فلسطین اور کشمیر دونوں تنازعات، مسلم دنیا کے غیر حل شدہ دیرینہ مسائل ہیں جو عالمی سیاست کا شکار ہیں۔ اگر موجودہ غیر متوازن عالمی طاقت کی شطرنج کی بساط بغیر کسی تبدیلی کے جاری رہی تو مسلم دنیا میں مزید خون بہے گا۔ درحقیقت سلطنت عثمانیہ کے بارے میں اپنے مخصوص تصوّر کے تحت متحد ہونے والی مغربی دنیا انفرادی ملک کی تشکیل یا اجتماعی طاقت سے مسلمانوں کے عروج کو تو گوارا کرتی ہے۔ تاہم، عام دنیا اسلام کو ایک زندہ قوت کے طور پر دیکھتی ہے جو دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے دوبارہ غلبہ پانے کا یہ خدشہ پوری دنیا کو اسلام یا اسلام سے مشابہہ کسی ماڈل کے خلاف متحد رکھتا ہے۔اور ان کی یہ منصوبہ بند سوچ، علاقائی، براعظمی، عالمی، جیو پولیٹیکل طور پر ان کی دفاعی دیوار بناتی ہے۔ مسلم دنیا اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ اپنے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو ناکام بنانے سے قاصر ہے۔
دفاع سے محروم رکھنے کی زندہ مثال فلسطین اور کشمیر کے تنازعات ہیں جو گذشتہ ۷۶ برسوں سے حل طلب ہیں۔ یہاں تک کہ ان دو تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منظور شدہ روڈ میپ کی غالب حقیقت نے بھی عالمی سفارتی قسمت سازوں کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ اپنے اخلاقی، سیاسی، سفارتی اثر و رسوخ اور زمینی حقائق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین کے پیچیدہ تنازعات کے تصفیے کا اختیار دیا گیا: اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری اور فلسطین کے تنازعہ کا دو ریاستی حل۔
کشمیر کو ایک تنازع کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں بھارت نے یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے بین الاقوامی تنازع کے طور پر پیش کیا تھا۔سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر میں بین الاقوامی استصواب رائے کے لیے ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں منظور کیں جس کا مطلب ہے کہ اس نے جموں و کشمیر پر بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم، بھارت غلط طریقے سے اس بات پر قائم ہے کہ کشمیر کے آخری حکمران مہاراجا ہری سنگھ نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا تھا۔
یہ دعویٰ تاریخ کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا کیونکہ مہاراجا نے اسی سال اکتوبر کے شروع میں اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے نتیجے میں اپنی راجدھانی سری نگر چھوڑ کر جموں میں پناہ لی تھی۔ وہ کسی عہدے پر نہیں تھا یا الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے کا حق دار نہیں تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مہاراجا نے اس سے پہلے ۱۲؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے ساتھ ایک ’تعطل کا معاہدہ‘ (اسٹینڈاسٹل)کیا تھا، یعنی پاکستان جموں و کشمیر کی ریاست کی بالادستی کا ایک جغرافیائی فریق بن گیا تھا اور اس نے سٹینڈ اسٹل معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ دوسری طرف ہندستان نے مہاراجا کی اسی طرح کے اسٹینڈاسٹل معاہدے کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق بھارت کا کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں ہے، لیکن وہ ریاست کے ایک بڑے حصے پر اپنی فوج کے ذریعے زبردستی قابض ہے۔ اس وقت کشمیر کے بھارتی حصے میں ۱۰لاکھ کے قریب پیشہ ور مسلح افواج موجود ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ زیادہ مضبوط ہے لیکن حکومت پاکستان کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے اندر یا اس سے باہر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اسٹینڈاسٹل معاہدے کا حوالہ نہیں دیتی جو کہ ایک ٹھوس تاریخی ثبوت ہے۔
فلسطین پر اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کافی حد تک قابل عمل ہے لیکن بھارت کی طرح اسرائیلی غاصبانہ تکبر اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہے۔ فلسطین کے روڈ میپ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کے خون کے تالاب بڑھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو ۵ مئی ۱۹۴۸ء سے لے کر ۲۱ نومبر۲۰۲۳ء کی خوں ریزی اور سفاکیت کے نتیجے میں سلسلہ وار قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان کے اُکھاڑ پچھاڑ کے مصائب میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی فلسطین میں حالیہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ منظور کردہ قرارداد ہے جو قانون اور انسانیت کے تمام تقاضوں کے خلاف ایک جنگجوانہ اقدام ہے۔
سلامتی کونسل کی یہ قرارداد مستقبل میں دنیا کے کسی بھی کمزور ملک کے خلاف کسی بھی طاقت ور ملک کے جارحانہ عزائم کو بڑھانے یا قانونی جواز کا باعث ثابت ہوگی۔ یہ قرارداد نہ رُکنے والی جنگوں کا لائسنس ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ سلامتی کونسل کے تحت کیوں پیش آیا جس کا بنیادی کام امن کی حفاظت کرنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں جنگ کے وقفہ کی یہ قرارداد عام دنیا کے لیے اسی تناظر میں موزوں ہے جس کا میں نے اس مضمون کے آغاز میں ذکر کیا تھا۔ نظریاتی طور پر موجودہ دور کی عالمی طاقتیں مسلم دنیا کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ عالمی تقسیم بالکل واضح ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک منڈلاتا ہوا خطرہ ہے جو ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے!
عمران جان
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور پاکستان ایک جیسی ریاستیں ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کو عقیدے کے نام پر بنایا گیا تھا اور ایک مخصوص عقیدے کے پیروکاروں کا گھر قرار دیا گیا تھا، یعنی یہودیوں کے لیے اسرائیل اور مسلمانوں کے لیے پاکستان۔ اس نامعقول دلیل میں وہ جو بات بہت آسانی سے نظرانداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو لوگ نئے پاکستان کے شہری بنے وہ پہلے ہی یہاں رہ رہے تھے۔ وہ اس سرزمین کے مقامی لوگ تھے۔ وہ یورپ یا سوویت یونین سے بھیجے اور نہیں لائے گئے تھے۔ پاکستان اور ہندستان کے دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آنے سے پہلے یہ سرزمین صدیوں تک مسلمانوں اور ہندوؤں کا مسکن تھی۔
اسرائیل کا تصور صہیونیوں کے چالاک ذہنوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں تھا۔ یہودیوں کو دنیا کے دوسرے حصوں جیسے یورپ اور سوویت یونین وغیرہ سے وہاں لایا گیا اور انھیں فلسطین میں بسایا گیا جہاں مقامی لوگ رہتے تھے جنھیں فلسطینی کہا جاتا تھا۔ یہ ان کی سرزمین نہیں تھی۔ وہ وہاں نہیں رہتے تھے ۔ اور یہ اب بھی ان کی سرزمین نہیں ہے۔
اگر کوئی بھی دو ریاستیں دنیا کی کسی بھی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مختلف طریقوں سے ایک جیسی ہیں، تو وہ ہندستان اور اسرائیل ہیں۔ دونوں نے بعض علاقوں کو وحشیانہ و سفاکانہ فوجی قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ اگر مغربی کنارے اور غزہ کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے، تو دوسری طرف کشمیر دنیا کا سب سے گنجان فوجی علاقہ ہے۔ دونوں ممالک چاہیں گے کہ ان کی ریاستیں مذہبی طور پر یکساں ہوں۔ دونوں ایک خاص مذہبی گروہ: مسلمانوں سے دیرینہ نفرت رکھتے ہیں۔
۲۰۱۸ء میں، اسرائیل نے نیشن اسٹیٹ لا کے نام سے ایک قانون نافذ کیا، جس میں کہا گیا کہ دیگر نسل پرست اقدامات کے علاوہ، ووٹ کا حق ’یہودیوں کے لیے مخصوص‘ ہے۔ اس طرح اسرائیل کے تمام عرب شہریوں کو قومی خود ارادیت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی ۹۰لاکھ آبادی میں عرب اس کا پانچواں حصہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل کی ڈروز کمیونٹی ہے، جوکہ تقریباًایک لاکھ ۲۰ ہزار کا ایک چھوٹا گروپ ہے اور وہ عام طور پر جنگ کے لیے فرنٹ لائنز پر ہوتے ہیں، جو ایک ایسے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں جو انھیں مساوی شہری کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسرائیل کی نوزائیدہ ریاست کے ساتھ بدنام زمانہ ’خون کے معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے۔ تقریباً ۸۰ فی صد ڈروز مرد اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ صرف ڈروز خواتین مستثنیٰ ہیں۔
اسی طرح بھارت نے ایک قانون وضع کیا ہے جسے سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (CAA) کہتے ہیں، جو پڑوسی ریاستوں جیسے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی اقلیتوں کو امیگریشن کی اجازت دیتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے: تارکین وطن کا غیر مسلم ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی ریاست آسام میں لاکھوں مسلمان تارکین وطن ہیں جو وہاں کئی دہائیوں سے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں لیکن انھیں ہندستانی شہریت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ بنگلہ دیش کے ایک خودمختار ملک کے طور پر قیام سے پہلے ہندستان آئے تھے اور اس لیے بھی کہ وہ مسلمان ہیں۔ درحقیقت اس کے نتیجے میں پڑوسی ریاستوں سے آنے والے غیرمسلم تارکین وطن آسام کی ریاست میں بڑی تعداد میں آ جائیں گے کیونکہ اس کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ ان تارکین وطن کے لیے ہندستانی شہری بننے کے لیے ایسی کوئی سخت شرائط نہیں ہیں۔
مذکورہ بالا اسرائیلی اور ہندستانی دونوں قوانین کا مقصد اپنے معاشروں کو بالترتیب مکمل طور پر یہودی اور ہندو بنانا ہے۔ اسرائیل امریکی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے اور اسے اس یہودی ریاست کے خلاف کام کرنے سے روکنے کے لیے جبری دبائو،پروپیگنڈا، لابنگ اور ان کی حیثیت کو مقامی پولیس والے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہندستان چین کے خلاف مقامی پولیس اہلکار بننے کی اپنی صلاحیت اور امریکی کارپوریشنوں کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے امریکی حکومت کو اسی طرح دبائو میں رکھنے کے لیے اپنی افادیت کا استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل کسی بھی سنیما یا نشریاتی کام کو روکتا ہے جو بے گناہ فلسطینی شہریوں کے خلاف کی جانے والی جارحیت کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ بھارت نے گرفتاریوں کی دھمکیاں، واٹس ایپ کے ذریعے پروپیگنڈا، بڑے پیمانے پر عوامی دباؤ اور دیگر دباؤ کے حربے___ یہاں تک کہ نیٹ فلیکس اور ایمیزون پرائم ویڈیو کو سیلف سنسرشپ پر قائل کیا۔ جب تک ان خطرناک ریاستوں کے ساتھ انکل سام اپنے مفادات کے لیے تعاون کرتے رہیں گے، دُنیا کو سکون نہیں مل سکے گا۔ (ایکسپریس ٹریبون، ۲۳ نومبر ۲۰۲۳ء)
یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔
موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔
یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:
۱- جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔
۲- حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔
۳- بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
۴- تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
۵- عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔
۶- قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔
یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!
