اخبار اُمت


 مقدس شہر یروشلم کے مغربی حصے میں ہولوکاسٹ میوزیم کا دورہ کرنے کے بعد کوئی شقی القلب شخص ہی ہوگا کہ جو اپنے آنسو روک پائے۔ چند برس قبل جب میں نے اس میوزیم کا دورہ کیا، تو استقبالیہ کاؤنٹر سے کانوں میں لگانے والی کمنٹری [یعنی آنکھوں دیکھا حال بتانے والی]مشین فراہم ہوگئی تو بھارتی نژاد اسرائیلی گائیڈنے مزید رہنمائی کرنے سے معذوری ظاہر کی اور مشورہ دیا کہ اس میوزیم کو انفرادی طور پر ، آزاد ذہن کے ساتھ بغیر نگرانی یا رہنمائی کے دیکھنا مناسب ہے۔ مدہم روشنیوں کے درمیان ایک پُراسرار اور سوگوار فضا دوسری عالمی جنگ اور یورپ کی شہری زندگی کی نہ صرف عکاسی کرتی ہے، بلکہ لگتا ہے کہ زمان و مکان اسی دور میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ ہال میں جس تصویر یا کسی شے کے سامنے کھڑے ہیں اس کا اور ہال کا نمبر کمنٹری مشین میںدبائیں، تومطلوبہ زبان میں آنکھوں دیکھا حال رواں ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ تصویر زندہ ہوگئی ہو۔کریک ڈائون، سرچ آپریشنز، ہاتھ سروں پر رکھے قطار دَر قطار مارچ کرتے ہوئے خواتین و مرد، ریل کی پٹڑیوں کی گڑگڑاہٹ، آہ و بکا کا ایک شور، پلیٹ فار م پر گوشت سے عاری ناکافی پھٹے لباس میں انسانوں پر جرمن اہلکاروں کے برستے کوڑے ، عورتوں اور بچوں کی کس مپرسی اور پھر ان کو ہانک کر گیس چیمبر کی طرف لے جانا وغیرہ وغیرہ، غرض انسان کے وحشی پن اور انسانیت کی تذلیل کے ان واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دم بخود ہونا لازمی امر ہے۔ ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے۔

اس طرح کے حالات کا سامنا کرنے والے مغربی ممالک خصوصاً یہودیوں کو انسانی حقوق اور انسانیت کے تئیں زیادہ حساس ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس عذابِ الٰہی کے بعد اپنی روایتی بد عہدی اورریشہ دوانیوں کا اعادہ کرتے ہوئے یہودی یا بنی اسرائیل نے جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد    نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر شب خون مار کر ان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، بلکہ دیگر ممالک میں اپنے ذرائع و و سائل کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلا کر گھیرنے اور مارنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں۔

وہ ظلم تو یورپ کے عیسائیوں نے کیا ، مگر بدلہ آج تک مسلمانوں سے لیا جا رہا ہے۔ اسی کی ایک کڑی کے طور پر حال ہی میں ہالینڈکے رکن پارلیمنٹ گیرٹ وائلڈر نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کا اعلان کیا تھا۔وائلڈر نے اپنے تحریری پیغام میں کہا کہ اس نے قتل کی دھمکیوں اور مسلمانوں کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر مقابلہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دنیا بھر میں اس معاملے پر افرا تفری پھیلے۔ اس سے قبل ہالینڈکی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کی نمایش روکنے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ واضح رہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی تھی اور سخت احتجاج کیا جا رہا تھا۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، کہ جس کو روکنے کی جیت کا سہرا مختلف تنظیمیں اپنے سر باندھنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اور یہ نہیں لگتا کہ مسلمانوں کے سڑکوں پر اترنے یا دھمکیوں کی وجہ سے یہ مقابلے منسوخ ہوئے ہیں۔

اس سے قبل بھی ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں اور پھر ۲۰۱۵ء میں فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو نے ان خاکوں کو دوبارہ شائع کیا اور مسلمانوںکی تنظیمیں سڑکوں پر آئیں، تو اس کا اُلٹا اثر سامنے آیا۔ مغرب میں اس کو اظہار راے پر حملے کی صورت دے کر مسلمانوں کے خلاف راے عامہ کو بھڑکایا گیا۔ پاکستانی حکومت کے موجودہ موقف ہی میں اس کا جواب پوشیدہ ہے ۔ تمام مسلم حکومتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر مغربی اور دیگر ممالک کے لیے ایک سرخ لکیر کھینچنا ہوگی۔ جس طرح کی لکیر مغرب نے ہولوکاسٹ کی نفی کرنے والوں کے خلاف کھینچی ہے۔

۱۹۸۸ء میں جب سلمان رشدی کی کتاب دی ستانک ورسز  (شیطانی آیات) منظر عام پر آئی تھی ، تو ایران نے اس پر سخت موقف اختیار کیا، مگر دیگر مسلم ممالک نے اس کی تائید نہ کرکے عالمی برادری میں اس کو الگ تھلگ کردیا۔ یاد رہے آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ کئی برسوں تک اس پر زور دار بحث چھڑی رہی۔ ابلاغیات کی پڑھائی کے دوران ، ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور جواہر لال یونی ورسٹی میں ایران کے اس موقف اور آیت اللہ خمینی کے فتوے پر نکتہ چینی میں چند عرب طالب علم پیش پیش ہوتے تھے، جو اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے زعم میں ایران اور شیعوں کو رجعت پسند تسلیم کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ دو عشرے بعد جب افغانستان میں طالبان، عرب میں القاعدہ و داعش مغرب کے نشانے پر آئے، تو شیعوں اور ایران نے اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ جتلا کر دہشت گردی کا سارا ملبہ سنیوںپر ڈالنے کا کام کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب اور نہ کوئی فرقہ یا مسلک ہوتا ہے۔

ابھی حا ل ہی میں سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات اس وجہ سے ختم کرلیے کہ کینیڈانے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر احتجاج درج کروایا تھا۔ کاش! خادم الحرمین ایسا ہی موقف ان ممالک کے خلاف بھی اپناتے جو اظہارِ آزادی کی آڑ میں ان خاکوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران آئے دن بے حسی اور بزدلی کا ثبوت فراہم نہ کرتے اور جسد ملت اپنی روح کے ساتھ موجود ہوتا، تو مغربی دنیا میں کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ پیغمبرؐ اسلام و انسانیت کو نشانہ بناتا۔ پھر اسی طرح حالیہ عرصے میں بھارت میں بھی کئی افراد ’آزادی اظہار راے‘ کی آڑ میں پیغمبر حضرت محمدـــﷺ اور ان کے اہل خانہ کے خلاف گستاخانہ الفاظ کا استعمال کرکے مسلمانوں کو زبردستی اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔

اسی عرصے میں بھارتی حکمران بی جے پی کی انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے مستعفی چند رضاکاروں نے آن ریکارڈبتایا کہ : ’’ہم کو مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی‘‘۔ بدقسمتی سے ہندو انتہاپسندوں کی ایما پر قائم ایک اور سیل کے انچارج، پاکستان کے ایک مؤقر چینل کے بھارت میں نمایندے اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق سیکرٹری جنرل اور ’سیفما‘ (ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن: SAFMA)کے فعال رکن پشپندر کلوستے ہیں ، جو محمد رضوان کے نام سے آئے دن ویڈیو بنا کر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ چوںکہ موصوف علی گڑھ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، نیزپاکستانی چینل کے نمایندے ا ور سافما کے رکن کی حیثیت سے پاکستان آنا جانا رہتا ہے، اس لیے اسلام کے بارے میں واجبی سی، مگر مسلمانوں کے بارے میں سیر حاصل معلومات رکھتے ہیں۔

 جب ان کی اس شرپسندانہ روش کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہمدردی حاصل کے لیے اظہارِ آزادیِ راے کو آڑ بناکر مسلمانوں کے رویے کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ناموس رسالت ؐکے حق میں مسلمانوں کے ردعمل کو ’جمہوریت کے لیے خطرناک‘ بتاتے ہیں، مگر یہی نام نہا د دانش وَر، ادیب، مصنفین اور ٹی وی اینکر اپنے ملک کے اندر آزادیِ اظہارِ راے کا گلاگھونٹے جانے کے متعدد واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ گویا انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔مثال کے طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران پورے بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کو حراست میں لیا گیا تو اس ظلم کو یہ حق بجانب ٹھیراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے،کیوںکہ یہ افراد دلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے‘‘۔

چار سال نتیشا جین، پرینکا بورپوجاری اور ستین باردولائی کو جب چھتیس گڑھ (دانتے واڑہ) میں گرفتار کیا گیا تو حریت فکر کے ان گرووں میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یاد رہے کہ یہ صحافی قبائلیوں پر ہونے والے مظالم اور نکسلایٹ{ FR 644 } اور نکسل مخالف کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے۔ اظہارِ راے کی آزادی کے یہ علَم بردار اس وقت بھی خاموش رہے، جب ۲۰۱۰ء میں امریکی دانش ور پروفیسر رچرڈ شاپیرو کو بھارتی حکومت نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کردیا۔۲۰۱۰ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر ڈیوڈ براسمیان اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انھیں نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے ہی واپس لوٹا دیا۔بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر جانے کے لیے تو اب بھارتی وزارت خارجہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کے داخلے پر ہی پابندی عائد کر دی ہے۔

حقوقِ انسانی کے مشہور بھارتی کارکن گوتم نولکھا، جن کے گھر پر یلغار کرکے ان کو حراست میں لیا گیا ، اس سے قبل وہ ۲۰۱۱ء میں بھی عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے تو سری نگر ہوائی اڈے پر انھیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے کے لیے مجبور کردیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں بھارت میں تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن کے ناول پر پابندی لگادی گئی۔ ان کے ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگادی گئی ہے کہ اس میں موروگن نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’نیوگ‘ پر نکتہ چینی کی ہے۔’نیوگ رسم‘ کے مطابق کوئی بے اولاد عورت، بچے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈت سے جنسی تعلقات قائم کرتی تھی اوراس قبیح رسم کو قدیم بھارتی معاشرے میں قبولیت حاصل تھی۔موروگن نے اس ناول میں ذات پات پر مبنی طبقاتی کش مکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی ہے، جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی اَزدواجی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ ناول نگار موروگن پر اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ ان سے نہ صرف آیندہ قلم نہ اْٹھانے کی قسم لی، بلکہ ناول کے ناشرین کو اس کی تما م کتابیں جلانے کے لیے کہا گیا۔

یہ تو صرف چند واقعات ہیںجن کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے ورنہ بھارت میں ایسے واقعات کی گنتی مشکل ہے۔

اظہار راے کی آزادی کا سب سے بڑا علَم بردار یورپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے، اور اس کی سب سے واضح مثال ہولوکاسٹ ہے۔ یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قرار دیناانتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ: ’ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنّفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے‘۔ ۲۰۰۳ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا، جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔

حالاںکہ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں آگے آگے رہے تھے۔۱۹۹۸ء سے لے کر ۲۰۱۵ء یعنی ۱۷ برسوں میں تقریباً ۱۸؍ادیبوں اور مصنّفین کو اظہارِ راے کی آزادی کے علَم برداروں ہی کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کی ایک فہرست یہاں دی جارہی ہے: lجین میری لی پین، فرانس/ جرمنی، جرمانہ، فروری۱۹۹۸ء lراجر گراوڈی، فرانس، ۲لاکھ ۴۰ہزار فرانک جرمانہ، جولائی ۱۹۹۸ء lیورگن گراف، سوئٹزرلینڈ ،۱۵ ماہ قید، جولائی۱۹۹۸ء lگیرہارڈ فوسٹر، سوئٹزرلینڈ، بارہ ماہ قید ،مئی ۱۹۹۹ء lجین پلانٹین، فرانس، چھے ماہ قید، جرمانہ، اپریل ۲۰۰۰ء lگیسٹن ارمانڈ، سوئٹزر لینڈ، ایک سال قید، فروری ۲۰۰۶ء lڈیوڈ ارونگ، آسٹریا، ایک سال قید، مارچ ۲۰۰۶ء lجرمار روڈولف، جرمنی، ڈھائی سال قید، اکتوبر ۲۰۰۶ء lرابرٹ فائریسن، فرانس، ۷۵۰۰ یورو جرمانہ، تین ماہ نظربند، فروری ۲۰۰۷ء lارنسٹ زیونڈل، جرمنی، پانچ سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lوولف گینگ فرولچ، آسٹریا ،چھے سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lسلویا اسٹالس، جرمنی، ساڑھے تین سال قید، مارچ ۲۰۰۹ء lہوسٹ مہلر، جرمنی، پانچ سال قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lڈیرک زمرمین، جرمنی، نو ماہ قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lرچرڈ ولیمسن، جرمنی، ۱۲ ہزار یورو جرمانہ، جنوری ۲۰۱۳ء lجیورگے ناگے، ہنگری، ۱۸ماہ قید، فروری۲۰۱۵ء lوینسنٹ رینورڈ، فرانس، دو سال قید، نومبر ۲۰۱۵ء lارسولا ہینر بیک جرمنی، دس ماہ قید۔

خیال رہے آزادیِ اظہار کے حق کے تعلق سے زیادہ دیر تک تعصب اور منافرت اور دہرے معیار کی عینک نہیں لگائی جاسکتی۔

سب سے اوّل میڈیا کی آزادی کے حدود کا تعین کرنالازمی ا مر ہے۔صحافت کومحض اسلام کی تضحیک سے یامسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر بقاے باہم ، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ تاہم، اس کے ساتھ بڑی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، جنھوں نے اسلام کے سماجی، معاشی، نیز افکار و نظریات کے انقلاب کو عام کرنے کے بجاے اس کو مسلکوں کے کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ مزید یہ کہ ابلاغ واشاعت کے ذرائع کا بہترین استعمال کرنے کے بجاے اپنے آپ کو ایک خول میں بندکیا ہوا ہے۔

ماؤپسند نکسل کمیونسٹ دانش ور کوبڈ گاندھی،دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی کی سزا پا چکے۔ کشمیری نوجوان افضل گورو کے ساتھ کئی ماہ سیل میں قید رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’افضل کے ساتھ گفتگو کے دورا ن پتا چلا کہ کمیونزم کے سماجی انصاف و برابری کا سبق تو اسلام ۱۴۰۰سال قبل سنا چکا ہے‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں اور علاقائی تنگ گلیوں سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اسلام کے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہیں۔

بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے اپنے دورۂ یورپ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، لندن میں بھارتی ہندو انتہاپسند تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آرایس ایس) کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’آر ایس ایس ہندستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ _ وہ ملک پر ایک مخصوص نظریہ تھوپنے کی خواہاں ہے۔ _ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا عرب دنیا میں اخوان المسلمون کا نظریہ ہے _‘‘۔

کانگریسی صدر کے اس بیان سے اخوان المسلمون کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کے ازالے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:

۱-  عصرِحاضر کے ہندستان میں جن لوگوں نے ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کے احیا کی کوششیں کی ہیں، ان میں راجا رام موہن رائے ، سوامی دیانند سرسوتی ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے،  سوامی شردھانند اور مدن موہن مالویہ جیسے انتہاپسندانہ اور نسل پرستانہ سوچ کے حاملین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ _ ان افراد نے مختلف تنظیمیں قائم کیں اور ان کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم بھی ہندو احیا پرستی کی عَلَم بردار ہے۔ _ اس کی تاسیس ۱۹۲۵ء میں ہیڈگِوار نے کی تھی۔ _ اس کے دوسرے سرچالک گول والکر تھے۔ _ انھوں نے۱۹۴۰ء سے ۱۹۷۳ـء تک اس کی سربراہی کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان کی کتب: We or our Nationhood Defined اور Bunch of Thoughts میں وہ افکار تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن پر بعد میں آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں _۔

۲- آر ایس ایس کا نظریۂ قومیت یہ ہے کہ: ’’کوئی شخص محض ہندستان میں پیدا ہونے سے ہندستانی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا ، بلکہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں نسل ، پیدایش ، کلچر ، زبان اور جغرافیے کے ساتھ ساتھ مذہب بھی شامل ہے‘‘۔ اس کے نزدیک: ’’ملک میں ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں ، بلکہ قومی کام ہے _‘‘۔

۳-آر ایس ایس کے نزدیک: ’’ہندستان کی اکثریت ہندوؤں کی ہے ، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ _ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں‘‘۔

۴- آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ: ’’بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کرلینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقے کے کلچر میں ضم کردینا چاہیے ‘‘۔

۵-آر ایس ایس، ہندو راشٹر [ہندو قوم]کی تعمیر ’منو سمرتی‘ [منو قوانین]کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے، _ جس کے تحت انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تصوّر آج خود ہندوئوں کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے ۔ اس کے نزدیک: ’’مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں ، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی آبادی کے ایک حصے کو مسلمان بنایا ہے۔ اس لیے ان کی 'شدھی اور 'گھر واپسی کرانی چاہیے‘‘۔ _ وہ کہتی ہے کہ: ’’مسلمانوں کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں کہ یا تو خود کو ہندو تہذیب میں ضم کرلیں ، یا پھر اکثریتی ہندو طبقے کے رحم و کرم پر زندہ رہیں‘‘۔

۶-آر ایس ایس، جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی اور کہتی ہے کہ اس جرمن نسل پرستی میں بھارتی ہندوئوں کے لیے بڑی رہ نمائی ہے _۔

۷- اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمون سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اخوان کے افکار و نظریات ، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنیٰ سی بھی واقفیت نہیں ہے _۔

۸- اخوان المسلمون کی تاسیس ۱۹۲۸ء میں مصر میں ہوئی۔ _ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں ، آزادی نسواں کے نام پر اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ اس فضا میں امام حسن البنا نے اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی _۔

