تیونس میں دستور سازی کا مشکل مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ اتوار ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو رات گئے قومی اسمبلی میں اس پر راے شماری ہوئی اور ۱۲کے مقابلے میں۲۰۰؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دے کر حتمی منظوری دے دی ۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہر طرف سے تیونس کے انقلاب ِ یاسمین کی کامیابی پر نہ صرف سوالات اٹھائے جا رہے تھے، بلکہ ملک دشمن عناصر مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے حالات کو وہی رخ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔کبھی امن وامان کا مسئلہ کھڑا کرکے اور کبھی دستور سازی کے عمل کو مشکوک قرار دے کرتیونس حکومت سے دست برداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، تیونس کی لیڈرشپ نے بروقت اورحکیمانہ اقدامات کرکے حالات پر قابو پالیااور تین سال کی کش مکش کے بعد ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس ساری مدت میںاندرون اور بیرون ملک سے جلتی پر تیل کاکام کرنے والے مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ اقتصادی ناکامی کا ڈراما رچایا گیا، انسانی حقوق کا واویلا مچایا گیا، ملک میں تخریبی کارروائیاںکی گئیںاور آخر میں دو اپوزیشن لیڈروں کو قتل کروایا گیا، تاکہ ان واقعات کی آڑ لے کر منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے اور آزادی و جمہوریت کے سفرکو آغاز ہی میں ناکام بنایا جائے۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کونصف صدی سے جاری آمریت سے نجات حاصل ہوئی تو ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں عوام نے اسلامی تحریک پر اعتماد کیا اور ۲۱۷کے ایوان میں ۹۰ پر اسے کامیابی ملی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ۳۰ نشستوں اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو صرف ۲۱نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔تحریکِ نہضت چاہتی تو تنہا ہی حکومت بنالیتی لیکن اس نے ملکی وحدت اورقومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بائیں بازو کی معتدل جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ کو صدارت، اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ’التکتل‘ کوا سپیکر شپ کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کی اور خود وزارت عظمیٰ پر اکتفا کیا۔
حکومت کی یہ کامیابی اندرون و بیرون ملک اسلام دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ سیکولر لابی نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر واویلا شروع کیا کہ تحریکِ نہضت ملک میں خلافت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے اور ہرطرف اسلام کے سخت قوانین کو بالجبر نافذ کیا جائے گا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شور مچایا کہ تحریکِ نہضت کی کامیابی سے مذہبی آزادی اور حقوقِ نسواں کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا۔ زین العابدین کی باقیات اور ان کے زیر اثر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا کہ اسلام پسند ملک کو تاریک اندھیروںمیں ڈبونے جارہے ہیں۔بڑے سرمایہ داروں نے معیشت کی تباہی کی دہائی دی اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔یہ اور اس طرح کے دیگر نعروں سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔
ایک کروڑ ۱۰ لاکھ کی مجموعی آبادی میں ۷لاکھ بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنا انقلاب کے بنیادی مقاصد اور مطالبات میں شامل تھا۔ ایک بالکل نئی حکومت کے لیے چند دنوں یا مہینوں میںیہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ بھی ایسے وقت میںجب بن علی اور اس کا خاندان سرکاری خزانے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کر گئے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے اس مسئلے کوخوب اُچھالا اور اعلان کیا کہ حکومت انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ جن کی اکثریت دین بے زارسرمایہ دار وںاورمفرور صدر بن علی کے قریب ترین افراد کی ملکیت ہے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔گذشتہ دو سال کی قلیل مدت میں ۲۰نئے اخبار،چھے ٹی وی اور سات ریڈیو چینل وجود میں آئے اور روزِ اول سے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کردیا۔ اس ساری کارروائی میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جنھیں عوام نے انتخابات میں بُری طرح مسترد کردیا تھا۔ ان سب کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت کو تحلیل کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔
۲۰۱۳ء انقلابِ یاسمین کے لیے آزمایشوں سے بھر پور سال رہا۔حکومت کی برطرفی اور نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ کامیاب نہ ہوا تومخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ملک میں قتل وغارت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست مزید تیز کردی گئی۔اپوزیشن کے ایک رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے حکومت کو اس کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ چنانچہ پُر تشدد مظاہروںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی برطرفی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر زور پکڑ گیا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے پاؤں بھی لرزنا شروع ہوگئے اوردستور سازی کا عمل رک گیا۔ ایسے میں تحریک نہضت نے تاریخ کی انوکھی قربانی دی اورپارلیمنٹ میںسب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری کا اعلان کیا اور حکومت ایک غیرجانب دار فردکے حوالے کردی۔
حالات نسبتاً معمول پر آئے تو دستور سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ حکومت جلد سے جلد ملک کو ایک نیا آئین دے کر عام انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن سازشوں کے تانے بانے بُننے والے اپنے مذموم مقاصد سے بازنہ آئے ۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اور اپوزیشن رہنما محمد البراہیمی کو قتل کردیا گیا۔ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا نے ایک دفعہ پھر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ امن وامان کی صورت حال بگڑ گئی اور حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطابہ زور پکڑ گیا۔
یہی دن تھے جب مصر میں جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کردیاگیا۔ تیونس کے ناکام سیاست دان یہاں اسی تجربے کو دہرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حکومتی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ تحریکِ نہضت نے پارلیمنٹ کی بھر پور تائید کے باوجود ایک دفعہ پھر کمالِ حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور باقی تمام وزارتیںبھی چھوڑدیں۔ملک میں غیر جانب دار ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لیے مہدی جمعہ کو وزارتِ عظمی کا قلم دان سونپ دیا۔یوں مخالفین کے منہ بند ہوئے اور سازشی عناصر کواپنے مذموم ارادوںمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی نے دستور سازی کا عمل جاری رکھااور آخر کارجنوری ۲۰۱۴ء میںیہ صبر آزما مرحلہ مکمل ہوگیا۔
جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء کو قومی اسمبلی نے نئے دستورپر شق وارتفصیلی بحث کی جس کے بعدارکان اسمبلی نے اس کی بنیادی منظوری دے دی۔ ۲۶ جنوری کو حتمی منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا گیااورصرف ۱۲؍ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔یہ ۱۹۵۹ء کے بعد ملک کا پہلا جمہوری آئین ہے۔
نئے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین، عربی کواس کی زبان اور جمہوریت کو اس کا نظام قرار دیاگیا ہے، جب کہ شہریوںکو بشمول مذہبی آزادی، ہر قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ۔نئے دستور کی رو سے فوج کے کردار کو واضح طور پر متعین کیا گیا ہے جو ملکی دفاع ،قانون کی پاس داری اور سیاست سے مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے پر مبنی ہے۔موجودہ حالات میں یہ ایک متوازن دستور ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک سیکولر آئین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس میںقانون کو شریعت کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ تیونس کی ۶۰ سالہ تاریخ اور اس سے پہلے ۷۵ سالہ استعماری دور سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سر پر اسکارف لینے والی خاتون کے کسی بھی سرکاری دفتر، کالج اور یونی ورسٹی میںداخلے پر پابندی ہواور جہاں نوجوان مسجد میں نماز پڑھیں تو انھیں غائب کر دیا جائے، جہاں پر داڑھی رکھنا معیوب ہی نہیں جرم سمجھا جاتا ہواور جہاں اسلام پسندی کی سزا کال کوٹھریاں ہوں اور جہاں ۶۰ سال سے قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہو، وہاں آزادی کے پہلے مرحلے میں اس سے مناسب اور متواز ن آئین لانا شاید سر دست ممکن ہی نہ ہو۔
اس تاریخی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے مشاورت کر رہی ہے جو ملک میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت تمام تر چیلنجوں کے باوجود اس مرحلے کو بھی طے کر لے گی۔
بیرونی اور اندرونی سازشیںمسلسل جاری رہیں۔مختلف حربے استعمال کیے گئے، کئی ایک دینی جماعتوں کو بھی استعمال کیا گیا، متشدد گروہوں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کی کئی ایک کارروائیاں بھی کر ڈالیں،لیکن اسلامی تحریک ثابت قدم رہی اور دُوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر یہ سارے مراحل طے کر لیے۔ اس پورے عرصے میں فوج غیر جانب دار رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک میں کامیابی کا یہ سفر کہاں تک جاری رہتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:
میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:
وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:
بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔
وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ ایک انتہائی ادھورا اور آمرانہ دستور ہے جس پر ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ء کو جعلی ریفرنڈم کروا کے عوام کے گلے ڈال دیا جائے گا۔ دستور کسی بھی ریاستی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مصر کا مجوزہ دستور یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جو اسمبلی قانون سازی کرے گی وہ کیسے منتخب ہوگی، کب منتخب ہوگی؟ وزیراعظم کیسے اور کب منتخب ہوگا؟ ملک کے معروف اور بزرگ قانون دان ڈاکٹر طارق البشری، جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے کے بقول: ’’یہ اس بچے کا نکاح پڑھا یا جارہا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ حکومتی پراپیگنڈا اسی غیر مولود دستور کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے۔
صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں مصر کو پہلا جمہوری دستور نصیب ہوا تھا۔ ۶۱سالہ فوجی آمریت اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے زیرسایہ بادشاہت خود ہی قانون بھی تھی اور دستور بھی۔ صدر مرسی کے دور میں ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ سے ۱۰۰ رکنی دستور ساز کونسل منتخب کی گئی۔ مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی، اسلامی ہی نہیں سیکولر ماہرین قانون بھی اس کونسل کا حصہ تھے۔ طویل مشاورت اور ایک ایک شق کی کئی کئی بار خواندگی کے بعد اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدا میں اس پر کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی بالآخر اس میں بھرپور حصہ لیا۔ مکمل طور پر شفاف ووٹنگ میں ۶۷ فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ۶۴ فی صد عوام نے ہاں کہا اور ملک کو ایسا دستور مل گیا، جسے عوام کے حقیقی نمایندوں نے تیار کیا تھا۔ یہ پہلا دستور تھا جس کے بنوانے والے صدر نے اپنے اختیارات میں اضافہ نہیں کمی کی تھی۔ خود کو پارلیمنٹ ہی کا نہیں وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں کا بھی پابند بنایا تھا، تاکہ آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مصر کے اس حقیقی دستور کی شق ۱۴۱ واضح طور پر بیان کرتی ہے: ’’صدر جمہوریہ اپنے اختیارات، وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کے ذریعے سنبھالے گا‘‘۔ دفاع، خارجہ اور قومی سلامتی کے بعض اُمور، دیگر کئی شقوں کے پابند بناتے ہوئے مستثنیٰ بھی رکھے گئے تھے، لیکن ان کی مجموعی اور اصل روح یہی تھی کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا صدر بھی جواب دہ اور تقسیمِ کار کا پابند بنایا جاسکے۔
اس دستور میں ترمیم کے لیے بھی ایک کڑا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ کسی ڈکٹیٹر کے لیے اسے موم کی ناک بنانا ممکن نہ ہوسکے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۷اور۱۱۸ کے مطابق دستوری ترمیم کے لیے صدر جمہوریہ یا قومی اسمبلی کے ۵/۱ ارکان ترمیم پیش کرسکتے تھے۔ ۳۰ روز کے اندر اندر، قومی اسمبلی اور سینیٹ الگ الگ کثرت راے کے ذریعے، اسے بحث کے لیے منظور یا مسترد کرسکتی تھی۔ اس کے بعد دونوں ایوان ۶۰ دن کے اندر اندر بحث کرکے دو تہائی ووٹوں سے اسے منظور کرتے تو ۳۰روز کے اندر اندر اس پر عام ریفرنڈم کرواکے منظور یا مسترد کیا جاسکتا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ جنرل کی وردی میں ایک لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم پورے دستور کو معطل کردیا۔ اسے ایک خود ساختہ ۵۰رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا، جس نے پانچ ماہ میں ترمیم کے نام پر، ایک نیا دستور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، جو ۱۴ اور ۱۵جنوری کو ریفرنڈم کے ذریعے ملک پر تھوپ دیا جائے گا۔
یہ ایک ایسا دستور ہے جس میں اصل اختیارات فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کے ہاتھ میں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع بھی جنرل عبد الفتاح سیسی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی وہی ہیں۔صدر مملکت یا پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی وہ دوام و اختیارات نہیں رکھتا جو وزیر دفاع صاحب رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے یا مدت صدارت ختم ہوجانے پر بھی وزیر دفاع کا عہدہ برقرا رہے گا۔ اس کی تعیناتی بھی حکومت یا صدر جمہوریہ نہیں، فوج خود ہی کرے گی۔ حالیہ مسودے کی شق ۲۳۴ کہتی ہے ’’وزیر دفاع کا تعین مسلح افواج کی سپریم کونسل کی منظوری سے کیا جائے گا اور اس کایہ عہدہ دو مکمل صدارتی مدتوں کے لیے ہوگا‘‘۔ یعنی سربراہ ریاست تمام سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ تو ایک آئینی مدت مکمل ہونے پر ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے، جب کہ وزیر دفاع صاحب وہی رہیں گے۔ یہ سوال بھی بلا جواب ہے کہ اگر بالفرض کوئی صدر صاحب اپنی دو مدتیں مکمل نہ کرپائیں، یا انھیں پوری نہ کرنے دی جائیں تو کیا وزیر دفاع کی مدت از سرِ نو شروع ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ پھر ’’شیر کی مرضی ہوگی، انڈا دے یا بچہ دے‘‘۔ نئے دستور کے مطابق فوج کے لیے الگ فوجی عدالت قائم کی گئی ہے لیکن اس میں عام شہریوں پر بھی مقدمات چلائے جاسکیں گے، جب کہ فوج پر جو قوم ہی کا حصہ ہوتی ہے، کسی عام عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔ فوج کے بار ے میں کوئی قانون سازی یا فوجی بجٹ کی منظوری و بحث بھی پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ نہیں، قومی دفاعی کونسل ہی کرسکے گی جو چھے سو یلین (صدر مملکت سمیت) اور آٹھ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوگی۔
