفس صرف اور صرف رمضان ہی کی برکت سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس ماہ کی برکات اور اس عبادت کے ذریعے اپنی شخصیت و سیرت میں  انقلابی تبدیلی کا عمل ہم اسی وقت کرسکتے ہیں جب چند باتوں سے اجتناب کیا جائے اور ایسے عمل کو وظیفۂ حیات بنا لیا جائے جو رمضان کے دوران اور اس کے بعد ہمارے ہر سانس، ہرقدم، ہرخیال، ہرمنصوبے اور ہر ارادے کو صحیح رُخ اور معنی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جن چیزوں سے بچنے اور اجتناب کرنے سے یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے لیکن تعداد میں کم ہونے کے باوجود ان سے بچنے کے لیے مضبوط عزم اور اللہ تعالیٰ کے آنکھوں کے سامنے ہونے کا تصور ضروری ہے۔ ان میں جنسی لذت کی نیت سے قربت، غذا، پانی، جھوٹ اور جاہلیت کے دور میں کی جانے والی عادات شامل ہیں۔ ’’جو شخص جھوٹ بولنے، اس کو پھیلانے اور جہالت کی باتوں کو  ترک نہیں کرتا تو اللہ رب العزت کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے کھانے پینے کو ترک کرے‘‘(بخاری، حدیث ۱۹۰۳)۔ خصوصاً زبان کی احتیاط کہ کوئی فحش بات نہ ہونے پائے۔

یہ نظامِ تربیت جن مطلوبہ صفات کو جِلا بخشتا ہے ان میں سرفہرست تقویٰ کی روش ہے (البقرہ۲:۱۸۳)۔ دوسری صفت صبر، یعنی ایک جانب اپنے آپ کو نفس کے مطالبات سے روکنا اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری پہلو سے بھلائی، قیامِ حق اور نظامِ عدل کے قیام، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کے نظام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کو استقامت کے ساتھ کرتے ہوئے اس پر جم جانا ہے۔ ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘ (الزمر ۳۹:۱۱)۔ وھو شھرُ الصَّبرِ  (مشکوٰۃ عن سلمان الفارسیؓ)۔ تیسری مطلوبہ صفت حاجت مندوں اور معاشرے کے غریب افراد کے ساتھ ہمدردی کی صفت کا پیدا کرنا ہے۔ … وَشَھرُ المُواسَاۃِ (مشکوٰۃ عن سلمان الفارسیؓ)۔  یہ ہمدردی مالی بھی ہوسکتی ہے، غذا فراہم کر کے، لباس دے کر، حتیٰ کہ ایک ملازم پر سے اس کا بوجھ  کم کرنے کی شکل میں بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اس مہینے میں غیرمعمولی طور پر آپؐ کی جود و سخاوت بارش لانے والی ہوائوں کو مات کردیتی تھی (متفق علیہ)۔ اس دوران آپؐ  سے جو کچھ مانگا جاتا آپؐ انکار نہیں فرماتے تھے۔ (مسنداحمد)

رمضان اور احتساب

ان اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کی تربیت کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ ایک اور اہم پیغام بھی   لے کر آتا ہے جو تمام عبادات اور معاملات کے مغز کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی جو بھلائی بھی کی جارہی ہے یا جس کے کرنے کی تربیت حاصل کی جارہی ہے اس کا محرک اصل میں کیا ہے۔ صادق الامین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من صام رمضان ایماناًواحتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘ (بخاری، حدیث ۱۹۰۱، مسلم، حدیث ۱۷۵)۔ اگر غور کیا جائے تو یہ جامع قولِ حق و صداقت، یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے کا رکھنا روزے کی روح ہے اور رمضان سے قبل پیش آنے والے تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت۔ ان کا تجزیہ کرکے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے کی تربیت ہے۔اس سلسلے میں وہ حدیث بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے جس میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ’’قیامت کے دن اللہ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لے لیا جاتا۔     اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری، دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، جسم کو کس کام میں گھلایا۔ (ترمذی،عن ابی برزۃ الاسلمی )

حضرت عمرؓ کے مشہور قول حاسبوا قبل ان تحاسبوا ’’احتساب کرو، قبل اس کے احتساب کیا جائے‘‘ اور رمضان کے روزے احتساب کے ساتھ رکھنے والی حدیث مبارکہ کی اہمیت تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس احتساب کے مختلف پہلوئوں پر اپنے ذہن کو تازہ کرتے ہوئے اس نسخۂ کیمیا کے ذریعے اپنی تمام بھول چوک  کے لیے اس مبارک مہینے کے روز و شب میں رب کریم سے خصوصی استغفار، استعانت و نصرت کی طلب کے ساتھ کیا جائے، تاکہ بھول اور لغزش فیصلے کی ہو، ذاتی طور پر ذمہ داریوں کی ادایگی میں ہو، انفاق فی سبیل اللہ میں کی گئی ہو، اپنی صلاحیتوں کو وقت پر استعمال نہ کرنے کی ہو، صحیح  منصوبہ بندی نہ کرنے کی ہو یا پورے خلوص کے ساتھ ایک ایسا رویہ اختیار کرنے کی ہو جس کی توقع ایک داعی سے نہیں کی جاتی، کے اثرات نہ ہوں۔ غرض کہ ضرورت ہے کہ ماضی کے ہرہرعمل کے بارے میں خود احتسابی اور دیانت و امانت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس رمضان کا استقبال   کیا جائے۔

اس احتسابی عمل کا آغاز، ایک کارکن ہو یا ذمہ دار، اسے اوّلاً اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کی مہم میں چاہے وہ انتخابی مہم میں حصہ لینے کی شکل میں ہو، کیا وہ فرائض کی ادایگی میں چاق چوبند رہا، یا اپنے خیال میں ایک بھلائی کے کام میں مصروف ہونے کے عذر نے اسے نمازوں میں سستی پر آمادہ کردیا؟ کیا اس کی زبان سے اس کا پڑوسی، حتیٰ کہ اس کا نظریاتی اور سیاسی مخالف محفوظ رہا اور اُس نے حق کا اظہار اس طرح کیا جیسے کہ قرآن نے سنت ِ رسولؐ کا تذکرہ کیا ہے کہ ’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے شفیق اور رحیم ہے‘‘۔ (التوبہ ۹:۱۲۸)

داعی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا قول، قولِ لیّن ہو، اس کا میٹھا بول دل اور روح میں جاگزیں ہوجائے (طٰہٰ ۲۰:۴۴)۔ وہ مخالف کی تلخ کلامی، الزام تراشی، درشتی، غرض ہرہر غلط بات کا جواب مخالف کی زبان میں نہ دے بلکہ حکمت سے دے جس طرح ایک داعی کی زبان اظہار کرتی ہے۔ ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ (حم السجدہ ۴۱: ۳۳-۳۶)

ان اہم قرآنی ہدایات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہرشخص ذاتی طور پر اپنا احتساب کرے اور اس کے ساتھ ہرمسلمان، ہرپاکستانی اور تحریکِ اسلامی کا ہرکارکن موجودہ حالات کے تناظرمیں اپنا، اپنے رویوں اور احساسات، اپنے مقاصد، اہداف اور سرگرمیوں کو، اور جو عہد اس نے اپنے اللہ سے کیا ہے اس کی روشنی میں احتساب کے ساتھ عزمِ نو کا عہد کرے، تاکہ رمضان کی برکتوں سے وہ خود بھی فیض یاب ہو اور ملک و ملت اور تحریک و دعوت کو بھی قوت حاصل ہو۔ یہ جائزہ جہاں دنیا، اُمت اور پاکستان کے عمومی حالات کی روشنی میں لیا جانا چاہیے وہیں خود تحریکِ اسلامی اس وقت جس مرحلے سے گزر رہی ہے اور حال ہی میں ملک گیر انتخابی معرکے نے جو نئے چیلنج اُبھارے ہیں ان کو سامنے رکھ کر یہ کام کیا جائے۔

ہم نے بات کا آغاز اس حدیث مبارکہ سے کیا تھا جس میں ایمان و احتساب کے   ساتھ رمضان کے روزوں کو رکھنے کی برکت، یعنی اللہ کی طرف سے مغفرت کا تذکرہ ہے۔ کسی بھی رابطہ عوام مہم میں جو مراحل پیش آتے ہیں وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ کسی بھی نظریاتی گروہ کو پیش آسکتے ہیں۔ ان میں سے چند پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

۱- وسیع پیمانے پر عوامی رابطہ مھم کا مقصد: اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مہم کا مقصد کیا صرف حصولِ اقتدار تھا یا رضاے الٰہی کا حصول اور دین کے قیام کے لیے سلطہ کا حصول۔ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو لے جا (مکہ سے مدینہ منورہ) سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں کہیں سے بھی نکال (مکہ مکرمہ سے) سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘۔

اقامت دین کی جدوجہد میں اقتدار بذاتِ خود نہ کبھی مقصود تھا نہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ دین کے نفاذ کا تشریعی ذریعہ ہے۔ قرآن کریم کے تمام احکامات کا نفاذ اسی ذریعے کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسلامی رفاہی اصولوں کا نفاذ ہو، یا زکوٰۃ کا نظام ہو یا نماز کا یا حج کا، ابلاغِ عامہ کے برقی ذرائع سے حیا، سچائی ، عدل و انصاف کے اصولوں کی تعلیم دینا ہو، یا تعلیم گاہ میں جدید علوم کی آگاہی، یا جداگانہ نظامِ تعلیم ہو، یا عدالتوں میں سچے، جری اور متقی قاضیوں کا تقرر ہو۔ اسی طرح اسلامی تعزیرات کا نفاذ ہویا حدود پر عمل، ہر ایک کے نفاذ کے لیے سلطہ، اقتدار کا حصول دینی مطالبہ ہے جو نصوص قرآنی کی بناپر قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہے۔ رمضان مطالبہ کرتا ہے کہ اس فریضے کی ادایگی کے حوالے سے ذاتی اور اجتماعی احتساب کیا جائے کہ رابطہ عوام مہم میں کہیں ذات اور قریب المیعاد مقاصد تو نہیں آگئے؟ کیا یہ صرف اور صرف ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے برپا کی گئی؟

۲- مخاطب کی نفسیات و مسائل کا اِدراک: کیا عوامی مہم میں اس بات کو پیش نظر رکھاگیا کہ جن عوام الناس کو افہام و تفہیم کی جارہی ہے ان کے بنیادی مسائل___ بے روزگاری، تعلیم کا نہ ہونا، صاف پانی کا میسر نہ ہونا، جان مال اور عزت کا تحفظ نہ پایا جانا، ملک میں گرانی کی آفت کا پایا جانا، صحت اور زندگی کی سہولیات کا نہ پایا جانا، صنعت کاروں کا بجلی کی عدم موجودگی کے سبب کاروبار میں خسارہ اور عوام کا گرمی اور سردی دونوں میں پریشان ہونا___ کیا اِن مسائل کے قابلِ عمل حل عوام کے سامنے پیش کیے گئے اور انھیں اپنے ساتھ شامل کیا گیا یا ملاقاتوں اور اجتماعات میں نظری گفتگو اور حالات کی صرف منفی تصویر سامنے پیش کی گئی۔ اسلام اُمید کا نام ہے۔ نصرتِ الٰہی پر یقین کے ساتھ بہترین نتائج کی بشارت اور ان کے لیے کوشاں ہونے کا نام ہے۔  کیا ہم لوگوں میں اُمید اور حالات کے قابلِ تبدیل ہونے کا احساس پیدا کرسکے۔ کیا ملک کے عوام اور نوجوانوں پر طاری مایوسی کو ہم نے ایک الگ، مثبت اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کر کے دُور کیا یا ہم بھی منفی اور غیرتعمیری تنقید کے دائرے میں گھومتے رہے۔

۳-مخالفین سے رویہ: کیا اس مہم کے دوران ہم نے مختلف الخیال افراد تک پہنچ کر انھیں حکمت، موعظہ حسنہ اور اپنی نرم گفتاری سے اپنے سے قریب کیا یا انھیں مخالف اور محارب کے خانے میں دھکیل دیا۔ قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ کل تک جو ہمارا دشمن تھا ہم اسے اپنی بھلائی سے ولی حمیم میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی وضع کریں، اور پھر احتساب کریں کہ اللہ کی نصرت سے ہم کتنے مخالفین کو غیرجانب دار کرسکے۔ کتنے افراد کو تحریک کے ماحول میں لاسکے اور کتنے ہمدردوں کو سرگرم کارکن بناسکے۔ اگر رابطہ عوام مہموں میں ایک ایک کارکن صرف تین ایسے افراد سے رابطے قائم کرکے، جن میں سے ایک مخالف کو ہم خیال ، ایک لاتعلق کو متعلق اور ایک متعلق کو   کارکن بنانے کی حکمت عملی پر عمل ہو، تو پانچ نہیں ایک سال میں تحریک سے وابستہ افراد میں تین گنا اضافہ ہوسکتا ہے، اور اس طرح دعوتِ دین وسیع تر حلقے تک پہنچانے میں اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں۔

۴- اپنے گہر کی فکر: اس پہلو سے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوت کی اشاعت کے لیے جن جن محاذوں پر کام کیا، کیا ان میں گھر بھی شامل رہا ، اور اگر شامل رہا ہے تو  کس حد تک ابلاغی خلا (communication gap) دُور کیا جاسکا۔ عام مشاہدہ ہے کہ نظریاتی طور پر بچوں پر اثرات کے باوجود بعض گھروں میں عوامی مہم ہو یا انتخابات کا معاملہ،  والدین اور بچوں کے فیصلے حالیہ انتخابات میں یکساں نہیں رہے۔ اس میں جہاں یہ پہلو مثبت ہے کہ بچوں نے اپنی آزادیِ راے کا استعمال کیا، لیکن کیا انھیں اچھے انداز میں ان کے فیصلے کے اثرات سے آگاہ کیا گیا؟

۵- نوجوان قیادت: تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کے قائدین نے عمر کے جس مرحلے میں عوامی رابطے کا آغاز کیا وہ خود ان کا بھی دورِ جوانی تھا جس کی بنا پر نوجوانوں کو متحرک کرنے اور attract کرنے میں انھیں آسانی ہوئی۔ اس بات پر غور کرنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی رابطے میں جن افراد کو اُمیدوار نامزد کیا گیا، کیا وہ نوجوانوں کو اپیل کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے، یا ہماری توقع کے باوجود صحیح نتائج حاصل نہ کرسکے۔تحریکات کی حیات کا انحصار نئے خون اور نئے ولولے، نئے زاویے، نئے طریقے تلاش کرنے والے ذہنوں کے ساتھ ہے۔ بلاشبہہ حکمت جس چیز کا نام ہے وہ محض علم سے حاصل نہیں ہوسکتی، نہ صرف تجربے سے اور، نہ صرف عمر کی بزرگی سے۔ بعض نوعمرصحابہ کرامؓ خلفاے راشدین کی شوریٰ کے رکن تھے۔ بعد کے اَدوار میں بعض نے سندھ اور بعض نے اسپین اور چین پر یلغار کی، جب کہ ان کے بال سیاہ تھے۔ خود حضرت اسامہ بن زیدؓ کا فوج کی قیادت کرنا ایک سبق آموز مثال ہے۔ تحریک کو اپنی عوامی رابطے کی دعوتی مہم کے لیے ایسے نوجوانوں کو آگے بڑھانا ہوگا جو پاکستان کے ۶۶فی صد نوجوانوں سے ان کی زبان میں بات کرسکیں۔ یہ ایک اہم اسٹرے ٹیجک معاملہ ہے اور اسے نظرانداز کرنا تحریک کے مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔

