اخبار اُمت


گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ  سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

  •  اھل سنت کے مطالبات: اہل سنت کی جانب سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ حکومتی جیلوںمیں قید سنیوں خاص طور سے خواتین کو فی الفور رہا کیا جائے ۔ جیلوں میںخواتین کی عصمت دری کرنے والوںکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔دہشت گردی کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۴ میں ترمیم اور خفیہ جاسوسی کے قانون کو ختم کیا جائے، نیز اہل سنت کو سرکاری عہدوں سے دُور رکھنے کے رویے کو ترک کیا جائے۔ علاوہ ازیں ملازمتوں کے یکساں مواقع فراہم کرنے اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوںکے حوالے سے مطالبات بھی شامل ہیں۔ حکومت نے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے تو مظاہرین کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وزیر اعظم کو تبدیل کرنے اور ایسے شخص کو حکمران بنانے کے لیے آواز اٹھائیں جس پرپوری قوم اور تمام سیاسی قائدین متفق ہوں، یا یہ کہ عراق کو تین ملکوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ ہر ایک اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکے۔تیسرایہ کہ یہاں متحدہ عرب امارات کے طرز پرخودمختار ریاستیں قائم کی جائیں، یا پھر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ مظاہرین پر وحشیانہ تشدد اور انھیں بموں سے اڑانے کے مسلسل واقعات کے بعد مظاہرین حکومت گرانے یا الگ آزاد سُنّی ریاست کے قیام سے کم پر راضی نہیں ہیں۔
  • احتجاجی مظاھرے: اپنے مطالبات کے حق میںگذشتہ کئی ماہ سے اہل سنت آبادی نے ملک گیر پُرامن احتجاجی دھرنوں کا آغاز کیاہے۔ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد تمام اہل سنت مساجد سے ایک ہی موضوع پر خطبۂ جمعہ سن کر پورے ملک میں کھلے میدانوںمیں آکر جمع ہوتے ہیں۔ پُرامن مظاہروں کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے ان میںخوں ریز بم دھماکوں کا عنصر شامل کردیا گیا۔ گذشتہ ماہ کرکوک کے شہر حویجہ میں ایک احتجاجی ریلی میں شریک ۲۰۰؍ افراد کو شہید کردیا گیا۔    اس کے ساتھ پکڑدھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سُنّی مرد وخواتین سے جیلیں بھر دی گئی ہیں۔  احتجاجی مظاہروں کو کچلنے میں عراقی اور ایرانی ذمہ داران کی طرف سے عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
  • عراق کی تقسیم: عراق کی تقسیم در تقسیم کے اس منصوبے کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر مسلسل آگے بڑھایا جارہا ہے۔ کہیں کردوں اور عرب کی لڑائی ہے، کہیں پر شیعہ سُنّی جھگڑا ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔کہیں عرب اور فرس اقوام آمنے سامنے ہیں تو کہیں پڑوسی ممالک چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کی آگ بھڑکارہے ہیں۔ عراق میںیہ تمام تر اختلافات عروج پر ہیں۔

صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار  یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔

عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔

  • ایرانی مداخلت:  ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار جنرل ناصر شعبانی کا روزنامہ اخبار روز کو دیا گیا یہ بیان کہ’’ کرکوک شہر کے کھلے میدان کو باغی وہابیوں سے آزاد کروانے میں عراقی حکومت کا مکمل ساتھ دیا‘‘، عرب اخبارات اور جرائد میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔

 کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین  نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔  رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔

ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔

 

۲۰۱۲ء کے اواخر میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں عرب بہار کے پس منظر میں مسئلۂ فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس موقع پر فلسطینی رہنما خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین پر حماس کا موقف تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس اہم دستاویز کاخلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ  

تحریک مزاحمت حماس محض ایک اسلامی تحریک نہیں، بلکہ یہ تحریک آزادی فلسطین کا ہراول دستہ بھی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی دو اوردو چار کی طرح بالکل واضح ہے۔   ہم سرزمین فلسطین اوراپنی پالیسی کو درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:

                ۱-            فلسطین مشرق میں دریاے اردن سے لے کرمغرب میں بحیرہ روم تک اور شمال سے   لے کر جنوب تک فلسطینی عوام کی سرزمین ہے ۔حالات کیسے بھی ہوں، دباؤ جتنا بھی ہو، حماس فلسطین کی ایک بالشت بھرزمین سے بھی کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی۔ 

                ۲-            ہم فلسطین پرکسی قسم کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے کسی بھی حصے میں نہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اس کے کسی حق کو۔

                ۳-            آزادیِ فلسطین ہمارا قومی، ملی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ صرف عرب اور مسلم امہ کا ہی نہیں تمام انسانیت کا مسئلہ ہے۔

                ۴-            جہاد اور مسلح جدوجہد ہی آزاد ی فلسطین کا حقیقی اور صحیح راستہ ہے۔ تاہم، ہم ہر قسم کے سیاسی، قانونی اورسفارتی ذرائع کو بھی استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

                ۵-            ہم یہودیت کے پیروکاروں کے خلاف ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں لڑتے بلکہ ہمارا ہدف غاصبانہ قبضہ کرنے والے صہیونی ہیں ۔ ہم ہر اس ظالم کے خلاف لڑیں گے جو ہمارے حقوق غصب اور ہماری سرزمین پر قبضہ کرتا ہے ۔

                ۶-            ہم تمام مقبوضہ علاقوں کے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کی مکمل    تائید کرتے ہیں۔ہم اس مطالبے سے کسی طور سے دست بردار نہیںہوسکتے۔ اسی طرح  ہم فلسطینیوںکومتبادل وطن دینے کی بھی پُر زور مخالفت کرتے ہیں۔

                ۷-            ہمارے نزدیک القدس سمیت پوری مغربی پٹی ، غزہ اور۱۹۴۸ء کے مقبوضہ تمام علاقے ایک ہی وطن کے حصے ہیں۔ ہم غزہ کو مغربی کنارے سے قطعاً الگ خیال نہیں کر تے۔

                ۸-            ہم فلسطین میں یکساں سیاسی نظام اور ایک ہی قومی حکومت کے خواہاں ہیں ۔

                ۹-            ریاست آزادی کا ثمر ہوتا ہے۔ لہٰذا فلسطین کو پہلے آزاد کراناپھر اس کے پورے رقبے پر مکمل اور خودمختارحکومت کا قیام ہمار ی پالیسی ہے۔

                ۱۰-         ہم خود مختارقومی پالیسیاںتشکیل دینے کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کسی دوسرے ملک کے دست نگر اور تابع نہ ہو۔

                ۱۱-         جمہوریت کی بنیاد پرفلسطین میں قومی ادارے تشکیل دینا ہماری پالیسی ہے۔ پہلے صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں اور عوام کی راے کا احترام کیا جائے۔

                ۱۲-         دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کرنااور تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنا حماس کی بنیادی پالیسی ہے۔

                ۱۳-         ہم دینی ، نسلی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیںاور اختلاف کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سب کو امت کے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

  •  اعتراضات: کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ہماری طرف سے جنگ بندی کی پیش کش شاید مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ یقینا ان کی راے قابل احترام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس کی تیاریوں اورکاروائیوںکا سفرآزادی فلسطین تک جاری رہے گا۔وسائل وطریقۂ کار میںوقتاً فوقتاً تبدیلی کرنا اسٹرے ٹیجی کاحصہ ہے۔ غزہ سے اگرچہ دشمن اوریہودی نوآبادکار      نکل چکے ہیں پھر بھی ہم یہاں دشمن سے برسرِپیکار ہیں۔ مغربی پٹی میں اگرکئی برسوں سے مسلح جدوجہد نہیں ہورہی ہے تو وہ ہمارے عوام کی مصلحت وضرورت کی بنا پرہے۔ان شاء اللہ حالات جیسے ہی سازگار ہوںگے وہاں پر بھی مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا جائے گا۔

جہاںتک غزہ کو الگ کرنے کی بات ہے تو بخدا ہم نے بخوشی یہ نہیںکیا ۔ یہ صورت حال ہمارے او پر مسلط کردی گئی ہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے نتائج کو علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا اور ہمیں غزہ کو الگ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پہلے دن سے اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ قومی بنیادوںپر اتفاق راے سے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے زیر نگرانی مصالحت ہو اورایسا قومی ایجنڈا ترتیب دیا جائے جو مستقل اقدارپر مبنی، تمام حقوق کا پاس داراور فلسطین کے قومی مفادکا ضامن ہو۔

  •  عرب بھار اور مسئلہ فلسطین:حالیہ عرب بہار فلسطین کی آزادی اور صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ اندرونی وبیرونی طور پرمضبوط و مستحکم ہو اوراس کی خارجہ وداخلہ پالیسی آزاد وخود مختار ہو۔عرب بہار سے یہ ممکن نظر آنے لگا ہے۔ عالم عرب میں واقع ہونے والی حالیہ تبدیلیاں یقینا حماس اوردوسری فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے لیے عالمِ عرب میں کام کرنے کے مزید مواقع فراہم کریں گی۔

 عرب بہار نے اسرائیل کوبہت پریشان اور بدحواس کر دیا ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی پالیسی اور اسٹرے ٹیجی ہی تبدیل کردی ہے ۔ موجودہ     صورت حال نے حماس کے سیاسی تعلقات کا روڈ میپ بھی تبدیل کردیا ہے۔ کہیں اس کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے تو کہیںتعلقات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے مختلف عرب ممالک کے ساتھ حماس کے تعلقات مختلف نوعیت کے تھے۔لیکن عرب بہار نے ان تعلقات کو مضبوط کر دیا ہے۔

حماس کے شام کے ساتھ تعلقات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور جو کچھ اس وقت شام میں ہو رہا ہے ہم ہرگزاس پر راضی نہیںہیں۔خدا گواہ ہے اور تاریخ اسے ثابت کرے گی کہ ہماری شروع ہی سے خواہش تھی کہ معاملات اس رخ پر نہ جائیں جس پر اب چل رہے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ شام پرامن ،مضبوط اور طاقت ور رہے باوجود یکہ تحریک مقاومت کے خلاف اس کی پالیسی پچھلے  کئی سال سے مخاصمت پر مبنی تھی جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔

مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ حماس کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں لیکن فلسطین اور فلسطینی مزاحمت ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے۔ جب حماس کی قیادت اردن میں تھی، اس وقت بھی اس نے اپنا مزاحمتی کام جاری رکھا۔ پھر جب ہم قطر اور شام میں منتقل ہو گئے اوراس کے بعد دوسرے ممالک جیسے مصر میں چلے گئے تب بھی حماس مزاحمتی تحریک ہی رہی،اور فلسطین کی آزادی تک ان شاء اللہ اس کا یہی طرز عمل رہے گا۔ عرب بہار اور عالم عرب میںواقع ہونے والی تبدیلیوں نے کچھ وقت کے لیے دنیا کی نظریں مسئلہ فلسطین سے ہٹادی ہیںجو یقینا ایک نقصان ہے لیکن یہ عارضی نقصان ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ عرب عوام اگرچہ اپنی داخلی پریشانیوں میں مصروف ہیںمگر اس کے باوجود فلسطین ان کے دلوں اور نعروں میں موجود ہے۔

  •  عرب بھار اور درپیش چیلنج: عرب ممالک کو درپیش چیلنجوںکے حوالے سے میں کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں:

۱-داخلہ اور خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنا چاہیے اور صرف اپنے مفادات کے    گرد نہیں گھومنا چاہیے۔ ملکی مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی  خارجہ پالیسی کو تقویت ملتی ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں موقف کمزور پڑ جاتا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ بڑے بڑے مسائل کے لیے کوشش کرنا، نہ صرف علاقائی سطح پرآپ کی آواز کو مؤثر بنادیتا ہے بلکہ بین الاقوامی کردار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔

۲- اُمت کے مسائل کا حل صرف اپنے ممالک کی حد تک سوچنے میںنہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ اور عالمِ عرب کا ایک دوسرے سے تعاون اور اتحاد میں مضمرہے۔ عرب بہار کے ممالک اس وقت، جب کہ وہ اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے ممالک کو نئی بنیادوں پر قائم کرنے میں لگے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ امت کے مسائل کے بارے میں کیا کرسکتے ہیں۔

۳-مغرب اور بڑے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا آج کی دنیا میں ایک طبعی امر ہے۔یہ ہماری سیاسی اور اقتصادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی قیمت مسئلہ فلسطین، اس میں عربوں کے کردا رکے خاتمے اور ان کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی صورت میں نہ ہو۔  ہماری راے میں مغرب کے ساتھ تعلقات محض مراعات کے بدلے میں استوار نہیں کرنے چاہییں،  اس لیے کہ عرب بہار کے ممالک اپنے عوام کے ارادے سے چلتے ہیں نہ کہ بیرونی امداد سے۔

۴- عرب اسرائیل کی کش مکش کے حوالے سے عرب ممالک اور عرب لیگ کو اپنی سیاسی سوچ کو وسیع اورحکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انھیں حماس کے بارے میںبھی اپنے موقف میںتبدیلی لانی چاہیے۔پہلے جو کچھ تحریک کے لیے ممنوع تھا جیسے اسلحہ کی فراہمی وغیرہ،   اب اس کی اجازت ہونی چاہیے۔

اب، جب کہ فوجی جنگوں کا دور نہیں رہا ،امت مسلمہ کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آگے آناچاہیے۔ ۱۹۶۷ء سے اب تک اسرائیل کوئی جنگ نہیں جیت سکا سواے ۱۹۸۲ء کے۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ لبنان سے فلسطینی تحریک کو نکال دیاگیا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعدمجاہدین کوفراہم کردہ اسلحے سے ممکن ہوا۔

اسی طرح اب فلسطین کے نام سے دولت کمانے کے پراجیکٹ ختم ہونے چاہییں ۔ اب نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن میں حقیقی طاقت کا حصول سرفہرست ہے ۔

۵-اسرائیل کے ساتھ تصفیہ کے معاہدات اوران معاہدات کے پشت پر کھڑے ممالک کی پالیسیوںپر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سمجھوتے اور معاہدے، اُمت مسلمہ اور فلسطین کے حق میں نہیں ہیں۔اس لیے کہ اسرائیل نہ کبھی دوست تھا، نہ ہوگا۔عرب بہار کے بعداسرائیل سے دوستی بڑھانے کی باتیںبالکل میل نہیں کھاتیں۔

۶- فلسطین کو صرف اسلام پسندوںکی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ حماس ،جہاد اسلامی اور دیگر جہادی تحریکوںکو پوری امت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ،جن میں اسلام پسند،      قوم پرست، لبرل اور بائیں بازو کی طاقتیں سب شامل ہیں۔

 عرب بہار کے نتیجے میںہماری خواہش ہے کہ امت مسلمہ امت واحدہ بن کر اُبھرے اور فلسطین پر ایک موقف اختیار کرے۔ان کی داخلہ پالیسی عوامی خواہشات کے مطابق ہواور خارجہ پالیسی مضبوط بنیادوں پراستوار ہو تاکہ صہیونی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے۔

 

