اخبار اُمت


مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔

اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔

اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔

یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔

یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔

۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔

ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔

دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔

یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔

اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔

آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔

بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔

مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔

تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔

چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔

پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔

۲۳مارچ ۲۰۲۳ء کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں بھارتی وزیر داخلہ امت شا نے ’ماتادا دیوی‘ کے مندر کا افتتاح کیا، کہ آزاد کشمیر سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ’’کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں‘‘۔ امت شا نے کہا کہ ’’یہ سب دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں مذکورہ کوریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ’’اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔

لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو آسان بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سرینگر۔مظفر آباد بس سروس اور پھر ۲۰۰۸ء میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام نے خاصا بہتر محسوس کیا تھا، مگر ۲۰۱۴ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سمت میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئیں تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔ ویسے تو پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے کا طرف دار ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واہگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے، مگر وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کے اطراف میں راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے نہیں دیکھے گئے۔

آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے ۲۲۱کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بودھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے صرف ۱۰کلومیٹر دُور ہے۔

چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کے ایک طبقے کو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور ’’۱۹۴۷ءتک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو یاتری اس علاقے میں آتے تھے۔ دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی لوگ بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَزسرنو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ کہلوانے کا خبط سوار ہے۔

چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب گزیٹئر آف کشمیر اینڈ لداخ مرتب کیا تواُس نے اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعے سے ۴۰۰گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہٰذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ ’’اس علاقے میں ایک عالی شان مندر واقع تھا اور وہاں ۱۹۴۷ءتک جوق در جوق یاتری آتے تھے، ایک لغو بات اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کا قریہ قریہ گھوم کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی، کسی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی میں ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو اَدھورا چھوڑ دیا گیا تھا، اور بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقینا تعمیر کرایا ہوتا۔ 

تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بودھ مت کے عروج کے دوران ایک یونی ورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بودھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ[۶۰۲ء-۶۶۴ء] نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونی ورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بودھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ اس دور میں یہاں ہر سال ۵۰ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانش گاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔

شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بود ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بودھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوؤں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ نویسوں کے بقول انھوں نے بدھ بھکشوؤں کو مکالمے میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوؤں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردیں۔ یہی کچھ اس شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بودھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بودھ بادشاہ تھا۔ اشوکا [۳۰۴ ق م- ۲۳۲ ق م]کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بودھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بودھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بودھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ پھر ۶۳ء میں دوبارہ بودھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجا کنشک کے عہد حکمرانی [۱۲۷ء-۱۵۰ء]میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بودھ کونسل منعقد ہوئی اور بودھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جس کے پیروکار چین اور کوریا میں فی الوقت پائے جاتے ہیں۔

  جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی اُبھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کیا جاسکے۔

بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیا میں ہے۔ ایک باضابطہ منصوبے کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ نام نہاد اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادیٔ نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں۔ ایسی روشن خیالی کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے!

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ کہتے ہیں:’’میں بوجھل دل کے ساتھ [اسرائیلی وزیراعظم] نتن یاہوکے ہمراہ سیکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سدِ جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔

کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ’ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘

یائر لاپیڈ کے فکر انگیز موقف کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں: پہلا یہ کہ اسرائیل کیا واقعتاً اپنی سدِجارحیت کی حیثیت کھو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امریکا کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟

ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔

یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکا کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے،جب کہ مغربی ممالک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔لیکن اب یہ ممالک بھی سمجھ چکے ہیں کہ امریکا، مشرق وسطیٰ سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز ۲۰۱۲ء میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔

سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ارتکاز مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ ۲۰۱۲ء سے صدر اوباما نے Pivot to Asia پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں  خاص طور پر اس وقت تیزی آئی، جب فروری ۲۰۲۲ء میں روس- یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔

دکھائی دیتا ہے کہ عرب دُنیا کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہاں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے میں نہیں جتنی واشنگٹن نے ۲۰۰۳ءمیں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی تھی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔

اب ہم پہلے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سدِجارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقت ور ضرور ہے، جتنا وہ مئی ۲۰۲۱ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت تھا۔دراصل یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔

گذشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا، مگر اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیونکہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر ابھر رہا ہے۔

حزب اللہ، اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری جانب حالات معمول پر لانے کے شوروغل میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔

رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی(اسلامی تعاون تنظیم)، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اس تبدیلی کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، مسلم اور مغربی ممالک خاموش نہ رہ سکے۔

قبلۂ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ ردعمل بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔یاد رہے کہ اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ۹۰ فلسطینی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہادت پاچکے ہیں، مگر مزاحمت میں کچھ کمی نہیں آرہی۔

اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ بدحواسی میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح فخریہ انداز سے امریکا خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔

عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔

ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کا نیا آہنگ اور نغمہ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر ۶؍ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔

چین، اب مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے لیے محال ہے کہ اس جال سے جلد نکل آئے کیونکہ امریکانے اسرائیل نوازی کی رفتار میں کچھ ٹھیرائو پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں خود امریکا سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں فاشزم (فسطائیت)اپنی تمام وحشیانہ خصوصیات کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت اور بنیادی شہری حقوق کی جگہ اب صرف قبرستان کا سا ماحول ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو حکومت کے لیے کافی وقت، طاقت اور مواقع ملے، مگر انھوں نے عوام کے خلاف مجرمانہ عزائم کا مظاہرہ کیا اور بھارتی سرپرستی میں فاشسٹ حکمرانوں کی بدترین شکل بن کر اُبھریں۔ ان کی حکومت سفاکیت، آمریت، بدعنوانی اور بدانتظامی کا ’منفرد نمونہ‘ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام ۱۴ سال کی طویل حکمرانی کے دوران ایسے ریاستی جرائم کا قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ ریاستی ادارے عوام کو دبانے اور جبر پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔

حسینہ واجد، عوام، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی دشمن کے طور پر پوری طرح جم کر کھڑی ہیں۔ اس لیے عوام اس حکومت سے مایوس ہیں۔ خود شیخ حسینہ کو اپنے جرائم اور عوام کے غصے کا پوری طرح اندازہ ہے۔ لہٰذا، لوگوں کے خلاف انھوں نےایک مخصوص حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ لوگوں کے ووٹ کے اختیار کو چھین کر ان کو بے اختیار بنانا یہ کلیدی حکمت عملی ہے۔ جس کے لیے انتخابی عمل کا مکمل اختیار سنبھال لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر ڈاکا ڈال کر خود کو منتخب کروا سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی اور ڈکیتی ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں بھی ہوئی۔ یوں بنگلہ دیش کے عوام اپنے نمایندے خود منتخب کرنے کے آئینی حقوق سے محروم ہوگئے ہیں۔

l ووٹوں پر ڈاکا:آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو روکنے کے لیے حسینہ واجد نے نگراں حکومت (CTG) فارمولے کو ختم کر دیا ہے۔ یہ فارمولا پروفیسر غلام اعظم نے پیش کیا تھا، جس کی ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے توثیق کی تھی۔ یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے انتخابات اقتدار میں آنے والی پارٹی منعقد کراتی تھی۔ اس طرح حکمران پارٹی اپنے حق میں انتخابات میں دھاندلی کے تمام مواقع سے لطف اندوز ہوتی تھی۔لیکن جب حسینہ واجد ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسے ختم کردیا۔ اس اقدام نے حسینہ کے لیے انتخابی دھاندلی کی راہیں کھول دیں۔

حسینہ واجد سمجھتی ہیں کہ کسی بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ان کی جیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پچھلے انتخابات میں، وہ دو حلقوں میں اپوزیشن کے دو عام نمایندوں سے بھی شکست کھا گئی تھیں۔ تب سے، وہ زبردست انتخابی فوبیا کا شکار ہیں۔ الیکشن کمیشن اسے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ ملک کی پولیس اور عدلیہ خاموش تماشائی ہیں۔

انتخابی دھاندلی کی تاریخ میں حسینہ نے مصر کے ابوالفتح السیسی اور شام کے بشار الاسد جیسے سفاک آمروں کے ریکارڈ کو بھی مات دے دی ہے ۔ ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو، اس کی پولیس نے الیکشن کے دن سے ایک رات پہلے جگہ جگہ ووٹ ڈالے۔ چونکہ پولیس خود ایک ادارہ ہونے کے ناتے اس جرم میں شریک تھی، اس لیے اس طرح کی بھیانک ڈکیتی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انتخاب کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے والے حقیقی ووٹروں سے کہا گیا کہ وہ گھر واپس چلے جائیں کیونکہ ان کے ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ یہ حسینہ کے تکبر اور عوام کے خلاف دھوکا دہی کا عالم تھا۔ اس طرح کی لوٹ مار کے ذریعے، ۳۰۰ میں سے ۲۹۳ پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ درحقیقت اس طرح وہ تمام ۳۰۰  پارلیمانی نشستیں آسانی سے لے سکتی تھیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں تو ۱۵۳ نشستوں پر عوامی لیگ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ یہاں تک کہ ۱۰ فی صد ووٹروں سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ حسینہ کا طرز انتخاب ہے۔ ایسی انتخابی دھاندلی کی توثیق سے بچنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے ۲۰۱۴ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

l اداروں کی تباہی:شیخ حسینہ نے۲۰۰۸ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد جمہوریت کے بنیادی ادارے اور انتخابی نظام کو بآسانی تباہ کر دیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ پُرامن احتجاج کرنے پر بھی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ حفاظت ِ اسلام پارٹی کے سیکڑوں اسلام پسندوں کو ۵ مئی ۲۰۱۳ء کو ڈھاکہ میں ایک پُرامن احتجاجی ریلی منعقد کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ شیخ حسینہ نے عدلیہ پر بھی کامیابی سے تسلط حاصل کر لیا ہے۔ وہ چاہے تو کسی کو پھانسی دے سکتی ہے یا جیل بھیج سکتی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دے دی ۔

فوج اور پولیس کے اہلکاروں کا مقام ان کے پرائیویٹ ملازموں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ صرف اس کی حکمرانی کا تحفظ کرتے ہیں، نہ کہ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے آئینی حقوق کا تحفظ۔ میڈیا اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔ حسینہ واجد نے اپنی حکومت پر کسی بھی طرح تنقید کرنے والے کو جیل میں ڈالنے کے لیے ’ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس کی حکومت پر تنقید کو ’ریاست مخالف عمل‘ قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا انھیں گرفتار کر کے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارتی فاشسٹ وزیراعظم مودی کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے پر مشرقی ضلع برہمن باڑیا میں پولیس کے ہاتھوں ۱۶؍ افراد ہلاک ہوگئے ۔ اس قتل کے جرم میں نہ کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ سزا ہی دی گئی اور اس قتل عام کی خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔

l ریاست __ دہشت گردی کا ادارہ:بنگلہ دیش کی ریاست جو فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیتی ہے، اسے RAB  (The Rapid Action Batalion  ) کہتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لوگوں کو حسینہ کی فاشسٹ حکمرانی کے تابع رکھنے اور خاموش رہنے کے لیے دہشت زدہ کر رہے ہیں ۔ وہ سیکڑوں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ حکومت مخالف سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور ہیں۔ RAB بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے رات کی تاریکی میں لوگوں کو اغوا کرتا ہے۔ پورا ملک ایسے ڈیتھ اسکواڈز کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ وہ ڈھاکہ چھاؤنی کے اندر دہشت ناک ٹارچر سیل چلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا حکومتی سرپرستی میں ایک اداراتی عمل بن چکا ہے۔ کچھ بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورکس جیسے ڈوئچے ویلے ، الجزیرہ، نیٹرو نیوز نے حکومتی سرپرستی پر مبنی ایسے اداروں پر دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔

اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں جھوٹے مقدمات درج ہیں۔ اس لیے گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ زیر زمین چلے جانے یا ملک چھوڑ کر غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلینے پر مجبور ہیں۔ گرفتار ہونے والے برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہتے ہیں۔

l حسینہ: ہندستان کی وائسرائے:حسینہ نہ صرف فاشسٹ، بدعنوان اور اسلام دشمن ٹھگ کی سی بدترین شکل ہے، بلکہ انھوں نے بنگلہ دیش کو بھی ہندستان کی ایک کالونی بنا دیا ہے۔   اس نے سات مشرقی ریاستوں تک رسائی کے لیے ہندستان کو مفت گزرگاہ فراہم کردی ہے، اور   بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک رسائی دی ہے۔ ملک کی مارکیٹوں پر ہندستان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی دکانوں اور گھروں میں زیادہ تر سامان ہندستان کا بنا ہوا دستیاب ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں، بسیں، ٹرک، سکوٹر اور سائیکل بھارت سے آتے ہیں۔ چونکہ تقریباً ۱۰ ملین بنگلہ دیشی بیرون ملک مقیم ہیں، اس لیے ایک بنگلہ دیشی کی فی کس آمدنی اور قوت خرید ایک ہندستانی سے زیادہ ہے۔ ہندستان مسابقت سے پاک زیرقبضہ مارکیٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ بنگلہ دیش میں ہندستانی سامان کی مارکیٹ ہندستانی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار اور اڑیسہ کی مشترکہ مارکیٹ سے بڑی ہے۔ ایسے ہندستانی اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے حسینہ دہلی کے حکمران گروہ کی وائسرائے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس لیے بھارت اس حکمرانی کا ہر ممکن اقدام سے تحفظ کر رہا ہے۔  ان حالات میں حسینہ کے خلاف کھڑے ہونا درحقیقت ہندستانی سامراجیت کے خلاف لڑنا ہے۔