عوامی لیگی کا رکن، قانون شکن اور بدعنوان شمس الدین احمد چودھری، بنگلہ دیشی عدلیہ کا اصل چہرہ ہے۔ کچھ سال پہلے تک بدنام شہرت کا حامل یہ شخص اپیل کونسل میں منصف کے طور پر شامل ہوکر سپریم کورٹ کا وقار مٹی میں ملا رہا تھا۔ دس سال سے زیادہ عرصہ قبل جب یہ آدمی ہائی کورٹ کا جج تھا تو میں نے بطور شہری اور مدیر روزنامہ امر دیش ،صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس کے خلاف احتسابی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس خط میں اس کی بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کے کئی واضح اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کیے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا، جو کسی فسطائی ریاست میں ہو سکتا تھا۔ اس ملزم کو ترقی دے کر اپیل ڈویژن میں بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ایک اختلافی آواز کو دبانے کے لیے مبینہ طور پر وزیر اعظم حسینہ واجد کے حکم پر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کئی دفعہ جان سے مارنے کی کوشش ہوئی، پانچ سال تک قید میں رکھا گیا، اخبار بند کردیا اور چھاپہ خانے کو پولیس نے سربمہر کر دیا۔ ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ء کو عدالتی حدود میں ایک دفعہ پھر مجھ پر حکومتی جماعت کے اُجرتی قاتلوں نے حملہ کیا، جس کے بعد ملک چھوڑنے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔
یہی شمس الدین نامی بدمعاش ’جج َ‘ اب ریٹائر ہونے کے بعد چند دن سے دوبارہ خبروں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ موصوف نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بنگلہ دیش سے امریکی سفیر پیٹر حاس کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے بنگلہ دیش کی فسطائی حکومت کے چند محدود اور غیر متعین عناصر کے خلاف ویزا پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ بنگلہ دیشی عدلیہ راتوں رات ذلّت کی گہرائی میں جاگری بلکہ ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش سے جمہوریت کے خاتمے اور عدل کی زندگی کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے اخبار امردیش نے ہر طرح کی مخالفت کے باوجود ۲۰۰۹ء میں عدلیہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور بھرتیوں کے خلاف کئی مضامین شائع کیے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوگیا تھا جب دسمبر ۲۰۰۸ء میں حسینہ واجد، امریکا و بھارت کی مدد سے انتخابات میں کامیابی کے نام پر اقتدار پہ قابض ہوئی تھیں۔ بھارت کے سابق صدر پرناب مکھرجی، جو اُس وقت وزیر خارجہ تھے، اپنی یادداشتوں میں یہ قصہ سناتے ہیں کہ کیسے انھوں نے تب کے بنگالی سپہ سالار جنرل معین کو شیخ حسینہ کے حق میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ مکھرجی کے بقول انھوں نے بدلے میں جنرل معین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حسینہ کی حکومت میں بنگالی فوج کی سپہ سالاری انھی کے پاس رہے گی۔
۱۰ مئی ۲۰۱۰ء کومیں نے امر دیش میں ایک کالم بعنوان ’آزادیٔ عدالت کے نام پر دھوکا‘ لکھا تھا۔ اس کے جواب میں توہین عدالت کے دو مقدمے قائم کر کے مجھے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ایک لاکھ ٹکا جرمانہ بھی میری سزا میں شامل تھا، جو میں نے یہ کہتے ہوئے ادا نہیں کیا کہ میرا مضمون مکمل طور پر حق اور سچ پر مبنی ہے اور اخلاص کے تحت لکھا گیا ہے۔ نتیجتاً میری سزا میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا گیا۔
میرا مقدمہ عدالت کے فل بنچ کے سامنے لگا تھا۔ اپیلیٹ ڈویژن کے ایک جج نے عدالت میں کہا تھا: اس مقدمے میں لفظ ’’سچ آپ کا دفاع نہیں کر سکتا‘‘۔ میں نے اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے جیل سے خود لڑا تھا کیونکہ قید خانے میں کوئی قانونی مدد اور سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ان جج صاحب کا نام عبدالمتین تھا، اور ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ سول سوسائٹی کا تازہ تازہ حصہ بنے ہیں، اور جب منہ کھول کر عدلیہ کی آزادی پر خطبے دیتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ جب میرا مقدمہ چل رہا تھا تو سپریم کورٹ میں ان کا دوسرا نمبر تھا اور وہ خود چیف جسٹس بننے کے امیدوار تھے۔اس عہدے کے لالچ میں وہ حسینہ واجد کی چاپلوسی میں اُلٹے سیدھے ہو رہے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اس فسطائی حکومت کو خوش کرنے کے لیے مجھے زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے کیونکہ میں نے حکمران خاندان کی بدعنوانیوں اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ مگر سفاک وزیراعظم کے قریب ترین سمجھے جانے والے جسٹس خیر الحق، عبدالمتین کو پیچھے چھوڑ کر چیف جسٹس بن گئے اور بنگلہ دیشی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل انھی نے ٹھونکی۔
پستی کی طرف بڑھتے بنگلہ دیش کو خبردارکرنے کے لیے میں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو باخبر رکھنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے تب کی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک مضمون بعنوان ’’گڈگورننس اب امریکی مقاصد کا حصہ نہیں‘‘ ( ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء) امر دیش میں شائع کیا۔ ریاستی مشینری اور سیکولرازم کے لبادے میں چھپے اسلام مخالف میڈیا نے، جس کی سربراہی ۹۰ کے عشرے سے پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار اخبار کے گروپ کر رہے ہیں، مجھے ’اسلامی انتہا پسند‘ قرار دے ڈالا۔ یہ بہتان دنیائے مغرب میں شدید اسلام دشمنی کے لیے کافی خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگرچہ اسلام دشمنی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے حال ہی میں ۱۵ مارچ ’اسلاموفوبیا‘ پراپیگنڈا مہم کے خلاف عالمی دن قرار دیا ہے، جو یقیناً خوش آیند ہے۔ تاہم، ۲۰۱۰ء میں عالمی سیاسی حالات کافی مختلف تھے۔ بظاہر ۲۰۱۰ء میں امریکیوں کو اخبار امردیش کے خلاف ہونے والی فسطائی کارروائیوں پر خوشی ہوتی تھی، جو بنگال کا دوسرا مقبول ترین اخبار تھا اور اس کے برعکس امریکا کا حمایت یافتہ پروتھم ایلو بعد میں آتا تھا۔ میری اور اسلام پسند سمجھے جانے والے ’دشمن‘ عناصر کی تکالیف پر ڈھاکہ میں موجود امریکی سفارت خانہ بھی مطمئن تھا۔
دُنیا کے حاکم اس چیز کو اہمیت نہیں دیتے کہ بندے کی وضع قطع کیا ہے، چاہے وہ کیسی ہی ماڈرن صورت رکھتا ہو، وہ اس کے خیالات اور عمل کی بنیاد پر طے کرلیتے ہیں کہ یہ اسلام پسند ہے اور اسے سیکولر طبقے میں شمار نہیں کرنا۔
عوامی لیگی حکومت کی پشت پناہی میں حریص اور مفادات کے اسیر ججوں اور وکلا کی ایک بڑی جماعت نے جارج آرویل [م: ۱۹۵۰ء]کے ناولوں Animal Farm وغیرہ سے مماثل ایک ظالمانہ ریاست بنانے کی سازش کی تھی، جس میں ’کن ٹٹا باپ (شیخ مجیب کا بھوت)‘ اور ’کن ٹٹی شہزادی (شیخ حسینہ جو خودکو ’سر‘ کہلوانے پر مصر رہتی ہیں)‘ اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوں گے۔ عدلیہ کی جانب سے اس سازش میں شریکِ جرم درج ذیل تھے:
۱- سابق چیف جسٹس خیر الحق،۲- سابق چیف جسٹس ایس کے سنہا، ۳- سابق چیف جسٹس مزمل حسین،۴- سابق چیف جسٹس تفضل اسلام، ۵- سابق چیف جسٹس فضل الکریم، ۶-سابق چیف جسٹس سید محمود حسین، ۷- سابق چیف جسٹس حسن فائز صدیقی، ۸-موجودہ چیف جسٹس عبید الحسن، ۹- سابق اپیل ڈویژن جسٹس شمس الدین چودھری، ۱۰- سابق اپیل ڈویژن جسٹس نظام الحق نسیم (جن کے کردار کا پردہ روزنامہ امر دیش اور دی اکانومسٹ نے ’اسکائپ اسکینڈل‘ میں چاک کیا تھاـ)،۱۱- موجودہ اپیل ڈویژن جسٹس عنایت الرحمٰن،۱۲- موجودہ وزیرقانون انیس الحق،۱۳- سابقہ وزیر قانون شفیق احمد،۱۴- مرحوم اٹارنی جنرل محبوب عالم، ۱۵-غلام عارف ٹیپو ایڈووکیٹ، ۱۶-سیّدریاض الرحمٰن ایڈووکیٹ،۱۷-رانا داس گپتا ایڈووکیٹ، ۱۸- زیاد المعلوم ایڈووکیٹ (مجرم اسکائپ سکینڈل)
ان کے علاوہ جن بے ضمیر ججوں نے اپنے عہدوں کے لالچ اور مراعات کی ہوس کے لیے فسطائی حکومت کے جائز و ناجائز اقدامات کی حمایت کی، ان میں دو شخصیات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، ایک اپیل ڈویژن کے جسٹس عبدالمتین اور دوسری سابقہ جسٹس نجم الآراء سلطانہ۔ ان میں سے جسٹس عبدالمتین کا ذکر پہلے ہو چکا جو آج کل پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار کی چھترچھایا کے نیچے نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کے درمیان ایک بزرگ دانشور اور سیاست دان کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس نجم الآراء سلطانہ کے بارے میں یہ بتا دیا جائے کہ انھوں نے جسٹس عبدالوہاب میاں اور جسٹس امام علی کے ساتھ مل کر اس آئینی ترمیم کی بڑی سختی سے مخالفت کی تھی، جس کے تحت نگران حکومتوں کا نظام ختم کر کے بنگلہ دیش میں ایک جماعت کی فسطائی حکومت کا راستہ ہموار کیا گیا۔ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تھا تو مذکورہ تین جج اس کے مخالف تھے، جب کہ تین ہی ججوں نے حمایت کی تھی۔ آخر چیف جسٹس خیر الحق نے اس کی حمایت میں فیصلہ دے کر بنگلہ دیش کے آئین میں مہیا کردہ آزادانہ انتخابات کی سب سے بڑی ضمانت ختم کر دی تھی۔
عدلیہ میں موجود عوامی لیگی حواریوں کے جرائم کی ایک فہرست یاددہانی کے لیے پیش ہے:
۱- نگران حکومتی نظام کا خاتمہ کر کے عوامی لیگی شیطانی حکومت کے لیے زمین ہموار کرنا۔
۲- انسانیت کے خلاف ہر طرح کے جرائم مثلاً جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، حراست میں تشدد وغیرہ میں شیخ حسینہ اورپولیس، فوج، راب(RAB) میں موجود اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں، آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ضمانتوں سے انکار، بنگالی عوام کے بنیادی حقوق پر کھلی ڈاکا زنی۔
۳- فاشسٹ حکمران شیخ حسینہ کی خواہشات کے مطابق اس کے سیاسی مخالفین بشمولہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے خلاف وزارت قانون کی جانب سے تیار کردہ فیصلے بغیر کسی شرم، ہچکچاہٹ کے من و عن سنا دینا اور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی مسلسل گرفتاری کہ جس میں انھیں نہ ضمانت کا جائز حق میسر ہے، نہ اپنی بزرگی اور بگڑتی صحت کے باوجود علاج کی مناسب سہولت۔
۴- نئی دہلی حکومت کے ایما پر اسلام پسند رہنماؤں کے قتل کے لیے کینگرو عدالتوں کا قیام اور ملکی عدلیہ اور اداروں کی مستقل تباہی۔ اس قتل و غارت گری کے لیے ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جواز بنایا جاتا ہے۔ روزنامہ امر دیش اور لندن اکانومسٹ نے ۲۰۱۲ء میں ایک زبردست تحقیقی رپورٹ کے ذریعے اس منصوبے کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ یہ رپورٹ آزادی کے بعد کی بنگلہ دیشی صحافت میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری اور مغرب کے آزادی ٔ صحافت کے علَم برداروں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ہندستان کو خوش کرنے کے لیے آنکھیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
۵- آزادیٔ اظہار پر پابندیوں میں حکومت کے ساتھ اتحاد۔
۶- ملک میں قانون کی حکمرانی مکمل طور پر ختم کرنے میں حکومت کے ساتھ اشتراک۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران ہونے والے عدلیہ کے یہ جرائم مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ سب انڈیا کی پشت پناہی میں ایک بدعنوان اور ظالم خاتون کی ایما پر کیا گیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدلیہ میں عوامی لیگ کے مقرر کردہ یہ جلاد ایک دن انصاف کا سامنا کریں گے۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے ایڈیٹر یاکوف کاٹزنے ۲۲ستمبر کو ادارتی نوٹ میں جب سوال کیا کہ ’’کیا اسرائیل کو دوبارہ ۱۹۷۳ءکی ’یوم کپورجنگ‘ جیسی صورت حال کا سامنا کرپڑسکتا ہے؟‘‘ تو خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا ، کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ایسی ہی کارروائی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
تاریخی شہر یروشلم یا القدس سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے النقب یعنی نیگیو صحرا سے گزریں تو جدید زرعی تکنیک کے ذریعے اسرائیلی ماہرین نے ریگستان کو گلزار و شاداب بنا دیا ہے، اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک طرف یہودی قصبے آراد، دیما، مٹزپے اور رامون کی بلندو بالا عمارتیں، جدید شاپنگ مالز اور انتہائی جدید انفرا سٹرکچر کسی بھی مغربی ملک کے شہر کا منظر پیش کرتے ہیں، انھی کے بغل میں عرب بدو بستیاں اور قصبے راحت، تل شیوا اور لاکیا، انتہائی کسمپرسی اور لاچاری کی داستان بیان کرتے ہیں۔ اس سوکلومیٹر کے راستے میںہی عسقلان، سدیرات، کفار عزا، بیری، نہال اوز اور میگن کی اسرائیلی رہائشی بستیوں ہیں،جہاں ۷؍اکتوبر کی صبح کو حماس نے حملہ کرکے ان علاقوں کو جہنم زار بنادیا، اور اس کے بعد سے اسرائیلی فضائیہ غزہ کی پٹی پرمسلسل قہر برسا رہی ہے۔ حماس نے سادہ موٹر سائیکلوں سے لے کر غیرروایتی پیرا گلائیڈرز پر سوار اور دنیا کے انتہائی جدید ترین نگرانی کے سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے اور راکٹوں کی بارش کرکے تین دن تک ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا۔
ماضی میں جب بھی غزہ پر اسرائیلی حملہ ہوتا تھا، تو اسی علاقےمیں کبورز بیری کی مکین ایک کینیڈا نژاد یہودی معمر خاتون ۷۴ سالہ ویوین سلورکو فون کرکے حالات معلوم کرتے تھے۔ حقوق انسانی کےکارکن کی حیثیت سے اسکو اکثر سدیرات کے قصبہ میں غزہ کی سرحدکے پاس اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرےکرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا۔ مگر ۷؍اکتوبر کے حملے میں جہاں ان کےکبورز یعنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دیگر گھرمتاثر ہوئے ہیں ،وہیں ان کی رہایش بھی تباہ ہو گئی ہے۔ اس دن سے وہ غائب ہیں اور ان کا فون بھی بند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حماس کے عسکری اس کو اپنے ساتھ لےگئے ہوں گے، تو وہ محفوظ ہوگی اور جلد ہی واپس آکر پھر سرگرم ہوجائے گی، مگر جنگ میں کسی بھی چیز کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔بس ایک موہوم سی اُمید ہے۔ بیرون دنیا کے صحافیوں کے لیے، جو فلسطین کے مسائل کو خاص طور پر غزہ کو کور کرنا چاہتے تھے، وہ ایک طرح سے پہلا وسیلہ ہوتی تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ۱۹۹۰ء میں جب وہ غزہ سرحد کے قریب واقع کبورز بیری میں منتقل ہوگئی تھی، تو وہ عرب معاملات سے واقف ہوگئیں۔ اس کے بعد انھوں نے غزہ کی آبادی کی بہبود کے لیے پروگرام ترتیب دیئے۔ابھی ۴؍ اکتوبر کو ہی سلور نےیروشلم میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا، جس میں فلسطینی مسئلے کو نظر انداز کرنے پر اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ اس میں ۱۵۰۰؍ اسرائیلی اور فلسطینی خواتین نے شرکت کی تھی۔