ماں اپنے جوان بیٹے کے سرہانے کھڑی اس کے ساتھ ہونے والا اپنا آخری مکالمہ دہرا رہی تھی: ’’خالد دفتر سے آتے ہی ہمیں خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلنے لگا تو میں نے پوچھا اتنی کیا جلدی ہے۔۔؟ کہاں جارہے ہو۔۔؟ جاتے جاتے مسکراتے ہوئے شوخی سے کہنے لگا: ’’ماں تم مجھے شادی کرنے کا کہتی رہتی ہو، آج میں خود ہی حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگا کل رات صدر محمد مرسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوانِ صدر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بہت توڑ پھوڑ کی تھی___ آج اخوان کی طرف سے صدر کی حمایت میں، ایوانِ صدر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔ رات گئے اچانک معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دوبارہ ہنگامہ کیا ہے بلکہ اخوان کے مظاہرے پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو شہید و زخمی کردیا ہے۔ میرا خالد بھی زخمی ہوگیا تھا اور گذشتہ تین روز سے بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں داخل تھا۔ آج جب وہ چلاگیا ہے تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ سنائی دے رہا ہے ’’ماں! حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں۔  ماں! حوروں سے___ ‘‘ شہید کا غم زدہ باپ اور بھائی بھی قریب کھڑے تھے۔ والد نے ہاتھ میں خالد کا پیشہ ورانہ شناختی کارڈ تھام رکھا تھا۔ وہ وزارتِ داخلہ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ کارڈ پر تفصیلات درج تھیں: خالد طٰہٰ عبد المنعم رکن پروفیشنل کلب۔ کارڈ نمبر ۳۳۸۰۔ کارآمد: ۲۰۱۲ء کے اختتام تک۔ چند سال پہلے بننے والے اس کارڈ کا اندراج کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ ۲۰۱۲ء کا اختتام صرف کارڈ کی مدت ختم ہونے کی نہیں، خود خالد طٰہٰ کی مہلت حیات کا اختتام بھی ہوگا۔ خالد ٹھیک ۱۲/۱۲/۱۲ کو ’حوروں سے منگنی‘ کرنے چلا گیا وہ یقینا وہاں خوش و خرم ہوگا۔

احتجاج، مظاہرے، اعتراضات، تنقید ۔۔۔ یقینا اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔۔ لیکن دنگا فساد، گالم گلوچ اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد اس کی باقیات کو عوامی نمایندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہوئی۔ اب وہ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بظاہر تو حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر سے ہوا جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور متعین مدت کے لیے تھے۔اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن دو اسرائیلی ذرائع کچھ اور خبر دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اُمور کے اسرائیلی ماہر بنحاس عنباری نے غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک روسی   ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے (Russia Today) پر کہا: ’’صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملہ، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا‘‘۔ سننے والوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔ ہرایک نے اپنی اپنی تاویل کی۔ چند روز بعد ایک معروف اسرائیلی ویب سائٹ نے اصل راز سے پردہ اُٹھادیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے سابق وزیرخارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیفنی سے ملے۔ لیفنی نے انھیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا: ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔ عمروموسیٰ اس ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کررہی تھی۔ انھوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جڑدیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’توتو مَیں مَیں‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس استعفے اور معترض علیہ شقوں کو بنیاد بناکر ملک میں ایک مناقشت شروع کردی۔ اسی اثنا میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔

انھی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کی وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعے دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا، یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰دسمبر سے پہلے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدرمرسی نے احتیاطی پیش رفت کرتے ہوئے ۲۲نومبر کا مشہور عالم (اپوزیشن کے بقول فرعونیت پر مبنی) صدارتی آرڈی ننس جاری کیا۔ اس کے چار نکات اہم ترین تھے: lدستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا، نہ دستوری کونسل ہی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔l حسنی مبارک اور  اس کے آلۂ کاروں پر انقلابی تحریک کے دوران شہید کیے جانے والے افراد کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی l حسنی مبارک کے متعین کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود کو برطرف کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں کی جان بچانے کے لیے مقدمے کی قانونی بنیاد ہی کھوکھلی رکھی۔ lدستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

’خفیہ اجلاس‘ میں شریک افراد، تمام اسلام بیزار قوتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس صدارتی اعلان کی مخالفت اور تنقید کا طوفان برپا کردیا۔ پہلے ہی روز سے مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ خالد طٰہٰ جیسے ۱۱نوجوان شہید کردیے۔ اخوان کے ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف شہروں میں اخوان اور اس کی سیاسی پارٹی، حریت و عدالت کے ۴۸ دفاتر نذر آتش کردیے اور پورے ملک کو انتشار کا شکار کردیا۔

اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ الشہادۃ أسمی امانینا، ’’شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے‘‘، جیسے نعروں کی آغوش میں پلے خالد طٰہٰ جیسے لاکھوں نوجوان بھی تشدد پر اُتر آتے، تو ملک ایک ہمہ گیر خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پُرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق، ۱۵ ملین، یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد نے بیک وقت مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے اسے تقریباً نظر انداز کیا۔

صدر مرسی نے بھی بیک وقت دوٹوک موقف، لیکن لچکدار رویے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے ایک طرف تو دستوری عمل کو تیز تر کرنے کا کہا۔ ۱۰ دسمبر کا انتظار کیے بغیر ہی مسودہ مکمل کرنے کا کہا جس کے نتیجے میں دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر ووٹنگ کرتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ، ۳۰ نومبر کو صدر کی خدمت میں پیش کردیا۔ انھوں نے دستوری تقاضے کے مطابق ۱۵دسمبر کو اس پر ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد قانونی طور پر کسی کے لیے اسے منسوخ یا معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی صدر نے اپوزیشن، جج حضرات، دستوری ماہرین اور اہم دانشوروں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بعض نمایاں اپوزیشن لیڈروں سمیت ۵۰ کے لگ بھگ دستوری ماہرین نے دعوت قبول کی، لیکن ’خفیہ ملاقات‘ میں شریک تمام افراد نے دعوت مسترد کردی۔ صدر مرسی نے خیر سگالی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا افتتاح کرنے کے بعد کہا: اب آپ سب سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین باہم مشورے سے جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس کی صدارت نائب صدر جسٹس محمود مکی کے سپرد کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ طویل مشاورت کے بعد مجلس نے اتفاق راے سے فیصلہ کیا کہ ۲۲ نومبر کا صدارتی فرمان منسوخ کردیا جائے، ریفرنڈم اپنے مقرہ وقت پر ہو، صدارتی فرمان کی روح برقرار رہے اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں برقرار رہیں۔ ریفرنڈم کا فیصلہ مخالفت میں آئے تو صدر مملکت نئی دستوری کونسل تشکیل دیں جو دوبارہ چھے ماہ کا عرصہ لیتے ہوئے نیا دستوری مسودہ تیار کرے۔ فرعونیت کا طعنہ دینے والوں نے دیکھا کہ اگرچہ صدر اپنا صدارتی فرمان منسوخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، خود اخوان کے بعض رہنماؤں نے بھی یہ بیان دیا تھا، لیکن جب مذاکراتی مجلس نے منسوخی کا فیصلہ کرلیا تو صدر نے و أمرھم شوری بینہم کہتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔

اپوزیشن نے ماردھاڑ کی سیاست پھر بھی بدستور جاری رکھی، لیکن یہ صرف اپوزیشن کی پالیسی نہیں تھی۔ اخوان، صدر مرسی بلکہ اسلام اور شریعت نبوی کے تمام اندرونی و بیرونی مخالفین یک جان ہوگئے تھے۔ سیپی لیفنی کی بات تو میڈیا میں آگئی، مزید نہ جانے کس کس دشمن نے جلتی پر تیل ڈالا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی خوب خوب حق نمک ادا کیا۔ ایسی ایسی خبریں گھڑیں اور دنیا بھر میں پھیلائیں کہ صفحہء ہستی پر جن کا وجود تک نہ تھا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں یہ خبریں بلا تحقیق شائع ہوئیں اور ایک جھوٹ، اربوں جھوٹ کی شکل اختیار کرتے ہوئے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے نامہء اعمال میں ثبت ہوگئے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیا کیا نشر فرمایا: ’’صدر مرسی مسجد میں محصور‘‘۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کہا گیا: ’’مصر میں فوج سڑکوں پر آگئی‘‘۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قصر صدارت کے باہر اخوان کے نو افراد شہید کردیے گئے، تو حامی اور مخالفین دونوں سے میدان خالی کرواتے ہوئے قصر صدارت کے باہر صدارتی گارڈز کے چار ٹینک اور تین بکتر بند گاڑیاں کھڑی کردی گئیں۔ اسی ایک واقعے کو ’’فوج آگئی‘‘ کی سرخی دے کر گویا اپنی کسی خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا۔ ایک سرخی تھی: ’’مصر میں اسلامی دستور کے خلاف ہنگامے، کئی ہلاک، اپوزیشن کا احتجاج‘‘۔ گویا اسلامی دستور کے خلاف احتجاج میں اپوزیشن کے کارکنان ہلاک کردیے گئے جس پر مزید احتجاج ہورہا ہے، حالانکہ قتل کیے جانے والے تمام افراد اخوان ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اخوان نے سب کے نام پتے اور تنظیمی تعلق اور تعارف شائع کیا۔ اخوان نے ہی ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے۔ قاتلوں نے قتل بھی کیے اور پھر ’خون کا بدلہ لیں گے‘ کہتے ہوئے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ اس ابلاغیاتی یلغار کی تفصیل طویل ہوسکتی ہے لیکن صرف مزید جھلکیوں سے ہی اس کی شدت و دنائت کا اندازہ لگا لیجیے: ’’اخوان نے نہر سویز فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ ،’’اسلام پسندوں نے اہرامِ مصر کو مزار قرار دیتے ہوئے انھیں ڈھانے کا مطالبہ کردیا‘‘، ’’نئے دستور میں فوت شدہ بیوی کے ساتھ، تدفین سے پہلے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا فیصلہ‘‘، ’’صحراے سینا فلسطینیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘‘، ’’لونڈیاں رکھ سکنے کا قانون بنایا جارہا ہے، ’’دستور میں ہولو کاسٹ کی نفی‘‘۔

الزامات و تحریفات کا یہ سلسلہ ریفرنڈم کے آخری روز تک جاری رہا۔ اخوان کے مرشد عام ہر جمعرات کو اخوان کے نام ہفت روزہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ عموماً دعوتی و تربیتی موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کو مرشد عام نے مصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بیان کیں جن میں مصر کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ قرآن کریم میں ۲۴مقامات پر مصر کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں صراحتاً اور کہیں کنایتاً۔ پھر انھوںنے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بیان کیں جن میں مصر اور اہل مصر کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے    انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی نصیحت میںاہل مصر کو روے زمین کے بہترین سپاہی فرمایا ہے۔ گویا یہ لوگ فطرتاً تیار فوجیں ہیں جنھیں صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن جب قیادت ہی فاسد تھی تو اس کے سپاہیوں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس وقت مصر کو بھی حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی بہتر رہنمائی اور تربیت کی ‘‘۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کی شام یہ بیان جاری ہوا اور پھر ریفرنڈم سے ایک روز قبل جمعہ ۲۱دسمبر سے ہر طرف پروپیگنڈا شروع ہوگیا: ’’مصری فوج کی قیادت فاسد ہے: مرشد عام‘‘۔

الحمد للہ گذشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی اُمور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’النور‘ اور اخوان سے علیحدہ ہوکر الگ پارٹی (الوسط) بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتیبان بن گئے۔ اگرچہ مسیحیوں کی اکثریت نے حسنی مبارک کی باقیات کا ساتھ دیا، لیکن ان کی بڑی تعداد نے بھی دستور کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح دونوں مرحلوں کے نتائج ملا کر ۶۴ فی صد ووٹروں نے ملک کا پہلا جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اس دستور کی تیاری کے لیے چھے ماہ کی مدت طے کی گئی تھی۔ ۱۰۰ رکنی منتخب دستوری کونسل میں معاشرے کے تمام طبقات اور نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ۴۰ ہزار تجاویز موصول ہوئیں۔ کونسل کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے سب کا جائزہ لیا گیا۔ ان کمیٹیوں اور کونسل کے ۶۰۰ اجلاس ہوئے۔ مصر کے سابق دستور اور دساتیر عالم سے استفادہ کیا گیا اور ایک ایسا دستور پیش کیا گیا جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ (ان شاء اللہ)

دستور کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے لیکن تجزیہ کریں تو کہیں کوئی سنجیدہ اور حقیقی اعتراض نظر نہیں آتا۔ کوئی اعتراض ہوتا بھی تو یہ ایک فطری امر ہوتا۔ بہرحال یہ دستور  کوئی وحی تو نہیں، ایک انسانی کاوش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ دستور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے، جب کہ مصر میں قبطی مسیحیوں کی    بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ قبطی آبادی ۱۰فی صد ہے۔ اگر ۹۰ فی صد آبادی والے ملک کا دستور اسلامی ہو تو اس پر اعتراض بے جا ہے، لیکن دستور ساز کونسل، اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث میں الجھی ہی نہیں ہے۔ ملک کو خودمختاری، تعمیر و ترقی، خوش حالی اور کامیابی کی جانب لے جانے والا ایک دستور تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام اہداف اسلامی تعلیمات پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔

اسلام کے حوالے سے جو چند بنیادی نکات اس میں شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ شق (۱) میں پہلے صرف مصر کی عرب شناخت کا ذکر تھا، اب لکھا گیا ہے کہ ’’عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد، خودمختار، متحدہ اور ناقابلِ تقسیم ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہوگا۔ ’’مصری عوام اُمت عربی و اسلامی کا اہم جزو ہیں جنھیں وادی نیل اور براعظم افریقا سے اپنی نسبت اور ایشیا تک اپنی وسعت پر فخر ہے۔ وہ تہذیب انسانی کی تعمیر میں مثبت شرکت چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ عربی کے ساتھ اُمت اسلامیہ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔شق (۲) ’’ریاست کا مذہب اسلام اور سرکاری زبان عربی ہے۔ شریعت اسلامی قانون سازی کا بنیادی مصدر ہے‘‘۔ جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض کیا اور اودھم مچایا گیا وہ شق ۴ ہے جس میں تاریخی جامعہ الازھر کو باقاعدہ سرکاری اور دستوری حیثیت دیتے ہوئے ایک خود مختار ادارے کا مقام دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ’’اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں جامعۃ الازھر کی اعلیٰ علما کونسل سے راے لی جائے گی‘‘۔ پاکستان میں تو الحمد للہ اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک مستقل بالذات قومی ادارہ رہنمائی کرتا ہے۔ مصر میں جامعۃ الازھر کی علما کونسل سے راے لینے پر آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ اسی ضمن میں شق ۲۱۹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شریعت اسلامی کے اصول و مبادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’اسلامی شریعت کے کلی دلائل، فقہی اور اصولی قواعد اور مذاہب اہل سنت و الجماعت کے معتبر مصادر ہیں‘‘۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ شق مبہم ہے، جب کہ دستور وضع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی شریعت کے مآخذ متعین کردیے ہیں۔ لفظ ’مذاہب اہل سنت و الجماعت‘ پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مصر میں شیعہ آبادی براے نام سے بھی کم ہے، اس لیے یہ تعین کردیا گیا۔

ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ دستور میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ دستور کے دیباچے میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’فرد کی عزت و تکریم ریاست کی عزت و تکریم ہے۔ اُس ریاست کا کوئی عزت و مقام نہیں، جس میں خواتین کی تکریم نہیں کی جاتی۔ خواتین مردوں کی مثل ہیں اور وہ تمام قومی ذمہ داریوں اور حقوق میں برابر کی شریک ہیں‘‘۔ یہی نہیں دستور میں کئی مقامات پر مصری شہری کے حقوق، اس کی آزادیوں، اس کی حفاظت، اس کی کفالت اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے جامع شقیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر جگہ ’تمام شہری‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں یقینا مرد و زن دونوں شامل ہیں، لیکن نہ جانے کیوں خواتین کا نام الگ سے لکھنے پر اصرار ہے۔