۶- انفاق فی سبیل اللّٰہ:عوامی تحریکات میں دُوردراز علاقوں بلکہ مقامی اجتماعات کے لیے جو بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے اور انتظامی اُمور میں جو مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، نظریاتی تحریکات اس کے لیے ہمیشہ اپنے کارکنوں پر بھروسا کرتی ہیں اور وہ خود یا دوسروں کے تعاون سے وسائل پیدا کرتے ہیں۔ یہی درست طریقہ ہے لیکن اسے وسیع کیے بغیر آج کے دور کی ضروریات پوری نہیں کی جاسکتیں۔ اس بات کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہرکارکن نے مالی انفاق میں حصہ لیا اور اگر لیا تو کس حد تک۔ کیا وہ ’ہلکے اور بھاری‘ گھر سے نکلا، یا انتظار میں رہا کہ جس رب کے لیے کام کیا جا رہا ہے وہ خود سب کام کرکے اقتدار ہمارے حوالے کردے گا؟ کیا تمام ممکنہ قوتوں وقت، مال، صلاحیت کو لگاکر منزل کے حصول کی کوشش کی گئی یا ضابطے کی کارروائی کے طور پر کام کیا گیا اور اُمید یہ کی گئی کہ ووٹر خود اپنا ووٹ لسٹ میں چیک کریں گے اور خود جاکر راے کا استعمال کریں گے، جب کہ بہت سے اُمیدواروں نے ووٹرز کے لیے ہرمرحلہ خود آسان کر کے انھیں مدد فراہم کی۔

۷- جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال: اس بات کے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم دین کی دعوت اور عوامی مہم میں کس حد تک برقی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا، مثلاً فیس بک یا ٹویٹر یا دیگر ویب کے ذرائع کو استعمال کرسکے یا محض ’عرب بہار‘ کے خودبخود واقع ہوجانے کی اُمید پر قانع رہے۔ ہوسکتا ہے بعض حضرات کو یہ باتیں بعد از مرگ واویلا نظر آئیں لیکن میں سمجھتا ہوں تحریکات کسی ایک یا دو انتخابات میں نہ مستقلاً کامیاب ہوتی ہیں اور نہ مستقلاً ناکام۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے احتسابی عمل ایمان او ر اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ہرمرحلے میں انھیں ہمت، حوصلہ اور اُمید سے روشناس کراتا ہے۔ تنقید ہمیشہ صحت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ بعض باتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں، جب کہ ان میں ہمارے لیے خیر ہوتا ہے اور بعض اچھی معلوم ہوتی ہیں ، جب کہ ان میں شر ہوتا ہے۔

ان چند گزارشات کا مقصد صرف سورئہ حم السجدہ کی آیات کی روشنی میں یہ جائزہ لینا ہے کہ کس طرح تحریک ان ا فراد کو جو کل تک تحریک سے اختلاف کرتے تھے، آیندہ پانچ برسوں میں ایک جامع اور قابلِ عمل منصوبے کے ذریعے نہ صرف اپنا ہم خیال بلکہ اپنا جگری دوست بناسکتی ہے۔ اس معاملے میں شیطان بے کار نہیں بیٹھتا۔ اگر ہم ۱۰گھنٹے دن میں کام کرتے ہیں تو وہ دن رات کے ۲۴گھنٹے اپنی شرانگیزی میں لگاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ اللہ کی پناہ میں آیا جائے اور اس کے شر سے بچا جائے، اور اسی لیے کہا گیا کہ مخالف کی ضد، ہٹ دھرمی، تلخ کلامی، الزام تراشی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ بُرائی کو بھلائی سے دُور کیا جائے تو وہی جو کل تک مخالف تھا، سرگرم کارکن بن سکتا ہے۔

رمضان میں جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے تمام ماضی کے گناہ، بھول، غیرشعوری طور پر غلطی سب کو رب کریم معاف کردیتا ہے۔ جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔جس نے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ رات کو قیام کیا اس کے نہ صرف ماضی بلکہ دو رمضانوں کے درمیان تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس ماہ کا ہرلمحہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے تعمیرسیرت، ضبط ِ نفس، عوام الناس کی خدمت، ناداروں اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ملک و ملّت میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی کوششوں میں صرف کیا جائے، تاکہ یہ مہینہ قیامت میں ہماری شفاعت اور گواہی دے کہ ہم نے اس کا حق ادا کردیا۔

 

عالمی تحریکات اسلامی کو اقامت ِ دین اور تبدیلیِ نظام کی جدوجہد میں عموماً پانچ بنیادی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ذاتی اصلاح اور تزکیہ

اوّلین مرحلہ مقصد ِ حیات کے شعوروآگہی کے نتیجے میں اپنی فکر اور ذاتی زندگی میں اصلاح اور تزکیہ کا عمل ہے۔ اس مرحلے میںایک فرد جو کل تک روایتی مذہبی ماحول میں پل بڑھ کر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم سمجھتا تھا کہ ایک خانہ عبادت اور تقویٰ کا ہے جس میں نمازوں کا اہتمام، روزے کی پابندی، عمرے اور حج کی سعادت اور کمائی ہوئی دولت اور کاروبار یا کاشت کاری میں سے ایک حصہ بطور زکوٰۃ کے ادا کردینا۔ یہ تمام کام اگر جزوی طور پر بھی کرلیے گئے تو ایک شخص کی شہرت  دین دار فرد کی بن جاتی ہے اور وہ خود بھی مطمئن رہتا ہے کہ اُس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا حق ادا کردیا۔ اس کے ساتھ اگر اُس نے والدین کی خدمت سال میں ایک مرتبہ اپنے کاروباری مرکز سے جاکر ان کو شکل دکھاکر کر دی یا انھیں کوئی رقم بھیج دی تو وہ سمجھتاہے کہ اس نے تمام فرائض پورے کردیے۔ دوسرا خانہ اس کی کاروباری اور پیشہ ورانہ زندگی کا ہوتا ہے جس میں وہ بطور تاجر، بطور طبیب، بطور استاد، بطور سرکاری ملازم مقررہ وقت پر حصولِ نفع کے لیے کام کرتا ہے اور جس شعبے سے تعلق ہو اُس کے رواج کو بنیاد بناکر شہرت حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ کاروباری ہے تو کاروباری برادری میں مروجہ طریقوں کی پیروی کرتا ہے، چاہے ان میں اسے جھوٹ بولنا پڑے اور اپنے مال کو فروخت کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو پامال کرنا پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر دوسروں سے آگے بڑھنا اور اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازم ہے تو اپنی تمام نمازوں اور روزوں کے ساتھ وہ اپنے سے اعلیٰ افسر اور اقتدار پر قابض افراد کو اپنا مالک اور رب مانتے ہوئے ہرلمحہ ان کی خوش نودی اور بندگی کے ذریعے اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہوا کے رُخ کو دیکھ کر چلتا ہے اور حکمران جماعت کے ہرحکم کو اپنی ذہانت کے استعمال سے نافذ کرنے میں سرگرم رہتا ہے۔

زندگی کے یہ دوخانے نہ صرف عام کاروباری انسان یا پیشہ ور افراد ہی نہیں، بلکہ ان میں سے بھی کچھ جو دین کے خدمت گار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی زندگی کو عملاً ان دو خانوں میں تقسیم کرنے کو عین دین کے مطابق سمجھتے ہیں اور اس طرح شعوری یا غیرشعوری طور پر دین و دنیا کے الگ الگ اصولوں پر عمل پیرا رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ منبرومحراب سے جس اعلاے کلمۃ الحق پر خطاب ہوتا ہے یا معاشرتی حقوق پر دل گداز اظہارِ خیال کیا جاتا ہے اپنے گھر اور اپنی برادری میں شادی بیاہ کے موقع پر ان تمام اصولوں اور خطابات کے برخلاف وہ تمام رسوم ادا کی جاتی ہیں جن کی بنیاد ہندومت، قبائلیت اور جاہلی برادری کے نظام میں پائی جاتی اور جو دین اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر کہا جاتا ہے کہ آخر برادری میں رہنا ہے، اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو برادری والے کیا کہیں گے۔ زندگی میں یہ تقسیم آج کے دور کی پیداوارنہیں ہے۔ یہ تقسیم جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے، پائی جاتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے کہا تھا کہ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ(البلد ۹۰:۱۰) ’’ہم نے دونوں راستے دکھا دیے‘‘۔ حق و باطل کی نشان دہی اور اچھائی اور بُرائی کے راستوں کا علم ہونے کے باوجود، روایتی مذہبیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی بلکہ فخر سے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ دین و دنیا دونوں میں توازن رکھنا ہی اسلام ہے۔ چنانچہ زندگی میں تقسیم کے ذریعے بیک وقت دو خدائوں کی بندگی کرنے کے فن کو کامیاب زندگی قرار دیا جانا ہے۔ قرآن کریم دوسری جانب یہ واضح ہدایت دیتا ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کرتے ہوئے انسان پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوجائے۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔

تحریکاتِ اسلامی قرآن کریم کے اس مطالبے کو اپنی دعوت کا اوّلین نکتہ قرار دیتی ہیں اور جب بھی ایک شخص کا تحریکی شعور جاگتا ہے وہ زندگی میں اس تقسیم سے نجات حاصل کر کے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں، اپنے کاروبار اور اپنے تمام ’دنیاوی‘ معاملات میں صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا بندہ بن کر اپنے تمام معاملات کو صرف اس کی رضا کا تابع فرمان کردینے میں لگ جاتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی بھی پائی جاتی ہے جو پہلے جاہلیت کی زندگی گزارتے تھے اور نجی زندگی میں بھی اسلام کے احکام اور تعلیمات کی پاسداری نہیں کرتے تھے لیکن جب اللہ نے انھیں ہدایت دی تو بتدریج انھوں نے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کے تضادات دُور کرنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس دعوت کے نتیجے میں ایک نومسلم کے جذبے کے ساتھ اپنی زندگی کو مکمل طور پر عبدیت میں تبدیل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

اھلِ خانہ پر توجہ

دوسرا مرحلہ ان کا اپنی ذات سے آگے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کو اس نئے شعورِحیات سے واقف کرانا اور اپنی عملی زندگی کے نمونے کے ذریعے بندگیِ رب کی دعوت دینا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اور ہرہم خیال فرد اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات پر جواب دہ ہے کہ جو ہدایت اُس تک پہنچی اس نے اسے اپنے اہلِ خانہ تک پہنچایا یا نہیں اور اپنے عمل سے کس حد تک اس دعوت کی عملی مثال پیش کی۔ اگر وہ بڑے بڑے اجتماعات میں تزکیۂ نفس پر تقاریر کرتا ہے اور گھر میں اس کا طرزِعمل ایک جابر اور نفس پرست انسان کا ہے اور وہ صرف اپنے آرام، اپنی سہولت، اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے تو اس نے خود ابھی تک دعوت کا صحیح شعور حاصل نہیں کیا۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہے، نہ مختصر ہے بلکہ مسلسل شعوری جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور عین ممکن ہے مسلسل کوشش کے باوجود بھی ایک کارکن اپنے اہلِ خانہ کو مکمل طور پر تحریکی شعور نہ دے سکے۔ قرآن کریم بعض انبیاے کرام ؑ کے واقعات بیان کرکے سمجھاتا ہے کہ یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ بہترین کوشش کے باوجود ایک بیوی یا ایک بیٹا یا ایک بیٹی سربراہِ خاندان کی طرح دعوت کو اختیار نہ کرے۔ ایسی شکل میں قرآن نااُمیدی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ آخروقت تک کوشش کرتے رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اہم بات جو اس مرحلے میں ہرکارکن کے لیے قابلِ غور ہے وہ اس کی کامیابی سے بھی کہیں زیادہ اہم اس کی وہ پُرخلوص کوشش ہے جو اسے اِس دنیا اور آخرت دونوں جگہ بہترین اجر کا مستحق بناتی ہے، یعنی رضاے الٰہی کا حصول۔

قرب و جوار میں شعور کی بیداری

تیسرا مرحلہ اپنے خاندان سے آگے نکل کر اہلِ محلہ اور اردگرد کے معاشرے کو دینی شعور سے آگاہ کرنے کا ہے اور اس میں سب سے زیادہ بنیادی کردار مسجد اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ہے۔اگر ایک کارکن مسجد میں نظر نہیں آتا اور ہر عوامی مظاہرے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے تو یہ اس دعوتی مرحلے کی کمزوری کی علامت ہوگی اور ایک عام فرد اسے سیاسی کارکن تو سمجھے گا دین کا کارکن نہیں سمجھے گا۔ مسجد میں چندلمحات کے لیے قرآن کی تلاوت اور اگر ممکن ہو تو ایک ایسے حلقے کا قیام جو صرف قرآن کریم پر غور کرنے کے لیے قائم ہو، اس مرحلے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان تمام مشکلات کے علی الرغم جو مساجد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں اگر حکمت سے کام کیا جائے تو قرآنی حلقے کا قیام ممکن ہے۔ آخر بعض تبلیغی جماعتوں کے افراد ہر مسجد میں کھڑے ہوکر مقررہ جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فرد یہ بات نہ کہہ سکے کہ نماز کے بعد پندرہ منٹ کے لیے قرآنی حلقہ ہوگا اس میں شرکت کی درخواست ہے۔

اگر یہ کام خلوصِ نیت سے ذاتی اَنا کو رد کرتے ہوئے کیا جائے گا تو ان مساجد میں بھی جہاں تحریک کے ساتھ فکری ہم آہنگی موجود نہ ہو وہاں بھی ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر ایک کارکن جو اہلِ محلہ سے نہ ملتا ہے نہ ان کے غم اور خوشی میں شرکت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسجد میں اس کے اعلان پر لوگ درس میں شرکت کرلیں تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہے۔ ایک کارکن کا طرزِعمل ہی اسے عوام الناس میں تحریک کی دعوت سے روشناس کرانے کا اصل ذریعہ ہوتا ہے۔

دعوت کے مختلف مواقع کا استعمال

چوتھا مرحلہ اہلِ محلہ سے آگے بڑھ کر اپنے گائوں اور اپنے شہرمیں ان مواقع کا استعمال کرنا ہے جو تحریکی دعوت کو عام کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔ یہ ماہانہ فکری حلقہ بھی ہوسکتا ہے ادبی حلقہ بھی، اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ایک سلسلہ بھی۔ یہ بیٹھک اسکول بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے طبی مشورہ اور امداد کا مرکز بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سلائی سکھانے کا ادارہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ محلے کے بچوں یا بچیوں کو مختلف درجوں میں کوچنگ فراہم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ فلاحی کام وہ سنت ہیں جنھیں اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیا جائے تو دعوت کے پھیلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بوڑھی خاتون کی عیادت کرنا اور حضرت ابوبکرؓ کا خلافت کے بعد بھی ایک بوڑھی خاتون کی بکریوں کا دودھ دوہنا خدمت ِ خلق کی وہ واضح مثالیں ہیں جن پر عمل کرنا سنت پر عمل کرنا ہے۔

