اخبار اُمت


پاکستان میں عسکری منظر بدلتے ہی کئی معروف صحافیوں نے تواتر کے ساتھ یہ انکشاف کرنا شروع کیا ہے کہ ’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ ایک ’پیس پروسیس‘ شروع کیا تھا، جس کا منطقی نتیجہ کشمیر کو نظرانداز کرکے پاک بھارت تعلقات کی بحالی تھا‘‘۔ اس انکشاف کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، دوحہ میں بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے بعد اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ نریندر مودی ۹؍ اپریل۲۰۲۱ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں، وہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے، وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے، واپسی پر عمران خان سے ملیں گے، ان کا بازو پکڑ کر ہو ا میں لہرائیں گے اور پاک بھارت دوستی کا اعلان کریں گے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تجارت کھولنے کا اعلان کریں گے اور کشمیر کو بیس سال کے لیے پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد جب وزیراعظم عمران خان سے اس پر عمل درآمد کی رضامندی لی گئی تو انھوں نے صاف انکار کردیا، اور یوں بھارت سے معاملات طے کرنے کا موقع ضائع ہوگیا‘‘۔

اس حقیقی یا افسانوی کہانی کو دیکھا جائے تو یہ ساری پیش رفت ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ہوئی، جب بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کا تشخص ختم کرکے اسے ’بھارتی یونین ٹیریٹری‘ قرار دیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں عمران خان نے بھارت سے سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے ۵؍ اگست کا فیصلہ واپس لینے کی شرط عائد کی۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد عمران خان کا غیرمعمولی ردعمل اس امر کا واضح اظہار تھا، کہ موصوف بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے سخت گیر اور انتہا پسند وزیراعظم نئے مینڈیٹ کے ساتھ آکر کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت اور بڑا فیصلہ کریں گے، مگر انتہاپسند مودی نے اس کے جواب میں پاکستان کو مایوس کن جواب دیا اور یک طرفہ طور پر کشمیر کا اسٹیٹس بدل دیا، جس کو عمران خان نے اپنی طرف سے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو جھٹکنے سے تعبیر کرکے نریندر مودی کی انانیت، نخوت اور تکبر کے بخیے ادھیڑنا شروع کیے۔ انھوں نے مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر بجاطور پر مغرب میں ان کی خوفناک شبیہ پیش کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ مودی اس قدر زچ ہوئے کہ اُنھوں نے اگلے ہی ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے بھی گریز کیا۔ ہماری معلومات کے مطابق جنرل فیض اور اجیت دووال کی عرب ملک میں پکائی گئی کھچڑی جب عمران خان کے سامنے رکھی گئی تو ان کا بے ساختہ سوال تھا کہ ’’اس میں کشمیر کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا کہ ’’کشمیر تو بیس سال کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر عمران خان نے اس ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ملک کے تین صحافیوں کے بعد اب نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور پاکستانی دفتر خارجہ کے سینئر ترین ڈپلومیٹ عبدالباسط صاحب نے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس عمل کی مشاورت میں شریک تھے اور بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے اپنے وی لاگ کے آخر میں تسلیم کیا کہ ’’عمران خان نے کشمیر کے بغیر اس ڈیل کو ماننے سے انکار کیا‘‘، اور ساتھ انھوں نے اس حرف ِانکار کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک اچھا فیصلہ تھا‘۔

عبدالباسط صاحب کا کہنا تھا کہ اس ڈیل میں مسئلہ کشمیر کو ۲۰ برس فریز کرنے کی بات نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ ڈیل بھی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس فارمولے میں دوطرفہ مفاہمت اور اقدامات کا بیس سال بعد جائزہ لینے کا ذکر تھا اور اسی ماحول کے زیراثر بزنس ٹائیکون میاں منشا اور سابق وزیر تجارت دائود ابراہیم نے بھارت سے تجارت کی مکمل بحالی کی وکالت شروع کی تھی۔ اس ڈیل سے عمران خان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے کشمیر پر کسی پیش رفت کی ہامی نہیں بھری اور عمران خان نے کہا کہ یہ ڈیل ہوجائے اور بھارت آگے نہ بڑھے تو اس طرح ہمارا مؤقف ہی ختم ہوجائے گا۔ وہ اس ڈیل کو ’کشمیر کی مرکزیت‘ میں رکھنا چاہتے تھے، مگر بھارت کشمیر پر کچھ بھی لچک پیدا کرنے کو تیار نہ تھا۔

اس گواہی میں ایک المیہ پوشیدہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت ۵؍ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کو بے رحمی سے ختم کرچکا تھا اور ۸۰ ہزار افراد کو جانوروں کی طرح لاک ڈائون کے ذریعے گھروں میں قیدی بناکر رکھا گیا تھا۔ ان سے جدید ذرائع ابلاغ سمیت ہر سہولت چھین لی گئی تھی اور ان کی مساجد اور درگاہوں پر تالے چڑھا دیے گئے تھے۔ سید علی گیلانی جیسے مقبول قائد کے جنازے کو رات کی تاریکی میں گھر سے اُٹھایا جارہا تھا اور خواتین سے چھین کر کسمپرسی کے عالم میں پیوندِ خاک کیا جارہاتھا۔ اشرف صحرائی جیسے دلیر لیڈروں کو سلو پوائزننگ کے ذریعے جیل میں موت کی جانب دھکیلا جارہا تھا اور ان کے اہلِ خانہ کو اپنے مرحومین کے سرہانے پر آخری لمحوں میں کلمہ پڑھنے کے حق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ یاسین ملک کی بہنیں دہلی اور سری نگر کے درمیان بے بسی اور کرب کے عالم میں ماہی  بے آب کی طرح تڑپ رہی تھیں، کیونکہ ان کا بھائی پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہا تھا اور اس کی صحت خراب سے خراب تر ہورہی تھی، اس کے باوجود ان بہنوں کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب نوجوانوں کو قتل کرکے آبائی قبرستانوں کے بجائے سیکڑوں کلومیٹر دُور ویرانوں اور جنگلوں میں مٹی میں دبایا جاتا تھا، اور یہ اہلِ خانہ کو مستقل طور پر ایک نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرنے اور ذہنی ٹارچر کی ایک شکل تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت کشمیرکی شناخت اور تشخص بدلنے کے لیے نازی جرمنی طرز کے قوانین متعارف کرا رہا تھا۔ کشمیر کی تقدیر دہلی میں امیت شا اور اجیت دووال کے دفتروں میں لکھی جارہی تھی۔ خطرے کی سطح اس قدر بلند تھی کہ خود بھارت نواز سیاست دان بھی پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے پلیٹ فارم سے بھارت کے اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انھی لمحوں میں سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی کا یہ جملہ مشہور ہوا تھا کہ ’’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی‘‘۔ ایسی ’کشمیر ڈیل‘کے اندر مستقل خرابی یہی ہے کہ اس میں کشمیر کہیں نہیں ہوتا۔

یوں لگ رہا ہے کہ اب کی بار بھارت کا یہ فیصلہ یک طرفہ نہیں تھا۔ اس کھیل کا آغاز عمران خان اور جنرل باجوہ کے بیک وقت امریکا کے دورے سے ہوا تھا۔ عمران خان بڑے جلسوں سے خطاب کرتے اور ٹرمپ کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے، جب کہ عین انھی لمحوں میں جنرل باجوہ ’سینٹ کام‘ میں امریکی فوج کے شاہانہ اور پُرتپاک استقبال اور سلامی کا لطف لیتے رہے۔ وائٹ ہاؤس میں محض گپ شپ جاری رہی،جب کہ ’سینٹ کام‘ میں اصل فیصلے ہوگئے تھے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ  ’’نریندر مودی نے مجھ سے کشمیر پر کردار ادا کرنے کو کہا تھا‘‘۔ یہ حقیقت میں امریکا کو ۵؍ اگست کے فیصلے پر اعتماد میں لینے اور پاکستان کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے کی درخواست تھی۔ اس کھیل میں بعض عرب ممالک اور سرمایہ دار شریک تھے، جنھیں بھارت نے یہ جھانسہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے مقامی قوانین اور تشخص کی موجودگی میں بھارت بے بس ہے، وہ نہ تو عرب سرمایہ داروں کی کشمیر میں کوئی مدد کرسکتا ہے نہ اپنے طور پر انھیں وہاں رسائی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے کشمیر کا تشخص ختم کرنا ہوگا، تاکہ قانونی پوزیشن بدل جانے کے بعد بھارت اپنے بل بوتے پر عرب سرمایہ داروں کو کشمیر تک رسائی دے سکے۔ مغربی ملکوں کو بھی یہی جھانسہ دیا گیا، اور یوں خاموش بین الاقوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد بھارت نے یہ فیصلہ لیا تھا۔

۵؍ اگست کے فیصلے کے خلاف آزادکشمیر سے کسی صدائے احتجاج کو بلند ہونے سے روکنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر کو منظر سے غائب کرکے امریکا پہنچا دیا گیا۔ ان بیس سال میں بھارت کو کشمیر کی آبادی کا تناسب اور تشخص تبدیل کرنے کی مہم میں کامیابی حاصل کرنا تھی، مگر پاکستان اس عمل پر زبانی کلامی رسمی احتجاج کے حق سے بھی دست بردار ہورہا تھا۔ یہ پسپائی کی بدترین شکل تھی جس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا بنیادی تصور ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرانے کے لیے پلان بنا رکھا ہے۔کچھ بھارتی حلقوں کا دعویٰ رہا ہے کہ شملہ میں غیر تحریری طور پر ذوالفقارعلی بھٹو یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنایا جائے گا۔

۱۹۹۰ء کے عشرے میں پہلی بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ اس مفاہمت میں کشمیر میں ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کیا جانا مقصود تھا۔ کنٹرول لائن کو نرم کرکے مستقل قرار دینا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اسی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے واجپائی لاہور آئے، مگر پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ نے اس کوشش کو کشمیر فروشی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد کرگل کی جنگ ہوئی اور سارا منظر بدل گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف حکومت کو برطرف کرکے عنان ِ حکومت سنبھالی اور وہ بھارت کے ساتھ پُراعتماد ہوکر مذاکرات کرتے رہے اور کشمیر کے مسئلے کو اولیت دینے کی بات پر کاربند رہے۔ ان کی کشمیر دوستی کا یہ دور آگرہ مذاکرات تک چلتا رہا، جہاں انھوں نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہ کرنے پر اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور واک آؤٹ کے انداز میں آگر ہ سے وطن واپس چلے آئے۔ مگر اگلے ہی برس وہ دوبارہ بھارت گئے، دہلی میں انھوں نے اپنے آبائی گھر نہروالی حویلی کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے آگرہ والے پرویزمشرف کو خداحافظ کہہ کر دہلی والا پرویزمشرف بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ کشمیر کو نظرانداز کرکے یا کنٹرول لائن کو نرم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدے کی راہ پر چل پڑے۔ یہ قریب قریب وہی تصور تھا جس کی آبیاری نوازشریف نے کی تھی، مگر وہ اس کوشش پر جنرل پرویزمشرف کے معتوب ٹھیرے تھے۔ اب جنرل پرویزمشرف یہی کام خود کررہے تھے، مگر وکلا تحریک نے عین اُس وقت جنرل پرویز کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں جب بقول خورشید محمود قصوری ’’ہم کشمیر پر معاہدے سے تین ماہ کی دُوری پر تھے‘‘۔

اب یوں لگتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکمران عمران خان نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دی اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کی یہ کوشش بھی بہت قریب پہنچ کر کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔

نومبر ۱۸۹۳ء میں ہندستان پر قابض بر طانوی استعمار کے نمایندے وزیر امور خارجہ مارٹیمر ڈیورنڈ اور امیر افغانستان عبدا لرحمٰن خان کے درمیان تین ماہ سے جاری خفیہ مذاکرات کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان ایک مستقل معاہدہ ہوا۔ جس میں ہندستان اور افغانستان کے مابین شمال مغربی سرحد کا تعین ہوا۔۲ہزار ۶سو۴۰کلومیٹر طویل اس سرحد کو خط ڈیورنڈ (Durand Line) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق: واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا۔ افغانستان: استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے معاہدے کے مطابق دستبردار ہوگیا۔

۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ءکو جب پاکستان بر طانیہ سے آزاد ہوا تو دیگر تمام معاہدوں کے ساتھ یہ معاہدہ بھی بر قرار رہا، لیکن بعد میں افغان حاکم ظاہر شاہ کے دور میں کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور دعویٰ کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ، افغانستان کا حصہ ہے۔

اسی بنیاد پرحکومت افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی اور بعد میں ان علاقوں کو پختون آبادی کی بنیاد پر ’پختونستان‘ قرار دے کر اس کی آزادی کا مطالبہ کرتے رہے اور پاکستان میں مقیم قوم پرست حلقے بھی ان کے ہمنوا رہے۔ اس کے بعد کمیونسٹ حکمرانوں اور دیگر اَدوار میں بھی یہ معاہدہ برقرار رہا، لیکن افغانستان کی جانب سے حل طلب ہے، جب کہ پاکستان اور تمام بین الاقوامی اداروں نے اس کو پاک افغان سرحد کے طور پر قبول کیا ہے۔