۹- اخوان کی تحریک ۱۹۳۹ء تک خاموش اصلاحی جدوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تب اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ برطانوی سامراج کی کٹھ پتلی مصری حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ _۱۹۴۸ء میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور  خوب دادِ شجاعت دی تو عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ _ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا _۔ تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام حسن البنا کو قاہرہ میں شہید کردیا گیا۔۱۹۵۲ء میں مصر کے فوجی آمر جمال عبدالناصر نے اپنے اُوپر قاتلانہ حملے کا الزام اخوان پر ڈال کر ان کے خلاف داروگیر کی زبردست مہم چھیڑ دی۔ ۱۹۵۴ء میں ان کے چھے رہ نماؤں کو پھانسی دے دی گئی ، جن میں سے ایک جسٹس عبدالقادر عودہ تھے۔ _ پھر ۱۹۶۶ء میں اس کے چار رہ نماؤں کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، جن میں سے ایک مفسرِقرآن اور عربی کے منفرد ادیب سیّد قطب شہید بھی تھے۔ پھر مختلف مواقع پر اخوان کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔اب بھی چند سال سے وہ سخت آزمایش میں مبتلا ہیں۔

۱۰- اخوان کو آر ایس ایس جیسی تنگ نظر، خونی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ _ اخوان نے قومیت کے مروّجہ نظریے کے برعکس عالمی اخوت کا تصور پیش کیا _۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی، لیکن ملک کے دیگر مذہبی یا اقلیتی گروہوں کے بارے میں ہرگز منافرت نہیں پھیلائی _۔

۱۱- افسوس کہ اخوان کے بارے میں عالمی سطح پر من گھڑت غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور بے جا طور پر اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ _ دشمنوں سے کیا گِلہ ، افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں، مسلم جماعتیں اور مسلم شخصیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔

۱۲- اخوان نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں ، بلکہ ہمیشہ پُر امن جدوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ اس کے باوجود ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ خارجی اور باغی ہیں ۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو ، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو، اور وقفوں وقفوں سے جس کی لیڈرشپ کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا ہو ، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جائے _۔

۱۳- اخوان المسلمون مصر کی تنظیم ہے۔ _ لیکن معلوم نہیں کیوں ، کچھ عرصے سے بعض بھارتی حضرات اخوان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ _اس کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دیتے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

اگر الزام تراشوں کی یہ تمام باتیں درست مان بھی لی جائیں تو یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ :

  •   بھارت میں اخوان المسلمون کو رد کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟
  • ایسا تو نہیں ہے کہ عالمی منظر نامے میں 'اخوان المسلمون ' کا رد کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے؟
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خود عالمِ عرب میں اخوان کے خلاف چند حکومتوں کا معاندانہ رویہ، بھارتی انتہاپسندوں کا راستہ کشادہ کرے گا۔
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اخوان کے خلاف جتنی مبالغہ آمیز داستان سرائی اور دھواں دھار تقریریں کی جائیں گی، اس کی بنیاد پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا کو زہرآلود کرنا آسان ہوگا۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے۴۰ لاکھ افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے آئین کی دفعہ ۳۵ (اے) کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔علانیہ دہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔

 منصوبہ یہ ہے کہ آئین کی اس شق کو ختم کرکے بھارت کی دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیاجائے۔ اسی طرح  آسام میں برسوں سے مقیم بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان کو برما کے روہنگیائی مسلمانوں کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرکے ہندو آبادی کو سیاسی اور آبادیاتی تحفظ فراہم کرایا جائے۔

نیشنل رجسٹر آف اسٹیزنز، یعنی شہریوں کی فہرست جو ۳۱جولائی کو جاری ہوئی ہے، ان میں جن افراد کے نام شامل نہیں ہیں، ان میں بھارت کے مرحوم صدر فخرالدین علی احمد کا خاندان، آسام کی سابق وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمور اور ان کا خاندان، ریاستی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر امیرالدین کا خاندان، نیز بھارتی فوج، نیم فوجی تنظیموں اور پولیس کے کئی اعلیٰ عہدے دار اور ان کے اعزاو اقارب شامل ہیں۔

اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایسے مقتدر افراد کا نام یا ان کے خاندان کو شہریت کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے توعام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ابھی صرف ڈرافٹ لسٹ ہے اور کسی کو بھی فوری طور پربے دخل نہیں کیا جائے گا اور اس لسٹ کو چیلنج کرنے کے بھی بھرپور مواقع دیے جائیں گے،مگر ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود پورے صوبے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ مرکزی و ریاستی وزرا، نیز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اپنے بیانات کے ذریعے اس ایشو کو بھنا کر الیکشن میں ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چوںکہ خدشہ تھا کہ شہریت کی فہرست سے بنگالی ہندو بھی خارج ہوسکتے ہیں، وزیر اعظم مودی کی حکومت ۱۹۵۵ءکے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرچکی ہے ، جو اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہے، جس کی رُو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔ انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور  کیا مثال ہو سکتی ہے۔

بھارت کی مشرقی ریاستیں

تقسیم ہند اور ۱۹۷۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقفے کے دوران مبینہ طور پربہت سے افراد ہجرت کرکے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ یاد رہے تب پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے  ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں۔

 ۱۹۷۸ء میں انتخابات ہوئے تو آسام اسمبلی کے انتخابات میں ۱۷مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ:’’ آسام کو’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔ اسی طرح ۱۹۷۹ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوں کی درپردہ حمایت یافتہ آسونے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پْرتشدد اور خونیں مہم چلائی۔اس سے قبل اس صوبے میں غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی تھی۔ پھر اس کا رُخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑ دیا گیا۔

بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر مسلم مخالف خوں ریز تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں۱۹۸۳ء کے نیلی اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے جن میں تقریباً تین ہزار ( غیر سرکاری ۱۰ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔

۱۹۸۵ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے آسام آکارڈ (معاہدہ) وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگر ’آسام اکارڈ‘ کی ایک شرط کے تحت مقدمے واپس لیے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لیے کسی کو سزا ملی، نہ کسی کو   ذمہ دار ہی ٹھیرایا گیا۔ اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

 بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۵مارچ ۱۹۷۱ءکو بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا ۔چنانچہ اس معاہدے کے بعد پارلیمنٹ نے ایک ترمیمی بل کی منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی ،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔

چوںکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے ۲۰۰۹ءمیں اور پھر ۲۰۱۲ءمیں آسام سمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ء کے بجاے ۱۹۵۱ءکی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا، کی نیز اس معاہدے کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں افراد بلکہ ہر تیسر ے فرد پر شہریت کی تلوار لٹک گئی۔

 بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کے ۱۴ میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے دو سال بعد بی جے پی نے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا لی۔

آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً۴۰فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات سے قبل تقریباً ۵لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا تھا۔

جولائی ۲۰۱۲ء میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پْرتشدد حملے کیے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینی پڑی تھی۔ بی جے پی کی زیر قیادت سابقہ حکومت نے ۲۰۰۳ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸فی صد ہے۔

اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘حالاںکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔

چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن انھوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمایندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیۃ العلماے ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہرچپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔

آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیۃ علماے ہند صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، ان حالات کے لیے آسام کی سابق کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ مولانا اجمل نے جو لوک سبھا میں ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے ۱۵سالہ دور حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں  ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔

 پہلے انھوں نے ۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی، اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولیس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کر سکتا ہے۔

 ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا، ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لیے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ یہاں اس کا بات تذکرہ برمحل ہوگا کہ اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہ سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا، کیوںکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں ۸۵ فی صد مسلمان تھے۔ آج انھی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔

  •   اسرائیل کی پارلیمان (الکنیست) نے جمعرات ۱۹ جولائی ۲۰۱۸ء کو یہود کی بالادستی کو آئینی جواز عطا کرنے اور فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک متنازع دستوری بل کی منظوری دی ہے۔ جس کے تحت اسرائیلی ریاست میں صرف یہود کو حقِ خود ارادیت کا حق حاصل ہوگا اور فلسطینیوں سمیت دوسری قومیں اس پر حقِ وطنیت نہیں جتلا سکیں گی۔

’یہود کی قومی ریاست کاقانون‘ پارلیمان میں پیش ہوا، تو ایوان کے ۱۳۰ ؍ارکان میں سے ۶۲نے اس کے حق میں ووٹ دیا ،جب کہ ۵۵ نے اس کی مخالفت کی اور دوارکان نے  راے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پارلیمان میں ’عرب مشترکہ فہرست‘ سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی تو انھیں زبردستی ایوان سے نکال باہر کیا گیا۔

  •  نیتن یاہو نے اس موقعے پر کہا کہ ’’ صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے‘‘۔اس قانون کی خاص خاص شقیں یہ ہیں:
  •                 ۱-        اسرائیل صرف یہود کا تاریخی وطن ہے اور انھیں اس میں قومی حقِ خود ارادیت کے استعمال کا خاص الخاص حق حاصل ہوگا(یعنی فلسطینیوں کا اب کوئی وطنی حق نہ ہوگا)۔
  •                 ۲-        اسرائیل میں عبرانی کے ساتھ عربی کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔اس کا درجہ گھٹا کر اب اس کو محض ’خصوصی حیثیت ‘ دی گئی ہے۔
  •                 ۳-        قانون کے مطابق :’’ریاست یہود کی آباد کاری کی ترقی کو ایک قومی ذمہ داری سمجھتی ہے اور وہ اس کے قیام کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے اقدامات کرے گی‘‘۔
  •                 ۴-        مقبوضہ القدس ( یروشلم ) کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔
  •                 ۵-        قانون کے تحت سات شاخہ مینورہ (ہانوکا) کو ایک یہودی علامت قرار دیا گیا ہے اور یہودی گیت   ہَتِکفاه (عربی میں الامل، بمعنی امید) کو قومی ترانہ قرار دیا گیا ہے۔

> واضح رہے کہ اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی ۱۸ لاکھ سے متجاوز ہے۔وہ صہیونی ریاست کی کل ۹۰ لاکھ آبادی کا ۲۰ فی صد ہیں ۔ یہ فلسطینی شہری ۱۹۴۸ء میں صہیونی مسلح جتھوں کے   عرب علاقوں پر قبضے کے وقت اور مابعد بچ جانے والوں کی اولاد ہیں۔وہ اسرائیل کے قیام کے وقت صہیونی ملیشیاؤں کے ہاتھوں نسلی تطہیر کے دوران میں بچ جانے میں کامیاب رہے تھے اور  اسرائیل کے زیر قبضہ عرب شہروں اور قصبوں میں صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔دریاے اُردن کے مقبوضہ مغربی کنارے اور محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں آباد لاکھوں فلسطینیوں کے برعکس انھیں بعض شہری حقوق حاصل ہیں، مثلاً ووٹ اور پارلیمان میں نمایندے بھیجنے کا حق۔ لیکن انھیں صہیونی ریاست میں سالہا سال سے بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم رکھنے کے لیے اسرائیل نے دسیوں قانون منظور کررکھے ہیں۔اس طرح گذشتہ سات عشروں سے ہی نسل پرستانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

اسرائیلی صدر ریووین رولین نے حکومت کے نام ایک کھلے خط میں اس نسل پرستانہ قانو ن میں پنہاں خطرات کے بارے میں خبردار کیا تھا۔اسرائیلی اٹارنی جنرل نے بھی اس کی نسل پرستی پر مبنی بعض شقوں کی مخالفت کی تھی ۔جس کے بعد بہت ہی مبہم زبان میں تیار کردہ بل منظور کیا گیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمان کے عرب رکن احمد طبی کا کہنا تھا کہ ’’ میں نہایت صدمے کے ساتھ (اسرائیل میں) جمہوریت کی موت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔

  •  نیتن یاہو نے منظوری سے ایک ہفتہ پہلے مجوزہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم اسرائیل کی جمہوریت میں تمام شہری حقوق کو یقینی بنائیں گے، اور اکثریت کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے‘‘۔

عربوں نے اس امتیازی قانون کو بالکل مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہودی اکثریت اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے عرب آبادی اور اسرائیل میں آباد تمام مذاہب کے پیرو کار عربوں کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔قانونی ماہرین نے بھی اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس قانون سے نسل پرستی کے بارے میں بین الاقوامی ممانعتوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اس سے صہیونی ریاست میں آباد فلسطینیوں کے خلاف امتیازی اور نسل پرستانہ سلوک کو مزید تقویت ملے گی، جس میں بہت سے امتیازی نسل پرستانہ خصائص سمو دیے گئے ہیں۔ اس قانون میں ایک جانب یہود کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کی سرگرمیوں کی توثیق کی گئی ہے اور دوسری جانب اس کی کوئی جغرافیائی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے۔اسرائیل کی مشرقی القدس سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور شام کے علاقے گولان کی چوٹیوں کو نوآبادیانے [زبردستی کالونی بنانے]کی پالیسی کو قانونی قرار دیا گیا ہے،جب کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس کی یہ تمام سرگرمی غیر قانونی ہے۔

  •  اسرائیل میں عرب اقلیتی حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی مشاورتی گروپ عدالہ نے کہا ہے کہ ’’یہ قانون دراصل نسلی برتری کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے، جس کے ذریعے یہود اور غیر یہود کے درمیان بنیاد ی حقوق کے امتیاز کی ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔اس متنازع قانون میں اسرائیل کی ’نسل پرستانہ اور نسلی تعصب کی بنیاد‘ کی تعریف کی گئی ہے۔اس کے تحت اسرائیل دنیا میں کہیں بھی آباد یہود کو تو اپنا شہری تسلیم کرتا ہے، لیکن اسرائیل کے اندر رہنے والے غیر یہود کو اس سے آئینی طور پر بے دخل کردیتا ہے‘‘۔ عدالہ کے تجزیے کے مطابق: ’’یہ قانون فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک کو جائز قرار دیتا ہےاور مختصراً یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی ہی سرزمین پر غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔ عدالہ کا کہنا ہے: ’’آج کی دنیا میں ایسے کسی ملک کو جمہوری ریاست قرار نہیں دیا جاسکتا، جہاں آئینی شناخت کا تعیّن نسلی تعلق کی بنیاد پر کیا جاتا ہو اور یہ امر برابر کی شہریت کے اصول کو ساقط کردیتا ہے‘‘۔
  •  اس قانون سے اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں کو بھی شرمندگی کا سامنا ہے۔اس کی مخالفت میں پیش پیش لبرل یہودی شخصیات میں اسرائیل کے لابی گروپ جے اسٹریٹ کے سربراہ جیرمی بن آمی نمایاں ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ اسرائیل میں آباد عرب کمیونٹی اور دوسری اقلیتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ نہ وہ برابر کے شہری ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔ ان یہودی لیڈروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس سے اسرائیل کا ایک جمہوری ریاست کی حیثیت سے چہرہ دنیا کے سامنے داغ دار ہو جائے گا۔ یورپی یونین نے بڑے دبے الفاظ میں اس متنازع قانون پر تنقید کی ہے، لیکن ساتھ ہی اس کو ’اسرائیل کا اندرونی معاملہ‘ بھی قرار دے دیا ہے۔
  •  اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسی کی مخالفت میں مہم چلانے والے کارکنان صہیونی ریاست کےبائیکاٹ، اس کے خلاف قانونی کارروائی اور پابندیوں سمیت مختلف اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی تحریک کے بانی عمر برغوثی کہتے ہیں:’’ اگر اسرائیل کے جبرواستبداد کے خلاف بائیکاٹ ،کارروائی اور پابندیوں کا کوئی وقت ہے تو وہ آج ہی  ہے۔ اسرائیل میں سرکاری طور پر نسل پرستی پر مبنی قانون کی منظوری سے فلسطینی عوام ، عرب اقوام اور   دنیا بھر میں ہمارے اتحادیوں کے لیے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالنے کے دروازے کھل گئے ہیں کہ  وہ نسل پرستی مخالف قوانین پر دوبارہ فعال ہو اور اسرائیل کے خلاف بھی بالکل اسی طرح کی سخت پابندیاں عائد کرے، جس طرح کی پابندیاں اس نے نسل پرست جنوبی افریقہ کے خلاف عائد  کی تھیں‘‘ ۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے گذشتہ سال اپنی ایک قانونی مطالعاتی رپورٹ شائع کی تھی۔ اسرائیل میں تمام فلسطینی عوام کے ساتھ نسل پرستانہ سلو ک کیا جارہا ہے۔  اس سے پہلے ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کے ایک خصوصی نمایندے نے رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیلی حکام ’اراضی کی ترقی کے ایک ایسے ماڈل‘ پر عمل پیرا ہیں جس میں اقلیتوں کو نکال باہر کیا گیا ہے اور یہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی ’کمیٹی براے استیصال نسلی امتیاز‘نے لکھا تھا کہ ’’اسرائیلی سرزمین میں کئی ایک امتیازی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے جن سے غیر یہود کمیونٹیاں غیر متناسب انداز میں متاثر ہورہی ہیں‘‘۔مگر افسوس کہ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے خلاف اس کےنسل پرستی پر مبنی اقدامات کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔

* ڈپٹی ایڈیٹر، الیکترانک انتفاضہ ، انگریزی /ترجمہ: امتیاز احمد وریا

حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کے سیاسی افق پر بڑی دُوررس تبدیلیاں رُونما ہورہی ہیں، جن سے خطّے میں حالات مزید ابتر اور سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ ۱۹جون ۲۰۱۸ءکو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یکایک جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں متحرک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے حمایت واپس لے کر مخلوط حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اسی کے ساتھ ریاستی گورنر این این ووہرا نے حکومت کی زمامِ کار سنبھال لی۔ یہ چوتھی مرتبہ ہے جب گورنر    این این ووہرا نے حکومت سنبھالی ہے، جب کہ آج تک آٹھ مرتبہ کشمیر میں گورنر راج نافذکیاگیا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ بی جے پی نے معروف صحافی شجاعت بخاری کے قتل کا بہانہ بناکر الزام لگایا کہ محبوبہ مفتی کی حکومت امن و قانون کے نفاذ میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسی دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ اگلی حکومت سازی کے لیے بی جے پی ایک اور حلیف پارٹی پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کے سر پر تاج رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔پھر بی جے پی کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبریںآنے لگیں کہ اتحادیوں، آزاد امیدواروں اور دیگر پارٹیوں خصوصاً   پی ڈی پی کے ناراض اراکین کی مدد سے وہ خود ہی اقتدار پر براجمان ہوناچاہتی ہے۔ تقریباً دوعشروں سے زائد عرصے تک دہلی کی حکومتوں اور سیاسی اُمور و واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلی ہی نظر میں مجھے یہ گماں ہوا کہ مصدقہ خبر کے بجاے عوامی اور سیاسی پارٹیوں کا ردعمل جاننے کے لیے یہ متضاد خبریں ذمہ دار حلقے ’پلانٹ‘ کر رہے ہیں، تاکہ اگر کوئی شدید رد عمل آئے تو اس کی تردید کردی جائے۔ چند روز بعد پھر ایسی ہی خبر گشت کرنے لگی، تو اس کا ذریعہ معلوم کرنے کے بعد پتا چلا کہ واقعی ایسی خبروں کے تار براہِ راست وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے دفتر سے منسلک ہیں۔ منصوبہ یہ سامنے آیا کہ مرکزی وزیر اور ادھم پور کے رکن پارلیمنٹ جیتندر سنگھ رانا کو اگلے ماہ سری نگر میں بطور وزیر اعلیٰ حلف دلایا جائے گا۔ چوں کہ کشمیر میں وفاداریوں کی تبدیلی (defection)کا قانون، بھارت کے مرکزی قانون کے برعکس پیچیدہ اور سخت (stringent)ہے، اس لیے دیگر پارٹیوں اور خصوصاً پی ڈی پی کے ناراض اراکین کی حمایت اس طرح حاصل کروانا کہ وہ نااہل بھی نہ ہوں، جیسے اُلجھائو پر قانونی ماہرین سے مشاورت ہورہی ہے۔پی ڈی پی کے ناراض اراکین اور سجاد غنی لون کا تعلق چوں کہ شمالی کشمیر سے ہے، اس لیے بی جے پی کو حمایت دینے والے اس گروہ کو ’شمالی اتحاد‘ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔

کشمیر کی بدقسمتی رہی ہے کہ تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجاے اُلٹا چکر لگا کر پھر وہیں پہنچتا ہے، جہاں سے گردش شروع ہوئی تھی۔ ۲۰۱۰ء کے عوامی غیظ و غضب کو دیکھ کر مبصرین کا خیال تھا کہ کشمیر کو واپس ۱۹۹۰ء کی پوزیشن میں دھکیلا گیا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی مزاحمت کی شدت دیکھ کر اندازہ تھا کہ گھڑی کی سوئیاں ۱۹۴۷ء پر پہنچ گئی ہیں۔ اگر اب بی جے پی واقعی ایک ہندو ڈوگرے کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ ۔ یوں انتظامی سطح پر تاریخ کا پہیہ گھوم کر ۱۹۳۱ء تک واپس پہنچ جائے گا،  جب کشمیریوں نے ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی وحشیانہ حکومت کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا تھا۔

فی الحال گورنر ووہرا، فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس نقشے میں رنگ بھرنے سے کترا رہی ہیں۔ خیال ہے کہ ایک ہندو وزیراعلیٰ کشمیری عوام کی نفسیات کو بُری طرح پامال اور مجروح کرے گا اور بھارتی حکومت کی کئی عشروں پر پھیلی کاوشوں پر پانی پھرجائے گا ۔اصل بات یہ ہے کہ  جو ں جوں اگلے عام انتخابات قریب آرہے ہیں ، بی جے پی کے لیے اپنے ان انتہا پسند کارکنوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو رہا ہے، جو مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ اپنے انتہاپسند طبقوں کو بہلانے کے لیے کشمیری مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ایک ہندو ڈوگرہ وزیر اعلیٰ کو مقر ر کرنا ہی ایک آسان سا حل دکھائی دیا ہے کہ جس کے ذریعے پورے بھارت میں ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر پارٹی کے حق میں لام بند کیا جاسکتا ہے۔

سری نگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق بھارتی حکمرانوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی نئی دہلی کی حقیقی وفادار نہیں ہیں، بلکہ ان کی ہمدردیاںبھی آزادی پسندو ں کے ساتھ ہیں اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بننے میں  یہ بھی ایک رکاوٹ ہیں۔ بھارت کا موجودہ حکومتی ڈھانچا فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور اس قبیل کے دیگر لیڈروں کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکتا ہے، جس طرح و ہ حریت لیڈروں کو نشانہ بناتے آرہے ہیں۔ مسرور نے اترپردیش سے آر ایس ایس کے ایک لیڈر کا بیان نقل کیا ہےکہ: ’’بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰جس میں کشمیر کے خصوصی درجے کا ذکر ہے، اسے ہٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ نریندر مودی اور اجیت دوول اس سے بھی آگے کی سوچ رہے ہیں‘‘۔ حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر اس ہندو قوم پرست لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت جموں، کشمیر اور  لداخ کو تقسیم کرکے مرکز کے زیرانتظام خطے بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ تینوں خطوں میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہوگی بلکہ تینوں انڈمان نکوبار، لکشدیپ اور پانڈی چری وغیرہ کی طرح   براہِ راست نئی دہلی کی حکمرانی میں ہوں گے، اور تینوں خطوں میں ایک لیفٹیننٹ گورنر ہوگا، جو براہِ راست دہلی کے سامنے ہی جواب دہ ہوگا۔ آج ریاست کی’ اسمبلی اور مرکزی دھارے‘ کی نام نہاد  سیاست اس قدر بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے کہ نئی دہلی کا حکمراں طبقہ اسے بوجھ سمجھتا ہے۔

دسمبر ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد جب کشمیر میں معلق اسمبلی وجود میں آئی اور پی ڈی پی کے لیے کانگریس یا بی جے پی میں سے کسی ایک کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آنا ا لازمی ہوگیا تو فروری ۲۰۱۵ء میں پی ڈی پی کے سرپرست مفتی محمد سعید سے جموں میں ان کی رہایش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران میں نے پوچھا تھا: ’کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کروا کے وہ کشمیریوں کے مصائب کی تاریک رات کو مزید گہرا اور خوف ناک بنانے کے مرتکب تو نہیں ہوںگے؟‘ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے۔ نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی [یعنی دہلی نواز پارٹیوں]کا فرض ہے کہ وہ مسئلۂ کشمیرکے حل کی کوئی سبیل پیدا ہونے تک بھارتی آئین میں حاصل خصوصی حیثیت کو بچاکر رکھیں‘‘۔

تاہم، مفتی محمد سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر اس دفعہ کو تار تار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بیک ڈور سے غیر ریاستی ہندو مہاجرین کو رہایشی پرمٹ دینا، علیحدہ پنڈت کالونیاں بسانا ، آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کے یوم ولادت پر تعطیل کے لیے اسمبلی سے قرارداد پاس کروانے کی کوششیں وغیرہ، کشمیریوں کو ان کی سیاسی بے وزنی کا احساس دلانے کی آخری حد تھی۔ مگر پھر بھی ڈو مور کے مطالبوں کو تسلیم کرتے کرتے بھی وہ اپنی کرسی بچا نہیں پائیں۔ اسی طرح مذکورہ مہاراجا کے مظالم کے خلاف شہدا کے مزاروں پر ہر سال ۱۳جولائی کو میلہ لگانا اور ان کے قاتل ہری سنگھ کے جنم دن کو متبرک قرار دینا ایک سنگین مذاق تھا۔کیا بھارت کبھی جلیانوالہ باغ کے قاتل جنرل ڈائر کے جنم دن کی یاد منانے کے لیے چھٹی کا اعلان کرسکتا ہے؟ کشمیر صدیوں سے سازشوںاور بیرونی طاقتوں کی کش مکش کی آماج گاہ بنا رہا ہے۔

اس خطے کی بدقسمتی یہ رہی کہ آمد اسلام کے ۲۵۰سال بعد ہی سے یہ خطہ آزادی سے محروم ہوکر مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے تابع رہا، جنھوں نے مقامی مسلم شناخت کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔پچھلے ۵۰۰برسوں کے دوران شاید ہی کبھی یہاں عوام نے حکمرانوں کو اپنا حقیقی نمایندہ تسلیم کیا ہو، کیونکہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر یا تو بیرونی طاقتوں کے گورنر تھے یا   ان کی طرف سے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمران۔ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر پر اپنی نظریں جمائی ہوئی تھیں، اور اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کئی بار فوج کشی کی۔ تقریباً ایک عشرے کی بے نتیجہ جنگ و جدل کے بعد مغل حکومت کے جنرل راجا بھگوان سنگھ نے ۱۵۸۰ء میں گلگت کے درد قبیلے سے تعلق رکھنے والے کشمیر کے سلطان یوسف شاہ چک کے ساتھ ایک معاہدے کے لیے سلسلۂ جنبانی شروع کیا۔ پانچ سال کی محنت کے بعد دونوں فریق اس معاہدے پر رضامند ہوگئے، جس کی رُو سے کشمیر میں لین دین مغل کرنسی میں کیے جانے پر اتفاق ہوا اور جمعے کے خطبے میں مغل فرماںروا کا نام پڑھا جانے لگا۔ باقی تمام امور میں مقامی حکمرانوں کو خود مختاری عطا کی گئی۔ ایک سال بعد اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے یوسف شاہ چک کو مغل دارالحکومت آگرہ سے متصل فتح پور سیکری آنے کی دعوت دی گئی، مگر لاہور ہی میں اس کو گرفتار کرکے پابہ زنجیر اکبر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ یوسف شاہ نے جو اپنی شاعرہ ملکہ حبہ خاتون کے حوالے سے بھی مشہور ہے، باقی زندگی بہار کے شہر پٹنہ سے متصل ایک قصبے میں جلاوطنی اور عملاً قید میں گزاری، جہا ں آج بھی اس کی شکستہ قبر کشمیر پر قبضے اور طاقت کے بل بوتے پر سمجھوتوں سے انحراف کی داستان بیان کرتی ہے۔

یہ بات اب سری نگر میں زبان زد عام تھی کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں تھی جس نے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان دہلی کی روایتی کٹھ پتلی حکومت کے بجاے ایک پُراعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس لیے محبوبہ مفتی کی برطرفی پر کشمیر میں شایدہی کسی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا ہو۔ بھارتی فوج کے ذریعے شروع کیے گئے ’آپریشن آل آؤٹ‘ کی وجہ سے عوام خود کو اپنے ہی گھروں میں قید پاتے ہیں۔جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ پلوامہ میں جب فوج، نیم فوجی اہلکاروں اور پولیس کے دستوں نے کریک ڈاؤن کیا تو مقامی نوجوانوں نے زیادتیوں یا گرفتاریوں کے خوف سے پوری رات درختوں پر گزاری۔ والدین یا تو اپنے پیاروں کی ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں یا پھر روپوش ہوئے نونہالوں کی لاشوں کے منتظر!

یوں دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چاراضلاع کو ایک ’چھوٹا جنگی علاقہ‘ (mini war zone)بنا دیا گیا ہے جہاں وحشیانہ ملٹری آپریشن اور جبر کی داستانوں پر مشتمل کارکردگی ہی سے بھارت کی قومی سیاست کو خوراک مل رہی ہے۔ ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ کے نتیجے میں کشمیر میں شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے۔ اب یہ فیصلہ مخلص سیاسی لیڈروں کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح اس بد نصیب قوم کو غیریقینی حالات اور مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا سکتے ہیں۔

ایسے حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل سے زیادہ  کشمیر کی شناخت اور تشخص کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ایسا نظر آرہا ہے کہ کشمیر کے دونوں اطراف سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی و عوامی ذمہ داریوں سے پہلوتہی برت رہی ہیں، بلکہ ایک نوعیت کی مرعوبیت کی شکار ہوتی جارہی ہیں۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کے بجاے اقتدار کی ہوس نے نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنا دیا ہے، بلکہ اس کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ کچھ یہی حال اب پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے دونوں کا محور اقتدار کی    نیلم پری ہے۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا تو کجا، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی حکومت کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے لیے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے اور غوروفکر کے لیے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف باضمیر افراد، نیز حُریت پسند جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔

ریاست جموں و کشمیر کی جدید تاریخ میں تحریک اسلامی مختلف مشکل مراحل سے گزری ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہی جموں وکشمیر کی کئی نابغۂ روزگار ہستیاں سید مودودی ؒ کی دعوت سے متاثر تھیں۔ ریاست میں مختلف مقامات پر ان متوسلین نے جماعت اسلامی کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی تشکیل دیے تھے اور ابتدائی طور پر بہت کم لوگ ان میں شریک ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر ۱۹۵۳ء میں تنظیمی طور پر اپنے آپ کو جماعت اسلامی ہندسے الگ کرلیا اور ماہ نومبر۱۹۵۳ء میں اپنا الگ دستور تشکیل دیا۔ اس دستور میں نصب العین کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ،بلکہ طریق کار میں پاک و ہند کے تنظیمی ڈھانچوں سے اختلاف کی بنیاد پر الگ نظم تشکیل دیا۔ اس طرح جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ، سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی خود کو سرگرم عمل کیا۔ ریاست کی سیاسی تاریخ میں جماعت اسلامی کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ریاست کے استحصالی سیاست دانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو للکارا ہے اوراستحصالی ناخداؤں کو عوام الناس کے سامنے بے نقاب کردیا۔

جماعت اسلامی جموں و کشمیرنے پچاس کے عشرے سے لے کر نوّے کے عشرے تک مختلف مشکل مراحل کا سامنا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی، جماعت اسلامی پر پابندی کا عائد کیا جانا،۱۹۷۹ء میں ذوالفقار بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے خلاف بے جا طور پر، پوری ریاست میں لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کی مہم حکومتی سرپرستی کے تحت چلائی گئی۔ جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے والے اسلامی ماڈل اسکولوں کا جوجال پوری ریاست میں بچھا ہوا تھا، اس پر بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے پابندی عائد کردی اور جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں کو بند (Ban)کروا دیا۔

ان میں سخت ترین مرحلہ ۹۰ کا عشرہ تھا۔اس پورے عشرے کے دوران جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ سیکڑوں ارکان اور ہزاروں ہمدرد و رفقاے جماعت کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔اسی طرح اسیری کے دوران جماعت کے زعما اور عام کارکنان کو بدترین جسمانی تشدد اور ہولناک اذیتوں سے گزارا گیا،انٹروگیشن سینٹروں میں تکالیف دی گئیں۔ یہ سارا جبراور اذیتیں دراصل جماعت اسلامی کے وجود کو مٹانے کی سازش کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ، جماعت کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے لیے روا رکھی گئیں۔چوں کہ ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ دینی حلقوں نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ (MUF)کے جھنڈے تلے یک جان ہوکر ریاستی اسمبلی میں جاکر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد کی سب سے مؤثر اور بڑی اکائی جماعت اسلامی جموں و کشمیر ہی تھی۔بھارتی قیادت ریاستی مسلمانوں کے اس اقدام سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں۔ ان دھاندلیوں کے نتیجے میں ہی ریاست کے نوجوانوں نے تحریک حریت کو مزید مؤثر اور باوزن بنانے کے لیے ۴۰برس سے اختیار کیے گئے جعلی اور نام نہاد ’جمہوری جال‘ کو مسترد کیا  اور عسکریت پسندی کا راستہ منتخب کیا۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ریاستی نوجوانوں نے بھارتی مظالم اورجبری قبضے کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا۔

ریاست جموں و کشمیر کے پُرعزم نوجوانوں نے، جس پامردی اور جرأت سے بھارتی فوجی طاقت کو للکارا اوران کے چھکے چھڑائے، یہ تاریخ کا منفرد باب ہے۔ ایک طرف ٹڈی دَل، وحشی اور لاکھوں افراد پر مشتمل منظم بھارتی فوج اور دوسری طرف چند سو یا چند ہزار، سرفروش کہ جن کے پاس ڈھنگ کا خودکار اسلحہ بھی نہ تھا، معرکہ زن ہوئے۔ غیر متوازن طاقتوں کا ایسا مقابلہ دنیا میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔بھارت نے عسکری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے، ان میں ریاست کی مسلم آبادی میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی سازش بھی رچائی گئی۔ سب سے پہلے مختلف عسکری تنظیموں میں پھوٹ ڈالی گئی اور ان کو باہمی جنگ میں اُلجھایا گیا۔اس کے بعد ریاست میں بھارت کے خلاف اور بھارتی فوجی قبضے کے خلاف مضبوط ترین آوازاور جو نظریہ، جماعت اسلامی کی صورت میں موجود تھا،اس کے ساتھ نمٹنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس کام کے لیے ریاستی بھارت نواز حکومت نے بندوق برداروں کو استعمال کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ بدنام زمانہ ایم ایم اور اخوان نامی سرکاری دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے جماعت اسلامی کے خلاف لوٹ مار اور قتل عام کی ایک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ سیکڑوں ارکان و رفقا کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ حکومتی فورسز اور سرکار نواز دہشت گردوں نے کھلم کھلا، جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں سے پیسے بٹورے، ان کے گھروں کو بارودی دھماکوں سے اڑایا گیا، برسوں تک جیلوں میں نظربند رکھا گیا، اور اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ کہ جماعت کے سیکڑوں ارکان اور ہزاروں رفقا اور وابستگان جو شہید کیے گئے تو وہ سب شہادتیں ماوراے عدالت کی گئیں، جن کی ابھی تک بھی کوئی آزادانہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان و وابستگان میں بیش تر لوگ عمر رسیدہ تھے۔ ۶۰ اور ۷۰ سال تک کے بزرگوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی پیرانہ سالی کے باوجود ان کو شہید کردیا گیا۔

جماعت اسلامی کے یہ سارے وابستگان بلاشبہہ ایسے صالح افراد کار تھے، جو کئی برسوں پر پھیلے جماعت کے نظام تربیت کے نتیجے میں تیار ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہرت کے بامِ عروج اور دولت کی فراوانی کے باوجود اپنی جانوں ، اپنے مال و دولت کے بدلے رب کی جنتوں کے خریدار بن چکے ہیں۔عیش و عشرت کو تج دینے والے،آسایشوں کو چھوڑ دینے والے، عزیمت کے راستے کا انتخاب کرنے والے، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے والے،  حیات جاودانی کے رمز آشنا، جنتوں کے مسافر، شہادتوں کے طالب، اللہ کی راہ میں چلنے کا عزم کرنے والوں کے لیے مشعل راہ، جہالتوں اور تاریکیوں میں اُجالا کرنے والے، سفر حیات کی تاریکیوں میں جگمگ جگمگ تاروں کی مانند روشنیاں بکھیرنے والے روشن ستارے، جو آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر نقوش راہ بننے والے لوگ ہیں۔

