مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۱۵

اس وقت ملک و ملّت کے تقریباً ہر طبقے میں، اور ہر میدانِ کار میں چند بنیادی مسائل پر بحث و گفتگو کا سلسلہ گرم ہے۔ نجی محفلوں، سیاسی اجتماعات اور اخبارات و رسائل کے صفحات سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ یہی مسائل زیربحث ہیں: امن و امان کی زبوں حالی،  معاشی بحران، علاقائی عصبیت کی زہرناکی، فرقہ واریت کے عفریت کی کارفرمائیاں، لوٹ کھسوٹ کی ہوش ربا داستانیں، خارجہ سیاست میں پاکستان کی آزمایش، بھارت کے جارحانہ عزائم کی افزونی، امریکا کی بے وفائیاں اور اندورنی قلابازیاں و ریشہ دوانیاں سرفہرست ہیں۔

اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی نے قوم اور اس کی قیادت کو یہ سوچنے کی دعوت دی ہے کہ  ان مسائل کے حقیقی اور دیرپا حل کے لیے جس فکرونظر کے انقلاب اور جس مضبوط اور ہمہ گیر     ملّی اقدام کی ضرورت ہے، وہ نفاذِ شریعت ہے،مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور انتظامی قیادتوں نے اس مسئلے کو ہمیشہ ایک متنازع مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ساری توجہ شریعت کی کلید سے زندگی کے مسائل حل کرنے سے ہٹ کر سیاسی اور قانونی موشگافیوں ہی پر نہیں، بلکہ نیتوں کے فتور اور انفرادی اور گروہی اقتدار کی شرم ناک جنگ پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہ مقتدر طبقہ جو خواہ اپنی تعداد اور عوامی بنیاد کے اعتبار سے کتنا ہی قلیل اور غیرثقہ کیوں نہ ہو، مگر سیاسی اثرات، ذرائع ابلاغ میں اپنی قوت اور بیرونی تائید و معاونت کے اعتبار سے بڑا زورآور ہے، کھل کر اسلام، اسلامی ریاست، شریعت کی بالادستی اور اجتماعی زندگی میں دین کے کردار ہی پر حملہ آور ہے۔

ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس شوروغوغا میں اس بنیادی مسئلے کو گم ہوجانے سے بچایا جائے۔ ہر جماعتی، گروہی اور ذاتی اختلاف، مفاد اور تعصب سے بالا ہوکر نفاذِ شریعت کی حقیقت کو سمجھا جائے اوراسے حقیقت بنانے کے لیے جس طرزِ فکر، طریق کار اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، اس کی نشان دہی کی جائے تاکہ شریعت، جو نام ہے دین اسلام اور اس کے دیے ہوئے طرزِ فکروعمل کا، اور جس کی امتیازی خصوصیت ہی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ منزلِ مقصود تک لے جانے والا (حنیفیہ) ،نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا (سمحہ)، سہولت بخش (سہلہ)، منور، تابناک (بیضائ)، اور اتنا واضح ہے کہ اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے (لیلھا کنھارھا)، عملاً نافذ ہو۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم ان چند بنیادی غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی تصحیح کرنا چاہتے ہیں جو اس بحث میں بڑے بڑے جغادری اور بااثر افراد کی طرف سے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں۔

سب سے افسوس ناک اور باغیانہ رویہ ملک کی سیکولر اور غیرمسلم لابی کا ہے۔ یہ لابی کھل کر اسلامی ریاست اور شریعت کی بالادستی کے خلاف محاذآرائی میں پیش پیش ہے اور بڑے تند اور   تلخ انداز میں جارحانہ طور پر حملہ آور ہے۔ اس میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا نام لینے والے منظم گروہ اور ایک وہ گروہ بھی شامل ہے جو اپنے آپ کو ’دین کی جدید تعبیر‘ کا حق دار قرار دے کر، نئی نئی موشگافیاں پھیلاتا اور لمحہ بہ لمحہ موقف تبدیل کرتا دکھائی دیتا ہے (اس گروہ میں اور منکرینِ سنت میں بس دو چار ہاتھ کا فرق ہے)۔ یہ سبھی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب نے کھل کر مذموم لبرلزم سے نسبت جوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کے نام پر ہنگامہ برپا کرنے والا پورا طائفہ ہر طرف اپنی توپیں داغ رہا ہے اور   مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ان کی اپنی شریعت نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بے سروپا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ اور پالیسی ساز، جمہوریت اور اکثریت سے فیصلوں کے سارے دعوئوں کے اصول کو تسلیم کرنے کا دم بھرنے والے اس معمولی سی اقلیت کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں اور اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

ایک دوسرا طبقہ ذرا مختلف انداز میں کرم فرما ہوا ہے۔ اسے کھل کر سیکولرزم، لبرلزم اور لادینیت کی بات کرنے کی تو ہمت اور جرأت نہیں۔ اس لیے اس نے ایک خیالی خطرے کا ہوّا اُٹھایا ہے، یعنی اس کا نشانہ نام نہاد مذہبی پیشوائیت، تھیوکریسی اور ’مُلّاکا اسلام‘ ہے اور ’اقبال اور قائداعظم کے اسلام‘ کا نام لے کر یہ نفاذِ شریعت کی راہ کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔

اندریں حالات ملک کے عوام اور اس کی اسلامی قیادت کو اصل سوال___ یعنی شریعت کی بالادستی کے قیام کی تحریک کو، خواہ وہ کسی بھی سمت سے آئے اور کسی بھی شکل میں ہو، تقویت پہنچانے اور اس مسئلے کو دستوری اور قانونی اعتبار سے ایک بار مکمل طور پر طے کرا لینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور تحریکِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنا اور ان قربانیوں کا حق ادا کرنا ہے جو پاکستان کو دورِحاضر میں اسلام کی حقیقی تجربہ گاہ بنانے کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے دی تھیں اور جس کے لیے تحریک اسلامی نے ۱۹۴۸ء میں مطالبہ نظامِ اسلام کی آواز بلند کی اور اس دن سے لے کر آج تک شریعت کی بالادستی اور دین حق کی اقامت کے لیے جدوجہد کی ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ نے بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا اور رب کو تسلیم کرے یا  نہ کرے اور اپنے لیے اللہ کی بندگی یا اس سے بغاوت کا راستہ اختیار کرے (اور یہی معنی ہیں:      لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی ضمانت کے) تو بلاشبہہ ہم یا کوئی مسلمان ملک انسانوں کو ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔لیکن دو باتیں صاف ہونے چاہییں:

o  جہاں کفر اور انکار کی راہ اختیار کرنے والوں کو اپنے ذاتی عقیدے اور عمل کی آزادی کا اختیار حاصل ہے، وہاں انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو، جو اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی بالادستی کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتے ہیں، اس عمل سے روکیں اور اس کے لیے بیرونی، سیاسی اور تہذیبی قوتوں کی معاونت سے زورآوری کا ہر حربہ استعمال کریں۔ سیکولر لابی جو دوسروں کو ’مذہبی فسطائیت‘ ، ’انتہاپسندی‘ اور    ’عدم برداشت وغیرہ کا طعنہ دیتی ہے، خود بدترین ’سیکولر فسطائیت‘ کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس محدود اقلیت کو، اپنے سارے اثرورسوخ اور وسائل ابلاغ پر قدرت کے باوجود، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکے۔ ان حضرات کو اپنی بات پر قائم رہنے اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق ہے اور ہم اس کا دفاع کریں گے۔ تاہم، دلیل اور شائستگی کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنی بات کہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر وہ اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو خود پاکستان میں ان کی تحدید اور گرفت کے لیے قوانین موجود ہیں۔ لہٰذا انھیں اپنی راے اور ترجیحات کو ملّت اسلامیہ پاکستان کی عظیم اکثریت پر مسلط کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ جمہوریت کو اصل خطرہ اس آمرانہ اور جارحانہ ذہنیت سے ہے اور اسے قابو میں رکھنا خود جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔

خود مسلم معاشرے میں جو کمزوریاں اور نظریاتی تنوع بہت سے تاریخی اسباب کی بناپر پیدا ہوگیا ہے اس کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ افہام و تفہیم، تعلیم و تعلّم اور بحث و مباحثہ اور مکالمے کے ذریعے مختلف علیہ اور مختلف فیہ کا تعین ہوسکتا ہے۔ اتفاق کے وسیع دائرے میں تعاون ہو اور اختلاف کا احترام بھی اصول کے معاملات میں یکسوئی اور استقامت کی طرح ضروری سمجھا جائے۔ مسلم معاشرہ آزادی اور رواداری کی بنیاد پر وجود میں آتا اور ترقی کرتا ہے۔ کثرت میں وحدت اور  حدود اللہ کے دائرے میں تنوع اس کی امتیازی شان ہے۔ اس کی مثال اس باغ کی سی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوں۔

سارے اختلافات کے باوجود نرمی اور توسع ہمارا شعار رہا ہے اور آج بھی اسی میں بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جن چیزوں پر عظیم اکثریت یکسو ہے، جن کو وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہے اور جن پر اپنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا یقین رکھتی ہے، ان کے بارے میں محض کسی اختلافی نقطۂ نظر کے دبائو میں عمل نہ کیا جائے۔ جس طرح نظریاتی اقلیت کے حقوق ہیں، اسی طرح نظریاتی اکثریت کے بھی حقوق ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔

o یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونے اور قرآن و سنت پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ ایک شخص اسلام قبول کرتا ہے یا نہیں، یہاں تک تو اس کو آزادی حاصل ہے، لیکن اسلام کو قبول کرنا ایک ذمہ داری ہے۔ ہر ذمہ داری کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔  اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کی یہ آزادی کچھ میدانوں میں محدود ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اسلام نام ہی اس عہد کا ہے کہ انسان اللہ کو اپنا رب، خاتم الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو     اپنا رسول، ہادی، آقا اور رہبر اور اسلام کو اپنا دین اور طریق زندگی تسلیم کرلے اور اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ ’جزوی مسلمان‘ یا ’نیم مسلمان‘ کا کوئی تصور دائرۂ اسلام میں نہیں اور عقل بھی اسے گوارا نہیں کرتی۔ قرآن کریم نے صاف صاف فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ ۲:۲۰۸) اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائو پورے کے پورے، اور شیطان کے طریقے پر عمل پیرا نہ ہو۔

اسلام کی کچھ تعلیمات اور احکام کو ماننا اور کچھ کا انکار کر دینا، اللہ کی اطاعت اور بندگی کا راستہ نہیں ہے۔ اسلام کے شعوری اقرار کے بعد بندہ اپنی آزادی کو اللہ کی حدود کا پابند کرلیتا ہے اور پھر صرف ان حدود کے دائرے میں اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔ یہ تحدید وہ اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے، لیکن اس تحدید کے بعد یہ حق اسے نہیں رہتا کہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جسے چاہے رد کردے۔ یہ آزادی نہیں تناقض، دو رنگی اور منافقت ہے جس کی اسلام ہی نہیں کسی بھی نظام میں گنجایش نہیں ہوسکتی اور جس کے نتیجے میں بجز کش مکش اور صلاحیتوں اور وسائل کے ضیاع کے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ کریم کا فیصلہ ہے:

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف ۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ط (اعراف ۷:۳) لوگو، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔

وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o(المائدہ ۵:۴۴) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o(النساء ۴:۶۵) نہیں (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔

یہ ہے سچے مسلمانوں کی روش۔ اسی کا تقاضا ہے کہ شریعت کو بالادستی حاصل ہو۔ ماننے والوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے اور نہ ماننے والوں کو حق نہیں کہ ماننے والوں کو اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق اپنی زندگی کی شاہراہ تعمیر کرنے سے روکیں۔

اقبال اور قائداعظم کا اسلام

یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ کا بھیجا ہوا دین اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دکھایا ہوا راستہ ہے۔ یہ مکمل نظامِ حیات ہے اور اس میں زندگی کے تمام مسائل اور معاملات کا حل بھی موجود ہے اور انسانی معاشرے میں تغیر و تبدل اور ترقی و ارتقا کی جو حقیقی ضروریات ہیں ان کا بھی پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس فریم ورک میں اطاعت، آزادی، اختلاف اور تنوع ہر ایک کا اپنا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس کے اپنے اصول اور ضابطوں کے مطابق ہے۔ جہاں اسلام زندگی کے بنیادی معاملات کے بارے میں واضح اور دوٹوک راہ نمائی دیتا ہے وہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے بھی خود اپنے نظام میں کافی و شافی گنجایش اور مواقع رکھتا ہے۔ البتہ وہ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں کرتا، جو اس کے نظامِ اقدار کی ضد اور نفی کرنے والی یا ان کو مجروح کرنے والی ہو۔ خُذْ مَا صَفَا وَدَع مَا کَدَر (جو صحیح اور صحت مند ہے اسے قبول کرلو اور جو نامواقف ہے اسے ترک کر دو) کا اصول اس عمل کو ہمیشہ جاری و ساری رکھتا ہے۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ۵:۳) کے اعلان کے بعد زمان و مکاں کے تمام تغیرات اور وسعتوں کے باوجود آج تک اسلام ایک ہی رہا ہے۔نہ عربوں کا اسلام کوئی الگ ہے اور نہ پاکستان، ایران، ترکی، یورپ، امریکا اور افریقہ کے مسلمانوں کا۔ اسی طرح پہلی صدی کا اسلام، چوتھی صدی کا اسلام اور بیسویں صدی کا اسلام اپنا کوئی الگ الگ وجود نہیں رکھتے۔ اسلام تو ایک ہی رواں دواں دریا کے ما نند ہے، جس میں پانی کے نئے دھارے ملتے بھی رہتے ہیں اور اس کی نوعیت اور سمت پھر بھی ایک جیسی ہی رہتی ہے خواہ ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل، مالک، غزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ کا تصورِ اسلام ہو یا اقبال اور قائداعظم کا تصور۔ یہ سب اسی ایک اسلام کے علَم بردار تھے اور قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے باہر یا اس میں غیراسلام کی آمیزش کے رُونما ہونے والے کسی نظرثانی شدہ اسلام کے نہ قائل تھے اور نہ داعی۔ ان پر اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ ان کے اسلام اور مُلّا کے نام نہاد اسلام کو دست و گریباں کیا جائے۔ اور اقبال اور قائداعظم کا نام لے کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی شریعت سے فرار کی راہیں تلاش کی جائیں۔ علامہ اقبال کی تو پوری زندگی کا مشن اور پیغام ہی یہ تھا کہ:

علمِ حق غیر از شریعت ہیچ نیست

اصلِ سُنت جز محبت ہیچ نیست

ملّت از آئینِ حق گیرد نظام

از نظامِ محکمے خیزد دوام

قدرت اندر علم او پیدا ستے

ہم عصا و ہم یدِبیضا ستے

با تو گویم سِّرِ اسلام است شرع

شرع آغاز است و انجام است شرع

ہست دینِ مصطفیٰؐ دینِ حیات

شرعِ او تفسیرِ آئینِ حیات

تا شعارِ مصطفٰےؐ از دست رفت

قوم را رمزِ بقا از دست رفت

(رموزِ بے خودی)

سچا علم، شریعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، اور سنت ِ رسولؐ کی بنیاد محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ملّت کو بھی شریعت ہی سے نظام حاصل ہوتا ہے اور پختہ نظام اسے دوام عطا کرتا ہے۔

شریعت کے علم ہی سے (عمل پر) قدرت حاصل ہوتی ہے: یہ عصا (قوت کا نشان) اور یدِبیضا (نورِ ہدایت) بھی حاصل ہوتا ہے۔

میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کا راز ہے ہی ’شرع‘ کا آغاز اور ’شرع‘ ہی کا انجام۔

حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی دینِ فطرت ہے، اور شرعِ محمدیؐ آئینِ حیات کی تفسیر ہے۔

جب حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار (یعنی شریعت) ہاتھ سے نکل گیا تو قوم رمزِبقا سے بھی محروم ہوگئی۔

رہے قائداعظمؒ اور ان کے حقیقی رفقا (نواب زادہ لیاقت علی خاں، نواب اسماعیل خاں، بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ) تو تحریکِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد کم ز کم ڈیڑھ دو سو ایسے واضح بیانات تو صرف قائداعظمؒ کے موجود ہیں، جن میں اسلام کو اس جدوجہد کی منزل اور قرآن، اسوئہ رسولؐ، اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بالادستی کے قیام کو پاکستان کا مشن اور ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی دو ایک تقاریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے تصورات کی غلط تصویر پیش کرنے کی مذموم سعی کی جاتی ہے۔ یہ روش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے اور تمام حقائق کے سامنے آجانے کے باوجود ایک گروہ وہی رٹ لگائے جا رہا ہے ۔ اس سے خود اس گروہ کی بدنیتی بے نقاب ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان حضرات کا مقصد قائداعظم کے پورے تصور کو پیش کرنا نہیں، بلکہ اپنے مقاصد کے لیے چند جملوں کو استعمال کرنا ہے۔ ایسی صریح بددیانتی پر اُٹھائی جانے والی دیوار ریت کی دیوار ہی ہوسکتی ہے جو کسی تعمیر میں کام نہیں آسکتی۔

کراچی میں ۱۹۴۳ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا:

وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملّت کی عمارت قائم ہے اور وہ کون سا لنگر ہے جو سفینۂ ملّی کو تھامے ہوئے ہے؟ مسلم انڈیا کے سفینۂ ملّی کا مستحکم لنگر عظیم المرتبت کتاب قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے ویسے ہماری یہ وحدت بھی بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قوم!

سرحد [خیبر پختونخوا] مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو جو پیغام قائد نے ۱۹۴۵ء میںدیا، وہ یہ تھا:

پاکستان کا مطلب صرف آزادی و حُریت کا حصول نہیں ہے بلکہ اسلامی نظریے کا تحفظ بھی ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ قیمتی تحفے اور بیش بہا خزانے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔

اسی سال عید کے پیغام میں فرمایا:

بہ جز ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں ہرشخص آگاہ ہے کہ قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی بھی، معاشی و معاشرتی بھی، دیوانی بھی، فوج داری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی اور تعزیری بھی___ یہ ضابطہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب عطا کرتا ہے۔

سبّی دربار کے موقعے پر ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو قائد نے عہد کیا:

میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زریں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیے ہیں۔ آیئے! ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورت پر استوار کریں۔ خداے قادر و مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے  تمام اُمور میں ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی راہ نمائی میں ہوں۔

ہمیں بتایا جائے کہ قرآن و سنت کی واضح شاہراہ اور اسلام کے ضابطۂ قانون سے ہٹ کر اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا اسلام کون سا ہے؟ یہ ان دونوں بزرگوں پر تہمت اور خلط مبحث کی ایک شرم ناک کوشش ہے۔ شریعت میں کوئی ابہام نہیں اور ہرمسلمان اس شریعت کا علَم بردار اور طالب ہے جو  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی امانت کی شکل میں دی ہے۔ شریعت جو ہماری آزادی ، دنیوی فلاح اور اُخروی کامیابی کی ضامن ہے، جو تمام انبیا کی سنت رہی ہے اور جسے اپنی آخری اور مکمل شکل میں محمد عربیؐ نے انسانیت تک پہنچایا اور آج جس کی امین اُمت مسلمہ ہے۔ کامیاب اب وہی ہوگا جو اس راستے پر گامزن ہو:

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اعراف ۷:۱۵۷)

اسلامی قانون کی بنیادیں

شریعت اور اس کے نفاذ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی نوعیت اور حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور جو فرق شریعت یا اسلامی قانون اور مغربی قانون میں ہے، اسے نظر میں رکھا جائے۔ لغت کے اعتبار سے ’شرع‘ اور ’شریعت‘ کے معنی راستے کے ہیں۔ پرانے زمانے میں گھریلو استعمال کے لیے پانی، محلے یا دیہات کے کنویں، تالاب، نہر یا چشمے وغیرہ سے لایا جاتا تھا اور انسانوں اور مویشیوں کے باربار وہاں آنے جانے سے ایک ایسا راستہ بن جاتا تھا، جو سیدھا، مختصر، کشادہ، واضح اور صاف ہوتا تھا۔ اسی راستے کو عربی لغت میں شریعت کہا جاتا تھا۔ گویا وہ سیدھا، کشادہ اور واضح راستہ جو کسی بستی کے لوگوں کو پانی کے ذخیرے اور مصدر و ماخذ تک پہنچا دے۔

اصطلاحی اعتبار سے ’شریعت‘ سے مراد زندگی گزارنے کا وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں کے لیے مقرر فرمایا اور جو دین کے احکام اور اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور انسانی زندگی کی ان اصولوں کے مطابق عملی تشکیل کرنے کا واحد راستہ ہے۔

قرآن و سنت اس شریعت کے اصل اور بنیادی ماخذ ہیں۔ اس کے ایک حصے کا تعلق عقائد، افکار اور احساسات سے ہے اور دوسرے کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے۔ فقہ یا اسلامی قانون، شریعت کے اس حصے کا نام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اسلامی تشکیل سے بحث کرتا ہے۔ فقہاے کرام ’فقہ‘ کی یہی تعریف کرتے ہیں: ’’فقہ وہ علم ہے، جس کے ذریعے شریعت کے عملی احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے‘‘۔

شریعت انسان کی عملی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کے احکام جہاں ایک طرف امرونہی، حلال و حرام، مستحب اور مکروہ کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں حدود کی اس صف بندی کے ساتھ ساتھ مباح اور انسانی آزادی کے میدان کو بھی واضح اور نمایاں کردیتے ہیں۔ اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہردور میں اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے نئی قانون سازی کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔

شریعت کے صرف ایک حصے کا نفاذ ہر فرد اور ادارہ اپنی ذاتی مرضی اور پیش قدمی (initiative) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس طرح ایک خودکار نظام (self-executing system) کے ذریعے شریعت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رچی بسی ہے۔ عبادات و مناکحات میں معاملات کا ایک بڑا حصہ آجاتاہے۔ لیکن شریعت کا ایک حصہ وہ ہے، جسے نافذ کرنے کے لیے معاشرے اور ریاست کی اجتماعی قوت درکار ہوتی ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جس کے لیے آج کے دور میں دستور، قانون، ریاستی مشینری اور ضابطۂ کار اور عدالتی نظام کو شریعت کے مقاصد اور احکام کا خادم اور کارندہ بنانا ضروری ہے۔

اسلامی قانون بیک وقت ایک خالص مذہبی، نظریاتی اور روحانی قانون ہی نہیں بلکہ ملکی اور عدالتی قانون بھی ہے۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب میں مذہبی قانون اور ملکی اور عدالتی قانون میں فرق کیا گیا ہے۔ مذہبی قانون بالعموم فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا گیا ہے اور اس کے نفاذ کو بھی اس کے  فہم و ارادے اور ضمیر پر چھوڑ دیا گیا۔ ریاستی اور عدالتی قانون صرف دنیاوی معاملات سے متعلق رہا اور اس کا انحصار رسم و رواج، بادشاہ کے حکم یا کسی بالاتر مقتدر یا مقننہ کے فیصلے اور عدالت کے فیصلے کی نظیر پر رہا۔ اسلامی قانون میں وحدت، ہم آہنگی اور ہمہ گیری ہے۔ یہ قانون محض عبادات اور   اللہ اور بندے کے تعلق تک محدود نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کا تعلق انسانوں سے اور فرد کا معاشرے، اجتماع اور ریاست سے تعلق بھی اس کے دائرۂ کار میں شامل ہے۔ اسلام کا قانون شخصی، معاشی، دیوانی، تعزیری، بین الاقوامی تمام دائروں پر محیط ہے۔ یہ عبادات سے لے کر خاندانی زندگی، معاشی تگ و دو، عمرانی معاملات، جرم و سزا، جنگ و صلح، غرض ان سب کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔

ایک مذہبی قانون ہونے کی حیثیت سے یہ ہرمسلمان کے ایمان کا معاملہ ہے اور اس پر عمل  اس کے ایمان اور عقیدے کا تقاضا ہے۔ اس لیے قانون محض جبر اور قوتِ قاہرہ کی علامت نہیں، بلکہ ایمان کا تقاضا، دل کی پکار، زندگی کی آرزو اور اجتماعی زندگی کا ادب بن جاتا ہے۔ اس کا نفاذ صرف ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے نہیں، بلکہ ضمیر کی آمادگی اور رب کی طاعت گزاری کے جذبے سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ پولیس اور عدالت کا بھی ایک مقام ہے، لیکن جو چیز اسلام کے قانون کو منفرد درجہ دیتی ہے، وہ اندر کی آواز اور باہر کے قانون کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کو تقویت دینے کی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون پر پولیس کے پہرے اور مخبروں کے خوف سے کہیں زیادہ ضمیر کی خلش اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے عمل ہوا ہے۔ رات کی تاریکیوں اور تنہائوں میں بھی اس پر عمل درآمد کا جذبہ ویسا ہی قوی ہوتا ہے جیسا دن کی روشنی اور محتسب کی موجودگی میں۔ اور جرم کے ارتکاب کے بعد توبہ ہی نہیں بلکہ پاکی کے حصول کے لیے ’مجرم‘ خود سزا کا طالب بن جاتا ہے۔

جہاں اسلامی قانون کی یہ روح ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کو محض ضمیر اور فرد کے ذاتی جذبے پر نہیں چھوڑتی، بلکہ انسانی فطرت اور معاشرے کی ضروریات کو سامنے رکھ کر ریاست کی شیرازہ بندی کے واضح احکام دیتی ہے، نظامِ امر قائم کرتی ہے، انتظامی مشینری وجود میں لاتی ہے، پولیس اور عدالت کے نظام کو قائم کرتی ہے ،اور اس طرح اندرونی قوت اور جذبے کی تکمیل بیرونی قوت اور نظام کے ذریعے کرتی ہے۔ ریاست اپنے تمام اداروں کے ذریعے ایک طرف تلقین، تعلیم اور بہتر نمونے کا اہتمام کرتی ہے تو دوسری طرف ریاستی قوت اور عدالتی اداروں کے ذریعے قانون توڑنے والوں کی گرفت اور معاشرے کو جرم اور ظلم سے پاک کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ دین اور ریاست ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن جاتے ہیں۔ سیکولر ریاست اور اس کے تمام ادارے دین کی رہنمائی سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دین ریاست اور معاشرے کے وسائل سے محروم رہتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے حضرت عثمانؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:

اسلام ایک بنیاد ہے جس پر مسلمانوں کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور حکومت ایک نگہبان اور محافظ ہے۔ اگر کسی عمارت کی بنیاد نہ ہو تو وہ کمزور رہتی ہے اور گر جاتی ہے، اور اگر کسی عمارت کا کوئی محافظ اور نگہبان نہ ہو تو وہ ضائع ہوجاتی ہے، اس کو لوٹ لیا جاتا ہے یا اس پر دوسرے قابض ہوجاتے ہیں۔

اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ:

