پاکستان میں افغانستان کے متعین سفیر۴۸سالہ ڈاکٹر حضرت عمر ضاخیلوال کے بیانات گذشتہ چند دنوں میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ چھے ماہ قبل جب ان کی تعیناتی عمل میں آئی تھی اور انھوں نے نسبتاً خاموش طبع جانان موسیٰ زئی کی جگہ لی تو اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ شخصیت آنے والے دنوں میں دو برادر اور ہمسایہ پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں اتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
نئے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے، جو خود بھی ماہر اقتصادیات ہیں اور امریکا ہی سے کرزئی حکومت کے دور میں آئے تھے، ان کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ۔ انھوں نے اس چار ملکی امن گروپ (QCG)میں افغانستان کی نمایندگی کی جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسی گروپ کی کوششوں سے گذشتہ سال پاکستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اعلا ن کیا گیا تھا لیکن پھر طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر آئی یا لائی گئی اوران مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سال پھر جب پاکستان نے امن مذاکرات کے لیے طالبان سے رابطے کیے تو اس پر افغان حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور پاکستان کو کسی قسم کے مذاکراتی عمل سے منع کر دیا جو بڑا عجیب و غریب رویہ تھا۔ لیکن اب، جب کہ گذشتہ ماہ نوشکی میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا گیا اور اب طور خم میں افغان فورسز نے جارحانہ رویہ اختیا ر کیا تو صورت حال کچھ واضح ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہِ اپریل میں افغان سفیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو چکی ہے اور ہم بہت جلد افغان رہنمائوں کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کر دیں گے ، جب کہ قطر میں مقیم افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد نعیم نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنی قیادت کی جانب سے ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب انھی افغان سفیر کا تازہ ترین ارشاد ہے کہ اگر پاکستان نے طور خم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کا کام ترک نہ کیا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ وہ پہلے بھی اس طر ح کے تندوتیز بیانات دے چکے ہیں۔
مجاہدین اور طالبان کے دور حکومت میں یہ موقع تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی باہم مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جاتا لیکن اس کے لیے دونوں جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی ۔ اب، جب کہ کابل میں افغان حکومت دوبارہ پختون قوم پرستوں کے ہاتھ میں آچکی ہے تو اس مسئلے پر بات چیت مشکل تر ہوگئی ہے ۔ یہ ہے اصل میں طور خم کے سرحدی تنازعے کا پس منظر جس پر کوئی بھی کھل کر بات نہیں کرتا۔ جب افغان سفیر حضرت عمر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ وہ گیٹ کی تنصیب کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں تو اسی وقت افغان میڈیا میں ان کے خلاف ایک شور سا اُٹھ گیا کہ عمر نے افغان ملت کے ساتھ دغا بازی کر کے امیر عبدالرحمن کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ پاکستانی اداروں نے کہا کہ وہ ۱۰۰میٹر پاکستانی حدود کے اندر گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار ہوئے تھے، جب کہ عملاً گیٹ ۳۷میٹر اندر بنایا جانے لگا جس پر افغان فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی، یعنی معاملہ صرف چند میٹر کا تھا۔ کئی قیمتی جانیں اس کی نذر ہو گئیں اور دو برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک جنگی صورت حال پیدا ہو گئی ۔پاکستانی فوجی آفسر میجر علی جواد چنگیزی جو ایک خوب صورت انسان تھے ان میںشامل ہیں۔
مسئلہ صرف چند میٹر کا نہیں ہے بلکہ افغانستان کے mindsetکا ہے جو کسی بھی صورت گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار نہیں اور اس کا اظہار اب افغان سفیر اپنے بیانات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اب جا کر یہ بیان دیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اس قضیے پر مذاکرات کریں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ صلاح الدین سابقہ افغان صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنھوں نے روسی تسلط کے خلاف جہاد افغانستان کی قیادت پاکستان میں بیٹھ کر کی تھی اور بعد میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے پر ایک معاہدے کے تحت صبغتہ اللہ مجددی کے بعد افغانستان کے صدر بن گئے تھے لیکن معاہدے کی پابندی نہ کی اور کئی سال تک افغانستان کے صدر رہے ۔ یہاں تک کہ طالبان نے آکر ان کی حکومت ختم کی ۔ حنیف اتمر کا پس منظر یہ ہے کہ وہ سابقہ کمیونسٹ کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور جب نجیب انتظامیہ نے حضرت مجددی کو اقتدار منتقل کیاتو اس عمل میں حنیف اتمر شامل تھے ۔
چین اور بھارت یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، البتہ اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ جلال آباد سے کابل تک دو رویہ ہائی وے کی تعمیر ایک چینی کمپنی کر رہی ہے ۔ البتہ بھارت کا افغانستان میں کردار بہت اہم ہے اور وہ آیندہ بھی افغانستان میں اور اس سے آگے بڑھ کر وسط ایشیا میںاپنے لیے تجارتی منڈیوں کا حصول چاہتا ہے ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بڑھ کر ہیں۔ کئی معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ مشترکہ چیمبر آف کامرس بھی ۲۰۱۰ء میں بناہے۔ افغانستان کی درآمد میں پاکستان کا حصہ ۹ئ۲۵فی صد ہے، جب کہ برآمدات میں ۳ئ۲۳ فی صد ہے۔ دونوں کے درمیان APTTAکا نیا تجارتی معاہدہ بھی ہواہے ۔ باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا کل حجم ۲۵۰۹ ملین ڈالر سے بڑ ھ چکا ہے اور پاکستان کے حق میں ہے ۔
پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ پاکستان نے اس مد میں ۳۳۰ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جو بھارت کے ۲بلین ڈالر کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ جلال آباد طورخم روڈ کی تعمیر پاکستان کا منصوبہ تھا ۔ تعلیم کے میدان میں پاکستان کے منصوبوں میں کابل میں رحمن بابا اسکول ، کابل یونی ورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی ، جلال آباد میں سر سید فیکلٹی اور بلخ میں لیاقت علی خان فیکلٹی کی تعمیر شامل ہے ۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے کتب اور کاپیوں کی فراہمی، ۵۰؍ایمبولینس گاڑیاں، ۲۰۰ٹرک اور ۱۰۰بسیں بھی عطیہ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تیل ، گیس، معدنیات او ربجلی کے منصوبوں میں پاکستان نے امداد بہم پہنچائی ہے ۔ مستقبل میں پاک افغان باہمی تعلقات اور تجارت کے فروغ کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ پاک چائنا کاریڈور کے مغربی روٹ کو افغانستان سے منسلک کرنے کا آپشن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ریلوے کا نظام جو ۱۱ہزار۷ سو ۷۸ کلومیٹر طویل انگریز دور کا تعمیر کردہ ہے پہلے ہی طور خم تک پہنچایا گیا تھا ۔ اس کو اگر افغانستان تک پہنچا دیا جائے اور پھر اس سے آگے وسط ایشیا کے ریلوے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ چین اس عظیم منصوبے میں بھی دل چسپی لے رہا ہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نومبر ۲۰۱۴ء کو پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے لیے نیک خواہشات اور اچھے و مثبت جذبات کا اظہار کیا ۔ پاکستانی قیادت نے بھی بھر پور جواب دیا اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کی سلامتی پاکستان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان جس بری طرح سے باہمی جنگ وجدل اور شکست وریخت سے دو چار ہوا، امریکی انخلا کے بعد اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں جنگ کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام جتنا افغانستان کے لیے لازمی ہے اتنا پاکستان کی بھی ضرورت ہے ۔ ایسے موقعے پر طورخم سرحد پر خونچکاں واقعہ ناقابلِ برداشت اور خطرناک مضمرات کا حامل ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عارضہ قلب اور سرجری کے دوران اور بعد میںملکی انتظام اور انصرام چلانے والی کوئی شخصیت نظر نہیں آئی جو بہت بڑا قومی مسئلہ ہے ۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں طورخم واقعے کو بھارت کی سازش قرار دیا لیکن اس کا توڑ کیا ہے اور کون کرے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کا کردار مختلف اور دوسرے انداز میں ہوتا ہے ۔ سفارتکاری کی اہمیت دنیا میں ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کا حل حکمت عملی اور لچک دار رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
اس دور میں مسلم اُمت ایک کرب اور تکلیف سے دو چار ہے ۔ ہر جانب خون خرابہ اور تباہی و برباد ی کی خبریں ہیں۔ عراق و شام میں ایک خوف ناک صورت حال پیدا ہو چکی ہے ۔ اس موقعے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تصادم ایک اور المیہ کو جنم دے سکتا ہے ۔ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف کی قیادت کو ان خطرات کے سد باب کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کا مفاد ایک ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔
۲۱۷؍ ارکان پر مشتمل تیونس کی قومی اسمبلی میں تحریک نہضت ۶۹ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف گروہوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکمران پارٹی نداء تیونس کی ۵۹ نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ۲۷ اور باقی ایوان مختلف جماعتوں کے ۱۰ اور ۱۵؍ارکان پر مشتمل ہے۔ تحریک نہضت چاہتی یا اب بھی چاہے تو بڑی آسانی سے اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن اس نے ادنیٰ تردد کے بغیر دوسروں کو حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف حکومت یا اقتدار نہیں، ملک سے آمریت کا خاتمہ، ثمرات انقلاب کی حفاظت، جمہوری اقدار کی مضبوطی اور ایک شفاف نظام حکومت تشکیل دینا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اقتدار کی خاطر ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہادینے والے کئی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
عالمِ عرب میں آمریت سے نجات کا خواب بھی ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن اور لیبیا بھی تیونس کے نقش قدم پر چلے لیکن بدقسمتی سے جلد ہی گرفتارِ بلا ہوگئے۔ تیونس آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور دنیا کو ایک نئے جمہوری تجربے سے آشنا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۲۰سے ۲۲ مئی تک تیونس میں تحریک نہضت کا دسواں اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس سے پہلے آٹھ اجتماع آمریت کے زیر سایہ یا ملک بدری میں ہوئے۔ ۲۰۱۲ء میں ہونے والا نواں اجلاس آزاد فضا میں سانس لینے کا پہلا تجربہ تھا۔ حالیہ اجتماع کئی لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ دنیا کو تیونس اور تحریک نہضت کے کئی اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں تحریک کے سربراہ کے علاوہ مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی ہوا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دعوتی و تربیتی کام سے الگ کرنے کے اہم ترین فیصلے سمیت کئی بنیادی دستوری و تنظیمی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک میں شخصی اقتدار اور شخصی سیاسی جماعتوں کا تسلط ہے، تحریک نہضت نے شورائیت اور تنظیمی قوت کا شان دار مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے صدارتی انتخاب کے لیے آٹھ افراد کے نام سامنے آئے جو آخر میں تین رہ گئے۔ ۷۷ سالہ جناب راشد الغنوشی صاحب کو مجلس نمایندگان کی بھاری اکثریت نے آیندہ چار برس کے لیے منتخب کرلیا، انھیں ۸۰۰ ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سابق صدر (یا اسپیکر) کو ۲۲۹؍ اور تیسرے اُمیدوار کو ۲۹ ووٹ ملے۔
دوسرا اہم مسئلہ مجلس شوریٰ و عاملہ کے انتخاب کا تھا۔ ۱۵۰ رُکنی مجلس شوریٰ کے بارے میں طے پایا کہ اس کے دو تہائی (یعنی ۱۰۰) ارکان منتخب اور ایک تہائی (۵۰) ارکان صدر کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح مجلس عاملہ کے بارے میں بھی قدرے بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ صدر مجلس شوریٰ کے سامنے ان کے نام تجویز کرے گا اور شوریٰ کی منظوری سے مجلس عاملہ وجود میں آجائے گی۔ ان تنظیمی اصلاحات کے بارے میں بحث کے دوران بعض ارکان کی طرف سے تندوتیز تقاریر بھی کی گئیں، لیکن بالآخر راے دہی کے ذریعے ہونے والا مجلس کا فیصلہ سب کو قبول ہوا۔
تیسرا اور حساس ترین موضوع ایسا تھا کہ جس کے بارے میں اب بھی عالمی سطح پر بہت لے دے جاری ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے اور پھر دوران اجلاس راشد الغنوشی صاحب نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے تقاضوں اور انتخابی سیاست کے پیش نظر ہمیں اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ: ’’تحریک نہضت ایک قومی جماعت ہے جو تیونس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کررہی ہے۔ ہم ایک قومی، سیاسی، اسلامی بنیاد رکھنے والی، ملک کے دستوری دائرے میں رہنے والی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور عہد جدید کے تقاضوں کی روشنی میں کام کرنے والی جماعت ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ : ’’اب ہمیں ایک ایسی جماعت بنانا ہوگی جو صرف سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دے سکے۔ ہمیں دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے بجاے مسلم ڈیمو کریٹس کے طور پر متعارف ہونا ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو الفاظ کی نئی ترکیب سے زیادہ اس فیصلے میں کوئی اچنبھا خیز بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے مصر، لیبیا، اُردن، یمن، مراکش، کویت، بحرین اور سوڈان سمیت کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی و دعوتی تنظیم الگ الگ کرچکی ہیں۔ اس تنظیمی اختصاص کے نتیجے میں نہ صرف ان کی سیاسی پیش رفت میں بہتری آئی، بلکہ دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں بھی وسعت ، سہولت اور بہتری پیدا ہوئی ہے۔
لیکن تحریک نہضت تیونس کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے کئی دوستوں اور اکثر دشمنوں کی طرف سے گردوغبار کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث چھیڑی جارہی ہے۔شاید اس ساری بحث و تمحیص کا ایک سبب جناب راشد الغنوشی کی طرف سے ’سیاسی اسلام‘ اور ’مسلم ڈیموکریٹس‘ کی اصطلاح میں بات کرنا بھی ہو۔ حالاں کہ خود ’سیاسی اسلام‘کی اصطلاح بھی اغیار کی تراشیدہ ہے۔ وہ اس کے ذریعے الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی فکر اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کام کرنے والی تحریکوں کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔
امام حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان سے پہلے شاعر اسلام علامہ محمد اقبال رحہم اللہ کا یہ دوٹوک موقف کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، اور یہ کہ دین و سیاست اور مذہب و ریاست کے مابین مکمل ہم آہنگی، قرآنی آیات و احکام اور آپؐ کی تعلیمات کی اصل روح ہے، ان سب عالمی طاقتوں کے لیے سُوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل گویا ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ مصر میں ۱۰ہزار کے قریب بے گناہ شہید اور ۵۰ ہزار کے لگ بھگ بہترین دماغوں کو جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا ایک ہی جرم بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ’سیاسی اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
تحریک نہضت نے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو الگ کرتے ہوئے گویا اس ’سیاسی اسلام‘ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دعوتی و تربیتی سرگرمیوں کے تقاضے پورا کرنے اور انتخابی عمل کی ضروریات و مجبوریوں کا علاج کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ الفاظ و اصطلاحات میں مسلسل تبدیلی اور اپنے فیصلے کرتے ہوئے تیونس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھنا تحریک نہضت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس کا نام ’جماعت اسلامی تیونس‘ رکھا گیا تھا۔ پھر اس کا نام ’جہت اسلامی‘ رکھ دیا گیا‘‘ اور پھر ’تحریک نہضت اسلامی‘ رکھا گیا۔ جماعتی نام میں لفظ اسلام پر پابندی لگنے کے بعد صرف ’تحریک نہضت‘ کردیا گیا جو اَب ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا افتتاحی سیشن تیونس کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس میں بھی جگہ نہ رہی اور ہزاروں افراد باہر کھڑے رہے۔ اتنا بڑا اور انتہائی منظم اجتماع تیونس کی کوئی دوسری جماعت کبھی نہیں کرسکی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں الشیخ راشد الغنوشی نے عہد جبرکی تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی ملک میں تیونس جانے یا وہاں سے آنے والی پرواز دیکھتا تو حسرت پیدا ہوتی تھی کہ نہ جانے اب کبھی اپنے دیس اور اس کی گلیوں میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ صرف واپس آنے کا موقع بخشا بلکہ اب ہم الحمدللہ خالی خولی دعووں اور نعروں سے آگے بڑھ کر اصلاح ریاست کی منزل کی جانب کامیابی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انقلاب کے بعد اپنی قائم شدہ حکومت خود چھوڑ کر اور اب حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود دوسروں کو موقع دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا مقصد اقتدار یا منصب نہیں، بندگانِ خدا کو اپنے دین کے سایے میں آزادی، عزت اور راحت سے زندہ رہنے کا حق دلانا ہے۔ انھوں نے تحریک نہضت کی روایتی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیونس کی تاریخ کے تقریباً ہر اہم فرد کا نام لیتے ہوئے سابق آمر حبیب بو رقیبہ کا نام بھی لیا۔ ا س کے لیے مغفرت کی دُعا کی اور کہا کہ یقینا ان کی بہت سی غلطیاں ہیں لیکن ہمیں ان کی اچھائیوں کو یاد رکھنا ہے۔
انھی دنوں بعض تیونسی اخبارات میں سابق تیونسی آمر زین العابدین بن علی کے ایک داماد کا انٹرویو شائع ہوا۔ ملک سے فرار ہوتے ہوئے خوفناک جلاد کا یہ داماد اپنی اہلیہ سمیت تیونس ہی میں رہ گیا تھا اور انھیں بالآخر عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں میری اہلیہ (بن علی کی بیٹی) سے کسی نے کہا کہ آپ اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے غنوشی صاحب سے جاکر ملیں۔ بہت تردد کے بعد وہ جاکر انھیں ملیں تو راشد الغنوشی نے انتہائی شفقت سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’آپ کے والد کے خلاف جو مقدمات بھی عدالت میں ہیں ان کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ عدالت نے اگر آپ کی تمام جایداد ضبط کرلی ہے تو اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا، البتہ سرزمین تیونس کی ایک بیٹی ہونے کے ناتے میں آپ کو کبھی خوار نہیں ہونے دوں گا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے تو یہ لیں، یہ میرے فلاں عزیز کے گھر کی چابیاں ہیں، آپ کو جب تک ضرورت ہے آپ وہاں قیام پذیر رہیں‘‘، اور ہم اس گھر میں رہایش پذیر رہے۔ اس حسن سلوک کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ یہ یاد کریں کہ بن علی اور بورقیبہ کے دور میں تحریک نہضت کے ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جس میں ان اسیران اسلام کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے سامنے بے آبرو کرنا بھی شامل تھا۔
سابقہ دورِ جبر کی یہ تلخ یادیں اور ’’فی حماک ربنا ... فی سبیل دیننا: اے ہمارے پروردگار آپ کی پناہ میں ... اے ہمارے پروردگار اپنی دین کی خاطر‘‘ جیسے کلمات پر مشتمل تحریک نہضت کا سرمدی ترانہ ہونٹوں پر سجائے ہر طرح کے جبر و تشدد سے سرخرو ہوکر نکلنے والی تحریک نہضت اور اس کے کارکن ان تمام غلط فہمیوں کا عملی جواب ہیں جو ان کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں پھیلائی جارہی ہیں۔ تحریک نہضت اپنی سیاسی تنظیم اور دعوتی و تربیتی ہی نہیں فلاحی، رفاہی، تعلیمی، اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے ماہرین کواعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کررہی ہے اور ان کے تمام بہی خواہ دُعاگو ہیں کہ جامع مسجد زیتونہ کے تاریخی میناروں سے سجا تیونس، عالم اسلام میں حقیقی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
عین اس وقت کہ جب تیونس میں نہضت کے اجتماع کا اختتام ہورہا تھا، ترک دارالحکومت انقرہ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا تھا۔ ۲۲ مئی کو پارٹی نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی جگہ بن علی یلدریم کو اپنا نیا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ طویل عرصے تک وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر کام کرنے والے ایک انتہائی شریف النفس دانش ور اور عالمی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلو نے خود اپنے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا تقاضا کیا تھا۔
بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی شان دار رہی۔ خود انھوں نے بھی اس بہتر کارکردگی کا ذکر کیا۔ بالخصوص چند ماہ قبل عام انتخابات میں۸ئ۴۹ فی صد ووٹ حاصل کرنے پر اللہ کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ وہ سرد جنگ بنی جو بدقسمتی سے صدرمملکت اور وزیراعظم کے مابین چھیڑدی گئی تھی۔ رجب طیب اردوان نہ صرف قوم کے اصل قائد ہیں، بلکہ اب وہ قوم کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے صدر بھی ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۵ کو جب وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر منتخب ہورہے تھے، تب ہی سے ان کی جانشینی کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آیا تھا۔ پارٹی کے کئی افراد کا خیال تھا کہ سابق صدر عبد اللہ گل یا نائب وزیراعظم بلند آرینج کو وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ اردوان کی راے استنبول کی میئرشپ کے زمانے سے آزمودہ اپنے دیرینہ رفیق کار بن علی یلدرم کے حق میں تھی۔ ۲۱؍ اگست کو وزیراعظم کا چناؤ ہونا تھا اور ۱۹؍ اگست تک فریقین اپنی الگ الگ راے کا اظہار کررہے تھے۔ پھر اچانک احمد داؤد اوغلو کا نام تجویز ہوا، جس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس وقت یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ ’’طاقت ور صدر کا طاقت ور وزیراعظم‘‘۔
طیب اردوان ایک عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ ان کے مخالفین اسے ان کی آمریت اور تمام اختیار سمیٹنے کی خواہش کہتے ہیں لیکن طیب اردوان ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے ماضی کے تلخ واقعات کا سدباب کرتے ہوئے اسے قیادت کی وحدت اور حالات کا بنیادی تقاضا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف منتخب پارلیمنٹ او ردوسری طرف منتخب صدر کو جب ہر چار برس بعد عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا تو دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کریں گے۔ اس نظام کو باہم مربوط کرنے کے لیے صدر کو بھی جواب دہ لیکن بااختیار بنانا ہوگا۔ وزیراعظم کو صدر اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہو، لیکن اس کا بنیادی کام فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو۔ وہ متبادل قیادت کے طور پر اُبھرنے کے خبط کا شکار نہ ہو۔ نئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم صدر رجب طیب اردوان کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ وہ گذشتہ ۱۱برس سے وزیر مواصلات کے طور پر ملک میںنمایاں ترین منصوبوں کی تکمیل کرچکے ہیں۔ ملک میں نئے ایئرپورٹ، نئے پل، نئی ٹرین، نئے بحری جہاز اور الیکٹرانک نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے ۲۵۵؍ ارب ترک لیرے، یعنی ۸۵ ارب ڈالر کے منصوبے خاموشی سے مکمل کرچکے ہیں۔
۱۹۵۵ء میں پیدا ہونے والے بن علی یلدریم ۱۶ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ پھر بحری جہازوں کی انجینیرنگ پڑھی۔ اگرچہ ان کا تعلق اردوان کی طرح پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کی جماعت سے نہیں رہا، لیکن دین داری ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ طیب اردوان کے ساتھ بلدیہ استنبول کے کئی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے اور پھر وزارت ملنے پر بھی کئی نئے منصوبے مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً: ان سے پہلے ملک میں ۲۶ ایئرپورٹ تھے، اب ان کی تعداد ۵۵ہے۔ انھوں نے اعلان کیاتھا کہ ہر ترک شہری کو ہوائی سفر کی سہولت پہنچائیں گے۔ پہلے ترکی میں ہوائی سفر کے سالانہ مسافروں کی تعداد ۴و۳۴ ملین ہوا کرتی تھی جو اَب ۱۸۲ ملین سالانہ ہوچکی ہے۔ انھوں نے ۲۴ہزار ۲سو۸۰ کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں اور ۱۸۰۵ کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائن کا جال بچھا دیا جس میں ۱۲۱۳ کلومیٹر فاسٹ ٹرین کی لائن بھی شامل ہے۔ ان کے زمانے میں الیکٹرانک تجارت میں ۲۱گنا اضافہ ہوا اور وہ ۹۰۰ ملین ترک لیرے سے بڑھ کر ۱۸۰۹؍ ارب ترک لیرے تک جاپہنچی ... یہ اور اس طرح کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک صحافی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یلدریم کا مطلب ہوتا ہے ’بجلی کا کڑکا‘۔ شاید میری شخصیت میں میرے نام کا پرتو پایا جاتا ہے۔
نئے ترک وزیراعظم کے سامنے سب سے اہم مرحلہ ملک میں مجوزہ صدارتی نظام کے مراحل کو کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگر یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو وہ جدید ترکی کے آخری بااختیار وزیراعظم ہوں گے۔ کرد باغیوں، داعش کے جنگجوؤں اور اردوان کے بقول فتح اللہ گولان کی جماعت کی طرف سے ملک میں ایک متوازی ریاست چلانے کی کوششیں ناکام بنانا بھی مشکل ترین اہداف ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات بھی مسلسل نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور ترکی کے دشمنوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔۲۲ مئی کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارٹی کا جو اہم اجلاس بلایا گیا، اس میں ملک کی قومی قیادت کے علاوہ تمام سفرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتہائی اہم بات یہ تھی کہ مصر، شام، اسرائیل، روس اور بنگلہ دیش کے سفرا کو اس اجلاس میں قصداً نہیں بلایا گیا۔ ان پانچوں سفرا کو نہ بلایا جانا ترک عوام ہی نہیں، عالم اسلام کے اکثر عوام کے لیے خوشی کا باعث ہوگا لیکن ا س سے ترکی کو درپیش چیلنجوں کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب میں مدعو کیے جانے والے کئی سفرا کے ممالک بھی ترک پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، مثلاً امریکا، ایران اور متحدہ عرب امارات۔
اللہ تعالیٰ نے ترکی کو گذشتہ عرصے میں بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں سرخ رو کیا ہے اور ترک قیادت کو یقین ہے کہ چوں کہ وہ اپنے مقاصد میں مخلص ہیں، جاں فشانی اور حکمت سے کام کررہے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں__ اب بنگلہ دیش سے بھلا ان کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے سواے اس کے کہ وہاں کی پٹھو حکومت بے گناہوں کا خون بہارہی ہے۔ وہ ظلم رکوانے کے لیے کی جانے والی ترک ذمہ داران کی کسی کوشش، کسی مطالبے، کسی درخواست کو خاطر میں نہ لائی__ اس لیے ترک قیادت کو یقین ہے کہ اللہ کا فرمان مانتے ہوئے اگر کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور فرمائے گا۔ ایک اچھی مثال تو حالیہ بحران ہی میں سامنے آگئی کہ صدر اور وزیراعظم میں اختلاف راے پیدا ہوا تو انھوں نے کسی بڑی خرابی کا شکار ہوئے بغیر اس کا ایک بہتر حل نکال لیا۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول ’’ہمارے لیے عہدے اور مناصب نہیں مقاصد و نظریات اہم ہیں۔ اردوان میرے قائد ہیں اور میں پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے خدمت کرتا رہوں گا‘‘۔
اسے پروٹوکول کا چھوٹا سا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز بھی کیاجا سکتا ہے، لیکن ممالک کے مابین تعلقات کا درجۂ حرارت جانچنے کے لیے پروٹوکول کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ۲۰؍اپریل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیجی ریاستوں کے سربراہوں اور امریکی صدر باراک اوباما کی آمد ہوئی۔ یہ سب رہنما ۲۱؍اپریل کو ایک روزہ امریکی خلیجی گول میز کانفرنس میں خطے کی صورت حال پر مشورہ کرنے جمع ہو رہے تھے۔پروٹوکول اور معمول کے مطابق سعودی فرماںروا شاہ سلمان نے تمام خلیجی ذمہ داران کا استقبال خود ائیرپورٹ جا کر کیا،جو سرکاری ٹی وی چینل پر براہِ راست دکھایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسی ائیرپورٹ پر امریکی صدر پہنچے، لیکن سب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا استقبال کرنے کے لیے نہ شاہ سلمان خود تھے، نہ ان کے ولی عہد اور نہ نائب ولی عہد۔ ان کا استقبال ریاض کے گورنرفیصل بن بندر اور وزیر خارجہ عادل بن جبیر نے کیا۔ ٹی وی پر بھی یہ کارروائی نہ دکھائی گئی۔ امریکی صدر نے بھی جہاز سے اترتے ہی اپنے میزبانوں سے پہلے سعودی عرب میں امریکی سفیر سے قدرے طویل معانقہ کیا اور پھر میزبانوں سے مختصر مصافحہ کرتے ہوئے ، ان کے ہمراہ اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ گئے۔ یہی صدراوباماچند ماہ قبل ریاض آئے تھے توخود شاہ سلمان نے ائیرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا تھا۔