یہ پس منظر بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی پاک افغان سرحد پر تناؤ کی کیفیت پیدا ہو تی ہے، تو افغانوں کے اس ذہنی پس منظر کو مدنظر رکھنا ہو گا۔جب ۲۰۲۱ء میں امارت اسلامی افغانستان بحال ہو ئی، تو بجا طور پر پاکستانی عوام نے ان سے کئی توقعات وابستہ کیں۔ اس سے پہلے کے دور حکومت میں (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) طالبان اور پاکستان کے مابین نسبتاً خوش گوار تعلقات کار تھے۔ پاکستان نے ان کی حکومت کو رسمی طور پر تسلیم بھی کیا تھا،لیکن سرحد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی تھی۔آج، اس وقت بھی افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہے،لیکن اس کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے طور پر اس متنازعہ فیہ مسئلے کو حل کریں گے، ممکن نہیں ۔ابھی باڑ (Fence) لگانے کے مسئلے پر چمن بارڈر پر جو افسوس ناک واقعات پیش آئے ہیں، وہ اسی مسئلے کا شاخسانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو تاریخی گزرگاہیں ہیں ان پر شہریوں کی آمدورفت کے حوالے سے کئی مسائل ہیں، جس کی بارہا نشاندہی کی جاچکی ہے، لیکن پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ بین الاقوامی سرحد پر آمد ورفت کے لیے جو معیاری سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، وہ بھی پو ری نہیں کی ہیں۔ رشوت دے کر پار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے عملے کے درمیان تلخی بھی تنازعات کا باعث بنتی ہے۔

لیکن پاکستان کے عوام کے لیے زیادہ اہم اور سنگین مسئلہ ملک میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ (TTP) کی روز افزوں دہشت گردی ہے،ان کا خاص ہدف پولیس کے اہل کار ہیں، ان کی چیک پوسٹوں پر متعین سپاہیوں کو نشانہ بنا یا جارہا ہے، جب کہ پاکستان کی مسلح افواج کی گاڑیوں کو بھی ریموٹ کنٹرول بموں سے اڑایا گیا ہے۔ صرف ۲۰۲۲ء میں تخریب کاری کے ۳۲۶ واقعات ہوچکے ہیں، جن میں ۳۵۲ ؍افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ۶۴ پولیس اہلکار، ۵۰فوج کے جوان اور ۲۲۴عام شہری شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ۲۰۲۰ء میں جس سیز فائر کا اعلان کیا تھا، اس کو ختم کر نے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے اور مذاکرات کا عمل بھی ختم ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے ان تخریبی سرگرمیوں کا مرکز صوبہ خیر پختونخوا بن چکا ہے۔ خاص طور پر قبائلی اور جنوبی اضلاع میں کارروائیاں عروج پر ہیں۔گذشتہ ہفتے لکی مروت اور بنوں میں بڑے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں پولیس اور  ’ان کا ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ‘ (CTD) کی چوکیوں اور مراکز کو نشانہ بنا یا اور بنوں میں مرکز تفتیش میں بڑی تعداد میں عسکری و دیگر اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بنا یا گیا۔ لیکن کمانڈو ایکشن کے ذریعے یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کا فی الحال کو ئی امکان نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف مذاکرات کا کوئی سرا بھی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔افغان طالبان کی ایما پر حکومت پاکستان اور طالبان تحریک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔یہ مذاکرات دراصل پاکستانی فوج اورٹی ٹی پی کے مابین ہو رہے تھے، جن میں قبائلی عمائدین اور بعض علمائے کرام کو واسطہ بنایا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی طالبان کے مطالبوں کو تسلیم کرنا ریاست پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ملکی سیاست میں جو دنگل اس وقت چل رہا ہے، اس میں سیاسی قیادت اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ افغان اُمور پر سنجیدگی سے غور وفکر کر کے اہم فیصلے کر سکے۔

اس دوران افغانستان میں امارت اسلامی نے ایک چونکا دینے والا فیصلہ کر کے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کے غیرمنصفانہ رویے پر افغان قیادت کا رد عمل ایک عجیب و غریب اقدام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ امارت اسلامی کی وزارت اعلیٰ تعلیم کے عبوری وزیر مُلّا ندا احمد ندیم نے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی ہدایت پر افغانستان میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اس سے پہلے ساتویں درجے سے لے کر ۱۲ویں کلا س تک پابندی عائد کی گئی تھی، جس پر اکثر ولایتوں میں عمل درآمد جاری تھا۔ اب تمام سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں اور پیشہ ورانہ کالجوں کی گریجویٹ کلاسوں کی طالبات پر بھی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں ۔اس اقدام کی مذمت میں یورپی اور مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی حکومتوں نے بیا نات جاری کیے ہیں۔ ہم نے ترجمان (ستمبر ۲۰۲۲ء) میں اس موضوع پر اسی خدشے کا اظہار کیا تھا اور بعض مغربی ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں ،ان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو تنہا کرنے کی کوشش ترک کرکے ان کو بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا ئیں، تاکہ وہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آئیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان سمیت مسلم اور پڑوسی ممالک افغانستان کو تسلیم کر کے افغان عوام کو ریلیف پہنچائیں اور غیرصحت مند اقدامات کو مکالمے کے ذریعے درست سمت دے سکیں۔

آپ نے آج تک گھروں، دکانوں یا بنکوں میں ڈاکا پڑنے کا حال تو سنا ہوگا، مگر پورے کا پورا ملک ڈاکے میں اڑا لے جانے کی مثال اس سے پہلے کم ہی دیکھی سنی گئی ہوگی۔ لیکن بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے ۱۷کروڑ آبادی پر مشتمل پورا ملک لوٹ کر انفرادیت قائم کی ہے۔ پھر یہ کام صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ دو، دو بار کیا: پہلے ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء میں۔

۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے ڈھاکہ میں لاکھوں لوگوں کے جلسے کے دوران اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی تحریک کا ایک نکاتی ایجنڈا ’فاشسٹ حسینہ واجد کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ‘ ہے، جو ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے اپنے ۱۵سالہ دورِ ظلم میں ملک کی معیشت، سیاست، تعلیم، عدلیہ، فوج اور پولیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔

ملک کے سول اور عسکری اداروں کو حسینہ واجد کی پالیسیوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ قومی اداروں کی کچھ ایسی درگت بنا دی ہے کہ یہ اب صرف اس کے ظالمانہ اور بدعنوان احکامات کی پیروی میں چلنے والے روبوٹ ہیں۔ اخباروں میں شائع ہورہا ہے کہ ملکی خزانے سے ۷ ارب ڈالر غائب ہو چکے ہیں۔ سرکاری و نجی بنکوں سے اربوں ٹکے [روپے] لوٹے جا چکے ہیں۔ ساڑھے سات ہزار کروڑ ٹکہ تو صرف ملک کے سب سے بڑے بنک ’اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ‘ (IBBL) سے   لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ سب کارستانی حسینہ واجد کے قریبی ساتھیوں نے جعلی کاغذات، جعلی کمپنیوں اور جعلی پتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔ تاحال سرکار کی طرف سے ان الزامات پر نہ کسی تحقیق کی خبر ہے اور نہ کسی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

  • مجرمانہ غفلت:بی این پی اور حزب اختلاف کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا وجوہ ہیں، جن کے باعث شیخ حسینہ کا بدعنوان اور فاشسٹ اقتدار اس قدر طول پکڑ چکا ہے۔ جن ممالک میں حزب اختلاف مضبوط ہو، وہاں ایسی بدعنوان حکومت اتنا عرصہ نہیں چل سکتی۔ حزبِ اختلاف کی اسی ناکامی کے باعث حسینہ واجد کو موقع ملا کہ وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری   رکھ سکے۔ ۲۰۱۴ء میں بھی حسینہ واجد کے خلاف ملک گیر مہم چلائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں حکومت گھٹنے ٹیکنے والی تھی لیکن بی این پی اور دیگر جماعتیں اس تحریک کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکیں۔

حسینہ واجد حکومت کے منصوبے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لوگوں کے ووٹ پر ڈاکازنی کے لیے سب سے پہلے اس نے اپنی ماتحت عدلیہ کے ہاتھوں، انتخابی عمل مکمل کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام ختم کردیا۔ یاد رہے، جنرل حسین محمد ارشاد کے آمرانہ دور کے اختتام پر ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے باہمی اتفاق سے پروفیسر غلام اعظم کے پیش کردہ تصور کے مطابق انتخاب کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام لاگو کیا تھا۔ اُس وقت حسینہ واجد کی جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ بھی اس اتفاق رائے میں شامل تھی، لیکن بعد میں عوامی لیگ نے انتخابات پر شب خون مارنے کے لیے اس معاہدے سے رُوگردانی کا رویہ اختیار کر لیا۔

حزبِ اختلاف کے حلقوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا تھا کہ جب تک یہ ٹولہ اقتدار کی کرسی پر موجود ہے، ریاستی ادارے اس کے اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات میں دخل اندازی کرتے رہیں گے۔ اسی لیے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حسینہ واجد کے کروائے گئے ۲۰۱۴ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور انتخاب کے دن یہ ثابت بھی ہو گیا کہ ان کے خدشات مبنی بر حقیقت تھے۔ آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی جگہ ہی مقرر نہیں کی گئی تھی، چنانچہ تمام نشستوں پر شیخ حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو شان دار ’کامیابی‘ حاصل ہوئی۔ انتخابات تو عوام کو با اختیار بنانے کے لیے منعقد ہوتے ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں یہ سارا عمل اقتدار پر قابض ٹولے کی چوری چھپانے کے لیے دُہرایا گیا ہے۔

یہ بات سخت مایوس کن رہی کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ۲۰۱۴ میں شیخ حسینہ کی انتخابی دھونس و دھاندلی کو برداشت کر لیا۔ جب ملک پر سماج دشمن قوتوں کا قبضہ ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا جرم ہے۔ ۲۰۱۴ میں اس کامیاب ڈاکازنی کےبعد حسینہ حکومت مزید بے باک ہو گئی اور اسے عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھنے کے لیے پارلیمنٹ پر کنٹرول حاصل ہوگیا۔ چنانچہ اس نے غیر عدالتی قتل، جبری گمشدگیوں،حزب اختلاف کے رہنماؤں کی پھانسیوں اور اسلام دوست قوتوں کی نسل کشی کا منصوبہ پوری قوت سے جاری رکھا۔ سیکڑوں علما ہنوز جیلوں میں بند اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ چار سال تک ایک غیر قانونی پارلیمان کا حصہ رہنے کے بعد حال ہی میں بی این پی کے سات ارکان نے اپنی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے۔ ان استعفوں کا اعلان ۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو کیا گیا ہے۔ ان اراکین کو اگر جمہوری اقدار سے محبت یا عوامی ووٹوں کی چوری سے نفرت ہوتی تو یہ اس چوری شدہ الیکشن سے اگلے ہی دن مستعفی ہو جاتے۔  لیکن بی این پی اور دیگر جماعتیں اس سیاسی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔

  • تاریخ  کا  سب  سے بڑا ڈاکا: ۳۰ دسمبر ۲۰۱۸ء کو شیخ حسینہ حکومت نے دوسرے نام نہاد انتخابات سے ایک رات قبل پولیس اہلکار اور عوامی لیگ کے غنڈے تمام انتخابی مراکز میں داخل کردیئے اور زبردستی تمام ووٹ چھین کر ان پر حکومت برقرار رکھنے کے لیے مُہریں لگا دیں۔ یہ جرم پورے ملک میں دُہرایا گیا۔ یوں شیخ حسینہ اور اس کے حواری پارلیمنٹ کی ۳۰۰ میں سے ۲۹۳ نشستیں ہتھیانے میں ’کامیاب‘ ہوگئے اور حزب اختلاف کے لیے محض سات نشستیں چھوڑی گئیں۔ اس پارلیمانی ڈاکے میں بھی شیخ حسینہ کو بھارتی حکومت کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔

یہ ایک مایوس کن حقیقت ہے کہ بی این پی کو شیخ حسینہ کے خلاف یک نکاتی مہم کا فیصلہ کرنے میں ۱۵ سال لگ گئے۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایک گھنٹے کے لیے بھی کسی بدعنوان حاکم کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ لیکن بنگلہ دیش میں حالات اس کےبرعکس ہیں اور یہ بنگالی عوام اور ریاست کے لیے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔

  • باہمی اختلاف مزید ناکامیوں کا سبب بنے گا:جب بھی کوئی ملک ظالم قوتوں کے نرغے میں آتا ہے تو اس کی آزادی کے لیے اتحاد و اتفاق ضروری ہوتا ہے۔ ایسا اتحاد پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے اور اسے باہمی تعاون کی مدد سے ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ایسی صورتِ حال میں باہمی اختلاف کسی قوم میں مزید تقسیم اور ناکامیوں کا باعث بنتا ہے۔ یہ حقیقت اب پوری طرح آشکار ہو چکی ہے کہ بنگلہ دیش پر غیر جمہوری ظالمانہ قوتوں کا قبضہ ہے۔ بدقسمتی سے حزبِ اختلاف کی جماعتیں ہنوز تقسیم کا شکار ہیں۔ سب سے بڑی جماعت بی این پی دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں بہت کم دلچسپی رکھتی ہے۔ ابھی تک کوئی متحدہ محاذ تشکیل نہیں دیا گیا ہے۔ بی این پی کے لوگ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کیونکہ شاید انھیں احساس ہے کہ وہ اکیلے اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ حالانکہ اس حکمت عملی سے مزید ناکامیاں جنم لیں گی۔

اگر بی این پی کے رہنماؤں کو لگتا ہے کہ وہ اکیلے حسینہ واجد سے نپٹ سکتے ہیں تو شاید انھیں ملک میں کارفرما تمام تر غیر جمہوری قوتوں اور ان کی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ شیطانی قوتیں ملک کی جڑوں تک اپنا رسوخ رکھتی ہیں اور متحد ہو کر کام کرتی ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کرلینا غلط ہو گا کہ یہ حواری اتنی آسانی سے قابض حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ سیاست، پولیس، فوج، عدلیہ اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر مکمل رسوخ رکھتے ہیں۔ بی این پی اتنے بڑے اتحاد کے خلاف تن تنہا کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟

بی این پی کے رہنما جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ کو ہٹائے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہوگا۔ اس لیے انھیں اس تحریک کے دوران صف اول میں رہنا ہو گا اور قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ بی این پی کو اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ شیخ حسینہ ،سابق صدر جنرل ارشاد جیسی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اپنے آخری دنوں میں جنرل ارشاد اپنی سب سے بڑی طاقت یعنی فوج کی حمایت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے برعکس حسینہ کو ہنوز فوج کی حمایت حاصل ہے، جس کے پیچھے ایک مخصوص وجہ یہ ہے کہ عوامی خزانے کی لوٹ مار میں سب سے بڑا حصہ فوج کو ملتا ہے۔ بنگلہ دیشی فوجی قیادت کو یہ سہولت توجنرل ارشاد کے زمانے میں بھی حاصل نہیں تھی۔ مزیدبرآں جنرل ارشاد کو بھارت کی اس درجے میں پشت پناہی بھی حاصل نہیں تھی۔ ہندستان کی ’ہندوتوا پرچارک‘ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ بنگلہ دیش میں ان کے مہرے کو شکست ہو۔ اس کے علاوہ عوامی لیگ کی نئی دہلی حکومت سے نظریاتی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ عوامی لیگ کے فسطائی رہنما ’ہندوتوا‘ کے فسطائی رہنماؤں کی جانب نظریاتی جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عوامی لیگ کے فسطائیوں نے بابری مسجد کی شہادت یا ہندستان میں مسلمانوں کے قتل عام کی کبھی مذمت نہیں کی۔

  • آیندہ لائحہ عمل:بنگلہ دیش کسی ایک جماعت کی ملکیت نہیں ہے۔ تمام جماعتیں اور سارے عوام اس کے وارث ہیں۔ مزید تقسیم کا باعث بننے والی پالیسیاں ملک کو نقصان کی طرف لے کر جائیں گی۔ چونکہ ملک پر بھارت کی گماشتہ پارٹی کا قبضہ ہے، اس لیے ہر مرد و عورت کا فرض ہے کہ وہ غیرملکی قوتوں کی آلہ کار حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ حزب اختلاف کی کمزوری کا فائدہ سب سے زیادہ شیخ حسینہ کو پہنچ رہا ہے، لیکن اس بات کا احساس ابھی تک بی این پی کی قیادت کو نہیں ہوسکا۔ اُلٹا بی این پی کے کچھ رہنما اور اس کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کچھ دانش ور دوسرے مظلوموں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کر رہے ہیں۔ اس نفرت کا سب سے بڑا نشانہ ان کی سابقہ اتحادی جماعت اسلامی کے لوگ ہیں۔ اس بے وقوفی کو خود کشی سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ ماضی میں ایسی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ناکام ہی ہوں گی۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت کو کمزور کرنا عوامی لیگی اقتدارکو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

بنگلہ دیش کی دینی قوتوں کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ چونکہ حسینہ واجد نے خود کو ’ہندوتوا‘ کا دوست ثابت کیا ہے، اس لیے اُمت مسلمہ سے بے وفائی کرکے مشرک قوتوں کی ہم نوائی کرنے والی مقتدر انتظامیہ کےخلاف سیاسی میدان میں تحریر، تقریر، اجتماع اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی جدوجہد عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے ان میں سے اگر کوئی انتخابی عمل میں حصہ لیتا ہے یا حصہ نہیں لیتا، مگر اسے کم از کم عوامی جدوجہد میں اپنا مؤثر کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔

دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہی دن تھے جب خرطوم کی سڑکوں پر عوامی احتجاج کاشعلہ بھڑکا۔ وہ احتجاج روٹی کی قیمت تین گنا ہونے پرشروع ہوا تھا اور پھر مظاہروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلا۔ مسلح افواج کے ہیڈکوارٹر کے سامنے دھرنا دیا گیا اور تین عشروں سے جما ہوا عمرحسن البشیر کے مقتدر نظام کا دھڑن تختہ ہوگیا۔

عبوری حکومتی نظام، فوجی قیادت اور فوج کے مقرر کردہ سول نمایندوں پر مشتمل تھا، جس میں زیادہ تر کمیونسٹ اور نیشنلسٹ خیالات کے حامی شامل تھے۔ یہ عبوری حکومت ’عدل و انصاف کے قیام، حُریت و آزادی اور عام آدمی کی خوش حالی‘ کے نعروں کے ساتھ برسرِاقتدار آئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ تین برس گزرنے کے بعد یہ سارے مقاصد، اہداف اور نعرے حاصل ہوسکے؟ اس جائزے سے پہلے ضروری ہے کہ صدر عمرحسن البشیر کے۳۰سالہ دورِاقتدار کا مختصر طور پر جائزہ لیا جائے۔

یہ ۱۹۸۹ء تھا جب عمرالبشیر فوجی انقلاب لے کر آئے۔ اس وقت سوڈان کی کمزور ترین حکومت کی باگ ڈور وزیراعظم صادق المہدی کے پاس تھی اورجنوب میں ’پیپلز موومنٹ‘ متعصب علیحدگی پسند عیسائی رہنما جون قرنق کی زیرقیادت دردِ سربنی ہوئی تھی۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ سوڈان کا سارا جنوب جون قرنق کےقبضے میں چلا جائے گا۔ ان حالات میں کچھ فوجی افسروں نے جنرل عمر حسن البشیر کی زیرقیادت المہدی حکومت کا تختہ پلٹا اور ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

اقتدار کے ابتدائی کچھ برسوں میں انقلاب کی نظریاتی جہت کا تعین ڈاکٹر حسن الترابی [یکم فروری ۱۹۳۲ء- ۵مارچ ۲۰۱۶ء] اور ان کے رفقا پس منظر میں رہتے ہوئے کررہے تھے، جب کہ حکومتی اسٹیج پر نمایاں فوجی چہرے نمایشی حیثیت رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ بیرونی طاقتوں کی مدد و اعانت کی حامل اپوزیشن کی طرف سے فوجی حکومت کی مخالفت میں شدت آتی گئی، اور اپوزیشن کے کچھ گروہوں نے مسلح مزاحمت شروع کی، نیز ملک کے فیصلہ ساز مراکز میں دوئی کی بناپر فیصلہ سازی میں تضادات نمایاں ہونے لگے، تو مناسب یہی سمجھاگیا کہ ڈاکٹر حسن الترابی اورحکومت کے اعلیٰ عہدے داران ’حزب الموتمر الوطنی‘ کے پلیٹ فارم سے سامنے آکر اپنی سرکاری حیثیت میں شرکت اقتدار اور فیصلہ سازی کےعمل میں باقاعدہ شامل ہوجائیں۔تاہم، اسپیکر اسمبلی ہوتے ہوئے واضح ہوا کہ حسن الترابی وقت کی رفتار اور اپنی تبدیل شدہ حیثیت کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے اور اپنی نئی حیثیت کو چیلنج کرنے والے عہدے داران سے اُلجھتے رہے۔

اس دورکے مقتدر نظامِ حکومت میں چونکہ حسن الترابی اور ان کے رفقائے کار فیصلہ کُن اثرورسوخ کے حامل تھے، لہٰذا حکومتی اقدامات خواہ قانون سازی کے ہوں یا انتظام و انصرام کے، ان میں اسلامی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نمایاں اسلامی رنگ کی ایک وجہ جنوب کی طرف سے بڑھتا ہوا دبائو بھی تھا۔ فیصلہ سازوں کے خیال میں متعصب علیحدگی پسند عیسائی رہنما جون قرنق، جو سیکولر اپوزیشن گروپوں کے اتحادی بھی تھے، ان کا مقابلہ جوابی اسلامی احیائی لہر اور اسلامی شعور اور اسلامی جوش و جذبے کی بیداری ہی سے ممکن تھا۔ یہی وہ عرصہ تھا، جس میں سوڈانی مقتدرہ نے جہاد کی دعوت کو نوجوانوں میں عام ہونے دیا اور اس طرح بہت سے ایسے مسلح گروہ سامنے آئے جو جنوب کے عیسائیوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں اپنی افواج کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔

اسی عرصۂ اقتدار میں سوڈانی قوانین اور معاشرے کی اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں جو نمایاں کارنامہ سرانجام پایا وہ سوڈان کے دستور کی اسلامی تدوین تھی۔ دستور کا یہ اسلامی رنگ ۱۹۹۸ء کے دستور میں نمایاں نظر آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’شریعت اسلامیہ، اجماع اُمت ’دستورا اور عرفا‘ قانون سازی کا مصدر و منبع ہوں گے اور ان سے ہٹ کر ہرگز کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی‘‘۔ اسلامائزیشن کا یہ عمل تقریباً انھی خطوط پر تھا، جو صدرجنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمارے ہاں انجام پاچکا تھا۔

تاہم، اسلامائزیشن کے اس عمل کی وجہ سے یہ عشرہ، پڑوسی ملکوں اور علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے سوڈان کے محاصرے پر منتج ہوا۔ ان سب ملکوں کی طرف سے دشمنی پر مبنی اس رویے کا مقصود دراصل اسلامائزیشن کے عمل کو روکنا تھا۔ یہ عشرہ ۱۹۹۳ء میں سوڈانیوں کے لیے امریکا کی طرف سے ابتلا اور آزمایش کا یہ پیغام بھی لے کرآیا کہ سوڈان کا نام دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ اب اگلے تین عشرے، سوڈانی عوام کو اس اعلان کی المناکیوں کو بھگتنا تھا۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات تباہ ہوکر رہ گئیں۔ دُنیا کے بنکاری نظام سے سوڈان کا ناتا توڑ دیا گیا، جس کے سوڈان کی معیشت پر انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری طرف خطے کی سیاسی صورتِ حال اس وقت یہ تھی کہ سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، اری ٹیریا اور یوگنڈا کی مدد سے اپوزیشن اتحاد مسلح مداخلت پر تلا بیٹھا تھا۔ دوسری طرف مصر جسے سوڈان ہمیشہ اپنے مضبوط دفاعی حلیف اور پشتی بان کے طور پردیکھتا رہا، اس نے مکمل لاتعلقی کا رویہ اپنا لیا۔

عمر حسن البشیر کی حکومت نے گمبھیر ہوتی ہوئی اس صورتِ حال کا تدارک یہ نکالا کہ اقتدار کے دوسرے عشرے میں علانیہ اسلامائزیشن کا عمل تقریباً روک دیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور ان کے رفقا کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ ۱۹۹۸ء کے دستور میں ۲۰۰۵ء کے اندر ترمیم کردی گئی۔ اگرچہ دستور میں حسب سابق یہ الفاظ تو برقرار رکھے گئے تھے کہ شریعت اسلامیہ قانون سازی کا منبع و مصدر ہوگی، تاہم بہت ساری دفعات میں شریعت کے احکامات کو پہلے کی طرح برقرار نہیں رکھا گیا۔

مغرب کو خوش کرنے کے لیے کی جانے والی اس ساری کاوش کا حاصل تو کچھ نہیں نکلا بلکہ ’ڈومور‘ کے تقاضے کے ساتھ ان طاقتوں نے سوڈانی مقتدرہ کو مزید اَدھ موا کرنے اور اس کی قوت کو مضمحل اور شل کرنے کے لیے دارفور کے صوبہ میں علیحدگی پسند قوتوں کی نہ صرف سرپرستی اور مدد کی، بلکہ نسل کشی کے الزام میں صدر عمر حسن البشیرکے لیے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری کروا دیئے۔ عالمی طاقتوں سے موافقت اور ان کی ڈکٹیشن قبول کرنے کا یہ عشرہ آخرکار جنوبی سوڈان سے مکمل دست برداری اور بالفعل ایک عیسائی مملکت کے قیام پر منتج ہوا۔

یوں عمرالبشیر حکومت نہ تو ملکی سالمیت برقرار رکھ سکی، اور نہ مقتدر حلقوں کی روزافزوں بدعنوانی کو روک سکی۔ سوڈانی مقتدرہ چند گنے چنے افراد کے گرد گھوم رہی تھی اور ملک فساد اور رشوت ستانی کا گڑھ بنتا جارہا تھا۔ اس پر طرفہ یہ کہ مقتدرہ کی ساری کارستانیاں، اسلامائزیشن کے علَم بردار اسلام پسندوں کے کھاتے میں درج ہوتی جارہی تھیں۔ سسٹم میں فیصلہ کن اختیار رکھنے والے بیرونی طاقتوں سے مفاہمت اور ان سے طاقت کے حصول کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

بیرونی طاقتوں کی تائید و حمایت سے اقتدار اور سسٹم کو بچانے کے لیے ہی صدر عمر حسن البشیر نے دمشق کا دورہ کیااور شام کے خونی ڈکٹیٹر بشارالاسد سے راہ و رسم بڑھائی۔اسی طرح اقتدار کے اس آخری عرصے میں سوڈانی انٹیلی جنس سربراہ صلاح قوش کی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ سے ملاقاتیں بھی دراصل اسی پالیسی کا شاخسانہ تھیں۔ اب مقتدرہ کی کوشش تھی کہ اپنے آپ کو مغرب کا قابلِ اعتماد حلیف بتائے اور اسلامائزیشن کی کوششوں کے ناقد اور گریزپا کے رُوپ میں پیش کرسکے۔ تاہم، اب ہاتھ پائوں مارنے کا حاصل کچھ نہیں تھا۔ لہٰذا، چند ماہ کے عوامی احتجاج کے بعد بالآخر ۱۱؍اپریل ۲۰۱۹ء کو فوجی جنتا نے اپنے سابقہ سربراہ عمرحسن البشیر کی معزولی اور ایک فوجی مجلس سیادت کے قیام کا اعلان کردیا۔