حسینہ کو ۲۰۰۸ء میں دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے امریکا، برطانیہ اور بھارت کی مشترکہ سازش کے ذریعے۱۸کروڑکی آبادی والے ملک میں اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو غیرمنصفانہ عدالتی کارروائیوں اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا تو ان سازشی طاقتوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب اسے بھارت، چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بھارتی، چینی اور روسی کمپنیاں حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر کک بیک کے طور پر دیتی ہیں۔

اگلا پارلیمانی الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہے۔ حسینہ واجد عوام کے ووٹوں پر ایک اور ڈاکا ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ اس موقع کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اپنے بے شمار قاتلانہ جرائم کی سزا سے نہیں بچ سکتی۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے ۱۸کروڑ عوام کے لیے یہ واقعی ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ دشمن نما حکمران کو کب تک برداشت کریں گے؟

 یہ مختصر مضمون اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہےکہ دُنیا کی طاقتوں نے اہلِ فلسطین پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی تھی اوربالخصوص مسلم ممالک کی حکمران قیادتوں نے اس ضمن میں ظالم طاقتوں کے خلاف بظاہر احتجاجی مگر فی نفسہٖ اعانتِ مجرمانہ کا رویہ اختیار کیا تھا، اسے اللہ کے بھروسے پر فلسطینیوںنے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ناکام بنا کر مسلسل آگے بڑھنے کا راستہ بنایا۔ یہی ماڈل اہل کشمیر کو اپنانا ہے، جس پر بلاشبہہ وہ کام تو کر رہے ہیں، مگربہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان، جس کی یہ ذمہ داری تھی اس کی حکومتیں اس میدان میں اپنی قرار واقعی ذمہ داری ادا نہیں کرسکیں۔ اس لیے لازم ہے کہ کشمیری بھائی اپنی عملی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ابلاغی محاذ پر سرگرم ہوں۔ (ادارہ)

دُنیا بھر میں فلسطینی اور فلسطینیوں کے حامی کس کے خلاف لڑرہے ہیں، اور اسرائیل کے حامی کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ جملہ واضح کر رہا ہے: ’’ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال نے غزہ کے بچوں کے بنائے ہوئے آرٹ کے فن پاروں کو نمایش سے ہٹا دیا ہے‘‘۔

یہ اسرائیل کے حامی وکیلوں کے گروپ ’یوکے لائرز فار اسرائیل‘ کے ہوم پیج پر شائع ہونے والی ایک خبر کا خلاصہ ہے۔ یہ اس گروپ کا ہی کارنامہ قرار دیا جارہا ہے کہ جس نے مغربی لندن کے ایک ہسپتال کی انتظامیہ کو غزہ کے پناہ گزین بچوں کے تخلیق کردہ آرٹ کے چند فن پاروں کو ہسپتال سے ہٹانے کے لیے کامیابی سے قائل کیا۔

بچوں کے فن پاروں کو ہٹانے کی اپنی مہم کے پیچھے چھپی منطق کی وضاحت کرتے ہوئے، اس گروپ کے ترجمان نے کہا: ’’ہسپتال میں یہودی مریض اس نمایش سے اپنے آپ کو ہدف اور تنقید کا نشانہ سمجھتے تھے‘‘۔ یاد رہے، آرٹ کے چند فن پاروں میں مشرقی یروشلم میں گنبد صخرا کی نمایندگی، فلسطینی پرچم اور دیگر علامتیں تھیں جن سے شاید ہی کسی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہو۔ وکلا گروپ کے مذکورہ بالا مضمون میں بعدازاں ترمیم کرکے اس کا جارحانہ خلاصہ ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ اب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سب لوگوں کو میسر ہے۔

یہ کہانی جتنی مضحکہ خیز لگتی ہے، حقیقت میں یہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے دُنیابھر میں شروع کی گئی فلسطین مخالف مہم کا نچوڑ بھی ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے، وہ بین الاقوامی قانون میں تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ اسرائیل نواز کیمپ فلسطینیوں کی ہرچیز کے مکمل خاتمے کے لیے لڑ رہا ہے۔

آج کچھ لوگ اسے فلسطینیوں کی ثقافتی نسل کشی یا فلسطینیوں کی نسل کشی کہتے ہیں، جب کہ فلسطینی، اسرائیل کے قیام ہی سے اس اسرائیلی طرزِ عمل سے واقف ہیں۔ درحقیقت اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جنگ کی حدود کو دُنیا کے کسی بھی حصے میں، خاص طور پر مغربی نصف کرہ تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیل اور یوکے لائرز اور ان کے اتحادیوں کا غیرانسانی سلوک واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، تاہم صرف یہ گروپ نہیں جو اس الزام کا مستحق ہو۔ یہ وکلا اسرائیلی نوآبادیاتی ثقافت کا تسلسل ہیں جوفلسطینی عوام کے وجود کو سیاسی، صہیونی اور نوآبادیاتی نقطۂ نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں، جس میں پناہ گزین معصوم بچوں کا فن بھی شامل ہے، اور اسے اسرائیل کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔

کسی ملک کے وجود اور کم عمر معصوم بچوں کے فن کے درمیان تعلق مضحکہ خیز لگتا ہے، مگر یہ دیکھا جاسکتا ہے___ لیکن اس کی اپنی ہی عجیب منطق ہے۔ جب تک ان پناہ گزین بچوں میں خود کو فلسطینی کے طور پر پہچاننے کے لیے خود آگاہی ہے، جب تک وہ ایک فلسطینی کے طور پر شمار ہوتے رہیں گے، ان کی پہچان کا کوئی انکار نہیں کرسکے گا۔ اسی مثال کو دیکھیے کہ لندن کے ایک ہسپتال میں مریض اور عملے کے لیے اسرائیل کے مقابلے میں یہ اجتماعی فلسطینی شناخت بھلانا ممکن نہیں۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے فتح کا مطلب دو بالکل مختلف چیزیں ہیں جنھیں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینیوں کے لیے فتح کا مطلب فلسطینی عوام کی آزادی اور وہاں سب بسنے والوں کے لیے برابری ہے، مگر اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے مٹانے کے ذریعے ہی فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان فلسطینیوں کے وجود کو مٹادینے میں اسرائیل اپنی کامیابی دیکھتا ہے، جو جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اعتبار سے فلسطینی شناخت کا حصہ ہوں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال اب فلسطینیوں کی شناخت مٹانے کے اس المناک عمل میں سرگرمی سے شریکِ کار ہیں۔ بالکل اُس طریقے سے جیسے ورجن ایئرلائنز ۲۰۱۸ء میں دبائو کے سامنے جھکی اور جب اس نے اپنے مینو سے ’فلسطینی پکوان‘ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مذکورہ کمپنی کی یہ حرکت فلسطینی- اسرائیلی تنازعے کا ایک عجیب واقعہ لگتی تھی، حالانکہ حقیقت میں یہ کہانی اس تنازعے کی اصل نمایندگی کرتی تھی۔

اسرائیل کے لیے ، فلسطین کی جنگ تین بنیادی اُمور کے گرد گھومتی ہے: زمین کا حصول، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا۔

پہلا کام تو ۱۹۴۷ء کے بعد نسلی قتل و غارت (cleansing) اور فلسطین کی نوآبادیاتی محکومی کے عمل کے ذریعے حاصل کیاجاچکا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ انتہاپسند حکومت صرف اس عمل کو حتمی شکل دینے کی اُمید کر رہی ہے۔ دوسرا کام تسلسل کے ساتھ نسلی تطہیر سے زیادہ ہمہ پہلو ہے، اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کے بارے میں آگاہی اور ان کی اجتماعی شناخت کو ثقافتی نسل کشی کے ذریعے شناخت سے محروم کرنا ہے ۔تیسرے یہ کہ اسرائیل نے کئی برسوں کی جارحیت کے نتیجے میں تاریخ کو دوبارہ لکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اب اس کام کے برعکس فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں نے استقامت سے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے ذریعے اسے چیلنج کرنا شروع کیا ہے۔

فلسطینیوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے عروج سے بہت زیادہ فائدہ پہنچاہے، جس نے اسرائیلیوں کے سیاسی اور تاریخی بیانیے کی مرکزیت کو ختم کرنے میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی عشروں سے اسرائیل اور فلسطین کی تشکیل کے بارے میں عام فہم مرکزی دھارے کو بڑی حد تک اسرائیل کی طرف سے منظور شدہ بیانیہ کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ جو لوگ اس بیانیہ سے منحرف ہوئے ان پر حملے کیے جاتے اور ان کے تشخص کو مجروح کردیا جاتا اور ہمیشہ ’سامی دشمنی‘ کا الزام لگایا جاتا۔ اگرچہ اب بھی یہ ہتھکنڈے اسرائیل کے ناقدین پر چلائے جارہے ہیں، لیکن اب ان کے نتائج اتنے مؤثر نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے یوکے لائرز کی ’خوشی‘ کو بے نقاب کرنے والی ایک ٹویٹ کو ٹویٹر پر آن کی آن میں۲۰ لاکھ لوگوں نے پڑھا اور پھر دُنیا بھر میں لاکھوں مشتعل برطانوی اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک مقامی کہانی کو فلسطین اور اسرائیل پر دُنیا بھر میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع میں تبدیل کردیا۔ اس طرح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے وکلا کی ’خوشی‘ میں حصہ نہیں لیا، جس کے نتیجے میں گروپ کو اپنے مضمون پر نظرثانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں کو فلسطین اور اسرائیل پر ایک بالکل نئے موضوع سے متعارف کرایا گیا: ’ثقافت کو مٹانا‘۔ اس طرح لائرز گروپ کی’فتح‘ ایک مکمل شرمندگی اور پسپائی میں بدل گئی ہے۔

فلسطینی موقف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سوشل میڈیا کے اثرات کی بدولت، اب اسرائیل کی ابتدائی فتوحات کے برعکس اثر ہورہا ہے۔ ایک اور حالیہ مثال ہارورڈ کینیڈی اسکول میں ہیومن رائٹس واچ کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کو فیلوشپ کی پیش کش واپس لینے کا فیصلہ تھا۔ جنوری میں کینتھ روتھ کی فیلوشپ اس کی اسرائیل پر ماضی کی تنقید کی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھی۔ ایک بڑی مہم، جو چھوٹی متبادل میڈیا تنظیموں کی طرف سے شروع کی گئی تھی، اس کے نتیجے میں روتھ کو دنوں میں بحال کردیا گیا۔ یہ اور دیگر معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل پر تنقید کرنا اب کسی کیریئر اور مستقبل کا اختتام نہیں بن رہا، جیساکہ ماضی میں اکثر ہوتا تھا۔

اسرائیل فلسطین پر اپنے قبضے کو کنٹرول کرنے کے لیے پرانے حربے استعمال کرر ہا ہے مگر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں یہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہ روایتی ہتھکنڈے آج کی دُنیا میں کام نہیں کرتے، جہاں معلومات تک رسائی کی مرکزیت ختم کردی گئی ہے اور جہاں کوئی بھی سنسرشپ گفتگو کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔

فلسطینیوں کے لیے یہ نئی حقیقت دُنیا بھر میں اپنی حمایت کا دائرہ وسیع کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اسرائیل کے لیے، مشن ایک غیر یقینی ہے،خاص طور پر جب ابتدائی فتوحات، گھنٹوں کے اندر، ذلّت آمیز شکست میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔(عرب نیوز، ۶مارچ ۲۰۲۳ء)

ترکیہ کے گیارہ صوبوں میں جس طرح زلزلے نے قہر برپا کیا، اسی پیمانے پر شمالی شام کے چھ صوبوں کا ۶۰ہزار مربع کلومیٹر علاقہ بھی اس کی زد میںآگیا۔ مگر بین الاقوامی برادری جس تیزی کے ساتھ ترکیہ میں مدد لے کر پہنچی، شاید ہی کسی کو ان شامی علاقوں کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے یا ان کی اشک شوئی کرنے کی توفیق ہوئی۔ ترکیہ کے حتائی صوبے کے سرحدی قصبہ ریحانلی سے صرف ۱۲ کلومیٹر دُور بال الحوا کراسنگ پوائنٹ پر ۴۲سالہ شامی شہری محمد شیخ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی قسمت پررو رہا ہے۔ وہ ۱۲سال قبل حلب یا الیپو سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ترکیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا اور اب اپنے رشتہ داروں کی خیریت جاننے اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مدد کرنے کے لیے واپس جا رہا تھا۔ وہ شکوہ کر رہا تھا: ’’ہماری زندگیاں تو پہلے ہی پچھلے ۱۲برسوں سے جنگ و شورش کی نذر ہوگئی تھیں۔ پھر کورونا وبا نے ہمیں نشانہ بنایا۔ اس میں جوں ہی کمی آگئی تو ہیضہ اور خشک سالی نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب زلزلے نے توہماری زندگیاں برباد کرکے رکھ دی ہیں‘‘۔