شہروں اور گائوں میں طبی مراکز، تعلیمی مدارس، یتامیٰ اور ناداروں کے لیے تربیتی و تعلیمی اداروں کا قیام، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد یہ وہ اہم کام ہیں جو دعوت کے لازمی مراحل میں شامل ہیں۔ اگر تحریکی کارکن یا قائدین ایسے تعلیمی مراکز تو قائم کردیں جن میں سرکاری نظامِ تعلیم کے نصاب کے مطابق سیکڑوں اور ہزاروں بچوں کو تعلیم دی جارہی ہو لیکن ان طلبہ و طالبات کے ساتھ اساتذہ کا طرزِعمل کاروباری ہو، اور رضاے الٰہی کے حصول کی جگہ محض تنخواہ کا حصول مقصد بن گیا ہو تو پھر بظاہر تعلیمی شعبے میں کام پھیلنے کے باوجود اس کی دعوتی افادیت صفر بلکہ منفی صفر رہے گی۔ اس حوالے سے اعلیٰ ترین سطح پر اور انتظامی سطح پر یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی زیرنگرانی اسکولوں کا ایک سلسلہ (chain)موجود ہے جس میں ایک ایک اسکول سسٹم نے تین تین سو اسکول قائم کررکھے ہیں تو کیا ان اسکولوں کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین تک دعوت مؤثر طور پر پہنچائی گئی یا نہیں؟ اگر اس بڑے دعوتی بنک کو ضائع ہونے دیا گیا اور محض ہراسکول میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کو مقصد بنا لیا گیا تو پھر یہ دعوت سے صریح انحراف ہے۔ طلبہ کے والدین تک پیغام پہنچانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسکول کے سالانہ پروگرام میں دین اسلام پر کوئی جوشیلی تقریر ہوجائے بلکہ اسکول کی نصابی سرگرمی کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ و طالبات میں دین کا شعور، بنیادی تصورات کی وضاحت اور ان کے ذریعے ان کے والدین سے قریبی رابطہ تاکہ ان کے سامنے ایک ایسا عملی ماڈل آسکے جس میں تعلیم میں اعلیٰ مہارت کے حصول کے ساتھ وہ اپنے بچے میں سیرت و کردار کی تبدیلی دیکھ سکیں اور خود ان کو  والدین اساتذہ اجتماعات کے ذریعے دعوت کا شعور دینا، انھیں مختلف مواقع پر دعوت دے کر تبادلۂ خیال کے ذریعے تحریک سے قریب لانا۔اگر صرف تحریکِ اسلامی کے افراد کے قائم کردہ اسکولوں میں بچوں اور ان کے والدین تک دین کا صحیح تصور دیا جائے اور عملاً اسلامی اخلاق پر عمل کیا جائے تو نتائج کے لحاظ سے یہ کسی عظیم الشان جلسے یا دھرنے سے کم مؤثر نہیں ہوسکتا۔ اگر صرف اسکولوں کے سلسلے کو صحیح طور پر استعمال کرلیا جائے تو ہزاروں لاکھوں گھروں تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچ سکتا ہے اور یہ لوگ آخرکار اپنے سیاسی تصورات پر غور کرنے پر آمادہ ہوں گے اور ’دعوتی ووٹ‘ سیاسی ووٹ میں تبدیل ہوسکے گا۔

مؤثر دعوت اور افراد کی تنظیم سازی

پانچواں مرحلہ قومی سطح پر اپنی دعوت کو مؤثر انداز میں ملک کے مختلف طبقات تک پہنچانے اور ملکی سطح پر ان افراد کو ایک تنظیم میں شامل کرنے کا ہے جو دعوت سے اتفاق رکھتے ہوں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں خود تحریکی ذہن رکھنے والے افراد خلوصِ نیت کے ساتھ ایک سے زائد طریق کار اور حکمت عملی کے ممکن ہونے کی بنا پر بعض اوقات مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس پانچویں مرحلے کے اوّلین حصے پر، یعنی اقامت دین کی دعوت کو کس طرح اس کے مخاطبین تک پہنچایا جائے؟ ایک سے زائد طریق کار کا وجود بارہا یہ سوال ذہن میں اُٹھاتا ہے کہ کیا جو طریق کار دعوت کے لیے اختیار کیا گیا ہے یہی سب سے زیادہ مناسب اور سنت انبیا کی روح اور مثال سے قریب ہے یا اس کے علاوہ دیگر طریقۂ ہاے کار بھی حصولِ مقصد کے لیے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟

بعض حضرات کے نزدیک اگر صرف عبادات کے صحیح طریقے کی اصلاح کرلی جائے تو دین کی اقامت ہوجاتی ہے چنانچہ وہ عبادات کی ظاہری شکل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ کچھ حضرات زندگی کے اسلامی ہونے کے لیے قلب کو مرکز قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قلب کی اصلاح ہر شے پر مقدم ہے اور اس غرض سے اذکار اور اوراد کا اہتمام ساری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ بلاشبہہ مسنون اذکار و اوراد تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہیں لیکن اگر باقی اُمور کو نظرانداز کر کے صرف اذکار کو دین سمجھ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروبارِ حیات کے بہت سے اہم معاملات کو تزکیۂ قلب کی روح کے منافی سمجھتے ہوئے ترک کردیا جائے گا اور دین و دنیا کی تقسیم کو مزید مستحکم کردیا جائے گا اور اللہ والے افراد خانقاہوں اور زاویوں میں گوشہ نشین ہونے اور دنیاوی معاملات کو خیرباد کہنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔ یہ طرزِفکر روحانیت میں اضافے کو بنیادی اہمیت دیتا ہے تاکہ قلب کی دنیا میں تبدیلی آجائے اور قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر جائے تو پھر نظامِ کفر ہو یا استحصالی معاشرہ ہر ایک فرد خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔

ایک طرف یہ رویہ ہے تو دوسری طرف منہج نبویؐ کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے اور  قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے انبیاے کرام ؑ کے طریق کار کے تجزیے کے نتیجے میں ایک نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ اقامت دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حضرت سلیمان ؑ سلطنت اور حکومت کو قائم فرماتے ہیں۔ حضرت دائود ؑ کو اللہ تعالیٰ خلافت کے منصب پر خود فائز فرماتے ہیں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں مقامِ قیادت اور تھوڑے عرصے میں فاتحِ مکّہ کی حیثیت سے حضرت ابراہیم ؑ کے شہر میں داخل فرماتے ہیں۔ آپؐ مدینہ منورہ میں بین الاقوامی معاہدے کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کے فرماں روائوں کو مدینہ منورہ میں قائم شدہ اسلامی ریاست کے امیر اور اللہ کے نبیؐ کی حیثیت سے دعوتی خطوط تحریر فرماتے ہیں۔ قرآن کریم کی مقرر کردہ تعلیمات کو خاندانی معاملات میں، معیشت میں اور تعزیراتی معاملات میں حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ فرماتے ہیں۔ گویا عملاً کر کے دکھاتے ہیں کہ تزکیہ محض قلب کا نہیں بلکہ معیشت و سیاست کا تزکیہ بھی یکساں طور پر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اس نقطۂ نظر کی روشنی میں جو طریق کار اور حکمت عملی تحریکاتِ اسلامی اختیار کرتی ہیں وہ انبیاے کرام ؑ کے طریق دعوت سے براہِ راست ماخوذ اور اسی پر مبنی ہوتی ہے۔

سیاسی سطح پر تعاون اور عدم تعاون

پانچویں مرحلے کے اس اوّلین پہلو کے ساتھ ہی جو دوسرا اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا تعلق دعوت سے متاثر افراد کی تنظیم، ان میں دعوت کی تطبیق اور جو لوگ دعوت سے اتفاق نہ کرتے ہوں ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا تنظیمی ڈھانچا کیا ہو؟ کیا    یہ ضروری ہے کہ تحریک ہر کام خود کرے یا وہ بعض مقاصد کے حصول کے لیے تقسیم کار کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی عمومی رہنمائی اور تائید کے ساتھ تحریک کے ہم خیال افراد کو معاشی خدمت ِ خلق یا سیاسی معاملات میں بڑی حد تک خودمختاری کے ساتھ کام کا موقع دینی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر اختیارکرے؟

اسی طرح اس مرحلے میں یہ امر بھی غورطلب ہوگا کہ کیا تحریک ہمیشہ سیاسی محاذ پر اپنی دعوت اور اصولوں کی بنا پر تنہا سیاسی محاذ پر کام کرے یا وقتی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے متعین وقت کے لیے تعاون کو حسب ِ ضرورت اختیار کرے؟ ایک زاویہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے کسی قیمت پر اتحاد یا اشتراک نہ کیا جائے اور مکمل طور پر اپنے افرادی اور مادی وسائل پر بھروسا کیا جائے، چاہے تحریک کو حصولِ مقصد میں سو دو سو سال لگ جائیں ۔ وہ ہر کام اپنے نظریاتی اصولوں کے مطابق کرے اور کسی کے ساتھ مخصوص اہداف کے لیے بھی تعاون و اشتراک پر غور نہ کرے۔

دوسروں سے عدم تعاون کے نقطۂ نظر کے لیے فکری بنیاد عموماً قرآن و سنت کے بعض جزوی احکام سے اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام اور جاہلیت، اسلام اور طاغوت، اسلام اور کفر کا مقابلہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو جماعتیں اپنے اہداف اور دعوت کے لحاظ سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے انحراف کرتی ہوں وہ جاہلی جماعتیں ہیں اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں تعاون کرنا اسلام کے منافی ہے۔

اقامت دین اور قیامِ نظامِ اسلامی کی جدوجہد کے اس پانچویں مرحلے میں جو ملک گیر بنیاد پر دعوتِ دین کو حکمت کے ساتھ عوام الناس تک پہنچانے اور انھیں منظم کرنے کا ہے،دعوتی اور سیاسی تنظیم بندی بالعموم یک جان ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مکہ سے مدینہ منورہ آنے کے بعد اسلام کے عالم گیر دعوتی اصول بالخصوص دعوتِ توحید، معیشت اور سیاست کے شعبے میں انقلاب لانے کا سبب بنی۔ اس مرحلے میں تحریک اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح اس کی دعوت کا منطقی اور قرآن و سنت پر مبنی ہونا عوام کو مطمئن کرتا ہے کہ یہ دعوتِ حق ہے، کیا وہی افراد جو اس کی دینی دعوت کو پسند کرتے ہیں تحریک کی سیاسی حمایت اور اُس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریکی کارکنوں کے خلوص اور قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی دعوت کو تو پسند کیا جا رہا ہو لیکن سیاسی فیصلے میں وفاداری، برادری، موروثی سیاست دانوں یا جذباتی نعرے بلند کرنے والوں کے ساتھ ہو اور اگر بالفرض ایسا ہے تو تحریک کی دعوت کی حکمت عملی اس پہلو کو حل کرنے کے لیے اور ان افراد کو جیتنے کے لیے جو دعوت کو تو پسند کرتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت جذبات یا پرانی وابستگی سے متاثر ہوجاتے ہیں،کیا مؤثر اقدامات کرتی ہے؟ اس مرحلے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اگر بعض ایسے سیاسی طبقات کے ساتھ وقتی اور جزوی تعاون کرنا پڑرہا ہے جو چاہے اپنی ذات میں اسلام کے اعلیٰ اصولوں پر عامل نہ ہوں لیکن اس تعاون کے نتیجے میں ملک میں اسلامی معاشرہ اور نظامِ عدل قائم کرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں تو تحریک کا ان کے ساتھ تعاون کرنا وسیع تر حکمت عملی کا ایک جزو سمجھا جائے گا نہ کہ مداہنت کی کوئی شکل! بات بہت واضح ہے، ایسے حالات میں سیاست شرعیہ کا تقاضا ہے کہ ایسے جزوی تعاون کو اختیار کرکے بڑے مقصد کے حصول کے راستے کو ہموار کیا جائے۔ ایسا تعاون کفر اور طاغوت کے ساتھ تعاون قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عصرِحاضر کے تحریکِ اسلامی کے نام وَر مفکرین سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ نے اسلام اور جاہلیت کے حوالے سے جو تصور پیش کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ایک جانب وہ طاغوتی نظام کے خلاف فکری، دستوری اور عملی جہاد کا تصور پیش کرتے ہیں اور دوسری جانب طاغوتی نظام کے زنجیری حلقے کو توڑنے کے لیے نقطۂ آغاز کے حوالے سے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ اگر اصولی طور پر ایک ریاست اپنے آپ کو غیراسلامی ریاست قرار دیتی ہو،مثلاً خود کو سکیولر کہے تو اس کے ساتھ سیاسی معاملات میں شراکت نہ کرنا افضل ہوگا، جب کہ ایک ریاست اصولی طور پر خود کو اسلامی ریاست اپنے دستور کی دفعات کے ذریعے قرار دے لیکن نظامِ حکومت ابھی مکمل طور پر اسلامی نہ ہو تو اس کے معاملات کی اصلاح کے لیے دستور کی روشنی میں معاملات میں شراکت نہ کرنا دین کی حکمت کے منافی ہوگا۔ ایسے حالات میں اُمت مسلمہ کی فلاح اور حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنا، سیاسی جدوجہد کرنا اور اس جدوجہد میں دیگر جماعتوں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے تعاون کرنا دین کی حکمت کے مطابق ہوگا۔ اس کی مثال ایک نومسلم کی حیثیت سے بھی سمجھی جاسکتی ہے جس کا صرف اقرارِ ایمان اسے مسلمان بنادیتا ہے۔ گو ابھی اسلامی شعور اور کردار کا حصول ایک وقت لے گا، بلکہ مدت عمر کا متقاضی ہوگا۔

حکمت عملی کے حوالے سے دوسرا اقدام مروجہ نظام میں موجود افراد کو اس تبدیلی کے لیے آمادہ کرنا ہوگا اور اس غرض سے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، جامعات ہوں یا سرکاری دفاتر،  فوج ہو یا مذہبی اُمور میں رہنمائی کرنے والے افراد ہر ایک سے رابطہ، تبادلۂ خیالات اور ان تمام اداروں میں ایسے افراد کو داخل کرنا ہوگا جو ان مختلف محاذوں پر دین کے مفاد کا تحفظ کرسکیں۔ اسی کا نام دین کی حکمت ہے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں حضرت یوسف ؑ کے ایک ایسے نظام میں جو بظاہر شریعت الٰہی پر مبنی نہ تھا داخل ہوکر اس کی اصلاح کرنے کی حکمت عملی ہمارے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اولوالالباب اس پر غور کریں اور حالات و مواقع کے لحاظ سے اللہ کے ایک برگزیدہ نبی ؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے چاہے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، عدلیہ ہو یا دیگر اہم ادارے، ان میں شمولیت کر کے اندر سے اصلاح کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہ سیاست شرعیہ اور مصلحت عامہ کے اصولوں کے منافی ہوگا۔

