اخبار اُمت


انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘(A1) نے حال ہی میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے:’’جموں و کشمیر میں پچھلے دو برسوں یعنی اپریل ۲۰۲۰ءسے مارچ ۲۰۲۲ءتک پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے ا ب تک شہریوں کی ہلاکتوں میں ۲۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق: ’’مقامی قوانین کی منسوخی کے نتیجے میں سات اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا، جس سے خطے کے لوگوں کے لیے انصاف کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے‘‘۔ اس تنظیم کے مطابق: ’’خطے کے ہائی کورٹ میں اس وقت ایک ہزار۳سو۴۶ حبس بے جا مقدمات التواء میں ہیں۔ مجموعی طور پر حبس بے جا کی درخواستو ں میں پچھلے تین برسوں میں ۳۲ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے جن ۵۸۵ درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے، ان میں اب تک صرف ۱۴ درخواستیں ہی نمٹائی گئی ہیں‘‘۔

 رپورٹ نے ۶۰ ایسے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں، جن میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا تو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا یا پھر حراست میں لیا گیا۔ اس کے علاوہ متعدد نیوز میڈیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگا کر قومی تحقیقاتی ایجنسی اور محکمۂ انکم ٹیکس کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے بہت سے صحافی یا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں، وکلا، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اور تاجروں سمیت ۴۵۰ سے زائد افراد کو بغیر کسی عدالتی حکم کے ’نو فلائی لسٹ‘ میں رکھا گیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے: ’’۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے ۵؍ اگست۲۰۲۲ء کے درمیان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افراد کو بغیر کسی وجہ کے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا‘‘۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ نے جسے بیرون ملک پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا:’’ سفری پابندیاں جبر کے انداز کا ایک اور پہلو ہیں۔یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کو حکام نے ملک کے اندر اور باہر آزاد، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے‘‘۔

پچھلے تین برسوں میں بھارتی حکومت نے۱۶۴ مقامی قوانین منسوخ کیے اور ۲۴۳ مرکزی قوانین کی اس خطے تک توسیع کی، مگر بد نامِ زمانہ مقامی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ‘ جو فوجی اہل کاروں یا نیم فوجی تنظیم کے اہل کاروں کو کسی بھی شخص کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ گولی مارنے یا قتل کرنے کا اختیار دیتا ہے،مضبوطی سے نافذ ہے۔ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ (NCRB) کے اعداد و شمارکے مطابق جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی قانون (UAPA) کے استعمال میں ۱۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکام کسی بھی فرد کو بغیر چارچ شیٹ دیئے، ۱۸۰ دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

            ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ ’’بھارت میں اس کے لیے برسرِزمین کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے دفاتر پر یلغار کرکے اس تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ ۲۰۰۲ء، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ ۱۹۹۹ء اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ۲۰۱۰ء اور دیگر قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ستمبر۲۰۲۰ء میں، بھارتی حکام کی جانب سے تنظیم کے خلاف مسلسل مہم جوئی کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا،اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس کے تمام بنک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا:’’برسرِزمین کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے مختلف افراد سے انٹرویو کا سہارا لینا پڑا۔ انٹرویو دینے والوں نے تنظیم کو بتایا کہ ان کے نام ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایمنسٹی کے اہل کاروں سے بات کرنے سے ہی انکار کردیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۲؍ اگست ۲۰۲۲ء کو بھارتی حکومت کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا ، مگر رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رپورٹ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے جموں و کشمیر میں کم از کم ۲۷ صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار اور نظر بند کیا ہے۔پریس کونسل آف انڈیا (PCI) نے اپنی ’فیکٹس فائنڈنگ رپورٹ‘ میں بتایا ہے کہ ۲۰۱۶ء سے اب تک اس خطے میں کم از کم ۴۹صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومتی یا آر ایس ایس میڈیا نے گیارہ صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے انھیں حکومت سے جواب دہی کا مطالبہ کرنے پر ’ریاست مخالف بیانیہ‘ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔

            جولائی ۲۰۲۰ء میں، سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین افراد کو ’دہشت گرد‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہلاک کیا۔ تین افراد نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ انکوائری کے نتیجے میں طے پایا کہ مسلح افواج کے ارکان نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا، مگر ان فوجیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمہ چلاناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مبینہ مجرموں، خاص طور پر حراستی تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ملزمان کو قانونی چارہ جوئی اور جواب دہی سے بچانے کے لیے سکیورٹی اہل کاروں کے ٍمقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء تک، جموں و کشمیر کا اپنا ریاستی انسانی حقوق کمیشن تھا جس کو ختم کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کہا: ’’جس وقت اس ادارے کو تحلیل کیا گیا، اس وقت اس میں ۸ہزار سے زیادہ زیر التوا مقدمات تھے‘‘۔دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی تین برسوں سے سماعت نہیں کی۔ ایک وکیل نے تنظیم کو بتایا کہ ’’عدالتیں مناسب وجوہ بتائے بغیر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرتی ہیں۔اس خطے میں،  جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود تھا جس کی جگہ نیشنل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، نے لے لی۔ مگر مرکزی حق اطلاعات ایکٹ کو برسوں کے دوران مسلسل کمزور کیا گیا ہے ‘‘۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمایندگی اور شرکت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں۔ غیر قانونی نگرانی کے اقدامات، من مانی حراست، اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کو چھپانے کی حکومت کی کوششیںجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے‘‘۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’غیر ریاستی عناصر‘ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) جانے آنے کی اُوپر تلے اطلاعات، بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر مختلف ممالک کے ’ریاستی عناصر‘ متحرک ہوچکے ہیں، تو دوسری طرف ’غیر ریاستی عناصر‘ بھی میدان میں اتارے جا چکے ہیں۔

ماضی میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی اصطلاح صرف مسلح جنگجوؤں کے لیے استعمال ہوتی تھی جنھیں جنگی نوعیت کی ’پراکسیز‘ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ان کی جگہ ’غیر جنگی پراکسیز‘ کے لیے غیر مسلح ’غیر ریاستی عناصر‘ کو متحرک کیے جانے کا رجحان غالب آ رہا ہے۔ یقیناً یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ بعض ریاستوں کے لیے وہ کام کر دکھاتے ہیں جو ریاستیں خود کریں تو انھیں کئی طرح کے رد عمل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں کافی زیادہ تعداد میں انسانی وسائل اور افرادی قوت کے علاوہ غیر حکومتی تنظیموں (NGO's)کی دستیابی ممکن ہو گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سرگرم ہونے والے یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ کون ہیں؟ انھیں کون متحرک کرتا ہے؟ اس بارے میں ذکر ذرا بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے اس غیر معمولی پیش رفت کا تذکرہ ضروری ہے جو مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے پس منظر میں ۲۰ برس کے بعد سعودی عرب نے اَز سر نو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء] نے مشرق وسطیٰ میں ’امن‘ کی غرض سے ۲۰۰۲ء میں جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے تمام عرب دنیا اور مسلم دنیا سمیت فلسطینیوں نے بھی اسی وقت تسلیم کیا تھا۔ جس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس سے مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی مداخلت کا امکان کم کیا جاسکتا تھا۔

یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے ہم نوا دیگر یورپی ممالک ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ (مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر) ہیں، بلکہ خود اسرائیل بھی ایسا ایک عنصر ہے، جس نے اس علاقے ہی کو نہیں، بلکہ پوری دُنیا کے امن کو دائو پر لگارکھا ہے۔ اس منظرنامے میں اسرائیل ایک اجنبی کاشت شدہ پودا ہے۔ اسے یورپی ممالک کی تلچھٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی قبضے کو یقینی بنانے کے لیے یہودی تنظیمیں، جنھیں آج کی اصطلاحات میں ’دہشت گرد‘ سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا، ان سے لے کر ناجائز قابض اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے والے ابتدائی برسوں کے تقریباً سارے لوگ نہ صرف دہشت گرد یہودی تنظیموں کے عہدے دار تھے بلکہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے اجنبی بھی تھے۔

اسرائیل کی موجودہ آبادی میں ایک بڑی تعداد انھی یہودیوں پر مبنی ہے، جن کا آبائی علاقہ تو کوئی اور ہے، مگر قابض اسرائیلی اتھارٹی نے انھیں محض اس لیے لا کر فلسطین کی زمین میں بسا دیا کہ فلسطینی آبادی کا تناسب تبدیل کر سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ فلسطینیوں کی شناخت بھی بدل سکے۔ رہی بات امریکا اور یورپی ممالک کی، تو وہ بھی اسرائیلی یہودیوں کی طرح ہی ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ ہیں۔ اس منظر نامے میں سعودی مملکت کا پیش کردہ ۲۰۰۲ء کا عرب امن منصوبہ ایک بہتر راستہ تلاش کرنے کی طرف لے جاسکتا ہے۔

مذکورہ سعودی امن فارمولے پر ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ کے علاوہ دوسرے تقریباً سبھی متعلقہ حلقوں کا کسی نہ کسی درجے میں اتفاق ہے، حتیٰ کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے رکن ممالک کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ صرف امریکا، یورپ اور اسرائیل کا اس پر اتفاق نہیں تھا، اس لیے امریکا نے اپنا منصوبہ پیش کیا، جسے آج ’معاہدہ ابراہم‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ امریکا نے سعودی عرب کا پیش کردہ ایک قسم کا امن منصوبہ اختیار کرنے یا اس کو آگے بڑھانے کے بجائے اپنا فارمولا پیش کر دیا، تو فطری سی بات ہے، اسے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی عزائم اور اسرائیل نوازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکے گا۔

اس کی ایک وجہ اس سے پہلے امریکی نگرانی میں ہونے والے ’کیمپ ڈیوڈ‘ اور ’اوسلو معاہدے‘ بھی ہیں کہ دونوں میں پیش نظر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل یا مشرق وسطیٰ میں پائے دار امن ہرگز نہ تھا بلکہ اسرائیل کا بچاؤ اور تحفظ تھا اور اسرائیلی بالادستی قائم کرنا تھی۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی سرگرمیاں دیکھ کر ہر ذی شعور کا ماتھا ضرور ٹھنکتا ہے۔سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر اور ناراض کر کے خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جسے امریکا اور اسرائیل ’نارملائزیشن‘ کا نام دے رہے ہیں، اس سے کوئی بڑا تنازع اس خطے کے لیے جنم لے سکتا ہے۔

 خطے کے ممالک کی غالب آبادی بشمول فلسطینی، جنھوں نے ۷۵ برس مشکلات ومصائب  دیکھے ہیں، وہ بھی نارمل زندگی کی طرف آنے کا راستہ دیکھتے ہیں، جسے امریکی پشت پناہ نسل پرست صہیونیت حکومت باربار برباد کردیتی ہے۔ بلاشبہہ نارملائزیشن کی اگر کسی کے لیے ضرورت ہے تو وہ فلسطینی عوام ہیں، جنھیں ان کی سرزمین پر معمول کی زندگی کا حق ملنا چاہیے۔

صرف عربوں کو نہیں بلکہ پوری دُنیا کے دیگر ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطینی اگر مضطرب اور پریشان ہیں تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں اضطرابی ماحول کو جنم دیں گے۔ دُنیا بھر کے نقشے پر اسرائیل ایک ’ابنارمل‘ شناخت کا غاصب ملک ہے۔ اس کی آبادی کا بڑا حصہ غیرفطری طریقے سے جبری طور پر آباد کیا گیا ہے، جس سے نارملائزیشن کا مطالبہ تعجب انگیز ہے۔

اس دوران الجزائر نے بھی فلسطینی تنظیموں کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اکتوبر کے شروع میں ایک بار پھر فلسطینی باہمی اختلاف کے خاتمے کے لیے بیٹھیں گے۔

پھر دلچسپ یا حیران کن پیش رفت اور بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں پاکستان اور انڈونیشیا کا ذکر ہے اور اس اطلاع یا پیش رفت کا انکشاف اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے جن امور، واقعات یا اقدامات کا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے، وہ خبریں عام طور پر غیر ملکی میڈیا میں پہلے آتی ہیں۔ بعدازاں پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ان خبروں کی جگالی کرتا ہے۔

پاکستان کا دفتر خارجہ اور حکومت ہمیشہ اس کی گول مول سی روایتی تردید کرتے نظر آتے ہیں، ایک رٹی رٹائی طوطا کہانی کی طرح۔ جس پر اعتبار کریں تو نقصان، نہ کریں تو نقصان۔ اگرچہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی اسرائیلیوں سے ملاقاتوں کا فیض پا چکے ہیں۔

یروشلم پوسٹ کا انکشاف انڈونیشیا اور پاکستان کے شہریوں کے وفود کے حوالے سے ہے، جنھوں نے ستمبر ۲۰۲۲ء میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ انڈونیشیا اور پاکستان میں کئی شعبوں میں مماثلت ہے اور کئی باتیں مختلف ہیں۔ دونوں مسلم آبادی کے اعتبار سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر جکارتہ اور اسلام آباد، سعودی عرب کے علاوہ امریکا کے بھی بہت قریب ہیں۔ دونوں کے ہاں اپنے اپنے معاشی و دیگر مسائل رہتے ہیں۔ دونوں کے عوام سڑکوں پر قبلہ اوّل سے محبت کا اظہار فلک شگاف نعرے لگا کر کرتے ہیں۔

