رسائل و مسائل


اسلامی بنکوں میں سرمایہ کاری

سوال: اسلامی بنکاری سے متعلق میں اور میرے دوسرے احباب اپنے آ پ کو  ایک مشکل میں پاتے ہیں۔ ہم ایک لاکھ تک کی رقم بچاپاتے ہیں لیکن اس بچت کو سود کے خوف سے کسی بھی منافع بخش اسکیم میں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں چاہتے اس رقم کو کرنٹ اکائونٹ میں لگا کر ضائع کردیں۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہماری مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ اس رقم کے ساتھ کوئی اور کاروبار بھی نہیں کرسکتے۔ مہربانی کر کے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم آخر کیا کریں؟ اگر ممکن ہو تو بنک آف خیبر یا کسی اور اسلامی بنک کی اسلامی بنیادوں پر جاری کردہ منافع بخش اسکیموں کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔

جواب: آپ نے جس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے‘ یہ ایک عام آدمی‘ خصوصیت سے متوسط آمدنی والے افراد کا بڑا اہم مسئلہ ہے اور اسلامی قانون سے ہم آہنگ‘ قابلِ اعتماد بچت اور سرمایہ کاری کے مواقع کی عدم موجودگی کی وجہ سے‘ ان تمام افراد کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے جو سود سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور شریعت کے مطابق اپنی بچت کو نفع بخش مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

این آئی ٹی یونٹ کی شکل میں ۱۹۷۹ء سے‘ اس مد میں سرمایہ کاری کی ایک ایسی شکل موجود ہے۔ اس ادارے میں جو اصلاحات ۸۹-۱۹۷۸ء میں کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ  این آئی ٹی کی سرمایہ کاری کی مدات (invest portfolio)  ایسی ہوں جو سودی کاروباریا شریعت سے کھلے کھلے متصادم کاروبار سے پاک ہوں۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ہر سال کے منافع کے اعلان کے وقت انوسٹمنٹ ٹرسٹ اس بات کا بھی اعلان کرے کہ بنک کے سودی ڈیپازٹ میں جو رقوم اس نے رکھی ہیں اس پر سود ان کی کل آمدنی کا کتنا حصہ ہے تاکہ یہ رقم خیرات کی جاسکے اور باقی نفع سے کسی اضطراب کے بغیر استفادہ کیا جاسکے۔ یہ صورت اس وقت سے آج تک موجود ہے اور ان یونٹس میں جائز سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

الحمدللہ، پچھلے پانچ چھے سال میں کئی اسلامی بنک میدان میں آگئے ہیں اور بہت سے روایتی بنکوں نے بھی اسلامی بنکاری کی شاخیں قائم کرلی ہیں۔ میں اس بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر صرف اتنی بات کہہ سکتا ہوں کہ ان بنکوں کے شریعہ بورڈ ہیں اور وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے کاروباری معاملات شریعت سے متصادم نہ ہوں۔ اس توقع پر کہ یہ بورڈ اپنا کام   ٹھیک طور پر انجام دے رہے ہیں‘ ایک عام مسلمان کے لیے ایک مسلمان ادارے کی گواہی کے بعد کہ وہ شریعہ بورڈ کی نگرانی میں ان معاملات میں شریعت کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ان اسلامی بنکوں میں یا روایتی بنکوں کی اسلامی بنکاری کی شاخوں میں اپنی رقوم ڈیپازٹ کرنا اور ان کے مختلف مالی پروڈکٹس یا انوسٹمنٹ اکائونٹ میں اپنی بچت ڈالنا بظاہر سود سے آلودہ ہونے اور بچنے کی ضمانت دیتا ہے اور اسے بھی سرمایہ کاری کی ایک جائز شکل قرار دیا جاسکتاہے۔

اب ایک عام انسان اور خاص طور پر متوسط آمدنی والے لوگ جو خود بلاواسطہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتے‘ ان کے لیے ا ن بنکوں کے مختلف سرمایہ کاری کے حسابات یا دوسرے پروڈکٹس کے ذریعے اپنی بچت کی نسبتاً محفوظ اور شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔

بلاشبہہ اسلامی بنکاری سے متعلق ادارے ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں لیکن بظاہر قانونی حد تک سود سے بچتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم ہوگئے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہرشخص کا  اپنا کام ہے کہ ایک ایسے بنک کا انتخاب کرے جو قابلِ اعتماد بھی ہو اور مالی اعتبار سے بھی مضبوط بنیادوں پر کام کر رہا ہو۔ ذاتی طور پر جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے المیزان بنک کے مختلف کھاتے اور پروڈکٹس شریعت کے احکام سے ہم آہنگ ہیں اور اس کا شریعہ بورڈ مولانا تقی عثمانی کی قیادت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح بنک آف خیبر کی اسلامی شاخوں میں بچت کھاتے اور سرمایہ کاری شرعی حدود کے اندر ہے۔ اس کا شریعہ بورڈ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ معاملات شریعت کی طے کردہ حدود کے اندر ہوں اور بنک کے تمام لین دین کا شرعی اور سائنسی بنیادوں پر مسلسل آڈٹ کیا جائے۔ البرکۃ بنک کے بارے میں معلومات مثبت ہیں۔ دوسرے بنکوں کی اسلامی شاخوں کی کارکردگی بھی اسی انداز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

موجودہ حالات میں جو بنک بھی اس انداز میں کام کر رہا ہے وہ ان تمام افراد کے لیے جو اپنی بچتوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں سرمایہ کاری کا ایک قابلِ اعتماد موقع فراہم کر رہا ہے۔ انسان ظاہر کی بنیاد پر ہی بات کہہ سکتا ہے اور شریعت بھی معاملات کی ظاہری شکل پر ہی حکم لگاتی ہے۔ دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ بلاشبہہ آخری فیصلہ تو سارے علم کی بنیاد پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔

میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جو گفتگو میں کررہا ہوں اس کی حیثیت فتوے کی نہیں اور میں اپنے آپ کو اس ذمہ داری کا اہل بھی نہیں سمجھتا۔ میری راے کا انحصار حاصل شدہ معلومات پر ہے اور اسلامی معاشیات کی حد تک جو علم مجھے حاصل ہے اور جس حد تک اسلامی بنکوں کے حالات سے میں واقف ہوں‘ اس کی بنیاد پر اس راے کا اظہار کر رہا ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جوایک مدت سے اسلامی بنیادوں سے محروم ہو اور جس کے کم و بیش تمام ہی ادارے شرعی احکام کو ہمہ پہلو سامنے رکھنے سے قاصر رہے ہوں‘ انسان ظاہر ہی پر معاملات استوار کرسکتا ہے۔ اس کی مثال خوراک کے معاملات میں حلال گوشت پر اعتبار کی طرح ہے۔ جس طرح ایک آدمی خود     یہ دیکھے بغیر‘ کہ قصائی نے ذبیحہ شرعی اصولوں کے مطابق کیا ہے یا نہیں‘ ایک مسلمان قصائی کے قول پر اعتماد کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح ان بنکوں کے ساتھ بھی ان کے شریعہ بورڈوں کی شہادت پر‘ کھاتہ رکھنے اور سرمایہ کاری کرنے میں کوئی انقباض محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ وماتوفیقی الا باللّٰہ ۔ (پروفیسر خورشید احمد)

 

خانگی معاملات میں توازن

سوال : میں ان دنوں بہت زیادہ ذہنی انتشار کا شکار ہوں۔ میرا دل نہ تو عبادت میں لگتا ہے اور نہ گھر کا کوئی اور کام کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ میری شادی پسند کی شادی ہے جس پر بعد میں والدین بھی راضی ہوگئے تھے۔ یہ شادی ہوجانے کے بعد وٹہ سٹہ اس طرح بن گیا کہ میری نند کی شادی میرے ماموں کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا ہے جس کے نتیجے میں بیوی کا ناراض ہوکر میکے چلے جانا لڑائی کا اہم جز بن چکا ہے‘ اور جواب میں میرے شوہر اور سسرال والے مجھے اپنے گھر‘ یعنی میکے بھیج دیتے ہیں۔ میرے شوہر ہردلیل کو اس وقت رد کردیتے ہیں جب معاملہ ان کی بہن کا ہو۔ میں اپنے شوہر کو ان کے ماں باپ اور بہن بھائی کی باتیں ماننے سے اس وقت منع کرتی ہوں جب وہ ایسی باتیں ماننے کو کہیں جو دین و شریعت میں بھی   لغو اور فضول ہوں۔

میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ایک بیوی پر اپنے ماں باپ پر شوہر کے حقوق کو ترجیح دینا  فرض ہوتا ہے‘ جب کہ ایک بیٹا جو کہ اپنے والدین کے لیے امیدوں کا مرکز ہوتا ہے  اس کے لیے قرآن و حدیث میں والدین کی بات کو اوّلین ترجیح دینا فرض ہے چاہے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو جیساکہ حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بہو کا قصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنے والدین کی بھی نافرمان ہوں اور شوہر کی بھی۔ کیا والدین کی خدمت کرنا اور ان سے دعائیں حاصل کرنا صرف بیٹوں کے حصے میں آسکتا ہے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ پہلے میرا بیٹا پیدا ہو کر فوت ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے  دو بیٹیاں پیدا ہوکر فوت ہوگئی تھیں۔بچے نہ ہونا اور پیدا ہوکر فوت ہوجانے کو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کالاجادو کیا گیا ہے۔ میرے شوہر ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں‘ جب کہ میرا ذہن ان چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ اس کا علاج ہونا چاہیے‘جب کہ میں کہتی ہوں کہ جب اللہ کی رضا ہوگی‘ ہمیں بچے مل ہی جائیں گے۔ ڈاکٹری علاج تو ہم کروا ہی رہے ہیں تو پھر کیوں روحانی علاج کے نام پر شرک کے اندھے کنویں میں پھنس جائیں۔ جو کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ ہم خود ہی پڑھا کریں گے۔ لیکن میرے شوہر نہیں مانتے۔ میں عمر میں اپنے میاں سے بہت کم ہونے کی وجہ سے اور تعلیم بھی کم ہونے کی وجہ سے تھوڑا سا دبتی ہوں اور مجھے یہ اچھا بھی لگتا تھا لیکن اب مجھے یہ سب کچھ بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ بلکہ میں بہت زیادہ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوں۔

میرے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ میرے والدین بھی ان چیزوں کو بہت مانتے ہیں۔ وہ میرے شوہر کے ساتھ ہیں لیکن میں کسی طور پر اس بات پر‘ یعنی پیروں فقیروں کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں ہوں اور سوچتی ہوں کہ یہ ایک اور نافرمانی ہے‘    وہ بھی شوہر اور والدین کی مشترکہ طور پر۔ میں والدین کی سرپرستی میں ان پیروں فقیروں کے ہاتھوں کافی ذلیل و خوار ہوچکی ہوں۔ میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا روحانی علاج کرنے کے لیے لمبی سی مالا اور ہرا چوغہ پہننا ضروری ہے؟ کیا کوئی اسکالر یا عالم یا کوئی مذہبی رہنما اس کا علاج نہیں کرسکتا؟

جواب: آپ نے جن تین اہم پہلوؤں کی طرف اپنے خط میں متوجہ کیا ہے وہ ہمارے معاشرے کے اسلام سے دُوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ وٹہ سٹہ کی شادی اور اس سے متعلقہ رسمی خرابیوں کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ اس خطے میں پائی جانے والی قبل از اسلام کی ان روایات سے ہے جنھیں اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔

اسلامی معاشرت کی بنیاد عدل‘ توازن‘ رواداری‘ محبت‘ عفو و درگزر‘ احترام اور اللہ تعالیٰ کے خوف پر ہے۔ یہاں ادلے بدلے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر ایک شخص کی بیوی تو حق پر ہو  لیکن اس کو سزا اس بات کی دی جائے کہ اس کی بہن جو اس کے کسی سسرالی کے عقد میں ہے کوئی قابلِ اعتراض بات کرتی ہے‘ تو یہ سراسر ظلم و استحصال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ظلم سے بچائے اور جو لوگ اس کا ارتکاب کر رہے ہیں انھیں ہدایت دے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہر کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے تو قرآن کریم کو اُٹھا کر دیکھیے‘ وہ بلاتفریق. ِجنس کتنی مرتبہ والدین کے حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کتنے مقامات پر ان کے مقابلے میں شوہر کی ہر جائز و ناجائز بات کو ماننے کے لیے کہتا ہے؟ مسئلہ شوہر اور والدین کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کرنے کا نہیں ہے کہ والدین کی ناجائز بات کو مانا جائے بلکہ یہ جاننے کا ہے کہ اس سلسلے میں قرآن و سنت کا اصول کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہوگی منکر میں نہیں۔ یہی اصول شوہر کی اطاعت کے سلسلے میں بھی ہے۔ ایسے میں اگر بیوی ایک ایسی بات پر اصرار کرے جو منکر ہو تو بیوی کی خوشی کے لیے منکر کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک آپ کے دوسرے مسئلے کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں ایک اصول کو پیش نظر رکھیے۔ قرآن و سنت نے جن معاملات میں حلال و حرام کو متعین کردیا ہے ان میں کوئی مفاہمت کسی سے نہیں ہوسکتی‘ البتہ جہاں پر کسی حرام کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو اور ایسے کام سے والدین یا شوہر خوش ہوں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم ؑکی ہدایت کو عموم کی شکل دینا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ اللہ کے انتہائی بزرگ رسول تھے (علیہ الصلوٰۃ والسلام)‘ اور اس علم کی بنا پر جو ان کے رب نے ان کو دیا تھا‘ انھوں نے بغیر کسی وضاحت کے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا۔ یہ معاملہ ابوالانبیا کے گھرانے کا تھا۔ یہ کوئی عام معاملہ  نہ تھا کہ اس سے نظیر لائی جائے۔

اسلام کا اصول اس سلسلے میں واضح ہے کہ آخری حد تک خاندان کے اتحاد کو بچایا جائے اور جب اصلاح احوال کا کوئی امکان نہ رہے تو صرف اس صورت میں طلاق کو اختیار کیا جائے۔ اسی لیے بالجبر دی گئی طلاق کی حیثیت شریعت میں واضح کر دی گئی ہے۔ ساس سسر کا تعصبات اور بغیر کسی شرعی سبب کے طلاق دلوانے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں پایا جاتا۔

قرآن و سنت سے جادو کا وجود ثابت ہے‘ اور اگر جادو کیا گیا ہو تو اس کا علاج کروانا بھی ثابت ہے۔ علاج کا طریقہ مسنون ہو اور اس میں کسی غیراللہ سے امداد طلب نہ کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر آپ کے شوہر کسی ایسے اللہ کے نیک بندے سے واقف ہوں جو جادو کا علاج بغیر کسی غیراللہ سے امداد لیے کرسکتا ہو تو آپ ان کی بات مان لیں۔ ایسے فرد کے لیے یہ شرط قطعاً نہیں ہے کہ وہ کسی خاص حلیے اور وضع قطع والا ہو۔

آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کی روشنی میں آپ اپنے والدین یا شوہر‘ کسی کی عدمِ اطاعت کی مرتکب نظر نہیں آتیں۔اس لیے اپنے ذہن سے اس وہم کو نکال دیں اور والدین اور شوہر جب تک معروف کی طرف بلائیں‘ ان کی بات کو سنیں اور مانیں کیوں کہ شریعت کا اصول ہے کہ معصیت.ِ خالق میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ڈاکٹر انیس احمد)

 

فہم قرآن میں ایک اشکال

سوال : اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں قیامِ صلوٰۃ اور صیامِ رمضان کا حکم تو یا ایھا الذین امنواکہہ کر دیا گیا ہے‘ جب کہ حج اور زکوٰۃ کی فرضیت کے موقع پر ایسا نہیں۔ بالخصوص حج کے بارے میں تو جہاں بھی تذکرہ ہے وہاں لوگوں (ناس) کے حوالے سے ہے‘ مثلاً:۱- وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ (البقرہ۲:۱۲۵) ۲- وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج ۲۲:۲۷) ۳-  اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا (اٰل عمرٰن۳:۹۶) ۴- وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ۵-یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ط (البقرہ ۲:۱۸۹) ۶- وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا  (البقرہ۲:۱۲۶)

بالفاظ دیگر مکہ میں رزق ایمان نہ لانے والوں کو بھی ملے گا جو مکہ میں موجود ہوں گے۔

۷- ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ ۲:۱۹۹)۸- جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) ۹- وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ (التوبہ۹:۳)

ان تمام آیات سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حج پر آنے سے کسی غیرمسلم بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو نبی ماننے والوں یا اہلِ کتاب کو منع نہیں کیا گیا ورنہ وہ کون لوگ ہیں جن کو دنیاوی رزق ملتا رہے گا اور آخرت میں کچھ نہ ملے گا یا جو صرف دنیا طلب کرتے ہیں اور آخرت میں خسارے میں ہوں گے۔

اہلِ کتاب سے تعلق رکھنے والیوں سے نکاح کی اجازت ہے تو کیا مکہ میں قیام پذیر مسلم اپنی بیوی کو ساتھ نہ رکھ سکے گا؟ جہاں تک غیرمسلموں کو حدودِ حرم میں آنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو وہ بھی سورۂ توبہ کی آیت ۲۸ میں صرف مشرکوں کے لیے ہے اور صرف مسجد حرام کے پاس آنے سے منع کیا گیا ہے نہ کہ پورے شہر مکہ یا مدینہ سے اور اہلِ کتاب کو تو منع ہی نہیں کیا گیا۔ کیا حج کی ادایگی یا حج کی ادایگی کے مناظر غیرمسلم کو مسلمان بننے پر راغب نہیں کریں گے؟

اسی طرح زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت سورئہ توبہ کی آیت ۶۰ سے ثابت ہوتی ہے اور اس میں نہ زکوٰۃ دینے کے لیے مومنوں سے خطاب ہے اور نہ فقرا‘ مساکین‘ عاملین‘ تالیف قلب کے قابل لوگ‘ غلام‘ قرض دار اور مسافر کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ سے اگر اسلامی ریاست کے تمام باشندے فائدہ حاصل کریں گے تو وصول بھی سب سے کی جاسکتی ہے۔ نیززکوٰۃ کو اسلامی نظامِ معیشت میں دولت کی تقسیم کا ایک اہم عامل قرار دیا جاتا ہے۔ کیا غیرمسلم کو اسلامی ریاست میں بے حساب اور بلاتحدید دولت جمع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟

جواب: اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے‘ تمام انسان چاہے مسلم ہوں یا کافر اسلامی احکام کے مخاطب ہیں۔ کفار حکومت الٰہیہ کے باغی ہیں۔ جہاں تمام انسانوں کو کسی عبادت کا حکم ہے مثلاً حج اور حجاج کرام سے متعلق آیات جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے تو ان کے یہ معنی نہیں ہے کہ انھیں صرف حج کا حکم ہے‘ بلکہ انھیں پہلا حکم ایمان کا ہے اور دوسرا حکم حج کا ہے‘ یعنی حج کرواور اس کے لیے میرے پہلے حکم اٰمِنوا (ایمان لے آئو) پر بھی عمل کرو۔

حج پر آنے سے کفار و مشرکین کو سورۂ توبہ آیت ۲۸ میں منع کیا گیا ہے۔ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ … مسجد حرام سے مراد صرف مسجد حرام اور بیت اللہ شریف نہیں بلکہ پورا حرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ ہجری میں جب ابوبکر صدیقؓ حجاج کے امیر تھے حضرت علیؓ کو اس اعلان کے ساتھ بھیجا تھا: لاَیَحُجَّنَّ بَعْد الْعَامِ مُشْرِکٌ ’’مشرک اس سال کے بعد حج نہیں کریں گے‘‘۔ اور اس کے علاوہ دیگر اصلاحات کا اعلان بھی کیا تھا۔

زکوٰۃ عبادت ہے۔ کفار سے اس کا خطاب ہے لیکن ایمان کے بغیر معتبر نہیں ہے اور ان سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ ان سے مختلف قسم کے منصفانہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور ان کے عوض ان کی جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

مکہ میں کفار کی رہایش کا جواز جو آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے نکالا ہے‘ وہ ابراہیم علیہ السلام کے دور کی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں بھی یہ حکم باقی تھا‘ یہ حکم فتح مکہ کے بعد ۹ہجری میں ختم ہوگیا ہے۔ سورئہ بقرہ میں مسلمان حاجیوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ کافروں کے لیے تو کفر کے سبب آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ مسلمان حاجی اگر محض دنیاطلبی کے لیے حج کریں گے تو ان کو ان کے حج کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ قرآن پاک میں خطاب کا اختلاف دراصل مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کسی جگہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور دین تمام انسانوں کے لیے ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو مانیں اور ان پر عمل کریں۔ تمام احکام کے دنیا اور آخرت میں معتبر ہونے کی شرط ایمان ہے۔ اس لیے خطاب کا اصل فائدہ اہلِ ایمان کو ہے۔ اس لیے اس پہلو کو مدنظر رکھنے کی خاطر   اہلِ ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے۔

دنیا میں شریعت کے ایسے احکام جن پر عمل کرنے کا کفار کو فائدہ ہو اور وہ دنیا میں معتبر اور آخرت میں مؤثر ہوں‘ اسلام کا نظام معاملات اور عقوبات اور رفاہی کام ہیں۔ کفار کے معاملات اگر شریعت کے مطابق ہوں تو ان کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ شرعاً معتبر ہیں۔ آخرت میں انھیں ان پر ایمان کے بغیر عمل کرنے کی صورت میں نجات تو نہ ہوگی لیکن عذاب میں تخفیف ہوگی۔ ظالم کافر کو زیادہ عذاب ہوگا اور اعتدال پسند اور خوش اخلاق‘ مسلمانوں کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آنے والے‘ ان کی خدمت کرنے والے اور رفاہی کاموں میں حصہ لینے والوں کو تھوڑا عذاب ہوگا۔ لیکن ان کی عبادات‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج‘ نوافل‘ تلاوتِ قرآن پاک‘ ذکر و اذکار کا کوئی اعتبار نہیں اور ان کا انھیں ثواب بھی نہیں ملتا۔ اس لیے کہ عبادات کے لیے ایمان شرط ہے‘ اور عبادت کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ(البقرہ۲:۲۱) اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ عبادت میں نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ ‘حج اور تمام احکام شامل ہیں۔ اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایمان لائو اور عبادت کرو۔ ایمان کے بغیر اللہ تعالیٰ کا کسی عبادت کا حکم دینا سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ باغیوں کو احکام نہیں دیے جاتے ہیں ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ بغاوت کو ترک کرو‘ مطیع بن جائو اور پھر تمام احکام بجا لائو۔

اسلام میں تعامل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سورئہ توبہ کے بعد سے اب تک کفار کا داخلہ حرم میں بند ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر کسی شخص کو کتابیہ سے شادی کرنا ہے تو اسے اس کی شرائط کی پابندی کرنا ہوگی جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے حرم مکہ اور مدینہ میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی لیے وہ دو کاموں میں سے ایک کرسکتا ہے: ۱-حرمین شریفین کی سکونت ترک کردے ۲-یا کتابیہ سے شادی نہ کرے بلکہ کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو تو جزیرۃ العرب کی شہریت نہیں مل سکتی‘ انھیں عارضی طور پر حرمین شریف کے مخصوص علاقے حرمِ مکہ و مدینہ کے علاوہ ضرورت اور حاجت کی صورت میں آنے کی اجازت تو ہے لیکن مستقل رہایش اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں ارشاد فرمایا: اَخْرِجُوْا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ’’مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکالو‘‘ (بخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب ھل یستشفع الٰی اھل الذمۃ‘ حدیث رقم ۳۰۵۳)۔ نیز یہ بھی فرمایا: لَاُخْرِجَنَّ الْیَھُودَ وَالنصارٰی مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ حَتّٰی لَا اَدَعُ اِلاَّ مُسْلِمًا ’’میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالوں گا یہاں تک کہ اس میں نہیں چھوڑوں گا مگر مسلمان کو‘‘۔ (مسلم‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب اخراج الیہودوالنصارٰی من جزیرۃ العرب‘ حدیث رقم ۱۷۶۷)

موجودہ دور میں سعودی عرب کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت مفتیان کرام جناب شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ عثیمین کے اس موضوع پر مفصل اور مدلل فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ فتاوٰی ارکان الاسلام‘ فتاوٰی العقیدہ‘ ص ۱۸۷‘ شیخ عثیمین‘ سوال نمبر ۹۸)۔ (مولانا عبدالمالک)

 

مساجد میں خواتین کی شرکت

سوال: ہمارے علاقے میں ایک پرانی چھوٹی مسجد تھی۔ اب الحمدللہ اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی اور اس کو وسعت دی گئی ہے۔ اب نمازیوں کے لیے یہاںکافی گنجایش ہے۔ پہلے جب چھوٹی مسجد تھی اس وقت بھی یہاں پر ہر سال ماہ رمضان کی تراویح میں عورتیں شریک ہوتی تھیں۔ ان کے لیے ایک الگ کمرہ مخصوص تھا۔ وہ الگ راستے سے یہاں نیم روشنی میں آتی تھیں۔ باپردہ تراویح پڑھتیں اور پھر الگ راستے سے رات کے اندھیرے میں رخصت ہوجاتی تھیں۔ اس میں کسی فتنے کی گنجایش ہی نہیں ہوتی۔ اب مسجد عالی شان اور کافی گنجایش والی بن گئی ہے تو مسجد انتظامیہ کے صدر نے ایک فتویٰ کی بنیاد پر کہ مفتی صاحبان عورتوں کو مسجد میں تراویح پڑھنے کی ممانعت کرتے ہیں‘   اس سے فتنوں کا اندیشہ ہے‘ چنانچہ خواتین کو مسجد میں آنے سے روک دیا ہے۔

ہماری خواتین (جو بڑی عمر کی ہیں اور دین کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف ہیں) اب مدرسہ نہیں جاسکتیں۔ وہ اپنے علم کی حد تک نماز اور تلاوت وغیرہ گھروں میں ادا کرتی ہیں (اور بلاشبہہ ان عبادات میں بھی بے شمار غلطیاں کرتی ہیں)۔ صرف رمضان کا ایک مہینہ ان کو ملتا ہے کہ وہ تراویح میں باجماعت شریک ہوسکیں (پہلے یہ اسی مسجد میں تراویح میں شریک ہوتی تھیں اور تحریری پرچے بھیج کر اپنے مسائل امام صاحب سے پوچھتی تھیں اور جواب حاصل کرتی تھیں)۔ اس کے علاوہ بعداز تراویح قرآن کریم کا ترجمہ‘ تلخیص وغیرہ کا بیان ان کے دینی علم میں اضافے کا اہم ذریعہ تھا۔ اب بحکمِ صدر اس ’ذریعہ‘ ہی کو ختم کردیا گیا۔ اس حوالے سے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمایئے۔

جواب: گذشتہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے ہمارے معاشرے میں ایک صحت مند تبدیلی یہ آئی ہے کہ نہ صرف مساجد میں بلکہ رمضان کے دوران کشادہ گھروں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ صلوٰۃ تراویح کے ساتھ مضامین قرآن کا خلاصہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد جیسے جدیدیت کے شکار شہر میں بھی شاید ہی کوئی سیکٹر ایسا ہو جہاں اس طرح کا اہتمام نہ کیا جا رہا ہو۔ لیکن اکثر مساجد میں ابھی تک خواتین کے لیے الگ جگہ کا بندوبست نہیں ہے۔ استثنائی طور پر فیصل مسجد اور مسجدالمومنین میں خواتین کے لیے الگ منزل اور علیحدہ راستے کا بندوبست ہے تاکہ بغیر کسی اختلاط کے وہ نمازِ جمعہ اور صلوٰۃِ تراویح میں شرکت کرسکیں۔

سوال کا تعلق تین بنیادی امور سے ہے۔ اوّلاً: کیا نماز کے لیے عمومی طور پر خواتین کا مساجد میں آنا ممنوع ہے؟ ثانیاً: کیا صلوٰۃ التراویح یا عیدین یا جمعہ کی حیثیت عام فرض نمازوں کی ہے یا ان کا بنیادی مقصد اجتماعی تعلیم و تربیت سے ہے؟ثالثاً :کیا مساجد میں خواتین کے آنے سے فتنے کا امکان بڑھ جاتا ہے؟

فرض عبادات میں نماز‘ زکوٰۃ‘ صوم اور حج میں ایک ترجیحی تعلق پایا جاتا ہے اور اسی بنا پر  یوم الحساب میں بھی صلوٰۃ کی جواب دہی کو اولیت دی گئی ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں پر بلاکسی تفریق کے فرض ہے۔ مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو زیادہ اجر کا مستحق قرار دے کر شارع اعظمؐ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ بوجوہ خواتین اگر مسجد نہ جاسکیں تو ان کے اجر میں کمی واقع نہیںہوگی۔ چنانچہ احادیث صحیحہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کی گھر میں ادا کردہ نماز کا اجر مسجد میں ادا کی گئی جماعت کے اجر کے مساوی ہے۔

اس کے باوجود حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ کی اہلیہ محترمہ یہ جاننے کے باوجود کہ حضرت عمرؓ ان کے مسجد جانے کو پسند نہیں کرتے‘ مسلسل مسجد جاتی رہیں اور اس انتظار میں رہیں کہ اگر حضرت عمرؓ پسند نہیں کرتے تو اس کا اظہار اپنی زبان سے کریں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح کی بنا پر کہ جب تم میں سے کسی کی عورت اس سے اجازت مانگے تو پھر اسے مسجد جانے سے نہ روکے (صحیح بخاری) کی بنا پر اپنی فاروقیت کے باوجود اپنی اہلیہ کو مسجد جانے سے نہ روک سکے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جس معاملے میں شارع اعظمؐ نے ‘ جن کی سنت قرآن کریم کی طرح ہر دور کے لیے حرفِ آخر ہے‘ ایک فیصلہ فرما دیا ہو اُسے    اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کی یہ تمنا بھی کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہوتے اور مدینہ میں جس طرح خواتین مسجد جاتی تھیں خود ملاحظہ فرماتے تو شاید خواتین کا داخلہ مسجد میں منع فرما دیتے‘   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اجازت کو تبدیل نہ کرسکی۔ گویا حلّت و حرمت کا انحصار  نصوص پر ہے محض بلوہ اور مصلحت عامہ کی بنا پر کسی چیز کو حرام یا حلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔

شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دفع شرکے لیے یہ بات تعلیم فرما دی کہ نماز کے بعد چند لمحات کے لیے مردانتظار کریں تاکہ پہلے خواتین وقار کے ساتھ چلی جائیں۔ اس کے بعد مرد دروازوں کا رخ کریں۔ جن مساجد میں خواتین کے لیے ایک حصہ مخصوص کردیا گیا ہو وہاں آنے جانے کا راستہ بھی الگ ہو‘ وہاں فتنے کا امکان صفرفی صد رہ جاتا ہے۔ ہاں‘ اگر کسی مقام پر مسجد کا وہ حصہ جو خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا ہے کسی برائی کا مرکز بن جائے تو اصل فکر‘ برائی کے خاتمے کی کرنی ہوگی نہ کہ مسجد میں خواتین کے داخلے پر ممانعت کی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ایسی مسجد میں جہاں صرف مرد ہی نماز کے لیے آتے ہوں‘ مسجد کے کسی گوشے میں کوئی نمازی کسی برائی کا ارتکاب کربیٹھے اور اس بنا پر مسجد میں مردوں کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے۔ دین کے معاملات کا فیصلہ محض قیاس پر نہیں‘ حقائق اور تواتر پر کیا جاتا ہے۔ ایک نادر الوقوع قیاسی شکل پر نہیں کیا جاسکتا۔

دوسرے اہم پہلو کا تعلق اسلامی عبادات کے تعلیمی و تربیتی پہلو سے ہے۔ نماز اور خصوصی طور پر صلوٰۃ الجمعہ یا عیدین کی نمازیں تعلیم اور رشد و ہدایت کے حوالے سے ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پرخواتین کی نماز میں شرکت کی اہمیت اس حد تک بیان فرمائی کہ اگر کوئی خاتون نماز ادا کرنے کی حالت میں نہ بھی ہو جب بھی اجتماعِ عید میں آئے اور آپؐ نے خود مردوں کو خطبہ دینے کے بعد خواتین کی طرف جاکر انھیں دعوت و تلقین فرمائی۔ گویا خطبۂ عید کے تعلیمی طرز اور تزکیے کے پہلو کے پیش نظر خواتین کے عیدگاہ میں آنے کی تاکید فرمائی۔ خطبۂ جمعہ جو ہمارے ہاں روایات کی نذر ہوگیا ہے اور اکثر طولانی بیانات کی بناپر اثرانگیزی کھو بیٹھا ہے‘ حتیٰ کہ عربی خطبے میں جسے بہت کم افراد ہی سمجھتے ہیں‘ ہم آج تک ’سلطان‘ کو ’ظلِ اللہ‘‘ قرار دے کر اس کی اہانت کو اللہ تعالیٰ کی اہانت قرار دیتے رہے ہیں‘ جب کہ جابرسلطان کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا اسلام کی روح ہے۔ اس خطبے کا اصل مقصد کسی بھی معاملے میں اُمت کی رہنمائی اور تزکیہ تھا۔ کبھی اس کا موضوع خالصتاً عقیدے کے مسائل ہوتے اور کبھی معاشرتی مسائل‘ جیسے فاطمہ بنت قیس کے حوالے سے خطبہ۔ گویا خطبہ ایک مختصر تعلیم اور یاد دہانی کا ذریعہ تھا اوراسی بنا پر اسے عبادت میں شامل کیاگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اہم اور حسّاس موضوعات پر صرف مردوں کی تعلیم کافی ہے یا ایسے اہم موقع پر خواتین کو بھی تعلیم و تزکیے کی ضرورت ہے۔ دین کا مدعا یہی نظر آتا ہے کہ اگر خواتین کے لیے مناسب طور پر مسجد میں ایک حصہ متعین ہے جہاں کسی اختلاط کا امکان نہ پایا جاتا ہو تو ان کے مسجد آنے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے اور حقوق و فرائض کے حوالے سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے میں کسی شرعی اصول اور مقصد سے ٹکرائو نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنا مقاصد شریعہ کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا۔ یہ بات نہ کسی جدیدیت کے خبط کی بنا پر کہی جارہی ہے اور نہ کسی بنیادپرستی کے الزام کے خوف سے۔ دین جیسا ہے اسے بغیرکسی کمی بیشی کے پیش کرنا ہی اعتدال کی راہ ہے۔

آج مسجد کے تدریسی‘ تربیتی اور دعوتی کردار کونمایاں کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مسجد میں ایک فلور یا ایک حصہ‘ خواتین کے لیے مخصوص نہ ہو اور وہاں پر وہ    اپنے لیے باقاعدہ درسِ قرآن‘ لغتِ قرآن کی تعلیم‘ ملکی اور عالمی مسائل پر اور خواتین کے مسائل کے حوالے سے سیمی نار‘ ورکشاپ اور خطابات کا بندوبست نہ کریں۔

خواتین کی اعلیٰ دینی تربیت اور بالخصوص قرآن کریم سے وابستگی کے بغیر اُمت مسلمہ کا احیا ایک سہانا خواب ہے۔ تراویح کے دوران مرد تو ۱۵۰۰ سال سے قرآن کریم کو بغیر کسی انقطاع کے تواتر کے ساتھ سنیں اور قرآن کے حفظ و حفاظت کے عمل میں شامل ہوں لیکن خواتین کو اس عمل نیک سے الگ کردینا ایک صریح زیادتی ہے۔ کیا ان کا قرآن کریم کی مکمل تلاوت کا سننا اور اس پر غور کرنا اور مضامین قرآن کے خلاصوں کو سن کر اپنے معاملات کی اصلاح کرنا دین کا مقصود نہیں ہے۔ گویا تراویح ہو یا جمعہ کے اجتماع دونوں میں‘ اختلاط کے امکان کو ختم کرنے کے بعد‘ خواتین کا شرکت کرنا‘ قرآن و سنت کے منشا و مدعا سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔

جہاں تک تیسرے پہلو کا تعلق ہے اللہ کے گھر میں جو بھی آتا ہے۔ عقل یہ بتاتی ہے کہ اس کا رخ اللہ کی بندگی اور اطاعت کی طرف ہوتا ہے۔ اب ہرمسجد کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ کس حد تک اس قلبی کیفیت کو مناسب نصیحت‘ ماحول اور سہولیات کے ذریعے دین میں رسوخ اور تقویٰ میں کمال کی طرف لے جاتے ہیں یا مسجد میں کسی تفریح گاہ کا سا ماحول پیدا کرکے اچھے خاصے بھلے انسانوں کو خطوات الشیطان کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کا منہج یہ رہا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی گاڑی کے دونوں پہیوں کو یکساں طور پر اللہ کی رضا کے حصول اور تقویٰ کے اعلیٰ مقامات تک لے جانے کے لیے ایسا ماحول فراہم کرتی ہیں جس میں تزکیۂ نفس‘ حبِ الٰہی‘ اطاعت رسولؐ  اور طہارت و حیا کا پورا خیال رکھا جائے اور مسجد میں قیام و رکوع و سجود کے ذریعے یہ ہر نمازی کو  رزم گاہِ حیات میں طاغوت‘ کفر و ظلم کے خلاف صف آرا ہونے اور حق و صداقت کے لیے سینہ سپر ہونے کے قابل بنا سکے۔

اگر مسلکی تعصبات سے بلند ہوکر غور کیا جائے تو مسجد نبویؐ کے نظام کو ہرمسجد میں رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی فتنے کے امکان کے خواتین کے لیے ایک حصے کو مخصوص کردیا جائے۔ مساجد کی تعمیر کے وقت اگر اس پہلو پر توجہ دے دی جائے تو ہم اُمت مسلمہ کے تزکیۂ نفس اور تربیت ِ اولاد کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے خواتین اور مردوں کے تعلق میں نمایاںا ضافہ کرسکتے ہیں۔ دینی حلقوں کا فرض ہے کہ وہ روایت پرستی سے نکل کر ان معاملات پر غور کریں۔ اگر خواتین حجاب اور شرم و حیا کے ساتھ زندگی کے بے شمار کام کرسکتی ہیں تو کس دلیل کی بنا پر وہ مسجد میں   اپنے رب کے نام کو بلند نہ کریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

اسلامی بنک کاری: چند ذہنی الجھنیں

سوال: آج کل ملک میں اسلامی بنک کاری کا بہت چرچا ہے اور ایک خاص مکتبۂ فکر کے ماہرین اسلامی بنک کاری کے لیے خوب محنت کر رہے ہیں‘ جب کہ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگ اس سلسلے میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ میں نے ایک بنک میں اسلامی بنک کاری کی وجہ سے ملازمت کی ہے مگر اب تھوڑے بہت مطالعے کے بعد دل مطمئن نہیں۔ اس لیے آپ کی خدمت میں چند سوالات پیش ہیں:

۱- کیا اسلام میں بنک کاری کا کوئی وجود ہے؟ میرے خیال میں بیت المال‘ قرض حسنہ‘ زکوٰۃ‘ صدقہ‘ خیرات کے واضح تصورات کی موجودگی میں لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا بنک کاری ضروری ہے۔ بالخصوص موجودہ اسلامی بنک کاری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

۲- کیا کچھ افراد نفع و نقصان کی بنیاد پر ضرورت مندوں کو قرض فراہم کرنے کا کام کرسکتے ہیں؟ کیا باقاعدہ کوئی ادارہ بنا کر ایسا کام ہوسکتا ہے؟

۳- موجودہ اسلامی بنکوں کی پراڈکٹس جن کے متعلق خود ان کے بنانے والوں کی راے ہے کہ یہ مکمل اسلامی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بنک کاری کی جانب ایک پیش رفت ہیں‘ کیا ان بنکوں میں ملازمت کرنا جائز ہے‘ جب کہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اسی کے   ہم پلّہ مجھے دوسری ملازمت بھی مل سکتی ہے؟

جواب: آج کی دنیا میں معاشی مسائل غیرمعمولی اہمیت اختیارکرگئے ہیں اور خصوصاً  بنک کاری سے متعلقہ مسائل اہلِ علم کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔ آپ نے تین بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور آغاز میں ایک تبصرہ بھی کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے متعلقہ افراد نے بنک کاری میں کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ  دو قائدین پروفیسر خورشیداحمد اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی طرف سے اسلامی معاشیات اور بنکنگ میں نئی فکر پیش کرنے پر ایوارڈ دیا گیا اور پروفیسر خورشید صاحب کو   شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ جماعت سے وابستہ افراد نے نہ صرف نظری کام کیا ہے بلکہ عملاً خیبربنک نے صوبہ سرحد میںاسلامی بنک کاری کا آغاز کیا ہے اور اس کام میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران براہِ راست حصہ لے رہے ہیں۔ پروفیسر خورشیدصاحب اس کے شریعہ بورڈ کے   سربراہ ہیں۔

آپ کے پہلے سوال کے سلسلے میں گزارش ہے کہ قرآن کریم ’قرض حسن‘ کی اصطلاح جس معنی میں استعمال کرتا ہے وہ غیرسودی قرض ہی ہے۔ یہ قرض اگر ایک فرد دے یا ایک ادارہ‘ دونوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل تجارتی سامان پر منافع میں شرکت اور منافع سے کمیشن کے اصول پر سیدہ خدیجہؓ کے کاروباری معاملات میں خود حصہ لیا اور بعد کے ادوار میں بھی اُمت میں  اس پر عمل ہوتا رہا۔ ایک غیرسودی بنک بھی اسی طرح تجارتی سامان کی فراہمی پر اپنا ایک مقررہ کمیشن لیتا ہے جو اس کی خدمات کا معاوضہ تصورکیا جائے گا۔

موجودہ اسلامی بنک کاری کے لیے ہر معروف بنک نے اپنا ایک شریعہ بورڈ بنایا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی شہرت کے ماہرین فقہ بنک کی پراڈکٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے اسلامی ہونے پر اپنی رائے دیتے ہیں‘ اور صرف وہ پراڈکٹس جاری کی جاتی ہیں جن کو بورڈ جائز قرار دیتا ہے۔

باہمی شراکت اور امداد باہمی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے افراد بھی مل کر ایسے ادارے بنا سکتے ہیں جو ضرورت مند افراد کو قرض فراہم کریں۔ ایسے ادارے اپنے شرکا کی رضامندی سے  جمع شدہ رقم کے ایک حصے کو غیرسودی کاروبار میں بھی لگاسکتے ہیں اور اُس سے حاصل ہونے والے   نفعے سے اداراتی ضروریات پوری کرنے کے بعد رقم کو متناسب طور پر شرکا میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

موجودہ اسلامی بنک کاری پر یہ اعتراض عموماً کیا جاتاہے کہ یہ مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے بلکہ اس جانب ایک قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اولاً: ایسے بنک موجود ہیں جو اپنے بارے میں مکمل طور پر اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے معاملات کو باقاعدگی سے فقہی ماہر جانچتے رہتے ہیں۔ لیکن فرض کرلیا جائے کہ دعوے کے باوجود یہ بنک مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کر پا رہے تو کیا ایسی صورت میں ایسے ادارے بند کر دیے جائیں‘ اور اس وقت تک انھیں دوبارہ نہ کھولا جائے جب تک وہ ہر ہرمعاملے میں مکمل طور پر شریعت کے اصولوں پر عمل کرنے کا ثبوت نہ پیش کر دیں؟

میرے خیال میں یہ کہنا تو بہت آسان ہے لیکن ایسے مثالی بنک کے وجود میں آنے تک جو لوگ حرام سے بچنا اور حلال پر عمل چاہتے ہیں وہ کیا کریں؟ اس لیے اس عبوری مدت (transitory period ) میں جس حد تک اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جا سکے اس کی کوشش کرنا چاہیے۔

رہا ملازمت کا معاملہ‘ تو اگر آپ کی تحقیق کی حد تک ایک بنک میں اسلامی اصول کارفرما ہیں تو محض گمان کی بنا پر اس سے علیحدگی کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔ اسلامی احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے اور جب تک وہ خرابی جس سے آپ پریشان ہیں واضح طور پر حرام نہ ہو‘ محض گمان کی بنا پر اسے حرام قرار دے لینا مناسب نہیں۔ اگر کسی ایسے اسلامی بنک کی ملازمت کے مقابلے میں ایک ایسی ملازمت مل سکتی ہے جس میں آپ کو حالیہ ملازمت سے زیادہ اطمینان ہو‘ تو اطمینان کی بنا پر آپ دوسری ملازمت شوق سے اختیار کرلیں تاکہ ذہنی خلجان سے نجات ملے‘ گو ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔

کسی بھی مروجہ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام لانا جو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہو    ایک طویل‘ منظم اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ مغرب کی   سیکولر ڈیموکریسی اسلامی نقطۂ نظر سے غیراسلامی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کواعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا لیکن اس غیراسلامی جمہوریت کو تبدیل کرنے کے لیے جو ذرائع ممکن ہیں ان میں فوجی انقلاب‘ خونی انقلاب اور جمہوری عمل کے ذریعے اسلامی نظام کا قیام‘ تین معروف طریقے ہیں۔ اگر جمہوری عمل کو اختیار کیا جائے تو ظاہر ہے اس عمل کے دوران کچھ عرصے کے لیے جمہوری اداروں میں شرکت کرنا ہوگی‘ جب کہ وہ اصولی طور پر لادینی نظام پر چل رہے ہوں گے۔      اس عبوری عرصے کے لیے اس برائی کو گوارا کیے بغیر تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوگا‘ الا یہ کہ ایک ایسا غیرخونی انقلاب برپا ہو جو ان اداروں کو راتوں رات تبدیل کردے۔

اسلامی انقلاب کے لیے جہاں ایسے افراد کار کی تیاری بنیادی شرط ہے جو مکمل طور پر اللہ کی بندگی اختیار کرچکے ہوں‘ وہاں ان افرادکا سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی میدانوں میں آگے بڑھ کر شرکت کرنا اور عبوری دور میں بھی اپنے کردار و عمل سے اعلیٰ سیرت کا مظاہرہ کرنا اس عمل کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام معاشرے اور اداروں سے کٹ کر اور باہر بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ تبدیلی کا راستہ بعض اوقات ایسے مقامات سے بھی گزرتا ہے جہاں بعض ناگوار حالات ہوں لیکن جب تک منزل‘ مقصد اور سمت درست ہو‘ ایسا کرنا ناگزیر ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)


مسئلۂ تقدیر

س: ایک شخص نے ایک عجیب اعتراض پیدا کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہرشخص کی موت کا وقت معیّن ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اقوامِ مغرب نے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور بیماریوں کی روک تھام کر کے اپنی عمروں کے اوسط میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی کرلی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر کا بڑھانا گھٹانا اور موت کو ٹالنا انسان کے بس میں ہے۔ اس بات کو واضح کریں کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے۔ آیا زندگی کی مدت اور موت کی گھڑی مقرر ہے یا اس میں ردّ و بدل انسان کے بس میں ہے؟

ج: آپ نے جو سوال کیا ہے وہ دراصل ایک بڑے اور بنیادی سوال کا جز ہے۔ وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کس حد تک تقدیر اور مشیت ِالٰہی کے تحت مجبور اور بے بس ہے اور کس حد تک اُسے ارادہ و عمل کی آزادی دی گئی ہے‘ اور کوشش سے نتائج مطلوب پیدا کرنا کس حد تک اس کے امکان میں ہیں؟ یہ سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب آسانی اور اختصار کے ساتھ اثبات یا نفی کی صورت میں دیا جاسکے۔ اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ انسان اپنی تقدیر کا خالق خود ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کے افعال اور نتائجِ افعال پر حاوی و مؤثر نہیں ہے تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔   انسان جب اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتا تو جو اعمال اس کے وجود سے صادر ہوتے ہیں‘ ان کا فاعلِ مختار آخر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ انسان مجبور محض ہے اور اختیار و آزادی سے قطعی محروم ہے تو یہ بات بھی صریحاً غلط اور خلافِ عقل و مشاہدہ ہے اور یہ دین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

حقیقت اِن دونوں انتہائوں کے بین بین ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص پہلو سے اور ایک خاص دائرے کے اندر انسانوں کو ایک حد تک آزادی حاصل ہے اور یہ آزادی انسان اور پوری کائنات کے خالق ہی کی عطا کردہ ہے۔ لیکن اس دائرے سے باہرجاکر انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے سارے اعمال اور ان کے نتائج آخرکار مشیت ِالٰہی کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انسان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی یا مجبوری کے حدود کو ناپنے کی کوشش کرے‘ یا یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا دماغ لڑائے کہ یہ جبرواختیار ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ انسان جب تک انسانی حدود میں مقید ہے اور جب تک وہ مخلوق کے بجاے خالق نہیں بن جاتا‘ اس وقت تک وہ اس پیچیدہ مسئلے کی تہہ اور کنہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ جس حد تک اُسے آزادی دی گئی ہے اس حد تک اُسے خالق کی رضا اور منشا کے مطابق استعمال کرے اور جن حدود سے آگے اُسے آزادی حاصل نہیں‘ وہاں وہ آزاد اور خودمختار ہونے کا ادّعا نہ کرے۔

اس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعد آپ عمر کے گھٹنے اور بڑھنے کے سوال پر خود غور کریں۔ یہ بات آخر کس کو معلوم ہے کہ خدا نے کس شخص کی موت کے لیے کون سا وقت مقرر کیا تھا‘ اور کسی خاص دور یا عہد میں کسی خاص قوم کی عمر کا اوسط اس نے کیا متعین فرمایا تھا؟ اگر اس کا علم کسی کو  نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ خودبخود بے معنی ہوجاتا ہے کہ خدا کے مقرر کیے ہوئے وقت پر فلاں شخص نہ مرسکا اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا۔ یہ سب دراصل بے عقلی کی باتیں ہیں جو بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو خدا نے علم اورعقل کی جو طاقتیں دی ہیں‘ انھیں استعمال کرکے ہم امراض کے علاج اور صحت کی حفاظت کے زیادہ سے زیادہ بہتر ذرائع مہیا کریں اور ان کے مہیا ہوجانے پر خدا کا شکر بجالائیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نہ کسی کو بیمار پڑنے دیتے اور نہ کسی کو مرنے دیتے۔ لیکن مرض یا موت کو بالکل روک دینے پر نہ کبھی قدیم زمانے کا انسان قادر تھا‘ نہ آج کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا معالج یا سائن ٹسٹ قادر ہوسکا ہے۔ (جسٹس ملک غلام علی‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۱۹۶۴ئ‘ ص ۶۲-۶۴)

روزہ: اِن ہیلر کے استعمال میں اختلاف

سوال: روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دو طرح کی آرا سامنے آتی ہیں۔ کچھ علما بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے علما کی راے یہ ہے کہ دوران روزہ اِن ہیلر کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ جب کہ سعودی عرب کے  علما کی راے میں اس کا استعمال جائز ہے اور روزہ نہیں ٹوٹتا  (ترجمان القرآن‘ جنوری ۲۰۰۱ئ)۔ ڈاکٹر صاحبان کی راے بھی یہی ہے کہ اس کے استعمال سے صرف پھیپھڑوں میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے جس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس اختلاف راے سے میں ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں۔ کیا کسی ایک متفقہ موقف پر ہم نہیں پہنچ سکتے‘ رہنمائی فرمایئے۔

جواب: آپ نے سعودی عرب کے علما کی راے اور فتویٰ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ وہ روزہ کے دوران اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کے بعض علما اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر آپ ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ صورت واقعہ یوں ہے کہ اِن ہیلر جیسے بہت سے معاملات میں نہ صرف علما بلکہ خود صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا لیکن ان میں سے کسی نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف اور صرف ان کی راے درست ہے اور باقی سب کی راے غلط ہے۔

دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ فقہی معاملات میں اپنے اندر ایک سے زائد تعبیرات کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا پورا احترام کرتے ہوئے امام مالکؒ نے ان کی بعض آرا سے اختلاف کیا‘ اور ان دونوں کا احترام کرتے ہوئے امام شافعیؒ نے دونوں کی رائے سے الگ راے قائم کی‘ جب کہ ان سب کی بنیاد قرآن و سنت کے واضح احکامات ہی تھے۔

اجتہادی اور قیاسی مسائل میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ جہاں تک اِن ہیلر کا تعلق ہے آپ نے خود یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ اس میں نہ کوئی غذا جسم میں داخل ہورہی ہے‘ نہ کوئی چیز نگلی یا پی جارہی ہے‘ جب کہ اس غبار سے جو مثل بھاپ ایک غبار ہے ایک مریض کے پھیپھڑے اسے سانس لینے میں سہولت فراہم کردیتے ہیں تو اس میں کون سا پہلو حرام کا نکلتا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے اِن ہیلر کے غبار میں کسی بے مزہ کیمیکل کی منتقلی ہوتی ہے‘ تو کیا روزے کے دوران وضو کرتے وقت جب کلی کی جاتی ہے تو زبان کے مسام اس سے تر نہیں ہوتے۔ چونکہ اس کا مقصد اور نیت زبان کو تر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے چوری کرنا نہیں ہے اس لیے ان چند قطروں کے زبان پر لگنے سے روزہ متاثر نہیں ہوتا۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر آپ سعودی عرب کے علم و تقویٰ پر اعتبار کرکے ایک عمل اختیار کررہے ہیں تو آپ صرف جس بات پر یقین رکھتے ہیں اور تحقیق کرنے کے بعد مطمئن ہیں اسی کے لیے جواب دہ ہیں۔

قرآن نے صاف حکم دیا ہے کہ مشورہ کرو اور جس پر مطمئن ہوجائو تو عزم کرنے کے بعد گومگو میں مبتلا نہ ہو۔ اگر آپ سعودی علما کی راے سے مطمئن نہیں ہیں تو جس کی بات پر یقین ہو‘ اور آپ نے تحقیق کر کے اس بات کو اختیار کیا ہو اسی پر قائم ہوجایئے۔ بال کی کھال اُتارنے میں نہ پڑیں‘ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کس کی راے زیادہ بہتر ہے‘ کوشش کریں کہ قرآن و حدیث کا براہ راست مطالعہ کریں اور فقہا جن بنیادوں پر غور کرنے کے بعد ایک راے قائم کرتے ہیں ان کے بارے میں ابتدائی معلومات ضرور حاصل کرلیں تاکہ اختلاف راے کو برداشت کرنے کی تربیت ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


نازیبا لباس کی سلائی پر مواخذہ

س: میرے شوہر کا کپڑوں کی سلائی کا یونٹ ہے جہاں پر وہ برآمد کے لیے مال تیار کرتے ہیں‘ مثلاً جیکٹ‘ ٹی شرٹ‘ ٹرائوزر وغیرہ۔ بعض اوقات لیڈیز آئٹم کا بھی آرڈر آجاتا ہے۔ میراسوال یہ ہے کہ کیا خواتین کے مختصر لباس سینا گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟ میرے شوہر کا کام صرف سلائی کی حد تک ہے‘ آگے فروخت کرنے کا کام نہیں ہے۔ کیا یہ کاروبارجائز ہے؟

ج: اکلِ حلال دین کے بنیادی مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے اور ایمان کے تحفظ و ترقی کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے سوال سے یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ الحمدللہ اس دورِ انحطاط میں بھی ہمارے معاشرے میں اللہ کے ایسے بندے موجود ہیں جو اپنے ہاتھ کی محنت کی کمائی کو حلال ذرائع سے حاصل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے خواہش مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو ہمیشہ اکلِ حلال کے حصول کی توفیق دے اور رزق میں   برکت دے۔ آمین!