یہاں یہ بات واضح کردینی ضروری ہے کہ ایک اصولی اور دستوراً اسلامی ریاست اور ایک عملاً غیراسلامی ریاست میں دینی حکمت عملی یکساں نہیں ہوسکتی۔ دین کی بنیادی دعوت بلاشبہہ ایک ہی ہوگی، یعنی نفس، معاشرہ، معیشت اور سیاست کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف خالق کائنات کی حاکمیت کا قیام اور اسلام کے نظامِ عدل کا قیام۔

ہم یہاں ایک اصولی، دستوری اور اسلامی ریاست کی بات کر رہے ہیں جس میں چاہے عملاً دین کی تمام تعلیمات پر سرکاری اداروں میں مکمل طور پر عمل نہ کیا جا رہا ہو۔ ایسی صورت حال میں تبدیلی کا عمل اسلامی منہج پر عمل کرتے ہوئے surgical operation سے بھی ہوسکتا ہے اور medical treatment سے بھی۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ایک میں اندرونی طور پر تشخیص مرض کے بعد اندر سے اصلاح کرنے کے لیے معروف اور بّر کے ذریعے نظامِ فساد کی اصلاح کی تدبیر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حسنات اور معروف میں بتدریج اضافے کے ذریعے فساد جسم کو ختم کیا جاتا ہے، جب کہ سرجری میں، اس صورت میں جب دوسری دوائیں کام نہ کریں تو فساد کا سبب بننے والے اجزا کو نشتر کے ذریعے تراش کر الگ کردیا جاتا ہے۔ ان دونوں کی بنیاد دین کے بنیادی اصولوں پر ہے۔  اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ (ھود ۱۱:۱۱۴)، ’’بلاشبہہ بھلائیاں برائیوں کو دُور کردیتی ہیں‘‘۔ اس طرح فتنہ اور فساد کو دُور کرنے کے لیے جنگ کرنے کا حکم بھی قرآنِ کریم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔  وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)،    ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے‘‘۔

قرآن کریم اور سنت مطہرہ تبدیلی کے دونوں طریقوں کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ایک تیسرے قرآنی اصولِ استحسان اور مصلحت عامہ کے ذمہ دارانہ استعمال سے یہ فیصلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک مخصوص صورت حالات میں کس حکمت عملی کو اختیار کیا جائے۔ ان میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ فیصلہ کہ کب تک طبابت سے کام لیا جائے اور کب نشتر کا استعمال ہو، ایک اجتہادی اقدام ہے۔ اس لیے کسی ایک طریقے کو جائز اور حلال اور دوسرے کو مردود اور حرام قرار دے دینا، نہ دین ہے اور نہ دین کی تعلیم کردہ عقل و حکمت سے مطابقت رکھتا ہے۔

کیا متوقع نتائج کا عدم حصول ناکامی ھے؟

یہ سوال اُٹھاتے وقت کہ انتخابی سیاست میں ضرورتاً حصہ لینے کے باوجود اگر متوقع نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر اس سرگرمی کا کیا جواز ہے؟ بات بہت آسان سی ہے، جسے ہم بالعموم شدتِ جذبات میں نظرانداز کرجاتے ہیں، یعنی ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے یا ایک خاص تعداد میں نشستوں کا حصول؟ کیا سیاسی جدوجہد کا مقصد محض حصولِ اقتدار ہے یا اسلامی اخلاقی اصولوں پر مبنی دعوت کو عوام الناس تک پہنچا کر ان میں حق و باطل کے درمیان انتخاب کرنے کا شعور بیدار کرنا اور یہ یاد دہانی کرانا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات، برادری سے تعلق اور سیاسی وابستگی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔اگر ہمارا مقصد اپنی دعوت پہنچانا اور دعوت کو بہتر طور پر پیش کرنے کے لیے ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر ملک میں اصلاح اور عدل کے نظام کا قیام ہے تو نشستوں کی کثرت یا قلت اور انتخاب میں بھرپور کامیابی یا ناکامی سے بلند ہوکر اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے کس حد تک صحیح حکمت عملی اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو سرانجام دیا۔

اللہ تعالیٰ نے ان صالح افراد کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے، جو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کو  اپنا رب قرار دیتے ہوئے دین پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ انھیں لازمی طور پر زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔سیاسی محاذ پر انتخاب میںکامیابی یا ناکامی ہو یا میدانِ جہاد میں کفروظلم کے مقابلے میں صف آرا ہوکر جان کی بازی لگانا ہر دعوتی جدوجہد اور جہادِ حق کے لیے قرآن کریم نے اسلامی عالمی اصول بیان کردیا ہے کہ آخرکار کامیابی اور سرفرازی دین کی ہوگی جو ایمان، خلوص، منزل کے شعور، دعوت الی اللہ اور ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) ، دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

اسی بات کو ایک دوسرے انداز سے یوں فرمایا گیا:

اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (احقاف ۴۶:۱۳) یقینا جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اُس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اصل غور طلب بات یہ ہے کہ کیا سیاسی جدوجہد میں ہم نے صرف اور صرف اللہ کو رب بناتے ہوئے استقامت اختیار کی یا اس جدوجہد میں جسے خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے تھا کہیں ذات اور شخصیت تو درمیان میں نہیں آگئی یا چند لمحات ہی کے لیے سہی منصب کی طلب کا وسوسہ تو نہیں پیدا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ میں تمھیں سربلند (الاعلون) کروں گا تو وہ ایسا ہی کرتا ہے، کمی ہماری جانب سے رہتی ہے ۔ کبھی منصوبہ بندی میں کہ جو کام انتخابات سے ایک سال پہلے کرنے کا ہو ہم نے دو ماہ پہلے کیا ہو یا حالات کا تجزیہ کہ ہم نے محض معلومات کے ایک ذریعے پر بھروسا کیا ہو وغیرہ۔

کسی بھی جماعت کے لیے کامیابی کا حصول بڑی اہمیت رکھتا ہے خصوصاً ایسی جماعت کے لیے جسے اس کے ناقدین ملک کی سب سے زیادہ منظم، نظریاتی جماعت کہتے ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم اس کا اپنے اصولوں پر قائم رہنا اور استحصال، بدعنوانی، رشوت اور اقرباپروری پر مبنی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی اور مکمل تبدیلی ہمارا اصل ہدف ہے لیکن اس ہدف کا   سو فی صد حصول پورے طور پر ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ صحیح انداز میں کوشش ضروری ہے اور اس کا بار بار تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے لیکن خلاف گمان نتائج پر مایوسی کا کوئی جواز ہی نہیں۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کرتا ہے اور بعض اوقات بظاہر ناکامی بعد میں حاصل ہونے والی عظیم تر کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہے بشرطیکہ کوشش جاری رہے اور کبھی ہمت نہ ہاری جائے۔

یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ اہداف کا حصول نہ ہونے کی شکل میں اسلام اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نااُمیدی کو کسی بھی راستے سے اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں اور تجزیہ کر کے دیکھیں کہ ہماری جانب سے وہ کون سی کمی تھی جس کی بنا پر نتائج وہ نہ نکلے جن کی اُمید تھی۔ اس تجزیے کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی تبدیلی کے عمل کو آیندہ بہتر طور پر کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات کیے جائیں۔

آیندہ کی حکمت عملی

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی حکمت عملی کو ہرحالت میں دعوتی حکمت کا تابع ہونا چاہیے اور اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے جو حکمت عملی وضع کی جائے اسے بھی وقتاً فوقتاً تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں چند بنیادی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

  •  صحیح دعوتی زبان کا استعمال:قرآن کریم موعظہ حسنہ کے استعمال کا حکم دیتے وقت ابلاغ کا بنیادی اصول سمجھاتا ہے کہ جس قوم یا طبقہ یا گروہِ انسانیت کو دعوت کے لیے پکارا جائے اُس سے اس کی ’زبان‘ میں بات کی جائے (یوسف ۱۲:۲)۔ یہاں زبان سے مراد صرف لغت نہیں وہ الفاظ و تراکیب اور پورا بیان ہے جو مخاطب کو قریب لائے۔ اسلامی جماعتیں عموماً جن دعوتی یا دستوری اصطلاحات کو روزمرہ استعمال کرتی ہیں انھی کو عوام کو خطاب کرتے وقت بھی استعمال کرتی ہیں، جب کہ دعوت کی زبان ہرطبقہ، ہر گروہ اور جماعت کے لحاظ سے وہ ہونی چاہیے جسے وہ appricate کرے۔

غورکرنے کی ضرورت ہے کہ جو دعوتی زبان استعمال کی گئی کیا وہ عوامی نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی یا جن اُمور پر ہمیں زور دینا چاہیے تھا کیا کسی اور نے ان عنوانات کو اغوا کر کے عوام کے دل میں اُترنے کا ذریعہ بنایا۔ کیا تحریکِ اسلامی نے ظلم، بدعنوانی، عدم مساوات اور عدم تحفظ، دہشت گردی، معاشی استحصال، بے روزگاری اور صحت سے متعلقہ اُمور کو ایسی زبان میں جو عوام کو متاثر کرے سیاسی مہم میں تذکرہ کیا؟کیا تبدیلی کی ضرورت جیسے بنیادی اُمور پر عوام سے رابطے میں پہل کی اور انھیں یقین دلانے میں کامیاب ہوئی کہ وہ تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، یا ان موضوعات پر دیگر افراد نے زیادہ زورِ بیان کے ساتھ اپنی image بنائی، جب کہ تحریک اسلامی کے ایک پہلے سے قائم شدہ ذہنی خاکے کی بنا پر اسے ایک صالح افراد کی کم تعداد والی جماعت سمجھا جاتا رہا جس کو ووٹ دینے کے باوجود اس کے اکثریت میں آجانے کا امکان کم نظر آتا ہو۔

  •  پیشے اور عمر کے لحاظ سے خطاب:کیا تحریکِ اسلامی نے ملک میں موجود مختلف طبقات کی نشان دہی کے بعد اپنے دعوتی پیغام کو اپنے سامعین کی نفسیات و ضروریات کے لحاظ سے پیش کیا، یا ہماری دعوت محض اصولوں کی دعوت رہی جس میں اسلامی ریاست، مدینہ منورہ کے ماڈل کا قائم کرنا ہمارا بنیادی نعرہ رہا۔ کیا تاجروں، وکلا، اساتذہ، محنت کشوں، خواتین اور خصوصاً ملک کی ۶۷ فی صد نوجوانوں کی آبادی کو ان کی زبان میں پُرامید اور اعتماد کے لہجے کے ساتھ ان کے مسائل کے قابلِ عمل حل انھیں سمجھائے یا دستوری مسائل پر نظری بحث کو کافی سمجھا۔
  •  تبدیلی کا نعرہ:کیا حالات اور نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگانے میں ہمارا پیغام اور لہجہ یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوسکا کہ ہم کس قسم کی تبدیلی لائیں گے اور اس تبدیلی سے نوجوانوں کو روزگار، تاجروں کو کاروبار بڑھانے کے لیے تحفظ، بجلی کی فراہمی وغیرہ جیسی ضروریات ایک مقررہ مدت میں فراہم کرسکیں گے۔
  •  انتھا پسندی:ملک میں رائج اس غلط فہمی کو کہ اسلامی جماعتیں دراصل انتہاپسند جماعتیں ہیں کس حد تک دلائل اور واقعات کی بنیاد پر رد کرتے ہوئے ایسے اُمور کو روشناس کرایا جو اعتدال پسندی کی علامت ہوں، یا نفاذِ شریعت کے نام کے ساتھ بننے والے مغربی تصور کو جو صرف اسلامی تعزیرات کے نفاذِ کو شریعت کا نام دیتا ہے، غیرارادی طور پر تقویت پہنچائی۔ گویا تحریک کی دعوت نے کس حد تک لوگوں میں یہ احساس بیدار کیا کہ وہ نہ قدامت پرست ہے نہ مغرب پرست، بلکہ حالات کے لحاظ سے اسلام کی اعتدال پر مبنی تعلیمات کو مناسب تدریج سے رائج کرنے کی صلاحیت اور عزم رکھتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس بتدریج تبدیلی کا نقشہ وقت کی قید کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
  •  خدمتِ خلق: دین کا نصف حصہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور تحریکاتِ اسلامی نے مصر ہو یا ترکی، عوام کی خدمت کے پراجیکٹ کامیابی سے چلا کر ان کے دلوں کو جیتا ہے۔ کیا الخدمت کے ۸۰،۹۰ ہسپتال، زلزلے اور سیلاب زدگان کی خبرگیری ، ملک میں یتیموں اور بیوائوں کی امداد،آغوش جیسا پراجیکٹ، ان میں سے کسی بھی کام کو قوم کے سامنے تعریف وصول کرنے کے لیے نہیں بلکہ خاکساری کے ساتھ قوم کے لیے تحفہ بناکر پیش کیا، یا کسی اور جماعت نے اس قسم کے محدود کام کو اپنی کارکردگی اور انتظامی اُمور کی صلاحیت رکھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا اور عوام نے اسے مان کر اس پر اعتماد کا اظہار بھی کیا؟

زکوٰۃ و صدقات کی وصول یابی اور تقسیم خود ایک ایسا عظیم کام ہے کہ جو بھی اسے صحیح طور پر کرے گا وہ عوام الناس میں مقبول ہوگا۔ اس کے ساتھ تعلیم، صحت ، آفات سے متاثر افراد کی خدمت، غرض یہ سارے کام جب اللہ کی رضا کے لیے کیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم سے دعوت کو مقبولیت دیں گے۔تحریک اسلامی کو آیندہ پانچ سالوں کے لیے ایک واضح منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سال میں خدمت کے کام کو کہاں تک پہنچایا جائے اور آیندہ پانچ برس میں اس کا دائرہ کہاں تک ہو۔

بعض سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی رقم کو اپنے آنجہانی لیڈروں کی فاتحہ سمجھتے ہوئے تقسیم کرکے ملک میں لاکھوں افراد کو اپنا ممنونِ احسان بنالیتی ہیں جو اخلاقی اور قانونی طور پر جرم اور گناہ ہے، جب کہ زکوٰۃ، صدقات و عطیات کی وصولی اور ان کی مناسب تقسیم ایک دینی فریضہ ہے اور تحریکاتِ اسلامی اس کی زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں اور معاشرے کے نادار افراد کی جائز امداد اور ان کی سیاسی تعلیم کا بندوبست کریں۔ کیا اس سلسلے میں شعوری طور پر کوئی منصوبہ بنایا گیا اور اس پر احتساب کے ساتھ عمل کیا گیا؟ اس سلسلے میں لوگوں کی غلط فہمی کہ زکوٰۃ کی رقم کا سیاسی استعمال نہیں کیا جا رہا ،کا دُور کرنا بھی ضروری ہے۔

