ایران اور امریکا نے حالیہ دنوں میں طے پانے والے ایک پیچیدہ معاہدے کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدی شہریوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاہدے پر یہ اتفاق رائے دونوں ملکوں کے درمیان بالواسطہ (indirect) مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ جس کے تحت تہران کو امریکی ایما پر منجمد کیے جانے والے چھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں تک دوبارہ رسائی ملنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ امریکا اور ایران اپنی سطح پر محدود مقاصد کے حامل’ قیدیوں کے معاہدے‘ کو تبدیلی کے ایک بڑے قدم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
معاہدے کی خبر شائع ہوتے ہی تہران میں قید پانچ امریکی شہریوں کو ’ایون جیل‘ سے نکال کر نامعلوم مقام پر ہوٹل کے الگ الگ کمروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد ہوٹل میں نظربند کیے جانے والوں میں تاجر صیامک نمازی، عماد شرجی اور ماہر ماحولیات مرادطہباز شامل ہیں، جو برطانوی شہری بھی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں قید ایرانیوں کو بھی رہائی کا پروانہ جلد ملنے والا ہے۔
اس پیش رفت کے باوجود ایران پر امریکی پابندیاں اور فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پہلے کی طرح برقرار ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے ۲۰۱۵ء میں امریکا اور ایران کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے پر نظرثانی کے لیے بنیادی کام قرار دے رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے دُور رس نتائج کا حامل کوئی نیا معاہدہ سامنے آنے والا ہے؟ کیا یہ معاہدہ دیرینہ دشمن ملک سے تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟
یاد رہے ’قیدیوں کا معاہدہ ‘ تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج کے علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں طے پایا۔خلیج میں تجارتی جہازوں کی نقل وحمل کی نگرانی کے لیے امریکا نے اپنے ہزاروں فوجی خطے میں تعینات کر رکھے ہیں، تاکہ ایران کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
ایران کو قطر اور عمان جیسے اہم علاقائی ملکوں کا اعتماد بھی حاصل ہے، جو منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی کے لیے بطور چینل استعمال ہوں گے۔ ایران کو روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔سعودی عرب کے ساتھ ایران کے دیرینہ کشیدہ تعلقات، چین کی ثالثی کے بعد کافی حد تک معمول پر آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے مستقل سفارتی رابطے کو یقینی بنا لیا ہے۔
تاہم، امریکی وزیرخارجہ اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں:’’امریکا میں ایران کے غیر منجمد اثاثوں کو صرف انسانی ضروریات یعنی ادویہ اور خوراک کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ حالانکہ ادویہ اور خوراک کی خریداری پہلے بھی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ تھی۔
اس صورت حال کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان ۲۰۱۵ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا امکان پیدا ہوا ہے، تاہم امریکی حکومت ردعمل اور خجالت کے ڈر سے بار بار اس امر کی تردید کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے بقول: ’جوہری معاہدے کی طرف واپسی یا اس سے متعلق مذاکرات نہ امریکا کی ترجیح ہیں اور نہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کی شرائط میں یہ بات شامل تھی۔‘
تہران نے ’مشترکہ جامع منصوبۂ عمل معاہدے‘ کے تحت اس شرط پر جوہری پروگرام میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ ’’اگر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں‘‘۔ مگر ۲۰۱۸ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اگرچہ اُن کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی تو ظاہر کی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقوں کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق لائحہ عمل میں کچھ دوسرے ملک بھی ملوث ہیں۔ معاہدے کے لیے کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو جاری تھی، لیکن اسی دوران میں تہران نے ایک اور امریکی شہری کو یرغمال بنا کر واشنگٹن کا اعتماد مجروح کیا۔
اس پیش رفت نے امریکا کو تذبدب کا شکار کر دیا کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے ذریعے تہران کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ تہران منجمد اثاثے واپس ملنے کے بعد انھیں ’سپاہ پاسداران انقلاب‘ کے لیے ہتھیار خریدنے میں استعمال کرے گا، جس سے خطے میں تہران کے خفیہ پروگراموں کو قوت ملے گی۔
دوسری جانب امریکا کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دراصل علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا کو کم کرنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ کسی بڑی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے۔ایران کو اپنی معیشت بچانا تھی اور امریکا کو جنگ سے گریز کی پالیسی میں عافیت دکھائی دیتی تھی۔ ایران نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، تو اس کے بعد تہران کے پاس امریکا کے ساتھ مذکرات سے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔
امریکی جاسوس دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کی ایران دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت ایرانی ہوٹل میں نظر بند امریکی شہریوں میں کتنے جاسوس ہیں یا نہیں؟ اس بحث میں اُلجھے بغیر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے روس، ایران اور چین کو کئی برسوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔
ماضی میں بھی حکومتی تبدیلی کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تہران مشتبہ غیرملکیوں کو ’یرغمال‘ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے۔ ایران کے پانچ شہری بھی امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ سی آئی اے کا الزام ہے کہ ان گرفتار ایرانیوں نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
ایران سے ’جوہری معاہدے‘ کو معطل کر کے امریکا نے ایران پر جن پابندیوں کا دوبارہ احیا کروایا، امریکی فہم کے مطابق آج تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ دُنیا کے سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران کی پالیسیاں جوں کی توں برقرار ہیں اور ان پابندیوں نے ساڑھے آٹھ کروڑ ایرانیوں کو گوناگوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔
قیدیوں کی رہائی اور ’جوہری معاہدے‘ سے متعلق مذاکرات کا آغاز حالیہ دنوں میں طے پانے والے ’قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ‘ کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ ہے، جس پر اذیت پسند امریکا نے تہران پر اپنی اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کر کے ایران کی خوش گمانی کو ایک مرتبہ پھر گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔
نائیجر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ملک ہے اور سرکاری طور پر اس کا نام جمہوریہ نائیجر ہے۔ مغربی افریقہ میں واقع اس ملک کا نام اسی سرزمین پر بہنے والے دریائے نائیجر کی نسبت سے رکھا گیاہے ۔ملک کے جنوب میں نائجیریا اور بنین ،مغرب میں بورکینا فاسو اور مالی، شمال میں الجزائر اور لیبیا، جب کہ اس کی مشرقی سرحد پر چاڈ واقع ہے ۔
نائیجر کا کُل رقبہ ۱۲ لاکھ ۷۰ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مغربی افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک ہے۔۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۲ کروڑ ۵۰لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اور بیش تر آبادی ملک کے انتہائی جنوبی اور مغربی علاقوں میں آباد ہے۔ دارالحکومت نیامی ہی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ دریائے نائیجر کے مشرقی کنارے پر ملک کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔آبادی کی غالب ترین اکثریت مسلمان ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملکی آبادی کے ۹۹ء۳ فی صد کا مذہب اسلام ہے ۔
نائیجر میں اسلام کب آیا؟ اس کے بارے میں مؤرخین کی رائے مختلف ہے ۔کچھ مؤرخین کے نزدیک اس علاقے میں اسلام بالکل ابتدائی دور میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ کے ہاتھوں پہنچا تھا ، اور مؤرخ عبد اللہ بن فودیو کی کتاب بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے ۔ بعض مؤرخین اس کی نسبت حضرت عقبہ بن نافعؓ کی طرف کرتے ہیں، جو ۶۶۶ء میں اس علاقے میں تشریف لائے تھے۔ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت عقبہ بن نافعؓ براعظم افریقہ کے اس گریٹ صحارا ریگستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور جنوب کی طرف فتوحات کرتے شہر’ کعوار‘ تک جاپہنچے اور اسے بھی فتح کیا۔ انھوں نے ریگستان کے جنوب میں واقع تقریباً تمام قابلِ ذکر شہر فتح کرلیے تھے۔ آج کل ’کعوار‘ کا علاقہ نائیجر اور لیبیا کی سرحد پر ملک کی شمال مشرقی سمت میں واقع ہے ۔اس روایت کے مطابق اسلام نائیجر اور اس کے اطراف میں واقع دیگر علاقوں میں اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی زمانے یعنی پہلی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکا تھا ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بحیرۂ چاڈ کے کنارے اور ملک کے مشرق میں رہنے والوں نے پہلے پہل اسلام قبول کیا ۔اور ان میں دین حق کی روشنی پہنچانے کا شرف ان مسلمان عرب تاجروں کو حاصل ہے جو نائیجر کے ساتھ تجارتی تعلقات اوربندھنوں میں جڑے ہوئے تھے اور انھی کے توسط سے علاقے میں عربی زبان بھی عام ہوئی۔ بعد ازاں مملکت غانا کے خاتمے کے بعد یہاں مرابطین کی حکمرانی رہی۔ غربی نائیجر کا علاقہ مالی کی اسلامی مملکت کے تابع بھی رہا اور اس کے بعد یہ علاقہ سنغی حکومت کے تابع تھا جو شمالی نائیجر میں اجادیس (شہر) تک پھیلی ہوئی تھی۔
نائیجر کا مغربی سامراجیوں سے ۱۸۹۹ء میں اس وقت واسطہ پڑا، جب فرانس نے اس علاقے پر فوجی حملہ کیا۔ اس حملے میں فرانسیسی فوجوں کو مقامی مجاہدین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہا اور وہ علاقے میں قدم نہ جماسکیں۔ پے درپے حملوں کے بعد فرانس کو ان افریقی ممالک میں اسی وقت قدم جمانے میں کامیابی حاصل ہوئی جب ۱۹۲۲ء میں علاقے میں شدید قحط اور خشک سالی کا دور آیا اور صحرا نشین لوگوں کی مزاحمت اس کے آگے بے بس ہوگئی ۔یوں نائیجر بھی مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فرانسیسی مقبوضات کا حصہ بن گیا ۔
۱۹۴۶ءمیں نائیجر کو فرانس کا حصہ بناکر یہاں کے لوگوں کو فرانسیسی شہریت دی گئی۔ان کے لیے مقامی پارلیمنٹ بنائی گئی جس کے نمایندوں کو ایک خاص تناسب کے مطابق فرانسیسی پارلیمنٹ میں بھی نمایندگی دی گئی تھی ۔۱۹۵۶ء میں جب فرانس نے اپنے بعض قوانین میں تبدیلی و ترمیم کی تو افریقی مقبوضات میں سے کچھ علاقوں کو فرانسیسی قوانین کے اندر رہتے ہوئے داخلی خود مختاری حاصل ہوگئی۔
۱۹۵۸ء میں نائیجر نام کی حد تک رسمی طور پر فرانس سے علیحدہ ہوگیا، تاہم ۱۹۶۰ء میں مکمل طور پر اس کی آزادی کو تسلیم کرلیا گیا ۔تحریک آزادی کے رہنما حمانی دیوری یہاں کے پہلے سربراہ بنے۔ تاہم، ان کے عہد حکومت کو بےتحاشا کرپشن کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۴ء میں ایک فوجی انقلاب کے نتیجے میں حمانی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انقلابی جرنیل سانی کونتشیہ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وہ ۱۹۸۷ء میں اپنی وفات تک ملک کی سربراہی کرتے رہے ۔ ان کی وفات کے بعد علی سیبو نے نائیجر کی سربراہی سنبھالی اور نائیجر کی دوسری جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا۔اپنے دور میں ان کی کوشش رہی کہ ملک کو ایک پارٹی سسٹم کے تحت چلایا جائے۔ لیکن انھیں عوامی مطالبات کے آگے جھکنا پڑا اور ملک میں نئے سرے سے جمہوری دور کا آغاز ہوا ۔
۱۹۹۳ء میں پہلے کثیر جماعتی انتخابات میں ماھمان عثمان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کا عرصۂ اقتدار زیادہ عرصہ نہیں رہا اور ۱۹۹۶ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور ابراہیم مناصرہ نئے فوجی صدر بنے۔ تاہم، ان کی حکومت کو ملک کے سیاسی حلقوں میں پذیرائی نہ مل سکی۔