رومی دورِ حکومت کی کئی ہزار سالہ پرانی سڑک ، جس نے تاریخ کے کئی اَدوار دیکھے ہیں، اس پر اقوام متحدہ کے ٹرکوں کا ایک کاروان امدادی سامان لے کر رواں تھا۔ ترکیہ کی سرحد کے پار شام کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’امدادی ٹیموں، نیزبھاری اوزاروں اور سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم کو اپنے ہاتھوں سے ملبہ کو ہٹا کر زندہ بچنے والوں کو نکالنا پڑا‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے سے اب تک صرف ۶ہزار لاشیں نکالی جا سکی تھیں، جن میں شام کے حاکم بشار کے مخالفین کے زیرقبضہ شمال مغرب میں ۴ہزار۴سو لاشیں ملی تھیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق۲ہزار ۷سو ۶۲ سے زائد عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ‘،  جس کے ترکیہ میں دفاتر ہیں ، نے کہا کہ خطے میں ۴۵  فی صد انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ سے لوگ شکایت کر رہے تھے۔ اس کی جانب سے پہلا امدادی ٹرک چار دن بعد تباہ شدہ شہر دیر الزور پہنچا، تو مکینوں نے اقوام متحدہ کے جھنڈوں کو اُلٹا لٹکا کر احتجاج درج کروایا۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شام کے صدر بشار الاسد نے ۱۰ فروری کو حزب اختلاف کے زیرقبضہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے کا اعلان تو کیا تھا، مگر یہ امدادی سامان نو دن بعد بھی نہیں پہنچا تھا۔ ان کے وزیروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے امداد تو روانہ کی تھی ، مگر عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابومحمدالجولانی نے ان امدادی رضاکارگروپوں میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کرنے میں کافی وقت صرف کردیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ شامی حکومت شاید امدادی ٹیموں کی آڑ میں انٹیلی جنس اور کمانڈو اہل کار بھیج رہی ہے۔

’وائٹ ہیلمٹس‘ نام سے شامی شہری دفاع گروپ کے لیے کام کرنے والی رضاکار سورمر تمر نے مجھے بتایا: ’’زلزلہ آنے کے کئی روز بعد تک ملبوں سے انسانی ہاتھ نمودار ہوکر ہاتھ ہلاہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے۔ منجمد کرنے والی سردی کے دوران بھی ملبو ں سے انسانی چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ہولناک یادیں اور آوازیں مجھے ساری زندگی پریشان کرتی رہیں گی۔پھر جب ہم ان تباہ حالوں میں سے کسی کا ہاتھ پکڑتے تھے تو وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو خوف ہوتا تھا کہ اگر انھوں نے ہاتھ چھوڑا تو ہم ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جا ئیں گے ‘‘۔

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تمر نے کہا:’’سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو ایسے کئی ہاتھ چھوڑنے پڑے، کیونکہ ملبہ ہٹانے اور ان کو نکالنے کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ ہم آگے بڑھ کر دیکھتے تھے کہ ننگے ہاتھوں سے کون سا ملبہ ہٹایا جاسکتا ہے او ر کون سی جان بچائی جاسکتی ہے۔ اور پھر دو دن بعد ان ملبوں سے انسانی آوازیںآنا بند ہوگئیں‘‘۔اُس وقت تک علاقے میں کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں ان تمام مرنے والوں سے معافی مانگتی ہوں، جنھیں ہم بچانے میں ناکام رہے‘‘۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’صرف پہلے ۷۲گھنٹوں میں پانچ فی صد علاقے میں ریسکیو کا کام ہوسکا‘‘۔

زلزلے کے بعد پہلے ۷۲گھنٹوں ہی میں کسی زندہ وجود کو ملبہ سے نکالنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ’وائٹ ہیلمٹس‘ کے سربراہ رائد صالح نے بتایا: ’’ہم نے بے بسی کے ساتھ بہت جدوجہد کی کہ زندہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مگر مناسب آلات کی کمی ہماری اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ تھی، لیکن قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی۔ تاہم، اقوام متحدہ کا غفلت برتنا بہت صدمہ خیز ہے۔ ان علاقوں میں ہزاروں شامی خاندان منفی درجہ حرارت میں سڑکوں پر یا ایسے خیموں میں زندگی گزار رہے تھے ، جن میں کمبل ، بستر یا گرمی کا کوئی انتظام نہیں تھا‘‘۔ مغربی ادلب صوبہ کے گاؤں امرین کے ندال مصطفےٰ بتا رہے تھے: ’’اپنی پوری فیملی کے ساتھ پہلے تین دن ہم نے کھلی سڑک پر گزارے۔ باب الحوا کی سرحد کے اس پار، ادلب صوبے میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد آباد ہیں، جن میں ۲۸ لاکھ ایسے افراد ہیں ، جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں‘‘۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۱ءسے اب تک شام کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ۵۳ لاکھ ہے۔ تقریباً ڈ یڑھ کروڑ شامی شہری جنگ اور سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ترکیہ کا یہی متاثرہ جنوبی علاقہ ان کے لیے ایک ڈھال تھا، مگر زلزلہ کی وجہ سے ترکیہ کے اس خطے کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ ترکیہ میں ۳۵ لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں میں سے ۱۷ لا کھ زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں رہتے ہیں۔

 امدادی اداروں کے مطابق اگرچہ کئی عرب ممالک اور بین الاقوامی انسانی امداد کے کئی اداروں نے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امداد پہنچائی تھی، مگر یہ امداد اپوزیشن کے زیراثر شمال مغربی شام تک نہیں پہنچ سکی، جہاں ۸۵ فی صد متاثرہ افراد رہ رہے ہیں۔ رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ نے الزام لگایا کہ ۹۰ فی صد امداد حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی ترسیل کے لیے شام میں چار بارڈر کراسنگ کی منظوری دی تھی۔ مگر اب لے دے کے صرف باب الحوا ہی قانونی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں واحد سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے۔

زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی، کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں جھڑپوں کے دوران دونوں نے ایک دوسرے پر  خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ سیریئن ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس میں اس جنگ کی نگرانی کرنے والے کارکن ابو مصطفےٰ الخطابی کا کہنا تھا کہ اسد فورسزکی بیس ۴۶ سے گولہ باری شروع ہوئی اور انھوں نے مغربی حلب کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ عطریب قصبہ ،کفر اما ، کفر تال اور کفر نو دیہاتوں میں بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ یاد رہے کہ عطریب اور اس کے نواح میں زلزلے کے نتیجے میں ۲۳۵؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور متعدد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں اس طرح کی مسلح جھڑپوں سے ابتدائی امدادی کام بھی نہیں ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو شامی زلزلے کے دوران ملبے میں دب کر مارے گئے اور کئی روز تک ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے، ان کا خون بین الاقوامی برادری اور شامی متحارب گروپوں کے ہاتھوں پر ہے۔

سات عشروں سے کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جان کی بازی لگارہے ہیں، اور دوسری طرف انڈیا کی کبھی نام نہاد سیکولر حکومتیں اور کبھی فاشسٹ حکومتیں انھیں کچلتی اور ان کی اولادوں کو عذاب کی مختلف صورتوں میں دھکیلتی چلی آرہی ہیں۔ نئی دہلی کے سفاک حکمرانوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم دُنیا کے دولت مند ممالک اُن کی نازبرداری کرتے ہوئے انڈین تجارت، کلچر اور دفاعی تعاون تک کے لیے بچھے جارہے ہیں، تو اُنھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و وحشت کے پہیے کو تیز تر کردیا۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں جب کشمیر شدید برف باری اور بارشوں میں گھرا ہوا تھا، ظلم اور توہین کی ایک نئی یلغار سے اہل کشمیر کو اذیت سے دوچار کیے جانے کا آغاز ہوا۔ یہ ہے سری نگر سمیت کشمیر کے تمام اضلاع میں، سرکاری املاک پر ’تجاوزات‘ کے نام پر سالہا سال سے مقیم کشمیری مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کرنے اور شہری زندگی کے آثار کچلنے کا وحشیانہ عمل۔ اس پر نعیمہ احمد مہجور نے اخبار دی انڈی پنڈنٹ (۱۷فروری) میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عنقریب مقامی آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا روہنگیا مسلمانوں کی مانند لائن آف کنٹرول کی جانب بھاگنے پر مجبورہوگا‘‘۔

سری نگر سے بی بی سی کے نمایندے ریاض مسرور نے ۱۸فروری ۲۰۲۳ء کو رپورٹ کیا: ’’انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مقبول احمد اُن ہزاروں بے گھر کشمیریوں میں شامل ہیں، جنھوں نے برسوں کی جدوجہد کے بعد دو کمروں کا گھر تعمیر کیا۔ ایسی بستیوں کو حکومت کی طرف سے بجلی، پانی اور سڑکوں جیسی سہولت بھی میسر ہے، مگر اب اچانک کہا جارہا ہے کہ تم سب ناجائز قابضین ہو‘‘۔

 حکومت کی طرف سے ’ناجائز‘ یا ’غیرقانونی‘ قرار دی جانے والی تعمیرات کو گرانے کی مہم زوروں پر ہے اور ہر روز حکومت کے بُلڈوزر تعلیمی اداروں، دکانوں، مکانوں اور دیگر تعمیرات کو منہدم کررہے ہیں۔ اس نئی مہم کے تحت کسی کی دکان جارہی ہے، کسی کا مکان اور کسی کی زرعی زمین چھینی جارہی ہے۔ مقبول احمد کہتے ہیں:’’ہماری تین نسلیں یہاں رہ چکی ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟ یہاں کے لوگ خاکروب یا مزدور ہیں۔ اگر یہ گذشتہ ۷۵برس سے غیرقانونی نہیں تھے تو اب کیسے ناجائز قابضین ہوگئے؟ یہ کون سا انصاف ہے‘‘۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے مقامی کشمیری لیڈر الطاف ٹھاکرے نے اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوکر کہا:’’بابا کا بلڈوزر تو چلے گا‘‘ حالانکہ عالمی نشریاتی اداروں کی دستاویزی رپورٹوں میں تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر کھڑی عورتیں فلک شگاف فریادیں کرتی نظر آتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ انصاف کرو ، ہمیں برباد نہ کرو‘‘۔

نئی دہلی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ حکومت نے گذشتہ تین سال کے دوران زمین سے متعلق ۱۲قوانین ختم کیے ہیں، ۲۶قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں اور ۸۹۰ بھارتی قوانین کو جموں کشمیر پر نافذ کر دیا ہے۔اکتوبر ۲۰۲۲ء میں ’’جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن تھرڈ آرڈر‘‘ نافذ کیا گیا، جس کا مقصد مقامی کشمیریوں کو زمین سے بے دخل کرکے ، سرزمین کشمیر کو پورے ہند کی چراگاہ بنانا ہے۔ اس کے بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں ’لینڈ گرانٹس ایکٹ‘ نافذ کیا گیا ہے، جس کے ذریعے تعمیرات کو ناجائز قرار دینے کا یہ سارا فساد برپا کیا گیا ہے۔

ان مسلط کردہ ضابطوں کے مطابق کہا جارہا ہے: ’’کوئی زمین یا عمارت پہلے اگر لیز پر دی گئی تھی تو حکومت حق رکھتی ہے کہ وہ پراپرٹی واپس لی جائے‘‘۔ سرینگر، جموں اور دوسرے اضلاع میں تقریباً سبھی بڑی کمرشل عمارتیں لیز پر ہی تھیں، اب وہ لیز ختم کی جارہی ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ ’’سابق وزرا، بڑے افسروں اور حکومت کے حامی تاجروں کی عمارات کو چھیڑا نہیں جارہا۔ مقامی صحافی ماجد حیدری کے بقول: ’’ان بلڈوزروں کا نشانہ صرف غریب مسلمانوں کی جھونپڑیاں ہیں‘‘۔ ’بلڈوزر مہم‘ سے مسلمانوں کی آبادیوں میں سخت خوف پایا جاتا ہے اور کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں، مگر احتجاجیوں کی فریاد سننے کے بجائے ان کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ’’یہ زمینیں حاصل کر کے انھیں پورے انڈیا کے دولت مند لوگوں میں فروخت کر دیا جائے گا‘‘۔پہلے یہ بات خدشہ تھی، اب عملاً یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

روزنامہ دی گارجین،لندن(۱۹مارچ ۲۰۲۳ء) میں آکاش حسان نے سری نگر سے اور حنان ایلس پیٹرسن نے نئی دہلی سے ایک مشترکہ رپورٹ میں اسی نوعیت کے حقائق پیش کیے ہیں۔