  •                    شریعت پوری زندگی کے لیے راہِ عمل ہے۔
  •                   قرآن و سنت اور ان کی روشنی میں مستنبط کیے ہوئے احکام ہی مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کرتے ہیں۔
  •                       یہ شریعت زندگی کے تمام اُمور پر حاوی ہے۔
  •                       دنیوی قوانین کی طرح یہ محض ریاست کی قوتِ قاہرہ کے آگے سرتسلیم خم کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ قانون، ایمان و ضمیر کی پکار کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مرتب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •                    اندرونی پہل قدمی یا داعیہ کے ساتھ ساتھ ریاستی، انتظامی اور عدالتی نظام کا خود شریعت کے ماتحت ہونا اور اس کے نفاذ کے عمل میں شرکت اور معاونت کے لیے مثبت اور مؤثر کردار ادا کرنا، اس نظام کا حصہ ہے۔
  •                   شریعت کے نفاذ کا عمل ایمان اور ضمیر کی بیداری، تعلیم و تلقین کے نظام، معاشرے کے آداب و روایات اور قانون کی قوت، ان سب کے حسین امتزاج سے عبارت ہے۔    نہ محض اخلاقی تلقین اور نہ محض جبروقوت کا استعمال۔

مندرجہ بالا عوامل کا ساتھ ساتھ مؤثر ہونا شریعت کے نفاذ کے لیے ضروری ہے۔

یہ عمل ہر فرد سے دل کی گہرائیوں سے اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے سرشار ہوکر شرکت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے بھی لازم کرتا ہے کہ وہ تعلیم و تلقین اور اچھی مثال کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم اور برائیوں کے روکنے کا کام انجام دیں۔ حق دار کو اس کا حق پہنچانا اور ظالم کو ظلم سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز اور روزے کا اہتمام___ بلکہ نماز تو ہے ہی اس لیے کہ بُرائیوں سے روکے (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ - العنکبوت ۲۹:۴۵)۔ اور روزے کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ متقی بنیں اور قانون کی پاس داری کریں (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)۔

ریاست کا مطلوبہ کردار

شریعت کے نفاذ کا کام بڑا منفرد اور بابرکت ہے۔ اس میں قانون اور اس کی حقیقی اسپرٹ دونوں کا ساتھ ساتھ اہتمام ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں فرد، عوام، نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، اجتماعی اداروں اور حکومت سب کی شرکت ضروری ہے۔البتہ دو وجوہ سے حکومت کا کردار سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ یہ ہیں:

  •                     اولاً، آج کی ریاست ایک ہمہ گیرادارہ بن گئی ہے جو ملک اور معاشرے کے وسائل کے بڑے حصے پر تصرف کے اختیارات رکھتی ہے۔ اس لیے جب تک یہ وسائل شریعت کے تابع اور اس کے نفاذ کے لیے استعمال نہ ہوں تبدیلی نہیں آسکتی۔
  •                              ثانیاً، مسلم معاشرہ صدیوں سے انتشار، اضمحلال اور غلامی کے بعد نئی زندگی کی تعمیر کے لیے سرگرداں ہے۔ صدیوں میں جو ادارے قائم ہوئے تھے اور جو اسلامی نظام کے لیے لنگر کا کام کر رہے تھے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ تعلیم کا ایک لادینی نظام دوصدیوں سے قوم پر مسلط ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کیفیت واقع ہوگئی ہے جسے علامہ محمد اقبالؒ نے یوں ادا کیا تھا     ؎

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

غیراسلامی اور مغربی دنیا سے درآمد شدہ ادارے اور انتظامی در و بست مسلم معاشرے پر بزور ٹھونسے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فرد کی کوششوں کے ساتھ معاشرہ، ریاست اور اس کے تمام ادارے ظلم اور باطل سے نجات اور حق اور معروف کے قیام میں مکمل طور پر شریک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف انفرادی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔  نجی طور پر خیر کے فروغ اور بدی کے مٹانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ بہت غنیمت ہے اور  اس کے اچھے اثرات بچشم سر دیکھے جاسکتے ہیں، مگر مطلوبہ تبدیلی کے لیے وہ کافی نہیں۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ میں اس کش مکش اور اس کے بُرے نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ زندگی کو اس تناقض (contradiction) اور تصادم سے پاک کیے بغیر ہم اپنے انسانی اور مادی وسائل کو صحیح صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور مطلوبہ نتائج رُونما نہیں ہوسکتے۔

آج مسئلہ صرف انفرادی خطا اور بے راہ روی نہیں اجتماعی فساد اور منظم ظلم ہے۔ اس کی بھی یہ کیفیت ہے کہ گویا زمین و آسمان بگاڑ اور فساد سے بھر گئے ہیں (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ-  الروم ۳۰:۴۱)۔ ان حالات میں اجتماعی قوتوں کو تعلیم و تلقین، مظلوم کی دادرسی، حق دار کو حق پہنچانے اور ظلم اور فساد دُور نہیں ہوجاتے، غربت اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہوتا، مجبور اور مظلوم قوی نہیں بن جاتے اور منہ زور اور ظالم قابو میں نہیں کر دیے جاتے___ شریعت کے اہداف حاصل نہ ہوسکیں گے۔اور یہی وہ میدان ہے جس کی اصلاح کے لیے ریاست اور اس کی اجتماعی قوتوں کو اسلام کے لیے مسخر کرنا ضروری ہے، تاکہ قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے لیے انصاف اور عدل قائم ہوسکے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ - الحدید ۵۷:۲۵)۔

نفاذِ شریعت کی راہ میں اصل رکاوٹ

سوال یہ ہے کہ اس منزل کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں ہوپاتی؟ اصل کمی، کسر اور بگاڑ کہاں ہے؟ شریعت کے نفاذ کی راہ میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں اور ان کا سدباب کیسے ممکن ہے؟

جیساکہ ہم نے اُوپر نشان دہی کی شریعت نے اپنے نفاذ کے لیے چار راستے اختیار کیے ہیں، یعنی: ۱- ایمان اور اندرونی محرک، ۲- تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کا ایک ہمہ گیر نظامِ دعوت، ۳-معاشرہ اور اس کے ادارے، خاندان سے لے کر وقف اور تکافل اجتماعی (رفاہ عامہ) تک، اور ۴- ریاست، قانون اور نظامِ قضا (عدالتی نظام)۔

شریعت چاہتی ہے، یہ تمام کام انفرادی اور نجی سطح پر بھی انجام دیے جائیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ چونکہ ریاست نظامِ امر کا مرکز ہے، اور اللہ کے رسولؐ نے جو وظائف بحیثیت سربراہ انجام دیے، ان کی امین ہے۔ اس لیے ریاست اور حکومت کی ذمہ داری دوہری ہے، یعنی خود اپنے دائرے میں اپنے فرائض کی انجام دہی اور دوسرے تمام اداروں کی معاونت و سرپرستی، تاکہ فرد اور سول ادارے اپنے اپنے کردار بخوبی انجام دے سکیں۔

اجتماعی دائرے میں نفاذِ شریعت کے لیے جو حکمت عملی مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں اختیار کی ہے اس میں تنوع اور جدت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے حالات او ر مسائل کی روشنی میں انھوں نے کیا کیا راستے اختیار کیے۔ اصل نمونہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے جو داعی اور مربی اور معلّم بھی تھے اور سربراہِ مملکت، قاضی اور حاکم بھی۔ آپؐ کی راہ نمائی میں ایک مرکزی نظام کے ذریعے مندرجہ بالا چاروں دائروں کی رہنمائی کا حق ادا کیا گیا اور تاریخ کا روشن اور کامیاب ترین انقلاب رُونما ہوا۔

 خلافت راشدہ نے اسی نمونے پر عمل کیا اور نظامِ ریاست و قیادت میں شگاف پڑنے کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اُموی دور میں اس نمونے کے احیا کی کامیاب کوشش کی۔ بعد کے اَدوار میں یہ مرکزیت اور ہمہ گیری باقی نہ رہی لیکن ہر ہر میدان کے لیے مؤثر انتظام کی کوشش کی گئی اور وقت کے چیلنجوں کی روشنی میں خصوصیت سے ریاست، قانون اور نظامِ عدالت کو اسلام کے مطابق اور شریعت کی حدود میں رکھنے کے لیے نئے تجربات اور نئے انتظامات کیے گئے۔ اس سلسلے کا سب سے عظیم اور تاریخی کارنامہ اُمت کے معتبر اور معتمد علما کا غیرسرکاری انتظام کے تحت فقہ اور اصولِ فقہ کی تدوین ہے۔ یہ قانون اخلاقی اور اجتماعی عوامی قوت و تائید سے ملک کا قانون بنا اور ایک مؤثر اور آزاد نظام قضا (عدل) کا قیام عمل میں آیا جو شریعت کے نفاذ کا ضامن بن گیا اور خود اربابِ اقتدار بھی اس قانون کے اسی طرح تابع ہوگئے جس طرح باقی انسان۔

اس طرح قانون کا وہ تصور جو دوسری تہذیبوں اور مملکتوں میں ’حکمران کی مرضی‘ کے مترادف تھا، بالکل بدل گیا۔ اسلامی قلمرو میں ’شریعت‘ ہی ملک کا قانون بن گئی اور حکمران کی مرضی بھی اس کے تابع ہوگئی۔ یہ قانون کسی قانون ساز اسمبلی نے نہیں بنایا تھا، مگراس کی تشکیل و ترقی میں: سرکاری سرپرستی یا نظام سے وابستہ کسی ادارے نے نہیں بلکہ مسلمان اُمت اور اس کے آزاد   فکری قائدین، علما، فقہا اور دوسرے اُمور زندگی کے ماہرین نے حصہ لیا۔ علمی، عوامی اور جمہوری طریقے اور عمل سے یہ قانون وجود میں آیا اور مسلسل ترقی کرتا رہا۔ اجتہاد، قیاس، استنباط، استحسان، مصالح مرسلہ، استدراک اور اجماع کے ذریعے تازہ فکر، مشاہدہ اور تجربہ، اپنی اصل بنیاد سے تعلق قائم رکھتے ہوئے ترقی کرتا رہا اور ایک ہزار سال تک پوری اسلامی قلمرو کو سیراب کرتا رہا۔

ایسی مثالیں بھی ہیں کہ کچھ خدا ترس حکمرانوں نے اس قانون کو مرتب اور مدون کر کے  اپنی قلمرو میں نافذ کرنے کی کوششیں کیں۔ اسلامی قانون کا یہ مزاج ہے کہ وہ محض حکمران کی مرضی یا ترجیحات یا مقننہ (قانون ساز ادارے) کی آزاد مرضی کا نام نہیں ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام، منشا و مرضی اور قرآن وسنت کے اصولوں کی روشنی میں پیش آمدہ معاملات کے بارے میں اصل ماخذ اور ان سے استفادے کے ضوابط کار کے مطابق رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کا نام ’اسلامی قانون‘ ہے۔

یہی وہ قانون ہے جسے دورِ غلامی سے نجات پانے اور آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے بعد حاصل کردہ اختیار اور اقتدار کے اس زمانے میں ملّت اسلامیہ پاکستان، نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ برطانوی اقتدار کے نقصانات اور مظالم کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن بیرونی استعمار کا  سب سے پہلا ہدف شریعت اور نظامِ قضا (نظامِ عدل) ہی تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سارے ہی ادارے تباہ کردیے گئے اور آخری حصار، یعنی خاندانی نظام پر بھی مختلف سمتوں سے تابڑ توڑ حملے کیے گئے اور اس عظیم الشان نظام کو تہ و بالا کردیا گیا جو مسلمانوں نے اجتماعی میدان میں قائم کیا تھا۔

حصولِ آزادی کے بعد پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ریاست کا قبلہ درست کیا جائے، اس کے مقاصد اور اہداف کو متعین کیا جائے اور نظامِ قانون کے مطابق اصول و ضوابط مرتب کیے جائیں۔ برطانوی دور میں تقریباً چار ہزار قوانین حکومت نے اپنے فرمان کے ذریعے مسلط کیے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ دستور کی صحیح بنیادں پر تدوین کے بعد قانون کا جائزہ لیا جاتا۔ ایمان اور آزادی کے تقاضوں کے مطابق پورے قانونی ورثے کا جائزہ لے کر نہ صرف ان تقاضوں سے متصادم قوانین یا قوانین کے حصوں کو ختم کیا جاتا، بلکہ نئی قانون سازی ہو تی، تاکہ مثبت انداز میں ان دونوں ضرورتوں کے مطابق نیا قانونی نظام اور عدالتی ڈھانچا وجود میں آتا اور اس طرح وجود میں آتا کہ کوئی بحرانی کیفیت نہ پیداہوتی۔ مگر اس سمت میں اول تو کوئی کوشش نہ کی گئی، اور اگر کوئی قدم اُٹھایا گیا تو وہ بھی نیم دلی کی تصویر بنا رہا۔

قراردادِ مقاصد اس سمت میں پہلا روشن اور تابناک قدم تھا۔ لیکن اس کے بعد سے آج تک ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی گردان کی جاتی رہی ہے اور اس سے وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں باربار نفاذِ شریعت کے مطالبے اُٹھتے ہیں اور حکمران جان بچانے کے لیے چند نمایشی اقدام تو کرتے ہیں لیکن کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوتی۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا بہت قریب سے تجربہ صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ہوا۔ ہم نے پورے خلوص سے ان کو اسلامی نظام کے نفاذ کا ایک مربوط اور مکمل پروگرام دیا، مگر اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات کے اظہار کے باوجود    وہ اس طرف کوئی حقیقی اور دیرپا پیش رفت نہ کرسکے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نفاذِ شریعت کے مسئلے کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے۔ پھر مسئلے کی نوعیت کی مناسبت سے عملی اقدامات کا ایک ہمہ جہتی پروگرام مرتب کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے مؤثر اور کارفرما مشینری وضع   کی جائے۔

نفاذِ شریعت: بنیادی اقدامات

نفاذِ شریعت کسی ایک اعلان کا نام نہیں۔ یہ تو ایک مسلسل عمل ( process) ہے جس کی مختلف جہتیں ہیں اور ہرجہت کو دوسری کا معاون و مددگار اور اس کی تقویت کا باعث ہونا چاہیے، تب ہی مربوط اور دیرپا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء صاحب بار بار کہتے تھے کہ آپ مجھے کوئی ایک چیز بتا دیں جس کے اعلان سے شریعت نافذ ہوجائے، اور میں ہمیشہ ان کو یہی سمجھاتا تھا کہ اگر آپ فی الحقیقت نفاذِ شریعت چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک اعلان نہیں، تبدیلی کا ایک مفصل اور مربوط پروگرام بنانا ہوگا___ اس کے اہم اجزا یہ ہیں:

                ۱-            دستور میں قرآن و سنت (شریعت) کی بالادستی کا اظہار اور اسے قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مستقل ماخذ قرار دینا۔نیز دستور میں ایسی ترامیم جو اس کو شریعت سے متصادم  اجزا سے پاک کردے۔ دستور کو بار بار ادھیڑنا صحیح نہیں۔ اسی لیے دستور سازی اور قانون سازی میں فرق کیا جاتاہے اور اس کا احترام ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب ہم نے تحریری دستور کا راستہ اختیار کیا ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہییں۔

                ۲-            دستور میں شریعت کے قانونی احکام کے نفاذ کے لیے ایک واضح اور مؤثر نظامِ کار کا تعین۔

                                ___ دفعہ ۲۲۷ ایک اہم انتظام ہے لیکن اس کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ ایک متعین مدت میں اپنا فرض انجام دے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کے لیے سات سال کی مدت رکھی گئی تھی کہ اس زمانے میں تمام مروجہ قوانین کو شریعت سے ہم آہنگ کرلیا جائے گا۔ یہ کام آج تک نہیں ہوا ہے۔

                                ___ اسی دفعہ کی رُو سے آیندہ کے لیے بھی شریعت کے احکام کے نفاذ کے لیے قانون سازی ضروری ہے اور یہ قانون سازی، اسمبلی اور سینیٹ کو ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے مشورے اور معاونت سے کرنا تھی۔ مگر اس باب میں بھی ہمارا قومی ریکارڈ بڑا ہی افسوس ناک ہے۔

                ۳-            دستو ر نے شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں دفعہ ۲۲۷ کے ساتھ ایک دوسرا راستہ ’پالیسی رہنما اصول‘ (باب ۲، دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کی شکل میں نکالا۔ جو عدالتوں کے ذریعے نافذالعمل نہیں تھا مگر ہر سال پارلیمنٹ کو کارکردگی کی رپورٹ کی شکل میں اس عمل کو آگے بڑھانا پیش نظر تھا۔ اس سلسلے میں بھی پیش رفت صفر ہی رہی ہے۔

ان تینوں کے عملاً غیرمؤثر ہوجانے کے بعد نفاذِ شریعت کا ایک دوسرا نسبتاً مختصر راستہ عدلیہ کو یہ اختیار دینا تھا کہ خود اپنے ایما یا اختیار (suo moto)، یا کسی کے توجہ دلانے اور استغاثہ کرنے پر کسی قانون کا جائزہ لے کر متعین کرسکے کہ وہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا متصادم،اور تصادم اور عدم تطابق کی صورت میں اسے کس طرح کالعدم کیا جائے۔

یہاں مسئلہ یہ پیش آیا کہ عدالتوں کے جج حضرات بالعموم اس بنیادی علم سے آراستہ نہیں جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے۔ صحیح راستہ تو یہ تھا کہ قانون کی تعلیم کے نظام کو، وکلا اور ججوں کی تربیت،انتخاب، ترقی کے اصول و ضوابط کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا انتظام کیا جائے کہ ایک معقول مدت میں نیچے سے اُوپر تک جج قانون کے علم کے ساتھ شریعت کا علم بھی رکھتے ہوں اور اخلاق و تقویٰ کے اعتبار سے بھی دینی معاملات میں قوم کے اعتماد کے مستحق ہوسکیں۔ یہ عمل صحیح اور معیاری ہونے کے باوجود وقت طلب تھا۔ اس لیے صدرضیاء الحق کے دور میں پہلے تمام ہائی کورٹوں میں شریعت بنچ کے قیام کی تجویز آئی، جسے عدلیہ نے پسند نہیں کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا راستہ اختیار کیا گیا، جس پر ۱۹۸۰ء سے عمل ہو رہا ہے اور جس کے لیے دستور میں ایک پورے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں چند بڑی بڑی خامیاں رہ گئیں:

                ۱-            اس کا دائرۂ کار محدود تھا۔ قوانین کی اکثریت اس کے دائرۂ کار سے باہر تھی۔

                ۲-            یہ صرف قانون یا اس کے کسی حصے پر کلام کرسکتی تھی۔ انتظامی احکام اس کے دائرے سے باہر تھے۔

                ۳-            اس کے ججوں کا تقرر، تبدیلی، تنزلی وغیرہ کے بارے میں ایسے من مانے ضابطے بنائے گئے جو نہ صرف عدلیہ کی آزادی اور اس عدالت کے مستقل وجود کے منافی تھے، بلکہ خود اسلام کے تصورِ عدل کے ساتھ بھی مذاق تھے۔

                ۴-            اسے داد رسی اور عارضی احکام (interim injunctions)کا اختیار حاصل نہ تھا، یعنی یہ عدالت بالکل بے طاقت تھی۔

                ۵-            اس کو صرف حدود کے معاملات میں اپیلوں کی سماعت کا اختیار حاصل تھا۔ باقی اس کا اصل دائرئہ اختیار صرف قوانین کے بارے میں راے دینے تک محدود تھا۔ غنیمت ہے کہ اتنی گنجایش تھی کہ اگر اس کے دیے ہوئے وقت میں مقننہ قانون سازی نہ کرے یا   سپریم کورٹ میں اپیل نہ ہوجائے تو کم از کم زیرنظر قانون کا خلافِ شریعت حصہ معدوم ہوجائے گا۔ گو اس کی نوبت کم ہی آسکی۔

اس طرح نفاذِ شریعت (قانون کے جدید تصور کی حد تک) کے جو جو راستے ہو سکتے ہیں، عملاً دونوں ہی غیرمؤثر رہے۔ اور اس وقت سب سے اہم فیصلہ یہی کرنا ہے کہ ان میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جائے، یا دونوں طریقوں کو بہ یک وقت جاری رکھا جائے۔

دیگر اھم عوامل

نفاذِ شریعت کا عمل محض قانونی عمل نہیں ہے، گو قانونی دائرے میں قانونی مشینری کے ذریعے اس کام کو انجام دینا ازبس ضروری بھی ہے اور اس کے لیے مزید مؤثر اقدامات بھی درکار ہیں۔ اس قانونی عمل کے ساتھ جن دوسرے اقدامات کی ضرورت ہے ہم ان کی نشان دہی کرتے ہیں:

  •  پالیسی سازی اور تقاضے: اہم ترین چیز قانون کے ساتھ ساتھ پالیسی، پالیسی سازی کے طریق کار، پالیسیوں پر احتساب اور انتظامی احکامات کو بھی عدالتی مواخذے (judicial review) کے لیے کھولنا ہے۔ شریعت کے نفاذ کے لیے صرف قانون سازی ہی کافی نہیں، بہت بڑا دائرہ پالیسی سازی کا ہے اور اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے لیے کوئی مشینری بھی موجود نہیں ہے۔ ہر وزارت آزاد ہے اور شرعی رہنمائی اور احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک غیرمؤثر مشاورتی ادارہ ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی تعلق حکومتی مشینری سے نہیں۔یہ ایک دُور دراز جزیرے کے طور پر کام کرتا ہے، جب کہ ملک کے پلاننگ کمیشن اور تمام مشاورتی اداروں سے اس کا دستوری، انتظامی اور عملی تعلق (interaction) ہونا چاہیے۔ راقم کو اس کا عملی تجربہ اس وقت ہوا جب پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور وزیرمنصوبہ بندی کی حیثیت سے نفاذِ اسلام کی طرف پیش قدمی اور منصوبہ سازی کی کوشش کی گئی۔ معلوم ہوا کہ نظریاتی کونسل کا کوئی ربط کسی پالیسی ساز ادارے سے نہیں اور نہ پالیسی ساز اداروں نے یہ زحمت کی کہ اس ادارے سے کوئی استفادہ کریں۔ ہم نے پلاننگ کمیشن اور نظریاتی کونسل کے مشترک اجتماعات کیے اور ان کی مشترک کمیٹیاں تشکیل دیں، تو معلوم ہوا کہ پالیسی سازی میں اسلام سے راہ نمائی لینے کا عمل کس طرح متحرک کیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑا قیمتی لیکن مختصر تجربہ تھا۔

’پاکستان قومی اتحاد‘ ۱۹۷۸ء کے وسط سے ۱۹۷۹ء کے اوائل تک، چند ماہ کے لیے    ضیاء حکومت کا حصہ رہا۔ مگر قومی اتحاد کے حکومت سے نکلنے کے بعد (۱۹۷۹ئ) سارا انتظام بتاشے کی طرح بیٹھ گیا۔ اس سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جب تک تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کو عملاً اس کام میں شریک نہ کیا جائے کوئی پیش رفت مشکل ہے۔ دوسرے، یہ کام محض وقتی طور پر نہیں، مستقل بلکہ اداراتی انتظام کی شکل میں ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے سب سے اہم چیز سیاسی اثرورسوخ، عزم و ارادہ اور جذبۂ عمل (political will) ہے۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نفاذِ اسلام کے عمل کو غیرمؤثر اور غیرنتیجہ خیز کرنے والی چیز اسی سیاسی ارادے کی کمی ہے اور یہ صرف ایک فرد کے عزم کا مسئلہ نہیں، یہ پوری سیاسی مشینری اور اجتماعی قیادت کے ارادے اور عزم کا مسئلہ ہے۔ اور جب تک یہ حل نہ ہوگا، گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔

  •  تبدیلیِ قیادت:دوسری اہم ترین ضرورت سیاسی عزم و ارادہ ہے، جس کا اظہار ہرسطح پر ہونا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب انقلاب قیادت واقع ہو۔ اب تک کی تمام ہی قیادتوں کا حال (چند انفرادی استثنائی حوالوں کو چھوڑ کر) بڑا ہی مایوس کن رہا ہے۔ قانون سازی اور پالیسی کی تبدیلی کا آخری انحصار افرادِ کار کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت پر ہوگا۔ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے کی قیادت میں اندر سے تبدیلی آئے یا اسے ایسے افراد سے تبدیل کیا جائے جو اس میدان میں صحیح قیادت اور نمونہ فراہم کرسکیں۔ اس قیادت کے لیے تین چیزیں ازبس ضروری ہیں:

اول: اس کا اپنا عزم، وژن، کردار اور نمونہ۔

دوم: اس کا علم، تجربہ، صلاحیت کار، مشاورتی نظام اور اعلیٰ کارکردگی۔

سوم: ایک مؤثر نظامِ شوریٰ اور احتساب تاکہ قیادت صحیح راستے پر قائم اور گامزن رہ سکے۔

اس سلسلے میں اہم ترین مثال سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی ہے کہ کس طرح ایک ایسے نظام میں جس میں بگاڑ واقع ہوگیا تھا اور قدیم جاہلیت نے اسلام کی انقلابی اصلاحات کو غیرمؤثر یا معدوم کرکے پیچھے کی طرف چلانا شروع کر دیا تھا، انھوں نے ڈھائی سال کے مختصر وقت میں دوبارہ نظامِ حکومت و ریاست کو خلافت راشدہ کی راہ پر ڈالا۔ اور بے نفسی، قربانی، مفاد پرست طبقات پر ضرب اور ریاست کو اس کے اسلامی مقاصد کے لیے دوبارہ منظم کرنے کا کام انجام دیا۔ اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کر کے، اپنے خاندان اور قبیلے کو لگام دی۔ حق پرستی، اصولوں پر عدم لچک، مظلوموں کی دادرسی، میرٹ کا اہتمام اور نتائج سے بے پروا ہوکر باطل سے سمجھوتوں کی روش سے اجتناب کیا۔ یہ تھا قیادت کا وہ نمونہ جو عمرثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا اور یہی وہ نمونہ ہے جس کی آج ضرورت ہے۔