چند ماہ بعد اگست ۲۰۱۹ء کو شرکت اقتدار کا فارمولا وضع کیا گیا جس کی رُو سے مجلس سیادت کے پانچ فوجی ممبران اور پانچ سویلین ممبران متعین کیے گئے۔ اس مجلس نے تین برس کے عرصے میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرکے نومبر ۲۰۲۲ء کو اقتدار کی باگ ڈور منتخب جمہوری حکومت کو سونپ دینی تھی۔ سوڈان میں مسلسل چہ مگوئیاں ہوتی رہی ہیں کہ مجلس سیادت کے سویلین ممبران کا چنائو فوج نے خود کیا تھا، یا یہ نام مغربی طاقتوں کے فراہم کردہ تھے؟

اس مجلس سیادت کی قائم کردہ سول حکومت ملک کو کس ڈگر پر لے کر چل رہی تھی، اس کا اندازہ اس قانون سازی سے بخوبی ہو جاتا ہے، جو گذشتہ دو سالہ اقتدار کے دوران کی گئی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اس کا ایجنڈا عالمی طاقتوں کی رضاجوئی ہے۔

علاوہ اَزیں مشرقی سوڈان کےعلیحدگی پسندوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے جس میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ سوڈان کا مجوزہ دستور سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔

یہ دیکھنا ضروری ہے کہ گذشتہ برسوں میں اس عبوری حکومت نے جو کچھ کیا ہے، اس کے نتائج کیا ہیں؟ اور کیا سوڈان کے مسلمان ان نتائج سے مطمئن ہیں؟ اکثر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ عام سوڈانی فرد اس حکومت کی کارکردگی سے مایوس بھی ہے اور ناراض بھی۔ اس وقت سوڈان کو تین بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے: آئی ایم ایف کی پالیسیاں معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج کو وسعت دے رہی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی زوروں پر ہے۔

  • سوڈان کی اسلامی شناخت پر حملہ :وہ سیکولر قوتیں جو فوجی قیادت اورعالمی سرپرستی میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہیں ، ایک واضح ایجنڈا رکھتی ہیں۔ اور وہ ہے سوڈان کے دستور اور قوانین کو ایک بار پھر سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ سوڈانی عوام کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ اس ایجنڈے کو قبول نہیں کرے گی۔ اس لیے یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ عبوری اقتدار ہی میں اپنے ایجنڈے کی زیادہ سے زیادہ تکمیل کرلیں کیونکہ نوشتۂ دیوار اُن کے سامنے ہے کہ انتخابات کے نتائج ہماری حسب ِ منشا نہیں نکلیں گے۔

سوڈان کی سالمیت اور وحدت کو درپیش خطرات ٹلے نہیں ہیں۔ جنوبی سوڈان کے بعد دارفور اور مشرقی سوڈان کی علیحدگی کی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کا واحدطریقہ اسلام پسندوں کا اتحاد اور سوڈان کی اسلامی شناخت کی طرف مخلصانہ واپسی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔

۱۷دسمبر ۲۰۲۲ء کو تیونس کے عام انتخابات میں صرف ۸فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک تیونس، بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقا میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو ’مغرب العربی‘ کہا کرتے تھے، جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ’بربری ساحل‘ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ علمی سطح پر مسجد و جامعہ الزيتونہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ، دُنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے اور یہ بھی تیونس میں ہے۔

۲۴ دسمبر ۲۰۱۰ءکوبےر وزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے بطور احتجاج خود کو نذر آتش کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں کے صدر زین العابدین بن علی (م:۲۰۱۹ء)نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کی کوشش کی۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر۲۳ سال تک مطلق العنانیت سے منسوب خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ءکو سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر ان کے مغر بی سرپرستوں نے اپنے پٹے ہوئے مہرے سے آنکھیں پھیر لیں۔

فوج نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ’حرکۃ النہضۃ‘ (تاسیس:۱۹۸۱ء) کے سربراہ راشد الغنوشی (پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء)کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی، جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ جناب غنوشی کا کہنا تھا:’’تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے، جو عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو‘‘۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔ 

اُسی سال ۲۳؍اکتوبر کومتناسب نمایندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب ۹۰ فی صد رہا۔ النہضہ نے ۴۱ فی صد ووٹ لے کر ۲۱۷ کے ایوان میں ۹۰ نشستیں حاصل کیں، جب کہ اس کی مخالف سیکولر جماعت پی ڈی پی کو صرف ۱۷ نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ری پبلک المعروف موتمر ۳۰ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ 

 النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے، ’’یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے، جس میں قیدیوں کے حقوق تک کی بھی ضمانت دی گئی اور تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جس کے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادیٔ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا‘‘۔

آئین منظور ہوتے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی، جس کی نگرانی میں ۲۶؍اکتوبر کو ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ’ندائے تیونس‘ ۸۶ نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی اور ۶۹ سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد ۲۰۱۹ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے، جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی، لیکن ۵۲ نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔

کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ۵۰ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور ان کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی ’انقلابِ یاسمین‘ کی کامیابی کے بعد تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شان دار رہے۔ 

عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ’ربیع العربی‘(Arab Spring) کے آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے۔ تب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے، وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے کے لیے ان کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔ 

’ربیع العربی‘ صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی، جب کہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذآرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کیے، لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ء میں وارد ہونے والے کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔اب جمہوریت دشمنوں کی جانب سے حکومت کے خلاف الزام تراشی اور انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا،اور تیونسی سیاست دانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کی ۱۰سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ’’پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی، تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈی ننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے‘‘۔

فوج کی ایماپر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اس کا رُخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیراؤ کرکے حکومت سے استعفا کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ءکو پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ ’’اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی، تو مسلح افواج روایتی تنبیہہ کے بغیر گولی چلائے گی‘‘۔

ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیش کش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردیں گے۔ لیکن اس پیش کش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ ساتھ ہی صدر قیس نے منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانے والا دستور بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا، اور نئے آئین کی تدوین کے لیے 'قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق: ’’حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائے گا اور انھیں فروخت کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوگی‘‘۔

نئے دستور کا مسودہ سامنے آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن ’الاتحاد العام التونسي للشغل‘(UGTT) نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بڑی طاقتوں کے ایما پر تحریر کی جانے والی یہ دستاویزِ غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے ۲۰۱۱ء میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہے اور اس کی منسوخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اس کے باوجود حکومت نے ۲۶ جولائی کو ریفرنڈم کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف ۳۰فی صد رہا ۔ 

نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس طرح ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہِ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً  ۲۵ فی صد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’۹۰ لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ۸ لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‘‘۔ ’النہضہ‘ سمیت پانچ جماعتی ’محاذِ نجات‘ (Salvation Front)نے انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفا اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ تاہم، الغنوشی صاحب نے جمہوریت کے آبگینے کو حفاظت سے بحال کرنے کے لیے صدرقیس کو پیش کش کی ہے کہ اگر وہ عوامی اُمنگوں کا احترام کریں تو انھیں صدر برقراررکھا جاسکتا ہے۔

یاد رہے ، صدر قیس کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کے لیے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ المدرسہ الوطنیہ للمھندسين تیونس (National School of Engineers) میں ارضیات کی پروفیسر نجلہ ابومحی الدین رمضان، درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ النہضہ نے اپنے دورِحکومت میں انھیں ’تعلیمی کمیشن‘ کی سربراہ بنایا تھا۔

’النہضہ‘ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس طرح رعونت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر تو کھل کر قیس کے پشت پناہ ہیں، جب کہ مغرب کچھ کھلے میں، اور کچھ چھپے میں ان کا پشتی بان ہے۔

آئین پر ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماؤں کے لیے نرم چارہ بنا رہے ہیں۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی اُمنگوں پر شب خون سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کے لیے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جس کا قبلہ واشنگٹن یا بریسلز ہو۔

عالمی سطح پر اُبھرنے والی چند شخصیات میں نیلسن منڈیلا [م:۵دسمبر ۲۰۱۳ء]کے بعد داتو سری انور ابراہیم [پ:۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء]، موجودہ وزیراعظم ، ملایشیا، ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھیں ہم تاریخ ساز اور سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے والی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ جنھوں نے ملایشیا کے نومبر۲۰۲۲ء میں منعقد ہونے والے ۱۵ویں عام انتخابات میں سب سے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے والے محاذ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ انور ابراہیم کے محاذ کی یہ انتخابی کامیابی، دراصل ناانصافی کے خلاف عوام کا ردعمل ہے۔ تقریباً ۲۵سال کے طویل عرصے کے بعد انور ابراہیم کے ساتھ انصاف کیا گیا اور اُنھیں حکومت بنانے کے لیے مدعوکیا گیا۔ درحقیقت یہ انصاف کی کامیابی ہے۔

انورابراہیم جنھیں ۲۵ سال قبل ہی ملایشیا کےوزیراعظم بن جانا چاہیے تھا، لیکن ڈاکٹر مہاتیرمحمد سابق وزیراعظم ملایشیا کی پالیسی کے نتیجے میں انھیں نائب وزیراعظم کے عہدے سے محض اس بناپر علیحدہ کردیا گیا، کہ انھوں نے ملک میں برپا ہونے والی معاشی بدعنوانیوں اور انتظامی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی تھی۔

ڈاکٹر مہاتیرمحمد نے اُنھیں نہ صرف برطرف کردیا بلکہ بے بنیاد الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ڈاکٹر موصوف کی اس ظالمانہ روش نے نہ صرف انورابراہیم کو نقصان پہنچایا، بلکہ خود ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ اگر ڈاکٹر مہاتیرمحمد اقتدار سے انور ابراہیم کو غیرفطری طریقے سے راستے سے نہ ہٹاتے تو آج ملایشیا، لاجواب ترقی کی منازل طے کرکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ حاصل کرسکتا تھا۔

انورابراہیم نے مہاتیرمحمد کی جانب سے کی جانے والی ان تمام ناانصافیوں کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک نئی سیاسی جماعت پیپلزجسٹس پارٹی (PKR) کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کی قیادت اُن کی اہلیہ ڈاکٹر وان عزیزہ [پ:۱۹۵۲ء]نے سنبھال لی اور ایک تاریخ ساز شخصیت بن کر ملایشیا کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئیں۔ انورابراہیم جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ ان کی حالیہ کامیابی اور اُن کا وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونا دراصل ان کی اَن تھک جدوجہداور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اسلام کے اجتماعی نظام کو پیش کرتے ہیں اور سیاسی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُنھیں انورابراہیم کی جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے، اور اپنے عمل کو جہد ِ مسلسل میں تبدیل کردینا چاہیے۔

انورابراہیم نے بحیثیت اسٹوڈنٹ لیڈر، ملایشیا کی سماجی زندگی میں ۱۹۷۱ء میں ABIM  (Muslim Youth Movement of Malaysia ) کے قیام کے ذریعے حصہ لیا اور پھر ۱۹۹۸ء تک مسلسل ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملایشیا کی سیاست پر چھاگئے۔ اسلام سے اُن کی وابستگی اور اسلام کے آفاقی تصورنے اُنھیں ساری دُنیا میں جاری اسلامی انقلابی تحریک سے قریب کر دیا۔ وہ ملایشیا میں اسلامی جدوجہد کے طاقت ور نمایندے کی حیثیت سے اُبھرے اور ۱۹۸۲ء میں ملایشیا کی معروف سیاسی جماعت UMNO میں شریک ہوئے۔ پھر اسلامی سیاسی جماعت PAS کے ساتھ مل کر اسلامی نظامِ تعلیم کے لیے جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۳ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔بحیثیت وزیرتعلیم انور ابراہیم نے اسلامی یونی ورسٹی کی ترقی میں زبردست کردار ادا کیا۔یہ یونی ورسٹی آج عالمِ اسلام کی ایک بہترین درس گاہ کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔

۲۴نومبر ۲۰۲۲ء، شام پانچ بجے ملایشیا کے بادشاہ کی جانب سے اُنھیں وزیراعظم کا حلف دلایا گیا۔ ملایشیا کے بادشاہ شاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے انور ابراہیم کے حق میں فیصلہ کرنے سے پہلے ملک کے بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا اور آخر میں ملایشیا کی تیرہ ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی مشورہ کیا۔ سبھی لوگوں نے انورابراہیم کووزیراعظم کی حیثیت سے قبول کرتے ہوئے اپنا تعاون پیش کیا۔

 انورابراہیم کی پارٹی اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں صرف ۸۲سیٹیں جیتی ہیں، اس لیے اُنھیں ملک کی مشہورومعروف سیاسی جماعت UMNO اور اُن کے محاذ، BN جنھوں نے ۳۰سیٹیں جیتی ہیں اور دیگرچھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ اس طرح وہ ملک کے دسویں وزیراعظم بن کر سیاست کے ایوانوں میں شاندار طریقے سے واپس آئے ہیں۔ ۷۵سالہ سیاست دان انورابراہیم ملک کے تمام طبقوں اور نسلی گروپوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے سیاسی استحکام کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ اُن کی زیرقیادت حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ’متحدہ حکومت‘ ہے، جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ سب کا مقصد ملک کی معیشت کو بہتر بنانا اور عوام کی مشکلات کو آسان کرنا ہے۔