۱۹۹۹ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں ابراہیم مناصرہ قتل کردئیے گئے اور نئی عبوری حکومت تشکیل دی گئی ۔ملک میں یہ تیسرا فوجی انقلاب تھا، جسے خونی انقلاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں فوجی سربراۂ مملکت ابراہیم مناصرۃ قتل کردئیے گئے تھے۔حالانکہ اس سے قبل کسی فوجی انقلاب کے نتیجے میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا تھا ۔
اسی سال ملک کا نیا دستور منظور ہوا اور نئی جمہوری حکومت مامادو تانجا کی زیر قیادت تشکیل پائی۔ اس دور میں سیاست دانوں کے درمیان اختلاف رہا کہ شریعت اسلامیہ کو ملکی دستور اور قانون کی اساس ہونا چاہیے یا نہیں ؟
۲۰۰۴ء میں ملک میں نئے انتخابات ہوئے جن میں ایک بار پھر مامادو تانجا دوسری مدت صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دسمبر۲۰۰۹ء میں آئینی طور پراپنی مدت صدارت کی تکمیل پر وہ عہدۂ صدارت چھوڑ دیتے لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی تیسری مدت صدارت کے لیے بھی دستور میں گنجایش نکالی جائے۔ لیکن فروری ۲۰۱۰ء میں ان کی حکومت ملک کے چوتھے فوجی انقلاب کے نتیجے میں ڈھیر ہوگئی ۔
نئی فوجی حکومت نے عبوری فوجی کونسل بنائی ،دستور پر عمل درآمد کو معطل کیا، مملکت کے تمام آئینی ادارے تحلیل کردئیے گئے اور نعرہ یہ لگایا کہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں ۔عملاً ایک نیا دستور وضع کیاگیا جس میں صدر کے بہت سے اختیارات کو سلب کرلیا گیا۔ نئے دستور کی روشنی میں ۳۱جنوری ۲۰۱۱ء کو ملک میں نئے صدارتی انتخابات ہوئے اور دوسری بار کے انتخاب میں محمدایسوفو کامیاب ہوکر ملک کے نئے صدر بنے۔
۲۰ مارچ ۲۰۱۶ء کو محمد ایسوفو دوسری مدت صدارت کے لیے پھر منتخب ہوگئے اگرچہ ملک اس وقت شدید سیاسی اختلافات کا شکار تھا اور کئی سیاسی پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرچکی تھیں۔ ملک بدامنی کا بھی شکار ہوچکا تھا اور مسلح حملوں کا سامنا کررہا تھا ۔تاہم، ان کی دوسری مدت صدارت اس لحاظ سے کچھ کامیاب کہلاسکتی ہے کہ ان کے اس عہد ِحکومت میں خط ِغربت سے نیچے رہنے والی آبادی کی شرح ۵۰٪ فی صد سے گھٹ کر ۴۱ فی صد رہ گئی تھی ۔
۲۱فروری ۲۰۲۱ء کے صدارتی الیکشن میں اقلیتی عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے محمد بازوم ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں قبائلی عصبیتیں عروج پر ہوں ایک اقلیتی قبیلے کے فرد کا صدر منتخب ہوجانا انہونی بات ہے۔ تاہم، خوشی کا یہ عالم زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور ۲۶ جولائی ۲۰۲۳ء کو ایک نیا فوجی انقلاب صدارتی محل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ صدارتی محافظوں نے اپنے ہی صدر کو یرغمال بناکر ایک بار پھر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حالیہ فوجی بغاوت کا آغاز اگرچہ صدارتی محل کے گارڈز نے کیا تھا، تاہم اب ملک کی بَری اور فضائی اور ساری فوج ایک ہی پیج پر آچکی ہے۔
مغربی ممالک نے اس فوجی بغاوت کو یکسر مسترد کر ہوئے نظر بند صدرمحمد با زوم کی فوری رہائی اور دستور کی مکمل بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکواس ممالک (اکنامک گروپ برائے مغربی افریقی ممالک) نے جس کی سربراہی اس وقت پڑوسی ملک نائجیریا کے پاس ہے ،یورپین یونین اور فرانس اس کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں ،نئی فوجی قیادت کو بیرکوں میں واپسی کے لیے ۱۵ دن کی مہلت دی ہے۔ نائیجر کےہمسایہ ایکواس ممالک نے گذشتہ اتوار کو اپنے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ نائیجر میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی انقلاب کی پسپائی اور منتخب مگر تاحال نظر بند صدر محمد بازوم کے اقتدار کی اَز سر نو بحالی کو بہرصورت ممکن بنایا جائے گا، خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں فوجی مداخلت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ مغربی ممالک نے نئی انتظامیہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ دوسری طرف ایکواس ممالک کی سربراہی کرنے والے ہمسایہ ملک نائجیریا نے بجلی کی سپلائی بند کردی ہے ۔
مغرب کی نائیجر میں دلچسپی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ غریب مسلم ملک کسی وقت فرانسیسی کالونی رہا ہے ۔دوسرے، یہ علاقہ قیمتی معدنیات سے مالامال ہے۔نائیجر افریقہ کا یورینیم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ملک کا ۳۵ فی صد یورینیم فرانس کو برآمد کیا جاتا ہے، جس سے فرانس اپنی توانائی کی ۷۵ فی صد ضروریات کی تکمیل کرتا ہے ۔بدلے میں فرانس اس غریب افریقی ملک کو کیا دیتا ہے ؟محض ۱۵۰ ملین یورو سالانہ۔قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کا شمار براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
بحر اطلس پر واقع یورپی ممالک کے لیے نائیجیر کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اس کے ہمسایہ ملک نائیجیریا سے نکلنے والی زیر تعمیر گیس پائپ لائن، نائجیر سے گزر کر ہی شمالی افریقہ اور پھر یورپی ممالک تک گیس کی سپلائی یقینی بنائے گی۔
اپنے مذکورہ مفادات کے تحفظ کے لیے اور علاقے میں بوکو حرام اور دیگر مسلح گروپس کے مقابلے کے لیے مغربی ممالک نے نائیجر میں اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں ۔اس وقت نائیجر میں فرانسیسی فوجی اڈوں کی تعداد چار ہے، جن میں ہزاروں فوجی تعینات ہیں ۔ علاقے میں نیٹو افواج کا ہیڈ کوارٹر بھی نائیجر ہی میں واقع ہے ۔ علاوہ ازیں امریکا سے باہر امریکی ڈرونز کا سب سے بڑا اڈا بھی نائیجر ہی میں واقع ہے اور اس کی منتخب فوج کی اسپیشل یونٹ بھی نائیجر کے شہر اکا دیش میں تعینات ہے ۔نائیجر کے علاوہ ہمسایہ ممالک، مالی، چاڈ، موریطانیہ، برکینا فاسو میں بھی جگہ جگہ امریکی، فرانسیسی اور جرمن فوجی اڈے قائم ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتاہے کہ نائیجر سمیت پورا غربی افریقہ ایک بار پھر مغربی سامراجی قبضے کا شکار ہوچکا ہے ۔
دیکھیے نائیجر کے تازہ ترین فوجی انقلاب کے بعد علاقے کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اور بدلتے حالات میں کیا غریب نائیجر مسلمانوں کے لیے بھی خوشی اور راحت کا کوئی پیغام پوشیدہ ہےیا نہیں ؟
کشمیر کی جنت نظیر وادی اپنی بے پناہ خوب صورتی کے نیچے کئی المیوں کو چھپائے ہوئے ہے۔ انسانی مصائب، منظم ظلم و جور اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی، اس خطے کی پہچان بن چکے ہیں، اور اس ہر دم بڑھتے ہوئے بحران کی بازگشت بین الاقوامی برادری کے درمیان فقط سرگوشیوں کی صورت سنائی دے رہی ہے۔
کشمیریوں سے دُنیا کی لاتعلقی پریشان کن ہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امن اور استحکام براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری اس تنازعے کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے، ایک طرف ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار صورت حال کی بھیانک منظر کشی کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ۸ہزارکشمیری جبری طور پر لاپتا،جب کہ ۶۰ ہزار سے زائد ریاستی حراست میں یا کوچہ و بازار کے اندر شہید کیے جا چکے ہیں۔ ان خوفناک اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے بھی بین الاقوامی برادری کا ردعمل گونگے، بہرے اور اندھوں جیسا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں عالمی طاقتوں کی بے حسی تلے دب کر فراموش ہو چکی ہیں۔ ان میں قرارداد نمبر ۴۷ بھی شامل ہے، جو کشمیر میں استصواب رائے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ حق خودارادیت بنیادی انسانی حقوق کااہم ترین جزو ہے اور اس کے بغیر ایک پُرامن، منصفانہ اور جمہوری اصولوں پر مبنی عالمی نظام کا قیام ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ اصول کشمیریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کا فیصلہ خود کریں اوراسی کے مطابق اپنی سماجی، معاشی اور ثقافتی بہبود کے لیے کام سرانجام دیں۔
گذشتہ کئی عشروں سے یہ جنت ارضی، کشمیریوں کی نسل کشی، جبری قبضے اور زبردستی آبادکاری جیسے مسائل کو برداشت کر رہی ہے، جو دنیا کی اخلاقی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں سے صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کو معاشی طور پر بے دست و پا کرنے اور ان کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے لوگوں کے گھر، کاروبار اور کھیت کھلیان تباہ کر رہی ہے۔ خطے کی آبادیاتی ہئیت کو بدلنے کے لیے کی جانے والی یہ کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشیدگی میں اضافے کا بھی باعث ہیں۔ ان وجوہ سے دنیا میں کشمیریوں کا احساسِ تنہائی بڑھ رہا ہے۔
من مرضی کی گرفتاریاں اور ریاستی تشدد کشمیریوں کے لیے ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔ ۲۰۲۰ء کی سالانہ رپورٹ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ان مظالم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان اقدامات کے لیے اکثر متنازعہ قسم کے قوانین کو بنیاد بنایا جاتا ہے، مثلاً قانون تحفظ عوامی یا قانون اختیاراتِ خصوصی برائے مسلح افواج۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں لوگ اس ظالمانہ قانون کے تحت گرفتار ہیں، جو بغیر مقدمے کے دو سال تک لوگوں کو قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور ’اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق‘ (UNCHR) نے ان منظم ناانصافیوں، طاقت کے ناروا استعمال اور ظلم کو تفصیل سے لکھا ہے۔ لیکن اس پیچیدہ صورتِ حال کی سنگینی کا مکمل ادراک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بحران کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی تصور کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک بدترین مسئلہ ہے جو بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے لیے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا ایسے سنگین مسئلے کو اتنی لا پروائی اور سنگ دلی سے نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضابطوں کی ساکھ تب ہی قائم رہ سکتی ہے، جب وہ اس قسم کے بحرانوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔
دنیا کے دیگر علاقائی مسائل پر عالمی برادری کے ردعمل کو دیکھا جائے تو کشمیر سے ان کا صرفِ نظر کرنا اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان میں اہداف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا طرز عمل بالکل مختلف رہا ہے۔ ۹۰ کے عشرے کے وسط میں بوسنیائی جنگ میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک اور۲۲ لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔ بین الاقوامی برادری نے فیصلہ کن طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے دخل اندازی کی اور ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو ’معاہدہ ڈیٹن‘ عمل میں آیا، جس سے امن بحال ہوا۔
اسی طرح ۹۰ کے عشرے کے آخر میں مشرقی تیمور کی زندگی بھی کشت و خوں سے عبارت تھی، جس میں ملک کی تقریباً ربع آبادی رزقِ خاک بن گئی۔ تاہم، اقوام متحدہ کی سربراہی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں آخر مشرقی تیمور کو آزادی مل گئی۔ سوڈان کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کے قیام کے لیے بھی بین الاقوامی برادری خصوصاً افریقا متحدہ اور اقوام متحدہ نے اہم کردار ادا کیا اور اس ملک کو خانہ جنگی سے بچایا۔
اس کے برعکس، اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی ردعمل بھیانک خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری کا یہ متضاد رویہ یہاں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان کے معاملے میں جو تحریک، اتحاد اور عزم ہم نے دیکھا تھا وہ کشمیر کے معاملے میں سرے سے ناپید ہے۔
کشمیر کے متعلق دنیا کا مایوس کن رویہ اس کے دوہرے معیارات کی نشان دہی کرتا ہے۔ مغرب جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا رکھوالا قرار دیتا ہے، کشمیر کے مسئلے پر مکمل خاموش ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی مفادات کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں؟
اس وقت اشد ضرورت ہے کہ دنیا کے طاقت ور ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میدان میں آئیں۔ خصوصاً انگلستان تاریخی طور پر بھی اس مسئلے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس بحران کا آغاز ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی غیرمتوازن تقسیم سے ہوا تھا جو برطانیہ کے ماتحت ہوئی تھی۔ اس وقت دوراندیشی اور منصوبہ بندی کے مجرمانہ فقدان سے ہی بعد میں یہ سرحدی تنازع پیدا ہوا۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ کی اخلاقی اور تاریخی طور پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔
بین الاقوامی تنظیموں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی رائے منوانے کے لیے مزید ثابت قدم ہونے کی ضرورت ہے۔ کشمیر سے متعلق ان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بننے والے ان اداروں کے متعلق شدید شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی اجلاس منعقدہ ۲۰۰۵ء میں ہونے والے معاہدہ’حق دفاع‘ کے مطابق یہ ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو نسل کشی، قتل عام اور دیگر جنگی جرائم کے خلاف تحفظ مہیا کرے۔
اس معاہدے کی تیسری شق کے مطابق ’’ اگر ایک ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے، تو انھیں تحفظ فراہم کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس سے ان جرائم کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگر یہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسی طرح بت بنے دیکھتے رہیں، تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
کشمیر کا بحران ایک انسانی بحران ہے، جو فوراً بین الاقوامی توجہ کا متقاضی ہے۔ دنیا کی خاموشی اس مسئلے سے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بھارت کو اپنے اقدامات کے لیے جواز مہیا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب اپنا سکوت توڑ کر اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے خانہ پُری کے طور پر کی جانے والی کوششوں سے حل نہیں ہو گا۔ اب عملی اور فیصلہ کن کوششوں کا وقت ہے، جن کے لیے انصاف اور امن کے اصولوں کو رہنما بنایا جائے، تا کہ دنیا کے اخلاقی معیارات پر مزید زد نہ پڑے۔ امن کا سفر چاہے طویل ہو لیکن اس کا آغاز ابھی سے ہو جانا چاہیے۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتِ حال دُنیابھر کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انسانی حقوق کے ممتاز علَم بردار خرم پرویز کو ایک من گھڑت مقدمے میں بھارتی حکام نے نومبر۲۰۲۱ء کو سری نگر سے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری پر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے حساس طبقوں نے زبردست احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور پروفیسر نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت یافتہ اسکالر مسلسل ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔
خوش آیندہ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں فراموش نہیں کیا گیا۔ گذشتہ ماہ ان کی رہائی کی مہم کو غیر معمولی اہمیت ملی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ برائے انسانی حقوق مری لاولرجو نے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے ان کے غیرمعمولی کام کی بدولت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹنشن نے خرم پرویز کے مقدمہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جس میں نہ صرف اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں بے گناہ اور ضمیر کا قیدی قراردیاگیا۔ یو این کے اس ورکنگ گروپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارتی حکام خرم پرویز کے خلاف تمام الزامات واپس لیں اور انھیں ہرجانہ اداکریں، یعنی اس زیادتی کی تلافی کے لیے معاوضہ ادا کریں۔ رپورٹ میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ خرم پرویز کو اپنے وکیل سے ملاقات اور مشاورت کے لیے درکار مناسب وقت نہیں دیاگیا۔
گذشتہ دوعشروں سے اپنی سلامتی کو خطرات میں ڈال کر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی دستاویز بندی کرتے رہے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر کی جانے والی جرأت مندانہ رپورٹنگ نے ان کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی کی غیرمعمولی لہر پیدا کی ہے۔چنانچہ گرفتاری کے باوجود انھیں ’مارٹن اینالز‘ ایوارڈ سے نوازاگیا۔
انھوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر ایک نہیں درجنوں رپورٹیں مرتب کیں۔ ان کی جرأت مندانہ لیڈرشپ میں اور ان سے جذبہ پاکر عرفان معراج کی طرح کے درجنوں نوجوانوں نے انسانی حقوق پر کام کیا اور جیلوں کی ہوا کھائی۔ چند سال پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سیکریٹریٹ سے کشمیر پر دو جامع رپورٹیں جاری ہوئیں تھیں۔ ان دونوں رپورٹوں میں خرم پرویز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مرتب کردہ حقائق کوبطور حوالہ استعمال کیا گیا۔
خرم پرویز کی گرفتاری کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے،بلکہ یہ کشمیر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔ بھارتی حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سماجی کارکنوں، سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے ہیں تاکہ یہ لوگ خوف زدہ ہوکر دبک جائیں اور کوئی بھی سرکار کی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔ چنانچہ خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں پر ہونے والا کام بُری طرح متاثر ہوا۔
دو عشروں سے زیادہ عرصے سے خرم پرویز، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دستاویز بندی کررہے ہیں۔ وہ حکام کو بے خوفی کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں۔ انھوں نے ہر موقعے پر مظلوموں کے حقوق کی وکالت کی۔۲۰۰۰ء میں انھوں نے انسانی حقوق کے ایک اور ممتاز علَم بردار پرویز امروز ایڈووکیٹ کے اشتراک سے ایک تنظیم’ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے خطے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ باقاعدہ ترتیب سے مرتب کیا گیا۔ اس تنظیم کی رپورٹوں میں اجتماعی قبروں، جبری گمشدگیوں، ٹارچرسیلز، ماوراے عدالت قتل اورجنسی تشدد جیسے انسانی حقوق کی پامالیوں کے چونکا دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ لاپتا افراد کے والدین کی ایک تنظیم کے تعاون سے خرم نے جبری گمشدگیوں جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خرم پرویز کی انتھک محنت کو بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پذیرائی اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی کوششوں کو اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا۔ ’تشدد کے خلاف عالمی تنظیم‘ (OMCT) کے سیکرٹری جنرل جیرالڈ سٹیبروک نے کہا: ’’خرم پرویز کی جبری، سفاکانہ اور غیر منصفانہ نظر بندی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے ان افراد پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے جو اس کی امتیازی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو اختلاف رائے کرنے والی ہر آواز کو دبانے کی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کے دفاع کے حق کو یقینی بنانا چاہیے‘‘۔
ایف آئی ڈی ایچ کی ایلس موگوے نے تبصرہ کیا،’’خرم پرویز کے معاملے پر اقوام متحدہ کا فیصلہ واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی نظر بندی، دراصل ان کی جانب سے انسانی حقوق کے کام کے خلاف انتقامی کارروائی ہے، جو دراصل پوری کشمیری سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق خرم پرویزکو فوری رہا کیا جائے‘‘۔
نمایاں شخصیات کی گرفتاری کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی حکام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اُبھرنے والی تنقیدی آوازوں کو زور زبردستی دباتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی پولیس یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے، جو کشمیری نوجوانوں اور سماجی کارکنان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی نگرانی پر مامور ہے۔بھارتی حکام اسپائی ویئر جیسی جدید ٹکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں، جو کسی بھی موبائل فون اور اس کے ڈیٹا تک آسانی سے رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ جو بھی شخص حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی کرتاہے اسے ’عسکریت پسندوں‘ (مجاہدین) کا حامی کہہ کر نشانہ بنایا جاتاہے۔
بھارتی حکام نے کشمیریوں کے آن لائن اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور دبانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ ہراساں کرنے، ملازمت سے نکالنے،نظر بندیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیر میں میڈیا کو مختلف ذرائع سے خاموش کر دیا گیا ہے اور طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جاتاہے۔یہ پریشان کن صورتِ حال بین الاقوامی توجہ کی متقاضی ہے۔
؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کے اہم مندرجات کو ختم کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ دفعہ ۳۵-اے، جس کی رو سے ریاستی باشندوں کو خصوصی اور علیحدہ شہریت کے حقوق حاصل تھے، اسے بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف انڈین سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جس کے جواب میں چارسال گزرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ فریقین کو ۲۷جولائی ۲۰۲۳ء تک دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہدایت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روزہ دورہ سے واپسی پر دفعہ۳۷۰ کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کرلیا۔ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا ، جس کی وجہ سے انھوں نے سماعت کا فیصلہ کیا؟
اگرچہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی مؤثر ادارے کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں مثبت نتائج پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اُمید ہے کہ سپریم کورٹ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کرسکے گی۔
دفعہ ۳۷۰ کی قانونی حیثیت و افادیت کے علاوہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بڑے سوالات ہیں:(۱) بھارتی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، کیا یہ ممکن ہے کہ عددی طاقت کے بل پر کسی بھی ریاست کو دولخت کرکے اس کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا جا سکتا ہے؟ (۲)کیا اس سلسلے میں اس خطے کی اسمبلی یا اس خطے کے اراکین پارلیمان کی رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
پچھلی صدی کے اواخر میں اتراکھنڈ، چھتیس گڈھ، جھاڑکھنڈ، نئے صوبے تشکیل دیئے گئے۔ ان میں جو طریق کار اپنایا گیا، وہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلیوں نے پہلے صوبہ کی تشکیلِ نو کے لیے ایک قرار داد منظور کرکے اس کو مرکزی حکومت کو بھیجا۔ مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری دے کر ایک بل ڈرافٹ کرکے اس کو پھر ریاستی اسمبلی کو منظوری کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے پاس کرنے سے قبل ہاؤس کمیٹی کے سپرد کرکے اس کے خدوخال کا جائزہ لیاگیا۔ صرف تلنگانہ کے معاملے میں اس طریقے کو تبدیل کیا گیا۔ مگراس معاملے میں بھی کئی برس قبل آندھرا پردیش کی اسمبلی قرار داد پاس کر چکی تھی۔ بعد میں اس اسمبلی نے اپنا موقف تبدیل کردیا تھا، مگر اس وقت کانگریس کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پچھلی قرار داد کی بنیاد پر زبردست ہنگامہ اور شور شرابہ کے دوران پارلیمنٹ سے اس نئے صوبہ کی تشکیل کا بل پاس کروایا۔
اگر ریاستوں کو تحلیل کرنے اور ان کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے عمل کو بھارتی سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے، تو اس سے بھارت کے پورے وفاقی ڈھانچا کے مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ ماضی میں نظم و نسق وغیرہ کا بہانہ بناکر مرکزی حکومتوں نے تو کئی بار اپوزیشن کی زیر قیادت صوبوں کی منتخب حکومتوں کو برخواست کیا ہے،مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی کیس میں اس پر کئی رہنما اصول طے کر دیئے، جس کے بعد نئی دہلی حکومتوں کے لیے صوبائی حکومتیں برخواست کرنے کے اختیار پر روک لگ گئی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت ہوں گے۔ جسٹس کول کے بغیر بقیہ تینوں جج اگلے کئی برسوں میں باری باری چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ جسٹس چندراچوڑکے والد یشونت ویشنو چندراچوڑ بھی ملک کے ۱۶ویں چیف جسٹس ( ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۵ء)رہے ہیں۔ وہ بھارت کی سول سوسائٹی کے لیے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ۱۹۸۴ء میں بھوپال شہر میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، تو انھوں نے امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کے سربراہ وارن اینڈرسن کو ملک سے باہر جانے میں مدددی۔ ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جاسکا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تصدیق کے بغیر ہی فروری ۱۹۸۴ءمیں انھوں نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی سزائے موت کے فرمان کے خلاف پٹیشن خارج کی،اور اگلے ہی دن مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