نئے مصری دستور کے مطابق ریاست ان تمام شہریوں کی کفالت کرے گی جو خود کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دستور میں خاندان کی بہبود و بہتری کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں ہیں۔ ایک جمیل و جامع عبارت شق ۱۰ میں لکھی گئی ہے: ’’خاندان معاشرے کی بنیاد ہے۔ دین، اخلاق اور قومی وابستگی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ریاست اور معاشرہ مصری خاندان کی بنیادی ساخت، اس کی مضبوطی، استحکام اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔ ریاست بچے اور ماں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرے گی اور خاتون خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں اور عمومی سرگرمیوں میں توافق پیدا کرے گی۔ ریاست ملک کی بیواؤں، مطلقہ خواتین اور اپنے خاندان کی کفیل خواتین کی حفاظت و دیکھ بھال کا خصوصی اہتمام کرے گی‘‘۔ اس شق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک اسی بات کی اہمیت دیکھ لیجیے کہ’ریاست اور معاشرہ‘ مل کر استحکام خاندان اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔

مصر کے پہلے جمہوری دستور کا ایک انقلابی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اجیر کی اجرت کو پیداوار سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جا چھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔

جمہوری اقدار کی ترویج کے ضمن میں وہ تمام شقیں ملاحظہ کرلیجیے، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آیندہ کوئی سربراہ تاحیات نہیں رہ سکے گا،زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ صدر مرسی چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہو، لیکن دستوری کونسل نے صدارتی نظام ہی کو باقی رکھا ہے، البتہ صدر کے اختیارات ۴۰ فی صد کم کردیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۲۰۲ ملاحظہ کیجیے، لکھا ہے: ’’صدر مملکت مجلس شوریٰ (سینیٹ) کی منظوری کے بعد خود مختار اداروں اور نگران ایجنسیوں کے سربراہ مقرر کرے گا۔ یہ تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی، جس کی ایک بار تجدید ہوسکے گی۔ ان سربراہوں کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کی منظوری کے بغیر معزول بھی نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ ۱۹۵۳ء  سے ۱۹۷۰ء تک جمال عبد الناصر، ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۱ء تک انور السادات، اور ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک   حسنی مبارک کے ظالمانہ، کرپٹ اور شخصی اقتدار کی ہوش ربا داستانیں دیکھیں، اور ہاتھ آئے اختیارات کو ایک ضابطے میں ڈھالنے والے حافظ قرآن، پی ایچ ڈی انجینیر اور تحریک اسلامی کے تربیت یافتہ صدرِ مملکت کو دیکھیں، تو اصل فرق اور احتجاج کی وجوہات واضح ہوجائیں گی۔

تمام تر ماردھاڑ اور قتل و غارت کے باوجود عوام کی اکثریت نے مصر کا پہلا حقیقی جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اب نئے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں جس کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت تشکیل دے گی۔ صدر محمد مرسی نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خیرسگالی کا ایک اور پیغام دیا ہے۔ صدرِ مملکت سینیٹ میں ۹۰؍ارکان کو خود نامزد کرتا ہے۔ صدرمرسی نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان کا تقرر کر دیا ہے۔ تقریباً ۷۵فی صد ارکان دیگر پارٹیوں سے لیے گئے ہیں۔ ملک کے اہم قانونی ماہرین، قبطی مسیحیوں اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔ اب فوری طور پر اپوزیشن کے پاس مخالفت کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں۔ اللہ کرے کہ صدارتی الیکشن اور دستوری ریفرنڈم میں اکٹھے رہنے والے سب محب وطن قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یک جا رہ سکیں، لیکن ایسا نہ بھی ہوسکا تو ملک بہرصورت جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ نئے دستور میں دستوری عدالت کے ۱۹ ججوں کی تعداد کم کر کے ۱۱ کردی گئی ہے۔ ۱۱ بھی دنیا کی دستوری عدالتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تعداد کم ہونے سے صدر مرسی اور جمہوریت کے کھلے دشمن تہانی جبالی جیسے افراد سے نجات مل گئی ہے۔ اب تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

 

مصری صدر محمد مرسی کے خلاف ساری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ انھوں نے مزید اختیارات سمیٹ لیے، فرعون بننا چاہتے ہیں، دوسرا حسنی بن بیٹھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے حاصل اختیارات سے بھی دست بردار ہورہے ہیں۔ اس وقت مصر میں ملکی تاریخ کا پہلا عوامی دستور وضع کیا جارہا ہے۔ مجوزہ دستور میں صدارتی نظام حکومت کے بجاے پارلیمانی نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔ اب اصل اختیارات صدر مملکت نہیں منتخب پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کردہ وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ یہ دستور سازی مصر میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز اور اہم کارنامہ ہوگا، مخالفین صدر مرسی کو یہ اعزاز لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔ دستور سازی کے ان آخری مراحل میں ایک بار پھر حسنی مبارک کی باقیات کے ذریعے دستوری عدالت کو متحرک کیا جارہا تھا۔ نو منتخب قومی اسمبلی کو چند ہفتوں کے اندر اندر تحلیل کردینے والی اس عدالت کے جج باقاعدہ بیانات دینے لگ گئے کہ نئے دستور کا مسودہ اور پارلیمنٹ کی منتخب کردہ دستوری کمیٹی غیر قانونی ہے۔ ملک میں سنگین دستوری بحران پیدا کرنے کی سازش کے واضح ثبوت مل جانے پر، صدر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ملک میں نیادستور نافذ ہوجانے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے ہیں جنھیں کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا۔ دستور کی راہ میں رکاوٹوں اور سازشوں کا سدباب صدر مرسی کا اصل جرم ہے۔

انگریز سے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مصر میں عوام کی حقیقی مرضی سے کوئی دستور نہیں بن سکا۔ پہلے ۱۹۲۳ء کا دستور نافذ رہا جو بادشاہت کا محافظ تھا۔ ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر اور ان کی فوجی انقلابی کونسل نے دستوری فرامین جاری کیے۔ ۱۹۵۶ء میں شام اور مصر کی متحدہ ریاست کا دستور جاری کردیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں دوسرے ڈکٹیٹر انور السادات نے اپنی مرضی کا دستور جاری کردیا۔ تیسرے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے بھی اپنے ۳۰ سالہ دورِ اقتدار میں یہی دستور مسلط کیے رکھا، البتہ گاہے بگاہے ترامیم کرکے اپنے لیے پانچویں بار منتخب ہونے اور اپنے بعد صاحب زادے جمال مبارک کے اقتدار کی راہ بھی ہموار کی۔ حسنی مبارک کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں کا دستور بھی رخصت ہوگیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے ۶۳ شقوں پر مشتمل ایک عبور ی دستور منظور کیا گیا جس میں پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک کو مستقل دستور تشکیل دینے کا طریق کار بھی طے کردیا گیا۔ طے پایا کہ منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل دستوری کمیٹی کا انتخاب کریں گے اور یہ کمیٹی چھے ماہ کے اندر اندر دستوری مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس پر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی راے لیتے ہوئے، یہ جامع دستور نافذ کردیا جائے گا۔

مصر میں قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کا بھی عام انتخابات کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کا انتخاب مکمل ہوتے ہی دستوری کمیٹی منتخب (متعین نہیں) کرلی گئی اور اس نے فوراً دستور سازی کا کام شروع کردیا۔ جمہوریت، مساوات، حقوق اور آزادی کے دعوے داروں نے تعاون کرنے کے بجاے قدم قدم پر بے ڈھنگے اعتراضات کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ سارا میڈیا چیخنے لگا کہ چوں کہ پارلیمنٹ پر ایک ہی رنگ، یعنی اسلامی ذہن چھایا ہوا ہے، اس لیے دستوری کمیٹی پوری قوم کی ترجمان نہیں ہوسکتی۔ ’’تنگ نظر اسلام پسندوں‘‘ نے نہ صرف دیگر پارٹیوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر طبقات کو بھی، اس دستوری کمیٹی میں منتخب کرکے سارے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود مختلف ارکان کمیٹی سے استعفے دینے کا اعلان کروایا گیا۔ بدقسمتی سے ان اعلانات کرنے والوں میں کئی دینی ذہن رکھنے والے اور خود جامعہ الازہر بھی شریک ہوگئی۔  کمیٹی نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا تو اکثر اعلان کرنے والے بھی واپس آگئے۔

مجوزہ دستور کی ایک ایک شق پر احتجاج و اعتراضات کی آندھیاں چلائی گئیں، لیکن بالآخر دستور کا ابتدائی مسودہ تیار ہوگیا۔ اب ایک ذیلی کمیٹی اس کی خواندگی کررہی ہے۔ ۱۰ دسمبر کو دستوری مسودہ تیار کرنے کے لیے مقررہ چھے ماہ کی مدت مکمل ہوجائے گی، لیکن ارکان کمیٹی کے بقول انھیں ابھی اس کے لیے کچھ مزید مہلت درکار ہے۔ اسی دوران میں دستوری عدالت کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ سازشی عناصر کی ویڈیوز اور دستاویزات نے ثابت کردیا کہ خدشات و خطرات حقیقت بن سکتے ہیں۔ جس طرح صدارتی انتخاب سے صرف ۱۲گھنٹے قبل نو منتخب قومی اسمبلی کو بلاجواز تحلیل کردیا گیاتھا، اب چھے ماہ کی ان تھک جدوجہد کے اختتام پر، صدر کے سامنے دستوری مسودہ لانے سے پہلے پہلے دستوری کمیٹی ہی کو تحلیل کیا جارہا تھا۔ صدر محمد مرسی نے سازشوں کا بروقت سدباب کرتے ہوئے، ایک عبوری حکم کے ذریعے دستور نافذ ہونے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔    اب ان کے کسی فیصلے کو کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی دستور نافذ ہوجائے گا،      یہ استثنائی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی عدالت اس دوران سینٹ یا دستوری کمیٹی کو تحلیل نہیں کرسکے گی۔

صدر کے حالیہ آرڈی ننس میں دوسری اہم بات صدر حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمۂ قتل کی تحقیقات و سماعت کا دوبارہ شروع کیا جانا ہے۔ حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ جابرانہ دور میں تو جو مظالم ہوئے سو ہوئے، اس کے خلاف صرف تین ہفتے کی احتجاجی تحریک کے دوران میں تقریباً ساڑھے نوسو افراد کو شہید کردیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی عدالتی تحقیقات کے بعدسیکڑوں افراد کے ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ اس بے انصافی کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کا اپنا نامزد کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود بھی تھا۔ جو نہ صرف قتل کے ان مقدمات بلکہ     اپنے سابق آقاؤں کی کرپشن کے خلاف لاتعداد مقدمات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک اہم کڑی تھا۔ بعض افراد نے جب اس کی شخصیت کو بے نقاب کیا تو اس نے خود دھمکی آمیز فون کرکے انھیں   بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔حسنی مبارک اور ہم نواؤں کے اپنی اصل سزا سے بچ نکلنے کے بعد سے عبدالمجید کے خلاف شہدا اور زخمیوں کے ورثا میں بھی اشتعال پایا جاتا تھا۔ صدر مرسی نے اب اس کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ایک جج جسٹس طلعت ابراہیم کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے۔

ان فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکی وزارت خارجہ اور یورپی یونین سے لے کر مصر کی تمام سیکولر طاقتوں نے صدر مرسی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اپنے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے حسنی مبارک کا اصل ہتھیار پیشہ ور غنڈوں کا ایک لشکر تھا۔ اچانک انھی جرائم پیشہ عناصر کو دوبارہ میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں اخوان کے دفاتر نذر آتش کرنا شروع کردیے ہیں۔ دمنہور شہر میں اخوان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے ایک کارکن اسلام مسعود کو شہید کردیا گیا ہے۔ ججوں کی ایک تنظیم سے عدالتوں کے بائی کاٹ کا اعلان کروادیا گیا ہے اور میدان التحریر میں کچھ لوگ خیمہ زن ہوگئے ہیں، کہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔

اعتراض اور احتجاج سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہ کر احتجاج، نہ صرف ایک مسلمہ حق ہے بلکہ اس سے فیصلوں اور آرا میں تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف تباہی اور سازشیں کرنا ہی رہ جائے تو پھر نتیجہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔ اخوان نے متشدد مخالفین کے مقابلے میں صبر و حکمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر مرسی نے ایک طرف تو تمام سیاسی طاقتوں اور عدلیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور دوسری طرف قانونی ماہرین کو معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ  اخوان کے مدمقابل کھڑے ہیں، لیکن عوام کے جذبات و موقف کے اظہار کے لیے اخوان نے بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان بڑے عوامی مظاہروں میں اخوان نے تصادم سے بچتے ہوئے، پہلے تو میدان التحریر سمیت ان تمام جگہوں سے دور جاکر اپنے پروگرام کرنے کا اعلان کیا کہ جہاں فتنہ   ُجو عناصر عوام کو باہم متصادم کرسکتے ہیں اور پھر عوامی قوت کا اپنا مظاہرہ ملتوی کردیا ۔ مصر کے کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ مخالفین کی سب کوششوں کے باوجود اخوان اپنے قدم مضبوط کرتے جارہے ہیں اس لیے اب ان کی آخری کوشش ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ لیکن اب تک کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ مخالفین کی تمام سازشیں خود انھی کے خلاف جاتی ہیں۔ رب ذو الجلال کا ارشاد بار بار اپنی حقانیت منوا رہاہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط  (الفاطر۳۵: ۴۳)، ’’حالاں کہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔

دوسری طرف اخوان کی حکمت عملی دیکھیے:

حسنی مبارک کے جانے کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انتخابات میں تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے۔ فوجی جنتا کے اشارے پر اخوان کی بعض حلیف جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے اور اخوان کو سب نشستوں پر کاغذات جمع کروانا پڑے، وگرنہ سب کے سب کاغذات مسترد ہوجاتے۔ اللہ نے انھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت دے دی۔ lاخوان نے پہلے دن سے فیصلہ و اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نہیں لائیں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مدت ختم ہو نے کو تھی کہ سابق نظام کی باقیات نے حسنی مبارک کے دست راست عمر سلیمان یا احمد شفیق کو صدر بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، دونوں کو میدان میں اُتار دیا۔ اخوان کی مجلس شوریٰ نے بھی کئی روز کی طویل مشاورت کے بعد، چند ووٹوں کے فرق سے اکثریت راے کے ذریعے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اللہ نے اسی فیصلے میں برکت دی وگرنہ آج اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانِ صدر میں بھی کوئی دوسرا حسنی مبارک بیٹھا ہوتا۔

  • صدر مرسی کو صدارت کا عہدہ سنبھالے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ اسرائیلی سرحد پر بیٹھے مصری فوجیوں پر عین افطار کے دوران حملہ کردیا گیا۔ یہ کارروائی نومنتخب حکومت کو بحران سے دوچار کرنے کے علاوہ اُمور مملکت میں فوج کا عمل دخل بڑھانے کا ذریعہ بننا تھی، لیکن گھن زدہ قیادت سمیت ۷۰ فوجی افسروں سے خلاصی کی بنیاد بن گئی۔
  • صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل نوزائیدہ قومی اسمبلی کا سر قلم کرتے ہوئے عوام کو صدارتی انتخاب چھوڑ کر سڑکوں پر گھسیٹ لانے اور اپنی مرضی کے صدارتی نتائج لانے کی کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مخالف اُمیدواروں اور ان کے حامیوں کو بھی صدر مرسی کی حمایت پر یکسو کردیا۔