مصر کے حقیقی اور اصل دستور میں ملک و قوم کی دینی و نظریاتی شناخت کی حفاظت اور تمام قوانین کو دائرۂ شریعت میں محفوظ کرنے کا محکم انتظام تھا۔ حالیہ مسودے میں اس طرح کی تمام شقیں ہی نہیں، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تمام شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں توہین رب العالمین اور توہین رسالت کی سزا بھی حذف کردی گئی ہے۔ شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے جامعۃ الازہر کی سپریم علما کونسل کو دستوری حق دیا گیا تھا۔ اب شریعت کی وضاحت بھی دستوری عدالت کرے گی۔ جی ہاں، وہی دستوری عدالت جس نے ہر قدم پر صدر مرسی کی راہ میں روڑے اٹکائے، جس نے نو منتخب قومی اسمبلی چند ہفتے بعد ہی تحلیل کر دی اور جو سینیٹ تحلیل کرنے جارہی تھی۔ جس کے ججوں کی اکثریت واضح طور پر سیکولر بلکہ دین دشمن افراد پر مشتمل ہے۔ مساوات مردوزن کے حوالے سے ایسی ملفوف عبارت لکھی گئی ہے جس سے وراثت میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر قرار پائے گا۔ نئے دستور میں قرآن کریم، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تو کوئی ایک سطر یا جملہ بھی نہیں درج ہونے دیا گیا، لیکن قبطی مسیحی پیشوا ’ شنودہ‘ کا معروف جملہ اصل متن کے ساتھ دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ: ’’مصرہمارا وطن ہے ہم اس میں بستے ہیں اور وہ ہم میں رہتا ہے‘‘۔ اصل دستور میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کا ذکر تھا، اسے بھی حذف کردیا گیا ہے۔ ایک شق میں کہا گیا تھا کہ ’’بچوں کی صحت اور تعلیم کے علاوہ دینی تعلیمات اور قومی روایات کی روشنی میں ان کی تربیت ریاست اور معاشرے کی مشترک ذمہ داری ہوگی‘‘۔ گویا اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ ماحول کی فراہمی حکومت اور معاشرے کا دستوری تقاضا ٹھیری تھی۔ اب اسے حذف کردیا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال کے اندر اندر پانچ انتخابات میں مصری عوام نے اخوان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی عام انتخابات کے ان تمام نتائج کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں نے روند ڈالا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو سند جواز بخشنے کے لیے ۳۰ جون کو فوج اور سیکورٹی اداروں کی زیرسرپرستی میدان التحریر میںایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جنرل سیسی نے اسی عوامی مظاہرے کو اپنے قبیح جرائم کی بنیاد بنایا تھا۔ اب دستور میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ صدر جمہوریہ کو ہٹانے کے کسی عوامی مظاہرے یا جلسے جلوس کو وجۂ جواز نہیں بنایا جاسکے گا۔ بھلا اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ جنرل صاحب کو تو کسی قانون یا اخلاق کیا پورے پورے دستور کی بھی پروا نہیں، یہ نئی دستوری شق بھی ان کے ارادوںمیں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن دوسروں کے لیے وہ سب کچھ حرام ہے جو ہمارے لیے حلال تھا۔ ویسے اگر وہ سمجھ سکیںتو یہ تازہ شق کھلم کھلا اعترافِ جرم بھی ہے کہ ہم نے ۳۰ جون کو جو کچھ کیا، وہ باطل تھا۔ اس لیے اب دستور میں اسے باقاعدہ باطل قرار دے رہے ہیں۔ انسان اگر اپنی ڈاکا زنی کا اعتراف کرلے تو اس کی تلافی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس نے جو کچھ لُوٹا اور غصب کیا تھا وہ واپس کردے۔ لیکن اس اعتراف اور اس عظمت کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہے۔
دستور تازہ کے بارے میںآخری اور اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی پسند پر مبنی اس ۵۰رکنی کمیٹی میں سے صرف پانچ افراد پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقی ۴۵ میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا منشیات استعمال کرتے ہیں، یا کورے جاہل ہیں یا پورے ملک میں واضح طور پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ عمرو موسیٰ تھے جو طویل عرصے تک حسنی مبارک کے وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ خط کا یہ عنوان بھی اس کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہے۔
اخوان ہی نہیں آغاز میں فوجی انقلاب کا ساتھ دینے والے کئی اخوان مخالف گروہ اس مضحکہ خیز دستوری تماشے کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ کرنل جمال ناصر ، کرنل انور سادات اور ایئرکموڈور حسنی مبارک کے دور میں بھی کئی بار فوجی سنگینوں تلے ریفرنڈم ہوئے۔ پانچ بار ہونے والے ہر فوجی ریفرنڈم میں ۹۹ فی صد عوام کی ہاں والا نتیجہ برآمد ہوا۔ اب بھی اسی طرح کے نتائج کا پوراپورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے تناسب کچھ کم دکھایا جائے، کیونکہ صدرمرسی کے جمہوری دور میں ہونے والے اکلوتے ریفرنڈم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ووٹ ڈالے گئے، تب بھی ووٹوں کاتناسب ۷ء۶۶ فی صد ہوسکا تھا۔ آیندہ دستوری ریفرنڈم میں مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ سٹیشن پر ہی کرنے کے بجاے، بیلٹ باکس الیکشن کمیشن لے جائیں گے اور وہاں ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِل‘‘ کی مثال تازہ کی جائے گی۔ ریفرنڈم کے لیے ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی تاریخیں رکھی گئی ہیں۔ میدان رابعہ میں ۱۴؍ اگست کو قیامت صغریٰ برپا کرنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یہ دستوری نمک پاشی کسی طور فوجی حکمرانوں کے حق میں نہیں جائے گی، لیکن جب حماقت ہونا ہو، تو قدرت اسی طرح مت مار دیتی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور سنگین حماقت اخوان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ جنرل سیسی کے متعین کردہ وزیراعظم حازم السیلاوی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا: ’’اخوان کو دہشت گرد قرار دینا کابینہ کا کام نہیں۔ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اگر ایسا ہونا بھی ہے تو یہ کام عدالتوں کے ذریعے ہوگا وگرنہ ہم ایک بے قانون ریاست شمار ہوں گے‘‘۔ پھر اچانک دقہلیہ شہر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکا کروایا گیا اور اسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ نے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ۱۰۵۵؍ رفاہی اداروں پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ منجمد کردیے حالانکہ ان سب کا تعلق اخوان سے نہیں ہے۔ اس فیصلے سے گویا لاکھوں غریب اور محتاج موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارہ ۵لاکھ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کر رہا تھا۔
اسکندریہ یونی ورسٹی میں فزکس کی لائق ترین طالبہ ’’روضہ شلبی‘‘ بھی انھی سزا یافتہ پھولوں میں شامل تھی۔ اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ میں نے سزاؤں کے اعلان کے بعد روضہ کو عدالتی پنجرے میں ہنستے ہوئے دیکھا تو سمجھی کہ میری معصوم بیٹی کو شاید معلوم ہی نہیںہوسکا کہ کتنی خوف ناک سزا سنادی گئی ہے۔ رہائی کے بعد میںنے پوچھا: روضہ! کیا تمھیں پتا تھا کہ جج نے کتنی سزا سنادی ہے؟ ہاں، امی معلوم تھا۔ تو پھر ہنس کیوں رہی تھیں؟ امی بس عدالت اور پولیس کے سامنے بے اختیار ہنس دی۔ مجھے محسوس ہوا ہنسی میرے دل سے نکل رہی ہے کیونکہ اس سے دل کا سارا بوجھ اُترگیا۔ یہ یقین بھی مزید مضبوط ہوگیاکہ اللہ کا ارادہ ان سب پر غالب ہوگا ،ان شاء اللہ۔ لیکن امی جیل میںتنہا ہو ئی تو، آنسوؤں کا دھارا بے اختیار بہہ نکلا تھا۔ مجھے اپنے ملک میں ظلم کی انتہا پر رونا آیا کہ یہ مظالم کب تک اور کیوں کر ہوتے رہیں گے‘‘!
رب کی رحمت و قدرت، جلادوں کی خواہش پر غالب آئی اور سیسی حکومت منہ کالا کروانے اور عوامی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کرپائی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوبارہ کوئی حرکت کی تو پھر گرفتار کرلیں گے اور آیندہ کوئی معافی نہیں ملے گی۔ جیل سے رہائی پاتے ہی سب معصوم بچیوں نے گروپ کی صورت میں چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بناتے ہوئے باآواز بلند اعلان کیا ہم نے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے تھے، آیندہ بھی ہمیںاس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بچی نے کہا: لَسْنَا نَادِمَاتٍ وَلَا خَائِفَاتِ لِأَنَّنَا عَلَی الْحَقِّ وَسَنَنْتَصِرْ فِي الْاَخِیْر اِنْ شَائَ اللّٰہِ، ’’ہم نہ تو نادم ہیں نہ خوف زدہ کیوں کہ ہم حق پر ہیں اور نصرت بالآخر ہمیں ہی ملنا ہے‘‘۔
امریکا اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا معاہد ہ بنیادی طور پر مئی ۲۰۱۲ئمیں ان دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے تزویراتی معاہدے کا تسلسل اور چربہ ہے جس میں زیادہ تر زور امریکا کی افغانستان میں فوجی موجودگی اور اگلے ۱۰سال تک افغانستان کے اندرونی اور بیرونی حالات پر اثرانداز ہونے پر دیا گیا ہے ۔ اس دو طرفہ سیکیورٹی کے معاہدے کے مندرجات پر شق وارجائزے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کے تحفظ اور اس خطے میں آیندہ برسوں میں امریکی عزائم کی نشان دہی کرتا ہے، نیز جس طرح سے افغانستان کی خودمختاری اور مفادات کو مجروح کیا گیا ہے وہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو یہ آیندہ برسوں میں خطے میں ایک نئی جنگ، خوں ریزی اور فساد کا سبب بنے گا۔ ذیل میں معاہدے کا شق وار جائزہ پیش ہے۔
یہ معاہد ہ۲۶ آرٹیکلز(شقوں) پر مشتمل ہے ۔اس کے ابتدایئے میں امریکا اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دیگر نکات میں اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس معاہدے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مئی ۲۰۱۲ء میں طے پانے والے تزویراتی شراکتی معاہدے کے تسلسل میں طے کیا گیا ہے۔ نیز یہ معاہدہ امریکا اور افغانستان کے درمیان دیر پا امن ، حفاظت ، استحکام اور ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد پر طے پایا ہے جس کا مقصد افغانستان کی سماجی ترقی اور علاقائی تعاون کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہے ۔ یہ معاہدہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوگا۔ اس معاہدے کے پہلے آرٹیکل میں معاہدے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے ۔ آرٹیکل (۲)میں اس معاہدے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان اغراض و مقاصد کے مطابق فریقین بہتر تعاون کے ذریعے امن و استحکام اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ طور پر بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے کام کریں گے ۔ آرٹیکل(۲ )کی ذیلی شق (۴) میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کی شکست دونوں فریقوں کا مشترکہ ہد ف ہوگا۔
امریکا ایک نہیں کئی بار اس بات کا فخر یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس نے افغانستان سے القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کا صفایا کر دیا ہے ۔ اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما اپنی کئی نشریاتی تقریروں میں امریکی عوام کو افغان جنگ میں کامیابی اور وہاں سے القاعدہ کے خاتمے کی نوید سنا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان سے القاعدہ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر اگلے ۱۰برسوں تک افغانستان میں کون سی القاعدہ کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کرنا چاہتا ہے ۔ اس شق سے امریکی عزائم کا صاف پتا چلتا ہے کہ القاعدہ محض بہانہ ہے۔ امریکا کا اصل ہدف کچھ اور ہے۔
اس معاہدے کے آرٹیکل(۳) میں قوانین کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ جس کی ذیلی شق (۱)میںکہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے داروں پر افغان آئین اور قوانین کی پابندی لازمی ہو گی ۔آرٹیکل (۳) کی ذیلی شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے دونوں فریق افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھیں گے۔ ان شقوں سے متعلق یہ سوال ہر افغانی کی زبان پر ہے کہ کیا امریکا نے اب تک کسی بھی موقع پر افغانستان کے آئین اور خودمختاری، نیز بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے، جو وہ اب ان کی پابندی کرے گا۔ کیا امریکا اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں اب تک ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان شہری جن میں کم سن بچے ، خواتین اور بزرگ شامل ہیں امریکی بمباری اور ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔مساجد ، مدارس، حتیٰ کہ بارات اور جنازے بھی امریکی درندگی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رہے ۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغانستان میں اگلے ۱۰ سال تک متعین ہونے والی ہزاروں امریکی افواج کے ہاتھوں عام افغانیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ رہے گا۔
زیر بحث امریکی افغان دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا آرٹیکل( ۴)، افغان افواج اور سیکیورٹی فورسز کی استعداد کاری اور ان کی تربیت اور ترقی سے متعلق ہے ۔یہ اس معاہدے کا سب سے طویل اور بصراحت بیان ہونے والا حصہ ہے جس میں زیادہ تر زور افغان نیشنل آرمی جسے امریکا گذشتہ کئی برسوں سے تیار کرنے میں مصروف ہے کی تربیت اور اس کی عسکری وحربی صلاحیتوں کے فروغ پردیا گیا ہے ۔ امریکا کی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کی اصل حقیقت آئے روز پوری دنیا پر ان خبروں کے منظر عام پر آنے کی صورت میں عیاں ہوتی رہتی ہے کہ آج فلاح مقام پر اتنے افغان فوجی طالبان سے آملے ہیں اور آج فلاں محاذ پر افغا ن فوجیوں نے امریکی حکام کا حکم ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ اسی طرح یہ خبریں بھی کئی دفعہ منظر عام پر آچکی ہیں کہ کسی افغان فوجی کے ہاتھوں اتنے امریکی جہنم واصل ہوئے ۔ باگرام ، قندہار ، گردیز ،جلال آباد اور ہلمند میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں افغان فوجی اہل کاروں کے ہاتھوں امریکی افواج پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں ا س بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج امریکا کے زیر تربیت افغا ن فوجی کل کو امریکا کے مکمل انخلا کی صورت میں طالبان اور حزب اسلامی کے منظم اور تربیت یافتہ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سر شار مجاہد ین کے سامنے ٹک سکیں گے ۔
اس معاہدے کا آرٹیکل (۶) بیرونی جارحیت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۱) میں افغانستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی اطراف سے حملہ آورمسلح افراد کی شورش کو قرار دیا گیا ہے جسے افغانستان کی سیاسی اور علاقائی سا لمیت کے لیے سب سے بڑے چیلنج سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ یہی وہ شق ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر صدر حامد کرزئی کو سب سے زیادہ اختلا ف ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صدر حامد کرزئی اس شق میں افغانستان کے خلاف برا ہ راست مداخلت یا مسلح شورش کے ساتھ ساتھ افغانستان کے خلاف بیرونی سرزمینوں سے افغانستان میں لڑی جانے والی پراکسی جنگوں میں مبینہ طور پر ملوث افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کو بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کے زمرے میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بعض رپورٹس کے مطابق حامد کرزئی اس شق کی امریکی افغان معاہدے میں شمولیت کی آڑ میں نام لیے بغیر، جب کہ بعض رپورٹس کے مطابق نام لے کر پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کو نشان ز د کرنا چاہتے ہیں ۔ گو حامد کرزئی کی یہ خواہش تو ان کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوئی لیکن وہ اس معاہدے پر اب تک دستخط نہ کر کے ہر ممکن طور پر اپنی بات منوانے کے لیے امریکا پر دبائو ڈال رہے ہیں۔
زیر بحث معاہدے کے آرٹیکل (۷)میں سہولیات اور استعمال ہونے والے علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۳)میں بصراحت کہا گیا ہے کہ افغان حکومت امریکی افواج کو متفقہ سہولیات اور علاقوں کے استعمال کا حق دیتی ہے ۔ ان مخصوص علاقوں میں امریکا کا اپنا حفاظتی انتظام ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ مقامات معاہدے کی حدتک تو افغان سرزمین پر واقع ہوں گے لیکن عملاً یہاں امریکیوں کا راج ہوگا اور یہاں کسی افغانی باشندے کو تو کجا پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ امریکا کی نظر میں افغانستان کی خود مختاری کا اندازہ اس شق میں ان الفاظ سے ہوتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اگر چاہے تو پیشگی درخواست کے ذریعے ان مخصوص علاقوں کا معائنہ کرسکتی ہے، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقۂ کار کا پور ا پورا احترام کرے گی ۔ گویا افغان حکومت کسی بھی شکایت کی صورت میں امریکا کے زیر استعمال کسی بھی افغان علاقے کے معائنے کے لیے نہ صرف امریکا سے پیشگی درخواست کی پابند ہو گی بلکہ اسے امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقہ کار کا بھی پور ا پورا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ اس شرط کی توثیق کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتاہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھا گیا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔
آرٹیکل(۷)کی ذیلی شق (۶) میں یہ مضحکہ خیز بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امریکی افواج افغانستان کی ماحولیاتی اور صحت سے متعلق اصولوں کا احترام کریں گی ۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت کا سر شرم سے جھکا دینے والے انسانیت سوز مظالم کے تناظر میں امریکا کا اس دو طرفہ معاہدے میں صحت اور ماحول سے متعلق شق کے شامل کرنے کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے اور ویت نام ، کو ریا ، عراق اور افغانستان میں کیمیائی ہتھیارو ں کے ساتھ ساتھ نیپام اور ڈیزی کٹر بموں کے بے دریغ استعمال کے بعد امریکا کا افغانستان میں اپنے اگلے ۱۰ سالہ قیام کے دوران وہاں کے ماحول اور صحت کے اصولوں کا پاس رکھنے کا وعدہ دنیا کی آنکھوں میں دھول کے بجاے ریت اور بجری جھونکنے کے مترادف ہے ۔
امریکا افغان سیکیورٹی معاہدے کا ایک اور مضحکہ خیز آرٹیکل (۸)ہے جس کے ذیلی شق (۳) میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین پر امریکی افواج ا س کے ٹھیکے داروں کی خریدی ہوئی ، درآمد کی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ تنصیبات کی ملکیت امریکا کی ہوگی۔ ان تنصیبات کی کسی بھی ممکنہ انتقال کے لیے امریکی قوانین کو مدنظر رکھا جائے گا، یعنی امریکا کے زیر استعمال ہر طرح کی تنصیبات بشمول زیر استعمال اڈوں پر حق ملکیت امریکا کا ہوگا اور اگر امریکا ان تنصیبات کو کہیں اور منتقل کرنا چاہے گاتو وہ ایسا افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت کر سکے گا۔ گویا افغان سرزمین پر افغان قانون کے بجاے امریکی قوانین لاگو ہوں گے جو امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کی خودمختاری کے دعوے کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے ۔ آرٹیکل (۹)جو آلات اور اشیا کی سٹوریج کے بارے میںہے کی ذیلی شق (۳)میں یہ خوش کن نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکا اپنے کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار افغان سرزمین پر ذخیرہ نہیں کرے گا۔ یہ شق اور جملہ اپنے معنی کے اعتبار سے تو بہت خوشنما نظر آتا ہے لیکن امریکی طینت اور اپنے مفادت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی اس کی روش اور تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا کون امریکا سے یہ پوچھ سکے گا کہ اس نے افغانستا ن میں اپنے درجن بھر اڈے یہاں سبزیاں اُگانے کے لیے حاصل کیے ہیں اور یہاں جمع شدہ مہلک ترین اسلحہ اور گولہ بارود کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی مواد سے پاک ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں موجود امریکا کے خطرناک ہتھیار وں اور بلسٹک میزائلوں سے لیس بحری جہا ز ، ایٹمی آبدوزیں اور زمینی اڈے امریکا نے کس بین الاقوامی قوانین کے تحت بنا رکھے ہیں۔ اس کا جواب امریکا بہادر خود ہی د ے سکتا ہے، باقی دنیا اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں فی الحال یقینا نہیں ہے ۔
آرٹیکل( ۱۰)گاڑیوں اور جہازوں کے نقل و حرکت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی شق (۱) میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے فوجی اور سول جہازوں کو افغانستان کی فضائی حدود میں پرواز ،لینڈنگ، افواج کی نقل و حمل اور فضا میں ری فیولنگ کی مکمل اجازت ہو گی ۔نیز فضائی حدود کے استعمال اور جہازوں کی پارکنگ کے لیے امریکا کسی بھی قسم کے ٹیکس یا اخراجات ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگا ۔اس آرٹیکل میں یہ قابل شرم نکات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ امریکی جہاز ،کشتیوں اور گاڑیوں کو افغانستان میں داخل ہونے ،نقل و حرکت کرنے اور افغانستان سے بلاروک ٹوک اور بلا پوچھ گچھ نکلنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔اس آرٹیکل کی ذیلی شق(۴)میں افغانستان کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام امریکی جہاز ،کشتیاں اور گاڑیاں افغان حکام کے معائنے سے مستثنیٰ ہوں گے ۔ امریکی افواج کو افغانستان میں داخلے، وہاں نقل وحرکت اور بلاروک ٹوک نکلنے کی اجازت، نیز امریکی گاڑیاں اور جہازوں کے معائنے کی اجازت افغان حکام کے پاس نہ ہونے کے باوجود جو لوگ اس معاہدے کو دو طرفہ معاہدہ قرار دے رہے ہیں، ان شقوں کی موجودگی میں ان کا دعویٰ خودفریبی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
آرٹیکل( ۱۱)میں ٹھیکے داروں سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ اس آرٹیکل کی شق(۱) میں کہا گیا ہے کہ زیر استعمال علاقوں میں تعمیرات اور دیگر کاموں کے ٹھیکے امریکی خریداری قوانین کے تحت دیے جائیں گے ۔ امریکی خریداری قوانین کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ حد تک افغان اشیا کی خریداری کو ترجیح دی جائے گی ۔ شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ ٹھیکے دار امریکا کے ساتھ لین دین کے وقت دیگر افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے، یعنی تعمیرات اور دیگر کاموں کے سلسلے میں ٹھیکے افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت دیے جائیں گے، جب کہ ان ٹھیکوں کی مد میں امریکی ٹھیکے دار ہرطرح کے افغان ٹیکسوں سے بھی مبرا ہوں گے۔ گویا ان تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سے افغانستان کے عوام کو رتی برابر بھی فائد ہ نہیں ہوگا بلکہ ان کا تمام تر فائدہ امریکی کمپنیوں اور خود امریکی حکومت اور بالواسطہ طور پر امریکی عوام کو ہوگا۔
مواصلات اور دیگر سہولیات کے عنوان کے تحت آرٹیکل (۱۲)میں امریکا کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ امریکا افغانستا ن میں مواصلات کا اپنا نیٹ ورک نہ صرف بنا سکے گا بلکہ اسے اس کے استعمال کا بھی بلا روک ٹوک اور بلا شرکت غیرے حق حاصل ہوگا۔ نیز مواصلاتی نیٹ ورک بنانے کے لیے اسے افغان سرزمین مفت استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوگی ۔ افغان فضا اور زمین کو اپنے مواصلاتی تصرف میں لانے کی امریکا کو اس شق کے ذریعے نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی ہے بلکہ یہ چھوٹ اسے پلیٹ میں رکھ کر مفت بھی پیش کی گئی ہے جو افغانستان کی خود مختاری کے دعوے کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق ہے ۔
آرٹیکل (۱۳)جو کہ اہل کاروں کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے، میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہل کاروں کے خلاف ا نضباطی کاروائیوں کا مکمل اختیار صرف امریکا کے پاس ہوگا۔ اگر کسی امریکی اہل کار سے افغان سرزمین پر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو امریکا متعلقہ قوانین کی روشنی میں خود اس کا ٹرائل کرے گا۔ افغان حکام کی طرف سے کسی بھی امریکی اہل کار کی گرفتاری کی صورت میں متعلقہ سویلین یا فوجی کو امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا، جب کہ معاہدے کے اس آرٹیکل کے تحت افغانستان اور امریکا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی یا سویلین کو کسی بھی بین الاقوامی عدالت ، ادارے یا تنظیم کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام شرائط کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کے مفادات کا خیال بھی رکھا گیا ہے اور امریکا نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان کی خود مختاری کو تسلیم کیا ہے تو ایسا کہنے والے کو اپنی عقل کا علاج کرالینا چاہیے، کیونکہ ان شقوں کی موجودگی میں امریکی فوجی اہل کار اپنے آپ کو نہ صرف ہرطرح کی قانونی گرفت سے مبرا سمجھیں گے بلکہ ایسی صورت میںان کے ہاتھوں افغان شہریوں کے ساتھ امتیازی اور انتقامی سلوک روز مرہ کا معمول ہوگا۔
آرٹیکل (۱۵)میں افغانستان میں امریکی اہل کاروں کے دخول اور خروج کے حوالے سے شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ اس آرٹیکل کے تحت امریکی اہل کار کسی بھی وقت افغانستان میں داخل اور خارج ہو سکتے ہیں۔ ایساکرتے وقت انھیں کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نیز امریکی اہل کار افغانستان میں غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن قوانین سے بھی مستثنیٰ ہوں گے ۔ ویزے اور پاسپورٹ اور غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کی شرائط ساقط کر کے امریکا واضح طور پر افغانستان کو اپنی باقاعدہ کالونی ڈکلیئر کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ بعض لوگ اس شق کی روشنی میں افغانستان کو امریکا کی ۵۳ویں ریاست بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ایسا اس لیے نہیں ہے کیونکہ امریکا اس نام نہاد دوطرفہ معاہدے کے ذریعے افغانستان پر تو اپنا حق تسلط تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن اس کے بدلے میں نہ تو افغان سرزمین اور نہ ہی افغان عوام کو رتی برابر بھی کوئی اہمیت دی گئی ہے ۔
آرٹیکل (۱۶)میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی استعمال کے لیے برآمد یا درآمد ہونے والی اشیا ہر قسم کے معائنے اور پابندی سے مبرا ہوں گی۔ یعنی امریکا کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ افغانستان میں جو بھی اشیا برآمد یا درآمد کرنا چاہے اس سے افغان حکام پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے اور اس حوالے سے امریکا کو کھلی آزادی ہوگی ۔ آرٹیکل (۱۷)میں ٹیکسیشن پر بحث کرتے ہوئے افغان سرزمین پر امریکی اہل کاروں کے استعمال کے لیے خریدی گئی تمام اشیا افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں ۔ اسی طرح امریکی افواج اور ٹھیکے دار بھی ہر طرح کے افغان ٹیکسوں کی ادایگی سے مبرا ہوں گے ۔ یعنی جو لوگ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کو اقتصادی نفع اور افغانوں کی اقتصادی حالت کے بہتر ہونے کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی یہ خوش فہمی اس شق سے دُور ہو جانی چاہیے کہ افغانستان میں ۱۰سالہ قیام کے دوران امریکا یہاں جتنے وسائل اپنے استعمال کے لیے لائے گا وہ ہر طرح کے ٹیکسوں سے آزادہوں گے اور ان کا ذرہ برابر فائدہ بھی افغانوں کو نہیں پہنچے گا۔
اس معاہدے کے آرٹیکل (۱۸)میں امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے دار وں، حتیٰ کہ ان کے ملازمین کوبھی جاری کیے گئے ڈرائیونگ ، ہواباز ی اور کشتی رانی کے لائسنس افغانستان میں موثر ہوں گے اور انھیں افغان لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ اسی طرح آرٹیکل (۱۹)میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ٹھیکے داروں کے زیر استعمال گاڑیاں افغانستان کی رجسٹریشن سے آزاد ہوں گی اور ان گاڑیوں کو امریکی رجسٹریشن پر پورے افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہو گی ۔ خدمات سے متعلق آرٹیکل ۲۰میں امریکیوں کو اپنی افواج کی سہولت کے لیے افغانستان میں اپنے بنک ، ڈاک خانے ، تفریحی مقامات اور نیوز چینل قائم کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے، جب کہ ان خدمات تک رسائی کے اصول و ضوابط پر امریکی قوانین لاگو ہوں گے۔ امریکا کو ان خدمات کی فراہمی کے لیے افغانستان سے کسی لائسنس لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ، نیز امریکی نظام ڈاک کے تحت بھیجے جانے والے تمام خطوط (ڈاک) معائنہ ،تلاشی اور ضبطی سے مستثنیٰ ہوں گے ۔
آرٹیکل( ۲۲)میں جایداد کے نقصان، مجروحین اور مقتولین کو زر تلافی کی ادایگی سے معاف تصور کیا جائے گا۔تنازعات کے ضمن میں آرٹیکل ۲۴میں قرار دیا گیا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی بھی مشکل پیش آنے کی صورت میں فریقین باہمی گفت و شنید سے فیصلے کریں گے اور ایسے مسائل کو کسی ثالث ، بین الاقوامی عدالت یا کسی اور فورم پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ یہ معاہدہ چونکہ دنیا کے دو طاقت ور ترین اور کمزور ترین ممالک کے درمیان طے پایا ہے لہٰذا آرٹیکل( ۲۴)میں ا س بات کو بہ صراحت شامل کر دیا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی زیادتی، دست اندازی اور ظلم و جبر پر افغانوں کے پاس سواے صبر و تحمل اور برداشت کے کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہوگا۔انھیں امریکی افواج کا تابع مہمل بن کر رہنا ہوگا۔ انھیں کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف داد رسی تو کجا، آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی ۔
زیر بحث معاہدے میں دو ضمیمہ جات بھی شامل ہیں۔ جسے آرٹیکل(۲۳)کے تحت اس معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ضمیمہ -۱،ان مقامات سے متعلق ہے جنھیں امریکی افواج استعمال کرسکیں گی ۔ یہ مقامات کا بل ، باگرام ،مزار شریف ،ہرات ،قندہار ، شور آب (ہلمند) گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ کے علاقوں پر مشتمل ہیں ، جب کہ ضمیمہ۲،میں آمدو رفت کے مقامات ظاہر کیے گئے ہیں ۔ ان مقامات میں باگرام ائر بیس ، کابل انٹر نیشنل ائیر پورٹ،قندہار ایئر بیس، شین ڈھنڈ ایئر بیس،ہرات انٹرنیشنل ایئر پورٹ ،مزار شریف ایئر پورٹ اور شورآب (ہلمند)کے علاوہ سپین بولدک(قندہار)، طورخم(ننگرہار) تورغنڈی (ہرات) حیرتان(بلخ) اور شیرخان بندر (کندوز) کے زمینی مقامات( سرحدی علاقے) بھی شامل ہیں ۔
یہ معاہدہ افغانستان کے لویہ جرگہ میں منظور کیا جاچکا ہے۔ اب صرف صدرکرزئی کے دستخط کی دیر ہے کہ یہ رُوبہ عمل آجائے گا۔ صدرکرزئی شرائط بہتر کرنے کے لیے تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بلکہ امریکا سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں ان کے بھائی عبدالقیوم کرزئی کی حمایت کرے۔
٭مضمون نگار کا ای میل پتا: alamgir_afridi@yahoo.com
مارچ۲۰۱۱ء سے ظالم بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کوپورے ایک ہزار دن مکمل کرلیے ۔پونے تین سال سے جاری اس خوں ریزی میں اب تک کم وبیش ڈیڑھ لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ ختم ہو، عوام کو آزادیاں اور سکھ کا سانس ملے اور پر امن طریقے سے اصلاحات لائی جائیں۔ بدقسمتی سے بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو قتل اور ملک کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ۳۰لاکھ سے زائد لوگ بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دیگر آزاد ذرائع نے بشار اور اس کی انتظامیہ کو شام میں تمام تر تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے شامی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قرار دیتے ہوئے بشار اور اس کے قریبی رفقا کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کردینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے شام عرب ممالک میں ساتواںبڑا ملک ہے ۔ اس کی ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کا ۹۰ فی صد عرب،۸ فی صدکُرد اور باقی دیگر قوموں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں غالب اکثریت اہل سنت کی ہے ۔ علوی ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقے ۱۰ سے۱۵ فی صد کے قریب اور باقی مسیحی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ شام افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی، لبنان ،مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، اُردن اور عراق کے ساتھ ملتی ہیں۔
حکومت کے خلاف مظاہروں کے شروع ہوتے ہی بشار نے اسے طاقت سے کچلنے کاآغاز کردیا تھا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پکڑ دھکڑ ہی نہیں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی گئی، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے رہایشی علاقوں کو گھیرلیا گیا،اور پھر جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری شروع کردی گئی۔ گھروں، سکولوں ، مسجدوں اور ہسپتالوںکو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پوری پوری عمارتوں کو مکینوں سمیت ملیامیٹ کردیااور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ زیادہ تر شہر خالی ہوگئے اور لوگ پُرامن علاقوں اور پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بشار کے مظالم نے پناہ گزین کیمپوںمیں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی بچوں اور خواتین کومیزائلوںاور فضائی حملوں کانشانہ بنا رہا ہے۔
ایک موقع پر عرب لیگ نے بھی خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں،ایک متفقہ قراردادکے ذریعے بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے اور اختیارات اپنے نائبین کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں یہی مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہرایا گیالیکن دونوں دفعہ روس اور چین نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کردی۔ سلامتی کونسل نے بہت تیر مارا تو ۱۴،اپریل ۲۰۱۲ء کو ایک اور قرارداد میں شام کی حکومت سے فوری جنگ بندی اور رہایشی علاقوں کی طرف فوج کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے مشترکہ طور پر کوفی عنان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھیجاتاکہ بشار حکومت کی جانب سے روارکھے گئے انسانیت سوز مظالم کو روکے ۔لیکن کوفی عنان کے مختصر دورے کے فوراً بعد نہتے مظاہرین اور بے گناہ شہری ایک دفعہ پھر ٹینکوں، توپوں اورفضائی بم باری کا سامنا کر رہے تھے۔