بارود کا قہر صرف اسی سرزمین تک محدود نہیں تھا۔ صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ، اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں اورجھنجھلاہٹ کے بوجھ تلے لرز اٹھا۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں، غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک ۵ہزار سے زیادہ فلسطینی بچّے، عورتیں اور مرد شہید ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے الاہل عرب، عرب ہسپتال غزہ پر حملہ کرکے ۵سو سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کو ماردیا ہے۔
سابق امریکی فوجی افسر مارک گارلاسکو، جو اب نیدر لینڈ کی پیکس فار پیس تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں کا کہنا ہے:’’ اسرائیل نے تو صرف ایک ہفتے میں ہی۶۵۰۰بم گرائے، یعنی ایک ہزار بم ایک دن میں۔ امریکا نے افغانستان میں پورے سال بھر۷۴۲۳ بم گرائے تھے۔ غزہ پر بمباری اس لیے بھی تشویش کا موجب بنتی ہے کہ افغانستان کے برعکس یہ ایک گنجان آباد شہری علاقہ ہے۔ امریکی فوجی ریکارڈ کے مطابق: ’’ناٹو اتحادی افواج نے لیبیا میں پوری جنگ کے دوران طیاروں سے تقریباً ۷۶۰۰ بم اور میزائل گرائے تھے‘‘۔
غزہ اس وقت اپنے وجود کے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں ہر فرد بے گھر، الجھن اور نااُمیدی کے احساس کی عکاسی کر رہا ہے۔ غزہ کے رہایشی جمعہ ناصر اور فری لانس صحافی عصیل موسیٰ پناہ کی تلاش میں اپنے دردناک سفر کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بمباری کے خوف سے وہ رات بھر بھاگتے رہے‘‘۔ فون پر گفتگو کرتے ہوئے عصیل کہہ رہی تھی:’’کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ جب بمباری نہیں ہوتی ہے، تو سروں کے اوپر اسرائیلی ڈرون خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے پرواز کرکے ایک لمحہ بھی چین سے رہنے نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ وہ ان دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں،جنھیں اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو غزہ کے جنوب میں بھاگ جائیں،مگر ان کے بھاگتے قافلہ پر بھی بمباری کی گئی۔
حماس کی کی کارروائی نے پوری دنیا کوحیران تو کردیا، مگر اس خطے پر نظر رکھنے والے کچھ عرصے سے فلسطین کے حوالے سے کسی بڑی کارروائی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ایک لاوا خطے میں پک رہا تھا، جس کو پھٹنا ہی تھا۔ فلسطینیوں میں ’ابراہیمی معاہدے‘ کی وجہ سے مایوسی پھیل گئی تھی۔ پہلا معاہدہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ۱۵ ستمبر۲۰۲۰ء کو ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل، مراکش اور سوڈان کے درمیان بھی اسی طرح کے معاہدے ہوئے۔ گذشتہ ماہ سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ’’قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ایک بنیادی فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے‘‘۔مگر ان معاہدوں کی خبروں نے فلسطینیوں کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے برعکس ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے نو مہینوں میں، اسرائیل نے کم از کم ۲۳۰ فلسطینیوں کو ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ۲۰۰۵ء کے بعد سے جاری تنازعے میں ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔صرف رواں سال کی پہلی ششماہی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آباد کاروں کے کم از کم۱۱۴۸ حملے ریکارڈ کیے گئے۔مزید یہ کہ اسرائیل کے انتہائی مذہبی شدت پسند جان بوجھ کر الاقصیٰ کمپلیکس کے اندر اشتعال انگیز مارچ میں اس کی بے حُرمتی کر کے فلسطینیوں کو اُکسا رہے تھے۔ حال ہی میں انھوں نے مسیحی برادری کے مقدس مقام پر تھوک کر ان کی بھی توہین کی ۔ مصری خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے میڈیا کو بتایا کہ: ’’ہم نے اسرائیلیوں کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں صورتِ حال دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے،مگر انھوں نے ان کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا‘‘۔
مغربی کنارے اور اپنے زیرتسلط عرب آبادی کو اسرائیل نے بد ترین نسل پرستی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ عرب آبادی کو امتیازی سلوک کا سامنا کر نا پڑرہاہے ۔ صحراؤں میں رہنے والے عرب بدوؤں کو بنیادی سہولیات سے محروم کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان کے ۳۵دیہات، جہاں تقریباً ۷۰ ہزار لوگ رہتے ہیں، اس وقت اسرائیل کی طرف سے ان معنوں میں ’غیر تسلیم شدہ‘ہیں کہ وہاں بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع ہے اور انھیں بار بار مسمار کرنے کے لیے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مغربی کنارے میں انتفاضہ جیسی کارروائی یا اسرائیل کے اندر عرب آبادی کی بغاوت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ غزہ کے راستے اس طرح کی پیش قدمی یقینا ان کے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔ اس غلط اندازے کی وجہ سے اسرائیل نے بھی مغربی کنارے پر افواج کی تعیناتی کی تھی، اور جنوبی خطے کو ایک طرح سے خالی چھوڑا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے واپس لینے کے لیے اس کے انتہائی تربیت یافتہ اور جدید آلات سے لیس کماڈوز کو تین دن زور لگانا پڑا۔
معروف اسرائیلی کالم نگار، گیڈون لیوی کا کہنا ہے: ’’کئی برسوں میں بہت سی اشتعال انگیزیاں ہوئی ہیں جو ایک دھماکا خیز صورتِ حال بنا رہی تھیں۔ یہودی آباد کاروںکی طرف سے فلسطینی آبادی کو اشتعال دلایا جا رہا تھا۔ اور جب حماس نے ان پر حملہ کیا، تو ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’۲۸ستمبر کو سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئی دنوں تک راکٹ فائر کرنے کے امکان کی نشاندہی کی گئی تھی اور پھر ۵؍اکتوبر کو دوسری رپورٹ میں اس انتباہ کو دُہرایا گیا‘‘۔
اسرائیلی افواج اب غزہ کے تباہ شدہ منظر نامے میں داخل ہو رہی ہیں۔اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ، اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے۳لاکھ ۶۰ ہزار ریزروسٹ، یا کل اسرائیلی آبادی کے ۴ فی صد کو بھرتی کیا ہے۔ فوجی حکمت عملی کے ایک اسرائیلی ماہر جیک خووری کے مطابق: ’’انتقامی کارروائیاں فوری طور پر جذباتی سکون فراہم تو کرتی ہیں، مگر وہ اکثر پیچیدہ، دیرپا مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حماس کو اگر ختم کردیا جائے تو غزہ پر کون حکومت کرے گا اور کون تعمیرِ نو کرے گا؟‘‘ جیک خودری کا کہنا ہے کہ :’’امریکا نے نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی۔ دو عشرے کے بعدافغانستان میں طالبان مضبوطی کے ساتھ واپس اقتدار میں آگئے اور عراق میں ایران کو تاریخ میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے، جس سے یہ ملک امریکیوں کے لیے مزید خطرناک ہوگیا ہے‘‘۔ ایڈرین لیوی کے مطابق: ’’اعلیٰ امریکی اور یورپی حکام کے دورے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ہمدردانہ تقریر سے اسرائیلیوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ حماس کے حملوں نے بتایا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کرنا ایک غلطی تھی۔ اسرائیل اور اس کے عرب شراکت داروں کے لیے لازم ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک نئے، پُراُمید وژن پر غور کریں۔فوجی کارروائی سے نہ تو حماس کے عسکریوں کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے نظریہ یا بنیادی مسائل کو، جس کی وجہ سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔
اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر ی افواج نے اچانک حملہ کرکے نہر سویز اور صحرائے سینا کو اسرائیلی قبضہ سے آزاد کرواکر اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بت کوپاش پاش کر دیا تھا۔ پچھلے ۵۰برسوں میں یہ سودا ایک بار پھر اسرائیلی حکمرانوں کے سر میں سما گیا تھا۔ اسی غرور کی وجہ سے وہ فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ امن کے لیے ’ابراہیمی معاہدے‘ کے مندجات پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی، فلسطین کی خودمختاری کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔
پچھلے ایک عشرے سے تو کسی بھی سفارتی اجلاس میں اسرائیلی سفارت کار، فلسطین کے حوالے سے کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ وہ اس کے بجائے عرب ہمسائیوں کے ساتھ علاقائی روابط اور استحکام پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے قبل، صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نے یہودی غیر سرکاری تنظیموں کوچھوٹ دے رکھی تھی، کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودی آباد کاروں کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زمینوں پر آباد کریں۔ کیونکہ فلسطینیوں کے حوالے سے وہ عرب ممالک کو بس اتنی سی رعایت دینے کے لیے تیار تھے کہ وہ مزید یہودی آبادکاروں کو فلسطینی زمینوں پر آباد نہیں کریں گے۔
سعودی عرب میںبھارت کے سابق سفیر تلمیذ احمد کے مطابق: ’’یہ اقدام کرکے حماس نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین کے مسائل کو حل کیے بغیر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مغربی میڈیا جو اسرائیل کا حامی ہے، اسے اس مسئلے کے حوالے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا۔ حد یہ کہ نیتن یاہو تو اب دوریاستی فارمولے پر بھی غور کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔وہ بس اردن سے مسجد اقصیٰ کی نگرانی چھین کر اس کو سعودی عرب کو دینے کے لیے تیار تھا اور اسی چیز کو ایک بڑی رعایت سمجھتا تھا‘‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے ’گریٹر اسرائیل‘(عظیم تر اسرائیل) کا نقشہ پیش کر کے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا۔ اس میں مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر دکھایا گیا ہے۔ نیتن یاہو کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نے اعتراف کیا ہے کہ: ’’حماس کی کارروائی ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی ظاہر کرتی ہے،کیونکہ اس طرح کے حملوں کے لیے مہینوں کی منصوبہ بندی اور متعدد گروپوں کے درمیان محتاط تربیت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ’’حماس کی کارروائیوں سے کس کو فائدہ ہوا؟‘‘ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام نے بہت سے اسٹیک ہولڈرز کے لیے راحت کا ساما ن فراہم کیا ہے۔ ایران، چین اور روس اس لیے خوش ہو رہے ہیں کیونکہ امریکی ثالثی میں ہونے والے ’ابراہیمی معاہدے‘ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خطے میں متوقع استحکام کی اُمید میںامریکا اس خطے سے نکل کر اپنے وسائل ایشیا پیسیفک کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ روس کے لیے یوکرین سے مغربی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایران نے حماس کی براہ راست مدد نہ کی ہو، لیکن مزاحمتی گروپ پر اس کا اثر و رسوخ اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس کی قربت اسرائیل کے لیے تنائو کی صورتِ حال بناتی ہے۔اسرائیل جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا، اب اس خطے میں ہی محدود ہو کر مزاحمتی گروپوں سے لڑنے میں مصروف رہے گا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور شرق اوسط کے ممالک بھی اب تل ابیب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بات چیت کر سکتے ہیں کیونکہ اب اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنا مضبوط اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر ثالثی کے دوران، امریکا نے بھی اَزحد کوشش کی تھی، کہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ کیا جائے، مگر اسرائیل نے امریکی کوششوں کو کئی بار سبو تاژ کیا، جس سے امریکی صدور بھی نالاں تھے۔
چند سال قبل نئی دہلی کے دورے پر آئے یہودی مذہبی لیڈر اور ’امریکن جیوش کمیٹی‘ (AJC) کے ایک عہدے دار ڈیوڈ شلومو روزن نے مجھے بتایا کہ: ’’مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ۱۹۷۳ءکی جنگ کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ اس جنگ نے ہمارے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا۔ اس لیے اس جنگ کے بعد عمومی طور پر اسرائیلی معاشرے میں احساس پیدا ہوگیا تھاکہ ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا‘‘۔ جون ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ میں مصر، شام اور اردن کو مکمل طور پر شکست دینے کے بعد اسرائیل حد سے زیادہ پُر اعتماد ہو گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیل امن مذاکرات شروع کرنے یا اپنے عرب پڑوسیوں کو کچھ رعایتیں دینے کے لیے امریکی دباؤ کو بار بار مسترد کر رہا تھا۔ ۲۰۲۱ء میں شائع ہونے والی کتابMaster of the Game ' کے مصنف مارٹن انڈک کے مطابق ہنری کسنجر نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا تھا کہ ’’وہ فور ی طور پر اسرائیل کی مددکو نہ آئے‘‘۔ وہ اسرائیل کو ایک جھٹکا(shock) دے کر باور کروانا چاہتے تھے کہ اس کا وجود اور سلامتی بس امریکا کے دم سے ہے۔ اسی جنگ کے بعد ہی ۱۹۷۹ء میں اسرائیل نے مصر کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، بعد میں اردن اور پھر فلسطینیوں کے ساتھ ’اوسلو معاہدے‘ عمل میں آئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کے بھرم کا ٹوٹنا ہی تھا۔
حماس کی کارروائی عرب ہمسایوں اور بڑی طاقتوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں، مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انھوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی۔ امریکی ڈپلومیسی کے ایک ماہر ہنری کسنجر نے کئی عشرے قبل خبر دار کیا تھا کہ ’’اگر آپ فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کرتے ہیں، تو یہ کسی بھی وقت پلٹ کر وار کرکے آپ کے چہرہ کو بگاڑ دے گا‘‘۔ واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ شرق اوسط میںحالات تیزی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اس لیے دیرپا امن کے مفاد میں ضروری ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو معتبر طریقوں کے ساتھ حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر استحکام پیدا کیا جائے۔ یہی زریں اصول نہ صرف فلسطین، بلکہ تمام متنازعہ خطوں پر صادق آتا ہے۔