  •  تحریکی فکر سے وابستہ اسکولوں میں کام: کیا تحریکی فکر رکھنے والے اسکولوں اور مدارس کے طلبہ اور ان کے والدین تک اپنی دعوت پہنچانے کے لیے والدین اور اسکول کے اساتذہ کی خدمات ایک منصوبے کے تحت حاصل کی گئیں اور کیا ان کا سروے کرنے کے بعد یہ جائزہ لیا گیا کہ انھیں مسلسل رابطے کے ذریعے کس طرح mobilize کیا جاسکتا ہے؟ ایک محدود اندازے کے مطابق اگر صرف تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے اسکولوں کے طلبہ اور ان کے والدین پر صرف تین ماہ کام کیا جائے تو ایک بڑی تعداد اپنی راے تحریک کے حق میں دینے پر آمادہ ہوگی۔
  •  استخلاف کی شرائط:اللہ تعالیٰ نے زمین پر استخلاف بطور اپنے ایک انعام کے وعدہ فرمایا ہے لیکن اس وعدے کے ساتھ بعض شرائط بھی وابستہ ہیں۔ کیا تحریک کے کارکنوں میں وہ للہیت اور اللہ کی کتاب اور رسولؐ کی سنت سے وابستی پیدا ہوسکی جس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا انعام فرماتا ہے؟کیا اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا مستحق بننے کے لیے تحریکی کارکنوں اور قیادت نے بے لوثی، اخلاص، قربانی، مقصد پر یقین اور اپنی ذاتی، کاروباری، معاشرتی زندگی میں وہ تبدیلی پیدا کی جو  اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ، یا تحریک سے وابستگی کے باوجود اس کے کاروباری معاملات اور معاشرتی تعلقات، رواج، برادری اور مالی منفعت سے وابستہ رہے؟
  •  اسلامی کاروبار:مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو خود مغرب میں ناکامی کا سامنا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ آیندہ پانچ سالوں کے لیے اسلامی معاشی اصولوں پر مبنی اسلامی کاروباری ادارے قائم کیے جائیں اور عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ کس طرح سود سے پاک کاروبار کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسے افراد اقتدار میں آجائیں تو وہ کس طرح پورے ملک کی معیشت کو پاکیزہ معیشت بناسکتے ہیں۔
  •  فھم قرآن:پہلے تو اس جائزے کی ضرورت ہے کہ کیا ملک گیر پیمانے پر فہم قرآن کے حلقے گذشتہ تین برسوں میں باقاعدگی سے کام کرتے رہے اور کیا ان کی فیڈبیک (feedback) حاصل کی گئی یا نہیں۔ ان حلقوں میں جن افراد نے قرآن کا پیغام پہنچایا ان آبادیوںمیں ان کا اثر بڑھا یا گھٹا___ قرآن کا پیغام سمجھنے کے بعد سامعین میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں۔ اور اگر نہیں ہوئی تو ان کا سبب استاد کا طرزِعمل تھا یا سامعین کے ذہن کو نہ سمجھنے اور ان کی سطح پر بات نہ کرنے کی وجہ سے وہ لوگ دعوت کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے۔ ان اُمور کا جائزہ اور اس کی روشنی میں آیندہ پانچ برسوں کا منصوبہ تیار کرکے اس کا نفاذکامیابی کی ایک اہم شرط ہے۔
  • الیکٹرانک میڈیا:آیندہ کی منصوبہ بندی میں ایک اہم ترجیح مؤثر ٹی وی چینل کا قیام ہے۔ اگر ہرسال صرف کارکنوں اور ہمدردوں سے ۵۰۰ روپے ماہانہ ا س اہم ذریعۂ دعوت کے قیام کے لیے جمع کیے جائیں تو صرف ایک سال بعد اتنا سرمایہ بغیر کسی کے آگے جھکے اور مانگے فراہم ہوسکتا ہے کہ کسی صاحب ِ خیر کے تعاون سے ایک مکان بمشکل ایک کنال کا لے کر اُ س سے کام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہاں، جو بات بنیادی ہے وہ ایسے پروفیشنل افراد کا جمع کرنا ہے جو اس فن میں مہارت رکھتے ہوں اور ایسی ٹیم جو ان کو نئے موضوعات پر کام پر اُبھارسکے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں ذہنی رجحانات کو متاثر کرنے میں سب سے زیادہ دخل ٹی وی چینلوں کا ہے اور انھیں بُرابھلا کہنے اور تنقید کرنے کی منفی ذہنیت سے نکل کر مثبت طور پر اپنا ایسا ادارہ قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے جو فنی طور پر موجودہ ٹی وی چینلوں سے برتر ہو اور جس میں نظریاتی بنیاد پر تفریح، تعلیم، تربیت، دعوت، تجزیہ کیا جائے اور قوم کو تعمیری فکر کی طرف لایا جائے۔ اگر اس سال بھی ۲۰۱۳ء میں اس کام کا آغاز رمضان الکریم سے کردیا جائے تو اگلے رمضان تک ان شاء اللہ تحریک کی دعوت اعلیٰ فنی مہارت سے پیش کی جاسکتی ہے۔ آج اصل جنگ بھورے یا سفید بالوں والے ناصحین اور مغرب زدہ افراد کے درمیان ہے۔ آج خود ان گھروں میں جو اپنے آپ کو تحریک سے وابستہ سمجھتے ہیں، میڈیا نے نوجوانوں کو براہِ راست متاثر کر کے میدان میں آنے پر آمادہ کیا۔ یہ کام اصل میںتو تحریک ہی کے کرنے کا تھا لیکن اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے۔ اس سلسلے میں بجاے کسی قرارداد کے انتہائی عاجزانہ آغاز کردینے کی ضرورت ہے۔ بقیہ کام اُس کا ہے جس کے لیے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ وہ آسمان سے اور پائوں کے نیچے سے وسائل دینے کا وعدہ کرتا ہے، شرط صرف خلوصِ نیت کے ساتھ میدان میں آجانے کی ہے۔ بلاشبہہ اس کا وعدہ سب سے سچا ہے۔

ان چند اُمور کو سامنے رکھتے وقت اور تنقیدی جائزہ لیتے وقت یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کامیابی کا پیمانہ نشستوں کی تعداد کبھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی کا اصل معیار یکسوئی، خلوص، بے لوثی، قربانی اور استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو بغیر کسی معذرت اور مفاہمت کے  اپنے عمل سے پیش کرنا ہے۔ بہترین دعوت عملی دعوت ہے۔ زبان کی قوت بلاشبہہ ایک انعام ہے لیکن اس سے محرومی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکو اپنا نبی ؑاور رسول ؑبنانا پسند فرمایا اور ان کے بھائی ہارون ؑ کے ذریعے ان کی مدد فرمائی، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے عرب کے سب سے زیادہ فصیح قبیلے کی لغت اور زبان کو سننے اور اختیار کرنے کا موقع ملنے کے سبب کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا۔یہ تمام پہلو تنقیدی نگاہ سے باربار غور کرنے کے ہیں اور پھر آیندہ پانچ برسوں کے لیے بتدریج ایک حکمت عملی کی تیاری بلاتاخیر کرلینے کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی دعوتی حکمت عملی کے ضمیمے کے طور پر مرتب ہونی چاہیے تاکہ ہرہرمعاملے میں تحریک کے اصول عوام کے سامنے مثالی شکل میں آسکیں اور سیاسی فیصلے کرنے میں انھیں مدد فراہم کی جاسکے۔

منصوبہ بندی اور مستقبل کا لائحہ عمل تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے انتخابات یا اس جیسے دیگر امتحانات سے گزرنے کے بعد سالوں اور مہینوں کا انتظار کیے بغیر اس بات کی ضرورت ہے کہ تحریک اور تحریک سے باہر کے ایسے افراد پر مبنی ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو نہ صرف حالیہ انتخابات بلکہ گذشتہ تمام انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے کر آیندہ چھے ماہ میں ایک مفصل حکمت عملی تجویز کرے، جسے آیندہ پانچ سالہ منصوبے کے طور پر ہرسال میں ترجیحات کی شکل میں مشاورت کے بعد نہ صرف قرارداد کی شکل دی جائے بلکہ ایک بااختیار شعبہ ان اقدامات کے نفاذ، ان کے ہر تین ماہ میں جائزے اور اس کی روشنی میں مزید اقدامات کروانے کا مجاز ہو۔ اختیارات کے بغیر کوئی کام نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ تجزیہ و تحلیل اگر حصول نتائج میں مددگارنہ ہو تو محض ذہنی ورزش ہی ہوگی جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 

اکیسویں صدی میں تحریکاتِ اسلامی کو درپیش مسائل، خطرات اور امکانات کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست جو چیز نظر آتی ہے، وہ سیاسی تبدیلی کے ذریعے نفاذِ عدل ہے۔ اسلام اپنی    تمام تعلیمات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ اور معاشرے میں عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے اپنے اعمال کے ذریعے پھیلائے ہوئے فساد کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت و اصلاح کی تعلیمات اور ان کے اُس عملی نمونے کے ذریعے (جو انبیاے کرام علیہم السلام اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے رہتی دنیا تک کے لیے پیش فرمایا) دُور کر کے اس فساد کو معاشرتی توازن، عدل، امن اور رحمت سے بدلنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے تمام انبیاے کرام ؑکی دعوت اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہر طرح کے طاغوتوں کی بندگی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار اور زمین پر اس کا قیام تھا۔

اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چار مختلف مقامات پر قرآن کریم انبیاے کرام ؑکے مقصد اور مشن کو انتہائی جامع الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

اور پھر صاف الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا کہ تلاوتِ کتاب، تزکیۂ نفس، تعلیم، کتاب اور تعلیم حکمت کی اس ہمہ گیر جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلی انسانی معاشرے میں رُونما ہوئی وہ قیام عدل و انصاف ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اور کارِنبوت کا مشن بیان کیا گیا ،ہے وہیں انسانوں اور معاشرے میں تبدیلی کے عمل کی بنیادیں بھی سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل کی بنیاد اللہ کی کتاب اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر ہے اور اس کا عملی راستہ تزکیہ ہے، خواہ تزکیۂ فرد ہو یا تزکیۂ معاشرہ، تزکیۂ مال ہو یا تزکیۂ قیادت۔ فرد  اور معاشرے کی صحیح نشوونما اور ارتقا کے لیے اگر کوئی صحیح حکمت عملی ہوسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی کتاب ہے۔ صرف اسی کتاب کی تعلیم کے ذریعے زندگی میں فکری اور عملی انقلاب ممکن ہے۔

قوت کے استعمال سے یہ تو ممکن ہے کہ بظاہر ایک وقتی تبدیلی آجائے لیکن چہروں کے بدلنے سے کوئی بنیادی فرق واقع نہیں ہوسکتا۔ اصل تبدیلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آیات کی صحیح تلاوت، ان کا صحیح فہم اور ان کی صحیح تطبیق کے ذریعے تبدیلیِ کردار وعمل سے ہی لائی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اندرون کی تبدیلی اس کی فکر کے زاویے کا درست کرنا، اس کے طرزِحیات کو بدلنا، اس کے معاش کو حلال کا تابع بنانا، اس کی سیاسی فکر کو ذاتی مفاد، نفسا نفسی اور قوت کے نشے سے نکال کر قیامِ عدل، اجتماعی فلاح اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تابع کرنا ہے جو ایک حادثاتی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مناسب تیاری، مناسب آبیاری، مناسب محنت اور مناسب وقت درکار ہوگا۔

تبدیلیِ قیادت کا تعلق محض برسرِ اقتدار افراد کی معزولی اور ان کی جگہ بس متبادل افراد کے تقرر سے نہیں ہے۔ قیادت کی تبدیلی اور اچھے افراد کو ذمہ داری کے ساتھ مناصب پر لانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ نظام کی تبدیلی اور نظام کی بنیادوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ ایک دیمک لگے ہوئے درخت کی ٹہنیوںمیں تازہ پھل باندھ کر لٹکا دینے سے درخت کی بیماری ختم نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں تازہ پھل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک غیرعادلانہ نظام کو چلانے والے ظالموں کی جگہ دوسرے افراد کے آجانے سے اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک افراد خود صالح اور باصلاحیت نہ ہوں اور نظام میں مناسب تبدیلیاں بھی کی جائیں۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا تبدیلیِ نظام کے لیے وقتی طور پر مروجہ نظام میں شمولیت اختیار کی جائے یا پہلے نظام کو تبدیل کیا جائے، اور پھر نظام کی تبدیلی کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی جائے؟ اس سوال کو ذہن میں اُٹھاتے وقت عموماً یہ بات محو ہوجاتی ہے کہ کیا نظام خود بخود اپنے آپ کو درست کرلے گا اور پھر دست بستہ تحریک سے عرض کرے گا کہ تشریف لاکر کرسیِ قیادت سنبھال لے۔ دوسری ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ پہلے نظام کو تہس نہس کیا جائے۔ اس کے بعد نیا نظام قائم کیا جائے۔ تاریخ اُمم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی صحت مندتبدیلی آئی ہے تو اس میں ایک سے زیادہ مصالح اور حکمتوں کا دخل رہا ہے، تنہا ایک بے لچک حکمت عملی نے آج تک کوئی دیرپا تبدیلی پیدا نہیں کی۔

انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا نقطۂ آغاز تمام خدائوں کا رد اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان ہی رہا ہے:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زندان کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی [دین] ہے،  مگر اکثر لوگ جانتے نہیںہیں۔

اسی حقیقت کو کلمہ طیبہ میں ہرمسلمان ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔ جہاں کہیں بھی نظامِ ظلم پایا جاتا ہے، وہ ان دو صداقتوں سے انحراف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرلیا جائے تو طرزِ زندگی، طریق خشیت، نظامِ سیاست و قانون، غرض زندگی کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرے کے مختلف پہلو، سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت ہوجاتے ہیں۔ اسی کا نام نفاذِ شریعت اور قیامِ نظامِ اسلامی ہے۔

نفاذِ شریعت اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں بعض مواقع پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی جماعت یا تحریک اسلامی سمجھوتے (compromise) کر رہی ہے اور بظاہر اپنے مقصد سے انحراف کر رہی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں پہلے مرحلے ہی میں باطل کو مکمل طور پر بے دخل کرکے حق کو قائم کردیا جائے، جب کہ انسانی معاشرے میں تبدیلی عموماً ایک لمبے عمل کے بعد ہی آتی ہے، اور بعض اوقات طویل عرصے کی جدوجہد اور ہمہ تن توجہ  کے باوجود مطلوبہ نتائج دُور دُور نظر نہیں آتے ، جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ تحریک ناکام ہوگئی۔ قرآن کریم اپنے ماننے والوں پر سعی اور کوشش کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ نتائج کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں دے دیتا ہے، تاکہ مایوسی، اور نااُمیدی کو دلوں سے نکالتے ہوئے تحریکی کارکن نتائج سے بے پروا ہوکر اپنے کام میں پوری قوت کے ساتھ لگے رہیں۔

تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایسے مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بظاہر ایک کارکن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک اپنے اصل مقصد سے انحراف کر رہی ہے، حالاں کہ قیادت مکمل طور پر یقین رکھتی ہے کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ ایسے تمام حالات میں حکمت ِدین کا تقاضا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ کیا واقعی اہداف میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے،     یا اصل اہداف کے حصول کے لیے حالات کی روشنی میں ایک تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟

تمام تحریکاتِ اسلامی کا مقصد وجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ تحریکات قرآن و سنت رسولؐ سے اخذ کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں اپنی حکمت ِعملی وضع کرتی ہیں اور ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ مسلم دنیا کے تناظر میں خصوصاً مصر اور  ترکی میں جو تبدیلی کی لہر آئی ہے وہ تجزیہ و تحلیل کے لیے اہم مواد فراہم کرتی ہے۔ مصر میں    اخوان المسلمون کی دعوت کا بنیادی نکتہ شریعت پر مبنی نظام کا قیام ہے۔ لیکن مصر کے سیاسی، عسکری اور معاشی حالات کے پیش نظر خصوصاً ایک بااثر عیسائی قبطی اقلیت کی موجودگی میں جو تعلیم، تجارت اور سیاست ہر میدان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور بالخصوص مصر کی امریکا سے ۳۰سالہ گہری وابستگی، اسرائیل کے ساتھ مفاہمت اور فوج کے براہِ راست سیاسی امور میں دخیل رہنے کی روایت کے پیش نظر، کیا تحریکِ اسلامی کے لیے مناسب راستہ یہ تھا کہ وہ باطل، کفر اور ظلم کی روایت کو بیک قلم منسوخ کر کے شریعت پر مبنی نظام کا اعلان کردے یا ایک بتدریج عمل کے ذریعے حالات کے رُخ کو تبدیل کرے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ موجودہ قیادت کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ وہ امریکا سے ٹکرائو نہیں چاہتی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی سیاسی مذاکرات سے دیرپا حل چاہتی ہے، مصر کے لادینی عناصر اور بیرونی قوتیں (بشمول بعض مسلم ممالک) پوری قوت سے موجودہ حکومت کو کمزور اور ناکام بنانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایسے حالات میں تحریکی ترجیحات کیا ہوں گی؟ کیا تحریک کا بیک وقت دس محاذ کھول کر اپنی تمام قوت کا رُخ اُدھر کر دینا حکمت کی بات ہوگی یا حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور اولیات کا تعین کرنے کے بعد آگے چلنا قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہوگا؟

قرآن کریم نے جابجا مثالیں بیان کر کے ہمیں ان اُمور پر غور کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان سے حاصل کردہ علم کے ذریعے، نئے پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔

مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عقل کا تقاضا تھا کہ فوری طور پر قبلے کو درست کیا جائے۔ لیکن تقریباً دو سال انتظار کرنے کے بعد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرہ ۲:۱۴۴)،  ’’اے نبیؐ! یہ تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجدحرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو‘‘۔

وحی الٰہی کے آتے ہی اس پر عمل کیا گیا اور عین حالت نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اصحابِ رسولؐ نے (جو اس وقت جماعت میں شریک تھے) بغیر کسی ہلڑاور افراتفری اور بغیر کسی حیل و حجت کے اپنا رُخ مکمل مخالف سمت میں پھیر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ آتے ہی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عطا کردہ حکمت دینی کی بناپر قائد تحریک اسلامی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اقدام فوری طور پر کیوں نہیں اُٹھایا اور ۱۶،۱۷ماہ بعد ۲ہجری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویل قبلہ کے حکم کے آجانے کے بعد یہ اقدام کیوں کیا گیا؟

اس اہم واقعے پر عموماً جس زاویے سے غور کیا جاتا ہے اس کا محوریہی رہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا قیادت و سیادت پر مقرر کیا جانا اور بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم کی قیادت سے مطلق طور پر محروم کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نقطۂ نظر سے یہ تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے کہ     اب قیامت تک کے لیے اس دینِ حنیف اور اُس کے لانے والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تمام انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرار دیا گیا۔ تاہم، غیرمعمولی اہمیت کے حامل اس واقعے میں دینی حکمت عملی کے حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

پہلی بات جس کا تعین اس واقعے سے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ جب بنی اسرائیل نے اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا تو ان کی جگہ اُمت مسلمہ کو اقوامِ عالم کی قیادت بطور ایک امانت اور ذمہ داری کے دے دی گئی۔ دوسری بات یہ کہ جس قوم کو قیادت سونپی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس فریضے کی ادایگی کے لیے جواب دہ بھی ہوگی۔ مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کو اپنے تمام ثقافتی، فکری اور روایتی رابطوں کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جس طرح قبلۂ اوّل کی طرف واپسی سے قبل مکہ میں ایمان لانے والوں کا امتحان لیا تھا کہ وہ بیک وقت حرمِ کعبہ اور   حرم القدس الشریف کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے، اسی طرح مدینہ آنے کے بعد اطاعت الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ کو جانچنے کے لیے جب یہ کہا گیا کہ اپنا رُخ موڑ دو تو حالت ِ نماز ہی میں سب نے اپنا رُخ موڑ دیا۔ دوسری طرف یہودِ مدینہ اور وہ نومسلم جو ماضی میں یہودیت سے وابستہ تھے، ان کے لیے بھی یہ امتحان تھا کہ اب وہ قبلۂ ابراہیمی ؑ کی طرف رُخ کر رہے تھے، اور حضرت موسٰی ؑکے مرکز دعوت کی جگہ بیت اللہ کو یہ مقام دوبارہ حاصل ہورہا تھا۔ اس امتحان نے یہ واضح کردیا کہ کون صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرحکم کی بلاحیل وحجت اطاعت کرنے پر آمادہ ہے۔

تحریکی حکمت عملی کے نقطۂ نظر سے یہ واقعہ کئی اہم سوالات کی طرف اشارہ کرتا ہے:

پہلا سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر تحویلِ قبلہ تقریباً دو سال کے بعد کیوں ہوا، جب کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ریاستی اختیار کے اظہار کے لیے اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا؟

دوسرا سوال یہ کہ توحید خالص کی دعوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو قیامت تک کے لیے شریعت قرار دینے کے باوجود اس رواداری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ قبلہ جیسی بنیادی چیز کو حکمت اور مصلحت دینی کی بنا پر مؤخر کیا جانا مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟

ان سوالات کو اگر آگے بڑھایا جائے تو ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہوگا کہ کیا کسی بھی   مسلم ملک میں تحریکِ اسلامی اپنے اصل ہدف، یعنی رضاے الٰہی اور اقامت ِ دین پر قائم رہتے ہوئے وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر اور دین میں معتبر حکمت اور مصلحت کی بنا پر مؤخر کرسکتی ہے؟ اور راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے عناصر کے ساتھ جو دل سے تحریکِ اسلامی کو پسند نہ کرتے ہوں تعاون و اشتراک کرسکتی ہے؟ اس تناظر میں میثاقِ مدینہ کی حیثیت کیا ہوگی، اور کیا اسے ایک عبوری حکمت عملی سے زیادہ اہمیت دینا درست ہوگا؟ ان سوالات کا براہِ راست تعلق مسلم ممالک میں تحریکاتِ اسلامی کے سیاسی عمل کے ساتھ ہے اور جب تک ان پر کھلے ذہن اور جذبات اور تعصبات سے بلند ہوکر غور نہ کرلیا جائے تحریکاتِ اسلامی بہت سے مغالطوں کا شکار ہوسکتی ہیں اور اس خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کم از کم تحریک کے کارکن بغیر گہری فکر کے محض سطحی مسائل پر غور کرکے تحریک کے لائحہ عمل کے بارے میں شک کا شکار ہوسکتے ہیں، اور اس طرح شیطان ان کو اپنی تحریک سے بدظن کرنے حتیٰ کہ فرار تک اُبھار سکتا ہے۔

یہاں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس طرح مکے میں اوّلین مخاطب مشرکینِ مکّہ تھے، مدینہ منورہ میں اوّلین مخاطب یہود اور ان کے زیراثر اور ان کی روایات سے آگاہ دیگر قبائل کے افراد تھے جو یہود کی طرف رہنمائی کے لیے متوجہ ہوتے تھے۔

قرآن کریم نے ان کو یاد دلایا کہ حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت موسٰی ؑاور حضرت عیسٰی ؑ تک تمام انبیا ؑ کی دعوت کا مرکز توحید تھی۔ اس لیے اسلام کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے۔

دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ ان کی اپنی کتب میں جس نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس کے آنے کے بعد اور ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد جو اس کی آمد کے بارے میں خود ان کی روایات میں پائی جاتی ہیں، ان کا اس دینِ حق کا انکار دراصل اپنی کتب سے انحراف و بغاوت ہے، اس لیے انھیں اسلام کے قبول کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح مکہ میں ۱۳سال تک مشرکینِ مکہ کو اس نئی دعوت پر غور کرنے، سمجھنے اور قبول کرنے کا آزادی کے ساتھ موقع دیا گیا، بالکل اسی طرح اب انھیں مہلت دی گئی کہ وہ مکمل آزادیِ راے کے ساتھ اس عرصے میں دعوتِ حق کو آگے بڑھ کر قبول کرسکیں۔

دوسری جانب اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لیے کہ اہلِ کتاب کا اسلام کی حقانیت اور اس کے من جانب اللہ ہونے کا علم رکھنے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرنا، اہلِ ایمان کو پریشان نہ کرے ۔ جو لوگ دنیا کی وقتی منفعت کے بدلے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سودا کرلیتے ہیں، ان کے ذہن مائوف، آنکھیں روشنی سے محروم اور کان سماعت کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں ، ان ہٹ دھرم اہلِ کتاب کی شقاوت قلبی،   قبولیت ِ دعوت میں مزاحم ہوتی ہے، اس لیے عموماً قصور دعوتِ حق کا نہیں ان ظالموں کا اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کو غلافوں میں لپیٹ لینے کا ہوتا ہے۔

اس حقیقت ِنفس الامری کے باوجود تقریباً دو سال تک تحویلِ قبلہ کو مؤخر کیا گیا تاکہ   اتمامِ حجت ہوسکے۔قرآنِ کریم کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر دعوتِ اسلامی اپنی تمام حقانیت کے باوجود ۷۰ برسوں میں وہ مقصد حاصل نہ کرسکی، جو اس کی دعوت کی بنیاد ہے، یعنی اقامت دین اور حاکمیت ِ الٰہیہ کا قیام تو اس میں حیرت، افسوس اور مایوسی کا کیا سوال! ثانیاً: اگر حکمت ِدینی اور مصلحت ِ دینی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کے اہلِ کتاب کے ساتھ میثاق پر دستخط ہوں تو کیا ایک اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ وقتی اور متعین مدت کے لیے میثاق اور معاہدے کرنا دین کے اصولوں کے منافی ہوسکتا ہے؟

مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کی ادایگی، یعنی شہادت علی الناس کے لیے کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ اس دور کے مؤثر ترین ذرائع کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے جن میں   ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر حق کا کلمہ بلند کرنا اور حکومتی ذرائع کے توسط سے دین کی فکر کا پیش کیا جانا مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ شہدا علی الناس بننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام وسائل کا استعمال   اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی صداقت کے اظہار کے لیے کیا جائے۔ یہ وہ امانت ہے جسے پہاڑوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن جسے اللہ تعالیٰ اپنے انعام کے طور پر اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ یہ اس کی میراث ہے جو اس کے عابد بندوں کو یہاں اور آخرت میں ملتی ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو قرآن و سنت کے سایے میں اپنے دور کے مطالبات کے پیش نظر آگے بڑھ کر ایسے معاہدے بھی کرنے ہوں گے، جو وقت کی ضرورتوں کی روشنی میں متعین اور محدود اہداف کے حصول کے لیے ہوں اور بالآخر جن کا مقصد دین کا قیام ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو تنقیدی نگاہ سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوگا اور کسی مداہنت اور اصولوںسے انحراف کیے بغیر، اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے وقتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ یہی دین کا مدعا ہے اور یہی دین کی راست حکمت عملی ہے۔

تحویلِ قبلہ کے حکم کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے منصب ِ امامت سے معزول کیے جانے کا بنیادی سبب ان کا کتمانِ حق تھا [البقرہ۲: ۱۴۰]، اور اُمت مسلمہ کو یہ منصب سونپنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تمام انسانوں پر گواہ بنا دیے جائیں اور وہ حق کی اُس شہادت کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس دی، اقوامِ عالم تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیے جائیں [البقرہ۲: ۱۴۳]۔ اس اہم منصب پر فائز ہونے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ یہود کی تاریخ مسلسل وعدہ خلافی، چکمے دینے اور دوعملی کی ہے، دوبارہ اتمامِ حجت کے لیے تقریباً دوسال یہودِ مدینہ کو یہ بات سمجھنے کا عملی موقع دیا گیا کہ دین اسلام، دین ابراہیمی ہے اور ان کی  فلاح اسی میں ہے کہ وہ بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ جب اتمامِ حجت ہوگئی تو پھر تبدیلیِ قبلہ کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب مسلمان اور یہود ایک اُمت نہیں بن سکتے بلکہ یہ دو الگ الگ ملّتیں ہیں اور دونوں کے قبلے جدا ہیں۔

ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ دعوتی مصالح کے   پیش نظر ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے ان افراد اور گروہوں سے بھی سیاسی اتحاد کیا جاسکتا ہے جن کے مقاصد میں کُلی اشتراک نہ ہو۔ یہ حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کے    جملہ پہلوئوں میں سے ایک ہے اور نظریاتی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے۔

قرآنِ کریم شہادتِ حق کے تصور کو تفصیل سے ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ایک جانب  دین اسلام کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانا شہادتِ حق ہے تو دوسری جانب اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے ایسے افراد کو منتخب کرنا بھی شہادتِ حق کی ایک شکل ہے، جو ذمہ داری اُٹھانے کے اہل ہوں:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo (النساء ۴:۵۸)،مسلمانو،اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

ایک مسلم معاشرے اور مملکت میں قیادت کے انتخاب کے حوالے سے بھی قرآنی ہدایات دوٹوک اور واضح ہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک منصب یا ذمہ داری کی اہلیت نہیں رکھتا، اسے ووٹ دیتا ہے تو یہ قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور بقول مفتی محمد شفیعؒ گناہِ کبیرہ ہے۔ حق کی شہادت اسی وقت دی جاسکتی ہے جب مختلف مناصب پر وہی لوگ مقرر کیے جائیں جن میں امانت، صدق، شفافیت، عدل، توازن، اللہ کا خوف، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اُمت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کی فکر پائی جاتی ہو۔

جس طرح اللہ کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے،     اسی طرح انسانوں کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ انھیں امانت کے ساتھ ادا کیا جائے اور ہرمعاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف اور آخری سند اور معیار اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہو۔ اُمت مسلمہ اور خصوصاً پاکستان کا بنیادی مسئلہ نااہل افراد کا ناجائز ذرائع سے حکومت پر قابض ہوجانا ہے۔ تبدیلی کے ذرائع ، ایک سے زائد ہوسکتے ہیں، مگر جو ذریعہ یا ذرائع استعمال کیے جائیں، ان کے لیے شرط صرف ایک ہے کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے راستے کے مطابق ہوں اور فساد فی الارض کا ذریعہ نہ بنیں۔