معاملہ ائیرپورٹ پر استقبال اور قومی ٹی وی پر براہِ راست نہ دکھائے جانے ہی کا نہیں، معاملات کئی پہلوؤں سے گھمبیر ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب آمد سے پہلے اہم امریکی رسالے The Atlantic (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں’اوباما ڈاکٹرائن‘ کے عنوان سے امریکی صدر کا بہت طویل انٹرویو شائع ہوا۔۱۹ہزار الفاظ پر مشتمل اس انٹرویو اور تبصرے میں صدر اوباما نے واضح الفاظ میں سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی مجھے سعودی عرب کے ساتھ اب بھی ایک حلیف کی حیثیت سے برتائو کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنے بغیر مفت میں مفاد حاصل کرتے رہنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کہیں امریکا کے حلیف ’سُنّی عرب ممالک‘ امریکا مخالف دہشت گردی کو شہ تو نہیں دے رہے؟ مزید کہا: ’’سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں خطے میں فرقہ وارانہ اختلافات اُبھار رہی ہیں‘‘۔ ’’ہمارا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ سعودی عرب کی مدد کرتے رہیں‘‘۔ ’’ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت نے شام ، عراق اور یمن میں پراکسی وار کو ہوا دی ہے‘‘۔ ’’ سعودی عرب خطے کے معاملات میں ایران کو ساتھ لے کر چلے‘‘ ۔ امریکی صدر کا یہ جملہ دوبارہ پڑھیں تو یوں ہوگا کہ: ’’سعودی عرب (ہمیں شیطانِ بزرگ قرار دینے والے) کو ساتھ لے کر چلے‘‘۔
انھوں نے شام کے بارے میںبھی تفصیلی بات کرتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا کہ: ’’بشار الاسد کے خاتمے کے لیے امریکی فوجیںشام نہ بھیجنے کا ہمارا فیصلہ درست تھا۔ خطے کے ممالک کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہییں‘‘ یعنی بشار کو باقی رکھتے ہوئے کوئی حل نکالا جائے۔ اس انٹرویو کے علاوہ بھی صدر اوباما نے سعودی عرب پر کڑی تنقید کی ہے مثلاً یہ کہ ’’سعودی عرب صرف تیل ہی نہیں دہشت گردی بھی برآمد کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ معتدل سوچ رکھنے والے مسلمان تھے، سعودی عرب نے وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ دیا‘‘۔
اسی دوران میں نائن الیون کی تحقیقات کے لیے قائم کانگریس کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف اقدامات کا عندیہ دینا شروع کردیاگیا۔ امریکی رسائل وجرائد کے مطابق وائٹ ہاؤس میںامریکی قومی سیکورٹی کونسل کے بعض ارکان یہ طعنہ دیتے سنائی دیتے ہیں کہ: ’’نائن الیون کے واقعات میں ملوث ۱۹؍افراد میں سے ۱۵شہری سعودی تھے، کوئی بھی ایرانی نہیں تھا‘‘۔ کہا جانے لگا کہ ان واقعات میں ملوث سعودی باشندوں نے انفرادی طور پر ہی نہیں، ریاست کے بعض ذمہ داران کے تعاون سے یہ کارروائی کی۔ یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ مزید تحقیقات نے اگر یقینی طور پر یہ بات ثابت کردی تو پھر سعودی عرب کو بحیثیت ریاست اس کا ذمہ دارٹھیرایا جائے گا اور اس سے ۳ہزار ہلاک شدگان کا تاوان لیا جائے گا۔ سعودی عرب میں حقوق انسانی، جمہوریت ، عدلیہ اور حقوق نسواں کی لَے بھی بلند کی جانے لگی۔ یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ ۱۹۹۵ء میں ریاض میں امریکی کمپاؤنڈ پر حملہ بھی کوئی انفرادی کارروائی نہیں بلکہ اس میںبعض ریاستی ذمہ داران بھی ملوث تھے۔
اس صحافتی وسفارتی یلغار کے جواب میںسعودی وزیر خارجہ اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر عادل جبیر نے بیان دیا ہے کہ: ’’اگر ہمیں محسوس ہوا کہ امریکی مالیاتی اداروں میں پڑے ہمارے سرمایے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں تو ہم یہ رقم، یعنی (۷۰۰؍ ارب ڈالر) واپس لے آئیں گے‘‘۔
دوسری طرف ایران نے امریکا ہی نہیں اس پر مؤثر ہر لابی کو مزید بہتر تعلقات کے عملی پیغامات دینا شروع کردیے ہیں ۔ ایٹمی معاہدے کے بعد امریکا کو ۸میٹرک ٹن بھاری پانی کی فروخت کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول: ’’ایٹمی معاہدے کے بعد امریکی بنکوں میں منجمد ۵۵؍ارب ڈالر میں سے ۳؍ارب ڈالر اسے واپس مل گئے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ خود اسرائیل کے حوالے سے ایرانی لب ولہجہ تبدیل ہونے لگاہے۔ نیم سرکاری نیوز ایجنسی ـ’مہر‘ کے مطابق صدر روحانی نے ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط میں تجویز دی ہے کہ دور مار ایرانی میزائلوں پر تحریر ’مرگ بر اسرائیل‘ کی عبارت حذف کردی جائے۔
لیکن ان سابق الذکر چند جھلکیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ امریکا ایران اختلافات وعداوت ختم ہوگئی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے بقول امریکا سے ہونے والا معاہدہ ابھی صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے‘‘۔ سی این این ٹیلی ویژن کے مطابق ایرانی اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ: ’’اگر امریکا نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسے سخت نادم ہونا پڑے گا‘‘۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کسی فوری اور وسیع تر تنازعے کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ البتہ یہ حقیقت ضرور واضح ہے کہ ایران، سعودی عرب اختلافات بھیانک تر ہوگئے ہیںاور عالمی طاقتیں ان اختلافات کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ امریکا، روس اور اسرائیل اس سارے کھیل میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور باہم اختلافات کے باوجود تینوں ملک باہم مشاورت وتعاون کے کئی دائرے رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں:’’بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ،سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔
اسی پس منظر میں ۷،۸؍اپریل کو ترکی کے شہر استنبول میں ۱۳ویں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ حاضری کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی ۔۲۰سے زائد سربراہان شریک تھے، باقی ممالک کی نمایندگی مختلف افراد نے کی۔ ۵۷ممالک میں سے صرف شام غیر حاضر تھا ۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا ،لیکن عین آخری لمحے انھوں نے سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا۔ شاید یہی ’خطرہ‘ ہو کہ کہیں کوئی مسلم رہنما انھیں بنگلہ دیش میں جاری وحشیانہ انتقامی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ نہ کردے ۔
پروٹوکول کے واقعات نے یہاں بھی کئی پیغامات دیے، مثلاً کانفرنس کا آغاز ہی مصری وزیر خارجہ کی کم ظرفی پر مبنی ایک حرکت سے ہوا۔ تنظیم کا سابق سربراہ ہونے کے ناتے مصر نے رسمی طور پر یہ ذمہ داری ترکی کے سپرد کرنا تھی۔مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے جو مصری غاصب حاکم جنرل سیسی کی غیر حاضری کے باعث مصر کی نمایندگی کر رہے تھے ، افتتاحی سیشن کا آغاز کیا، چند رسمی جملے ادا کیے، جن میں ترکی کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر تک نہیں کہا اور پھر تنظیم کے نئے سربراہ اور میزبان ملک کے صدر طیب اردوان کا انتظار کیے بغیر، تیزی سے سٹیج سے اُتر کر اپنی نشست پر جابیٹھے۔
واضح رہے کہ مصر کے منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کے خلاف جنرل سیسی کے خونی انقلاب کی سب سے پُرزور مخالفت ترکی ہی نے کی تھی۔ صدر اردوان اب بھی جنرل سیسی کو ملک کا آئینی سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کانفرنس کے دوران تمام شرکا کے گروپ فوٹو کا موقع آیا تو شاہ سلیمان اور صدر اردوان شرکا کے عین درمیان میں تھے۔ تصویر بننے کے بعد دونوں سربراہ دیگر مہمانوں کے جلو میں سٹیج سے روانہ ہوئے۔ ایرانی صدر روحانی بھی قطار میں کھڑے تھے۔ شاہ سلمان ان کے بالکل قریب اور سامنے سے گزر گئے اورسلام دعا تو کجا، ان سے آنکھیں بھی چار نہ کیں۔ دونوں ملکوں کے شہریوں نے اس منظر پر اپنے اپنے انداز میں کڑے تبصرے کیے۔
دو روزہ کارروائی ، تقاریر اور جانبی ملاقاتوں کے بعد ۳۴صفحات اور ۲۱۸نکات پر مشتمل اختتامی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیہ کئی لحاظ سے بہت بہتر اور جامع ہے۔مسئلۂ فلسطین حسب سابق سر فہرست ہے، جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام اور ۱۹۴۸ء سے ملک بدر کیے گئے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا ذکر نمایاں ہے۔ اعلامیے کی شق ۲۱سے ۲۶تک میں مسئلہ کشمیر پر ایسا دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے جو بعض اوقات خود پاکستانی حکومت کے بیانات سے بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کشمیر کو پاکستان وہندستان کے مابین بنیادی تنازع قرار دیتے ہوئے، اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کیوں کہ اعلامیے کے الفاظ میں’’اس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں‘‘۔ عالمی برادری کو یاد دلایا گیا ہے کہـ’’کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں ۶۸برس سے عمل درآمد کی منتظر ہیں‘‘۔ ’’حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی وسیع تر جدوجہد کی حمایت کرتے ہوئے دنیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ’’جدو جہد آزادی اور دہشت گردی کو یکساں قرار نہ دے‘‘۔کشمیر میں ہندوستانی افواج کے مظالم اور حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ۱۴فروری ۲۰۱۶ء کو پلوامہ میں ۲۲سالہ کشمیری خاتون شائستہ حمید کی شہادت کا ذکر مثال کے طور پر کیا گیا ہے۔ آخر میں اسلامی تعاون تنظیم (جس کا نام پہلے اسلامی کانفرنس تنظیم ہوتا تھا) کے زیر اہتمام ایک دائمی اور آزاد ادارے کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جس کی ذمہ داری ’’ہندستان کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں ہونے والے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہوگا‘‘ ۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں سے بھی ’مقبوضہ کشمیر ‘ آنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اوآئی سی کے ادارے ایسیسکو کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے۔ ساتھ ہی مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں۔ عالم اسلام کے سب سے اہم عالمی پلیٹ فارم سے کشمیر کے بارے میں اس قدر جامع اور مضبوط موقف کا اعلان کیے جانے میں بنیادی کردار یقینا پاکستانی وزارت خارجہ کا ہوگا۔ اس کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ا ن تمام مسلم ممالک کے کردار کی تحسین بھی کرنا ہوگی کہ جن کے واضح تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ البتہ اب اصل ضرورت عالم اسلام کے اس متفق علیہ موقف کو دنیا کے ہر شہری کے سامنے تسلسل اور مقبوضہ کشمیر سے حاصل کردہ سمعی وبصری شواہد کے ساتھ پیش کرتے رہنے کی ہے۔
اعلامیے میں افغانستان میں مصالحتی کاوشوں کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔’قلب ایشیا‘ کانفرنس کی بھی حمایت وتائید کی گئی ہے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں تشکیل پانے والی چار ملکی (افغانستان، چین، پاکستان، امریکا) کوارڈی نیشن کمیٹی کی بھی حمایت کی گئی ہے۔
اعلامیے کا سب سے نازک حصہ وہ درجن بھر شقیں ہیں، جن میں کہیں براہ راست اور واضح انداز سے اور کہیں بالواسطہ طور پر ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’دہشت گردی کی مدد‘ کرنے سے رُک جانے کا کہا گیا ہے۔ ان شقوں کا آغاز ’’مسلم ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین اچھے تعلقات کی ضرورت اور اہمیت‘‘ سے کیا گیا ہے(شق۳۰)۔ لیکن ساتھ ہی دیگر ممالک کی آزادی ، خودمختاری اور وحدت کے احترام کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔ تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بحرین، یمن، شام اور صومالیہ میں ایران کی مداخلت اور وہاں دہشت گردی کی پشتیبانی جاری رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے (شق۳۳)۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کو ہوا دینے سے خبردار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں اعلامیے کی کئی شقیں ہیں جن میں داعش کی دو ٹوک مذمت کرتے اور اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہے۔ اور پھر شق۱۰۵میں ’’شام، بحرین، کویت اور یمن میں حزب اللہ کی دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’خطے میں عدم استحکام کے لیے دیگر دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کا اصل ذمہ دار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
عالم اسلام اور او آئی سی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایران کے خلاف اس طرح کھل کر اور شدید تنقید کی گئی ہو۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ کانفرنس میں شریک ۵۶ممالک میں سے صرف ایک ایران ہی تھا جس نے اس اعلامیے پر احتجاج کرتے ہوئے اس سیشن کا بائیکاٹ کیا۔ سابق الذکر چند شقیںتو وہ ہیں جن میں ایران پر براہ راست الزامات اور اس کی مذمت ہے، وگرنہ شام اور صومالیہ سمیت کئی مسائل پر بات کرتے ہوئے بھی روے سخن اسی کی طرف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اعلامیے کے بعض الفاظ ضرورت سے زیادہ سخت ہوں، لیکن برادر اسلامی ملک ایران کو یہ ضرور سوچنا اور اس امر کا مبنی برحقیقت جائزہ لینا ہوگا کہ آخر پوری مسلم دنیا اس کے خلاف یک آواز کیوں ہوگئی۔
اعلامیے میں روہنگیا اراکان، فلپائن ، بوسنیا، کوسوا، اری ٹیریا سمیت امت مسلمہ کے تقریبا ہرمسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم اور اسلام فوبیا کا بھی سخت الفاظ میں نوٹس لیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ہونے والے قتل عام اور توہینِ انسانیت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ مصر میں ۴۸ہزار سے زائد بے گناہ قیدیوں اور ہزاروں بے گناہ شہدا کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ بنگلہ دیش میں ۸۸ہزار سے زائد بے گناہوں کو پسِ دیوار زندان دھکیل دینے، ۳۰۰ سے زائد شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کر دینے اور بے گناہ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔گذشتہ ۱۰برس سے جاری حصارِ غزہ کا ذکر بھی گول کردیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت کئی مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے فعال عالمی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بے نقاب کرتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ظلم پر آنکھیں نہ موند لی جائیں اور مکمل انصاف اور غیرجانب داری سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔ ۱۷؍اپریل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار صہیونی حکومت نے اپنا ہفتہ وار کابینہ اجلاس شام کے مقبوضہ علاقے ’جولان‘ میں کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے اس نے اعلان کیا کہ اب دنیا کو جولان پر بھی اس کا قبضہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ صہیونی ریاست کو یہ جسارت اسی لیے ہورہی ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت باہم سرپھٹول اور ماردھاڑ کا شکار ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ظالموں کا دفاع کرنے اور ان کے گناہ اپنے سر لینے میں لگاہوا ہے۔ یہی عالم رہا تو خاکم بدہن زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آج عافیت سے بیٹھے حکمران و عوام بھی دشمن کے بچھائے جال میں جکڑے جاچکے ہوں گے۔
اپنے اللہ پر کاکامل بھروسا رکھنے والے مظلوموں کو البتہ یہ یقین ہے کہ تاریکی کے بعد سحرنو کو بہرصورت طلوع ہونا ہے۔ اسی یقین کا اظہار کرتے ہوئے گذشتہ دنوں عدالت میں لائے جانے والے الاخوان المسلمون کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بلند کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا: مرسی راجع (منتخب صدر) مرسی واپس آکر رہیں گے!
ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ۲۰۰۲ء سے اب تک برسرِ اقتدار ہے۔ طیب اردوگان پہلے وزیراعظم تھے، اب صدر ہیں۔ اس وقت احمد داؤد اوغلو ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس پارٹی کو مغربی قوتوں اور ان کے ہم نوا عناصر کی طرف سے ’اسلامسٹ‘ (اسلام پسند) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترکی میں ’اسلامسٹ‘ پارٹی کا برسرِ اقتدار آنا خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے امریکا اور مغربی و سیکولر قوتیں اس حکومت سے ناخوش ہیں۔ جسٹس پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ ترکی کے سیکولر دستور کو جمہوری طریقے سے تبدیل کرے گی۔ اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت پُرامید ہے کہ وہ اس منزل کو سر کر لے گی۔ اس وقت پارلیمان میں ان کے ۳۱۷؍ارکان ہیں، جب کہ دستور میں ترمیم کے لیے ۳۷۶؍ ارکان کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترکی میں سیکولر عناصر ہوں یا نام نہاد مذہبی طبقہ، دونوں جسٹس پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ جب جون۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی تو انگریزی روزنامہ زمان اور حریت جو دونوں فتح اللہ گولن کی تنظیم کے تحت نکلتے ہیں، خوب پروپیگنڈا کرنے لگے۔ ایک نعرہ انھوں نے متعارف کروایا ’’۵۲فی صد ووٹ حاصل کرنے والے صدر کو سزاے موت‘‘۔ یہ نعرہ صدر محمدمرسی کی سزاے موت کے تناظر میں گھڑا گیا۔ واضح رہے کہ طیب اردوگان نے بھی پارلیمانی انتخابات سے قبل صدارتی انتخابات میں ۵۲ فی صد ووٹ حاصل کرکے الیکشن جیتا تھا۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بھی اردوگان کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۲مئی ۲۰۱۵ء کو اداریے کا عنوان رکھا: "Dark Clouds Over Turkey"(ترکی سیاہ بادلوں کی زد میں) جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اداریے کا عنوان دیا "The Sultan Emperor Erdogan Rule" (اردوگان کا دورِ حکومت، سلطانی شہنشاہیت )۔
جون۲۰۱۵ء میں انتخابات ہوئے تو حکمران جسٹس پارٹی کو ۴۰ فی صد اور ۵۵۰ کے ایوان میں صرف۲۵۸ نشستیں ملیں۔ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کاوشیں ہوئیں مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ آخرکار دستوری تقاضے کے تحت صدرِ مملکت نے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ لہٰذا نومبر۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی نے ۳۱۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت ثابت کر دی۔ ووٹوں کا تناسب ۵ئ۴۹فی صد ہوگیا۔ صدرِ مملکت کے اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی اور ان پر آمریت اور بادشاہت کی پھبتیاں بھی کسی گئیں۔ ترک دستور کے مطابق یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ صدر کے اختیارات میں شامل ہے کہ ایسے تعطل کی صورت میں، جب کہ بڑی پارٹی دوسری پارٹیوں کے اشتراک سے اکثریت حاصل نہ کر پائے تو وہ نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں یا دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ روایت ترکی میں موجود رہی ہے۔ چنانچہ ایسے چھے مواقع (۱۹۵۷ئ، ۱۹۸۷ئ، ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۵ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۲ء ) ہیں جب صدر نے یہ حق استعمال کیا اور انتخاب قبل از وقت کروائے گئے۔
ماضی میں ترک فوج نے بار بار بغاوت کرکے منتخب حکومتوں کو برطرف کیا اور پاکستان کی طرح ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی قیادت کو بغیر کسی جرم کے پھانسی بھی لگایا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں وزیراعظم عدنان مندریس کو شقی القلب جنرل گُرسل نے تختۂ دار پر لٹکا دیا ۔ طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آکر بڑی حکمت کے ساتھ فوج کی اس باغیانہ روش کو کنٹرول کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور فوجی مداخلت کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت کو امریکا اور اس کے حواری اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، حالانکہ ترکی ناٹو کا رکن بھی ہے۔ اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ ترک حکومت پوری دنیا میں امت مسلمہ کے مسائل پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتی اور ظلم کے خلاف کھل کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ غزہ کی حمایت میں جانے والا فلوٹیلا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غنڈا گردی اب تک لوگوں کو یاد ہے۔ اہلِ غزہ اپنے ترک بھائیوں کے اس جرأت مندانہ اقدام اور قربانیوں پر آج بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔
۲۰مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لیے زمینی راستہ مانگا، جس سے ترک حکومت نے انکار کر دیا۔ امریکا نے ۱۰؍ ارب ڈالر امداد کی بھی پیش کش کی، جو مصلحت پسندوں کے نزدیک اس زمانے میں ترکی کی بیمار معیشت کے لیے نسخۂ شفا تھا۔ جسٹس پارٹی کی غیرت مند قیادت نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ امریکا نے ہوائی راستہ مانگا تو حکومت نے اس سے بھی معذرت کردی۔ کوئی مسلمان ملک آج کے دور میں ایسی جرأت مندانہ مثال مشکل ہی سے قائم کرسکا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی (John Kirby) نے ایک بیان داغا ہے، جس میں ترکی میں علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی اور ترک حکومت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ یہ پارٹی علیحدگی پسند اور دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔ ترکی میں داعش کی طرح یہ بھی آئے دن دھماکے کرتی رہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کو علیحدہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی۔ ۱۸فروری کو ۲۴گھنٹوں میں ترکی کی سرزمین پر دہشت گردی کے چار خطرناک واقعات ہوئے۔ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں ۲۸؍افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں نے قبول کرلی۔ امریکی ترجمان کی اس ناروا مداخلت کے جواب میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان تانجو بالجیس (Tanju Bilgic)نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ مداخلت ناروا ہے اور انقرہ امریکی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم کو منتخب دستوری حکومت کے برابر درجہ دینے پر سراپا احتجاج ہے۔ (ڈان ۱۶فروری۲۰۱۶ئ)۔یہ عجیب سوے اتفاق ہے کہ روس اور امریکا دونوں بیک وقت ترکی کے خلاف اپنے اپنے انداز میں سازشیں کررہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ ۔
شام میں بشار الاسد کی نصیری اور آمرانہ حکومت نے اہلِ شام کو جس بدترین ظلم کا شکار بنایا ہے، اس پر بھی ترکی نے اسلامی اخوت اور غیرتِ مومنانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کاوشیں ترک حکومت کا بہت بڑا اور انسان دوستی پر مبنی مظاہرہ ہے۔ ترکی کی یہ جہودِ مسعودہ روس کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ روس شام پر مسلط ظالم حکمران کا پشت پناہ ہے اور اپنی عسکری قوت بشار مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک روسی طیارہ ۲۴ نومبر۲۰۱۵ء کو ترکی کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ ترک فوج نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے یہ طیارہ مار گرایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترکی کو سخت دھمکی دی اور ترک حکومت سے اس ’گستاخی‘ پر فی الفور معذرت اور معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ترک حکومت نے دیگر مسلمان ملکوں کی روش سے ہٹ کر پوری جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ انھوں نے کوئی جارحیت نہیں کی، جس پر معافی مانگیں۔ اپنی فضائی حدود کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور روس نے ان حدود کو پامال کرکے خود ایسی حرکت کی ہے، جس پر اسے معذرت کرنی چاہیے۔
روس کا صدر پیوٹن بہت رعونت پسند حکمران ہے۔ اس نے چند دنوں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس کے جواب میں ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے ۱۵فروری کو یوکرائن کے دارالحکومت کیو(Kiev)میں پریس کانفرنس کے دوران بہت جرأت مندی کے ساتھ کہا ہے کہ: ’’روس ،شام میں بالکل کھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ وہ نہ تو داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرتا ہے اور نہ اسے اس کی فکر ہی ہے۔ اس کے حملے عام آبادیوں پر شام کے پُرامن شہریوں کی ہلاکت کا باعث ہیں۔ عام شہری بے چارے ایک جانب روسی اور نصیری بمباری کا شکار ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد بھی انھی کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر ہم نے شام سے ملحق اپنی سرحدوں کو مظلوموں کی مدد اور سہولت کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر چند کہ مہاجرین کا بوجھ ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم نے یہ اقدام کیا ہے۔ روس کو اس علاقے میں فوجی چڑھائی اور قتل و غارت گری کا کوئی حق نہیں۔ ترکی مظلوم شامی عوام کی حمایت جاری رکھے گا، جو ظالم بشارالاسد سے نجات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ (ڈان ۱۶فروری ۲۰۱۶ئ)
ترکی کے معروضی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مسلمان ملک میں سیکولر طبقے کی قوت ختم نہیں ہوئی، البتہ اس کا زور پہلے کے مقابلے میں کافی ٹوٹا ہے۔ اس صورت حال سے مغرب اور کفر کی تمام طاقتیں پریشان ہیں۔ ترکی کے خلاف ہر طرح کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ترکی کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اسی طرح ترکی کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے بھی کئی عناصر غیر مرئی قوتوں کی اشیرباد اور پشت پناہی سے ترکی میں ، بالخصوص بڑے شہروں کے اندر دھماکے کر رہے ہیں۔ کردوں کا مسئلہ بلاشبہہ کافی پرانا ہے، مگر کرد پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان میں نمایندگی حاصل کرچکی ہے۔پھر بھی علیحدگی پسند عناصر ترکی کی حدود میں موجود ہیں۔ ان کو پڑوس سے بھی شہ ملتی ہے اور عالمی دہشت گرد امریکا بھی اس کوشش میں ہے کہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ جسٹس پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اس صدی کے آغاز میں ترک کرنسی (لیرا) بالکل بے وقعت ہوگئی تھی۔ عام آدمی کے لیے روٹی کا حصول بھی جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کوڑیوں سے ہلکی کرنسی کی وجہ سے ترکی کی معیشت دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہونے لگی تھی۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ غیرضروری اخراجات ختم کیے، کرپشن اور بدعنوانی کے ناسور پر قابو پایا، منصوبہ بندی ٹھیک انداز میں کی اور امورِ خارجہ ، بیرونی تجارت اور ملکی صنعت کو نئے سرے سے منظم کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لیرا آدھے امریکی ڈالر کے برابر ہوگیا۔ بعد میں پھر ترکی کے خلاف جب گھیرا تنگ کیا گیا تو عالمی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب لیرا پھر پہلی پوزیشن پر چلا جائے گا۔
ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے نتیجے میں یقینا ترکی کی کرنسی نیچے تو آئی ہے، مگر اب دوبارہ سنبھل گئی ہے اور اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ایک لیرے کی قیمت ۶۸ئ۳۵روپے ہے۔ ترکی کی فی کس سالانہ آمدنی ۹۱ئ۸۸۷۱ امریکی ڈالر ہے۔ صرف موازنے کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ۶ئ۱۳۱۶؍ امریکی ڈالر ہے۔ گویا اب بھی ترکی کی معیشت اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہے ہیں۔ شام ہو یا فلسطین، ترک حکمران بالکل یکسوئی کے ساتھ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مصر میں جنرل سیسی کی ناجائز حکومت کو اگر کسی نے آئینہ دکھایا ہے تو وہ صرف ترکی ہے۔ اس وجہ سے سعودی عرب جو شاہ عبداللہ کے زمانے میں جنرل سیسی کا پرزور حامی تھا، ترکی سے ناراض ہوگیا۔ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات کچھ تبدیل ہوئے ہیں اور اس وقت ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ آج بھی ترکی نے مصر کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔ وہ کھلم کھلا صدر مرسی کو مصر کا قانونی سربراہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مظالم کے خلاف سفارتی سطح پر چند مسلمان ممالک نے جو آواز اٹھائی ہے، اس میں سب سے توانا آواز ترکی ہی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اسرائیل، امریکا اور ان کے حواری ترکی کو خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ملک کے اندر ایک مضبوط مذہبی تحریک ہے جس کی جڑیں ترکی کی حدود کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے تعلیمی نیٹ ورک کی وجہ سے خاصی مضبوط ہیں۔ یہ خود کو غیر سیاسی کہتے ہیں، مگر سیاست میں ان کا عمل دخل خاصا ہے۔ کتنا المیہ ہے کہ ان کا وزن اُس قوت کے پلڑے میں پڑنے کے بجاے جسے سارا عالم کفر ’اسلامسٹ‘ ہونے کے طعنے دیتا ہے، یہ مذہبی طبقہ لا دینوں کی حمایت کرتا ہے، تاکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اقتدار سے باہر ہوجائے۔
ان حالات میں ترک حکومت بڑی حکمت اور جرأت کے ساتھ اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر مثبت پیش رفت کر رہی ہے۔ عرب بہار کے بعد جس طرح عرب ملکوں میں ابھرنے والی اسلامی تحریکوں کی کامیابی شیطانی قوتوں کے ہاتھوں ناکامی میں بدلی گئی، ترکی کے بارے میں بھی اسلام دشمن یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دیکھیے اللہ کو کیا منظور ہوتا ہے۔ آج کا ترکی اس ترکی سے بالکل مختلف ہے، جو خلافت کے آخری دنوں میں یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا۔ اس دور میں خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ خلافت کے خاتمے اور سیکولر دستور کے نفاذ سے ترک قوم کا امتیازی مقام زوال پذیر ہوا۔ اس کے باوجود ترکوں کا عالمِ اسلام میں ایک بھرم اور تاریخ میں ان کے یادگار کارناموں کی وجہ سے اُمت ِ مسلمہ میں عزت قائم رہی۔ اب عالمِ کفر پھر سازشوں میں مصروف ہے اور مختلف عناصر کو مختلف لبادوں میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس میں نام نہاد مذہبیت کا رنگ بھی ہے اور سیکولرازم، لبرل ازم اور قومیت پرستی کی چھاپ بھی۔ تاہم، پچھلے طویل عرصے کے دوران پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب دوبارہ اسی ڈرامے کو دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے، جو ان شاء اللہ ناکام ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے: ’’وہ اپنی خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)۔ ان شاء اللہ ترکی میں پھر کسی مصطفی کمال کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔
بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:
ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)
ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب، روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)
یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!