بشار انتظامیہ کی جانب سے رہایشی علاقوں پر بم باری کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں ،زیادہ تر علاقے خالی ہوچکے ہیں۔ شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کا رخ بھی کیا ۔اقوام متحدہ کے کمیشن براے مہاجرین کے مطابق یورپ نے شام سے پناہ لینے کے لیے آنے والوں کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا اور صرف ۱۰ یورپی ممالک نے ان کو پناہ دی۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے جس نے ۱۰ ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے والے شامی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ بیش تر لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہورہی اور وہ عملا قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شامیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں بھی پناہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی ہے ۔ تاہم فوجی حکومت کے نامناسب رویے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ گذشتہ دنوں مصر ی حکام نے کئی خاندانوں کو مصر سے بے دخل کردیا تھا۔مہاجرین کا سب سے زیادہ دباؤ لبنان پر ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساڑھے ۸ لاکھ مہاجرین سرحد عبور کرکے لبنان پہنچ چکے ہیں۔ ترکی اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں شامی مہاجرین کی حالت قدرے بہتر ہے جہاں حکومت کی سرپرستی کے باعث رفاہی اداروں کی رسائی اور امدادی کارروائیاں قدرے آسان ہیں۔
بشار کی وحشیانہ کارروائیوں اورجنگی جہازوں کی بم باری سے ۱۲ لاکھ گھر تباہ ہوچکے ہیں اور روز بروزاس میں اضافہ ہورہا ہے ہیں ۔ بڑی تعداد میںلوگ پڑوسی ممالک کے علاوہ ملک کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے براے بحالی مہاجرین کے مطابق اب تک ۶۵ لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مختلف کیمپوںاور دیگر مقامات میںزندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ UNHCR کے مطابق ان میں سے صرف ۴۶ ہزار لوگ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیںجوپانچ مختلف ممالک میں ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ باقی لوگ انتہائی پریشان کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقے سخت برف باری کی زد میں ہیں اور درجۂ حرارت منفی ۱۰ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ سخت سردی کی اس لہر میں خیموں کے اندر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
بشار انتظامیہ کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، بڑی تعداد میں فوجی افسران اور سپاہیوں نے بھی فوج سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔علیحدگی اختیار کرنے والے افسران اور مختلف تنظیموں نے مسلح گروپ تشکیل دیے ہیں۔سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل حسین ہرموش فوج سے الگ ہوئے جس نے ’الاحرار بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیااور فوج میں اپنے دوستوں سے اپیل کی کہ حکومت سے الگ ہوجائیں اور ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ بعد ازاں جیسے جیسے فوجی افسر بغاوت کرکے فوج سے نکلتے رہے،اپنا گروپ تشکیل دیتے رہے۔یہی نہیں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔ اس وقت مختلف ناموں سے دو درجن سے زائد جہادی تنظیمیں بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر چہ ان تنظیموں کے آپس میں اِکّا دکّا واقعات کے علاوہ کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع تو نہیں آئی ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں مسلح گروہوں کی تشکیل ہی دشمن کو تقویت اور اپنی اپوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر دشمن ممالک اور تخریبی ادارے بھی مجاہدین کے نام پر ایسے گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے جہاد اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیتی ہیں۔
بعض علاقوں میں مسلح گروہ ایک چھتری تلے جمع ہو گئے ہیںجیسے گذشتہ دنوں حلب میں تمام چھوٹی تنظیموں نے جبہۃ اسلامیہ کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا لیکن ملکی سطح پر تمام گروپوں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
زمینی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ شام کا ۹۰ فی صد سے زائد علاقہ بشار کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ حمص ، السویداء ، لاذقیہ اور درعا کے علاوہ تمام اضلاع مجاہدین کے کنٹرول میںہیں، جب کہ دارالحکومت دمشق کے بیش تر حصے پر بھی مجاہدین کا قبضہ ہے ، اور وہاںمجاہدین اور بشار انتظامیہ کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بشار چونکہ زمینی جنگ ہار چکا ہے اس لیے اب وہ صرف بم باری پر انحصار کر رہا ہے ۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے دارالحکومت میںشامی اپوزیشن قوتوںکے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت ایک چھتری تلے جمع ہوگئی۔ انقلابی طاقتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد نے عالمی برادری کی توجہ شام کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ شامی مجاہدین کی کوششوں کو بھی مربوط کرنے میںمدد دی ہے۔
۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی کا اقتدار سنبھالتے ہی اخوان کی آزمایش کا دور شروع ہو گیا تھا۔حافظ الاسد نے۱۹۷۱ء میں برسر اقتدار آکر اخوان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیااور قید وبند کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۸۰ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان کے ساتھ تعلق ثابت ہونے کی سزا پھانسی مقرر کردی گئی جو آج بھی باقی ہے۔اخوانی قیادت کی اکثریت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مارچ ۲۰۱۱ء میں بشار کے خلاف جدوجہد کے آغاز ہی سے اخوان پوری طاقت سے ایک مؤثر فریق کی حیثیت سے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔
امریکا اس پورے مسئلے میںنہایت عیاری سے تباہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی برادری کی تائید حاصل کرنے کے لیے ایک طرف وہ شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے زبانی وعدے کر رہا ہے اور دوسری طرف معاملے کو مزید طول دے کر عراق کے بعد ایک اور مسلمان ملک کو کمزور کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سرحدیں مضبوط ہوں اوروہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ بھی کھلم کھلابشار کا ساتھ دے کر اس خون ریزی میں شریک ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بشار کی حکومت اسرائیل کے سامنے بند کی حیثیت رکھتی ہے ،اس لیے ہم اسے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ،لیکن عملاًدیکھیں تو خود اسرائیلی انتظامیہ ، امریکا اور عالمی برادری سب بشار انتظامیہ کو باقی رکھنے پر مصر ہیں۔اگر ان دونوں فریقوں(ایران و حزب اللہ) اور (امریکا واسرائیل) میں سے کوئی ایک فریق بھی بشار انتظامیہ سے نجات کا فیصلہ کرلیتا تو یقینا بشار اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔
جیسے جیسے بشار الاسد اپنا قبضہ وتسلط کھوتا جارہا ہے اور امریکا واسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو بشار کے بعد خطے میں ان کے مفادات کا خیال رکھ سکے اور جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔
شام کے مسئلے کے حل کے لیے براے نام کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور روس کی آشیرباد سے عالمی برادری آیندہ جنوری میں جنیوا ۔۲ کے نام سے کانفرنس کر رہی ہے۔اس سے قبل ’جنیوا-۱‘ ہوچکی ہے۔ ملک کے زیادہ تر حصے پر مجاہدین کے قبضے کے بعد حقوق انسانی کے علَم بردار ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اب بشار کے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ توپایدار ہوگا نہ معاملے کے اصل فریق، یعنی شامی عوام کو قابل قبول ۔
سخت سردی اور بد ترین بم باری کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک ، انسانی حقوق کی تنظیموںاور رفاہی اداروںکا فرض ہے کہ آگے بڑھ کرمظلوموں کی فوری مدد کریں۔
وسطی ایشیا کی اہم مسلم ریاست تاجکستان میں ۶ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر امام علی رحمانوف ہی حسب سابق دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق انھیں ۸۳ فی صدسے زائد ووٹ ملے۔ جس طرح ہر انسان اپنے گناہوں کا سب سے اہم گواہ خود ہوتا ہے، اسی طرح ۸۳فی صد کی اصل حقیقت بھی سب سے زیادہ رحمانوف ہی کو معلوم ہے۔ انتخابات میں ان کی سب سے مضبوط حریف، انسانی حقوق کی فعال علم بردار، معروف وکیل خاتون نیکولا بابا نزارووا تھیں۔ انھیں تحریک اسلامی( تحریک نہضت)کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ تقریباً سب تجزیہ نگار متفق تھے کہ بے داغ شخصیت کی حامل ۶۵سالہ نزارووانہ صرف بھرپور مقابلہ کریں گی بلکہ وہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑسکتی ہیں۔بڑے پیمانے پر ان کے حامیوں کی گرفتاریوں اورووٹر لسٹوںمیں تحریف جیسے دھاندلی کے مختلف ہتھکنڈوںکے باوجود بھی صدر کو اپنی کامیابی کا یقین نہ ہوا، تو بالآخر ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیے گئے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ۲۱ہزار تائید کنندگان کے دستخط پیش نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ پھر رحمانوف ہی ’جنگل کا بادشاہ‘ تھا۔
تاجکستان میں تحریک بیداری۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، بلکہ سوویت یونین کے زیرتسلط تمام علاقوں میں اسلامی تحریک کا باقاعدہ زیر زمین آغاز تو ۱۹۷۸ء سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران بھی ایسے بہت سے ’گم نام سپاہیوں‘ نے کاردعوت و تربیت انجام دیا کہ جن کا علم صرف اللہ کو ہے یا اس کے ان بے نفس بندوں کو۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں سفر کرتے اور درندوں کے خونی پنجوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان مخلص نفوس نے روسی زبان میں تفہیم القرآن اور دیگر کتب کا ترجمہ ان تمام علاقوں تک پہنچایا اور بالآخر سوویت یونین کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان مسلم ریاستوں میں تحریک بیداری ساری دنیا کے سامنے آگئی۔
۱۹۹۰ء میں سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ قہار مخماکوف کو تاجکستان کے صدر کے طور پر مسلط کیا گیا تو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر نذر آتش کردیا اور پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی باقاعدہ تجہیز و تکفین ہوگئی تھی، لیکن تاجکستان سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی مداخلت و نفوذمسلسل جاری رہا، جو آج بھی جاری ہے۔تاجکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا ڈیم (روغون ڈیم) بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل در آمد کی راہ میں پڑوسی ریاست ازبکستان کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’نہیں بننے دیں گے، اس سے ہمارا پانی اور کپاس کی بنیادی فصل متاثر ہوتی ہے‘‘۔ روس نے تاجکستان کو اس یقین پر کہ وہ روغون ڈیم بنانے کے لیے اس کی حمایت کرے گا، وہاں اپنے عسکری اڈے بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق روس ۲۰۳۰ء تک تاجک سرزمین استعمال کرسکے گا۔
دوسری طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ ہی امریکا نے بھی افغانستان کی اس اہم پڑوسی ریاست میں اپنے لیے مزید جگہ بنانا شروع کر دی تھی۔ احمد آباد کا فوجی اڈا بحال کر تے ہوئے اسے ایک مستقل امریکی اڈے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ازبکستان، قرغیزستان اور تاجکستان کے سنگم پر ایک اورامریکی اڈا فعال ہے۔ امریکا نے اس علاقے کو ’دہشت کی تکون‘ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں، یعنی ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال بنائی جا رہی ہے جیسی آج سے تقریبا ایک صدی پہلے تھی۔ ۱۹۱۷ء میں سوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔اگرچہ ۱۹۲۹ء میں ازبکستان اور تاجکستان کو دو الگ الگ اور خودمختار ریاستوں کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا، لیکن پوری صدی کا اصل محور سوویت یونین کو سپریم طاقت بنانا اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی قرار پایا۔
گذشتہ صدی کی باقی تفصیلات کو فی الحال چھوڑتے ہوئے آیئے ذرا گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیں۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبویؐ کا پروگرام ختم ہوا، توعوام تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے کے وسط میں نصب لینن کے ۲۵ ٹن کے بت کے گرد جمع ہوگئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے انھوں نے یہ گرانڈیل بت گرا کر پاش پاش کردیا۔ مظاہرین ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا وہ معروف اور انقلابی فارسی ترانہ و الہانہ انداز سے گارہے تھے کہ جس میں انھوں نے پوری اُمت کو گہری نیند سے جاگنے اور اُٹھ کھڑا ہونے کی صدا لگائی تھی ؎
از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز
لیکن ان تمام عوامی جذبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے،۲۴نومبر کو ہونے والے ملک کے پہلے صدارتی انتخابات میں روس نوازرحمان نبیوف کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔ عوام نے ’لینن آباد‘ شہر سے تعلق رکھنے والے روس کے اس وفادار کا اقتدار بھی مسترد کردیا۔ ملک گیر مظاہرے عروج پر پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی اور روسی مداخلت کے ذریعے جیتنے والے کے خلاف یک آواز تھیں۔ پھر جب ایئرپورٹ سمیت اہم سرکاری عمارتیں اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئیں، تو مذاکرات کے دور چلے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۲ء کو ایک قومی حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اہم وزارتوں سمیت آٹھ وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا لیکن نیتوں میں فتور تھا، معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ اپوزیشن سڑکوں پر ہی رہی۔ کئی ماہ جاری رہنے والی اس عوامی تحریک کے بعد ستمبر ۱۹۹۲ء میں ازبکستان اور روس نے یہ کہتے ہوئے اپنی باقاعد افواج تاجکستان میں اُتار دیں کہ وہاں ’اسلامی قوتوں‘ کے اقتدار میںآنے کا خطرہ ہے۔ ساتھ ہی امام علی رحمانوف کو مسندصدارت سونپ دی گئی۔ موصوف نے آتے ہی اپوزیشن بالخصوص تمام اسلامی مراکز و شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں شہریوں کو تباہ حال افغانستان میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ بڑی تعداد کو ملک کے اندر ہی بے گھر کردیا گیا۔
۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک کا یہ سارا عرصہ عوامی تحریک کا عرصہ تھا۔ باقاعدہ جہادی کارروائیاں بھی شروع ہوگئیںاور اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں کسی نہ کسی طور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۲۳دسمبر ۱۹۹۶ء کو صدر رحمانوف اور متحدہ اپوزیشن لیڈر سید عبد اللہ نوری نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق عوام کو آزادیاں دینے اور تحریک نہضت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت میں شریک اپوزیشن لیڈروں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں اصلاحات اور مجاہدین کو تاجکستان کی باقاعدہ فوج میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاجکستان میں مسلم آبادی کا تناسب ۸۴ فی صد ہے، وعدہ کیا گیا کہ انھیں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔ آغازِ کار میں بعض فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مہاجرین کی واپسی شروع ہوگئی۔ بعض حکومتی مناصب اپوزیشن کو بھی دیے گئے، لیکن جلد ہی رحمانوف نے اپنا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ ہروعدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عام شہریوں سمیت ایک ایک کرکے اپوزیشن لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کی راہ اپنالی گئی۔ اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تحریک نہضت کے چوٹی کے کئی رہنما پراسرارطورپر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اور ایک قومی شخصیت کی حیثیت رکھنے والے سید عبد اللہ نوری اور ان کے نائب محمد شریف ہمت زادہ کے بارے میںتو یہ خدشہ زباں زدعام ہے کہ انھیں زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ رہی عوام کو حاصل آزادیاں، تو حالیہ انتخابات ہی ان کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہی کو صدر مملکت کے مقابلے میں لانے کا امکان پیدا ہوا، اسے بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ بظاہر پانچ اُمیدوار مخالفت کر رہے تھے لیکن سب مجہول و مغلوب افراد تھے۔ بنیادی طور پر اس لیے لائے گئے تاکہ مقابلے کا تاثر دیا جاسکے۔ سورما صدر تقریباً بلامقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔
روسی فوجوں کے ذریعے ۱۹۹۲ء میںصدر مملکت بننے والے امام علی رحمانوف، حالیہ ڈھکوسلا انتخابات جیسے ہتھکنڈوں اور دستور میں رسمی تبدیلیوں کے بعد خود کو قانونی صدر قرار دے رہے ہیں۔ عالی جناب نے اقتدار کے ۱۰ برس پورے ہونے پر۲۰۰۳ء میں دستوری ترمیم کروائی تھی کہ اب ایک شخص کو صرف دوبار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن ایک ٹرم ہی سات سال کی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ فرمان جاری ہوگیا کہ اس دستوری ترمیم پر عمل درآمدتین سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء سے شروع ہوگا۔ ۱۹۹۲ء سے جو صدارتی دور چلا آرہا ہے وہ بھی اس نئی مدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس طرح ۱۴ برس سے چلے آنے والے صدر صاحب ۲۰۰۶ میں پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور حالیہ نومبر میں وہ مزید سات برس (۲۰۲۰ء تک) کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ۱۴ برس تو یوں پکے ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔ اکلوتا خدشہ ملک الموت سے ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔
تاجکستان کو سوویت غلامی سے نجات کے بعد بھی بہت سے حقیقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ یورنیم اور دیگر قیمتی دھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالامال، ملک میں غربت تو پہلے بھی تھی، اب اس میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔ ملک میں پانی کے وافر ذخائر کے باوجود، توانائی کا بحران سنگین ترہے۔ موسم سرما میں بجلی اور گیس تقریبا ناپید ہوجاتی ہے۔ لاکھوں شہری ان بحرانوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجاے رحمانوف کی تمام تر توجہ مخالفین کو کچلنے پر مرکوز ہے۔بدقسمتی سے اپنے اقتدار کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھنے والی ہستی کو اصل خطرہ اسلام، اسلامی عناصر اور اسلامی مظاہر ہی سے محسوس ہوتا ہے۔عوام میں تحریک نہضت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ناقابل تردید وسیع حمایت کے باوجود، پارلیمنٹ میں ان کے ایک یا دو افراد سے زیادہ کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کا حجاب، مردوں کے چہرے پر سنت نبوی، اور تو اور سفید رنگ کا کھلا لمبا کُرتہ، سر پہ سجی ٹوپی، بیرون ملک (بالخصوص پاکستان میں) دینی تعلیم کا حصول، یہ وہ بڑے بڑے سنگین جرائم ہیں، جن کا مرتکب ’رحمانوف شریعت‘ کے مطابق دہشت گردہے اور اس کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔
روشن خیال قانون کے مطابق مسجد میں ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوان نہیں جاسکتے۔ مساجد سے باہر باجماعت نماز نہیں ادا کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں یا دفاتر میں تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی کسی سرکاری دفتر یا مسجد سے باہر باجماعت نمازکے جرم میں پکڑا جائے تو امام کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین ہنستے ہوئے بتارہے تھے کہ فقہ کی کتابوں میں امامت کی شرائط کے ضمن میں علمِ دین، بہتر تلاوت اور عمر جیسے مسائل زیربحث آتے ہیں۔ تاجک عوام کہتے ہیں کہ: ’’امامت وہ کروائے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں‘‘۔ قانون کے مطابق نمازباجماعت (مسجد سے باہر) جیسے سنگین جرم کی سزا امام صاحب کو دی جاتی ہے۔
ایک بار پھر ’نومنتخب‘ صدر صاحب ساتھ ہی ساتھ خود کو سب سے بہتر مسلمان ثابت کرنے پر بھی مصر ہیں۔ چونکہ ملک کی تقریباً ساری مسلم آبادی امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے اس لیے ان کا سال منانے کا اعلان کردیا گیا۔عالی جناب کے ادایگی حج کا خوب چرچا کیا گیا۔ کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قوم سے تقریباً ایک صدی تک کے سوشلزم مظالم، اس کی اسلامی شناخت نہیں چھین سکے، تو کوئی دوسرا بھی اسے دولت ِایمان سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں یہ حوالہ بھی بہت اہم اور دل چسپ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے خود ایک سرکاری سروے میں اس امر پر اظہارِحیرت کیا گیا کہ سوشلسٹ عہد میں جینے والے ۸۰ فی صد مسیحی اپنا عقیدہ چھوڑ کر اللہ کے انکاری اور ملحد ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان آبادی کے ۸۰ فی صد سے زائد افراد اپنے مذہب پر مضبوطی سے جمے رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں (ازبکستان، قازقستان، قرغیزستان ، ترکمانستان، تاجکستان) میں مسلمانوں کی تعداد ۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔
۱۹۹۲ء میں ایک ضعیف ولاغر باباجی منصورہ آئے تو شکستہ عربی بول رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا آپ کو تو قرآن کریم تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آپ نے ایمان ہی نہیں قرآن کی زبان تک کی حفاظت کیوں کر کی؟ ہم تہ خانوں میں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور آدھی رات کے بعد اپنے بچوں کو جگا جگا کر انھیں قرآن کریم کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی نسلوں کے دل میںبھی ایمان کی آبیاری کی ہے، اسلام سے محرومی نے دل کی پیاس مزید بڑھا دی تھی، باباجی نے جواب دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کی اکثر آبادی گھروں میں بھی عربی زبان بولتی ہے۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
تحریک نہضت تیونس کے سربراہ الشیخ راشد الغنوشی دار الحکومت کے اہم میدان ’قصبہ‘ میں ملین مارچ سے خطاب کررہے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے کہا کہ: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے‘‘ تو چند لمحے کی حیرت کے بعد پورا مجمع نعروں سے گونج اُٹھا۔ شور تھما تو انھوں نے اپنا جملہ دہراتے ہوئے کہا: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں ان کے دروازوں کے راستے آیا کرو‘‘۔ حکومت میں آنے کا دروازہ، انتخابات ہیں۔ ہم نے طویل جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کے بعد جابر ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کی ۔ پھر انتخابات میں عوام نے ہم پر اظہار اعتماد کیا۔ اب بھی اگر کوئی تبدیلی چاہتا ہے، تو انتخابات ہی راستہ ہے۔ تیونسی عوام اب دوبارہ کسی مہم جو کو امن و آزادی کی یہ راہ کھوٹی نہیںکرنے دیں گے۔ مجمع ایک بار پھر پُرجوش نعروں سے گونج اٹھا۔
مصر میں جمہوریت پر فوجی ڈاکا زنی کے بعد اب تیونس میں بھی اپوزیشن کو ہلہ شیری دی جارہی ہے۔ عرب سرمایہ، مغربی سرپرستی میںسازشیں اور مار دھاڑ پر مبنی تحریک ایک ایسے وقت حکومت گرانے کی کوششیں کررہی ہے کہ جب ٹھیک دو سال قبل (۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء) کو منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ تیونسی عوام کو ۵۴سالہ ڈکٹیٹرشپ سے جنوری ۲۰۱۱ء میں نجات حاصل ہوئی تھی۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی تحریک ’تحریک نہضت‘ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے منتخب ہوئی۔ اسے ۲۱۷ کے ایوان میں ۸۹ نشستیں حاصل ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی بائیں بازو کی پارٹی ’حزب المؤتمر‘ کو ۲۹، ایک تیسری پارٹی کو ۲۶ اور چوتھے نمبر پر آنے والی ’حزب التکتل‘ کو ۲۰ نشستیں ملیں۔ تحریک نہضت نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی نہ ہونے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جلا وطن رہنما منصف المرزوقی کی ’حزب المؤتمر‘ اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ المرزوقی کو صدر مملکت اور التکتل کے سربراہ مصطفی بن جعفر کو اسپیکر بنادیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور وضع کرنا، اور حکومت نے کرپشن کے خاتمے اور عوامی مسائل حل کرنے کی کچھ نہ کچھ مساعی شروع کردیں۔ لیکن مصر کی طرح یہاں بھی اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھوں نے مستقل اور مسلسل بحران کھڑے کیے۔ اب، جب کہ اسمبلی کی مدت میں تقریباً چھے ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، اور دستور کی ایک آدھ شق کے علاوہ باقی سب پر اتفاق راے ہوگیا ہے، اپوزیشن نے وہ تمام ہتھکنڈے آزمانا شروع کردیے ہیں، جن کا نتیجہ تباہی اور خوں ریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
چند ماہ پہلے بائیں بازو کے ایک اپوزیشن لیڈر شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کی آگ بھڑکا دی گئی۔ حکومت نے مذاکرات کیے۔ اپوزیشن کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے وزیراعظم، وزراے داخلہ، خارجہ اور انصاف کو تبدیل کردیا۔ عوام کو اُمید ہوئی کہ بحران ختم ہوا، اب حکومت اصل کام پر توجہ دے سکے گی۔ آگ قدرے ٹھنڈی ہونے لگی تو ۲۵ جولائی کو ایک اور اپوزیشن لیڈر، رکن اسمبلی محمد البراہمی کو قتل کردیا گیا۔ ساتھ ہی تقریباً ۶۰؍ارکان پر مشتمل اپوزیشن نے اسمبلی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے دیا۔ ۲۱ سے ۲۴؍ اگست تک بھرپور عوامی احتجاج کی کال دی گئی۔ مطالبہ پھر یہی تھا کہ حکومت ختم کی جائے اور اسمبلی کالعدم قرار دی جائے۔ کچھ افرادملک کی انتظامی عدالت میں بھی چلے گئے کہ جس طرح مصر کی دستوری عدالت نے اسمبلی توڑی تھی، یہاں بھی توڑ دی جائے۔
تحریک نہضت اور حکومت نے صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو پھر سے مذاکرات کی دعوت دی، اور یہ تجویز پیش کی کہ ملک میں جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے لیے اگراپوزیشن چاہے تواس کے مطالبات پرعوامی ریفرنڈم کروالیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے انکار کردیا۔ شاید اس لیے کہ اسے عوام میں اپنی حیثیت بخوبی معلوم ہے؟ وہ چاہتی ہے کہ ریفرنڈم یا منصفانہ عام انتخابات کے بجاے مار دھاڑ، خون خرابے، ٹارگٹ کلنگ، نام نہاد عدالتوں، اندر و نی خفیہ ہاتھوں اور بیرونی آقاؤں کے سرمایے اور سرپرستی کے ذریعے منتخب حکومت ختم کردی جائے۔ پھر عبوری حکومت کے ذریعے اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں۔اس تناظر میں آیندہ چند ہفتے، تیونس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کریں گے۔
اس نازک موڑ پر تحریک نہضت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ یہ تک تسلیم کرلیا کہ اگر حکومت گرانا ہی چاہتے ہو تو ہم خود حکومت چھوڑ دیتے ہیں۔ تمام پارٹیاں مل کر عبوری قومی حکومت تشکیل دے لیں، قومی الیکشن کمیشن تشکیل دے دیں اور فوری طور پر عام انتخابات کروالیں۔ حالیہ مذاکرات میں ایک طرف تحریک نہضت کی قیادت میں حکمران اتحاد ہے اور دوسری طرف مزدوروں اور حقوق انسانی کے نام پر قائم چار این جی اوز ہیں۔ بن علی کی باقیات اور بیرونی آقا انھی غیر سرکاری تنظیموں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ان عرب ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط و منظم نہیں ہوسکیں۔ تیونس میں سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی دی جاچکی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی تشکیل مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہے۔ تقریباً اڑھائی سال کے عرصے میں ۱۴۰سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی عوامی تائید نہیں رکھتی۔ میدان میں اگر کوئی حقیقی قوت باقی ہے، تو اللہ کی توفیق سے وہی اسلامی تحریکیں ہیں جنھیں نصف صدی تک کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اپوزیشن نے مذاکرات کی میز پر تو حکومت سے اتفاق کرلیا۔ لیکن پھر اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تاحال قومی حکومت اور قومی الیکشن کمیشن تشکیل نہیں دے سکیں۔ تحریک نہضت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ حکومت ایک امانت ہے کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ پر، مستقبل کا واضح نقشۂ کار طے کیے بغیر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں، اگر امانت سنبھالنے کا متبادل انتظام ہوجائے، تو حکومت میں ایک دن زیادہ نہیں رہنا چاہیں گے۔
سازشی عناصر اب بھی باز نہیں آئے ،ایک بار پھر خوں ریزی کا سہارا لے رہے ہیں۔پہلے ایک چوکی پر حملہ کرکے چھے فوجی شہید کردیے گئے، پھر پولیس کے دو سپاہی شہید کردیے گئے۔ عیدالاضحی کے بعد قتل ہونے والے ان پولیس والوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے صدر مملکت، وزیراعظم اورا سپیکر، یعنی حکومت کے تینوں ستون پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، لیکن ان کے خلاف مسلسل ۲۰منٹ تک نعرہ بازی کرکے انھیں نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ البتہ وزیر داخلہ نماز میں بھی شریک رہا اور تدفین میں بھی۔ واضح رہے کہ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جو شکری بلعید کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں لائے گئے تھے( نہ جانے اکثر مسلمان ممالک میں وزراے داخلہ پر ایک بڑا سوالیہ نشان کیوں لگ جاتا ہے) ۔ ماحول میں ابھی ان دو سپاہیوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی حدت باقی تھی، اسی دوران حکومت اپوزیشن مذاکرات بھی چل رہے تھے، ۲۳ اکتوبر کی شام وزیراعظم علی العریض ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان کرنے کے لیے پریس کانفرنس کرنے والے تھے کہ ہر طرف بریکنگ نیوز چلنے لگی: ’سیدی بوزید‘ میں چھے مزید پولیس والے قتل کردیے گئے۔ ’سیدی بوزید‘ ہی وہ قصبہ ہے جہاں بوعزیزی نامی نوجوان پر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج ہوا، جو بعدازاں پوری عرب بہار کا نقطۂ آغاز بن گیا تھا۔یہ سب قتل و غارت تحریکِ نہضت کی حکومت کو ناکام بنانے اور گرانے کے لیے کی جارہی ہے۔ قاتلوں نے ثابت کرنا ہے کہ اسلامی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔حکومت چلانا اس کے بس کی بات نہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ صدر مرسی ہوں یا تیونسی حکومت، دونوں پر کسی طرح کے جرم کا الزام نہیں ہے۔ دونوں جمہوریت کا دوام و استحکام چاہتے ہیں۔ دونوں نے ملک میں کرپشن کے خاتمے اور تعمیروترقی کا آغاز کیا۔ دونوں نے خواتین اور اقلیتوں کو ان کا اعلیٰ مقام عطا کیا۔ تیونس میں تو ۴۹خواتین ارکانِ پارلیمنٹ میں سے ۴۳ کا تعلق تحریکِ نہضت سے ہے۔ دونوں نے ترجیحات کا درست تعین کرتے ہوئے جبروتشدد پر مشتمل پالیسیاں اپنانے کے بجاے اصلاح و سدھار کے دُور رس اقدامات پر توجہ دی۔ ایسا دستور اور قوانین وضع کیے کہ جن پر عمل درآمد ازخود ملک و قوم کو خوش حالی اور دوجہاں کی کامیابی سے ہم کنار کردیتا۔ اب یہی اخلاص و عمل ان کا قصور ثابت کیا جا رہا ہے۔ خود قتل و غارت اور فتنہ و فساد کے مرتکب ان پر ناکام و مفلوج ہونے کا الزام تھونپ رہے ہیں۔
مصر ہو یا تیونس، لیکن مخالفین کے یہ اوچھے ہتھکنڈے انھی پر اُلٹ رہے ہیں۔ مصر میں بھی تمام تر سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مغربی اور صہیونی اخبارات تک بھی اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب ناکام ہوگیا۔ ہزاروں بے گناہ قتل کردیے جانے کے باوجود فوج مخالف مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خونی جنرل سیسی کا تشخص سنوارنے اور اس کا اقتدار بچانے کے لیے ابلاغیاتی جنگ عروج پر ہے۔ جنرل سیسی کو صدارتی اُمیدوار بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ نعرہ لگایا جارہا ہے: کَمِّلْ جَمِیْلَکَ، ’’اپنی حسن کارکردگی مکمل کیجیے‘‘، گویا شہریوں کا قتل کوئی احسان ہے۔ لیکن عوام نے اپنے لہجے میں جواب دیا ہے: اَلسَّیسِی بَیُہِیِّسْ، عَایِزْ یَبْقٰی رَیِّسْ،’’ سیسی پاگل پن کا شکار ہوگیا، صدر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے‘‘۔ عوام ہی نہیں بیرونی دنیا سے بھی صدر مرسی کی تائید کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔ برازیل کی خاتون صدر ڈیلما روزیف نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور برازیل کے مابین ایسے کئی اہم ترین معاہدے طے پاچکے تھے کہ جن سے دونوں ملک اور ان کے عوام بے پناہ فوائد حاصل کرسکتے تھے۔ مصر اور برازیل ترکی کے تعاون سے کئی بڑے زرعی اور صنعتی منصوبوں کا آغاز کرنے والے تھے جن میں جدید ترین طیارے اور متوسط طبقے کے لیے گاڑیاں بنانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل آج بھی صدر مرسی ہی کو مصر کا اصل اور حقیقی سربراہ قرار دیتا ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ء میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ کا افتتاح کرنے کی دعوت بھی حال ہی میں صدر محمد مرسی کے نام بھیجی ہے، جنرل سیسی یا اس کے کسی گماشتے کے نام نہیں۔