اس لیے ان دونوں کے ’وفود‘ کا ایک ہی وقت میں اسرائیل میں موجود ہونا اہم ہے۔ انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کس حد تک جا سکتا ہے؟  اس سوال سے زیادہ اہم پاکستان کا معاملہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان اور اس کے رہنے والوں کی سوچ کئی پہلوؤں سے اہم تر ہے۔ اور یہ ایک جوہری مسلم ملک بھی ہے۔ کیا یہ بھی فلسطینیوں کے لیے ’بروٹس‘ بننے جا رہا ہے؟

بار بار پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی عناصر کے اسرائیل جانے آنے کی اطلاعات اور نت نئی باتیں اس معاملے میں مسلسل بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا محمد اجمل قادری صاحب سے لے کر میڈیا سے تعلق رکھنے والے احمد قریشی اور اب مشرف دور کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والے نسیم اشرف کے ایک بڑے وفد کے ساتھ اسرائیل جانے کی خبر اہم ہے۔ افراد کے علاوہ ’بین المذاہب مکالمے‘ اور ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ جیسے فورم بھی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے غیر ریاستی عناصر کے طور پر کُود چکے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب کی کوششوں کا انتساب امریکا سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ سب براستہ امریکا ہی کیوں اسرائیل پہنچتے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسرائیل میں انھیں کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خود پاکستان کی حکومت، ریاست اور ادارے ان کے بارے میں کبھی تشویش میں مبتلا نظر نہیں آتے ہیں، اور نہ کسی شک و شبہے میں پڑتے ہیں۔ کبھی کسی سے بازپُرس کی گئی اور نہ ڈی بریفنگ کے عمل سے گزارا گیا۔

سچ پوچھیں تو بدلے ہوئے زمانے میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی صورت میں یہ لوگ سفارتی رابطہ کاری اور برف پگھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا میڈیا بھی ایک بڑے ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کے طور پر اپنا ہوش ربا کام کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین میڈیا ہاوسز پاکستانی عوام کے اعتقادات، نظریات، تصورات، رجحانات، معاملات اور مفادات سے الگ راستے پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی ان ’مین سٹریم‘ میڈیا ہاوسز کے خیالات اور معاملات کو اپنے سے دور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ابلاغی ادارے اور ان میں اہم قرار پانے والی کئی شخصیات سب غیر ریاستی عناصر کا رُوپ دھار چکے ہیں۔اس لیے یہ اسرائیل جائیں یا بھارت کے ساتھ ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کی چھاؤں میں کردار ادا کریں۔ مقصد اور منزل ان کی ایک ہی ہے کہ جو کام حکومت اور اس کے ادارے نہ کر سکیں، اس کام کے لیے یہ لوگ دستیاب ہیں۔

یورپ میں سب سے زیادہ ہندو برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۲ء۴ فی صد عیسائی، ۱۸ء۶ فی صد مسلمان، ۱۵ء۲ فی صد ہندو، ۴ء۴ فی صد سکھ، لیسٹر میں رہتے ہیں۔ باقی دیگر مذاہب یا لامذہبیت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، معاشی اور تعلیمی  لحاظ سے ہندو اس شہر میں کافی منظم اور متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیسٹر سٹی کونسل کی بلدیہ کے منتخب اراکین میں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے، اور اسی لحاظ سے کافی اثر و رسوخ بھی ہے۔ یورپ میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر بھی لیسٹر میں ہے۔ جیساکہ بتایا گیا ہے، یہاں پر مسلمان بھی کافی ہیں، جن کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات سے ہے۔ پھر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دیگر کمیونٹی کے باشندے بھی یہاں بستے ہیں، لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اس شہر میں اس سے قبل کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے تھے۔

جون ۲۰۲۲ء میں جب بھارت میں نبی اکرمؐ کی شان میں حکومتی شخصیت نوپور شرما نے گستاخانہ کلمات کہے تھے، تو فطری طور پر لیسٹر کے مسلمانوں میں بھی اضطراب پایا گیا۔ کچھ دردمند مسلمانوں نے سوچا کہ موقعے کی مناسبت سے انتہا پسند ہندوؤں کی منفی سرگرمیوں کو برطانوی معاشرے کے سامنے لایا جائے۔ عین انھی دنوں بھارت کے ایک بڑے عالمِ دین برطانیہ آئے ہوئے تھے۔ جو جگہ جگہ مساجد میں جا کر بھارتی مسلمانوں کو تلقین کر رہے تھے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جن سے ہندو مسلم تعلقات خراب ہوں، کیونکہ اس کے اثرات بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر پڑتےہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں نے انتہا پسند ہندوؤں کی ہرزہ سرائی کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔

ستمبر۲۰۲۲ء کے دوران لیسٹر میں ہندو مسلم کشیدگی عروج پر رہی ہے۔ اگرچہ اس کشیدگی کی جڑیں تین ماہ گہری پائی جاتی ہیں، مگر پھر یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اسے کرکٹ میچ سے منسلک کر رہے ہیں، لیکن ممتاز محقق اور یونی ورسٹی میں استاد ریاض خاں کے مطابق: ’’اس تنائو کا آغاز تقریباً تین چار ماہ قبل ہو گیا تھا، جب انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ نے ایک مسلمان لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، مگر مقامی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا‘‘۔

لیکن یہ کشیدگی اس وقت بہت بڑھ گی جب ۲۸؍ اگست کو دوبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والےمیچ  میں پاکستان کو بھارتی ٹیم کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس وقت بہت سے ہندوؤں نے جیت کی خوشی میں بھارتی جھنڈے لہراتے ہوئے ’پاکستان مُردہ باد‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اپنی ٹیم کی جیت پر خوشی میں نعرے بلند کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن مخالف ٹیم کے خلاف نعرے بازی کا مقصد اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان مخالف نعروں سے کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔

اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ میچ کے شائقین اپنی ٹیم کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن مخالفانہ نعروں سے گریز کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ پاکستان مخالف نعروں کے ردِ عمل میں پاکستانیوں کے ایک گروپ نے بھی ہندوؤں کے علاقے میں ایک مظاہرہ کیا اور پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بازی کی۔ چونکہ پولیس بڑی تعداد میں موجود تھی، اس لیے حالات کنٹرول میں رہے۔ مگر حالات اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے، جب ۱۷ ستمبر کو۳۰۰  ہندوانتہاپسندوں پر مشتمل ایک منظم جلوس مختلف راستوں کے چکر لگاتا ہوا، مسلمانوں کے علاقے گرین لین روڈ پر آگیا۔ ان مشتعل نوجوانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اور یہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی دکانوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے۔ ان مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بلائی گئی۔

اگلے روز ہندوؤں نے دوبارہ ایک مظاہرہ بلگریوو روڈ پر کیا، اس کی اطلاع پولیس کو نہیں تھی، مگر جب پولیس وہاں پہنچی تو مظاہرین نے ان پر بوتلیں پھینکیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کے ۲۵ آفیسر اور پولیس کا ایک کتا بھی زخمی ہوا۔ پولیس نے اس ہنگامہ آرائی کے جرم میں ۴۷؍ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تب انکشاف ہوا کہ ان میں نصف سے زیادہ تعداد دوسرے شہروں سے آئے ہوئے انتہا پسندوں کی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نسل پرست بھارتی طلبہ جو آر ایس ایس سے منسلک ہیں، وہی ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ یہ مختلف شہروں سے لیسٹر پہنچے تھے اور منظم ہو کر مسلمانوں کو ہراساں کررہے تھے۔ گرین لین روڈ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ’’لوگ خوف زدہ ہیں، کیونکہ جب انتہا پسند گزر رہے تھے تو وہ مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے، جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں نے گھروں کی روشنیاں بند کیں اور پردے وغیرہ گرا دئیے تھے‘‘۔

ممتاز امریکی صحافی سلیل ترپاٹھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’جن لوگوں نے اپنے چہرے ڈھانپ کر مسلمانوں کی دکانوں پر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ وہ بھارتی نسل پرست سیاست کو برطانیہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’برطانوی سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس نہیں۔ حکومت کو آر ایس ایس جیسے سخت گیر نظریات کو پروان چڑھنے سے روکنا چاہیے‘‘۔ بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کا کہنا ہے کہ ’’لیسٹر کے ہندوؤں کی اکثریت امن پسند تھی، لیکن کچھ عرصے سے مغربی انڈیا کے جزیرے دمن اور دیپ سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آنے والے ہندو جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، انھوں نے برطانیہ میں بھی انتہاپسندی شروع کر دی ہے‘‘۔

اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہندو انتہا پسند کافی متحرک ہوگئے ہیں۔ ۱۵؍ اگست بھارت کا یومِ آزادی ہے۔ کشمیری اور سکھ اسے ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ کشمیری اور سکھ اس روز بھارتی ہائی کمشنر اور کونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال ۱۵؍ اگست کو جب برمنگھم میں کشمیریوں اور سکھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا تو اسے منتشر کرنے کے لیے کچھ ہندو انتہا پسند بھی آگے تھے،جنھیں سکھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

بظاہر یہ ایک برطانوی شہر میں رُونما ہونے والا بدنما اور افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برہمنیت کے علَم بردار اور ’ہندوتوا‘ کے فسطائیت نواز طائفے نے  اب یورپ و مغرب کو اپنی نئی چراگاہ بنانے کے لیے قدم اُٹھایا ہے۔ اگر یہاں کے حکام نے اس کا بروقت تدارک نہیں کیا تو یہ چیز یہاں کی عام شہری زندگی کے لیے ایک مستقل کینسر بن جائے گی۔ اس فسطائیت کے جواب میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جوابی کارروائی کرنے اور سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے یہاں کے قانون کو حرکت میں آنے دیں، اور اپنی جانب سے کوئی منفی قدم نہ اُٹھائیں۔

جنگ اور فساد کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، تاہم ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تین برس کے عرصے میں جموں و کشمیر کے بچوں میں دماغی اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ ’فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں و کشمیر ، جس کے سربراہان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پرکاش شا اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشنا پلیے ہیں، انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ ، خطے میں نابالغوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر ریاست کے باہر دُور دراز جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس فورم کے اراکین جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سابق جج صاحبان کے علاوہ سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ، بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک، جنرل ایچ ایس پناگ، میجر جنرل اشوک مہتہ، تاریخ دان رام چندر گوہا اور کئی دیگر باوقارافراد شامل ہیں، کشمیر میں نابالغ افراد ، خاص طور پر بچوں کی ابتر ہوتی صورت حال پر چیخ اُٹھے ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’خطے میں بچوں کے لیے قائم کی گئی عدالت، جس کو ’جیوئنایل [Juvenile] جسٹس بورڈ،[ JJB: بچوں کو انصاف فراہم کرنے والا بورڈ] کا نام دیا گیا ہے، یا تو معطل ہے یا سیکورٹی اداروں کے سامنے بے بس ہے‘‘۔ ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جب ’’جے جے بی کی ایک ممبر صفیہ رحیم نے ایک زیر حراست بچے کی ضمانت کی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ، پولیس کو نوٹس جاری کیے، تو پولیس نے ایسے کسی بھی بچے کی موجودگی سے انکار کردیا۔ مگر پھر خاصے لیت و لعل کے بعد ۳۰ دن گزار کر اس کو جے جے بی کے سامنے پیش کیا۔ رہا کرنے کے بجائے ضمانت کی عرضی کے بعد اس پر باضابط ایف آئی آر درج کی گئی۔ ا ن مؤثر افراد کا کہنا ہے کہ: ’’خطے میں صرف ’جیوئنایل جسٹس ایکٹ‘ [۲۰۱۵ء]کی دھجیاں ہی نہیں اڑائی جارہی ہیں، بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات، جن کے مطابق کسی نابالغ کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا، ان کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں شوپیان کے ۱۴سالہ آفتاب (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا ذکر کیا گیا ہے، جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے پولیس اسٹیشن میں کئی روز رکھا گیا اور پھر سیکڑوں کلومیٹر دُور اتر پردیش کے وارانسی شہر کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ دوسرے مقدمے میں ایک اور نابالغ سلمان کو حراست میں لیا گیا، اگرچہ عدالت، یعنی جے جے بی نے اس کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے، مگر رہا ہوتے ہی اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