اس دوران دہشت گرد یہودیوں کا بار بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر شوروشغب کرنا، نمازیوں کو تنگ کرنا، مسجد کے احاطے میں مسلمانوں کو چیلنج کرکے یہودی عبادات و رسومات ادا کرنا، مسجداقصیٰ کو اپنے زیرتصرف لانے کے اقدامات کرنا اور یہاں تک کہ ہارن بجاکر مسجد کی بے حُرمتی کرنا، سب شامل ہے۔ اقصیٰ کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات شروع کیے گئے: ۱-ضحی (چاشت) کے وقت ۲-ظہر اور عصر کے درمیانی وقت اور ۳- عصر کے بعد کے وقت، مسجداقصیٰ میں مداخلت کرکے اپنے اوقات عبادات کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جو دراصل مسجد اقصیٰ کے انہدام اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے فضا بنانے کا عمل تھا۔ اس دوران غزہ اور مغربی کنارے پر لوگ اشتعال محسوس کر رہے تھے اور روز اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اپنے ہم وطن فلسطینی بھائیوں کے جنازے اُٹھا رہے تھے۔ اس صورتِ حال میں القسام بریگیڈ، حماس، الحرکۃ الاسلامیہ اور ایلیٹ فورسز نے الاقصیٰ کی حفاظت کے لیے ’الاقصیٰ طوفان‘ لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب ہمارے موجودہ اقدام نے ہماری عسکری کامیابی کو ثابت کردیا ہے، جو قانونی دائرے میں ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ عالمی جنگ میں ڈیگال کو یہ سہولت بی بی سی کے ذریعے دی گئی کہ وہ فرانسیسیوں سے براہِ راست مخاطب ہوکر انھیں جرمنی کے ساتھ جنگ پر آمادہ کرے، جب کہ آج امریکا کا موقف ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کا درست ساتھ دے رہا ہے کیونکہ یہ جنگ روس نے یک طرفہ شروع کی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ اسرائیل جو ۷۰سال سے زائد عرصے سے یک طرفہ جنگ کر رہا ہے، کیا اس کے خلاف اقدام کی ضرورت نہیں ہے؟
۱- اسرائیل کے خلاف ایسا مشترکہ موقف اختیار کیا جائے جو اسے زیادتیاں کرنے سے روکنے کا باعث بنے، خاص طور پر آج کل کی وحشیانہ بمباری کو رکوانے کے لیے واضح مضبوط موقف اپنانا چاہیے۔
۲- یہ مضبوط موقف کہ فلسطینی اپنے علاقوں ہی میں رہیں گے، انھیں کسی طور پر اپنے علاقوں سے دربدر نہیں کیا جائے گا۔
۳- اہل غزہ کی ہرنوعیت کی نصرت کا سامان کیا جائے۔
۴- تمام ممالک میں عوامی رائے عامہ کو مزید متحرک کرکے مسلسل بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا جائے تاکہ دشمن مزید زیادتی سے رُک جائے۔
۵- جو کوئی بھی فلسطین کی سرحدوں تک آسکے، آئے۔اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے۔ اسے اس کام سے روکنا ہماری اجتماعی کوششوں سے ممکن ہے۔
ہم فلسطینیوں کی سوچ دو نکات کے تحت پروان چڑھی ہے: ہم عقلی و تدبیری اور سیاسی و ایمانی اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرطرح کی کمی، کمزوری پر ہم نے قابو پایا ہے۔ یہ سب ایمانی، سیاسی، عقلی و عملی نکات کا مرہونِ منت ہے۔ ہم نے گذشتہ سولہ برس میں سخت حصار کے دوران اللہ پر کامل ایمان کے زیرسایہ یہ سب حاصل کیا ہے۔ ہماری ایلیٹ فورس نے علی الصبح اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بفضل اللہ اسرائیلی فساد اور غرور کو، بحروبراور فضا سے پاتال میں پھینک دیا۔ سوال یہ ہے کہ ان برسوں میں کسی نے ہمیں اس شورش سے بچانے کی کیا کوشش کی؟ اسرائیل، سب طاقتوں کے تعاون کے باوجود ایک بار پوری طرح رُسوا ہوا۔ غزہ کے شہریوں کے پاس اپنی عزت و وقار کے سوا اورکیاہے؟ وہ اپنی عزت و تکریم کے بقا کی جنگ لڑتے رہیں گے، چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازع گفتگو کا جواب دینے کے لیے میدان میں اُتر پڑتے ہیں۔چند روز پہلے بعض احباب نے دریافت کیا: ’’اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے، جو یہ کہتا ہے کہ صیہونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردِ عمل کا موقع نہ ملے‘‘۔ خاموش رہنے کے بجائے اپنے احساسات کو سرسری طور پر بیان کروں گا:
ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر ہوچکا ہے۔ ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انھیں بھول بیٹھی ہے، کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے؟ صیہونی حکومت کے اندر انتہا پسند یہودیوں کی مضبوط گرفت کے سبب قیدیوں کی زندگی کو اس طرح جہنم بنا دیا گیا ہے کہ عملاً ان کے لیے یہ سب نا قابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ گذشتہ مہینوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی اور اس جہنم سے ان کی آزادی کے لیے جد وجہد ضروری ہے۔ اس مصیبت میں ہماری قیدی بہنوں کی اذیت کا اضافہ بھی کر لیجیے۔ ہماری بہنوں کو رُسوا کیا جارہا ہے۔ ان کے دین، ان کی عفت، اور ان کی حیا کوجس طرح تار تار کیا جا رہا ہے، مجھ میں تاب نہیں کہ اس کی تفصیل بیان کرسکوں۔ ایسے مرحلے میں مجاہدین نے آپریشن کیا تاکہ مظالم کے اس لا متناہی سلسلے پر بند باندھا جائے۔
میں نے جنگی جہازوں اور میزائلوں کی گھن گرج کے درمیان جلدی میں یہ چار اسباب بیان کیے ہیں۔پھر یہ بھی عرض کروں گا کہ بارود، آگ، خون اور موت کے مقابلے میں کھڑے لوگ اپنے احوال سے بہتر واقف ہیں، جو ان احوال سے واقف نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صحیح صورتِ حال دریافت کر لے۔ یہی حکمت اور دیانت کا تقاضا ہے۔ اور جو وطن سے دُور ہو اس پر ایسی کوئی پابندی تو نہیں کہ وہ ملکی معاملات میں فتویٰ نہیں دے سکتا، البتہ ضروری ہے کہ پہلے وہ حصول معلومات کے ممکنہ ذرائع کا استعمال کر لے، کیونکہ فتویٰ کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے۔
جب معرکہ برپا ہو اس وقت ہمیں دستِ تعاون بڑھانا چاہیے، نہ کہ تنقید اور محاسبہ کے تیرچلانے چاہییں۔ جو لوگ صیہونی موقف پر تکیہ کرنے والے استبدادی حکمرانوں کے نقطۂ نظر کو درست سمجھتے ہوں، وہ ان وضاحتوں سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتے بلکہ یہ لوگ ہر اس شخص کے رَد کے لیے تیار رہیں گے، جو انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا، تاکہ اسی کی بات درست مانی جائے ۔ لہٰذا، اس قسم کی بحثوں میں اُلجھنے کا کوئی بڑا فائدہ نہیں۔
ہم نے برسہا برس سے ایسے تماش بیں لوگوں کو دیکھا ہے جن کے بارے میں رسولؐ اللہ کے فرمودات میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا ہے۔ ہمیں نصوص میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محاذوں پر ڈٹ جانے والوں کو اللہ کے حکم سے نہ تو ان کے مخالفین نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ ان کو بے یار مددگار چھوڑ کر تماشا دیکھنے والے ایسا کرسکیں گے۔
مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس پر کوئی دُکھ نہیں ہوتا کہ پوری کی پوری قوم ذلت، رُسوائی، فقر، اور مظلومیت کی دلدل میں ہے۔ انھیں قید و بند کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے۔ مسجد اقصٰی کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔ ہمارے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے۔ ان کے نزدیک ’’یہ سب فطری اور معمول کی باتیں ہیں، ان سب کے ساتھ جینا سیکھ لینا چاہیے‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ باطل کہاں ہے جو تمھیں اس کی اجازت دے دے گا کہ تم اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرو اور پھر اس پر خاموش رہ کر تم سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتا رہے۔
اللہ جل جلالہٗ سے بس یہی فریاد ہے کہ الٰہی ہم کمزور ہیں ہماری مدد فرما، ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلب گار ہیں ہم پر کرم فرما، ہم عاجز ہیں ہمیں غلبہ و قوت عطا فرما، ہم رُسوائی سے دوچار ہیں ہمیں عزت و اقتدار عطا فرما، کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے شر سے ہمیں بچا: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۱ (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنے معاملے پر غالب آکر رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے‘‘۔
اسرائیل کی صورت میں انسانیت کے لیے کینسر، فلسطین کی سرزمین پر ظاہر ہے۔ میزائل اُڑتے ہیں، جہنم کا منظر عالمی سرخیاں بنتی ہیں، ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، میرے خدا، ان میں سے بہت سے بچّے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اعلان کیا: ’’ہم انسانی جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم غزہ کا مکمل محاصرہ کر رہے ہیں۔ نہ بجلی، نہ کھانا، نہ پانی، نہ ایندھن___ سب کچھ بند ہو جائے گا‘‘۔ یہ ہے صیہونی اصول کہ انسانوں کو جانور قرار دے کر مار ڈالو، چاہے وہ معصوم بچّے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ جنگ شیطانی چکر ہے۔ حماس نے اسرائیل پر میزائل داغے، جس کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے (بہت زیادہ جدید ترین) میزائل اور بھی زیادہ گھناؤنے ردعمل کا جواز بناکر برسائے گئے ہیں، اور غزہ کی ’اوپن ایئر جیل‘ میں پھنسے لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ —
میں یہ الفاظ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس تنازعے کی غلطیوں کو ’برابر‘ کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ اس کی تاریخ کو چھیڑیں: پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں فلسطین میں اسرائیل کی نوآبادیاتی، ریاست کے قیام میں یہاں کے سیکڑوں دیہات کو وحشیانہ انداز سے تباہ کردیا گیا۔ جیسا کہ کرس ہیجز لکھتے ہیں:’’اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی یہ خون آلود زبان بولی ہے۔ جب سے صیہونی ملیشیا نے تاریخی فلسطین کے ۷۸فی صد سے زیادہ حصے پر قبضہ کر لیا، تقریباً ۵۳۰ فلسطینی دیہات اور شہروں کو تباہ کر دیا، اور ۷۰ سے زیادہ مرتبہ قتل عام میں ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ریاست بنانے کے لیے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان تقریباً ۷لاکھ ۵۰ ہزار فلسطینیوں کا نسلی طور پر صفایا کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وزیردفاع پوچھتا ہے: ’’اسرائیل سے تم کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘
یہ تازہ ترین جنگ، نسلی تطہیر اور اپنی نسل کشی کے خلاف ردعمل کی کارروائی کے نمبرشمار میں ایک اضافہ ہے۔ حماس، یعنی غزہ کی موجودہ انتظامیہ کو امریکی میڈیا کی زبان میں ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ سمجھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ تقریباً ہر قومی حکومت کی فوج ایک دہشت گرد تنظیم ہی ہے، یا کم از کم ممکنہ طور پر ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہے۔ امریکا تو یقیناً اسی معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اب جنگ کے لیے ایک اور لفظ کا اضافہ ہوگیا ہے: ’دہشت گردی‘۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو جنگ کی آگاہی کے شعور میں پھنسی ہوئی ہے۔ خطرے سے بچنے کا واحد راستہ پھر یہ ہے: ’انھوں نے ہمارے بچوں کو مارا ہے، لہٰذا ہم ان کو مارنے والے ہیں‘۔ یوں جو سب سے زیادہ بچوں کو مارتا ہے وہ واقعی جیت جاتا ہے، یا ایسا نظر آتا ہے۔
کیا جغرافیائی سیاست کی سطح پر سوچنے کا ایک مختلف طریقہ ممکن ہے؟ کیا جنگ کے بغیر دنیا ممکن ہے؟ اورلی نوئے، جو اسرائیلی اور عبرانی زبان کے نیوز میگزین لوکل کال کی ایڈیٹر ہیں، لکھتی ہیں: ’’جب حماس نے اسرائیل پر میزائل داغے تو یہ کتنا خوفناک تجربہ تھا‘‘۔ دی گارڈین میں وہ لکھتی ہیں: ’’عوام میں بدلہ لینے کی خواہش قابل فہم اور خوفناک بھی ہے، لیکن کسی اخلاقی سرخ لکیر کا مٹ جانا ہمیشہ ایک خوفناک چیز رہا ہے‘‘۔یہ بات اہم ہے کہ حماس کی طرف سے کیے جانے والے اقدام کی اہمیت کو کم نہ کیا جائے اور نہ معاف کیا جائے۔ لیکن یہ خود ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ وہ سب کچھ جو اب ہم اپنے اُوپر مسلط ہوتا دیکھ کر تڑپ رہے ہیں، بالکل یہی تو ہم برسوں سے فلسطینیوں پر ڈھا رہے ہیں… میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہتی ہوں کہ اس سیاق و سباق کو نظرانداز کرنا خود میری اپنی انسانیت کی تذلیل رہی ہے۔ کیونکہ کسی بھی سیاق و سباق سے عاری تشدد صرف ایک ممکنہ ردعمل کی طرف لے جاتا ہے: انتقام، اور بدلہ‘‘۔ اورلی نوئے لکھتی ہیں: ’’سیکورٹی کا مخالف، درحقیقت امن کا مخالف ہے، اور انصاف کا بھی مخالف ہے اور یہ مزید تشدد کے سوا کچھ بھی نہیں… ہم نے نہ صرف غزہ کو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے بلکہ اسے مکمل تباہی کے دہانے پر بھی پہنچا دیا ہے، اور یہ سارا کام ہمیشہ سیکورٹی کے نام پر ہی کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرکے ہمیں کتنی سیکورٹی ملی؟ انتقام کا یہ دوسرا دور ہمیں کہاں لے جائے گا؟‘‘
’’اس ہفتے کے روز اسرائیلیوں کے خلاف جو خوفناک اقدام کا ارتکاب کیا گیا، جسے دماغ سمجھ نہیں سکتا اور غم کے اس تاریک لمحے میں ایک چیز سے چمٹی ہوئی ہوں جسے میں نے تھامنا چھوڑ دیا اور وہ ہے: میری انسانیت۔ مکمل یقین کہ یہ جہنم پہلے سے طے شدہ نہیں ہے۔ نہ ہمارے لیے، نہ ان کے لیے‘‘۔
اس خوفناک لمحے کو سمجھا، پڑھا جا سکتا ہے، کہ کیا ہم ۷؍ارب انسانی دماغ سوچ سمجھ نہیں سکتے۔ انتقام اور جنگ میں عقل کام نہیں کرتی۔ تنازعے کو صرف ان تمام فریقوں کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے، جو اس کا حصہ ہیں۔ یہی سوچ اور شعور امن کی تخلیق ہے۔ ہاں، افسوس کہ یہ محض کسی کی پشت پر لات مارنے سے زیادہ پیچیدہ کام ہے۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے تنازعات کو زندہ رکھنے میں عالمی تجارتی مفاد کی حکمرانی! نہ صرف سیاسی حواریوں اور اسلحے کے ڈیلروں کے درمیان بلکہ اس گندے کھیل کے لیے بھی یہ کھیل ٹھیک ہے۔تمام زندگی ایک صحافی کے طور پر کام کرتے ہوئے مَیں یقینی طور پر اپنے پیشے کو بھی اسی انسانیت کُش فہرست میں شامل کر سکتا ہوں، جسے اپنے اخباروں میں خون آلود سرخیاں چھاپنے سے دلچسپی ہے، اور یہ خیال بھی ساتھ ساتھ کہ ’’فریقین رابطے اور مکالمے میں مصروف ہیں‘‘۔
یاخدا! دشمن کے ساتھ بھی رابطے؟ حکومتیں اس مقصد کے لیے اپنے وسائل کیوں ضائع کریں گی؟ انسانیت کے متعلق ہماری سمجھ بھی ایسی نہیں ہے۔ بہت مثبت بن کر سوچا جائے تو جنگ کا خاتمہ یا انسان کا اس سے بلند تر ہوجانا بھی ایک ناقابلِ فہم حد تک طویل اور ناممکن ترین سا عمل ہے۔ اس عمل کے بارے میں ہم اتنا بھی نہیں جانتے، جتنا ’ایٹم‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ جتنا ہم سمجھتے ہیں، اس سے زیادہ ہی جانتے ہوں جیساکہ ماہر نفسیات مصنف مارین ووڈمین کا کہنا ہے: ’’دوسروں پر حکم چلانا اور ان کے ساتھ ایک بامعنی ربط پیدا کرنا، دو مختلف چیزیں ہیں۔یہ پہلی قسم جسے ’پدرشاہی‘ قسم بھی کہاجاسکتا ہے، دوسروں کی کچھ پروا نہیں کرتی۔ اس کے برعکس مَیں تو لوگوں کو بااختیار بنانے کے حق میں ہوں‘‘۔
ہمیں کوشش جاری رکھنی ہے، ہمیں بطورِ انسان ایک دوسرے کی قدر کرنی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ربط رکھنا اور زندہ رہنا سیکھنا ہے، چاہے یہ کام ہمیں کتنا ہی ناممکن کیوں نہ لگے۔ بطور انسان ہمارا پہلا فریضہ بھی یہی ہے۔ اگر ہم اس جنگ کو ختم نہیں کرتے، تو یہ ہمیں ختم کردے گی! [ترجمہ: ادارہ]
یہ جنوری ۲۰۲۲ء کی بات ہے، برطانیہ کے ایک آزاد تحقیقی ادارے ’اسٹوک وائٹ انویسٹی گیشن‘ نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے ایک گاہک ’کریم‘ کو کشمیر میں دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ وادی میں انڈین فوجی اداروں کی جانب سے کشمیریوں کی بلاجواز گرفتاری اور حراست کے دوران تشدد کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم، کریم نے اپنے تفتیش کنندگان کی جو داستان سنائی وہ کافی عجب تھی۔ کریم کے بقول: ’’مجھ سے تفتیش کرنے والے اہلکار ہندستانی نہیں تھے۔ ان کا رنگ سفید تھا اور وہ امریکی لہجے میں بات کرتے تھے۔ ان کو کشمیر سے متعلق سرگرمیوں یا مقامی مسئلوں سے بھی کوئی سروکار نہ تھا، بلکہ وہ عالمی سیاست اور مسئلہ فلسطین کے متعلق میرے خیالات جاننا چاہتے تھے‘‘۔