انور ابراہیم ملک کو مالی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور اسلامی بنیادوں پر ملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اُن سے یہی اُمید کرتے ہیں کہ وہ اسلامی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کےلیے کام کریں گے۔ حالیہ انتخابات میں پارٹی کی سطح پر اسلامی جماعت نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔ اس لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اسلامی خطوط پر ملک کی تشکیلِ نو چاہتی ہے۔ انورابراہیم کے لیے بحیثیت وزیراعظم سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کیا وہ اسلامی شناخت اور سب کے ساتھ مل کر ملک کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک منفرد مقام دلانے میں کامیاب ہوں گے؟ اس کام کے لیے اُنھیں ملک کی اسلامی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ انورابراہیم بحیثیت وزیراعظم ملایشیا میں کامیاب ہوں گے اور ملک کو معاشی اور سیاسی مسائل سے نجات دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔

’اسرائیل امریکن جیوش کمیٹی‘ کا ایک وفد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ملاقات کرکے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعاون کے نئے امکانات اور راستوں پر بات چیت کررہا تھا۔ اور دوسری طرف دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کا زرعی اتاشی یائر ایشیل کنڑول لائن کے قریب دو زرعی فارموں کا دورہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:’’ اسرائیل [مقبوضہ] کشمیر میں بھارت اسرائیل زرعی منصوبے کے تحت دو سینٹر آف ایکسی لنس کھولنے کے لیے تیار ہے، ہم اپنی جدید ٹکنالوجی جموں و کشمیر کے کسانوں کو دینے کو تیار ہیں‘‘۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسرائیل کی طرف سے زرعی شعبے میں اس دلچسپی کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔

اگرچہ خفیہ طور پر تو پنڈت نہرو ہی کے زمانے میں بھارت اسرائیل تعلقات کا دورشروع ہوچکا تھا جس نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے اندرا حکومت کو معاونت بھی دی تھی۔ تاہم، ان تعلقات کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا ، مگر اہلِ نظر جانتے تھے کہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ ایک گہرے راستے پر گامزن ہیں۔ پھر اسرائیل اور بھارت کے درمیان کھلے تعلقات کا آغاز ۳۰سال قبل ہوا تھا، اور نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات بلندیوں کی انتہا پر پہنچ گئے۔ مودی نے ان تعلقات کو باضابطہ تسلیم کیا اور اپنی سرپرستی میں لیا۔ اس طرح وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ نریندر مودی نے اس دورے میں فلسطینیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا اور راملہ کا دورہ کرنے سے احتراز کیا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت اب فلسطینی عوام کی تحریک اور مستقبل کے بارے میں اپنا عالمی سفارتی موقف بھی مکمل طور پر تبدیل کرچکا ہے، جس میں فلسطینیوں کی الگ حیثیت یا ریاست کا کوئی تصور نہیں۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت پر شب خون مارا تو مغرب کی خاموش تماشائی کی حیثیت اور کردار کی سطحیں کھلنا شروع ہوگئیں۔ بھارت نے کشمیر کی مناسبت سے تمام قانونی اور آئینی جھوٹے سچّے پردے نوچ کر پھینک دیئے اور دنیا کے چند طاقتور ملکوں کو بتادیا کہ اب وہ اس حوالے سے کسی کی بات نہیں سنے گا۔ یہ پیغام دیتے وقت سرفہرست اسرائیل تھا، جب کہ عرب دنیا دوسرے نمبر پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست کے بھارتی فسطائی قدم کے خلاف عرب دنیا نہ صرف خاموش رہی بلکہ پاکستان اور عمران خان کو بھی ایسے ہی ’صبر ‘کی تلقین کرتی رہی، جس ’صبر وتحمل‘ کا مظاہرہ انھوں نے فلسطین میں کیا تھا۔ صبر و تحمل کی اس ظالمانہ تلقین پر پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان تلخی کا ماحول بھی بنا اور پاکستان کے وزیراعظم نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہم خیال ملکوں کا اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سے ہٹ کر ایک نیا پلیٹ فارم بنانے کی دھمکی دی۔ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین سرکنے ہی لگی تھی، اور پھر پاکستان کو اندر سے مجبور کرکے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔

اسرائیل، فلسطینیوں کی زمین انچوں، گزوں اور ایکڑوں میں ہتھیانے کا مجرم ہے۔ اسرائیل نے پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں۔ جب یہودیوں کی آبادی ان علاقوں میں بڑھ گئی تو یہودی اکابرین کے’اعلانِ بالفور‘ پر عمل درآمد کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوا اور باقاعدہ اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، یعنی بین الاقوامی طاقتیں اسی موقعے کی تاک میں تھیں، انھوں نے بیرونی مدد کرکے اسرائیل کی ریاست قائم کردی۔ بعد میں فلسطینی در بہ در ہوتے چلے گئے اور ان کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر ہوتی رہیں۔   آج مقبوضہ فلسطین میں خود فلسطین ایک نقطہ ہے اور اسرائیل ایک بڑا دائرہ۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان کھلے عام فوجی تعاون تو ۳۰برس سے جاری ہے، اور یہ تعاون ۱۹۹۰ء میں اُس وقت بے نقاب ہوا تھا جب کشمیری حریت پسندوں نے جھیل ڈل میں ایک شکارے پر حملہ کرکے اسرائیلی کمانڈوز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سیاحوں کے رُوپ میں کمانڈوز تھے جنھوں نے حریت پسندوں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ بعد میں یہ تعلق مختلف واقعات کی صورت میں عیاں ہوتا چلا گیا۔

اب بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے اور انھیں اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کی زمینیں عرب باشندوں کے ناموں سے یا انھیں آگے رکھ کر خریدی یا استعمال میں لائی جائیں، مگر اس کے پیچھے حقیقت میں اسرائیل اور بھارت ہی ہوں گے۔ بھارت نے ۵؍ اگست کے فیصلے کے ذریعے متروکہ املاک کے نام پر مختلف جنگوں اور دوسرے مواقع پر نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی زمینوں کا کنٹرول اور حقِ ملکیت حاصل کرناشروع کیا ہے۔

فی الحال تو انھیں نئی زمینیں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، مگر وہ ان ہتھیائی گئی زمینوں کو ماڈل بستیاں یا باغ بنانے کے بعد کشمیر کے دوسرے زمین داروں کو بھی اپنی طرف دیکھنے اور شراکت داری قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ اسی لیے کشمیر کی سب سے بڑی صنعت سیب کے باغات کو حیلوں بہانوں سے تباہ کیا جارہا ہے، تاکہ ان باغوں کے مالکان ’نئے تجربات‘ کے نام پر بھارت اور اسرائیل کی شراکت داری قبول کرلیں۔اُونٹ کو خیمے میں سر دینے تک مشکل ہوتی ہے، یہ کام ایک بار ہوجائے تو پھر خیمہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔

گذشتہ ماہ سے فلسطین کے قدیمی، تاریخی اور مزاحمتی روایات کے حامل شہر نابلس میں اسرائیلی قابض فوج نے سنگین ترین محاصرے کا آغاز کیا ہے۔رومی حکمرانوں کے دور میں قائم کیے گئے فلسطینی شہر نابلس کی کئی حوالوں سے شناخت ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان آباد ہے۔ ایک زرعی شہر ہے۔ زیتون کے باغوں سے سرسبز و شاداب ہے۔ ڈیڑھ دو لاکھ کی آبادی کے اس شہر کی ایک شناخت یہ بھی رہی ہے کہ یہ بیرون ملک سے لا کر مسلط کردہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنتا رہا ہے۔

 نابلس کے آزادی پسند فلسطینیوں سے برطانوی قبضہ کاروں کو بھی مسائل رہے ہیں۔ آج امریکی سہولت کاری سے قائم ناجائز اسرائیلی قابض حکومت کے فوجی بھی اس شہر کے لوگوں سے خوش نہیں۔ اس لیے نابلس کے باسیوں کو اسرائیلی قابض فوج نے اور اس کے باغوں کو بیرونِ ممالک سے اکٹھے کیے گئے یہودی آباد کاروں نے ہمیشہ نشانے پر رکھا ہے۔

اسی سبب گذشتہ ماہ کے پہلے عشرے سے نابلس کا محاصرہ جاری ہے۔ اس دوران کئی فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے اور نابلس شہر کے باسیوں کے خلاف اسرائیلی قابض فوج کی کارروائیاں ہیں کہ مسلسل جاری ہیں۔گھروں سے نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ چوک چوراہوں پر گولی چلائی جاتی ہے۔ زہریلی آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا جاتا ہے۔ بے گناہوں کو جیلوں میں نظر بند کیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اور عالمی ضمیر دونوں ہیں کہ چین کی نیند سو رہے ہیں۔ جیسے یہ ’گلوبل ویلج‘[عالمی گائوں] کے نہیں ایک عالمی قبرستان کے مکین ہوں۔

نابلس سے ۱۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ کی پٹی ہے۔ ۲۰ لاکھ کی آبادی کی یہ بستی، بستے بستے بسنے والی اور بس بس کر اُجڑنے والی ایک فلسطینی بستی اسرائیلی قابض فوج کے ظالمانہ اور معلوم تاریخ کے طویل ترین محاصرے کی ایک مثال ہے۔ غزہ کے فوجی محاصرے کو ساڑھے ۱۵سال ہونے کو آئے ہیں۔ غزہ کے تین اطراف میں خشکی پر اسرائیلی فوجی ناکوں اور چیک پوسٹوں میں ہمہ وقتی گشت اور پہروں کی صورت موجود ہوتے ہیں، جب کہ چوتھی جانب سمندر میں اسرائیلی بحریہ کا محاصرہ موجود ہے۔ پھر فضائی نگرانی کے ہمہ وقت اہتمام کے علاوہ اسرائیل جب دل چاہے بم باری بھی کر لیتا ہے، تاکہ خوف کی کیفیت یہاں کے بچوں اور عورتوں پر ہروقت مسلط رہے۔

محاصرے کے ان مسلسل ساڑھے پندرہ برسوں نے غزہ کو دنیا کی ایک بدترین کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اس کھلی جیل کا کسی ایک آدھے حوالے سے اگر کوئی تقابل ہو سکتا ہے تو وہ جنت نظیر وادیٔ کشمیر ہے۔ جنت ارضی کشمیرپر بھی پچھلے کئی عشروں سے سات لاکھ سے زیادہ بھارتی افواج نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہ بھی ایک کھلی جیل ہے۔

حالیہ برسوں کی ایک مثال برما کے روہنگیا مسلمانوں کی صوبہ اراکان بھی رہی ہے کہ انھیں بھی اسی طرح گھیر کر مارا گیا اور ان کے حالات میں ابھی تک کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تاہم، غزہ کا معاملہ کئی حوالوں سے دیگر سب محاصروں سے زیادہ خوفناک اور المناک ہے۔ یہ ایک ہی بستی ہے۔ اس بستی کا رابطہ ہر دوسری بستی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس میں خوراک کی ضروریات سے لے کر لباس، رہایشی حاجات اور ادویات سمیت تقریباً ہر چیز کا انحصار دوسری جگہوں سے آنے پر ہے، جو مکمل ’بلاکیڈ‘ (محاصرے)کی وجہ سے ممکن نہیں رہا ہے۔

اس متواتر ’محاصرے‘ کی وجہ سے ۲۰ لاکھ کی آبادی میں سے کم از کم ۱۰ لاکھ کی آبادی کو صبح و شام سادہ سی خوراک بھی میسر آنا آسان نہیں رہا ہے۔ بھوک و افلاس اور خوراک کی قلت کے شکار ان اہل غزہ کے لیے ان کے اڑوس پڑوس کے لوگوں سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق اور عالمی برادری کے سب نعرہ باز، ظالمانہ حد تک خاموش ہیں۔

غزہ کے مسلسل اسرائیلی فوجی محاصرے کی وجہ سے یہ بستی عملاً بیروزگاروں کی غالب اکثریت کی بستی بن چکی ہے۔ غزہ سے باہر مزدوری کے لیے جانے کے حق سے بھی اہل غزہ کومحروم کر دیا گیا ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے بھی غزہ سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علاج معالجے کے لیے کسی ہسپتال اور مناسب علاج گاہ تک پہنچنا غزہ کے مکینوں کے لیے ناممکن ہے۔

صرف یہی نہیں، ان ساڑھے پندرہ برسوں کے دوران پانچ مرتبہ اسرائیل کی طرف سے دنیا کی اس کھلی جیل پر جنگی جارحیت مسلط کی جا چکی ہے۔ بار بار غزہ کے ٹوٹے پھوٹے ہسپتالوں اور ادھورے تعلیمی اداروں کو بمباری کا نشا نہ بنایا جا چکا ہے۔ گویا مہذب دنیا کی قیادت کرنے والی  نام نہاد ’مہذب‘ اور ’انسان دوست‘ عالمی طاقتوں کے سامنے ان فلسطینیوں کو باندھ کر مارا جا رہا ہے۔ دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل اس محاصرے کو ختم کر دے گا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ رفاہ کی راہداری ان اہل غزہ کے لیے اس محاصراتی زندگی میں سانس لینے کی واحد صورت ہے۔ اسے بھی مصر کے آمرمطلق جنرل سیسی جب چاہے بند کر دیتا ہے۔ بلاشبہہ اسرائیل سے دوستی اور محبت و سفارت کا بانی ہونے کی وجہ سے مصر کو اپنے دوست اسرائیل کے لیے وفا شعاری کا تقاضا نبھانا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے ادارے ’انروا‘ کی دو سال سے سرگرمیاں مالی مشکلات کی وجہ سے محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ’انروا‘ غزہ میں زیر محاصرہ انسانوں کے لیے ایک سہارا بن گیا تھا۔ یہ تعلیم و صحت کے معاملات میں بھی متحرک ہو گیا تھا۔ اس لیے غزہ پر جنگی جارحیت کے دوران غزہ کے تمام شہریوں کی طرح یہ ’انروا‘ بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