مؤثر افراد کے اس فورم کے مطابق کئی مقدمات میں پولیس نے ان نابالغ افراد کی عمریں غلط درج کی تھیں، اور ان کی عمریں ثابت کرنے کی ذمہ داری والدین اور ان بچوں پر ڈالی ہوئی تھی۔ عموماً اگر عدالت Ossification،یعنی ہڈیوں کی تشکیل سے عمر کا تعین کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، تو اس میں میـڈیکل سائنس کی رو سے دو سال کی کمی و بیشی کا مارجن ہوتا ہے۔ دیگر خطوں میں پولیس یا عدالتیں عمر میں کمی کو تسلیم کرتی ہیں، مگر کشمیر میں پولیس عمر میں اضافے کو تسلیم کرکے ان بچوں کو بالغ مان کر ان کی حراست میں توسیع کرتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان بچوں کی ایک بڑی تعداد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ دسویں جماعت کے عفان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’اس کو دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے خلاف ایک پُرامن جلوس میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ گو کہ ۱۵دن کے بعد اس کے والدین اس کو رہائی دلانے میں کامیاب تو ہوئے، مگر اس دوران وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہے اور اکثر بدن میں درد کی شکایت کرتا رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کس طرح ۱۸ماہ سے کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہوگئے؟ آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی احتجاج کا حصہ تھے کہ جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا؟‘‘ فورم کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ’’کم از کم گیارہ ایسے بچوں کے بارے میں ان کو معلومات ملی ہیں، جو پیلٹ گن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں۔ اگر صرف حراست میں لینا یا پیلٹ گن سے نشانہ بنانا کافی نہیں تھا، تو نئی صورت حا ل میں اب بچوں کو گاؤں یا کسی آبادی میں تلاشی کی مہم کے دوران آگے رکھ کر آپریشن کیا جاتا ہے، جس سے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو دفعہ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے سے قبل ہی خطے میں بچوں کے سلسلے میں تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔ وانی گام کے سولہ سالہ حازم کا ذکر کرتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان پاس ہی جھڑپ شروع ہوگئی۔ جب سبھی اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ جگہ چلے گئے، تو والدین کو معلوم ہوا کہ حازم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگلے روز کھیت میں اس کی لاش ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’بچوں میں عسکریت اختیار کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے لیے شہری زندگی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ۱۵سالہ کاشف ،جس کو ۸؍اپریل ۲۰۲۱ء کے ایک معرکہ میں ہلاک کیا گیا، اس نے ۲۰مارچ ۲۰۲۱ء کو عسکریت اختیار کی تھی۔ اسی طرح ۱۴سالہ گلزار کو جب ہلاک کیا گیا، وہ صرف چار روز قبل اپنا گھر چھوڑ کر مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ گو کہ حکومتی حلقوں نے ان مؤثر افراد کو بتایا:’’عسکریت کو پاکستان سے شہہ ملتی ہے، مگر اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اینکروں کے ذریعے چلائی جارہی شر انگیز مہم سے ان بچوں کے اذہان متاثر ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بے بسی کا شکار ہوکر عسکریت اختیار کرتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹروں نے یہ رپورٹ مرتب کرنے والے دانش وروں کو بتایا کہ ’’خطے میں۹۴ فی صد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں‘‘۔کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ ’’جنوبی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی سے بچوں میں ذہنی تناؤ، غصہ، چڑچڑاپن، ڈراؤنے خواب اور صدمے کی کیفیت جیسی شکایات عام ہوگئی ہیں‘‘۔ اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ اور نیورو سائنسز کے حوالے سے بتایا گیا: ’’خطے میں نشہ آور ادویات کے استعمال میں ۱۵۰۰گنا کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں ڈراپ آوٹ ریٹ ۱۷ فی صد تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے‘‘۔ رپورٹ کے آخر میں جے جے بی کو مزید اختیارات دینے اور ہائی کورٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً تفتیشی ٹیموں کو حراستی مراکز میں بھیج کر وہاں بچوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے کہ جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے ، تو کیلاش سیتیارتھی ، جن کو بعد میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ’حقوق اطفال‘ پر نوبیل انعام سے نوازا گیا،کے ایک لیکچر میں ، میںنے شرکت کی۔ لیکچر کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر ہونے والے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ، تو وہ کنی کترا گئے اور اس کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیا۔ انھی دنوں اخبارات میں تصاویر چھپی تھیں کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے  کے لیے لارہے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں ہاہاکار مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے ان بچوں کی رہائی کے، پولیس نے ان فوٹو گرافروں کی خوب خبر لی جنھوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔

یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقوق دلانے میں سرگرم ہیں، وہیں کشمیر میں ان مظالم کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل ہالینڈ کے ایک نوبیل انعام یافتہ عالم گیر نیٹ ورک نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں، ان میں کشمیر میںبچوں کے خلاف تشدد اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے ۔ ہالینڈ کے ادارے  (تاسیس: ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء - Medecins Sans Frontieres - MSF) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ ’’وادی میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہےاور اس کا شکار خصوصاً بچے ہورہے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ انصاف او ر توجہ کے منتظر ہیں، کشمیر کے بچے اور بچیاں! شایدکوئی ان معزز اور مؤثر افراد کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کان دھرے۔

طورخم کے راستے افغانستان جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی راہداری کے نظام کا عالمی معیار یہاں حددرجہ ناقص ہے۔ میرے سامنے ایک اہلکار نے ایک افغانی کو دھکا دیا تومیں نے اس سے پو چھاکہ ’’آپ نے اس معزز شخص کو کیوں دھکا دیا؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’اس کے پاس دو کلو چینی ہے جو لانا منع ہے‘‘۔ واپسی پر جب میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، تو چترال اسکائوٹس کے ایک جوان نے بڑی رعونت سے مجھے کہا: ’’بیگ کھولو‘‘۔ میں نے جواب میں کہا: ’’کیا آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے؟ میں ایک پاکستانی شہری ہوں‘‘۔ مطلب یہ کہ ہم کتنی بھی نیم دلانہ کوششیں کرلیں، پاک افغان تعلقات ان پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں نہیں سدھر سکتے۔

 اس سال ماہ مارچ میں ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ (IRS)، پشاور کے تحت پشاور یونی ورسٹی میں پاک افغان تعلقات پر ایک روزہ مذاکرہ منعقد کیا تھا۔اس مذاکرے میں کئی پاکستانی اہم شخصیات کے علاوہ افغانستان کے عمائدین بھی شریک تھے۔ اسی پروگرام کے دوران یہ تجویز آئی کہ اسی نوعیت کا ایک پروگرام افغانستان میں بھی منعقد کیا جائے۔گذشتہ سال۱۵ ؍اگست کو افغانستان کی قیادت میں جو تبدیلی عمل میں آئی تھی، اس پرپاکستان میں بھی عوامی پسندیدگی کا اظہار ہوا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں افغانستان کی نئی قیادت اہم کردار ادا کرے گی۔

قیامِ پاکستان اگست۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے آج تک، افغان حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی مخالفت ایک ایسا طرزِ عمل ہے، جس کو ایک عام پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہے۔اس دوران جولائی ۱۹۷۳ء میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور پھر کمیونسٹ عناصر غالب آگئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روس کا قبضہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، جن کی بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔پھر ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت آئی، مزید مہاجرین پاکستان آئے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکی قیادت میں حملے شروع ہوئے۔ ۲۰سال تک افغانستان پر ناٹو مسلط رہااور افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کی حکومت اور عوام افغان قوم کا ساتھ دیتے رہے۔اس کے باوجود پاکستان مخالفت کا پر نالہ اپنی جگہ قائم رہا اور گاہے گاہے اس کا اظہار ہو تا رہا، چاہے وہ مہاجر کیمپوں میں مقیم نوجوان ہوں یا برطانیہ میں پاک افغان کرکٹ میچ کے تماشائی، پاکستان کی مخالفت کے نعرے گونجتے رہے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہمارا قصور کیا ہے؟

 ۲۰۱۵ء میں کا بل کے ہو ٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کا مجھے موقع ملاتھا، جو کابل ہی کے ایک تھنک ٹینک ’دی سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز [تاسیس: جولائی۲۰۰۹ء- CSRS] نے منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور تاجکستان کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس وقت میری تقریر کے بعد افغان صحافیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر کر سوال کیا: ’’پاکستان افغانستان کے امن کو کیوں برباد کر رہا ہے؟‘‘

اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان کے قیام، اگست ۲۰۲۱ء کے بعد ایک اُمید پیدا ہو ئی کہ اب دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن پھر ایسے اُوپر تلے واقعات سامنے آنے لگے، جس سے تاثر ملا کہ ایں خیال محال است۔کہیں پرپاکستانی پرچم ہٹایا یا جلایا جا رہا ہے اور کہیں پر سرحدی باڑ کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک افغانــ ’’جنرل‘‘ کے دھمکی آمیز بیانات نشر ہورہے ہیں اور سرحد پار سے فائرنگ اور جوابی فائرنگ کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں ۔پاکستان کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی طرف سے پاکستانی افواج پر حملے اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔

اس صورتِ حال میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، پشاور نےفیصلہ کیا کہ ایک نمایندہ وفد کے ساتھ کابل جائیں اور وہاں کے اہل دانش اور اہل حل و عقد کے ساتھ بیٹھ کر ان موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔

 چنانچہ، ہم نے از خود ’سی ایس آر ایس‘ کابل کے صدر سے رابطہ کرکے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کا ایک پروگرام کرنا چاہیے۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم امارت اسلامی کے خارجہ امور کی وزارت سے اجازت کے بعد آپ کو مطلع کردیں گے۔ اس دوران پشاور میں موجود افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ سے ملاقات میں بھی یہ تجویز دُہرائی۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے اٖفغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ہمیں مطلع کیا کہ ’’اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جتنے افراد کو ویزے جاری کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہم فراہم کریں گے‘‘۔ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ۱۹ جون ۲۰۲۲ء بروز اتوار کابل انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں ایک علاقائی کانفرنس دونوں ادارے مل کرمنعقد کریں گے، جس میں پاکستان ،افغانستان اور ایران کے نمایندے شرکت کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ قطر میں افغان امریکا مذاکرات کی معروف شخصیت الحاج محمد عباس ستانکزئی اور دیگر اٖفغان زعماء افتتاحی پروگرام میں شریک ہوںگے۔

اس پروگرام میں افتتاحی اور اختتامی سیشن کے علاوہ ۵ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ باہمی تجارت،تعلیم ،صحت،کلچر اور میڈیا اور افغان مہاجرین کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کے لیے پانچ علیحدہ سیشن بیک وقت منعقد کرنا تجویز کیے گئے، جس میں پاکستانی وفد کی نمایندگی درکار تھی۔چنانچہ صوبائی سطح پر اہل دانش و ماہرین سے رابطے کر نا شروع کیے اور آہستہ آہستہ ایک متوازن نمایندگی کے ساتھ وفد، افغانستان کے سفر کے لیے تیار ہوگیا، جن کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزوں کے لیے قونصلیٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔

افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ صاحب نے شرکائے سفر کو ظہرانہ دیا، جن کی تعداد ۴۰ افراد پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب اس ظہرانے کی تصویریں میڈیا میں آئیں، تو اس سفر پر جانے کے خواہش مند احباب کی تعداد میں اضافہ ہو گیا،اور ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی کہ اتنے افراد کو کیسے لے کر جائیں اور وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست کیسے کریں؟ مختصر یہ کہ جب ۱۸جون کی صبح کو ہم پشاور سے طور خم کی طرف روانہ ہو ئے تو وفد کی تعداد ۶۰ تک پہنچ چکی تھی۔

 طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ مشہور تاریخی درہ خیبر کا آغاز طورخم سے ہو تا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶۴۰ کلومیٹر طویل سرحد، جو طویل ’ڈیورنڈلائن‘ کے نام سے مشہور ہے، پر ۱۲ مقامات ایسے ہیں جو باقاعدہ راہداری (کراسنگ) کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ان میں سے چھ پوائنٹ اس وقت استعمال ہو رہے ہیں،جب کہ چھ بند ہیں۔

وفد کے شرکا کا شوق اور جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم پشاور سے طورخم بارڈرپر پہنچے تو وہاں پر عجیب افراتفری کی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ اس راہداری کو روزانہ ہزاروں افغان باشندے دونوں طرف سے استعمال کرتے ہیں،جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک بین الاقوامی راہداری کے شایان شان انتظامات ناپید ہیں ۔ امیگریشن ہال جہاں کھڑکیوں میں بیٹھا ہوا عملہ آپ کے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کو چیک کرتا ہے، وہاں مسافروں کے لیے نشستوں، پینے کے پانی، ٹوائلٹ، ائیرکنڈیشنز وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں ہے۔ ہڑبونگ اور دھکم پیل کے افسوس ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ دو سال سے بین الاقوامی سطح کی امیگریشن عمارت بنانے کا ٹھیکہ پاکستان کے سرکاری شعبے ’نیشنل لاجسٹک سیل‘(NLC) کو دیا گیا ہے، لیکن بوجوہ نہیں بن پا رہا۔جس کی ذمہ داری ،پاکستانی حکام، افغان حکومت کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں ۔ افغان شہریوں سے پیسے لے کر پاکستان آنے کی اجازت دینے کے الزامات بھی عام ہیں۔ پاکستانی عملہ جو زیادہ تر بغیر وردی کے ہو تا ہے، اس کا رویہ افغان شہریوں کے ساتھ درشتگی اور بے عزّتی کا ہے۔

 پاکستانی امیگریشن سے نکل کر ایک طویل راہداری میں سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ افغان علاقے میں داخلے پر ان کے عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کا امیگریشن ہال خاصا بہتر تھا اور عملہ بھی قدرے نفیس رویہ اختیار کیے ہو ئے تھا ۔وہاں نشست گاہ، پانی اور وضو کا بندوبست تھا اور ساتھیوں نے وہاں نفلی نماز بھی ادا کی۔ پھر ایک طویل گزر گاہ سے گزر کر ہم افغانستان میں داخل ہو ئے۔اس پورے راستے میں پاکستانی اور افغانی بچوں کی ایک کثیر تعداد سے آپ کا واسطہ پڑے گا، جن میں بھیک مانگتے بچوں کے علاوہ ویل چئیر اور سامان ڈھونے والے مزدور بچے شامل ہیں ۔یہ مشاہدہ شاید ہی آپ کو کسی اور ملک میں نظر آئے۔