  •  نظامِ تعلیم و تربیت: دستور، قانون، پالیسی اور قیادت کے بعد تعلیم و تربیت، مطلوبہ مردانِ کار کی تیاری اور ترغیب و ترہیب کے ایسے نظام کا قیام ضروری ہے جس کے نتیجے میں صحیح افراد ہر سطح پر ذمہ داری کے مقام پر آسکیں۔ لوگوں کو اعتماد حاصل ہو اور وہ نظام پر بھروسا کرنے لگیں۔ جہاں ضروری ہے کہ پہلے قدم پر ہی اس کام کا آغاز کر دیا جائے وہاں یہ بھی ضروری ہوگا اسے مستقل مزاجی سے جاری رکھنے کا اہتمام ہو تاکہ فطری انداز میں مناسب نظام الاوقات کے تحت تبدیلی واقع ہوسکے۔
  •  راے عامہ کی ھمواری:اس پورے عمل میں جہاں قانون کی بڑی اہمیت ہے، وہاں افراد اور معاشرے کی ایسی تیاری ضروری ہے کہ لوگ دلی آمادگی اور خوش دلی سے شریعت کے نفاذکے عمل میں شریک ہوں۔ یہ کام نہ محض وعظ سے ہوسکتا ہے اور نہ صرف جبر اور ڈنڈے کی قوت سے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ نفاذِ شریعت کا ہمیں سکھایا ہے اور جس کا نمونہ آپؐ نے پیش فرمایا ہے۔ اس کا نمایاں خاصہ، دل اور ذہن کی تبدیلی اور اخلاق و کردار کے انقلاب کے ساتھ، قانون اور حکومت کی انتظامی اور تادیبی قوتوں کا متوازن اور حسین امتزاج ہے۔     نفاذِ شریعت کے لیے ہر دور میں ان دونوں دھاروں کا آپس میں ملنا اور ایک دوسرے کو تقویت پہنچانا ضروری ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر عمل ہے اور اس میں سب کی شرکت ضروری ہے۔ یہ مقصد پابندیاں لگانے اور ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکے لیے آزادی، اختلاف اور رواداری کا ہونا ضروری ہے، ورنہ آمریت اور استبداد کی فضا میں یہ عمل جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کے لیے تو حقوق کا احترام، فرائض کی ادایگی کا جذبہ، شوریٰ کی فضا، نیکیوں میں مسابقت کا شوق، ایک دوسرے کے لیے احترام، ایثار، قربانی اور باہم معاونت درکار ہے تاکہ گرتوں کو تھاما جاسکے اور بے راہ روی کا شکار ہو جانے والوں کو سینے سے لگا کر جہنم کی آگ اور دنیا کے خسران سے بچایا جاسکے۔ معاشرے میں یہ فضا اور یہ جذبہ پیدا کرنا بھی نفاذِ شریعت کا لازمی حصہ ہے۔
  •  مقاصدِ شریعت کا تحفظ:یہ پورا کام جس ذہن اور جذبے سے ہونا چاہیے وہ وہی ہے جس کا نمونہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا، یعنی دنیا میں انسانوں کے درمیان انصاف اور حقوق العباد کی ادایگی، اور اصل منزل آخرت کی کامیابی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کا حصول۔شریعت کے احکام و ضوابط کو مقاصد ِ شریعت کو نظرانداز کرکے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ مقاصد بہت واضح ہیں یعنی: l دین و ایمان کا تحفظ l جسم و جان کی حفاظت lاخلاق، عصمت، خاندان اور نسلِ انسانی کا تحفظ l عقل و شعور کی حفاظت اور l مال کا تحفظ۔ انھی کے قیام سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے۔

یہ بڑی معنی خیز حقیقت ہے کہ اسلام کے تعزیری قانون میں جن حدوں کے تحفظ کو قرآن و سنت نے سزائوں کے تعین کے ساتھ طے کردیا وہ یہی پانچ مقاصد ہیں۔ دنیا کے دوسرے تعزیری قوانین میں سیکڑوں نہیں ہزاروں جرائم اور ا ن کی سزائیں ہیں، لیکن اسلام نے جن جرائم اور ان کی سزائوں کو حدود کا مقام دیا وہ یہی پانچ چیزیں ہیں۔ دین و ایمان کی حفاظت کے لیے ارتداد کی سزا کی حد، جسم و جان کے تحفظ کے لیے قصاص و دیت کا قانون، اخلاق، خاندان، عزت و عصمت اور    نسل کے تحفظ کے لیے زنا اور قذف کی حدود، عقل کے تحفظ کے لیے تحریمِ خمر اور شراب کی حد اور مال کے تحفظ کے لیے سرقہ اور حرابہ کی حدود___ یہ حدود محض سزائیں نہیں، یہ تو شریعت کے اصل مقاصد اور انسانی معاشرے کی اصل بنیادوں کے تحفظ کا نظام ہیں۔ مقصد سزا دینا نہیں، مقصد ان بنیادوں کا تحفظ، ان کی مضبوطی اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور عزت و خوش حالی کی برکتوں سے مالا مال کرنا ہے۔

نفاذِ شریعت کے یہ ہیں وہ تمام پہلو ،جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور مل کر ایک نامیاتی کُل (organic whole) بناتے ہیں۔ نفاذِ شریعت کے عمل کو ان سب کا احاطہ کرنا چاہیے، ورنہ وہ نامکمل اور غیرمؤثر رہے گا۔ اس مقصد کے لیے تمام اہلِ وطن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔

آج ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء ہے۔

گزری رات میں حکمرانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ: ’’بھارتی جارحیت اور قومی غداری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں‘‘۔اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے دفتر کے آس پاس جمعیت اور البدر کے کارکن اکٹھے ہیں۔ سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا۔ ساڑھے ۲۳ برس کا ایک نوجوان، اپنے چاروں طرف کھڑے ساتھیوں کی طرف نظر دوڑاتا ہے۔ اگرچہ چند سسکیاں سنائی دے رہی ہیں، مگر وہ نوجوان پوری خوداعتمادی سے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں سے مخاطب ہوتا ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o

مجاہد ساتھیو!         

ہمارے جسم و جان صرف اور صرف اسلام کے لیے ہیں۔

ہم نے اسلام ہی کی خاطر وہ کردار ادا کیا، جسے ہم خدا کی کتاب اور سنتِ رسولؐ کے مطابق درست جانتے تھے۔ ہم نے پاکستان کو معبود سمجھ کر نہیں، مسجد سمجھ کر اپنے سروں کی فصل اور اپنے مستقبل کو اس پر نچھاور کیا ہے۔

ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دوسرے لوگ ہمارے اس کردار کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ جسے قبول کرنا ہے وہ تو جانتا ہی ہے کہ ہمارے سامنے صرف اس کی مرضی تھی۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ ہم سربکف نکل کھڑے ہوں۔ آزمایش کی اس گھڑی میں ہم نے اسی سے مدد مانگی اور اسی کے بھروسے پر اس نازک گھڑی سے نمٹنے کی کوشش کی۔

اے مظلوم پاکستان کے مجبور بیٹو!

ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہونے والا ہے، ہم گزرے ہوئے کل میں اُس سے واقف تھے اور آج ہم اُس سے بھی واقف ہیں جو آنے والا کل ہمارے لیے لے کر آئے گا۔ ہم نہ اپنے گزرے ہوئے دنوں پر شرمندہ ہیں اور نہ آنے والے کل سے مایوس ہیں۔ آزمایش خدا کی سنت ہے اور ہمیں سکھایا گیا ہے کہ آزمایش سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ لیکن، جب وہ مسلط ہوجائے تو سرخروئی کی دُعا اور کامرانی کی اُمید کے ساتھ خدا کے حضور جھک جانا چاہیے۔

آج کا سورج ایک کڑے امتحان کے ساتھ طلوع ہوا ہے اور آنے والا کل دہکتے انگاروں کی بارش کے ساتھ نمودار ہونے والا ہے۔ ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہے اور ان آزمایشوں سے ایک صاحب ِ ایمان جیسے عزم اور صبر کے ساتھ گزرنا ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ اس راہ میں جان دے دینا وہ عظیم ترین سعادت ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اپنے رب سے اپنی جانوں کے عوض جنت کا سودا کرنے سے پہلے ہم نے خوب سوچ سمجھ نہیں لیا تھا؟

آزمایش کی یہ گھڑی اُس ابدی دنیا کی کامرانیوںکی بشارت بھی ہے۔ اس لیے ان کڑی ساعتوں کا سامنا ایمان، عزم اور استقلال کی دُعا سے کیجیے کہ ایمان اور عزم کو کبھی فنا نہیں۔

اے دنیا بھر کی کامرانیوں سے بڑھ کر عزیز دوستو!

آپ آج بھی وقت کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ اقامت ِ دین، شہادتِ حق اور اسلامی انقلاب کے لیے ان زندگیوں کی حفاظت آپ پر فرض ہے۔

اگر آپ کے گھروں کی دہلیزیں آپ کے لیے بند اور راحت کدوں کی وسعتیں آپ کے لیے تنگ کردی جائیں تو ہجرت کر جایئے کہ ہجرت، وفا کے راستے کا لازمی سفر ہے۔ ہجرت خدا کے آخری رسولؐ کی سنت ہے۔

ہجرت کی تکلیفوں اور اذیتوں میں قرآن، نماز اور سیرتِ رسولؐ و سیرتِ صحابہؓ سے روشنی حاصل کیجیے کہ زندگی کا ظلمت کدہ انھی سے منور ہوسکتا ہے۔

___ اور مت بھولیے ، آپ ہی روشنی کے امانت دار ہیں۔ قرآن، سیرت اور کردار روشنی ہے، جہاں بھی رہیے اسی کے چراغ روشن کیجیے۔

اے میرے بھائیو!

کسے معلوم کہ کل ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون کس سے مل پائے؟ وہاں تو ملاقات یقینا ہوگی، مگر اِس دنیا میں بکھر جانے سے پہلے ان چہروں کو جی بھر کر دیکھ لو، اور ان سینوں سے آخری بار معانقے کرلو کہ شاید یہ سب ایک بار پھر یہاں اس طرح جمع نہ ہوسکیں، سواے اس کے کہ ہمارا رب چاہے، اور وہ چاہے تو ہم یہاں پھر بھی مل سکتے ہیں۔

ساتھیو، دوستو اور بھائیو!

اب ہمیں ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے۔

اپنے حواس مجتمع کیجیے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

آیئے! ہم ایک دوسرے کو دعائوں کے ساتھ رخصت کریں، فی امان اللّٰہ!

ایک طرف ہتھیار ڈالنے کی تیاری ہورہی تھی اور دوسری جانب یہ خطاب۔ خطاب ختم ہونے پر البدر کے کیڈٹ بھیگی پلکوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔   یہ سب ساتھی اپنے قائد کو پہلے الوداع ہونے پر اصرار کر رہے تھے، مگر وہ اس بات پر چٹان کی طرح جم گیاکہ: ’’میں آخری فرد ہوں، جو آپ سب کے روانہ ہونے کے بعد اس جگہ سے ہلے گا‘‘۔ اصرار بڑھا تو اس نوجوان نے کہا: ’’دوستو، میں مجبوراً آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ ہجرتوں پر چلے جایئے‘‘۔ اور تمام مجاہد اَن دیکھی راہوں پر چل نکلے۔

یہ نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے آخری ناظم شہید علی احسن محمد مجاہد تھے، جو قیامِ پاکستان کے ۱۰ ماہ بعد ۲۳جون ۱۹۴۸ء کو فریدپور میں پیدا ہوئے۔ وہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طالب علم تھے۔ انھیں ۲؍اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر (م:۱۵ستمبر۱۹۷۲ئ) نے مشرقی پاکستان میں جمعیت کا صوبائی ناظم مقرر کیا تھا۔ یاد رہے علی احسن ’البدر‘ کے صوبائی کمانڈر نہیں تھے۔

اپنی تحریر میں ، ’مَیں‘ کا لفظ استعمال کرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ لیکن آج یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے اس تقریر کے اجزا ان دوستوں سے مل کر قلم بند کیے، جو ان کرب و بلا کے لمحوں میں یہ تقریر سن رہے تھے۔ پھر دسمبر ۱۹۸۰ء میں ڈھاکہ پہنچ کر علی احسن محمد مجاہدبھائی کو یہ تقریر سنائی۔ یہ تقریر سناتے ہوئے جب ایک ایک جملے پر لرزتے ہوئے جملہ زبان سے ادا کرنے میں بے بس ہوجاتا تو علی احسن بھائی مجھے سینے سے لگاکر، اپنے ہاتھ سے میرے آنسو پونچھتے۔ میں حیران تھا کہ علی احسن بھائی کا ملکوتی چہرہ پُرسکون انداز سے اپنے اندر چھپے طوفان کو کس ضبط سے سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ تقریر میری مرتّبہ کتاب البدر میں اکتوبر ۱۹۸۵ء (ص ۱۷۶-۱۷۸) میں شائع ہوچکی ہے۔ کالی دیوی اور سزاے موت دینے والے ٹریبونل نے اس تقریر کو بھی فردِ جرم (چارج شیٹ) کا حصہ بنایا تھا۔ یہ تقریر زمان و مکان کی قید ختم کرتی، ہمیں ڈھاکہ سے اُٹھا کر ۱۴۰۰برس پہلے میدانِ بدر میں لے جاتی ہے۔ اس تقریر میں علی احسن کے ایمان، اعتماد اور مستقبل بینی کو اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی میں اپنے ہاتھ کی لکیریں!

o

سرزمینِ پاکستان پر علی احسن مجاہد کی ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کی صبح ڈھاکہ میں اس آخری تقریر کو، بنگلہ دیش میں ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ء کی رات ۱۲بج کر ۵۵منٹ پر ڈھاکہ ہی میں الوداعی خطاب سمجھ کر، دوبارہ پڑھا، سمجھا اور لفظ لفظ پر خوب غور کیا ۔ بقول نعیم صدیقی مرحوم : 

میرے خیال میں آتے ہیں جب وطن کے شہید

تو سوچتا ہوں کہ اپنی یہ زندگی کیا ہے

سنا تھا خونِ شہیداں سے پھوٹتی ہے سحر

تو میرے گرد یہ دیوارِ تیرگی کیا ہے

کل کا مشرقی پاکستان آج کا بنگلہ دیش ہے۔کل جہاں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور سب سے پہلے دو قومی نظریہ مجسم صورت میں اُبھرا تھا، آج وہ اسی برہمنی سامراج کے خونیں پنجوں میں پھڑپھڑاتے پرندے کے مانند ہے۔ جہاں بھارت نے عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن (م:۱۵؍اگست ۱۹۷۵ئ) کی مدد سے نہ صرف پاکستان توڑا بلکہ خود اپنی قوم کو ایک ایسی غلامی کی دلدل میں دھکیلا تھا، جہاں آج علامتی طور پر بنگلہ دیش کا پرچم تو موجود ہے اور کہنے کو، ایک بنگالی حکومت بھی، مگر عملاً اس کا اقتدارِ اعلیٰ بھارتی بدنامِ زمانہ ’را‘ کے ڈائرکٹریٹ کے ہاتھ میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک دوسرے شیخ، شیخ عبداللہ (م: ۸ستمبر۱۹۸۲ئ)نے بظاہر کشمیر کا اختیار حاصل کرنے کا ڈراما رچایا، لیکن اہلِ کشمیر آج بھی اسی برہمنی سامراج کے شکنجے میں قربانیاں دے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد شہید کا جرم کیا تھا؟

اگر  واقعی وہ اُن جرائم کے مرتکب تھے، جنھیں ’را‘ کے اہل کاروں نے مرتب کیا ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ’مجرم‘ کو خود اُس کے علاقے کے لوگوں نے کیوں ۴۳برس تک  اپنے درمیان قبول کیا؟ کیوں اُس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا؟ کیوں اسے رکنِ اسمبلی منتخب کیا؟ کیوں اسے بطور ’وزیرسماجی بہبود‘ (۲۰۰۱ئ-۲۰۰۷ئ)کام کرنے دیا؟ کیوں عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن کے دورِاقتدار ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۵ء اور بعدازاں حسینہ واجد کے پہلے دورِحکومت میں مقدمہ نہ چلایا؟___ اس المیے کا واحد جواب یہ ہے کہ وہ ایسے کسی جرم میں شریک نہیں تھے۔  اگر ایسا ہوتا تو جنرل حسین محمد ارشاد کے دورِ آمریت (دسمبر۱۹۸۳ئ-دسمبر ۱۹۹۰ئ) میں جمہوریت کی بحالی اور دستوری ترامیم کے لیے عوامی لیگ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوکر جدوجہد نہ کرتی۔

اب ذرا دیکھیے: علی احسن مجاہد کو ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا گیا، ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کو     چارج شیٹ مرتب کی گئی۔ ۲۱جون ۲۰۱۲ء کو الزامات متعین کر کے نام نہاد ٹریبونل میں پیش کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پورے ۱۹۷۱ء میں، اور پھر ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سے لے کر ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کے درمیانی عرصے میں علی احسن مجاہد کے خلاف کسی تھانے میں ان جرائم کی نسبت سے ایک سطر بھی درج نہیں، اور نہ کسی عدالت میں مذکورہ کسی الزام پر مبنی کوئی ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہوا۔ پھر یہ سب اچانک کیوں ہوا؟

اس جعلی عدالت نے، جسے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عدالتی عمل کے پاسداروں نے کھلے لفظوں میں مسترد کردیا ہے، اسی عدالت نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو علی احسن مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ علی احسن نے اُسی وقت عدالت کی کرسی پر بیٹھے نام نہاد جج کو مخاطب کر کے کہا تھا: ’یہ سب جھوٹ ہے اور تمھارا فیصلہ بھی جھوٹ ہے، سو فی صد جھوٹ‘۔ ازاں بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی، جو ۱۶ جولائی ۲۰۱۵ء کو مسترد ہوگئی۔ پھر ۱۸نومبر کو اسی عدالت نے نظرثانی کی درخواست بھی خارج کر دی، اور ۲۱، ۲۲ نومبر کی درمیانی رات سچائی کا قتل کر دیا گیا۔

ہمیں اس وحشت انگیزی کے پس منظر میں کارفرما محرکات کو دیکھنا چاہیے جو بین الاقوامی اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی ایجنڈے کے حامل ہیں۔ اس میں اوّلین محرک تو اسلامی تہذیبی رشتے پر حملہ ہے، اور دوسرا فوری سبب بھارت کے معاشی مفادات کا تحفظ ہے۔ غور کیجیے کہ: ’’آج بنگلہ دیش میں ۵ لاکھ بھارتی کارکن کام کر رہے ہیں۔ (اور بنگلہ دیش، بھارت کے ایک صوبے اترپردیش سے بھی چھوٹا خطۂ ارضی ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری کے وہ ہولناک ڈیرے ہیں، مگر) عرب امارات، امریکا، سعودی عرب اور برطانیہ کے بعد جس ملک سے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھارت منتقل ہوتا ہے، وہ یہی ’آزاد‘ بنگلہ دیش ہے (طیب حسین، ڈیلی اسٹار، ۸مارچ ۲۰۱۵ئ)۔ قبل ازیں یہی بات ڈھاکہ کا اخبار دی نیونیشن (۲۸فروری ۲۰۱۴ئ) لکھ چکا ہے۔ دونوں اخبارات بتاتے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیشی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۷۱۶ئ۳ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ بنگلہ دیش سے بھارت کی طرف بہہ جاتا ہے، جب کہ اس سے دوگنی رقم غیرقانونی ہنڈی کے ذریعے بھارت منتقل ہوتی ہے [گویا کہ تقریباً ۸؍ارب امریکی ڈالر جو: ۶ کھرب اور ۲۴؍ارب بنگلہ دیشی روپے (ٹکے) بنتے ہیں]۔ اس رقم کا بڑا حصہ تجارت، صنعت اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والی این جی اوز میں بھارتی کارندوں کی تنخواہوں کی صورت میں بھارت منتقل ہوتا ہے‘‘ (ذرا یہاں پاکستان میں متحرک مخصوص نظریاتی ’این جی اوز‘ پر نظر ڈال کر دیکھیے، کچھ نہ کچھ ’طبق ضرور روشن‘ ہوں گے)۔

نکتے کی یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ایک طرف بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی، اس بھارتی معاشی یلغار اور غلامی کے سامنے رکاوٹ کھڑی کر رہی تھی اور دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ صحافی اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین کے بقول:  ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران، بطور مشیر پارلیمانی اُمور یہ دیوار کھڑی کر دی تھی کہ ہم بھارت کے ٹاٹا گروپ کو بنگلہ دیش میں ۳؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کرنے دیں گے، اور وہ اس میں کامیاب رہے‘‘۔ (دیکھیے Progress Bangladesh، ۲۱ نومبر ۲۰۱۵ئ)

اگرچہ دیگر نظریاتی، سیاسی اور عالمی اہمیت کے اُمور بھی اس اہتمامِ قتلِ بہاراں میں شامل ہیں، مگر بنیادی طور پر بھارت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی معاشی چراگاہ بنگلہ دیش میں رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں تو اس نے ۱۹۷۱ء کے بعد دوسری بار ۲۰۰۸ء سے میں بنگلہ دیشی معاشرے کو خونیں تصادم میں دھکیلنے کے لیے عوامی لیگ سے مدد مانگی، اور آج یہ سارا کھیل، کسی بنگلہ دیشی قومی مفاد میں نہیں بلکہ بھارت کے معاشی اور سیاسی مفاد میں کھیلا جا رہا ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز اِس طرح مسلسل سیاسی آویزش پیدا کر کے، مقامی سطح پر معاشی استحکام کی بنیادوں کو ہلامارنے اور لوگوں کو باہم لڑانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پھر نریندرا مودی جیسے دہشت گرد کی برہمنی یلغار اس فساد میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

صلاح الدین قادر چودھری (جو ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو چٹاگانگ میں پیدا ہوئے) کے والد ِ گرامی فضل القادر چودھری (۲۶ مارچ ۱۹۱۹ئ-۱۷جولائی۱۹۷۳ئ) چٹاگانگ سے تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما اور قائداعظم کے دست ِ راست تھے۔ وہ نوجوانی سے لے کر آخری سانس تک صرف مسلم لیگ ہی سے وابستہ رہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مکتی باہنی نے انھیں گرفتار کر کے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ’پاکستان مُردہ باد‘ کا نعرہ بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور آخری روز ان کو خنجر مار کر شہید کردیا گیا۔ انھی فضل القادر چودھری شہید کے بیٹے صلاح الدین قادر چودھری نہ صرف بنگلہ دیش کی مسلم قومی شناخت کے علَم بردار تھے، بلکہ بھارت کے معاشی و سیاسی مفادات کے سامنے ایک مضبوط چٹان بھی تھے، اس لیے انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

صلاح الدین قادر شہید کو ۱۶دسمبر ۲۰۱۰ء کی رات گرفتار کیا گیا۔ ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء کو چارج شیٹ جاری کی گئی اور ۴؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ چارج شیٹ نام نہاد خصوصی عدالت میں پیش کی گئی۔  حکومت نے ان کے خلاف ۴۱ خانہ زاد گواہ پیش کیے، لیکن ان جعلی گواہوں کے جواب میں صلاح الدین قادر  نے ۲۰گواہوں کی فہرست پیش کی، جن میں سے صرف پانچ گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت مل سکی۔ پھر چار گواہان کو مختصر ترین وقت میں سننے کے بعد پانچویں گواہ کو سننے سے انکار کردیا گیا۔ صلاح الدین نے ۱۹۷۱ء کے حوالے سے alibi (موقع واردات پہ عدم موجودگی) کے آٹھ گواہوں کے نام پیش کیے تو ان ناموں کی فہرست کو صرف پانچ منٹ کی سماعت کے بعد مسترد کر دیا گیا۔ پھر پاکستان کے سابق قائم مقام صدر اور سابق وزیراعظم محمد میاں سومرو، سابق وفاقی وزیر ریلوے اسحاق خاں خاکوانی، روزنامہ ڈان کی چیف ایڈیٹر عنبرہارون سہگل، منیب ارجمند خاں اور ریاض احمد جیسی قابلِ احترام شخصیات نے حلفیہ یہ گواہی دینے کے لیے ڈھاکہ جانا چاہا کہ: ’’صلاح الدین قادر ۱۹۷۱ء میں پاکستان میں تھے‘‘ تو اُن افراد کے بنگلہ دیش میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ معززین اس بات کے گواہ ہیں کہ صلاح الدین قادر، ۲۹ مارچ سے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک مغربی پاکستان کے شہروں لاہور اور کراچی میں مقیم تھے، مگر اس نام نہاد خصوصی عدالت نے ایک نہ سنی، ایک گواہ کو بھی پیش نہ ہونے دیا۔

یوں ایک جعلی عدالت نے، جعلی مقدمے کی، جعلی کارروائی کا ڈراما رچا کر یکم اکتوبر ۲۰۱۳ء کو صلاح الدین قادر چودھری کو سزاے موت سنا دی۔ ۲۹جولائی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا اور ۱۸نومبر ۲۰۱۵ء کو نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی۔ ۱۹۷۹ء سے ۲۰۱۲ء کے عرصے میں، چٹاگانگ سے چھے مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے صلاح الدین قادر ۲۱،۲۲نومبر کی درمیانی رات، حسینہ واجد کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔

جوں ہی ۱۸نومبر کو دونوں رہنمائوں کی اپیلیں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیں، تو ۱۹نومبر کو انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے علی احسن محمدمجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کے لیے اس سزا پر ردعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا: ’’جماعت اسلامی کے علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر کی سزاے موت کے اعلانات کو [بنگلہ دیشی] حکام فی الفور معطل کریں اور ان فیصلوں کو غیر جانب دارانہ نظرثانی کے عمل سے گزاریں۔ بلاشبہہ ۱۹۷۱ء کے حوالے سے نازک اُمور کی جانچ ہونی چاہیے، مگر مقدمات کو انصاف کے عالمی، مسلّمہ اور عادلانہ معیارات کے مطابق چلانا چاہیے۔ مقدموں کی غیرعادلانہ کارروائی سے کبھی انصاف حاصل نہیں ہوسکتا اور خاص طور پر جب سزاے موت دیے جانے کا معاملہ ہو تو مسئلے کی نزاکت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ، سابق امریکی سفیر اسٹیفن رپ کے اس بیان کو وزن دیتا ہے کہ مجاہد اور چودھری کے مقدموں پر فیصلہ درحقیقت اسقاطِ عدل (miscarriage of justice) ہے۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۰نومبر ۲۰۱۵ئ)

علی احسن محمد مجاہد کے بیٹے نے ۱۹نومبر ہی کو اعلان کر دیا تھا کہ: ’’ہمارے عظیم والد نے اپنی ساری زندگی میں کوئی اخلاقی یا فوج داری جرم نہیں کیا ہے۔ وہ بے گناہ ہیں، انھیں صرف حق گوئی، دین داری کی سزا دی گئی ہے، اس لیے وہ رحم کی کوئی اپیل نہیں کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کٹھ پتلی حسینہ حکومت نے ۲۱نومبر کی سہ پہر سے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ: ’’دونوں لیڈروں نے صدر سے رحم کی اپیل کی ہے‘‘۔ ایک جانب ان مظلوموں پر ظلم کی انتہا اور دوسری جانب انھیں پھانسی دینے سے قبل نمک پاشی کے لیے یہ گھنائونا مذاق۔ بہرحال جوں ہی رات کے سایے گہرے ہوئے تو ڈھاکہ اور تمام بڑے شہروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پولیس اور بنگلہ دیش ریپڈ بٹالین نے پوزیشنیں سنبھالنا شروع کردیں۔ دونوں لیڈروں کے اہلِ خانہ کو آخری ملاقات کا نوٹس دیا گیا ۔ الوداعی ملاقات کے بعد علی احسن کے بیٹے نے جیل کے گیٹ پر حکومتی پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے بیان دیا: ’’جب ہمارے والد نے جرم کیا ہی نہیں تو معافی کی اپیل کیسی؟‘‘اور صلاح الدین قادر کے بیٹے ہمام قادر نے جیل سے باہر نکل کر بتایا: ’’ہمارے والد نے کوئی جرم نہیں کیا، اس لیے انھوں نے کسی سے رحم کی اپیل نہیں کی‘‘۔

