بھارت کی طرف سے اہل کشمیر سے وعدوں میں مسلسل خیانت اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو واضح طور پر نظر انداز کرنے کے نتیجے میں خطے میں جبر اور خوف کی کیفیت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے ایک اہم پہلو کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر پر خصوصی اجلاس کا انعقاد خطے میں دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور یو این سیکورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے اقوام متحدہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے بھی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں بلدیاتی انتخابات کی بحالی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری کشمیر میں احتساب اور انصاف کے لیے دباؤ ڈالے تاکہ خطے کے تمام افراد کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
امریکی حکومت اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس قضیے کا واحد پُرامن حل یہ ہے کہ تنازعۂ کشمیر میں شامل تمام فریق انسانی حقوق اور تمام متاثرہ افراد کے حقِ خود ارادیت کو ترجیح دیں۔
خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سفارت کاری، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پاسداری اور مذاکرات اور سمجھوتہ کے لیے مخلصانہ عزم ضروری ہے۔ ایک متوازن اور حقیقت پر مبنی نقطۂ نظر ہی مؤثر پیش رفت کا باعث بنے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اور اہل دانش مل کر کام کریں، تاکہ کشمیر کے لوگ آخرکار اس امن اور آزادی کا تجربہ کر سکیں، جس کے وہ حق دار ہیں۔
عالمی برادری کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور نقطۂ نظر کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق کی کسی بھی درجے کی خلاف ورزی یا بنیادی آزادیوں سے انکار ناقابلِ قبول ہے۔ ایسی صورتِ حال کا مناسب قانونی اور سفارتی ذرائع سے ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی علَم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن ان کے خدشات پر کان دھرے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ کشمیر کی صورت حال کی پیچیدگیوں کو اس کے متنوع نقطۂ نظر اور تاریخی شکایات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے اس کو تمام متعلقہ افراد کی بہتری کے لیے حل کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن (UNHRC) کی جون ۲۰۱۸ءاور جولائی ۲۰۱۹ء کی رپورٹوں میں کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور اس کے تمام متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک جامع، آزاد اور بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن آف انکوائری کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
۲۴مارچ ۲۰۲۲ءکو ہیومن رائٹس واچ نے کشمیری عوام پر عائد سخت پابندیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واشگاف طور پر کہا کہ ان کی آزادیٔ اظہار اور پُرامن اجتماع کو محدود کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی جابرانہ پالیسیوں سے کشمیریوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم نے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کی خصوصی قانونی دفعات کی بھرپور مذمت کی، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اسے فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
۲ ستمبر ۲۰۲۲ء کو، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے بیوروکریٹس، سیاستدان، دانش ور اور میڈیا کے لوگ بھارتی حکومت کی جانب تشویش بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی پریشان کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ (Genocide Watch)کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق، بھارت مبینہ طور پر ۲۰۰ملین مسلمانوں کی ’نسل کشی اور قتل عام‘ کی تیاری کر رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم مبینہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں درخواست کی گئی ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ مذہبی اقلیتوں پر جاری حملوں کی وجہ سے ہندستان کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ قرار دے۔ ہندستانی حکومت پر بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے ذریعے تنقیدی آوازوں، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی آوازوں کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں، جن میں جنوری ۱۹۸۹ء سے اپریل ۲۰۲۴ء تک ۹۶ہزار۳ سو سے زیادہ اموات ہوئیں، جن میں ۷ہزار ۳سو ۳۳ حراستی اموات بھی شامل ہیں۔ شہری گرفتاریوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۰ ہزار ۳ سو۵۴ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک لاکھ ۱۰ہزار ۵سو۱۰ سے زیادہ گھر اور دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اس ظلم و زیادتی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ تقریباً۲۳ ہزار خواتین بیوہ، ایک لاکھ ۷ہزار سے زیادہ بچّے یتیم اور ۱۱ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ رپورٹ ہندستان میں تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کی واضح یاد دہانی کے طور پر کام کرنے کے لیے خبردار کرتی ہے، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔
۲۰۲۳ء میں ہندستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی تشدد کے واقعات میں ۲۴۸؍ اموات ہوئیں۔ ان میں ۸۲ آزادی پسند، ۶۶ شہری اور ۱۰۰ بھارتی قابض افواج کے اہلکار شامل تھے۔ ہندستانی فوج صنفی بنیاد پر تشدد کو ہتھیار کے طور پر برت رہی ہے۔ اس طرح کشمیری عوام کی ہندستان کے قبضے سے آزادی کی خواہش کو ڈرانے اور دبانے کے ذریعے دبایا جارہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں ایک ہولناک واقعہ میں، کنان پوش پورہ میں تقریباً ۱۰۰ خواتین پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا، اور بٹوٹ میں ایک خاتون کو اس کے بچے کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انسدادِ بغاوت کے لیے بنائے گئے قوانین نے بھارتی قابض افواج کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے ہیں، جو ممکنہ طور پر معصوم کشمیریوں کے خلاف 'مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ۲۶۰ ’کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘ (CASOs) اور ’کورڈن اینڈ ڈسٹرائے آپریشنز‘ (CADOs) کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہندستانی افواج اور کشمیر کے آزادی پسندوں کے درمیان ۷۰ مقابلے ہوئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً ۱۳۸ شہری املاک کی توڑ پھوڑ اور تباہی ہوئی۔