۵۲ برس کے فیاض احمد کا کھردرا باغ میں ۳۰سال پرانا گھر بھی بغیر کسی وارننگ کے منہدم کردیا گیا تو انھوں نے کہا: ’’یہ سب حربے کشمیریوں کو دبانے کے لیے برتے جارہے ہیں‘‘۔ ۳۸سال کے سہیل احمد شاہ اُس ملبے کے سامنے صدمے اور مایوسی کی کرب ناک تصویر بنے کھڑے تھے، جو دوعشروں سے اُن کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہاں وہ اپنی ورکشاپ میں کام میں مصروف تھے کہ ایک ناگوار کرخت آواز سنی، جو دراصل اُن کی ٹین کی چھت کو چڑمڑ ہونے سے پیدا ہورہی تھی، اور وہ چھت اُن کے اُوپر گرا چاہتی تھی کہ بمشکل بھاگ کر جان بچاسکے۔انھوں نے بتایا: ’’نہ ہمیں کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ کوئی پیشگی اطلاع دی گئی۔ ہم مدتوں سے کرایہ دے کر یہاں روزی روٹی کماتے تھے، اور اب تباہ ہوکر یہاں کھڑے ہیں‘‘۔

سری نگر شہر میں پرانی کاروں کے پُرزوں کی مارکیٹ میں اس نوعیت کی تباہی کے آثار بکھرے دکھائی دے رہے ہیں، جسے حکومت ’زمینیں واپس لینے‘ کا نام دے رہی ہے، حالانکہ کشمیر میں رہنے والے اسے ایک مذموم اور مکروہ مہم قرار دے رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندونسل پرست نریندرا مودی وسیع ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل، بے گھر اور بے روزگار کرکے نقل مکانی پر مجبور کرنے میں مصروف ہے۔ یاد رہے، واحد کشمیر ہی وہ علاقہ ہے، جہاں مسلمان واضح اکثریت رکھتے ہیں اور اس پہچان کو ختم کرنا آر ایس ایس کے پیش نظر ہے۔

۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں مودی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی انڈیا کے طول و عرض میں مسلم اقلیت کو ستم کا نشانہ بنانے کا مؤثر ذریعہ بلڈوزر رہے ہیں۔ اترپردیش، دہلی، گجرات اور مدھیہ پردیش میں فعال مسلمانوں کے گھروں کو تہس نہس کرنے کے لیے بلڈوزروں ہی کو ہتھیار کے طور پر برتا گیا ہے۔ جب اس بلا کا رُخ کشمیر کی طرف مڑا تو سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا:’’انہدام کی یہ مہم [کشمیر میں] لوگوں کو ان کے گھروں اور معاش و روزگار کے مراکز کو تباہ کرکے پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک مکروہ چال ہے‘‘۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا: ’’انڈیا میں واحد مسلم ریاست کے شہریوں کے استحصال کی یہ نئی لہر درحقیقت ماضی کی زیادتیوں کا ہی تسلسل ہے‘‘۔کانگریس نواز نیشنل کانفرنس کے لیڈر فیصل میر کے مطابق: ’’بی جے پی جموں و کشمیر کو واپس ڈوگرہ دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ بلڈوزر سے زمین ہتھیانا اور جائیداد چھیننا اسی پالیسی کا تسلسل ہے‘‘۔

اگست ۲۰۱۹ء میں مودی حکومت کی نسل پرست حکومت نے یک طرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی اور ریاست کے دروازے تمام بھارتیوں کے لیے کھول دیئے کہ وہ یہاں جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور یہاں کے ووٹر بن سکتے ہیں۔ یہ سب کام یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ہیں، تاکہ ووٹوں کا تناسب تبدیل اور من مانی حلقہ بندیاں کرکے، مسلم آبادی کو نام نہاد انتخابی عمل میں بے بس کر دیا جائے۔

ریاست جموں و کشمیر میں آزادیٔ اظہار سلب ہے، سیاسی نمایندگی تارتار ہے، اور کشمیر  اب دُنیا میں سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی کا علاقہ بن گیا ہے، جس میں ہرچند کلومیٹر کے فاصلے پر مسلح فوجیوں کی چوکیاں موجود ہیں۔  سنسرشپ عائد ہے، جو کوئی سوشل میڈیا پر حکومتی ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، پولیس اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں صحافیوں آصف سلطان، فہدشاہ، سجادگل اور عرفان معراج کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت اُٹھا لیا گیا ہے، جب کہ ہزاروں کشمیریوں کے سر سے چھت چھین لی گئی ہے۔دراصل یہ وہی ماڈل ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں پر مسلط کرکے عرب آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا ہے، اور جسے برہمن نسل پرست، صہیونی نسل پرستوں سے سیکھ کر کشمیر میں نافذ کر رہے ہیں۔ مقامی شواہد کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران تقریباً سات لاکھ غیرکشمیری، یہاں لاکر آباد کیے جاچکے ہیں۔

ظلم کی اس سیاہ رات میں مظلوموں کے گھر روندے جارہے ہیں،وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ دُنیا کا میڈیا اور مسلمانوں کی حکومتیں، جماعتیں، ادارے اور سوشل میڈیا پر فعال نوجوان اس درندگی اور زیادتی کا کرب محسوس کرنے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ معلوم نہیں کس قیامت کے ٹوٹنے کا انتظار ہے، حالانکہ ہزاروں کشمیری گھروں پر قیامت تو ٹوٹ بھی چکی ہے۔

کیمرے کے سامنے منہ لپیٹے درمیانی عمر کے ایک صاحب کہنے لگے: ’’کہنے کو کیا رہ گیا ہے اب، بس زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اللہ مالک ہے، حالات ایسے ہیں کہ کچھ بولتے ہیں تو شام کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بس چل رہا ہے‘‘۔ دوسرے صاحب بتاتے ہیں: ’’اب ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں، ہم دس روپے کمائیں گے، گھر پر ماں باپ بیمار ہیں، ان کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ غریب آدمی ہیں‘‘۔

میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا: ’’وعدہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل۳۷۰ ختم کرنے کے بعد حالات بالکل بہتر ہوجائیں گے؟‘‘بولے: ’’وہ تو آپ دیکھ ہی رہی ہیں۔ حالات خراب ہیں، حالات کہاں ٹھیک ہیں، خراب ہی ہیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا:’’شام کو چھے بجے یہاں حالات کرفیو جیسے ہوتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔ وہ حالات نہیں ہیں جب لوگ رات کو ۱۰ بجے تک بازارمیں گھومتے پھرتے تھے۔ کیسے کہیں کہ حالات ٹھیک ہیں‘‘۔

ایک بزرگ نے کہا: ’’حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ لوگ مالی اعتبار سے پیچھے ہوگئے ہیں اور ذہنی لحاظ سے اس سے بھی زیادہ پیچھے ہوگئے ہیں‘‘۔

پختہ عمر کے ایک فرد سے سوال کیا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘وہ مسکرا کر اور گھبرا کر کہنے لگے:’’ ٹھیک ہی ہیں‘‘۔

قریب کھڑے ایک نوجوان نے غصے سے کہا: ’’سب سنسان پڑا ہے۔مارکیٹ میںکچھ کام دھندا نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہاں کچھ نہیں رکھا‘‘۔

’The Wire ٹی وی‘سے میرا تعلق ہے اور زینہ کدل، سری نگر سے مخاطب ہوں۔ یہ شہر کا پرانا علاقہ ہے۔ میں اور میری ٹیم نے یہاں کئی گھنٹے کوشش کی ہے کہ لوگ حالات کے بارے میں بات کریں اور اگر سیاسی حالات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تو کم سے کم اپنے ذاتی حالات کے بارے میں ہی کوئی بات کریں۔لیکن لوگ بات کرنے یا کوئی ردعمل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تاہم، کچھ لوگوں کے تاثرات پیش ہیں:

ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ’’کام مندا ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ سب کام بیٹھے ہوئے ہیں۔ اولڈسٹی کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ حالات خراب ہوتے ہیں اور زیادہ سیکورٹی ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ہے، گاہک نہیں ہے‘‘۔ اُن سے پوچھا کہ ’’پچھلے دنوں کے مقابلے میں کاروباری حالات کیا زیادہ خراب ہوئے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ’’ آپ خود دیکھ سکتی ہیں کہ مارکیٹ کی صورتِ حال کیا ہے۔ اگرچہ کرفیو بھی نہیں لگتا اور ہڑتال بھی نہیں ہوتی، مارکیٹ ہفتہ بھر کھلی رہتی ہے، لیکن مارکیٹ بہت مندی ہے‘‘۔

’’کہا جارہا ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹ جائے گا تو حالات بہتر ہوجائیں گے‘‘، میں نے ایک اور راہ گیر سے پوچھا۔وہ کہنے لگے: ’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ واقعی حالات بہتر ہوگئے ہیں؟‘‘ اندرونی حالات تو بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ آزادی سے گھوما پھرا نہیں جاسکتا۔ شام کو چھ بجے کرفیو کے سے حالات ہوتے ہیں۔ بازار کا ماحول کرفیو جیسا ہوتا ہے۔ وہ حالات نہیں ہیں کہ جب لوگ رات کو دیر تک گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہیں؟ اگر مارکیٹ رات کو ۱۰بجے کھلی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ حالات ٹھیک ہیں۔ یہاں ڈر کا ماحول ہے۔ سب کے دلوں میں ڈر سا ہے۔ کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ آپ خود دیکھ لیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’مودی نے آکر حالات خراب کیے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد پوری وادی میں حالات خراب ہیں۔ غربت بڑھی ہے۔ لوگوں کے پاس کام کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نوجوانوں کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ اُٹھانے سے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں بلکہ اس سے پہلے کے حالات کچھ بہتر تھے۔

’’کیا انتظار کرنے سے شاید حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تو جواب ملا: ’’ہم تو کھانے پینے کے لیے چاول اور روٹی بھی نہیں کما پارہے ہیں۔ یہ دیکھیں مارکیٹیں سنسان پڑی ہوئی ہیں۔ کوئی کام اور دھندا نہیں ہے۔اگر کوئی دو مرلے یا چار مرلے زمین بیچنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کاغذ لائو، وہ کاغذ لائو۔ ہم کہاں سے کاغذ لائیں؟‘‘

میں نے حالات خراب ہونے کی وجہ جاننا چاہی تو بتایا گیا: ’’مودی نے حالات خراب کیے ہیں، یہ دفعہ لگائی ہے، وہ دفعہ لگائی ہے، بہت سے ایکٹ لگائے ہیں۔ شام کو چھ بجے کے بعد ہم باہر نہیں نکل سکتے‘‘۔ قریب میں ایک بزرگ کھڑے تھے۔ غصے میں کہنے لگے: ’’خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے ۴۰ سال ہوگئے ہیں۔ اس بازار میں اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ ہم یہاں کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، یہ پرانا بازار ہے‘‘۔

جب میں نے پوچھا کہ ’’آپ مودی جی سے کچھ کہنا چاہیں گے؟ ‘‘تو اس بزرگ نے چلتے ہوئے وی [فتح]کا نشان بناتے ہوئے کہا: ’’آپ سمجھ دار ہیں۔ اس کا مطلب بخوبی سمجھتی ہیں‘‘۔

مایوسی اور غصے میں ڈوبے ایک نوجوان نے کہا: ’’میں آٹوٹرانسپورٹ چلاتا ہوں، انھوں نے وہ بھی ختم کر دی ہے۔ کوئی کام نہیں رہا۔ کہاں سے کمائیں؟‘‘

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’جن کے پاس اعلیٰ پروفیشنل ڈگریاں ہیں وہ بھی یہاں بیکار ہیں۔ ہم خالی ہاتھ ہیں، بے روزگار ہیں۔ اب کاروبار نہیں چل رہا ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ پہلے حالات بہتر تھے۔ ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں‘‘۔

میں نے کہا: ’’ابھی وہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ لوگوں کے دل میں غصہ ہے‘‘، تو نوجوان نے کہا:’’ہاں، غصہ ہے۔ مودی نے آکر کئی دفعات لگا دی ہیں، بچوں کے لیے، بڑوں کے لیے قانون لگارہے ہیں۔ ہم کیا کریں گے؟ پولیس روکتی ہے۔ شام کو باہر نہیں نکلنے دیتی ہے۔ ہمیں کاروبار سے مطلب ہے۔ لیکن یہاں تو اب وہ دن ہی نہیں رہے کہ پیسے کمائیں‘‘۔

چلتے ہوئے ایک نوجوان کہنے لگا: ’’سرکار جب سے آئی ہے، بہت غربت ہوگئی ہے۔ ہم نے بہت مصیبت دیکھی ہے۔ ہم کاروبار کرنا چاہ رہے تھے اور جب کاروبار ہی بیٹھ گیا تو کیا کریں گے؟ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ہم جو مال بناتے ہیں وہ گھر پر پڑا رہتا ہے۔ لوگوں کے پاس خریداری کے لیے پیسہ نہیں ہے، لہٰذا ہم بہت مجبور ہیں۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چلنا چاہیے۔ ہم نے غریبی بہت دیکھی ہے، ہم محنت کرنا چاہتے ہیں۔ میرے پاس ایک کمرہ تھا۔ میں نے محنت سے تین کمرے بنائے اور قرض بھی لیا ہے۔ مجھے قرض بھی اُتارنا ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’حکومت کہتی ہے کہ کچھ انتظار کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ابھی آرٹیکل ۳۷۰ ہٹائے ہوئے دو تین سال ہی تو گزرے ہیں ‘‘۔نوجوان نے کہا:’’یہ بات نہیں ہے، گھر بھی تو چلانا ہے، غریبی بھی بہت ہے۔ کشمیر پہلے آگے تھا، اب پیچھے ہوگیا ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’ماحول کیسا ہے؟‘‘ مفلر سے منہ لپیٹے کہنے لگے کہ’’ سب ٹھیک ہے لیکن کاروبار بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ مہنگائی ہے اور یہ پچھلے ایک دو سال سے بڑھی ہے‘‘۔