’بی ڈی نیوز ۲۴‘ کے نمایندے کو پھانسی گھاٹ پر آخری لمحوں کے گواہ پولیس افسر نے بتایا: ’’پھانسی کے تختے پر قدم رکھتے وقت صلاح الدین قادر اور علی احسن مجاہد، دونوں ہی نہایت پُرسکون تھے۔ ان دونوں کو پھانسی کے ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑا کیا گیا‘‘۔ اور ڈپٹی کمشنر کے بقول: ’’دونوں خاموشی سے پھانسی کے پھندے کی جگہ جاکر کھڑے ہوئے۔ جب ان کی گردنوں میں رسہ ڈالا جا رہا تھا، تو دونوں نے لمحے بھر کے لیے بھی گردن ہلا کر کسی منفی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور پھر ایک ہی لمحے میں دونوں کو (بنگلہ دیش کے وقت کے مطابق رات ۱۲بج کر ۵۵ منٹ، پاکستان میں رات ۱۱بج کر ۵۵ منٹ پر) تختۂ دار پر کھینچ دیا گیا‘‘۔ (۲۲نومبر ، صبح ۶بجے، بی ڈی نیوز۲۴)

دونوں قائدین کے عدالتی قتل کی اگلی صبح حسینہ واجد نے بڑی خوشی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی تو چٹاگانگ سے عوامی لیگی ممبر نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حسینہ نے پھانسیاں دے کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، یہ ٹوٹ تو سکتی ہے، مگر جھک نہیں سکتی‘‘(بی ڈی نیوز،۲۲نومبر)۔ پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ سزاے موت دراصل انصاف کا قتل، اخلاقیات، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم اس سلسلے میں کچھ نہ کرسکے‘‘۔ جس کے جواب میں: ’’کٹھ پتلی وزیراعظم حسینہ واجد نے کابینہ کا اجلاس شروع ہوتے ہی، پھانسیوں پر خوشی کا اظہار کیا اور بنگلہ دیشی برقی ذرائع ابلاغ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کے خاندانوں اور پس ماندگان کے دکھ درد کو کیوں سکرین پر پیش کیا ہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۳نومبر ، شام ۴بجے)

اگرچہ دنیا بھر میں اس ظلم پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم ۴۰ممالک کے علما کی عالمی تنظیم ’رابطہ علماے اہلِ سنت‘ استنبول نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے: ’’بنگلہ دیش میں حکومت غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراسلامی اقدامات کرتے ہوئے محب ِ وطن افراد اور تحریکِ اسلامی کے قائدین کے خلاف انتقامی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صلاح الدین قادر اور    علی احسن محمد مجاہد کا خون تمام مسلم ممالک،اسلامی تنظیموں اور پوری ملت ِ اسلامیہ کی گردن پر ہے، جنھوں نے اس عرصے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ہم ہر صاحب ِ فکر اور ہر ذمہ دار فرد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کی معاونت کے لیے ہرممکن اقدام کریں‘‘۔ (الجزیرہ نیٹ، ۲۳ نومبر ۲۰۱۵ئ)

۲۲نومبر کو پورے بنگلہ دیش کے بڑے شہروں اور قصبوں میں دونوں شہیدوں کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر مقررین نے کہا: ’’ان شہیدوں کا کوئی قصور نہیں تھا، سب الزامات بدنیتی پر مبنی تھے، تاکہ بنگلہ دیش کو ایک خودمختار اسلامی اور معاشی اعتبار سے مستحکم ملک بننے سے روکا جاسکے۔ دشمن بھارت یہ دونوں باتیں ہضم نہیں کرسکتا، اس لیے اُس کی آلۂ کار اور غیرنمایندہ عوامی لیگی حکومت بھارت کی خوش نودی کے لیے اپنے ہی بیٹوں کے خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے بھی معاشرے کی اصلاح، ترقی اور خودمختاری کے لیے کام کررہی تھی، ہم آیندہ بھی اسے بھارتی غلامی سے بچانے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔یہ شہادتیں ہمارا راستہ روک نہیں سکتیں، بلکہ ہمیں ان سے اور زیادہ یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔ ایک بندئہ مومن کی زندگی کا مقصد صرف اسی کی رضا ہے۔ ہم اپنی جدوجہد پُرامن، دعوتی اور جمہوری انداز سے جاری رکھیں گے‘‘۔

۲۳نومبر کو جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی۔ کئی شہروں میں بھرپور ہڑتال رہی، تاہم ہڑتال کو روکنے کے لیے، جماعت اسلامی اور ’اسلامی چھاترو شبر‘ (اسلامی جمعیت طلبہ) کے رہنمائوں کے گھروں کو (بھارت میں بجرنگ دل، شیوسینا اور آر ایس ایس کے فسادیوں کی طرح) رات ہی سے عوامی لیگی غنڈوں نے گھیر لیا، تاکہ مؤثر احتجاج کو روکا جاسکے۔ متعدد کارکنوں کو گھروں سے نکلتے ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سیکڑوں کو گرفتار کرلیا۔کئی رہنمائوں کے گھروں کے سامنے لائوڈاسپیکر پر اعلانات کیے جاتے رہے: ’’تم گھروں کو خالی کرو، اور بنگلہ دیش چھوڑ دو‘‘۔ جیسور کالج ہاسٹل میں اسلامی چھاترو شبر کے دو لیڈروں حبیب اللہ اور قمرالحسن کو لاٹھیاں مارمار کر شہید کردیا اور باقی کا سامان اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔ ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ تاہم، جماعت اسلامی کی جانب سے ہڑتال کی اس اپیل میں بی این پی شامل نہیں ہوئی، حالانکہ صلاح الدین قادر چودھری بی این پی کے مرکزی لیڈر تھے۔انھوں نے  اپنے اہلِ خانہ سے ۲۰ نومبر کی ملاقات میں اپنی پارٹی کے اس رویے پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے افسوس ہے، بی این پی نے یک جہتی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘۔ اور اپنے اہلِ خانہ سے کہا کہ: ’’آپ آیندہ جماعت اسلامی ہی کے ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔

بنگلہ دیشی وزیرقانون انیس الحق نے ۲۴نومبر کو کہا ہے کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس کی متعلقہ پارٹیوں پر جامع پابندی کے لیے، حکومت انتظامی حکم نامہ جاری کرنے کے بجاے باقاعدہ دستوری ترمیم پر کام کر رہی ہے، اور ’خصوصی عدالت‘ سے فیصلہ لینے کے لیے ریفرنس دائر کر رہی ہے تاکہ جماعت اسلامی، اس کی برادر اور اسلامی آئیڈیالوجی پر مبنی تنظیموں پر بنگلہ دیش میں مستقل طور پر پابندی عائد کردی جائے‘‘۔د وسری جانب ۲۵نومبر کو وزارتِ خزانہ نے بنک آف بنگلہ دیش سے کہا کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس سے وابستہ تنظیموں، اور منسلک افراد کے بنکوں، انشورنس کمپنیوں، جایداد خرید و فروخت کے اداروں، ہسپتالوں، کلینکوں ، اسکولوں اور تدریسی اداروں کے لین دین پر کڑی نگاہ رکھ کر رپورٹ مرتب کی جائے، تاکہ مالیاتی پابندی کو مؤثر بنایا جاسکے‘‘۔

بہ ظاہر حالات سخت خراب ہیں اور سیکولر فسطائیت کی گرفت بھی نظر آتی ہے۔ مگر ان شاء اللہ ظلم کی یہ سیاہ رات زیادہ طول نہیں کھینچ سکے گی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔(متفق علیہ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی مظہر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں تمام مخلوق سے بلندوبالا ہیں اور جِنّ و انس اور کائنات پر آپؐ  کی نوازشیں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپؐ  کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین ملا جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو   رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ آپؐ  سے توحید و سنت کا درس ملا۔ آپؐ  سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ملا۔ آپؐ  نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلایا۔ آپؐ  نے انسانوں کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کے روشن راستے پر ڈالا۔ دنیا لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار تھی، لوگوں کے لیے دنیا جہنم بن چکی تھی، لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ بھوک، ننگ اور ذہنی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ  نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ ، ’’اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو‘‘۔ قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا ، ’’لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہوجائو گے‘‘۔آپؐ  نے یہ نسخۂ کیمیا انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ لوگوں نے اس پر آمنا وصدقنا کہا تو ان کو زندگی مل گئی۔ وہ امن و سکون اور راحت سے سرفراز ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، ایک دوسرے کے غم گسار اور مددگار ہوگئے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنے والے بن گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہرلحاظ سے محبت کی مستحق ہے، اور محب اپنے محبوب کی مرضی پورا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت ہو تو مومن آپؐ  سے محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ  کی اطاعت بھی کرے گا۔ آپؐ  کے دین سے بھی محبت کرے گا، آپؐ  کے مقصد ِ بعثت سے بھی محبت کرے گا۔ آپؐ  کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ آپؐ  کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے۔    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا(التوبہ ۹:۳۳) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت رکھنے والا اسلامی احکام کا پابند ہوگا، فرائض و واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا اور منکرات اور مکروہات سے بچنے والا ہوگا۔ اس کی زندگی ایک پاک باز انسان کی زندگی ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے داروں کو سوچنا چاہیے کہ آیا وہ آپؐ  کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہے ہیں؟ کیا اس مشن کے لیے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں تکلیفیں اُٹھائیں، مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، بدرواُحد، اَحزاب اور حنین اور تبوک کے معرکوں میں جان کی بازی لگائی، اس کے لیے وہ پُرجوش اور پُرعزم ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں؟ کیا اپنے آپ  کو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور بدر و اُحد اور تبوک کے پُرمشقت راستوں میں پاتے ہیں؟ کیا اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ سود، جوے، شراب، فحاشی و عریانی اور دین کی تذلیل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے منظم ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر رہے ہیں تو اس پر شکر بجا لانا چاہیے اور اتباع میں آگے بڑھنا چاہیے اور اگر کچھ کمی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اپنے ملک کو اسلامی بنانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنا چاہیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور آپؐ  کے احسانات کی قدر اور شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ  مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے کہ میں اس پر عمل کرکے جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپؐ  نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ فرض نماز قائم کرو اور    زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ یہ سن کر اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس پر میں کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا (یعنی اپنے طور پر اضافہ نہیں کروں گا، اگر اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم دیں گے تو اس کی تعمیل کروں گا)۔ یہ کہہ کر جب وہ چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اس بات کی خواہش ہو کہ وہ جنتی آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ (متفق علیہ)

جس آدمی میں دین پر عمل کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کا جذبہ ہو، وہ اس دنیا میں چلتا پھرتا جنتی ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اپنے آپ کو اس دیہاتی جیسا بنا سکتا ہے۔ اس دیہاتی نے جس عزم کا اظہار کیا، اللہ تعالیٰ کی قسم اُٹھا کر دین حق کے احکام پر چلنے کا اعلان کیا،  اس عزم کا ہم بھی اظہار کریں۔ صرف نام کے مسلمان نہ رہیں، عملاً مسلمان بن جائیں تو یہ بڑا قیمتی سودا ہے، جنت کا سودا! اگر جنت کی قدروقیمت ذہن میں ہو تو پھر اس کا شوق بھی ہوگا۔ جنت کیا ہے؟   وہ قیمتی نعمتیں جن کی مثال دنیا میں نہیں ہے۔ دنیا کی چیزیںجنت کی نعمتوں کے ساتھ صرف نام کی حد تک شریک ہیں۔ رہی حقیقت تو جنت کی چیزوں کی حقیقت جنت میں پہنچ کر ہی واضح ہوگی۔ جنت میں ادنیٰ درجے کے مومن کو اتنی جگہ ملے گی جو پوری دنیا کے برابر ہوگی۔گویا اسے بادشاہت مل جائے گی، اورکیوں نہ ملے جس نے دنیا میں اللہ کی بادشاہت کو مانا، اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی،    اللہ تعالیٰ اسے بادشاہت عطا فرمائیں گے۔

o

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمدوثنا کے بعد فرمایا: سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اور تمام کاموں سے بڑھ کر بُرا کام بدعات ہیں (جو اپنی خواہشِ نفس کی بنا پر ایجاد کی جاتی اور انھیں رواج دیا جاتا ہے، یعنی خواہش کی بنیاد پر انسانوں کے اپنے گھڑے ہوئے، قوانین اور رسوم و رواج)، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم)

قرآن و سنت کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے اُتارا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے، اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کی جائے، اور اس نظام کا بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ اسی لیے آپؐ  کی سیرت کو تمام سیرتوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ماڈل ہے، اور آپؐ  کے بعد صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین ، اولیا عظام اور مجددین اُمت کی زندگیاں جو آپؐ  کی سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ  کے دین سے آزاد زندگی بدعت کی زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین سے آزادنظام بدعت کے نظام ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرالامور، ’’تمام کاموں سے بڑھ کر بُرے کام‘‘ قرار دیا ہے۔  وہ ہمارے لیے ماڈل نہیں ہیں۔ ان کو ماڈل سمجھنا ان کو اپنانا اور ان کو اپنے ملک میں درآمدکرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رُو سے بدترین جرم ہے۔ آج ہمارے ملک میں نظریۂ پاکستان لا الٰہ الااللہ کے مقابلے میں ’لبرل ازم‘ کی آوازین بلند ہورہی ہیں اور ملک کو لبرل بنانے کے نعرے    لگ رہے ہیں۔ لبرل کا معنی دین سے آزادی، قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آزادی ہے، تو پھر ایسی صورت میں یہ لوگ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ دعویٰ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا کریں لیکن نظام وہ ہو جو دین سے اور   آپؐ  کی سیرت سے آزاد ہو۔ نظام مغرب یا مشرق سے درآمد ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو یاسوشلزم یا کوئی بھی ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے کی تردید کرتاہے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔(شرح السنۃ، کتاب الحجۃ، نووی، اربعین نووی)

دنیا کے اندر جتنے ادیان ہیں ان کی دو ہی قسمیں ہیں: باطل ادیان، یعنی دینِ ھویٰ (خواہش نفسِ کے دین، اور دینِ حق ایک ہے اور وہ ہے دینِ ھدیٰ، دینِ حق، دینِ اسلام ۔ آدمی اسی وقت مومن ہوگا جب اپنی خواہشِ نفس کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے گا اور اسی وقت مسلمان شمار ہوگا جب باطل نظام کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں جو رہنمائی فرمائی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج عالمِ اسلام اس ہدایت کا محتاج ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہو تو اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دنیا میں اسلامی تحریک اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس گروہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کے مخالف ان کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘‘۔

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔   لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ  ُ تو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔

دوسری طرف اُس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اِس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختارِکار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے  ُتو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان،  کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ’ہزہائینس‘ نہیں ہے، ’ہائینس‘ صرف ایک ہی کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ’ہزہولی نس‘ نہیں ہے، ’ہولی نس‘ ساری کی ساری اُسی ایک کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ’ہزلارڈشپ‘ نہیں ہے، ’لارڈشپ‘ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز (Law Giver) نہیں ہے، قانون اُسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی اَن داتا، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بند ے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا،  ُتو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اُسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔

یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسرِنو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم ؑ سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اِسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہِ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی [ایسا] راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طرز کا کام کر کے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اِس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اُٹھا، اور اُس نے لا الٰہ الا اللہ کا اعلان کر دیا۔ اِس سے کم کسی چیز پر ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر نہ ٹھیری۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اِس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں۔ جو لوگ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اِس بنیاد پر تعمیرجدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اِس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الٰہ الا اللہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اِسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اِسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اِسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اُٹھیں۔ لہٰذا ،اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اِسی دعوتِ توحید سے کیا جائے۔

توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے، جیساکہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں۔    اِس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خودمختاری، یا غیراللہ کی حاکمیت و اُلوہیت کی بنیاد پر بناہو، جڑ بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذن کو اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اِس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکا ررہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اِس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اِس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو مَیں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودو اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات مَیں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب سے منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درند ے ہی درندے ہیں۔

یہی صورت اُس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اِس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اِس کو دبانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو   اپنے باپ دادا کے مورثی طریقے کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے، اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔( تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۲)

نبوت محمدیہؐ سے تاریخ انسانی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ا ور نہ صرف مذہب و معاشرت اور سیاست و حکومت بلکہ معاشیات کی دنیا بھی بدل جاتی ہے۔ یہ معاشی انقلاب پہلے سرزمین عرب میں ظاہر ہوتاہے اور اس کے بعد اقوام و ممالک عالمی اور بین الاقوامی سطح پر اس انقلاب کی معاشی برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ بعثت نبویؐ سے پہلے دنیا پر ایک عام اقتصادی پس ماندگی اور معاشی جمود کا غلبہ تھا اور سب سے برا حال عربوں کا تھا۔ تجارت پر قریش کی اجارہ داری تھی اور قریش ہی تمام عرب قبائل پر معاشی خدائی بھی کرتے تھے، اس کا سبب عربوں کا مشرکانہ نظام تھا۔ ہر قبیلے کا بت  جدا تھا۔ اس طرح عرب کوئی قومی وجود نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جب درمیان سے بت ہٹ گئے اور قبائل دین حنیف پر متحد ہو گئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت کا بھی اظہار ہوا، اور یہ عقیدۂ توحید کی برکت تھی۔ اگر عرب قبیلوں میں منقسم اپنے اپنے بتوں کی پرستش میں لگے رہتے اور ان کے درمیان قبائلی عصبیتوں اور جنگوں کا سلسلہ چلتا رہتا تو وہ نہ کبھی ایک قوت بنتے اور نہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے مالک بنتے۔ اسلام نے ان میں جو ایمان اور اتحاد پیدا کیا وہ ایک نئے سیاسی اور معاشی نظام پر منتج ہوا جس میں عدل تھا اور دودھ پینے والے بچے تک کا بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مجموعی خوش حالی ایسی تھی کہ زکوٰۃ لینے والے مشکل سے ملتے تھے۔

نبوتِ محمدیہؐ سے پہلے عربوں کے مشرکانہ نظام کی نوعیت یہ تھی کہ قریش ’برہمن‘ بن گئے تھے۔ ابتدا میں یہ تجارت کرتے تھے اور اپنے تجارتی قافلوں کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے انھوں نے مسلح دستے رکھنے شروع کیے اور اس طرح تجارتی قوت کے پہلو بہ پہلو وہ فوجی قوت کے بھی مالک بن گئے۔ اس فوجی قوت کے زور پر انھوں نے تمام عرب قبائل کو باری باری زیر کیا اور ان کے بت لا لا کر خانہ کعبہ میں رکھتے گئے اور ان بتوں کی پوجا کرنے والے قریش ان کو اپنے بتوں کا متولی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس حیثیت میں نذرانہ دینا اور قریش کی تمام شرائط کو ماننا بھی ان کے لیے ضروری تھا۔ قریش نے ہر قبیلے کے لیے ایک دن مقرر کیا تھا۔ جب وہ خانہ کعبہ میں آکر اپنے بت کی زیارت کر سکتا تھا اور رسومات ادا کر سکتا تھا۔ اس کے عوض قریش ان سے طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ کسی قبیلے کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ضرورت کی ہر چیز قریش سے خریدنا پڑتی تھی۔

شرک کے نظام کے سبب قریش کو مذہبی مجاورت ،سیاسی اقتدار اور معاشی فوائد حاصل تھے۔ اس لیے جب حضورِ اکرمؐ نے شرک کے خلاف آواز اٹھائی تو سردارانِ قریش چیخ اُٹھے کہ یہ تم کیا ہماری بنیادوں پر ہی ضرب لگا رہے ہو۔، ہم تمھاری ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن اس شرک کے نظام کی گنجایش نکال لو ، کیونکہ شرک کے خاتمے اور توحید کے رواج پانے کا مطلب ہماری موت ہے۔ اس طرح قبائل پر جو اقتدار اور استحصال ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ عقیدۂ توحید نے اس ناجائز اقتدار اور استحصال کو ختم کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی توحید کی قوت نے عربوں اور خود قریش کو معاشی طور پر وہ فوائد پہنچائے جو کبھی ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے۔

قبائلی زندگی میں اقتصادیات بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن جب قبائل مل کر قوم بنتے ہیں تو ایک مستحکم ریاست وجود میں آتی ہے۔ جس میں امن و امان ہوتا ہے، قانون کا حکم چلتا ہے اور  جان و مال کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ عربوں کی قبائلیت کا سبب ان کے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔      یہ درمیان سے اٹھ گئے تو وہ ایک اور نیک ہو ئے۔ ان عربوں کے لیے ایسے سازگار اقتصادی حالات پیدا ہوئے جن میں قومی اقتصادیات ترقی پا گئی اور بین الاقوامی تجارت کو ایسا فروغ حاصل ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

شرک کے نظام نے صرف عرب میں ہی نہیں دنیا کے بہت سے حصوں میں اقتصادیات کو زوال و انحطاط سے دوچار کر رکھا تھا، کیونکہ شرک کا لازمہ جاہلانہ تصورات اور اوہام ہیں۔ مثلاً ہندستان میں سمندر کے سفر کو گناہ سمجھا جاتا تھا اور یہ عقیدہ بنا دیا گیا تھا کہ جو ہندستان سے باہر جائے گا وہ ہندو سے غیر ہندو ہو جائے گا۔ اس عقیدے کے پس منظر میں برہمنوں کی خواہشِ استحصال بھی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بیرونی افراد اور بیرونی ملکوں سے رابطے عام ہو گئے تو ان کے اقتدار و استحصال پر ضرب لگے گی۔ سمندر کا سفر یا بیرونِ ملک کا سفر تو بڑی بات ہے، ہندو سوسائٹی میں اپنی زمین چھوڑنے اور دیہات سے شہر تک کے سفر کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ خوف زدہ لوگ سیروسیاحت کے بجاے اپنے کنویں کے مینڈک یا جس کولھو میں جوت دیے گئے اسی کے بیل بنے رہتے تھے۔ لیکن جب برعظیم پاک و ہند میں مسلمان آئے اور ہندوؤں نے بھی اسلام قبول کرنا شروع کیا تو ہندستانی معاشرے میں ایک نیا انقلابی اقتصادی عنصر پیدا ہو گیا۔ جس نے ایک طرف ہندستان کی بحری تجارت کو فروغ دیا، سورت جیسی بندرگاہیںوجود میں آئیں اور خود اندرونِ ملک بھی تجارت اور روزگار کے لیے سفر کو باعث ظفر سمجھا گیا۔ سری لنکا اور دیگر کئی علاقوں کے ہندو اور بودھ راجاؤں نے سمندری تجارت کو فروغ دینے کی خاطر لوگوں کے قبولِ اسلام کی حوصلہ افزائی کی۔ بعض راجاؤں نے اپنے بیٹوں کو مسلمان ہونے کے لیے کہا اور بعض خود مسلمان ہو گئے کیونکہ ہندو دھرم اور اس کے جاہلانہ قاعدے ، قوانین اجتماعی اور مملکتی معاشی ترقی کی راہ میں حائل تھے۔

انسانوں کے درمیان چھوت چھات کے فلسفے ، عامۃ الناس کو علم و سائنس سے بے بہرہ اور جاہلِ محض رکھنے پر اصرار، طرح طرح کی اوہام پرستیاں، محنت کشوں، دست کاروں ، ہنرمندوں کی  قدر افزائی کے بجاے انھیں ’شودر‘ اور ناپاک قرار دینے کا فلسفہ غیر ملکیوں سے رابطہ قائم کرنے اور ان سے کچھ سیکھنے سکھانے کے بجاے، انھیں ملیچھ سمجھنا اور ایسے کئی دوسرے امور تھے جن کی وجہ سے ہندستان کی معاشیات آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور اس کا ارتقا رُک گیا تھا۔ یہ اقتصادی جمود اس وقت ختم ہوا جب ہندستانی معاشرے میں مسلمان آئے اور اسلام پھیلا۔ اسلام نے ہندستانیوں کو بتایاکہ وہ مذہب جو انسانوں کو مختلف قسم کے اونچے نیچے اور مستقل اعلیٰ و ادنیٰ گروہوں میں تقسیم کرتا ہے، استحصال کے لیے برہمنوں کا ڈھکوسلہ ہے۔ اسلام میں ایک شودر کا بچہ بھی سوداگر بن سکتا ہے یا عالم اور سائنس دان ہو سکتا ہے۔ اور اسلام نے اہل حرفہ اور اہل پیشہ، یعنی کسب حلال کرنے والوں کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ صدیق و شہید سے کم نہیں۔

دنیا کے جن ملکوں میں قیصر وکسریٰ کا نظام تھا، وہاں کاشت کار اور دست کار کی حالت تباہ تھی۔ بادشاہ اور امرا کے ٹیکسوں نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی تھی۔ یہ لوگ ظلم و جبر کے طریقوں سے جو بھاری بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے اس کا بڑا حصہ اپنی عیاشیوں اور بے جا تکلفات پر اڑا دیتے تھے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللّٰہ البالغہ میں قیصر و کسریٰ کے اس معاشی نظام کا نقشہ کھینچا ہے۔ حالت یہ تھی کہ امرا کے کمر میں باندھنے کے پٹکے ۸۰ ہزار درہم کے ہوتے تھے۔ لوگوں کے خون پسینے کی کمائی جو ٹیکسوں کی صورت میں لی جاتی تھی، مفاد عامہ پر صرف نہیں ہوتی تھی۔ یہ یا تو نام نہاد  مذہبی طبقہ لے اڑتا تھا یا قصیدہ گو شاعر، بھانڈ ،گویّے لے جاتے تھے۔ عوام کے روپے سے طوائفیں پالی جاتی تھیں یا وہ فوج جو عوام کو دبانے اور کچل کر رکھنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی، کہ کاشتکار اور دست کار کے بوجھ کو کم کرے۔ ملک میں نہروں کا انتظام بہتر بنائے، سڑکوں کی حالت ٹھیک کرے، مسافر خانے، مدرسے اور شفاخانے قائم کرے۔ غرض ایک بدترین استحصالی نظام تھا اور مسلمانوں نے جب اس نظام پر ضرب لگائی اور یہ نظام ٹوٹا تو سب سے زیادہ فائدہ  دبے اور کچلے ہوئے طبقات کو پہنچا۔ قیصر و کسریٰ کے جابرانہ اور ظالمانہ نظام کے خاتمے نے عام انسانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنایا۔ ان پر سے معاشی ظلم ختم ہوا۔ دنیا نے اقتصادی عدل کا نظارہ کیا۔

یورپی اور عیسائی مؤرخین نے خود لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں بڑی بڑی بادشاہتوں کی بساط اس لیے الٹ گئی کہ عوام کے دِل ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اور جب عوام نے مسلمانوں کا طرزِ حکومت دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ خاص طور پر ٹیکسوں کی وصولی کا ظالمانہ نظام ختم ہوگیا۔ مسلمان حکمرانوں نے جہاں بھی حکومت کی نہروں کا عمدہ انتظام کرنے، شفاخانے ، مدرسے اور تعلیمی ہاسٹل قائم کرنے اور لوگوں کے لیے مادّی سہولتیں فراہم کرنے پر خاص توجہ دی، کیونکہ حکمرانوں پر مذہباً یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ وہ اپنی رعایا کی بہتری کے لیے تدابیر اختیار کریں۔ مسلمانوں نے جب مصر پر قبضہ کیا تو حضرت عمرؓ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو لکھا کہ مصر کی اقتصادی خوش حالی کے لیے جو تدابیر ضروری ہیں وہ معلوم کریں ۔