مزید برآں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک انٹرنیٹ کی بندش کی متواتر مثالیں ہیں۔ اس طرح خطے میں مواصلات اور معلومات کے بہاؤ پر لگائی گئی سخت پابندیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول کے ساتھ تشدد اور جبر کے خوف سے آزادی کے حق کے مستحق ہیں۔
کشمیر میں نوجوانوں کو بلاجواز تفتیشی مراکز میں لے جایا جا رہا ہے اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا سامنا ہے۔ کشمیری باشندوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک انتقامی کارروائی، سزا اور کنٹرول کا طریقہ ہے، جسے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک منظم حربہ ہے، جو سول آبادی میں خوف پیدا کرنے اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے آزمایا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو جھوٹے الزامات کے ساتھ نشانہ بنانے اور اجتماعی سزا دینے کے لیے ’نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی‘ (NIA) کا ظالمانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ غیر منصفانہ مہم، خوف اور ناانصافی کا ماحول پیدا کرتی ہے، حقِ خود ارادیت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کر دیتی ہے۔ کشمیر کو آہستہ آہستہ ’روانڈا‘ جیسے انسانیت کُش خونیں ماحول کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہرباضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔آیئے، سب اس انصاف اور برابری کے مطالبے میں ایک ساتھ کھڑے ہوں۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی موجودہ نسل کشی واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکا و مغرب کی یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ سمیت اکثر عالمی ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے سے انکاری ہیں ۔ دوسری طرف یونی ورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اس نسل کشی اور اس خونریزی سے نظریں پھیر لینے والی ’مغربی اکادمیہ‘ (اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ)پر لازم ہے کہ وہ غزہ میں جاری تباہ کن جارحیت کے خلاف ایک زبردست مذمتی تحریک کھڑی کرے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ اپنی عقل و شعور، تمام تر علم، تحریک کے اثر کا ادراک، ترقی پسندی، حالات سے واقفیت، اور حقوق کے تحفظ کی بحثیں ملا کر یہ اصحاب علم ودانش ایک پوری کی پوری ریاست کے ملیامیٹ کرنے سے نہیں روک رہے ہیں۔ اس تباہ کاری نے غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے ڈھانچے کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا ہے اور اکا دمیہ اور طالب علموں کی نعشوں کے انبار لگا دیے ہیں، جن میں سے کئی ایک کے بے جان لا شے اب تک ملبے تلے دبے ہیں۔
اس غم زدہ کرنے والے ماحول میں دنیا کی مختلف یونی ورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے لگائے گئے ’غزہ یک جہتی کیمپس‘ میں یہ بات واضح طور پر نمایاں ہے کہ سیاسی شعور، حق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم، اور صحیح غلط کی پہچان جیسے بنیادی اوصاف یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں، یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ کے اہل کاروں اور ان کے اعلیٰ عہدے داروں سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ،جو بظاہر ان اصولوں کے مجاور بنے پھرتے ہیں۔ اور اب، جب اساتذہ کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے،تو جوابا ً وہی علم و تحقیق کے دیوتا ان نہتے طلبہ پر تشدد کے لیے پولیس کو بلا لیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ان کا یہ رد عمل حیران کن نہیں ہے۔ پورے عالمِ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔یہ اسلحہ اور اس جیسے دیگر موضوعات پر تحقیق کو فروغ دیتے ہیں، جو نہ صرف جنگی جنون کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو بہتربنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیلی اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کے قیام کے ذریعے، اسرائیلی جارحیت کے حق میں کام کرنے والے اداروں کو دنیا بھر سے توثیق دلوانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ متحدہ ریاست ہائے امریکا اور فرانس میں لگائے گئے طلبہ کے احتجاجی کیمپس سے اُبھرنے والے رد عمل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے حکمرانوں کے فیصلوں کے علاوہ ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت اپنے اداروں میں فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ اسرائیل کی اپنی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی ہی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ترقی پسندی کے نام پر اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا بے نقاب ہوچکاہے۔ اس امر میں جس چیز کا کلیدی کردار ہے، وہ نظریے کی آڑ میں ڈالا جانے والا دبائو ہے۔ علاوہ ازیں اختیارات کا نا جائز استعمال اور دبائو کی سیاست بھی اسے بڑھاوا دینے والے عناصر میں شامل ہیں۔
اگرچہ مغرب ہی میں چند ایک تعلیمی اداروں میں اسرائیلی جارحیت پر مزاحمت کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جیسے کہ ابرڈین، ٹورونٹو جیسی دیگر کئی یونی ورسٹیوں کی جانب سے کی گئی ’سامیت مخالفت‘ (Anti-Semitism )کی تعریف تسلیم کرنے سے انکار ،اسرائیل سے تعلقات جزوی طور پر منقطع کرنا ، جو کہ حال ہی میں یونی ورسٹی آف ٹورن، ناروے کی چار یونی ورسٹیوں ، اور امریکا میں پِٹزر کالج نے نافذ کیا ہے۔ یا پھر کولمبیا اور دیگر امریکی یونی ورسٹیوں کے منتظمین کے فیصلوں کے برعکس، آسٹریلیا کی یونی ورسٹیوں کا غزہ یک جہتی کیمپوں کو بند کرنے سے اب تک انکار۔ تاہم، ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے ’فلسطین یک جہتی کیمپس‘ پر ہونے والے شدید جبر اور مغربی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلروں، ریکٹروں اور صدور کی طرف سے اسرائیلی نسل پرستی کو مسلسل پیش کی جانے والے نظریاتی توثیق کے باوجود طالب علموں میں یہ مخالفت کم نہیں ہوئی۔
اگر یونی ورسٹیوں کے ان اعلیٰ عہدے داروں میں سے چند (یا بہت سے) یقینا صہیونی ہیں، یا صہیونیت نواز ہیں تو باقی اکثریت بھی واضح طور پر فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز دبانے کو محض ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جو ادارے کے سرپرست ہونے کی بدولت وہ خود پر خودبخود عائد سمجھتے ہیں۔فلسطینی موقف کے حامی مظاہرین کی خاموشی کو تنظیمی استحکام، صہیونی مخیر حضرات کوناراض نہ کرنے کی خواہش، یا تہذیب کے تصورات جیسے الفاظ کا ملمع پہنا کر اسے قابلِ قبول حقیقت کی شکل دے دی گئی ہے۔ ایسے جواز جو سینئر تعلیمی منتظمین کے ضمیر کو کسی بھی قسم کی اخلاقی ذمہ داری کو نظرانداز کرنے کا جواز دیتے ہیں، جسے بصورت دیگر اگر وہ محسوس کرتے تو یقینا خود کو تاریخ کے اوراق میں باطل کی فہرست میں موجود پاتے۔ اور تو اور، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے عملے کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