کریم نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’میرے خیال میں وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا میں فلسطین اور افغانستان کی جدوجہد ِآزادی سے کوئی وابستگی رکھتا ہوں یا نہیں؟ ایک افسر نے مجھ سے حماس کے متعلق بھی پوچھا۔ اس سوال پر مجھے حیرانی کا جھٹکا لگا کیونکہ حماس کا کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے فقط کشمیر پر ہندستانی قبضے سے مسئلہ ہے، لیکن وہ مجھ سے یہ قبول کروانا چاہتے تھے کہ میں کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہوں‘‘۔۱
کریم کے مطابق یہ افراد اپنی شناخت کے بارے میں بڑے پُراعتماد تھے۔ انھوں نے کھلم کھلا اسے بتایا کہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ سے وابستہ ہیں اور کشمیر میں ’تحقیقی‘ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سرینگر کے ہوائی اڈے پر قائم عقوبت خانے میں یہ پُرتشدد تفتیش تین دن تک جاری رہی اور اس کے بعد کریم کو ڈھائی مہینے کے لیے ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
کریم کے ساتھ جو ہوا وہ ہندستان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک تعاون کا نتیجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی نظریاتی و مفاداتی قربتوں کے باعث دونوں ریاستیں معاشی و سیاسی میدان میں مل کر کام کر رہی ہیں۔ اسی قرابت داری کے باعث اب ہندستانی مقبوضہ علاقوں میں ریاستی جبر صرف ہندستانی ریاست کا خاصہ نہیں رہ گیا ہے بلکہ ایک بڑے عالمی منصوبے سے جڑ چکا ہے۔ یہی منصوبہ ہندستان کو اسرائیل اور اس کی نوآبادیاتی پالیسیوں سے جوڑ دیتا ہے۔
اگرچہ ہند اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ طور پر کھلے عام تعلقات ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئے، لیکن ان دو ریاستوں کا روحانی تعلق ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ان کے قیام سے پہلے کا چلا آرہا ہے۔ دونوں ریاستیں اپنے قیام سے قبل برطانوی استعمار کا حصہ تھیں، جو فلسطین اور جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصے پر قابض تھا۔ اس تعلق کا ایک ثبوت دونوں ممالک کا حیران کن حد تک مماثل قانونی نظام ہے۔ مثلاً دونوں ممالک نے مہاجرین کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برطانیہ کے جنگی قوانین کا سہارا لیا۔ ’اسرائیلی ابسنٹی پراپرٹی لا‘ (Israeli Absentee Property Law) اور ہندستانی متروکہ املاک کا قانون بہت حد تک مشابہ ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ہندستان کے کئی قوم پرست رہنما مثلاً ڈی وی سوارکر (D.V Savarkar) اور ایس ایم گولوالکر(S.M Golwalkar) صیہونیت سے متاثر ہوئے۔ فلسطین کے نوآبادیاتی منصوبے میں انھیں اپنے اکھنڈ بھارت کی جھلک نظر آتی تھی، جو سارے جنوبی ایشیا پر مشتمل ہو گا اور یہاں ہندوؤں کی حکمرانی ہو گی۔ صیہونیت سے یہ محبت اب بھی کئی طاقت ور قوم پرست ہندو اداروں میں پائی جاتی ہے، جن میں وزیراعظم مودی کی جماعت بھارتی جنتا پارٹی بھی شامل ہے۔ انھی بااثر اداروں کی وجہ سے صیہونیت کے ساتھ یہ تعلق نہ صرف ہندستان کی داخلی و خارجی سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ بی جے پی کے زیر انتظام علاقوں میں عوامی رائے کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ان کٹر قوم پرست حلقوں سے باہر اور سیکولر سمجھے جانے والے ہندستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو بھی صیہونی تحریک اور اسرائیلی عزائم کے بڑے مداح تھے۔۲ تاہم، ان کا خیال تھا کہ اسرائیل سے براہ راست تعلق استوار کر لینے کی صورت میں ان کی کشمیرپالیسی متاثر ہو گی اور نوآبادیاتی غلامی سے نکلنے والی ریاستوں کی سربراہی کا خواب بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہندستان نے ۱۷ستمبر ۱۹۵۰ء کو اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا اور ۱۹۵۳ء میں بمبئی میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی کھل گیا۔
۱۹۹۲ء میں باقاعدہ تعلقات استوار ہونے سے پہلے ہندستان اور اسرائیل کا رابطہ ’موساد‘ اور’ را‘ کے ذریعے ہوتا تھا۔ ’را‘(RAW) ہندستانی خفیہ ایجنسی ہے، جس کی بنیاد ۱۹۶۸ء میں اندراگاندھی نے رکھی تھی۔ یہ خفیہ دفاعی تعلقات جو ٹکنالوجی کے تبادلے سے لے کر خفیہ سفارتی دوروں تک پھیلے ہوئے تھے، پاکستان کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت کے رد عمل میں قائم کیے گئے تھے۔۳ ’موساد’ ،’را‘ تعلقات اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے علاوہ ہندستان نے سوویت یونین (USSR)کے ساتھ بھی مضبوط دفاعی تعلقات قائم کیے۔ دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے زوال کے وقت ہندستان سوویت اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا۔
۹۰ کے عشرے سے ’ہندستان اسرائیل تعلقات‘ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے اس رشتے کی بنیاد دفاعی مصلحتوں پر تھی، لیکن اب اپنے مقبوضہ علاقوں پر شکنجا مضبوط کرنے کے لیے ہندستان کو اس اتحادی کی ضرورت پڑی۔ سوویت یونین کے زمین بوس ہونے سے ہندستان کے لیے اسلحے کی سب سے بڑی دکان بند ہو چکی تھی۔ اب اندر اور باہر سے جب معیشت کو آزاد کرنے کا دباؤ بڑھا تو ہندستان نے امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کیے۔ اسی زمانے میں کشمیر کے اندر ایک مسلح جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی جس کا آغاز ۱۹۸۹ میں ہوا تھا اور وہاں ۱۹۸۷ء میں ہونے والے متنازع انتخابات بڑی دیر سے دبے لاوے کے پھوٹنے کی بنیاد بنے تھے۔ ان انتخابات میں نئی دہلی حکومت نے دھاندلی کے ذریعے ہندستان پسند جماعت نیشنل کانفرنس کو جتوایا تھا۔
’تامل ٹائیگرز‘ کے ہاتھوں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل [۲۱مئی ۱۹۹۱ء]کے بعد جون ۱۹۹۱ء میں نرسمہا راؤ نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ اسی مہینے کشمیری مجاہدین نے سری نگر سے آٹھ سیاحوں کو اغوا کرلیا، جن میں سے سات اسرائیلی تھے اور انھیں مبینہ طور پر مجاہدین کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جہاں ایک طرف بھارتی و اسرائیلی سفارت کار ان کی رہائی اور وادی سے بقیہ اسرائیلیوں کے انخلا کی کوششوں میں مصروف تھے، ہندستانی میڈیا میں اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا راگ الاپا جا رہا تھا۔ بھارتی سیاست میں اسرائیل پسند جماعت بی جے پی کا رسوخ بھی بڑھ رہا تھا اور فلسطین کی جانب سے بھی ان دو ریاستوں کے بڑھتے تعلقات کی زیادہ مخالفت نہیں کی جا رہی تھی، چنانچہ بھارتی حکومت نے اسرائیل سے باقاعدہ تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ۴
چنانچہ اسی زمانے میں جب ہندستان کشمیریوں کا محاصرہ سخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا،اسرائیل پہلی انتفاضہ بغاوت کو کچلنے میں مصروف تھا۔ اسرائیلی حکومت کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اسرائیلی ریاست اپنا آزاد معاشی نظام ترتیب دینے کے لیے مصروفِ عمل تھی۔ اس منصوبے کا ایک حصہ اسرائیلی معیشت دان شیر ہیور (Shir Hever)کے الفاظ میں ’اسرائیلی دفاع کی نجکاری‘ بھی تھا۔ ۵ چنانچہ ان بڑھتے دفاعی و معاشی تقاضوں کے باعث ہندستان اور اسرائیل کےیہ تعلقات دفاعی پوزیشن سے نکل کر جارحانہ پوزیشن میں آ گئے اور دونوں ممالک ہرطرح کے حقیقی یا ’خیالی خطرے‘ سے قبل از وقت نپٹنے کے لیے متحد ہو گئے۔
۹۰ کے عشرے سے اسرائیلی حکومت اور دفاعی کمپنیوں کی جانب سے اس پہلو پر بہت زور دیا جانے لگا جسے ’اسرائیلی تجربہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی معلم نیوو گورڈن کے مطابق ’اسرائیلی تجربہ‘ کا یہ نعرہ بیرون ملک اسرائیلی اسلحہ اور دیگر دفاعی خدمات فروخت کرنے کے لیے گھڑا گیا تھا۔ ۶ نائن الیون کے بعد اسرائیل کے دفاعی شعبے کی مانگ میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ ہندستان جیسی ریاستیں امریکی سربراہی میں شروع ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں چیمپئن بن کے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
کشمیری اسکالر محمد جنید لکھتے ہیں: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسا خام اور یک رُخا نعرہ ہندستان جیسی ریاستوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، جنھوں نے اسے استعمال کر کے عشروں سے جاری کشمیریوں کی جائز جدو جہد آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی۔ ۷ جنید کے مطابق اندرون اور بیرونِ ہند مبصرین نے بڑی آسانی سے کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک سے وابستہ جدوجہد کو بھی عالمی جہادی ایجنڈے کا حصہ قرار دے کر ایک طرف کر دیا۔ اسی ’دہشت گردی‘ کے نعرے کا فائدہ اٹھا کر ہندستان نے بھی کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو فلسطین اور چیچنیا میں ہونے والی جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ کر اپنے لیے گنجایش پیدا کر لی۔ اس وقت کے ہندستانی مرکزی وزیر جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’۱۹۹۹ء میں کشمیریوں کی جانب سے ہندستانی طیارے کا اغوا دراصل نائن الیون کی تیاری کی ایک مشق تھی‘‘۔ ۸
اس بیانیے کو مزید تقویت تب ملی جب نائن الیون کے کچھ ہی مہینوں بعد پاکستان سے منسوب لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دہلی کی پارلیمنٹ پر حملے سے جوڑ دیا گیا۔ اس حملے کے بعد ہندستانی حکومت نے ایک اسرائیلی سیکیورٹی کمپنی ’نائس سسٹمز‘ (Nice Systems) کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا، جس نے بھارت اسرائیل تعلقات میں نئی جہتوں کا اضافہ کیا۔
پھر ہندستان کے تاج ہوٹل، ممبئی پر حملوں (نومبر ۲۰۰۸ء ) کے بعد ان رحجانات میں مزید اضافہ ہوا۔ کہا گیا کہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے ۱۰ افراد نے ممبئی شہر میں ۱۲ مختلف جگہوں پر حملہ کیا تھا۔ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں ۹ اسرائیلی شہری بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد آزاد عیسیٰ کے بقول، جو بھارت اسرائیل تعلقات پر ایک کتاب کے مصنف ہیں،اسرائیل ہمیشہ کے لیے ایک بھارتی سانحے کا حصہ بن گیا۔ ۹ ان کے مطابق اسرائیل کی دفاعی صنعت کے لیے اس واقعے نے ایک بڑا کاروباری امکان پیدا کردیا۔
ہندستانی میڈیا کی جانب سے مسئلے کے عسکری حل پر زور دیے جانے کے بعد ریاست مہاراشٹرا نے جولائی ۲۰۰۹ء میں ’اسرائیلی تجربے‘ سے سیکھنے کے لیے ایک وفد اسرائیل بھیجا۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں اسرائیل کے تربیت یافتہ کمانڈوز کے دستے تیار کر کے انھیں ممبئی میں تعینات کیا گیا۔پولیس کمشنر دھنوش کودی سیوانندن کا کہنا تھا: ’’بھارت کو دہشت گردی کے معاملے میں عسکری انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اسے اسرائیل کی بے رحم جبلت سے سبق سیکھنا چاہیے اور بیرونی دُنیا کی کسی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والی وحشیانہ بمباری کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیلی اپنے دفاع کے معاملے میں خاموش نہیں رہتے۔ وہ اپنے جہازوں میں جاتے ہیں، دشمن کا صفایا کرتے ہیں اور پھر آ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ذرا بھی جارحیت کا مظاہرہ کریں تو باہر سے دباؤ آنے لگتا ہے‘‘۔ ۱۰ اس طرح ان کے بقول: ’’ہندستان برسوں سے دہشت گرد حملوں کے سامنے چپکا بیٹھا ہوا ہے‘‘۔ ۱۱
ان حملوں کے بعد پورے ہندستان میں ’سینٹرل مانیٹرنگ سسٹم‘ (CMS)لاگو کیا گیا۔ یہ نظام برقی مواصلات کے تقریباً تمام ذرائع کی جاسوسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بھارت کو اسے نصب کرنے میں اسرائیلی کمپنیوں مثلاً ’ویرنٹ سسٹمز‘ (Verint Systems) کی مدد حاصل تھی۔ اس CMS نظام کا نفاذ ہندستان کی دفاعی پالیسی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، کیونکہ اس سے قبل صرف مجرموں کی نگرانی کی جاتی تھی، اب ہر قسم کی نجی مواصلات کو بھی ریکارڈ کیا جانے لگا، تا کہ خطروں کی پیش بینی کی جا سکے۔ نگرانی کا یہ نیا نظام کسی عدالتی وارنٹ کا بھی محتاج نہیں اور فون یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر شہری کی جاسوسی کر سکتا ہے۔ اس کے تحت شہری اپنی گفتگو یا رابطے کے بارے میں کہیں اپیل بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے نفاذ میں اسرائیلی مدد ایک طرف، اس سارے قضیے سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھارت اسرائیلی دفاعی حکمت عملیوں سے کس قدر متاثر ہے۔
اپنے داخلی دفاع کو لے کر بھارت کی ’سخت‘ حکمت عملی اور بھارتی ریاست و عوام کی ’اسرائیلی طرزِ عمل‘ سے والہانہ محبت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی حکومت سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ ہندستان کی جانب سے اسرائیلی ٹکنالوجی نکسل باڑیوں کے خلاف اڑیسہ، چتیش گڑھ اور آندھرا پردیش وغیرہ میں اور اسرائیلی ڈرون کا استعمال ،نئی دہلی میں ’یونائیٹڈ پروگریسو الائنس‘ (UPA) کی لبرل حکومت کے دوران ہی شروع ہو گیا تھا۔۲۰۰۴ءسے ۲۰۱۴ء تک کانگریس پارٹی اس اتحاد کی نمایندہ جماعت اور من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔
۲۰۱۴ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے مزید راہ ہموار ہوئی، اور ۲۰۱۷ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد مشترکہ بیان میں ’’بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ قرار دیا گیا‘‘۔ ۱۲ اس دورے میں وزیر اعظم نریندارا مودی اور نیتن یاہو نے زراعت، آب پاشی اور ٹکنالوجی کے میدان میںتعلقات کو مزید نکھارنے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
چنانچہ ان خطرناک حد تک اچھے تعلقات کے باعث اسرائیل، بھارت کے ’میک ان انڈیا‘ (Make in Inida) منصوبے میں سب سے بڑا حصہ دار بن چکا ہے۔ اس منصوبے کا اعلان نریندرامودی نے ستمبر ۲۰۱۴ء میں کیا تھا اور اس کے تحت غیرملکی کمپنیوں کو ہندستان میں پیداوار شروع کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس پر کسی کو کیا حیرت ہو سکتی ہے کہ زرعی ٹکنالوجی تو رہی ایک طرف، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس مال کی پیداوار ہندستان میں شروع ہوئی وہ اسرائیلی میزائل اور اسلحہ ہی تھا۔ ہندستان کے چند بڑے سرمایہ داروں مثلاً اڈانی گروپ کے مالک اور مودی کے دیرینہ خیر خواہ گوتم اڈانی کو اسرائیل کے ساتھ ان سودوں سے بڑا منافع ہوا۔اس منصوبے کا حصہ بننے والے دیگر ممالک میں روس اور امریکا اہم ہیں۔ روس اپنے براہموس میزائل ہندستان میں تیار کر رہا ہے، جب کہ امریکا ایک بڑی اسلحہ ساز کمپنی ’لاک ہیڈ مارٹن‘ (Lockheed Martin) کے ذریعے اس منصوبے میں شامل ہے۔ عسکری مصنوعات سے ہٹ کر اسرائیلی کمپنیوں نے دیگر اہم شعبوں مثلاً قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی بھارت کو اپنی معیشت میں بڑا حصہ دیا ہے۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں اڈانی گروپ نے حیفہ کی بندرگاہ ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کے عوض خرید لی تھی۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے نیتن یاہو کے ساتھ اس منصوبے پر دستخط کرتے ہوئے ’دو ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات‘ کی تعریف کی اور انھیں مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دیا۔