ان عظیم المرتبت انسانوں کے تذکرے حکایات خونچکاں ہونے کے باوجود لذت ایمان میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ قافلۂ حق کے لیے رہنمائی کی قندیل فراہم کرنے والے لوگ ہیں، جن کے کردار اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔یہ لوگ اسلامی تحریکات کا سرمایہ  ہیں، بے بدل سرمایہ۔ اس سرمایے کے بل پر ہی تو تحریکات کی اعتباریت (credibility) میں اضافہ ہوتا ہے اور حق کے ثبوت میں زندہ چلنے پھرنے والے دلائل فراہم ہوتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہیں، لیکن بڑی بڑی اجتماعیتوں کی آبرو ہیں۔ اخلاص کے یہ پیکر ہمہ تن اسلام کے لیے وقف ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں انقلاب اسلامی کی شجرکاری میں ان بے لوث انسانوں کی بیش بہا قربانیاں شامل ہیں۔ یہ ریاست کی اسلامی تحریک کا وہ حصہ ہیں، جنھوں نے اپنے گرم گرم لہو سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی ہے۔ ان لوگوں کا تذکرہ ہماری جدوجہد کی کتاب کا وہ خوشبو دار باب ہے کہ جس کے ہرہر ورق پہ حق گوئی، بے باکی ،عزیمت ،اورقربانی کے زندہ الفاظ روشن اور نقش ہیں۔ یہ وہ جلی حروف ہیں کہ جن کے تذکرے میں ہماری زندگی پوشیدہ ہے۔

یہ بے شمار ہیں، اور ہر ایک کی داستانِ حیات اور سفرِشہادت ولولہ انگیز ہے۔

انھی میں سے ایک شہید عبدالرزاق میر ؒ بچرو ہیں۔ میر صاحب اپنے علاقے کے ہی نہیں، بلکہ جنوبی کشمیر کے متمول ترین انسانوں میں شامل تھے۔ دولت،شہرت،اور عزت کسی بھی چیز کی ان کو کمی نہیں تھی۔ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت موجود تھی۔شہید میرصاحب کے ہمسایے اور تحریکی ساتھی محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ شہید میر صاحب تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے پُرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے پاس ذاتی استعمال کے لیے گاڑی تھی، جس میں ان کا عزیز از جان پالتو کتا ہم سفر ہوتا تھا، جس کو وہ ٹائیگر کے نام سے پکارتے تھے۔ امارت تھی، سہولیات تھیں، مختلف جگہوں پر وسیع و عریض کاروبار پھیلا ہوا تھا اور ایک لائسنس یافتہ گن  بھی ہوتی تھی۔کاروبار ی سرگرمیوں کے لیے کئی ٹرک بھی ان کے پاس تھے۔جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے وہ نماز روزوں کے بھی کچھ قائل نہیں تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک مکمل انقلاب آیا اور ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے تک بھی ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ کچھ لوگ تو ان کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہی نہیںتھے، لیکن اُس وقت امیرجماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم سعدالدین ؒ صاحب نے کہا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ میر صاحب کی زندگی میں ضرور تبدیلی آئے گی‘‘۔ اس طرح ان کو جماعت نے اپنا اعتماد دیا اور پھر عبدالرزاق میرؒ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی اوران کی زندگی میں ایک ہمہ جہت انقلاب برپا ہوا۔

محترم شیخ محمد حسن سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر ان کی زندگی میں برپا ہونے والے انقلاب اور ان کی متاثر کن شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ شہید عبدالرزاق میر اعلیٰ صفات کی حامل شخصیت تھی ۔ وہ ایک خاص ماحول سے تبدیل ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد وہ انتہائی پرہیزگار، خدا ترس، اور خدا پرست شخصیت بن گئے تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ہم آہنگ، یکسو اور جماعت کے پختہ کارکن تھے۔ ان کا تقویٰ، ان کی خدا خوفی، سخاوت، ان کا غریبوں کی امداد کرنا، ان کی دریا دلی اور وسیع النظری ایک مسلّمہ حقیقت بن گئی۔ وہ بڑے ہنس مُکھ اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ بڑے بڑے مسائل ہنستے ہنستے حل کرتے تھے اور رنجیدہ مجلس کو بھی اپنی شگفتہ مزاجی سے شادکام کردیتے تھے۔ وہ حاضر جوابی میں یکتا تھے اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کو اپنی حاضرجوابی سے لاجواب کردیتے تھے‘‘۔

۱۹۷۲ء میں پہلی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کولگام انتخابی حلقے سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ۱۹۷۷ء میں حلقہ انتخاب ہوم شالی بگ سے عبدالسلام دیوا کے خلاف انتخاب لڑا، لیکن اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔۱۹۸۷ء میں جب جماعت اسلامی نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے تحت اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تو عبدالرزاق میر صاحب کولگام سے کامیاب قرار پائے۔ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ، بہترین قانون دان تھے،اور اسمبلی میں بھی اپنی زندہ دلی سے خوب کام لیتے تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کولگام کے موجودہ امیر محمد یوسف راتھر صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بحیثیت ایم ایل اے (MLA) ان کو جو بھی تنخواہ ملتی تھی، وہ اُس پوری تنخواہ کو غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ اسمبلی میں رہتے ہوئے انھوں نے سرکاری نوکریوں کے حصول میں غریبوں اور باصلاحیت افراد کی بھرپور امداد کی اور اقربا پروری سے کوسوں دور رہے۔وہ حد درجہ شگفتہ مزاج اور انتہائی بہادر انسان تھے۔ ایک اہم کارنامہ جو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے انھوں نے انجام دیا وہ ہے ماؤ نہر کے منصوبے کی تکمیل، جس سے کولگام کی زرعی زمین کی آبپاشی ہوتی ہے‘‘۔

محمد احسن لون صاحب نے بتایا کہ:’’ بچرو کولگام کی بستی میں تحریک اسلامی کی داغ بیل انھوں نے ہی ڈالی اور جماعت سے وابستگی اختیار کرتے ہی مقامی مسجد میں تفہیم القرآن سے درس دینا شروع کیا اور انتہائی مشکل وقت میں جماعت اسلامی کی دعوت پیش کرنے کی شروعات اپنے گاؤں سے ہی کی۔ان کی شخصیت میں تبدیلی سے پورے گاؤں کے ماحول پر اثرات پڑے اور باجماعت نماز کا اہتمام سارے گاؤں میں ہونے لگا۔ تحریک کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ جماعت کی مالی امداد کے علاوہ ان کی گاڑی بھی ہمیشہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف رہا کرتی تھی۔ اپریل ۱۹۷۹ء کے منصوبہ بند حادثے میں ان کا کافی زیادہ نقصان کیا گیا۔ لگ بھگ ۲۲چھوٹی بڑی تعمیرات کو جلایا گیا، مکان ، دوکانات، گاؤخانے اور ان میں موجود مویشی زندہ جلائے گئے، اور میوہ باغات کے سارے درخت کاٹ دیے گئے، ایک ٹرک جلادیا گیا۔  بچرو اور کولگام کے کارخانوں میں موجودہزاروں فٹ کی تعمیراتی لکڑی جلائی گئی۔ بچرو، کولگام، کھنہ بل اور کئی جگہوں پر ان کی تعمیرات کو جلایا گیا۔ کئی دن بعد جب موقع واردات کا جائزہ لینے کے لیے  نئی دہلی سے کئی سیاست دانوںپر مشتمل وفد آیا( اس وفد میںایچ ایم پٹیل، مرار جی ڈیسائی بھی شامل تھے) اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ان سب کی موجودگی میں لوگوں کے ایک بڑے مجمعے سے ڈیڑھ گھنٹے پر پھیلی بڑی جرأت آمیز تقریر کی اور اسی مجمعے میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ: ’’جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے امیر جماعت نے عام معافی کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

 محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ وہ خانگی اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی انتہائی حساس شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ لا ولد تھے، یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،لیکن وہ انتہائی مال دار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے مکمل پابند تھے۔ گھر کی پراپرٹی کی شرعی تقسیم کے لیے ایک وصیت نامہ انھوں نے خود لکھا تھا۔ قرآن پاک کا جو نسخہ ان کے زیر مطالعہ رہتا تھا، اسی نسخے پر ہی ایک جگہ وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے انھوں نے وصیت نامہ تحریر کیا،  جس کی وجہ سے ان کی جایداد کو تقسیم کرنے میں کافی مدد ملی۔مزیدیہ کہ بچرو میں اسلامی درس گاہ کی بنیاد بھی عبدالرزاق میر صاحب نے ہی ڈالی۔ ۱۹۸۲ء میں ریڈونی میں جب یومیہ درس گاہ کو قائم کیا گیا، تو میرصاحب نے وہاں سے واپس آکر اپنی لگ بھگ تین کنال کی اراضی وقف کی اور بچرو میں بھی یومیہ درس گاہ کی بنیاد ڈالی ۔ انھوں نے اس اسکول کی تعمیر میں بھر پور مالی امداد کی جس کی وجہ سے ہی یہ اسکول قائم ہوسکا۔ اس وقت یہ ہائی اسکول لیول تک پہنچ گیا ہے اور ہزاروں طالب علم اس اسکول کے ذریعے زیورِتعلیم سے آراستہ ہوچکے ہیں اور ابھی بھی ہورہے ہیں۔جماعت اسلامی کے زعما کی خدمت میں بھی میر صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصی طور پر مولانا سعدالدین ؒصاحب کے ساتھ ان کو خاص لگاؤ تھا ۔

بدنام زمانہ اخوانی دور کی شروعات کے چنددنوںبعدعبدالرزاق صاحب جموں سے واپس گھر آئے۔میر صاحب نے مقامی تحریکی رفقا کے ساتھ مشورے کے بعد رات کو گاؤں میں باقی رفقا کے ساتھ گشت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ دن کی روشنی میںان کو نقصان پہنچانے کی کوئی جرأت نہیں کرے گا اور زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہی ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ ان کی جان کے حوالے سے خطرات موجود تھے اور دھمکیاں بھی مل چکی تھیں اورحالات کی سنگینی کا بھرپور اندازہ بھی تھا، تاہم انھوں نے گھر سے بھاگ کر روپوش ہوجانا مناسب نہیں سمجھا۔بڑی جرأت اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،سری نگر اور جموں میں اپنے ذاتی مکانات موجود ہونے کے باوجود بچرو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا‘‘۔

شیخ محمد حسن صاحب نے ان کی شہادت کے بارے میں بتایا کہ:’’اس روز (۲۱نومبر ۱۹۹۵ء) انھوں نے صبح کے وقت میرے ساتھ بچرو میں ہی ملاقات کی اور مجھ سے ملاقات کے بعد کسی کام کے سلسلے میں جب باہر سڑک کی طرف نکلے، تواخوانیوں نے ان کے بھائی علی محمد میر صاحب کو ہی عبدالرزاق میر سمجھ کر گرفتار کرلیا ۔ اس پر عبدالرزاق صاحب خود چل کر قاتلوں کے پاس گئے اور کہا کہ: ’’ میں ہوں عبدالرزاق، لہٰذا،میرے بھائی کو چھوڑ دو ‘‘۔ وہ ان کو ہی گرفتار کرکے کولگام  لے گئے ،اورننگے پاؤں قصبہ کولگام کے پورے بازار میں پھرایا۔ وہ برہنہ پائی کی حالت میں،  عالم گرفتاری میں بازار سے گزرتے ہوئے بلندآواز میں باربار یہ کہتے جارہے تھے کہ: ’’لوگو    ڈرو مت ،اورآگاہ رہو، اورگواہ رہو کہ میں بچرو کولگام کا رہنے والا عبدالرزاق میر ہوں ، اور میرا ایک ہی جرم ہے کہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوں اور اسی جرم میں ننگے پیر پھرایا جارہا ہوں۔ مجھے اس بات کا کوئی غم ،ملال نہیں ،بلکہ یہ بات میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں جماعت اسلامی کے نام پر’ برہنہ پا‘ پھرایا جارہا ہوں‘‘۔ اسی دوران لوگ اُمڈ اُمڈ کر اپنے محسن رہنما سے یک جہتی کے لیے اکٹھے ہونا شروع ہوئے تو اخوانی اغواکاروں نے ان کو سربازار گولیوںکی بوچھاڑ کرکے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا‘‘۔

 اس طرح ایک گلِ سرسبد کو ظلم کے مکروہ سایوں تلے روندا گیا۔ وہ جماعت اسلامی    جموں وکشمیر کے ایک مایہ ناز سیاست کار اور بہترین کارکن تھے۔ وہ اپنے علاقے کے ایک مشہور تاجر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کے عوض ان کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!

۲۰۱۸ءکئی مسلم ممالک میں انتخابات کا سال ہے۔ ۲۴ جون کو ترکی میں اور گذشتہ مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے تیونس کے بلدیاتی انتخابات، تحریک نہضت کی واضح کامیابی کی خوش خبری لائے۔ عراق کے عام انتخابات میں حکمران اتحاد کے بجاے ایک دوسرے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر بڑی قوت بن کر اُبھرے۔ یہی عالم لبنان کے عام انتخابات کا ہے۔  وہاں حسب توقع حزب اللہ اور اس کے حلیفوں نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن شیعہ سُنّی اور مسیحی آبادی میں تقسیم اقتدار کے فارمولے پر عمل اب بھی مشکل تر دکھائی دیتا ہے۔

اب ۲۵ جولائی کو پاکستانی عام انتخابات کے علاوہ اسی سال کے اختتام پر بنگلہ دیش میں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ حسینہ واجد اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے، جب کہ خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کی پوری قیادت، ہزاروں بے گناہ کارکنوں کے ساتھ جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ تمام انتخابات اہم ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے، اس لیے یہاں ان دونوں کا جائزہ لیتے ہیں:

  • ترکی: ترکی سے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نظریات پر مبنی نظام عملاً لپٹ چکا ہے۔ مرحوم پروفیسر نجم الدین اربکان اور طیب اردوان سمیت ان کے ساتھیوں کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں اب خود مصطفیٰ کمال کے وارث باحجاب خواتین سے تقاریر کرواتے نظر آتے ہیں۔ سرپر اسکارف کے جرم میں مروہ قاوقچی کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کرنے والے، حالیہ مہم میں اپنی خواتین خانہ کے باحجاب ہونے کا انکشاف کرتے رہے۔ حالیہ انتخابات میں اپوزیشن کے مرکزی اُمیدوار محرّم اینجہ تو مضحکہ خیز حد تک اپنی اسلام دوستی کا دعویٰ کرتے رہے۔ خود کو پابند صوم و صلوٰۃ ثابت کرنے کے لیے یہ دعویٰ تک کر ڈالا کہ ’مَیں بھی روزانہ نمازِ جمعہ ادا کرتا ہوں‘۔ یہی جملہ بالآخر ملک بھر میں لگنے والے بینروں کے ذریعے ان کی ’دین داری‘ کی حقیقت بے نقاب کرگیا۔

اب ترکی میں پارلیمانی نظام کے بجاے براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات پر مبنی صدارتی نظام نافذ ہوگا۔ ۶۰۰ ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ یقینا ایک مؤثر دستور ساز ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گی، لیکن سربراہِ حکومت، حکومت سازی کے لیے ایوان میں کی جانے والی جو ڑ توڑ کی فکر سے آزاد ہوکر اُمور سلطنت انجام دے سکے گا۔ ضرورت ہوگی تو پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے باصلاحیت افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرسکے گا۔ عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہونے والا سربراہِ حکومت کسی فوجی انقلاب کے خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہے گا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہ کر تعمیر ملک و ملت میں شریک کرسکے گا۔ فوجی عدالتیں کالعدم قرار پائیں گی اور عدلیہ میں ججوں کا تعین مزید بہتر انداز سے ہوسکے گا۔

مخالفین کے لیے جب صدر طیب اردوان اور ان کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو طیب پر آمر بننے کا الزام لگایا جانے لگا۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً ساری مغربی دنیا کے علاوہ ہزاروں بے گناہوں کے خون کا پیاسا مصری جنرل سیسی بھی صدر اردوان پر آمر کا الزام لگاتے دکھائی دیا۔ ۲۴جون سے قبل تقریباً ہر اہم عالمی جریدے کے سرورق پر آمر کی سرخی کے ساتھ صدر اردوان کی تصاویر شائع کروائی گئیں۔ جرمنی کے سب سے معروف رسالے دیر شپیگل  نے تو انتہا کردی۔    اس نے پورے صفحے پر اردوان کی تصویر کے پس منظر میں بڑی مسجد کی تصویر لگائی اور اس کے سربفلک میناروں میں سے دو میناروں کو میزائلوں میں ڈھالتے ہوئے، انھیںنامعلوم دشمن کے خلاف چلادیا۔ ترک وزیر خارجہ سمیت کئی ذمہ داران نے یہ واضح بیانات بھی دیے کہ بعض ممالک ترک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ جھونک رہے ہیں۔ کئی ملکوں کے سوشل میڈیا سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کی حکومتیں کسی بھی ’قیمت‘ پر اردوان کو ہرانا چاہتی ہیں۔

حالیہ ترک انتخابات، اتحادوں کے انتخابات تھے۔ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود میدان میں تنہا نہیں اُتری۔ اس نے ترک قومیت پر مبنی جماعت (MHP) کے ساتھ ’اتحاد جمہور‘ تشکیل دیا۔ یہ جماعت پہلے تقریباً ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کیا کرتی تھی، اب بھی اسے پارلیمانی سیٹوں کے لیے ۱۱فی صد ووٹ ملے۔ خود جسٹس پارٹی کے ووٹ بعض حلقوں میں کم ہوئے، لیکن دونوں جماعتوں کے اتحاد سے صدارتی انتخابات میں کامیابی ۶ء ۵۲ فی صد تک جاپہنچی۔ مقابل حزب مخالف نے بھی اتحاد ہی کی راہ اختیار کی۔ ’اتحاد ملت‘ کے نام سے قائم  اس اتحاد میں باہم شدید نظریاتی مخالف جماعتیں یک جا تھیں۔ سب سے بڑی سیکولر جماعت CHP  اور سعادت پارٹی کا اتحاد آگ اور پانی کے ملاپ کی صورت میں سامنے آیا۔ اردوان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب کے لیے حکمت عملی یہ بنائی گئی کہ سب اتحادی پارٹیاں اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتاریں گی، تاکہ ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہونے کے باعث طیب اردوان کو پہلے مرحلے میں جیت کے لیے مطلوب ۵۰ فی صد ووٹ حاصل نہ ہوسکیں۔البتہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں اتحاد کے نام سے حصہ لیا جائے۔ تاہم، کھلی بیرونی مداخلت و ’سرمایہ کاری‘ اورمختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد کے باوجود الحمدللہ، رجب طیب اردوان پہلے ہی مرحلے میں صدر منتخب ہوگئے۔ جیت کے بعد اردوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری جیت کسی ایک فرد یا جماعت کی جیت نہیں ہرترک شہری اور دنیا کے ہر مظلوم کی جیت ہے‘‘۔ یقینا اس جیت کے پیچھے ان لاکھوں مظلوموں اور اسلام کے چاہنے والوں کی دُعائیں بھی تھیں، اردوان حکومت نےجن کے زخموںپر مرہم رکھا۔ انتخابی مہم میں محرّم اینجے کہہ رہے تھے: ’’کامیاب ہوکر ۴۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو نکال باہر کروں گا‘‘، جب کہ اردوان کہہ رہے تھے: ’’یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے مہمان ہیں۔ ہم شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف مزید قوت سے لڑیں گے، تاکہ ہمارے یہ مہمان عزت سے اپنے گھر واپس جاسکیں‘‘۔بالآخر افلا ک سے ان تمام مظلوموں کے نالوں کا جواب آیا۔