’’ماحول کے بارے میں کچھ بتائیں کہ لوگ کیوں خوف زدہ ہیں؟‘‘ وہ بتانے لگے: ’’یہاں انھوں نے ماحول ہی ایسا بنایا ہے اور ایسی فضا بنا دی ہے‘‘۔

’’پوچھا: وعدہ تو یہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ وہ بولے:’’حالات کہاں ٹھیک ہوئے ہیں بلکہ خراب ہی ہوئے ہیں‘‘۔

ایک تاجر سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا:’’ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوئے ہیں یا خراب ہوئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ’’حالات پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد اور پھر کووڈ میں کشمیر بند رہا تو اس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ان دو برسوں میں لوگوں کے پاس جو پیسہ تھا، بچت تھی، اور اگر سونا رکھا تھا تو اسے بیچ کر کھایا، اُدھار لے کر کھایا۔ اُوپر سے حکومت کے نئے نئے قوانین پریشانی کا باعث ہیں۔ اب تجاوزات ہٹانے کے نام پر مارنے کچلنے کی مہم چل رہی ہے۔ لیز پر دکانیں بھی گرائی جارہی ہیں اور مکانات بھی۔ لوگ ذہنی صحت کے اعتبار سے بہت پیچھے ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آئی اور اس نے ہمارے ساتھ وعدے کیے، مگر ہمیں دھوکا ہی دیا۔ ۱۹۴۷ء سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم سے لوگوں نے جو وعدے کیے وہ کبھی سچ نہیں ہوئے۔رہی مودی صاحب کی بات تو انھوں نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں، جس سے سرکاری محکموں میں رشوت تو کم ہوگئی ہے لیکن تجارت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں میں تجارتی سطح پر جو نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ نہیں ہوپارہا۔ زیادہ تر تاجر بنکوں کے نادہندہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آمدن کم ہے‘‘۔

’’کیا ماحول میں خوف کی کیفیت ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ان کا جواب تھا: نہیں، خوف تو نہیں ہے لیکن ایک ڈر اور خدشہ ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ صاف شفاف نہیں ہے۔ حکومت جس طرح دہلی اور دوسری ریاستوں سے معاملہ کرتی ہے، ہمارے ساتھ اس کا الگ رویہ ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بلکہ زیادتی ہورہی ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’ٹھیک ہی ہیں‘‘۔اور جب پوچھا: ’’کچھ بتانا چاہیں گے؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔

جب کاروباری حالات کے بارے میں ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے: ’’میں پھل کی تجارت سے وابستہ ہوں، اسی کے متعلق بات کروں گا۔ اس سال سیب کی پیداوار دوگنی ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کشمیر سے ہرسال سیب کی پیداوار ۱۰کروڑ پیٹیاں ہوتی ہیں تو اس سال تقریباً دگنا ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت نے اس سال ایران سے جو پھل درآمد کیا جاتا تھا اس پر امپورٹ ڈیوٹی کم کردی ہے، جس سے ہماری مارکیٹ دبائو میں آگئی ہے‘‘۔

’’آپ ان مسائل کو اُٹھا نہیں پاتے ہوں گے کیونکہ آپ کے انتخابی نمایندے موجود نہیں اور بہت برسوں سے الیکشن بھی نہیں ہوئے ہیں‘‘، میں نے کہاتو وہ صاحب کہنے لگے: ’’میں تو ایک چھوٹا سا کاروباری ہوں، اس لیے میں سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہم بہت مشکلات میں ہیں‘‘۔

یہاں پر لوگوں میں ایک جھجک تو ہے ہی اور بات کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں۔ سیاست پر بات کرنے کے لیے تو بالکل تیار نہیں ہیں۔ اگر کاروباری مسائل پر بات کرتے بھی ہیں تو سیاست پر بات کرنے سے بچتے ہیں۔ آج کا یہ بہت الگ کشمیر ہے۔ وہ کشمیر جو میں نے ۲۰۱۹ء سے پہلے دیکھا اور جو کشمیر آج کا ہے،اس میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

ایک بزرگ سے پوچھا کہ ’’حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’حالات پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں…کچھ کہہ نہیں سکتے ،بس چل رہے ہیں‘‘۔جب میں نے کہا کہ ’’اگر کچھ کہیں گے تو کیا مشکل ہوگی؟‘‘ اس پر کہنے لگے: ’’اب کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ بس دن کاٹ رہے ہیں بیٹا!‘‘

سری نگر کے اس پرانے شہر میں، کئی گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں نے لگ بھگ پوری دوپہر اور شام یہاں پر گزاری ہے۔ درجنوں لوگوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صرف چند لوگوں نے اپنی کاروباری مشکلات کا تذکرہ کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دُکھ اور افسوس ہوا کہ سری نگر اور کشمیر کو سیاسی طور پر دبانے کی ہمیشہ ہی کوشش کی گئی، اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد تو ایک کشمیری کی اُمنگ ہی کو کچل دیا گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں نے دیکھا تھا کہ یہاں لوگ منہ پر کھڑے ہوکر بولتے رہے۔پہلی بار یہ احساس ہوا کہ یہ بدلا ہوا کشمیر ہے۔ یہ وہ کشمیر نہیں ہے جو ۲۰۱۹ء سے پہلے مَیں نے دیکھا تھا، جہاں تمام طرح کی حکمران طاقتیں کبھی کشمیری شہری کا دل نہیں توڑ پائی تھیں۔ یہاں آج آپ جس کسی سے پوچھیں کہ کیسے حالات ہیں تو اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی بھی ہوتی ہے: ’’کیا کہیں؟ سارے حالات آپ کے سامنے ہیں‘‘۔ اگر حالات کے بارے میں بات کریں گے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ’’یہ حالات بھی نہیں بچیں گے‘‘۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے تین برسوں سے آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹنے کے بعد یہاں یہ کہانی ہرشخص جانتا ہے کہ ’’بولنے کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘ کشمیر ہمیشہ مسائل سے دوچار رہا ہے، مشکلات کا گڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ایک کشمیری میں کم از کم اتنی آزادی اور ہمت ہواکرتی تھی کہ وہ سینہ تان کر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا اظہار کیا کرتا تھا، لیکن اب پہلی بار ایسا ہوا کہ یہاں کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، رکشہ چلانے والا ہو، ٹھیلہ لگانے والا ہو، کوئی پروفیسر ہو یا طالب علم، کوئی صحافی ہو، کوئی بڑا یا چھوٹا کاروباری ہو، کوئی بھی فرد ہو، یہاں اس کی زندگانی سیاسی ہوچکی ہے، وہ کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔

مَیں امید کرتی ہوں کہ اُونچے پائیدانوں پر بیٹھے وہ سیاست دان جنھوں نے کشمیریوں سے کسی قسم کی بات چیت اور مشورہ کیے بغیر کشمیر کے لیے بڑے بڑے فیصلے کر دیئے۔ اس نئے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کران کا دل ضرور دُکھے گا کہ کیا وہ کشمیر کے لیے یہی چاہتے تھے؟

جمہوریہ ترکیہ کے جنوب مشرق میں شام کی سرحد سے متصل ۶فروری ۲۰۲۳ءکو آئے زلزلے نے ملک میں قہر مچا دیا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ اس کی زد میں آیا ہے۔ دس صوبوں، قہرمان مارش، حاتائی، عثمانیہ، غازی ان تپ، شانلی عرفہ، دیاربکر، مالاتیہ، کیلس، آدانا اور آدیمان کی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس متاثرہ علاقے کے ایک سرے یعنی آدانا سے دوسرے سرے یعنی دیار بکر یا مالاتیہ تک ۷۰۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔   یہ سارا علاقہ تباہی اور بربادی کی ایک داستان بیان کر رہا ہے۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اتنے بڑے علاقے میں بچائو اور سہارے کے لیے حکومتی اہل کاروں اور رضاکاروں کی ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ان صوبوں کے علاوہ سرحد کی دوسری طرف شام کے پانچ صوبہ لاتیکا، ادلیب، رقہ اور الحکہ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

تین سال قبل جب ترکیہ کی قومی نیو ز ایجنسی انادولو سے دارالحکومت انقرہ میں وابستگی اختیار کی تو مجھے بتایا گیا: ’’ترکیہ میں زلزلے آتے رہنا تو ایک عام سی بات ہے، اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن و تعمیر ایسی ہے کہ یہ ہلتی تو ہیں، مگر گرنے کا احتمال کم ہی ہوتا ہے۔ ترکیہ دوٹیکٹونک پلیٹوں کے بیچ میں واقع ہے اور یہ پلیٹ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں‘‘۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دفتر میں کئی ترک ساتھیوں کو اپنے اہل خانہ یا والدین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔

شانلی عرفہ کے سرحدی سوروج قصبہ میں مقامی صحافی آیان گلدووان مجھے بتا رہے تھے: ’’جب زلزلے کے جھٹکے سے مَیں بیدار ہوا تو پہلے تو مجھے یوں لگا کہ ترکیہ نے شاید شام میں امریکا کے حلیف کرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے اور بمباری ہو رہی ہے۔ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق ۴بج کر ۱۷منٹ پر آیا، جب کہ باہر برف باری ہو رہی تھی۔ آج کل فجر کی اذا ن ۶بج کر ۴۵ منٹ پر ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کے لیے میں بلڈنگ سے باہر نکلا۔ دُور سے تاریخی عرفہ شہر سے گرد و غبار آسمان کی طرف بلند ہوتا دکھا ئی دیا۔زمین کی تھرتھراہٹ ۶۵ سیکنڈ تک جاری رہی اور پندرہ منٹ کے بعد، میں برف باری اور منجمد کرتی سردی سے بچنے کے لیے اپنی بلڈنگ کی طرف جانے لگا۔ اسی دوران ایک اور زلزلہ آگیا اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے اس بلڈنگ کو گرتے دیکھا ، جس میں میرا فلیٹ تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے بے گھر ہوچکا تھا‘‘۔

متمول صوبہ غازی ان تپ، جس کے دارالحکومت کا نام بھی غازی ان تپ ہے، کے نواح میں ایک پہاڑی پر نیوز اینکر اوکتے یالچن کا فلیٹ تھا۔ ان کی بلڈنگ بھی زلزلے کے دوسرے جھٹکے سے گر گئی۔ پہاڑی سے وہ شہر پر آئی قیامت دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہناہے: ’’ہمیں یوں لگا جیسے کوئی ایٹم بم گرادیا گیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ اس زلزلہ کی شدت ۵۰۰میگاٹن ایٹم بم جتنی تھی۔ جاپان کے ہیروشیما شہر پر جو ایٹم بم امریکا نے گرایا تھا اس کی طاقت تو بس ۱۵کلو ٹن تھی۔ زلزلہ تھمنے کے بعد میں شہر کے مرکز کی طرف روانہ ہوا، تو دیکھا کہ شاپنگ مال، کلبس اور ریسٹورنٹس ، جہاں کل رات تک لوگ چمکتی ہوئی بھڑکیلی روشنیوں کے جلو میں ویک اینڈ جشن منا رہے تھے، زمین بوس ہو چکے تھے۔ قہر مان مار ش صوبہ کے دو قصبے پزارجک اور البستان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ زلزلہ کا مرکز یہیں تھا‘‘۔

حاتائی میں ہی انادولو نیوزایجنسی کے ایک اور رپورٹر اپنے مکان کے گرنے سے اپنے خاندان کے ساتھ زندہ ہی ملبے میں دفن ہو گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے:’’ہر طرف اندھیر ا تھا اور  لگتا تھا کہ ہم زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چند گھنٹوں کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ زلزلہ کے مزید جھٹکوں نے دیوار میں شگاف ڈال دیا، جس سے روشنی نظر آنا شروع ہوئی۔ پھر میں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد وہاں پڑی ایک سخت چیز سے اس سوراخ کو بڑا کیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ و ہ آلہ کیا تھا اور کیسے ہاتھ میں آگیا تھا۔ سوراخ تھوڑا بڑا ہوگیا ، تو پہلے اپنے بچوں کو باہر نکالا اور پھر اپنے والدین اور پھر خود اپنی اہلیہ کے ساتھ باہر آگیا۔ ہم دو دن تک خون جمانے والی سردی اور بارش میں بغیر جوتوں کے نائٹ سوٹ پہنے سڑک پر کسی ریسکیو ٹیم کا انتظار کر رہے تھے‘‘۔