تحفظ کی آڑ میں نسل کشی
یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے داروں میں اپنے اداروں کے تحفظ کی بحث اب تحریک یک جہتی فلسطین کے خلاف کسی بھی حد تک تشدد کی پیمائش کے لیے گھڑا گیا جواز بن چکی ہے۔ یہ مطالبہ کہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کو صہیونیوں کے ’تحفظ‘ کے لیے دبایا جائے، اسی استدلال کی ایک مثال ہے، جو اسرائیلی ’تحفظ‘ کی ضرورت کے ذریعے غزہ کوملیا میٹ کرنے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اسرائیلی یونی ورسٹیوں میں یہودی طلبہ کی حفاظت کے نام پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب کولمبیا یونی ورسٹی کی مصری نژاد صدر منوشے شفیق نے قانون نافذ کرنے والی فورس کو اپنے طلبہ کے خلاف بلایا، تو اس کا جواز بھی صرف تحفظ تھا۔آسٹریلیا میں، صہیونی تنظیمیں اس بنیاد پر ایک مشترکہ مہم چلا رہی ہیں کہ ’کیمپس یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’دوسرے نکبہ‘ کا جواز بھی پیش کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونیوں اور ان کے ہمدردوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے نکات میں سے ایک مغربی فلسطین کے حامیوں، خاص طور پر ہم جنس پسندوں کو غزہ جانے کی دعوت دینا ہے، جہاں ان کے خیال میں، حماس کی طرف سے انھیں تیزی سے نکالا جائے گا۔
ان دعوؤں میں موجود خطرات کے تصور کی جانچ کی جانی چاہیے۔اسرائیلی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے، نیو لبرل یونی ورسٹی میں صہیونی اور ان کے اتحادی ’اسرائیلی یا یہودی تحفظ‘ کا ایک خود ساختہ تصور مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ’تحفظ کا تصور‘ ایک احساس کے طور پر — ایک ایسا جذبہ ہے جسے ایک علم کا پرستار تعلیمی اداروں سے حاصل کرنے کاپابند ہےبشمول ان دیگر مصنوعات کے جو وہ تعلیم کے نام پر خرید رہا ہے ۔ اس تصور کے مطابق تحفظ ، یونی ورسٹی کے برانڈ کے لیے ایک اور سیلنگ پوائنٹ بن جاتا ہے، جو کہ طالب علم صارف اور خریدار کو مطمئن کرنے کے لیے ایک پیداوار کی مانند ہے جو کہ کیمپس میں دن کے دوران ایک شاپر میں مفت آئس کریم اور کافی کے ساتھ دی جاتی ہے۔
کسی فرد کی شناخت صرف اسی صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کہ شناخت دہندہ کسی ایسے معاشرے کا رکن ہو جس میں قوانین کی عمل داری کی شرائط وضع شدہ ہوں ۔ گویا ، تحفظ مکمل طور پر انفرادی احساس کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی طور پر یہ ان شرائط اور قوانین پر مبنی ہونا چاہیے، جن کے ذریعے لوگ اجتماعی طور پر محفوظ رہ سکتے ہوں۔ وہ حالات کہ جن میں ایک معاشرہ زندہ اور خوشحال ہو سکے۔ سیاسی جبر، فرعونیت ، بہتان اور جبری گرفتاری کا ’تحفظ کے نظریے‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس میں نسل کشی کو غلط قرار دینےکی جرأت ایک جرم ہو جس کے لیے اسے نشانہ بنایا جاتا ہو، اور اس کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جاتا ہو ،وہ ترقی کی منازل کبھی طے نہیں کر سکتا۔
غزہ کے باسیوں کی نسل کشی پر خوش ہوتے صہیونی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ درحقیقت ان کی کمیونٹی محفوظ نہیں ہے۔ فلسطین کے حامی کیمپ کی عالمگیریت کے خلاف صہیونی چاہتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اُن کی یک طرفہ یلغار کا جواز اور ان کے تحفظ کا انحصار ہماری خاموشی پر ہے۔
فلسطین کی آزادی کے حامیوں کو ’سامیت دشمن‘ اور دہشت گردوں کے حامی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں شعور بڑھنے کی وجہ سے صہیونیت نواز اب اپنی سرگرمیاں کھلے عام نہیں انجام دے سکتے ۔لہٰذا فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی سیاست پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے، صہیونی عوامی طور پر دلیل اور جواب کے میدان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چونکہ جذبات کی بحث کوئی نہیں جیت سکتا، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین کے حق کے علَم برداروں پر 'غیرمحفوظ ہونے کا الزام لگا دینے سے ان کے لیے اپنے سیاسی موقف کا دفاع کرنا آسان ہو جائے گا۔
ایک ایسی شناخت جس کو نسل کشی کی مخالفت سے خطرہ لاحق ہو، اس کا انصاف کے ساتھ تعلق ہرگز کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ’تحفظ ‘کو اپنے فیصلہ کن کارڈ کے طور پرلہرانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صہیونیت نہ صرف ایک تشدد پر مبنی نسل پرست اور قتلِ عام کرنے والا نظریہ ہے، بلکہ فکری طور پر بھی ایک جاہلانہ تصورہے۔
صہیونیت کے ہاںمضبوط دلائل کی تو کمی ہو سکتی ہے، لیکن جھوٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ البتہ ہمیشہ یہ شور و غل ضرور سنائی دیتا ہے کہ ’’فلسطین کے حامی سام دشمن ہیں، غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے، اور اسرائیل نسل پرستی پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔ لیکن جب اختلاف کیا جاتا ہے، تو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے عہدے داروں کو برطرف کر دیا جاتا ہے اور طلبہ کو اداروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مکوئیر ی (Macquarie) کے دلیر اور ذہین فلسطینی وکیل عبدالفتاح، اور سڈنی یونی ورسٹی کے علومِ سیاسیات کے ممتاز پروفیسر جان کین، اس وقت انھی وجوہ کی بناپر شدید حملے کی زد میں ہیں۔ کیمپس تو امن کے شہر ہیں مگر وہ طالب علموں اور مایہ ناز استادوں کے لیے کتنے محفوظ رہ گئے ہیں ؟ کیا سامیت نوازوں نے کبھی اس پہلو پر سوچا ہے؟
بائیکاٹ بطور تحفظِ جان
ایک طرف تو مغربی یونی ورسٹیوں کے مدبرانہ، آزادانہ، عقلیت، لبرل، ترقی پسندی اور کثیرجہتی بحثوں جیسے تصورات ہیں۔ اور دوسری طرف ہتھیار بنانے والوں، اسرائیلی لابی کے مہروں اور فلسطین دشمن تجزیہ کاروں کے ساتھ تعلقات کی استواری ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے مغرب میں پائی جانے والی حمایت کے حوالے سے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مغربی یونی ورسٹیوں کے یہ تصورات کوئی خاص فیصلہ کن کردار نہیں ادا کر تے۔یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ مغرب کی تاریخ خونریز نوآبادیاتی نظام اوردیگر جنگوں ، نسل کشی، حراستی کیمپ، تشدد، بے لگام ماحول ، انسانی تذلیل اور استحصال سے بھری پڑی ہے۔لوگوں کے درمیان تعلقات کے کسی بھی منصفانہ یا معقول تصور میں بار بار مداخلت ہمیشہ سے مغرب کا خاصہ رہا ہے۔البتہ جزوی طور پر مغرب اور اسرائیل میں یکساں طور پر یونی ورسٹیوں میں ہونے والی نظریاتی سرگرمیوں کی بدولت لبرل معاشرے کے نظریاتی تصورات کی فضا میں مغرب کی نگرانی میں بنایا گیا 'قوانین پر مبنی ضابطہ ' پھر سے اُڑان بھر رہا ہے۔
مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کی مزاحمت کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے اداروں کو ان یونی ورسٹیوں سے دور کیا جائے جوجبری قبضے، نسل پرستی اور نسل کشی کے نظام کی آلہ کار ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فلسطین کمیٹی برائے اکیڈمک اینڈ کلچرل بائیکاٹ آف اسرائیل (PACBI) کے تحت ۲۰۰۴ء سے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کو ادارہ جاتی تعلیمی بائیکاٹ میں شامل کیا جائے ، جیسا کہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔جو دیگر سول سوسائٹی ایسوسی ایشنز اور اکیڈمک ٹریڈ یونینوں کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۱۸ء سے مسلسل شائع ہونے والے اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) کے تازہ شمارے میں بائیکاٹ کے اقدامات پر اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، اور بہت سے مضبوط شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ بائیکاٹ اسرائیل میں اعلیٰ تعلیمی اداروں پر فی الواقع دباؤ ڈال رہے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پھیلنے والی وحشت کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے بائیکاٹ کی اپیل غیر مؤثر معلوم ہوتی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دینا، جب کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اعلیٰ تعلیم کی یہ بحث بے سود لگنے اور اپنی سیاسی نااہلی کا ملبہ اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے سر پر لادا جائے۔ جب ایک خونریز نسل کشی جاری ہو ، تو ایسی صورت میں یقیناً مزید ٹھوس مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادارہ جاتی اکادمی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود، اب بھی مغربی ماہرینِ تعلیم کی اکثریت کے سامنے یہ تعداد ایک اقلیت ہی سمجھی جارہی ہے۔ ماہرین تعلیم کے بائیکاٹ سے انکار کو کسی حد تک متوسط طبقے کی پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھنے کی روش کے شاندار فتنوں کے صرف ایک نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں حد سے زیادہ احتیاط، سیاسی خاموشی و موافقت شامل ہیں۔ تاہم، بعض اوقات یہ ماہرین تعلیم کے پیشہ وری کی وجہ سے پیداہو جانے والی بدگمانی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے، جو پرولتاری مقبولیت اور ادارہ جاتی احترام و خودمختاری میں کمی کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔ معاصر یونی ورسٹیوں میں ماہرین تعلیم کو بطور غیر ضروری استعمال کے تدریسی یا تحقیقی پرزے گرداننے کا سلوک، اس بات پر کم ہی حیران کرتا ہے کہ وہ ماہرین اپنے اداروں پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی صلاحیت کو کم تر سمجھتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ تباہی اس المناک نتیجے کو نمایاں کرتی ہے۔ مغربی یونی ورسٹیوں کے عملے میں فلسطین کے لیے حمایت میں معمولی اضافہ ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے مقابلے میں کوئی بہت باوزن چیز نہیں ہے، تاہم قابلِ قدر ضرور ہے۔
اکادمی بائیکاٹ نہ صرف اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور اسرائیلی معاشرے پر دباؤ ڈالنے کا ایک ضروری قدم ہے، بلکہ یہ خود مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کے خلاف مزاحمت اور اس خوش فہمی کو چیلنج کرنے کا بھی ایک موقع ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہمیشہ اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ لیکن جب بھوک، بیماری، بے سر و سامانی اور گرتے ہوئے بموں کی دہشت غزہ کے باشندوں کو اپنے مرنے والوں کا سوگ منانے تک سے بھی روک رہی ہو، تو ایسے میں علمی تجزیے کو ترجیح دینا بہت معیوب ہے ۔ یہ کام اور بھی زیادہ معیوب ہے کہ جب زیر بحث تعلیمی سرگرمی اسرائیلی یونی ورسٹیوں کی سرپرستی میں یا ان کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جا رہی ہو۔
اگر اور کچھ نہیں تو، اکادمی بائیکاٹ کی قانونی شرائط کے مطابق، اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلقات کی معطلی اس دکھاوے کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ دنیا کی غلطیاں سرکاری طور پر منظور شدہ کسی لبرل منصوبے کے تحت ٹھیک کی جا سکتی ہیں ۔اس میں مغرب اور اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے دار، ادارے کے رکن ہونے کے ناتے یکساں پابند ہیں۔ مغرب میں یہ امر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی سے زیادہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے خود کو بچانے کے لیے بھی ایک نا گزیر عمل ہے، جو یونی ورسٹیوں کو ریاستی جبر سے آزاد، حقیقی سیاسی تنقید کے مراکز سمجھتا ہو۔
(ماخذ: Overland Magazine، آسٹریلیا)
۱۹ مئی ۲۰۲۴ء کی دوپہر ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں پر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں صدر سمیت ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور دیگر اعلیٰ عہدے داران بھی سوار تھے۔ رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لینے کے بعد واپس آرہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ ’خدافرین ڈیم‘ سے تقریباً ۱۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس حادثے میں صدر رئیسی سمیت تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔ حادثے کے بعد بعض لوگ آذربائیجان کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، کیونکہ اس خطے میں یہ اسرائیل کا اتحادی ملک ہے اورماضی میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے اس کی بھر پور مدد کی تھی، جب کہ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہونے کے ناتے یہودیوں کا مخالف اور موجودہ صورت حال میں ایران کا اتحادی ہے۔