ایران اور النصرۃ فرنٹ کے درمیان لبنان سے متصل شام کے ضلع الزبدانی کے مستقبل کے بارے میں استنبول میں ہونے والی بات چیت سے کئی غورطلب پہلو سامنے آئے:
۱- یہ معاملہ ایران کے ساتھ آسٹریا میں ۵+۱ کے ’معاہدئہ وی آنا‘ پر دستخط کے فوراً بعد ہوا ہے۔ جس کے بعض خفیہ پہلو بھی ہیں جن کا اعلان تو نہیں ہوا مگر ان پر عمل شروع ہوچکا ہے۔
۲- یہ عمل ضلع الزبدانی کے علاقے سے سُنّی مسلم آبادی کے انخلا اور ان کی جگہ شیعہ آبادی کو بسانے سے شروع ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کا جز ہوگا۔ یہ ریاست بحرروم کے مشرقی دھانے پر ہوگی اور جو لازقیہ سے شروع ہو کر الزبدانی پر سے گزرتی ہوئی لبنان کے شیعی اکثریتی علاقے البقاع تک جائے گی۔
۳- ترکی کا کرد علاقے میں PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر اچانک ہلّہ بول دینا ، جس کی کامیابی کے لیے ترکی نے کوبانی تک عراقی کردوں کو پہنچایا، تاکہ داعش کو کوبانی سے نکالا جاسکے۔ ترکی کے موقف میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ صدر طیب اردگان کو احساس ہوگیا کہ عراقی کردستان کے ساتھ اب ترکی کردستان بھی بنے گا، جس میں صرف ایرانی کردستان کو شامل کرنا باقی رہے گا۔ اس طرح ایک آزاد کرد ریاست وجود میں آجانے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ عراق میں ’فضائی سروس کی ممانعت‘ (نوفلائی زون) کا علاقہ، عراقی کردستان کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے، کیوںکہ امریکا اس کو اپنی مدد کے ذریعے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح شیعہ ریاست کی حدود وسیع تر کرکے عراقی سُنّی ریاست سے جوڑ ا جانا پیش نظر ہے۔یہ امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزارائس کے منصوبے میں ایک اہم پیش رفت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد، اس وقت اپنا منصوبہ بنا رہی تھیں جب بش انتظامیہ ایران سے بات چیت شروع کر رہی تھی۔
۴- عراقی کردستان بننے کا مطلب جنوبی عراق کی شیعہ آبادی اور علاقے میں ایک اور شیعہ ریاست وجود میں لانا پیش نظر ہے اور عراقی کرد اور عراقی شیعہ آبادی کے درمیان ایک سُنّی ریاست وجود میں لانے کا منصوبہ ہے۔
۵- نئی شیعہ ریاست جنوب میں کویت، الخبر، الدمام اور ظہران کے تیل کے ذخائر والے علاقوں اور بحرین اور شاید قطر پر بھی بنانا پیش نظر ہے۔
انھوں نے ایران کو خلیج کے مشرقی دہانے سے اُٹھا کر خلیج کے مغربی دھانے سلفی عرب تک پہنچا دیا ہے۔ غالباً یہ ایرانی کردستان کا خراج ہو، مگر یہ عربوں کے پہلو میں ایک زہریلا کانٹا ہوگا جس کو استعماری طاقتیں عرب ایران تعلقات کو کشیدہ بنانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہیں گی۔ یہ استعماری طاقتوں کا پرانا حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشیدگی پیدا کرکے اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایران اور عربوں کو اس طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
۶- وہابستان کے نام سے امریکا ایک نئی ریاست بنانے میں دل چسپی ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شاید پٹرول، کپاس اور ساحلِ سمندر سے محروم ہوگی۔
۷- گذشتہ کچھ عرصہ امریکا نے یمن کو متحد رکھا تھا مگر جدید نقشے کے مطابق نہ صرف امریکا، برطانیہ حوثیوں اور علی صالح کو عبدربہ ھادی کے برابر کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ بھی امریکا، برطانیہ اور حوثیوں کے ساتھ علی الاعلان ہوگئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کویت یا عمان میں منعقد ہونے والی بات چیت میں دائمی جنگ بندی کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اس کا اصل مقصد شمالی یمن میں زیدی ریاست کا قیام تو نہیں ہے؟ یہ اندیشہ لفظ ’دائمی جنگ بندی‘ سے پیدا ہو رہا ہے، جس کا مطلب بات چیت کو طول دینا اور وقتی سرحدوں کو دائمی سرحدوں میں بدلنا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور ۵+۱ نے مل جل کر نہ صرف نقشے پر اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس کو نافذ کرکے اس کے سیاسی، بین الاقوامی ماحول کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، روس اور چین کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔
باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل راز جو ساڑھے بارہ برس پر محیط اس بات چیت میں چھپا ہوا تھا، جو ایران اور ۵+۱ کے درمیان ہوتی رہی۔ عالمِ اسلام میں شاید اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو کہ اسرائیل اب اُردن کے ساتھ اپنی حدود کو آخری حدود تسلیم کرنے پرراضی ہوگیا ہے۔ گویا اب نیل سے فرات تک اسرائیل کا خواب انتہاپسند نیتن یاہو کے ہاتھوں دفن کیا جا رہاہے جیساکہ نیل سے شروع ہونے والے اسرائیل کو انتہاپسند مناحیم بیگن اور انتہاپسند گولڈامایئر نے دفن کیا تھا۔
یہ اعلان نیتن یاہو کے ہاتھوں اُردن کی سرحد سے لے کر ۲۹کلومیٹر طویل دیوار بنانے کے اعلان میں پوشیدہ ہے۔ یہ سب جمہوری ملک ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور ارادے کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ بحث مباحثہ کئی کئی برس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ داخلی اور خارجی پالیسی کا جزو بن جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔
عالمِ اسلام چونکہتعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، پھر سطحیت اور آسان کوشی اس امر کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔غیراخلاقی، غیرقانونی ریاست اسرائیل کا وجود ’کھلی‘ اور ’علی الاعلان‘ سازش کا نتیجہ ہے۔ شرقِ اوسط کی تقسیم سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کے منصوبے کے تحت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ’شرقِ اوسط جدید‘ کی اصطلاح اسی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران، جو تل ابیب میں جون ۲۰۰۶ء میں منعقد ہوئی استعمال کی تھی۔ پھر نومبر ۲۰۰۶ء میں گلوبل ریسرچ میں یہ تذکرہ شائع ہوا۔ اس میں ’جدید شرقِ اوسط‘ کا نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا۔
اسی موضوع پر ایک تبصرہ رابن رائٹ کا نیویارک کے سنڈے ریویو میں ۲۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا۔اس میں ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں پانچ عرب ملکوں کو ۱۴ بنا دیا گیا ہے۔ مگر اس میں یمن کو دو حصوں میں ،جب کہ سعودی عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے۔
امریکی حکومت کے منصوبہ ساز اس سُنّی ریاست کو شامی کردستان اور مجوزہ شامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح یمن زیدی اور شافعی یمنیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مارب میں سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری فوجیں جمع ہیں مگر حرکت پذیر نہیں ہیں، جب کہ لحج کے سرحدی شہر کرش تک سعودی اتحاد کی فوجیں پہنچ کر رُک گئی ہیں اور تعز کو حوثی اور علی عبداللہ صالح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی عرب مقتدر حلقوں کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی پر اعتراف کیاجا رہا ہے کہ: ’’اسرائیل نے غزہ اور اُردن کے مغربی دہانے میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ یہ مغالطہ آرائی بھی اسی بڑے منصوبے کے لیے ذہنوں کو تیار کرنے کا پروپیگنڈا ہے۔ سازش کا رنگ بھرنے کے لیے یہ نقشہ طویل وقت چاہتا ہے، مگر ہوا کا رُخ یہی ہے۔ مستقبل کے امریکی نقشوں میں اسرائیل کی موجودہ حدودبتائی گئی ہیں۔ امریکی آقائوں کے اس فیصلے یا سوچ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں برابر کے شریک ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا کی سیاسی، فوجی، فکری، تعلیمی، مذہبی اور ابلاغیاتی قیادت، امریکی سامراجیوں کی مرضی و منشا کو پورا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے، یا دُوراندیشی اور سمجھ داری سے اس سازش کے تار و پود بکھیرنا چاہتی ہے؟
۲۸ستمبر۲۰۱۵ء کو قندوز پر طالبان کا قبضہ ایک طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ۔ یہ ۲۰۰۱ء کے بعد ان کی ایک بڑی جنگی کامیابی تھی ۔ قندوز افغانستان کے شمال میں ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ۵ئ۳ لاکھ ہے ۔ اگر چہ یہ قبضہ عارضی تھا اور محض چند روز تک محدود رہا، لیکن اس نے واشنگٹن میں پینٹاگان کے بزرجمہروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس کو ایک بڑی خبر کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا۔ سی این این کے بین الاقوامی تبصرہ نگار نک روبرٹسن نے اس کو طالبان کے لیے ایک بڑا انعام قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے تدریجی انخلا کے بعد ماہ جنوری میں صدر باراک اوباما نے امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کانگریس سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ: ’’اب ہم خود افغانستان کا گشت کرنے کے بجاے افغان سیکیورٹی فورس کو استعمال کریں گے، جن کی ہم نے خوب تربیت کی ہے‘‘۔ لیکن قندوز کی حد تک افغان فوج یہ ذمہ داری پورا نہ کر سکی، جب کہ شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایئرپورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لڑاکا امریکی فوج موجود تھی ۔نک روبرٹسن نے طالبان کی جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال ماہ اپریل سے اس کا م پر لگے ہوئے تھے اور عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے اور بڑا حملہ کر دیا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ خبر سنائی کہ: ’’طالبان نے ۱۰مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا اور گو رنر ہائوس اور پولیس ہیڈ کوارٹرپر پیرکی صبح ہی قبضہ کر لیا تھا۔ افغان آرمی کے جنرل مراد علی نے الزام لگایا کہ ان میں غیر ملکی ازبک بھی شامل تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں لکھا کہ: ’’طالبان قندوز میں افغان آرمی کا صفایا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں‘‘۔
l طالبان کی حکمت عملی: طالبان شمالی افغانستان کے کمانڈر حاجی قادر نے جن کا تعلق شمالی صوبے بدخشان سے ہے دعویٰ کیا کہ ہم نے گذشتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنوب کے بجاے شمال کی طرف جنگ پر توجہ دی جائے گی ۔ اس لیے ہم نے چار شمالی صوبوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ قندوز پر قبضہ ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ جب افغان آرمی نے قبضہ چھڑانے کے لیے نقل و حرکت شروع کی تو اس کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قندوز کی جانب رواں افغان فوجی کانوائے بغلان صوبے میں رکاوٹوں اور حملوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ سڑک پر پتھر اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئی تھیں۔ طالبان نے صرف قندوز شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قندوز صوبے کے ایک اہم ضلع چارد رہ پر بھی قبضہ کیا جہاں سے افغانستان کی ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے، جو مزار شریف کو قندوز سے ملاتی ہے۔
قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ عارضی تھا اورصرف تین دن تک رہا ۔ اس دوران طالبان شہراور بازار کے اہم مقامات پر موجود رہے ۔ ان کے جھنڈے عمارتوں پر لہراتے رہے اور وہ گھر گھر تلاشی لیتے رہے ۔ جمعرات کے دن افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں واپس داخل ہو چکی ہے اور اس نے طالبان کو وہاں سے نکال دیا ہے ۔ اس دوران ہزاروں لوگ قندوز سے نکل گئے۔ انھوں نے ایئر پورٹ کا رخ کیا، جہاں سیکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ۔ مقامی ٹی وی ا سٹیشن اور ریڈیو کی نشریات بند ہو گئیں تھیں۔ طالبان کی قابض فوجوں نے ایسے افراد کی فہرستیں تیار کیں، جو ان کو مطلوب تھے اور ان کی تلاش میں وہ گھروں پر چھاپے مارتے رہے۔ طالبان لائوڈ سپیکر وں پر دکان داروں کو ہدایات دیتے رہے کہ وہ دکانیں کھول دیں۔
طالبان نے قندوز کے اس عارضی قبضے سے کیا حاصل کیا ؟ ان کے کیا اہداف تھے اور وہ اس کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
ایک مقصد تو بڑا واضح طور پر نظر آیا کہ انھوں نے قندوز جیل میں بند اپنے ۶۰۰ساتھیوں کو چھڑا لیا جو کافی عرصے سے وہاں قید تھے۔دوسرا بڑا فائدہ ان کو بھاری تعداد میں اسلحے کی صورت میں ہوا جو انھوں نے سیکڑوں گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ٹھکانوں کو روانہ کیا ۔ ان میں وہ بکتر بند امریکی ساختہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھی جو افغان آرمی اور پولیس کے زیر استعمال رہتی ہیں۔ مال غنیمت میں ۱۵۰ گاڑیوں کے علاوہ بھاری مشین گنوں، مارٹر توپوں ،کلاشنکوف رائفلوں اور بارودی مواد کے بڑے ذخیرے طالبان کے ہاتھ لگے۔ تیسری ا ہم چیز جو طالبان کے ہاتھ آئی وہ بھاری رقوم اور غیر ملکی کرنسی ہے، جو قندوز شہر کے بنکوں اور خزانے میں موجود تھی۔ افغان آرمی نے جب قندوز پر دوبار قبضہ کیا تو انھوں نے ۲۰۰طالبان مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا لیکن طالبان اپنا نقصان بہت کم بتاتے ہیں۔
قندوز ہسپتال بین الاقوامی نوبل انعام یافتہ ادارہ Médecins Sans Frontières International (MSF) چلاتی ہے۔ سرحدی پابندیوں سے آزاد طبی امداد کا یہ ادارہ بنیادی طور پر فرانسیسی این جی او ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں کام کرتی ہے ۔ قندوز ہسپتال شمالی افغانستان میں اہم ترین طبی مرکز تھا جس سے کئی صوبوں کے عوام استفادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران بھی انھوں نے اپنی خدمات جاری رکھیںاور زخمی شہریوں ، بچوں ،عورتوں کو طبی امداد بہم پہنچاتے رہے ۔ ہسپتال میں عملے کی تعداد ۲۰۰تھی۔ امریکی حکام نے بعد میں یہ وضاحت پیش کی کہ ہم سے افغان آرمی نے درخواست کی تھی کہ ہسپتال کے احاطے میں طالبان چھپے ہوئے ہیں، اس کو ہدف بنایا جائے ۔ چنانچہ ہم نے فضائی کارروائی کی ۔ لیکن یہ معذرت بذات خود ایک بڑے جرم کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی سوچ سمجھ کر کی گئی اور اس دوران ہسپتال انتظامیہ بھی افغان حکومت سے اپیل کرتی رہی کہ میڈیکل عملے کے ارکان اور مریض مر رہے ہیں،لیکن پھر بھی حملہ جاری رہا ۔ یہ سفاکانہ حملہ مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی افواج نے کیا۔ امریکی صدر نے رسماً دوحرفی معذرت پیش کی۔ ایم ایس ایف نے احتجاجاً اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
قندوز میں افغان آرمی کی شکست کابل حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس نے امریکی معاونت سے ملک میں ایک اتحادی سیاسی حکومت تو بنالی ہے لیکن وہ افغانستان کو ایک مؤثر اور مضبوط قیادت فراہم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ طالبان کی اٹھان اور ان کی جنگی حکمت عملی کے مقابلے میں کابل کی افواج کی کمزوریاں اس حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج اور پولیس کی موجودگی میں ایک بڑے شہر پر قبضہ اس کے لیے ایک بڑا تازیانہ ہے، اور ملک میں حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے امکان کو بڑھاتا ہے ۔
مُلّا محمد عمر کے دوسال پہلے انتقال کی خبر نے بھی طالبان کی کمزور ی میں اضافہ کیا اور اب داعش افغان نوجوانوں کو جگہ جگہ بھرتی کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر طالبان تحریک سے مڈبھیڑ بھی ہو رہی ہے ۔غالباً طالبان کی نئی جنگی حکمت عملی اور مہم جوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑی سرگرمیاں دکھا کر افغانستان میں جہاد سے منسلک عنصر کو اپنے سے جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس طرح وہ نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرا ر رکھنا چاہتے ہیںبلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور امریکی دل چسپی کی کمی کی صورت میں ملکی اقتدار پر قبضے کی اپنی خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور چین کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، بدقسمتی سے اس کے دوبارہ احیا کے امکانات معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ افغان حکومت واضح طور پر پاکستان مخالف جذبات کی اسیر نظر آتی ہے ۔اس میں یقینا بھارتی لابی کا بھی کردار ہو گا جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور چین کی شرکت نہیں چاہتی۔ تاہم کابل کی قیادت کو یقینا یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان سے دُوری او ربگاڑ پیداکر کے وہ پاکستا ن سے زیادہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس کے دور رس نتائج ہو ںگے۔ بلاشبہہ طالبان تحریک اس وقت اتنی قوت نہیں رکھتی کہ وہ بڑے شہروں پر مستقل قبضہ کر سکے، لیکن وہ ایک مستقل مزاحمتی تحریک کی حیثیت سے بھی اگر اپنی حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو پھر افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