مؤرخ ابن عبد الحکم نے لکھا ہے کہ: مصر میں نہروں کی کھدائی، سڑکوں، پُلوں کی تعمیر اور دوسرے تعمیراتی کاموں پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار مزدور لگائے گئے اور ان مزدوروں کا کام سردی، گرمی جاری رہتا تھا ۔ زمانۂ قدیم میں دریاے نیل سے ایک نہر نکال کر بحیرۂ قلزم سے ملائی گئی تھی۔ بعد میں یہ نہر اَٹ گئی اور بند ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس نہر کو دوبارہ جاری کیا جائے اور نہر کو جاری کرنے کے لیے مسلسل چھے ماہ کام ہوتا رہا۔ اس نہر کی تکمیل پر مصر کے زرخیز علاقوں اور حجاز  کے درمیان آمدورفت شروع ہو گئی۔ بصرہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے ایک نہر کھدوائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے زیر اہتمام بھی ایک نہر کی تعمیر شروع ہوئی تھی جو دورِ حجاج میں مکمل ہوئی۔

مسلمانوں کے عہد میں اقتصادی ترقی کے سبب نئے نئے شہر آباد ہوئے اور پرانے شہروں میں نئی جان پڑ گئی۔ مسلمانوں کی بین الاقوامی تجارت نے عرب و ہند، چین و روس اور افریقہ و یورپ تک اپنا سلسلہ بڑھایا۔ یہ تجارتی کارواں ایک نئی او ر بہتر زندگی کا عنوان بن گئے۔ ان کی وجہ سے اقتصادیات اور تہذیب کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا ۔بحری تجارت نے دنیا کے مختلف براعظموں میں رشتہ قائم کردیا اور یہ اقتصادی رشتہ دنیا کے تہذیبی ارتقا کا بھی سبب بن گیا۔ اس اقتصادی ترقی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام نے رہبانیت اور ترکِ دنیا کے رجحان کو ناپسند قرار دیا۔ عیسائی پادری یا دوسرے مذہبی لوگ معاشی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ اور مکروہ سمجھتے تھے، لیکن  اسلام نے ہر قسم کی اقتصادی جدوجہد اور سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی۔ لوگوں کو سفر پر مائل کیا، سیاحت اور تجارت کی خوبیاں بیان کیں۔ دست کار طبقے کو عزت دی گئی، اسے اللہ کا حبیب قرار دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں نے ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں قیصر و کسریٰ اور برہمنی نظام کے استحصال کا خاتمہ کیا گیا تھا۔

مسلمان  جب ترقی کی راہ پر گامزن تھے، انھوں نے بے کار اور بے ہودہ علوم و فنون کے بجاے ان علوم و فنون پر توجہ دی، جو انسانیت کے لیے مادّی طور پر منفعت بخش تھے۔ انھوں نے  طرح طرح کی ایجادات کیں اور سائنس کو آگے بڑھایا۔ یہ ساری برکات جو اقتصادیات کی دنیا میں ظاہر ہوئیں اسلام کی وجہ سے تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بعثت نبویؐ دنیا کے لیے نہ صرف روحانی بلکہ مادّی اور خالصتاً معاشی اعتبار سے بھی ایک نعمت ِ عظمیٰ ثابت ہوئی۔

’’[۱۲دسمبر ۱۹۸۳ء میں کویت میں خوں ریز دھماکے ہوئے نتیجتاً لبنانی حزب اللہ سے منسوب ۱۷ گوریلوں کو حکومت ِ کویت نے گرفتار کرلیا۔ ۵؍اپریل ۱۹۸۸ء کو ان کی رہائی کے لیے کویت ایرویز کی پرواز ۴۲۲ کو ]اغوا کرلیا گیا تھا۔ اس میں سوار بے گناہ بوڑھے، بچے اور عورتوں کو مسلسل ۱۶ دنوں تک خوف و ہراس کی حالت میں رکھا، بلکہ اغوا کنندگان نے بعض معصوموں کی جان بھی لے لی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان اپنے بارے میں متقی اور پرہیزگار ہونے کی بھی نمایش کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے طیارے کا اغوا اچھے اور نیک مقصد کے لیے کیا ہے۔ وہ نماز کے وقت نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے اور ان کی زبانیں ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔

براہ کرم رہنمائی کیجیے کہ اس صورتِ حال میں اسلام کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی کسی اچھے اور نیک مقصد کے لیے اغوا جیسا گھنائونا جرم کیا جاسکتا ہے؟ کن گناہوں کی پاداش میں انھوں نے مسافروں کو اغوا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی؟ کیا اسلام  اس طرح بے گناہوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ان کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘

بلاشبہہ میں نے اور میرے جیسے اُن کروڑوں مسلمانوں نے، جن کا دل ابھی پتھر نہیں ہوا ہے، مذکورہ واقعے سے سخت اذیت محسوس کی تھی۔ میں نے اپنے خطبوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اس حرکت کی سخت مذمت بھی کی تھی۔

بے گناہ افراد پر ظلم ڈھانا، گناہ اور جرم ہے خواہ وہ کسی بھی دین یا کسی بھی قوم اور ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہودیوں کی طرح اسلام کے دو پیمانے نہیں ہیں۔ یہودی قوم یہودیوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتی، لیکن   خود دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتی۔

میں اسلام کے چند بنیادی اصول پیش کرتا ہوں، تاکہ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل سکے:

  •  بے گناھوں پر ظلم و زیادتی حرام ھے: اسلام کسی بے گناہ انسان پر ظلم و زیادتی کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں قرار دیتا، خواہ بے گناہ شخص مسلم ہو یا غیرمسلم، یا اس کا تعلق کسی بھی ملک، قوم اور ملّت سے ہو۔ زیادتی کرنے والا اگر خلیفۂ وقت بھی ہو، تب بھی اسلام اسے برداشت نہیں کرتا۔ اس بات کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہ شہریوں ، مثلاً بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی جان لی جائے۔ یہاں تک کہ اس پادری اور پنڈت کی جان لینا بھی جائز نہیں ہے، جو جنگ سے کنارہ کش ہوکر کنیسہ (Church)یا مندر (Temple) میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض انصاف پسند تاریخ دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ تاریخ نے مسلمانوں سے زیادہ رحم دل فاتح نہیں دیکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ زیادتی صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ جانوروں پر بھی جائز نہیں ہے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ ایک عورت محض اس وجہ سے جہنم کی حق دار ہوگئی کہ اس نے ایک بلی کو گھر میں قید کردیا، نہ اسے کھانا دیا اور نہ گھر سے باہر جانے دیا کہ خود سے کچھ کھاپی لے یہاں تک کہ بلی بھوک سے مرگئی۔

ذرا غور کیجیے کہ ایک بلی کو بلاوجہ قید کرنا اور اس کو اذیت دینا اتنا بڑا جرم ہے، تو ان لوگوں کا جرم کس قدر بھیانک ہوگا، جنھوں نے بے گناہ مسافروں کو طیارے کے اندر قید کر دیا۔ انھیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا اور ان میں سے بعض کی جان تک لے لی۔

  •  ھر شخص اپنے گناہ کا خود ذمہ دار ھے : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ  وِّزْرَ اُخْریٰ o (النجم ۵۳:۳۸)’’کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘‘۔

بلاشبہہ اسلام کے اصولوں میں سے ایک واضح اصول یہ ہے کہ ہرشخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو نہیں دی جائے گی۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ طیارے کے اغوا کنندگان خود کو ’متقی اور پرہیزگار‘ ظاہر کرنے کے باوجود اسلام کے اس واضح حکم سے کھلا انحراف کر رہے تھے۔ انھوں نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دبائو ڈالنے کے لیے، بے گناہ مسافروں پر ظلم کیا اور ان کی جان لی، حالاں کہ یہ مسافر بالکل بے قصور تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسا بھیانک جرم وہ ’اسلام کے نام‘ پر کر رہے تھے۔ بلاشبہہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لیے باعث ِ شرمندگی بھی ہیں اور اسلام کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بھی۔کیا انھیں پتا نہیں ہے کہ کسی بے گناہ کا قتل کس قدر بھیانک گناہ ہے؟

اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط(المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔

صحیح حدیث میں ہے:

لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (ترمذی)، پوری دنیا کو مٹا دینا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے کسی مسلم کو قتل کردینے کے مقابلے میں۔

مَنْ اَشَارَ اِلٰی اَخِیْہٖ بِحَدِیْدَۃٍ فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَلْعَنُہٗ حَتّٰی یَنْتَھِی (مسلم)، جس نے اپنے بھائی کی طرف ہتھیار اُٹھایا فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ہتھیار ہٹا لے۔

  •  اچہے مقصد کے لیے غلط راستے کا انتخاب ناجائز ھے :گناہ اور جرم کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، خواہ کسی اچھے مقصد ہی کے لیے، یہ غلط راستہ کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ اسلام اس ’میکیاولی نظریے‘ کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ’ ’اچھے مقصد کو پانے کے لیے اچھا بُرا کچھ بھی کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسلامی نظریے کے مطابق جتنا ضروری کسی مقصد کا نیک یا مفید ہونا ہے، اتنا ہی ضروری ان ذرائع کا اچھا ہونا بھی ہے، جنھیں مقصد کے حصول کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے چوری کرنا یا حرام طریقے سے مال حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ مقصد کے نیک ہونے کے باوجود اس مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ جائز نہیں ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا الطَّیِّبَ (مسلم) اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔

اسی لیے علماے کرام ’عملِ صالح‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: عملِ صالح وہ ہے جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں۔ پہلی یہ کہ عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو اور دوسری یہ کہ اسلامی احکام اور شریعت کے مطابق ہو۔ اسلامی شریعت سے ہٹ کر انجام دیا ہوا یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو    خوش کرنے کے لیے کیا گیا عمل صالح عمل نہیں ہوسکتا۔

طیارہ اغوا کرکے ، مسافروں کو یرغمال بنانے والوں کا یہ دعویٰ کہ: ’’ہمارا مقصد نیک و صالح ہے اور جیلوں میں قید اپنے بے گناہ بعض ساتھیوں کی رہائی کی غرض سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے اس ہدف کو اگر چند لمحوں کے لیے کوئی جائز سمجھ بھی لے، تو فی الواقع اس کے باوجود اس امرواقعہ میں دو راے نہیں کہ انھوں نے جو راستہ یا طریقہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے، قابلِ مذمت ہے اور یہ ایک بدترین جرم ہے۔ اس صورت میں اس جرم کا گھنائونا پن اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ انھوں نے یہ جرم ’اسلام کے نام‘ پر اور خود کو ’متقی پرہیزگار‘ سمجھتے ہوئے کیا ہے۔ اپنے اس رویے سے وہ اسلام کی زبردست بدنامی کا سبب بنے ہیں۔

بلاشبہہ اسلام کی نظر میں مسافر طیارے کو اغوا کرنا [یا کسی کو یرغمال بنانا] کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور اب علماے کرام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے سامنے اسلام کے صحیح موقف کی وضاحت کریں اور انھیں پورے وثوق کے ساتھ بتائیں کہ اسلام اس نوعیت کے اقدامات اور کارروائیوں کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے اور ایسا ظلم کرنے والے صحیح مسلمان     نہیں ہوسکتے۔ (فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دوم، ص۲۰۶۔ ۲۱۰، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، دسمبر ۱۹۹۸ئ)

میں نے خوب اچھی طرح چھانٹ پرکھ کر اپنی پوری زندگی جس مذہبِ انسانیت کے حوالے کی ہے اس کا نام ہے: امن و سلامتی کا مذہب۔

کسی بھی مذہب پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے دو ہی بنیادی حقیقتیں دیکھی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے خدا کا تصور کیا دیا ہے؟ دوسرے یہ کہ اس نے انسان کو کیا مقام دیا ہے؟ جہاں خدا کا تصور ناقص یا خلافِ حقیقت ہوگا وہاں انسان بھی اپنے اصل مرتبہ و مقام سے ہٹا ہوا ملے گا، اور جہاں انسان کو اس کے شایانِ شان درجہ نہ دیا گیا ہو، وہاں خدا کا تصور کبھی صحیح اور مطابقِ حقیقت  نہیں ہوسکتا۔ کسی مذہب کے تصورِ خدا کی کسوٹی اس کا تصورِ انسان ہے۔ چونکہ مذہب کا مقصود انسانی زندگی کو بنانا سنوارنا ہے، اس لیے مذاہب کی جانچ میں یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ انسان اور انسانی زندگی کو کیا درجہ دیتے ہیں۔ آدمی کو جس نظامِ فکروعمل کی طرف پکاریے اس کی خودی یہ دریافت کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہے کہ اس نظام میں میرا مقام کیا ہے؟ مادی کائنات کے اسٹیج پر زندگی کی تمثیل پیش کرنے میں میرے لیے کیا پارٹ تجویز کیا گیا ہے؟ آفرینش کی اس بھری مجلس میں میری نشست کہاں ہے؟

  •  میں نے جس مذہب ِ انسانیت کا دامن تھاما ہے اس نے انسان کو سلطنت ِ کائنات میں خدا کے نائب اور خلیفہ اور نمایندے کی پوزیشن دی ہے: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ ۲:۳۰)۔ خدا کی ساری مخلوق اور رعیّت اطاعت و عبادت کے ایک جبری ڈسپلن میں کَسی ہوئی ہے: وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo (اٰل عمران ۳:۸۳)۔ لیکن نوعِ انسانی کو اخلاقی و تمدنی زندگی کے دائرے میں محدود خودمختاری (limited autonomy) سے نوازا گیا ہے۔ خدا نے اس نوع کو اپنی طرف سے ایک روح ودیعت کی ہے:وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوحِیْ o (الحجر ۱۵:۲۹، صٓ ۳۸:۷۲)۔اپنی صفات کا ایک پرتو اس پر ڈالا ہے، علم و شعور کا ایک نور اُسے دیا ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَاo (البقرہ۲:۳۱)۔ اور پھر ارادے کی فاعلانہ قوت دے کر اسے زندگی کی امتحان گاہ میں اُتار دیا ہے۔ تمام اجرام اور اجسام اور عناصر اور قویٰ کو اس کی ضروریات پوری کرنے میں لگا دیا ہے اور بے شمار مادی ذرائع و وسائل اس کے تصرف میں دے دیے گئے ہیں: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (الجاثیہ ۴۵:۱۳)۔پوری سہولتیں انسان کو پہنچا دی گئی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کو بنائے سنوارے اور ترقی کے راستوں پر جتنا بڑھ سکتا ہو آگے بڑھتا جائے۔ خلافت و نیابت کا یہ مقام پاکر آدمی عزتِ نفس (selfrespect) اور ذمہ دارانہ حیثیت کے احساس سے مالا مال ہوجاتا ہے۔
  • میرا مذہب انسانی شرف کی دوسری بنیاد یہ سامنے لاتا ہے کہ انسان کو بہترین ساخت پر اُٹھایا گیا ہے۔ اس کی فطرت میں کوئی رخنہ نہیں چھوڑا گیا، اس کے خمیر میں کوئی بُرائی شامل نہیں کردی گئی، کوئی گناہ اس کے سر پیدایشی طور پر چپکا نہیں دیا گیا، بدی کا کوئی موروثی حساب ایسا نہیں ہے جو نسلاً بعد نسل ایک ایک آدم زاد کے کھاتے میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہو۔ ایک بے داغ فطرت ہے جس کے اندر زندگی کے مختلف رجحانات اور تقاضوں کو اعتدال اور توازن کے ساتھ سمویا گیا ہے۔ یہ آزادانہ فیصلے کے تحت اقدام کرنے والی فطرت ہے۔ جس کے اندر زندگی کے مختلف رجحانات اور تقاضوں کو اعتدال اور توازن کے ساتھ سمویا گیا ہے۔ یہ آزادانہ فیصلے کے تحت اقدام کرنے والی فطرت ہے جس پر نہ نیکی زبردستی ٹھونسی جاتی ہے، نہ بُرائی جبراً چپکائی جاتی ہے۔ اس معنی میں انسان کی ساخت بہترین ساخت ہے۔ انسانی فطرت کا یہ تصور جب میرے سامنے آتا ہے تو اپنے اُوپر میرا اعتماد قائم ہوتا ہے اور نوعِ انسانی کا شرف و وقار میری نگاہوں میں بہت بڑھ جاتا ہے۔

انسانی زندگی کی بہترین ساخت ہی کو نمایاں کرنے کے لیے میرے مذہب نے انسانِ اوّل کی سرگزشت بیان کی ہے۔ جنت میں ریہرسل کا دور گزارتے ہوئے اس سے جو لغزش ہوئی تھی، اس کے بارے میں میرے مذہب کا بیان یہ ہے کہ ایک تو وہ دیدہ دانستہ نہ تھی بلکہ غلط فہمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے سرزد ہوئی۔ دوسرے اس کے اندر زیادہ اُونچے مراتب اور ابدی زندگی پانے کا اعلیٰ مقصد کارفرما تھا: فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَا وٗرِیَ عَنْھُمَا مِنْ سَوْاٰتِھِمَا وَ قَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ o (اعراف۷:۲۰)۔تیسرے یہ کہ اس لغزش پر باغیانہ اکڑ پیدا ہونے کے بجاے اس کے فوراً ہی بعد احساسِ ندامت ہوا اور آدم ؑ اپنی رفیقہ سمیت خدا کے سامنے معافی کے  خواست گار بن کر حاضر ہوگئے: قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف۷:۲۳)۔ اختیار کے استعمال کے ا س پہلے تلخ تجربے کے بعد اوّلین انسانی جوڑا  بدی کی شیطانی طاقتوں کے بارے میں پوری طرح چوکنا ہوگیا اور ایک پاکیزہ زندگی کی تعمیر کا نیا عزم لے کر میدانِ مقابلہ میں اُتر گیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک بااختیار مخلوق کے لیے اس سے زیادہ اُونچی فطرت کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اپنا فرض ادا کرنے میں اگر کبھی اس سے بھول چوک ہوجائے تو وہ اس کا احساس کرے اور پھر اپنی اصلاح پر آمادہ ہوجائے۔

  •  میرے مذہب کی تعلیم کی رُو سے انسانی شرف و عظمت کا اتنا پاس کیا گیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہمیشہ خود انسان ہی ذریعہ بنائے گئے۔ آدم ؑ سے ابراہیم ؑ تک اور ابراہیم ؑ سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جو ہزارہا پیغمبر ؑ اور رسول ؑ قوم قوم اور دیس دیس میں ہماری تعلیم و تربیت کے لیے مامور کیے گئے وہ سب کے سب گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہی تھے۔ اس کام کے لیے نہ تو خدا کو خود اُتر کے آنا پڑا، نہ فرشتے ہی مقرر کیے گئے اور نہ کسی دوسری مخلوق کو یہ منصب دیا گیا۔

پھر دیکھیے کہ میرے مذہب کا خطاب کسی ایک گروہ اور نسل اور قوم کے لیے خاص نہیں ہوا بلکہ وہ ساری انسانیت کے لیے عام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بنی نوع انسان ایک گھرانا اور ایک برادری ہیں۔ اس نے کسی خاص عنصر کو اپنا چہیتا اور لاڈلا بنا کر نہیں پکارا بلکہ ’اے انسان‘: ٰٓیاََیُّھَا الْاِِنْسَانُo (الانفطار۸۲:۶،  الانشقاق۸۴:۶)اور ’اے لوگو‘ : یٰٓاَیُّھَا النَّاسُo (البقرہ۲:۲۱-۱۶۸، النسائ۴:۱، ۱۷۰، ۱۷۴، یونس۱۰:۵۷،۱۰۴، ۱۰۸، الحج۲۲:۱، ۵، ۴۹، الفاطر۳۵:۳،۵، ۱۵، الحجرات۴۹:۱۳)کہہ کر ساری اولادِ آدم ؑ کو سچائی اور نیکی کا پیغام یکساں سنایا ہے۔ وہ سورج اور ہوا اور بارش کی طرح اپنا فیضانِ عام رکھتا ہے۔ وہ انسانیت کے مقابلے میں اور کسی چیز کو وجہِ احترام نہیں مانتا۔ وہ ان ساری تقسیموں سے انکار کرتا ہے جو انسان اور انسان کو آپس میں کاٹتی اور اُن میں جھوٹی اُونچ نیچ پیدا کرتی ہیں۔ وہ ایک ہی تقسیم کو مانتا ہے اور عزت و ذلت کا ایک ہی معیار تسلیم کرتا ہے، یعنی کون سچائی اور نیکی میں آگے ہے اور کون پیچھے ہے: اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳۔ لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ عَلٰی اَحَدٍ اِلَّا بِدِیْنٍ اَوْ عََمَلٍ صَالحٍ (مسند امام احمد)۔ حد یہ کہ وہ مذہبی جتھا بندیوں اور ان کے نمایشی سائن بورڈوں کو بھی کوئی وزن نہیں دیتا: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ (البقرہ ۲:۲۵۶)، بلکہ جو لوگ خود اُس کا اپنا ٹھپہ ماتھے پر لگاکر آتے ہیں انھیں بھی وہ مجرد ظاہری ٹھپے کی بنا پر قابلِ قدر نہیں مانتا۔ وہ صرف یہ پوچھتا ہے کہ تم چاہے گورے ہو چاہے کالے، تم چاہے سامی ہو یا حامی، تم چاہے مرد ہو یا عورت، بتائو کہ سچا ایمان اور کھرا کردار کس کے پاس ہے۔ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ جس نے انسانیت کو کاٹنے والی جاہلی عصبیتوں کا نعرہ بلند کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں: مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عَمِیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَدْعُوا اِلٰی عَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقَتَلَ قِتْلَۃً جَاھِلِیَّۃً (مسلم، نسائی)