طیب اردوان نے اپنے وطن عزیز کومعاشی طورپر مضبوط تر بنانے کے لیے وہ کارکردگی دکھائی ہے جو جدید ترکی کی تاریخ میں کبھی ممکن نہ ہوئی تھی۔ اردوان حکومت سے پہلے ترکی اقتصادی لحاظ سے دُنیا کا ایک سو گیارھواں ملک تھا، اب سولھواں ہے۔پہلے فی کس سالانہ آمدنی ۲ہزار ڈالر کے قریب تھی، اب ۱۱ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بے روزگاری کا تناسب ۳۸ فی صد سے کم ہوکر ۲فی صد رہ گیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں ۳۰۰ فی صد بڑھاتے ہوئے کم سے کم تنخواہ ۳۴۰ لیرے سے بڑھا کر ۹۵۷ لیرے (تقریباً ۲۴ہزار روپے) کردی گئی ہے۔ اردوان کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء تک ترکی کو دنیا کی پہلی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنا ہے۔

حالیہ انتخابات میں ترکی سے ملنے والا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ باہمی اختلافات کو کبھی اس انتہا پر نہیں لے جانا چاہیے کہ دوبارہ ملنا ممکن نہ رہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کی غالب اکثریت (بالخصوص فیصلہ ساز افراد) مرحوم اربکان ہی کے ساتھی اور ایک عالمی اسلامی فکر (جسے انھوں نے ’ملی گوروش‘ کا نام دیا ہوا ہے) کا حصہ ہیں۔ آج ترک ایوان صدر میں جائیں تو کئی دفاتر میں سجی ذاتی تصاویر میں صدر طیب اردوان کے ساتھ ساتھ پروفیسر نجم الدین اربکان اور سیّد مودودی کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف سعادت پارٹی اپنے کٹڑ نظریاتی مخالفین کے ساتھ اتحاد پر تو راضی ہوگئی، مگر حکمران پارٹی کے ہم خیال اپنے سابق ساتھیوں سے نہ مل سکی۔حالیہ انتخابات سے چند روز قبل سعادت پارٹی کے مزید کئی اہم ذمہ داران بھی جسٹس پارٹی میں شامل ہوگئے۔

  •  ملائیشیا : تقریباً یہی صورتِ حال ہمیں ملائیشیا کے حالیہ انتخابات میں دکھائی دیتی ہے۔ آئیے پہلے اس کے مختصر تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں:

ملائیشیا بظاہر ایک الگ تھلگ مسلم ریاست ہے، لیکن اپنی آبادی اور اپنے اقتصادی مقام کے باعث جنوبی ایشیا میں ملائیشیا انڈونیشیا، سنگاپور اور برونائی سمیت ان سب ممالک کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا وجود دنیا کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا عملی جواب ہے کہ دین اسلام بزور تلوار پھیلایا گیا۔ اس پورے علاقے میں اسلام کا تعارف مسلمان علماے کرام، مسلمان طلبہ اور تاجروں کے ذریعے پہنچا اور الحمدللہ مختلف اَدوار اور مختلف آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود عوام کے دلوں میں اسلام کی محبت ان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملائیشیا کی آزادی کا فیصلہ ہوا اور ۳۱؍اگست ۱۹۵۷ء کو گیارہ صوبوں پر مشتمل ریاست کو آزادی ملی۔ تاہم، ۱۹۶۵ میں سنگاپور الگ ہوگیا۔ آج کا ملائیشیا انھی ۱۳ صوبوں پر مشتمل ہے۔ملائیشیا میں مسلمان آبادی کا تناسب ۸۰ فی صد سے زائد تھا۔ برطانوی تسلط کے دوران ایک منصوبے کے تحت چین اور ہندستان سے ایک بڑی آبادی وہاں منتقل کی گئی۔  نتیجہ یہ نکلا کہ مالے نسل آبادی کا تناسب ۵۵  فی صد رہ گیا جو اَب ۶۰  فی صد ہے۔ سب کے سب مسلمان اور امام شافعی کے پیروکار ہیں۔ ۳۰فی صد آبادی چینی النسل ہے اور ۱۰ فی صد ہندستانی نسل کے لوگ ہیں۔ اصل باشندوں کی اکثریت کا پیشہ زراعت اور کھیتی باڑی تھا۔ چین سے آنے والے اکثر لوگ تجارت و صنعت میں جت گئے۔ اکثر ہندستانی جنگلات، تجارت اور مختلف کانوں سے معدنیات کے کام میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح مقامی آبادی کے مقابلے میں دیگر باشندوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر قرار پائی۔

۱۹۵۷ء ہی میں برطانوی سامراج کی اجازت سے ’مالے‘ نسل کی آبادی کے لیے  ’یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن‘ (UMNO) تشکیل دی گئی۔ MCA  کے نام سے چینی اور MIC کے نام سے ہندستانی آبادی کے لیے بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔

دوسری جانب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی ایک ملائیشین عالم دین ڈاکٹر برہان الدین حلمی کی صدارت میں ایک تنظیم مالاوین قومی پارٹی تشکیل پاچکی تھی۔ ڈاکٹر حلمی نے ہندستان میں تعلیم حاصل کی تھی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک نے  آزادی کا پرچم بلند کیا اور اپنے پیش نظر ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام رکھا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے اس تحریک سمیت دیگر تمام تنظیموں پر پابندی لگادی تو ان کے ذمہ داران و کارکنان بھی UMNO    میں شامل ہوکر اس پلیٹ فارم سے کام کرنے لگے۔اسی زمانے میں اسلامی تحریک کی شروعات علماے کرام کی ایک تنظیم سے ہوئی، جو بعد میں پاس (PAS) کے نام سے جماعت کی بنیاد بنی۔ ۱۹۵۵ء میں ملک کے پہلے انتخابات ہوئے تو ۵۲؍ارکان پر مشتمل اسمبلی میں ’پاس‘ کو ایک سیٹ ملی۔ آزادی کے بعد پہلے ہی انتخابات میں ’پاس‘ نے صوبہ کلنتان کی ۳۰ میں سے ۲۸ اور صوبہ ترنگانو کی ۲۴ میں سے ۱۳ نشستیں جیت کر دوصوبائی حکومتیں بنا لیں۔

۱۹۵۹ء کے بعد سے آج تک یہی چار بنیادی گروہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کبھی حلیف اور کبھی حریف بنتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوران کئی نئی جماعتیں اور اتحاد بھی وجود میں آتے رہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کے لیے ABIM نامی پلیٹ فارم بہت مؤثر ثابت ہوا۔ انورابراہیم جیسے فعال اور ذہین افراد اس کے کارکن اور پھر سربراہ بنے۔ اس میں بنیادی طور پہ ایک قومی اور اسلامی سوچ رکھنے والے باصلاحیت نوجوان جمع ہوتے آئے ہیں۔ انور ابراہیم نے ABIM کے ساتھ ساتھ ’امنو‘ میں بھی اہم مقام حاصل کیا۔ انھیں مہاتیر محمد کا اعتماد حاصل ہوا۔ وزیرخزانہ اور ڈپٹی وزیراعظم بنے۔ سب انھیں مہاتیر کا جانشین قرار دینے لگے۔ لیکن پھر ۱۹۹۸ء میں ایک اچانک ایسا لمحہ آیا کہ دونوں میں بداعتمادی جڑپکڑنے لگی۔ اسی وقت ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی جب وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان پر شرم ناک الزام لگاتے ہوئے انھیں جیل بھجوا دیا اور کرپشن کے الزامات پر ۶ سال کی سزا سنادی گئی۔ انورابراہیم نے نہ صرف ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا بلکہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۸ میں اپنی نئی سیاسی جماعت (جسٹس پارٹی) بناکے عوامی عدالت میں جانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے ’پاس‘ (PAS) اور چینی نسل کے گروہوں سے بھی رابطہ کیا۔ اس اتحاد کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر مقام حاصل ہوتا رہا۔ ایک وقت میں اس اتحاد کی چار صوبائی حکومتیں بنیں۔ ’پاس‘ کے سربراہ عبدالہادی اوانگ مرکز میں اپوزیشن لیڈر اور تیل سے مالامال صوبہ ترنگانو کے وزیراعلی بھی بنے۔

۲۰۰۳ء میں مہاتیر محمد نے اپنی ۲۲ سالہ وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت عبداللہ بداوی کے سپرد کردی۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۹ء میں نجیب عبدالرزاق وزیراعظم بنے۔ ان کے والد عبدالرزاق حسین ۱۹۷۰ء میں ملک کے دوسرے وزیراعظم بنے تھے۔ اب حالات نے ایک نیا پلٹا کھایا۔ ۹۳ سالہ مہاتیر محمد نے نجیب پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا شروع کردیے۔ ادھر ’پاس‘ اور انور ابراہیم کے مابین غلط فہمیاں جنم لینے لگیں۔ خود ’پاس‘ کے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ نظریاتی ارکان اسمبلی کا جھکاؤ بھی انور ابراہیم کی جانب ہونے لگا اور بالآخر انھوں نے الگ ہوکر ایک نئی جماعت ’امانۃ پارٹی‘ بنالی۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات سے پہلے ’پاس‘ اور’ امنو‘ دونوں تقسیم ہوچکی تھیں۔

وہی مہاتیر محمد جنھوں نے انور ابراہیم کے ساتھ انتقامی سلوک کیا تھا، ’امنو‘ کے بجاے جسٹس پارٹی کے قریب آنے لگے، جسے جیل میں قید انور ابراہیم کی اہلیہ و ان عزیزہ اور صاحبزادی نورالعزہ چلّا رہی تھیں۔ انھوںنے اعلان کیا کہ وہ انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ اب جسٹس پارٹی، مہاتیر کی نئی پارٹی اور ’پاس‘ سے الگ ہونے والی امانۃ پارٹی کا اتحاد بن گیا۔ چینی جماعت بھی ساتھ آن ملی اور اس اتحاد نے ۹ مئی ۲۰۱۸ء کو ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔اسے ۲۲۲ کے ایوان میں ۱۲۲ سیٹیں ملیں۔ ’امنو‘ کو ۱۹۵۹ء کے بعد پہلی بار شکست ہوئی لیکن اس نے پُرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا۔ کامیاب ہونے والے اتحاد کے مابین معاہدہ طے پایا کہ چارسالہ اقتدار کے پہلے دو سال مہاتیر وزیراعظم رہیں گے۔ ان کے ساتھ    وان عزیزہ نائب وزیراعظم ہوں گی اور پھر باقی دو سال کے لیے انور ابراہیم وزیراعظم بنیں گے۔ ۹۳ سالہ مہاتیر نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی وسیع پیمانے پر اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ نجیب عبدالرزاق پر ملک سے باہر جانے کی پابندی ہے اور ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جارہے ہیں۔ ان کے گھر سے ۱۲۰ ملین رنگٹ کی نقد کرنسی اور قیمتی جواہرات ضبط کرلیے گئے ہیں۔

دوسری جانب ’پاس‘ (PAS) نے تمام تر اندرونی تقسیم اور انتہائی کڑے مقابلے کے باوجود کلنتان اور ترنگانو میں واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کے ۱۸ ؍ارکان پہنچ گئے ہیں اور دو مزید صوبوں میں ان کے ارکان کا کردار اہم ترین ہے۔ مجموعی طور پر ۱۳ صوبائی اسمبلیوں میں اس کے ارکان کی تعداد ۹۰ سے متجاوز ہے، انھیں ۱۷ فی صد ووٹ ملے۔ نئی حکومتیں تشکیل پانے کے بعد پاس کے سربراہ نے صوبہ ترنگانو میں اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ وزیراعظم مہاتیر سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دی اور ہر مثبت اقدام میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔

ملائیشیا کے حالیہ انتخابات اور حکومت سازی کا سب سے اُمید افزا پہلو حکومت میں  انورابراہیم کو اہم مقام حاصل ہونا ہے،جو تحریک ِ اسلامی کے حلیف اور جانے پہچانے رہنما ہیں۔ اپوزیشن میں بھی ’پاس‘ جیسی فعال جماعت ہے جو دو صوبوں میں مکمل اور دو میں جزوی اختیار و نفوذ رکھتی ہے۔ انتخابات سے قبل پائے جانے والے اختلافات و تناؤ کی شدت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ترک انتخابات سے دو دن قبل ۲۲ جون کو انور ابراہیم ترکی گئے۔ نمازِ جمعہ صدر طیب اردوان کے ساتھ ادا کی اور دنیا کو دونوں اہم برادر ملکوں کے شانہ بشانہ ہونے کا پیغام دیا۔ پاکستان کے بارے میں بھی دونوں ملکوں کی قیادت کے جذبات یکساں طور پر مثبت ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک منصوبہ، فتنہ سازوں کا ہے جو مسلم اُمت کی تقسیم در تقسیم کا ہدف رکھتا ہے۔ مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنارہا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ اللہ کی توفیق سے مسلم اُمت کا ہے، جو اہم مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کا پشتیبان بنارہا ہے: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ (یوسف ۱۲:۲۱)’’اور اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے‘‘۔

ایک طویل عرصے بعد اقوام متحدہ کے ایک باوقار ادارے ’انسانی حقوق کونسل‘ نے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درداوران پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرائی میں جا کر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے اور کوتاہیوں کی تلافی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ زیرنظررپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں گذشتہ  دو برسوں کے دوران کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بے حرمتی کی روح فرسا تصور پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ یہاں پر اس سے پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اور پاکستان پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے انتظام و اہتمام کریں، تا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ تیسرا یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو حل تجویز کرتی ہیں، وہی درست اور منصفانہ راہ عمل ہے، جس سے کسی کے لیے مفر ممکن نہیں ۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی برادری، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے علاقوں میں انسانی اور سیاسی حقوق کی صورتِ حال کو جاننے کے لیے وفود بھیجے ، جو غیر جانب دارانہ طور پر دُنیا کے سامنے حقائق کو پیش کریں۔

اس مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے مثبت طور پر حقائق پیش کرنے کے لیے سفارتی، ابلاغی سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لمحے بھر کی بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے اہل الراے کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ پہلے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آ ئیں اور پھر بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر جاکر حقائق کودیکھیں اور عالمی اداروں کے سامنے موازنہ پیش کرکے ڈیڑھ کروڑ عوام کے مستقبل کو محفوظ کریں، اور پونے دو ارب انسانوں کے خطّے جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کے خطرات سے بچائیں۔مدیر 

o

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۱۴جون ۲۰۱۸ء کو جاری کی ہے۔      اس رپورٹ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور   دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دُکھ درد محسوس کرےگی۔

اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۲۰۱۶ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔

رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی   عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔ ​​اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔

بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو  دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اُبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے آخر میں،۲۰۰۸ء اور پھر۲۰۱۰ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانےاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو،  تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اُس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔

بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے افراد کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ  کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔

رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔

اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔  دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔

 رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔

 انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۱۵ ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔

اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزّت و حُرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳ء میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتا کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو  مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔

رپورٹ میں بھارتی حکومت کو۱۷ سفارشات دی ہیں، تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے۔  جس کے مطابق: l فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ، ۱۹۹۰ کو منسوخ کیا جائے۔ lجولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔lبین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔

رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی، جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔[انگریزی سے ترجمہ: س    م     خ] ٭

 

٭ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر (۲۰۰۲ء-۲۰۰۸ء) اور سلامتی کونسل کے سابق صدر منیراکرم صاحب نے، اس رپورٹ کی مناسبت سے لکھتے ہوئے متوجہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ کمیشن مقرر کر کے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اگر بھارت اس سے انکار کرے تو پھر حسب ذیل اقدامات کیے جائیں:lبھارت کی سیکورٹی فورسزکے انفرادی ارکان کی شناخت کرتے ہوئے، انھیں انسانیت کے خلاف متعدد جرائم میں نامزد کیا جا سکتا ہے کہ جنھوں نے غیر مسلح مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ فائرنگ کی اور بے بس خواتین کو جنسی تشدد اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا ۔ انھیں جنیوا کنونشن اور [قتل عام ] سے متعلق معاہدات کے تحت مقدمات میں ماخوذ کیا جانا چاہیے۔ lبھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے بھارتی ہنگامی قوانین کے نفاذ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ lاقوام متحدہ کے معاہدات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پُر امن مظاہرین کو فائرنگ اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ l  بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) اور دیگر فلاحی تنظیمیں کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ lبھارتی سماجی کارکنوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جا کر برسرِ زمین حالات دیکھنے، اور کشمیری شہریوں کو بھارت سے باہر دنیا میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ lبھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ، جنسی تشدد اور بے حرمتی کی شکار بے بس کشمیری خواتین کے لیے انصاف کے حصول اور ایسے گھنائونے جرائم کی روک تھام کے لیے پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے، خاص طور پر کنن پوش پور کے شرمناک واقعے (جس میں بھارتی فوجیوں نے ۲۳ عورتوں اور بچیوں کی اجتماعی بے حُرمتی کی تھی)کو عبرت ناک مثال بنانا چاہیے۔ lحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف  (ICJ) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مناسبت سے بھارت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے۔