مگر ان کے فرزند موجودہ چیف جسٹس اپنے اعتدال پسندانہ رویہ اور معرکہ آرا فیصلوں کی وجہ سے اپنے والد کے برعکس سول سوسائٹی کے چہیتے ہیں۔ انھوں نے اظہارِآزادی، شخصی آزادی، حق راز داری وغیر ہ جیسے قوانین کی تشریح کرکے اور ان پر فیصلہ دیتے وقت عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر خوش گوار تاثر قائم کیا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل ان کو ۱۹۹۸ءمیں اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی اڈیشنل سولسٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ دوسرے جج جسٹس سنجے کشن کول کشمیری پنڈت ہیں۔ وہ سورج کشن کول کے خاندان سے نسبت رکھتے ہیں، جو ڈوگرہ حکومت میں وزیر مالیات ہوتے تھے۔ وہ اور ان کے ایک اور برادر دہلی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔بطور دہلی ہائی کورٹ جج انھوں نے معروف مصور مرحوم ایم ایف حسین کے خلاف ہندو تنظیموں کی پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ، بزرگ مصور کی دادرسی کی تھی۔اس فیصلے میں انھوں نے لکھا تھا: ــ’’تکثیریت اور یگانگت جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جس سوچ کو ہم پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے اظہار کی بھی آزاد ی ہونا ضروری ہے۔ اگر تقریر یا اظہار رائے کے بعد آزادی نہ ہو، تو یہ آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت آزادی اور ناقدین کو برداشت کرنے میں مضمر ہے‘‘۔
تیسرے جج جسٹس سنجیو کھنہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ججوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور نومبر ۲۰۲۴ء کو وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان کے والد ونود راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ میں جج تھے۔ وہ بھارت کے ایک معروف جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بھتیجے ہیں، جنھوں نے ۱۹۷۶ء میں آنجہانی وزیر اعظم اندراگاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، حالانکہ بینچ کے دیگر ججوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استعفا دے دیا تھا۔ ۱۹۸۲ءکے صدارتی انتخابات میں گیانی ذیل سنگھ کے خلاف وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے۔ جسٹس سنجیو کھنہ مئی ۲۰۲۵ءکو چیف جسٹس بن جائیں گے۔
اس بینچ کے چوتھے جج بھوشن رام کرشن گاوائی ہیں۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے واحد دلت جج ہیں۔وہ مئی ۲۰۲۵ء چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ۲۰۱۰ء میں جسٹس بالا کرشنن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پہلے دلت چیف جسٹس اور بھارت کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہوں گے۔ فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کل ۵۶۹ ججو ں میں صرف ۱۷دلت کمیونٹی سے ، نو درجہ فہرست قبائل سے، ۱۵؍اقلیتی برادریوں سے اور ۶۴دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھوشن کے والد آر، ایس گاوائی مہاراشٹرہ کے مشہور دلت رہنما اور ری پبلکن پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ پارٹی بھارت کے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راو امیبڈکر نے تشکیل دی تھی۔ گاوائی بود ھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔
پانچویں جج جسٹس سوریہ کانت کا تعلق ہریانہ صوبہ سے ہے۔ جج بننے سے قبل وہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے خاصے سرگرم رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں جج کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی انھوں نے جیلوں میں اصلاحات کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ممبئی میں بھارت کے معروف ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جو جیلوں کی اصلاحات کے سلسلے میں ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات اور ان کے لیکچر سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔
۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ءکو خرطوم کے باسیوں کی آنکھ گولیوں کے چلنے اور گولہ باری اور فضائی بمباری کے دھماکوں سے کھلی۔ نیلے اور سفید دریائے نیل کے سنگم پر واقع دارالحکومت خرطوم کے تینوں مرکزی اضلاع کے داخلی راستوں پر سوڈانی فوج اور الدعم السریع (Rapid Force) کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ حکومتی انتظامی دفاتر سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مرغولے لڑائی کی شدت اور ہولناکی پر دلالت کر رہے تھے ۔
سوڈانی وزیر صحت کے مطابق اس وقت تک اس لڑائی میں ۵ہزارافراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جب کہ ۶ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ بچے، مرد اور خواتین، بے گھر اور بے در ہوچکے ہیں۔
یہ مسلح ملیشیا جسے’ریپڈ فورس‘ کا نام دیا گیا تھا، ۲۰۱۳ ءمیں اس وقت قائم کی گئی تھی جب مقتدرہ کو دارفور کے علاقے میں علیحدگی پسند مسلح تحریک کا سامنا تھا ۔مسلح تنظیمیں یکے بعد دیگرے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرتی چلی جارہی تھیں اور اس کھلے صحرائی علاقےاور دُور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ا ن کے سامنے سوڈان کی مسلح فوج بے بس تھی ۔خصوصاً اس لیے بھی کہ باقاعدہ فوج کی جنگی تربیت صحرائی جنگ لڑنے کی تھی ہی نہیں اور نہ وہ ایسی جنگ لڑنے کے لیے ضروری اسلحے اور وسائل و نقل و حمل سے لیس تھی۔ عشروں تک یہ فوج جنوبی سوڈان کے جنگلوں میں جنگ لڑتی آئی تھی۔ اس کی تربیت اور اس کے لیے اسلحہ بھی اسی نوعیت کی جنگ لڑنے کے لیے فراہم کیا گیا تھا ۔ دوسری طرف دارفور کے علیحدگی پسندوں کا اصل ہتھیار ان کی تیز ترین نقل و حرکت ،گوریلا جنگی چالیں، ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ان پر نصب مشین گنیں تھیں، جن کا مقابلہ سوڈان کی باقاعدہ فوج اور اس کے بھاری بھرکم اسلحے کے بس میں نہیں تھا ۔
لہٰذا، فوج کے منصوبہ سازوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ دارفور کے علاقے میں موجود قبائلی جنگجوؤں کو منظم اور مسلح کیا جائے ۔علیحدگی پسندوں کے مقابل انھیں بھی ویسی ہی ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ہلکی مشین گنیں اور آٹومیٹک رائفلیں دی جائیں اور انھیں تربیت دی جائے تاکہ یہ دشمن کا مقابلہ اسی چابک دستی سے کرسکیں ۔اس مقصد کے لیے علاقے کے ان عرب جنگجو قبائل کے افراد کو منظم کیا گیا جو پہلے ہی خانہ جنگی اور علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے اور انتقام کی آگ میں سُلگ رہے تھے ۔عوامی زبان میں ان کا نام ’جنجوید‘ تھا یعنی گھڑسوار سپاہی۔ جلدہی علاقے میں ان جنگجو سپاہیوں کی دھاک بیٹھ گئی اور انھیں یکے بعد دیگرے کامیابیاں ملنے لگیں،بہت سے علاقے جو باغیوں کے زیر تسلط تھے یکے بعد دیگرے وا گزار ہونے لگے۔تاہم، اس ساری کارروائی میں باقاعدہ فوجی ڈسپلن کا نہ صرف فقدان تھا بلکہ طاقت کے استعمال میں حد سے تجاوز ہی اس فورس کا طرۂ امتیاز تھا۔’جنجوید‘ پر تسلسل کے ساتھ انسانیت کے خلاف جرائم ،قتل عام اور نسل کشی جیسے الزامات لگتے رہے ۔
دوسری طرف خرطوم کے فیصلہ ساز اپنے فیصلے کی اصابت پر داد و تحسین وصول کرنے میں لگے ہوئے تھے اور نتائج و عواقب سے بے نیاز ہوکر اس ریپڈ فورس کے لیے ریاست کے بجٹ میں بڑے بڑے وسائل رکھے جارہے تھے۔ اس وقت بھی جہاندیدہ لوگوں نے اس سارے عمل اور اس کے خوف ناک نتائج و عواقب سے یہ کہہ کر خبردار کیا تھا کہ ’’ایک ہی ریاست میں دو فوجیں نہیں ہوسکتیں ‘‘۔لیکن اس رائے کو کوئی وقعت نہیں دی گئی اور ایسے خیالات کے مالک بہت سے افسران کو فارغ کردیا گیا۔
تاہم، اصلاح احوال کی خاطر ۲۰۱۷ء میں سوڈانی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا، جس کا نام Rapid Forces Act رکھا گیا ۔اس قانون میں صاف لکھا تھا کہ یہ ریپڈ فورس ،سوڈان کی باقاعدہ افواج کے کمانڈر ان چیف کے تابع ہوگی۔ سیکڑوں فو جی افسروں اور ملٹری انتظامیہ کے دیگر ارکان کو ڈیپو ٹیشن پر اس ’جنجوید فور س‘ میں تعینات کیا گیا جنھوں نے انھیں لڑنے کی تربیت بھی دی اور جنگی چالیں بھی سکھائیں۔ تاہم، اس سب کے باوجود مجموعی طور پر اس ملیشیا کا رنگ ڈھنگ قبائلی ہی رہا اور قائد اعلیٰ کی حیثیت سے اس پر گرفت جنرل حمیدتی کی رہی، جن کا تعلق اسی علاقے کے طاقت ور قبیلے دقلو سے ہے۔
۲۰۱۵ءمیں یمن کی خانہ جنگی شروع ہوئی اور محمد بن سلمان نے عرب فوجی اتحاد قائم کیا تو سوڈان کی مسلح افواج کے ساتھ اس ’جنجویدفورس‘ کے سپاہی بھی دادِ شجاعت دینے یمن پہنچے ۔اس طرح بین الاقوامی فرنٹ پر بھی انھیں اپنی لڑنے کی صلاحیت آزمانے ،جنگی تجربہ حاصل کرنے اور اس کے قائد حمیدتی کو بین الاقوامی شخصیات اور اداروں کے ساتھ خصوصی نجی اور ذاتی تعلقات استوار کرنے کا خوب موقع ملا ۔
۲۰۱۸ءکے اختتام پر خرطوم میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جن کا اختتام صدر عمر حسن البشیر کے استعفا اور پھر قید کی صورت میں نکلا۔’ریپڈ فورس‘ کے قائد حمیدتی کو اپنا مفاد اسی میں نظر آیا کہ صدر عمر حسن البشیر کی طاقت ور اور تجربہ کار شخصیت ان کے راستے سے ہٹ جائے اور انھیں طالع آزمائی کا موقع مل سکے، لہٰذا انھوں نے اپنا وزن صدر مخالف پلڑے میں ڈال دیا ۔
اگلے ہی سال ۲۰۱۹ء میں مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ مسلح افواج یکسر سیاسی عمل سے باہر ہو جائیں۔اس بار مظاہرین نے دھرنے کا مقام سوڈانی افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے چنا ۔دھرنا طویل ہوا تو طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیاگیا اور جس میں مبینہ طور پر سیکڑوں نوجوان جان سے گئے۔اس قتل عام میں ’جنجوید‘ کے سپاہی پیش پیش تھےاور ان پر ایک بار پھر یہ الزام لگا کہ ’’اس ملیشیا نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘‘۔حد یہ ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے بننے والے کمیشن کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آسکی ۔
ریپڈ فورس کی خود سری کا آغاز اس وقت ہوا جب عبوری دور کے لیے حکمران کونسل کے سربراہ اور سوڈانی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبد الفتاح برھان نے ریپڈ فورس ایکٹ کی دفعہ ۵ کو منسوخ کرتے ہوئے اسے کسی بھی قانونی مواخذے سے بالاتر قرار دیا۔مقصد یہ تھا کہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔اس استثنا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریپڈفور س کے قائد حمیدتی نے بہت سے اہم اُمور، جن میں فورس میں نئی بھرتیاں ، نئے اور جدید اسلحے کی خریداری، اپنی فورس اور اپنے لیے مالی وسائل کی فراہمی وغیرہ شامل تھے، ان میں من مانی شروع کردی۔ گذشتہ چار برسوں میں ریپڈ فورس جس کی تعداد صدر عمر حسن البشیر کے دور میں صرف ۲۵ہزار تھی، اس سے چار گنا زیادہ بڑھا کر اس کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ کرلی گئی ہے۔اس فورس کی قائدانہ آسامیوں پر اپنے بھائی بندوں اور اقربا، برادری اور قبیلہ کے افراد سے بھر لیا گیا ہے۔مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے علاقے میں موجود اور سونے کی کانوں کے لیے مشہور ’جبل عامر‘ پرمکمل قبضہ کرلیا ہے ۔
دوسری طرف جنرل حمیدتی نے اندرون ملک امور سیاست و سیادت میں بھی تیزی کے ساتھ اپنا اثر و نفوذ بڑھایا۔جنرل عمر حسن البشیر کے بعد بننے والی مجلس حاکمہ میں دو بار نائب صدر مقرر کیے گئے ۔مالیات اور فائنانس کی شد بد نہ ہونے کے باوجود وہ کابینہ کی مالیاتی کمیٹی کے صدر بنے اور طرفہ تماشا یہ تھا کہ نامزد وزیر اعظم جو کہ سوڈان کے معروف معیشت دان ہیں، عبداللہ حمدوک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس کمیٹی میں نائب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حمیدتی کا شروع سے ہی ارادہ قومی ذرائع اور وسائل دولت و ثروت پر قبضہ جمانا اور اسے اپنے ذاتی تصرف اور اختیار و نفوذ میں اضافے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ یہ امر رپورٹ ہوتا رہا ہے کہ سوڈانی سونا خلیجی ملک متحدہ عرب امارات اور اسی طرح روس میں بھی بلاروک ٹوک اور بڑی مقدار میں فروخت کیا جاتا رہا ہے ۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ سوڈان کے معاملے میں بھی حالیہ خانہ جنگی کے اسباب کو برسوں نشوونما پانے کا موقع ملا اور آخرکار ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو وہ تاریک ایام شروع ہوئے، جن کے گہرے سایوں نے سوڈان اور سوڈانی قوم کے ترقی و خوش حالی اور امن و استحکام اور اس خطے کے لیے رول ماڈل بننے کے سارے خوابوں کو گہنا دیا ۔