امریکا نے اقوام متحدہ کی امداد بند کر کے اس کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ اسرائیل کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی موجودگی بھی تکلیف دیتی ہے، جب کہ ’انروا‘ ان فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے لگا تھا۔

غزہ کی آبادی پر مسلسل فوجی محاصرہ ہونے کی وجہ سے اس کی پندرہ سال تک کی تقریباً ۴۵فی صد آبادی نے اسی محاصرے کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔ یہ ۴۵ فیصد آبادی نہیں جانتی کہ غزہ کے باہر کی فلسطینی بستیاں اور دُنیا کیسی ہے؟ اگر یہ اسرائیلی محاصرہ اگلے پندرہ سال بھی جاری رہتا ہے تو بلاشبہہ غزہ کی آبادی کا ۶۰فی صد سے زیادہ حصہ وہ ہو سکتا ہے، جسے غزہ کی اس جیل سے باہر نکلنے ہی نہ دیا گیا ہو گا۔

اسرائیل کا منصوبہ پورے فلسطین کو جیل بنا دینے اور سارے ہی فلسطینی عوام کو اس طرح قید کر رکھنے کا ہے۔ اسی مقصد کے لیے ۲۰۰۲ء میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقے میں ایک دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ ۷۰۸کلومیٹر تک پھیلی دیوار ہے، جس نے مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان بھی رخنہ و رکاوٹ پیدا کی ہے اور خود مغربی کنارے میں آباد بستیاں بھی اسرائیل کی قائم کردہ اس دیوار کی زد میں ہیں۔شروع میں ۶۷ شہروں، قصبوں اور دیہات کو اس دیوار کی زد میں لانے کا منصوبہ تھا تاکہ انھیں اس دیوار کے ذریعے محاصرے میں لیا جا سکے۔

اسرائیل کی بنائی گئی اس دیوار کی لمبائی اس کی زد میں آنے والے بستیوں کے محاصرے کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی بلندی نو فٹ سے لے کر ۳۰ فٹ تک ہے۔ بلاشبہہ یہ فلسطینیوں کے ہرطرح کے معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی مقاطعے کے جملہ مقاصد پورے کرتی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر میں اسرائیلی بدنیتی کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے۔

اسرائیل نے یہ بھی اہتمام کیا کہ جہاں بھی کسی فلسطینی بستی کے نزدیک کنواں، چشمہ، ندی یا پانی کسی بھی دوسرے امکان اور ذخیرے کی صورت موجود تھا۔ اسرائیل نے اس دیوار کے ذریعے اس بستی کو کاٹ کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے تاکہ فلسطینی اور ان کی سرزمین پانی کو ترستی رہے۔

مگر فلسطینیوں نے اسرائیل کی اس دیوار کو اپنے لیے ’دیوار گریہ‘ نہیں بنایا کہ صدیوں سے روتے رہنے والی قوم کہلائیں۔ فلسطینیوں نے اسی دیوار کو اپنی آواز بلند کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور جگہ جگہ اس دیوار پر احتجاجی آرٹ کے نقوش و نگار بنا کر اس دیوار کو اسرائیل کے خلاف احتجاج کی گواہی بنا دیا ہے۔

اسی اسرائیلی دیوار پر فلسطینی نژاد امریکی صحافی خاتون شیریں ابو عاقلہ کی تصویر بنا دی گئی ہے کہ ابو عاقلہ نے اپنی جان پیش کر کے اپنی قوم کی آزادی کے لیے جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ اس کی تصویر بنانے والے فلسطینی مصور نے اسرائیلی دیوار پر بنائی گئی تصویر کے ساتھ لکھا ہے:

Live News, Still Alive۔ انگریزی میں لکھی گئی یہ تحریر درحقیقت فلسطینی جدوجہد کا وہ نوشتۂ دیوار ہے کہ جو بلند آہنگ سے کہہ رہا ہے کہ میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، نہ میری منزل کھوٹی کی جاسکتی ہے اور نہ مجھے جھکایا جاسکتا ہے، اور ان شاء اللہ یہ ستم کی دیوار گرا دوں گا!

برما (میانمار) کے مسلمانوں پر گذشتہ ۸۰برس سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، لیکن گذشتہ دس برسوں کے دوران اس ستم کاری اور بدھ مت کے پیروکاروں کی وحشت انگیزی میں بے پناہ شدت آئی ہے۔ مگر افسوس کہ نام نہاد عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔

’’روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ ایک نہایت خطرناک موڑ پر آچکا ہے۔اگر بین الاقوامی رہنماؤں نے فوراً کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو خدشہ ہے کہ مہاجرین کی واپسی کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار ناروے کی مہاجرین کونسل کے سیکرٹری جنرل جان ایجی لینڈ نے ستمبر۲۰۲۲ء میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران کیا۔

انھوں نے مزید کہا: ’’یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بنگلہ دیش میں مہاجر روہنگیا برادری ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے کہ اگر فوراً ان کی دربدری کا کوئی سدباب نہیں کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ یہاں بسنے والے خاندان بنی نوع انسان کی بدترین بے حسی کے گواہ ہیں۔ اگر معاملات یونہی رہے تو ان کی میانمار میں اپنے گھروں کو واپسی ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جائے گی‘‘۔

اگست ۲۰۱۷ء میں میانمار میں تباہ کن مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو ۱۰ لاکھ روہنگیا مہاجرین نے جان بچانے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی اور تاحال یہیں مقیم ہیں۔ مکمل طور پر بیرونی امداد پر گزربسر کرنے والے ان مہاجرین کے لیے ۳۱ عارضی آبادیاں قائم کی گئیں، جنھیں مجموعی طور پر دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ کہا جاتا ہے۔

ان مہاجرین میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ کی تعداد میں بچے، نابالغ اور نوجوان شامل ہیں، جوشاید ایک ’گمشدہ نسل‘ کے طور پر پروان چڑھ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی توجہ دوسرے بہت سے مسائل کی طرف بٹ رہی ہے اور امدادی فنڈز کی فراہمی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے،ان حالات میں مہاجرین کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ 

مہاجرین کونسل ناروے نے ۳۱۷ روہنگیا نوجوانوں پر تحقیق کی، جس میں معلوم ہوا کہ ۹۵ فی صد نوجوان بے روزگاری کے سبب شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی روزگار ہے اور نہ زندہ رہنے کا وسیلہ۔ یہ قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور دنیا سے مدد کا انتظار کر کے تھک چکے ہیں۔ شکستہ وعدوں اور مایوسی کے اندھیروں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘‘ ۔ روہنگیا آبادی کی بحالی کا منصوبہ فنڈز کی مسلسل کمی کا شکار رہتا ہے۔ گذشتہ اگست تک درکار امداد کا صرف ۲۵ فی صد ہی مہیا ہو سکا۔ اب تک حاصل ہونے والی رقم ۳۵ سینٹ (۶۰روپے)  یومیہ فی مہاجر بنتی ہے۔

ایجی لینڈ نے کہا:’’میں بنگلہ دیش سے باہر بین الاقوامی قیادت کی اس مسئلے میں عدم دلچسپی دیکھ کر شدید مایوس ہوا ہوں۔ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے اور اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے بجائے ہماری قیادتوں کے درمیان بے حسی کا مقابلہ چل رہا ہے۔جو لوگ باہر کہیں پناہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں انھیں اُلٹا زبردستی واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔چین اور اس علاقے کے ممالک کو مل کر اس مسئلے کے حل پر غور کرنا چاہیے۔ روہنگیا مہاجرین ایک گہری کھائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ہم نے ان کا ہاتھ نہ تھاما اوراگر ہم اس ظلم کو یونہی خاموشی سے دیکھتے اور برداشت کرتے رہے تو آیندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم کو جو کہنا چاہیے تھا، وہ نہیں کہا اور جو کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نے نہیں کیا‘‘۔

بنگلہ دیش کی طرف روہنگیا مسلمانوں کی پہلی بڑی ہجرت ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔اس کے بعد ۹۰ء کے عشرے کے آغاز میں اور پھر ۲۰۱۷ء میں بڑے پیمانے پر یہ ہجرت عمل میں آئی۔  روہنگیا مہاجرین کی اکثریت مسلمان ہے۔

روہنگیا آبادی ’راکھائن‘ کے علاقے سے سرحد کو پار کر کے اس طرف کاکس بازار میں آباد ہوئی ہے اور یہ شہر مہاجرین کی مسلسل آمد کے باعث آبادی کے بے پناہ دبائو کا شکار ہو چکا ہے۔ اب بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کو جزیرہ ’بھاشن چار‘ پر منتقل کرنے کا سوچ رہی ہے۔

۲۰۱۷ء کی بڑی نقل مکانی سے پہلے بھی کاکس بازار کے کیمپوں’کٹاپالونگ‘ اور’ نیاپرا‘ میں ہزاروں روہنگیا مہاجرین موجود تھے۔ اکثر فلاحی تنظیمیں مثلاً UNHCR وغیرہ چاہتی ہیں کہ روہنگیا برادری امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے۔لیکن بنگلہ دیش کی کمزور معیشت اتنے مہاجرین کو سہارا دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق ڈھاکا میں غربت کی شرح ۳۵ فی صد ہے اور کاکس بازار میں۸۵ فی صد۔ اس پر مستزاد یہ خطہ قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور سمندری طوفانوں کی زد میں رہتا ہے،جب کہ یہاں بنیادی صحت اور تعلیم کا نظام بھی موجود نہیں۔

اس وقت بنگلہ دیش میں بنیادی ضروریات کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ بالائی درمیانہ طبقہ بھی سخت متاثر ہو رہا ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہو چکے ہیں اور بے روزگاری میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ ۲۰۱۹ء کی ۴ء۳ فی صد شرح بے روزگاری ۲۰۲۰ء میں بڑھ کر۵ء۳  فی صد ہو چکی ہے۔بہت سے کاروبار جو بند ہو گئے تھے وہ دوبارہ شروع نہیں ہو رہے، کیونکہ کوئی سرمایہ موجود نہیں ہے۔

کاروبار شروع یا بحال کرنے کے لیے بنکوں سے قرضہ لینا انتہائی مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ بنگلہ دیش میں ہر طرف پھیلی بدعنوانی ہے اور دوسری وجہ فرسودہ بنکاری نظام۔ پھر بیرونِ ملک سے ہونے والی ترسیلات زر (Remittances) میں کمی نے ہلاکر رکھ دیا ہے، جن پر بنگلہ دیشی معیشت بڑی حد تک منحصر ہے۔

سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ معاشی تباہی کے شکار روہنگیا مسلمانوں کی خواتین کے ایک حصے میں جسم فروشی زہر بن کر پھیل رہی ہے۔ اس موضوع پر شائع شدہ تحقیقی رپورٹوں میں اتنے شرمناک اعدادوشمار اور تفصیلات درج ہیں کہ ہم انھیں یہاں پر پیش کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔

فی الحال اس سیاہ رات کے بعد کسی دن کا اُجالا نظر نہیںآتا۔ لاکھوں مہاجرین کو گن پوائنٹ پر واپس راکھائن کی طرف دھکیلنے کے بجائے اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش کیا جائے۔

اس وقت کیفیت یہ ہے:

  • میانمار کے مختلف حصوں میں جاری شدید جھڑپوں کے بعد وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال دگرگوں ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں شہریوں کی املاک کے مزید نقصان اور مزید نقل مکانی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔انسانی زندگی کو مزید خطرے درپیش ہیں اور پہلے سے خراب صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
  • پورے میانمار میں اس وقت تک مجموعی طور پر ۱۳ لاکھ سے زیادہ لوگ دربدر ہو چکے ہیں۔ اس میں گذشتہ سال ہونے والے فوجی شب خون کے بعد نقل مکانی کرنے والے ۸ لاکھ  ۶۶ہزار  لوگ بھی شامل ہیں۔
  • ایک کروڑ ۴۰ لاکھ سے زائد کی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔
  • اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کے لیے درکار رقم کا صرف ۱۷فی صد ہی مہیا ہو سکا ہے۔ مہاجرین کی مدد کے لیے پہنچنے کی راہ میں درپیش مشکلات کے باوجود، کئی فلاحی تنظیمیں شدید خطرات میں گھری آبادی کو انتہائی بنیادی ضروریات مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔

(ریلیف ویب اور روزنامہ اسٹار، اور سودا دیس رائے کی معلومات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)۔

؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کی رات جب آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دہلی سے تہاڑ جیل میں پانچ برسوں سے قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری رہنما مرحوم سید علی گیلانی کے داماد ، الطاف احمد شاہ کے انتقال کی خبر آئی، تو شاید ہی کسی کو اس الم ناک خبر پر حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے صرف پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔ جن میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشرف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرا میں ماؤ نواز کمیونسٹوں کی حمایت کے الزام میں قید ۸۳سالہ پادری سٹن سوامی، ۳۳ سا ل کے پانڈو ناروتے اور ۳۸برس کے کنچن نانووارے شامل ہیں۔ افسوس کہ عدالتیں ، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوںکے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیںکہ جیلوں میں علاج کی سہولیات موجود ہیں، اس لیے اس بنیاد پر ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ مگر جیل میں کس قدر علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔

تہاڑ ، جسے ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے، اس کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک خوش کن ہسپتال ہے، جس کو ججوں اور معائنے پر آئے افسروں اور بعض اوقات غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے ۔ ۲۰۰۲ء میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن بھگتنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا ، تو داخلے کے وقت ہی جیل کے ڈاکٹروں کے رویے کا اندازہ ہوگیا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں باقاعدہ پٹائی ہونے کے بعد، کاغذی کارروائی پورا کرنے کے لیے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو وہ ڈاکٹر بجائے میری حالت دیکھنے کے،  اُلٹا مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل سکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے بُرابھلا کہنا شروع کردیا۔

ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ پر لازم ہے کہ نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جانچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کیفیت کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ جیل کے ڈاکٹر نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’یہ خاطرمدارات چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے، اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

جیل نمبر تین کے اس ہسپتال میں ، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بجائے بس درد روکنے کی ادویات دے کر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یہاں کی او پی ڈی کا بھی مَیں نے باربار مشاہدہ کیا تھا۔ اسٹتھ سکوپ لگاکر دیکھنا تو دُور کی بات ہے، ڈاکٹر قیدیوں کو دُور سے انھیں ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا س کی تکلیف کے بارے میں پوچھنے کے، وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ان ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ، زکام۔ ایک بار ہمارے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو پیچش ہوگئی تھی۔ دونوں جب ہسپتال سے واپس جیل وارڈ میں آئے تو معلوم ہوا کہ ان کو ایک ہی طرح کی دوا دی گئی ہے۔

تہاڑ میں ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا اور کئی بار قے ہوگئی۔ جیل میں، رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام، بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ڈانٹ کر پوچھا: ’’کیوں شور مچارہے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’قیدی کی طبیعت خراب ہے‘‘۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ ’’مرنے دو‘‘ اور واپس چلا گیا۔ قیدیوں کو اس پر سخت صدمہ ہوا۔ تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ پکار بلند کی۔ دراصل کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت واقع ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کے قیدیوں کو سخت بُرا بھلا کہا گیا تھا کہ: ’’آپ نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟‘‘۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی، کہ ’’ایسی صورت حال میں گلاپھاڑ کر چیخ پکا ر بلند کیا کریں، تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے‘‘۔ ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن، ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے ہسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والے وارڈن نے ہسپتال میں آکر معذرت کرتے ہوئے کہا: ’’میں سمجھ رہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ حملہ کیس والا گیلانی (مرحوم عبدالرحمان گیلانی، جو اُن دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے۔ اس لیے اس نے دھیان نہیں دیا‘‘۔

پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ میں الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور ایک معروف تاجر تھے۔ سری نگر کے مرکز لال چوک میں’ فنتوش ہوزری‘ کے نام سے ان کی دکان تھی، جس کی نسبت سے بعدازاں الطاف احمد کو الطاف فنتوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب شیخ عبداللہ ’’محا ذِ رائے شماری‘‘ کی قیادت کررہے تھے، تو وہ ان کے ساتھ جیل بھی گئے۔ مذکورہ دکان میں پہلے ’ محاذِ رائے شماری‘اور پھر ’نیشنل کانفرنس‘کے لیڈروں غلام محمد بھدروائی، بشیراحمد کچلو، شیخ نذیر وغیرہ اپنی دوپہر یہیں پر گزارتے۔ الطاف شاہ ایک پختہ کار نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالب علمی ہی میں وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے اس وقت آزاد ہوگئے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوا کرتی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کر کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے تھے ، ان کی ساری اساس غنڈا سیاست پر ہی ٹکی ہوئی تھی اور عدم برداشت ان کے کارکنوں میںکوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

۱۹۷۸ء میں جموں و کشمیر، اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کی ذمہ داری محمداشرف صحرائی کو سونپ دی۔ الطاف شاہ کو ۲۱سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حال ہائی کورٹ کمپلیکس) میں منعقد ہوا، تو اس میں تقریباًدس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس پر حکومت نے پابندی لگاکر اس کے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔یہ الطاف احمد شاہ کی غالباً پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاستی جیل میں رکھا گیا۔۱۹۸۱ءتک جمعیت بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں قائم کر چکی تھی۔ اسی دوران جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ کہیں ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے۔ ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمعیت طلبہ کی انفرادی خودمختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمعیت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا، تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبۂ طلبہ کی ذمہ داری دی، ان افراد میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔

میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر ۱۹۸۳ءمیں دیکھا، جب اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھےاور سوپور سے اپنے ننھیال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں الطاف صاحب کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی ۔ شیخ عبداللہ کی وفات کے ایک سال بعد ’نیشنل کانفرنس‘ یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے زینہ کدل کی نشست سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا، جو شیروں کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔ ان دنوں مجھے وہاں گھر کے باہر کچھ شور سنائی دیا۔ ایک نوجوان دروازہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ اس نوجوان کو گالیاں بک رہے تھے کہ وہ کیسے  شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف شاہ صاحب جیسے شریف آدمی نے کیسی ناخلف اولاد کو جنم دیا ہے اور وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اس الیکشن میںالطاف صاحب کو بس ۴۶۱ ووٹ ملے تھے۔

جیساکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ’فنتوش ہوزری‘کی دکان نیشنل کانفرنس وغیرہ کا گڑھ ہوا کرتی تھی، لیکن جب الطاف احمد نے کاروبار میں اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تو یہ دکان جماعت اسلامی، پیپلزلیگ اور آزادی پسند کشمیری تنظیموں کے لیڈروں کا بھی ٹھکانا بن گئی۔ کمال یہ کہ یہ دکان دونوں متحارب خیالات کے لیڈروں کے مل بیٹھنے کا میٹنگ پوائنٹ بن گئی۔ الطاف احمد کی جان توڑ کوششوں سے سری نگرشہر شیخ عبداللہ اور ان کی نیشنل کانفرنس کے جادو سے آزاد ہوگیا۔

۱۹۸۶ءمیں جب ان کی شادی، محترم سیّد علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی، تو وہ کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کرچکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم ارکان میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال ۱۹۸۷ءکے ریاستی الیکشن میں ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا،کیونکہ ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا اتحاد جو ’نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد‘ کے خلاف بنا تھا،اس نے علی گیلانی صاحب کو پارلیمانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرا میدواروں کو منتخب کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد نے شہر میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی تھی۔ بھارت میں اس امرواقعہ پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی ۱۹۸۹ءمیں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ الطاف احمد شاہ، شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقے سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔

الطاف شاہ سے میری پہلی ملاقات کشمیر ہاؤس دہلی میں ۱۹۹۰ءمیں ہوئی، جب میں پڑھائی کے لیے دہلی میں مقیم تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونی ورسٹی میں پروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکا جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے شام کو کشمیر ہاؤس آنے کے لیے کہا، جہاں و ہ ٹھیرے تھے۔ انھی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھیرے تھے، جو دہلی میں سفارتی اور میڈیا اداروں کو کشمیر کی خراب صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر ہاؤس سے باہر کہیں رہایش چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے کمرے میں ہی مقیم ہوئے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے علیحدہ رہایش کا انتظام کرلیا۔ چند ماہ بعد جب وہ عیدکے لیے سرینگر جا رہے تھے، تو ایئر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے ’جائنٹ انٹروگیشن سینٹر‘ (JIC) پہنچادیا گیا۔

انھی دنوں وہاںسیّد علی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے الطاف شاہ کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر نما ’سیل‘ میں رکھا گیا ۔ رُوداد قفس میں سید علی گیلانی لکھتے ہیں: ’’یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے، تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے ۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف احمد شاہ صرف اس لیے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی نظر آرہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر ، ایڑیا ں رگڑتے رگڑتے، وہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردے‘‘۔

آٹھ ماہ تک اس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ جب ان کے والد اور بچے ملنے آئے، تو وہ الطاف شاہ کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان کی فیملی نے جموں ہی میں قیام کیا ، تاکہ ادویات اور خوراک کی فراہمی سے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اس زمانے میں رہائی ملی،جب حریت کانفرنس کی تشکیل ہورہی تھی۔

الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈووکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے ساتھ حکمت کار اور منصوبہ ساز کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ دونوں کوئی شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹرے ٹیجی ترتیب دینا ان کا کمال تھا۔ الطاف شاہ اپنے آپ کو خاصے لو پروفائل میں رکھتے تھے۔ پورا اسیٹج وغیرہ ترتیب دے کر وہ خود پیچھے یا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ ۲۰۰۳ء کے بعد جب کچھ کشمیری لیڈروںکو سیاسی ماحول حاصل ہو گیا تھا، تو ان کے مشورے پر سیّدعلی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم شروع کی۔ الطاف شاہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ، راجوری اور جموں شہر سے لے کر گریز، اوڑی اورکرنا کے دُور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مجالس میں تقاریر کیں۔

جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ، تو اس کے بعد سیّدعلی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔ اس سے عوامی رابطہ کی اور راہیں نکلتی تھیں، کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا ازدحام بیٹھتا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں کشمیر کی سیاسی تحریک کو جو جہت ملی، تو یہ عوامی رابطہ مہم، اس کی ایک بڑی بنیاد تھی۔ پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۴ءکی اسٹریٹ ایجی ٹیشن، جس کو کشمیر کا ’انتفادہ‘ کہا جاتا ہے، وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس بامعنی اُبھار سے بوکھلا کر ۱۵ستمبر ۲۰۰۴ءکو حسام الدین ایڈووکیٹ جیسے دانش ور اور محسن کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کردیا۔ اس کے دو ماہ بعد ۷نومبر ۲۰۰۴ء کو الطاف احمد شاہ جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جارہے تھے، انھیں فائر کرکے شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے بروقت طبی امداد دے کر خون روکنے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی اَن تھک محنت اور متعدد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ لوگ سیّدعلی گیلانی صاحب کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔  علی گیلانی صاحب نے ۲۰۰۷ء میں اپنی تنظیم ’تحریکِ حریت کشمیر‘ بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف احمد شاہ نے مرکزی کردار نبھایا اور اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔

جب نوے کے عشرے میں بدبختی کے نتیجے میں ’العمر‘، ’حزب‘ اور ’جے کے ایل ایف‘ کے درمیان تنازعات نے سر اُٹھایا تو یہ الطاف احمد ہی تھے، جنھوں نے اپنے رابطوں سے معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل ان کے قدرشناس ہرگروپ میں موجود تھے کہ جنھیں بُرے وقتوں میں الطاف صاحب نے مدد اور پناہ مہیا کی تھی۔ دُنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں کہ جس سے شکایت پیدا نہ ہو۔ غلام قادروانی، سیّدعلی گیلانی صاحب کو بہت عزیز تھے۔ پہلے اُن کو اور پھر  بعض دیگر احباب کو شکایت ہوئی کہ الطاف شاہ عام لوگوں اور گیلانی صاحب کے درمیان رکاوٹ پیدا کرتےہیں۔ وانی صاحب جب مایوس ہوکر کنارہ کش ہوئےتو کچھ مدت بعد نامعلوم دہشت گردوں نے ۴نومبر ۱۹۹۸ء کو انھیں بانڈی پورہ میں ہلاک کر دیا۔

لگتا ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں جے آئی سی اور پھر ۲۰۰۴ء میں نامعلوم بندوق بردار جس مہم میں ناکام ہوئے، ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ ( این آئی اے) کے ذمہ داروں، تہاڑ جیل کے افسروں اور جیل ڈاکٹروں نے اس امر کو یقینی بنادیا کہ الطاف احمد شاہ اس دنیا سے کوچ کرجائیں۔ یکم اکتوبر ۲۰۲۱ء کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے: ’’مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے، اس کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔

بی بی سی، لندن سے بات کرتے ہوئے روا شاہ نے بتایا تھا کہ’’ ڈاکٹروں نے بتایا کہ  اُن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں،اور اب صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا، لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ ۔ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو  پین کلر دے کر واپس سیل میں بھیج دیتے تھے ۔ جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو پہلے ’دین دیال اپادھیائے ہسپتال‘ میں اور پھر دہلی کے ’رام منوہر لوہیا ہسپتال‘ میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ ’’کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے اور اُن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں‘‘۔ روا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ’’میرے والد کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے، جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے‘‘۔ دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیاتو اس وقت تک وہ کوما میں چلے گئے تھے۔

واضح رہے تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنمائوں یاسین ملک، شبیر احمدشاہ ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینیر رشید سمیت متعدد کشمیری لیڈروں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ ، شبیر احمد شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیل کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کم ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔ الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان قیدی لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ موت کی لکیر پر چل رہے ہیں۔

  جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا، اس میں یہ نتیجہ معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت، زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے ۔ اس میدان میں جمے رہنے کے لیے ایمان، عزم اور ثابت قدمی چاہیے۔ دوبار انھوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے___انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ہندستان میں کشمیریوں کی ثقافتی و مذہبی شناخت، حکمران جماعت کی جانب سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی تمام تر منفی صلاحیتیں مقبوضہ وادی پر ’ہندوتوا‘  نظریے کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دنیا کی توجہ اس واقعے کی طرف دلائی تھی کہ ’’کلگام اور دیگر قصباتی اسکولوں میں بچوں کو بھجن گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔ بھجن گاتے ہوئے طلبہ و طالبات کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خاصی مشہور ہوئی اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔

۳۰ کشمیری تنظیموں کی نمایندہ ’متحدہ مجلس علما‘ نے اس سرکاری عمل کی سخت مذمت کی اور کہا: ’’ ہندوتوا نظریات نئی نسل پر ٹھونسنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اوریہ منصوبہ کشمیری شناخت کو مٹانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے‘‘۔ اس جماعت کے قائد میر واعظ عمر فاروق پچھلے تین سال سے بھارتی حراست میں ہیں۔ علما کی اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ’’قابض قوتوں کی طرف سے ڈرا دھمکا کر علما کو دبانے اور انھیں کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جنھیں فوراً بند ہونا چاہیے‘‘۔ اوریہ کہ ’’بھارتی حکومت اپنے مظالم کا دائرہ وسیع تر کرنے میں مصروف ہے‘‘۔

کشمیر میں مسلم تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت صرف ستمبر ہی میں درجنوں قائدین پبلک سیفٹی کے ظالمانہ قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان نے ان اقدامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے بجاطور پر کہا ہے: ’’یہ غیر قانونی گرفتاریاں کشمیریوں سے ان کی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی شناخت چھینے جانے کی ایک اور کوشش ہے‘‘۔

اسی طرح بی جے پی نے ریاست جموں و کشمیر کے وقف بورڈ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سرینگر کی عیدگاہ بھی براہ راست غاصب سرکار کے قبضے میں ہے۔ یہ تاریخی میدان کشمیر میں نماز عید اور دیگر اجتماعی عبادات کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ کُل جماعتی  حریت کانفرنس کے نائب چیئرمین شبیر شاہ نے جیل سے جاری ردعمل میں کہا ہے:’’ بی جے پی حکومت، کشمیریوں کے بنیادی مذہبی حقوق کو پامال کر رہی ہے‘‘۔ دیگر رہنماؤں کے مطابق ’’یہ قدم بھی بی جے پی کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشمیر میں مسلمانوں کی تمام قابلِ احترام املاک پر قبضہ کرنے کی ہوس رکھتی ہے۔‘‘ ان املاک میں بزرگوں کے مزار بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں ایک کشمیری صحافی نے بجا طور پر کہا ہے: ’’ مزارات پر حکومتی قبضے کو معمولی قدم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان مزارات کی سیاسی اہمیت سے خائف ہے اور ان کے ساتھ وابستہ مذہبی تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ مزارات اور درگاہیں ہمیشہ سے کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کا جزو لاینفک رہی ہیں۔ یہ صرف عبادت کے مقام نہیں ہیں بلکہ وہ مقامات ہیں، جہاں عام مسلمان مل جل کر کوئی بات کر سکتے ہیں اور جنھیں چھین لینے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔

کشمیری ثقافت کے خلاف بی جے پی کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ پچھلے سو برسوں سے اُردو کو کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن ۲۰۲۰ء میں بھارتی حکمران جماعت نے نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کا یہ صد سالہ استحقاق ختم کرتے ہوئے ہندی، کشمیری، ڈوگری، اور اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کا رسم الخط بھی نستعلیق سے بدل کر دیوناگری کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری و غیرعلانیہ طور پر یہ قدم اٹھایا جا چکا ہے۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے غیر قانونی انضمام کے بعد کشمیریوں کو بے اختیار کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایسے اقدامات تسلسل سے جاری ہیں۔ ہندستانی آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ ریاست کشمیر کو ہندستان میں ایک خصوصی حیثیت فراہم کرتاتھا۔ لیکن اس آرٹیکل کی معطلی کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہندستانی یونین میں ضم کر دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی، اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی فریق متنازعہ علاقے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا، جو علاقے کے سیاسی و جغرافیائی حالات پر اثر انداز ہو سکے۔ اس غیر قانونی عمل کے بعد نئی دہلی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کردیا، مواصلات کے ذرائع مسدود کر دیے اور بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔

  ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ستمبر ۲۰۲۲ءمیں جاری کردہ رپورٹ: ’قانون، کشمیریوں کا دشمن ہے‘  ہمیں بتاتی ہےکہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک تین برسوں میں ’’بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ وادی میں کھلم کھلا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری ہے۔کشمیر کے شہری اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے۔ان کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ۔ انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔انصاف تک ان کی رسائی ناممکن ہے۔ وادی میں صرف سرکاری ادارے کشمیری عوام کے خلاف کوئی بھی ظلم روا رکھنے اور ہر جواب دہی سے آزاد ہیں‘‘۔

بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت، کشمیر کے انتظامی معاملات اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کشمیریوں کو ہرلحاظ سے بے بس کر دیا جائے۔ اس دوران ڈومیسائل کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے،جس کے تحت اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک باہر سے آنے والے ۳۴لاکھ لوگوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل آرٹیکل ۳۷۰،اور۳۵-اے کے تحت بیرون کشمیر سے آنے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل جاری کرنے پر پابندی تھی۔ یہ وہی مخصوص حربہ ہے، جو قبل ازیں اسرائیل بھی فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برت چکا ہے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ مودی سرکار انتخابی حلقہ بندیوں کو بھی بدل رہی ہے، تا کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ طاقت کے توازن کو ہندوؤں کے حق میں پلٹنے کے لیے مسلم علاقوں کی نمایندگی کم کر کے جموں کی نمایندگی بڑھائی جا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۲ءمیں بھارتی حدبندی کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کا منصوبہ جاری کیا گیا۔اس منصوبے کے مطابق کشمیر کی۹۰ رکنی پارلیمان میں جموں کی ۶ ، جب کہ کشمیر کی صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ایوان میں جموں کی ۴۳، جب کہ کشمیر کی ۴۷نشستیں ہوں گی۔ اس منصوبے میں پوشیدہ بھارت کے مذموم عزائم کواس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ۲۰۱۱ء میں ہونے والی ہندستان کی آخری مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی ۷۰ لاکھ، جب کہ جموں کی آبادی ۵۳ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔

ان نئی حلقہ بندیوں کا مقصد ایک ہی ہے: اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں اور پھر ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ’’حالات معمول پر آ چکے ہیں اور انتخابات نے اگست ۲۰۱۹ء کے حکومتی اقدامات کی توثیق کر دی ہے‘‘۔لیکن بجاطور پر کشمیری ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے ہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس تو آغاز سے ہی انتخابات کو بوگس کارروائی قرار دے کر مسترد کرتی آ رہی ہے، اور اب وہ سیاست دان بھی انتخابات کے خلاف کمربستہ ہیں جو روایتی طور پر بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے اورانتخابات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔تمام سیاسی حلقوں نے اس منصوبے کو ناقابل قبول اور انتخابی اصولوں کی’ایک مضحکہ خیز شکل‘ قرار دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جولائی میں چیف الیکشن آفیسر نے اعلان کیا تھا: ’’ تمام ہندستانی شہریوں کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی آزادی ہو گی چاہے وہ عارضی طور پر ہی کشمیر میں رہایش رکھتے ہوں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی؟کیا کشمیریوں کی شناخت اتنی کمزور ہے کہ یوں زور زبردستی کے ذریعے مٹائی جا سکے؟اس کے برعکس حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان اقدامات نے کشمیریوں میں پائے جانے والے غم و غصے میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ غیر قانونی قبضے کی شکل میں جو ظلم کئی عشروں سے جاری ہے، اس کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اور مضبوط ہوا ہے۔کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بقول ’’کشمیر ایک آتش فشاں کی طرح کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘‘۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تجارت، بین الریاستی تعلقات کا ایک اہم جز ہے، اور عالم گیریت کے دور میں یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ تجارت خاص طور پر ناموافق تعلقات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے بہتر ماحول کی تشکیل میں مد د ملتی ہے۔ بنیادی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’’تجارت کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے اور وقتاً فوقتاً کشیدگی کو دوطرفہ تجارت پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، کیونکہ عارضی خلل بھی خاص طور پر عام لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے‘‘۔

بلاشبہہ، کوئی بھی سمجھ دار شخص، پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے پر اعتراض نہیں کرسکتا، لیکن تاریخ ان کمزور لوگوں پر کبھی رحم نہیں کھائے گی جو وقتی مصلحتوں کی قربان گاہ پر اصولوں کی قربانی دیتے ہوئے اس حقیقت کے برعکس دلائل دیئے چلے جارہے ہیں۔

پاکستان ان دنوں تباہ کن سیلاب اور اس کے مابعد اثرات سے گزررہا ہے۔ ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کے حق میں دلائل اور زیادہ زورشور سے سننے کو مل رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہےکہ ممکنہ طور پر پاکستان کو کھانے پینے کی اشیا اور کپاس کی بڑے پیمانے پر قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے نہ صرف مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ پاکستانی برآمدات (exports) کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن بھارت سے ان اشیا کو درآمد کرکے اس صورتِ حال میں جزوی طور پر کمی لائی جاسکتی ہے، کیونکہ ان شدید معاشی اور مالیاتی حالات میں پاکستان کے لیے بھارت سے بہتر کوئی متبادل نہیں۔ اگر زندگی بخش دوائیں ہندستان سے درآمد کی جاسکتی ہیں تو ضروری اشیائے خورونوش کے حق میں یہ دلیل کیوں نہیں دی جاسکتی؟

جی ہاں، خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے یہ خیالات بامعنی ہیں۔ لیکن جب پاکستان بھارت تعلقات کی بات آتی ہے تو جغرافیائی معاشیات (جیواکنامکس) کو دوسرے بنیادی متعلقات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

۱۴فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ میں مسلح کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، بھارت نے پاکستان سے درآمد و برآمد کے معاملات پر سخت فیصلے کیے اورفوری طور پر پاکستان سے درآمدات پر ۲۰۰ فی صد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی۔ لیکن پاکستان نے ردعمل میں اس طرح سے جواب نہیں دیا۔ تاہم، پاکستان نے سفارتی تعلقات کو کم کرنے کے علاوہ دوطرفہ تجارت کو صرف اس وقت روکا، جب اسی سال ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے کشمیر پر یک طرفہ غیرقانونی ادغام کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت نے اپنی ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ غیرآئینی اقدام کیا۔ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ایسا ردعمل ظاہر کرے جیساکہ اس نے کیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ۲۰۲۲ء کے سیلاب سے بہت پہلے پاکستان میں دوطرفہ تجارت کی بحالی کی تجاویز سننے میں آرہی تھیں۔ ’تحریک انصاف‘ کی حکومت میں وزیر تجارت عبداللہ رزاق داؤد اور وزیرخزانہ حماد اظہر نےعوامی سطح پر رائے سازی شروع کر رکھی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک سمری بھی تیار کرلی تھی، جسے بعد میں انھی کی کابینہ نے مسترد کر دیا۔  بعدازاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے حلف اُٹھانے کے بعد اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کے دوران بھارت سے تجارت کے حق میں بیان داغ دیا۔

خارجہ پالیسی کے اس طرح کے اہم فیصلوں کو ایسے غیرسنجیدہ انداز میں حل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ شہباز شریف کی حکومت میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک روز قوم کو بتایا کہ ’’پاکستان بھارت سے ضروری اشیائے خورو نوش درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے‘‘۔ اور اگلے ہی روز وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزیرخزانہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا کچھ نہیں ہے‘‘۔ خارجہ پالیسی کے اہم مسائل پر فیصلہ سازی کی مناسبت سے یہ رویہ تشویش ناک ہے۔

بھارتی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد سے باضابطہ درخواست موصول ہونے پر اس معاملے پر غور کیا جائے گا، جب کہ بھارتی میڈیا نے یہ منتر دُہرایا کہ ’’تجارت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت، پاکستان کو کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر چلتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یاد رہے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ۷؍اگست ۲۰۱۹ء کو اپنے اجلاس میں کچھ ایسے فیصلے کیے، جو پاکستان میں وسیع عوامی جذبات کی نمایندگی کرتے ہیں۔دُنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے بھی ۵؍اگست کے بھارت کے غیرسنجیدہ فیصلے پر پاکستان کے معقول ردعمل کا خیرمقدم کیا۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، کشمیر پر اپنے غیرسنجیدہ رویے کی وجہ سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنہیں سکے۔ تاہم، عالمی برادری کی جانب سے لاتعلقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہوجائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے اس موقف کو دُہرایا کہ ’’جب تک بھارت کشمیر کی سابقہ صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا، پاکستان بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا‘‘۔ بھارت یہ توقع کر رہا تھا کہ شہباز حکومت گذشتہ حکومت کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت موقف کو بآسانی ترک کر دے گی۔

بھارت کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی پر مبنی دھونس اور بین الاقوامی عہدوپیمان کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود، پاکستان کا دوطرفہ تجارت دوبارہ شروع کرنا کشمیر کاز کے لیے ایک اور دھچکا ہوگا۔ اسلام آباد کو بھارت کے غیرآئینی اقدامات کو قانونی حیثیت نہیں دینی چاہیے، جو کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اس صورتِ حال کو جوں کا توں قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جسے بھارت مستحکم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی سے کشمیریوں کے حوصلے مزید پست ہوں گے۔ وہ سخت مشکلات میں اپنی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب پیاز، ٹماٹر  اور کپاس کی درآمد دیگر جگہوں سے کی جاسکتی ہو تو کشمیریوں کی قربانی کو ان کی بھینٹ چڑھانا انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ امرواقعہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے بھارت سے ادویات کی درآمد بھی روک دینی چاہیے۔ اپنی کشمیر ڈپلومیسی کو مزید مستحکم کرنا چاہیے اور نامناسب وقت پر یک طرفہ لچک میں مبتلا ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