مصر میں فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں اخوان اور دیگر شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان کی مرکزی قیادت کے بیش تر افراد سزاے موت کے مستحق ٹھیرا دیے گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید یہ واحد واقعہ ہو کہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے لیے کوشاں کسی پُرامن سیاسی تنظیم کو اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں وقت کی آمر اور غاصب حکومت کے ہاتھوں تیسری بار اپنی اعلیٰ قیادت سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو۔ فوجی انقلاب کے ہاتھوں ہزاروں کارکن اور شہری وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور متعدد صحافیوں نے جیلوں میں بند ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کی صورت حال اور اعداد و شمار بیان کیے ہیں، وہ مختصراً یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:
اس فوجی انقلاب کے دو برس پورے ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کو اِعدام وطن (پورے ملک کے لیے پھانسی) کا عنوان دیا گیا اور کہا گیا کہ فوجی انقلاب کے دوسال پورے ہونے تک ۱۱۶۳ قیدیوں کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے سات کی سزا پر عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ ۴۹۶ کی نظرثانی کی اپیل منظور کرلی گئی اور اُن کی سزاے موت دیگر سزائوں میں بدل دی گئی۔ ۲۴۷ کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی سزاے موت ختم ہوگئی اور ۴۱۳ بدستور سزاے موت کے منتظر ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سزاے موت پانے والوں کی یہ تعداد ۱۶۹۳ تھی جو پھانسی کا حکم جاری کرنے کے لیے مفتی اعظم کے پاس بھجوائی گئی تھی۔ البتہ بعد میں اسے کم کر کے ۱۱۶۳ پر لایا گیا جن کے ’مجرموں‘ کو سزاے موت کے پروانے جاری کیے گئے ہیں اُن پر ایک کالعدم جماعت سے تعلق کا الزام تھا۔
سزاے موت کا حکم سننے والوں میں سرفہرست اخوان کی مرکزی قیادت اور معزول کیے گئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی ہیں۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کو پانچ بار سزاے موت سنائی گئی ہے۔ تحلیل شدہ پارلیمان کے صدر محمد سعد الکتاتنی، حزب الحریۃ والعدالۃ کے رہنما محمد بلتاجی، معروف مقرر اور داعی صفوت حجازی اور اخوانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔
سزاے موت کا حکم پانے والوں میں شمالی مصر کا ضلع مُنیا سب سے آگے ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سزاے موت کے قیدی ۱۲۱۱ ہیں۔ اسی طرح ضلع الجیزہ کے ۲۳۳، اور قاہرہ کے ۱۷۸ ہیں۔ سزاے موت کے احکام پر مہر تصدیق کے لیے مفتی اعظم مصر کو پیش کیے گئے ان ناموں میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مساجد کے ائمہ اور خطیب، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین، طلبہ، صحافیوں، انجینیروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین خانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ۲۶۸؍افراد تو جیلوں اور تفتیشی مراکز کے اندر ہی یا تو طبی امداد نہ مل سکنے پر یا تعذیب و تشدد کی بنا پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُن افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کو مظاہروں کے دوران یا دھرنوں کے دوران جبرو تشدد کے ذریعے بھگانے کے عمل میں ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو دورانِ گرفتاری بے پناہ تشدد کے باعث زندگی ہار بیٹھے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱۴۰۶ ہے مگر اس میں رابعہ اور نہضہ کے میدانوں میں دھرنے دینے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے جن کو ملٹری فورسز نے نمازِ فجر کے وقت عین حالت ِ نماز میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور وہ بھی ماہِ مقدس و ماہِ رحمت رمضان المبارک کے ایسے لمحات میں جب عادی مجرموں اور انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے رب کی عام معافی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ رابعہ اور نہضہ کے شہدا کی تعداد ۵ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔
طلبہ کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق جو یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی آزادی و حقوق کے لیے کوشاں ہے، ۳جولائی ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب سے ۱۱فروری ۲۰۱۵ء کے عرصے میں ماوراے قانون ہلاک کیے گئے طلبہ کی تعداد ۲۲۸ ہے۔ ان میں چھے طالبات بھی ہیں۔ ۱۶۴ کو ’ناگزیر وجوہ‘ کی بنا پر لاپتا رکھا گیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء تک گرفتار شدہ طلبہ و طالبات کی تعداد ۳ہزار ۲سو۴۲ ہے۔ ان میں سے ۱۸۹۸ طلبہ و طالبات بدستور گرفتار ہیں۔ ان میں سے ۱۶۰ کو جبری طور پر اعترافِ جرم کرانے کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے کارکن کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ تعداد ہے جو پرانے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل اور موجودہ تعداد تو اس سے بہت زیادہ ہے۔ بیش تر اضلاع میں روزانہ نئی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ اس طرح یہ تعداد ۶۰ ہزار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے مگر اُس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کمی روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پوری ہوجاتی ہے۔
اس کارکن کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدہ افراد کے لیے اپیل کرنے والے وکیلوں کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے۔ ایسے وکلا کی تعداد ۳ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور مزید ۲۸۰ کے بارے میں گرفتاری اور پیشی کے احکام جاری کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس وقت مصر کے اندر عدلیہ کی کوئی بنیاد باقی نہیں ہے۔
جیلوں کے اندر بند اِن قیدیوں کی صورت حال کو اُن کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ پربیان کرتی رہتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی قیدیوں کے مصائب و آلام اور تعذیب و تشدد کے علاوہ مختلف امراض میں مبتلا افراد کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جنوبی قاہرہ میں واقع کئی جیلوں کا مجموعہ عقرب جیل ہے۔ یہ جیل قیدیوں کے لیے کڑی حراست کے اعتبار سے بہت بُری شہرت رکھتی ہے۔ یہ اپنے قیام کے ۲۵ سال سے خوف ناک تعذیب و تشدد کی روایات کے باعث منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ اخوان کے نائب مرشدعام خیرت الشاطر اسی عقرب جیل میں قید ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انھیں ہفتوں دوا نہیں ملتی اور وہ بغیر دوا کے بیماری کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔
گذشتہ رمضان کے دوران قیدیوں کو قرآنِ پاک کے نسخوں سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ تلاوتِ قرآن نہ کرسکیں۔ جیل کی بیرکوں کی بجلی بند کردی گئی تاکہ انھیں دورانِ روزہ کوئی آسانی نہ پہنچ پائے۔ اُن کی کلائی گھڑیاں چھین لی گئیں تاکہ اُنھیں سحری و افطاری کے اوقات معلوم نہ ہوسکیں۔ پانی کی فراہمی بند رکھی گئی تاکہ وہ نماز کے لیے وضو نہ کرسکیں۔
قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب کے بعد مصر کی جیلیں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بدترین ذہنی و بدنی تعذیب اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کی اس پامالی کو نہ بند کراسکی ہیں اور نہ کم ہی کرانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ مرکز براے انسانی حقوق کی تعظیم کے ایک محقق احمد مفرح کا کہنا ہے کہ سیکڑوں لوگ جو طبی امداد کی عدم فراہمی اور غیرمعمولی تشدد کے باعث موت سے دوچار ہوگئے اُن میں اخوان کی مرکزی قیادت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان میں نمایاں نام قومی اسمبلی کی کمیٹی براے قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار فرید اسماعیل کا ہے۔ فرید اسماعیل حالیہ مئی کے مہینے میں قاہرہ کی عقرب جیل کے ہسپتال میں جگر کے مرض میں مبتلا رہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ضلع دمیاط سے رکن قومی اسمبلی محمد الفلاحجی بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر وفات پاگئے۔ گذشتہ برس نومبر میں عین شمس یونی ورسٹی میں امراضِ جلدکے استاد ڈاکٹر طارق الغندور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کو الجماعۃ الاسلامیۃ اسلامی مصر کی مجلس شوریٰ کے صدر عصام دربالہ شدید حراست کی جیل ’طرۃ‘ سے ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ اسی سال ۲۸؍اگست کو اخوان کے ایک رہنما خالد زہران وفات پاگئے جو تین برس سے جیل کی عقوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو ہسپتال لے جایا گیا مگر تب علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ امن فورسز کے تشدد اور تعذیب کے نتیجے میں کئی وکلا بھی جاں بحق ہوگئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کفرالشیخ ضلع کے سابق گورنر سعدالحسینی اپنی نازک صحت کی بنا پر ہروقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ انھیں ویل چیئر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی حکومت کے وزیر براے اُمورِ نوجواناں اُسامہ یاسین اور حزب الحریۃ والعدالۃ کے صدر ڈاکٹر محمدا لبلتاخی کی صحت کا مسئلہ ہے۔
مرکز براے تعظیم انسانی حقوق کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۵۰۰ قیدی ایسے ہیں جن کی نازک صحت کا تقاضا ہے کہ انھیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ان میں سے کثیرتعداد جان لیوا حالت سے دوچار ہے۔ سماجی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں محکمہ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تنظیموں کے ذریعے قیدیوں کا طبی معائنہ کرائیں۔ انھی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر ان حقوق کی پامالی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔
گرفتاریوں اور قیدوبند کی ان صعوبتوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ہے کہ سیکڑوں بچیوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ مصر میں بچیوں کی گرفتاری اور اسیری سرخ لائن تصور کی جاتی رہی ہے مگر فوجی انقلاب نے اس سرخ لائن کو بھی پامال کر کے آگے بڑھنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان قیدی بچیوں میں جامعہ ازہر کی طالبات کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس لیے کہ یونی ورسٹی کے صدر اُسامہ العبد نے کئی بار امن فورسز کو یونی ورسٹی میں چھاپہ مارنے اور طالبات کو گرفتار کر نے کی اجازت دی۔
قیدی خواتین میں ۵۰ برس سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ سامیہ شنن کو کرداسہ کے حادثات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں اُن پر پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام عائد کرکے انھیں سزاے موت سنا دی گئی۔ کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے انھیں پکڑا گیا تھا مگر پھر کرداسہ کے حادثات میں ملوث کردیا گیا۔[ماخذ: aljazeera.net]
تحریک طالبان افغانستان کے رہنما مُلّا محمد عمر کے انتقال کی خبر ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کے بہی خواہوںکے لیے یہ خبر یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کی رحلت کب، کہاں اور کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے اطلاعات میں نہ صرف کافی ابہام پایا جاتا ہے بلکہ کچھ تضاد بھی نظر آتاہے۔
مُلّامحمد عمر نے ان حالات میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جب افغان مجاہدین، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام میں ناکام ہوکر خانہ جنگی پر اتر آئے تھے ۔طالبان اس شدید بدامنی اور افراتفری کو جواز بناتے ہوئے مختصر مدت میں نہ صرف افغانستان کی مقبول ترین عسکری قوت کا روپ دھار گئے بلکہ کابل سمیت پورے افغانستان کے تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جمانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں قیامِ امن اورلوگوں کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی ایسے کارنامے تھے جس نے طالبان حکومت کے استحکام میں بنیادی کردار اداکیا۔ مُلّا محمد عمر اور ان کی حکومت کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکا کو ۴۸ ممالک کی ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج اور دنیا کی جدید ترین جنگی ٹکنالوجی کاسہارا لینا پڑا۔ پھر امریکا نے مُلّاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی۔ یہ مُلّاعمر کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا اپنی اندھی طاقت کے زور سے خاتمہ کیا، تو وہ مختصر عرصے میں طالبان کی منتشر صفوں کو امریکا کے خلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
آج افغانستان کے طول وعرض میں امریکی اور ناٹو فورسز سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جومنظم عسکری کارروائیاں ہورہی ہیں اور مختلف اضلاع سے طالبان کی فتوحات اورقبضوں کی جو خبریں آرہی ہیں، ان کے پیچھے جہاد کے بعد سب سے بڑا محرک اور عامل مُلّا محمد عمر کی قیادت رہی ہے۔ افغان قوم میں ان کی مقبولیت اور اثرپذیری کانتیجہ تھاکہ طالبان قیادت کو دوسال سے بھی زائد عرصے تک مُلّاعمر کے انتقال کی اہم ترین خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا پڑا ۔ دوسال تک طالبان قیادت ان کی موت کو چھپانے پر اس لیے مجبور رہی کہ اس بات کا کامل یقین تھاکہ مُلّاعمر کے انتقال کی خبرسامنے آنے سے نہ صرف طالبان جنگجوئوں کے حوصلے پر منفی اثرپڑے گا، بلکہ ا س خبرسے امریکا اور دیگر طالبان دشمن قوتیں بھی ہرممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ طالبان قیادت کے یہ خدشات مُلّاعمر کے انتقال کی تصدیق ہونے پر بعض طالبان گروپوں کی مخالفت اور تحفظات کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں۔
مُلّا محمد عمر مرحوم کے نائب مُلّا اختر منصور کے توسط سے یہ بات توسامنے آچکی ہے کہ انھوں نے مُلّاعمر کے انتقال کی خبر مبینہ طورپر ملا عمر کی وصیت کے مطابق جہاد کو جاری رکھنے کی حکمت کے تحت صیغہ راز میں رکھی تھی۔اس حد تک تو اخترمنصور کی بات پر یقین کا جواز اور گنجایش موجود ہے۔ لیکن جہاں تک مُلّامنصور کے امیر بننے اور ملا عمر کے انتقال کی تصدیق اور اعلان کے اوقات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مختلف سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ یہ سوال کہ اچانک ایسے کون سے عوامل پیدا ہو گئے تھے جن کے باعث ملا عمر کے انتقال کی خبر کو صیغۂ راز میںمزید رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ؟
اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر طالبان افغان حکومت مذاکرات سے محض ایک دن قبل افشا کرنے کااصل پس منظر کیا ہے؟ان دونوں سوالات کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق طرح طرح کے جوابات اور چہ میگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اور تحریک طالبان سمیت افغان حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں تک رسائی رکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کااستدلال ہے کہ مُلّاعمر کی وفات کی خبر کو مزید چھپا کر رکھنا ا س لیے ناممکن ہوگیاتھا کہ طالبان سمیت افغان حکومت کے بعض بارسوخ حلقوں کو یہ شک پڑگیاتھا کہ مُلّا محمد عمر زندہ نہیں رہے اور وفات پاچکے ہیں۔ ان کو یہ شک دو وجوہ کی بنا پرپڑا۔
اس کی پہلی اور فوری وجہ حالیہ عیدالفطر کے موقعے پر مُلّا محمد عمر کا امن مذاکرات کی حمایت پر مبنی پیغام کا سامنے آناتھا۔ واضح رہے کہ مُلّا محمد عمر شروع دن سے مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے عیدین پر جتنے بھی پیغامات جاری کیے تھے ان سب میں وہ طالبان کو جہاد جاری رکھنے اور مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ امن مذاکرات کی حمایت میں ان کابیان سامنے آنے سے طالبان کی صفوں میںان کے زندہ رہنے کے متعلق شکوک وشبہات نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح ان شکوک وشبہات کو تقویت ملنے کی دوسری بڑی وجہ ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصے سے مُلّا محمد عمر کی آواز میں کسی آڈیو پیغام کاسامنے نہ آناتھا۔ جہاں تک مُلّاعمر کی وفات کی خبر امن مذاکرات کے دوسرے دور سے محض ایک دن قبل افشا کیے جانے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے اس بات پر اتفاق راے پایاجاتاہے کہ ایساکرنا سب سے زیادہ خود طالبان اور بالخصوص نومنتخب امیر ملااختر منصورکے حق میں تھا۔اگرمذاکرات میں کسی ممکنہ پیش رفت کے بعد آگے جا کر یہ بات سامنے آجاتی کہ مُلّاعمر دوسال پہلے وفات پاچکے ہیں تو ایسی حالت میں مُلّااختر منصور سمیت کسی بھی طالبان رہنما کے لیے امن مذاکرات کے فیصلوں کو طالبان کمانڈروں اور جنگجوئوں سے منوانا تقریباً ناممکن ہوتا، لہٰذا اسی احساس نے انھیں یہ خبر جاری کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب ملامنصور کی امارت کے اعلان اوران کا اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے پر بعض طالبان راہنمائوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، وہ اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کی امارت پر ان لوگوں نے اعتراض اٹھایاہے، جو ملامنصور کی امارت کے لیے منعقدہ رہبری شوریٰ کے فیصلے میں شریک نہیں تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام مُلّا محمد عمر کے برادرخورد مُلّاعبدالمنان کا سامنے آیاہے، جنھوں نے ملامنصور کی امارت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے نئے امیر کے انتخاب کے لیے صرف رہبری شوریٰ پر انحصار کے بجاے تمام فیلڈ کمانڈروں، علماے کرام اور طالبان کی بااثر شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔ جس کے جواب میں ملامنصورگروپ کاکہناہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پورے افغانستان کے حالات طالبان کے حق میں سازگار تھے اور انھیں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات لاحق نہیں تھے، جب کہ آج پوری طالبان قیادت کا اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پرافغانستان کے اندر جمع ہوناتقریباً ناممکن ہے ۔