مارچ ۱۹۹۴ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ’اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن‘ (جو اب ’کونسل‘ کہلاتا ہے) میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھار ت پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کرائی جائیں۔
بھارت کا قریبی دوست اور ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک اشتراکی روس (USSR: سوویت یونین) تمام انسانی ضابطوں کو روندتا ہوا، بھارت کے دفاع میں ہرحد کو پھلانگتا تھا اور جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا۔ لیکن جب دسمبر۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹ گیا تو روس کے نئے صدر بورس یلسن مغرب سے مدد کے طلب گار تھے۔ دراصل بھارتی قیادت کو خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح اب کی بار سلامتی کونسل میں روس اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ (م:۲۰۰۴ء)نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی (م: ۲۰۱۷ء)کے نام ایک پیغام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ تفصیل تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئی کہ راؤ نے ایران کو کیا درس دیا؟ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اس قرارداد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو خاصا سہارا دیا۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کیے، جن میں: ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملے کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظربندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔
لیکن ۲۰۱۴ءکے بعد سے ریڈ کراس کے عملے نے تو کشمیری قیدیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل یا فیصلے کے سلسلے میں آج تک کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی تھی یا روک رہی ہے، تو اسے آن ریکارڈ لانے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ ریڈکراس کے نمایندوں کے جیلوں میں جانے سے بے نوا قیدیوں کو راحت ملتی تھی کہ دُنیا میں کوئی تو ہے جو اُن کے بارے میں فکرمند ہوکر اُن کے دُکھ درد کو دوسروں کے سامنے پیش کرے گا۔ خاص طور پر جو افراد دُور دراز کی جیلوں میں قید کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کے لیے پہنچنا مشکل ہوتا تھا،یہ ریڈ کراس کا عملہ ہی خیرخبر پہنچانے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پُرس کی جاتی؟
بتایا جاتا ہے کہ نرسمہماراؤ کی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل (جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصے تک ترجمان بھی رہے) نے ہی ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور وزیراعظم راؤ کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان نے بتایا تھا:’’ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لا اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا‘‘۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔
جب بھی کسی عالمی فورم پر بھارت میں انسانی حقوق کی بُری صورتِ حال کا معاملہ اٹھتا ہے، تو مندوبین کے سامنے ایک ہی دفاعی موقف پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’انڈیا کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کے لیے ایک مضبوط نظامِ کار (میکانز م) موجود ہے‘‘۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اوّل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ممبر ہے، کا کہنا ہے:’’انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیرفعال ہوچکا ہے‘‘۔ دراصل بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔
’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ کاوجود کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی شکایت یا کیس کی شنوائی کی ہو۔ تاہم، دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ مگر گجرات کے شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزموں کو عدالت نے سزائیں دیں، اور اس پیش قدمی کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔
تاہم، بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی سخت زوال کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانب داری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس کے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔
’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر‘ (SAHRDC)کے سربراہ روی نیّر کے مطابق: ’’نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو (IB) اور خارجی خفیہ ادارہ ’را‘ (RAW)سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس وقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے‘‘۔ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران بھلا کس حد تک انصاف کر تے ہوں گے؟
۲۰۱۹ء میں، انڈین حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہو،جب کہ دیگر چارممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔
اس ترمیم میں یہ کہا گیا کہ ’’کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا‘‘۔ دوسری طرف کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکار کا تقرر واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کا تقرر انٹیلی جنس بیورو میں ان کی مدت کار کے دوران مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا خانہ زاد الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قدغن لگائی گئی۔
روی نیّر کا کہنا ہے کہ ’’اس پورے کمیشن کاڈھانچا ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارے کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ ادارہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اس کی کارگزاری کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے بھارت کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
۱۹۹۴ءسے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب مظلوم انسانوں کا کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاست دانوں کی دھوکے بازیوں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو نبھا نہ سکے۔
ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک خاص لائن لی جا رہی ہے اور اس کا ایک بہت واضح ثبوت بھارتی حکومت کی جانب سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرنا ہے، ہائی کمشنر وہاں نہیں بھجوانا ہے اور تجارت نہیں کرنی ہے۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، انڈین کارندے اجیت دوول کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ہی ۲۵ فروری ۲۰۲۱ء کو فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک فائر بندی معاہدہ سامنے آیا ۔ میری نظر میں فائر بندی کا یہ معاہدہ اس وقت جن حالات میں کیا گیا، اس کے لیے وہ ہرگز مناسب وقت نہ تھا۔یہ تجویز ہم نے ۲۰۱۵ء میں پیش کی تھی اور اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد اجیت دوول سے میری ملاقات بھی ہوئی تھی اور اُس وقت انھوں نے یہ تجویز رد کردی تھی۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ۲۰۱۵ء میں جس تجویز کو انھوں نے رَد کر دیا تھا ۲۰۲۱ء میں اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ۲۰۲۱ء میں بھارت، لداخ میں چین کے ساتھ بُری طرح اُلجھ چکا تھا اور مسلسل ہزیمت اُٹھا رہا تھا، اور سخت دبائو میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح پاکستان سے متصل دوسرے محاذ پر بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو۔ امرواقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری جانب سے بھی چین کو غلط تاثر بھیجا گیا۔ یوں بھارت، ہمارے تعلقات میں غلط فہمی پیدا کرنے اور اپنے اُوپر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہا۔ معلوم نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے اس سے فائدہ ملک کو کیسے پہنچایا؟
اب جو باتیں ہو رہی ہیں کہ کشمیر کو ۲۰ سال کے لیے فریز کر دینا چاہیے وغیرہ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کشمیر ڈپلومیسی کمزور ہوئی بلکہ دنیا بھر میں ہماری کریڈ بیلٹی بھی متاثر ہوئی۔ اب جب ہم دنیا میں کشمیر پر بات کرتے ہیں تو ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ عمل نواز شریف کے دور میں شروع ہو چکا تھا، جب انھوں نے نئی دہلی میں حُریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے دور میں ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۵ء کو ’اوفا معاہدہ‘ ہوا تھا، جس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی نواز صاحب کی یہ خواہش تھی کہ دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے، لیکن اُس وقت کی ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ہمیں یک طرفہ کوئی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ’برف پگھلانے‘ والی بے معنی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر مسئلۂ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر طے شدہ اُمور کے مطابق حل کرنے کی بات چیت کرنی چاہیے۔
کشمیر کا تنازع بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہمیں بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے ، خواہ وہ فرنٹ چینل پر ہو یا بیک ڈور چینل پر، اس میں صرف اور صرف کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے ۔ اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو مذاکرات کا آغاز کشمیر سے ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کی پالیسی کے تحت کشمیر سے تجارت اور سیاحت کے تعلق کو بحال کیا جائے، حُریت لیڈر شپ کو رہا کریں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو بھارت کو لینے چاہییں یا ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر لینے چاہییں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ شرکت کے لیے ترجیحاً گئے، جب کہ سمر قند میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ حالانکہ افغانستان ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو اس سے کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ اگر اس اجلاس میں شرکت بھی کرنا تھی تو ہمارے لیے اس موقعے پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ بہتر تھا کہ ہم اپنی شرکت کو ڈائون گریڈ کر دیتے اور منسٹر آف سٹیٹ کو بھجوادیتے۔ اُمید ہے کہ جولائی میں جو کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، اس میں ہمارے وزیر اعظم شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ کو بھجوایا جائے گا۔
یوں محسوس ہوتاہے کہ ہماری کشمیر پالیسی ابہام سے دوچار ہے یا پھر واضح طور پر ہم امریکا کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اس اجلاس میں شرکت بھی امریکی دبائو کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔ حکومت ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پیش کش کی جائے یا نہیں ؟ لیکن وزیر خارجہ کی خواہش تھی جس کا انھوں نے گذشتہ برس جون میں اپنی گفتگو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارت سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں اور ہمیں نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔ یقینا امریکا کا دبائو ہے کہ ہم بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم چین سے بھی کچھ فاصلہ پیدا کریں ۔ ایران او ر سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے سے امریکا اور اسرائیل کو تشویش لاحق ہے۔ فیفا عالمی فٹ بال کپ میں قطر حکومت نے آٹھ بھارتی جاسوس پکڑے ہیں جو کہ ریٹائرڈ نیوی افسر تھے اور موساد کے لیے کام کر رہے تھے ۔ قطر میں اٹلی کے تعاون سے سب میرین بن رہی ہیں۔ ان چیزوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنا مستقبل بینی پر مبنی وژن واضح رکھنا چاہیے۔