جہاں تک کپڑوں کے سینے کے حوالے سے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اگر ایک شخص ملازمت کے حصول یا کسی کاروباری معاہدے سے پہلے شرائط میں یہ بات شامل کرلے کہ وہ کس قسم کے کام کرے گا اور کس قسم کے کام سے معذور سمجھا جائے‘ تو یہ اسلام کی روح کے عین مطابق ایک عمل ہوگا۔ لیکن اگر ملازمت اختیار کرتے وقت یا کاروباری معاملہ طے کرتے ہوئے ایسی کوئی شرط نہیں طے کی گئی اور کپڑوں کی سلائی کا مدت یا تعداد کے لحاظ سے ایک معاوضہ طے کرلیا گیا کہ اتنے دن کام کرنے پر‘ یا اتنی تعداد میں کپڑے سینے پر یہ ادایگی ہوگی تو اس شکل میں ایک کارکن کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں رہتا کہ وہ کپڑوں کے سینے میں اپنے انتخاب کی بنیاد پر کپڑے سیئے۔ اسے معاوضہ سینے کا مل رہا ہے‘ تراشنے یا کپڑوں کو کسی خاص طور پر ڈیزائن کرنے کا نہیں‘ اور نہ ان کپڑوں کے سلنے کے بعد استعمال میںاس کا کوئی دخل یا اختیار ہے۔

اگر ایک درزی ایک چست کپڑا سیتا ہے کیونکہ اسے تراشنے کے بعد جو کپڑا سینے کو دیا گیا اس کی شکل وغیرہ اس کے مشورے اور علم و نیت کے بغیر کسی اور نے کی ہے‘ اسے صرف اس کپڑے کو مشین کے ذریعے سینا ہے‘ تو گو وہ ایک چست قمیص سیتا ہے لیکن چست کپڑا پہننے کی معصیت میں اسے شریک تصور نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ایک فرد چست لباس پہننے کے باوجود اُوپر سے ایسا لباس پہن لے جس سے جسم کی نمایش نہ ہو۔ تاہم‘ یہ بہتر ہوگا کہ کوئی کاروباری معاہدہ کرتے ہوئے یا شرائط ملازمت کا تعین کرتے ہوئے پہلے سے یہ طے کرلیا جائے کہ کوئی نازیبا لباس نہ سیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ آپ کے کام یا کاروبار میں اللہ اتنی برکت دے گا کہ آپ کو کمی محسوس نہ ہوگی۔

خیال رہے کہ جو شخص خواتین کے لیے ایسے لباس ڈیزائن کرتا ہے جس سے عریانیت کا فروغ ہو‘ وہ لازمی طور پر معصیت میں شریک تصور کیا جائے گا۔ عالمی شہرت کے بہت سے فیشن ایجاد کرنے والے ادارے اور افراد جو عریاں لباس ڈیزائن کرتے ہیں‘ یا جو اخبارات اور ٹی وی  نیٹ ورک پر ایسے لباسوں کی نمایش کرتے ہیں‘ یا جو ماہرین ایسے لباسوں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں‘ وہ سب معصیت میں برابرکے شریک تصور کیے جائیں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ا-ا)

تعلیم و تربیت میں خاکوں اور کارٹون کا استعمال

سوال: احادیث میں جان دار اشیا کی مصوری کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے‘ مگر تصویر‘ فوٹوگرافی‘ وڈیو کیمرے آج کل کے دور کا لوازمہ بن گئے ہیں۔ بالغ حضرات کی بات تو ایک طرف‘ بچوں کو لغویات اور فضولیات سے بچانے کے لیے اور ان کی شخصیت میں مثبت عادات کو فروغ دینے کے لیے مطالعے کی عادت ڈالنے اور کہانیوں اور واقعات کے ذریعے سے انھیں مختلف باتیں سمجھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رنگ و روشنی سے بھری یہ دنیا‘ جس میں ہم رہتے ہیں‘ بچہ سفید اور کالی کتابوں کو اٹھانا تک نہیں چاہتا۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ سوالات اُبھرتے ہیں۔

۴ - ۱۰ سال کی عمر کے بچوں کے لیے مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کون سی درست ہے: کتاب میں کوئی تصویر نہ ہو‘ بچوں کو باور کرایا جائے کہ مسلمان بچہ بس یہی کتابیں پڑھ سکتا ہے؟ تصویریں تو دی جائیں مگر چہرے کو پوری طرح نہ دکھایا جائے اور حتی المقدور انسانی شکل دینے سے گریز کیا جائے‘ یعنی اطراف سے یا پشت سے تصویر دی جائے یا تصاویر بنانے کی پوری پوری آزادی حاصل ہو؟

سوال یہ ہے کہ اگر کتاب میں کوئی تصویر بھی نہ ہو اور نصیحت بھی ہو‘ ساتھ میں بہت سے دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوئوں کو نظر میں رکھ کر کتاب لکھی جائے‘ توکیا وہ خشک اور سادہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکے گی؟ اگر دوسری شکل کو اختیار کیا جائے تو برابر دل میں کھٹک رہتی ہے کہ مصور کے لیے سخت ترین عذاب والی وعید کو سامنے رکھا جائے یا پھر حضرت عائشہؓ کے گھوڑے کے پروں والی حدیث اور گڑیوں کے ساتھ کھیلنے والی احادیث کو اختیار کیا جائے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کارٹونوں کے کردار جو اب بچوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں‘ وہ کلیتاً غلط ہیں یا پھر ان میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟ غلط کہنے والے اس کی  یہ دلیل لاتے ہیں کہ کیا آپ اللہ کی تخلیق کے مقابلے میں اپنی تخلیق پیش کر رہے ہیں؟ درست کہنے والے یہ حجت قائم کرتے ہیں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مماثلت کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ہمارے لیے اس تناظر میں کیاہدایت ہے؟ مثلاً اگر بچوں کو گندی اور غلیظ چیزوں سے بچانے کے لیے جرثومے کی کارٹون شکل بنائی جائے تو کیسا ہے؟ عہدحاضر کے تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی فرمایئے۔

جواب: مصوری‘ فوٹوگرافی‘وڈیو کیمرے سے تصویر محفوظ کرنا یا موبائل فون پر متحرک یا ساکن شبیہہ کا محفوظ کرنا کہاں تک مباح ہے‘ عصری مسائل میں سے یہ ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے جس کا تعلق براہِ راست ان اصلاحات کی عام فہم اور فنی تعریف سے ہے۔ عام فہم انداز میں   مندرجہ بالا تمام صورتوں کو فوٹوگرافی کہا جا سکتا ہے لیکن فنی طور پر ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ    ایک الگ حیثیت کی حامل ہے۔ سورۂ سبا میں جس مقام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے تماثیل کاذکر آیا ہے اس کی جو تشریح مفسرین اور فقہا نے کی ہے‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جان دار   اشیا کی تصویرکشی حرام ہے خواہ مصوری کے ذریعے ہو یا مجسمہ سازی کے ذریعے‘ لیکن غیر جان دار اشیا کی تصویر بنانا حرام نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لیے رنگوں اور خاکوں (sketch یا caricatures) کا استعمال کیا تصویر کی تعریف میں آئے گا‘ یا تدریسی و تعلیمی ذرائع کی حیثیت سے اس پر غور کیا جائے گا؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ نبی کریمؐ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گڑیوں کے استعمال کی اجازت دی‘ اس لیے اسی پر قیاس کرتے ہوئے مسلم سائنس دانوں اور طلبہ نے تشریح الابدان کے زیرعنوان اپنی تحقیقات کو جابجا ایسے خاکوں سے مزین کیا ہے جو اعضاے انسانی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً شمس الدین العناقی اور دیگر اطّباکی تصنیفات۔

تعلیم و تدریس کے حوالے سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شے یا تصور کو متعارف کرانے کے لیے اس کو طلبہ کے سامنے لاکھڑا کرنا ضروری ہوگا‘ یا اس شے کی شبیہہ سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر شعبۂ طب کی تعلیم کے حوالے سے اگر قلب و دماغ کی شناخت اور عمل کو سمجھانے کے لیے یا ہاتھ اور ٹانگ کے جوڑ کے حرکت کرنے کو سمجھانا ہو تو کسی انسان کو    طلبہ کے سامنے لاکر اس کے جسم پر نشتر چلا کر جسم کے عضلات اور جوڑوں کو دکھایا جائے‘ یا کمپیوٹر کی مدد سے متحرک تصویر کشی (animation )کرکے نہ صرف ظاہری شکل بلکہ اس کے اندر کے ریشے اور جوڑ دکھا کر اعضا سے آگاہ کیا جائے‘ یا محض نظری طور پر بغیر کسی خاکے اور شبیہہ کے صرف الفاظ کی مدد سے یہ سمجھا دیا جائے کہ قلب اس طرح حرکت کرتا ہے۔ اس میں اتنے خانے ہوتے ہیں‘ اتنے والو (valve) ہوتے ہیں‘ اور پٹھے بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوتے ہیں وغیرہ۔

شریعت اسلامی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد جان کا تحفظ و بقا ہے اور اگر     اس مقصد کے لیے قلب ودماغ کی شبیہہ بناکر‘ یا متحرک تصویر کشی کے لیے سہ ابعادہ (three dimensional) شکل دکھا کر تعلیم دینے سے شریعت کا منشا پورا ہوتا ہو اور انسانی جان کے تحفظ میں زیادہ کامیابی کا امکان ہو‘ تو شریعت اس اعلیٰ تر مقصد کے لیے اس عمل کو مباح ہی قرار دے گی۔

اگر ۳-۴ سال کے بچوں کو رنگوں میں فرق کرنا اور اشیا کی ساخت کے بارے میں پہچان پیدا کرنے کے لیے گول اور چوکور کے تصور کو سمجھانا ہو تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ تربوز‘ خربوزہ یا      موسمی مالٹے یا فٹ بال کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے‘ اور سرخ‘ عنابی اور گلابی رنگ کی پہچان فلسفیانہ طور پر نظری گفتگو کے بجاے ان رنگوں کی اشیا یا ان کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے کہ سیب سرخ ہوتا ہے اور گلاب گلابی یا عناب عنابی اور جامن جامنی رنگ کی ہوتی ہے۔

اگر تاریخی حوالے سے یہ بتانا مقصود ہو کہ عاد و ثمود نے کتنی ترقی کی تھی اور ان کے  اخلاقی زوال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں کس طرح عذاب دے کر تباہ کر دیا‘ تو قوموں کے عروج وزوال پر ایک فلسفیانہ گفتگو جو کام کرسکتی ہے اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ ان کے محلات کے کھنڈرات کی شبیہہ دکھا کر تحریری یا زبانی طور پر یہ بات کہی جائے کہ وہ پہاڑوں کو کس طرح تراش کر گھر بناتے تھے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے تمام بچوں کو جسمانی طور پر عاد و ثمود کے علاقے میں لے جا کر کھنڈرات دکھائے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاً ایسا کرنا کہاں تک ممکن ہوگا۔

اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی بھی ذی فہم شخص یہ نہیں کہے گا کہ اگر دو کوہان والے اُونٹ کا ذکر کسی قصے میں آ رہا ہو تو قصے کو روک کر بچوں کو چڑیا گھر لے جائیں اور وہاں دو کوہان والے اُونٹ دکھائیں پھر سبق کی تکمیل کریں۔ اس کے مقابلے میں اس کی شبیہہ دکھانا نہ صرف اس کی شکل کی وضاحت کر دے گا بلکہ وقت اور مال کے بے جا استعمال سے بھی بچائے گا۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ محترم مولانا مودودیؒ مرحوم نے تفہیم القرآن میں نہ صرف نقشے بلکہ ان مقامات کی تصاویر بھی تفسیر میں شامل کی ہیں جو عاد و ثمود اور دیگر اقوام کے حوالے سے قرآن کے قانون اور عروج و زوال کے تصورات کی وضاحت اور تفہیم کے لیے ضروری تھے۔

آپ کے سوالات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خاکوں میں کس حد تک وضاحت کی جاسکتی ہے؟ میرے خیال میں اس کا تعلق بھی اس چیزسے ہے کہ خاکوں کے ذریعے کن تصورات کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اگر ایک گول دائرہ بناکر جس پر دو نقطے بطور آنکھوں کے لگے ہوں اور ایک لکیر منہ یا دہانے کی جگہ بنی ہو تو آپ اسے مسکراتا ہواچہرہ قرار دیں‘ اور اسی دائرے میں اگر دو نقطوں کا اضافہ کردیا جائے تو اس طرح آنسوئوں اور رونے کو ظاہر کیا جائے تو مکمل گول چہرے کی مماثلت     اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کسی انسانی شکل کے ساتھ نہیں ہوگی۔ میری دانست میں کوئی انسانی چہرہ    فٹ بال کی طرح گول یا ایک مربع کی طرح چوکور نہیں ہوتا کہ اسے خالق کی مخلوق سے مماثل کیا جاسکے۔ گویا خاکہ نہ تصویر کی تعریف میں آئے گا اور نہ اسے خالق کی مصوری یا خلاقیت کے ساتھ  کسی بھی نوعیت کا مقابلہ کہا جاسکے گا۔

جہاں تک وڈیو یا مائیکروچپ پرکسی شبیہہ کو محفوظ کرنا ہے وہ دراصل اشاروں (signals) کی شکل میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی تصویر لکیر سے کھینچے ہوئے اپنے خدوخال کی شکل میں وجود میں نہیں آتی‘ اور نہ اس شکل میں محفوظ ہوتی ہے۔ وڈیو میں مقناطیسی طور پر ذرات اور اشاروں میں ترتیب پیدا ہونے سے ناظرین ٹیوب کی مدد سے تین زاویوں سے شبیہہ دیکھتے ہیں جس کا کوئی مستقل وجود نہیںہوتا۔ اس لیے یہ بھی تصویرکشی کی تعریف میں نہیں آتا۔

دوسری جانب میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سے تصورات کوسمجھانے کے لیے خاکوں اور شبیہہ کا استعمال بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے خصوصاً بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس کا استعمال   تعلیمی حکمت عملی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے خاکے جوذہن کو عریانیت یا فحاشی کی طرف لے جانے والے ہوں‘ خاکے ہونے کے باوجود حرام قرار پائیں گے۔ اس پوری گفتگو میں ہم نے اس بات سے بحث نہیں کی کہ شبیہہ والے پردے یا پایدان کا استعمال کرنا درست ہے یا غلط‘ بلکہ تعلیمی و تدریسی ضرورت کے حوالے سے اسلام کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

عملی طور پر دیکھا جائے تو بعض معروف اسلامی ادارے اس تصور تدریس پرعمل پیرا ہیں‘ مثلاً اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘ برطانیہ نے بچوں کے لیے جو نصابی اور تدریسی کتب طبع کی ہیں‘ وہ خاکوں سے مزین ہیں۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب تک ایک تدریسی عمل خاکوں   کے ذریعے صحت مند ذہن‘ اللہ کا خوف رکھنے والا دل اور نگاہ پیدا کرتا ہے اور بچوں کے ذہن سے   شرک و بت پرستی کے تصورات کو رفع کرتا ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں انفرادیت قائم  رکھتے ہوئے ایسی کتب طبع کرنا چاہییں جو دوسروں کے لیے مثال بنیں۔ وہ رجحان ساز    (trend setter) ہوں اور یہ ثابت کرسکیں کہ بغیر کسی عریانیت یا فحاشی کے خاکوں کا اصلاحی و تعمیری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


جانوروں یا تخیلاتی کردار پر مبنی کہانیاں

س: ہم بیٹھک اسکول پروگرام کے تحت غریب بچوں کے لیے پس ماندہ آبادیوں میں اسکول کھول کر ان کی تعلیم و تربیت کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کے حوالے سے ہی صحت و صفائی کا پروگرام بھی ترتیب دیا ہے۔ اس سلسلے کا ایک حصہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں ہیں جو دل چسپ انداز سے صحت و صفائی کی تربیت کرتی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ براہ راست خشک طریقے سے نصیحت کا انداز اختیار کرنے کے بجاے مومو (بھالو) کے دل چسپ کردار کے ذریعے کچھ باتیں بچوں کو سکھا دی جائیں۔ ہمارے ہاں یہ ادبی روایت بھی رہی ہے کہ بزرگوں کے کردار کے ساتھ ساتھ بکری، بلی، ریچھ اور دیگر کرداروں پر کہانیاں لکھی جائیں۔ اب‘ جب کہ ہم ان کہانیوں کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں تو مناسب محسوس ہو اکہ بھالو کے اس کردار پر راے لے لیں کہ اس طرح کے کردار یا تخیلاتی کہانی بنانا دینی نقطئہ نظر سے نامناسب تو نہیں ہے؟