 بحیرۂ روم کے ساحل پر حاتائی صوبہ کی بندرگاہ اسکندرون تو آگ کی نذر ہو گئی ۔ یہاں ترکیہ کی قومی بحریہ کا ایک اسٹیشن بھی ہے۔ زلزلہ سے کئی کنٹینر الٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی، کئی روز کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ پڑوس میں آدانا صوبہ میں انجیرلک کے مقام پر ناٹو اور امریکی فوج کی فارورڈ بیس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگر اس کے ایئرپورٹ کو ٹھیک کرکے بھاری طیاروں کے اترنے کے قابل بنا دیا گیا ہے۔

 غازی ان تپ کے دو ہزار سال پرانے تاریخی قلعے نے کئی زمانے دیکھے ،مگر اس زلزلہ کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے اس کی مرمت اور بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کا یہ متاثرہ علاقہ تاریخی لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ شان لی عرفہ کے صوبے میں عرفہ شہر کو فلسطین کی طرح پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کا قدیم نام شہر’ ار‘ ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور ان کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا۔ جس جگہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا وہاں اب ایک خوب صورت تالاب ہے، جس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ یہ حضرت شعیبؑ ، حضرت ایوبؑ اور حضرت الیاس علیہم السلام کا بھی وطن ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کے سات سال یہاں گزارے۔

جمہوریہ ترکیہ میں آفات سے نمٹنے والی ایجنسی AFADدنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور مہارت کی وجہ سے مشہور ہے ۔ مگر یہ تباہی جس بڑے پیمانے پر اور جس وسیع خطے میں آئی ہے،  اس وجہ سے اکیلے یہ بحالیات کرنے والی ایجنسی شاید ہی اس سے نپٹ سکے۔ فی الحال دینا بھر کے نوّے ممالک کی ٹیمیں میدا ن میں ہیں۔ان میں پاکستان اور بھارت کی ریسکیو ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان ریسکیو ٹیم نے آدیمان میں ایک ۱۵ سالہ بچے کو ملبے سے زندہ نکالا، جو یقینا ایک کرشمۂ قدرت ہے۔ اس ٹیم نے اب اس جگہ پر ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا کہ اس کے ایک کارکن نے موہوم آواز میں کسی کو کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سنا ۔انھوں نے دوبارہ آلات نصب کیے، تو معلوم ہو اکہ آواز ملبے سے آرہی ہے۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس بچے کو برآمد کیا گیا، جو منفی درجہ حرارت میں ۱۳۷گھنٹوں تک ملبہ میں دبا رہا ۔ ایسے اَن گنت واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔چونکہ زندہ افراد کے ملبے سے نکلنے کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بڑی متاثرہ آبادی کی آبادکاری اور ان کی متبادل رہایش کا انتظام کرنا، شہروںاور قصبوں کا پورا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا ایک بہت بڑا اور سخت کٹھن کام ہے۔ یاد رہے، عددی اعتبار سے ترکیہ، امریکا کے بعد دُنیابھر میں بیرونِ ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چاہے بنگلہ دیش، میانمار، روہنگیا کے متاثرین ہوں یا افغانی، شامی، جنوبی امریکی اور افریقی آفت زدگان۔ ۲۰۲۱ء میں طیب اردوان کی حکومت نے بیرونِ ملک انسانی امداد کے لیے ۵ء۵ بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔

ترکیہ کا ایک ادارہ ’ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈی نیشن ایجنسی‘ انھی خدمات کے لیے مختص ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی اُمور کی وزارت اور بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد اور زکوٰۃ جمع کرکے دُوردراز ممالک میں ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ اس طرح جمہوریہ ترکیہ کی مجموعی قومی پیداوار کا اعشاریہ ۸۶ فی صد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے، ترکیہ امریکا سے کافی آگے ہے۔ اب آزمایش دیکھیے کہ سخاوت، دریا دلی اور خود داری کے لیے مشہور یہ ملک،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں خود امداد کامستحق ہوگیا ہے۔

ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کے لیے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں، جب کہ اسکائی اسکریپرز، پُر تعیش کثیر منزلہ عمارات، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں، اور ان کو بیچنے کے لیے کئی شہروں میں ہورڈنگس لگی ہوئی تھیں، زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح  زلزلہ کے مرکز قہرمان مارش صوبہ کے پزارجک قصبہ سے صرف ۸۰کلومیٹر دُور ایرزان قصبہ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس کے سبھی مکین مع مکانات صحیح و سلامت ہیں۔

آفت زدہ علاقے کے باسی ابھی تک دہشت زدہ ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۱۹ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید ۳۰ہزار ناقابل رہایش ہوچکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے۔ چونکہ ۱۹۸۰ءسے ہی ترکیہ میں قانونی طور پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے، اس لیے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے۔

۱۹۹۹ء میں ازمت اور استنبول کے آس پاس آئے زلزلے کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کرکے یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی کے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔ حاتائی کے انتاکیا شہر میں جب ایک ۱۲منزلہ عمارت گرنے کی خبر آئی تو اس کے بنانے والے مہمت یاسا ر ملک سے باہر فرار ہو رہے تھے، ان کو استنبول ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا۔ اسی شہر میں بحر روم کے کنارے ایک ۲۵۰  فلیٹوں پر مشتمل سپر لگزری ۲۴منزلہ عمارت ایک ڈویلپر نے بنائی تھی، جس کے ہورڈنگس ملک بھر کے خریداروں کو لبھا رہے تھے۔ یہ عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔

زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کے لیے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے۔ اس کا بڑاثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کے لیے بنائی گئی عمارات ہیں، جو بالکل سلامت کھڑی ہیں۔ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزلے برداشت کر سکتی ہے۔کسی بھی بلڈنگ کو شاک پروف بنانے کے لیے اس کی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر استونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میں آتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے۔

انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انھوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کے لیے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عمل درآمد کروانے میں نرمی برتی ہے۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک ۱۳۱ٹھیکے داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کے خلاف مقدمے درج کیے جائیں گے۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا۔ اس طرح ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے ۲ء۱۹ بلین لیرا اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی ۸۸بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔ ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد جدید آلات لیے عمارتوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں، مَیں رہایش پذیر ہوں ، صرف پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہایش اور سامان کے نقل و حمل کے لیے خرچہ دے کر مسمار شدہ جگہ پر نئی عمارت بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے۔

یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب صدر رجب طیب اردوان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ انھوں نے پہلے ہی ۱۴مئی ۲۰۲۳ء کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ ان زلزلوں کا ایک ضمنی مثبت اثر یہ رہا کہ ترکیہ اور یونان میں مفاہمت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی ہوتے ہوئے بھی یونان نے سب سے پہلے اپنی ریسکیو ٹیموں کو بھیجا اور ان کے وزیر خارجہ نکوس ڈنڈیاس خود اس کی نگرانی کرنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان بارڈر پوسٹ ۳۰سال بعد کھولی گئیں۔ کاش! اسی طرح کی کوئی مفاہمت شام اور ترکیہ کے درمیان بھی ہوتی، تاکہ اس خطے میں امن بحال ہوسکے اور شورش کی وجہ سے ۴۰لاکھ کے قریب بے گھر شامی اپنے گھروں کو جاکر زندگی گزار سکیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی کا کوئی پہلو بھی حکمران جماعت بی جے پی کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آغاز سے نسل پرست بھارتی حکومت، کشمیر کا آبادیاتی تناسب بدل کر کشمیری مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیری ثقافت، زبان، مذہبی شناخت، غرض زندگی کا ہر پہلو نئی دہلی حکومت کی جانب سے منظم حملوں کی زد میں ہے۔

لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کی زمین چھین کر باہر سے آنے والوں کو دی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ خاموش ہیں اور صحافی قید کاٹ رہے ہیں۔ انھیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں،ماورائے عدالت قتل اور حراستی تشدد عام ہے، کل جماعتی حُریت کانفرنس کی ساری قیادت جیل میں ہے، لیکن ہندستانی سرکار کو دُنیابھر میں کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی میں مزید فوجیں بھیج دی گئی ہیں۔

کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔لیکن پھر بھی اس صورتِ حال کے سامنے وہ تمام ممالک، ایک بے حس دیوار کی مانند خاموش ہیں، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علَم بردار کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف ان مظالم کے خلاف پاکستان کی بین الاقوامی مہم کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ہم اپنے اندرونی مسائل میں ہی اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ کشمیر کے مظلوموں کے لیے وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر سے متعلق اسلام آباد کی ساری کوششیں اب صرف اقوام متحدہ کو خط لکھنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔

اگرچہ مقبوضہ وادی کی داستان خونچکاں سات عشروں پر محیط ہے لیکن ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی سرکار کی یک طرفہ کارروائی نے مظالم کا ایک نیا باب شروع کیا ہے، جو کشمیریوں کے خون سے لکھا جا رہا ہے۔ بھارتی سرکار نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کو ہندستان میں ضم کر کے اس کے دو ٹکڑے کیے اور انھیں زبردستی ہندستانی یونین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ساری کارروائی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ قراردادوں کی صریح طور پر خلاف ورزی ہے۔ کشمیر سے متعلق اب تک ۱۱ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں، لیکن خصوصی طور پر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۳۸ قابل ذکر ہے، جس کے پیرا نمبر ۲ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فریق کشمیر کے مادی (material) حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔

اس سب کے باوجود کشمیر میں ایک طویل کرفیو نافذ کر کے مواصلات کا نظام معطل کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت تر ہو گیا، عوامی اجتماعات پر پابندی لگ گئی،میڈیا کو خاموش کروا کر بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں سمیت تمام کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ کشمیری اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر سکیں، جس نے بیک جنبش قلم ان کو تمام تر حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

اس دن سے لے کر آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت، کشمیریوں کو کمزور کرنے، انھیں ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے کئی قسم کی انتظامی، آبادیاتی، اور انتخابی تبدیلیاں کر چکی ہے۔یہ کم و بیش وہی اقدامات ہیں جو مقبوضہ فلسطین کو دبانے کے لیے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں۔ مئی ۲۰۲۲ء میں انڈین حدبندی کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا تھا، جن کے ذریعے جموںو کشمیر اسمبلی میں جموں کو زیادہ نمایندگی دے دی گئی تھی کہ پارلیمنٹ میں مسلم نمایندگی کو کم کر کے ہندو اکثریت حاصل کی جا سکے۔ ۲۰۱۱ء کی آخری مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی آبادی میں ۶۸فی صد سے زائد حصہ مسلمانوں کا ہے، جب کہ ہندو ۲۸ فی صد سے بھی کم ہیں۔ ان نئی حدبندیوں کے ذریعے بھارتی حکومت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔

آبادی کے اس تناسب کو اُلٹ دینے کے لیے نئی دہلی نے شہریت کے نئے قانون بھی متعارف کروائے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کی معطلی کے بعد شہریت کے اہل ہونے والے تقریباً ۳۴ لاکھ ہندستانیوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔  جولائی ۲۰۲۲ء میں مقبوضہ وادی کے چیف الیکشن کمشنر نے تمام شہریوں، حتیٰ کہ عارضی طور پر کشمیر میں رہایش پذیر افراد کو بھی ووٹ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مضحکہ خیز قدم بھی کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے اٹھایا گیا ہے اور اس سے تقریباً ۲۵ لاکھ نئے رائے دہندگان انتخابات کا حصہ بن جائیں گے، جن میں سے اکثر غیر مقامی ہیں۔ یوں رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ۳۰ فی صد بڑھ جائے گی۔ نئی حد بندیوں کی طرح اس جارحانہ قدم نے بھی کشمیریوں کے اندر غم و غصے کو ہوا دی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس اور روایتی طور پر بھارت نواز سمجھے جانے والے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاست دانوں نے بھی ان اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کا کہنا تھا کہ ’’غیر مقامیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ کشمیریوں سے ان کی نمائندگی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ ۔

تاہم، یہ مذمتی بیانات مودی حکومت کو شرم دلانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس حکومت کی سرگرمیاں صرف انتخابی عمل تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے ’وقف بورڈ‘ کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں بورڈ کی تمام املاک بھی سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں۔ یہ سب دراصل اس منظم مہم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے کشمیر میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام مذہبی مقامات پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمان علما اور مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اکثر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر ۲۰۱۹ء میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن اب اس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت لاکھوں روپے مالیت کی جائیدادوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان املاک میں اس عظیم حُریت رہنما سید علی گیلانی کا گھر بھی شامل ہے، جس سے ۲۰۲۱ء میں مناسب تدفین کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔

کشمیری ثقافت پر بی جے پی کے حملوں کا خصوصی نشانہ اُردو زبان بھی بن رہی ہے۔ یہ زبان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک کشمیر کی سرکاری زبان رہی ہے لیکن ۲۰۲۰ء میں نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کے اس استحقاق کو ختم کر کےہندی، کشمیری اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان بنا دیا گیا ہے۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے بدل کر ’دیوناگری‘ کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