۱۴ جنوری ۲۰۲۲ء کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تیار کردہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پیش کی گئی تھی، جس میں بہت سے بنیادی تضادات تھے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ یہ امریکی اثرات کے تحت بنائی گئی ہے ۔ یہ ان لوگوں نے بنائی تھی جو خاص طور اس ایجنڈے کے لیے لائے گئے تھے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں شامل نہیں ہوں گے یا ہم نیوٹرل ہیں، تو یہ باتیں سفارت کاری کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ آپ کسی کیمپ میں شامل نہ ہوں لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی بھارت سے اس قسم کی لفاظی سنی ہے جس کا ہم اظہار کرتے رہتے ہیں؟
چین سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ چین کو ہم سے کچھ شکایات بھی ہیں ، مثلاً ایک طرف سی پیک اور دوسری جانب ہمارا امریکا کی طرف جھکائو کچھ زیادہ لگ رہا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تقریباًپانچ مرتبہ امریکا سے ہو آئے ہیں اور اس دوران صرف ایک مرتبہ ان کی انٹنی بیکر سے ملاقات ہوسکی، جب کہ باقی اسفار میں وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے چھوٹے افسروں سے مل کر آگئے۔ اس سے ہماری ریاست کی مزید تحقیر ہوئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی صورتِ حال ہے کہ آپ واشنگٹن میں موجود ہیں، مگر آپ کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ بھی نہیں ملتی اور آپ ایک کونسلر کی سطح کے افسر سے مل کر آ جاتے ہیں۔
پھر بیرونی دُنیا میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ’ہم کشمیر کو بھلا چکے ہیں اور کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے ، اگرچہ اس کااظہار نہیں کیا جاتا‘۔ تاہم، میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ہم کشمیر پالیسی کو بدل چکے ہیں، البتہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طریقے سے کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ باقی بہت سے اُمور پر معاملات کا عمل شروع ہو جائے ۔ پچھلے ۷۵سال سے کشمیر پر ہمارے قومی موقف کے حوالے سے کسی بھی حکومت یا کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہے کہ قومی کشمیر پالیسی کو تبدیل کردے۔
البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم نے عملی سطح پر کشمیر کو کئی حوالوں سے بھلا دیا ہے ۔ کشمیر پالیسی میں پسپائی نظر آتی ہے اور تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اس لیے جب ہم کشمیر پر بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔
پی ڈی ایم حکومت کے تحت کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئرمین کون ہے؟ اس کا نام شاید لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جس کا کوئی سٹیٹس ہی نہیں ہے۔ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصراللہ خاں تھے، جو ایک نامور سیاست دان تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس مسئلے کو ڈائون گریڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں وکشمیر پر اپنے قومی موقف اور نقطۂ نظر کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے اس نیم دلانہ رویے سے خود اہلِ کشمیر کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لیے منجمد کرکے چین، افغانستان، وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان پاکستان کو ایک کوریڈور بنا دیا جائے۔ اس طرح سے ہم بہت سے معاشی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقائق کی دُنیا میں یہ ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بے اعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تو بذریعہ سڑک بطور راہداری، انسانی بنیادوں پر امداد بھی نہیں بھجواسکتے کہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے کام وہاں ہو سکتے ہیں جب دو طرفہ تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور باہمی اعتماد پایا جاتا ہو۔
کسی ملک کی خارجہ پالیسی، اس کے نظریاتی، جغرافیائی، اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی تقاضوں کی مجسم صورت ہوتی ہے، جو اس کے قومی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اپنے تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) اہداف کا تحفظ اور دفاع کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر، اس بدلتی ہوئی گلوبلائزڈ دنیا میں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسٹرے ٹیجک خودمختاری کے تصور کو اپنانے کی پُرجوش خواہش ہے۔ یہ خواہش اور اُمنگ کسی ریاست کی صلاحیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے اور اپنی ترجیحی خارجہ پالیسی کو اپنانے کی دلیل ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس پاکستان دیگر غیر ملکی ریاستوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نظریاتی طور پر، خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا تعین اس ملک کے اہل حل و عقد کے انتخاب کا جوہر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا انتخاب بین الاقوامی نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی ان اہم بنیادوں (پیرامیٹرز)پر مرکوز ہے: نظریہ، سلامتی، ڈیٹرنس، امن، جغرافیائی سیاست، اقتصادیات، تجارت اور موسمیاتی سفارت کاری۔ تاہم، قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔
سات عشروں سے، کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے۔ ہمارے سویلین اور فوجی اداروں نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی حمایت کے غیر متزلزل عزم کو قومی میثاق (چارٹر) کا درجہ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون رہے گا۔ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح، موجودہ حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک کشمیری عوام کی بلاامتیاز اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔
بلاشبہہ خارجہ پالیسی اور سلامتی کا ستون دوسرے ستونوں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے تاکہ ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطۂ نظر کو آگے بڑھایا جاسکے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی (NSP) میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’روایتی اور غیر روایتی خطرات اور مواقع مل کر مجموعی قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں‘‘۔ اس ضمن میں باضابطہ طور پر معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کا مرکز قرار دینا ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ اس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جس کے حصول کے لیے وہ طویل عرصے سے کوشاں ہے۔
پاکستان عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا پرجوش حامی نظر آتا ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں کی مخالفت کے بجائے ان کو زیادہ سے زیادہ حمایتی بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ چین کے ساتھ ہمارے تزویراتی تعلقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے باوجود، پاکستان چین، امریکا اور روس کے ساتھ دوطرفہ دوستی کے قابل عمل اور پائیدار رشتوں کو جوڑنے کی عملی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’پاکستان روس تیل معاہدے‘ کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا نہ ہونا اچھی علامت ہے۔ گلوبلائزڈ دنیا کے اس دور میں، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے تصور سے جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد اسٹرے ٹیجک خود مختاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی کلب (EUC) میں GSP+ جوں کی توں صورتِ حال کو بحال کرنا پالیسی کی ترجیحی لائن ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے بیش تر رکن ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے وسیع ثقافتی اور دفاعی تعلقات ہیں، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔
۲۰۲۱ء میں، چین اور پاکستان نے اپنے دوطرفہ تعلقات کے ۷۰سال مکمل کر لیے۔ ایک وژن اور آئیڈیلزم ان تعلقات میں گہرے رشتے کی رہنمائی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف باہمی مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اس شراکت داری کو مزید وسعت دینے کی بھرپور خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے،جب کہ چین پاکستان کو قابلِ اعتماد بھائی کہتا ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ درحقیقت علاقائی رابطے کا فریم ورک ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اسٹرے ٹیجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے، پاکستان نے کم از کم ڈیٹرنس کی پالیسی اپنائے رکھی جسے بعدازاں ۲۰۰۱ء میں انڈیا کے ’کولڈ سٹارٹ نظریے‘ کی وجہ سے مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی جوہری حکمت عملی، جنوبی ایشیائی خطے میں تزویراتی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہے۔ اگرچہ نسل پرست نریندرا مودی کی خارجہ پالیسی خطے میں اسٹرے ٹیجک امن کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے، لیکن پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں مصروف ہے، لیکن یہ ادارے ایک بے رُخی کا رویہ اپناتے نظر آرہے ہیں۔
’سندھ طاس معاہدے‘ (IWT )میں طے شدہ شرائط کو برقرار رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نمایاں ترین ضرورت ہے۔ لیکن ’سندھ طاس معاہدے‘ کے مقابلے میں تسلط پسندانہ اور غیر قانونی بھارتی پالیسی جس میں بھارت کی بدتہذیبی اور انسانیت دشمنی بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے متنازعہ تعلقات کا سبب بنی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پُرامن تعلقات برقرار رکھنا پاکستان کی حکومت کی ترجیح رہی ہے اور پاکستان، طالبان کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
ماہ مئی میں افغانستان کے حوالے سےدو اہم اقدامات ہوئے، جن کے ہمارے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے ۔یکم اور ۲ مئی ۲۰۲۳ ء کو دوحہ، قطر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کے بارے میں ایک عالمی کا نفرنس منعقد ہوئی، اور ۵مئی تا ۸ مئی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا باقاعدہ دورہ ہوا۔ اسی دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئےجس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ سہ فریقی مذاکرات کا یہ سلسلہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامی افغانستان کا دوبارہ احیاء اس وقت ہوا جب تحریک طالبان افغانستان کے رضا کار کابل میں داخل ہو ئے اورڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔ ۲۹ فروری۲۰۲۰ ء کو ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکا اور تحریک طالبان کے نمایندوں کے درمیان دوحہ میں ہی ایک تاریخی معاہدۂ امن طے پایا تھا، جس کو اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ایک سال کے عرصے میں افغانستان میں قائم کردہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، تمام غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی اور طالبان پھر سے برسرِاقتدار آجائیں گے۔
گذشتہ ۲۰ ماہ کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی ہے۔ اپنی فوج،پولیس اور تمام صوبوں اور اضلاع میں حکومتی ڈھانچا قائم ہو چکا ہے۔ ملک میں امن و امان ہے، شاہراہیں کھلی ہو ئی ہیں۔دن اور رات کے کسی بھی وقت، آپ کسی بھی سڑک پر بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں ۔باہر سڑک پر آپ کو کوئی بھی اسلحہ بردار نظر نہیں آئے گا۔داخلی امن و امان کے ساتھ اقتصادی بحالی پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان،ایران،ازبکستان وغیرہ سے آنے والے ٹرک کسی بھی شہر کی طرف بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ تمام پھاٹکوں، سڑکوں کی بندشوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سرحدی راہداریوں پر محصول چونگی کی ادائیگی کے بعد اسی پرچی پر آپ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اور پھر پورے راستے میں کوئی آپ سے زور زبردستی راہداری کے نام پر پیسے یا رشوت وصول نہیں کرسکتا۔حکومتی ادارے اپنی فیس ،ٹیکس وغیرہ کم شرح پر لازماًوصول کرتے ہیں، مثلاً بجلی کا بل، پارکنگ فیس وغیرہ۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی ادائیگی نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ سے جہاں لوگوں کا حکومت پر اعتماد پیدا ہوا ہے، وہاں حکومتی وسائل اور آمدن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہرمعاملے میں حکومت بچت اور وسائل کے درست استعمال پر کاربند ہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’افغانستان نے خود انحصاری کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے‘‘۔