اب ایک بار پھر سیاسی بحران عروج پر ہے۔ حالیہ بحران کی ایک خاص بات اس کا وقت بھی ہے۔ اس سے ایک ہی روز قبل غزہ کے خلاف اسرائیل کی تازہ جارحیت اختتام پزیر ہوئی تھی۔ اسے خود فلسطینیوں کی اکثر شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کرنا پڑی تھی۔ اس لڑائی میں دوباتوں نے اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشان کیا۔ ایک تو یہ کہ جس فلسطینی تحریک مزاحمت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں پتھروں اور غلیلوں سے ہوا تھا اور جس نے فروری ۲۰۰۲ء میں پہلی بار خود ساختہ میزائل (قسام ۱) چلایا تھا، ۲۰۱۲ء میں اس کے تیار کردہ میزائل اسرائیل کے قلب تل ابیب تک جاپہنچے۔ اگر امریکا کا فراہم کردہ خود کار میزائلوں کا دفاعی نظام جسے ’فولادی ڈھال‘ کا نام دیا گیا ہے، جو حملہ آور میزائل کو فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے، نہ ہوتا تو اب تک یقیناً ہزاروں اسرائیلی تہ خاک جاچکے ہوتے۔ اسرائیلیوں کے لیے دوسری تلخ اور صدمہ خیز حقیقت یہ تھی کہ گذشتہ جنگ میں مصری حکومت مکمل طور پر اس کی پشتیبان تھی، غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان ہی قاہرہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا، لیکن اس بار مصری حکومت پوری قوت کی ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی تھی۔ وزیراعظم ہشام قندیل، عین جنگ کے درمیان غزہ جاپہنچے اور واضح اعلان کیا کہ مصر اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ درست ہے کہ اگلے ہی روز اسرائیل نے بم باری کرکے اس وزیراعظم ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، جہاں چند گھنٹے قبل مصر اور  غزہ کے وزراے اعظم نے اکٹھے اعلان یک جہتی کیا تھا، لیکن تمام اسرائیلی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ مصر کے تعاون کے بغیر اور مصر میں اخوان کی حکومت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔

اس بار صدر مرسی کا راستہ روکنے کے لیے دستوری عدالت کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو عدالت بھی میدان میں ہے۔ اس نے صدارتی حکم کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ۴ دسمبر کی تاریخ، سماعت کے لیے طے کی ہے، لیکن اس پورے منظر نامے کے باوجود، اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والے یکسو ہو کر پکار رہے ہیں    ؎

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

جنوبی فلپائن کے مورو مسلمان برس ہا برس کی قربانیوں کے بعد وسیع تر خودمختاری کی منزل کے حصول میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ حکومت ِ فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان گذشتہ ۱۶برس سے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ وسط اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے سے جزائر منڈانائو، سولو کے مسلمان نہ صرف خودمختاری حاصل کرلیں گے بلکہ ۲۰۱۵ء میں ایک آزاد مسلم ریاست بھی وجود میں آجائے گی جس پر رومن کیتھولک فلپائن کی حکومت کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔ بنگسامورو مسلمانوں کی زندگی میں یہ معاہدہ ایک اہم تاریخی دستاویز اور سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس معاہدے کو ’فریم ورک معاہدہ براے حتمی قیامِ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع تر خودمختاری کے حصول کے بعد مسلح جنگ جو منیلا حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بند کردیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ آزادی کی منزل اور مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ڈیڑھ لاکھ مورو مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بنگسامورو وطن کا تنازعہ ایشیا کے قدیم اور پیچیدہ تنازعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کے علَم برداروں نے صرف اپنے موضوعات اس قدر اُچھالے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، حکومت امریکا و روس اور اسلامی ممالک نے اس معاہدے کا اس لیے خیرمقدم کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ایشیا میں امن قائم ہوگا بلکہ فلپائن کی حکومت بھی اپنے عوام کے لیے دائمی امن و سکون کے قیام کو یقینی بناسکتی ہے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ۱۲ہزار مسلح مجاہدین سروں پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے اور گذشتہ ۵۰برس میں منڈانائو، سولو، سلاوان کے مسلمانوں نے جس قسم کے اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے اور نسل در نسل جس قدر قربانیاں دی ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے جس کو مرتب کیا جانا چاہیے۔

۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (جو عرصۂ دراز سے آزاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہی ہے) کے مصالحت کار مھاگر اقبال اور حکومت فلپائن کے مصالحت کار ماروک لیونن نے منیلا کے صدارتی محل میں اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ فلپائن کے صدر بینگِینو اکینوسوم، ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے پُرعزم مجاہد قائد حاجی مراد دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔ فرنٹ کے سربراہ اور حکومت ِ فلپائن نے ملایشیا کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس دیرپا مسئلے کے حل کے لیے مصالحت کار نامزد کیے اور ۱۶برس کی محنت آخرکار رنگ لے آئی۔

یہ وسیع تر حقوق اور وسیع تر خودمختاری کا معاہدہ ہے۔ او آئی سی کو میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہ مل سکی، تاہم اُس کے سیکرٹری جنرل نے بھی جنوبی فلپائن میں بنگسامورو کی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا۔اس معاہدے کو   رُوبہ عمل لانے کے لیے حکومت،فوج، پولیس، بنک، بلدیہ، ایکسچینج اور دیگر اہم اداروں کی تشکیل کے لیے درجنوں کمیشن تشکیل دے دیے گئے ہیں جس میں دونوں جانب سے نامزد نمایندے شامل کردیے گئے ہیں۔ جس وقت دستخط کی تقریب منعقد ہورہی تھی اُسی وقت ہزاروں مورو مسلمان اپنے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں نعرئہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ خواتین نے بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں اپنی مسرت اور استعمار سے نجات کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور میڈیا میں اسے شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ایسے نکات ہیں  جن پر فریقین میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر قابض فلپائن اور زیرتسلط مورو مسلمان کی حتمی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وسیع تر خودمختاری کی حامل ریاست کا نام بنگسامورو [مورو مسلمانوں کا گھر] ہوگا۔ ۱۳صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ مسلح مورو مجاہدین بتدریج مسلم پولیس فورس میں مدغم ہو جائیں گے۔ ۱۵؍ افراد پر مشتمل عبوری کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو دستور تشکیل دے گا۔

مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے سربراہ حاجی مُراد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زیرتسلط مورو مسلمانوں کی اَن گنت قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ مورو مسلمان اپنے وطن، اپنی شناخت،اپنے دستور اور اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ تمام مسلح، نیم مسلح دستے، تعمیرِنوکی جدوجہد میں شریک ہوجائیں گے۔ اس نئی خودمختار ریاست میں پانچ صوبے شامل ہیں۔ باسلان، کوٹاباٹو، دواؤڈیل سور، سلطان قدرت، تاوی، سولو، واوی، دِیولوگ اور دیتیان کے علاقے ان پانچ صوبوں میں شامل ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں حکومت ِ فلپائن نے مورو لبریشن فرنٹ سے معاہدے کے بعد اس علاقے کو خودمختار قرار دینے کا اعلان کیا تھا، بوجوہ اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا ایک اور معاہدہ بھی مسلمانانِ بنگسامورو کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا تھا۔

مورو لبریشن فرنٹ کا ، جو گذشتہ برسوں میں حکومت سے معاہدے کرتا رہا ہے، کہنا ہے کہ حکومت ِ فلپائن پر شدید دبائو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ فلپائن کی حکومت کسی وقت بھی پینترا بدل سکتی ہے۔ ابھی خودمختار ریاست کا اعلان ہوا ہے اور مغربی طاقتوں نے وہاں القاعدہ ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ شروع کردیا ہے۔ یاد رہے دونوں بڑی تنظیموں میں داخلی اختلافات کے باوجود خلافت ِ راشدہ کی طرز پر ریاست کے قیام پر کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمان یہاں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اور ۱۵۷۰ء میں اس علاقے پر پُرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ہمسایہ ملک ملایشیا کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اسلامی روایات پر نسل در نسل عمل پیرا چلے آرہے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہاں جلد ہی ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جودین اسلام کے حقیقی نفاذ کا عزم رکھتی ہے۔ مورو اسلامک فرنٹ کے اوّلین چیئرمین اُستاذ سلامات ہاشم کے عالمی اسلامی تحریکات سے گہرے مراسم تھے۔ سابق امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی دعوت پر وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے تھے۔ 

سونے، چاندی، تانبے، زرخیز زرعی زمین، چاول، کپاس، گنا، گوشت اور سیکڑوں میل پھیلی ہوئی سمندری پٹی کے ساتھ بے حدوحساب مچھلی و سمندری خوراک کی دستیابی اس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور آزادی کے ساتھ تعمیروترقی کی راہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔  یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔

ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔

ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی  کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو  بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔

صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔  صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔

سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت  صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔

صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں   التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔

اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی  کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں  مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد    علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔

صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند  کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں   پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے  ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے  عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔

موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔

مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو    اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔

صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔

ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔  ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔

صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔

ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔

اِنقلابِ مصر کا سفر ابھی جاری ہے۔ سیاسی استبداد اور جمہوری قوت کے درمیان برپا معرکہ نئی سے نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ صاف بتاتا ہے کہ انھیں یہ عوامی انقلاب کسی صورت برداشت نہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہرحربہ آزما دیکھیں۔

 صدارتی انتخاب کے دوران میڈیا کا اسلامی قوتوں کے خلاف زہر اُگلنا اور اُن کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے شرم ناک ہتھکنڈے استعمال کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ فوج عدلیہ کی اور عدلیہ فوج کی معاون و مددگار ہے اور دونوں مل کر حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دورِاستبداد کو واپس لوٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مبارک کے کارندے اور ایجنٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہرجگہ اور ہرفورم پر جھوٹے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان جھوٹے نعروں میں ایک نعرہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ اور عدلیہ کے احکام کا نفاذ ہے۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا ہدف محض پارلیمنٹ کی تحلیل اور صدر کا محاصرہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس انقلاب کو مکمل طور پر ناکام کرکے حسنی مبارک کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں نظام وہی ہو، مگر چہروں کی تبدیلی کے ذریعے فریب اور مکاری کو حق ثابت کیا جاسکے۔ ان عناصر کی کوششوں سے یوں لگتا ہے کہ انھیں اسلام پسندوں کی ’جنت‘ سے زیادہ مبارک کی ’جہنم ‘پسند ہے۔ انھیں عدلیہ کے احکام کے احترام کی آڑ میں پوری قوم کو مسل کر رکھ دینا، قطعاً  بُرا محسوس نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے انھی احکام نے تو کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کا خون     کیا ہے۔ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کے منتخب صدر کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ   آزادیِ راے کی آڑ میں ہرنقص اور کمزوری صدر کے سر تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔

اس انقلاب نے تمام فرقوں اور مستقبل کے دشمنوں کو ایک کیمپ میں یک جا کردیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ مفاد اسلامی قوت کا راستہ روکنا اور اسے منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ اس پارلیمنٹ اور صدر کو بھرپور عوامی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ انھیں تو صرف اسلامی قوت کی لہر کو روکنا ہے اور اس قوت میں بھی سب سے زیادہ انھیں اخوان المسلمون سے خطرہ ہے۔

اس صورت حال میں ماضی کے حکمران ٹولے میں شامل بعض اہم شخصیات کا باہم متحد ہوجانا اُن کی ’مبارک دوستی‘ کی مثال ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک ’تیسری قوت‘ کے نام سے میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اس تیسری قوت کی رہنمائی کل تک منتشر رہنے والے لبرل افراد، نجیب ساویرس، سیکولر شناخت رکھنے والا رفعت سعید، اسامہ غزالی حرب، محمدابوحامد جو لبنان میں صہیونیت کے ایجنٹ سمیرجعجع کا شاگرد ہے، کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں لبرل امریکی سعدالدین ابراہیم اور حمدین صباحی بھی شامل ہیں جنھوں نے ناصر کے استبداد کو عوام پر مسلط کیے رکھا۔ حمدین صباحی کے علاوہ یہ سب لوگ صدارتی انتخاب میں احمد شفیق کے حمایتی تھے جو حسنی مبارک کا نمایندہ تھا۔

حسنی مبارک کے دو بیٹوں علا اور جمال کے خلاف قومی خزانے کی لُوٹ مار کے جرم میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت میں ماہرقانون دان ڈاکٹر یحیٰ الجمل کا موجود ہونا معنی خیز تھا۔ یہ یحیٰ الجمل جمال عبدالناصر کے روحانی فرزندوں میں شامل ہوتا ہے۔ باقیاتِ ناصر کی صورت میں اسی گروہ نے عسکری مجلس کے لیے دستوری مسوّدہ تیار کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مرسی کے اختیارات سے اُن کو محروم کرنے کا حکم ہے۔ یحییٰ الجمل کا اس مقدمے میں کویل فریدالدیب کے پہلو میں بیٹھنا حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں معروف مصنف حسنین ہیکل کے صاحب زادے حسن محمد بھی مبارک کے بیٹوں کے ساتھ مقدمے میں ملوث کیے گئے ہیں۔

یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں معاملات ایسے ہیں جن میں وہ تمام قوتیں   یک جا اور متحد دکھائی دیتی ہیں جو کل تک حسنی مبارک کا نمک کھایا کرتی تھیں۔ آج انھیں اسلام سے اس قدر خوف محسوس ہورہا ہے کہ یہ اسلام پسندوں کو ہرقیمت پر منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام ذرائع، وسائل، مہارتیں اور دبائو میڈیا، عدلیہ، سیاست اور معیشت میں دستوری عدالت کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جب کہ یہ فیصلہ بذاتِ خود ایک مختلف فیہ فیصلہ ہے۔ آج یہ لوگ خود کو مہذب اور جمہوری باور کرا رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں، جب کہ قانون ان سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ حسنی مبارک کی ۳۰سالہ ظالمانہ حکمرانی میں کہاں تھے؟ اُس دوران میں بے شمار عدالتی فیصلے ایسے تھے جو بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر رہے تھے مگر حکومت نے اُن کو پائوں تلے روند کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت تو اِن لوگوں کی کوئی آواز قانون اور دستور کی حکمرانی کے سلسلے میں سنائی نہ دی۔ لیکن آج اُن کا یہ ’حق‘ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کریں جو کل نہیں تھا، لہٰذا وہ کیوں خاموش رہیں۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ حسنی مبارک آج بھی اس معرکے کی قیادت کر رہا ہے اور اس میں شامل ہر فرد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ یہ جنگ موت و حیات کی جنگ ہے۔ نوشتۂ دیوار یہ بتاتا ہے کہ باطل کے یہ حواری اور حمایتی بالآخر موت کے گھاٹ اُتر کررہیں گے کیوں کہ مصری قوم کو اپنی شناخت، اپنے حقِ انتخاب و اختیار کے حصول سے پیچھے ہٹنا ہرگز قبول نہیں ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی بھی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے کہ مصر اپنی شناخت کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس کی قوم اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار سکے۔

صدر جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مُرسی کے انتخاب پر اسرائیل کے صدر بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل مصر میں جاری جمہوری سفر کو اہم سمجھتا ہے اور اس کے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کا یہ بیان ڈپلومیٹک تھا۔ وہ اسرائیل کو پہنچنے والے اس زخم اور ڈاکٹر مُرسی کے انتخاب کے خلاف دیے گئے منفی بیانات سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ صدرِ مصر کے انتخاب سے دو روز قبل اسرائیل کے ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ اسرائیل امن و آزادی کو جمہوریت پر ترجیح دیتا ہے۔

اسرائیل اور حسنی مبارک حکومت کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی نہ تھے، بلکہ حسنی مبارک اسرائیل کا وفادار دوست تھا۔ اس نے اسرائیل کے لیے اپنی وفاداری کا امریکا کو مکمل طور پر یقین دلارکھا تھا لیکن انقلاب کے دوران اس وقت مبارک کو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا  جب اُس نے اپنے اسرائیلی دوست اور اسرائیل کے سابق وزیردفاع بنیامین الیعازر سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ وہ وہائٹ ہائوس کو میرے دفاع اور بقا کے لیے آمادہ کرے، مگر انقلاب نے اس بات کے تمام دروازے بند کردیے تھے اور ہرامکان کا خاتمہ کردیا تھا، لہٰذا مبارک کو بوجھل دل کے ساتھ قصرِصدارت چھوڑنا پڑا۔