            بی جے پی کے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹے جانے، غداری اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری، اور ۲۰۲۰ء کی نئی میڈیا پالیسی کے تحت خوف کی جو فضا پیدا کی گئی ہے، اس کی مذمت کی ہے۔ فروری ۲۰۲۲ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (Human Rights Watch) نے کشمیر میں صحافت پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں، ان کو ہراساں کیے جانے اور ان کو درپیش خطرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI) نے بھی میڈیا کے خلاف سخت کارروائیوں اور آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ’کشمیر پریس کلب‘ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بی جے پی کی حکومت حد سے بڑھے ہوئے مظالم، تبدیلیٔ تناسب آبادی، اور نئی حدبندیوں کے ذریعے ہندو اکثریت کی راہ ہموار کرنے کے بعد انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد اپنے ۲۰۱۹ء کے اقدامات کی توثیق کے علاوہ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر آچکےہیں۔ تاہم اس کی کشمیری رہنماؤں یہاں تک کہ بھارت پسند کشمیری رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ نئی حدبندیوں اور نئے انتخابی قوانین کے خلاف کشمیریوں کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات ہو سکیں گے، اور اگر ہوبھی جائیں تو وہ کیسے معتبر ہوں گے؟ کشمیر میں بھارت کی جابرانہ و منافقانہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان پالیسیوں نے کشمیریوں کے جذبۂ حُریت کو مزید مضبوط کیا ہے اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی نفرت مزید بڑھی ہے۔ ایسے منفی بھارتی اقدامات، مستقبل میں بھی کوئی مختلف نتائج پیدا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے نئی دہلی سرکار کو تاریخ سے لڑنے کے بجائے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

پچھلے ۳۰برسوں کے دوران جموں و کشمیر کی شورش میں ۲۵۰ کے قریب پنڈتوں کی ہلاکت کےلیے ۲۰۲۲ءمیں بنی ایک فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو پوری دنیا میں معتوب و مغضوب بنانے اور مزاحمتی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بعد آخرکار سچ پھوٹ ہی پڑا۔ پچھلے ہفتے جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا نے ہی بھارتی عوام سے اپیل کی کہ ’’خطے میں اقلیتی افراد کی ہلاکت کو مذہب کی عینک سے دیکھنا بند کردیں ، کیونکہ اس شورش زدہ خطے میں دوسری برادریوں [یعنی مسلمانوں]کے لوگ بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں‘‘۔ میڈیا اور دیگر ذرائع کے مطابق۱۵ ہزار ۶سو ۹۶ ؍ افراد اور سرکاری ذرائع کے مطابق ۴۰ہزار افراد ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک کشمیر میں ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد مقامی مسلمانوں کی ہے ۔

اسی دوران خطے کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور ان کے نائب وجے کمار نے سال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سال ۲۰۲۲ء سیکورٹی کے محاذ پر پچھلے چار برسوں کے مقابلے میں پُرامن سال تھا جس میں ۵۶غیر ملکیوں سمیت ۱۸۶ عسکریت پسندوں کو مارا گیا‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ سال ۲۰۲۳ءمیں پولیس کی توجہ دہشت گردی ختم کرنے پر مرکوز ہوگی، یعنی سیاسی جماعتوں اور سویلین آبادی میں مزاحمتی تحریک کے حمایتی یا سرکردہ افراد کو تختۂ مشق بنایا جائے گا ۔ جس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ سنگھ کے مطابق پچھلے سال پولیس نے ۵۵گاڑیاں اور ۴۹ جائیدادیں ضبط کیں، کیونکہ ان کے مالکان علیحدگی پسندی کو شہ دیتے تھے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سال ۲۰۲۲ء میں ۱۰۰ نوجوانوں نے عسکریت میں شمولیت اختیار کی، جن میں سے ۱۷ کو گرفتار کیا گیا اور باقی مختلف مقابلوں میں مارے گئے ۔ اب صرف ۱۸ باقی ہیں ۔ اب اگر ان سے کوئی پوچھے کہ ان ۱۸عسکریت پسندوں سے نپٹنے کےلیے فوج کی دو کورز، نیم فوجی دستوں کی سیکڑوں بٹالین اور پولیس کی ہزاروں کی تعداد میں نفری کی آخر کیاضرورت ہے؟ لیگل فورم فار کشمیر کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں نیم فوجی دستوں کی مزید۳۰۰کمپنیاں اور پھر مئی میں مزید ۱۵۰۰فوجی کشمیر میں تعینات کیے گئے ۔ اس نئی تعیناتی کی بھی پھر کیوں ضرورت پیش آئی؟

اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، کچھ غلط نہیں ہے ۔ مگر یہ قبرستان کی پُراسرار خاموشی جیسی ہے ۔ خود بھار ت کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری یا نااُمیدی؟ آیا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟

’لیگل فورم فار کشمیر‘ کے سال ۲۰۲۲ء کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے دوران خطے میں ۳۱۲ ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں ۱۸۱عسکریت پسند، ۴۵شہری اور ۸۶سیکورٹی کے افراد شامل ہیں ۔ ان ۱۲ماہ کے دوران سیکورٹی دستوں نے ۱۹۹سرچ آپریشن کیے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم کے ۱۱۶واقعات پیش آئے ۔ ان سرچ آپریشنز کے دوران ۲۱۲شہری جائیدادوں کو تختۂ مشق بنایا گیا ۔ اسی طرح سال میں ۱۶۹ بار انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنبیہ کے باوجود جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی میں عسکریت سے نپٹنے کےلیے سویلین ملیشیا ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیا کیا گیا ۔ اس میں ہندو آبادی کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کےلیے اس ملیشیا کے خلاف ۲۱۲ فوجداری مقدمات درج ہیں ۔ حالانکہ ۲۰۱۲ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے سول افراد کو مسلح کرنے اور شورش سے نمٹنے کے لیے انھیں ہراول دفاعی دستوں کے طورپراستعما ل کرنے پر پابندی لگائی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا استدلال تھا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرناحکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے اورسکیورٹی کی نج کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد صادر کیا، جس میں وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک سویلین آرمی ’سلواجدوم‘ کے وجود کوچیلنج کیا گیا تھا ۔ اس آرمی نے شورش سے نمٹنے کے نام پر مقامی آبادی کو ہراساں اور پریشان کر رکھا تھا ۔

لیگل فورم کی رپورٹ کے مطابق ۱۹؍اکتوبر کو سیکورٹی دستوں نے ایک نوجوان عمران بشیر کو شوپیاں علاقہ میں اس کے گاؤں ہرمین سے گرفتار کیا ۔ اس پر عسکریت پسندوں کی معاونت کا الزا م تھا ۔ آج کل سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک ٹرم ’ہائبرڈ ملی ٹنٹ‘ وضع کی ہے، یعنی وہ عسکریت پسند جس کے پاس ہتھیار نہ ہوں ۔ پولیس نے بعد میں بتایا کہ عمران نوگام میں تصادم کے دوران مارا گیا، جو اس کے گھر سے ۱۵کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔ گویا حراست میں لینے کے بعد اس کوہلاک کیا گیا ۔ اسی طرح ۹ جولائی کی صبح کو سرینگر کے ایک رہائشی مسلم منیر لون کو حراست میں لیا گیا ۔ دوپہر کو اس کی لاش اس کی والدہ شفیقہ کے حوالے کی گئی ۔ لیگل فورم کے مطابق اس سال کے دوران سیکورٹی دستوں کا خصوصی نشانہ سویلین جائیدادیں رہیں ۔ بلڈوزروں کا استعمال یا اگر کسی مکان میں کسی عسکریت پسند کی موجودگی کا شک ہو، تو اس کو پوری طرح تباہ کرنا اس نئی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اور جنیوا کنونشن کی کئی دفعات کے تحت سویلین جائیدادوں کو تحفظ حاصل ہے ۔ حریت کانفرنس کے معروف لیڈر شبیر احمد شاہ، جو خود جیل میں ہیں کی رہایش گا ہ کو سیل کردیا گیا ۔ ان کے اہل خانہ کو دس دن کے نوٹس پر مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا ۔ جماعت اسلامی ، جس پر پابندی لگائی گئی ہے، کی جائیدادوں، جن میں اسکول، دفاتر اور اس کے کئی لیڈروں کی رہایش گاہیں شامل ہیں ، کو سیل کر نے کا عمل متواتر جاری ہے ۔

اپریل میں قومی تفتیشی ایجنسی نے ایک اسکالر عبدل اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے اس کے دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر لکھے آرٹیکل کا حوالہ دے کر اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ ایک قابل احترام پروفیسر شیخ شوکت حسین کو یونی ورسٹی سے صرف اس لیے برطرف کیاگیا کیونکہ ۲۰۱۶ء میں انھوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی ۔ جن دیگر اسکالروں کو نوکریوں سے نکالا گیا ان میں ڈاکٹر مبین احمد بٹ اور ڈاکٹر ماجد حسین قادری بھی شامل ہیں۔

عام بھارتیوں کو جموں و کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ڈومیسائل حاصل کرنے کے اختیار سے پیدا شدہ صورت حال سے پریشان سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی چیخ اُٹھی ہیں ۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اوربیگانگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق اب بس صرف ان منتخب شہریوں کو عطا کیے جا رہے ہیں ، جو نئی دہلی حکومت کی صف میں شامل ہیں ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق من مانی طور پر معطل کیے گئے ہیں اور خطے کو الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ سیکڑوں نوجوان جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بند ہیں ۔ ان کی حالت نہایت خراب ہے ۔ فہد شاہ اور سجاد گل جیسے صحافیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قید رکھا گیا ہے ۔

محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی عدلیہ کے رویے کی شکایت کی ہے: ’’میری بیٹی کی طرف سے ۲۰۱۹ء میں دائر کردہ اپنے حبس بے جا کیس میں ، سپریم کورٹ کو میری رہائی کا حکم دینے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا، جب کہ مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا ۔ میری بیٹی التجا کے علاوہ اور میرا پاسپورٹ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک لیا گیا ہے ۔ میں نے یہ مثالیں صرف اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ اگر سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرے اپنے بنیادی حقوق کو اتنی آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے تو آپ کشمیر میں عام لوگوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ‘‘۔

دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ہی ریاست میں جائیداد کی  خرید و فروخت کر سکتے تھے ۔ لیکن اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے ۔ اسی طرح سے صرف مستقل رہایشی ہی جموں وکشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار کے بطور انتخابات لڑسکتے تھے ۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اب کوئی بھی شخص جو کشمیر میں پچھلے ۱۵سال سے مقیم ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد ۱۰سال ہے، جب کہ کسی طالب علم کو سات سال بعد ہی ڈومیسائل مل سکتا ہے ۔ یعنی اگر بھار ت کے کسی بھی خطے کا کوئی طالب علم کشمیر کے کالج یا یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے، تو وہ بھی ڈومیسائل کا حق دار ہوگا ۔

اس سب سے بھارتی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایک بڑا سوال ہے ۔ کشمیر میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ضرور ہیں لیکن بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی پہلے سے ہی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے ۔ کسی سیاسی عمل کی غیر موجودگی میں یا اعتماد بحال کیے بغیر اور عوام کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے سے قبرستان کی خاموشی ہی پیدا کی جاسکتی ہے، امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔

اور یاترائوں کا ہتھیار

بھارت میں کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے نام سے ملک کے انتہائی جنوبی سرے بحر ہند کے ساحل پر کنیا کماری سے جو مارچ ۷ستمبر ۲۰۲۲ء کو شروع کیا تھا، وہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی آخری منزل جموں و کشمیر کا دارالحکومت سرینگر قرار دی گئی ہے۔

۱۹۸۳ءمیں جب پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک عروج پر تھی، تو جنتا پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر نے اسی طرح کنیا کماری سے دہلی تک چھ ماہ تک مارچ کیا۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے اس مارچ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف عوامی ماحول بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی، مگر ان کی ہلاکت نے پانسہ پلٹ دیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی کی قیادت میں ہمدردی کا ووٹ بٹور کر کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔

مگر موجودہ دور میں جس یاترانے بھارتی سیاست پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں بی جے پی کے لیڈر لال کشن ایڈوانی کی ”رتھ یاترا“ہے، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوتوا نظریہ کے احیا کے لیے شروع کی گئی تھی۔ دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ایڈوانی کے لیے ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ رتھ تیار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی مسماری،بی جے پی کا سیاسی عروج اور اس کا اقتدار تک پہنچنا اسی یاترا کا ’پھل‘ ہے۔