مصر میں فوجی انقلاب کا سامنا کرنے والی فقید المثال عوامی تحریک نے تیونس میں تبدیلی کی خواہاں طاقتوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ وہاں فی الحال مصر جیسے کسی ایسے فوجی انقلاب کا خطرہ مول نہیں لیں گی، جسے عوام مسترد کردیں اور تیونس بھی مصر کی طرح مسلسل انتشار کا شکار ہوجائے۔ تیونس میں کسی انتشار اور اسلامی تحریک کی قیادت میں عوامی احتجاجی تحریک سے یورپ بھی خوف زدہ ہے ۔کیونکہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر واقع تمام یورپی ممالک، شمال مغربی افریقہ میں پیدا ہونے والی اضطراب کی ہر لہر سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اگرچہ تیونس کی ڈکٹیٹر شپ مصری فرعونوں سے بھی بدتر تھی، لیکن وہاں کے عوام اور فوج مصری عوام اور فوج سے قدرے مختلف ہے۔ مصر میں ہمیشہ فوج ہی برسر اقتدار رہی ہے، جب کہ تیونس میں فوج نے کبھی بھی اقتدار نہیں سنبھالا۔ مصری عوام میں تعلیم کا تناسب ۷۱فی صد ہے اور ان میں سختی کا رجحان نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے۔ تیونس میں تعلیم کا تناسب ۸۱فی صد ہے اور عوام مجموعی طور پر مہذب اور شائستہ ہیں۔ مصر اور تیونس میں ایک اہم بنیادی فرق ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی ہے۔ سرزمین فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کا پڑوسی ہونا کسی خوفناک عذاب سے کم نہیں ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کے بانیوں نے اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیاد ہی پڑوسی ممالک کو اپنا دست نگر اور کمزور رکھنا قرار دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کا مستحکم اور مضبوط ہونا صہیونی ریاست میںخطرات کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے۔
جنرل سیسی کے بدترین خونی انقلاب پر بغلیں بجانے والے صہیونی ذمہ داران، اخوان کی کامیابی کے پہلے روز ہی سے یہ جان چکے تھے کہ یہ بے نفس لوگ مصر کو ایک ناقابل شکست فلاحی ریاست بنادیں گے۔ اس لیے انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر مصر سے جمہوریت کے خاتمے کی جدوجہد شروع کردی۔لیکن مصر میں جاری شان دار عوامی تحریک کے بعد، اسلام مخالف عناصر دوہری پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگراسلامی تحریکیں برسرِ اقتدار رہتی ہیں تو اس سے مسلم ممالک بھی مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں اور اسلامی تحریکیں بھی۔ اور اگر عوام کی منتخب کردہ حکومتیں گرانے کے لیے مصر والا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ اسلام مخالف عناصر کے لیے مثالی صورت حال تو مصر جیسا خونی فوجی انقلاب ،یا بشار جیسے درندے کے ہاتھوں ملک و قوم کی تباہی و بربادی ہی ہے، لیکن وہ ان تمام ہتھکنڈوں کے کڑوے پھل چکھ کر بدمزا بھی ہوچکے ہیں۔ یہ سازشی عناصر اپنی فتنہ جوئی تو کرتے ہی رہیں گے، لیکن حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔
عین ممکن ہے کہ تیونس میں تحریک نہضت کی حکومت آیندہ چند ہفتوں میں ختم ہوجائے ، لیکن بالآخروہاں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ منصفانہ انتخابات جب بھی ہوئے وہاں ایک مستحکم اور خداخوف حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن تر ہوں گے ان شاء اللہ۔ آیئے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کے الفاظ بھی پڑھ لیجیے، انھوں نے یہ گفتگو امریکا کی کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کی: ’’اب تمام تر حالات و واقعات کا رخ ایک ہی جانب ہے اور وہ ہے مصر میں ایک جائز اور منتخب حکومت کی واپسی۔صدر مرسی کی واپسی ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اب تمام تر کوششوں اور مذاکرات کا اصل محور یہ ہے کہ قتل عام کرنے والے جرنیلوں میں سے کس کس کو اور کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے میرے ذمہ دار امریکی دوست طعنہ دیتے ہیں کہ تم مرسی کو پسند کرتے ہو۔ میں جواب دیتا ہوں، ہاں میں ایک منتخب صدر کو پسند کرتا ہوں جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا داغ بھی نہیں۔ میں اخوانی نہیں ہوں بلکہ میں تو مسلمان بھی نہیں ہوں لیکن مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ مجھے جنرل سیسی کے حامی اور معروف مصری صحافی حسنین ہیکل کا فون آیا کہ میں کس طرح اتنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صدرمرسی واپس آئیں گے؟ میں نے کہا کہ اخوان کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش تو آپ لوگ اب بھی کررہے ہیں، جسے وہ مسترد کرتے ہوئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد کون سا عہدہ رہ جاتا ہے؟ میری نظر میں اس وقت مصر میں صدارت کا عہدہ خالی ہے اور ایک حقیقی منتخب صدر کی واپسی تک خالی رہے گا، خواہ فوج ہزاروں نہیں لاکھوں شہریوں کو بھی قتل کرڈالے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی اُمور کے بارے میں اپنی راے دے چکا ہوں ، جو الحمدللہ درست ثابت ہوئی ۔ اب میںاسی ہال میں کہ جس میں صدر مرسی خود پڑھاتے رہے ہیں، کہہ رہا ہوں کہ مصری صدر محمدمرسی ایک لیڈر کی حیثیت سے واپس آئے گا اور مصر پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ملک کی حیثیت سے اُبھرے گا۔ ۱۰کروڑ آبادی کا ملک بچانے کے لیے، رابعہ میدان میں دی جانے والی اخوان کی قربانیاں، عوام کی طرف سے اداکی جانے والی آزادی کی قیمت ہے۔ عوام کی یہ تحریک بہرصورت کامیاب ہوگی اور اگر میری یہ بات غلط ثابت ہوئی توآپ مجھ سے میری اس بات کا حساب لے سکتے ہیں‘‘۔
مصر کے بارے میں، امریکی دانش ور کا تازہ خطاب پڑھتے ہوئے جرأت مند اور انصاف پسند تحریک نہضت کا ترانہ پوری قوت سے کانوں میں گونج رہا ہے، کہ جسے سب کارکنان بآواز بلند پڑھتے ہیں تو ہوائیں اور فضائیں بھی دم سادھ کر ہمہ تن گوش ہوجاتی ہیں:
فِی حِمَاکَ رَبَّنَا
فِیْ سَبِیْلِ دِیْنِنَا
لَا یَروعُنَا الْفَنَا
فَــتَوَلَّ نَـــصْرَنَا
وَاھْدِنَا اِلَی السَّنَنْ
تیری پناہ میں اے ہمارے پروردگار،تیرے دین کی خاطر نکلے ہیں۔ ہمیں فنا کا کوئی خوف نہیں، تو ہماری نصرت کا ذمہ لے لے۔ ہمیں راہ( فتوحات) دکھا۔
’’ہمارا ملک مسلمان ہے، لیکن پابندیاں ایسی کہ غیرمسلموں کے ہاں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ۱۸برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان مسجد میں نہیں جاسکتا۔ سرکاری اداروں یا تعلیم گاہوں میں نہ کوئی شخص چہرے پہ سنت نبویؐ سجاسکتا ہے، نہ کوئی خاتون یا بچی سرپہ اسکارف رکھ سکتی ہے۔ خواتین کو پردے کی آزادی ہے، لیکن صرف گھر کے اندر۔ گھروں میں ماں باپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم یا دیگر دینی علوم کی تعلیم نہیں دے سکتے، اگر والدین اس ’جرم‘ کا ارتکاب کرتے پکڑے جائیں، تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا مسجد کے علاوہ کہیں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ’سنگین جرم‘ بھی بھاری جرمانے کا موجب بنتا ہے‘‘___ شہروں میں نمازِ جمعہ کی اجازت ملنے کے لیے ۳۰ سے ۵۰ہزار تک اور دیہات میں ۱۰سے ۱۵ہزار تک نمازی دستیاب ہونے کا ثبوت ہو تو نمازِ جمعہ ادا ہوسکتی ہے وگرنہ نہیں۔ دینی مدارس پر پابندی ہے، صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ مدارس ہی متعین علوم پڑھا سکتے ہیں اور ۷۰اضلاع پر مشتمل ملک میں صرف ۱۷ رجسٹرڈ مدارس ہیں‘‘۔ تاجکستان میں تحریک نہضت کے صدر اور رکن اسمبلی محی الدین کبیری عالمی کانفرنس براے مسلم قائدین میں اپنا حال سنا رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ آج: حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، آزادیِ اظہار اور نہ جانے کن کن نعروں کا ورد کرنے والی دنیا میں ہورہا ہے۔
تاجکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام کے یہ مسلم رہنما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین ۲۵،۲۶ستمبر کو دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّد منورحسن کی دعوت پر مختصر وقت میں ۲۰ممالک سے ۴۰ سے زائد رہنما اور پارٹی سربراہ تشریف لائے اور اُمت محمدؐ کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ان سے نکلنے کی راہیں تلاش کیں۔ بدقسمتی سے اُمت صرف مسائل ہی کا شکار نہیں، ایک دوسرے سے لاتعلق اور دُور بھی کردی گئی ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ۱۳۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی تقریباً اسلام آباد، کراچی جتنا، لیکن وہاں سے آنے والے مہمانوں نے بتایا کہ: ’’ہم تین روز میں لاہور پہنچے ہیں۔ دوشنبے سے کابل، کابل سے دبئی اور دبئی سے لاہور‘‘۔یہی حال موریتانیا سے تشریف لانے والے علامہ محمدالحسن الدیدو کا تھا۔ وہ دارالحکومت نواکشوط سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم، وہاں سے استنبول، وہاں سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ علامہ محمدالحسن موریتانیا ہی نہیں، عالمِ عرب کے انتہائی قابلِ احترام عالمِ دین ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث کے متون (texts)، پوری پوری اسناد کے ساتھ حفظ ہیں۔ یہ بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں حدیث اس بندۂ فقیر نے اپنے استاد فلاں، انھوں نے فلاں اور انھوں نے فلاں سے سنی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ خود رسول اکرمؐ تک پہنچ جاتا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تعریف نہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں کتنی اہم شخصیات، اپنے اخراجات پر، طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائی تھیں۔
الاخوان المسلمون مصر کے رہنما آخری وقت تک ویزے کے لیے کوشاں رہے، لیکن انھیں ویزا ملا تو کانفرنس کا پہلا روز گزرجانے کے بعد۔ اسی طرح الاخوان المسلمون شام کے سربراہ بھی آخری لمحے تک ویزا حاصل نہ کر سکے۔ یہاں پر ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے دیگر تمام مہمانوں کو ویزا دینے میں پورا تعاون کیا اور اکثر ویزے بلاتاخیر مل گئے۔
کانفرنس میں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، اراکان کے حالیہ بحرانوں کے علاوہ اُمت کو درپیش دیگر سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ امیرجماعت سیّدمنورحسن نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مہمانوں کو دعوتِ مشاورت دی۔ الاخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مصر کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’اگرچہ قتل و غارت اور گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں، لیکن باعث ِا طمینان امر یہ ہے کہ مصری عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کو مسترد کردیا ہے۔ اب بھی روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہفتے میں کم از کم دوبار ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے یونی ورسٹیاں کھل جانے کے بعد اس تحریک میں ایک نئی روح دوڑگئی ہے۔ حکومت نے جابرانہ آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے بلانوٹس گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، لیکن طلبہ خوف زدہ ہونے کے بجاے مزید فعال ہورہے ہیں۔
اخوان کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلینے کے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’اس سے پہلے بھی ۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۴ء بھی اخوان کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن الحمدللہ ان کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکی‘‘۔ جنرل سیسی کے مضحکہ خیز اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’’عجیب منطق ہے۔ پہلے اخوان کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پھر اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب ان گرفتارشدگان پر یہ مقدمات چلائے جارہے ہیں کہ ان کا تعلق ایک غیرقانونی تنظیم سے ہے‘‘۔
شام کی صورت حال پر بھی سب نے تفصیلی بات کی۔ ۱۹۷۰ء سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسدخاندان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے گذشتہ پونے تین سال کے عرصے میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد بے گناہ انسان تہِ تیغ کردیے ہیں۔ بظاہر شام کے مسئلے پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن عملاً دونوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے شام کی مزید تباہی، اور شام کو اس کی قوت کے تمام مظاہر سے محروم کردینا۔ ۲۱؍اگست کو ڈکٹیٹر بشارالاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ڈیڑھ ہزار افراد کے قتلِ عام کے بعد، پورے خطے میں عالمی جنگ کا ایک ماحول بنا دیا گیا۔ امریکا اور روس بھی آمنے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دیے۔ پھر بالآخر جو مقاصد، امریکا جنگ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا، روس نے مذاکرات کے ذریعے حاصل کروا دیے اور اب اقوامِ متحدہ نے بھی کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد بشار جیسے درندے کا خاتمہ نہیں، شام کو اس کی کیمیائی صلاحیتوں سے محروم کرنا تھا، کیونکہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شام کی صورت حال دنیا کے دوہرے معیار بھی مزید بے نقاب کررہی ہے۔ وہی دنیا جس نے ڈیڑھ ہزار افراد کے قتل کو بنیاد بناکر پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل پر صرف بیان بازی کررہی ہے۔ سنگین ترین بات یہ ہے کہ اس وقت یہی عالمی قوتیں شام کی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی ۱۹۱۶ء کے سایکس، پیکو (فرانسیسی اور برطانوی وزیرخارجہ) معاہدے کی طرح کیری،لافروف (امریکی اور روسی وزیرخارجہ) معاہدہ بھی مسلم خطے کو تقسیم کرتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ باب بنادے ۔
تیونس سے تحریک نہضت کے بزرگ رہنما اور نائب صدر عبدالفتاح مورو اپنے وفد کے ساتھ شریک تھے۔ انھوں نے جہاں دعوت و تربیت کے میدان میں تحریکات کو درپیش مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا، وہیں تیونس کی منتخب حکومت ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کی ماردھاڑ پر مبنی تحریک کا خلاصہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ: ’’گذشتہ چند ماہ میں مختلف اپوزیشن رہنمائوں کو قتل کرکے اس کی آڑ میں سیاسی بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن صرف ۶۰ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اپنی ہی برپا کی ہوئی اس قتل و غارت کو بنیاد بناکر اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے گذشتہ تقریباً دوماہ سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دستور کا مسودہ بھی تقریباً تیار ہے، لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کے زیرسایہ حقیقی انتخاب ہوگئے، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تیونس میں فوجی انقلاب کا امکان تو ان شاء اللہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تحریک نہضت کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ شیخ راشد الغنوشی کی قیادت میں تحریک نہضت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات بھی کررہی ہے اور کوشش ہے کہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے بحران سے نکلا جائے یا پھر تحریکِ نہضت حکومت چھوڑ دے اور انتخابات کو ان کے نظام الاوقات کے مطابق اور منصفانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے‘‘۔