اس دوران ہندستان، اسرائیل کی عسکری ٹکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار بھی بن چکا ہے۔ مودی کے دورۂ اسرائیل ۲۰۱۷ء کے دوران اسرائیلی تاریخ کے سب سے بڑے ۲ بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ معاہدہ ۲۰۲۱ء میں دوبارہ خبروں کی زینت بنا، جب بھارتی اخبار The Wire نے انکشاف کیا کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ ویئر پیگاسس (Pegasus) کی مدد سے انڈین حزب اختلاف کے معروف سیاست دانوں بشمول راہول گاندھی کے فون ہیک کیے گئے تھے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ (جنوری ۲۰۲۲ء ) کے مطابق یہ سافٹ ویئر ’پیگاسس ‘۲۰۱۷ء کے سودے کا ایک اہم حصہ تھا۔ دوسری جانب مودی حکومت اس کی خریداری سے انکار کرتی ہے۔ تاہم، ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (OCCRP)کی حاصل کردہ اہم دستاویزات کے مطابق ’’بھارت نے اسرائیلی کمپنی NSOسے وہ آلات خریدے ہیں، جو اسی سافٹ ویئر کی تنصیب کے لیے دیگر ممالک میں استعمال ہوئے تھے‘‘۔ ۱۳
The Wire کی رپورٹ کہتی ہے کہ مودی کے حریفوں کے علاوہ مزید سیکڑوں لوگوں کی نگرانی بھی اس سافٹ ویئر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان دعوؤں کی تصدیق ’لیگل فورم فار کشمیر‘ (LFK) کی حالیہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے، جس میں ایسی شخصیات کی ایک فہرست شائع کی گئی ہے، جو اس سافٹ ویئر کی مدد سے جاسوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے شہ پا کر بی جے پی نے بھی بھارت میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کئی محاذ کھول دیے ہیں۔ مثلاً خاتون صحافی سواتی چترویدی نے بی جے پی (بلکہ سچی بات یہ ہے کہ RSS)کی پروردہ ایک ’ڈیجیٹل فوج‘ کی نشاندہی کی ہے۔ یہ فوج سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مشتمل ہے، جو اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف آن لائن مہم چلا کر انھیں ہراساں کرتے ہیں۔ ۱۴ ایسا ہی ایک منصوبہ اسرائیل میں بھی شروع کیا گیا تھا۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کی ایک مہم ’فلڈ دی انٹرنیٹ‘(Flood the Internet) کے تحت، انٹرنیٹ پر فلسطینی تحریک بی ڈی ایس (BDS) کے خلاف مواد بڑی مقدار میں شائع کیا جاتا تھا۔ اسی سے متاثر ہو کر اور اسرائیلیوں سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے بھارتی ’ڈیجیٹل فوج‘ بھی اکثر ایسے آن لائن ٹرینڈ چلاتی ہے، جن میں اسرائیل کو سراہا جاتا ہے اور فلسطینیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔
۲۰۲۰ء سے جاری رہنے والا میڈیا بلیک آؤٹ تو بظاہر ختم ہو چکا لیکن کشمیر کی وادی اب بھی کڑی نگرانی کی زد میں ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کو تبدیل اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد وہاں ایک طویل اور ظالمانہ کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے وادیٔ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کر کے یک طرفہ طور پر ہندستانی وفاق میں ضم کر دیا گیا تھا۔ کشمیری حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی رہنماؤں نے، جن میں اکثریت جلاوطن رہنماؤں کی ہے، بھارت پر الزام لگایا ہے کہ ’’ہندستان، کشمیر پر ’اسرائیل ماڈل‘ لاگو کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ نئی آئینی ترامیم کے ذریعے تمام ہندستانیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کا حق دے دیا گیا ہے‘‘۔ ۱۵ بھارتی اہلکار بھی اپنے بیانات کے ذریعے ان الزامات کو تقویت دے رہے ہیں۔ مثلاً نیویارک میں تعینات بھارتی کاؤنسل جنرل سندیپ چکرورتی ایک بیان میں کھل کر یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’’کشمیر میں بھی ’اسرائیل ماڈل‘ کی نقل کی جائے‘‘۔ ۱۶
آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کے خاتمے پر اسرائیلی ردعمل وہی تھا جو ایک قابض ریاست کا ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی سفیر رون مالکا نے بھارتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے نزدیک یہ معاملہ بھارت کی سرحدوں کے اندر کا ہے۔ چونکہ یہ ہندستان تک ہی محدود ہے، اس لیے ہم اسے ہندستان کا داخلی معاملہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ۱۷ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل اپنے ظالمانہ طرزِ عمل پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوری لبادہ اوڑھ لیتا ہے، اور ساتھ ہی سفیر صاحب نے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا اور بھارت کے ساتھ دوستی کا اعادہ کیا۔
اسرائیل کی جانب سے دور و نزدیک کے علاقوں میں فلسطین پسند عناصر کے خلاف کارروائیاں تو معمول ہیں، لیکن بھارت بھی کشمیر میں اسرائیل مخالف اور فلسطین پسند حلقوں کو دبانے کی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ اگرچہ پی ایل او (PLO) کی قیادت خصوصاً یاسر عرفات ماضی میں بھارت کو اپنا ہمدرد قرار دیتے آئے ہیں، لیکن کشمیری شروع سے ہی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو کشمیر پر بھارتی قبضے کے مماثل سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے درمیان باہمی یکجہتی کا ایک گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ فلسطینی بھی کشمیری جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔
ہندستان اور اس کے دفاعی ادارے کشمیر یوں کے فلسطین پسند جذبات کو بھارت مخالف جذبات سمجھتے ہوئے انھیں بزور طاقت دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۱۴ء میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں بھارتی پولیس نے ایک نوجوان سہیل احمد کو شہید کردیا تھا۔ مئی ۲۰۲۱ء میں فلسطینیوں نے اسرائیلی نوآبادیات کے خلاف احتجاج شروع کیا، تو بھارتی سرکار نے کشمیر میں ۲۱ کارکنوں کو اس لیے گرفتارکر لیا کہ وہ اس احتجاج کی حمایت کر رہے تھے۔ کشمیریوں کو مزید خبردار کرنے کے لیے کشمیری پولیس نے سوشل میڈیا پر بیان بھی جاری کیا کہ ’’فلسطین کی کشیدہ صورتِ حال کو کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے‘‘۔ ۱۸
اپنے مشترکہ مصائب کو دیکھتے ہوئے کشمیری اور فلسطینی حریت پسندوں نے اپنی جدوجہد میں مماثلت تلاش کرنا شروع کر دی ہے۔ وہ اب پہچاننے لگے ہیں کہ ان کے خلاف استعمال ہونے والی ٹکنالوجی قابض ریاستوں کے تزویراتی تعلقات سے منسلک ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۱ء میں ’فلسطین ایکشن‘ (Palestine Action) نامی تنظیم نے ’ایلبیٹ سسٹمز‘ (Elbit Systems) نامی ایک اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی کے خلاف برطانیہ میں مہم چلائی تھی کیونکہ اس کمپنی کے کارخانے برطانیہ میں ہیں۔ اپنی ویب سائٹ پر فلسطین ایکشن کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کے خلاف احتجاج کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ٹکنالوجی کشمیریوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔
کشمیری اور فلسطینی عوام کا اتحاد ہمیں ایک اور موقعے پر بھی نظر آیا جب ۲۰۲۳ء میں بھارت نے ’جی۲۰ ‘کے صدر کے طور پر ’جی ۲۰ ‘اور ’وائے ۲۰ ‘کے اجلاس کشمیر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی آٹھ سول سوسائٹی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ان اجلاسوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، جن میںنیو یارک سے تعلق رکھنے والی فلسطینی تنظیم Within our Lifetime بھی شامل تھی۔
اسرائیلی موساد کے ہاتھوں کریم کی تفتیش کی طرح کشمیریوں اور فلسطینیوں کی اندرون و بیرون ملک مشترکہ جدوجہد بھی بھارت۔اسرائیل رشتے کو واضح کرتی ہے۔ ان دو ریاستوں کے نظریات اور مفادات مشترک ہیں اور یہی چیز ان کو قریب لے آئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسلحے، سرمائے اور بیانیے کا اشتراک ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں ملکوں میں آمریت پسندی اور ظلم کو مزید تقویت پہنچا رہا ہے۔
حواشی
۱- رپورٹ: India’s War Crimes in Kashmir: Violence, Dissent & the War on Terror ، اسٹوک وائٹ انوسٹی گیشن، ۲۰۲۲ء، ص۲۸
۲- پی آر کمارا سوامی،India's Recognition of Israel, September 1950، مشمولہ Middle Eastern Studies، شمارہ ۳۱، ۱۹۹۵ء
۳- آزاد عیسیٰ، Hostile Homelands:The New Alliance Between India and Israel پلوٹو پریس، لندن، ۲۰۲۳ء
۴- ایضاً، ص ۳۴
۵- شیرہیور، The Privatisation of Israeli Security ،پلوٹو پریس، لندن، ۲۰۱۸ء
۶- نیوو گورڈن،The Pditical Economy of Israel's Homeland Security/Surveillance Industry ، ۲۰۰۹ء، ص۳
۷- محمد جنید، From a Distance Shore to War at Home: 9/11 and Kashmir،مشمولہ: South Asian Review، شمارہ ۴۲/۴، ۲۰۲۱ء، ص۴۱۷
۸- ایضاً، ص۴۱۹
۹- آزاد عیسیٰ، ایضاً، ص ۴۷
۱۰- مضمون: ، India Lacks Killer Instinct،مشمولہ:The Times of India، ۲۳جولائی ۲۰۰۹ء
۱۱- ایضاً
۱۲- اندرانی پاگچی، India, Israel Elevate Their Ties to Strategic Partnership، مشمولہ: The Times of India ، ۱۶جولائی ۲۰۱۷ء
۱۳- شاراڈویس اور جورے فان برگن، India Spy Agency Bought Hardware،مشمولہ: Organized Crime and Corruption Project، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۲۲ء
۱۴- ایس چتورویدی، I am a Troll: Inside the Secret World of The BJP's Digital Army،جگرناٹ بکس، نئی دہلی، ۲۰۱۶ء
۱۵- رپورتاژ، India Replicating Israeli Model in Kashmir ،مشمولہ: The Express Tribune، یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء
۱۶- رپورٹ، Anger Over India's Diplomat Calling for Israel Model in Kashmir، الجزیرہ، ۲۸نومبر ۲۰۱۹ء
۱۷- محمد صالح ظافر، Israel Announces Support to India on IHK ، اخبار The News، ۷ستمبر۲۰۱۹ء
۱۸- Religions Preacher Arrested after Parying for Palestine،اخبار، Outlook India، ۱۵مئی ۲۰۲۱ء
’جی۲۰سربراہی اجلاس‘ جو۹-۱۰ ستمبر ۲۰۲۳ء کو نئی دہلی میں ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے خوش نما نعرے کے تحت منعقد ہوا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے رہنمائوں نے دیگر مسائل کے علاوہ 'بین الاقوامی امن کی حفاظت، اور 'پائیدار ترقی اور نمو، پر تبادلۂ خیال کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی امن، ترقی اور نمو اور مسئلہ کشمیر کے حل کے درمیان بھی کوئی تعلق ہے؟
یاد رہے اس گروپ کے چند ارکان ممالک پہلے ہی مختلف اوقات میں اس موضوع پر واضح موقف اختیار کرچکے ہیں:
ہم نے یہاں یاددہانی کے لیے یہ موقف پیش کیے ہیں، تاکہ جی ۲۰ ممالک کی قیادت اس حقیقت کو سمجھ سکے کہ کشمیر میں امن کے لیے ابھی موقع موجود ہے۔ ہندستان، کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کا وعدہ پورا کرکے دنیا پر ثابت کرسکتا ہے کہ وہ واقعی ایک جمہوری ملک کہلانے کا حق دار ہے، نہ کہ مسلسل جارح اور عسکری جابر جیساکہ وہ بن گیا ہے۔ پی چدمبرم، جو کہ ہندستان کے تجربہ کار سفارت کار ہیں، انھوں نے ۳۱ جولائی ۲۰۱۶ء کو کہا تھا:’’اگر ہندستان چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ہندستان سے پیار کریں، تو اس کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ ہے‘‘۔
دُنیا کے امن اور انصاف پسند چاہتے ہیں کہ جی۲۰ ممالک اس بات کو سمجھیں کہ تجارت اور تجارتی معاہدے اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن یہ تجارت اعلیٰ اخلاقی اور عالمی اصولوں کی قیمت پر نہیں، جن کا عالمی طاقتوں نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق ہی مہذب کہلانے کی روح ہیں۔ کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق سے انکار، خاص طور پر حقِ خود ارادیت سے محرومی نے جوہری ہتھیاروں اور میزائل کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو جنم دیا ہے۔ کشمیر ۷۶ برس سے زیادہ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں رستا ہوا زخم ہے۔ اسی لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چاردیگر بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ مل کر ۲۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جی ۲۰ ممالک کو خط لکھا تھا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور جیلوں میں بند انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور کریں۔ ہندستانی وزیر اعظم مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پیسے کے زور پر جموں و کشمیر کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے جبر، سڑکوں پر تشدد، عصمت دری، قتل اور گمشدگیوں کے مسلسل صدمے کے مستقل اور غیر مستحکم ماحول کو دُور نہیں کیا جاسکتا، جو کشمیر میں ہندستان کی تاریخ کی پہچان چلا آرہا ہے۔
محض نعروں، دعوئوں، اقتصادی پیکج اور جی ۲۰ ٹورازم ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ کشمیر ایک بین الاقوامی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے درج ذیل فوری اقدامات ضروری ہیں: lکشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے وحشیانہ تشدد کو جلداز جلد ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مداخلت l جنگ بندی لائن کے دونوں طرف ریاست جموں و کشمیر کو غیرفوجی علاقہ قرار دیا جائے lمحمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، آسیہ اندرابی ، خرم پرویز اور دیگرتمام سیاسی قیدیوں کی رہائیl ہندستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی قیادت سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز ہو، تاکہ جمہوری اور پُرامن حل کے لیے فضا ہموار کی جاسکے۔
یاد رہے، ۱۹۳۸ء میں، برطانوی وزیر اعظم، نیویل چیمبرلین نے چیکوسلواکیہ کے لیے نازی خطرے کا مذاق اُڑایا تھا: ’’یہ ایک دُور دراز ملک کے بارے تنازع ہے‘‘، مگر اس کی غیرذمہ دارانہ غفلت نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا۔ جی ۲۰ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اسی طرح کی تباہی سے بچنے کے لیے کشمیر کو نظر انداز کرنا بند کرنا چاہیے۔
اس دن قاہرہ کے علاقے رابعہ العدویہ چوک،قاہرہ میں ٹوٹنے والی قیامت کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ عینی شاہدین، تصاویر، ویڈیوز، یہاں تک کہ ایک مکمل دستاویزی فلم بھی (Memories of a Massacre،ایک قتل عام کی یادیں)، جو اگست۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود وہاں موجود متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرہ قبل ہونے والے اس قتل عام میں ملوث کسی بھی ایک کردار کو آج تک قرار واقعی سزا نہیں ملی۔