اگر پاکستان: انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں کو متحرک کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے اور    دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے تو اس سے کشمیری عوام پر مظالم کی یلغار کم اور تشدد کے واقعات میں کمی آ سکے گی۔  اس طرح مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طے شدہ اصول کے تحت حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (روزنامہ Dawn، کراچی، ۲۴جون ۲۰۱۸ء)

 

جولائی ۲۰۱۶ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے،نیز بھارتی میڈیا آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا تھا، تب غالباً  بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ایما اور جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی استدعا پر میڈیا کے چنیدہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ۱۷ طاقت ور مدیر اور چوٹی کے صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں پہنچے تو وہ بھارتی کابینہ کے نہایت مؤثر وزرا کی ایک ٹیم کے رُوبرو تھے۔ مودی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزرا کسی مسئلے پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اس کے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔

موجودہ بھارتی نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو کے پاس اُن دنوں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان تھا۔ انھوں نے نظامت سنبھالتے ہی فرمایا: ’’یہ ایک پس منظر بتانے والی بریفنگ ہے، اس لیے ہم سوالات کے علاوہ کھلی بحث اور پریس سے مشوروں کے بھی طالب ہیں‘‘۔ ایک سینئر وزیر نے گفتگو کے آغاز میں گزارش کی کہ:’ کشمیر میں اس شورش کی رپورٹنگ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جائے، اور کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس بات سے پریشان ہیں کہ میڈیا جس طرح کشمیر کی صورتِ حال کو رپورٹ کر رہا ہے‘ اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں۔ کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں۔ ان کے اور بھارتی عوام کے درمیان خلیج وسیع اور گہری ہو تی جارہی ہے‘‘۔

اس گفتگو سے جو میڈیا کو مفاہمت اور احتیاط پسندی کی تلقین پر مبنی تھی، اس پر فوراً ہی دوسرے ایک اہم تر وزیر نے پانی انڈیل دیا۔ یہ وزیر صاحب حکومتی حلقوں میں کشمیر پر حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں برپا پچھلی عوامی شورشوں کا موجودہ عوامی اُبھار کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا: ’’۱۹۸۹ء کا عوامی احتجاج اور عسکریت کا آغاز ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں بے حساب دھاند لیوں اور جمہوری عمل کی ناکامی سے منسلک تھا۔ ۲۰۰۸ء کی عوامی شورش اصل میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقے اور وادی کشمیر کے درمیان چلی آرہی مخاصمت کا شاخسانہ تھی۔ ۲۰۱۰ء میں مقامی حکومت کی نااہلی اور سلسلہ وار ہلاکتوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر تھے۔   موجودہ شورش کا تعلق جمہوری عمل کی ناکامی یا آزادی کی تحریک سے نہیں ہے، بلکہ اس کے تار عالمی دہشت گردی سے جڑے ہیں‘‘۔پھر انھوں نے کہا کہ: ــ’’القاعدہ ،آئی ایس آئی ایس اور طالبان  جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اس لیے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے‘‘۔ غرض یہ کہ ان سینئر وزیر صاحب نے مبالغہ آمیزی سے کام لے کر کشمیر کی تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطے پر اس کے مضمرات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کانفرنس روم میں سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ: ’’کشمیر میں قومیت کے بجاے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتا جارہا ہے ، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔

 سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے محترم وزیر صاحب کو یاد دلایا کہ: ’’درگاہ و منبر، کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کے مراکز رہے ہیں، کیوں کہ اس خطے میں جمہوری اور پُر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور اپنی بات بیان کرنے کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر لیڈر کو بھی عوام تک پہنچنے کے لیے درگاہ حضرت بل کا سہارا لینا پڑا۔  کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں، یہ مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں‘‘، مگر وزیر صاحب نے یہ گزارش سنی اَن سنی کرتے ہوئے اپنی ہوش ربا تحقیق پر مبنی بریفنگ جاری رکھی۔ ان کا واحد مقصد یہی تھا کہ ہر محاذ پر ناکامی کے بعد بھارتی حکومت کشمیر میں ’وہابیت‘ کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی کا حصہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیاکہ:’’اگر’ وہابیت‘ اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر ۲۰۰۳ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصۂ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کے لیے بھارتی ایجنسیاں دارالعلوم دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں مہمان نوازی کرتی آئی ہیں۔ ان میں اب ایک نیا نام آسٹریلیا میں مقیم ایک خود ساختہ شیعہ عالم کا ہے، جنھوں نے حال ہی میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ایک نوجوان کو گاڑی سے کچلنے کی حمایت کی۔دہلی میں تو ایک اُردو اخبار کے مدیر نے بھی اس کا بیڑا اٹھارکھا ہے۔ چوں کہ تصور یہ ہے کہ جماعت اسلامی، کشمیر میں جاری تحریک کوکیڈر اور لیڈر شپ فراہم کرتی ہے، لہٰذا اس کا توڑ کرنے کے لیے اس کے مخالف علما کو استعمال کیا جائے‘‘۔

مزید عرض گزار ہوا: ’’ تھوڑی سی تحقیق ہی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروںکی نقل مکانی اور دیگر لیڈروں کی اجتماعی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی واحد ریاست گیر سیاسی جماعت میدان میں موجود تھی، جس نے خاصی چھان پھٹک کے بعد   عسکری تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے پیش رفت کی تھی، جس کا خمیازہ بعد میں ان کو ۶۰۰سے زیادہ ارکانِ جماعت کے قتل کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ کشمیرکی سبھی دینی و سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں بھر پور شرکت کی، جن میں جمعیت اہلحدیث، بریلوی مکتب کی کاروان اسلام، امت اسلامی، شیعہ تنظیمیں، مقامی فکرکی نمایندگی کرنے والی انجمن تبلیغ الاسلام، سیکولر تنظیموں، جیسے لبریشن فرنٹ اور پیپلزکانفرنس سمیت سب نے بھر پور حصہ لیا۔ حتیٰ کہ جو لوگ انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس، نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں کھڑ ے نظر آتے ہیں، وہ بھی ایجی ٹیشن میں پیش پیش رہتے ہیں‘‘۔میں نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ: ’’شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے ،وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکے لیے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے   جذبۂ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبۂ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے‘‘۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے مزید عرض کیا کہ: ’’ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونی ورسٹی میں ہندو قوم پرست آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جب کہ ۳۰۰کلومیٹر دُور کشمیر یونی ورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمے پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونی ورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلوما کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اس کی بساط لپیٹ دی گئی، کیوں کہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیریئر یا روزگار کی کمی ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ: ’’محترم منسٹرصاحب! متبادل جمہوری ذرائع کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے پانچ سو برسوں کی تاریخ ہے‘‘۔

وزیر صاحب نے جواب میں بتایا کہ: ’’حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں‘‘۔ دوسری طرف ان کو یہ غصّہ بھی تھا کہ: ’’حُریت کانفرنس نے کُل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا ہے، جس کا انھیں حساب دینا پڑے گا‘‘۔ میں نے سوال کیا کہ: ’’اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ وزیر موصوف کے بقول: ’’کشمیر کا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں ’وہابیت‘ وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیوں کہ موجودہ تحریک کی قیادت یہی نظریہ کر رہا ہے‘‘۔

کئی گھنٹوں پر پھیلی یہ بریفنگ جب ختم ہوئی تو دوبارہ بتایا گیا کہ: ’’یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ مگر اگلے دن صبح اُٹھے تو دیکھا کہ بھارت کے دوکثیر الاشاعت اخباروں ٹائمز آف انڈیا اور ہندستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے اس نشست کی معلومات شہ سرخی کے طور پر شائع ہوگئی تھیں اور پھر کئی ماہ تک ٹی وی چینلوں کے لیے کشمیر پر یہ رپورٹ بحث کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو رات دیرسے ہدایت دی گئی تھی کہ: ’’ان وزیر صاحب کی بریفنگ کی رپورٹنگ چھپنی چاہیے‘‘۔ جس سے ایک طرف تو اس بریفنگ کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا، مگر دوسرا مقصد یہ سمجھ میں آیا ،چوںکہ پاکستان دنیا بھر میں سفارتی مشن بھیج رہا ہے، تو اس کے بیانیے کو اس رپورٹ کے ذریعے سے سبوتاژ کیا جائے۔ اور یہ دیکھنے میں آیا کہ جہاں بھی پاکستانی مشن گئے وہاں ان کو کشمیر اور مبینہ طور پر اس کے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کی مناسبت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس نشست میں میری بے جا مداخلت اور سوال اُٹھانے کی گستاخی سے وزیر موصوف اتنے ناراض ہوئے کہ مجھے صحافت سے ہی چلتا کرنے کی انھوں نے کوشش کی۔

خیر، ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے نئی دہلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی تحقیقی رپورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ: ’’تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اور نہ یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی ایسے نظریے سے وابستہ ہے‘‘۔ پچھلے سال ایک ملاقات میں جموں و کشمیر کے ایک سینئر پولیس افسر ، جو اس وقت جنوبی کشمیر میں تعینات تھے اور بھارتی فوج کے ایک کمانڈر نے بھی کچھ اسی طرح کا تجزیہ پیش کیا تھا۔  وہ بھارتی میڈیا کی اس روش سے خاصے نالا ں تھے، جس میں وہ بار بار کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کے عنصر کو زبردستی اُچھال کر حالات کو شام، عراق و افغانستان سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔    یہ جان بوجھ کر مزید ظلم و ستم کے لیے راہ ہموار کرنے اور عالمی برادری کو خوف زدہ کرنے کا حربہ  قرار دیتے تھے۔ انھی پولیس افسر صاحب کے بقول: ’’ایک انگریزی میڈیا چینل کے ایک رپورٹر نے درزی سے آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا سلوا کر سرینگر کے پرانے شہر کے ایک کمرے میں چند نقاب پوش نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھمایا ، اور اس کی عکس بندی کی تھی۔اس ویڈیو کی بنیادپر اس چینل نے کئی روز تک پروگرام چلائے۔پولیس نے اس درزی کی نشان دہی پر جب مذکورہ رپورٹر کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی، تو نئی دہلی سے پیام آیا کہ معاملے کو دبا دیا جائے۔

اُوپر جن تحقیقی رپورٹوں کا ذکر ہوا ہے، ان کے مطابق برہان وانی کی شہادت کے بعد جن ۲۶۵نوجوانوں نے اس عرصے میں عسکریت سے وابستگی اختیار کی، ان میں محض ۲ فی صد کسی نہ کسی صورت میں مدرسوں یا کسی نظریے سے وابستہ تھے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عام طور پر کھاتے پیتے مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی اور سیاسی طور پر خاصے باشعور تھے۔ ۶۴فی صد کا کسی بھی شدت پسند نظریے سے تو دُور کاواسطہ نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر خاصے لبر ل خیالات کے قائل تھے۔ ان میں سے ۴۷فی صدعسکریت پسندوں کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا، جہاں ان کی رہایش گاہ کے ۱۰ کلومیٹر کے دائرے میں یا تو کوئی تصادم (انکاونٹر) ہوا تھا یا سکیورٹی فورسز نے سول آبادی پر شدید زیادتیاں کی تھیں۔

امریکی اور برطانوی تحقیق کاروں: گریگوری واٹرز اور رابرٹ پوسٹنگز کی اس زیربحث تحقیق The Spiders of the Caliphate (مئی ۲۰۱۸ء)کے مطابق: ’’عالمی دہشت گر د تنظیموں کے مطالعے سے پتا چلتاہے کسی فرد کی اس طرح کی تنظیم میں وابستگی سے قبل نفسیاتی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ دنیا اور اہل خانہ سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے، مگر اس طرح کا کوئی نفسیاتی رجحان کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ عسکریت میں شامل ہونے کے بعد بھی یہ نوجوان اپنے دوستوں  اور اہل خانہ سے معمول کے روابط میں متحرک نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ان میں سوسائٹی سے ایسی بے زاری دیکھنے کو نہیں ملی، جو القاعدہ وغیرہ کے ارکان میں عام رجحان ہے‘‘۔

مذکورہ بالا رپورٹ اور جموں و کشمیر پولیس کی تحقیق کا ماحاصل یہی ہے کہ نئی دہلی کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ کشمیر سیاسی مسئلے کے ساتھ ساتھ غصب شدہ انسانی حقوق کی بازیابی کا معاملہ بھی ہے۔ امن اور قانون کے نام پر اور تحریک کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے وقتی فائدہ تواٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیںہوسکتا۔ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ تمام تر ہلاکت خیز اسلحے کے انباروں ، سات لاکھ افواج کی تعیناتی، مظالم ومصائب کی گھٹائوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود مسئلۂ کشمیر ایک زندہ وجاوید حقیقت ہے اور اس کے منصفانہ حل سے ہی برعظیم پاک و ہند کی ہمہ گیر تعمیر و ترقی ، امن و سکون اور خوش گوار ہمسائیگی مشروط ہے۔

رمضان المبارک کے مقدس ایام گزر جانے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے سیاسی ایوانوں میں اتھل پتھل اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ۱۹ جون کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور اُمورکشمیر کے انچارج رام مادھو نے دہلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ اُن کی جماعت، یعنی بی جے پی جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کے اس مشرق و مغرب کے غیرفطری اتحاد کا عبرت ناک خاتمہ ہوا۔ نسل پرستی ایک زہر ہے، اور نسل پرستی کے علَم برداروں کی حیثیت اُس زہریلے سانپ جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے ۲۰۱۴ء میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا، لیکن جب حکومت تشکیل دینے کی باری آئی، تو عوامی توقعات کے برعکس ایک ایسی جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جن کے ہاتھوں بھارت میں سیکڑوں فسادات کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا ہے۔ جنھوں نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔

حکومت سے الگ ہونے سے چند روز قبل بی جے پی نے نام نہاد سیز فائر ختم کرکے کشمیری عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا از سر نو آغاز کیا۔ عید الفطر سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی، جس میں کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی فوج کی زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد  معروف کشمیری صحافی ودانش وَرڈاکٹر شجاعت بخاری کا نامعلوم افراد کے ذریعے سے قتل کروایا گیا، جس سے یو این رپورٹ بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر۱۵؍جون کو اپنے ہی نام نہاد سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پلوامہ میں ایک کمسن اور نہتے ۱۳ سال کے طالب علم وقاص احمد کو گولی مار کرشہید کردیاگیا۔ عید کے دن برکہ پورہ، اسلام آباد میں نماز عید ادا کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ کرکے ایک نوجوان شیراز احمد کو شہید کردیا گیا، جب کہ ۳۰ دیگر نوجوانوں کو بُری طرح زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں ۹؍ایسے نوجوان بھی شامل تھے، جن کو پیلٹ گن کے چھرّوں کا نشانہ بناکر بینائی سے ہی محروم کردیا گیا۔۱۸جون کو پھر سے ضلع کولگام کے نواؤ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دوبچوں کے باپ ۲۸سال کی عمر کے اعجاز احمد بٹ کو جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔جس نام نہاد سیز فائز کا بڑے پیمانے پر ڈھول پیٹا گیا، اُس دوران کیرن سیکٹر سے لے کر کولگام تک ۱۵لوگوں کی جان لے لی گئی۔

تقدس مآب رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو سری نگر کی مرکزی وتاریخی جامع مسجد نوہٹہ میں پولیس اور فورسز اہل کاروں نے مسجد کے اندر نہ صرف آنسوآورگیس کی شیلنگ کی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں کئی نمازی زخمی ہوگئے اور مسجد کے اندر افراتفری مچ گئی۔ مسجد کے اندر جہاں ربّ کے حضور سر جھکائے جاتے ہیں، وہاں سربسجود بندوںکا خون بکھیر دیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں، وہاں پر بھی شیلنگ کی گئی۔پھر کئی دن تک مسجد کو نمازاور نمازیوں کے لیے بند کرنا پڑا، تاکہ اندر انسانی خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے۔جو نوجوان رضاکارانہ طور پر مسجد کی صفائی میں  پیش پیش تھے، اُن میں ایک۲۲سالہ قیصر احمد بھی تھے، جنھیں ایک ہفتے بعد، یعنی اگلے ہی جمعہ، یکم جون کو سی آر پی ایف کی ایک تیز رفتار جیپ نے ایک اور نوجوان کے ساتھ کچل ڈالا۔اُنھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چند ہی گھنٹوں بعد وہ حیا تِ جاودانی کا جام پی گئے۔

یہ دلدوزسانحہ اْس وقت پیش آیا جب نماز جمعہ کے بعد نوجوان نوہٹہ میں جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے تھے۔ سری نگر کے محلہ فتح کدل کے قیصر احمد کا المیہ یہ تھا کہ اُن کے والدین پہلے ہی اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے تھے۔ وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ نانیہال ڈلگیٹ میں رہتے تھے۔ ان دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی اور واحد سہارے کو بڑی بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا۔ یوں ا ن کوتاہ نصیبوں کو دیگر ہزاروں کشمیری بچوں اور بیٹیوں کی طرح حالات کے رحم وکرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، اُنھیں دیکھنے سے ہی چنگیزیت اور درندگی کا گھنائونا اور ’جدید رُوپ‘ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔  المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انجام دینے والی ان حیوانی حرکات کے لیے بھی طرح طرح کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ انھیں سنگ بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے یا پھر سڑک حادثہ کہہ کر ان المناک اور  غم انگیز وارداتوں کو تاریخ کی بھولی بسری یادیں بنادیا جاتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ صفاکدل میں مئی کے مہینے میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے عادل احمد نامی جس نوجوان کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا تھا، اُس کے بارے میں ریاستی حکام نے پہلے کہا کہ وہ  سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، لیکن جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے فورسز اہل کاروںکی اس سفاکیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی تو انتظامیہ نے ملوث فورسز اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے اس سانحے کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کو ہی گرفتار کرکے جیل میں  بند کردیا۔اسی طرح جامع مسجد میں قیصر احمد کو کچل دینے والے سی آر پی ایف ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے مقتول قیصر اور اُن کے ساتھ دیگر دو نوجوانوں کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