  • میرا مذہب انسان کی فطرت سے حُسنِ ظن رکھتا ہے، اس کے دل و دماغ پر اعتماد کرتا ہے اور اس کے فطری حقِ خود ارادیت کا پورا پورا احترام کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے اپنی بات جبر و اِکراہ سے نہیں منواتا، بلکہ اس کی عقل کے سامنے سوچنے اور سمجھنے کے لیے سارا مواد رکھ دیتاہے اور صاف صاف سنا دیتا ہے کہ عقیدے اور مذہب کے بارے میں کسی کو کسی پر زبردستی کرنے کا حق نہیں: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِo (البقرہ۲:۲۵۶)۔ وہ پیچ در پیچ عقیدوں کی بھول بھلیوں میں نہیں ڈالتا۔ وہ کچھ انوکھے نظریوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ شعبدوں سے مسحور نہیں کرتا اور دماغی کشتیوں کے دنگل جما کر لوگوں کو مغالطوں میں نہیں ڈالتا بلکہ سیدھا سیدھا افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کرتا ہے: قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo (الحدید ۵۷:۱۷)۔ وہ زندگی کے دوراہے پر کھڑے ہوکر آدمی کو حق اور باطل کے دونوں راستوں سے آگاہ کردیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ جی چاہے تو اُس ہاتھ مڑو اور جی چاہے تو اِس ہاتھ اقدام کرو: فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکہف۱۸:۲۹)۔میرا مذہب دنیا کے ہر سیاسی نظام کی سیاست کے دائرے میں بلاشبہہ قوت کا استعمال کرتا ہے، لیکن عقیدہ و مذہب کے دائرے میں وہ دلیل کے سوا کسی دوسری طاقت کی ایک رمق بھی استعمال نہیں کرتا۔ یہ انسانی اختیار کا احترام ہے اور اس کی آزادیِ ضمیر کی پاسبانی ہے۔ بخلاف اس کے اگر کسی مذہب نے لٹھ چلا کر بات منوانے کا طریقہ اختیار کیا ہو تو وہ گویا انسانی شرف و احترام کا خاتمہ کرکے رکھ دے گا۔
  • میں اپنے مذہب سے اس لیے بھی محبت کرتا ہوں کہ یہ مجھے ایک خدا کی بارگاہ پر پہنچاکر دوسری تمام بارگاہوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ یہ انسان کے سامنے ایک ہی مرکز روح ایسا رکھتا ہے جس کے سامنے سجدئہ عبادت بھی گزارنا ہے ، جس کے آگے دامنِ دُعا بھی پھیلانا ہے: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ۱:۴)۔ اور جس سے پوری کی پوری زندگی کی ہدایت اور   ضابطہ اور قانون بھی لینا ہے: اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰیo (الانعام۶:۷۱)۔ یہاں مذہب اور دنیاداری کی تقسیم نہیں، یہاں خدا اور قیصر کے درمیان کوئی نہیں، یہاں پبلک اور پرائیویٹ دو زندگیاں نہیں، ایک ہی زندگی ہے اور اس کا ایک ہی مالک و فرماں روا ہے۔ یہ تصورِ توحید انسان کو خودداری اور شرف کے اُونچے مرتبے پر پہنچا دیتا ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان یہاں کوئی پردہ اور روک حائل نہیں، یہاں بیچ میں کوئی واسطہ اور سفارشی اور وکیل نہیں۔ یہاں مذہبی اجارہ داروں کے کسی طبقے کی اتھارٹی نہیں چلتی۔ یہاں پروہتوں اور پجاریوں کی مسندیں راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتیں۔ یہاں خدا اپنے بندوں کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں: ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (الحدید۵۷:۴)، میں تمھارے قریب ہوں: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (البقرہ ۲:۱۸۶)۔ مجھ سے براہِ راست رابطہ پیدا کرو۔ یہ تصورِ توحید انسان کو خدا سے  اتنا قریب کردیتا ہے کہ اس کی قدروقیمت خود اپنی نگاہوں میں بہت بڑھ جاتی ہے۔
  • میرا مذہب آدمی کو ایسی مذہبی زندگی میں نہیں ڈالتا جو اسے ذلّت و کمتری کے احساس میں مبتلا کر دے۔ وہ اسے ایک مضحکہ اور تماشا نہیں بناتا۔ وہ اسے گندا اور ننگ دھڑنگ رہنا نہیں سکھاتا۔ وہ اسے اپنے پیچھے گھسٹتے رہنے کا درس نہیں دیتا۔ وہ نہیں کہتا کہ خدا کو حاصل کرنے کے لیے دنیا کی ساری ذمہ داریوں کو تج کر جنگلوں میں ٹکریں مارتے پھرو۔ وہ نہیںسکھاتا کہ نیک بننے کے لیے آدمی کو تمدنی فرائض سے بھاگ کر عبادت گاہ کی تاریک کوٹھڑی میں چشم و گوش بند کر کے پڑرہنا چاہیے: رَہْبَانِیَّۃَ نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ(الحدید۵۷:۲۷)، اَلْمُسْلِمُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی مَا اَذَاھُمْ (ترمذی)۔ بخلاف اس کے میرا مذہب متمدن انسان کا مذہب ہے۔ وہ اسے صاف ستھرا، خوش ذوق اور خوش پوش: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ (اعراف۷:۳۲)، دنیا کے کاموں میں مصروف:     لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص۲۸:۷۷)،تمام انسانی رشتوں کے حق ادا کرتا ہوا:   وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (النساء ۴:۳۶) ،معاشی جدوجہد میں سرگرم : وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ (الجمعہ۶۲:۱۰)،   علم وفکر کے لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن اور مشکلات اور رکاوٹوں کے خلاف مصروفِ جہاد دیکھنا چاہتا ہے (مسلم)۔ أَحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلَا تَعْجِزْ (ریاض الصالحین، باب فی المجاہدہ)۔ وہ صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ساری اجتماعی سرگرمیاں خدا کے مقرر کردہ اخلاقی و قانونی حدود کے اندر رہنی چاہییں: وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ (التوبۃ ۹:۱۱۲)۔ ظاہر ہے کہ اس تصورِ مذہب کے تحت انسان کو اپنی قدرومنزلت کا ایک نیا احساس حاصل ہوتا ہے۔
  •  میرے مذہب ِ انسانیت میں انسانی جان کا احترام نظامِ تمدن کی ایک اہم بنیاد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس کسی نے کسی ایک انسانی جان کو بھی قانونی حق کے بغیر ہلاک کیا اس نے گویا ساری انسانیت کو ہلاکت کے خطرے میں ڈال دیا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲)۔ اس معاملے میں میرا مذہب اتنا حساس ہے کہ اگر اس کا کوئی بڑے سے بڑا ماننے والا اس مذہب کے کسی مخالف کو بھی ناحق قتل کردے تو وہ اس اپنے ماننے والے آدمی کے خلاف قانونی کارروائی پوری کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جان کے بعد دوسرے درجے پر میرے مذہب میں انسانی ملکیت کا احترام بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور کسی بڑی سے بڑی طاقت کی مجال نہیں کہ اس کے نظام میں کسی دوسرے کا ایک تنکا بھی ناروا طور پر لے سکے: وَلَیْسَ لِلْاِمَامِ أَنْ یُخْرِجَ شَیْئًا مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا بِحَقٍّ ثَابِتٍ مَعْرُوْفٍ( کتاب الخراج)۔ اسی طرح بلاامتیاز وہ ہر انسان کی عزت و عصمت کا محافظ بن کر سامنے آتا ہے۔ پھر وہ راے اور خیال کی آزادی کے حق کا پاسبان ہے اور ایک ایک فرد کے لیے وہ کوئی راے رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا، کسی عقیدے کو اختیار کرنے اور اس کے مطابق مذہبی عبادات و مراسم بجا لانے کا، اور حکمران طاقت سے اختلاف کرنے اور اس پر تنقید کرنے کا پورا پورا حق تسلیم کرتا ہے۔ انسانی آزادی کا اسے اس حد تک احترام ملحوظ ہے کہ وہ باضابطہ قانونی کارروائی کے ذریعے جرم ثابت ہوئے بغیر کسی شخص کو قید کرنے، یا اس کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرنے کا کسی کو حق نہیں دیتا:  لَا یُؤْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ الْعَدْلِ ( قولِ عمرؓ، مؤطا، باب الشرط الشاہد)۔پھر وہ بلاامتیاز تمام انسانوں کو قانون کی نگاہ میں ایسی معیاری مساوات عطا کرتا ہے کہ ایک معمولی شہری اور صدرِمملکت کو اس نے عالمِ واقعہ میں ایک سطح پر لاکھڑا کیا: یَاعَلِیُّ اِذَا جَلَسَ اِلَیْکَ الْخَصْمَانِ فَلَا تَقْضِ بَیْنَھُمَا حَتّٰی تَسْمَعَ مِنَ الآخَرِ کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الأَوَّلِ، ابوداؤد، ترمذی)۔
  • پھر میرا مذہب اپنے ماننے والوں کے منظم معاشرے کو ایک ایسا نظامِ معیشت قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے جو سارے نسلی اور مذہبی امتیازات سے بالاتر ہوکر محتاج اور ضرورت مند کو سہارا بہم پہنچائے: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo (الذاریات ۵۱:۱۹)۔چنانچہ میرے مذہب کے ماننے والے ایک مثالی حکمران نے ایک مرتبہ ایک بوڑھے عیسائی کو بھیک مانگتے دیکھا تو ماتحت کارکنوں کو ڈانٹا اور اسی لمحے سرکاری خزانے سے اس کے نام وظیفہ جاری کرنے کی ہدایت دی(الفاروق، جلد دوم،ص ۲۱۴ )۔ پھر انسانی احترام کی یہ حد ہے کہ اپنے دشمن سے میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے بھی میرا مذہب مجھے اس سے روکتا ہے کہ میں عورتوں اور بوڑھوں اور بچوں اور عام شہری آبادی پر ہاتھ اُٹھائوں ، کسی کا چہرہ مسخ کروں اور کسی کی نعش کی بے حُرمتی کروں: نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانٍ(نسائی)۔ اِذَا قَاتَلَ اَحَدُکُمْ، فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْہَ۔ ینھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ (ابوداؤد)،  نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ عَنِ النُّھٰی وَالمُثْلَۃِ (بخاری)
  • میرا مذہب انسانوں کی خدمت کا ایک وسیع پروگرام میرے سامنے رکھتا ہے اور دوسروں کے بہت سارے حقوق میرے اُوپر عائد کرتا ہے۔ رشتہ داروں میں سے والدین درجۂ اوّل پر آتے ہیں اور چاہے وہ میرے مذہب کے ماننے والے ہوں یا مخالف ہوں، ہرحال میں ان کی خدمت اور ان کا ادب مجھ پر واجب ٹھیرایا گیا ہے۔ ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے قرابت داروں کی بھلائی چاہنا میرے اُوپر لازم ہے۔ عام انسانی برادری میں سب سے پہلا مرتبہ پڑوسی کا ہے۔ میرا مذہب کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس حالت میں پیٹ بھر کر سوئے کہ اس کا پڑوسی فاقے میں مبتلا ہو تو ایسے شخص کا دین و ایمان بالکل بے معنی ہے: لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالَّذِیْ یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَائِعٌ اِلٰی جَنْبِہٖ (مشکوٰۃ)۔ اسی طرح میرے مذہب میں اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی پریشان رہے : وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ الَّذِیْ لَا یَامَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ (ریاض الصالحین، باب حق الجار)
  • میرے مذہب نے سچائی اور نیکی کا تاریخی معیار ہی انسانوں کے بھلے کو قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ میں اسی نظریہ و مسلک کا چلن ہوتا ہے اور وہی روایات اور قدریں زندہ رہتی ہیں جو انسانیت کی خیروفلاح کا ذریعہ ہوں۔ باقی جو کچھ ہے وہ کھوٹ میل ہے جسے تاریخ کی کٹھالی جلاکر راکھ کر دیتی ہے: وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد ۱۳:۱۷)
  • میرا مذہب گھر کی چار دیواری سے لے کر حکومت کے ایوان تک اور اندرونِ ملک کے معاملات سے لے کر بین الاقوامی سرگرمیوں تک مجھے انسانیت دوستی کی روح سے بھرا ہوا ایک وسیع نصب العین دیتا ہے۔ وہ مجھ سے چاہتا ہے کہ میں اپنی زبان، اپنے ہاتھ پائوں، اپنے دماغ،   اپنے قلم اور اپنے روپے پیسے کی ساری قوتیں اس مہم میں لگادوں کہ سچائی اور نیکی کا پیغام ہر انسان تک پہنچے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)، اور جھوٹ اور ظلم اور بُرائی اور فساد کا زور ٹوٹ جائے: وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ (انفال ۸:۳۹)
  •  وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتا کہ میں ذاتی حد تک کچھ جزوی نیکی کو سینے سے لگائے بدی کے اجتماعی ماحول میں امن چین سے پڑا رہوں، بلکہ وہ مجھ سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنے دوسرے لاکھوں بھائیو ں کی بھلائی کے لیے کسی بھی فاسد نظام کے خلاف تبدیلی کی جدوجہد کروں: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (الصف۶۱:۹)۔اس مہم میں میرا مذہب مجھے یہ سکھاتا ہے کہ انسانی بھلائی کے کسی بھی نیک کام کے لیے میں بغیر کسی تعصب کے ہرانسانی طاقت سے تعاون کروں اور انسانوں کی بھلائی کے خلاف پڑنے والے غلط کاموں میں کسی عزیز سے عزیز اور قریبی سے قریبی کا بھی ساتھ نہ دوں: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲)۔ اس مہم کی بنیاد میرے مذہب نے خالص انسانی محبت و اخوت کے جذبے پر رکھی ہے۔

حضرات! ان چند مختصر اشارات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میرے مذہب ، دینِ اسلام نے انسان کو کیا مقام دیا ہے۔ بس خاتمۂ کلام کے طور پر میں ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ میرا مذہب اُن محدود معنوں میں مذہب نہیں ہے جن میں یہ لفظ عام طور پر بولا جاتا ہے، بلکہ وہ ایک دین یا ایک نظامِ زندگی ہے۔ اس کی بنیاد پر کوئی جامد فرقہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک متحرک پارٹی تشکیل پاتی ہے۔ وہ کوئی مذہبی مشن نہیں کھڑا کرتا بلکہ ایک بین الاقوامی تحریک بپا کرتا ہے۔ وہ    مجرد وعظ نہیں سناتا، عملی مسائل کو اپنے ہاتھ سے حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی سے تبدیلیِ مذہب نہیں چاہتا بلکہ ذہن و کردار کی مکمل تبدیلی مانگتا ہے۔ اس کا منتہا چند پاک باز افراد پیدا کردینا نہیں، وہ نیکی کا ایک جہانی نظامِ سیاست و تمدن وجود میں لانا چاہتا ہے۔

 

الحمدللہ! مسلمان بچے (اوّل)، قرآنی تعلیمات (دوم) اور اسلامی آداب و اخلاق کے نفیس ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ دسمبر کے پہلے ہفتے سے احباب میں تحفتاً تقسیم شروع ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔ مقامی حضرات دستی وصول کریں، جب کہ دیگر حضرات ۵۰روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ ارسال کریں۔

شیخ عمر فاروق، -15 بی، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: 042-37810845

اس تحریر میں علمی و فکری سطح پر پیش آمدہ مسائل کی مناسبت سے ایک محتاط تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جو  اہلِ علم ، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے غوروفکر کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔ زندگی کا ہرلمحہ نئے سوال لے کر آتا ہے۔ اس لیے فکر، تجزیے اور مکالمے کا باب کبھی بند نہیں ہوتا، اور وہ اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتا ہے۔ ایسی خود احتسابی کو مؤثر اور شافی جواب کا پیش خیمہ بننا چاہیے۔ (ادارہ)

ہماری تحریک کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ فکری سرمایہ ہمارا اہم ترین سرمایہ ہے اور ہمارے کام کی نوعیت بنیادی طور پر فکری و نظریاتی ہے۔ اس ملک میں ایک طویل عرصے تک ہمیں نظریاتی محاذ پر ایک لمبی فکری لڑائی لڑنی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بالکل ابتدا میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ:

اب اسلام اگر دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں، جو فکر ونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں، جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔

اس طرح تحقیق و اکتشاف کا کام ہمارا اہم ترین کام قرار پاتا ہے اور فکرونظر کا محاذ ہمارا  اہم ترین محاذ ہے۔ ایک فکری و نظریاتی تحریک کے لیے یہ کام ’خطِ زندگی‘ (لائف لائن) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کئی ضروری کاموں میں سے ایک کام نہیں ہے، بلکہ ہماری ترقی اور پسپائی، زندگی اور موت اس اساسی کام پر منحصر ہے۔فکری تحریکیں انتشار سے مرتی ہیں اور نہ ملّت قلت ِ وسائل اور دشمنوں کے ظلم و جبر سے موت کے گھاٹ اُترتی ہے، بلکہ فکری و نظریاتی تحریکوں کی موت، فکری پسپائی سے ہوتی ہے یا فکری جمود سے۔ اسی لیے یہ فکری کام ہمارے لیے ’خط ِ زندگی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے جتنا یہ ضروری ہے کہ ہم تنظیم کی توسیع و استحکام اور دیگر تنظیمی و تحریکی تقاضوں پر غوروفکر کریں اور اس کے لیے نشستیں کریں، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے فکری اثاثے کی حقیقی صورتِ حال کو بھی، اپنے سنجیدہ جائزے اور بحث و گفتگو کا موضوع بنائیں۔ اس کے لیے بار بار نشستیں ہونی چاہییں، اور سرجوڑ کر اپنے فکری تقاضوں کی تکمیل پر غور کرنا چاہیے۔

اس وقت دنیاکی صورت حال بھی بہت بدل چکی ہے۔ اب اسلام ساری دنیا میں ایک سنجیدہ علمی اور سیاسی موضوع بن گیا ہے۔ اہلِ اسلام کا یہ دعویٰ کہ: ’’اسلام مسائلِ انسانیت کا واحد حل ہے‘‘، اب کوئی ایسا دعویٰ بھی نہیں رہا ہے کہ جسے لوگ چند دیوانوں کی بڑ کہہ کر نظرانداز کرسکیں۔ اب یہ دعویٰ دانش گاہوں سے لے کر عالمی سطح کے تحقیقی اداروں تک، اور قانون سازی کے ایوانوں سے لے کر عالمی سطح کی سفارتی محفلوں تک، ہر جگہ سنجیدہ مباحث کا موضوع بن گیا ہے۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ جب مسلمان مفکرین کو پڑھنے والے اور ان سے متاثر ہونے والے، راسخ العقیدہ اور عقیدت مند مسلمان ہی ہوا کرتے تھے۔ آپ پر نقدوجرح بھی کرتے تھے تو مسلمان علما اور مسلمان مفکرین ہی کرتے تھے۔ دنیا ہمیں بس مسلمانوں کے ایک شدت پسند گروہ کی حیثیت سے دیکھتی تھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بھی معاصر علمی دنیا کو مخاطب کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے کی جرأت کم ہی کی تھی۔ ہم مغرب پر اور اسلام مخالف خیالات پر تنقید ضرور کرتے تھے، لیکن اس تنقید کے مخاطب بھی مسلمان ہی ہوا کرتے تھے اور مقصد بس یہ ہوتا تھا کہ: ’’مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے اور اسلام پر ان کے یقین و اعتماد کو بڑھایا جائے‘‘۔

اب منظر نامہ مختلف ہے۔ آپ چاہنے، نہ چاہنے کے باوجود، پوری کی پوری دنیا کو مخاطب کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا آپ کی باتوں کو اپنے علمی معیارات کے مطابق جانچنے اور نقدو جرح کرنے کا حق حاصل کرچکی ہے۔ اب عالمی اداروں میں صرف اسلامی تحریکات کے اثرات، مسلمانوں میں ان کی پوزیشن، قومی سلامتی سے ان کے تعلق وغیرہ پر ہی ریسرچ اور تجزیے نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان کے موقف، خیالات، ان کے تجویز کردہ حل اور ان کا وژن بھی زیربحث آرہا ہے۔

یہ صورت حال خوش آیند تو ہے، لیکن ہمیں بڑی ذمہ دارانہ اور نازک پوزیشن میں کھڑا کردیتی ہے۔ ’تاریخ کے سیمی نار ہال‘ میں ہم ۳۰۰سال سے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور اب کنوینر نے ہمارے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں بولنے کے لیے مدعو کر لیا ہے۔ اب ہمیں بولنا اور دنیا کو قائل کرنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بولنے کے لیے تیار ہیں؟ اس ’سیمی نار‘ میں جہاں فرانسس فوکویاما [پ: ۱۹۵۲ئ] اور نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ] اپنا موقف لیے بیٹھے ہیں، کیا ہم اپنی بات پیش کرسکتے ہیں؟ ان معروضات کا مقصد اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔

میں ذرا ماضی میں جانا چاہتا ہوں۔ اس خطۂ ارضی پر ایک تاریخ ساز جگہ واقع ہے: ایک چھوٹی سی مسجد، جس کے کمروں میں کبھی ترجمان القرآن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ۷۰برس پہلے، ایک شخص نے یہاں بیٹھ کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ساری علمی دنیا کو چیلنج کیا تھا۔ یاد کیجیے، مولانا مودودیؒ کے زمانے میں بھی بڑے بڑے اکابر علما دانش ورموجود تھے۔ ابوالکلام آزاد، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا اشرف علی تھانوی، لیکن مولانا مودودیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ انھوں نے صرف مسلمانوں کو مخاطب نہیں بنایا، بلکہ اپنے عہد سے خطاب کیا۔ اپنے زمانے کی پوری علمی دنیا کو خطاب کیا۔ اس کے لیے انھوں نے روایتی طرزِبیان اختیار نہیں کیا، بلکہ وہ لب و لہجہ اور وہ زبان استعمال کی، جو معاصر علمی دنیا کی زبان تھی۔ فقہ و کلام کے ان مسائل تک خود کو محدود نہیں رکھا، جن پر مسلمانوں کی محفلوں میں بحثیں ہوا کرتی تھیں، بلکہ ان موضوعات کو چھیڑا جن پر معاصر دنیا مکالمہ کرنا چاہتی تھی۔

آج ہم اسی تحریک کا حصہ ہیں۔ تاریخ کے ایک نازک موڑ پر، اس عظیم تحریک کے ورثے کی امانت ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تحریکی فکر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹھیر سی گئی ہے۔ آج ہمارے کام بڑھ رہے ہیں، سماجی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، وسائل بھی بڑھ رہے ہیں، لیکن شاید فکر ترقی نہیں کر رہی ہے۔ خود ہم نے اپنے سفر میں جو نئے موڑ لیے ہیں اور نئی حکمت عملیاں وضع کی ہیں، ان کی پشت پر بھی [غالباً] مضبوط اور مرتب افکار اور منظم خیالات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے فکری پراگندگی اور انتشار کے آثار ہماری صفوں میں نظر آنے لگے ہیں۔

اور جہاں تک دنیا سے ہمارے فکری تعلق کی بات ہے ، دنیا کو دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی نیا اور منفرد آئیڈیا نہیں ہے۔ ان درخشاں افکار (brilliant ideas) کی بلاشبہہ آج بھی اہمیت ہے، جو ہمارے اوّلین مفکرین ہمیں دے گئے ہیں اور ہم انھی آئیڈیاز کے سہارے آج بھی اپنی فکری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں افکار و خیالات اور نقشہ ہاے کار کا یہ مختصر اور قدیم سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ دنیا ہمہ تن گوش ہے کہ ہم بولیں اور ہم حیران ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں؟ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بہت سی اُلجھنوں کی جڑ اور بہت سے مسائل کی ماں ہے۔ اگر ہم ایک فکری تحریک کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں اور یقینا زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس مسئلے کو بھرپور اہمیت دینا ہوگی اور اس کے حل کے لیے اپنی قوتوں اور وسائل کا ایک قابلِ لحاظ حصہ صرف کرنا ہوگا۔

فکری کام کی جب بھی بات ہوتی ہے تو ہم: کچھ موضوعات تجویز کر دیتے ہیں، کچھ ترجمے، کچھ جمع و ترتیب اور کچھ صحافتی قسم کے مقالے پیش کردیتے ہیں۔ یہ کام دنیا کے ہر ادارے میں چل رہے ہیں۔ ہر مدرسے میں یہ کام ہو رہا ہے۔ اگر ایک فکری تحریک بھی اسی کام پر اکتفا کرلے تو اس کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی سیاسی بحث کو ہم کیوں آگے نہیں بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دے سکے، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہنمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔

مولانا مودودیؒ نے جدید زمانے کے اہم مسائل کو موضوع بنایا۔ انھوں نے مسلم دنیا اور مغرب کے تجربات کو سامنے رکھ کر، قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت رکھنے والی فکری کسوٹی کی بنیاد پر ، ان مسائل کے تجزیے کا ایک منفرد طریق کار (methodology) ایجاد کیا۔ ان کی تحریروں سے، ان کی عمیق فکر، وسیع علم ، قرآن و حدیث اور ان کے انطباق کا گہرا شعور اور مغربی افکار اور تاریخ کی تنقیدی بصیرت جھلکتی ہے۔ ان کی انھی خصوصیات نے زندگی کے مسائل کے تئیں مسلمانوں کے اپروچ کو ایک نئی تازگی اور زندگی بخشی ہے، اور ان کے پیغام میں ایک وسیع تر اپیل پیدا کی ہے۔ ان کا اثر، تنظیموں اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ ان کی حیثیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے (فکری) باپ کی سی ہے۔ اور ایک مفکر اور مصنف کی حیثیت سے بلاشبہہ وہ ہمارے عہد کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے جلیل القدر مسلمان رہنما ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ عصرِحاضر کو مخاطب کرنے کا یہ حوصلہ اور سلیقہ مولانا مودودیؒ کے بعد جاری نہیں رہ سکا۔ معیار کی بات تو چھوڑیئے کہ مولانا مودودیؒ جیسے مصنّفین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن ہم اس اسلوب، زبان اور طرز کو بھی جاری نہیں رکھ سکے ، جو جدید علمی دنیا سمجھتی ہے اور اکثر ہم نے علما کا وہ روایتی طرزِ بیان اختیار کرلیا ہے، جو صرف دین دار مسلمان سمجھ سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری کتابوں پر دنیا کے علمی حلقوں نے دھیان دینا چھوڑ دیا۔ تحریکی حلقوں میں غالباً صرف معاشیات میں نجات اللہ صدیقی صاحب کی تخلیقات نے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور پاکستان میں محدود پیمانے پر خرم مراد مرحوم اور خورشیداحمد صاحب کی باتیں کسی درجے میں عالمی یونی ورسٹیوں اور دانش گاہوں کو متوجہ کرسکی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری بقیہ کتابیں صرف مسلمان اور اکثر کتابیں صرف تحریکی حلقے ہی پڑھتے ہیں؟ خود ہی لکھنے اور خود ہی پڑھنے کا عمل ایک بند گروہ کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے، کسی زندہ اور عالم گیر مشن رکھنے والی تحریک کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ ایک عالم گیر پیغام کی حامل، ہمہ گیر نظریاتی تحریک کی حیثیت سے ہمارا ہدف تو یہ ہونا چاہیے، کہ ہم اس سطح سے بات کریں جس سطح سے امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ نے بات کی تھی، یا   کارل مارکس، سگمنڈ فرائڈ، مثل فوکو اور ژاک دریدا نے بات کی تھی کہ ان لوگوں نے جو کچھ کہا پوری علمی دنیا نے اسے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ آخر ہم کیوں ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے؟ اور آج ہماری اصل ضرورت ایسی ہی چونکا دینے والی باتیں کہنے کی ہے۔ دنیا کا بڑھتا ہوا نظریاتی خلا آئیڈیاز کی مانگ کررہا ہے۔ دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصورِ جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کارآمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ہے لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں:

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیّار

پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے ، نے جدتِ کردار

دنیا کو ہے اُس مہدیِ رحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار

ہماری ضرورت کسی لیپاپوتی یا سطحی کام سے پوری ہونے والی نہیں۔ ہمیں اس کام کی ضرورت ہے جو زلزلۂ افکار پیدا کردے۔ شاید بات بہت بڑی ہوگی۔ بے شک آج ہمارے پاس ایسی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ ہم اس سطح کا کام کرسکیں۔ لیکن اس کام کا ہم خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ اس خواب کو اپنی اگلی نسلوں کو منتقل تو کرسکتے ہیں اور اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی تیاری تو کرسکتے ہیں، تاکہ ہم یہ کام کماحقہٗ نہ بھی کرسکیں تو کم از کم ہماری اگلی نسل اس کام کے لیے کھڑی ہوجائے یا ان کی اگلی نسل کھڑی ہوجائے۔ اس کے لیے چھوٹے اور کارگر اقدامات کی ابتدا کو بھی ذریعہ بنایئے اور اُونچے خواب دیکھنے اور ان خوابوں کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تیاری کا محرک بھی بنایئے۔

ہم اس وقیع تحریک کو صرف روزمرہ کی تجاویز کی نذر نہ کردیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہو کہ ہمارے یہاں زیادہ اہم اور وسیع تر موضوعات زیربحث آئیں۔ ہم یہاں نئی کتابوں کی نہیں، نئے فلسفوں کی فکر کریں، نئے مثالی نمونوں (paradigms) کی اُپج کے طریقے ڈھو نڈیں۔ ان ضروریات کا تعیین کریں، جن کی تکمیل کے لیے ہم کو اُچھوتے خیالات اور منفرد آئیڈیاز کی ضرورت ہے، اور یہ بھی سوچیں کہ یہ آئیڈیاز کیسے پیدا ہوں گے؟

ہمیں تحریک کی انھی فکری ضروریات کی تکمیل کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو باتیں یہاں عرض کی ہیں، ان کی فوری تکمیل ممکن نہیں ہے۔ یہ مقاصد بہت طویل اور صبرآزما جدوجہد چاہتے ہیں۔ فوری طور پر ہمارے پیش نظر چند ذیلی اہداف ہیں:

  •  پھلا ھدف: یہ ہے کہ تحریک میں علمی و فکری کاموں کی اہمیت کا احساس تقویت پائے۔ کچھ لوگ خصوصاً کچھ ذہین نوجوان پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ اس کام کی طرف متوجہ ہوں۔ انھیں کام، مستقل رہنمائی اور تحریک ملتی رہے۔ ان کی فکری کاوشیں سامنے آتی رہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ملک بھر سے اہلِ علم اور متلاشیانِ علم کی ایک تعداد کو کارِ تحقیق سے منسلک رکھیں۔
  •  دوسرا ھدف: یہ ہے کہ تحریک کی علمی و فکری ضروریات کے تعلق سے ہمارا ذہن صاف ہو۔ ان ضرورتوں پر اِدھر اُدھر باتیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن کوئی متعین بات ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری فوری اور طویل المیعاد علمی و فکری ضرورتوں پر مباحث ہوں اور آیندہ ایک آدھ سال کے اندر، ان ضروریات پر ہمیں یکسوئی حاصل ہوجائے اور نقشہ اُبھر کر پوری شفافیت کے ساتھ سامنے آجائے۔ اسی نقشے کے مطابق ہم اپنے اسکالرز سے کام لے سکیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جزئیات اور تفصیلات (details) سے زیادہ وسیع تر تصویر (broad picture) پر مباحث ہوں اور ہماری ضروریات کی اصولی تفصیلات واضح ہوجائیں۔
  •  تیسرا ھدف: یہ ہے کہ تحریک کے اندر جس طرح عملی،دعوتی خدمت سے متعلق اور سیاسی و سماجی حرکیت (movement)میں ارتقا ہوا ہے، فکری و علمی حرکیت کا ماحول بھی افزایش پائے۔ اور اس کام کی فکر اور اس پر توجہ کی فضا بنے۔ اس کے لیے ہم ان شاء اللہ ان سیمی ناروں سے مدد لیں گے جو ملک کے مختلف علاقوںمیں مختلف موضوعات پر ہم منعقد کرتے رہیں گے۔

ان تینوں فوری اہداف کی تکمیل میں تحریک کا بھرپور تعاون مطلوب رہے گا، جس کے لیے اپنے حلقۂ اثر سے ذہین اسکالرز کو جوڑنا اور پوری تحریک میں علمی ماحول کی افزایش ہے۔

یہ کام دھیرے دھیرے ہی ترقی کرے گا۔ ہمارے اہلِ علم بزرگ اس قدر متنوع کاموں کے دبائو میں ہیں کہ ان کی توجہ کھینچنے کے لیے اس کام پر کم از کم اتنا سماجی دبائو ضروری ہے، جتنا دیگر کاموں کے لیے مطلوب ہے۔ تحریک میں فضا بنے گی تو یہ دبائو بھی پیدا ہوگا۔