مُلّااختر منصور کی مخالفت میں طالبان کاجو گروپ سرگرم عمل ہے، وہ اپنی حمایت میں مُلّا محمد عمر کے ۲۶سالہ بڑے بیٹے مُلّا محمد یعقوب کو بھی استعمال کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہاہے جس کی مخالفت ان کی کم عمری اورکم تجربے کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس تمام صورت حال کانیانقشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے سے طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کے علاوہ طالبان کے نئے امیر مُلّا اختر منصور کاان مذاکرات سے انکار کرکے جہاد جاری رکھنے کے اعلان کی صور ت میں سامنے آیاہے۔اسی طرح قطر میں قائم طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر دفتر کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ طیب آغا اوران کی ٹیم کا مُلّا اختر منصور سے اختلافات کی بنیادپر مستعفی ہونے سے بھی جہاں امن مذاکرات کامستقبل مخدوش نظر آرہاہے، وہاں اس صورت حال کو تحریک طالبان کی صفوں کو منظم رکھنے کے لیے بھی نیک شگون قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر طالبان، امریکا اور افغان حکومت پراپنا دبائو برقراررکھ کر مُلّامحمدعمر کے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں تو اس کے لیے تحریک طالبان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اورمزید نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاداور اتفاق برقرار رکھنا ہوگا، بلکہ باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے نئے امیر کے قضیے، نیز امن مذاکرات کے مستقبل کابھی کوئی متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر طالبان مخالف قوتیں ان کو منتشر پا کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے تیار بیٹھی ہیں، جیسے دسترخوان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بھوکے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ موقع بلاشبہہ طالبان کی معاملہ فہمی،حسن تدبر اور ان کی بصیرت کا کڑا امتحان ہے جس کے لیے اُمت ِ مسلمہ کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
’’۹ مئی ۲۰۱۴ء کو ہماری نسبت طے ہوئی۔ شادی ہوئی تو میں نے پہلے ہی روز معاذ سے کہا کہ میں نے ایسے جیون ساتھی کے لیے دعا کی تھی جو مجھے اپنے ساتھ جنت لے جائے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے جنت لے کر جائیں گے۔ شہادت سے کئی ہفتے قبل انھوں نے مجھے کہا کہ ہم دونوں روزانہ قرآن کریم کے ۱۰صفحات تلاوت کیا کریں گے، تاکہ اکٹھے ختم قرآن کیا کریں۔ شہادت کے روز بھی فجر کے وقت معاذ نے مجھے جگایا اور کہا کہ آج مجھے ایک آپریشن کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ میں نے ابھی دو رکعت نماز شہادت بھی ادا کرلی ہے اور اللہ سے یہ دُعا بھی کی ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا خون میرے سر نہ آئے‘‘۔ یہ الفاظ اُردنی ایئر فورس کے اس پائلٹ معاذ الکساسبہ کی بیوہ کے ہیں، جسے چند ماہ پہلے داعش نے آہنی پنجرے میں کھڑا کرکے، زنجیروں سے جکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔ جلانے کے اس پورے عمل کو فلمایا اور وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں دکھایا گیا۔
عراق اور شام میں ’اسلامی ریاست‘ (داعش) کے قیام کا دعویٰ کرنے والے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کرنے کے واقعات تو اب ہزاروں میں ہیں۔ ان ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمایش کرنا بھی اب معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی زندہ انسان کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینک کر قتل کرنا، کسی کو پنجرے میں بند کر کے سمندر میں ڈبو دینا، کسی کی گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑا دینا… غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ پھر انتہائی مہارت سے اس کی فلم بنائی اور دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کو وہاں آنے کا حکم دیا جاتا اور قتل و تعذیب کے سارے مناظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ مارنے والے بھی ’اللہ اکبر‘ کہہ رہے ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی، اکثر لوگ کلمۂ شہادت ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض غیرمسلموں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں سے چند درجن ہی بنتی ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ارتداد کی وجہ اکثر وبیش تر ان کا بیعت سے انکار یا ’باطل نظام‘ کا حصہ دار اور دشمن کا ایجنٹ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اب تو اس کام کے لیے اعلانِ عام کردیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں داعش کا ایک نوجوان ہرمسلمان کو ترغیب دیتا ہے کہ:’’ اسلامی ریاست کے علاوہ تمام حکومتیں باطل پر مبنی ہیں۔ اس کے کارپردازان بالخصوص فوج اور پولیس کے ملازمین کو قتل کر کے ہمارے پاس آجائو ہم تمھیں پناہ دیں گے‘‘۔ اس طرح کے پیغامات سے متاثر ہوکر مختلف کارروائیاں کرنے والوں کی تعداد بھی اب کافی ہوچکی ہے۔ حالیہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہونے کے چند گھنٹے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملے سے پہلے حملہ آور نے اپنے سگے ماموں راشد ابراہیم الصفیان کو قتل کر دیا کیونکہ وہ سعودی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔
افسوس کہ والا شب ِ عید اپنے سگے بھانجے کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ پھر گذشتہ آٹھ برس سے صہیونی فوجوں اور جنرل سیسی کے ہاتھوں محصور اہلِ غزہ کے خلاف اعلانِ جنگ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عنقریب غزہ آرہے ہیں۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو وہاں خون کے دریا بہہ جائیںگے‘‘۔
ریاض شہر کے سابق الذکر واقعے کے بعد وہاں داعش یا دیگر مسلح تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں ۵۰۰ کے قریب افراد گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعے کی خبر اسرائیلی اخبارات میں ملاحظہ کیجیے: ’’غزہ میں موجود داعش کے ذمہ داران نے خبردار کیا ہے کہ ہم ریاض میں ہونے والی گرفتاریوں کا بدلہ لیں گے‘‘۔ یہ خبر ۱۹جولائی کو شائع ہوئی اور ۲۰جولائی کی صبح غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے ذمہ داروں کو نشانہ بناتے ہوئے پانچ بم دھماکے ہوگئے۔ ممکن ہے کہ یہ دھماکے داعش نے نہ کیے ہوں، لیکن ان کے بیان کے بعد ہرشخص کا ذہن سب سے پہلے ادھر ہی جاتا ہے۔
داعش کے بارے میں دنیا میں ہر طرف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ساری دنیا اس کی دشمن دکھائی دیتی ہے۔ امریکی سربراہی میں ۴۰ ممالک نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے۔ ۵۵۰؍ارب ڈالر اس جنگ کا بجٹ رکھا گیا ہے، لیکن شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں اچانک عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے، اور اپنی ریاست کا اعلان کرنے سے لے کر اب تک اس کے علاقوں، افرادی قوت اور اسلحے میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جدید ترین اسلحے اور گاڑیوں کی نمایش کئی کئی فرلانگ لمبے جلوسوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک ایک گاڑی اور ایک ایک جھونپڑی کو ڈرون حملوں سے اُڑا دینے والے امریکا کو دشمن کا یہ طویل جلوس اور نمایش کبھی دکھائی نہیں دیے۔
اس بارے میں، میں مزید حقائق تلاش کر رہا تھا کہ عراق سے الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ اور مرکزی رہنما نے ہاتھ سے لکھا، اپنا تجزیہ مطالعے کے لیے ارسال کیا۔ اس تجزیے کے اہم نکات اور خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’سوویت یونین کے خاتمے (اکتوبر ۱۹۱۷ئ- دسمبر ۱۹۹۱ئ) کے بعد امریکی پالیسی ساز اداروں کے لیے اپنا کوئی نیا دشمن ایجاد کرنا ضروری تھا۔ واشنگٹن نے ’اسلامی بنیاد پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر دشمن ایجاد کرلیا۔ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، خلیجی ریاستوں اور تمام اہم عرب ممالک سے لے کر ترکی تک سب ممالک شامل تھے، اس نئے دشمن کے خلاف جنگ میں ناکامی یا کامیابی کا اصل پیمانہ قرار پایا۔ بعض اہم ممالک میں عرب بہار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اسلام (یعنی اسلامی تحریکوں) کی کامیابی سے امریکا کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں سایکس پیکو (۱۹۱۶ئ)، سان ریمو (۱۹۲۰ئ) اور لوزان (۱۹۲۳ئ) معاہدوں کے مطابق خطے کی تقسیم میں مزید ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ اب اس نقشے میں رنگ بھرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کا نیا مرحلہ شروع کر دیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شروع کی جانے والی جنگ افغانستان ابھی عروج پر تھی کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق میں بھی فوجیں اُتار دی گئیں۔ تمام تر مذہبی اور نسلی فتنہ پردازیوں اور ۲۰۰۶ئ،۲۰۰۷ء میں بدترین خانہ جنگی کے بعد امریکا نے اس جنگ کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس عرصے میں تمام عالمی رپورٹوں کے مطابق عراق دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں سرفہرست آگیا‘‘۔
عراقی رہنما مزید لکھتے ہیں: ’’داعش مختلف مواقع اور واقعات کی روشنی میں مسلسل توانا ہوتی چلی گئی۔ عراق میں امریکی فوجوں کی آمد کے بعد اصل مزاحمت وہاں کی اہلِ سنت آبادی کر رہی تھی۔ امریکا اور عراق کی شیعہ حکومتوں نے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینے کے لیے ’القاعدہ‘ کا نام استعمال کیا۔ لیکن پھر جب اہلِ سنت آبادی نے اکثر علاقوں سے ’القاعدہ‘ کا تقریباً صفایا کردیا تو اس موقعے پر مختلف فرضی کارروائیوں کے ذریعے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا، مثلاً ابوغریب اور تکریت جیل سے قیدیوں کو رہا کروا کر لے جانا۔ پھر اچانک بغداد کے بعد عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بآسانی داعش کا قبضہ ہوگیا۔ اتنا بآسانی کہ خود داعش کو بھی اس پر حیرت ہوئی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس کی حکومت داعش کے اس قبضے کے ذریعے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ داعش نے کسی مزاحمت کے بغیر تین سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیا۔ اہلِ سنت اکثریتی آبادی کے شہر انبار کے گورنر کا کہنا ہے کہ میں عراقی وزیردفاع، فضائیہ کے سربراہ اور فوجی آپریشنز کے انچارج سے رابطہ کر کے انھیں داعش کا راستہ روکنے اور کوئی کارروائی کرنے کا کہتا رہا، لیکن انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ موصل شہر کے سیکورٹی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا کہ داعش کے سامنے مزاحمت کیے بغیر پسپا ہوجانے اور اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ جانے کا حکم براہِ راست عراقی وزیراعظم کی طرف سے ملا ہے‘‘۔ عراقی اخوان رہنما نے اس تجزیے میں مستقبل کی ممکنہ صورتوں پر بھی تفصیلی بات کی ہے جن سب کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے میں یہ سب شروفساد ’منظم انتشار‘ نامی امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ طے شدہ اہداف اور ضروریات کے مطابق مختلف مہروں کو استعمال میں لایا جاتا رہے گا۔ ان کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے گی اور انھیں باقی بھی رکھا جائے گا اور بالآخر پورے خطے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اس موقعے پر ایک صہیونی مضمون نگار عوفرہ بانجو کی تحریر بعنوان: ’کردستان اور داعش نئے علاقائی نقشہ گر‘ کا حوالہ بھی اہم ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے’ العربی ۲۱‘ میں اس کا مکمل ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کی تحریر کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ: ’’عراق اور شام اب کبھی ماضی کے عراق اور شام نہیں بن سکیں گے۔ اب بغداد حکومت، کردستان اور داعش کی ایک گنجلک تکون مستقبل کا نقشہ تشکیل دے گی‘‘۔ عوفرہ اس امرپر بھی اظہار اطمینان کرتا ہے کہ داعش اور اس کی شدت پسندی نے عراق، کردستان اور شام میں سیاسی اسلام (یعنی الاخوان المسلمون ) کے اثرونفوذ میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق کردستان کو موجودہ صورت حال میں جو اہم نقصان ہوا، وہ یہ ہے کہ اس کی آزادی (یعنی علیحدگی) کے لیے مجوزہ ریفرنڈم میں تاخیر ہو رہی ہے، لیکن اس کے مقابل اسے دو اہم فوائد ملے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی ہنگامے کے دوران اس نے تیل کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو بغداد کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ داعش کی سفاک شناخت کے مقابل کردستان ایک مہذب اور انسان دوست ریاست کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ داعش لوگوں کو غلام اور ان کی خواتین کو باندیاں بنارہا ہے اور کردستان لاکھوں مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار اس امر پر بھی اطمینان آمیز حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بہت سے کام جو ملکوں کی باقاعدہ افواج انجام نہیں دے سکیں، مسلح ملیشیا انجام دے رہی ہیں۔ اس موضوع پر گذشتہ مارچ کے ماہنامہ المجتمع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ استعماری اور جارح افواج کس طرح اپنے مقبوضہ علاقوں میں خود وہیں سے ایسی عوامی تحریکیں کھڑی کرتی ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب افراد کو دشمن افواج سے بھی زیادہ سفاکیت سے تہِ تیغ کرتی ہیں۔ فرانسیسی فاتح نپولین نے مصر پر قبضہ کیا تو ’یعقوب المصری‘ نامی غدارِ ملّت اور اس کی تحریک کی سرپرستی کی۔ الجزائر پر فرانسیسی قبضہ کرتے ہوئے ’الحرکیون‘ نامی تحریک شروع کروائی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر آزاد ہوا تو فرانسیسی جنرل ڈیگال نے ان کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہتک آمیز جملہ کہا: ’’یہ لوگ تاریخ کا ایک کھلونا تھے، محض ایک کھلونا‘‘۔ ویت نام میں امریکیوں نے ’اسٹرے ٹیجک بستیوں‘ کے نام سے ۱۶ہزار خائن بستیاں تیار کیں۔
عراق اور شام ہی نہیں خطے کے کئی ممالک میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہرجگہ تقریباً ایک ہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے اور ہم دیکھتے بھالتے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں ہر ملک یا گروہ اپنے اپنے دشمنوں پر وہی لیبل لگانا شروع کر دیتا ہے جس کے خلاف راے عامہ تیار کی گئی ہو۔ اس وقت اخوان کو شام اور عراق میں داعش نے اپنی سنگین کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے لیکن جنرل سیسی، بشارالاسد اور حوثی قبائل سمیت بہت سے لوگ کمال بددیانتی سے اخوان ہی کو داعش کا سرپرست قرار دے رہے ہیں۔ عیدالفطر کے تین روز بعد ترکی کے سرحدی شہر سروج میں خودکش حملہ کرکے داعش نے۳۱شہری شہید کردیے اور دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان کے مخالفین انھیں مسلسل داعش کا مددگار قرار دے رہے ہیں۔دشمن ایجاد کرنے کی جو بات آغاز میںگزری، وہ طویل عرصے تک عالمِ اسلام میں اپنے زہرآلود پھل دیتی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل اور آمر حکمرانوں کو اپنے لیے یہی صورت حال مثالی اور مطلوب دکھائی دیتی ہے۔ جابر حکمران چونکہ خود بھی ایک عارضی مہرہ ہوتے ہیں، اس لیے انھیں حتماً اور جلد اس ظلم کا انجام دیکھنا ہوگا، لیکن امریکا اور اسرائیل جو اس پوری فتنہ گری میں خود کو محفوظ و مامون سمجھ رہے ہیں، خود بھی یقینا اپنے انجام کو پہنچیں گے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل راہِ نجات قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ آپؐ کی اُمت کو رب ذوالجلال نے اُمت ِ وسط، یعنی راہِ اعتدال پر چلنے والی اُمت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انتہا کا شکار ہو جانا اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ آج اگر ایک طرف اسلام کی تمام بنیادی اصطلاحات: جہاد، اسلامی ریاست، اسلامی خلافت، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، حتیٰ کہ قرآن کریم اور رسولِؐ رحمت کو مذاق و استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف جہاد، شریعت، اسلامی حدود اور قوانین کو اپنے ہرمخالف کا صفایاکردینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بزعم خود امیرالمومنین کی بیعت سے انکار کو ارتداد اور ہرمرتد کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔خود یہ امر بھی انتہائی باعث ِ حیرت ہے کہ اس کے تمام تر ظلم و ستم کا اصل نشانہ خود مظلوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ شامی آمر بشارالاسد جیسا درندہ اور اس کی فوج ان سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس سفاک درندے سے برسرِپیکار مظلوم عوام اور ان کی مزاحمتی تحریک کو وہ چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ غزہ کے محصور و بے کس عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں، صہیونی ناجائز ریاست کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے۔