سری نگر کی یہ تاریخی جامع مسجد، کشمیری قوم کی روحانی توانائی اور سیاسی بیداری کے لیے  بڑی ہی اہمیت کا حامل مرکز ہے۔ یہ مسجد اپنی مرکزیت کے پہلو بہ پہلو عام کشمیریو ں کی اس کے ساتھ دلی وابستگی ہر دور میں ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں اس کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے برتے گئے، لیکن کشمیری عوام کا تاریخی جامع مسجد سے والہانہ لگاؤ اور وابستگی قائم و دائم رہی ہے۔ ۲۰۰۸ءہی سے وقت کے حکمرانوں نے بالکل مسجد اقصیٰ کے طرز پر اس مرکزی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جن میں جمعہ کے موقعے پر مسجد کے اردگرد فورسز کے سخت حصار اور مسلح اہل کاروں کی تعیناتی کے علاوہ نماز کے بعد نوجوانوں کو اشتعال دلا کر اُنھیں سنگ بازی کے لیے مجبور کرنا، اور پھر اس کی آڑ میں نمازِجمعہ کے مواقع پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کرنا قابل ذکر ہے۔ ۲۰۰۸ءسے درجنوں مرتبہ اس تاریخی اہمیت کی حامل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، ان کی اسلام دشمنی اُنھیں ہر آن فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ رکھتی ہے، لیکن عالم اسلام کے اس بدترین دشمن نے کبھی مسجداقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد نہیں کی۔ جن کے زیر تسلط مسجد اقصیٰ ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے بجاے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو تالا بند کرنے والے لوگوں کی پہلی صف میں وہ ہند نواز ریاستی سابق حکمران شامل رہےہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرنے والے مقامی پولیس اہل کار بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔احتجاج کے دوران جان بوجھ کر وردی پوشوں کا جامع مسجد کے چپے چپے پر موجود رہنا اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے سے قبل ہی شیلنگ اور طاقت کا بے تحاشا استعمال بہرحال احتجاجی نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرکے اُنھیں سنگ بازی پر مجبور کرتا ہے ، اور بے گناہ و معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے۔کشمیر میں یہ بھارت کی مستقل پالیسی بنتی جارہی ہے کہ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طاقت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر اُسی کی آڑ میں بندوقوں کے دہانے کھول کر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے۔

 تصویر کا یہ رُخ بھی قابلِ غور ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بڑے ہی طمطراق سے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، آل پارٹیز میٹنگ طلب کرکے یہ اعلان کرتی ہیں کہ ایک وفد وزیراعظم نریندر مودی کی خدمت میں جائے گا اور اُنھیں رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر خیرسگالی کے طور پر سیز فائر کرنے کی استدعا کرے گا۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ اس تجویز کی مخالفت کرتی ہے،کہ بعد میں یہ اُن کی سیاسی حلیف مجبوبہ مفتی کا سیاسی کارنامہ ثابت ہوجائے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ وزیراعلیٰ نے لڑکر کشمیری عوام کے لیے حکومت ہند کو سیز فائر کے لیے قائل کیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ نے رمضان اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ ریاستی سرکار میں شامل لوگوں نے اس پر ایسے خوشی کااظہار کیا کہ جیسے اُنھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔حالانکہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اِسے ’سیز فائر‘ کے بجاے’ حملہ بندی‘ قرار دیتے ہیں، کیوں کہ بھارتی فورسز اہل کار اور حکمران ہمیشہ اس قوم کے خلاف حالت جنگ میں تھے۔ یہ افواج سیز فائر کے دوران بھی حالت ِ جنگ میں رہیں اور آج بھی ہیں۔

ایسا نام نہاد سیز فائرکشمیریوں پر کسی احسان کے بجاے ریاست کی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ دہلی کی خوشنودی کے لیے اس ماہ شروع ہونے والی ’امرناتھ یاترا‘ کو پُرامن طریقے سے انجام تک پہنچائیں۔ یہ یاترا گذشتہ کئی برس سے ’مذہبی رسم‘کے بجاے ’سیاسی مہم‘ میں تبدیل ہوچکی ہے،جب کہ کشمیری عوام ’یاتر ا‘ اور یاتریوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی اور مہمان نوازی کے جذبے سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’یاترا‘ کی سیاسی مہم کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر جنگی پیمانے پرکام کیا جاتا ہے۔ریاستی بجٹ کی ایک کثیر رقم ’یاترا‘ کے انتظامات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی ہے۔ نام نہادجنگ بندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ جنوبی کشمیر کے پُرامن رہنے سے ہی یاتریوں کا آنا جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے بستیوں پر فوجی آپریشنوں کے ذریعے کی جانے والی یلغار کو فی الحال محدود پیمانے پرروک دیا گیا، تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ہر آن کھڑا ہوجانے والے جنوبی کشمیر کے عوام کو کچھ وقت تک کے لیے خاموش رکھا جاسکے، لیکن اب نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے ’سیز فائر‘ ختم کردیا اور ’امرناتھ یاترا‘ کی حفاظت کے لیے این ایس جی کے اسپیشل کمانڈوز کو طلب کیا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اہلِ کشمیر یاتریوں کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اُنھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے ہیں۔ دراصل ’امرناتھ یاترا‘ کی آڑ میں کوئی بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے، تاکہ بھارت میں ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔

بھارتی فورسز کی ’حملہ بندی‘ سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ عارضی طور پر رُک سا گیا، لیکن ظلم و زیادتیوں اور دیگر جنگی حربوںکوزمینی سطح پر بدستور استعمال میں لایا جاتارہا ہے۔یہ کہاں کی جنگ بندی ہوئی کہ جس میںرات کے دوران چھاپے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، دُور دراز کے علاقوں میں فوجی ناکوں پر عوام کی جامہ تلاشی اور ہراسگی جاری ہیں؟اور کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے کچل دیا جائے؟

حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہوتی تو پھر شوپیان کے دیہات میں فوج کی افطار پارٹی سے انکار کرنے پر عوام پر گولیاں نہ برسائی جاتیں اور چار معصوم بچیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب نہ کیا جاتا۔ جنگ بندی ہوتی تو عسکریت پسندوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی، اُن کے گھروں کی توڑ پھوڑ نہ کی جاتی، جیسا کہ شوپیان کے ایک گھر اور اْس کے پڑوس میں موجود دیگر درجنوں گھروں میں کیا گیا ہے۔ گھر کے ساز و سامان کو تہس نہس کرنا، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرنا، پیسے اور لیپ ٹاپ لوٹ کر لے جانا اور کھانے پینے کی اشیا کو ضائع کر نے یا ناقابلِ استعمال بنانے کی حرکتیں استعماریت اور رذالت کی بدترین شکلیں ہیں۔ پھر ٹھیک اُس وقت جب کشمیری لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، جنوبی کشمیر میں تین بے گناہ نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں شہادت کا جام نہ پلایا جاتا۔

یہ کہاں کی جنگ بندی تھی کہ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا جائے، میوہ باغات میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی جائیں کہ جس کی مثال موجودہ دور کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔فوجی او رنیم فوجی دستوں کے سامنے ریاستی حکومت کی بے بسی کس حد تک ہے اس کا اندازہ ڈپٹی کمشنر شوپیان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو انھوں نے گھروں کی توڑ پھوڑ اور میوہ باغات میں درختوں کو کاٹنے کے واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’فوج خصوصی اختیارات کی وجہ سے حدود پھلانگ رہی ہے۔ ہم نے اُنھیں بار بار کہا ہے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے کیمپوں سے باہر نہ آئیں، لیکن وہ سول انتظامیہ کے حکم ناموں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ہم اُن کی حرکتوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘… گویا بھارتی فوج کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے اس حد تک بدمست بنادیا کہ وہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کے بھی کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک جا کر من مانیاں کررہے ہیں۔

کشمیر میں بھارتی جنگ بندی ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ والی بات تھی۔ دنیا کو چکمہ دیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ افہام وتفہیم چاہتے ہیں اور اسی لیے نام نہاد  جنگ بندی کی خوب تشہیر کی گئی اور دہلی سرکار کے مقامی تنخواہ خوار دن رات ان کے گن گاتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر عوام کے خلاف وہ تمام کارروائیاں ہورہی ہیں، جنھوں نے عام کشمیری کا جینا حرام کررکھا ہے۔ریاست عملاً ایک پولیس وفوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اگر بندوقوں کے دہانے دنیا کو دکھانے کے لیے عارضی طورپر تھوڑے وقت کے لیے بند کیے، تو دوسری جانب گاڑیوں کے نیچے معصوم کشمیری بچوں کو کچل کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔

اب،جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے نئی دہلی نے حالات پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرلیا ہے، تمام اختیارات فوج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، بھارت بھر سے بدنامِ زمانہ پولیس افسران کو گورنر کے مشیروں کے طور پر تعینات کیا جارہا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں کسی بڑے خونیں کھیل کو کھیلنے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کا   جموں وکشمیر میں حکومت سے علاحدگی اختیار کرنے سے جواہم مقصد حاصل کرنا مقصودہے وہ یہ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے اور یہاں نسل کشی کرنے کے لیے وہ گورنر کے ذریعے سے براہِ راست معاملات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ سے وابستہ لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں، جن میں حق خود ارادیت کے حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔بھارتی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے امکان کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اُن کے مطابق دونوں جماعتیں  بی جے پی اور پی ڈی پی کشمیر کو آگ میں جھونک کر راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔اس سلسلے میں گجرات کے سابق آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کے اس ٹویٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ۲۰۱۸ء کی ’امرناتھ یاترا‘ ۲۰۰۲ء کی طرح کہیں دوسرا گودھرا نہ بن جائے‘‘… 

یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے یہاں کوئی ایسا ڈراما رچایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے بھارت بھر میں فسادات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۲۱؍ جون کو بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول نے دومرتبہ بی جے پی چیف اُمت شاہ سے دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دونوں کی ملاقات کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں فوجی اور عسکری طاقت کے استعمال کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جانے کا خاصا امکان پایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تحریک حُریت کے قائدین کو پہلے ہی سے عوام کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنے نمایندوں کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ کشمیری عوام کے خلاف پردے کے پیچھے تیار ہونے والی سازشوں کا نہ صرف توڑ کیا جاسکے بلکہ اُنھیں ناکام بناکر انسانی جانوں کو بھی بچایا جاسکے۔

کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے لیے لازم ہے کہ ناانصافیوں اور زیادتیوں پر خاموش نہ رہے  بلکہ ظلم و جبر کے اس آوارہ ہاتھی کی پیش قدمی روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ اہلِ کشمیر کا ظلم سہہ لینا اور ظلم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں پر صبر کرلینا ، ظالم کے لیے طاقت ور ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ وہ کشمیری قوم کے صبر کو اُن کی کمزوری سے تعبیر کرکے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یوں کشمیری نوجوان نسل کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مہذب دنیا حالات بد سے بدتر ہوجانے سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئے۔

بالخصوص پاکستان کو اپنے درون خانہ سیاسی اتھل پتھل سے باہر نکل کر بحیثیت قوم کشمیر کاز کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسئلے کا فریقِ اوّل ہے اور فریق ہونے کی حیثیت پاکستان، کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور تشدد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ پاکستانی عوام کشمیریوں سے آنکھیں موند سکتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بے شک پاکستانی دفاتر پر لہراتا ہوگا، لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کشمیری قوم اپنا گرم لہوپیش کررہی ہے ۔

 کشمیری عوام کی اجتماعی تعذیب کے بد ترین مظاہروں کے باوجود قانونِ قدرت کے عین مطابق وہ وقت دُور نہیں ہے، جب یہ قوم ان تمام مصائب سے نجات حاصل کرلے گی کیوں کہ    اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، مگر اس کے لیے بنیادی اور ناقابل التوا شرط یہی ہے کہ اللہ سے رجوع کیا جائے اور حق کے لیے چٹان بن کر کھڑا ہوا جائے۔

غزہ میں ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی مظلوموں کے قتلِ عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایونیکا کی قیادت میں غاصب صہیونیوں نے یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی رسم ادا کی۔

درندگی کی بھی ایک تاریخ ہے:۲۹دسمبر ۱۸۹۰ء کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مقامی   سرخ ہندی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا ’لکوٹا میں  قتلِ عام‘ ، ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فوجیوں کے زیراقتدار قتلِ عام، پھر ۱۶مارچ ۱۹۶۸ء کو ویت نام میں امریکی   حملہ آوروں کے ہاتھوں مائی لائی کے مقام پر مظلوم ویت نامی باشندوں کے قتلِ عام کی مثالوں کے ساتھ آیندہ ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کی اس وحشت ناکی کو بھی یاد رکھا جائے گا۔

اس دن کے اختتام پر غزہ میں وزارتِ صحت نے رپورٹ پیش کی کہ اسرائیلی فوج نے ۶۰فلسطینیوں کو قتل اور ۲۷۷۱ کو زخمی کیا، اور یہ سب ۲۴گھنٹوں سے کم عرصے میں کیا گیا۔ اسرائیلی ماہر نشانہ باز فوجیوں نے اپنے افسران کی براہِ راست کمان کے تحت اس وحشت کا ارتکاب کیا، جنھیں اسرائیلی وزیردفاع ایوگڈرلبرمین اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ وہی نیتن یاہو جسے انسانوں سے نہیں، آبادکار اور غاصب یہودیوں سے دل چسپی ہے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنی تفصیلی رپورٹ ’غیرمسلح فلسطینیوں کا غزہ میں قتلِ عام‘ میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر اور بے دریغ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی بے صبر ہوگئے کہ وہ نہتے مظاہرین، جو اپنےہی علاقے میں احتجاج کر رہے تھے، یہ ان نہتوں پر حملہ آور ہوکر انھیں سبق سکھانے پر تل گئے؟ ان فوجیوں کے نزدیک نیتن یاہو، اسرائیل ہے اور اسرائیل نیتن یاہو۔  نیتن یاہو اور جبری طور پر یہودی آبادکار ہی سامراجیت کے پردے میں زندگی کا حق رکھتے ہیں، اور یہاں سیکڑوں برسوں سے آباد فلسطینیوں کا مقدر تباہی ہے۔ وہ تباہی جسے ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کے روز سے آج تک روا رکھا جا رہا ہے۔

فلسطینی مظاہرین، جو غزہ میں اپنی ہی بستی میں مظاہرہ کر رہے تھے، اسرائیلیوں نے آتشیں اسلحے، آنسو گیس اور آگ لگانے والے بموں سے ان مظاہرین پر بے دریغ حملہ کر دیا   جس سے ۶۰فلسطینی موقع پر شہید ہوگئے اور ۲۷۰۰ سے زائد زخمی ہوگئے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو ۱۳۰۰ فلسطینی براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنے۔ اس قتل و غارت کا نشانہ بنانے والا کچھ اسلحہ یقینی طور پر امریکی ساختہ تھا۔ جب امریکی صدر بارک اوباما کی سوانح عمری میں درج ہے کہ: ’’ہم نے ۳۸؍ارب ڈالر اسرائیل کو فوجی معاونت کے لیے دیے ہیں‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امریکا نے اسرائیلی فوج کو یہ اجازت نامہ عطا کیا ہے کہ وہ نہتے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنائیں۔

۳۰مارچ سے ۱۶مئی ۲۰۱۸ءکے درمیان اسرائیلی فوجیوں نے خون سرد کردینے والی  بے رحمی سے ۱۱۰ سے زیادہ فلسطینی قتل کیے، جن میں ۱۲ بچے تھے اور دو صحافی،پھر علاج معالجے میں متحرک ایک ڈاکٹر بھی تھا کہ جسے موت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے میں مظاہرہ کرنے والے ۱۲۷۰۰ فلسطینی زخمی اور شدید مجروح کیے گئے۔ان زخمیوں کو طبّی امداد کی شدید ضرورت تھی، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث بنیادی ادویات اور جراحی کی سہولیات تاحال ناپید ہیں۔

اسرائیلیوں کی جانب سے پُرامن مظاہرین کے اس قتل عام کے جرم میں نیتن یاہو اور ہراسرائیلی لیڈر، جنگی ملزم کے طور پر عالمِ انسانیت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک، منتخب ہونے والا ہر امریکی صدر، چاہے وہ مقبولِ عام ہے یا سخت ترین نفرت کا نشانہ، زندہ ہے یا مُردہ، یقینی طور پر وہ بھی اسرائیلی جارحیت، ظلم اور انسانیت سوز جرائم کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سب کے سب، عشروں پر پھیلے درندگی کے اس کھیل کی مناسبت سے جنگی جرائم کی پاداش میں عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔

پھر دُنیا بھر کے ممالک کے سفیروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے مقابلے میں امریکی نمایندے نکی ہیلی کا اسرائیل نواز رویہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ مغربی میڈیا کے وسیع منظرنامے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ طور پر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، بُرا بھلا کہنے، بلکہ گالیاں تک دینے کی روایت برقرار ہے، جب کہ غاصب یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسی کارروائیوں کو درست، قانونی اور ناگزیر قرار دینے کا رویہ، ہر ذی شعور کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ پھر فلسطینیوں کی لاشوں پر گانے اور ناچنے والے اسرائیلیوں کے لیے تو یہ سب رنگ و نشاط کا بہانہ ہے۔

ہم یاد رکھیں گے!