موجودہ حالات میں دعوتی حکمت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کے حق کو امانت کے احساس کے ساتھ اہل افراد کو قیادت کے منصب پر لانے کے لیے استعمال کریں۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام قیادت کی ناکامیوں اور بے وفائیوں کا گلہ تو کرتے ہیں (اور بجا طور پر کرتے ہیں) لیکن اس امرپر غور نہیں کرتے کہ قیادت کے انتخاب کے وقت خود انھوں نے کہاں تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اگر وہ برادری، تعلّقِ خاطر، سیاسی مفاد پرستی، لالچ، دھونس یا ایسے ہی دوسرے عوامل کے زیراثر ووٹ دیتے ہیں تو پھر قیادت کی غلط کاریوں کی     ذمہ داری سے اپنے کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہی تبدیلی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل قیادت سے نجات کا ذریعہ انتخابات میں اس فرد اور جماعت کو ووٹ دینا ہے جس کے نمایندے باصلاحیت ہوں اور صاحب ِ کردار ہوں۔ قیادت کی سب سے ضروری صفات صلاحیت اور صالحیت ہیں۔ یہ دین کا تقاضا ہے اور اچھی سیاست کے فروغ کے لیے سب سے ضروری امر ہے کہ اچھے اور باکردار افراد کو ذمہ داری کے مناصب پر لایا جائے، اور ان کا ایسی جماعت سے وابستہ ہونا بھی ضروری ہے جس کا ریکارڈ قابلِ بھروسا ہو، جس کا ماضی بے داغ ہو، اور جس میں احتساب کا نظام موجود ہو۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ خود بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنے حلقے میں دوسرے تمام ووٹروں کو اس بات کو سمجھانے میں سردھڑ کی بازی لگادیں کہ اصلاح اور تبدیلی کا عمل ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ دین اور اچھی سیاست دونوں کے لیے  کم سے کم تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کی واضح ہدایت یہ ہے کہ امامت اور ولایت کی ذمہ داری صرف ان کے سپرد کی جائے جو ایمان، علم، دیانت، عدالت اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل ہوں۔ قیادت کے لیے علم اور جسم یعنی صلاحیت اور قوتِ کار کو ضروری قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑکو قیادت پر فائز کیا تو اس کی یہی وجہ بتائی، فرمایا:

  •  اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط (البقرہ ۲:۲۴۷) ، اللہ نے تمھارے مقابلے میں اس کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا کی ہیں۔

راست بازی، اعلیٰ کردار، حق شناسی اور دامن کے بے داغ ہونے کو ضروری قرار دیا:

  •  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْط (الحجرات ۴۹:۱۳)،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
  •  لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ (البقرہ ۲:۱۲۴) ،میرا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہے۔

انصاف پر قائم رہنا اور سب کے درمیان انصاف سے معاملہ کرنا قیادت کے لیے    ازبس ضروری ہے۔

  •  کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ(النساء ۴:۱۳۵) ،انصاف پر قائم رہنے والے، اللہ کے لیے گواہی دینے والے رہو اگرچہ اپنی ذات کے خلاف یا والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
  •  وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرہ ۲:۱۸۸)، اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھائو۔

یہی وہ صفات ہیں جن کو خود پاکستان کے دستور میں سیاسی قیادت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جن کا ذکر دفعہ۶۲ میں ضروری صفات کی حیثیت سے اور دفعہ ۶۳ میں قیادت کو نااہل بنانے والی صفات کے طور پر کیا گیا ہے۔ ان کے چند اہم جملے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں تاکہ    ان سے ہر ووٹر کو روشناس کرایا جائے اور انھیں سمجھایا جائے کہ اگر وہ اپنے ملک کے حالات کی اصلاح چاہتے ہیں تو ووٹ دیتے وقت اُمیدوار کو اس کسوٹی پر جانچیں اور اس احساس کے ساتھ اپنے ووٹ کو استعمال کریں کہ وہ ایک امانت ہے جسے صرف امانت دار کو دینا ان کا فرض ہے۔ نیز ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ جسے آپ ووٹ دے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ووٹ کا مستحق ہے، اور ووٹ ایک قسم کا وکالت نامہ ہے کہ آپ اپنی طرف سے ایک شخص کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے اور قوم کے معاملات کو آپ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک انجام دے___ اور آپ کی دنیا اور آخرت میں ان تینوں اعتبار سے ووٹ کے استعمال کے باب میں جواب دہی ہوگی۔

خبردار! یہ لوگ ووٹ کے اھل نھیں

  •  دفعہ ۶۲

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نہ ہو، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(و) وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایمان دار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔

(ز) اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔

  •  دفعہ ۶۳

(ز) وہ کسی مجاز سماعت عدالت کی طرف سے کسی ایسی راے کی تشہیر کے لیے سزایاب   رہ چکا ہو، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو، جو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا آزادی کے لیے مضر ہو، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ح) وہ کسی بھی اخلاقی پستی کے جرم میں ملوث ہونے پر سزایافتہ ہو، جس کو کم از کم دوسال سزاے قید صادر کی گئی ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو، یا

(ن) اس نے کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو ادارے سے اپنے نام سے اپنے خاوند یا بیوی یا اپنے زیرکفالت کسی شخص کے نام سے دوملین روپے یا اس سے زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کیا ہو جو مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے غیرادا شدہ رہے یا اس نے مذکورہ قرضہ معاف کرالیا ہو، یا

(س) اس نے یا اس کے خاوند یا بیوی نے یا اس کے زیرکفالت کسی شخص نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت چھے ماہ سے زیادہ کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زائد رقم کے سرکاری واجبات اور یوٹیلٹی اخراجات بشمول ٹیلی فون، بجلی،گیس اور پانی کے اخراجات ادا نہ کیے ہوں۔

تحریکی کارکنوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دستور کی شق کی روح اور معنی سے متعارف کرائیں اور نئے نظام کے قیام کے لیے آگے بڑھ کر صرف ایسے مخلص افراد کو منتخب کریں جو اپنے وعدوں پر قائم رہنے والے ہوں، جو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں، اور اپنے نفس کے بہکانے میں آنے کو تیار نہ ہوں۔           

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو یہ امر بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ انتخابات ہمارے لیے جہاں نئی اور بہتر قیادت کو برسرِاقتدار لانے کی فیصلہ کن جدوجہد کا اہم ترین پہلو ہیں، وہیں خود عوام کی تعلیم، ان میں سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرنے، ان میں حق و باطل اور خیروشر میں   تمیز اور تبدیلی اور اصلاح کے عمل میں شرکت کے لیے باہر نکلنے، راے عامہ کو تیار کرنے اور اپنا  فرض ادا کرنے کا داعیہ پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ یہ ہماری دعوت کا ایک اہم پہلو ہے اور   ان شاء اللہ اس سلسلے میں صحیح نیت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا شمار عبادت اور جہاد میں شرکت کے زمرے میں ہوگا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

 

بیسویں صدی میں اُبھرنے والی تحریکاتِ اسلامی اور تحریکاتِ حریت کی دعوت کا ایک اہم پہلو نفاذِ شریعت یا نظامِ اسلامی کی خواہش رہا ہے۔ یہ تحریکات شمالی افریقہ میں ہوں یا مشرق وسطیٰ میں یا جنوب مشرقی ایشیا میں، ان کے منشور مغربی لادینیت اور آمرانہ نظاموں کی جگہ اسلام کے اصولِ عدل پر مبنی سیاسی نظام کے نفاذ کو اپنا مقصد وحید قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان تحریکات کے نقاد انھیں یہ الزام دیتے ہیں کہ یہ تحریکات ماضی کی طرف سفر کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی شریعت کو جو ان کے اندازے کے مطابق نیم مہذب بدویانہ روایات پر مبنی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، کم فہم انسانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

اسلامی شریعت کی قدامت پسندی، انتہا پسندی اور انسانی حقوق کے تصور سے متصادم ہونے کے مفروضے کو اتنی شدت اور تکرار سے بیان کیا گیا ہے کہ آج بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی میں اسلامی شریعت کو محض چند ’جابرانہ سزائوں‘ کا مجموعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جتنی شدت سے آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی کہ اسلامی شریعت کے صحیح خدوخال کو براہِ راست اس کے مصادر کی روشنی میں اہلِ علم اور عام قارئین کے سامنے سادہ الفاظ میں رکھا جائے۔

قرآن کریم کا یہ خصوصی اسلوب ہے کہ وہ اکثر احکامِ الٰہی کے تذکرے کے ساتھ ان کی  حکمت و علّت کو بھی سمجھاتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ علّت بہت واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات غوروفکر کے بعد علّت کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم انسان کی تخلیق کا سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و عبادت کو قرار دیتا ہے۔ انبیاے کرام کی بعثت اور نزولِ کتب ِ سماوی کی غایت انسانوں کو نظامِ عدل اور تحفظ فراہم کرنا قرار دیتا ہے لیکن بعض اوقات نص میں غایت کی صراحت نہیں ہوتی اور ایک طالب علم غوروفکر کے نتیجے میں غایت اور سبب تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک موعظہ، نصیحت اور سینوں کے امراض کے لیے شفا ہے (یونس ۱۰:۵۷)۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمام انسانوں کے لیے، اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔ (الجاثیہ ۴۵:۲۰)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ قرآن کریم دلوں کے امراض کی شفا اور رحمت ہے۔ اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس میں کوئی دقت، مشکل، سختی، یا شدت پائی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اس کے برخلاف شیطان اور اس کی ذُریت اپنی ہرہر چال سے انسان کو گمراہی، شدت پسندی، بُغض و عداوت، دشمنی اور قتل و غارت کی طرف للچا کر لے جانا چاہتی ہے۔ ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ ۵:۹۱) ۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع اپنے احکام کے اسباب و علل بھی بیان فرماتا ہے تاکہ انسان شریعت پر بربناے تحقیق عمل کرے اور اس کی حکمتوں سے براہِ راست آگاہ ہو۔

شریعت لغت میں پانی کے چشمے کو جانے والے راستے کو کہتے ہیں۔ جس طرح پانی انسان کو زندگی دیتا ہے، اسی طرح شریعت انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور ادب سکھاتی ہے۔ جس طرح پانی انسان کے جسم سے گندگی کو دُور کردیتا ہے، شریعت کی آبیاری انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر سرگرمیوں کو فساد سے پاک کر کے اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیتی ہے۔

شریعت کے احکام کس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت کا تعین کس طرح کیا جائے گا، مزید یہ کہ حکمِ شرعی کی تطبیق کن کن حالات میں ہوئی، اس کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی___ یہ اور اس سے ملتے جلتے بے شمار سوالات کا جواب علم مقاصد و مصالح کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقاصد ِشریعت اور مصالحِ عامہ ایسے اہم علمی شعبے ہیں جن کے بغیر ایک مسلمان زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی     ایک بڑی تعداد نے محض سنی سنائی پر اعتماد کر کے شریعت کو ایک انتہائی مشکل اور ناقابلِ عمل ضابطہ سمجھ لیا ہے، جب کہ شریعت کی آفاقیت اور عملیت اس کے ہرہر حکم سے واضح ہوتی ہے۔

مقاصد شریعت ایک انتہائی اہم تدریسی مضمون ہے لیکن بہت کم دینی مدارس اس پر اتنی توجہ دیتے ہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً پانچ معروف مقاصد کا تذکرہ اور چند مثالوں سے ان کی وضاحت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبۂ علم پر سالہا سال غوروفکر کرنے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک شخص اس علم کا احاطہ کرسکا ہے۔

سوڈان کے نام ور فقیہ ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے عصرحاصر میں مقاصدِ شریعت اور مصالح کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور زیرتبصرہ کتاب تحریر کی ہے۔ یہ تصنیف  ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر مبنی ہے جسے جامعہ الازہر میں پیش کیا گیا۔ راقم الحروف کو ان سے دو تین کانفرنسوں میں ذاتی طور پر ملاقات کا موقع بھی ملا اور ان کے علم اور خلوص نے بہت متاثر کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت پر اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین! مقاصد شریعت پر عصرِحاضر میں جو علمی کام ہوا ہے یہ کتاب اس میں ایک اہم علمی اضافہ ہے۔

زیرتبصرہ کتاب پانچ فصول میں منقسم ہے۔ فصل اوّل اہداف سے بحث کرتی ہے جس میں ہدف کی لغوی اور شرعی تعریف، شارع کے مقصد کے منافی عمل کرنے کے نتائج، اور مقاصد ِ شارع کی معرفت کے لیے اجتہاد کی ضرورت سے بحث کی گئی ہے۔

فصل دوم مصلحت سے بحث کرتی ہے جسے ہمارے ہاں مصلحت عامہ کہا جاتا ہے۔ باب دوم میں مصالح کا تفصیلی بیان ہے جس میں دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت شامل ہیں۔ خلاصۂ بحث، حواشی و تعلیقات اور مراجع و مصادر پر کتاب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

مقاصد اور مصالح کا تعین اور صحیح تطبیق ایک تحقیق طلب امر ہے۔ عام طور پر مصلحت کا استعمال کسی شر سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کی اصل بنیاد، یعنی شارع کی منشا کا دریافت کرنا، اور پھر منشا سے مطابقت رکھتے ہوئے ایک حکمت عملی وضع کرنا علم الاصول کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے مصنف بحث دوم کے زیرعنوان بہت قیمتی نکات زیربحث لاتے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی بھی مکلف کسی جائز کام کو اس حیثیت سے کرتا ہے جو شارع کے مقصد کے خلاف ہے تو حقیقتاً یہ سمجھا جائے گا کہ    وہ ناجائز کام کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰۴)۔ اس طرح وہ تحریر کرتے ہیں: ’’جب مکلف کا ارادہ شارع کے ارادے کے خلاف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مکلف نے شارع کے مقصد کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا، اور جس امر کو شارع نے مقصد نہیں سمجھا تھا اسے مقصد قرار دے دیا‘‘ (ص ۱۰۴)۔     ان دونوں سادہ سے نکات پر اگر غور کیا جائے تو ایک عام شخص کے لیے بھی ان میں غیرمعمولی  حکمت و دانائی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی ان نکات کی اہمیت اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔

ان اصولوں کی بنیاد قرآن کریم کا وہ حکم ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِــعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵) ’’مگر جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالے کہ اس پر راہِ راست واضح ہوچکی ہو، تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے  جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: ’’مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچنے کے لیے ایسے اعمال کا سہارا لینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیے آپؐ کی کھلی مخالفت ہے، اور آپؐ کی مخالفت درحقیقت اس وحی کی مخالفت ہے جو آپؐ اللہ کی طرف سے لے کر تشریف لائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے: رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بعد خلفا نے کچھ طریقے چھوڑے ہیں، انھی کو اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق، اطاعت رسولؐ کی تکمیل اور دین کی قوت کا باعث ہے‘‘۔ (الموافقات ،ج۲، ص ۳۳۴)

شارع کے مقاصد کے خلاف جو عمل بھی کیا جائے گا وہ باطل ہوگا۔ مندرجہ بالا استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہرحکمت عملی کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کہاں تک مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اقرارِ توحید و رسالت اور صلوٰۃ اور دیگر عبادات قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ہیں اور یہی شارع کا مقصود ہے۔ لیکن ان اعمال سے کسی کی نیت دنیوی مفاد کا حصول ہو یا دنیوی نقصان سے بچنا مقصود ہو، تو اس کا یہ عمل شارع کے مقصد سے ہٹ جانے کے سبب باطل ہوجائے گا۔ زکوٰۃ کی فرضیت سے شارع کا مقصد مال داروں کو حرص اور دولت کی محبت و پرستش سے نکالنا ہے اور ہبہ کرنا ایک نیکی کا کام ہے، لیکن اگر ایک شخص زکوٰۃ کی ادایگی سے بچنے کے لیے اپنا مال عین واجب مدت سے قبل کسی اور کو ہبہ کردے تو شارع کے دونوں مقاصد کے خلاف عمل کرے گا۔