انبیاے کرام ؑ کے بعد محترم ترین ہستیوں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی کچھ لوگ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ایسی ہی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔ اُمت انھیں ’خوارج‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲:۴۰)جیسی لازوال حقیقت سے روشنی حاصل کرنے کے بجاے، اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دینے جیسی ہلاکت کا شکار ہوگئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے الفاظ میں کلمۂ حق کہہ کر اس سے مراد باطل لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ان کی تلاوت، ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے سامنے تمھیں اپنی تلاوت، اپنی نمازیں اور اپنے روزے کم تر دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترا ہوگا۔ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے اور اہلِ اوثان کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ بالآخر ان کی کج فہمی اور ’زعم تقویٰ‘ نے انھیں ایک ہی شب حضرت معاویہ ، حضرت علی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیوں تک کو شہید کرنے پر آمادہ کر دیا۔
اُمت کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فتنے کو جس کے پیچھے سراسر منافقین اور یہودیوں کی دسیسہ کاری شامل تھی، آج بھی اپنی تباہی کا ذریعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شیعہ سُنّی یا خوارج کی اصطلاحیں صرف کسی مخصوص گروہ ہی کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور طریق کار کا نام بھی ہے۔ آج کا عالمِ اسلام بُری طرح اس تقسیم کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام نسلی، لسانی، علاقائی اور سیاسی تعصبات سے لیا جا رہا ہے۔ عراق اور شام کا خونی نقشہ اب یمن تک پھیل چکا ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش اور بعض مغربی دستاویزات کے مطابق داعش کے بعد کوئی اور ایسی تنظیم سامنے لائی جانا ہے، جس کے سامنے داعش کا نام بھی ہلکا لگنے لگے۔ کاش! کہ ہم سب کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوکر خود کو دھوکا دینے کے بجاے صرف اور صرف حق و انصاف کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ ظلم کرنے والا خواہ بشارالاسد ہو یا جنرل سیسی، داعش ہو یا باغی حوثی قبائل، ہم میں سے کوئی ان کی حمایت یا دفاع نہ کرے۔ مظلوم خواہ کویت یا سعودی عرب کی کسی امام بارگاہ میں مارا جائے یا عراق و یمن کی کسی مسجد میں، اللہ ہمیں ہمیشہ اس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھے۔ بے گناہ قیدی مصر کی جیلوں میں ہوں یا فلسطین، بنگلہ دیش، کشمیر،اراکان اور افغانستان کے زندان خانوں میں ہمیں ان کی آزادی کے لیے ہر دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ ایک روز سب ہی کو ایسے روزِ بد دیکھنا پڑ سکتے ہیں والعیاذ باللّٰہ۔
۷جون ۲۰۱۵ء کو ترکی میں ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ حسب سابق حکمران جسٹس پارٹی(AKP) ہی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسے ۵۵۰ میں سے ۲۵۸ نشستیں حاصل ہوئیں، لیکن یہ نشستیں تنہا حکومت بنانے کے لیے درکار تعداد سے ۱۶ نشستیں کم ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کے لیے بس یہی بات شادیانوں کا پیغام لائی ہے۔ وگرنہ پارلیمنٹ میں آنے والی باقی تین پارٹیاں اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہیں۔ کمال اتاترک کی جماعت CHP صرف ۱۳۲، جب کہ ترک نیشنلسٹ(MHP)اور کرد نیشنلسٹ(HDP) صرف ۸۰،۸۰سیٹیں حاصل کرسکی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سازی کے لیے درکار تعداد سے ۱۶نشستیں کم ہونے پر بغلیں بجانے والے جانتے ہیں کہ اس کامطلب ملک میں مخلوط حکومت کا قیام ہے۔
حالیہ نتائج آنے کے اگلے ہی روز سے ترکی میں سٹاک مارکیٹ بیٹھنا اور کرنسی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ۲۰۰۲ء میں طیب اردوان کی پہلی بار جیت سے پہلے، ملک میں لوٹ مار کا جو طویل سفر جاری رہا، اس کا ایک اہم سبب یہ مخلوط حکومتیں ہی ہوتی تھیں۔ ترک تاریخ میں تقریباً ۶۰ مخلوط حکومتوں کا سارا عرصہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور کرپشن ہی میں ختم ہوجاتا۔ یہ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو ان دونوںلعنتوں سے نجات دلائی اور ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہوا۔ ترکی جہاں طیب حکومت آنے سے پہلے ترقی کی شرح منفی ۹تک گر چکی تھی، اب اسی ترکی میں ترقی کی شرح ۹ فی صد سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی اب دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک بار وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے اس کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر دو لفظی جواب دیا:’’امانت و دیانت‘‘۔ طیب اردوان اور ان کے استاد پروفیسر نجم الدین اربکان نے اللہ کی توفیق سے ہمیشہ امانت اور محنت ہی کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترکی کو دوبارہ اسی سیاست کی دلدل میں دھنس جانے پر جہاں اسرائیلی اور صہیونی لابی نے جشن منایا، وہاں بعض مسلم ممالک کے حاکموں نے بھی خوب بغلیں بجائیں۔ ایران اور متعدد عرب ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا کے اخبارات، تقریباً سب کی سرخیاں یکساں تھیں:’عثمانی خلافت کا خواب بکھر گیا‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں بھی کسی پر ظلم ڈھایا گیا طیب حکومت وہاں پہنچی۔ میانمار برما سے جان بچاکر نکلنے والے ہزاروں افراد کو پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش نے تو گولیاں برساکر شہید کردیا یا واپس دھکیل دیا لیکن ترک بحری جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ طیب اردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کئی ترک اداروں کو لے کر خود برما پہنچے اور زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ صومالیہ تقریباً نصف صدی سے خانہ جنگی اور قتل و غارت کا شکار ہے، وہاں نہ صرف ترک حکومت کی رفاہی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بلکہ وہ وہاں مصالحتی کاوشوں کے علاوہ ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر بنانے کی دوررس کوششیں کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر چڑھائے جانے والے بے گناہ ہوں یا مصر میں منتخب حکومت کے خلاف برپا ہونے والا بدترین خونی فوجی انقلاب، صرف ترکی ہی ان کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر صداے احتجاج بلند کررہا ہے۔
گذشتہ آٹھ برس سے محصور غزہ کے لیے فریڈم فلوٹیلا ترک تنظیمیں ہی لے کر نکلی تھیں، جس میں ۱۱شہری شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اہل غزہ کی مسلسل پشتیبانی کررہے ہیں۔ اس وقت، یعنی دمِ تحریر ایک اور امدادی قافلہ یورپ سے روانہ ہو کر ترکی آرہا ہے، جہاں سے اس ماہ کے اختتام تک وہ دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے۔شام کے ۴۰لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ عالمی امدادی ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ پورے کا پورا بوجھ ترکی پر آن پڑا ہے، اور وہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر ان کی مدد کررہاہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں، ترکی کی مدد کے بجاے اس انتظار میں ہیں کہ ترکی کب اس مالی بوجھ سے گرجاتا ہے۔ لیکن طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔
اخوت اور اسلامی یک جہتی کے ساتھ ساتھ طیب حکومت اپنے ملک اور قوم کی ترقی سے بھی قطعاً غافل نہیں۔ انتخابات سے دو روز بعد عالمی بنک کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ۲۰۱۴ئمیں ترکی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا ہے۔
ایک طرف ہر مظلوم کی مدد کے لیے لپکنے والا یہ غیرت مند ترکی ہے، اور دوسری طرف اپنے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے سفاک حکمران ہیں جو ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ڈکارتے جارہے ہیں۔ ۱۸ جون کو سوئٹزر لینڈ کے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجیے کہ صرف ۲۰۱۴ء کے دوران سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں اپنی دولت کے ڈھیر لگانے والوں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے بھوک سے بلکتے ملک سے آنے والے سرمایے میں صرف ایک سال (۲۰۱۴ئ) کے دوران ۵۵ئ۳۶ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا پیسہ لوٹ مار ہی کا پیسہ ہوگا۔ بفرض محال لوٹ مار کا نہ بھی ہو تب بھی اس کا اصل مقام سوئٹزر لینڈ کے بنک نہیں،اپنے دیس کے مظلوم عوام ہونے چاہییں۔
لوٹ مار کرنے والے ان حکمرانوں کے مقابلے میں اور ترکی کو ۲۰۲۳ء تک دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے اردوان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جس کے باعث ایک جہان ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ طیب اردوان یا ان کی جماعت سے یقینا غلطیاں ہوئی ہیں اور مزید ہوسکتی ہیں، لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی یقینا بہت مبالغہ آرائی ہے۔ طیب اردوان چند ماہ پیش تر ہی نئے صدارتی محل میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے کئی بہی خواہ اس محل کی تعمیر کو اسراف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ طیب اردوان کا کہنا یہ ہے کہ اس کے سیکڑوں کمروں میں علمی تحقیق کے درجنوں مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ محل، ترقی یافتہ مضبوط ترکی کی علمی، فکری، تہذیبی اور تحقیقاتی ترقی کی ایک علامت بنے گا، لیکن یہ بات پوری طرح منتقل نہ ہوسکی۔
اگرچہ طیب اردوان اور ان کی ٹیم کی بنیادی صفت ہی کرپشن سے محفوظ رہنا ہے، تاہم ان پر کرپشن کے الزامات نے انھیں بعض مواقع پر مشتعل بھی کیا ہے۔ وہ کرپشن کے بے سروپا الزامات لگانے والے کئی صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر صحافت دشمنی کے طعنے بھی کسے گئے ہیں۔ حالیہ نتائج کے بعد پورے نظام اور بالخصوص اپنے ساتھیوں کی کڑی نگرانی، جائزے اور خود احتسابی مستقبل کے کئی طوفانوں کا سدباب کرے گی۔
۲۴ جون کو طیب اردوان نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کو باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دی ہے۔ اس کے ۴۵ روز کے اندر اندر انھیں دوسروں کے ساتھ مل کر یا پھر اقلیتی حکومت بنانا ہوگی۔ اقلیتی حکومت کا مطلب ہے کہ حکومت سازی کے لیے مطلوب مزید ۱۶ ووٹ انھیں مل جائیں لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو پھر ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ بعض تجزیہ نگار تو بہرصورت آیندہ سال کو نئے انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کمزوریوں کا خود جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب رہی تو یقینا آیندہ نتائج حالیہ سے مختلف اور بہتر ہوں گے۔
جسٹس پارٹی کی چند سیٹیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ پہلی بار کسی کرد پارٹی کا پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ کرد کئی عشروں سے ناانصافیوں کا موقف لیے مسلح کارروائیوں میںملوث ہوگئے تھے۔ اتاترک نے ان پر ترک قوم پرستی کے کئی طوق مسلط کررکھے تھے۔ بالآخر وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب رہے۔ پہلے کرد ووٹ کا تقریباً ۴۰ فی صد جسٹس پارٹی کو ملتا تھا، اس بار وہ سب کرد لہر میں بہ گیا۔ گویا جسٹس پارٹی نے سیاسی حکمت عملی سے کردوں میں اپنی اکثریت کی قربانی دے کر باغی مسلح عناصر کو پرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرلیا۔
کرد قوم پرستی کی لہر کتنی شدید ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے: جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ جب ایک روز ایک ترک خاتون پریشان حالت میں اپنی تین نوجوان بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت پاکستان آئی۔ وہ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوئی، اسلام اور اسلامی جماعت کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے انھیں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر پہنچا دیا۔ وہاں کے ساتھیوں نے ان کی بات سن کر ایک ذمہ دار کو ہمراہ بھیجا اور وہ انھیں لے کر مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور آن پہنچا۔ ہم نے ان کی بپتا سنی تو معلوم ہوا کہ خاتون اور ان کی تینوں بیٹیاں حجاب، یعنی سر پر سکارف رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ترک سیکولر قوانین میں اس کی گنجایش نہیں۔ حجاب کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد ان تینوں پر ایسے جھوٹے مقدمات قائم کردیے گئے کہ جن کی سزا موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ خاندان جس کے سر پر کوئی مرد نہیں بچا، اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے مشاورت و رہنمائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے کے لیے انتظامات کردیے گئے۔ مختلف مشکلات و مسائل کے باوجود یہ خاندان تقریباً ڈیڑھ سال پاکستان رہا اور بالآخر ترکی واپس چلا گیا۔ واپس جاتے ہی ماں اور بچیاں گرفتار کرکے جیل بھیج دی گئیں۔ ایک بیٹی اسی دوران اللہ کو پیاری ہوگئی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کچھ عرصے بعد ماں اور باقی دونوں بیٹیاں رہا ہوگئیں اور اب خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طیب اردوان اب ان اور ان جیسی کروڑوں خواتین کے حجاب پر سے پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کی اس داستان کے کئی مزید پہلو بہت اہم ہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہماری یہ باحجاب بہن ہدی کایا حالیہ انتخابات میں رکن پارلیمنٹ بن گئی ہیں اور اصل خبر یہ ہے کہ وہ جسٹس پارٹی نہیں کرد نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے رکن بنی ہیں۔ یہ پارٹی یقینا اسلامی شناخت نہیں رکھتی لیکن اگر ہدی کایا جیسی مجاہد خاتون جو حجاب کی خاطر ہجرت اور اسیری تک برداشت کرتی رہی، جسٹس پارٹی کے بجاے کرد پارٹی میں چلی گئی ہے، تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جسٹس پارٹی کی کم سیٹوں کے پیچھے شیطانی دنیا کے ابلاغیاتی نظام اور دولت کے ڈھیروں کے علاوہ بھی کون کون سے اندرونی عوامل اثر انداز ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر بلکہ باعث شکر ہے کہ وہی اسمبلی جہاں کبھی ایک باحجاب خاتون مروہ قاوقچی کے منتخب ہوجانے پر بھونچال آگیا تھا، اب وہاں ہدی کایا اور مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی جیسی ۱۹ خواتین اپنی اسلامی شناخت، یعنی باوقار حجاب کے ساتھ موجود ہیں۔
بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔ ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔
۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔
سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔
مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔
خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔
رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔
۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔ کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔
نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔ گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔
میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔
مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔
امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔ اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