۱۴ ؍اگست ۲۰۱۳ء کو رابعہ العدویہ چوک میں تقریباً ۸۵ ہزار افراد،اپنے وطن عزیز میں فوجی مداخلت سے پیدا شدہ صورتِ حال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کہ مصری مسلح افواج نے جنرل سیسی کی قیادت میں انھیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ مظاہرین یہاں اس لیے جمع ہوئے تھے کہ گذشتہ مہینے جولائی (۲۰۱۳ء) میں مصری فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ محمد مرسی اخوان المسلمون میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس کارروائی کے بعد ان کے حامی مصر کے مختلف علاقوں میں جمع ہورہے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مصری مسلح افواج نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیتے ہی ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس دن ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ کے درمیان پُرامن اور نہتے شہریوں کو بلا اشتعال موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مصری فوجی حکومت، انسانی حقوق کے اداروں کی مذکورہ بالا رپورٹوں کو[کمال ڈھٹائی سے] ’جانب دارانہ‘ قرار دیتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رپورٹوں کی تردید کے لیے جنرل سیسی کی حکومت نے کسی درجے میں غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ اس ضمن میں کسی سوال کا جواب دیا ہے۔ تاہم، عالمی دبائو بڑھنے پر مصری حکومت نے اس قتل عام کے متعلق اندرونی طور پر تحقیقات کا اعلان کیا تھا، اور ۲۰۱۳ء کے اواخر میں حقائق کی نشاندہی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا،جب کہ ایک دوسری تفتیش انسانی حقوق کی مصری کونسل کے تحت کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں تحقیقات، صدرمرسی کی جبری برطرفی کے خلاف مظاہرین ہی کو قصوروار قرار دیتی ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’’اکثر یت مسلح ہتھیاروں سے لیس تھی‘‘۔ دوسری طرف عینی شاہدین اس دعویٰ کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بہرحال دونوں تحقیقاتی رپورٹیں اس بات پر متفق ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بلاجواز اور بے حساب استعمال کیا، لیکن قصورواروں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کرتیں۔
۲۰۱۸ء میں اسی فوجی نظام کے تابع مصری حکومت نے ایک قانون کے ذریعے اعلیٰ فوجی افسروں کو عدالتی استثنا فراہم کر دیا تھا۔اس قانون کی رُو سے ’’۲۰۱۳ء میں آئین کی معطلی سے لے کر پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک فوجی افسران کے تمام اعمال عدالتی مواخذے سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں مصری فوجی حکومت نے اپنی ’دستوری سپریم کورٹ‘ سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔
ان ترامیم کی رُو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی بھی بین الاقوامی عدالت یا ادارہ مصری سرکار کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور سزا کا حق دار قرار دیتا ہے تو اس معاملے کو بھی کارروائی کے لیے مصری سپریم کورٹ کے پاس ہی بھیجا جائے گا، اور یہی مصری سپریم کورٹ حتمی فیصلہ کرے گی کہ بیرونی اداروں کا فیصلہ درست اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق کی وکیل مے السادانے کہتی ہیں: ’’یہ ترامیم ایک واضح پیغام ہے۔ اپنے شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انسانیت کے مجرم اپنی کارروائیاں اسی طرح قانونی استثنیٰ کے ساتھ جاری رکھیں گے، جب کہ بین الاقوامی برادری کو کھلا پیغام دیا جارہا ہے کہ مصر بین الاقوامی نظام کے تابع نہیں ہے‘‘۔
۲۰۱۴ء میں مصری وکلا اور صدر محمد مرسی کی حریت و انصاف پارٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ رابعہ میں ہونے والے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جائیں۔ لیکن اس عدالت نے ان کی درخواست کو اس اعتراض کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ’’ درخواست گزار مصری حکومت کے نمایندہ نہیں ہیں‘‘۔
۲۰۱۵ء میں حریت و انصاف پارٹی کے وکلا نے برطانوی پولیس سے درخواست کی تھی کہ جنرل محمود حجازی کو گرفتار کر لیا جائے جو ان دنوں ہتھیاروں کی ایک نمائش میں شرکت کے لیے برطانیہ آ رہے تھے کہ ان پر تشدد اور رابعہ آپریشن میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔ تاہم، پولیس نے اس بنیاد پر یہ درخواست رد کر دی تھی کہ ’’جنرل حجازی کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے‘‘۔
روپرٹ سکل بیک لندن میں ’مداوا‘ (Redress) کے نام سےقائم ایک ادارے کے سربراہ ہیں، جو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’’مصریوں کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات کی درخواست دیں یا قضائے عالمی (Universal Jurisdiction) کے تحت عالمی اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کریں‘‘۔
lکیا قضائے عالمی کا اصول معاون ہوسکتا ہـے ؟ :سکل بیک کا کہنا ہے: ’’اس معاملے کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو قضائے عالمی کا اصول بھی اس قدر معاون نظر نہیں آتا کیونکہ مصر کی جانب سے اپنے اعلیٰ حکام کو ملک بدر کرنے یا کسی اور ملک کے حوالے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جرمنی میںبھی ، جہاں اس قانون کا استعمال سب سے زیادہ کیاجاتا ہے، یہ مقدمہ چلنا مشکل ہے۔ ‘‘
برلن میں قائم ’یورپی ادارہ برائے انسانی و دستوری حقوق‘ کے ڈائریکٹر،اینڈریاس شلر کا کہنا ہے:’’سب سے پہلے تو آپ کو قانون میں مقررہ تعریف کے مطابق یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیاگیا ہے؟‘‘ حال ہی میں شام کے جنگی مجرموں کے خلاف جرمنی میں جو مقدمے چلائے گئے ہیں، ان کا بنیادی محرک یہی تنظیم تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’عدالت یا ادارے کی جانب سے اس واقعے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کے لیے بہت محنت درکار ہے‘‘۔
اس قانون کے تحت شامی مجرمان کے خلاف مقدمہ کی کئی وجوہ تھیں۔مثلاً گواہان، شواہد اور مجرمان کی جرمنی میں موجودگی اور جرمنی کا سیاسی عزم۔ اینڈریاس کا کہنا ہے: ’’یہ معاملہ شام کی صورتِ حال سے مختلف ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ جرمنی کے سفارتی تعلقات نہیں تھے،جب کہ مصری حکومت کو بین الاقوامی طور پر اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ مزیدبرآں مصری حکومت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کے متعلقہ چارٹر پر بھی دستخظ نہیں کیے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی ملک ان کی شنوائی کے لیے تیار نہیں ہے۔
سکل بیک کا کہنا ہے: ’’انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ کچھ مغربی ممالک سیاسی مصلحتوں کے باعث دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے مسائل کو لے کر واضح مؤقف اختیار نہیں کرتے ‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق امر مگدی بھی اسی موقف کے طرف دار ہیں: ’’خطے کی سیاسی صورتِ حال کے باعث مصر میں ہونے والی انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں نظر انداز ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یمن، لیبیا، شام سمیت سارا خطہ انھی مسائل سے دوچار تھا۔ مصری حکومت نے بین الاقوامی برادری کے مفادات کا بڑی مہارت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ موجودہ حکومت نقل مکانی، دفاع اور معاش جیسے معاملات میں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور بدلے میں یہ ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں مصری حکومت کے جرائم کو نظرانداز کر دیتے ہیں‘‘۔
تاہم، پچھلے ایک عشرے میں صورتِ حال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت اپنے آمرانہ طرز عمل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے باعث تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ سکل بیک کا کہنا ہے: ’’یہ ایک اچھا نکتہ ہے۔ یہ ساری کاروائی واقعے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ جب معاملہ گرم ہو تو لوگ ردعمل میں محتاط رہتے ہیں۔ ایسے واقعات میں عموماً شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں طویل عرصے سے جاری روانڈا، کمبوڈیا، سابقہ یوگوسلاویہ اور جنگ عظیم دوم کے مقدموں کی مثال بھی موجود ہے، اور ایک عام قتل کے مقدمے کو بھی کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان مقدمات میں بھی وقت صرف ہوسکتا ہے۔ تاہم، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔(انگریزی سے ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
یہ ایک چشم کشا مضمون ہے۔ چین کی سفارت کاری سے سعودی عرب اور ایران میں بحالی تعلقات کی جو خوش آیند کیفیت پیدا ہوئی ہے، امریکا اور اسرائیل اسے بے اثر بناکر شرق اوسط میں بے اطمینانی کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہے، جس کا مسلم دُنیا کی حکومتی، ریاستی، صحافتی اور دانش ور قوتوں کو بروقت نوٹس لینا چاہیے۔ امریکی سفارتی جارحیت کا راستہ روک کر، چین کی پہل قدمی سے شرق اوسط جس سمت بڑھ سکتا ہے، اس کی تائید کے لیے ہمہ پہلو کوششیں کرنی چاہئیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس پر ضروری مشاورت اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی پر لازم ہے ان موضوعات پر عوامی دبائو کو مؤثر بنائے۔(مدیر)
جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ امریکا کی بائیڈن حکومت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوا ہے، وہیں اس میں موجودہ امریکی حکومت کے لیے کئی مشکلات بھی پوشیدہ ہیں۔ ایران و سعودی عرب کی صلح نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی علاقائی اہداف خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔ مثلاً طویل عرصے سے ایران کو تنہا کرنے اور سعودی عرب واسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ اس معاہدے پر ثالثی کا کردار ادا کر کے چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔ اب اس معاہدے نے مقامی ریاستوں کے تعلقات کو یکسر تبدیل کر کے خطے کی سفارتی ہیئت پر اثر ڈالنا شروع کیا ہے، تو امریکا کے لیے اپنی بے چینی چھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بائیڈن حکومت اب خطے میں چینی اثر کو کم اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ۲۸ جولائی کو اپنی اگلی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے منعقدہ ایک دعوت سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’صلح کا امکان موجود ہے‘‘، البتہ انھوں نے اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، اس بارے میں ایک دن قبل نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں تھامس فرائیڈمین نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے بائیڈن کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے: ’’بائیڈن حکومت شرق اوسط میں ایک ’بڑی سودے بازی‘ پر کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودیہ کے تعلقات اسرائیل سے قائم کروائے جائیں گے اور بدلے میں دونوں ممالک کو امریکا سے ایک دفاعی معاہدہ حاصل ہو گا۔ سعودیہ، مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر لے گا۔ جس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ترک کر دے گا، وہاں آبادکاری کا عمل روک کر مسئلے کے دوریاستی حل پر راضی ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی انتظامیہ ’سعودی-اسرائیل معاہدے‘ کی توثیق کرے گی‘‘۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات میں ظاہر کیا ہے کہ امریکی خطے میں ایسے معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وایٹ ہائوس کے نمایندے نے یہ کہا کہ ۲۷ جولائی کو سعودی رہنماؤں کی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ صلح پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم، دونوں طرف سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اگرچہ ابھی کوئی ٹھوس پیش قدمی تو نہیں ہوئی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے پیش نظر معاہدے پر کئی قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وایٹ ہائوس کی جانب سے اس قسم کے معاہدوں کے لیے اب کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں؟ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو کیااس پر عمل ہوپائے گا؟
ہم پہلے موقع محل کی بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن بہت عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی استواری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت کئی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد ان کوششوں میں بھی تیزی آ چکی ہے۔ خبروں کے مطابق سعودیہ کی جانب سے بدلے میں کئی اہم مطالبات کیےگئے ہیں، مثلاً امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ، ایک غیر عسکری نیوکلیئر معاہدہ، میزائیل ڈیفنس سسٹم اور دیگر جدید آلات، اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیل سے کئی قسم کی رعایتیں۔ حالیہ ایران سعودی صلح نے یقیناً سعودیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کیا ہے، مگر دوسری جانب اس سودے بازی میں سعودی عرب کی پوزیشن مزید بہتر بھی ہو گئی ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امریکی کوششوں میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب امریکا خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سال کے اختتام تک امریکی صدارتی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس صورت میں امریکی توجہ اندرونی سیاست کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اس معاملے کا ذکر بھی انتخابات سے متعلق ایک تقریب میں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اندرونی سیاست میں بھی کچھ فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے حق میںاس معاہدے کے علاوہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں صدر بائیڈن کو اپنی فتح کے امکانات بہتر کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد درکار ہے۔ لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی یہ کوششیں ذرا تاخیر کا شکار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ اس قسم کے پیچیدہ اور پہلو دار معاہدے کے لیے طویل مذاکرات درکار ہوں گے۔ مزید برآں اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو بائیڈن کی صدارت خطرے سے دوچار ہے۔
اس معاہدے سے حاصل ہونے والے اہداف بڑے واضح ہیں: خطے میں امریکی بالادستی کی بحالی، چین کی سفارتی و معاشی کامیابیوں کا تدارک، امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں علاقائی سیاست کی تنظیم نو۔ اس سب کے ساتھ اگر مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کچھ چھوٹ مل جائے تو اس میں بھی امریکی فائدہ ہے۔ اس سے عرب اور دیگر مسلم ریاستوں میں واشنگٹن کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے، چاہے حتمی اور نقد فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچے!