ایڈوانی کی اس یاترا کے بعد ان کے جانشین مرلی منوہر جوشی نے ۱۹۹۱ء میں ’ایکتا یاترا‘ کے نام سے کنیا کماری سے کشمیر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس یاترا کے منتظم نریندر مودی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ’رتھ یاترا‘ کی وجہ سے ایڈوانی اور اس کے منتظم پر مودمہاجن کا پروفائل کافی اُونچا ہوگیا تھا، اس لیے پارٹی کی اندرونی چپقلش کے شاخسانہ کے بطور جوشی اور مودی نے بالترتیب ایڈوانی اور مہاجن کے قد کی برابری کرنے کے لیے یہ یاتراترتیب دی تھی۔ اس سفر کے دوران جوشی دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’میرے پاس کشمیر ی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے زیادہ رضا کار ہیں اور میں ان سب کے ساتھ سرینگر کے لال چوک میں بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی ۲۶ جنوری، ۱۹۹۳ءکو قومی پرچم ترنگا لہرائوں گا‘‘۔ مگر جب وہ سرینگر پہنچے، تو ان کے ساتھ صرف ۶۷کارکنان ہی تھے، اور تقریب بھی بس ۱۲منٹ میں ختم کرنی پڑی۔ زمینی سفر کے بجائے جوشی اور ان کے رفقا جموں سے ایر فورس کے اے این ۳۲  طیارہ میں رات کے اندھیرے میں سرینگر پہنچے اور ان کو ایر پورٹ کے پاس ہی بارڈر سیکورٹی فورس کے میس میں ٹھیرایا گیا۔

اس سے دو دن قبل یعنی ۲۴جنوری [۱۹۹۳ء] کو سرینگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں جب اس یاترا کے انتظام کے حوالے سے پولیس سربراہ جے این سکسینہ دیگر حکام کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، تو اسی کمرے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔ سکسینہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ۲۳جنوری کو پنجاب سے گزرتے ہوئے اس قافلہ پر حملہ ہوا، جس سے جموں تک پہنچتے پہنچے اس یاترا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ گورنر گریش چند سکسینہ نے بی جے پی کے لیڈروں کو بتایا کہ اگر وہ بذریعہ سڑک کشمیر جانے پر بضد ہیں، تو و ہ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں اورپوری قومی شاہراہ کو فوج کے حوالے کر سکتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگلے روز ادھم پور سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بی ایل نمیش نے شاہرائوں پر لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ بیان کرکے قافلے کو روک دیا اور اس یاترا کے منتظم مودی نے شامل افراد کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر راجستھان کے ایک ممبر اسمبلی تارا بھنڈاری اس قدر بدکے کہ انھوں نے الزام لگایا کہ ’’ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور آخر اس جگہ تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

 شمالی بھارت کے اکثر شہروں میں اس یاترا کی رپرٹنگ کرتے ہوئے مجھے ادراک ہوا کہ شاید ہی کسی کو پتہ تھا کہ اس کا موضوع کشمیر ہے، اکثر افراد اس کو رام مندر تحریک کا ہی ایک جز تصور کر رہے تھے۔انتہائی سیکورٹی کے درمیان جب جوشی کا قافلہ سرینگر کے لال چوک میں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ جو جھنڈا کنیا کماری سے بطور خاص اس جگہ پر نصب کرنے کے لیے ساتھ تھا، وہ جموں میں بھول گئے یا پھر طیارہ میں ہی رہ گیا ہے۔ خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا، مگر وہ اس کو لگا نہیں پارہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھورانہ نے لقمہ دیا کہ ’’عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں‘‘۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انھوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔

راہول گاندھی کی یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہول گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے میں نرم ہندو توا کے علَم بردار بن گئے تھے۔ اس لیے ان کو بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم سے بھی تشبیہہ دی جاتی تھی۔ مگر اس مارچ کے دوران پارٹی کواَز سرِ نو منظم کرنے کے علاوہ راہول نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ’ہندوتوا‘ نظریے کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔

بی جے پی ۲۰۲۳ء میں بھارت کی گروپ ۲۰ممالک یعنی جی ۲۰کی صدارت، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اسکو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنے کو اہم انتخابی موضوع بنارہی ہے۔اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر  ذمہ داروں نے بھی راہول گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمران اور اس کے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت ان کی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتخابات تک آئے دن ہندوؤں کو یاد دلایا جائے گا کہ ’’اس ملک کو مسلمان حملہ آوروں نے زخم لگائے ہیں‘‘، پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہوں گے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائیں۔

؍اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت نے کشمیر کی نیم خودمختاری کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ساڑھے تین سال بعد وہاں رہنے والے کہتے ہیں کہ احتجاج تو دُور کی بات ہے، لوگ آپس میں کھل کر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

کچھ عرصے سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیر سے خبریں تو آرہی ہیں، لیکن ذرا مختلف نوعیت کی۔ سڑکوں پر احتجاج یا کوئی سیاسی سرگرمی بھی نہیں ہے۔ کیا کشمیر میں واقعی سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے؟

ہم نے ایک نوجوان کشمیری خاتون سے بات کی جن کا کہنا کچھ یہ تھا:

’’گھر پربھی اگرہم لوگ ڈنر کر رہے ہوں گے تو لوگ بولتے ہیں کہ بات نہ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ فون ٹیپ ہورہا ہو۔ایسا اتنا سائیکالوجیکلی ہوگیا ہے کہ اگر کوئی راستے میں بھی ہو تو لوگ دھیمی دھیمی آواز میں بات کر تے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہیں۔ بھارتی حکومت بہت مختلف طریقے سے لوگوں کی آواز کو دبا رہی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوگا تو ہارڈ اپروچ تھی۔ یعنی گنز ہوں گی، پیلٹ گنز ہوں گی، تشدد ہوگا اور راستوں پر تصادم ہوگا مگر اب بہت کچھ تبدیل گیا ہے۔ بہت سی ویب سائٹس جو کشمیر کے بارے میں بات کرتی ہیں وہ کشمیر میں نہیں چلتی ہیں۔ سوشل میڈیا اکائونٹس معطل ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کرنا ’نرم جبر‘ (Soft Violence)  کا طریقہ ہے، جہاں پر ہم لوگوں کو مار تو نہیں رہے، لیکن چھوٹے چھوٹے طریقوں سے لوگوں کو ہراس زدہ کر رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر کچھ لکھیں گے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی الزام کے تحت انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح [احتجاج کرنے والے] لوگوں کو اُٹھا کر لے جائیں گے اور ان کی تفتیش کریں گے۔ یعنی دھیرے دھیرے وہ ماحول بن رہا ہے جہاں لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اگر اپنی زندگی بچانی ہے تو پھر بات کم کرنی ہے‘‘۔

گویا کشمیر میں خوف کے ماحول کا تاثر ملتا ہے۔ اس بارے میں جب ہم نے عام کشمیریوں سے بات کرنی چاہی تو لوگوں نے کیمرے پر آکر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ نے لکھ کر ہمیں اپنے تاثرات بھیجے۔ایک نوجوان کشمیری خاتون نے لکھا: ’’کشمیریوں کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ انھیں بات کرنے کی، خطے میں خلاف ورزی کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ لوگوں کو [عبرت کی] مثال بناکر سب کو خاموش کر دیا گیا ہے‘‘۔ایک اور نے بتایا:’’لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تووہ گرفتار ہوجاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر ہی نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اُس تک میں خوف گھلا ہوا ہے‘‘۔

ایک نوجوان کشمیری نے بتایا: ’’صرف کشمیر ہی نہیں، مجھے لگتاہے کہ انڈیا بھی اس خاموشی سے سراسیمہ (کنفیوژ) ہے۔ پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری ہے یا پھر وسیع نااُمیدی‘‘۔

اگر ہم سول سوسائٹی ، ہیومن رائٹس کے فعال علَم برداروں اور صحافیوں کے خلاف ریاستی کارروائیوں، نظربندیوں اور گرفتاریوں کی تعداد دیکھیں تو شاید اس خوف اور خاموشی کی وجوہ واضح ہوجائیں گی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک کشمیر میں کم از کم ۲۷صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون کے ۶۰ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اگست ۲۰۲۲ء تک ان تین برسوں میں غیرقانونی نظربندی کے خلاف پٹیشنوں میں ۳۲فی صد اضافہ ہوا ہے اور ان مقدمات میں یو اے پی اے اور پی ایس اے جیسے متنازع قوانین کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔

اس بڑی تعداد میں آصف سلطان اور فہد شاہ جیسے صحافی اور خرم پرویز [اور محمداحسن انتو] جیسے انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں جو طویل عرصے سے نظربند ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی  نقل و حرکت پر پابندیوں کی خبریں بھی ہیں جیساکہ پلئرز پرائز جیتنے والی فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو ہیں، جنھیں ویزا اور ٹکٹ رکھنے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات نے ایک خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔

کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر اور تجزیہ کار انورادھا بھسین کا کہنا ہے: حکومت کی سرویلنس (خفیہ نگرانی) کی اَپروچ ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ ڈر اور خوف کا ایک ایسا ماحول ہے کہ ہم پر نظر رکھی جارہی ہے۔ کئی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو کئی بار ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ انھیں کئی طریقوں سے خوف زدہ کیا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، گرفتار بھی ہوئے ہیں، کریمنل مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں اور ان کے علاوہ کبھی فون کال کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے، کبھی طلب کیا جاتا اور باقاعدہ ایک انٹروگیشن ہوتی ہے۔ وہاں پر ایک ڈر اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے اور لوگ کچھ نہیں بول پارہے ہیں‘‘۔

کشمیر میں اس وقت غیر یقینی کیفیت اور پریشانی کی ایک وجہ شاید بدلتے ہوئے قوانین بھی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی طور پر غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔

تین اہم قوانین جن کے بارے میں خدشات ہیں کہ وہ وادی کا پورا لینڈاسکیپ (منظرنامہ) بدل دیں گے:l جائیداد کی خریدوفروخت: آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہایشی جائیداد کی خریدوفروخت کرسکتے تھے۔ اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں پر جائیداد خرید سکتا ہے۔l  ووٹنگ اور سیاسی اُمیدوار بننے کا حق:آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے صرف مستقل رہایشی جموں و کشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں انتخابات میں اُمیدوار بن سکتے تھے۔ اب یہ پابندی ختم ہوگئی ہے۔l  ڈومیسائل کا حق: عشروں سے اس خطے میں ڈومیسائل صرف مقامی لوگوں کو مل سکتا تھا۔ اب کوئی بھی شخص جو یہاں ۱۵سال سے رہ رہا ہو اسے ڈومیسائل مل سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد کم ہوکر ۱۰سال ہوجاتی ہے، جب کہ ہائی اسکول کے طالب علموں کے لیے یہ مدت سات سال ہے۔ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں باہر سے آنے والے لوگوں کو یہ حق حاصل ہوگا اور یہ وادی کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔

بھارتی حکومت کہتی ہے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے دراصل کشمیریوں کو فائدہ ہورہا ہے۔جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے ہیں: ’’میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ جس مقصد سے آرٹیکل ۳۷۰ ہٹایا گیا ہے، ان تین برسوں میں وہ مقصد کافی حد تک پورا ہوگیا ہے۔ اب کئی ملکی قوانین جموں کشمیر پر بھی لاگو ہوں گے۔ یہ ۸۹۰ کے لگ بھگ قوانین ہیں جو جموں کشمیر پر لاگو ہوگئے ہیں‘‘۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ایک کشمیری سیاسی پارٹی ہے، جو اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی تھی۔ موہت بھان ، ترجمان پی ڈی پی کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے لوگ ایک صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لوکل انتظامیہ یا مرکزی حکومت کے جو فیصلے آرہے ہیں، لوگ اس پر رِدعمل کا اظہار ہی نہیں کر رہے۔ لوگوں کے اندر جمہوری نظام پہ    عدم اطمینان ہے، اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ وہ اس پر کوئی بات کریں۔ لوگوں کا بھروسا اس قدر ٹوٹ چکا ہے اور اندر اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ا نھیں اگر ہمیں کچلنا ہی ہے تو پھر کچلنے دو‘‘۔

آخر اس سب کچھ سے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟

انورادھا بھسین کہتی ہیں: ’’بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا صرف جغرافیہ کو تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار اور بے بس کرنا ہے۔ اس لیے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں، چاہے وہ ووٹ دینے کا حق ہو، یعنی آپ جن لوگوں کو باہر سے لارہے ہیں، اور ان کو ووٹ کا حق دے رہے ہیں، ان کو وہاں کا ڈومیسائل دے رہے ہیں، یا پھر مقامی علاقائی جماعتوں کو جس طرح سے سائیڈ لائن کیا جارہا ہے اور ان کے لیے مختلف طریقوں سے جگہ کو کم کیاجارہا ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہاں کے لوگ ایسی تبدیلیوں سے خوش نہیں ہیں اور اگر خوش نہیں ہیں تو پھر احتجاج کے لیے باہر کیوں نہیں نکل رہے؟ وہ اس لیے باہر نہیں نکل رہے کہ ڈر اور خوف کا ایک ماحول پیدا کیا ہوا ہے، الگ الگ طریقوں سے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے‘‘۔

مگر بھارتی حکومت کہتی ہے کہ ’’کشمیر میں خاموشی دراصل امن کی وجہ سے ہے‘‘۔ لیکن کشمیر میں ایک واضح تاثر یہ ملتا ہے کہ بھارت اور کشمیریوں کے درمیان اعتماد کا جو فقدان عشروں سے چلا آرہا ہے، وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے اور کشمیری ہونا اگر پہلے مشکل تھا تو اب بھی آسان نہیں۔