پہلے قدم کے طور پر ہمیں ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے ہیں:

                ۱-            مختلف زمروں (categories) میں کون سے اُمور ابھی تحریکی لٹریچر میں تشنہ ہیں؟

                ۲-            گذشتہ ۵۰برس میں ایسی کون سی علمی ترقیاں ہوئی ہیں، جن کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے اور تحریکی لٹریچر اس پہلو سے ناکافی ہے؟

                ۳-            دنیا میں سماجی، سیاسی و دیگر تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ کون سے نئے مسائل اور سوالات پیدا ہوئے ہیں جن کے حوالے سے تحریکی لٹریچر میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے؟

                ۴-            کن اُمور میں ہمارے موقف پر اب نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟

                ۵-            تحریکی لٹریچر کو عصری تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اور اس ذیل میں عملی پروگرام کیا ہوسکتا ہے؟

سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ (۱۰۷۷ئ-۱۱۶۶ئ) اللہ کی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں۔ خواہش تھی کہ اللہ کے اس برگزیدہ بندے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میں جامع معلومات حاصل ہوں۔ بدقسمتی سے ان کے بارے میں ملنے والی کتب اور ہمارے معاشرے میں ان کے کروائے جانے والے تعارف نے ان کی اصل شان دار شخصیت ہم سے چھین لی ہے۔ صرف وہی نہیں عالم اسلام اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کی اکثر بزرگ ہستیوں کو بے بنیاد اختلافات و خرافات کی نذر کردیا گیا ہے۔ بعض پیشہ ور، ان کا نام اپنی اور اپنی نسلوں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان کی حقیقی تعلیمات کو ہندوانہ رسوم و رواج سے مشابہ چند بدعات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔  اللہ بھلا کرے عراق کے ایک معروف سکالر ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی کا انھوں نے اپنی کتاب: ھَکَذَا  ظَہَرَ جِیْلُ صَلَاحِ الدِّین (سلطان صلاح الدین ایوبی کی نسل یوں تیار ہوئی) میں حضرت عبدالقادر جیلانی.ؒ کا اصل تعارف کروادیا۔ کتاب کا عنوان دیکھیں تو دونوں شخصیات میں بظاہر کوئی ربط و تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء -۱۱۹۳ئ) ایک سپہ سالار اور حکمران تھے، جب کہ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ ایک عالم باعمل، عظیم مصلح، مربی اور فقیہ تھے۔ دونوں کا باہم کوئی براہِ راست رابطہ معلوم نہیں ہوسکا۔لیکن دونوں عظیم شخصیتوں نے بچپن ہی سے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سچی محبت دل میں بسائی کہ دونوں سراپا اخلاص و عمل بن گئے۔

الشیخ عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میںخود ان کی اپنی مایہ ناز تصنیفات اور ان کے بارے میں لکھی جانے والی بے شمار کتب اور مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ اُردن کے ڈاکٹر سعود ابو محفوظ اور  لیبیا کے ڈاکٹر علی صلابی کی کتب سے بھی بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ ان کے بارے میں سب سے   پہلی حیرت یہ جان کر ہوئی کہ وہ نہ صرف حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ ان کا شمار فقہ حنبلی کے نمایاں ترین علماے کرام میں ہوتا تھا۔ اپنے اس عظیم علمی مقام کے ساتھ ساتھ انھوںنے معاشرے میں پھیلی معاشرتی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی تصوف کو زندہ کیا۔ فقہ و تصوف کا یہی حسین امتزاج بالآخر انھیں دوجہاں میں رتبۂ بلند عطا کرنے کا سبب بنا۔ ان کے اس اعلیٰ علمی و اصلاحی مقام کا تقریباً ہر منصف مؤرخ نے انتہائی شان دار الفاظ میںذکر کیا ہے۔

ان میں سے ایک اہم ترین تذکرہ امام ابن تیمیہؒ کے ہاں ملتا ہے، جنھوں نے اپنے فتاویٰ کی جلد آٹھ اور گیارہ میں انھیں شریعت کے احکام و نواہی کی اتباع کرنے میں اس دور میں سب سے آگے بڑھ جانے والا قرار دیا ہے۔

اگر سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان سے پہلے امام غزالیؒ (م: ۱۰۵۸ئ) کے دور کے احوال پڑھیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہم آج ہی کے دور میں جا پہنچے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ انحطاط و فساد کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ ایک طرف تاتاریوں اور صلیبیوں کی یلغار اور دوسری طرف طوائف الملوکی، قتل و غارت، اخلاقی تباہی، علم اور علما کی زبوں حالی، ہر طرف اور ہر نوع کی شہوتوں کی غلامی، غرض ہر وہ لعنت و آزمایش جو آج مسلم اُمت کو درپیش ہے، اس دور میں عروج پر تھی۔ سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ جو امام غزالی ؒکے علم و فکر اور تجربات و احوال کا قریب سے مشاہدہ کررہے تھے، اس دوران تحصیل علم کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے حکمرانوں، علماے کرام، طلبہ و نوجوانوں، تجّار و عُمال ،ہر طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے ان پر ان کے اعمال کی حقیقت واضح کی۔ ان کی اصلاح کے لیے اپنا ایک مدرسہ و مرکز قائم کیا۔ جہاں تعلیم و تعلم کے علاوہ لوگوں کو مختلف اصلاحی تربیت گاہوں سے بھی گزارا جاتا۔

۵۰ برس کی عمر میں ان کا چرچا نمایاں طور پر عام ہوچکا تھا۔ فقہ حنبلی کے چوٹی کے عالم دین اور سیّد عبد القادر جیلانی ؒکے استاذ ابو سعید المخرمیؒ کا انتقال ہونے پر سب نے ان سے بغداد کے ایک علاقے ’ازج‘ میں واقع ان کے مدرسے کو اپنا مرکز بنانے کی درخواست کی۔ انھوں نے نہ صرف درخواست قبول کی بلکہ اس مدرسے کی توسیع و تعمیرِ نو کا بِیڑا اُٹھایا۔ ۱۱۳۳ء میں مدرسے کی تعمیر مکمل ہوئی تو پھر وفات تک، یعنی ۳۳ برس یہی مدرسہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بنارہا۔

آپ اس کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں جاتے، لیکن مرکز اصلاح و تربیت یہی مدرسہ ٹھیرا، جہاں ۱۳ علوم میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی لیکن علم الکلام اور فلسفے کی بے فائدہ بحثیں خارج از نصاب قرار دے دی گئی تھیں۔ ان کی جگہ انھوں نے سات اسلامی اقدار ہر طالب علم کے قلب و نگاہ میں راسخ کرنے کا اہتمام کیا۔ یہ سات بنیادی نکات تھے: (۱) توحید(۲) قضا و قدر کا صحیح مفہوم (۳)حقیقت ایمان(۴) امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور اولی الامر کا حقیقی مفہوم (۵) حقیقت دنیا و آخرت (۶) مقام نبوت و انبیا (۷) حقیقت زہد۔ یہ ارکان تربیت کوئی مجرد نصابی سرگرمی نہیں بلکہ تمام متعلقین کو ان کا عملی پابند بنایا جاتا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے پورے عالم تصوف کو اس کی کمزوریوں اور خامیوں سے پاک کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ بالخصوص ۱۱۵۱ء سے ۱۱۵۵ء تک کے چار سالہ عرصے میں انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہاے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال، اوتاد اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں۔ اس مدرسہ قادریہ میں مختلف علاقوں سے آنے والے طلبہ فیض یاب ہوئے لیکن ان علاقوں سے کہ جن پر دشمن قابض ہوچکے تھے آنے والے طلبہ کو خصوصی طور پر تربیت دے کر اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جاتا۔ ان طلبہ میں سے بھی بالخصوص بیت المقدس سے آنے والے طلبہ کو اہمیت دی جاتی۔ یہ طلبہ ’مقادسہ‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔

سیّد عبدالقادر جیلانی ؒکی ان تمام سرگرمیوں میں بظاہر اس دور کے بڑے بیرونی خطرات سے کوئی تعارض دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن وہ اس امر پر یکسو تھے کہ افراد و معاشرے کی اصلاح کے بغیر کسی بڑے خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شخصیت و مقام کا مطالعہ کرنے والے تمام مؤرخ یہ نتیجہ اخذ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین ایوبی کی پشت پر اصلاحِ معاشرہ کی   یہ پوری تحریک اصلاحِ معاشرہ نہ ہوتی تو وہ کبھی بیت المقدس آزاد نہیں کرواسکتے تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اور مجاہدین کو جس عظیم الشان انداز سے تیار کیا، اس میں ان کی ایمانی و اخلاقی تربیت بنیاد و ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہاں ہمیں امام غزالی، سیّد عبدالقادر جیلانی، نور الدین محمود زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسی چار عظیم شخصیات کی جدوجہد ایک سنگم پر یکجا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں سپہ سالاروں نے ان دونوں جلیل القدر ہستیوں اور ان کے مخلص شاگردوں کے اثرات و خدمات سے بھرپور استفادہ کیا۔ فقہ حنبلی کی معروف کتاب المُغْنِي کے مؤلف ،موقف الدین ابن قدامہ ہوں یا اپنے زمانے کے معروف مدرس اور واعظ ’ابن نجا‘ دونوں حضرات سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے خصوصی شاگرد تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انھیں اپنا خصوصی مشیر بنایا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کی طرح   انھوں نے اپنے دور کے تمام دیگر علماے ربانی کی خدمات حاصل کیں۔ قوم کو معصیتوں بھری زندگی سے نکال باہر لانے اور اس میں روح جہاد پھونکنے کا اصل فریضہ انھی مبارک ہستیوں کے ذریعے تکمیل تک پہنچا۔ سلطان صلاح الدین اس حقیقت کا برملا اظہار کیا کرتے تھے کہ ’’میں نے بیت المقدس کو اپنی تلوار سے نہیں ان علماے کرام کے علم و فضل اور رہنمائی کے ذریعے آزاد کروایا ہے‘‘۔

  •  دعوت و تحریکِ اصلاح کے اھم پھلو: ان مبارک نفوس کے علم و عمل، اصلاح و تربیت اور جہاد و قربانیوں کا احاطہ کرنے کے لیے یقینا کئی ضخیم کتب درکار ہیں۔ وہ یقینا خود بھی سرخرو ہوگئے اور اپنی قوم و معاشروں کے لیے بھی نجات دہندہ قرار پائے۔ لیکن جن خرافات و باطل نظریات کے خلاف انھوں نے اصل جہاد کیا تھا ہم نے خود ان کی دعوت و تحریک اصلاح کو بھی انھی مہلک موروثی امراض کا شکار کردیا ہے۔ ان مبارک ہستیوں کی تحریک و خدمات کا جائزہ لیں تو ہمارے لیے یہ واضح رہنمائی سامنے آتی ہے:

             o            اصلاح و نجات کی اسلامی تحریکیں بعض اوقات کئی نسلوں تک جاری رہنے کے بعد فتح و نصرت کی منزل حاصل کرتی ہیں۔ پروردگار مختلف ادوار میں مختلف افراد سے مختلف کام لے رہا ہوتا ہے لیکن عملاً وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے اور قافلے کو فتح و کامیابی کی جانب آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔

                o            اصلاحِ اقوام کے لیے اصلاحِ افراد بے حد ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ فاسق افراد   مل کر کوئی صالح قوم تشکیل دے دیں۔ ارشاد ربانی کے مطابق:  اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد۱۳:۱۱) ’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا  جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔

                o            اصلاحِ افراد و معاشرہ کے لیے وہی اصول اپنانا ہوں گے جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنائے۔ امام غزالیؒ اور سیّد عبدالقادرجیلانی.ؒ نے سب سے زیادہ زور توحید خالص کو اپنانے اور شرک، جھوٹ، منافقت اور بدعنوانی و خیانت چھوڑنے پر دی۔ جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سے بچپن ہی میں سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے سامنے ڈاکوؤں اور ان کے سردار کی توبہ کا واقعہ معروف ہے۔

                o            روحانیت اور تمام تر شرک و شوائب سے پاک راہِ تصوف، توحید و جہاد اور اقامتِ دین کی نفی نہیں، اس کی تکمیل کرتی ہے۔ آج کے دور میں بھی دیکھیں تو الاخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا نے اس کا خصوصی اہتمام کیا۔

                o            ان ہستیوں نے فروعی اختلافات اور علم الکلام کی مختلف بحثوں یا لفظی موشگافیوں میں اُلجھ یا اُلجھا کر معاشرے میں تقسیم و نفرت کی آگ نہیں بھڑکائی۔ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ نے ایسے  علماے کرام کو کہ جو دین کو دکانوں کا درجہ دیے بیٹھے تھے اور سلاطین کو خوش کرنے کے لیے فتویٰ فروشی کے مرتکب ہوتے تھے، راہِ شریعت کھوٹی کرنے والے ڈاکو قرار دے کر بے نقاب کیا۔

                o            تبدیلی اس وقت آتی ہے جب محدود و مخصوص افراد کے بجاے معاشرے کے تمام افراد کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔ صلاح الدین ایوبی نے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان کے دیگر حنبلی علما و فقہا کے علاوہ شافعی علما کی نمایاں تعداد بھی ساتھ ملائی۔ سب نے مل کر اصلاح و جہاد کا فریضہ سرانجام دیا۔ البتہ جہاں مختلف باطنی تحریکوں سے واسطہ پڑا چاروں شخصیات امام غزالیؒ و سیّد عبدالقادر جیلانی ؒاور نورالدین زنگی و صلاح الدین ایوبی نے ان کی مکمل سرکوبی کی۔

پروردگار ہمیں بھی اپنے ان محبوب بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے اور دوجہاں کی سرخروئی عطا فرمائے، آمین!

ایران اور النصرۃ فرنٹ کے درمیان لبنان سے متصل شام کے ضلع الزبدانی کے مستقبل کے بارے میں استنبول میں ہونے والی بات چیت سے کئی غورطلب پہلو سامنے آئے:

۱- یہ معاملہ ایران کے ساتھ آسٹریا میں ۵+۱ کے ’معاہدئہ وی آنا‘ پر دستخط کے فوراً بعد ہوا ہے۔ جس کے بعض خفیہ پہلو بھی ہیں جن کا اعلان تو نہیں ہوا مگر ان پر عمل شروع ہوچکا ہے۔

۲- یہ عمل ضلع الزبدانی کے علاقے سے سُنّی مسلم آبادی کے انخلا اور ان کی جگہ شیعہ آبادی کو بسانے سے شروع ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کا جز ہوگا۔ یہ ریاست بحرروم کے مشرقی دھانے پر ہوگی اور جو لازقیہ سے شروع ہو کر الزبدانی پر سے گزرتی ہوئی لبنان کے شیعی اکثریتی علاقے البقاع تک جائے گی۔

۳- ترکی کا کرد علاقے میں PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر اچانک ہلّہ بول دینا ،  جس کی کامیابی کے لیے ترکی نے کوبانی تک عراقی کردوں کو پہنچایا، تاکہ داعش کو کوبانی سے نکالا جاسکے۔ ترکی کے موقف میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ صدر طیب اردگان کو احساس ہوگیا کہ  عراقی کردستان کے ساتھ اب ترکی کردستان بھی بنے گا، جس میں صرف ایرانی کردستان کو شامل کرنا باقی رہے گا۔ اس طرح ایک آزاد کرد ریاست وجود میں آجانے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ عراق میں ’فضائی سروس کی ممانعت‘ (نوفلائی زون) کا علاقہ، عراقی کردستان کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے، کیوںکہ امریکا اس کو اپنی مدد کے ذریعے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح شیعہ ریاست کی حدود وسیع تر کرکے عراقی سُنّی ریاست سے جوڑ ا جانا پیش نظر ہے۔یہ امریکی وزیرخارجہ   کونڈا لیزارائس کے منصوبے میں ایک اہم پیش رفت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد، اس وقت اپنا منصوبہ بنا رہی تھیں جب بش انتظامیہ ایران سے بات چیت شروع کر رہی تھی۔

۴- عراقی کردستان بننے کا مطلب جنوبی عراق کی شیعہ آبادی اور علاقے میں ایک اور شیعہ ریاست وجود میں لانا پیش نظر ہے اور عراقی کرد اور عراقی شیعہ آبادی کے درمیان ایک سُنّی ریاست وجود میں لانے کا منصوبہ ہے۔

۵- نئی شیعہ ریاست جنوب میں کویت، الخبر، الدمام اور ظہران کے تیل کے ذخائر والے علاقوں اور بحرین اور شاید قطر پر بھی بنانا پیش نظر ہے۔

انھوں نے ایران کو خلیج کے مشرقی دہانے سے اُٹھا کر خلیج کے مغربی دھانے سلفی عرب تک پہنچا دیا ہے۔ غالباً یہ ایرانی کردستان کا خراج ہو، مگر یہ عربوں کے پہلو میں ایک زہریلا کانٹا ہوگا جس کو استعماری طاقتیں عرب ایران تعلقات کو کشیدہ بنانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہیں گی۔ یہ استعماری طاقتوں کا پرانا حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشیدگی پیدا کرکے اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایران اور عربوں کو اس طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

۶- وہابستان کے نام سے امریکا ایک نئی ریاست بنانے میں دل چسپی ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شاید پٹرول، کپاس اور ساحلِ سمندر سے محروم ہوگی۔

۷- گذشتہ کچھ عرصہ امریکا نے یمن کو متحد رکھا تھا مگر جدید نقشے کے مطابق نہ صرف امریکا، برطانیہ حوثیوں اور علی صالح کو عبدربہ ھادی کے برابر کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ بھی امریکا، برطانیہ اور حوثیوں کے ساتھ علی الاعلان ہوگئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کویت یا عمان میں منعقد ہونے والی بات چیت میں دائمی جنگ بندی کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اس کا اصل مقصد شمالی یمن میں زیدی ریاست کا قیام تو نہیں ہے؟ یہ اندیشہ لفظ ’دائمی جنگ بندی‘ سے پیدا ہو رہا ہے، جس کا مطلب بات چیت کو طول دینا اور وقتی سرحدوں کو دائمی سرحدوں میں بدلنا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور ۵+۱ نے مل جل کر نہ صرف نقشے پر اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس کو نافذ کرکے اس کے سیاسی، بین الاقوامی ماحول کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، روس اور چین کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔

باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل راز جو ساڑھے بارہ برس پر محیط اس بات چیت میں چھپا ہوا تھا، جو ایران اور ۵+۱ کے درمیان ہوتی رہی۔ عالمِ اسلام میں شاید اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو کہ اسرائیل اب اُردن کے ساتھ اپنی حدود کو آخری حدود تسلیم کرنے پرراضی ہوگیا ہے۔ گویا اب نیل سے فرات تک اسرائیل کا خواب انتہاپسند نیتن یاہو کے ہاتھوں دفن کیا جا رہاہے جیساکہ نیل سے شروع ہونے والے اسرائیل کو انتہاپسند مناحیم بیگن اور انتہاپسند گولڈامایئر نے دفن کیا تھا۔

یہ اعلان نیتن یاہو کے ہاتھوں اُردن کی سرحد سے لے کر ۲۹کلومیٹر طویل دیوار بنانے کے اعلان میں پوشیدہ ہے۔ یہ سب جمہوری ملک ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور ارادے کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ بحث مباحثہ کئی کئی برس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ داخلی اور خارجی پالیسی کا جزو بن جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔

 عالمِ اسلام چونکہتعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، پھر سطحیت اور آسان کوشی اس امر کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔غیراخلاقی، غیرقانونی ریاست اسرائیل کا وجود ’کھلی‘ اور ’علی الاعلان‘ سازش کا نتیجہ ہے۔ شرقِ اوسط کی تقسیم سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کے منصوبے کے تحت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ’شرقِ اوسط جدید‘ کی اصطلاح اسی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران، جو تل ابیب میں جون ۲۰۰۶ء میں منعقد ہوئی استعمال کی تھی۔ پھر  نومبر ۲۰۰۶ء میں گلوبل ریسرچ میں یہ تذکرہ شائع ہوا۔ اس میں ’جدید شرقِ اوسط‘ کا نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا۔

اسی موضوع پر ایک تبصرہ رابن رائٹ کا نیویارک کے سنڈے ریویو میں ۲۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو  شائع ہوا۔اس میں ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں پانچ عرب ملکوں کو ۱۴ بنا دیا گیا ہے۔ مگر  اس میں یمن کو دو حصوں میں ،جب کہ سعودی عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے۔

امریکی حکومت کے منصوبہ ساز اس سُنّی ریاست کو شامی کردستان اور مجوزہ شامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح یمن زیدی اور شافعی یمنیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مارب میں سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری فوجیں جمع ہیں مگر حرکت پذیر نہیں ہیں، جب کہ   لحج کے سرحدی شہر کرش تک سعودی اتحاد کی فوجیں پہنچ کر رُک گئی ہیں اور تعز کو حوثی اور علی عبداللہ صالح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی عرب مقتدر حلقوں کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی پر اعتراف کیاجا رہا ہے کہ: ’’اسرائیل نے غزہ اور اُردن کے مغربی دہانے میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ یہ مغالطہ آرائی بھی اسی بڑے منصوبے کے لیے ذہنوں کو تیار کرنے کا پروپیگنڈا ہے۔ سازش کا رنگ بھرنے کے لیے یہ نقشہ طویل وقت چاہتا ہے، مگر ہوا کا رُخ یہی ہے۔ مستقبل کے امریکی نقشوں میں اسرائیل کی موجودہ حدودبتائی گئی ہیں۔ امریکی آقائوں کے اس فیصلے یا سوچ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں برابر کے شریک ہیں۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا کی سیاسی، فوجی، فکری، تعلیمی، مذہبی اور ابلاغیاتی قیادت، امریکی سامراجیوں کی مرضی و منشا کو پورا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے، یا دُوراندیشی اور سمجھ داری سے اس سازش کے تار و پود بکھیرنا چاہتی ہے؟

پاکستان بجا طور پر اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، جس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ ان میں خاص طور پر نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل آبادی بھی ہے۔ راے عامہ کے جائزوں اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا حصہ ۶۲فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان ۲۰۴۵ء تک ’ینگستان‘ یا ’جوانستان‘ رہے گا۔

نوجوانوں پر مشتمل آبادی، جہاں پاکستان کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، وہیں ایک چیلنج بھی۔ امکانات پر مشتمل مستقبل بھی سامنے ہے اور فکرمندی کے کئی پہلو بھی۔ اصل چیلنج نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کو پاکستان اور اسلام کے ساتھ جوڑے رکھنا ہے۔ پس ماندگی، کم علمی، مایوسی، بے روزگاری،  بے عملی، دین سے دُوری، دہشت گردی، بے سمت زندگی اور کسی نظریاتی تحریک کا نچلی سطح پر رہنمائی اور مشاورت کا مضبوط و وسیع نیٹ ورک نہ ہونا ہر دردمند دل کو پریشان کیے ہوئے ہے۔

پاکستان کے نوجوان، مغرب کا خاص ہدف ہیں۔ مغربی ادارے، این جی اوز اور سفارت خانے ان نوجوانوں کے بارے میں مسلسل تحقیق اور جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح آبادی کا یہ حصہ ’سیکولر‘ (بے دین یا دین سے لاپروا) اور ’لبرل‘ یعنی اخلاق و اقدار سے آزاد اور مادر پدر آزادی کا خوگر ہوجائے۔ پھر مزید آگے بڑھ کر مغربی تہذیب کے ایجنڈے کے اپنے معاشرے میں نفاذ کے عمل میں شامل ہوجائے۔ اس کام کے لیے کچھ اندازوں کے مطابق اربوں روپے سے ’کوششوں‘ کا آغاز ہوچکا ہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی اس ’ذہنی تطہیر‘ کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں یو-ایس ایڈ، برٹش کونسل، جرمن، یورپی یونین، فرانس اور اٹلی کے ادارے خاص طور پر نمایاں ہیں۔ یہ ادارے جان دار منصوبہ بندی، کارگر حکمت عملی، دیرپا اور تسلسل سے کام اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔یہ عموماً غیر سیاسی اور غیر مذہبی لبادہ اُوڑھ لیتے ہیں۔ معاشرتی سدھار اور علاج معالجے میں مدد کی فراہمی کا بینر تھام لیتے ہیں۔

برٹش کونسل کا مطالعہ اور نتائج

ان منصوبوں پر کام کرنے والوں میں ’برٹش کونسل‘ بھی شامل ہے، جس نے ۲۰۰۹ء میں پاکستان کے نوجوانوں کے حالات جانچنے کے لیے ایک سروے کروایا تھا۔ اُس سروے کے نتائج سے پاکستانی نوجوانوں کے بارے میں درج ذیل نکات واضح طور پر سامنے آئے ہیں:

                ۱-            پاکستان کے نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں،

                ۲-            وہ اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں،

                ۳-            وہ آگے بڑھنا اور کچھ کرنا تو چاہتے ہیں، مگر انھیں رہنمائی کرنے والے نہیں ملتے،

                ۴-            وہ مختلف مہارتیں (skills) سیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن رہنمائی اور مناسب تربیت کے لیے ادارے موجود نہیں،

                ۵-            وہ اپنی شخصی تربیت اور اچھی نشوونما سے دل چسپی رکھتے ہیں،

                ۶-            وہ معاشرے کی بہبود (بھلائی اور رفاہِ عام) پر یقین رکھتے ہیں۔

ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے برٹش کونسل نے پاکستان بھر سے ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل مختلف کمیٹیاں بنائیں اور اُن سے پاکستانی نوجوانوں میں اثرونفوذ کے لیے تجاویز طلب کیں۔ اُن ماہرین کی تجاویز پر برٹش کونسل نے ایک پروگرام ترتیب دیا، جس کا ایک بے ضرر اور بھلا سا نام ’فعال شہری‘ (Active Citizen) پروگرام رکھا۔ یہ پروگرام عام نوجوانوں کے لیے اکتوبر ۲۰۱۴ء سے جاری ہوچکا ہے۔ اِس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نوجوان کو خوب صورت انداز میں ان کی ’شخصی ترقی‘ (پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ) کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور آخرکار انھیں سیکولر بنا دیتا ہے۔ تقریباً ۸۰ہزار سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملک کے ہرعلاقے سے اس پروگرام میں اب تک شرکت کرچکے ہیں۔

برٹش کونسل ’فعال شہری‘ پروگرام کو پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی اور سیکولر ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ مل کر آگے بڑھا رہی ہے۔ اِن این جی اوز کی اکثریت، غیرملکی کثیر عطیات کے ذریعے نوجوانوں میں اپنی اقدار سے بے پروائی، مخلوط ماحول کی پسندیدگی، حیاوحجاب سے دُوری اور دین بیزاری پیدا کر رہی ہیں۔