افغان حکومت نے اپنے تمام ائرپورٹوں کو مقامی اوربین الاقوامی پروازوں کے لیے فعال رکھا ہے۔ بنکاری کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے اور افغان کرنسی مستحکم ہے۔ ملک سے باہر زرمبادلہ کی ترسیل پر پابندی ہے۔ ہر ہفتہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مخصوص رقم امریکی ڈالروں کی صورت میں افغانستان کو دی جاتی ہے، جسے افغان کرنسی میں تبدیل کرکے شعبۂ تعلیم و صحت و دیگر مفاد عامہ کے اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین کو اب ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔میونسپل سروسز عوام کو میسر ہیں۔ اور چھ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایاجاچکا ہے۔داعش کے سہولت کاروں کا تعاقب جاری ہے۔سابقہ شمالی اتحاد کے مسلح گروہوں کو بھی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود امارت اسلامی افغانستان کو کئی داخلی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کا حل ضروری ہے۔
داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اب تک عبوری حکومت کام کر رہی ہے، جسے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ دستور،آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ مقننہ کا کوئی وجود نہیں ۔تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ امیر ہبت اللہ کی قیادت میں معاملات دیکھ رہی ہےاور پالیسی سازی بھی کرتی ہے،لیکن اس کو سرکاری اور رسمی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے کام پر پابندی اور طالبات پرپابندی کو سخت گیر فیصلے قرار دیا جا رہا ہے، جس کو ملکی اور عالمی دونوں سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تادمِ تحریر امارت اسلامی ان فیصلوں پر کار بند ہے۔ عالمی سطح پر بھی امارت اسلامی افغانستان کو مزاحمت کا سامنا ہے، اور ابھی تک کسی بھی ملک بشمول پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس پر کئی نوعیت کی پابندیاں اور سفارتی دباؤ ہے۔
اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر افغانستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے اور انسانی ہمدردی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے باوجود افغانستان کو اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم میں اب تک حق نمایندگی سے محروم رکھا ہے۔یکم مئی ۲۰۲۳ء کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں بھی امارت اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، جو ایک امتیازی نوعیت کا اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ بظاہر طالبات کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندیوں کے تناظر میں ہے، لیکن ان پابندیوں سے پہلے بھی اقوام متحدہ نے افغانستان کو نمایندگی سے محروم رکھا تھا۔
دوحہ کانفرنس میں اگرچہ امریکا، روس، چین ،جرمنی اور پاکستان کےنمایندے موجود تھے۔ لیکن افغانستان کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس ایک بے معنی مشق تک محدود رہی، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔
کانفرنس سے واپسی پر چینی وزیر خارجہ کن گینگ اسلام آباد پہنچے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان کےوزرائے خارجہ سے سے مل کر سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیا۔افغان وزیرخارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل تھی اور انھوں نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی، جس کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پاکستانی سفیر نے درخواست دی تھی۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے، ان کی سفارتی سطح کی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ ان کے تمام بیانات ،انٹرویو اور تقاریرکسی بھی کہنہ مشق سیاستدان اور اُمور خارجہ پر دسترس رکھنے والے سفارت کار سے کم نہیں ۔ان کے بیانات میں جھول اور ابہام شامل نہیں ہوتا۔وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے بیانات مثبت اور واضح رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات کی نوید سنائی ہے۔ اس سے پہلے افغان زعما،پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر کابل میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے خلاف بیان داغنا ضروری سمجھتے تھے، جس پر پاکستانی قوم کو افسوس اور صدمہ پہنچتا تھا۔
اس پانچ روزہ دورے میں جہاں کئی اہم سفارتی ،تجارتی اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر مفید تبادلۂ خیال ہوا، وہاں مجموعی طور پر باہمی خیرسگالی کے جذبات پائے گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کا رویہ بھی مثبت رہا۔یاد رہے کہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کا مجموعی طور پر اور بلاول زرداری کا خاص طور پر افغانستان کے بارے میں موقف مثبت نہیں تھا۔تحریک طالبان کے خلاف ان کے پے دَر پے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ایسے بیانات امریکی پالیسی کے زیراثر نظر آتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی افغان امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے لگتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے وزیر کو اچھی بریفنگ دی تھی اور چینی وزیر خارجہ کی موجودگی نے بھی اس رویے کی تبدیلی میں کردار ادا کیا، جو اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کی بحالی اور تعمیر نو کے کام میں پورا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں چین کو مشرقی ترکستان کے صوبوں میں جاری مسلم مزاحمتی تحریک (ETIM) سے بھی خطرات لاحق ہیں جس کے ازالے کے لیے وہ کوشاں ہے۔
گذشتہ سال بھی اس طرح کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی تھی، جس میں تینوں ممالک کے باہمی تجارتی امور،امن و سلامتی، دہشت گردی کے اسباب اور منشیات کا قلع قمع جیسے اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔امیر خان متقی کے ہمراہ وزیر تجارت نورالدین عزیزی بھی شریک تھے، جن کاتعلق پنج شیر سے ہے۔ مُلّا امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں پاکستانی سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات شامل ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں میں مسلسل سیکورٹی فورسز،افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا جا نی و مالی نقصان ہو رہا ہے، جس پر پوری قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہےاور امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوسکیں،البتہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ امارت اسلامی نے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا اور آیندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی قومی و صوبائی سیاست دانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، جن میں امیرجماعت ا سلامی پاکستان سراج الحق ،جمعیت العلماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام کی ضرورت پر بات ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے اسلام آباد کے تھنک ٹینک ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی ایک بڑی مجلس سے بھی خطاب کیا، جس میں سفارت کار اور اہم شخصیات شریک تھیں۔
بدقسمتی سے ان دو اہم اجتماعات میں جو مسئلہ زیر غور نہ آسکا وہ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنا اور ان کو اقوام عالم کی صف میں اپنا مقام دینا ہے، جس سے مسلسل محرومی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ملت افغان کے ساتھ زیادتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دوحہ کانفرنس کے حوالے سے شروع میں میڈیا میں یہ بات آئی کہ شاید اس موقعے پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو، تو سوشل میڈیا پر اس تجویز کی فوراً مخالفت شروع ہو گئی اور خواتین کے حوالے سے امارت اسلامی کی پالیسی کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے‘‘، حالانکہ افغان امور سےوابستہ اکثر لوگ اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہیں۔
ــــــــــــــــــــــ اسی طرح ۱۷مئی کو افغانستان میں اُس وقت ایک اہم تبدیلی رُونما ہو ئی، جب سن رسیدہ افغان وزیر اعظم مولانا محمدحسن اخوند کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے فارغ کر کے نسبتاً جواں سال نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔یہ تقرر تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہبت اللہ کے حکم سے ہوا۔مولوی عبدالکبیر صاحب، طالبان کے پہلے دور میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجداب کے برس بھی عید الفطر کے موقعے پر اُداس اور ویران رہی، اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جبر کی طاقت کے خیال میں ’’کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت پھیلنے اور اندیشۂ نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے مجبوراً کشمیریوں نے عید الفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے۔ ایسے ہی کئی اجتماعات کی وڈیو کلپس میڈیا میں گردش کرتی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہاں سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے۔ یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے:
خودی کا سرِ نہاں لااِلٰہ الااللہ
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
چناب ویلی کی یہ سرگرمی جس انداز سے اس بار زبان زدِعام ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ رسمِ وفا پورے جموں وکشمیر کے قصبوں، دیہات اور شہروں تک وسیع ہوجائے گی، اور آیندہ مزاحمت میں یہی رنگ نمایاں دکھائی دے گا۔چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہو کر صوفی منش عوام اور مجاہد صفت قوم نے اپنے محسن اور فکری رہنما اقبال کو دوبارہ پکار ا ہے، اور اقبال نے مظلوموں اور مقہوروں کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اس طرح ان کی قیامت خیز تنہائی میں وہ اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔
یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں:
تنم گُلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیرازاست
میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمین حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں۔
پھر وہ کشمیریوں کی حالت ِ زار پر اپنی افسردگی کا اظہا ریوں کرتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
آہ یہ قومِ نجیب وچرب ودست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں میں برپا انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی فرد کا بھرپور کردار ہے تو یہ نام اقبال ہی کا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے اور یہ انقلاب عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ڈوگرہ درندگی سے نکل کر وہ فاشسٹ ہندستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کے ہاتھوں برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں موجزن اورشعلہ بار ہوا۔
اقبال کشمیریوں کی فکری رہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔انھی کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحا ت پر مجبور کیا، جن میں کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا۔ اقبال، کشمیر کومسلم امت کی تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
پھر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو تحقیق کاروں کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب آزادی و انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت اور جذبۂ حُریت دکھائی دینے لگا ہے۔ان مناسبتوں کے پس منظر میں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور گہرا ہے۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ ودمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔یہ مُردہ ضمیر اور بے حس وحرکت جسموں کو اُٹھا کر معرکہ زن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے رہنمائی کا اعتراف آیت اللہ علی خامنہ ای نے۱۹۸۶ء میں کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘‘۔