احمدشفیق جو صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر مُرسی کے مدمقابل مبارک کا نمایندہ تھا، نیتن یاہو نے اس کے خلاف بیان بازی سے اپنی کابینہ کو منع کر رکھا تھا، مگر اسرائیل ڈاکٹر مُرسی کی صورت میں صدرِ مصر کی موجودگی سے بننے والی اسٹرے ٹیجک حکمت عملی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ایک کے بعد دوسرا بیان اسرائیل کی طرف سے داغا جاتا رہا اور بالآخر نیتن یاہو نے خود ہی کہہ ڈالا کہ وہ احمد شفیق کو ترجیح دیتے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کے اعلان کا مرحلہ کچھ طویل ہوگیا لیکن حتمی خبر یہی آئی کہ ڈاکٹر محمد مُرسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت کے لیے لازمی ہوگیا کہ وہ جنوبی سرحدوں کے حوالے سے نئی حکمت عملی کی روشنی میں معاملے کو دیکھے اور اس حکمت عملی کے منطقی نکات یہ تھے:

۱- مصر کو علاقے میں قائدانہ کردار کی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ عرب دنیا میں سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے سب سے زیادہ سیاسی اثرات کا حامل ہے۔

۲- ڈاکٹر مُرسی کا ایوانِ صدر میں پہنچنا اسلامی تحریک کے سیاست میں داخلے اور مصری عربی رُخ متعین کرنے کی صورت ِ حال کو بدل دے گا۔

۳- اخوان المسلمون اور فلسطین کی بہت بڑی تحریکِ مزاحمت’حماس‘ کے درمیان تال میل کا موجود ہونا۔

۴- ڈاکٹر مُرسی کا صدرِ مصر منتخب ہونے کا مطلب مصر کا اپنے تاریخی وجود کی طرف واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔

۵- مصری قوم کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو برابری کی سطح پر نہ ماننا اور مسئلۂ فلسطین کی          حمایت و پشت پناہی مستقلاً جاری رکھنا۔

۶- مصری قوم اسرائیل سے اپنا ایک تاریخی حساب بھی چکانا چاہتی ہے جس کی وہ منتظر ہے۔

۷- بغاوت کا انقلاب میں بدل کر کامیاب ہو جانا اور انتخابات کے مرحلے تک پہنچ جانا مصر کو عالمِ عرب کے بعض ممالک کی سیاسی و داخلی معاملات میں پہلے سے زیادہ نمایاں حیثیت عطا کردے گا۔

یہ وہ نکات تھے جو صدر مُرسی کی کامیابی نے اسرائیل کی صہیونی سلطنت کے سامنے لارکھے اور اس نے اِن کے اُوپر عملاً سوچنا شروع کردیا۔اسرائیل کے ادارہ براے مطالعات قومی سلامتی نے ’محمدمُرسی کے انتخاب کی اسٹرے ٹیجک جہات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں جو اہم نکتہ بیان کیا ہے وہ صدر مُرسی کا اسرائیل کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کو بدل دینے کا خدشہ ہے۔  اس معاہدے کی رُو سے مصری فوج سینا کی حدود میں داخل اور فوجی کارروائی نہیںکرسکتی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گا۔ خاص طور پر اس اعتبار سے    کہ وہ مصر و اسرائیل کے درمیان ’امن معاہدے‘ کا نگران ہے، اور وہ تیسرا فریق ہے جس نے اس  ’امن معاہدے‘ پر دستخط کے وقت انورالسادات کے دور میں معاہدے کی پابندی کرانے کا تہیہ کیا تھا۔ یہ جائزہ رپورٹ اسرائیلی حکومت کے اس مطالبے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اُن سیاسی امور سے دُور رہا جائے جن کو صدر مُرسی اُٹھائیں۔ اسرائیل کے خارجی امور کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کی طرف سے اس امن معاہدے کو کسی بھی طرح سے چھیڑے جانے کے ہرعمل کی عالمی سطح پر مخالفت کریں۔

مصر میں ایک کش مکش جاری ہے۔ ایک طرف انقلاب مخالف قوتیں یک جا ہوکر سابقہ نظام کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف عالمی قوتیں اور اسرائیل اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں عالمِ عرب میں اس انقلابی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے خائف ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کا سامنا کس طرح کرتی ہے!

برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروئوں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ:    ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔

۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو  دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوئوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵ جولائی ۲۰۱۲ئ)

اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا  مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیںکرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈائوننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔

برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔

برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوئوں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں  دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ :l۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔

  •  جن مظلوموں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کے ساحلوں پر جانے کی کوشش کی، انھیں بنگلہ دیشی ساحلی پولیس نے پہلے تو خشکی پر قدم ہی نہیں رکھنے دیا، لیکن پھر مجبور ہوکر چند گھنٹے کے لیے ساحل پر اُترنے دیا اور بعدازاں انھی کشتیوں میں دوبارہ کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
  • اس وقت ہزاروں برمی مسلمان ان کشتیوں پر پانی، خوراک اور سایے سے محروم اور بیماریوں کا شکار ہیں۔
  • ۶۶ ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو کیمپوں اور کشتیوں میں خوراک، پانی اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔
  • دنیا بھر کا میڈیا اس المیے سے عملاً نظر چرائے ہوئے ہے، اور مسلم دنیا کا میڈیا بھی اس سفاکی میں برابر لاتعلقی برت رہا ہے۔
  • اسلامی کانفرنس تنظیم اور مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کی لاتعلقی سے یہاں کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔

کہنے کو تو یہ ایک لفظ تھا لیکن مصر میں یہ ایک مکمل پیغام اور ایک قومی تحریک بن گیا۔ فُلُول، یعنی شکست خوردہ اور فاسد ٹولے کی باقیات۔ اس وقت مصر میں کسی شخص یا گروہ کے لیے فُلُول  کا لیبل لگ جانے سے زیادہ معیوب اور باعثِ عار بات شاید کوئی نہ ہو۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس ایک لفظ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لَا لِلْفُلُول کا نعرہ اس قدر زباں زد عام ہوگیا کہ   اگر کہیں صرف ’لا‘ ہی لکھا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ ڈکٹیٹر کی باقیات کو مسترد کیا جارہا ہے۔  ۲۴جون ۲۰۱۲ء کو مصری تاریخ کے پہلے حقیقی صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہورہا تھا تو ملک کے ہر شہر اور قصبے کی طرح قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے اور پورے میدان میں ایک بڑے بینر پر صرف ’لا‘ ہی پڑھا جارہا تھا۔ کئی جملوں پر لکھی پوری عبارت پڑھنے کا تکلف کیے بغیر ہی ’لا‘ پورا پیغام واضح کررہا تھا۔

 مصری تاریخ میں یہ پہلے صدارتی انتخاب تھے کہ جس کے نتائج انتخاب سے پہلے ہی معلوم نہ تھے۔ مصر ہی نہیں اکثر عرب انتخابات میں حکمران ۹ئ۹۹ فی صدووٹ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے۔ عوامی انقلابات نے لوگوں کو پہلی بار اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا۔    یہ حقیقت ہر مخلص اور بے تعصب مسلمان کے لیے باعث طمانیت ہے کہ ان پہلے آزادانہ انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسلامی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

الاخوان المسلمون مصر کے اُمیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدر مملکت جیت، خطے میں دیگر تمام کامیابیوں کا تاج ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقینا پورے مشرق وسطیٰ میں مصر کی مرکزی حیثیت ہے۔ مصر میں فی الحال تمام تر اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ اخوان کے صدارتی اُمیدوار کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اندرون ملک مخالفین سے زیادہ مصر کے تمام بیرونی دشمن بے تاب تھے۔

صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۱۳ اُمیدوار تھے۔ حسنی مبارک کا آخری وزیراعظم اور ۱۰سال تک اس کا وزیر ہوا بازی رہنے والا لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق وہ اکلوتا اُمیدوار تھا جس پر انتخابی مہم کے دوران ملک کے اکثر اضلاع میں عملاً جوتوں کی بارش ہوئی۔حتیٰ کہ وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن کے باہر بھی ’ پُرجوش ‘جوتا باری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُمیدواروں میں اگرچہ طویل عرصے تک حسنی مبارک کا وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل رہنے والا عمروموسیٰ بھی تھا۔ ایک سابق انٹیلی جنس چیف حسام خیر اللہ بھی تھا۔ ناصری ذہن کا سرخیل حمدِین صبَّاحی اور بائیں بازو کے کئی دیگر اُمیدوار بھی تھے، لیکن ۱۳ اُمیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی نفرت کا سامنا جنرل شفیق ہی کو کرنا پڑا۔ اس سب کچھ کے باوجود جب پہلے مرحلے کے نتائج آئے تو جنرل صاحب سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرے مرحلے میں مقابلہ ان کے اور پہلے نمبر پر آنے والے اخوان کے اُمیدوار ڈاکٹر محمدمُرسی کے مابین ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ۵۰ فی صد  ووٹ حاصل کرنے کی شرط بھی نہیں ہے اور اگر فلول کا لیبل سجائے جنرل صاحب، ایک ووٹ بھی زیادہ لے گئے تو وہ مصر کے آیندہ صدر ہوں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق کا دوسرے نمبر پر آجانا، جہاں سب کے لیے باعث حیرت تھا وہیں مصر کے ازلی دشمن ’اسرائیل‘ کے لیے یہ اُمید کی اہم نوید تھی۔ اسرائیلی ذمہ داران حسنی مبارک کے دور کو اسرائیل کے لیے ’اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ احمد شفیق کا نام دوسرے مرحلے میں آگیا تو اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور حالیہ نائب وزیراعظم نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانے کی واپسی کی اُمیدیں جوان ہوگئی ہیں‘‘۔ سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف عاموس یادلین گویا ہوئے: ’’ سقوطِ مبارک کے بعد اسرائیل کے گردو نواح میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آسکتی تھی کہ ترکی یا ایران جیسی کسی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر مصر کوئی اسرائیل دشمن بلاک نہ تشکیل دے دے۔ احمد شفیق کی جیت کی صورت میں ایسا ہر امکا ن ختم کیا جاسکتاہے ‘‘ - اعلیٰ تعلیم کے اسرائیلی وزیر گدعون ساعر نے کہا: ’’مبارک نظام کے اہم رکن جنرل شفیق کی جیت سے عالمِ عرب کی اجتماعی سوچ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔اس جیت سے ان عرب حکومتوں کے خلاف عوامی انقلاب کی خواہش دم توڑ جائے گی کہ جن کا باقی رہنا ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ضامن ہے‘‘- سابق وزیر دفاع بنیامین الیعازر جو حسنی مبارک کے قریبی احباب میں شمار ہوتا تھا نے تبصرہ کیا: ’’شفیق کی جیت کا مطلب ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنا گیس سپلائی کا معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا۔ امریکا جنرل شفیق کو بآسانی قائل کرلے گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا تبصرہ تھا ’’مبارک کے بغیر مصر ہمارے لیے کسی ایٹمی خطرے سے بھی بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کم از کم چار بریگیڈ فوج مصری سرحدوں پر کھڑی کرنا پڑے گی۔ اب یہ خطرہ ٹلنے کی اُمید ہے‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں نے انقلاب مصر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں ۳۰؍ ارب ڈالر اضافے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ملک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔

 لبنان سے شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ الأمان نے اسرائیلی ذمہ داران کے  درج بالا تبصروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان بیانات میں ’’اسرائیلی قومی سلامتی کے تحقیقاتی ادارے کے رکن جنرل (ر) رون ٹیرا کا یہ فرمان بھی شامل ہے کہ ’’مبارک دور نے اسرائیل کو مثالی اسٹرے ٹیجک شراکت عطا کی۔ اس شراکت داری کی بنیاد پر ہم ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء غزہ پر   حملہ آور ہوسکے۔ اگر مصری انتخابات میں مبارک کے ساتھیوں کے بجاے کوئی،نیشنلسٹ، اسلامسٹ، حتیٰ کہ کوئی لبرل شخص بھی برسر اقتدار آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ عرب ملکوں پر حملے کی اسرائیلی صلاحیت انتہائی کمزور ہوجائے گی‘‘۔

ان تمام بیانات اور تبصروں کے مطالعے کے بعد اب اندازہ لگائیے کہ جنرل شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے ہوں گے۔ غریب اور اَن پڑھ ووٹروںکے ووٹ خریدنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خزانوں کے منہ کھل گئے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اخبارات نے اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کی شدید ترین یلغار کردی۔ اخوان کی طرف سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ جنرل شفیق کے حق میں فوج، پولیس اور مختلف ایجنسیوں کے تقریباً ۱۵ لاکھ ان افراد کے ووٹ بھی ڈلوائے گئے جنھیں ووٹ کا حق نہیں تھا۔

اخوان سے ان کی جیت چھیننے کے لیے جو دیگر ناپاک ، مہیب اور خطر ناک اقدامات اٹھائے گئے ان میںایک سرفہرست اقدام یہ تھا کہ پولنگ سے صرف ڈیڑھ دن پہلے، یعنی ۱۴ جون کی شام، چند ماہ پہلے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا ہر سیاسی کارکن اور ووٹر کو پیغام دیا گیا کہ اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہمیں جس آخری حد تک بھی جانا پڑا، ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹ ضائع نہ کرو، اخوان کواقتدار میں آنے کی اجازت کسی صورت نہ ملے گی۔ اسی دوران میں ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گذشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے سنے جانے والے مقدمے کا فیصلہ اچانک ۲ جون کو سنادیا گیا۔ ۳۰سال سے سیاہ و سفید کے مالک حکمران کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس مرحلے پر فیصلہ سنانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ حسنی مبارک کے خلاف پائی جانے والی گہری عوامی  نفرت کو تسکین پہنچاتے ہوئے ،اسے فوجی کونسل اور اس کے نمایندہ سمجھے جانے والے صدارتی اُمیدوار کے حق میں ہموار کیا جائے۔

صرف قرآن کریم کا فرمان ہی ازلی و ابدی سچی حقیقت ہے کہ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵:۴۳ ) ’’حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔   یہ تمام حکومتی چالیں بھی چلنے والوں کی گردن کا پھندا بن گئیں۔ اگر ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل    جنرل شفیق کے بجاے کوئی بھی اور اُمیدوار ہوتا،تو عوام کی اتنی اکثریت کبھی اخوان کے اُمیدوار کے گرد اکٹھی نہ ہوپاتی۔ جنرل شفیق کو سامنے دیکھ کر ابوالفتوح جیسے مضبوط اُمیدوار کو بھی مجبوراً اور  علانیہ طور پر ڈاکٹر مرسی کی حمایت کرنا پڑی اور بڑی تعداد میں حمدین صباحی کے ووٹرز بھی ان کے ساتھ آگئے۔ اگرچہ خود حمدین نے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عملاً جنرل شفیق کو فائدہ پہنچایا۔ اس دوران ایک دل چسپ اشتہار سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اخوان کے اُمیدوار کی جہازی سائز تصویر تھی اور اس پر لکھا تھا:أنا مش اخوان، ہأدعم دکتور مرسی، ’’میں اخوانی نہیں لیکن میں ڈاکٹرمرسی کو ووٹ دوں گا‘‘۔ اسی طرح حسنی مبارک کو سزا دینے کا ’اعزاز‘ بھی عوام کی نظر میں عبوری حکومت کا جرم ٹھیرا۔ فیصلہ سنتے ہی وسیع و عریض کمرۂ عدالت میں بیٹھے سیکڑوں وکلا اور شہداء کے ورثا نے نعرہ لگایا: الشعب یرید تغییر القضائ، عوام عدلیہ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور پھر ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع ہوگئے کہ سیکڑوں افراد کے قاتل  حسنی مبارک کوبا سہولت عمر قیدنہیں، پھانسی دو۔