ج: بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا بڑوں کی‘ اس میں اسکیچ یا خاکے کا استعمال میری معلومات کی حد تک طب اور کیمیا کی کتب میں ہمارے علما و فقہا نے کیاہے۔ اگر بچوں کو اسلامی آداب و تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے گھریلو جان داروں یا پرندوں کے خاکے بنا کر کہانیوں کی شکل میں بات ذہن نشین کرنا زیادہ آسان ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔

عام مشاہدہ ہے کہ تعلیمی حکمت عملی میں جدت اور دل چسپی کے لیے جدید ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ان میں عریانی و فحاشی کا کوئی عنصر نہ ہواور وہ خاکے اخلاقی تعلیمات کو بہتر طور پر سمجھانے میں مدد گار ہوں تو ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ گھریلو جان داروں خصوصاً بلی کے حوالے سے انتہائی دل چسپ‘ سبق آموز اور بچوں کی عادتوں کو درست کرنے والی کہانیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ بچے چونکہ بلی یا چڑیا‘ کبوتر‘ طوطے‘ گھوڑے کو زیادہ تواتر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے اس حوالے سے کہانی بھی زیادہ توجہ سے پڑھیں گے۔ مومو اچھا کردار ہے لیکن اس سے واقف ہونے کے لیے یا تو چڑیا گھر جانا ہوگا یا بھالو والے کے گلی میں آکر تماشا کرنے کا انتظار۔

بچوں کے لیے کردار بنانے میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جو کردار بھی پیش کیا جا رہا ہو وہ حقائق سے قریب تر ہو۔ اگر صفائی بنیادی مضمون ہے تو شاید بلی کے حوالے سے یہ بات زیادہ حقیقت سے قریب ہوگی۔ ممکن ہے بعض بھالو بھی ایسی عادت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کہانی میں لڑکی کے لباس اور وضع قطع پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں بچپن  ہی سے جو خاکے بچے دیکھتے رہتے ہیں‘ وہ ان کی یادداشت کا حصہ بنتے ہیں۔ دو چوٹیاں بنانا بہت اچھی بات ہے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے‘ لیکن تعلیمی نقطۂ نظر سے بچی کے خاکے میں اسکارف ہونا چاہیے تھا تاکہ اس کے بال چھپے ہوں۔ (۱- ۱)

وقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت

سوال: سعودی عرب میں ہماری ایک دکان ہے۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے مخالفوں میں سے ہیں۔ یہاں انھوں نے میرے اوقاتِ کار اتنے سخت رکھے ہیں کہ ۱۸ سے ۲۰ گھنٹے تک مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کیا کہ میں تحریک کے لیے الگ سے وقت نہ نکال پائوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت اور صلاحیتوں کی  تقسیم کار کے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ مزید یہ کہ ایسے کسب معاش کے ساتھ جو وقت اور صلاحیتوں کے مکمل انہماک کا تقاضا کرتا ہو‘ اسلام کے جملہ احکامات خصوصاً دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق‘ تحریکی‘ تنظیمی و عائلی ذمہ داریاں  بہتر انداز سے کیسے ادا کی جاسکتی ہیں؟

جواب: قرآن وسنت نے انسان کی دنیاوی زندگی کو ایک مہلت‘ فرصت اور قلیل الوقت قیام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تینوں الفاظ وقت کے صحیح استعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ احادیث میں مزید وضاحت سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یوم الحساب ایک بندۂ مومن سے دریافت کیا جائے گا کہ اس نے اپنی جوانی کس کام میں صرف کی‘ اپنا مال کس کام میں لگایا وغیرہ۔ قرآن کریم زمانے کی قسم کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ انسان خسارے میں ہے جو ایمان نہیں لایا‘ نہ عمل صالح کیا۔ یہاں بھی وقت کو ایک قیمتی اثاثہ‘ ایک دولت اور ایک نعمت قرار دیا گیا ہے جس کا صحیح استعمال کامیابی اور فلاح و فوز کا باعث بن سکتا ہے اور ضیاع‘ خسارے اور شرمندگی کا سبب بن سکتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے جو کتابًا موقوتا کہا ہے‘ اس میں وقت کے تعین اور exactness کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز کو اس کے صحیح وقت پر ادا کرنے کے ذریعے پابندیِ وقت اور تنظیمِ وقت (time management )کی عادت ڈالی جائے۔ اس لیے وقت کم ہو یا زیادہ‘ انسان اس کے لیے مکمل طور پر جواب دہ ہے۔

دوسری بات جس کی آپ نے وضاحت چاہی ہے اس کا تعلق صلاحیت سے ہے۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے بہت سے مقامات پر ہمیں متوجہ کیا ہے‘ مثلاً حضرت یوسف ؑ اپنی صلاحیت کے حوالے سے ایک عظیم اور مکمل ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ قرآن کسی فرد کے منصب پر فائز کیے جانے کے لیے اہلیت کو شرط قرار دیتا ہے۔ بعض دینی فرائض کی ادایگی کے لیے استطاعت کا پایا جانا بھی صلاحیت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو تحریر‘ تقریر‘ تنظیم یا کسی بھی صلاحیت سے نوازا ہے تو اللہ کے حضور اسے اپنے وقت کے ساتھ اس صلاحیت کے حوالے سے بھی جواب دہی کرنا ہوگی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی صلاحیت کے پیدا کیا ہے‘ اس لیے کسی نہ کسی حیثیت سے ہر فرد اللہ کی دی ہوئی صلاحیت کی بنا پر‘ چاہے وہ فکری ہو یا عملی‘ جواب دہ ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صلاحیت کی دریافت اور اس کا نشووارتقا اور صحیح استعمال باہم مربوط ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی حیثیت سے دوسروں سے مختلف صلاحیت نہ دی ہو‘ حتیٰ کہ ایک باضابطہ طور پر غیرتعلیم یافتہ شخص بھی ایسی بہت سی صلاحیتیں رکھتا ہے جو شاید ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص میں نہ پائی جاتی ہوں۔

صلاحیت کی دریافت اور قرآن و سنت کی ہدایات کی روشنی میں اس کے استعمال کا نام عرفانِ نفس ہے۔ اس حوالے سے ہر مومن مرد اور عورت کو جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن کن نعمتوں سے نوازا ہے اور کیا وہ ان نعمتوں کو جھٹلا تو نہیں رہا جیساکہ سورہ رحمن میں بار بار ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر اگر ادا کیا جاسکتا ہے تو صرف اور صرف حسنِ عمل اور اتقان کا رویہ اختیار کر کے ہی کیا جاسکتا ہے (ھل جزاء الاحسان الا الاحسان)۔

کسب معاش کے بارے میں یہ خیال کہ یہ ایک دنیاوی عمل ہے اور دعوت و تبلیغ ایک دینی عمل‘ مناسب نہیں۔ کسب معاش اگر اسلامی اصولوں پر کیا جارہا ہے تو وہ بھی دعوت کا ایک عملی ذریعہ بن سکتا ہے اور صلاحیت کے انحطاط کا باعث نہیں بنے گا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب فکر پر تحریک اور دعوتِ حق غالب ہو اور کسب معاش کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کی لگن دل میں ہو۔

آپ نے لکھا ہے کہ والد صاحب نے جماعت کی سرگرمیوں سے دُور رکھنے کے لیے آپ کے اوقات کار ایسے رکھے ہیںکہ آپ تحریکی کام کے لیے وقت نہ نکال سکیں۔ اس سلسلے میں ایک تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ان کے دل میں دین کی دعوت دینے والوں کے لیے نرمی اور گنجایش پیدا کرے‘ دوسرے‘ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے اسی چیز کا حساب لے گا جو اس کے اختیار میں ہو۔ نہ وہ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے اور نہ کسی سے اس کی قوت و اختیار سے باہر چیز کے بارے میں جواب طلبی کرتا ہے۔ ہاں‘ جو وقت بھی آپ کے پاس ہے اس کی جواب دہی لازمی ہے۔ چنانچہ کوشش کیجیے کہ جو وقت آپ کے اپنے تصرف میں ہے اس کا صحیح استعمال ہوسکے۔

دکان پر جو گاہک آتے ہیں ان کے ساتھ آپ کی گفتگو‘ آپ کا طرزعمل‘ انھیں مناسب اشیا‘ مناسب قیمت پر دینا اور اشیا فروخت کرتے وقت مناسب انداز میں ایک آدھ کلمۂ خیر کہہ دینا بھی دعوت ہے۔ اگر آپ چاہیں توکچھ پمفلٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو گاہکوں کو مفت دے دیے جائیں۔ بعض اداروں نے محترم سید مودودیؒ اور جماعت کے دیگر صاحبِ فکر افراد کے مضامین‘ ترجمان القرآن کے اداریے اور بعض مضامین پمفلٹ کی شکل میں جمع کیے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کچھ منتخب پمفلٹ اپنے گاہکوں کو پڑھنے کو دیں تو یہ بھی دعوت کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

نماز کے اوقات میں مسجد جاتے وقت آپ اس طرح کے پمفلٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ اگر گاہک انگریزی خواں ہوں تو انگلش لٹریچر مطالعے کے لیے دیا جاسکتا ہے۔ آپ دکان پر فروخت کے لیے ایسی چیزیں بھی رکھ سکتے ہیں جو خود دکان کی دیگر اشیا کی طرح نفع کے ساتھ فروخت ہوسکیں‘ مثلاً سی ڈی پر قرآن کریم کا متن و ترجمہ وغیرہ۔ اگر دیگر اشیا فروخت کی جاسکتی ہیں تو لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر اسلامی اشیا کو بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہہ دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق اور دیگر تحریکی ذمہ داریوں کا پورا کرنا بجاے خود اللہ کا شکرادا کرنے ‘ اس کا ذکر کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کے واضح ذرائع ہیں‘ لیکن جیسا پہلے عرض کیا گیا کہ مالک دکان کی مزاحمت کے باوجوداگر آپ دورانِ کاروبار اپنے ذہن کو استعمال کر کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ گاہک نہ صرف سامان خریدیں بلکہ آپ کی جانب سے ایک پیغام بھی ساتھ لے کر جائیں تو یہ کاروبار خود دعوت و جہاد کی ایک شکل بن سکتا ہے اور اس کاروبار کے ذریعے بھی آپ خدمت خلق کرسکتے ہیں۔

گھر بھی ایک اہم اور بنیادی تحریکی محاذ ہے۔ قرآن نے اسی لیے کہا ہے: قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم ۶۶:۶) ، یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔  اس لیے دنیا بھر کے لوگوں کو دعوتِ حق دینا اور اہلِ خانہ کا حق مارلینا ‘نہ عدل ہے نہ تحریک کا مدعا۔ تحریکی دعوت کی بنیادوں میں اصلاحِ فرد کے بعد اصلاحِ خاندان اہم جزو ہے اور اسی کی بنیاد پر اصلاحِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار کی طرف سفر کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے اپنی تمام تر معاشی سرگرمیوں کے باوجود اہلِ خانہ کے لیے وقت ضرور نکالیے‘ چاہے ان کے ساتھ کھانے کی نشست ہی کیوں نہ ہو۔ اس باہمی ملاقات اور گفتگو کے دوران کوئی نہ کوئی مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے کہ باہمی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں اور دلوں پر پڑے تالے کھل جاتے ہیں۔

اگر وقت‘ صلاحیتوں‘ تقسیم کار اور دعوت کے حوالے سے مذکورہ بالا امور کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو حکمت اور توازن و اعتدال کے ساتھ بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

اضافی کام کے بدلے ٹی اے ‘ڈی اے وصول کرنا

سوال: الحمدللہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہے۔ اکثر وزرا معیّن سرکاری اوقات سے زیادہ وقت سرکاری اور عوامی امور کی انجام دہی میں گزارتے ہیں‘ یعنی سرکاری اوقات کار تو صبح ۸بجے سے ۳۰:۲ بجے دوپہر تک ہیں لیکن وزرا اور ان کا ماتحت عملہ بالعموم مغرب اور رات گئے تک دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے۔ وزرا کے ساتھ کام کرنے والے ماتحت عملے کو سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں کام کرنے کا کوئی اضافی معاوضہ یا مشاہرہ نہیں ملتا۔ وزرا کا ماتحت عملہ اس اضافی ڈیوٹی کے لیے عموماً وزرا کے دورہ جات کا ٹی اے‘ ڈی اے وصول کرتا ہے‘ یعنی اگر کوئی وزیرپشاور سے باہر کے کسی شہر یا علاقے کا دورہ کرتا ہے تو اس دورے کا ٹی اے‘     ڈی اے‘ وزیر کے دفتر کا ماتحت تمام عملہ یہ ظاہرکرکے وصول کرتا ہے کہ متعلقہ اہل کار بھی اس دورے میں متعلقہ وزیر کے ہمراہ تھا‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عملہ اُس دورے کا ٹی اے‘ ڈی اے بالعموم وصول کرتا ہے جو دورہ وزیر نے کیا ہوتا ہے‘ یعنی غیرحقیقی یا جھوٹے کلیم بالعموم نہیں کیے جاتے۔ راقم کو اس حوالے سے مکمل اطمینان نہیں ہے۔ ایک عملی دشواری یہ بھی ہے کہ اگر مذکورہ بالا  ٹی اے‘ ڈی اے اضافی اوقات میں کام کرنے والے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا تو اس کی بندش سے عین ممکن ہے کہ اکثر ماتحت عملہ اضافی اوقات کے کام سے ہاتھ کھینچ لے جس سے یقینا ایک بڑی بدانتظامی پیدا ہوسکتی ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ سے شریعت کی رو سے وضاحت مطلوب ہے کہ کیا ہم اس ٹی اے‘ ڈی اے کے حق دار ہیں یا نہیں ہیں؟

جواب: آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے اس کے مطابق وزرا کا ماتحت عملہ جو اُن کے ساتھ اضافی وقت دیتا ہے‘ سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں بلامعاوضہ کام کرتا ہے‘وہ اس کی تلافی اس شکل میں کرتا ہے کہ متعلقہ وزیر کے ساتھ دورے پر نہ ہونے کے باوجود‘ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وزیر کے ساتھ دورے پر تھااور دورے پر اپنے آپ کو ظاہر کرکے ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرتا ہے۔ زائد وقت کا بدل مذکورہ صورت میں حاصل کرتا ہے مگر عملاً صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس طرح جھوٹ بولنے اور جھوٹا بدل لینے کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ شریعت میں جھوٹ کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی ہے کہ اپنا جائز حق وصول کرنے میں کمزوری کا مظاہرہ جُبن، یعنی بزدلی دکھانا ہے۔

آدمی اپنے حق پرقدرت پانے کے بعد اسے چھوڑ دے تو یہ کمال اخلاق کا ہے لیکن اگر آدمی اپنے حق کے حاصل کرنے پر قدرت ہی نہ حاصل کرسکے تو یہ ایک عیب ہے اور اس کی وجہ سے آدمی کی حیثیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے وزرا کے ماتحت عملے کو چاہیے کہ زائد وقت کے معاوضے کا مطالبہ کرے اور جس قدر معاوضہ بنتا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کو ادا کرے___ خصوصاً‘ جب کہ سرحد کی صوبائی حکومت اپنے صوبے کو ماڈل اسلامی صوبہ بنانے کی دعوے دار ہے۔ حکومت کے لیے بھی یہ نادر موقع ہے کہ اگر اس سلسلے میں قانون موجود ہے تو اس پر عمل درآمد کرے‘ اور اگر قانون موجود نہیں تو قانون سازی کرے تاکہ لوگوں کو ان کا قانونی حق حاصل کرنے میں سہولت ہو۔

ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرنے کی موجودہ شکل میں تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور اصل حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ گناہ اسی کو کہا جاتا ہے کہ آدمی اسے چھپاکر کرے یعنی لوگوں کے سامنے اس کو علانیہ طور پر نہ کرسکے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کی نشانی پوچھی گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’نیکی حسنِ اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جس سے تیرے ضمیر میں خلجان پیدا ہو اور آپ لوگوں کے سامنے اس کے اظہار کو ناپسند کریں‘‘ (مشکٰوۃ)۔ لہٰذا موجودہ شکل کو فوری طور پر ترک کرکے جائز اور معقول طریقے کو اپنایا جائے اور اپنے حق کے لیے پوری قوت سے آواز بلندکرکے اسے قانونی طور پر حاصل کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


تلاوتِ قرآن گانے کی طرز پر

س: ایک حدیث میں قربِ قیامت کی تقریباً ۷۰ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ قیامت کے قریب قرآنی آیات کو گا کر‘ یا لَے (tone) میں‘ یعنی غنائیہ طرز پر پڑھا جائے گا‘ گویا اس کی مخصوص تلاوت یا قرأت سے ہٹ کر۔ میرے پاس ایک کیسٹ ہے جس میں بچوں کے لیے بہت اچھی تربیتی نظمیں ہیں جو دف کے ساتھ گائی گئی ہیں۔ ایک نظم میں ’بسم اللہ ‘اورسورئہ فاتحہ کی پہلی آیت کو لَے سے پڑھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظم میں تکبیر کو سبحان اللہ‘ والحمدللہ‘ واللہ اکبر‘ اور پہلے کلمے کو بھی لَے سے پڑھا گیا ہے۔ کیا ان تمام نظموں کا سننایا یاد کروانا صحیح ہے یا ان سے گریز کرنا چاہیے؟