 افغانستان میں داخلے کے بعد جلال آباد اور پھر کا بل کا سفر بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ بہرحال، سیدھی اور بڑی شاہراہ پر گاڑیاں سفر پر روانہ ہوئیں۔ جگہ جگہ بازار اور دکانیں سامان سے بھری ہو ئی نظر آرہی تھیں، جو ایک بدحال نہیں بلکہ خوش حال افغانستان کی تصویر تھی۔جلال آباد کے قریب دروانٹہ ڈیم کے قریب جس ہوٹل میں ہم نے بہترین کھانا کھایا، اس کا معیار پاکستانی موٹروے پر قائم ہو ٹلوں سے کم نہیں تھا۔کابل تک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے چارڈیموں اور بجلی گھروں کا مشاہدہ کیا، جو مختلف ممالک نے تعمیر کیے ہیں ۔ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔جہاں افغانی اہلکار، امارت اسلامی کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ وہ معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوراً آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ۔غرض یہ کہ کابل تک ہمارا سفر خاصا خوش گوار گزرا اور طورخم پر ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہاتھوں جس تکلیف کا شکار ہو ئے تھے،افغان اہل کار بھائیوں نے اس کا ازالہ کردیا ۔

اتوار ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں سیمی نار منعقد ہوا۔جس کا موضوع ’’ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کا مستقبل‘‘ تھا۔ ’سی ایس آر ایس‘ کے ذمہ داران نے ہوٹل کے ’بامیان ہال‘ میں بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔۲۰۰ سے زائد مہمان وقت پر پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔چار افغان وزراء اور امارت اسلامی کے دیگر زعماء موجود تھے۔ ۳۰کے لگ بھگ افغان ٹی وی چینلز کی نمایندگی بھی تھی۔ یا درہے کہ ان دنوں کابل سے کو ئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے دوران پابندیا ں اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو چکے ہیں، البتہ ٹی وی نشریات جاری ہیں۔لیکن وہ بھی اشتہاری مواد کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکارہیں۔ چینلز کے نمایندہ رپورٹروں میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی ۔

سیمی نار کے افتتاحی سیشن میں افغان وزراء محمد عباس ستانکزئی،وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزیر مہاجرین امور قاری محمود شاہ نے خطاب کیا، جب کہ پاکستانی وفد کی نمایندگی راقم نے کی۔ ’سی ایس آر ایس‘ ،جمعیت الاصلاح اور دیگر افغان زعماء نے بھی خطاب کیا۔یہ ایک بھر پور سیشن تھا، جس میں تمام مقررین نے پڑوسی ممالک کے درمیان یگانگت،بھائی چارے، باہمی تعاون آمدورفت اور تجارت کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے پر زور دیا ۔افغان نائب وزیر خارجہ نے خاص طور پر ایک نکتہ بیان کیا کہ ’’پاکستان اور ایران کے عوام کو افغان قوم کا شکرگزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے جان و مال کی قربانی دے کر پہلے روسی استبداد اور پھر امریکی جارحیت کو اس خطے میں ناکام بنایا اور اس طرح پڑوسی ممالک کو عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا‘‘۔انھوں نے پڑوسی ممالک کا افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہو ئے اپیل کی کہ وہ ’’مزید کچھ عرصے کے لیے مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں ‘‘۔ انھوں نے افغان باشندوں کی ان ممالک میں آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے اور ویزوں کے اجرا میں اضافے پر زور دیا۔

وزیر صحت نے اپنے شعبہ میں پڑوسی ممالک سے تعاون پر زور دیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولتوں کی ترقی، میڈیکل تعلیم و تربیت خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ استعدادکار کے شعبوں میں پاکستان اور ایران افغانستان کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔وزیر مہاجرین نے دونوں پڑوسی ممالک کا شکریہ اد اکیا کہ انھوں نے مشکل وقت میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں بسایا۔ انھوں نے پاکستان میں خاص طور پر جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کیا، جن کی قیادت اور کارکنان نے اوّل روز سے افغان مہاجرین کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار کیا، جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے عناصر بھی تھے، جنھوں نے مہاجرین کو بھگوڑا  قرار دیتے ہو ئے نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے لیڈروں نے جن میں سراج الحق اور شبیر احمد خان شامل تھے، سینہ تان کر اورکھلے عام ہمارا ساتھ دیا‘‘۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک پُر امن اور مضبوط افغانستان کو پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا۔ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے صحت،تعلیم ،تجارت اور میڈیا کے شعبوں میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں کہ امارت اسلامی افغانستان میں سیاحت کو فروغ دے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ادھر کا رخ کریں گے۔دوسری تجویز یہ پیش کی کہ امارت اسلامی کسی مناسب مقام پر ایک بڑا انڈسٹریل زون قائم کرے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو وہاں کارخانے قائم کرنے میں سہولتیں فراہم کرے ۔کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دو شرائط لازمی ہیں:ایک مضبوط اور مستقل حکومت، جو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکے، اور دوسرا ٹیکس فری زون یا کم ازکم شرح محصولات ۔یہ دونوں شرائط امارت اسلامی افغانستان پوراکر سکتی ہے۔

افتتاحی پروگرام ہی میں’سی ایس آر ایس‘ کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر عبدالصبوح روئوفی نے بہت مفید تجاویز پیش کیں، خاص طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میںدونوں پڑوسی ممالک افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ماہرین کی تیاری ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔افغان طلبہ و طالبات اندرون و بیرون ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اسناد کی قبولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جمعیۃ الاصلاح کے سربراہ پروفیسر مزمل،ممتاز افغان اسکالر استاد محمدزمان مزمل اور عالم دین اور سابقہ رکن پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد نے بھی فکر انگیز گفتگو رکھی۔

 چائے کے وقفے کے بعد سیمی نار کے تمام شرکا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور دو گھنٹے تک ان گروپوں میں شریک ماہرین نے اپنے شعبے کے مسائل پر تفصیلی غور وغوض کیا۔ تعلیم، صحت، تجارت، میڈیا اور افغان مہاجرین کے عنوانات پر قائم گروپوں نے باہمی تعاون کے موضوعات پر مفید تبادلۂ خیال کیا۔ہر گروپ میں امارت اسلامی کے متعلقہ شعبوں کے حکام بھی شریک تھے اور اہم نکات نوٹ کر تے رہے۔ان تمام گروپس کی روداد کو ریکارڈ کر نے کے لیے ’سی ایس آرایس‘ کی جانب سے افراد مقررتھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو بھیج دی ہے۔

 میں جس گروپ میں شریک تھا وہ شعبۂ صحت سے متعلق تھا، جس کی صدارت خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق صاحب نے کی، جو ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، آفریدی میڈیکل کمپلیکس کے چیف شاہ جہان آفریدی ،افغانستان کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد یو سف ،ڈاکٹر خالد رشید، افغانستان کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے سینئر ارکان ،وزارتی حکام اور ایران کی وزارت صحت کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں افغانستان کی وزارت صحت کے سابقہ مشیر ڈاکٹر یوسف نے افغانستان کی صحت عامہ کے حوالے سے بہت جامع تفصیلات بیان کیں، جس کو بہت سراہا گیا۔

 تعلیمی گروپ میں پاکستان کی نمایندگی پشاور یونی ورسٹی اور صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں سے منسلک اہم عملی شخصیات نے کی، جن میں پروفیسر ارباب آفریدی، ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پرفیسر فضل الرحمٰن قریشی،پروفیسر بشیر ربانی،محمد اشراق وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح جن پاکستانی کاروباری حضرات نے اپنے گروپ میں گفتگو رکھی، ان میں شاہ فیصل آفریدی،حاجی محمد اسلم ،عجب خان وغیرہ شامل تھے۔ میڈیا کے گروپ میں پاکستان کے اہم ٹی وی چینلز کے نمایندے اور صحافی حضرات محمود جان بابر، فدا عدیل ،رسول داوڑ، سدھیر آفریدی،یوسف علی ،شمیم شاہد اور عالمگیر آفریدی موجود تھے۔ افغان مہاجرین کے مسائل پر بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یو نس ،کاشف اعظم، اور الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر ڈاکٹر سمیع اللہ جان نے نمایندگی کی۔

کانفرنس کے آخری سیشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شبیر احمد خان اور ممتاز عالم مولانا محمد اسماعیل نے خطاب کیا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت ہوٹل کے بامیان ہال میں ہمارا پروگرام ہورہا تھا، اسی وقت ہو ٹل کے قندھار ہال میں ایک بڑا تجارتی پروگرام حکومت کی زیرنگرانی جاری تھا، جس کے مہمان خصوصی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر تھے، جن کے ہمراہ دیگر افغان وزراء بھی شریک تھے۔ اس پروگرام کا موضوع تھاــ: ’’افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات‘‘۔ جس میں کابل میںموجود تمام بیرونی ممالک بشمول پاکستان، ہندستان، چین،  روس اور عرب و یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور عالمی کمپنیوں کے نمایندے سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ امارت اسلامی،افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بدلنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے ۔ (جاری)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں [مارچ ۲۰۱۹ء میں]کالعدم قرار دی گئی جماعت اسلامی سے منسوب ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر[۱۳جون ۲۰۲۲ء کو چار صفحات پر مشتمل مفصل حکم نامے کے ذریعے] پابندی کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ پریشان ہوگئے ہیں۔

ایک متاثرہ خاتون ٹیچر کہتی ہیں: ’’ہم پہلے ہی پریشان تھے۔ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بند پڑی ہیں، نہایت قلیل معاوضے پر ہم کام کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت کے اس فیصلے نے مزید پریشان کردیا ہے‘‘۔

  • فلاحِ عام ٹرسٹ پر پابندی: کشمیر میں نہایت قلیل فیس کے عوض معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے [جموں و کشمیر] جماعت اسلامی ۱۹۷۲ء میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کا قیام عمل میں لائی۔ ٹرسٹ کے موجودہ ڈائرکٹر شوکت احمد کے مطابق: ’’فی الوقت وادیٔ کشمیر کے دس اضلاع میں ٹرسٹ کے ۳۳۲ اسکول ہیں، جن میں ۸۰ہزار لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، اور ان اداروں میں غیر تدریسی عملے سمیت دس ہزار اساتذہ کام کر رہے ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ ۲۰۱۹ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے سے چند ماہ قبل ہی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں قائم اس کا صدر دفتر سیل کر کے اس کے امیر حمید فیاض کو جماعت کے کئی کارکنوں سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پیر [۱۳ جون]کے روز جس سرکاری حکم نامے میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں کو دو ہفتوں کے اندر اندر سیل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں اس پابندی کی فوری وجوہ کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، یہ کہا گیا ہے کہ ’’سال ۱۹۹۰ء میں ہی ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد تھی اور تب سے اب تک اس کے اسکولوں میں زیرتعلیم طالب علموں کی رجسٹریشن عدالتی احکامات پر ہوتی رہی ہے‘‘۔ حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے افسروں کو کہا گیا کہ ’’ٹرسٹ کے اسکولوں میں جو طالب علم زیر تعلیم ہیں اُن کا نزدیکی سرکاری سکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے‘‘۔ مگر ہزاروں اُستانیوں اور اساتذہ کے بارے میں حکومت نے کچھ بھی نہیں کہا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟

ٹرسٹ کے ناظم تعلیمات شوکت احمد کہتے ہیں:’’وہ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کریں گے۔  ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے زیر نگرانی گذشتہ تین عشروں کے دوران بیش تر اسکول، ٹرسٹ سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور حکومت کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے باقاعدہ تسلیم شدہ ہیں۔ حکم نامے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’کون سے اسکولوں کو بند کیا جانا ہے، اس کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ اور طالب علموں اور ان کے والدین میں تشویش ہے‘‘۔

شوکت احمد کا یہ بھی کہنا تھا: ’’ہمارا ٹرسٹ ایک ’غیر سرکاری اور غیر منافع بخش‘ ادارہ ہے، جو نہایت قلیل فیس کے عوض اُن لوگوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے، جو بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ نہیں کر پاتے۔ان اسکولوں کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے اسکولوں میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، جو سرکاری اور دوسرے نجی اسکولوں میں رائج ہے۔ پھر انڈیا بھر سے ماہرین ہمارے ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں‘‘۔

اس پابندی کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہوسکتے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی سیشن کے عین درمیان معطل ہونے سے ان کا تعلیمی مستقبل خراب ہوسکتا ہے۔

اگرچہ سرکاری حکم نامے میں اس پابندی کے واضح محرکات کا ذکر نہیں ہے لیکن بعض سرکاری اہل کار کہتے ہیں: ’’ ان اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں میں حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاتے ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ ٹرسٹ کے قیام کے چند ہی سال بعد ۱۹۷۷ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمدعبداللہ نے بھی ’فلاح عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ تب ٹرسٹ کے اسکول دوسرے ناموں سے چلتے رہے، یہاں تک کہ۱۹۸۹ء میں ایک بار پھر ٹرسٹ کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اُس وقت ٹرسٹ نے یہاں کی عدالت عالیہ سے رجوع کر کے ایک عبوری ریلیف کی درخواست کی، تو عدالت نے اسکولوں کے بچوں کو مقامی بورڈ کے ذریعے امتحانات میں شرکت کی اجازت دے دی۔ موجودہ حکم نامے پر اگر عمل ہوا تو یہ پچھلے ۳۳ برسوں میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر تیسری پابندی ہوگی۔