ایسی سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ چار فریقین (امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطین) کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ واشنگٹن یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب فریقین امریکا اور معاہدے میں مذکور شرائط اور رعایتوں پر عمل درآمد کروانے کی اس کی صلاحیت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور یہ دیکھتے ہوئےکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے، جواب کاملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ کرنے سے قبل سعودی و اسرائیلی حکومتیں، امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گی۔ گذشتہ برسوں میں دونوں ریاستوں کے بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین امریکی انتظامیہ کے اس مجوزہ معاہدے کو ایک ’ناقابل عمل‘ منصوبہ اور دورازکار سمجھتے ہیں،جب کہ فرائیڈمین نے اسے ایک دور کی کوڑی قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بنیادی قسم کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ کیا امریکا اب بھی ان ریاستوں پر اس قدر رسوخ رکھتا ہے کہ انھیں سمجھوتوں پر مجبور کر سکے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔ اسرائیل میں قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہو گا، جب کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومتی وزرا نے فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کی ہے۔ اس سب کے علاوہ ایک مسئلہ امریکی کانگریس کی منظوری کا ہے جہاں ری پبلکن اراکین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوں گے، جب کہ ڈیموکریٹ اراکین کو کسی ایسے حل کے لیے مطمئن کرنا مشکل ہو گا جو دو ریاستی فارمولے سے متصادم ہو یا فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتا ہو۔
ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدے کے لیے امکانات کافی کم ہیں۔ تاہم، آخر کار سفارت کاری بھی سیاست کی طرح ناممکن کو ممکن کر دکھانے کا نام ہے!
(بشکریہ روزنامہ ڈان، ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم اور ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنانے کا جو قدم اُٹھایا تھا،اس کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ پیر اور جمعہ چھوڑ کر ہفتے کے بقیہ تین دنوں میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ ۲؍اگست ۲۰۲۳ء کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس ، جسٹس دھنن جے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ ’’اس ایشو پر کُل ۶۰گھنٹے کی سماعت ہوگی‘‘۔ اس لیے اگست کے آخر تک سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو ، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں جمع کرایا گیا تحریری مواد ، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵ سو ۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل ۱۶ ہزار ایک سو۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرۂ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonکی جلدیں بھی کورٹ کے سپرد کردی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کے نظائر اور شواہد پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جس کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرۂ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب: Article 370: Constitutional History of Jammu and Kashmir ہے۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب میں تحقیقی معاونت سے منسلک ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔
معروف وکیل کپل سبل نے ۲؍اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا: ’’ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ تاہم، اس کیس کی سماعت کا آغاز کرنے میں عدالت کو پانچ سال لگے۔ یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمایندہ حکومت نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد کپل سبل نے ترتیب زمانی کے ساتھ تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کے لیے ایک علیحدہ ستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ جب ایک بار آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ سے لے کر ۱۹۴۷ء کی ’دستاویزالحاق‘ کی شقوں کو بنیاد بنا کر کپل سبل نے تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انھوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق، بھارت کی دیگر ریاستوں کے لیے وفاق کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے برعکس ،بقیہ اختیارات جموں و کشمیر ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا:میرا نکتہ یہ ہے کہ، حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔
کپل سبل نے کہا: اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ ’’آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی ، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقۂ کار ہے؟‘‘ سبل نے استدلال پیش کیا کہ ’’چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے‘‘۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ’’ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل ۳۷۰، جو کہ ایک 'عبوری پروویژن ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے‘‘۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ جسٹس کھنہ کے مطابق: ’’جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳)، جو آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے؟‘‘
بحث کے دوسرے د ن کپل سبل نے عدالت کو بتایا:’’ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b )(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ’مشاورت‘ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) (ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔
اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل ۳۷۰ پر چند مشاہدات پیش کیے: آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل ۳۷۰(۱)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰(1) کی شق (b) (i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف 'یونین اور کنکرنٹ لسٹ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔
دوسرا، یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی مشاورت یا 'اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ ۳۷۰ کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے، تو پھر اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟‘‘
سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل ۳۷۰ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں ، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰'منجمدہو گیا۔اس طرح اس دفعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد، سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کےپاس ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔
جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندستانی پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارپر مداخلت نہیں کرسکتا، جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومائی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دوالگ الگ ادارے ہیں اور پارلیمنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا: جموں و کشمیر کے گورنر ، جو خود ہی وفاق کا نمایندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو 'یک طرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۲ء کی تقریر میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔ ہندستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے ۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہندستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ ، ہماری ریاست کی ہندستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی شیخ عبداللہ نے کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔
سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعے طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈرکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا، جب کہ ضابطے میںیہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر ایک 'مکمل اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک آئینی مندوب ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گذارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا:جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمایندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی بلکہ عدل و انصاف کی گواہی دے گی۔
سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو ۱۹۵۷ءمیں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندستانی آئین کا وفاقی ڈھانچا ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔
سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انھوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا ۱۹۳۹ء کا آئین تھا، یہاں تک کہ ہندستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(d) کے تحت ہندستان کو ۱۹۵۰، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔
سبرامنیم نے کہا کہ ہندستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔ اس طرح جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندستان کو ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۱) اور شق (۳) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعے منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔
سبرامنیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے، ان د س گھنٹے کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل ۳۷۰ نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا، مہاراجا ہری سنگھ کے ذر یعے دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انھوں نے کہا کہ مہاراجا نے جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انھوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی آئینی خودمختاری کو برقرار رکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل ۳۷۰(۱) کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ یہ شق ہندستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔ظفر شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(i) لفظ ’مشاورت‘ کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱)(ii) یا ۳۷۰(۱)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے۔
ظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یک طرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال 'مکمل طور پر یقینی ہے۔انھوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل (۱) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۳ سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: 'بھارتی آئین کے آرٹیکل(۱) کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ ظفرشاہ، بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندستان کے پاس ہے۔انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب ہندستانی آئین کا آرٹیکل (۱) کہتا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ’اتفاق‘ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندستان کے آئین میں ’اتفاق‘ کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۴۶-اےکی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔
ظفرشاہ، جنھوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر انڈیا کی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کی ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۰۶-اے کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی۲۰۰۵ء کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ 'مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔
شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ راجیو دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انھوں نے نشاندہی کی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل ۲۴۹ اور ۲۵۲ کا حوالہ دیا۔انھوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو 'بنیادی ڈھانچا کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔
دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن مہاراجا نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہ اور جزوی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے شروع ہوا۔ انھوں نے آرٹیکل ۳ کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس کی رُو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۵۴ء (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل ۳ میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟دھون نے ہندستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل ۳۴۳ کا بھی حوالہ دیا، جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حدتک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔ دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔انھوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۳اور ۴ کے تحت نہ تو صدر اور نہ پارلیمنٹ ہی ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے دھون سے سوال کیا کہ ’’کیا پارلیمنٹ آرٹیکل ۲۴۶(۲) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟‘‘اس پر دھون نے جواب دیا: پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل ۳ کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انھوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۴-اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔دھون نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پُرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانب داری کی ضمانت دی جا سکے۔ دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرۂ اختیار کا تعین کرے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ کی روح ہے۔
دھون کے بعد وشانت دوئے نے دلیل دی کہ ۲۰۱۹ء کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکا دہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل ۳۷۰ کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔وشانت دوئے نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ میں ہی موجود ہے۔
کشمیر کے معاملے پر وہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا انڈین قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دادرسی کا انتظام کر پائے گا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