ج: قرآن پاک کو تجوید اور خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہیے کہ یہ سنت ہے۔ گانے کی طرز پر پڑھنا اور گانے کی لَے میں تلاوت کرنا‘ یعنی غنائیہ طرز پر‘ یہ قرآن پاک کی شان کے منافی ہے۔ قرآن پاک کا اپنا لہجہ ہے‘ حجازی‘ مصری‘ پانی پتی اوردوسرے مروجہ لہجے‘ انھی کے مطابق قرآن پاک کو پڑھنا چاہیے۔ اس طرح دوسرے اذکار اور تسبیحات کو بھی وقار اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ قرآن پاک کی تلاوت اس احساس اور تصور کے ساتھ کی جائے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو میری زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے اور اس تصور کے وقت آدمی تمام مصنوعی چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ گانا ہو یاکوئی دوسری بناوٹ‘ وہ ایک مومن کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ اس پر خشوع وخضوع طاری ہوتا ہے اور وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو رب تعالیٰ کے مشاہدے یا مراقبے کے تصور سے طاری ہونی چاہیے۔ گانے کی طرز کے ساتھ تلاوت کرنا یا تسبیحات پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت کے قریب گناہوںکی کثرت ہوگی۔ گناہ کائنات کی بیماری ہیں جس طرح موت سے پہلے انسان بیماریوں کی زد میں آتا ہے اور بیماری انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور آدمی لاعلاج ہوجاتا ہے تو موت آجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت اس وقت برپا ہوگی جب شرک‘ کفر‘ فسق و فجور‘ ناجائز اور غلط کاموں کی انتہا ہوجائے گی۔

حدیث میں آتا ہے کہ ’’قیامت کے قریب ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے ایمان والے سب کے سب فوت ہوجائیں گے‘ اس کے بعد بدترین لوگ زمین پر رہ جائیں گے۔ تب ان بدترین لوگوں پر قیامت برپا ہوگی‘‘۔ جو لوگ نیکی اور تقویٰ سے سرشار اور اس کے داعی ہیں وہ اس کائنات کی زندگی ہیں‘ اور جو فاسق و فاجر اوربدکردار ہیں‘ ظالم و جابر ہیں وہ کائنات کی موت ہیں۔ (ع - م)


اسماے حسنیٰ کا ذکر اور توکّل

س: اسماے حسنیٰ مبارک الفاظ ہیں جن کی فضیلت بھی ہے اور برکت بھی لیکن ایک خاص اسم کو پابندی کے ساتھ پڑھنا غلو کہلاتاہے۔ آج کل مختلف جرائد‘ اخبارات اور کتب میں مختلف مسائل کے حل کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کوئی خاص اسم الٰہی اتنی بار اتنے وقت کے لیے پڑھیں تو آپ کا فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا غلو میں شامل ہے‘ جب کہ احادیث میں بیماری کے لیے سورۃ الفاتحہ کا دم کرنا ثابت ہے؟

ج: اللہ کے اسماے حسنیٰ کا ذکر ایمان کی نشوونما اور ترقی کے لیے ہونا چاہیے اور اس لیے بھی کہ آخرت میں اس کا اجر ملے۔ اس کے ساتھ ان اسماے الٰہیہ‘آیاتِ قرآنیہ اور احادیث میں منقول کلمات اور آثار کا دم کرنا بھی جائز ہے جو احادیث سے ثابت ہوں اور تجربے سے معلوم ہو کہ اس دم سے فلاں بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ جو دم حدیث سے ثابت نہ ہو‘ تجربہ اس کی پشت پر نہ ہو‘ اس کا دم کرنا توکّل کے منافی ہے۔ حدیث میں ان لوگوں کی تعریف بیان ہوئی ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور موہوم قسم کے دموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس طرح کا غلو نہیں کرنا چاہیے کہ دموں کی دکان ڈال کرکے بیٹھا جائے۔ ہر چھوٹی بڑی بات میں دم کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ اس کے بجاے دعا کو وظیفہ بنانا چاہیے جس کی قرآن و حدیث میں بار بار تاکید آئی ہے‘ واللّٰہ اعلم۔ (ع - م)


کمپیوٹر پر تلاوت کے لیے شرائط

س: الیکٹرانک ڈیٹا (disk / cd / dvd) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر جیسی ہے؟ وہ سی ڈی جس میںقرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن لکھا ہوا محفوظ ہو‘ بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں اس کا چھونا کیسا ہے؟ کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا یا تفاسیر کا مطالعہ کرنا‘ جب کہ وضو یا غسل کی حاجت ہو‘ جائز ہے؟

ج: آپ کا دینی جذبہ قابل قدر ہے‘ بالخصوص روز مرہ معاملات میں شریعت سے رہنمائی کی فکر دامن گیر ہونا۔ آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:

سی ڈی جس میں قرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن پاک لکھا ہوا محفوظ ہو‘ چونکہ وہ محسوس نہیں ہوتا‘ حروف نظر نہیں آتے‘ ان کے اوپر کور بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے‘ اس لیے اسے وضو اور غسل کے بغیر بھی ہاتھ لگاسکتے ہیں خصوصاً ایسی صورت میں جب کور چڑھا ہوا ہو۔

کمپیوٹر پر قرآن پاک کو دیکھ کر پڑھنا جائز ہے‘ جب کہ آدمی باوضو یا بے وضو ہو لیکن جنابت کی حالت میں کمپیوٹر پر قرآن پاک کی تفسیر کا مطالعہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن تلاوت نہیں کی جاسکتی‘  واللّٰہ اعلم! اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع اور عملِ صالح کی توفیق سے نوازے‘ آمین!(ع - م)


نقلی زیورات کا استعمال

س : آج کل نقلی زیورات کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر اصلی کا گمان ہوتا ہے۔ کیا ان زیورات کا استعمال شریعت کی رو سے جائز ہے؟ کیا اسے دھوکادہی کے زمرے میں نہیں لیا جائے گاکہ آپ دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں کہ آپ نے اصلی زیور پہن رکھا ہے‘ جب کہ فی الواقع وہ اصل نہیں ہیں؟

ج: جہاں تک نقلی زیورات کا تعلق ہے ان کا استعمال بھی زینت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اصل زیور پہن رکھا ہے تو یہ اس کی نظر کا معاملہ ہے۔ اس میں آپ پر کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے تو بتا دیں کہ یہ مصنوعی ہے۔ اس بات سے اس کی قدروقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور نہ ایسا کرنا دھوکا دہی میں شمار ہوگا۔واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

______________

اتحاد بین المذاہب کی شرعی حیثیت

سوال: اتحاد بین المذاہب کی تحریک متحدہ ہندستان کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو مذاہب باطلہ کی تردید سے روکنا ہے اور اسلام کے ناجی ہونے میں شک ڈالنا ہے کہ سب مذاہب اپنی اپنی جگہ سچے ہیں ‘ نہ معلوم کس نے نجات پانی ہے۔

اس تحریک کو مسلمانوں نے نہیں اپنایا اور اس کے اثرات مسلمانوں میں نہیں پھیلے۔ پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ کے سلسلے میں جب تنظیمات مدارس دینیہ کو سربراہی حیثیت حاصل ہوگئی تو ناروے جو اس تحریک کا بانی مبانی ہے‘ اس نے اس موقعے کو غنیمت سمجھا کہ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے سربراہ امن پسند ہیں ان کی قیادت سے اتحاد بین المذاہب کی تحریک کو موثر بنانا چاہیے۔ چنانچہ ناروے حکومت نے ان کو دعوت دی اور ایک معاہدہ کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ:

۱- ہم جنگ جوئی اور دہشت گردی دونوں پر نفرین کرتے ہیں اور تشدد کے اسباب کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

۲- قومی سطح پر اپنا فرض جانتے ہیں کہ مختلف مذہبی طبقات کے درمیان امن و سکون کا ماحول سب کے لیے پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہرفرد کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پوری آزادی سے اپنے عقیدے‘ اپنے مذہب اور اپنے مذہبی احکامات کے مطابق عمل کرسکے اور دوسرے عقائد اور مذاہب کی دل شکنی نہ ہو۔

۳- باہمی معاشرتی تعلقاتِ کار کے پروگرام بنائیں گے جن میں تمام مذہبی طبقات کو کام کرنے کا موقع ملے تاکہ برداشت اور باہمی پیار کا کلچر پیدا ہو۔

۴- ہم تمام مذاہب اور عقائد سے پرُزور اپیل کرتے ہیں کہ آیئے ہم سب  مل کر مذہبی برداشت‘ باہمی عزت اور امن وسکون کی فضا پیدا کریں۔

اس معاہدے کے بعد حکومت پاکستان نے اتحاد بین المذاہب کانفرنس کا انتظام کیا جس میں کہا گیا کہ یہودیت‘ عیسائیت اسلام ایک مجموعے کے تین اجزا ہیں: جس پر دنیاے اسلام خاموش رہی۔ اقوام متحدہ کی سطح پر اسلام اور مغرب کے درمیان فاصلے کم کرنے کے عنوان سے کوشش کی گئی اور اس کے لیے رجالِ کار متعین کیے گئے لیکن اُمت مسلمہ میں شاید ہی کسی نے اس کو غلط قرار دیا ہو۔ اس تسلسل سے ناروے حکومت نے اندازہ لگایا کہ اب مسلمان اسلامی پختگی چھوڑ چکے ہیں وہ عیسائیت سے اتحاد کرلیں گے۔ اس اتحاد کو بروے کار لانے کی خاطر سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے گئے۔ ناروے حکومت نے معاہدہ توڑ کر مسلمانوں کے عقائد اور مذہب کی دل شکنی کی ہے اس لیے تنظیمات مدارس کے اکابر کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کا کسی باطل مذہب سے اتحاد نہیں ہوسکتا‘اور اعلان کریں کہ ناروے حکومت معاہدہ توڑچکی ہے اس لیے آیندہ اس عنوان سے بلائی گئی کسی دعوت میں شریک نہ ہوں گے‘ نیز توہینِ رسالتؐ کے مرتکبین کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔

جواب: اسلام اور اُمت مسلمہ کے لیے فکرمندی قابلِ قدر ہے اور علما کا فریضہ ہے۔ آپ کو اس فرض کی ادایگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جہاں تک اس معاہدے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خلافِ شرع ہو۔ جب جنگ برپا نہ ہو تو اس وقت کفار کے جان و مال پر ان کی آبادیوں میں پہنچ کر حملہ کرنا جائز نہیں ہے‘ بلکہ جنگ کے دوران میں بھی بلااضطرار ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس وقت ہندستان‘ یورپ اور امریکا کے ساتھ ہم برسرجنگ نہیں ہیں‘ اس لیے ان ممالک کے باشندوں اور ان کی املاک پر حملے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان اور عراق اسلامی ممالک ہیں جن پر کفار نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔ ان ممالک کی آزادی کے لیے کفار کی فوجوں پر حملے کرنا جائز ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر استشہادی حملے بھی جائز ہیں‘ جیساکہ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس شرعی مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے۔ ان کے ارشاد کے مطابق: ’’جب لوگ ایک ملک میں رہتے ہوں اور اس ملک کو اپنے طرزعمل سے اطمینان دلاتے ہوں کہ ہم یہاں کے شہری ہیں اور امن وامان کے ملکی قوانین کو مانتے ہیں‘ اور لوگوں میں معروف ہو کہ ان کی جان و مال مسلمانوں سے محفوظ ہے اور مسلم اورغیرمسلم دونوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تو اس عرف کی حیثیت باہمی معاہدے کی ہوتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا ہے‘‘۔ اس لیے تحریکِ آزادی میں انگریزوں کے گھروں‘ دفاتر اور ہندوئوں کے مکانات اور دکانات پر حملے روا نہیں سمجھے گئے۔ اب بھی یورپ‘ امریکا اور بھارت میں مسلمانوں‘ علما اور عوام کا اتفاق اسی پر ہے۔ حتیٰ کہ قادیانیوں کے خلاف ۹۰سالہ تحریک کے دوران میں قادیانیوں پر حملوں کا فتویٰ کسی عالم نے نہیں دیا۔ زیرگفتگو معاہدہ اسی قسم کے عرفی معاہدے کا اعلان ہے۔ آپ کو اس کی بعض شقوں سے عیسائیت اور یہودیت کی تعظیم کا جو خدشہ پیدا ہوا ہے وہ درست نہیں ہے۔ معاہدے میں عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کی دل شکنی نہ کرنے کی شق قرآن پاک کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط (الانعام ۶:۱۰۸) اور (اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیںگالیاں نہ دو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناپر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

اس سارے معاہدے کی روح یہی آیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ صحابہ کرامؓ کی سیرت اور سلف صالحین کے اخلاقِ حسنہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ کفار اور مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کے ساتھ رواداری اور مدارات پر تعامل رہا ہے۔ البتہ موالات جائز نہیں ہے۔ اوسلو معاہدہ مدارات اور رواداری پر مشتمل معاہدہ ہے‘ موالات پر مشتمل نہیں ہے۔ غیرمحارب کفار کو سبّ و شتم کرنا‘ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال سمجھنا کسی بھی دور میں صحیح نہیں سمجھا گیا۔

آپ کا یہ خیال کہ اس معاہدے کی وجہ سے ناروے حکومت کو توہین رسالتؐ کی جرأت ہوئی‘ درست نہیں ہے۔ ’توہین رسالتؐ، تو بش کے اسلام اور مسلمانوں پر کروسیڈ حملے کی ایک کڑی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے۔ ناروے کی حکومت نے تو اس توہین کی مذمت کی ہے اور اس کے صحافی اور حکومت نے معافی بھی مانگی ہے لیکن ہم نے کہا ہے کہ اس صحافی کی یہ معافی اس کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تعزیری سزا دینا بھی ضروری ہے‘ نیز ناروے کا صحافی اصل مجرم نہیںہے۔ اصل مجرم ڈنمارک کا صحافی ہے‘ باقی تمام یورپین اس کے نقال ہیں۔ البتہ ناروے حکومت پر اس شق کی بنیاد پر جس کو آپ نے نشان زد کیا ہے‘ دبائو بڑھایا جاسکتا ہے اور کہاجاسکتا ہے کہ اس کے صحافی نے   مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے‘ دیگر بین الاقوامی قوانین اور ناروے کے ملکی قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی ہے‘ لہٰذا اسے ان سب کی خلاف ورزی کی بنیاد پر تعزیری سزا دی جائے۔(مولاناعبدالمالک)


گھریلو رویے اور تربیت

س:میرے سسرال والوں کا تعلق تحریک اسلامی سے ہے۔ میں خود بھی تحریک سے وابستہ ہوں مگر ناروا گھریلو رویوں کی بنا پر میں ذہنی اذیت سے دوچار ہوں۔

میری ساس سخت مزاج ہیں۔ وہ مجھے طنز کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انھوں نے میری بیٹی کو مجھ سے بعض غلط فہمیاں پیدا کر کے دُور کردیا ہے‘ جو مزید باعثِ اذیت ہے۔ کیا ایک ساس کا ایسا رویہ درست ہے؟

کچھ عرصہ پہلے ایک معمولی واقعے سے میری ساس بری طرح ناراض ہوگئیں‘ جب کہ زیادتی بھی ان کی تھی۔ میں نے ان کی غلط روش پر توجہ دلائی تھی کہ آپ کا رویہ درست نہیں‘ کچھ تلخی بھی ہوگئی۔ مگر میرے خاوند نے مجھے ہی مجبور کیا کہ تم معذرت کرو۔ میرے پس و پیش پر انھوں نے مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ۔ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہے؟ کیا اسلام اسے کوئی حق نہیں دیتا؟ کیا تحریک کے ذمے داران کا فریضہ نہیں کہ اپنے رفقا کے رویے کی اصلاح کریں اور ان کو توجہ دلائیں؟

ج: آپ کی ذہنی پریشانی اور تکلیف کے احساس سے بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبرواستقامت کی توفیق دے اور آپ کے شوہر اور سسرال والوں کو ہدایت سے نوازے۔

تحریکِ اسلامی جو ذہن بنانا چاہتی ہے‘ سادہ لوحی میں ہم اسے رکنیت‘ نظامت‘ امارت وغیرہ سے منسلک کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ تحریک اسلامی کی رکنیت ایک اعزاز ہے لیکن اس سے زیادہ‘ ایک امتحان بھی ہے کہ جس ربّ کریم کی اطاعت اور حق کی پیروی اور حق کی اشاعت و اظہار کا عہد کیا گیا ہے اسے کہاں تک اپنی ذاتی زندگی خصوصاً اہلِ خانہ کے ساتھ تعلقات میں اختیار کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض اوقات یہ شکایات بھی سننے میں آتی ہیں کہ تحریک سے وابستہ فلاں صاحب نے تجارتی شریک کے ساتھ وہ رویہ نہیں رکھا جو متوقع تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں معیارِ مطلوب اور حقیقت واقعہ میں فرق ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ حقیقتِ واقعہ کم سے کم عرصے میں معیارمطلوب کے مطابق ہوجائے۔ مذکورہ سوال کے ضمن میں چند باتیں عرض ہیں:

پہلی بات یہ کہ کیا ایک دادی یا نانی کو اپنے بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں یا باپ سے متنفر کرنے کا حق ہے؟ قرآن کریم کا اور سنت کا واضح حکم ہے کہ صلہ رحمی کی جائے اور قطع رحمی نہ کی جائے‘ حسنِ ظن کو اختیار کیا جائے اور سوئِ ظن سے اجتناب کیا جائے۔ ایک فرد کو کم ترکرکے نہ دکھایا جائے کہ یہ غیبت کی تعریف میں آتاہے۔ اس غلطی کا ارتکاب ایک دادی یا نانی کرے‘ یا ایک بہو یا داماد کرے‘ فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس میں نہ جنس کی قید ہے نہ عمر کی نہ رشتے کی۔ اس لیے اگر ایک دادی صاحبہ اپنے بیٹے کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں سے متنفر کرتی ہیں تو وہ قرآن و حدیث کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتی ہیں‘ چاہے وہ اور ان کا پورا خاندان تحریکِ اسلامی کے کیسے ہی منصب پر کیوں نہ فائز ہو۔ یہ اپنی جگہ پر غلطی ہے اور اس کی اصلاح کرنا ان کا تحریکی فریضہ ہے۔ لیکن وہ ا یسا کیوں کرتی ہیں؟ کیا اس کا سبب ان کا احساسِ عدمِ تحفظ ہے کہ ان کی لائی ہوئی بہو ان کے بیٹے پر ’قابض‘ ہوجائے گی یا گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایسا کرتی ہیں‘ یا بہو کی کسی بات کو دل میں رکھ کر اس کے ردّعمل کے طور پر ایسا کرتی ہیں؟ ان سوالات کا جواب میرے پاس تو نہیں ہے‘ شاید آپ کے پاس بھی نہ ہو‘ لہٰذا اس حوالے سے ظن و گمان سے بچنا ہی بہتر ہوگا۔