’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے وابستہ ایک کارکن نے بتایا: ’’حکومت یہ بات جانتی ہے کہ ہمارے یہاں سے فارغ بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں نام کما چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی بچہ ایسا نہیں جو کسی تخریبی کارروائی میں ملوث پایا گیا۔ دوسری طرف حکومت کی اپنی یونی ورسٹیوں میں سے کئی لڑکے ایسے تھے، جنھوں نے بندوق اُٹھائی، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن یونی ورسٹیوں کو بھی بند کیا جائے؟ ہماری تمام سرگرمیاں عام اور شفاف ہیں، مگر اس کے باوجود ہمیں تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔{ FR 675 }

  • پاکستانی ڈگریاں  منسوخ: دوسر ی طرف پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے جموں و کشمیر کے طلبہ کی اعلیٰ تعلیمی پاکستانی ڈگریوں کو کالعدم قرار دینےکا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔

ثمرین گل (فرضی نام) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ ہیں، جو کشمیر اپنے گھر عید کے لیے آئیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈیا کی حکومت ان کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دے گی۔ اسی طرح فواد حسن (فرضی نام) کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ وہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں میڈیکل کالج کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں، وہ کہتے ہیں:’’میرے والدین چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ انڈیا میں کوشش کی مگر داخلہ نہیں ملا۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کوشش کی تو پاکستان میں نہ صرف داخلہ ہوا بلکہ یہ دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا بھی تھا‘‘۔

ثمرین اور فواد حسن سمیت کشمیر کے کئی طالب علموں کو، جو پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا حال ہی میں تعلیم مکمل کر چکے ہیں، ان کے لیے انڈیا کے اعلیٰ تعلیم کے وفاقی ادارے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور آل انڈیا کمیشن برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کا وہ اعلان ذہنی تناؤ کا باعث بن چکا ہے، جس کے مطابق: ’’پاکستان سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر آیندہ سے انڈیا [اور انڈیا کے زیرتسلط کشمیر] میں تعلیم یا نوکری نہیں ملے گی‘‘۔

واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان عشروں سے جاری ’سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام‘ (SEP) کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نوجوان ہر سال پاکستانی تعلیمی اور تربیتی اداروں میں داخلہ لیتے تھے۔پاکستان میں فی الوقت زیرتعلیم کشمیریوں کی تعداد کے بارے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے آج تک کوئی مجموعی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

تاہم، پاکستان سے واپس لوٹنے والے طالب علموں کا کہنا ہے: ’’گذشتہ کئی برس سے ہرسال کم از کم ۱۰۰ نوجوان میڈیکل،انجینیرنگ یا کمپیوٹر سائنسز کے شعبوں میں ڈگریاں لے کر کشمیر لوٹتے تھے۔ پاکستان میں کشمیری طالب علموں کی تعداد میں خواتین کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔

۲۰۱۶ء میں مسلح عسکریت کے بعد حال ہی میں انڈین اداروں کا یہ متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے، اوراس فیصلے سے قبل ۲۰۲۰ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ایک متنازعہ مقدمہ سامنے آیا، جو جموں و کشمیر پولیس کے کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر (CIK) شعبے نے درج کیا۔ اس مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ ’’کشمیری علیحدگی پسند رہنما پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے کے عوض کشمیریوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں اور یہ سرمایہ بعد میں مسلح تشدد کے لیے استعمال ہوتا ہے‘‘۔

حُریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کے اس دعوے کو مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا ہے:’’یہ بات تو خود طالب علموں یا اُن کے والدین سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے‘‘۔

پاکستان سے ہی ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر واپس لوٹنے والے ایک نوجوان کے والد نے ہمیں بتایا کہ’’یہ نوجوان اپنے ہی پیسوں پر ڈگریاں لیتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت پر پاکستانی وسائل خرچ ہوتے تھے۔ واپسی پر وہ کشمیر میں ہی کشمیری انتظامیہ کا ایک انسانی وسیلہ بن جاتے تھے۔ لیکن اب اس فیصلے سے برین ڈرین [فرارِ ذہانت] ہوگا۔ ظاہر ہے جب ایک ڈگری یافتہ نوجوان یہاں ناکارہ قرار دیا جائے گا، تو وہ کیا کرے گا؟ وہ یا تو پاکستان واپس جائے گا یا پھر خلیجی ممالک یا برطانیہ اور امریکا جائے گا‘‘۔

یوں تو ہر روز بھارت کے طول و عرض پر پھیلے مسلمانوں کی جان، مال، عزّت، مستقبل اور ایمان سے کھیلنے کے متعدد واقعات برقی اور طباعتی ذرائع ابلاغ پر شائع ہوتے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں اس جارحیت نے ایک دوسرے طریقے سے پیش قدمی کی۔

بھارتی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے ٹی وی کے ایک لائیو شو میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے خلاف عالمِ عرب کے رد عمل نے عرب دنیا میں بھارتی سفارت کاری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے ۔ دس دن تک بھارت میں مسلمان، نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے، مگر ان کو عرب دنیا کے رد عمل کے بعد ہی پارٹی سے معطل کیا گیا ۔

پاکستان،ترکیہ،ملایشیا، ایران بشمول ’اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے احتجاجات کو بھارتی حکومتیں عموماً نظر انداز یا مسترد کرتی تھیں ، مگر عالم عرب کے موجودہ رد عمل کی وجہ سے آج کل آئے دن مشرق وسطیٰ میں موجود بھارت کے سفارت کار ان ملکوں کے متعلقہ افسران اُمورخارجہ، میڈیا کے نمایندوں ، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افرادکے دروازوں پر دستک دے کر یہ پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں کہ: ’’بی جے پی کے ترجمانوں کا رد عمل اضطراری تھا اور حکومت کا ان کے اس عمل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اوران کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا ہے‘‘۔ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بارے میں عالمی فورمز پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے ۲۰۱۹ء سے سزا کے بطور بھارتی وزارت خارجہ نے جمہوریہ ترکیہ کے ساتھ فارن آفس ڈائیلاگ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس قضیے کے بعد آناً فاناً وزارت خارجہ میں سیکرٹری ویسٹ سنجے ورما نے انقرہ کا دورہ کرکے اس ڈائیلاگ کا احیا کر دیا ۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں ترکی بھی عربوں کی طرح سرکاری طور پر احتجاج نہ درج کروادے ۔

یہ امرواقعہ سیکڑوں برسوں کی تاریخ میں ثبت ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا ان کے حکمرانوں نے عصبیتوں اور ذاتی فوائد سے بالاتر ہوکر ایک جسد واحد کی حیثیت سے عمل یا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کے خاصے دیرپا اور مثبت نتائج نکلے ہیں ۔ عالم عرب کے اس رد عمل نے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں ہیں ۔ اس سے قبل چاہے بابری مسجد کی مسماری کا مسئلہ ہو یا فرقہ وارانہ فسادات___ ان کے فوراً بعد ہی کسی جید عالم دین یا دینی تنظیم کے رہنما کو حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کا دورہ کرواکے وہاں کے حکمرانوں تک پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ بس چند شرپسندوں کی کارستانی تھی اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور حکومت اس سے احسن و خوبی کے ساتھ نپٹ رہی ہے‘‘ ۔ انھیں یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ’’ آپ کی مداخلت سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے‘‘۔ مگر اب کی بار چونکہ اس وقت معاملہ پیغمبر ؐ اسلام کا تھا، اور شاید اب جید عالم دین یا دینی تنظیم کے لیڈر وں کو اس حد تک کنارے لگایا جا چکا ہے کہ وہ اب مسلم ملکوں میں بھارتی حکومت کی غیر سرکاری سفارت کاری کرنے سے گریزاں ہیں ، اس لیے بھی وزیراعظم نریندر مودی کے سفارت کار عالم عرب میں برپا ہونے والے رد عمل کی روک تھام نہیں کر پا رہے ہیں ۔

اس دوران میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ ساز رام مادھو نے مسلمانوں کو تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ بھارت میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں ۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں: ’’مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں ، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں، اور مسلمان جہاد کے نظریئے سے خودکو الگ کریں ‘‘۔

پہلی اور تیسری شرط کےلیے مشاہیر اورعلما کو رام مادھو کو جواب دینا چاہیے۔ دوسری شرط یعنی مسلمانوں کے امت کے تصورسے ہمیشہ ہی نہ صرٖ ف ہندو قوم پرست بلکہ لبرل عناصر بھی نالاں رہے ہیں اور ایک عرصے سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمان اس تصور سےوابستگی کو رد کردیں۔

اگر ماضی پہ نظر دوڑائوں تو یاد آتا ہے کہ ایک بار کشمیر کے بارے میں نئی دہلی میں محکمہ دفاع کے ایک تھنک ٹینک نے سیمی نار کا انعقاد کیا تھا۔ اس موقع پر ایک حاضر سروس بریگیڈیر نے امت کے اس تصور ہی کو کشمیر کے ایشو کی جڑ قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ اس کی بیخ کنی کرنی ضروری ہے۔ بھارتی فوج کے ان اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مکہ میں فریضہ حج ادا کرنے سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے ۔ اس لیے بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے، یا مسلمانوں کو ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے درگاہ اجمیرشریف جانے کی ترغیب دلائی جائے‘‘۔

اسی طرح ایک بار کشمیر پر ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں بظاہر نہایت ہی لبرل کشمیری پنڈت دانش ور نے بھی مسلمانوں میں امت کے تصور کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بس یہی ایک چیز بین المذاہب مکالمہ میں رکاوٹ بنتی ہے ‘‘۔ ان دنوں فرانس میں سکھوں کی پگڑی پہننے کا معاملہ درپیش تھا،اور بھارتی حکومت نے اس کو حکومت فرانس کے ساتھ اٹھایا تھا اور چین کے کیلاش پہاڑوں میں ہندوؤں کی مانسرور یاترا کی تیاریا ں بھی ہو رہی تھیں ۔ میں نے ان سے پوچھا: ’’محترم پنڈت صاحب، آخر ان دونوں معاملات پر بھارتی حکومت کیوں اتنی زیادہ فعال ہے؟  اس تصور کو تو پھر ہندوازم سے بھی خارج کرنا ضروری ہے ‘‘۔

۱۸فروری ۲۰۰۷ء کو ’سمجھوتہ ٹرین دھماکوں‘ کے بعد جب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ویشیوا ہندو پریشد (VHP) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا ۔ وہ اس وقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے ۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا:’’آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر اسپیشلسٹ ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں ، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر سمجھتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پُرعزم ہیں، چاہے اس کے لیے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے؟‘‘ کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ’’بھارت میں تو تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان بستے ہیں، اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے ۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انھوں نے کہا:’’ہاں ہاں کیوں نہیں ،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں تعاون کیا ہے، مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویے سے ہے ۔ وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں ۔ وہ ہندوؤں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزت نہیں کرتے ۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی اور شکایت نہیں ہے ، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔

میں نے تو گڑیا سے پوچھا:’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ توان کا کہنا تھا: ’’ہندو کم و بیش ۳۲  کروڑدیو ی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں ‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پر سکھ گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہا:’’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں ، بدھوں اور جینیوں نے ہندوؤ ں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا ۔ اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا رہنما مانتے ہیں ، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے ۔ شاید ہی کوئی مسلمان داراشکوہ، عبدالرحیم خان خاناں، امیرخسرو یا اسی قبیل کے دانش وروں کو قابل تقلید سمجھتا ہے ۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں ، مگر بخاری اور علی جناح نہیں ہوسکتے‘‘۔

اسی طرح ایک روز بھارتی پارلیمان کے سینٹرل ہال میں ، میں نے صوبہ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ سے، جو ان دنوں ممبر پارلیمنٹ تھے پوچھا: ’’ آپ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے ۔ ان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے ۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے، کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ ; تو انھو ں نے کہا: ’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں ۔ مگر اب و ہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب ، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ ہندوؤ ں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزّت نہیں کرتے اور ہندو جذبات کا خیال نہیں رکھتے‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جارہی تھی، مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی ۔ یوگی جی اب ایوان میں جانے کےلیے کھڑے ہوگئے، مگر جاتے جاتے پروین توگڑیا کا جملہ دہرایا:’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں سکھوں ، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں‘‘۔

اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگپور چلا گیا، جس میں اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے ۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کی لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریئے کو بیان کرنا تھا ۔ جب اس وفد نے سدرشن جی سے پوچھا:’’کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا جے؟‘‘ اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا: ضرور آر ایس ایس مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ آپ لوگ اسلام ہی کو برحق اور سچا دین کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔

اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے ۔ آرایس ایس، علماو دانش وروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے ۔

اپنی سوانح حیات یادوں کی بارات میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ اپنی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ انھوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں۔ آپ جس قدر خوفناک برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ میں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ، جن کے خاندان باہرسے آکر یہاں آباد ہو گئے ہیں ، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا ، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں ، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔

سردار پٹیل کا یہ جملہ ہندو قوم پرستوں کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ ان کو امت کے تصور سے زیادہ اسلام کے آفاقی اور سماجی انصاف کے نظام سے خطرہ لاحق ہے ، جو حج کے وقت یا امت کے تصور سے ظاہر ہوجاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار برس اس خطے پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان جنوبی ایشیا میں اس سماجی انصاف کے نظام کو لاگو نہیں کرپائے، بلکہ خود ہی طبقوں اور ذاتوں میں بٹ گئے، ورنہ شاید اس خطے کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی !

۱۶جون کو پاکستان کے وزیرخارجہ مسٹر بلاول زرداری نے اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’’پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی سے دوچار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے سے ہمیں کون سا فائدہ ہورہا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بحال اور تجارت کریں‘‘۔

یہ وہی بلاول زرداری ہیں، جو حکومت میں آنے سے قبل جب حزبِ اختلاف میں تھے تو عمران خان حکومت کو طعنہ دیا اور الزام لگایا کرتے تھے کہ ’کشمیر کو مودی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے‘۔ ہمارے ہاں یہ عجیب مریضانہ رواج ہے کہ جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو گرماگرم تقریریں کی جاتی ہیں اور حکومت کی کسی بات کی کبھی تحسین نہیں کی جاتی، مگر جب خود حکومت میں آتے ہیں تو رویئے فوراً بدل جاتے ہیں اور موقف یک سر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کل تک جو پہلے وزیراعظم کو طعنے دے رہے تھے۔ اب وہ خود ایسے شوشے چھوڑ رہے ہیں کہ ’’ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے چاہییں‘‘۔

کوئی ذی شعور پاکستانی، بھارت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کی قیمت کیا ہے؟اگر تو اس کی قیمت یہ ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے تنازعے ہی کو نظرانداز کردیں اور بھارت مقبوضہ جموںو کشمیر میں جو کچھ کرتا چلا جائے، ہم اس پر احتجاج نہ کریں اور اس تمام تر ظلم و زیادتی پر سردمہری برتتے ہوئے اسے تسلیم کرتے رہیں، اور لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل سرحد مان کر اس تنازعے کو اسی طرح ختم کر دیں، جس طرح ہمارے ہاں کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود اس پر بحث بھی ہوسکتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح وزیرخارجہ بلاول نے بیان دیاہے، اس کی ٹائمنگ کو پہلے ذہن میں رکھیے۔ پھر اس بیان کی جڑ بنیاد (substance) کی بات کرتے ہیں۔

صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے آپ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (او آئی سی) کے جنرل سیکرٹری کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ’’او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور بھارت کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا جائے۔ بھارت میں کانپور سے رانچی تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، اس کے خلاف اقدامات اُٹھائے جائیں‘‘۔ مگر اس کے صرف تین روز کے بعد آپ یہ پیغام دے رہے ہیں۔ اس بات پر  او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اور پوری دُنیا یہ کہتی ہوگی کہ ’’یہ کیا مذاق کیا جارہا ہے؟ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ خود ان کا موقف واضح نہیں ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں؟ ایک طرف ہمیں یہ کہتے ہیں کہ اجلاس بلائیں اور تجارت ختم کریں اور بھارت کا بائیکاٹ کریں اور دوسری طرف اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں‘‘۔ اس طرح متضاد اور جگ ہنسائی پر مبنی بیانات دے کر ہم دنیا کے سامنے اپنی ساکھ کو دائو پر لگادیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ ہمارے ساتھ کھڑی نہ ہوئی، کجا یہ کہ ہم سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس بلا کر ہی کچھ کرلیتے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہورہی ہے کہ ہمارے اہل حل وعقد کی ایسی تضاد بیانیوں کی وجہ سے کہیں بھی ہمیں کوئی ٹھوس اور بامعنی تائید نہیں ملی۔ اقوام متحدہ کے اندر بلاشبہہ چند تقاریر ضرور ہوگئیں، اس کے سوا ہمیں کیا تائید و حمایت ملی؟ آج پھر ہم وہی غلطی کر رہے ہیں۔ یہی لوگ جب حزب اختلاف میں تھے تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ خدارا، تھوڑا سا ٹائمنگ کا خیال رکھ لیں کہ حالات کیا ہیں اور اس وقت بھارت میں کیا ہورہا ہے؟ اور وہاں کون سی قیامت برپا ہے؟ موجودہ حالات کے پس منظر میں کیا ایسی بیان بازی موزوں ہے؟

دوسری طرف اس بیان کا جائزہ لیجیے۔ بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل پر باتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن جب آپ چیزوں کو پبلک ڈومین یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے کر آتے ہیں اور اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا بنیادی مذاکرات کی بات کرتے ہیں، تو پھر آپ کے ہرلفظ اور ہرجملے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ آپ بیک ڈور چینل پر ایک گرائونڈ تیار کرتے ہیں اور جب تک گرائونڈ تیار نہیں ہوجاتی اس وقت تک اسٹرکچرل ڈائیلاگ کے لیے بیان دینا مناسب نہیں۔ لہٰذا، یہ دانش مندی کی بات نہیں ہے کہ ہم براہِ راست یہ کہیں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا مذاکرات کرنا چاہییں۔ بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بیک ڈور چینل پر مصروف رکھتا ہے اور جب اسٹرکچرل ڈائیلاگ کا مرحلہ آتا ہے تو خصوصاً کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرواتا رہتا ہے۔

۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیر پر ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے؟ کس طرح دہشت گردی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا تنازعہ بنایا؟ حالانکہ اصل تنازعہ تو مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس وقت تک کبھی معمول پر نہیں آسکتے، جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ یہ پہلو ہروقت سامنے رہنا چاہیے۔

اگر وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان اس وقت ’تنہائی‘ کا شکار ہے، تو اس کی وجہ کشمیر یا پاک بھارت تعلقات کی خرابی نہیں ہے، بلکہ ہماری داخلی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں۔ ہمارے اندر کے جو معاملات ہیں، ’میموگیٹ‘ سے لے کر ’ڈان لیکس‘ وغیرہ تک کے جو ایشوز ہیں، اگر ان کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خدارا، پاکستان کی سفارت کاری کو اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مذاق نہ بنایئے۔ ہمارا ایک مضبوط قومی موقف ہے، اسی کو برقرار رکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی انتظامی اور اداراتی کمزوریوں کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ اور حکومتوں کو اس طرف نہیں لاسکے ہیں۔ اس کے پیچھے گوناگوں مسائل اور سفارتی سطح پر ہماری کوتاہیاں ہیں۔

وزیرخارجہ کے اس بیان میں پائی جانے والی کمزوری اور ناسمجھی، کشمیر کے موقف سے اساسی انحراف اور ایک بڑی زیادتی ہے۔ یہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ جو گذشتہ ۷۵برس سے جانی اور مالی سطح پر بہت بڑی قربانی دے رہے ہیں، اور پھر بنیادی طور پر کشمیریوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم ہے جو بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں اور ابھی تک جنھوں نے پاکستان کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔

ایک طرف یاسین ملک صاحب اور شبیراحمد شاہ صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ مسرت عالم اور آسیہ اندرابی کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ڈاکٹر قاسم فتو اور  بلال لون کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کتنے نام گنوائے جائیں؟ کتنی مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں اور کیا کیا مظالم انھوں نے برداشت نہیں کیے۔ آج بھارت جو کچھ کررہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مٹانے کے لیے جس طرح کے اقدام کر رہا ہے، کیا اس سب کے باوجود آپ بھارت سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارت سے تعلقات بحال کرکے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات سے ہم اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں، اور حاصل کچھ نہیں ہوتا، اور اس طرح کشمیر پالیسی کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس کو دُور کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ صرف یہی طریقہ نہیں ہے کہ آپ بھارت کے سامنے بچھ جائیں کہ ہماری مدد کیجیے۔اگر یہی ذہنی سانچہ ہے تو بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے نئے چیلنج سامنے لے کر آتا ہے، لیکن اس بار یورپ اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال میں یہ دورہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اس امکانی دورے کو خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ’ذرا مختلف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ’اب یا کبھی نہیں‘ والی سوچ کارفرما ہے۔

اس ارضی خطے کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور امریکا بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔

روسی فیڈریشن ایک نئے دور کی ابتدا کرچکی ہے، جس کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کا بچنا آسان نہیں ہے۔ چین کی اقتصادی میدان میں عالمی پیش رفت کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر بھی آگے بڑھنے کے رجحانات براہ راست امریکی پریشانی کا اہم سبب ہے۔

افغانستان سے جس ڈھب سے امریکی فوجی انخلا پچھلے سال مکمل ہوا تھا، اس کا بھی دبائو ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکی اثر ورسوخ کو کم ہونے سے روکنے کے لیے نئے بندوبست کو ممکن بنانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کریں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس میں ضروری سرعت نہیں دکھائی جا سکی۔ افغانستان سے اس انداز میں نکلنے کے بعد جو دھچکا امریکا کو سہنا پڑا ہے، اس کے ازالے کی کوشش کے علاوہ خود جو بائیڈن کی اور ان کی جماعت کی ساکھ اور صلاحیت ِ کار پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں برطانیہ کے نئے فوجی سربراہ جنرل پیٹرک سینڈر کا یہ بیان: ’’۲۴ فروری کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘‘، صرف برطانیہ کے لیے ایک بڑے انتباہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ امریکا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

جوبائیڈن اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کو مزید نیچے آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہے ہیں۔ رواں برس ماہ نومبر میں امریکا میں وسط مدتی انتخابات ان کی جماعت کے لیے ایک اندرونی، فوری اور بڑے چیلنج کے طور پر سامنے ہیں۔ ان انتخابات میں بُرے نتائج سے جوبائیڈن کی صدارت کے معنی ہی بدل جائیں گے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس میں داخلے سے قریب تر ہو جائیں گے۔

ان حالات میں بائیڈن چاہتے کہ ہیں کچھ فوری نوعیت کے ’مفید‘ کام ممکن ہو جائیں یا ان میں نظر آنے والی پیش قدمی ہو۔ اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انھیں اچھے لگتے تھے، یا نہیں، مگر اس وقت وہ ان کے لیے اتنے ہی اہم ہو چکے ہیں، جتنے کہ محمد بن سلمان کے لیے خود  صدر بائیڈن اہم ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کو ہر طرح سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے سعودی ولی عہد سہ ملکی دورے پر نکلے، جس میں مصر، اردن اور ترکیہ میں اہم ملاقاتیں اور مشاورتیں پیش نظر ہیں، تاکہ بڑے فیصلوں میں اکیلے آگے نہ بڑھیں، دوسروں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔

اسی دوران میں سعودی ولی عہد کے سہ ملکی دورے سے ایک روز قبل سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیونی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے سعودی شاہی خاندان کی اہم شخصیت شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل ماضی میں اسرائیل کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران سے اُبھرنے والے ’خطرات‘ پر بھی ان کی نظر ہے۔ ایرانی جوہری اور ڈرون پروگرام کو سمجھنے اور اس پر رائے کے حوالے سے شہزادہ فیصل، امریکا اور اسرائیلی خدشات میں یکسانیت کا پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں، جب کہ یمن، لبنان، عراق اورشام میں ایرانی اثرات کے مظاہر بھی روز افزوں ہوں۔

لہٰذا، بعض اہل الرائے اس تصویر کے بنائے جانے اور سامنے لانے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے۔ اس تصویر کے ٹویٹ ہونے کے فوری بعد میڈیا نے اسے جتنی اہمیت دی ہے، وہ بھی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ گویا دو اہم سعودی واسرائیلی شخصیات کی یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی چغلی کھاتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک: ’’یہ ایک تصویر نہیں ہے، بلکہ جوبائیڈن کے دورے کا عنوان ہے‘‘۔

یہ ’مفروضاتی عنوان‘ اس حقیقت کے باوجود بڑا اہم ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، عبوری حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے اور اکتوبر تک نئے انتخابات یقینی نظر آرہے ہیں۔

لیکن دو باتیں اور بھی بہت اہم ہیں۔ جس طرح امریکا کے بارے میں یہ معروف بات ہے کہ اس کی حکمت عملی ریاستی نوعیت کی ہوتی ہے، حکومتی انداز کی نہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف بھی ایسے ہی ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت یا فرد کی ہو، اسرائیلی اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا، امریکا کی داخلی ضرورتوں اور عالمی مسائل کے ساتھ اسرائیل، مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکیہ کے بڑے ایوانوں کی درون خانہ سرگرمیوں کو نکتے ملانے والی ایک سرگرمی کے طور پر ہی لے لیا جائے تو یہ کھیل کافی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کھیل کئی ممالک اور ان کے موجودہ حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کا بھی تقاضا ہے۔

ایک دو حوالے خود وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بھی دستیاب ہیں:

ایک تو یہ کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ایک صحافی کا حالیہ دورۂ اسرائیل، اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کے زیرکمان ان کی سیاسی جماعت کے ایک اہم اور کاروباری شخصیت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا تفصیلی بیان۔ پاکستان کی مخلوط حکومت کی طرح اسرائیل میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس کی اکثریت نقش بر آب کی طرح ہے۔ بدترین معاشی صورت حال میں امریکا اور آئی ایم ایف سے تقاضے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے توقعات بھی ایک مشترکہ منظر پیش کرتی ہیں۔