یہ دو مثالیں محض بات کو آسان کر کے سمجھانے کے لیے عرض کی گئی ہیں۔ مصنف نے کتاب میں ہر ہر نکتے کی وضاحت کے لیے مثالیں دے کر مقاصد و مصالح کے علم کو آسان بنا کر پیش کیا ہے۔ہم دوبارہ اپنی بات کو دہراتے ہیں کہ یہ فقہ کا ایک ایسا شعبہ ہے جو فقہ کا مصدر ہے اور اسی بنیاد پر فقہ وجود میں آتا ہے۔ اس لیے دین کو سمجھنے اور زندگی کے اہم معاملات میں اس کی تطبیق طے کرنے کے لیے مقاصد اور مصالح کا سمجھنا، اور حتی الامکان مقاصد و مصالح اور قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہی دین کا تقاضا ہے۔

یہ کتاب تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے ایک عمدہ فکری غذا فراہم کرتی ہے۔ مقاصد شریعت کا جاننا تحریکِ اسلامی کی قیادت کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان پر مسلسل غور اور ان کی ہمہ وقت تطبیق کے بغیر تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ طے کرنا کہ اس وقت تحریک کی ترجیح کیا ہو، کیا تمام قوت محض تربیت کے نظام کی اصلاح پر لگا دی جائے، تحقیق و تجزیے کو اولیت دی جائے، یا سیاسی محاذ پر تمام توجہ مرکوز کردی جائے، یا معاشرتی فلاح کے کاموں کو فوقیت دی جائے، خواتین کے کن مسائل کو ملک گیر تحریک کا موضوع بنایا جائے، عوام الناس کے کون سے مسائل ہیں جن پر مہم چلائی جائے، تعلیمی میدان میں ہماری اولیت کیا ہو، کاروبار و تجارت کرنے والوں سے تعلق کی نوعیت کیا ہو___ غرض تحریکی مسائل و معاملات میں جب تک مقاصد کا علم گہرائی کے ساتھ حاصل نہ کرلیا جائے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ تحریک کی حکمت عملی کہاں تک اصولِ شریعت کی پیروی کررہی ہے۔

تحریک کے نظامِ تربیت میں اس موضوع پر مستقلاً توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف حامدالعالم کی یہ تحقیقی کتاب سلاستِ بیان کی بنا پر تربیتی لٹریچر میں شامل ہونی چاہیے اور اسلامی فقہ سے گہری واقفیت رکھنے والے اساتذہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔

(اسلامی شریعت مقاصد اور مصالح ، یوسف حامد العالم، مترجم: محمدطفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ    تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۴۵ ۔ ہدیہ: ۹۰۰ روپے)

 

محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی دنیا کے ہر گوشے میں ربیع الاوّل کے مہینے میں آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے اور اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں اور جس طرح رمضان الکریم میں گھر گھر قرآن کی تلاوت کی مبارک آواز فضائوں کو گرما دیتی ہے، اسی طرح اس مہینے میں اسکول ہوں یا بازار، ایوانِ حکومت ہو یا ہمہ وقت منکر (لغویات اور لہوولعب) میں مصروف ٹی وی چینل، کم از کم ایک دن کے لیے درود و سلام ہر لہوالحدیث پر غالب آجاتے ہیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمان کا تعلق ہی کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ چاہے وہ سال بھر دین کی ہرتعلیم سے کتنا ہی غافل رہا ہو، اس مہینے میں وہ رسولؐ اللہ سے اپنی نسبت کو کسی نہ کسی شکل میں تازہ کرلیتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو چراغاں کر کے اپنے دل کی تاریکی میں روشنی کی کچھ رمق پیدا کرلیتا ہے۔ صدیوں کی غلامی اور آزادی کے بعد کی بے راہ روی بھی اسے اس راکھ میں دبی ہوئی چنگاری سے محروم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وہ خاص ترکیب ایمانی ہے جو ایک بظاہر ’سیکولر مسلمان‘ کو بھی شاتمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مظاہروں، دھرنوں اور پُرجوش بیانات پر آمادہ کرتی ہے اور مغرب و مشرق کے اصحابِ دانش کے لیے ایک معمّہ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ مغرب اپنی تمام تر مادیت، مغربیت اور لادینیت کے باوجود مسلمانوں کو اس نعمت سے محروم نہیں کرسکا۔

سوال یہ ہے کہ کیا حُب ِ رسولؐ کا بہترین اظہار صرف جلسوں، جلوسوں، بجلی کے قمقموں اور رنگارنگ محفلوں میں بہترین ترنم کے ساتھ مدحِ رسولؐ کرنے سے ہوسکتا ہے یا قرآن کریم انسانیت کی اس عظیم ہستیؐ سے محبت کے اظہار کا کوئی اور طریقہ تجویز کرتا ہے؟ قرآن کریم نے اس مسئلے کو محض دو آیات میں آسان بناکر قیامت تک کے لیے حل کردیا ہے۔ فرمایا گیا:  قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (اٰل عمرٰن ۳:۳۱)’’اے نبیؐ،لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘‘، اور مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰)’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ گویا اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہو تو اللہ کے محبوب کی تعریف و توصیف کے ساتھ ان پر ایمان اور ان سے محبت کے اظہار کا اصل طریقہ ان کی اطاعت کو اختیار کرنا ہے، اور اس اطاعت کادائرہ پوری زندگی اور  اس کے ہرعمل سے ہے، خواہ وہ ہاتھ ملانے کا طریقہ ہو یا مسکراتے ہوئے رُخِ مبارک کے ساتھ ہراہلِ ایمان کا استقبال کرنا ہو۔ وہ بازار میں فروخت ہونے والے مال کی کوالٹی کا جانچنا ہو یا پڑوس میں رہنے والی کسی غیرمسلم ضعیف خاتون کی تیمارداری۔ یہی آپؐ  کا خلق عظیم ہے اور یہ اس کی پیروی کا کرشمہ ہے کہ دوست ہو یا دشمن آپؐ  کا ہرسچا پیرو ہرکسی کے لیے رحمت بن کر دل و نگاہ میں مقام پیدا کرلیتا ہے۔

قرآنِ کریم نے آپؐ  کی صفاتِ حمیدہ کے حوالے سے جہاں اخلاق [خلق] کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہیں رحمت للعالمینؐ کے لقب سے بھی نواز ا ہے۔ اس رحمت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں لیکن موجودہ حالات کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم چار پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی جائے:

اوّلاً: اس رحمت کا تعلق اس نور اور ہدایت کے ساتھ ہے جو خود اپنے لیے فرقان، ذکریٰ اور قرآن جیسے نام استعمال کرتا ہے۔ آپؐ اس لیے رحمت للعالمینؐ ہیں کہ آپؐ  تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابِ ہدایت اور سامانِ رحمت لانے والے ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جو انسانوں کے لیے سرتاسر رحمت ہی رحمت ہے۔ اس کی ہرہرآیت انھیں گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر نور کی پاکیزہ کرنوں سے منور کردیتی ہے۔ اس کلامِ رحمت میں وہ ہستی جو الرحمن اور الرحیم ہے، اپنے بندوں کی نادانیوں اور بھول ہی نہیں، جان بوجھ کر غلطیوں کا ارتکاب کرنے پر بھی رحمت و مغفرت کی اُمید جگاتا اور اپنے کمالِ کرم و رحمت سے ان کے بڑے بڑے گناہوں کو اظہارِندامت پر معاف فرمانے کا وعدہ فرماتا ہے، اور کس کا وعدہ اُس سے زیادہ سچا ہوسکتا ہے جو مکمل طور پر صدق اور حق ہے، جو اپنے بندوں پر ایک ماں سے بھی زیادہ شفقت و رحمت فرمانے والا ہے۔ ایسا کلام رحمت لانے والا انسانوں کے لیے رحمت نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اسے اور کس نام سے پکارا جاسکتا ہے؟

دوسرا اہم پہلو جو مطالبہ کرتا ہے کہ مقامِ محمود پر فائز علم اور رہنمائی کے اس سرچشمے اور تمام انسانوں کو علم سے مالا مال کردینے والی اس ہستی کو رحمت للعالمینؐ کہہ کر پکارا جائے۔ آپؐ  ہی کا عمل وہ اسوہ ہے جس میں ہرہرقدم پر رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم کے سامنے جب دو کاموں میں انتخاب کا معاملہ ہوتا تو اپنی اُمت کو یُسر فراہم کرنے اور عُسر سے نکالنے کے لیے آپؐ  جو عمل زیادہ آسان ہوتا، اسے پسند فرماتے۔ چند اصحابِ رسولؐ جب اُمہات المومنینؓ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپؐ  کے شب و روز کس طرح گزرتے ہیں اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ آپؐ  عبادات و معاملات کے درمیان کیا حسین توازن قائم کرتے ہیں، تو واپسی پر راستے میں وہ سوچتے ہیں کہ ایسا معاملہ آپؐ  کے ساتھ خاص ہو، عام انسانوں کے لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو خصوصی رخصت دے دی ہو، اور اس بنا پر  آپؐ اُس شدت سے عبادت نہ کرتے ہوں جس کی اُمید میں وہ اُمہات المومنینؓ سے معلومات کرنے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ارادہ کرتا ہے کہ وہ تمام رات قیام کرے گا۔ دوسرا طے کرتا ہے کہ وہ ہردن روزے سے ہوگا، اور تیسرا قصد کرتا ہے کہ وہ بیوی کے پاس نہیں جائے گا۔     رحمت للعالمینؐ کو جب اس کی اطلاع ملتی ہے تو آپؐ  ان کو طلب فرماتے ہیں اور جن دو کلمات سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آپؐ  اللہ کے رسولؐ اور ان سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود رات کے کچھ حصے میں عبادت، اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں، بعض دنوں میں روزہ رکھتے اور بعض میں نہیں رکھتے، اور پھر یہ بات فرمائی کہ نکاح آپؐ  کی سنت ہے جس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ کے رسولؐ کی سنت سے رغبت نہیں رکھتا اس کا آپؐ  سے کوئی تعلق نہیں [فلیس منّی]۔

تقویٰ اور خشیت کی تعریف اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر رحمت بن کر بیان فرماتے ہیں کہ رات کے کچھ حصے میں قیام، صرف بعض دنوں میں روزہ، اور خاندان کی زندگی سنتِ رسولؐ سمجھتے ہوئے گزارنا۔ یہاں بھی رحمت اور یُسر کا پہلو غالب ہے ، جب کہ دنیا کے دیگر مذاہب میں تقویٰ اور بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان گھربار کو چھوڑ کر  جنگل بیابان میں، کسی پہاڑی کے دامن میں، کسی غار میں جاکر بیٹھ جائے اور اس طریقے سے چنددنوں میں مرجع خلائق بن جائے! کیا یہ عمل ایسے فرد کو رحمت للعالمینؐ سے جوڑنے والا ہوگا یا توڑنے والا؟ گویا عبادات ہوں یا معاشرت توازن و اعتدال کی عملی مثال، وہ رحمت ہے جو آپؐ  کی حیاتِ مبارکہ میں ہمارے لیے مثال بن کر نظر آتی ہے۔

تیسرا اہم پہلو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  نہ صرف انسانوں بلکہ تمام موجودات کے لیے رحمت و شفقت کا مظہر و مرکز ہیں۔ انسانوں کے ساتھ تو آپؐ  کا تعلقِ رحمت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جب آپؐ  ایک صحابیؓ سے وہ واقعہ سماعت فرماتے ہیں جس میں اُس صحابیؓ نے قبلِ اسلام اپنی بیٹی کو ایک غیرآباد کنویں میں ڈال کر مارنا چاہا اور وہ کنویں میں گرائے جانے کے باوجود اپنے  شقی القلب باپ کو پیار سے پکارتی رہی، تو رحمت للعالمینؐ آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ بات انسانوں تک محدود نہیں، جب ایک باغ میں تشریف لے جاتے ہیں اور ایک اُونٹ کو تکلیف سے ہنکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو رحمت للعالمینؐ اس کے لیے بھی رحیم و کریم ہونے کے سبب اس کے مالک کو نصیحت کرتے ہیں کہ اسے مناسب غذا دی جائے اور اس پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ پرندوں پر آپؐ  کی شفقت و رحمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوم الحساب آپؐ  اُس چڑیا کے بھی وکیل ہوں گے جسے بغیر ضرورت ناحق نشانہ بنایا گیا۔ یہ آپؐ  کی محبت و شفقت تھی جس نے خادمِ حدیث و سنت کو ابوہریرہؓ (بلّی کے باپ)کی کنیت دلوائی۔

آپؐ  کے رحمت للعالمینؐ ہونے کا ایک بہت نمایاں پہلو آپؐ  کا دونوں عالموں، یعنی   اس دنیا میں اور آخرت میں واقع ہونے والے دوسرے عالم میں اپنی اُمت کے لیے سراپا رحمت ہونا ہے۔ قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ آپؐ  مشرکینِ مکّہ کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے دعوتِ دین میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا کہ آپؐ  ان کے غم میں خود کو      نہ گھلائیں،آپؐ  ان پر وکیل نہیں ہیں، آپؐ  کاکام صرف ابلاغِ دعوت ہے۔ آپؐ  کی یہی محبت و لگن تھی کہ جب تک آپؐ  اس دنیا میں رہے، ہرہرعمل سے اُمت کے لیے آسانی کی شکل نکالی اور ایسے ہی عالمِ آخرت میں اللہ کے ان بندوں کی اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاعت فرمائیں گے جنھوں نے حق کی خاطر اپنے نفس اور مال کو اللہ کی راہ میں لگایا۔ گویا آپؐ  دونوں عالموں کے لیے رحمت ہی رحمت ہیں۔

قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی ہرمعاملے میں انسانوں کے لیے رحمت ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن کی طرح وہ بھی یومِ حساب فریاد کرے کہ اسے اُس کے ماننے والوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا، پسِ پشت ڈال دیا تھا اور محض سال میں ایک دن اس کی یاد میں جشن منا کر اپنے خیال میں اس کی محبت و شفقت کا قرض اُتار دیا تھا؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور محبت کا اہم ترین تقاضا نظامِ ظلم و کفر کے خلاف جہاد، اور معروف اور بھلائی کے قیام کے لیے اپنے گھر میں، معاشرے میں، اپنی تجارت میں، اپنی سیاست میں، غرض زندگی کے ہرمعاملے میں بندگی و اطاعت کو صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خالص کردینا ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں جو قولِ فیصل ہمیں سنایا ہے وہ ہرلمحے نگاہوں کے سامنے رہنا چاہیے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (اٰل عمرٰن ۳:۳۱) ، اے نبیؐ،لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ط (النساء ۴:۸۰)، جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۳)، اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا o(النساء ۴:۶۱)، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