حال ہی میں خلیجی ریاست اومان میں ایران اور امریکا کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دور شروع ہوچکے تھے۔ لیکن اس ناگہانی موت کے بعد یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکا کو ان مذاکرات کی ضرورت ۱۸ ؍اپریل ۲۰۲۴ء کے بعد محسوس ہوئی، جب ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے کئی ایرانی افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی۔ دوسری چیز جو متاثر ہوئی وہ یہ کہ حالیہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کا معاملہ ہے۔ جس طرح ابراہیم رئیسی کو صدر بنایا گیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس منصب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
اومان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کی سربراہی امریکی صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے نائب وزیرخارجہ علی باقری کر رہے تھے۔ لیکن ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ کی ہلاکت کے بعد اب وہ قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔ مذاکرات تین موضوعات پر مرکوز تھے: اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی مشترکہ خواہش، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ، اور تنازعے کو خطے میں اور زیادہ پھیلنے سے روکنا___ ایک اندازہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بھی بات چیت ہورہی تھی۔
صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، ایران میں ۵۰دنوں کے اندر صدارتی انتخابات کرانا دستوری اعتبار سے لازم ہیں۔ غیر یقینی کے اس دور میں خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلے کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔
صدر رئیسی کی وفات کے بعد سب اہم مسئلہ ایران کے ۸۵ سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کا ہے۔ ایران میں یہ ایک اہم اور طاقت ور عہدہ ہے، جو ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ماہرین کی ۸۸ رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی ’گارڈین کونسل‘ کے ذریعے پہلے جانچا اور پرکھا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقت ور ۱۲ رکنی ادارہ ہے۔ یہ دستوری ادارہ انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔ ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ممکنہ امیدواروں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مگر ذرائع کے مطابق تین افراد یعنی موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر ابراہیم رئیسی کو جناب خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔ رئیسی کی موت کے تین روز بعد ہی اس اسمبلی نے ۲۱ مئی کو ایک بورڈ کا انتخاب کیا۔ جواگلے سپریم لیڈر کے لیے نام دوبارہ شارٹ لسٹ کرے گا۔
ماہرین کی اسمبلی نے جن افراد کو اس بورڈ کےلیے منتخب کیا ہے وہ ہیں، آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی، جو اس بورڈ کے مسندنشین ہوں گے۔ ان کی عمر ۹۳ سال ہے۔ آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری اس بورڈ کے نائب مسندنشین ہوں گے۔ دیگر ممبران میں آیت اللہ علی رضا عرفی، آیت اللہ محسن اراکی اورآیت اللہ عباس کعبی شامل ہیں۔ فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔
ابراہیم رئیسی سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ ۲۰۲۱ء میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا۔ بطور ایک جج، رئیسی کو ۱۹۸۸ء کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے فیصلوں اور پھر ۲۰۰۲ء میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا پُرتشدد مظاہروں اور ہنگاموں کو طاقت سے دبانے کے سبب کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مظاہرے ۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جن کے دوران مغربی میڈیا نے ہلاکتوں کے حوالے سے بہت مبالغہ آمیز اعداد و شمار دُنیا بھر میں پھیلا ئے تھے۔
صدر رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۲۳ء میں عوامی جمہوریہ چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب سے ایران کے تعلقات کو بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی عشروں سے مسلم دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی ہے کہ جس کی بازگشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اگرچہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفتگو چل رہی ہے، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔ تاہم، ابراہیم رئیسی کے تدبّر نے عرب ممالک کو قائل کردیا۔ اس مفاہمت نے یمن اور شام میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ اُمور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں بھی کھول دیں۔
یہ سب اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر ۲۰۲۳ء میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران، شام کے صدر بشار الاسد اور صدر رئیسی دونوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، اور اسرائیل کے خلاف مزید اقدامات کی وکالت کی گئی۔ رئیسی کی قیادت میں، ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ طور پر انڈیا کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں ممالک نے اس اسٹرے ٹیجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے ۱۰ سالہ معاہدے پر دستخط بھی کردیئے۔ جس کے تحت انڈیا شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے ۱۲۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان جنوری میں اس وقت سرحدی کشیدگی بڑھ گئی تھی، جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے تھے، جس میں پاکستان کے دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق حملہ میں مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغ دیئے اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی صدر ابراہیم رئیسی کی خواہش پر ایرانی وزیرخارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے، مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا۔ صدر رئیسی کے دورۂ پاکستان سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹڑی پر آگئے۔
اسی طرح اگست ۲۰۲۳ء میں انھوں نے ایران اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو حماس کی مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’’اس بات کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں‘‘۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کا نام استعمال کرکے مغربی ممالک اور امریکا کو بھی اس جنگ میں شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے، اور دُنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ جائے۔ مگر ابراہیم رئیسی کی دانش مندی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے دمشق میں ایران کے موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانش مندی سے دیا گیا۔ اس سے ایک طرف اسرائیل کو وارننگ دی، مگر جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی جانب سے مسلسل حمایت اور سفارتی و ابلاغی یک جہتی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں ایران کی قدرومنزلت اور اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر اور دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ترکیہ کے ڈرون کا کردار