پاکستان میں کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہی نہیں، ماہ نومبر میں ’اہم فیصلوں‘ کی ایک عرصے سے جاری بحث بھی موجود ہے۔ اگر اس سب کچھ کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کے رجحانات اور حالات کا بننے والا ہیولا مذکورہ بالا منظر نامے سے قریب تر نظر آتا ہے۔

 ’گلوبل ویلیج‘ کا حصہ ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کو تعاون دینا تو لازم ہوتا ہی ہے، خصوصاً جب حالات یہ بن چکے ہوں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مشکلات میں گھرا ہوا اور فطری طور پر کمزور بھی سمجھنے لگا ہو۔ ایسے میں سب ایک دوسرے کے تعاون کے متلاشی بھی ہوتے ہیں اور تعاون ’بارٹر‘ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا دُور کی کوڑی لانا ہر گز نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اہم فیصلوں کا امکان غالب ہے، جو صرف سعودی عرب یا عرب دُنیا کے حوالے سے نہیں، بلکہ بعض دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فیصلے حتمی نوعیت کو نہ چھو پائیں، مگر اصولی فیصلوں یا ابتدائی فیصلوں کے درجے میں ضرور شمار ہوں گے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سب فریق ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر چلنے پر بھی متفق ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں اسی سمت بڑھنے کے لیے بڑے فیصلوں کی خاطر مقامی سطحوں پر مزید تبدیلیوں کے امکانات پیدا کر کے مشرق وسطیٰ کو بھی بدلنے کی راہ مزید ہموار کریں گے۔

مشرق وسطیٰ پہلے ہی ’تبدیلیوں‘ کے اس راستے کا راہی بن چکا ہے۔ ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کے اشاروں سے بات آگے نکل چکی ہے جسے یہاں تک لانے میں ’لالچ اور دھمکی‘ کی امریکی حکمت عملی کو گہرا دخل حاصل ہے۔ یہ پالیسی نئے حالات میں کبھی ایک ملک کے لیے اور کبھی دوسرے ملک یا کسی شخصیت کے لیے بروئے کار رہ سکتی ہے۔

علامہ اقبال کے بقول: ’’جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندو ں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘، یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہیں۔خود اس جمہوری ڈرامے کو بے اثر کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں میں مخصوص گروپ، پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت نے حال ہی میں مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی چالاکی اور دھوکا دہی (Gerrymandering)کا سہارا لیتے ہوئے جس طرح پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے ، اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام میں ملتی ہے، جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی سیاہ فام آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنا دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں طاقت کے سبھی اداروں ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمایندگی پہلے سے ہی برائے نام ہے، وہاں ایک موہوم سی اُمید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمایندگی پر ٹکی ہوتی تھی، جس پر اب نئی دہلی حکومت کے حلقہ بندی حملے سے ایک کاری ضرب پڑ چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو جموں و کشمیر میں میر صادقوں یا میرجعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ’چالاکی اور دھوکے‘ کے اس نظام کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔ 

 ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے سیاسی و انتظامی وجود کو تحلیل کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دیا اور اسے سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا۔

دنیا بھر میںانتخابی حد بندی کے لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، مگر چونکہ کشمیر کی مثال ہی انوکھی ہے، اس لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کے  ان دونوں معیارات کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو مستحکم کیا گیا ہے۔ کمیشن میں ہندو نسل پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمایندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ وادیٔ کشمیر کو برتری حاصل ہے، تاہم جغرافیے کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔ مگر بعد میں ان کو خیال آیا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے ، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اس کے دومسلم اکثریتی ذیلی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب۷۴ء۵۲  فی صد اور ۵۹ء۹۷ فی صد ہے۔

’حد بندی کمیشن‘ نے اپنی رپورٹ میں جموں کے لیے ۶ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کے لیے محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اب نئی اسمبلی میں وادیٔ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیںہوں گی۔ان نشستوں میں ۱۶ محفوظ نشستیں ہوں گی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں، یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ کے لیے ۷؍ اور قبائلیوں، یعنی گوجر، بکروال طبقے کے لیے ۹سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ اس سے قبل کشمیر کے پاس ۴۶ اور جموں کے پاس ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیٔ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ء۸لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳ء۷ لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔  جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے ۹ سیٹیں زیادہ تھیں، جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا،جب کہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔

پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمایندگی جو آبادی کے اعتبار سے ۶۸ء۳۱ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۶۶ء۶۶ فی صد تھی،جب کہ ہندو نمایندگی ، جو ۲۸ء۴۳ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۳۱فی صد تھی۔ اب وادیٔ کشمیر میں ۱ء۴۶ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں ۱ء۲۵ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں ۱ء۴۰  لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جب کہ ہندو اکثریتی جموں۔ توی خطے میں ۱ء۲۵  لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے ۰ء۸ ووٹ کے برابر ہوگا۔

جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر پنچال کی  ۸  میں سے ۵ سیٹوں کو گوجر آبادی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیرتعداد میں آباد ہے، اس لیے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازع کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، مگر انھی علاقوں میں انھی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اس سے آزاد رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے سفارش کی ہے کہ ۱۹۹۰ء میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کے لیے دو نشستیں محفوظ کی جائیںگی۔جس میں ایک کے لیے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہیے۔ ان دو نشستوں کے لیے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کرے گی۔ اسی طرح دہلی ، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں بسنے کے لیے ۱۹۴۷ءمیں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کے لیے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامزد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کے لیے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے ۔ ان دونوں زمروں میں آنے والے اُمیدوار اگرچہ نامزد ہوں گے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔عام طور پر حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کا حق براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ۱۹۴۷ءکے مہاجرین کے لیے ۴ سے ۵ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔ چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں ۹۰سے اوپر ہیں، اس لیے ان کے لیے جولائی میں پارلیمان کے مون سون اجلاس میں قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح ۹۶ یا ۹۷رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں ۴۹یا ۵۱تک ہوں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ نشستیں پاکستانی زیرانتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہوں گی، جہاں ۱۲نشستیں مہاجروں کے لیے مخصوص ہیں، جو اس علاقے سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔

اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیتے ہوئے حدبندی کمیشن نے جموں اور کشمیر کے خطو ں کی الگ الگ کلچرل اور مذ ہبی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر سفارشات کی ہیں۔ مگر جب پارلیمانی سیٹوں کا معاملہ آگیا، تو کمیشن نے یکایک یہ فیصلہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر کو ایک اکائی مانا جائے گا۔ یہ حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کے پونچھ -راجوری علاقے سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر ۔پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں-توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقے سے ہارتا تھا۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔

دراصل پرانے زمانے سے ہی وادیٔ کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں:

’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ ، شوپیان)

 ’یمراز‘ یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور

 ’کمراز‘ یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شامل ہیں___

یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر واحد خطہ ہے، جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمایندگی کرتا ہے۔ اسی لیے چاہے ۱۹۷۹ءمیںپاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہو،یا ۱۹۸۷ء کا ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا الیکشن ہو، یا ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ءکے انتخابات ہوں،یا برہان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ دیگر د و خطے ’یمراز‘ یا ’کمراز‘ مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔

لگتا ہے جنوبی کشمیر کو پونچھ- راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اس کی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔یہ دونوں خطے صرف مغل روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ رابطہ چھ ماہ تک بھاری برف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ اگر کبھی انتخابات اکتوبر اور مئی کے درمیان منعقد ہوتے ہیں، تو اس سیٹ پر قسمت آزمائی کرنے والے امیدواروں کو اننت ناگ سے پونچھ جانے کے لیے رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھم پوراور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً ۶۰۰کلومیٹر سے زائد پہاڑی اور دشوار گذار راستہ طے کرنے کے بعد اس پارلیمانی نشست کے دوسرے حصے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جا نا پڑے گا۔

اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے۱۳نشستوں کے نام تبدیل کیے ہیں اور ۲۱کی سرحدیں اَز سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میںمرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقے زینہ گیر کو سوپور سے علیحدہ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا ہے اور سنگرامہ حلقے کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔ یہ ساری کارگزاری، مسلم آبادی کی عددی اور سیاسی قوت کی کمر توڑنے کے لیے کی گئی ہے۔

دنیا بھر میں شورش اورعدم استحکام کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بااختیار بناتے ہوئے ان کا غصّہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، مگر کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے اور بیگانہ بنانے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔

کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل تو جاری ہے اور اب ’حدبندی کمیشن‘ نے اس عمل کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ءکے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ تھے، جوقتل عام کو روکنے کے لیے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجا ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے:’’ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے رُوبرو لے جایا گیا۔ وہ اُلٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا:’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’بالکل اس طرح‘‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ـ بقول وید جی، ’’ہری چند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا‘‘۔

 ۲۰۲۲ء میں یہ خواب ’حد بندی کمیشن‘ کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو ۱۹۴۷ءسے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر سیاسی یتیمی اور بے وزنی کی علامت بناکر رکھ دیاہے۔ جب خونیں سرحد کے پار سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو اس صورت حال پر نوحہ خوانی کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے!

 

ہرسال ۱۵ مئی کو فلسطینی دُنیا بھر میں ’یومِ نکبہ‘ یا بڑی ’تباہی کا دن‘ مناتے اور ۱۹۴۸ء میں اس روز فلسطین میں بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر اور ظلم و ستم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

برطانوی حکومت کی اسرائیل کے قیام کے لیے حمایت حاصل کرنے کے بعد ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں جیسے ہی برطانوی انتداب (mandate)ختم ہوا، صہیونی قوتوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز کردیا۔ صہیونی فوج نے کم از کم ۷لاکھ ۵۰ہزار فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے فلسطین کے ۷۸ فی صد رقبے پر قبضہ کرلیا۔ فلسطین کا باقی ماندہ ۲۲فی صد رقبہ آج مقبوضہ مغربی کنارہ اورمحصور غزہ کی پٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ جنوری ۱۹۴۹ء تک جاری رہی اور پھر مصر، لبنان، اُردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی لائن کو گرین لائن بھی کہا جاتا ہے، اورعام طور پر اسے اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان حدبندی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ گرین لائن کو۱۹۶۷ء سے قبل کی سرحد بھی کہا جاتا ہے جب ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین پرقبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل کا فلسطین پر فوجی قبضہ عشروں پر محیط مرکزی تنازع ہے جو فلسطینیوں کی زندگی کو مسلسل اور بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اسرائیل نے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان فلسطین کی نقشہ کشی کے لیے صہیونی فوجیوں کے ذریعے فلسطین کے بڑے شہروں پرحملہ کیا اور ۵۳۰ دیہات کو تباہ کر دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل عام اور سفاکیت کے نتیجے میں ۱۵ہزار فلسطینی مارے گئے۔ ۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کو صہیونی فوجیوں نے دیریاسین گائوں میں جو یروشلم کے مغربی دیہاتی علاقے میں واقع ہے، جنگ کے دوران بدنامِ زمانہ قتل عام کیا۔اسرائیلی ریاست کےقیام سے قبل کی Irgun اور Stern صہیونی ملایشیا کے ہاتھوں ۱۱۰سے زیادہ مرد و خواتین اور بچے مارے گئے۔ فلسطینی محقق سلمان ابوستہ نے اپنی کتاب: The Atlas of Palestine میں ان ۵۳۰ دیہات پر جو تباہی و بربادی گزری، اس کا مفصل تذکرہ اعداد و شمارکےساتھ کیا ہے۔ نیز مختلف چارٹوں اور گراف کی مدد سے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

فلسطینی پناہ گزین کہاں ہیں؟

۶۰ لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزین ۵۸ کیمپوں میں رہتے ہیں جو پورے فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے ایجنسی (UNRWA) مشرق قریب میں مہاجرین کو بنیادی ضروریاتِ زندگی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سیکڑوں اسکولوں کو چلانے میں معاونت کر رہی ہے۔ اس وقت اُردن میں ۲لاکھ ۳۰ہزار فلسطینی مہاجرین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ میں، ۸لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین مقبوضہ مغربی کنارہ میں، ۵ لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین شام میں اور ۴لاکھ ۸۰ہزار فلسطینی مہاجرین لبنان میں ہیں۔ ان میں بڑے فلسطینی مہاجر کیمپ بقع، اُردن، جبلیا، غزہ، جنین ،مقبوضہ مغربی کنارہ، یرموک، شام اور ال ہلوان، لبنان میں ہیں۔

غزہ کے ۷۰ فی صد سے زیادہ رہایشی مہاجرین ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ کی پٹی میں قائم آٹھ مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے مطابق مہاجرین اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔ بہت سے فلسطینی آج بھی فلسطین واپسی کی اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں۔

فلسطینی مہاجرین کی حالت ِ زار کے پیش نظر یہ دُنیا کا طویل ترین ناقابلِ حل مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے فوجی کنٹرول کی وجہ سے ان کی زندگی کا ہرپہلو متاثر ہے، خواہ وہ سہولیات کا حصول ہو یا سفر کرنا ہو، شادی کرنا ہو یا کہیں رہنا ہو۔ معروف بین الاقوامی این جی او ہیومن رائٹس واچ (HRW) کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف انسانیت کی توہین، نسلی امتیاز اور ظلم و سفاکیت کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اسرائیل کی زیادتیوں کے ثبوت فراہم کیے ہیں، جن مظالم میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا، لاقانونی قتل و غارت گری، زبردستی علاقے سے بے دخلی، نقل و حمل پر شدید پابندیاں، نظربندی اور قیدوبند اور فلسطینیوں کو شہریت کے حق سے محروم رکھنا شامل ہیں۔