برٹش کونسل نے یہ پروگرام دنیا بھر میں اُن ممالک میں شروع کیا ہے، جہاں وہ امریکا کے ساتھ مل کر ذہنی و معاشرتی تبدیلی، عسکری و اقتصادی مفادات کے حصول اور مغربی تہذیب کے فروغ اور آبیاری کا مشترکہ ایجنڈا رکھتی ہے۔ اِس پروگرام میں شامل ممالک میں تنزانیہ، سری لنکا، یوکرین، ترکی، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور مصر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ’نوجوان آبادی‘ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہ منصوبہ طویل المیعاد بھی ہے اور وسیع الاطراف بھی۔ اس کے اثرات اِن معاشروں پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔ کہیں زیادہ، کہیں کم۔

عام نوجوانوں میں ’فعال شہری‘ پروگرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے برٹش کونسل نے سال ۲۰۱۲ء میں اسے پاکستان کی دو جامعات میں ایک پائلٹ (آزمایشی) پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا۔ یہ دو یونی ورسٹیاں ، کراچی کی ’بحریہ یونی ورسٹی‘ اور لاہور کی ’لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی‘ تھیں۔

برٹش کونسل اور ھائر ایجوکیشن کمیشن

برٹش کونسل کے مطابق یہ پروگرام ان دونوں یونی ورسٹیوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے برٹش کونسل نے ’فعال شہری‘ پروگرام کو پاکستان کی تمام جامعات میں بطور لازمی کورس پڑھانے کے لیے پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو شیشے میں اُتارا۔ ہمارے ملک کی بدنصیبی کہ ایچ ای سی نے اس پروگرام کے مواد، نتائج اور پاکستانی طلبہ پر اس کے ممکنہ اثرات سے بے نیازی برتتے ہوئے (یا پھر گورے کی عنایت سمجھتے ہوئے) ان سفارشات کو منظور کرلیا۔ اب یہ پروگرام برٹش کونسل ، ایچ ای سی کے ساتھ مل کر پاکستان کی تمام جامعات میں بطور کورس پڑھوائے گی۔ ایچ ای سی کی عاقبت نااندیش انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے، پاکستان کے لاکھوں طلبہ و طالبات اور ہزاروں اساتذہ کا طرزِفکر اور معیارِ ردّ و قبول تبدیلی کے دوراہے پر آن کھڑا ہوگا۔ جس میں مطلوب یہ ہے کہ دنیا کو اُس رنگین عینک سے دیکھنے کا خوگر بنایاجائے جو چشمہ اُن کی آنکھوں پر لگایا جانے والا ہے ، بلکہ لگایا جا رہا ہے۔

ذرا ہاتھ کی صفائی دیکھیے کہ ’فعال شہری‘ کے ظاہری مقاصد کتنے پُرکشش ہیں:

                ۱-            نوجوانوں کو مثبت، مفید اور متحرک شہری بنانا۔

                ۲-            طلبہ میں ایسی بیداری پیدا کرنا کہ وہ خود کو ہیجانی یا اشتعالی یا جذباتی کیفیات سے نکال کر اپنے مسائل خود حل کرسکیں۔

                ۳-            دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے افراد کے ساتھ رہنے کے لیے اپنے اندر برداشت و رواداری پیدا کرسکیں۔

                ۴-            آگے بڑھ کر اپنی برادری (کمیونٹی) کے سماجی مسائل کو حل کرسکیں۔

مگر اس پروگرام پر گہری نگاہ ڈالنے والے اس کے چھپے ہوئے اہداف تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں۔

اھداف

                ۱-            غیرملکی این جی اوز اور سفارت خانے یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ وہ ہمارے تعلیمی نصاب میں کوئی بڑی تبدیلی بیک وقت نہیں کرا سکتے۔ نصابِ تعلیم تبدیل کرا کے اسے سیکولر بنانے کے اُن کے بیش تر حربے ، محب وطن اور اسلام پسند حلقوں کی شدید تنقید اور مزاحمت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپائے۔ اب انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں تبدیلیوں کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ اپنا ایک مخصوص کورس، تعلیمی اداروں، جامعات اور بالخصوص ٹیچرز ٹریننگ اور تعلیمی و تدریسی افرادی قوت پیدا کرنے والے شعبوں میں پڑھائیں گے۔ ’فعال شہری‘ پروگرام اس سلسلے کی پہلی کوشش ہے جو شروع کی جاچکی ہے۔

                ۲-            برٹش کونسل کا ہدف ہے کہ: ’پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ کی سرپرستی میں اگلے پانچ برسوں میں جامعات میں پڑھنے والے تمام طلبہ و طالبات کو ’فعال شہری‘ پروگرام سے گزاریں۔

                ۳-            اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں جامعات کے ہزاروں اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے، جو آگے چل کر طلبہ کو یہ کورس پڑھائیں گے۔ جامعات کے اساتذہ اُن کا خاص ہدف ہیں۔ انھیں ٹریننگ ورکشاپس کے ذریعے اس تربیتی عمل سے گزارا جارہا ہے۔

یہ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ اپنے طے شدہ نصاب سے ہٹ کر غیرملکی ایجنڈے کے مطابق تیار کردہ ایک نصاب بھی جامعات میں پڑھایا جائے گا۔

ذھنی تشکیل کے بنیادی نکات

’فعال شہری‘ پروگرام پر نظر ڈالنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں دراصل درج ذیل سوچ و فکر بلکہ طرزِ فکر کو پروان چڑھانا مقصود ہے:

                ۱-            آپ کا مسلمان ہونا ثقافت (کلچر) کی وجہ سے ہے اور ثقافت تبدیل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا، مسلم شناخت کوئی مستقل چیز نہیں، یہ تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ مذہب بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ گویا اقدار، نظریات، شناخت اور ثقافت قابلِ تغیر ہیں، کوئی مستقل شے نہیں۔

                ۲-            آپ کی سوچ اور فکر بنانے میں ثقافت کا بڑا حصہ ہے۔ اگر ثقافت تبدیل ہوگی تو سوچ و فکر بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ یعنی آپ کو اگر سیکولر ملک جانا پڑے تو آپ کا سیکولر بننا کوئی عیب نہیں، بلکہ بن جانا ہی بہتر ہے۔

                ۳-            جن افکار و اقدار پر مسلم نوجوانوں کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اُن کے بارے میں شکوک یا عدم یکسوئی پیدا کرنا، تاکہ لوگ سوچیں کہ مسلمان بننا ثقافت کی ضرورت تھی یا محض ایک پیدایشی اتفاق تھا۔ یہ میری اپنی راے، پسند اور انتخاب نہیں۔

                ۴-            دوسروں کے مذاہب تبدیل کرانا ٹھیک نہیں۔ اُنھیں اُسی طرح قبول کریں جیسے وہ ہیں (یعنی مسلمان ’دعوتی‘ کام کرکے دوسروں کی شخصیت کو نہ بگاڑیں)۔ دوسروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اُن سے ہم آہنگ ہونے کے لیے خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی جانب سے ایک طرف تو یہ تربیت اور ذہن سازی ہے، جب کہ دوسری طرف یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان میں دوسرے مذاہب کو تبلیغ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ تبلیغ کرنا ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔

                ۵-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنا کہ پاکستان بیک وقت اسلامی اور جمہوری ملک نہیں رہ سکتا کیوںکہ ’اسلامی‘ غیرواضح بھی ہے اور متنازع بھی۔ پھر یہ کہ اسلام میں جمہوریت کہاں ہے؟ (یہی بات مخالف کیمپ کے بعض لوگوں سے بھی کہلوائی جارہی ہے)۔

                ۶-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال ڈال دیا جائے کہ مذہبی لوگ آپ کے فیصلے کیوں کرتے ہیں؟ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ دوسروں کے معاملات میں حتمی اور دوٹوک فیصلہ دے۔

                ۷-            نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ نہ شادی ضروری ہے اور نہ شادی کے لیے مخالف صنف سے بندھن ضروری ہے، بلکہ ہم جنسی بھی ایک معمول کا سماجی عمل ہے، جس سے بدکنا دقیانوسیت ہے۔

                ۸-            موسیقی، ناچ گانا، مخلوط ماحول، آزادانہ دوستی وغیرہ کے بارے میں پسندیدگی بڑھائی جائے اور ان کا چلن عام کردیا جائے۔

                ۹-            عورت اور مرد میں جنس کے علاوہ کوئی فرق نہیں اور یہ جنسی فرق بھی بے معنی ہے۔

                ۱۰-         آپ کی زندگی کے فیصلے مذہب، رواج، اخلاق کی بنیاد پر کیوں کیے جاتے ہیں؟ پڑھا لکھا اور روشن خیال ثابت ہونے کے لیے اس روایت اور سوچ سے بغاوت ضروری ہے۔

پہلے مرحلے میں یہ پروگرام طلبہ و طالبات کو اُلجھن کا شکار اور اپنے مذہب و ثقافت اور اقدار کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بہت نرم روی سے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ: ’’وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کم تر ہیں۔ انھیں ایک ایسا فرد ہونا چاہیے جو ہر معاشرے میں قابلِ قبول ہو، ہرمعاشرے میں چل سکے، جس کی کوئی مستقل شناخت نہ ہو، مستقل اقدار نہ ہوں۔ ایک سیکولر طرزِ فکر اور ایک مادرپدر آزاد (لبرل) طرزِ زندگی ہی نوجوانوں کی ضرورت اور ان کے لیے مفید ہے۔

اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام باتیں، سوچ و فکر اور رویے، مختلف سرگرمیوں کے ذریعے سکھائے جاتے ہیں۔ کچھ زیادہ پڑھایا نہیں جاتا۔ طلبہ اور طالبات اس طرزِ زندگی کو مختلف سرگرمیوں کے دوران باقاعدہ برت کر دکھاتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کے لیے صرف سہولت کار ہیں اور یہ کہ طلبہ میں یہ تمام تبدیلیاں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے پیدا کی جائیں۔

سوال : دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘ اور دوسرا یہ کہ ’سب سے بھلی نیکی وہ ہے، جو جلد کرلی جائے‘۔ کیا یہ دونوں مقولے حدیث نبویؐ ہیں؟ اگرہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں صحیح کون سا ہے؟

جواب: پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبویؐ کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:

اَلْأَنَاۃُ مِنَ اللّٰہِ وَالْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ، ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہرقوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیر ٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہر زمانے کے  ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:

فِی التَّأَنِیّ اَلسَّلَامَۃَ وَفِی الْعُجْلَۃِ اَلنِّدَامَۃَ، سوچ بچار کر ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلدبازی میں ندامت ہے۔

ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن، غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو  وقار، بُردباری اور ثابت قدمی سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج اکثر و بیش تر بُرے ہی ہوتے ہیں۔

ایک حدیث نبویؐ ہے:یُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَسْتَعْجِلْ،’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے، اگر وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔

رہا دوسرا مقولہ تو وہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا قول مروی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ: لَا یُتَمَّمُ الْمَعْرُوْفُ اِلَّا بِتَعْجِیْلِہٖ،’’بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلداز جلد کرلیا جائے‘‘۔

اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے:

اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱)   یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو۔

چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔

علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابلِ تعریف اور جلدبازی کو قابلِ مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایا ہے:

۱- پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو، اگر اطاعت ِ الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتا ہے، تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا، نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی تھی کہ:  ’’اے علیؓ! تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔ نماز جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے‘‘۔

مشہور عالمِ دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپؒ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو حضرت موسٰی ؑ کبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ:وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب، میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہوجائے‘‘۔

۲-  وہ جلدبازی قابلِ مذمت ہے ، جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کرلینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سُستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)  اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔

۳- ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کردے کہ مقصد ہی     فوت ہوجائے یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے ۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی،  ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، اوّل، ص۵۵-۶۰، دسمبر ۱۹۹۸ئ)

انفاق فی سبیل اللہ کے باوجود تنگ دستی کیوں؟

س : ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے ایسے افراد ملیں گے، جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

ج:آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دوفرشے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔

اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا ۳۴:۳۹) ’’جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔

سوال کرنے والے کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے، وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا ہے، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تن درستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال و دولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے، جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض دولت کے چند نوٹوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں: ’’ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) ’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی،  اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔

اسی طرح ’بربادی‘ کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے، جو ہزار نعمت کے باوجود مستقلاً اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔( ایضاً، ص ۵۷-۵۹)

اَلْوَلَاء وَلْبَرَاء فِی الْاِسْلَام  [اسلام میں دوستی اور دشمنی کا تصور]۔ تالیف: محمد بن سعید القحطانی ، ترجمہ: ابو احمد فرحان الٰہی۔ ناشر: تحریک تعمیر ملت،بی-۴۸، غلہ منڈی، بہاول پور ۔

شیخ محمد سعید القحطانی کی یہ تالیف ایسے زمانے میں منظر عام پر آئی ہے ،جب مسلم دنیا اندرونی اور بیرونی خطرات و خلفشار کا شکار ہے، اور ہر باشعور فرد کے ذہن میں سولات اٹھ رہے ہیں کہ اگر دو مسلمان گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں تو کیا کیا جائے ؟اگر کوئی مسلم ملک کسی ایسے ملک کا حلیف بن جائے جو اسلام دشمنی کے لیے معروف ہے تو اس کا حکم کیا ہو گا؟مسلمان کس کو دوست اور کس کو دشمن تصور کریں،محبت اور نفرت کی بنیاد کیا ہو ؟

فصل اول میں عقیدۂ توحید اور علامہ ابن القیمؒنے کفر کی اقسام سے جو بحث کی ہے، اس کا تذکرہ ہے۔فصل ثانی میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے درمیان فطری عداوت کا بیان ہے ۔فصل ثالث میں اس تقسیم پر اہل سنت کا عقیدہ، اور فصل الرابع میں انبیاے کرام ؑکے  اسوۂ حسنہ کے تناظر میں موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے ۔فصل الخامس اور فصل السادس میں مکہ اور مدینہ کے تناظر میں اللہ کے دوست اور دشمنوں کا تذکرہ ہے ۔بعد کے مضامین میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ ،دارلحرب کے احکام اور پھر دور حاضر میں مسلمانوں کے تعلقات پرگفتگو کی گئی ہے۔ مغربی سازشوں کاتذکرہ ہے اور بعض ان مسلمان مفکرین پر تنقید ہے جنھوںنے مغرب سے مرعوبیت کا اظہار کیا۔ آخر میں امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے باہمی اخوت پر زور دیتے ہوئے  اسلام دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ایک ایسے معاشرے کے قیام پرمتوجہ کیا گیا ہے، جو اسلام کے دورِ اول کی یاد تازہ کرد ے ۔

بعض مقامات پر مفہوم الجھ گیا ہے، مثلاً: ص۵۹ پر خوارج کے حوالے سے درج ہے: ’’اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا:تم انھیں جہاں پائو قتل کر ڈالو۔اگر وہ مجھے مل جائیں تو میں قوم عاد کی طرح ان کو قتل کروں گا‘‘۔ تاریخی طور پر خوارج کا ظہور حضرت علی ؓ کے دور میں ہوا۔اگر حدیث میں اس کا تذکرہ بطور کسی پیش گوئی یا علامت کے  طور پر ہے تو ضروری ہے کہ سیاق وسباق بیان کرنے کے بعد حدیث کے الفاظ نقل کیے جائیں ۔ یہ ایک اہم دعوتی مسئلہ ہے۔ایمان کا تقاضا ہے کہ شرک کے ساتھ مکمل دشمنی اور براء ت کا اظہار ہو، لیکن مشرک کو دائرۂ اسلام میں لانے کے لیے اس سے رابطہ ، تبادلۂ خیال اور اپنے اعلیٰ اخلاقی طرزِعمل سے اسے اسلام سے قریب لانا قرآن و سنت کا مطالبہ ہے۔

مصنف نے اس معاملے میں قدرے عدم توازن کا اظہار کیا ہے ۔ص ۱۶۶ پر کہا گیا ہے: ’’الثالث! جس سے مکمل عداوت وبُغض رکھا جائے گا، یعنی جوشخص جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ،رسولوں اور یوم آخرت کا کفر کرتا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات میں اہل اسلام کے سوا کسی اور راستے پر چلتے ہوئے الحاد کا شکار ہوجائے، یا اہل بدعت اور خواہش پرستوں کے مسلک پر چل پڑے، یا دس نواقضِ اسلام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو ،تو ان تمام صورتوں میں یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج متصور ہو گا ۔اس کے ساتھ من جملہ بُغض رکھنا واجب ہو جائے گاـ‘‘۔

جس قطعیت کے ساتھ کتاب میں بعض موضوعات پر اظہار ِ خیال کیا گیا ہے ،اس پر دعوتی نقطۂ نظر سے نظرثانی کی ضرورت ہے ۔شرک اور بدعت سے نفرت تقاضاے ایمان ہے، لیکن مشرک اور بدعتی کو حکمت و نرمی کے ساتھ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقے اور سنت کو سامنے رکھتے ہوئے دین سے قریب لانا اور ہدایت سے روشناس کرانا ایک فریضہ ہے ۔ فرعون سے زیادہ باغی اور کون ہوسکتا ہے، اس کے پاس حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو بھیجتے وقت جو ہدایت کی گئی وہ جامع دستورِ دعوت ہے :  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا(طٰہٰ ۲۰:۴۴) ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا‘‘۔

عصر حاضر میں دعوت کاا بلاغ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم شرک والحاد سے مکمل بے تعلقی کے ساتھ مشرکین و ملحدین اور گمراہ افراد تک اپنی دعوت قول و عمل کے ساتھ لے کر پہنچیں، اور اپنی حکمت عملی سے انھیں جہنم سے کھینچ کر جنت کی طرف لانے میں کامیاب ہوں۔(ڈاکٹر انیس احمد)


پاکستان میری محبت،ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۵- شاہراہِ پاکستان (لوئر مال)، لاہور۔ صفحات: ۴۶۸۔ قیمت: ۹۹۵روپے۔

ڈاکٹر صفدر محمود دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’پاکستان، قائداعظم، تحریکِ پاکستان، علامہ اقبال اور پاکستان کی تاریخ میری پہلی اور سچی محبتیں ہیں، اور میں زندگی بھر ان محبتوں سے وفا کرنے کی کوششیں کرتا رہا‘‘۔ ۱۴۹مضامین (جن میں سے بعض نسبتاً مختصر ہیں یا کالم) پر مشتمل ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ مجموعہ،ان کی مذکورہ بالا کوششوں کا ثمر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ موضوعات: ’’میرے قلب ِ ذہن کے نہایت قریب‘‘ تھے۔ کتاب کی جملہ تحریروں کو چھے حصوں(قائداعظم، علامہ اقبال، سقوطِ مشرقی پاکستان، مشاہیر، قیامِ پاکستان، متفرقات) میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ قائداعظم پر ۵۱ تحریروں پر مشتمل ہے اور سب سے طویل۔ گذشتہ ماہ انھی صفحات میں ہم نے ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب اقبال، جناح اور پاکستان کا مطالعہ پیش کیا تھا۔ اس کتاب کا بنیادی اور بڑا موضوع بھی قائداعظم علیہ رحمۃ تھے۔ تیسرا حصہ ’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ ۱۵ تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس موضوع پر کئی برس پہلے وہ ایک پوری کتاب (پاکستان کیسے ٹوٹا؟) لکھ چکے ہیں۔ مشاہیر کو انھوں نے ایک پاکستانی اور مسلمان کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ماہر اور زیرک مؤرخ اور دانش ور ہیں، جن کے خلوص اور راست فکری میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنوں کی خوبیوں کے ساتھ ان کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے اور غیروں کی خرابیوں کے ساتھ ان کی خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے، یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلو بڑے مہذب اور معتدل انداز سے پیش کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان مضامین میں آپ کو ’’تحقیق اور غوروفکر کی روشنی بھی ملے گی اور بعض ایسے حقائق کی جھلک بھی، جن کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات کے ساتھ علمی زندگی بسر کی ہے، ان کے بارے میں نئے نکات و حقائق کا انکشاف اُنھیں ہی روا ہے۔ ان مضامین سے خود ڈاکٹر صفدرمحمود کے ذاتی احوال، اور تحقیق و تفتیش کے لیے  افتادِ طبع کا بھی خاصی حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن آبگینے، مرتبہ: روبینہ فرید۔ ملنے کے پتے: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۴۰۰ر وپے

ـاس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج دین کے کارِعظیم سے وابستہ خواتین یہ سبق حاصل کریں کہ جذبے کو جنوں کیسے بنایا جاتا ہے؟ رکاوٹوں کے درمیان راستہ کیسے تلاش کیا جاتا ہے؟ نصب العین کو مقصد بنا کر اوقات کی تقسیم کس طرح کی جاتی ہے ؟

کتاب میں جماعت اسلامی کی ۲۲ خواتین ارکان کے حالات اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایت کے بعد یہ جماعت اسلامی کے نظام تربیت اور اجتماعی ماحول کی برکت ہی سے ممکن ہو سکا، کہ یہ خواتین اس کارِعظیم کے لیے اس لگن کے ساتھ مصروفِ کار رہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ جبیں کے بقول: ’’ اگرچہ وقت کے یہی ۲۴گھنٹے ان خواتین کے پاس بھی تھے، جو ہمارے پاس ہیں لیکن وہ ان کا بہترین استعمال کر کے ہم سب کے لیے رول ماڈل بن گئیں‘‘ ۔ ایک کتاب میں سبھی محسن خواتین کا ذکر نہیں ہوسکتا، اس لیے بہت سے اہم نام رہ بھی گئے ہیں، ان شاء اللہ آیندہ مجموعوں میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آج کی خواتین کارکنوں اور قائدات کو ان اچھے نمونوں پر عمل کرنے اور زندگیاں ان کی طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!  (عارفہ اقبال)

ڈاکٹر محمد ناصر ، پشاور

پروفیسر خورشیداحمد کا مقالہ بہ سلسلہ’دستور اور عدلیہ کا کردار‘ تمام اہلِ وطن کے لیے چشم کشا آئینہ ہے۔ اسی طرح ’مطالعہ کتاب‘ اقبال، جناح اور پاکستان بہت اہم ہے۔ تاہم تبصرے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ کتاب میں اقبال پر سواے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر مضمون کے کچھ میسر نہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ کتاب میں اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کے تحریک ِ پاکستان سے تعلق پر ابتدا ہی میں شافی بحث موجود ہے۔


رانا محمد افضل ، میانوالی

پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے ’قراردادِ مقاصد‘ پر گذشتہ چند ماہ میں نہایت اہم، مدلل مقالات قلم بند کیے ہیں۔ ارکانِ پارلیمنٹ ، سینیٹر حضرات اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ان کا مطالعہ خصوصاً مفید ہوگا۔


قاضی سمیع اللّٰہ ، لاہور

’ہجرت، مشاورت اور اسلامی تحریکات‘ (نومبر ۲۰۱۵ئ) میں ہجرت اور اسلامی تحریکوں کی احیاے اسلام کی جدوجہد کے تسلسل کا عمدگی سے انطباق کیا گیا ہے۔ ہجرت کا سبق اسی جدوجہد میں ہے۔


عبدالجبار بھٹی، پتوکی

’اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان‘ (نومبر ۲۰۱۵ئ) میں مغربی مادیت کے تصور کے مقابلے میں خوش حالی کے اسلامی تصور کو قرآن و سنت سے استدلال کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔تاہم حضرت عدیؓ بن حاتم کی روایت میں سہو ہوگیا۔ ایک شخص نے فاقے کی، جب کہ دوسرے نے ڈاکے کی شکایت کی تھی۔(ص ۱۵)


عبدالرشید عراقی ، گوجرانوالہ

’مصر: جیلوں میں سسکتی انسانیت‘ (اکتوبر ۲۰۱۵ئ) کے مطالعے سے قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ الاخوا ن المسلمون کے کارکنان کے جذبۂ استقامت پر دل سے دُعا نکلتی ہے۔


بینا حسین خالدی ، رحیم یار خان

عالمی ترجمان القرآن اپنی تحریروں کے ذریعے (بذریعہ تذکیر وتعلیم) اشاعت ِ اسلام کا فریضہ بخوبی انجام دے رہا ہے۔


عبدالباسط ، لاہور

ترجمان القرآن تحریک برپا کردینے اور قلوب و اذہان کو مسخر کر کے احیاے اسلام کی مؤثر جدوجہد میں شمولیت کا عملی راستہ دکھانے کا ذریعہ ہے۔ کیا ہم یہ گل دستہ پیش کرنے میں کامیاب ہیں؟


رفیع الدین ہاشمی ،لاہور

ترجمان القرآن الکریم: ترجمانی و مختصر تفہیم (از احمد ابوسعید، حیدرآباد دکن) پر تبصرے (اکتوبر، ۲۰۱۵ئ،پروفیسر عبدالقدیر سلیم) سے معلوم ہوا کہ موصوف نے مولانا مودودی کے اُردو ترجمۂ قرآن کی اصلاح فرمائی ہے، کیوں کہ ان کے خیال میں مولانا مودودی کے ہاں، عبارات ’زیادہ صاف‘ نہیں اور ’تعقید‘ بھی ہے۔ اسی طرح احمدابوسعید صاحب نے ’’بعض جملوں کی ساخت میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی کی ہے‘‘۔

یہ بیان مولانا مودودی کی عبارات میں اصلاح نہیں بلکہ ’تحریف‘ کے ذیل میں آتا ہے۔ اس لیے ابوسعید صاحب کی یہ حرکت نامناسب، ناقابلِ قبول اور بلاجواز ہے۔’اصلاح‘ کا جذبہ قابلِ قدر ہے مگر اس کے لیے کسی متن کو بہتر اور زیادہ قابلِ فہم بنانے کا اصول یہ ہے کہ اصل متن کو برقرار رکھتے ہوئے، حواشی میں متبادل لفظ یا الفاظ یا جملہ تجویز کیا جائے اور وہیں مشکل لفظ کے معنی درج کیے جائیں۔

مولاناخالد سیف اللہ کی کتاب: وہ جو بیچتے تھے دواے دل پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصر نے،   اُن کے اندازِ بیان کا جو نمونہ دیا ہے، وہ فقط لفاظی ہے۔اس حصے سے اقبال کی شخصیت یا ان کی فکر سے تعارف ہوتا ہے، اور نہ کسی طرح معلومات میسر آتی ہیں۔

بے ہودہ گوئی کی ممانعت

[قرآن کریم میں پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کرنے کے ] حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں، کیوںکہ اس سے بے شمار بُرائیاں پھیلتی ہیں، اور اُن میں سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ اس طرح غیرمحسوس طریقے پر ایک عام زناکارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط، گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے، اس میں نمک مرچ لگا کر اورلوگوں تک انھیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی ’معلومات‘ یا بدگمانیاں بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے ، بلکہ بُرے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ، معاشرے میں  کہاں کہاں اُن کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سدّباب پہلے ہی قدم پر کردینا چاہتی ہے۔

ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو، جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے، وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر ۸۰ کوڑے برسا دو تاکہ آیندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلاثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بدکاری کرتے دیکھ لیا ہو، تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے، وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بے ہودہ چرچے کرنے کے بجاے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کرکے اسے سزا دلوا دے۔ (ابوالاعلیٰ مودودی، سورۃ النور، حاشیہ۶، ترجمان القرآن، جلد۴۵،عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ، دسمبر۱۹۵۵ئ، ص۱۷-۱۸)

______________