رہا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو اگرچہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا لیکن اس نے بھی عوام کو مایوس کرنے اور اخوان کا ساتھ چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے کے بجاے انھیںاس بات پر یکسو کردیا کہ اگر عوامی فیصلے کی حفاظت کرنا ہے تو باقیات کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا پورا فیصلہ ہی  مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ قومی اسمبلی یعنی ’مجلس الشعب‘ کے انتخاب کے لیے ضابطہ کار، عسکری کونسل اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے طے پایا تھا۔ اس متفق علیہ ضابطے کے مطابق ۴۹۸سیٹوں پر مشتمل ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو تہائی سیٹیں  متناسب نمایندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے رکھی گئیں اور ایک تہائی براہِ راست انفرادی اُمیدواروں کے لیے۔ ووٹنگ تین مرحلوںمیںہوئی، ہر مرحلے کے دو اَدوار تھے۔ اس طرح کاغذات نامزدگی داخل کروانے، انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ مکمل ہونے کا عمل کئی ماہ جاری رہا۔ پھر ارکان اسمبلی کی باقاعدہ حلف برداری ہوئی اور دستور سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ لیکن اچانک دستوری عدالت میں ایک اعتراض داخل کیا گیا، کہ انفرادی نشستوں پر اُمیدواروں نے پارٹیوں کی طرف سے نہیں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا تھا۔ اور پھر پولنگ سے عین ڈیڑھ دن قبل،۳/۱ ارکان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے نومنتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان ہی دستوری عدالت کے سربراہ بھی ہیں۔ بالفرض اگر کچھ ارکان کا انتخاب واقعی خلاف ضابطہ تھا، تب بھی صرف ان ارکان کا انتخاب دوبارہ کروایا جاسکتا تھا۔ کروڑوں عوام کے ووٹ، اربوں روپے کے اخراجات اور پوری قوم کے کئی ماہ، یعنی کروڑوں گھنٹے صرف کرکے منتخب ہونے والی پہلی حقیقی اسمبلی تحلیل کرنے کا جواز بدنیتی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ساری بحث صرف قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے بارے میں تھی، لیکن بات پوری پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھیلائی جاتی رہی حالانکہ ۲۷۰؍ارکان پر مشتمل، عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی مجلس شوریٰ (یعنی سینٹ) جوں کی توں موجود، بحال اور فعال ہے اور اس میں بھی اکثریت اخوان اور حزب النور ہی کی ہے۔

اخوان نے اس نازک موقع پر انتہائی صبر و حکمت کا ثبوت دیا۔ ’پارلیمنٹ‘ تحلیل کردینے کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ ممکن تھا کہ لوگ فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجائیں۔ فوج انھیں کچلنے کے لیے قوت استعمال کرے اورپھر ان فسادات کی آڑ میں صدارتی انتخاب کا پورا عمل ہی لپیٹ دیا جائے۔ اخوان نے دستوری عدالت کا فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے ایک اصولی اعلان کیا کہ اس وقت کسی دستوری شق میں کسی بھی فرد یا ادارے کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہماری ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہنی چاہیے۔ لوگ میدان تحریر کی طرف ملین مارچ کرنے کے بجاے، پولنگ سٹیشنوںکی طرف لانگ مارچ کریں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔ پھر جیسے ہی ووٹنگ کا عمل تکمیل کو پہنچا اور پورے ملک کے پولنگ سٹیشنوں سے نتائج کی سرکاری دستاویزات جاری ہوگئیں، تو میدان التحریر سمیت ملک کے کونے کونے میں بڑے مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہم اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔

 گنتی کے پہلے روز ہی نتائج واضح ہوگئے تھے، متعدد بار جیل جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی تقریباً ۱۰ لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۳۰ہزار ایک سو ۳۱ووٹ (۷۳ئ۵۱)لے کر جیت گئے تھے۔ لیکن اچانک جنرل شفیق نے دعویٰ شروع کردیا کہ وہ ۵۲ فی صد ووٹ لے کر جیتے ہیں اور اصل نتیجہ سرکاری نتیجہ ہو گا۔ سرکاری نتائج ۲۱ جون کو آنا تھے، لیکن عین آخری لمحے چیف الیکشن کمشنرنے عذر پیش کیا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹوں پر اعتراضات سامنے آگئے ہیں،اور ان اعتراضات کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔ ’’فلول‘‘ کے دعوے اور سرکاری نتائج میں تاخیر سے عوام پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ الجزائر کے انتخابات یاد آنے لگے اور انقلاب کے ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دینے لگے، تو عوام مزید جوش و جذبے سے میدان التحریر میں      جمع ہونے لگے۔ ۱۸ جون سے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ۲۴جون کی شام تک نتائج کے انتظار نے، شرکا کی تعداد بلامبالغہ کئی ملین تک پہنچا دی۔

بالآخرڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا،اور مصر ہی میں نہیں، پورے خطے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ میدان التحریر میں نعروں کے ساتھ ہی ساتھ شرکا نے عید کی تکبیرات شروع کردیں۔ اللّٰہ اکبر ۔۔اللّٰہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر..... ان کا کہنا تھا کہ یہ عید الدیمقراطیۃ ،  ’’عید جمہوریت ہے‘‘۔خوشی کے ان تمام جذبات سے اہم بات یہ ہے کہ ان شرکا نے اپنا یہ دھرنا تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے کہ جب تک نومنتخب اسمبلی بحال کرنے اور فوجی کونسل کے بلاحدود اختیارات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

 واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے اسی ہنگامے میں، فوجی عبوری کونسل کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی نے ایک ’ضمنی دستوری اعلان‘ جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے اکثر اختیارات یا تو خود حاصل کرلیے ہیں یا انھیں فوجی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔اس اعلان کے مطابق فوجی عبوری کونسل کو اسمبلی کی عدم موجودگی میں مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔کونسل کو ہرطرح کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے فوجی افسروں کے تقرر و ترقی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔اسمبلی کی منتخب کردہ دستور ساز کمیٹی کے بجاے نئی کمیٹی مقرر کرنے اور اس کی سفارشات آجانے کے ۱۵روز کے اندر اندر ان پر عوامی ریفرنڈم کرواتے ہوئے ملک کا نیادستور بنا دینے کے لیے روڈمیپ دے دیا گیا ہے۔بندوق کے زور پر بننے والے   عبوری کونسل کے سربراہ کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر مملکت کے برابر  حقوق و اختیاردیتے ہوئے،کسی بھی دستوری شق پر اعتراض کرنے اور اسے واپس پارلیمنٹ بھجوانے کا حق دے دیا گیا ہے ۔ اور پارلیمنٹ کے اصرار کرنے کی صورت میں اس شق کو دستوری عدالت کو بھجوانے کا حکم جاری کیا گیاہے۔

اس وقت میدانوں میں بیٹھے لاکھوں عوام اس دستوری اعلان کی منسوخی اور اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر فوجی کونسل ملک کو پھر سے تباہی کے گڑھے میں پھینک دینے پر مصر نہ ہوئی، تو اسے بالآخر عوام کے مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ عوام کے لیے قوت واعتماد کا اصل سہارا    رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ا سی ذات نے ڈاکٹر مرسی کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچادیا ہے۔نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقع پر کہے جانے والے یہ الفاظ متعدد بار دہرائے: ـ’’لوگو مجھے تمھارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میںتم سے بہتر نہیںہوں ۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو‘‘ ۔انھوں نے قومی اوربین الاقوامی امور پر دوٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہا :’’ میں کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں پوری مصری قوم کا نمایندہ ہوں، تم سب میرے لیے برابر ہو۔میرے حامی ،میرے مخالف،مسلم ،مسیحی، سب میرے لیے یکساں ہیں۔

ڈاکٹر مرسی کی پوری تحریک کا شعار تھا: النہضۃ ارادۃ الشعب، نہضت عوام کا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی لکھا تھا: مصر کی تعمیرو ترقی،اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔واضح رہے کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اور عالمی یونی ورسٹیوں سے انجینیرنگ میں ڈاکٹریٹ بھی کی ہوئی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ ہم سب سے برابری اور انصاف کی بنیاد پر باہمی تعلقات مستحکم کریں گے۔ قومی مفادات کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔ پھر دوٹوک انداز میںکہا: ’’ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت نہیں کریں گے ، لیکن کسی کو بھی اپنے ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔ انھوں نے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا:’’ میرے عزیز ہم وطنو! میں تمھارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا‘‘۔تقریر ختم ہونے کے چند منٹ بعد صدر محمد مرسی کے بیٹے عبد اللہ محمد مرسی نے فیس بُک پر پیغام لکھتے ہوئے کہا : ’’ بابا! یقینا ہم صرف  اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے، اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریں گے‘‘۔

جب بیٹا بھی باپ اور صدر مملکت کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے مشروط کر دے، توپھر رب ذوالجلال کی رحمتیں اورنصرت بھی یقینا شامل حال ہوتی ہیں ۔ وہی تو ہے جو اقتدار دیتا اورچھینتا ہے ، عزت دیتا یا ذلت کے گڑھوں میںپھینک دیتا ہے ( قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط  اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ  ۔ اٰلِ عمران۳:۲۶)

اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن جنوبی افریقہ کی طرف سے ان کے سالانہ کنونشن میں شرکت کا دعوت نامہ کافی دن پہلے مل چکا تھا۔ کنونشن سے قبل کئی ایک دیگر پروگرام بھی منتظمین نے طے کررکھے تھے۔۱۴؍اپریل کوجوہانس برگ پہنچا ۔ ۳۰؍اپریل کو تین دن کے لیے جوہانس برگ سے نیروبی گیا۔ یہ تین دن صبح شام مصروفیت میں گزرے۔ اسلامک فاؤنڈیشن، ینگ مسلم ایسوسی ایشن اور دیگر اسلامی تنظیموں نے کئی پروگرام مرتب کررکھے تھے۔ ۴ مئی کو واپس جوہانس برگ پہنچا۔  ایک دو پروگرام جو رہتے تھے، بالخصوص پریٹوریا میں اسلامک سرکل کے اجتماع میں حاضر ی دی۔  نیروبی کا قیام مختصر مگر بہت دل چسپ تھا، تاہم اس کے بارے میں کچھ کہنے کی یہاں گنجایش نہیں۔ ان سطور میں انتہائی اختصار کے ساتھ جنوبی افریقہ کے کچھ احوال پیش خدمت ہیں۔

براعظم افریقہ کا سب سے طاقت ور اور موثر ملک جنوبی افریقہ ہے۔ سفید فام اقلیت سے ۱۹۹۴ء میں آز ادی کے بعد اس کا سرکاری نام بھی ری پبلک آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کئی صدیوں تک مسلط رہا۔آج سے ایک صدی قبل مقامی سفید فام لوگوں نے جن کا مجموعی آبادی میں تناسب ۲۰سے ۲۵فی صد تھا، یک طرفہ طور پر برطانوی سامراج سے علیحدہ ہوکر اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ کم وبیش ایک صدی تک ان لوگوں نے مقامی آبادی پر نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے ذریعے بے انتہا مظالم ڈھائے۔ سب سے زیادہ آبادی مقامی افریقی لوگوں کی تھی، دوسرے نمبر پر سفید فام، تیسرے نمبر پر مخلوط نسل جن کو کلرڈ کہا جاتا ہے، اور سب سے چھوٹی اقلیت ایشیائی آبادی پر مشتمل تھی جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ہندستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر وہاں منتقل ہوئے تھے۔ افریقی بلکہ غیر سفید فام تمام آبادی، ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم تھی۔ ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔

 بیسیویں صدی کے آغاز ہی سے آزادی کے لیے لوگوں نے خفیہ طو رپر جدوجہد شروع کردی تھی۔ اس صدی کے پانچویں عشرے میں باقاعدہ تحریک آزادی نے اپنا وجود قائم کیا اور خود کو منوایا۔ نیلسن منڈیلا قومی وحدت کی علامت بن کر ابھرا اور تمام مظلوم طبقات اس کے پیچھے  کھڑے ہوگئے۔ منڈیلا کو بے انتہا اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ کم وبیش ۲۸ برس جیل کی سلاخوں کے  پیچھے رہا۔ وہ خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ قرار پایا۔ نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم نظام حکومت نے  تحریک آزادی کے کارکنان کو بری طرح کچلا، مگر طلبہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو تحریک نے زور پکڑ لیا۔ طویل جدوجہد کے بعد پوری دنیا کی توجہ بھی اس مظلوم خطے کی طرف مبذول ہوئی۔ آخر اقلیتی حکمرانوں کے ساتھ تحریک آزادی کے کئی معاہدوں کے بعد جن میں عالمی اداروں نے بھی کردار ادا کیا، ۱۹۹۴ء کے انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس، نیلسن منڈیلا کی قیادت میں بھاری اکثریت سے جیت گئی اور آزادی کا سورج طلوع ہوا۔

 نیلسن منڈیلا باباے قوم اور انتہائی مقبول شخصیت ہے۔ چار چار سال کی دو میقات صدارتی محل میں گزارنے کے بعد پوری قوم کے مطالبے کے باوجود اس نے جارج واشنگٹن کی طرح تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے نائب مسٹر مبیکی تھابو نے بھی اسی روایت کو قائم رکھا۔ اس وقت تیسرا صدر مسٹر زوما برسراقتدار ہے۔ یہ اس کی پہلی میقات ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے۔انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، سفید فام پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور پارلیمان میں موجود ہے۔ میدانِ سیاست میں حکمران پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہیں مگر مختلف افریقی گروپوں نے اپنی اپنی پارٹیاں قائم کررکھی ہیں جو آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی حصہ امور مملکت میں حاصل ہے۔ یہ بجا طور پر تحریک آزادی میں ان کی شرکت کا صلہ ہے۔ حلال فوڈ اور گوشت بھی مجلس علما کے دوگروپوں کے سرٹیفکیٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ افریقہ میں سب سے مضبوط اقتصادی حالت اسی کی ہے، جب کہ پوری دنیا میں معاشی میدان میں اس کا ۲۸واں نمبر ہے۔ سفید فام آبادی میں یہودی خاصی تعداد میں ہیں اور دنیا کے مال دار ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذرائع آمدنی میں زراعت، معدنیات، بالخصوص سونا اور ہیرے، صنعت، اور سیاحت اہم شعبے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی اڑھائی سے تین فی صد ہے۔ مسلمان بڑے شہروں میں مقیم ہیں اور مالی لحاظ سے خوش حال ہیں۔ مقامی آبادی میں دعوت اسلام کے بڑے مواقع ہیں۔ مسلمانوں نے اس میدان میں آزادیِ اظہار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم منصوبہ بندی کرکے کوئی کام نہیں کیا۔ الحمدللہ اب کچھ پیش رفت شروع ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کافی منظم اور مؤثر ہیں۔ ان کا بہت مضبوط نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے۔ یہاں کی مساجد بہت خوب صورت اور صاف ستھری ہیں۔ مدارس میں بھی بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندی الاصل مسلمانوں کی مساجد میں تمام سہولیات کے باجود عمومی طور پر خواتین کے لیے پروگراموں میں شرکت کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ البتہ یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض مساجد کے ساتھ خواتین کے لیے بھی نماز اور اجتماعات کا اہتمام کیا جارہا ہے، یہ بہت خوش آیند ہے۔

جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی تنظیم اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن ہے۔ یہ تنظیم بھی آزادی سے قبل قائم ہوئی تھی اور اس نے فلاحی کاموں کے علاوہ تعلیمی اور دعوتی میدان میں بھی اب قدم رکھ دیا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن مسلمان ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم فیما (فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز) کی بھی ممبر ہے۔ اس فیڈریشن میں عمومی طور پر فلسطین، اردن، ترکی، پاکستان، ملائیشیا اور جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر زیادہ فعال اور منظم ہیں۔ اس کے موجودہ صدر اردن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد احمد مشعل ہیں۔ پاکستان کے ڈاکٹر تنویرالحسن زبیری اور ڈاکٹر حفیظ الرحمان بھی اس کے مرکزی ذمہ داران میں شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جسمانی لحاظ سے معذور مگر انتہائی فعال اور باہمت ڈاکٹر اشرف جی دار بھی فیڈریشن کی مرکزی مجلس میں شامل ہیں۔

ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے مسلمان ہی نہیں عام افریقی اور حکومت  بھی فلسطینیوں کے ساتھ بہت زیادہ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ  نسلی امتیاز کی پالیسی نے ان کو کس قدر اذیت پہنچائی تھی۔ وہ صہیونیوں کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح یہاں کے مسلمان طالبانِ افغانستان کے حامی اور امریکا و ناٹو کے سخت خلاف ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے یہاں کوئی خاص دل چسپی نہیں پائی جاتی اور اس کی وجوہ ہیں۔

 اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ساؤتھ افریقہ گذشتہ ۳۰ برس سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے۔ یہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کل حاضری عموماً ۴۰۰،۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ غیرڈاکٹر شرکا جو ڈاکٹروں کے اہل خانہ میں سے ہوتے ہیں، بھی شریک محفل ہوتے ہیں۔ یوں تعداد کافی زیادہ ہوجاتی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ اس سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت ملتی رہی، مگر میں اس میں دو مرتبہ ہی شریک ہوسکا۔ پہلی بار ۱۹۹۷ء میں اور دوسری مرتبہ اس سال ماہِ اپریل میں۔ ڈاکٹر حضرات تین دن کے سالانہ کنونشن میں بہت سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنا پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ بعض پروگرام اکٹھے ایک ہال میں ہوتے ہیں، جب کہ کئی ایک پروگرام تین چار مختلف ہالوں میں شرکا کو تقسیم کرکے متنوع موضوعات پر منظم کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کی جامعیت یہ ہے کہ ان میں دروس قرآن وحدیث بھی ہوتے ہیں اور مختلف اسلامی موضوعات پر ڈاکٹر اور دیگر حضرات کے لیکچر بھی رکھے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میڈیکل کے تمام شعبوں کے متعلق ماہرین کے نہایت اعلیٰ علمی و تکنیکی لیکچر ہوتے ہیں۔ ہر پروگرام کے بعد سوال وجواب کا دل چسپ سلسلہ بھی چلتا ہے۔ نماز باجماعت کا مثالی اہتمام ہوتا ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب ڈاکٹروں، پروفیسروں، تاجر، صنعت کار اور محنت مزدوری کرنے والے طبقات پر مشتمل ہیں۔ پاکستانی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بیش تر لوگ یہاں کا پاسپورٹ حاصل کرچکے ہیں۔ یہاں تحریکی احباب نے اپنا ایک نظم قائم کیا ہے جو آہستہ آہستہ منظم ہورہا ہے۔ اس کا نام اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ ۱۷،۱۸ مقامات پر اس کے وابستگان کسی نہ کسی صورت میں خود کو حلقے کی صورت دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہر مقام کے ذمہ داران سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ مرکزی دفتر جوہانس برگ میں ہے۔ اس وقت ڈاکٹر سید شبیرحسین صدر، ڈاکٹر فیاض حمید سیکرٹری اور ڈاکٹر طاہر مسعود خازن ہیں۔ خواتین میں بھی کام منظم ہورہا ہے۔ میرے لیے آئی ایم اے کی دعوت میں کشش اس وجہ سے تھی کہ اپنے تحریکی احباب کے کام کی کارکردگی، جس کا بیج ۱۵برس پہلے ڈالا گیا تھا،دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ الحمدللہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے کنونشن کے علاوہ آئی ایم اے کے پروگراموں کے تحت کیپ ٹاؤن، ڈربن، کلارک سٹاپ، پولک وین (پرانا نام پیٹرزبرگ) وغیرہ میں جانے اور ڈاکٹروں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ گذشتہ سال برادرم اظہر اقبال کو دو مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا اور انھوں نے کام کو منظم کرنے میں مقامی ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مقامات پر کوئی پاکستانی ڈاکٹر تو نہیں تھا، البتہ ہندی الاصل برادران وخواہران ہر جگہ پروگراموں میں   شریک ہوتے رہے۔ ان مقامات پر جہاں کہیں مساجد میں پروگرام ہوئے وہاں پاکستانی احباب نے بھی شرکت کی۔اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ کے تحت دو بڑے پروگرام ہوئے۔ ایک جوہانس برگ میں جس میں گردونواح سے مختلف صوبوں اور شہروں سے احباب نے شرکت کی۔ دوسرا بڑا پروگرام گراہمز ٹاؤن میں تھا، اس میں اس علاقے کے گردونواح سے بیش تر صوبوں اور شہروں سے لوگ آئے تھے۔ ہر دو مقامات پر خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کنگ ولیمز ٹائون اور کوئینز ٹائون میں بھی پروگرام کیے گئے۔

اسلامک سرکل کے پروگرام اردو میں ہوتے تھے، جب کہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور مساجد کے تمام پروگرام انگریزی میں۔ ہرجگہ یہ بات زیر غور آئی کہ مقامی آبادی میں کام کیسے کیا جائے؟ اس وقت مجموعی طو رپر اس ملک میں بہت امن وسکون ہے مگر چونکہ مقامی آبادی معاشی لحاظ سے محرومی کا شکار ہے، اس لیے وہ اپنی اس کیفیت اور حالت زار کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ آزادی ملنے اور سیاہ فام آبادی کی اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ابھی تک عام افریقی شہری معاشی و تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔ کبھی کبھار ردعمل میں کچھ باتیں خاموش سمندر کی سطح پر آجاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشی وسماجی ارتقا کا اہتمام نہ ہوا تو کسی وقت بھی یہ لاوا پھٹ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے ایسے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں مقامی آبادی کے وہ بچے جن کے والدین کا پتا نہیں، یا جن کی مائیں ہیں اور باپ نامعلوم، یا    جن کے والدین بہت ہی غربت کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا اہتمام نہیں کرسکتے، ان اداروں میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ان بچوں کے لیے ان اداروں میں   آنے کے بعد رہایش، خوراک، لباس اور تعلیم کی مکمل ذمہ داری اسلامی تنظیمیں اپنے ذمے لے لیتی ہیں۔ ان کے والدین اور مقامی آبادی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کہ انھیں مسلمان بنالیا جائے۔ مجھے ڈربن کے علاقے میں ایک چھوٹی دیہاتی آبادی انچانگا میں،وہاں کے اسلامک سنٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب ِخیر میڈیکل ڈاکٹر جناب غلام حسین تتلہ اس کے روح رواں ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل رقبے پر اس مرکز کی عمارات بھی بہت قابل دید ہیں۔ کچھ کلاسوں میں جاکر ۵ سے ۱۰سال کی عمر کے بچے بچیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ ان سب نے اتنی خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور شش کلمات پڑھ کر سنائے کہ بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کا لہجہ بھی بہت اچھا تھا، مخارج بھی درست اور لحنِ بلالی تو تھا ہی!

اس طرح کے مراکز جگہ جگہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ تمام باعمل مسلمان اس ضرورت کا احساس وادراک رکھتے ہیں۔ دوردراز کی افریقی آبادیوں میں آئی ایم اے کی موبائل ڈسپنسریاں بھی فعال دیکھیں۔ ایک دیہاتی علاقے میں ۳۰، ۴۰ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو بہت صاف ستھری جگہ پر بٹھانے کی سہولت کے ساتھ ڈسپنسری کو برسرِعمل دیکھا، تو اُن مخیر حضرات کے لیے جو مالی ایثار کر رہے ہیں اور اُن رضاکاروں کے لیے جو میدان عمل میں سرگرم ہیں، دل سے دعائیں نکلیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خدمت کی جارہی ہے وہ اس پر ممنون احسان ہیں، ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدمت کرنے والوں کو تحسین کے بجاے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر شبیر حسین اور کئی دیگر مسلمان ڈاکٹر آنکھوں میں موتیے کے بلامعاوضہ آپریشن کرنے کے لیے کیمپ لگاتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے بھی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ایک کیمپ میں ۹۰کے قریب شفایافتہ مریضوں کے درمیان تقسیم تحائف کی محفل میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں اسلام کاتعارف بھی کرایا گیا۔ تمام مریض انتہائی خوش اور ڈاکٹر شبیر اور ان کی ٹیم کے لیے رطب اللسان تھے۔ دیگر تحائف کے علاوہ انھیں قرآن مجید اور رسالہ دینیات کے انگریزی ترجمے دیے گئے۔   یہ بڑا بنیادی کام ہے مگر ذاتی روابط اور اسلام کی عملی تعلیم و تربیت اس سے اگلی اور اصل ذمہ داری ہے۔

عینی شاہد بیان نہ کرتے، تصاویر او رویڈیو نہ دکھا دیتے تو یقین نہ آتا۔ آپ خود ہی دیکھ کر بتادیجیے کہ کیا اشرف المخلوقات ایسا کرسکتا ہے؟ یہ کپڑے پر بنی بشار الاسد کی جہازی سائز کی ایک تصویر ہے ، جسے بیچ میدان کے زمین پر بچھا دیا گیا ہے، اس کے چاروں کناروں پر اس کے درجنوں حامی اور فوجی اس تصویر کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور درو دیوار پر لکھا ہے:لا الٰہ الا بشار۔ ایک اور منظر میں گھنی داڑھی والے ایک باریش نوجوان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں کی بارش ہورہی ہے اور ایک سورما، زمین پر گرے اس نوجوان کی گردن پر اس طرح پاؤںجمائے کھڑا ہے کہ سنت نبوی مکمل طور پر جوتے کے نیچے روندی جارہی ہے، اس عالم میں نوجوان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کہے: بالروح بالدم نفدیک یا بشار،’’میرا جسم و جان تم پر فدا یا بشار‘‘۔ اس طرف دیکھیں یہ ایک طویل قطار ہے۔ یہ صرف بچوں کی لاشوں کی قطارہے اور ان سب کو گولیاں مار کر نہیں، باقاعدہ گردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ ایک لمبی کھائی ہے، لیکن یہ کھائی نہیں ایک اجتماعی قبر ہے، جس میں درجنوں لاشیں دفن کی جارہی ہیں___ آخر کون کون سا منظر دیکھیں گے، نہ دیکھنے کا یارا ہے اور نہ بیان کرنے کا حوصلہ!

یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ئسے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، مسلمان شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان، اور تواور باغات، مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن ۴۹ برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع آیا ہے کہ قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ پہلی بار عوام نے خوف کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اب ان تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا گیا، تو پھروہ کبھی ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس نہ لے سکیں گے۔

شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گذشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ ۹مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئی۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔

۳۰مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر    تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ئ۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’ہر دل عزیز‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ اُلٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ۱۵نومبر ۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمران پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں  شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔

۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیردفاع بن بیٹھا، اور پھرنومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور  آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔

حافظ الاسد کی سفاکیت اور اسلام دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے:

  • جون ۱۹۷۹ء میں کسی فوجی افسر نے چند علوی فوجی افسروں پر فائرنگ کر دی۔     حافظ الاسد نے اس اندرونی شورش کا سارا الزام اخوان کے سر تھوپتے ہوئے، ایک ہی واقعے میں جسر الشغور نامی شہر میں ۹۷؍افراد شہید اور کئی گھر زمین بوس کردیے۔
  •  ۲۱ جون ۱۹۸۰ء کو ملک میں ایک انوکھا قانون نافذ کردیا گیا جس کے تحت اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی قرار دی گئی۔ آج تک یہ شق نمبر ۴۹ قانون کا فعال حصہ ہے۔
  •  ۲۵ جون ۱۹۸۰ء کو ایک سفارتی تقریب میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری بھی اخوان پر ڈال دی گئی۔ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۲۷جون کوتَدْمُْرْ جیل میں قید اخوان کے ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ نہ کوئی مقدمہ نہ عدالت، نہ منصف نہ گواہ، بس ایک الزام اور قصہ تمام۔
  •  ۲۵جولائی کو حلب شہرکے اتوار بازار میں پولیس فائرنگ کے ذریعے ۱۹۰ بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ حلب کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ یہاں اخوان کی تائید نمایاں ہے۔
  •  ۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو تَدْمُْرجیل میں ایک اور قتل عام ہوا۔ اس بار وہ خواتین نشانہبنیں جنھیں ان کے شوہر، باپ بیٹے یا بھائی کے نہ ملنے پر گھروں سے اٹھا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ ۱۲۰ خواتین لقمۂ اجل بن گئیں۔ یقینا ان سے روز حشر پوچھا جائے گا: بِاَیِّ ذَنْبٍم    قُتِلَتْ(التکویر۸۱:۹ ) ْ’’یہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟‘‘
  •  ۲ فروری ۱۹۸۲ء تو پوری مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی رفعت الاسد نے اپنی سربراہی میں قائم خصوصی سیکورٹی فورس کی مدد سے ’حماہ‘ نامی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اور پھر ۲۷ روز تک اس پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں سے بمباری کی جاتی رہی۔ ۳۵ سے ۴۰ ہزار بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ پورا شہر مقبرہ بن گیا کہ لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہاتھا۔ ’حماہ‘ کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کا گڑھ تھا۔

مکافات عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔

اس خاندان کے دور جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہونے والے درج بالا چند واقعات ۴۹ برس پر محیط درندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس قتل عام کے علاوہ اسد خاندان کا اصل ہدف اور اولین ترجیح ملک میں بعث ازم کی جڑیں گہری کرنا تھی۔ یہ نظریہ عرب قومیت اور اشتراکیت کا ملغوبہ ہے۔ بعث ازم کو (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھی بالاتر درجہ دے دیا گیا تھا۔ حافظ الاسد کا ایک شاعر ہرزہ سرائی کرتا ہے:

آمَنْتُ بِالْبَعْثِ رَبًا لَا شَرِیْکَ لَہٗ

وَبِالْعُرُوبَۃِ دِیْنًا مَالَہٗ ثَانِی

(میں بعث ازم کے رب لا شریک ہونے، اور عرب ازم کے لاثانی دین ہونے پر ایمان لایا)۔ بعث پارٹی کا شعار ہے: أمۃ عربیۃ واحدۃ ذات رسالۃ خالدہ ،’’ ابدی پیغام رکھنے والی عرب اُمت واحدہ‘‘۔ پورے ملک کا نظام اسی بعثی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق’’ بعث پارٹی ریاست اور معاشرے کی اکلوتی رہنما پارٹی ہے‘‘۔ کسی دوسرے کو پارٹی بنانے کی اجازت نہیں ۔ دستور کی دفعہ ۸۳ کے مطابق صدارتی انتخاب کا طریق کار یہ بتایا گیا ہے کہ ’’بعث پارٹی کے علاقائی ذمہ داران کسی ایک شخص کو صدارتی اُمیدوار نامزد کریں گے، پھر وہی صاحب خود عوامی ریفرنڈم منعقد کرواتے ہوئے منتخب صدر کہلائیں گے‘‘۔

جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں توفرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کا نظام بظاہربہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے: وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(الفاطر ۳۵:۴۳)،’’بُری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے‘‘۔ زین العابدین، حسنی، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔گذشتہ ۱۴ماہ میں بشارحکومت نے بھی عوامی تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجاے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتوں کی تعداد ’صرف‘ جی ہاں صرف ۱۵ ہزار افراد سے زائد ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ ہوتے تو اقتدار کی خاطر پوری قوم بھی موت کی نذر کرنا پڑتی، تو سفاک بعثی نظام دریغ نہ کرتا۔

شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پُرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاناچاہتا ہے۔ سفاک حکمران روز اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکا، لیکن ا ب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’الجیش الحر‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہا امریکا اور عالمی برادری تو اس کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن اس کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ بشار کے بعد بھی وہاں اپنی گرفت کیسے مضبوط کی جائے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قتل عام کو طول ملے یہاں تک کہ بشار کے بجاے بذات خود شیطان بھی آجائے تو شامی عوام اسے قبول کرلیں۔ ایک کے بعد دوسرے اجلاس اور مسلسل وفود ارسال کرنے کا نتیجہ مزید خوں ریزی کی صورت میں ہی نکل رہاہے۔ لاکھوں ڈالر کے خرچ اور ابلاغی طوفان کے بعد سیکورٹی کونسل نے ۲۱؍اپریل کو ۳۰۰ غیر مسلح فوجی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نگران تین مہینے تک اس امر کا جائزہ لیں گے کہ بشار انتظامیہ نے عوام کو کچلنے کے لیے کہیں بھاری اسلحہ تو استعمال نہیں کیا۔ گویا مزید تین مہینے تک تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اسی طرح کے نگران ۱۹۴۸ء سے کشمیری عوام کے ’تحفظ‘ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ اس کا واضح اندازہ ۲۲؍ اپریل کے صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت سے ہوتاہے ۔ وہ اپنے ادارتی نوٹ میںلکھتا ہے کہ شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں، ایک دینی جنگ ہے۔ اس کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوںتک دبا رہا ،اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فی صداہل سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اخبار یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’اب ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۰۰سال سے کم عرصے پر محیط جھگڑا، ساتویں صدی عیسوی سے جاری شیعہ سنی جھگڑے کی نسبت کس قدر ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا اب ہمارے سامنے صرف شام کاکوئی اندرونی نزاع نہیں، جیسا کہ بعض اسرائیلی سمجھتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا دینی انتشار ہے۔ اس تنازعے کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں اور یہی سب سے اچھی بات ہے‘‘۔

اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشارانتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بد تر ڈکٹیٹر ہیں ۔ ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجاے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔ یہ دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں عوامی تحریکات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تیونس اور مصر میں بھی ان کی پالیسی یہی تھی۔ لیکن کوئی صہیونی اور امریکی تجزیہ نگار  روس اور چین کی مدد کے باعث شام کی تحریک کو، کمیونزم یا سوشلزم کے خلاف تحریک نہیں کہہ رہا، کیونکہ وہ شیعہ سنی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ یہ طوفان اب عراق اور خلیج تک محدود نہیں رہا، شام اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اسی جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے۔ اس طوفان کو اسی صورت روکا جاسکتا ہے کہ اُمت کی توجہ اصل مسائل پر مرکوز رہے۔ اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o(الشعراء ۲۶:۲۲۷)’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

نائیجیریا براعظم افریقہ کے مغرب میں بحیرۂ اٹلانٹک کے طویل ساحل کے تقریباً وسط میں حبشی النسل قبائل کی ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی دنیا کی ساتویں بڑی آبادی پر مشتمل مملکت ہے۔ اس کا رقبہ اور آبادی، دونوں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ برطانوی قوم کی توسیع پسندی اور ہوس ملک گیری کے نتیجے میں یہ علاقہ بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی کالونی قرار پایا، اور برطانوی حکومت نے ۱۹۱۴ء میں اس کے ۲۵۰ سے زائد قبائل پر نائیجیریا نام کا ملک برطانوی کالونی کی صورت میں تشکیل دیا۔ یہ سب قبائل اپنے عقائد، مذہب، روایات اور عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اس مملکت کا شمالی علاقہ زیادہ تر صحارا کے ریگستان میں واقع ہے اور حوسا اور چند دوسرے قبائل پر مشتمل ہے۔اس علاقے کی   ۷۰فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ بقیہ آبادی عیسائی ہے اور روایت پرستوں پر مشتمل ہے۔

نائیجیریا میں اسلام شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک، مثلاً مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر وغیرہ اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن، سعودی عرب کے راستے داخل ہوا۔ مغربی نائیجیریا میں زیادہ تر پروبا قبائل آباد ہیں اور ان کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔ مشہور بندرگاہ لاگوس اسی علاقے کے ساحل پر واقع ہے، جو نائیجیریا کا پہلا دارالخلافہ تھا۔ مشرقی علاقہ بھی زیادہ تر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اس علاقے کی جانب سے برطانوی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور عیسائی مبلغین کا طائفہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس علاقے میں اگبو اور دوسرے قبائل   رہتے تھے جن کی اکثریت کو ان مبلغین نے عیسائی بنا لیا۔ اسی لیے اس علاقے کے قبائل یا تو عیسائی ہیں اور جو عیسائی نہ بن سکے وہ اپنی روایت پرستی پر قائم رہے۔ اس علاقے کی ساحلی پٹی پٹرول سے مالامال ہے، اور یہاں سے دنیا کا بہترین پٹرول حاصل ہوتا ہے۔

بین الاقوامی حالات اور ملک میں اندرونی تحریکوں کے دبائو کے تحت برطانوی آبادکاروں کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ملک قرار پایا۔ آزادی کے فوراً بعد ملک فوجی انقلاب کی نذر ہوگیا۔ ایک عیسائی جنرل برونسی کی قیادت میں یہ خونیں ثابت ہوا۔ معروف سیاسی اور مذہبی رہنما قتل کردیے گئے جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ ان میں ابوبکر تفاوا بلیوا اور احمد بیلو قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں گہری خلیج پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بعد مسلمان اور عیسائی فوجی جرنیلوں پر مشتمل ایک نئی فوجی قیادت اُبھری۔

۱۹۶۷ء میں مشرقی نائیجیریا کے اگبوقبائل کے ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے اس علاقے کو بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا کر علیحدہ کرلیا۔ برطانیہ، فرانس، اور دوسری مغربی حکومتوں نے اس نئی حکومت کی مدد کی، کیونکہ اس علاقے میں دنیا کا بہترین پٹرول نکلتا ہے اور یہ عیسائی علاقہ ہے۔ مرکزی حکومت کی خفیہ مدد مصر، لیبیا اور سوڈان نے اس بغاوت کو فرو کرنے میں کی۔ بغاوت ناکام ہوئی مگر اس میں ۱۰لاکھ سے زائد افراد کام آئے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ باغی لیڈر کرنل ایمسکا اجوکو ،کو حال ہی میں (اوائل مارچ ۲۰۱۲ئ) نائیجیرین حکومت کی طرف سے عزت و احترام سے دفنایا گیا اور نائیجیریا کے صدر نے اس کے جنازے میں بذاتِ خود شرکت کی ہے۔

  • اسلام اور عیسائیت کی کش مکش: گذشتہ صدی کے آخیر میں نائیجیریا کے  تین علاقوں کو ۲۹ سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ تقسیم وہاں کے بڑے بڑے قبائل کی بنیاد پر کی گئی۔ اس کے باوجود جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں صدیوں سے انھوں نے عرب امارات کی طرح امارات قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ امارات نائیجیریا کے سیاسی نظام کے تحت    اپنا اسلامی تشخص رکھتی ہیں۔ ’ناصرالاسلام‘ کے نام سے مسلمانوں کی ایک مذہبی جماعت ہے جو اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جماعت کی تصدیق کی بنیاد پر ایک مسلمان حج پر جاسکتا ہے اور سعودی حکومت حج پر جانے والوں کے لیے اس تصدیق نامے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ اس لیے کہ قادیانیوں نے برطانوی دور سے نائیجیریا میں اپنے تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کیے ہوئے ہیں اور زوروشور سے تبلیغ کا کام کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو قادیانی بناتے ہیں۔ جب سے پاکستان نے ان کو غیرمسلم قرار دیا ہے اس وقت سے نائیجیریا سے حج پر جانے والے مسلمانوں کے لیے متذکرہ تصدیق نامہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نائیجیریا میں بعض      صوفی سلسلوں کے اثرات بھی ہیں۔ ’ناصرالاسلام‘ کے دو اہم رہنما سراحمد بیلو اور تفاوا بلیوا پہلے فوجی انقلاب کے دوران میں شہید کردیے گئے تھے۔ یہ رہنما اتنے بااثر تھے کہ اپنے تبلیغی دوروں کے دوران میں ایک وقت میں ۱۰ہزار روایت پرست قبائل افراد کو مسلمان کرلیا کرتے تھے، اور یہی بات مقامی اور بین الاقوامی عیسائیت کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ہرسطح کا نائیجیرین مسلمان، گو بہت سی معاشرتی اور معاشی خرابیوں میں ملوث ہے، مگر نماز بڑی پابندی سے ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں یہ انقلاب اڑھائی سال قبل ایک مسلمان مصلح عثمان ڈان فوڈیو کی طویل اور انقلابی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ مسلمان بحیثیت مجموعی سیاسی سمجھ بوجھ اور عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے باعث بڑے بااثر ہیں۔ گو، وہ جدید انگریزی تعلیم کی کمی کے باعث غیرتعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں،   حالانکہ وہ اپنے دین اور قرآن کی تعلیم اور معاشرے کے نظم و نسق کے حوالے سے دوسروں سے بہت آگے ہیں۔ نائیجیریا میں قرآن کے حفاظ کی بڑی تعداد ملتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان کے دوران ختم قرآن کا رواج کم ہے۔ قرآن پڑھنے پڑھانے اور قرأت کی محفلیں خوب ہوتی ہیں۔

برطانوی استعمار کے دوران عیسائیت نائیجیریا میں داخل ہوئی اور عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کے باعث مشرقی علاقوں کے قبائل نے عیسائیت اختیار کی۔ پھر برطانوی دور میں قائم کیے گئے تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی عیسائیت کو فروغ ملا۔ ہر ادارے میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم لازم تھی۔ عالمی عیسائیت نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ اور عیسائی براعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار مبلغین مغربی ممالک اور امریکا سے لائے گئے۔ یہ تحریک ہزار جتن کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔ دل چسپ مناظر یہ دیکھنے میں آئے کہ مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا صدر جو خود عیسائی مبلّغ تھا اور عیسائیت کی تبلیغ و توسیع کا ذمہ دار تھا، اس کے اپنے گھر کے افراد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح نائیجیریا میں عیسائی بشپ کی اپنی بیٹی اموجہ سے مسلمان ہوگئی کہ اسے مسلمانوں میں شادی کے بندھن کے طریقے بڑے سادہ اور پُراثر نظر آئے۔

نائیجیریا میں اسلام اور عیسائیت ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے۔ لہٰذا یہاں کچھ عرصے بعد کہیں نہ کہیں عیسائی مسلم فساد ضرور ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں اور گرجا اور مساجد اور گھر جلائے اور مسمار کردیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۹۹۹ء سے اب تک مذہبی اور سیاسی فسادات ۱۶ہزار انسانوں کو نگل چکے ہیں۔ صرف ۲۰۱۱ء میں شمالی نائیجیریا میں ۸۰۰؍افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی سال کے دوران میں بائوچی، بنوئے،نساروا اور ترابا ریاستوں میں ۱۲۰؍افراد فساد کی نذر ہوئے۔ یہ سب ریاستیں شمالی نائیجیریا کی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ فسادات ہوتے کیوں ہیں؟ مشرقی اور جنوبی ریاستوں کے عیسائی افراد روزگار اور تجارت کی غرض سے شمالی نائیجیریا آتے ہیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنا اور قبضہ جمانا شروع کردیتے ہیں۔ عیسائیت اور اسلام کی بنیاد پر بُغض و عناد جو پہلے سے ہی ہے اور اس پر قبائلی عناد بھی۔ بس پھر کہیں سے شعلہ بھڑکتا ہے، علاقے کے باسی دوسرے علاقے کے واردین کو علاقہ چھوڑنے کو کہتے ہیں اور یہی فساد کی جڑ بن جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں عیسائی علاقوں میں بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔

  • بوکو حرام اور نائیجیریا: ’بوکوحرام‘ نام سے شمالی نائیجیریا میں مسلمان نوجوانوں کا   ایک گروپ گذشتہ کئی سال سے متحرک ہے۔ اس گروپ کا طریقۂ واردات لوگوں کو گولی کا نشانہ بنانا، بم پھینکنا، یا خودکش حملہ کرنا ہے۔ اس گروپ نے ۲۰۱۱ء میں ۴۲۵؍افراد کو شمالی نائیجیریا میں تہِ تیغ کیا۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں ریاست میڈوگوری میں نصف درجن حملوں میں پولیس افسران، سیاست دانوں، اپنے مخالف مذہبی رہنمائوں اور قبائلی رہنمائوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ ریاست یوبے کے مقام ڈماٹرو میں بم حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی جس میں ۱۰۰؍افراد مارے گئے۔ پھر اسی سال، یعنی ۲۰۱۱ء میں اگست کے مہینے میں نائیجیریا کے دارالخلافہ ابوجا میں اقوامِ متحدہ کی عمارت پر خودکش بم حملہ کیا جہاں ۲۴؍افراد لقمۂ اجل بنے اور ۱۰۰؍افراد زخمی ہوئے۔ یہ اس گروپ کی اب تک کی کارستانی ہے۔ اس گروپ کے سرغنہ محمد یوسف اور اس کے بہت سے ساتھیوں کو ۲۰۰۹ء میں پانچ پولیس افسران اور تین اسسٹنٹ پولیس کمشنر نے عدالتی کارروائی اور انصاف کے بغیر تہِ تیغ کردیا اور آج تک ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی۔

بوکوحرام گروپ خالص مقامی لوگوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے مگر اس کو کیا کہیے کہ اقوام متحدہ کے آفس کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اس گروہ کا تعلق القاعدہ سے تلاش کرلیا گیا ہے۔ یہ اس طرح ہوا کہ اس گروپ کے سات ممبران جو نائیجر (نائیجیریا کی ہمسایہ اسٹیٹ) سے گزر رہے تھے، جب گرفتار ہوئے تو ان کے قبضے سے ملنے والی بعض چیزوں کا تعلق القاعدہ سے پایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو القاعدہ نے ’اسلامی مغرب‘ میں تربیت بھی دی تھی۔

’بوکوحرام‘ کی درج بالا سرگرمیوں کی وجوہات کے بارے میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ ۲۰۱۱ء سے معلوم ہوتا ہے کہ:

  •  نائیجیریا کی حکومت اس کے افراد اور ادارے انتہا درجے کی کرپشن میں ملوث ہیں ، مثلاً ۲۰۰۳ء میں ۳۵قومی سطح کے سیاست دان ملوث پائے گئے۔ اسی طرح چار گورنر، قومی اسمبلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اور ممبران بھی ملوث پائے گئے اور ایک مرکزی وزیر بھی۔ مگر ان کے خلاف سیاسی اثرات اور عدالتی نظام کی کمزوری کے باعث کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
  • حکومت نائیجیریا نے آج تک ان پولیس اور ملٹری افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، جنھوں نے ملاکو اسٹیٹ میں مذہبی فسادات کے دوران میں ۱۳۰؍افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور نہ ان فوجیوں ہی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی جنھوں نے بنوئے اسٹیٹ میں ۲۰۰۱ء میں ۲۰۰؍افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ۔ اسی طرح فوج کے ان افراد کے خلاف بھی کارروائی نہ کی گئی جنھوں نے ہائلسہ ریاست میں ۱۹۹۹ء میں اوڈی نام کے ایک قصبہ کو تہس نہس کردیا تھا۔
  •  بڑے پیمانے پر سیاست دانوں، اور کاروباری شرفا کا ملکی کرنسی اور دولت کو اسمگل کرنا۔
  •  عوام میں انتہا درجے کی غربت ، غذا کی کمی اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے باعث لوگوں کی اموات ۔
  •  تیل پیدا کرنے والے علاقے میں تیل کی چوری اور حکومتی اداروں اور ذمہ داران کی بے حسی۔
  •  مذہبی اور قبائلی گروہوں میں آپس کی منافرت اور ایک دوسرے کے خلاف فسادات۔
  • چوری، ڈکیتی، اور قتل اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی___ ان حالات میں کسی بھی ملک میں مقامی ’بوکوحرام‘ کا پیدا ہوجانا کوئی اچنبھا نہیں۔