ہرسال اسرائیل فلسطینیوں کے سیکڑوں گھر تباہ کر دیتا ہے۔ مصدقہ اعدادوشمار کےمطابق ۲۰۰۹ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان کم از کم ۸ہزار ۴سو ۱۳ فلسطینیوں کے مکانات اسرائیلی فوج نے گرا دیئے اور اس کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۴سو ۹۱ افراد بے گھرہوگئے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان مکانات میں سے بیش تر (۷۹ فی صد) مقبوضہ مغربی کنارے کے Area C میں واقع ہیں، جو اسرائیل کے زیرانتظام ہے۔ ان میں سے ۲۰ فی صد مکانات مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ہیں۔

اسرائیل نے ۴ہزار ۴سو ۵۰ فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے جن میں ۱۶۰بچے اور ۳۲خواتین شامل ہیں اور ۵۳۰ افراد کو قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر قید کیا ہوا ہے۔ ہرسال ۱۷؍اپریل کو ’فلسطینی یومِ قید‘ منایا جاتا ہے تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو نمایاں اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ان کی جدوجہد کو اُجاگر کیا جاسکے۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیاں مضبوط حصاروں کے ساتھ غیرقانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہیں۔ تقریباً ۷لاکھ ۵۰ہزار اسرائیلی آبادکار تقریباً ۲۵۰ غیرقانونی بستیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں۔ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیرقانونی ہیں۔ اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں پر اکثر حملہ آور ہوکر ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں تقریباً تین لاکھ فلسطینی یہ عذاب سہہ رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت اسرائیلی یہودیوں کے رہنے کے لیے ان بستیوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کرتی ہے اور انھیں رہنے کے لیے مختلف سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ ساتھ سستے گھر بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاروں کی آبادی اسرائیل کی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے اسرائیل کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء سےاسرائیل فلسطینی علاقےپر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع غزہ کی پٹی ۳۶۵ مربع کلومیٹر (۱۴۱ مربع میل) پرمشتمل ہے، جو کیپ ٹائون، ڈیٹریٹ یا لکھنؤ کے برابر ہے۔ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے اور اسرائیل کے مسلسل قبضے کی وجہ سے اسے ’دُنیا کی سب سے بڑی جیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر حالیہ بمباری میں جو ۱۰ سے ۲۱مئی ۲۰۲۱ء تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس میں اسرائیلی فوج نے ۲۶۱ ؍افراد کو ہلاک کیا جن میں ۶۷ بچے بھی شامل ہیں اور ۲ہزار ۲ سو سے زائد افراد کو زخمی کیا۔ فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے جس کے نتیجے میں انھیں گھر سے بے گھر اور زمینوں سے بے آباد کیا جارہا ہے اور یہ عمل کبھی نہیں رُکتا۔ (الجزیرہ، ۱۵مئی ۲۰۲۲ء)

 

  •  س: شام میں انقلابی تحریک کے آغاز کے بارے میں کچھ بتایئے؟
  •  ج:عرب دُنیا کے لوگ چاہتے تھے کہ ملک پر مسلط ظالمانہ نظام حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہاں شام میں بھی صورتِ حال بالکل ویسی ہی تھی جیسی ’عرب بہار‘ کے بعد خطے کے دیگر عرب اور مسلم ملکوں میں تھی۔ مصر اور تیونس میں عوامی ضربوں سے جوں جوں آمریت کا بت چکنا چور ہو رہا تھا، توں توں ہمارے ہاں بھی توقعات اور اُمیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

شامی انقلاب کسی کی منصوبہ سازی کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ برسوں سے جمع ہونے والے اس عوامی غم و غصے کا مظہر تھا جو آخرکار بشار الاسد کے دورِ حکومت میں پھٹ پڑا۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان مظاہروں کو دیکھ رہے تھے اور جمعہ کے جمعہ ہونے والے مظاہرے بھی ہمارےسامنے تھے۔ یہ مظاہرے اپنے حجم اور تعداد کے لحاظ سے بڑھتے چلے جارہے تھے اور ملک کے ہر ہرشہر اور قریے میں ہو رہے تھے۔ بڑے شہروں میں بلامبالغہ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مظاہرین ضرور جمع ہوتے رہے تھے۔آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں چالیس پچاس برسوں سے چارآدمیوں کے اکٹھے ہونے پر بھی پابندی چلی آرہی تھی، وہاں ہزاروں لوگوں کا جمع ہونا بہت بڑی بات تھی۔ ہمیں بہرحال یہ  ڈر تھا کہ قوم کسی دلدل میں نہ پھنس جائے۔ ملک پر مسلط آمریت کوئی عام طرح کی آمریت نہیں تھی بلکہ یہ تو اجتماعی قتل عام اور انسانی نسل کشی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نہ کترانے والی آمریت تھی

  • اس جنگ اور تباہی کے بعد کیا ایک بار پھر بشارالاسد شام کو متحد کر پائیں گے؟
  •  شام ایک تھااور ضروری ہے کہ ایک ہی رہے، لیکن خون کی گہری خلیج حائل ہوجانے اور اعتماد کی دیوار ڈھے جانے کے بعد اب شام کی سالمیت کا انحصار صرف اور صرف بشار الاسد کے ظالمانہ نظام کے خاتمے اور اس کے لائے ہوئے دو قبضہ گیر ملکوں کے انخلا سے ہی ممکن ہے۔

شام کے پاس تہذیب و تمدن کے سارے اساسی عناصر موجود ہیں۔ یہ قوم اللہ کے حکم سے وطن عزیز کے لیے مشترکات پرمشتمل پروگرام کے ساتھ ایک ایسا وطن بناسکتی ہے، جو آزادی اور عدل کے دائمی اور سنہرے اصولوں پر قائم ہو۔

  •  شامی قوم انقلاب سے بے زار ہو چکی ہے یا اب بھی انقلاب کی متمنی ہے؟
  • اہلِ شام کے لیے انقلاب کے اس راستے کو ترک کر دینا ممکن نہیں ہے جس نے ان میں آزادی اور عزّت مندی کی اُمنگ جگائی ہے۔ وہ اس ظالم و فاجر نظام حکمرانی سے بے زار ہے، جس نے اسے گہرے زخم اور چرکے لگائے ہیں، انھیں دردناک عذاب سے دوچار کیا ہے۔اس استبدادی نظام سے بیزار ہے جواپنا استبدادی شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے دوسری قوموں کو ان پر چڑھا لایاہے۔ جس کی وجہ سے شام جو کبھی تہذیب و تمدن کا روشن منارہ تھا، اب ناکام ترین ریاست اور دوسروں کا دم چھلابن کر رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو یا سیاسی آزادیوں اور معاشی تحفظ کا، ہر ہر حوالے سے شام آج ایک ناکام ترین ریاست کادرجہ رکھتا ہے۔وہ لوگ جو آج کہہ رہے ہیں کہ ہم عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے، دراصل یہ لوگ ذلت اور غلامی کے قائل تھے اور ہیں۔ یہ لوگ ایسی حالت میں جی رہے ہیں کہ انھیں بحران کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
  •   بعض یورپی ملکوں میں بھی بشارالاسد کے فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا بشارالاسد کا نظام ختم ہوسکے گا؟
  •  شامی بریگیڈیئر انوررسلان کے خلاف جرمنی کی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ثابت ہوچکا ہے اور اسے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ بشارالاسد کی فوج کا یہ افسر انٹیلی جنس یونٹ کی ۲۵۱ بریگیڈمیں خدمات انجام دیتا رہا ہے۔اس مقدمے میں مجرم کو ملنے والی سزا صرف اس کے لیے نہیں بلکہ بشار الاسد کے پورے نظام کے لیے کلنک کاٹیکہ ہے۔بالآخر بشار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ان سارے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔
  •  اس منظرنامے میں ترکی کا کیا کردار ہے اور اہلِ شام ترکی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
  • شامی انقلاب کے لیے ترکی کا وجود گویا انسانی جسم میں موجود پھیپھڑوں کی طرح ہے جہاں انقلاب کے حامیوں کو کچھ سانس لینے کی مہلت مل جاتی ہے۔ ترکی ہمارا پڑوسی اور دوست ملک ہے۔ ہماری طویل مشترک سرحد اور ہماری مشترک تاریخ ہے۔ شامیوں کے لیے مشکلات کے اس دور میں ترکی کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ ترکی نے شامی قوم کی مدد کے لیے بڑا بوجھ اور دباؤ برداشت کیا ہے اورہماری بڑی مدد کی ہے۔ موجودہ مشکل حالات، دُکھ اور الم کی ان گھڑیوں میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشارکے ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگ جان بچا کر بھاگے تو ترکی نے ان بے آسرا لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ اپنے ہسپتالوں اور اپنے اسکولوں کے دروازے ان پر وا کر دیے۔ ان کی ہر ممکن مدد کی۔ اسی طرح بشار الاسد کی استبدادی حکومت کے پنجے سے آزاد کرائے جانے والے علاقوں میں بھی ترکی نے پہنچ کر خیمہ بستیاں بسانے، عارضی ہسپتال قائم کرنے اور محفوظ علاقے قائم کرنے میں بہت مدد کی۔ بشارالاسد کے درندوں اور ایرانی ملیشیا کو ان علاقوں میں آگے بڑھنے سے روک دیا اور لاکھوں شامی باشندے جن کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی تھیں، انھیں جلاوطنی،دربدری اور قتل و غارت گری سے بچا لیا۔
  •  کیا عرب ملکوں نے بھی اس عوامی شامی انقلاب کی کچھ مدد کی؟
  • اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے۔ انقلاب کے بالکل ابتدائی برسوں میں عرب ممالک کا موقف عموماً بہت مثبت تھا۔ اگرچہ انقلابی قوتوں کی توقعات سے یہ کہیں کم تھا۔ تاہم، سیاسی و اخلاقی تائید فراہم کی اور بشار الاسد کے ظلم و استبداد کی کھلے عام مذمت بھی کی۔ تقریباً سبھی عرب ملکوں کا یہی موقف تھا اور اس موقف سے انحراف کرنے والے ممالک صرف وہ تھے جن کے مفادات کے ڈانڈے ایران کے ساتھ جڑے تھے۔یقینا  بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا یا بنانا گویا کہ شامی قوم کے ساتھ اس کے ظلم و جور کو جواز فراہم کرنا ہے۔ ہم ان تمام عرب اور غیر عرب ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ثابت قدمی سے ایک عادلانہ موقف پر قائم ہیں۔
  •  اس ضمن میں اقوام متحدہ کردار کیا رہا ہے؟
  •  اقوام متحدہ کا کردار نہایت شرمناک رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں روس اور چین ویٹو کا استعمال کرتے رہے اور شام میں جاری قتل عام کواقوام متحدہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
  •  ایک عشرہ گزر جانے کے بعد بشار حکومت کو ایک ہمسایہ  ملک کی فوجی امداد اور صلاح کاری کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
  •  بدقسمتی سے اس ملک نے انقلاب کے اوّل روز سے ہی شام میں مداخلت شروع کر دی تھی بلکہ ظلم و ستم میں بشار اور اس کے فوجی گماشتوں کی عملی مدد جاری رکھی۔ یہ چیز شامی عوام کے سینے میں پیوست خنجر کی طرح ہمیشہ کسک دیتی رہے گی۔
  •  شامی لوگ اپنے ہاں روس کی موجودگی پر کیا سمجھتے ہیں؟
  • عوامی انقلاب کو دبانے اور بشارالاسد کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں، اور شام کے اکثر و بیشتر وسائل کو لوٹنے کے عمل کی وجہ سے شامی عوام روس کو ایک قابض ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں،  جس نے شام کی نہتی شہری آبادیوں کے خلاف لاکھوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ہسپتالوں پر بمباری کی ہے، اسکولوں کو نشانہ بنایا ہے، روٹی اور غلے کے گوداموں کوتباہ کیا ہے۔ اس کے ظلم و ستم اور وحشیانہ بمباری سے مہاجروں کی خیمہ بستیاں بھی نہیں بچ سکیں۔ روس نے اپنا ہر طرح کا مہلک اسلحہ نہتے شامی عوام کے قتل عام کے لیے بے دریغ استعمال کیا ہے۔
  •  کیا شام میں روسی موجودگی سے نجات ممکن ہے ؟
  •  بشار الاسد نے ہم پر دو بیرونی ملکوں کا وحشیانہ تسلط قائم کیا ہے، اور یہ صرف اس لیے کہ کسی طرح اس کا اقتدار بچا رہے۔ بشارالاسد حکومت قانونی جواز سے محروم ہے۔ شامی عوام اپنے حق دفاعِ وطن اور بیرونی تسلط سے چھٹکارے کے جائز حق پر قائم ہیں۔
  •  کیا شام کے مسئلے کا   سیاسی حل ممکن ہے؟
  •  عالمی رہنماؤں کے اکثر بیانات تو اسی طرح سامنے آتے رہے ہیں کہ شام کے مسئلے کا حل سیاسی ہے اور ہم بھی اس کا سیاسی حل ہی چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ یقینا اس کے نتیجے میں ہی سیاسی حل نکل پائے گا اور شام مزید انتشار اور خون خرابے سے بچ سکے گا۔