دوسری بات آپ نے یہ دریافت کی ہے کہ کیا شوہر اپنی والدہ کے کہنے میں آکر بیوی کو  گھر سے نکال سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی تعلیمات تحریکِ اسلامی کے لٹریچر میں وضاحت سے ملتی ہیں‘ کہ ایک شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو اپنا لباس سمجھے اور لباس کو جسم سے الگ کر کے نہ خود عریاں ہو نہ بیوی کو اس آزمایش سے گزارے۔ قرآن متوجہ کرتا ہے کہ اگر بعض فطری رجحانات کی بناپر بیوی کی کوئی ایک بات ناپسند بھی ہو تو یہ سوچے کہ اس کی دوسری خوبیاں کتنی قیمتی ہیں اور ان کی بناپر اس سے علیحدگی یا اسے دُور کرنے کا قصد نہ کرے۔ اسلام کی نگاہ میں یہ رشتہ اتنا اہم ہے کہ اسے برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اور غلط فہمی دُور کرنے کے لیے ایک دوست غلط بیانی بھی کرسکتا ہے‘ جو عام حالات میں شدّت سے منع ہے۔ اس رشتے کو کمزور کرنے اور بگاڑنے کے لیے شیطان اپنی ذرّیت کو ’نشانِ امتیاز‘ دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

عام طور پر ساس بننے کے بعد ایک خاتون کا طرزِعمل کچھ نہ کچھ بدلتا ہے۔ اس کی اصلاح صرف دعا‘ اپنی جانب سے بھلائی‘ احسان کے رویے اور اللہ سے صبرواستقامت کی مسلسل دعا کے ذریعے سے ہی کی جاسکتی ہے۔

ایسے افراد کے لیے جو تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوںاصلاح و احتساب کا نظام تحریک کے اندر بھی اور خاندانوں کے معاملات کے حوالے سے بھی باقاعدہ ہونا چاہیے۔ ایک تحریکی کارکن کا اپنی رپورٹ میں یہ بیان کر دینا کہ اس نے کتنے افراد تک دعوت پہنچائی‘ کتنے اجتماعات میں شرکت کی‘ کیا مالی اعانت کی‘ کافی نہیں ہے۔ وہ کہاں تک اپنے خاندان میں محبت‘ عدل‘ نرمی اور بھلائی سے پیش آرہا ہے اور کہاں تک ماں باپ کی حمایت یا بیوی کی حمایت کی جگہ حق کی بات پر عمل کررہا ہے‘ رپورٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔

ہم جس معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی و انقلاب کا علَم لے کر نکلے ہیں اس میں گھر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک گھر کے محاذ پر ایک مجاہد اپنی سیرت کے کھرے ہونے کا مظاہرہ نہیں کرتا وہ بڑے محاذوں پر بحسن وخوبی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔

ایسے مواقع پر بھی جب آپ کو اپنی ساس کے غلط ہونے کا یقین ہو‘ اگر آپ براہِ راست انھیں جواب نہ دیں تو آپ کے اجر میں زیادہ اضافہ ہوگا کہ آپ نے رشتے کے احترام میں ایسا کیا۔ ہاں‘ اپنے شوہر کو ضرور مطلع رکھیے کہ آپ کو کیا کچھ کہا گیا لیکن آپ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ شوہر کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ معاملات کو احسن انداز سے لے کر چلے کہ والدین کو ان کا مقام ملے اور اہلِ خانہ کے حقوق بھی مجروح نہ ہوں‘ بالخصوص اہلیہ تنہائی کے احساس کا شکار نہ ہوں۔

جہاں تک ماں کو ناراض کرنے کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن و حدیث میں ماں کی اطاعت و فرماں برداری اور خوشنودی کا بار بار ذکر ہے لیکن وہی قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اگر والدین شرک کا حکم دیں تو کوئی اطاعت نہیں۔ حدیث بھی یہی بات کہتی ہے کہ’ ’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔ اس لیے اگر ماں یا باپ ایک ایسی بات کا حکم دیتے ہیں جو حق کے منافی ہے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کے اصول واضح ہیں‘ ان میں کوئی ایچ پیچ اور مصلحتیں نہیں ہیں۔ تاہم معاملات کو حکمت‘ معاملہ فہمی‘ وضع داری‘ حسنِ سلوک‘ غیرجذباتیت اور صبروتحمل کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ آخرت پر نظر رہنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ سے آسانی اور اس کی راہ میں استقامت کے لیے خصوصی دعا بھی کرنا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)

دارالکفر کی پارلیمنٹ کی رکنیت

سوال: برطانیہ میں معروف معنوں میں کسی سیاسی پارٹی کی ممبرشپ اختیار کرنا (ممبرشپ paidہوتی ہے) اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کے بارے میں بہت سے لوگ تردّد کا شکار ہیں ۔ بعض لوگ تو بالکلیہ ایسی سرگرمیوں کو  عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے ہیں کیوں کہ ایسی جمہوریتوں میں اقتدارِاعلیٰ انسان کو سمجھا جاتا ہے‘ یعنی پارلیمنٹ کو۔

مولانا مودودیؒ کی راے بھی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے: موجودہ زمانے میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ… قانون سازی کے لیے راے عامہ سے بالاتر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسلام کے نظریے کے بالکل برعکس ہے… اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظریے کو قبول کرنا گویا عقیدۂ توحید سے منحرف ہوجانا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانے کے جمہوری اصول پر بنی ہیں ان کی رکنیت حرام ہے‘ اور ان کے لیے ووٹ دینا بھی حرام ہے‘ کیوںکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی راے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے جو عقیدۂ توحید کے سراسر منافی ہے… جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلط ہوا ہے‘ جس کے تسلط کو وہ اپنے لیے دلیلِ اضطرار بنارہے ہیں‘ وہ آخر ان کی اپنی ہی غفلتوں کا تو نتیجہ ہے۔ پھر اب بجاے اس کے کہ اپنا سرمایہ‘ وقت و عمل اس نظام کے بدلنے اور خالص اسلامی نظام قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں‘ وہ اس اضطرار کو حجت بناکر اسی نظام کے اندر   حصہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کر رہے ہیں…

یہ لوگ اس اصولی فرق کو نظرانداز کردیتے ہیں جو ایک فرد غیرمسلم کے شخصی کاروبار اور ایک غیراسلامی نظام کے اجتماعی کاروبار میں ہے۔ ایک غیراسلامی نظام تو قائم ہوتا   ہی اس غرض کے لیے ہے اور اس کی سارے کاروبار کے اندر ہر حال اور ہر پہلو میں مضمر ہی یہ چیز ہوتی ہے کہ اسلام کے بجاے غیراسلام‘ طاعت کے بجاے معصیت اور خلافتِ الٰہی کے بجاے خدا سے بغاوت انسانی زندگی میں کارفرما ہو‘ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز حرام اور عام حرمات سے بڑھ کر حرام ہے۔ لہٰذا ایسے نظام کو چلانے والے شعبوں میں یہ تفریق نہیں کی جا سکتی کہ فلاں شعبے کا کام جائز نوعیت کا ہے اور فلاں شعبے کا ناجائز کیوںکہ یہ سارے شعبے مل جل کر ایک بڑی معصیت کو قائم کر رہے ہیں۔(مکمل مطالعے کے لیے دیکھیے: رسائل و مسائل‘ اوّل‘ ص ۲۸۹- ۲۹۱)

بعض لوگ لوکل کونسل کی سطح تک حصہ لینے میں قباحت نہیں سمجھتے کیوںکہ اس میں قانون سازی نہیں ہوتی۔ بعض لوگ مطلق اس کے حق میں ہیں۔

یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ اس ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ملکۂ برطانیہ کی وفاداری کا جو حلف لیا جاتا ہے اس میں اور پارلیمنٹ کا ممبر بننے میں کیا فرق ہے؟

جواب: اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ دعوتی اور قانونی نظام میں بھی نہ صرف اسلامی ریاست کی حدود میں بلکہ غیر اسلامی نظام کے ماحول میں بھی عمل کیا جاسکے‘ جب کہ بہت سے مسلمانوں نے اپنی خودساختہ فکر سے یہ بات ایجاد کرلی ہے کہ جب تک اسلامی ریاست اپنی تمام بھلائیوں کے ساتھ قائم نہ ہوجائے اس وقت تک اسلامی نظام کے بہت سے پہلوئوں کو معطل رکھا جائے۔ آپ کے سوال کے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ ایک نظری حیثیت سے غیراسلامی نظام کا توحید سے تعلق اور دوسرے کسی ایسے نظام میں جو اسلامی بنیادوں پر قائم نہ ہوا ہو‘ ایک فرد کی شمولیت اور ذمہ داری۔

ہم پہلے عملی صورت کو لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک ایسے نظام میں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر نہ ہو‘ ایک باشعور شہری کے فرائض پر غور کریں۔

فرض کیجیے ایک اسلامی ملک میں موروثی بادشاہت رائج ہے اور بادشاہ کے مرنے پر اس کا بھائی یا بیٹا اس کا جانشین قرار پاتا ہے چاہے اس میں اہلیت‘ علم‘ تقویٰ‘ تجربہ وغیرہ ہو یا نہ ہو۔ کیا ایسے سیاسی نظام کو اس بنا پر اسلامی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں رائج ہے؟ عقل یہ مطالبہ کرتی ہے کہ قرآن وسنت کے منافی جانشینی اور وراثتی بادشاہت کو غیراسلامی قرار دیا جائے۔ اب ذرا آگے چلیے۔ اگر ہر غیراسلامی نظام میں جہاں حاکمیتِ الٰہی کی جگہ انسان کی بادشاہت‘ آمریت یا حاکمیت ہو‘ ایک شہری کا کام اپنے آپ کو مروجہ نظام سے کاٹ کر اپنے ایمان کا تحفظ ہی ہے تو پھر اصلاحِ حال کی شکل کیا ہوگی؟ پہلا کنکر کون پھینکے گا؟ گویا ایک نظام کے غیراسلامی ہونے کے باوجود امربالمعروف‘ نہی عن المنکر اور فتنہ و فساد کو دُور کرکے عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے کا فریضہ موقوف نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر ایسے کسی ملک میں عوامی ادارے ہوں جہاں سے آواز بلند کرکے اصلاح حال کی جاسکتی ہو تو قرآن وسنت کا مطالبہ ہوگا کہ ایک باشعور شہری کو جو وسائل بھی میسرآسکیں وہ ان کا استعمال کرے۔ اگر پارلیمنٹ یا کانگریس کا ممبر بننے کے بعد وہ فتنہ و فساد کو دُور کرنے کا کام زیادہ مؤثر طور پر کرسکتا ہو اور وہ ایسا نہ کرے تو عنداللہ جواب دہی سے نہیں بچ سکتا۔

اب فرض کیجیے ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریت غیرمسلموں کی ہے قانون سازی‘ انسانی حقوق کے تحفظ‘ دینی اور ثقافتی آزادی کے حصول کے لیے قوتِ نافذہ پارلیمنٹ کے پاس ہے تو کیا مسلمان جو اقلیت میں ہیں اپنے تمام مسائل و حقوق کو غیرمسلم اکثریت کی صواب دید پر چھوڑ دیں یا خود اپنے میں سے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجیں جو وہاں جاکر نہ صرف ان کے حقوق بلکہ غیرمسلموں کے حقوق کے لیے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدوجہد کرسکیں؟

اس عملی مشکل پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نظری اور اصولی حیثیت سے ایسی جمہوریتوں کی حیثیت پر بھی غور کیا جائے جو بنیادی طور پر اسلامی اصولِ حکومت و سیاست سے متصادم ہوں۔ مغربی لادینی جمہوریت جو اکثر مسلم ممالک میں بھی نافذ ہے پارلیمنٹ کی راے کی بناپر فیصلے کرتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام لازمی طور پر  ’جمہوری روح‘ کو فوقیت دیتا ہے اور ہرمعاملے میں آزادیِ راے اور حریتِ فکری کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن فیصلوں کی بنیاد محض اکثریت کو قرار نہیں دیتا۔ اگر ایک اقلیتی راے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا اختیار کرنا زیادہ جمہوری عمل ہوگا۔ کیوںکہ اس میں اُمت کے مصالح اور مفاد کا زیادہ بہتر تحفظ ہوگا۔

محترم مولانا مودودیؒ نے جو بات ۱۹۴۵ء میں تحریر فرمائی ہے وہ اصولی حیثیت سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بھی طاغوتی نظام سے تعاون کرنا توحید کے منافی ہے۔ لیکن اگر ایک غیراسلامی نظام میں ایک منتخب یا مقرر کردہ نمایندے کو یہ اختیار ہو کہ وہ قانون سازی کے ذریعے امنِ عامہ‘ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے ان اختیارات کو استعمال کرسکے جن کی بناپر حضرت یوسف ؑ نے ایک غیراسلامی نظام میں کلیدی منصب لینا قبول کیا تھا‘ تو اس کی نوعیت مختلف ہوگی۔

محترم مولانا کا یہ فرمانا کہ سیکولر جمہوریت توحید کے منافی ہے‘ بالکل صحیح ہے لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولر جمہوریت نافذ ہو اور مسلمان اقلیت میں ہوں اصلاح حال کا ذریعہ کیا ہوگا۔ تین امکانات فوری طور پر سامنے آتے ہیں: اوّلاً: تمام معاملات کو غیرمسلموں پر چھوڑ دیا جائے اور صبروشکر کے ساتھ ایک محکوم اور غلام کی زندگی گزاری جائے۔ ثانیاً: اسلامی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے حکمران ٹولے کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ ثالثاً: ایسے نظام کو اصولاً     غلط مانتے ہوئے تبدیلیِ اقتدار کے لیے نظام میں رہتے ہوئے کوشش کی جائے۔ میری ناقص راے میں یہ تیسرا طرزِعمل اسوۂ یوسفی ہے‘ جو آخرکار زمامِ کار کی تبدیلی‘ اسلامی اصولوں کے قیام کی طرف لے جاتا ہے ‘اور مطالبہ کرتا ہے کہ توحید کی دعوت کو ایوانِ اقتدار میںپہنچ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی حکمت کے ساتھ توحید کی دعوت دی جائے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے کلیدی منصب پر فائز ہونے کے حوالے سے امام قرطبیؒ کی راے یہ ہے کہ ایک فاضل شخص کے لیے فاسق وفاجر شخص یا کافر حکمران کے ہاتھ سے کسی کام کی  ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے بشرطیکہ عہدہ قبول کرنے والے کو معلوم ہو کہ اسے پورے اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ جو چاہے گا اصلاحی تدبیر اختیار کرسکے گا اور اس کے کام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔ یہی راے مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیرِ مظہری میں تحریر فرمائی ہے۔

جہاںتک سوال لوکل باڈی یا قومی اداروں میں ذمہ داری اٹھاتے وقت رسمی طور پر عہد لینے کا ہے‘ اگر وہ عہد غیرمشروط اطاعت کا ہے تو یہ ہر لحاظ سے ایک غیراسلامی فعل ہے۔ لیکن اگر صرف ان باتوں کا ماننا جو ایک شخص کے ضمیر‘ تصور اور ذاتی معتقدات سے نہ ٹکراتے ہوں تو اس میں کوئی قباحت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ عہد بھی ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جس کی اصلاح‘ نظام میں نفوذ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اسے بہ اکراہ ماننا ہوگا اور قانونی اداروں کے ذریعے اس کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

مسلمانوں کے لیے بہتر شکل یہی ہے کہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی ہو۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو  تو پھر جس سیاسی پارٹی میں زیادہ رواداری اور اُمتِ مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کا امکان زیادہ ہو‘ اسے اختیار کرنا افضل ہوگا۔ ایک سے زائد پارٹیوں میں شرکت اگر مسلمانوںکے مفادات کے تحفظ کے لیے بہتر ہو تو اس میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے‘واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


فی سبیل اللہ کی مد

س: زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی مد سے کیا مراد ہے؟

ج: تیر و تلوار کی طرح قلم اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے۔ جہاد کبھی فکری ہوتا ہے‘ کبھی تربیتی‘ کبھی اقتصادی اور کبھی سیاسی‘ بالکل اسی طرح جس طرح عسکری جہاد ہوتا ہے۔ بہرحال ہرنوع کے جہاد کے لیے امداد اور سرماے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہم ترین چیز یہ ہے کہ ان سب میں بنیادی شرط پائی جاتی ہو اور وہ ہے فی سبیل اللہ۔ یعنی ان تمام کوششوں کا مقصد اسلام کی نصرت اور زمین پر اللہ کے کلمے کی سربلندی ہو۔بلکہ میری راے میں تو فکری جہاد جس میں دعوتی ذرائع ابلاغ کے اداروں کا قیام بھی شامل ہے‘ کبھی کبھار فوجی جہاد سے بھی اولیٰ ہوجاتا ہے۔

اگرچہ مذاہب اربعہ کے قدیم فقہا کی اکثریت نے زکوٰۃ کی اس مد کو غازیوں کو سازوسامان سے مسلح کرنے کے لیے مخصوص کیاہے جیسے گھوڑے‘ جنگی اسلحہ اور سواری وغیرہ مہیا کرنا‘ لیکن ہم اس میں اپنے زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اضافہ کرسکتے ہیں اور وہ غازی بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جو قلوب و اذہان کو اسلامی تعلیمات سے روشن کرنے کے لیے اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں اور اپنی زبانیں اور قلم‘ عقائدِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ کے دفاع کے لیے وقف کیے رکھتے ہیں۔ جہاد کی یہ قسم بھی احادیث سے ثابت ہے جیساکہ حضوؐر کا  ارشاد گرامی ہے: جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔

جہاد کی جن اقسام کا ہم نے ذکر کیا ہے اگر یہ بطور نص جہاد میں شامل نہ بھی ہوں تو قیاساً انھیں جہاد کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے کیوںکہ دونوں کا مقصد غلبۂ اسلام‘ شریعت اسلامیہ کا دفاع‘ دین کے دشمنوں کی مزاحمت اور اللہ کے کلمے کو زمین میں غالب کرنا ہے‘ بلکہ فی سبیل اللہ کی مد کو اس دور میں‘ ثقافت‘ تربیت اور ذرائع ابلاغ میں صرف کرنا اولیٰ ہے۔ بشرطیکہ یہ صحیح اور اسلامی ہوں۔ مثلاً خالص اسلامی اخبار جاری کرنا جو کہ گمراہ کن صحیفوں کا پوری طرح مقابلہ کرسکے اور اللہ کا کلمہ بلند کرسکے‘ حق و انصاف کی بات کرسکے‘ اسلام کے خلاف افتراپردازوں کا ردّ کرسکے۔ گمراہ لوگوںکے شکوک و شبہات کو رفع کرسکے اوردین کی صحیح تعلیمات بغیرکسی حذف و اضافہ کے ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا سکے۔ ایک اسلامی کتاب کی طباعت بھی فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اچھے طریقے سے اسلام کا تعارف پیش کرسکے اور اسلام کے جوہر کو دنیا کے سامنے نمایاں کرسکے‘ اس کی تعلیمات کے حسن و جمال کو نمایاں اور مخالفین کے باطل دعووں کو جھوٹا کرسکے۔ انھی صفات کی حامل کتاب کو ری پرنٹ کرکے وسیع پیمانے پر پھیلانا بھی اس مد میں شامل ہے [اسی طرح فلم بنانا بھی]۔

ایسے امانت دار اور مخلص لوگوں کو مذکورہ کاموں کے لیے فارغ کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اس دین کی خدمت کے لیے منصوبہ بندی کرسکیں اور چاردانگ عالم میں اسے پھیلاسکیں‘ دشمن کی چالوں کا توڑکرسکیں‘ اسلام کے سوئے ہوئے بیٹوں کو بیدارکرسکیں اور نصرانیت‘ لادینیت‘ اباحیت اور سیکولرازم کا مقابلہ کرسکیں۔ ان اسلامی داعیوں کی معاونت کرنا جن کے خلاف خارج کی اسلام دشمن طاقتیں مقامی سرکش اور دین اسلام کے باغیوں کی مدد سے سازشوں میں مصروف ہیں‘ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مذکورہ متعدد مدات میں زکوٰۃ اور صدقات صرف کرنا بدرجۂ اولیٰ ہے خاص طور پر اسلام کی اجنبیت کے اس زمانے میں۔(علامہ یوسف قرضاوی‘ ترجمہ:طارق محمود زبیری۔المجتمع، کویت‘ شمارہ ۱۶۸۵‘ ۲۷جنوری ۲۰۰۶ئ)

انشورنس کا متبادل

سوال: موجودہ دور میں انشورنش ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ ایک محدود مالیت کی قسط اداکر کے ایک بڑی رقم یک مُشت میسر آجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ پالیسی ہولڈر کا انتقال ہوجائے تو رقم اس کے ورثا کو مل جاتی ہے اور واجب الادا اقساط بھی معاف ہوجاتی ہیں۔ ناگہانی حالات میں یہ بڑا سہارا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سہولتیں میسر آجاتی ہیں‘ مثلاً علاج معالجے کی سہولت‘ بچوں کے لیے ماہانہ وظیفہ وغیرہ۔ کیا موجودہ حالات میں اس کا جواز ہے؟ اگر نہیں‘ تو اس کا متبادل بھی کوئی ہے؟

جواب :پاکستان اور باہر کے ملکوں میں انشورنس اور لائف انشورنس کمپنیاں سودی نظام پر عمل کرتی ہیں اور اس بنا پر ان سے پالیسی لینا سودی نظام کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔ بعض ممالک میں قانون یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک ایک کار انشورنس نہ کرا لی جائے اسے سڑک پر نہیں لایا جاسکتا۔ جہاں پر پابندی ہے وہاں اضطرار کے اصول کی بناپر اسے گوارا کیا جائے گا لیکن جہاں قانون اجازت دیتا ہو کہ ایک معمولی رقم ادا کر کے تھرڈ پارٹی انشورنس کرا لی جائے اور کوئی مستقل قسط ادا نہ کی جائے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن بیمۂ زندگی(لائف انشورنس) اس سے بہت مختلف ہے۔

بیمۂ زندگی میں ایک کمپنی ایک شخص کی صحت‘ خاندانی کوائف اور دیگر اندازوں کی بنا پر اسے ایک پالیسی آفر کرتی ہے جس میں وہ ہر ماہ ایک متعین رقم کمپنی کودیتاہے اور اگر اسے کوئی حادثہ یا کمپنی کے اندازے کے برخلاف جلد موت واقع ہوجائے تو جو رقم اس نے ہر ماہ جمع کرائی تھی اور اس پر ایک مزید رقم جسے ’منافع‘ کہاجاتا ہے ادا کر دی جاتی ہے۔ اسے ہمارے فقہا نے حرام قراردیا ہے۔ جس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ اوّلاً: انشورنس کمپنی جو رقم بھی لیتی ہے اسے عموماً سودی کاروبار ہی میں لگایا جاتا ہے جس سے وہ کمپنی دوسروں کی رقم پر اپنے قصر تعمیر کرتی رہتی ہے اور یہ استحصال کی واضح شکل ہے۔ ثانیاً: زندگی اور موت ہرشکل میںاللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی پرورش کا ذمہ لیا ہے اور ایک اہلِ ایمان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ غیرمتوقع حالات کے لیے اپنی رقم کا ایک حصہ محفوظ رکھے تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجاے وہ خود اپنے مسائل کا حل کرسکے۔ ایک معروف صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں میں اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں قربان کر دوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تمھاری اولاد ہے اور جب انھوں نے بتایا کہ ہاں میں صاحبِ اولاد ہوں تو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی اولاد کو ایسے حال میں نہ چھوڑیں کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ گویا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورانفاق ایک اہم عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوئے اولاد کے لیے اتنی رقم بچارکھنا کہ وہ بعد میں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے‘ بھی اللہ کے رسولؐ کی سنت ہے۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیرمتوقع یا متوقع حالات کے لیے ایک حصہ الگ کرنا خود مسلمان کی منصوبہ بندی میں شامل ہونا چاہیے۔ فرض کرلیا جائے کہ ایک شخص نہ خود اتنا کماتا ہے کہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکے اور نہ اس قابل ہے کہ پس انداز کر کے اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جائے تو اس کا کیا حل کیا جائے گا؟ اسلام نے اپنے فقہی نظام میں جہاں وراثت کے اصول متعین کر دیے ہیں وہیں کفالت کے حوالے سے بھی یہ کوشش کی ہے کہ خاندان کے اندر رہتے ہوئے ضرورت مند حضرات کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ریاست پر بھی یہ ذمہ داری عائد کردی گئی ہے کہ وہ صدقات‘ اوقاف اور زکوٰۃ کی رقوم سے ایسے افراد کی امداد اس حد تک کرے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ مثلاً ایک شخص کا تمام سامانِ تجارت نذرآتش ہوگیا‘ سیلاب یا زلزلے سے تباہ ہوگیا تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اتنا معاوضہ دے کہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔

انشورنس کمپنیاں جس شرح سے پالیسی لینے والوں کو ’منافع‘ دیتی ہیں اگر اس کا مقابلہ ان کے مجموعی ’منافع‘ سے کیا جائے تو ان کا بظاہر ’عملِ خیر‘ ایک کھلا استحصال نظر آئے گا۔

لائف انشورنس اور عمومی انشورنس کے ناجائز ہونے پر بڑی حد تک ہمارے فقہا کا اجماع ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر متبادل طور پر کیا کیا جائے تو اگر غور کیا جائے تو ہر معاشرے میں ایسے باہمی امداد کے ادارے corperativesقائم کیے جاسکتے ہیں جو بغیر کسی سودی کاروبار کے اپنے ممبران کے لیے مشکلات اور حادثات میں امداد فراہم کرنے کے لیے مختلف پراجیکٹ بناسکتے ہیں اور اس طرح اس مسئلہ کا اسلامی حل نکالا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


پیشگی تنخواہ پر سروس چارجز

س : بنک افسران اور دیگر بنک ملازمین کے لیے پیشگی تنخواہ اسکیم کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مطلوبہ رقم پر تقریباً ۷ فی صد سروس چارجز کاٹے جاتے ہیں اور آسان اقساط میں رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔ ایک ملازم پیشہ فردکے لیے اس میں بہت سہولت ہے۔ قرض لے کر مکان کی تعمیر جیسی ناگزیر ضرورت پوری ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سودی اسکیم ہے‘ تاہم حالتِ اضطرار کے تحت ہم اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ہماری مشکلات اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے رہنمائی فرمایئے کہ کیا میں اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ میں اپنی آخرت برباد کرکے دنیا نہیں بنانا چاہتا۔

ج: آپ نے ایڈوانس تنخواہ لینے پر سروس چارجز کے بارے میں جو سوال اٹھایا ہے وہ ایک اہم عملی مشکل کی نشان دہی کرتا ہے۔ہم جس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غالباً ملازمت پیشہ افراد ہیں جو اپنی محدود آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی بنا پر بعض بنیادی ضروریات ِ زندگی کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ مکان ایسی ہی ایک بنیادی ضرورت ہے اورایک جدید اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں ۵۸سال گزرنے پر بھی وہ اسلامی ریاست جس کے لیے اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا قائم نہیں کی جا سکی‘ اس لیے آپ کو اور بہت سے دیگر شہریوں کو سخت عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سروس چارجز کی اصطلاح سے اگر مراد یہ ہے کہ آپ نے ایک کارکرائے پر لی اور ایک دن کے استعمال کرنے کے عوض آپ نے اس کے مالک کو ۸۰۰ روپے ادا کر دیے تو یہ ایک جائزعمل کہلائے گا۔ لیکن اگر آپ ایک بنک سے رقم قرض لیں اور واپسی کی ہر قسط پر ۷ فی صد سروس چارجز دیں تو نام بدل دینے کے باوجود یہ سود کی تعریف میں آئے گا کیونکہ کوئی بھی متعین رقم جو اصل سے زائد وصول کی جائے سود یا ربا قرار دی جائے گی۔

حالت اضطرار میں ایک حرام چیز سے وقتی طور پر استفادے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز حلال ہوگئی بلکہ یہ اجازت صرف اس بنا پر ہے کہ ایک حرام کام کا کیا جانا جان کے ضائع ہونے سے کم درجہ رکھتا ہے اس لیے جان کو بچانے کے لیے اس کی اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ایسا کرنے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے بغاوت و سرکشی مقصود ہو اور نہ ایسے عمل کو معمول بنایا جائے۔

اگر آپ زمین کے مالک ہیں تو آپ اس زمین کی بنیاد پر بنک سے ایک معاہدہ کریں جس میں وہ مطلوبہ رقم بطور سرمایہ کاری مکان کی تعمیر میں لگائے اور بازار میں اس قسم کے مکان کا جو کرایہ رائج ہو وہ آپ اسے ہر ماہ ادا کریں یہاں تک کہ بنک نے جو سرمایہ لگایا ہے وہ اسے واپس مل جائے۔ آپ نے بالکل صحیح بات تحریر کی ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں اپنی سہولت کے لیے ایک ناجائز ذریعے سے مکان بنا لینا اور آخرت کو خراب کر دینا ایک بہت خسارے کا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود کی حفاظت کرنے اور اللہ کے لیے ہر آزمایش استقامت سے گزارنے کی توفیق دے۔(ا-ا)


شوہر کی اجازت کے بغیر انفاق

س : میرے شوہر ملک سے باہر ہیں۔ انھوں نے بنک اکائونٹ صرف میرے نام سے کھلوایا ہے تاکہ مجھے رقم نکلوانے میں دشواری نہ ہو۔ انھوں نے خرچ کا تقریباً کُلی اختیار مجھے دیا ہوا ہے۔ اب اگر میںان سے پوچھے بغیر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کروں تو کیا گناہ ہوگا‘ جب کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے بھی راہِ خدا میں خرچ کروں؟ واضح رہے کہ وہ گھر میں خرچ کے متعلق تو کچھ نہیں بولتے مگر شاید صدقہ خیرات کو بہت زیادہ پسند نہ کریں۔ یہاں پر یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ وہ خود الحمدللہ فی سبیل اللہ کافی خرچ کرتے ہیں مگر میرا خرچ کرنا انھیں برا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے کچھ رقم ان سے چھپاکر پس انداز کی ہوئی ہے۔ اگر میں اسے گھر میں خرچ کردوں اور بعد میں انھیں بتائوں تو انھیں برا نہیں لگے گا بلکہ وہ خوش ہوں گے اور اگر ان کو بتا کر فی سبیل اللہ دے دوں تو ایک تو انھیں شاید اعتراض بھی ہو اور دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے وہ خود خیرات کرنے سے اپنا ہاتھ روک لیں جو میں نہیں چاہتی۔ کیا ان حالات میں‘ میں انھیں بتائے بغیر یہ رقم فی سبیل اللہ خرچ کرسکتی ہوں؟

ج: مالی معاملات میں اور وہ بھی خصوصاً جب ان کا تعلق قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہو غیرمعمولی احتیاط کرنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے آپ کو نہ صرف اس معاملے میں باشعور بنایا بلکہ آپ کے شوہر کے دل میں آپ کے لیے اتنا اعتماد پیدا کیا کہ وہ گھر کے خرچ میں آپ سے کوئی حساب طلب نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں آپ کی فکرمندی قابلِ فہم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں مزید اضافہ کرے اور آپ پر آپ کے شوہر کے اعتماد کو ہمیشہ قائم رکھے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ سربراہِ خاندان گھرکا امیر ہے اور اس بنا پر جواب دہ بھی ہے (اصل الفاظ مسئول کے ہیں)۔ اس کی غیرموجودگی میں مسئولیت ’امارت‘ کی ذمہ داری بیوی کی ہے اور بیوی کی غیرموجودگی میں جو ملازم گھرکا نگراں یا محافظ بنایا جائے اس کی ہے۔ اس حدیث سے جو اصول نکلا وہ بڑا اہم ہے یعنی سربراہ کی حیثیت سے جو فیصلے ایک شوہر یا باپ کو کرنے ہوتے ہیں اس کی غیرموجودگی میں یہی منصب اور مسئولیت اس کی بیوی کی ہوجائے گی۔ ظاہر ہے یہ مسئولیت محض اولاد کی تربیت تک محدود نہیں ہے بلکہ گھر کے تمام معاملات کی ہے جس میں مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ فقہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک ایک مباح کام سے روکا نہ جائے اس کے کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ کے سلسلے میں چونکہ آپ کے شوہر نے آپ کو خود یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں اس لیے اس سلسلے میں آپ کو مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

یہ بات بھی قرآن و حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے راستے میں دینے کی ذمہ داری محض شوہر کی نہیں بلکہ بیوی کی بھی ہے۔ جہاں کہیں بھی قرآن کریم مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیات بیان کرتا ہے وہاں دونوں کا الگ الگ ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ وہ مومن مرداور وہ مومن عورتیں جو نماز میں خشوع‘ زکوٰۃ پر عامل‘ لغویات سے پرہیز اور عزت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور امانتوں اور عہدوں کا پاس کرتے ہیں وہ وراثت میں یعنی بطور انعام کے فردوس پائیں گے۔ (المومنون ۲۴:۱-۱۰)

یہاں پر زکوٰۃ اور دیگر معاملات میں مومن مردوں اور عورتوں کو انفرادی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک بیوی صاحبِ نصاب ہے تو محض شوہر کی جانب سے اپنے اثاثے پر زکوٰۃ دینے سے وہ بری الذمہ نہیں ہوجاتی۔ ایسے میں جب آپ کے شوہر نے گھر کے خرچ میں آپ کو مکمل اختیار دیا ہے تو اب مسئولیت آپ کی ہے اور آپ کوخود اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔

یہ بات بہت خوشی کا باعث ہے کہ آپ کے شوہر الحمدللہ خود اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی وقت یہ غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود جب آپؐ ایک مرتبہ گھر تشریف لاتے ہیں اور   اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کہیں سے گوشت تحفتاً آیا تھا‘ انھوں نے اس کا بیش تر حصہ اللہ کی راہ میں دے دیا اور صرف ایک دست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچاکر رکھا ہے تو شارعِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی اس سے بہت سے اصول نکلتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہی تو بچ گیا۔ گویا اللہ کی راہ میں جتنا دیا جائے گا وہ دینے والے کے حساب میں سات سو گنا یا اس سے بھی زائد بڑھا کر جمع ہوگیا۔ کیا آپ اور آپ کے شوہر یہ پسند نہیں کریں گے کہ جو کچھ وہ دیں اس کا اجر تو انھیں ملے ہی‘ ساتھ میں جو آپ اس طرح دیں کہ دوسرے ہاتھ (یعنی آپ کے شوہر کو) کو اس کی خبر نہ ہو وہ بھی ان کے اور آپ کے حساب میں اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہوجائے؟

اگر کبھی آپ ضرورت محسوس کریں تو شوق سے اس کا ذکر بھی شوہر سے کرسکتی ہیں لیکن اگر ناراضی کا خطرہ ہو تو ذکر کرنا ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ ملکیت جب آپ کے ہاتھ میں منتقل ہوگئی تو اب آپ کی صواب دید زیادہ معتبر ہوگی۔(ا-ا)