۷۲سالہ عبدالفتاح مورو نے ایک واقعہ سناکر تحریکات کو متوجہ کیا کہ ہمیں معاشرے کے کسی بھی فرد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس سے خیر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بتانے لگے کہ: ’’گذشتہ دور میں حکومت نے ہرطرف شراب نوشی اور فحاشی و تباہی کا دور دورہ کردیا۔ ہم ایک بار مسجد گئے تو وہاں ایک شرابی بھی صف میں آکر کھڑا ہوگیا۔ نشے میں دھت اور منہ سے بدبوکے بھبھکے… ہم نے کوشش کی کہ وہ مسجد سے نکل جائے تاکہ ہم سکون سے نماز ادا کرسکیں، لیکن وہ اڑ گیا کہ نہیں، میں نے بھی نماز پڑھنا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ چلیں اسے چھوڑیں اور اس سے چند گز دُور جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز شروع ہوئی، وہ نشئی بھی نماز پڑھنے لگا۔ ہم سب نے سلام پھیر لیا، لیکن وہ سجدے ہی میں پڑا رہا۔ معلوم ہوا کہ تیسری رکعت کے سجدے میں اس کی روح پرواز کرگئی تھی۔ ہم سب کے دل سے دعا نکلی کہ پروردگار اسے معاف فرما، آخری لمحے تو تیرے دربار میں حاضر ہوگیا تھا‘‘۔
بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سب شرکا تشویش و الم کا شکار تھے۔ سب نے وہاں جاری مظالم اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر پوزیشن رہنمائوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کی مذمت کی۔ اب تک اس ضمن میں جو صداے احتجاج انھوںنے بلند کی تھی اس کے بارے میں بھی آگاہی دی اور آیندہ کے لیے حکمت عملی بھی۔ سب کو تشویش تھی کہ اگر حال ہی میں عبدالقادر مُلّا کی عمرقید کو سزاے موت میں بدلنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا، تو برادر اسلامی ملک میں بھڑکتی ہوئی احتجاجی آگ مزید پھیل جائے گی۔ یہ انتقامی سیاست نہ صرف ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردے گی، بلکہ قوم کو بھی مزید بُری طرح تقسیم کردے گی۔
کانفرنس میں اراکان [برما] کے بے نوا مسلمانوں کی زبوں حالی، اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں، مسئلۂ کشمیر، افغانستان و عراق پر امریکی قبضے اور تہذیبی یلغار کے حوالے سے بھی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی استعماری قبضے کے خاتمے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی اور عبادت گاہوں اور معصوم شہریوں کو دھماکوں کا نشانہ بنانے پر بھی۔ اللہ تعالی کا انعام تھا کہ تمام تحریکات ان تمام موضوعات پر یک آواز اور یک سُو تھیں۔
افتتاحی خطابات اور پھر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی پہلا نکتہ یہی رکھا گیا کہ: ’’تمام اسلامی تحریکیں اپنے یومِ تاسیس ہی سے پُرامن جدوجہد پر استوار ہوئی تھیں۔ تقریباً ایک صدی کی جدوجہد کے دوران (اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی) اسلامی تحریکوں پر ابتلا و عذاب کے پہاڑ توڑے گئے، کالعدم قرار دیا گیا، پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اسی پُرامن راستے سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ آج مصر اور تیونس میں ان کی کامیابیوں پر ڈاکازنی کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر میں خون کی ندیاں رواں ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سب اسلامی تحریکیں اپنی پُرامن جدوجہد کے بارے میں مزید یک سُو ہوئی ہیں اور وہ اسی راہ پر چلتے رہنے کا عزم رکھتی ہیں‘‘۔
حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خصوصی نمایندہ ڈاکٹر محمد نزال اور مقبوضہ کشمیر سے غلام محمد صفی اور قائم مقام امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر نورالباری کی موجودگی میں سب نے اس پر بھی اتفاق راے کا اظہار کیا کہ جہاں استعماری قوتیں قابض ہوں وہاں ہرممکن طریقے سے مزاحمت و جہاد، ان عوام کا قانونی و دینی فریضہ ہے۔ پوری اُمت کو ان کی مکمل پشتیبانی کرتے رہنا چاہیے۔
قیم جماعت لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا۔ اس میں تمام نکات کا احاطہ کرلیا گیا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسلامی تحریکوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو یک جا اور یک جان کرنے کے لیے ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جو ان شاء اللہ مسلسل اور مستقل و مربوط مساعی منظم کرے گا۔
الحمدللہ! ملایشیا اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور موریتانیا تک کی یہ تحریکیں جو کئی ممالک میں حکومتوں کا حصہ ہیں، اُمت اور بالخصوص پاکستان کی پشتی بان بن کر شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اسی جانب مراکش میں اسلامی تحریک کے سربراہ محمد الحمداوی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ: ’’یہ صرف چند افراد کا اجتماع نہیں، یہاں آج گویا اُمت کے کروڑوں عوام جمع ہیں۔ میں مراکشی بھی ہوں اور اب خود کو پاکستانی بھی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔
ہرحوالے سے اس کامیاب عالمی کانفرنس نے مصرو شام کے علاوہ بھی ہرجگہ مظلوم عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں، لیکن بدقسمتی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مصری اور بعض عرب ممالک کے میڈیا نے اس کانفرنس کے بارے میں وہ جھوٹ گھڑے کہ خود جھوٹ بھی ان سے پناہ مانگ رہا ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو، جسے کئی عالمی ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا، مصری ذرائع ابلاغ نے ایک خفیہ کانفرنس بنادیا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس کو اخوان کی ایک کانفرنس کہا، اور اسے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کے خفیہ منصوبے بنانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس قرار دے دیا۔ ایک چینل نے تو اسے پاکستانی حکومت و مقتدرہ کا شاخسانہ قرار دے دیا جو مصر میں مسلح تحریکیں برپا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی پوری عرب دنیا میں اُمت کی اس اہم کانفرنس کی خبر پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اب اصل پیغام بھی مسلسل پہنچ رہا ہے۔
ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش کم ہی رہ جاتی ہے۔
ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔
عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔
جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔
برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:
میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔
[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔
جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔
تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔
میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:
Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔
انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔
لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین، مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟
عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔ اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔
۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔
جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔
۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔
یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔
ایران میں جمہوریت کا تسلسل صدارتی انتخابات کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ۳ کروڑ ۷۰لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے اور ۵۱فی صد ووٹ حاصل کرنے کے بعد حسن رُوحانی صدر منتخب ہوگئے۔ خبررساں ایجنسی رائٹر کے نامہ نگار کے مطابق: ’’انتخابات حیران کن حد تک شفاف اور آزادانہ تھے اگرچہ ۱۰لاکھ لوگ ووٹ نہ ڈال سکے‘‘۔
صدارتی نتائج کی اطلاع آنے کے بعد برطانیہ کے دفترخارجہ نے نئے صدر کا خیرمقدم کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ’’بین الاقوامی برادری کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو تحفظات ہیں، وہ اُس پر توجہ دیں گے، نیز ایرانی عوام کی انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے جو تمنائیں ہیں اُنھیں پورا کریں گے‘‘۔ برطانوی حکومت نے جس قدر ایرانی شہریوں کے سیاسی حقوق کی بات کی ہے کاش اِتنی ہی فکر شام، مصر ، افغانستان اور جموں و کشمیر کے عوام کی بھی کرتے۔
واشنگٹن پوسٹ میں جے سن رضاعیان نے اپنے مضمون ’ایران کے صدر کو درپیش ’اہم معرکے‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’مُلائوں‘ سے لے کر روشن خیال طبقے تک نے حسن رُوحانی کوووٹ دیے ہیں۔ مختلف طبقات نے اُن سے مختلف اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ صدر حسن رُوحانی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور منتخب ہونے سے پہلے وہ اہم اقتصادی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اُن کے لیے دوسرا بڑا چیلنج سیاسی قیدیوں کی رہائی، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی حدود کا تعین اور جدید و قدیم راے دہندگان میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا ہے۔
امریکا اور مغربی ممالک کی سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نئے صدر کی موجودگی میں اپنا جوہری پروگرام لپیٹ کر رکھ دے۔ اُنھیں کامل یقین ہے کہ امریکا، روس کے پاس سیکڑوں جوہری ہتھیار ہیں لیکن وہ ’محفوظ ہاتھوں‘ میں خیال کیے جاتے ہیں۔ ایسی ایرانی حکومت اُن کا خواب ہے کہ جو واشنگٹن و لندن سے موصول ہونے والی ہدایات پر خاموشی سے عمل درآمد کرے۔ عالمی طاقتوں کا چھوٹا سا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایرانی حکومت، علاقائی معاملات میں بھی مداخلت سے پرہیز کرے۔ نئے صدر نے کیا طرزِعمل اختیار کرنا ہے؟ اس کی عملی وضاحت کا سب کو انتظار ہے۔
امام انقلابِ ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں ہونے اور متعد بار جیل جانے کے باوجود، حسن رُوحانی کی یہ پختہ سوچ ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے بھرپور ملک کو ’چند سرکردہ افراد‘ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی اس سوچ کی جو بھی تشریح کی جائے، راے دہندگان نے اسے تازہ ہوا کی لہر سمجھا ہے۔ طبقۂ علما اس کی جو بھی تعبیر کرے، موجودہ ایرانی قیادت کا نبض پر ہاتھ ہے، انتخابی نتائج سے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک تقریب میں حسن رُوحانی سے حلف لیا (اہلِ مغرب اسے ایران کی سب سے بڑی خامی سمجھتے ہیں کہ منتخب صدر سے اُوپر ’رہبر‘ کی موجودگی جمہوریت، پارلیمان اور صدارتی نظام کی توہین ہیں، اہلِ ایران کو اس اعتراض کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے)۔ پارلیمنٹ کی منظوری اور رہبر خامنہ ای سے حلف برداری کے بعد کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں حسن رُوحانی نے کہا کہ ہم سب نے مل کر ایران کو خوش حال بنانا ہے اور لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔ کابینہ میں ۱۵؍افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ سابقہ روایات کے برعکس اِن میں اپنے اپنے شعبے کے عملی ماہرین کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ اِن کی اکثریت، امریکا و یورپ میں زیرتعلیم رہی ہے۔ تاہم تین افراد کی نامزدگی مسترد کردی گئی۔ اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ’زیادہ اصلاح پسند‘ ہیں۔
عالمی برادری کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، نیز جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ نوجوان نسل نے کھلم کھلا ’طبقۂ علما اور روایت پسندوں‘ کو تمام مشکلات کا سبب قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ حسن رُوحانی کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ معتدل ہیں، تنقیدی ذہن رکھتے ہیں، تاہم اصلاح پسند بھی ہیں۔
اسرائیلی روزنامے ہآرٹز کا تجزیہ ہے کہ سابق صدر احمدی محمود نژاد کے مقابلے میں شیعہ عالم دین حسن رُوحانی کو جدت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ کس قدر جدیدیت پسند ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد حسن رُوحانی نے اپنے غیرمعمولی خطاب میں کہا کہ ’’جو ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ برابری، اعتماد سازی، باہمی احترامِ اور دشمنی و جارحیت کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مثبت ردعمل چاہتے ہیں تو ایران کے ساتھ پابندیوں کی زبان میں بات نہ کریں بلکہ احترام کی زبان میں بات کریں‘‘۔
ایرانی صدر کے اس دوٹوک خطاب کے چند گھنٹے بعد ہی وائٹ ہائوس کے ترجمان Jay Carney کا ردعمل سامنے آگیا: ’’صدر رُوحانی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کو ایک اور موقع مل گیا ہے کہ وہ فوری اقدام کرے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے جو تحفظات ہیں اُس کے تدارک کی کوشش کرے۔ اگر یہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ، ہمہ وقتی طور پر عالمی برادری کی توقعات پر پورا اُترتی ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرتی ہے تو وہ امریکا کو ہرلمحے اپنا دوست و شریک پائے گی‘‘۔
حسن رُوحانی اور اُن کی کابینہ اس پیش کش کا کیا جواب دیتی ہے۔ اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ امریکا ایران میں اور جوہری مسئلے سے متعلق ممالک میں مذاکرات میں بہتری آئے اور بیان بازی میں بھی شدت نہ رہے۔ یاد رہے اگر ایران نے جوہری پروگرام ترک کرنا ہوتا تو اقتصادی پابندیوں کو کیوں گلے لگاتا۔
موجودہ وزیرخارجہ محمد جواد ظریف، جوا قوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر رہے ہیں، کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم رہنے، طویل سفارتی تجربے اور اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے کے سبب وہ اقتصادی پابندیاں ختم کرانے اور جوہری پروگرام کے بارے میںبااعتماد اصولی معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
حسن رُوحانی ۱۲نومبر ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ عرصۂ دراز سے اُن کی شناخت شیعہ مجتہد، مسلم عالم دین، اُستاد، سفارت کار اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ابتدائی ساتھیوں کی ہے۔ اُنھوں نے سمنان اور قُم کے حوزۂ علمیہ سے دینی تعلیم حاصل کی اور تہران یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی۔ نیشاپور میں اُنھوں نے ملٹری سروس شروع کی، بعدازاں اُنھوں نے اسکاٹ لینڈ کی کیلیڈونین یونی ورسٹی سے ایم فل اور قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ: ’اسلامی قانون سازی اختیار اور ایرانی تجربہ‘ کے موضوع پر لکھا گیا۔ وہ Assembly of Experts، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل اور سنٹر فار اسٹرے ٹیجک ریسرچ کے ۱۹۹۲ء میں سربراہ رہے۔ وہ مجلس اسلامی مشاورتی اسمبلی میں دو بار ڈپٹی اسپیکر اور سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری رہے۔
حسن رُوحانی کو بین الاقوامی سفارت کار کے طور پر غیرمعمولی شہرت حاصل ہے۔ عرب اختیارات ’سفارت کار شیخ‘ کے طور پر بھی اُن کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نمایندوں سے وہ مذاکرات کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز حسن رُوحانی کی تھی۔ کیونکہ شیعہ مذہب میں امام کا منصب اور لقب بہرحال مذہبی تقدیس کا حامل ہے اور امام عوام کے انتخاب پر منحصر نہیں ہوتا۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے بارے میں جو ایرانی ٹیم مذاکرات کررہی ہے رُوحانی اس کے سربراہ رہے ہیں۔ اُن کو نرم خُو سفارت کار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو دوسرے کی بات سننے میں قابلِ قدر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔امریکا اور مغربی دنیا نے عراق کے حصے بخرے کرنے، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے، پاکستان میں آگ و خون کی بارش برسانے کے بعد ایران سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ کئی برس سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام کا معائنہ کرائے اور فوری طور پر اس کو ترک کردے۔
۱۴ جون ۲۰۱۳ء میں ہونے والے انتخابات میں حسن رُوحانی نے ’شہری حقوق چارٹر‘ اور ’مغرب سے تعلقات بہتر کرنے‘ کا نعرہ لگایا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے عزم سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود معاشی خودمختاری پروگرام پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔
’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔
یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔
یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔
پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔
۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔
ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘ (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!
اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔
وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!
۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔
علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔
اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔
علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔
یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔
۱۵ جون کو انقرہ میںاور ۱۶ جون کو استنبول میں بلا مبالغہ لاکھوںافراد جمع تھے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوگان ان سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے یکم جون سے یہ ہنگامہ آرائی کیوں شروع کی...؟ اس لیے کہ ہم نے مئی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی تھیں.... ترکی اور ترک عوام کے دشمنوں کو یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہورہیں اور انھوں نے ایک بڑی سازش کے حصے کے طور پر میدان تقسیم سے شوروشغب کا آغاز کردیا۔ ہم نے مئی کے مہینے میں....، اور پھر وزیراعظم اردوگان نے اپنی تازہ کامیابیوں کی طویل فہرست بیان کرنا شروع کردی۔ لیکن اس فہرست کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا غور کیجیے کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکی میں لاکھوں افراد کے عظیم الشان پروگرام ہوئے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت دنیا میں ان کی کوئی خبر نمایاں نہیں کی گئی۔ کیا یہ امر بلا سبب ہے کہ استنبول کے میدان تقسیم میں چند سو افراد کی ہنگامہ آرائی اور پھر خیمے لگاکر بیٹھ جانے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اور تصویریں تو الیکٹرانک میڈیا بھی دے اور پرنٹ میڈیا بھی، لیکن لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور اس کی کوئی تصویر، کوئی خبر دکھائی، سنائی نہ دے۔ عین اسی روز کہ جب دار الحکومت انقرہ میں لاکھوں افراد طیب اردوگان کا خطاب سن رہے تھے، ایک پاکستانی ٹی وی چینل استنبول کے میدان تقسیم سے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس کی طرف سے واٹر گن استعمال کیے جانے کے مناظر دکھا رہا تھا، انقرہ مظاہرے کا نہ کوئی ذکر ہوا اور نہ کوئی جھلک دکھائی دی۔ ذرائع ابلاغ کا یہ بھینگا پن اتفاقیہ یا عارضی نہیں، قصداً اور مستقل ہے۔
آئیے اس کے اسباب کا ذکر کرنے سے پہلے طیب اردوگان کی بات مکمل کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے: انھوں نے یکم جون سے اس لیے ہنگامہ آرائی شروع کی کیوں کہ ہم نے مئی میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی آخری قسط (۴۱۲ ملین ڈالر) بھی ادا کردی۔ ہم جب برسراقتدار آئے تھے تو ترکی پر آئی ایم ایف کا ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر (تقریباً ساڑھے ۲۳ کھرب روپے) کا قرض تھا۔ ہم نے نہ صرف وہ تمام قرض چکا دیا، بلکہ اب آئی ایم ایف ہم سے قرضہ مانگ رہا ہے۔ ہم جب برسراقتدار آئے تو سود کی شرح ۶۳ فی صد ہوچکی تھی۔ اب یہ شرح ۶ء۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یہ تمام سود عوام کی جیب سے ادا ہوتا اور مخصوص سودی لابی کی جیبوں میں جاتا تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ان کے یہ ذرائع آمدن مسدود کردیے ہیں، تو ان سب کو تشویش اور تکلیف ہورہی ہے کہ ترکی ان کی گرفت سے آزاد ہوگیا ہے۔ ہم نے استنبول میں ۴۶ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک تیسرے اور عظیم الشان ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ ہم نے گذشتہ ماہ انقرہ میں جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق ترکی میں ۲۲ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا۔ ہم نے براعظم ایشیا اور یورپ کو ملانے کے لیے آبناے باسفورس کے اوپر ایک تیسرے پل کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے جس پر اڑھائی ارب ڈالر لاگت آئے گی، لیکن اس سے استنبول میں ٹریفک کا نظام مزید بہتر ہوجائے گا۔ اس پر پر سڑک کے علاوہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی۔ ترکی میں اقتصادی ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے گذشتہ ماہ استنبول اسٹاک ایکسچینج نے تجارت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب برسر اقتدار آئے تھے تو ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف لڑھک رہا تھا۔ تب ملکی خزانے میں صرف ۲۷ ارب ڈالر باقی رہ گئے تھے۔ ملک بھاری قرضوں تلے سسک رہا تھا۔ ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر تو صرف آئی ایم ایف ہی کے ادا کرنا تھے۔ اب ہم نے نہ صرف قرضوں سے نجات پالی ہے بلکہ گذشتہ ماہ ملکی خزانہ ۱۳۵؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ ہماری درآمدات کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے ملک میں قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی نئے اور حقیقی معاہدے کیے ہیں....‘‘۔
اردوگان اپنے تازہ کارناموں اور کارکردگی کی تفصیل سنا رہے تھے، لیکن باقی فہرست کو چھوڑ کر ذرا اسی آخری نکتے کا جائزہ لیجیے۔ ۸۰ ملین افراد پر مشتمل ترک آبادی میں سے کرد نسل سے تعلق رکھنے والے ۲۰فی صد بتائے جاتے ہیں۔ پوری ترک تاریخ میں کردی النسل اور ترکی النسل کا اختلاف شدت سے اٹھایا گیا ہے۔ ایک ہی ملک کے شہری اور مکمل دینی و تاریخی وحدت کے باوجود اقلیت کو ہمیشہ اکثریت سے شاکی رکھا گیا۔ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی تحریکیں اٹھانا اور انھیں ہوا دینا استعمار کا قدیم ہتھیار ہے۔ ’کرد‘ کا ایک لفظ دماغوں میں بٹھا دینے سے صرف ترکی ہی میں نہیں، چار اہم مسلم ممالک میں فتنے کی آبیاری ہوتی ہے۔ ترکی کے علاوہ شام، عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ کسی ایک ملک میں علیحدہ کرد ریاست کا وجود ان سب ممالک میں فتنہ جوئی کا ذریعہ اور سبب بنایا جاسکتا ہے۔ ان تمام پڑوسی ممالک میں کرد تحریک نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
ترکی میں پی کے کے (PKK) کے نام سے برسہا برس سے مسلح تحریک فعال تھی۔ اغوا، قتل، دھماکے اور مار دھاڑ ان کا اہم ہتھیار تھی۔ انھوں نے کم و بیش ہر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ طیب اردوگان نے اس چیلنج کو ہمہ پہلو انداز سے حل کرنے کا سفر شروع کیا۔ ۱۹۹۹ء میں پی کے کے، کے سربراہ عبداللہ اوجلان کو کینیا سے گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں ہے اور اس پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ہر دور میں نظر انداز کیے جانے والے کرد علاقوں میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع کردیا گیا۔ حال ہی میں ترکی، چین اور عراق کے مابین معاہدہ ہوا کہ عراق سے ایک تیل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ اگلے ماہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونا ہے، جس کے نتیجے میں روزانہ ۲۰ لاکھ بیرل تیل عراق سے کرد اکثریتی آبادی کے شہر دِیار بکر پہنچا کرے گا۔ خود اوجلان نے تین ماہ قبل ترکی کے خلاف تمام تر مسلح کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک حکومت نے ہتھیار رکھ دینے والے تمام افراد کے لیے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جو ہتھیار ڈالنے کے بجاے ملک سے نکل جانا چاہے، اسے نکل جانے کی بھی اجازت ہے۔ اس ساری پالیسی کے نتیجے میں صرف ترکی ہی میں نہیں ان چاروں ممالک میں کرد مسئلے کے حل کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ گویا کہنے کو تو یہ طیب اردوگان کی تقریر کا ایک جملہ ہے کہ ’’ہم نے وحدت اور قومی یک جہتی کی خاطر جنوب مشرقی علاقے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دوررس معاہدے کیے‘‘، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو یہ ترکی ہی نہیں پورے خطے سے اس نسلی اختلاف کا ناسور ختم کرنے کا آغاز ہے۔
یکم جون سے شروع ہونے والے مظاہروں کی بظاہر وجہ تو یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت استنبول کے قلب میں واقع معروف چوک ’تقسیم‘ کا نقشہ تبدیل کرکے وہاں واقع تاریخی غازی (یا جیزی Gezy) پارک ختم کررہی ہے اور اس کے پودے اُکھاڑ رہی ہے۔ پورے چوک کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کرکے وہاں ایک تجارتی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے۔ لیکن ان تمام ہنگاموں کی اصل وجہ حکومت کی یہی سابق الذکر دُوررس اور بتدریج اصلاحات ہیں۔ تقسیم چوک کے نئے منصوبے میں وہاں موجود اتاترک کلچرل سنٹر کے قریب ایک شان دار جامع مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اتاترک سنٹر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کمال اتاترک کی روح کو تازیانے لگانے کے مترادف ہے۔
طیب اردوگان پرایک الزام یہ لگایا جارہا ہے، خود کئی پاکستانی ’شہ دماغ‘ بھی اسے دہرا رہے ہیں کہ وہ ترک قوم کو تقسیم کررہا ہے۔ یہ طعنہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ ملک کو سیکولر اور بنیاد پرستوں میں تقسیم کررہا ہے۔ اب ذرا ایک نظر دوبارہ انقرہ و استنبول کے مظاہروں کو دیکھیے جن میں لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ان مظاہروں میں ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ اردوگان اس کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’آج اس مظاہرے میں پورے ترک معاشرے کی نمایندگی ہے۔ صرف مرد ہی نہیں بڑی تعداد میں خواتین بھی ہیں۔ صرف باحجاب ہی نہیں حجاب کے بغیر بھی ہیں اور سب شانہ بشانہ کھڑی ہیں‘‘۔ جسٹس پارٹی کو جن ۵۱فی صد عوام نے ووٹ دیے ہیں وہ سب بھی اسلام پسند نہیں۔ ان میں معاشرے کے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں لیکن کچھ لوگ آفتاب روشن کو انگلیوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔
بے انصاف ناقدین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اردوگان ڈکٹیٹر ہے، کسی کی نہیں سنتا، جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ طیب اردوگان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ اس کے کئی معاندین ہی نہیں بہت سارے دوستوں کا شکوہ بھی یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے۔ سیکولر دستور ختم کرنے اور ملک سے فحاشی ختم کرنے کے لیے جو کام دو ٹوک انداز سے پہلے ہی روز کرگزرنا چاہییں تھے وہ آج تک نہیں کیے۔ اردوگان ڈکٹیٹر ہوتا تو جس طرح اتاترک نے بیک جنبش قلم پردے، مسنون داڑھی، اذان اور قرآن کریم کا اصل متن تلاوت کرنے پر پابندی لگا دی تھی، وہ بھی سیکولر دستور ختم کردیتا۔ شراب پر مکمل پابندی لگا دیتا، پہلے ہی دن سکارف پر پابندی ختم کردیتا۔ لیکن وہ ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا کرتے ہوئے عوام کو ذہناً آمادہ کرتے ہوئے، انتہائی حکمت و احتیاط سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اقتدار کے بعد انھوں نے گذشتہ مئی ہی میں شراب پر چند پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت اب مساجد، تعلیمی اداروں، یوتھ ہاسٹلز کے قریب شراب فروشی اور علانیہ شراب نوشی پر پابندی ہوگی۔ رات ۱۰ بجے کے بعد اور شاہراہِ عام پر شراب نوشی ممنوع ہوگی۔ نوعمر بچوں کو شراب فروشی منع ہوگی۔
اردوگان لاکھوں افراد کے حالیہ مظاہروں سے خطاب میں کہہ رہے تھے:’’ہم نے مسلسل صبر کیا۔ تم نے ہماری بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا ... ہم نے صبر کیا، تم نے ہمیں گالیاں دیں .... ہم نے صبر کیا۔ تم نے مساجد کی بے حرمتی کی .... ان کے اندر غلاظت پھینک دی.... مسجدوں میں داخل ہوکر شراب نوشی کی، ہم نے صبر کیا... لیکن صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے .... اب ہم عدالت و قانون کے ذریعے ان زیادتیوں کا جواب دیں گے۔ ان کے ناقدین کی نگاہ میں شاید یہی بات ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اپنے اللہ کو منانے اور انسانیت کو بچانے کے لیے ۱۰سال کے صبروتدریج کے بعد اُٹھائے جانے والے یہ معمولی اقدامات بھی سیکولر لابی کو ہضم نہیں ہورہے ۔
طیب اردوگان، جسے بعض پاکستانی اخبارات میں بھی ڈکٹیٹر اور آمر کہا جارہا ہے، کی ڈکٹیٹر شپ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے پرتشدد مظاہرہ کرنے والوں کو بھی وزیراعظم ہاؤس بلاکر ان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر واقعی آپ لوگوں کے مطالبات مبنی برحقائق ہوئے تو وہ انھیں فوراً قبول کرلیں گے۔ ڈکٹیٹر اردوگان نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر تمھیں اپنے مطالبے پر اصرار ہے تو آؤ ہم استنبول کے شہریوں میں اس پر ریفرنڈم کروالیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔
تقریباً آٹھ ماہ بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اردوگان نے اس کی مہم انتخابات سے چند ہفتے پہلے چلانا تھی لیکن ہنگاموں کی حالیہ لہر کے بعد انھوں نے ابھی سے بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم شروع کردی ہے۔ انقرہ و استنبول کے بعدانھوں نے جمعہ ۲۱ جون سے ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پروگرامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ قرآن کریم کی حقانیت قدم قدم پر اپنی سچائی منواتی ہے: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، ’’ہوسکتا ہے کہ کوئی بات تمھیں بری لگ رہی ہو اور اسی میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔
حسنی مبارک کی باقیات اور ان کے عالمی سرپرستوں نے پورا سال مصر میں اُودھم مچائے رکھا۔ ’مرسی کا پہلا سال‘ کے عنوان سے قائم ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ایک سال میں اپوزیشن نے ۲۴ ملین مارچ کیے، یعنی اوسطاً ہرماہ دو۔ ۵ہزار سے زائد مظاہرے اور پُرتشدد ہنگامے کیے۔ ۵۰پروپیگنڈا مہمات چلائی گئیں اور ۷ہزار سے زائد احتجاجی دھرنے ہوئے۔ اور اب ۳۰جون کو کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا جا رہا ہے: تَمَرُّد (بغاوت) کے نام سے مظاہروں اور ہنگاموں کی تیاری ہورہی ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے مل کر ایسی فضا بنا دی ہے کہ گویا کوئی خطرناک آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اپوزیشن پُرامن مظاہرے کرنا چاہے تو خواہ روزانہ کرے لیکن اس کا اصل ہتھیار خوں ریزی اور جلائو گھیرائو ہے۔ ریہرسل کے طور پر ۱۹جون کو بھی اخوان کے مختلف دفاتر پر حملے کرتے ہوئے ۳۰۰کارکنان لہولہان کردیے گئے۔ اسی طوفان میں فوج کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دے۔ فوج کے سربراہ اور وزیردفاع عبدالفتاح سیسی نے ۲۳جون کو صدرمرسی سے ملاقات و مشورے کے بعد بیان کردیا کہ ’’فوج خاموش تماشائی نہیں رہے گی‘‘۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ’’ہنگامہ آرائی کے بجاے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائے‘‘ لیکن پاکستانی اخبارات سمیت پورے عرب اور عالمی میڈیا نے ان کا یہ بیان اس انداز سے نمایاں کیا کہ ’’فوج نے اخوان کو تنبیہہ کردی‘‘۔ دوسری طرف حسنی مبارک کے تعین کردہ جج ایک کے بعد دوسرا متنازعہ فیصلہ صادر کیے جارہے ہیں۔ تازہ ترین فیصلے میں دستور ساز اسمبلی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کا الیکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا ہے اور صدرمرسی پر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام لگاکر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ترکی اور مصر میں یہ سب اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہو رہا۔ بیرونی آقا، فرعونی دور کی باقیات بعض مسلمان ممالک اور عالمی سرمایہ سب اس الائو پر تیل چھڑک رہے ہیں۔
دوسری جانب اردوگان کی طرح اخوان اور اس کی حلیف جماعتوں نے بھی رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے۔ ۲۱جون کو قاہرہ میں لاکھوں افراد نے ’تشدد نامنظور‘ کے عنوان سے مظاہرہ کیا ہے۔ قاہرہ کے اس عظیم الشان مظاہرے کی کوئی تصویر، کوئی خبر بھی دنیا کو دکھائی نہیں دی لیکن اخوان پُرعزم ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ دکھائیں یا نہ دکھائیں، اگر اللہ کی رضا اور عوام کی تائید اسی طرح شاملِ حال رہی تو ’آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا‘۔