فلسطین کی قیادت جو ’حماس‘ اور ’الفتح‘ تنظیموں کی ستّرسالہ جدوجہد کا ثمر ہے، اس قیادت نے سات عشروں پر پھیلی شجاعت، ذہانت، والہانہ جذبوں سے سرشار اپنی اس جدوجہد میں لمحے بھر کے لیے شک، تھڑدلی اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ارضِ فلسطین کو غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کے اس مرحلے کو’واپسی کا عظیم سفر‘ کا نام دیا۔ حُریت کی اس لہر اور جوش کے دور میں صہیونیت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک عرب شہزادے نے فلسطینی سرفروشوں سے کہا: ’خاموش رہو‘ ، مگر انھوں نے اپنی جدوجہد سے اس مشورے کو مسترد کرنے کا پیغام دیا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل اور اسرائیل کے پرچم کا مطلب کوئی ریاست یا ریاست کی علامت نہیں ہے، بلکہ ان کا مطلب ہے: مظلوم انسانوں کے لہو سے رنگی وحشت انگیزی، قتلِ عام، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ، بسنے والوں کی ظالمانہ بے دخلی، اور جنگی جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اسی لیے تمام فلسطینی مظاہرین اپنے مادرِ وطن کی واپسی، زندگی کی بحالی اور اختیار چاہتے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوجی جواب میں بے دریغ گولیوں کی بوچھاڑ کرتے اور وحشیانہ انداز سے انھیں کچلتے ہیں۔

۳۰مارچ ۲۰۱۸ء سے فلسطینیوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پُرامن سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، تو اسرائیل اور اس کے عالمی سیاسی سرپرستوں اور مغربی مددگاروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد کو سننے اور سمجھنے کے بجاے، اس پوری تحریک ہی کو بے وقار اور بدنام کرنا شروع کر دیا۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریوں میں نفرت انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ان مؤثر اخبارات کے صفحے  مغربی حکومتوں کے شدید مخالفانہ بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں لبرل اور ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے سیاسی رہنما برنی سینڈرز تک نے اہلِ فلسطین کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔مراد یہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں اخلاقی اور انسانی قدریں موت کا شکار ہیں۔ یعنی برنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر ہیلری کلنٹن تک ایک ہی جیسے خیالات کے حامل ہیں کہ: ’’فلسطینیوں کے لیے موت اور صہیونیوں کے لیے شادمانی کے ہم طرف دار ہیں‘‘۔

فلسطینیوں کے خلاف نفرت، بدنہادی اور بدخواہی پر مبنی ان تمام امریکی اور مغربی کوششوں کے باوجود، اہلِ فلسطین کے موقف کی سچائی روشن اور سربلند ہے۔ ان کی انقلابی جدوجہد نے مہذب انسانوں اور دُنیا کے تمام ملکوں کو احترامِ آدمیت،بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور سامراجیت کے خلاف بے زاری و نفرت کا پیغام دیا ہے، اور یہ یاد دلایا ہے کہ مادرِ وطن کی آزادی اور خود اختیاری ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔

فلسطینیوں کے ۳۰مارچ ۲۰۱۸ء کی تحریک جیسے غیرمعمولی بہادرانہ اور جرأت آمیز سیاسی اقدام نے، اسرائیلیوں کے غیرانسانی، غیرقانونی ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی جبر کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کے قتلِ عام نے یہ سوال پیش کیا ہے کہ، دنیا بھر کے انسانو!یاد رکھو!  شرفِ انسانیت، غزہ کے مظلوموں کی قسمت میں لکھا ہے۔ دُنیا کے ہرفرد کے سامنے یہی سوال ہے کہ تم اگر انسان ہو، اور تم اگر ضمیر رکھتے ہو، تو تم لازمی طور پر فلسطینیوں کے ہم قدم اور طرف دار ہو۔ اگر تم ضمیر سے محروم اور انسانیت سے تہی دامن ہو تو تم دوسری جانب درندگی کے ساتھ کھڑے ہو۔

۱۴مئی کے قتل عام کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ جیسے سوال کا جواب ہے: ’سب کچھ کرنا چاہیے‘۔ اس خون آلود دن کو فلسطینیوں نے ایک نہایت قیمتی سبق سکھایا ہے اور وہ ہے: ’مقابلے اور وقار کی طاقت‘۔ اس غیرمعمولی انقلابی تحریک کے ایک مربوط اور پُرامن عمل نے بتا دیا ہے کہ: اندھی،  بہری قوت کے رکھوالو! فلسطینی کہیں نہیں جارہے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور وہی اپنی تقدیر اور اختیار کے مالک ہیں۔ نہ وہ کسی بددیانت قیادت کو قبول کریںگے اور نہ غاصب صہیونیت کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے۔

۱۴مئی کو فلسطینی حُریت پسندوں نے انسانیت کا وہ سبق یادداشت میں تازہ کر دیا، جسے  ہم نے زمانہ طالب علمی میں ولیم ارنسٹ ہینلی (م: ۱۹۰۳ء) کی سدابہار نظم Invictus (شکست ِناپذیر) میں پڑھا تھا:

اس رات، جس نے مجھے ڈھانپ رکھا ہے

اُفق تا اُفق پھیلی اندھی گہری تاریک سرنگ میں،

میں دیوتائوں کا شکرگزار ہوں، وہ جیسے بھی ہوں،

میری روح ناقابلِ تسخیر ہے۔

حالات کی بے رحم گرفت

اور درد و کرب کی ناقابلِ برداشت شدت کے باوجود

نہ میں جھرجھرایا ہوں، نہ میرے ہونٹوں سے کوئی آہ بلند ہوئی ہے

اتفاقات و حوادث کے عصا کی بھاری ضربوں سے

میرا زخموں سے چُور اور لہولہان سر

ہرگز جھکنے کو تیار نہیں

غیظ و غضب کی تپش اور آنسوئوں کی برکھا سے پرے

زندگی یا موت کی سرحدوں کے پار، خو ف کے سایے منڈلا رہے ہیں

برسوں پر محیط موج دَر موج خطرات نے

مجھے بے خوف پایا ہے، اور بے خوف ہی پائیں گے!

وہ ناترسیدہ اور ناکام ہی رہیں گے۔

یہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کہ زندگی کا دروازہ کتنا سیدھا ہے

نہ یہ کوئی اہم ہے کہ زندگی کا طومار کتنی سزائوں سے بھرا پڑا ہے

تف، الزام و اتہام کی فردِ جرم پر،میری بلاسے!

میں اپنی قسمت کا خود مالک ہوں!

میں خود اپنی روح کا سالار ہوں!

[الجزیرہ، ٹیلی ویژن چینل،ویب،۲۲مئی ۲۰۱۸ء، انگریزی سے ترجمہ: س   م     خ ]

 

زخمیوں اور مقتولین پر گولیوں کے نشانے

۲مئی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں چند دن پہلے ہونے والی انڈین فورسز کی زیادتیوں کے خلاف ایک بے قابوہجوم نے مبینہ طور راہ چلتی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس کی زد میں ایک اسکول کی بس بھی آگئی، اور بس میں سوار چند معصوم طالب علم زخمی ہوئے۔ اس سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو قوم مسلسل غیروں کے نشانے پرہو، جس پر سرکاری فورسز کی زیادتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تین عشروں سے جاری ہو، اُسی قوم کے نونہال یا عام شہری اگر اپنوں کی غلطیوں کا بھی  شکار ہوجائیں تواس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟اس افسوس ناک واقعے کی خبر ابھی سوشل میڈیا پر آہی رہی تھی کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے حسب عادت مذمتی ٹوئیٹ میں کہا: ’’انھیں یہ جان کر بہت دْکھ اور تکلیف پہنچی اور غصہ آیا کہ شوپیاں میں ایک اسکول بس پر حملہ کیا گیا۔ اس پاگل پن اور بزدلانہ کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔

سوشل میڈیا بالخصوص Twitter پرسرگرم رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھلا کیسے چپ رہتے۔ انھوں نے بھی پے در پے اس واردات پر بہت سے مذمتی ٹوئیٹ کرکے خوب خبریں گھڑیں۔ ایک ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھا :’’ اسکول کے بچوں اور سیاحوں کی بسوں پر پتھراؤ   کرنے والوں کے ایجنڈے کو آگے لے جانے میں کیسے مدد ملے گی؟ یہ حملے سخت قابل مذمت ہیں‘‘۔ ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے سنگ بازی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے حق میں پولیس کیس واپس لینے کی وکالت کرنے والوں تک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ریاست جموں و کشمیر کی دوبڑی ہندنواز جماعتوں کے سربراہوں، یعنی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے مذمتی بیانات سامنے آنے کی دیر تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سوشل میڈیا ٹیم ، ان جماعتوں کے ترجمان اوربا تنخواہ یوتھ لیڈران میڈیا کی سرزمین پر حرکت میں آگئے اور تحریک ِحریت کشمیر کے لیڈران سے لے کر پاکستان تک، ہر آزادی پسند اور اصولوں کی بات کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کشمیریوں کو ’اُکسائی ہوئی قوم‘ قراردیا گیا، سنگ بازوں اور احتجاجیوں کو ’گمراہ ‘کہا گیا، حریت لیڈروں کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار گردانا گیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک ہی پَل میں سوشل میڈیا پر دہلی کے پروردہ اور حمایت یافتہ اس ٹولے نے ’فردِ جرم‘ بھی گھڑی، عدالتیں بھی سجائیں اور فیصلے بھی سنائے۔ جن میں حقِ خودارادیت اوراس جائز اور مبنی بر حق جدوجہد کی بات کرنے والوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔حالاںکہ اسکول بس میں زخمی بچے اُسی مظلوم قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں، جو سرکاری ظلم و جبر کی شکار ہے۔ اُن کے لیے ماں کی طرح تڑپنے والے اصل میں وہ عام لوگ ہی ہیں، جو جانتے ہیں کہ اپنوں اور معصوموں کا لہو گرجانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ حریت کے قائدین بھی بار بار ایسے واقعات پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود  ’مذمت بریگیڈ‘ ایسے موقعوں پر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے تیر و تفنگ کا رُخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی جانب پھیر دیتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ اینڈ کمپنی اور محبوبہ مفتی اور اُن کے تنظیمی درباریوں اور چیلوں کو ایسے سانحات پر اظہارِ مذمت کا حق نہیں۔اُنھیں ایسا کرنے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔  ہرکسی کو جہاں بھی انسانیت کا خون بہایا جارہا ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن عام کشمیریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انھیں پسند کے ظالم اور پسند کے مظلوم کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیںحالات وواقعات کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ مگرمچھ کے سے آنسو بہانے اور سرکاری مراعات کے حصول کے لیے منافقانہ رویہ چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

اصولی طورجن لوگوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، جن کے دوراقتدار میں روز بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہو، یا بہایا جارہا ہو، جو نونہالانِ کشمیرکو بم، بارود اور گولی سے اُڑا دینے کی منصوبہ بندی میں برابر کے شریک ہوں، جن کے کہنے پر یا پشت پناہی  سے وردی پوش یہاں روز انسانی حقوق کی دھجیاںاُڑا رہے ہوں ،اُنھیںمظلوم عوام پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ اُنھیں پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے جموں و کشمیر کے بے بس اور مظلوم شہری کس عذاب اور عتاب کا شکار ہیں۔

شوپیاں میں اسکول بس ودیگرگاڑیوں پر مبینہ طور سنگ باری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب اسی ضلع کے ترکہ وانگام علاقے میں بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے تین درجن کے قریب معصوم نوجوانوں کے جسم گولیوں سے لہو لہان کردیے۔جب انکاؤنٹر والی جگہ سے ایک کلو میٹردُور اسکولی وردی میں ہی ملبوس نویںجماعت کے طالب علم محمد عمر کمہار(۱۴سال) ساکن پنجورہ کو سرکاری فورسز نے نزدیک سے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیاتھا،جب سری نگر کے نور باغ علاقے میں پولیس نے عادل احمد نامی ایک نوجوان کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا تھا۔ جب پولیس اور فوج نے شوپیاں کے علاوہ جنوبی کشمیر کی مختلف جگہوں پر پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ پانچ عام نوجوانوں کو بھی گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا تھا اور دیگر سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا،اُس وقت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ کی سربراہی میں کام کرنے والا یہ مذمتی ٹولہ سوشل میڈیا سے کیوں غائب ہوگیا تھا؟

 پھر نہ مجبوبہ مفتی کی نظریں ان کم سن نوجوانوں کی معصومیت پر گئیں اور نہ عمر عبداللہ وغیرہ کو ان کی ماؤں کے چھلنی جگر نظر آئے۔ انھیں کمسن عمر کمہار کی والدہ کے ہاتھ میں نوحہ کناں وہ اسکولی یونیفارم بھی نظرنہیں آیا جو وہ لہرا لہرا کر دکھا رہی تھی کہ کس طرح اُس کے طالب علم بیٹے کو جرم    بے گناہی میں جان بحق کیا گیا۔ کیامذمتی ٹولے کو اس معصوم بچے کا اسکولی وردی میں اُٹھنے والا وہ جنازہ بھی نظر نہیں آیا، جو سنگ دل سے سنگ دل افراد تک کے دلوں کو بھی پاش پاش کررہاتھا؟  سری نگر سے شوپیاں تک دو دن میں ۱۴لوگوں کی جانیں لینے کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ: ’’کیا اسلام اس عمر میں جان دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ حالاںکہ جان لینے والے اس کی سربراہی میں کام کرنے والے فورسز اہل کار ہیں۔

 حا لات کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ان اقتدار پرست لوگوں کو اسکول بس پر برسنے والے چند پتھر تو نظر آگئے، لیکن انھیںجنوبی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ایک ماہ کے دوران ۶۰ سے زائداُٹھنے والے جنازے نظر نہیں آئے۔ اُنھیں اُن ۶۰ نوجوانوں کے لواحقین ، عزیز و اقارب کی وہ ذہنی کیفیت نظر نہیں آ ئی، جس نے اس پورے خطے کے لوگوں کو بے قابو بنادیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے والد بزرگوار ۸۰ سال کی بھر پور زندگی جینے کے بعد رحلت کرگئے تھے تو موصوفہ کئی ماہ تک اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ آج بھی بار بار سرکاری تقریبات کے دوران وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی اور آب دیدہ ہوجاتی ہیں۔ جب وہ اپنے بزرگ والد کی جدائی کو برداشت نہیں کرپاتیں تو اُن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیںاُنھیں روز موصول ہوتی رہتی ہیں،جو اپنے سامنے اپنے بچوں کو بھارتی فورسز کی گولیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ اُنھیں اُن بستیوں کا درد و کرب نظر کیوں نہیں آرہا ہے، جہاں روز صرف جنازے ہی اٹھتے ہیں؟ انھیں اُن والدین کی اذیت اور تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی، جن کے بچے زخمی ہیں اور وہ  درد و کرب سے چیختے چلّاتے رہتے ہیں؟ اُنھیں اُن بوڑھے والدین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا ہے جو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے بچوں ہی کا سہارا بننے پر مجبور ہیں، کیوںکہ اُن کی آنکھوں کی بینائی فورسز اہل کاروں نے پیلٹ گنوں سے چھین لی ہے؟… خاتون ہونے کی حیثیت سے اُنھیں اُن ماؤں کے دُکھی دل نظر کیوں نہیں آتے، جو اپنے جواں سال بیٹیوں کی لاشوں کو دولہے کی طرح سجاتی سنوارتی اور اپنی دیوانگی بھری مامتاکا مظاہرہ کرتی ہیں؟

نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی بچوں کی چیخ پکار صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کیوںکہ اس کے ذریعے سے وہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے عوام کو ’گمراہ ‘ ثابت کرسکیں، حالاں کہ کشمیری مظلوموں کو معلوم ہے کہ ۲۰۱۰ءمیں ۱۲۸نہتے لوگوں کا خون    اُن فورسز ایجنسیوں نے بہایا ہے جن کی یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہی عمر عبداللہ صاحب کررہے تھے۔ اِن کے دور اقتدار میں ہی بٹہ مالو سری نگر کے چھے سالہ سمیر احمد راہ کو جس بے دردی کے ساتھ   جاں بحق کردیا گیا،اُس کی مثال چنگیزی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ انڈین سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہل کاروں نے ٹافی لانے کے لیے بازار گئے سمیر کو پیروں تلے روندکر بڑی اذیت ناک طریقے سے قتل کردیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں لاشوں تک کو بخشا نہ گیا۔ کشمیریوں کو یہ بھی یاد ہے کہ شوپیاں کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری اور قتل کوعمر عبداللہ نے کس بے تکلفی کے ساتھ  بے تکی بات کہا تھا۔ اَن گنت معصوم انسانوں کاقتل عمد عمر عبداللہ اور اُن کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اَدوار ِحکومت میں ہوا تھا اور دونوں باپ بیٹوں نے کشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی اُف تک نہیں کیا۔

یہی حال پی ڈی پی کا بھی ہے۔ محبوبہ مفتی کے عہد ِاقتدار میں کشمیر کی سر زمین خون سے لالہ زار ہوگئی۔ ۲۰۱۶ءسے تاحال ہر ہفتے کسی نہ کسی عام شہری کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ صاحبہ ان المیوں کے ’جواز‘ بھی تراشتی ہیں اور آگے بڑھ کر سرکاری فورسز کو ’اچھی کارکردگی ‘ پر شاباشی بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی یک طرفہ مذمت کوئی معانی نہیں رکھتی ہے۔

جنوبی کشمیر ۸؍جولائی۲۰۱۶ءسے جن گھمبیر حالات کا شکار ہے، اُن میں عام لوگوں کی ذہنی حالت اور کیفیت کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ اقتدار کا مزہ لینے والوں اور اُن کے چیلوں کو بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس خطے میں آئے روز بھری جوانیاں لُٹ رہی ہیں، والدین اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سیکڑوں جسمانی طور پر ناکارہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سنگ باری کررہے ہیں اور یہ انکاؤنٹر والی جگہوں پر جاکر فوجی آپریشن میں بے خوف ہوکر رخنہ ڈالتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے کتنے ساتھی اور بھائی قبرستانوں میں پہنچا دیے گئے ہیں کہ جن معصوم نوجوانوں کے ساتھ یہ کھیلا کرتے تھے، اُنھیں جب وردی پوش ابدی نیند سلا نے کے بعد اپنی’ کامیابیوں‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں تو متاثرین میں غم وغصہ دوآتشہ ہونا ایک طے شدہ امر ہے۔ آئے روز یہاں جنازوں میں شریک ہونے والوںاورانسانی لاشوں کو کندھا دینے والے سوگواروں کے جذبات کس طرح کھلے عام مجروح کیے جاتے ہیں اس کا اندازہ مذمتی ٹولے کو نہ بھی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احساس بیگانگی اور انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکانے پر منتج ہوتا ہے۔ اگر اربابِ اقتدار امن پسنداور نبض شناس ہوتے تو یہ سنگ بازی کرنے والوں اور انکاونٹر والی جگہوں پر سینہ ٹھونک کے جانے والے مردوزن کے خلاف زبان درازی نہ کرتے بلکہ اُن کی نفسیاتی اُلجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی کو سمجھتے اور اُن کے دُکھ درد کا مداوا کریں۔

دوغلی سیاست کے بل پر جو لوگ کشمیریوں کے سروں پر سوار کیے گئے ہیں ،اُن کا ضمیر مرچکا ہے، وہ اپنے دہلوی آقائوں کو خوش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے عوامی جذبات کا ساتھ دیں ۔