اور ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو تاجکستان کے طول و عرض میں آزادی کی راہ پر چلنے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
اے خوابیدہ کلی تو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ۔
اس روز بی بی سی،لندن نے ’سیر بین‘ پروگرام کا آغاز دوشنبے میں انھی لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے کہیں زیادہ سخت ہے، جب ان کے لیے ایک اور ’گلانسی کمیشن‘ (۱۹۳۲ء)کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے۔ مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں ہے،جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی دیوار میں شگاف ڈالا جا سکے۔المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور ہرن، بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔
کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔یہ کشمیر کی وادیِ لولاب کا فرزند ہوتاہے، جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اُوٹ میں جنّت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں، تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اس دور کے علّامہ محمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے ،اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے تھے۔
علّامہ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑا بھی اُٹھایا۔انھوں نے لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا،لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر لکھنے اور بولنے کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:
پنجۂ ظلم وجہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
یوں اقبال کی رہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل ہندستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکارتک پہنچنے لگی ہے۔شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دباؤ پرڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے ’گلانسی کمیشن‘ جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حُریت اور انقلاب کے شعلوں کومسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلے ہی عشرے میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔
آج کشمیری ایک بار پھر ۱۹۳۰ءکے زما نے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے قید ہوچکے ہیں۔آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہو چکے ہیں۔اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی پُراثر اور دل دوز منظر کشی بھارت کےThe Wire ٹی وی کی میزبان عارفہ خانم شیروانی صاحبہ نے اس سال جنوری میں اپنے دورۂ سری نگر میں کی تھی۔
جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘اکثر لوگ تو جواب دینے سے پہلو بچاکر اور نگاہیں جھکا کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے تھے، مگر انھی لوگوں میں ایک واجبی سے حلیے والے ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تو تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنا رہے تھے۔عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ’’ ۵؍اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو اس شہری کا جواب تھا: ’’ٹھیک ہیں، سب ٹھیک ہے۔حالات اچھے ہیں‘‘۔شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا پن محسوس ہوا،تو انھوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا:’’کیا بتاؤں، اب کہنے کو کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے، وہ رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کاا ظہا رکرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کرانھوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیاراستہ اور اپنی قیادت کے لیے اپنا فکری رہنما ڈھونڈ لیا ہے۔ ۵؍اگست کے بعد ظلم کے سیاہ بادلوں میں انھوں نے روشنی کا ایک طاقت ور استعارہ تلاش کر لیا ہے:
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
کلامِ اقبال کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی انداز ہ ہورہا ہے۔اب کی بار کشمیر کواقبال کی ضروت بیداری کے لیے نہیں، بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔
چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مفاہمت، مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مخالفت کے ایک طویل دورانیے نے بڑے پیمانے پر عدم استحکام اور عدم تحفظ کو جنم دیا، جس کا اثر پورے خطے پر پڑا تھا۔ الحمدللہ، یہ پیش رفت دو روایتی حریفوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام اور خطے سے باہر تعاون اور اشتراک کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔
’سعودی، ایران معاہدہ‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لیے مثبت نقطۂ نظر کو سامنے لاتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی یہ بحالی، توانائی اور تجارتی تعاون کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے گی، جو خود پاکستان کی معیشت کے فروغ کا باعث ہوگا۔ پاکستان کے تاریخی اور روایتی طور پر ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات رہے ہیں، جب کہ سعودی عرب دینی اور اقتصادی طور پر ایک اہم ملک ہے جس میں پاکستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ معاہدہ علاقائی امن و استحکام کی جانب ایک قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا تعمیری کردار، قیامِ پاکستان کے بعد سے قائم ہے اور اس نے خطے کے ممالک کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوششوں کی مسلسل حمایت کی ہے۔ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) کا مقصد ایک بڑی اور ایک دوسرے کے تعاون پر منحصر مارکیٹ تیار کرنا ہے۔ اس طرح بلاشبہہ چین، تجارتی اہداف کے ساتھ ساتھ اپنے عالمی اور سیاسی مفادات کو بھی فروغ دے گا۔ بی آر آئی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے چین کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے دیگر ۱۹ ممالک کے ساتھ بی آر آئی پر دستخط کیے ہیں۔
’چین پاک اقتصادی راہداری‘ ( CPEC) کے فریم ورک کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور چین کو بہت کچھ معاونت دے سکتا ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری اور بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ کوریڈور ۲۰۱۵ء میں شروع کیا تھا جس کی مالیت تقریباً ۶۲ بلین ڈالر ہے، اور اس منصوبے میں تقریباً ۲۶بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس وقت جاری ہے اور مکمل ہونے پر یہ چین پاکستان کو مغربی چین سے گوادر پورٹ تک قدرتی گیس اور خام تیل کی نقل و حمل کا راستہ فراہم کرے گا۔ شمالی پاکستان میں شاہراہ قراقرم (KKH)کی تزئین و آرائش ہو چکی ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں اور مستقبل قریب میں اسے مزید جدید بنایا جائے گا اور وسعت دی جائے گی۔
پاکستان میں گوادر بندرگاہ کا تزویراتی (strategic) محل وقوع چین اور پاکستان دونوں کے لیے عظیم اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی امکانات پیش کرتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ، آبنائے ہرمز کی گزرگاہ پر واقع ہے، جو دنیا میں تیل کی ایک تہائی کھیپ کو سنبھالتی ہے، اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات میں گیم چینجر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین ’پاکستان اقتصادی راہداری، میں گوادر کا مقصد چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحرہند سے جوڑنا ہے۔ پاکستان کا گوادر فری زون منصوبہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکتا ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ ٹیکس مراعات، کاروباری اداروں کو وہاں صنعت کاری کرنے کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ صنعت کاری کے مرکز (Hub) کے طور پر گوادر کی صلاحیت چینی اور مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، جو اپنے صنعتی اور تجارتی اہداف کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔
ایران، بھارت اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرے ٹیجک طور پر متوازن بنا رہا ہے کیونکہ وہ خطے میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ بھارت، چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرکے علاقے میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن یہ غیر یقینی ہے کہ بھارت ایران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے گا کیونکہ امریکا کے ساتھ بھارت کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ بی آر آئی میں ایران کی شمولیت کے اس فیصلے سے ایران کا کردار کیا ہوگا؟ یہ توجہ طلب پہلو ہے۔ تاہم، پاکستان کی گوادر پورٹ میں چین کی سرمایہ کاری، چابہار میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔ بہر حال، چابہار کو گوادر سے جوڑنے والی ایک شاہراہ اور قدرتی گیس کی پائپ لائن کی تعمیر ایران کو گوادر کے راستے پاکستان اور چین کو قدرتی گیس برآمد کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، جس سے پاکستان اور ایران کے درمیان کثیر جہتی تعاون کے مواقع موجود ہیں۔
چین کا ۲۰۲۱ء میں ایران کے ساتھ ۲۵ سالہ اسٹرے ٹیجک تجارت اور سرمایہ کاری کا معاہدہ، جس کی مالیت ۳۰۰ بلین ڈالر ہے، یہ اس کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI)کا حصہ ہے۔ اس اقدام کو چابہار گہرے پانی کی سمندری بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری کو چیلنج کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر اس معاہدے میں سعودی عرب کی شمولیت سے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آیند پیش رفت ہے۔ معاہدے کے تحت توانائی کی فراہمی کے لیے پاکستان کے راستے کی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد ممکنہ طور پر ایران سے تیل اور گیس رعایتی شرح پر حاصل کرے گا، جب کہ چین، ایرانی تیل سے کم از کم ۱۲ فی صد کی رعایت پر فائدہ اٹھائے گا۔
سعودی ایران تعلقات کی خوش گواری، پاکستان کے لیے سعودی عرب کے دباؤ کے بغیر ایرانی تیل اور گیس حاصل کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ سی پیک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری بشمول گوادر میں ایک بڑی آئل ریفائنری کا قیام خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، سی پیک منصوبے کے تحت ڈبل ٹریک ریلوے اور پائپ لائنیں، جو اس وقت زیر تعمیر ہیں، مشرق وسطیٰ اور چین کے درمیان سامان کی آمدورفت کے لیے ایک نیا چینل بنائیں گی، جس سے مخصوص جغرافیائی صورتِ حال میں باہم اقتصادی اور سیاسی انحصار میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان ان ممالک کے درمیان راستوں کو جوڑ کر اور سستے نرخوں پر تجارت کر کے نمایاں آمدنی حاصل کر سکتا ہے، جس سے اس کی معیشت کو نمایاں فروغ حاصل ہو گا۔
گوادر پورٹ شہر کی ترقی پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے اور عرب ممالک سے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ جدید نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچا ہے اور اعلیٰ ترین سہولیات دنیا بھر کے سیاحوں کو خاص کر مشرق وسطیٰ کے سیاحوں کو راغب کر سکتا ہے۔ مزید برآں، گوادر اسپیشل اکنامک زونز اور ری ایکسپورٹ زونز کی جاری ترقی سے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی گوادر کے آئل ٹرمینل سٹی میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں۔ سابقہ حکومت نے ۲۰۱۹ء میں پیٹرو کیمیکلز میں ۱۰بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور بعد میں آئل ریفائنری کی تعمیر کے لیے ۵ بلین ڈالر کے مشترکہ منصوبے کی تیاری کی جارہی تھی۔
آخر میں، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون سے فائدہ اٹھانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ BRI میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، پاکستان اس نئی پیش رفت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے اور امید ہے کہ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گی۔ مگر اس سب کچھ کے لیے ملک میں امن اور خارجہ پالیسی میں توازن اور معاملات میں شفافیت ضروری ہے۔