ترکی کے ڈرون طیارے نے صدر رئیسی کے لاپتا ہیلی کاپٹر کو تلاش کرکے پوری دنیا کی نگاہیں ترکیہ کے تیار کردہ ملٹری ڈرون پر مرکوز کر دی ہیں۔ ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’’ایسا لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یا تو ٹرانسپانڈر نہیں تھا، یا وہ کام نہیں کر رہا تھا‘‘۔ ٹرانسپانڈر کی وجہ سے جہاز اگر حادثہ کا بھی شکار ہو جائے یا سمندر کی گہرائیوں میں بھی پہنچ جائے، تو سگنل دیتا رہتا ہے۔ جب رات کو دیر تک ریسکیو ٹیم کو کوئی سگنل نہیں مل رہا تھا، تو ترکیہ کے ڈرون کو کسی گرم چیز کے سگنل ملے۔ اکنجی ڈرون، جو کہ ۴۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو مؤثر طریقے سے سکین (جانچنے) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس نے مقامی وقت کے مطابق تقریباً ۱۲بج کر۴۵ منٹ پر ترکیہ کے شہر وان سے ایرانی فضائی حدود کو عبور کیا۔صبح ۲ بج کر۲۲ منٹ پر گرمی کے ایک منبع کا پتہ چلایا۔ جو ایک اہم اشارہ تھا، جسے ترکیہ کے حکام نے فوری طور پر ایرانی حکام تک پہنچا دیا۔ اس دریافت نے ملبے کے مقام کی توثیق کی، لیکن جب امدادی کارکن صبح ۵بج کر ۴۶منٹ پر جائے حادثہ پر پہنچے، تو وہاں کوئی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔
گذشتہ برسوں میں ترکیہ کے ڈورنز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا ہے۔جدید ترین ترک اکنجی ڈرون ۲۶ گھنٹوں تک محو پرواز رہ سکتا ہے اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے پیمانے پر ایک وسیع علاقے کے اوپر خاصی دیر تک سرچ اور ریسکیو کر سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ترین الیکٹرانک سسٹمز کی وجہ سے اکنجی کو موسم کے منفی حالات اور جنگی حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا فنی اور ٹکنالوجی کی سطح پر مقابلہ امریکی ریپر ڈرون کے ساتھ ہے۔ جو ستائیس گھنٹوں تک پرواز کرسکتا ہے اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر امریکی ڈرون زیادہ بھاری پے لوڈ نہیں لے جاسکتا ہے۔
ترکیہ کے دیگر ڈرونز نے حالیہ عرصے کی جنگوں میں شان دار کارکردگی کے مظاہرے کیے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینا کی جنگ میں اس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح لیبیا، ایتھوپیا اور یوکرین، روس کی جنگ میں بھی اس نے حریفوں کو مات دی۔ ترکیہ کی اس ڈرون ٹکنالوجی کے بانی سلجوک بائراکتر ہیں، جنھوں نے امریکا کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) اور یونی ورسٹی آف پنسلوانیہ سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے والد نے ۱۹۴۸ء میں ہوائی جہازوں کی مرمت وغیرہ کی ایک فیکٹری قائم کی تھی۔ امریکا سے واپسی پر سلجوک نے اپنے فیملی بزنس کو سنبھال کر ڈرون ٹکنالوجی کو متعارف کروایا۔
سلجوک کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے داماد ہیں۔ انھوں نے اردگان کی بیٹی سومیہ سے ۲۰۱۲ء میں شادی کی۔ اکثر مواقع پر یہ افواہیں گشت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اردگان کے سیاسی جانشین ہو سکتے ہیں، مگر سلجوک نے کئی بار اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایروسپیس انڈسٹری میں ترکیہ کو دنیا میں ایک اہم پاور بنانا چاہتے ہیں، حکومت میں شامل ہونا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ یہ ڈورن اور ان کی فروخت اب ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ تقریباً ۳۰ ممالک کو ان ڈرونز کے مختلف ماڈل مہیا کیے جارہے ہیں۔ایران میں ہونے والے المناک واقعے نے بحرانی حالات میں ڈرون ٹکنالوجی کی جنگی اور تزویراتی اہمیت کو اُجاگر کیا اور دکھایا ہے کہ کس طرح یہ بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز مشکل وقت میں ایک بڑے خلا کو پُر کر سکتے ہیں۔
فلسطین مغرب میں صحرائے سینا و بحر ابیض متوسط اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے، جہاں قدیم ترین زمانے سے ’کنعانی‘ یا ’اموری‘ قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انھی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو ’فلستینی ‘ کہا اور اس کے معنی ’شرابی،کبابی‘ کے رکھ دیئے۔ یہودیوں کے نزدیک اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی صرف یہ تھی کہ انھوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (توریت، تثنیہ ۲۳)۔ اس لیے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔
کنعانی یبوسی قبیلہ (Jebusites) بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور صرف ۱۰۴۹ قبل مسیح میں حضرت داؤدؑ اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ قبل مسیح میں پہلا حاکم ہوا، جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے کے تحت جمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ آئے، جن کا زمانہ ۱۰۰۰ -۹۶۱قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے ۹۹۰ قبل مسیح میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔صرف حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔
حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے، جن کا زمانہ ۹۶۱– تا ۹۲۲ قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’ہیکل‘ (Temple)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ اس دیوار کو مسلمان مسجد اقصیٰ کی ’مغربی دیوار‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں،جب کہ یہودی اس کو’دیوار گریہ‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کے۹۲۲ قبل مسیح میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جنوب میں ’یہودا‘ اور شمال میں ’اسرائیل‘ نامی دو ملک وجود میں آئے، جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔
حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام دونوں نے ۴۰،۴۰ سال حکومت کی، اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی (انگریز مؤرخ جفریز [JMN Jafferies Palestine- The Reality] ۔
مراد یہ ہے کہ بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق اس زمانے میں بھی اس مملکت کی لمبائی ۱۸۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۹۰کلومیٹر تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔انھوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا، جب کہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔
آشوریوں نے ۷۲۱ قبل مسیح میں پہلی بارـ ’اسرائیل‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف کھدیڑ دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسادیئے۔ یوںان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت’یہودا‘ بچ گئی تھی، جس کا صدر مقام ’اورشلیم‘ تھا۔ ۵۹۷ قبل مسیح میں نبوخدنصر (بخت نصر) نے اس دوسری یہودی حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیم (Joacqim) سمیت ۱۰ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میںنبی حضرت حزقیال شامل تھے۔ جلد ہی باقی ماندہ یہودیوں نے بغاوت کی،جس کی وجہ سے نبوخدنصر ۵۸۷ق م میںدوبارہ فلسطین آیا، اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اورباقی ماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوںسلطنت ’ــاسرائیل‘ کے ختم ہونے کے ۱۳۰سال بعد سلطنت ’یہودا‘ کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔
۵۳۹ قبل مسیح میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ کور ش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دو بارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ قبل مسیح میںدوبارہ ہیکل سلیمانی بنا۔
۶۳ ق م - ۷۰ء میں فلسطین پر رومن قبضہ ہوا۔ قبضہ پورا ہونے پر یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ء میں رومن جنرل ٹائٹس (Titus) فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ایلیا کاپیتولینابنا کرواپس گیا اور یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلاوطن کر دیا۔
۲۷۳ء میں ’انباط‘ (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔
۶۳۹ء ( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ہاتھوںفتح ہوا، جب وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصیٰ کی جگہ اس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔حضرت عمرؓ کے ہاتھوں ’العہد العمری‘ نامی وثیقہ لکھا گیا، جس میں یہودیوںکا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔
۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں، جو فلسطین پر یورپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی، کیونکہ ان کے خیال میں ’’حضرت مسیحـؑ کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ آخرکار اکتوبر ۱۱۸۷ءمیں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سال قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انھوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلاکر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ ’حی المغاربۃ‘ ۱۹۶۷ء تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھرمسمار کرکے ’دیوار گریہ‘ کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا، جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔
یورپ میں مستقل بُرے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’یہودی وطن‘ کی بات شروع ہوئی، حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ کسی علاقے ہی میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل (Herzl) نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں دوبارہ یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کیا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی ۵ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرش(Baron Hirsh) نے اس کام کے لیے پیسے دیئے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روچائلڈ (Lord Rothchild)نے بھی اس مقصد کے لیے کافی پیسے دیئے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔
اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا، جس کے بعد ’اعلان بالفور‘ کے تحت فلسطین کو یہودی ہجرت کے لیے کھول دیا گیا۔ ۶۰ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶ہزار تھی۔
برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ (Haganah) بنانے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے عملًافلسطین میں ہر طرح سے مسلح یہودی فوج تیار ہوئی، جب کہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا، جن میں ارگون ، شترن،لیہی اور اتزیل شامل ہیں۔ جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔برطانیہ کو فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میںنہیں تھا، اس لیے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا۴۴ فی صد عربوں کو اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فی صد دے دیا۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ء سے ہی ’آپریشن دالیت‘ کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لیے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دیا، تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر، اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں، جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دیئے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں، جب کہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کوقتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین کے ۷۰ فی صد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میںپناہ گزیں ہوگئے اور پھر اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔
۵جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل نےحملہ کرکے باقی ماندہ ۲۲ فی صد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحراء سیناء اورشام کی جولان پہاڑیوں(Golan Heights) پر بھی قبضہ کرلیا۔
باقی ماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا ’انتفاضہ‘ دسمبر ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۱ء کی میڈرڈ کانفرنس تک چلا ۔
’اوسلو معاہدہ‘ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدت پسندوں نے ۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نے کلین بریک (Clean Break ) نامی پلان امریکی نیوکون کی مدد سے بنوایا، تاکہ ’اوسلو معاہدے‘ کو عملاً کالعدم کیا جاسکے۔ ۱۹۹۷ء میں لیکوڈ پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا اور فلسطینی حکومت کو دیئے جانے والےعلاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا، جب کہ معاہدے کو اسرائیل نے ناکام بنایا۔ اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ء میں ’دوسراانتفاضہ‘ شروع ہوا، جو پانچ سال چلا۔
مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلین(Yossi Beilin) نے، جو ’اوسلو معاہدہ‘ کا اسرائیل کی جانب سے موجد تھا، فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کے وجود کو ختم کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب ہوجائے۔ یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوںپر مستقل قائم ہو رہی ہیں، جنھیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انھیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔
جنوری ۲۰۰۶ء میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ، امریکا اور یورپ وغیرہ نے چندمہینوں کے اندر مل کر توڑدیا اور ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کیا، جو اَب تک جاری ہے۔
غزہ پر اسرئیلی حملے ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے ۲۰۱۴ء کی جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں سب سے طاقت ور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور بڑی حدتک اپنے مطالبات منوالیے۔ اسرائیل اپنے مطالبات، یعنی راکٹ کے حملے بند کرانے ، غزہ کو اسلحے سے خالی کرانے اورسرنگوں کا خاتمہ کرانے میں ناکام رہا۔
۲۰۱۸ء میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا، جس پر اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
مارچ۲۰۱۹ء میں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹ء، نومبر۲۰۱۹ء، ۲۰۲۱ء، ۲۰۲۲ء اور مئی۲۰۲۳ء میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ء میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی، اسرائیل کے مقابلے میں فوجی برابری (deterrence) کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلی دفعہ ۲۰۲۱ء میں اسرائیل کا بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں نے انتقامی کارروائی کی اور اسرائیل کو یک طرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲ فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے ۸۰ہزار لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷ہزار رہائشی اور تجارتی مراکز تباہ ہوئے۔
اسرائیل اور امریکا کا اندازہ اور منصوبہ یہ تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کےلوگ مصر کے صحرائے سیناء کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔ لیکن غزہ کے لوگوں نے جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
غزہ میں مکمل اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سےوہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام ہسپتال تقریباً تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرائیل نےغزہ کے تقریباً ۱۳؍لاکھ لوگوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے، لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے، اب وہاں صرف ۸۰ ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں۱۵مارچ تک ۱۴۱ صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔
نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ ،دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ء سے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ ابھی اس مقدمے کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیرعرب اور غیر مسلم ملکوں ہی نے دائر کیا ہے۔ یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔
اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کیے ہیں ۔ عراق کی کچھ ملیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ یمن کی انصاراللہ حکومت نےباب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے، جب کہ یمن پر اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔
سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی برتری کا دعویٰ اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے، جو عینِ جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
قرآن پاک میں سور ۂ بنی اسرائیل کی آیات۴ تا ۸ میں بتایا گیاہے کہ یہودی فلسطین میں تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی)، ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی بار دنیا اور بالخصوص ایشیا ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلی دفعہ اسرائیل تنہا کھڑاہے۔اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے۔
یہ صدی مغرب یعنی امریکا اور اتحادیوں کے عہد ِزوال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ہرآنے والا بحران، اس کے زوال کے عمل کو تیز تر کیے چلا جارہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ اس صورتِ حال کا تازہ ترین مظہر ہے۔ مغربی اخبارات واضح گھبراہٹ کے عالم میں یہ پکارتے نظر آتے ہیں کہ ’’غزہ میں نظر آنے والے ملبے تلے کئی ہزار نامعلوم لاشوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ دفن ہوچکا ہے‘‘۔ ٹائمز میگزین میں میتھیو پیریسس نے لکھا ہے کہ ’’فلسطینی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ساکھ بھی اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ اس کا اندازہ مشکل ہے۔‘‘ ان کی یہ بات بجا، لیکن اس کو صرف اسرائیل کا مسئلہ سمجھنا ایک سطحیت ہی نہیں حماقت بھی ہے۔ سابقہ فلسطینی مذاکرات کار ’ڈیانا بٹو‘ جب کہتی ہیں کہ ’’یہ دراصل امریکا و اسرائیل کا مشترکہ حملہ ہے‘‘ تو یہ اسی حقیقت کا بیان ہے، جسے ہرلمحہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل کے کٹر حامیوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اسے حقیقی معنوں میں شکست ہو چکی ہے اور تمام تر ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔ بہت جلد دنیا کو یہ احساس ہوجائے گا کہ یہی صورتِ حال اسرائیل کو ہلہ شیری دینے والے مغربی ممالک کو بھی درپیش ہے۔
مغرب کا زوال، غزہ میں جاری تاریخی ظلم سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مغربی دائیں بازو کے نزدیک یہ زوال امیگریشن، ثقافتی تنوع، اسلام، جدید افکار، نئے جنسی نظریات، خاندانی نظام کے خاتمہ وغیرہ کو سمجھا جاتا ہے۔ لز ٹروس کی نئی کتابTen Years to Save the West،جو آزاد تجارت کے خلاف برسرپیکار نام نہاد بائیں بازو کے خلاف لکھی گئی ہے، انھی خدشات کی نمایندگی کرتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو معاملہ بڑا سادہ ہے۔ ۳۰سال قبل سویت یونین ٹوٹنے کے بعد مغربی اشرافیہ، قبل از وقت ’فتح کے نشے‘ میں مدہوش بلکہ بدمست ہو گئی تھی۔ انہدامِ دیوار برلن کے موقعے پر نیوکنزرویٹو امریکی صحافی میج ڈیکٹر کا فخروگھمنڈ اسی طرف اشارہ کرتا ہے، جس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا: ’’یہ کہنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم جیت چکے ہیں۔ گڈبائے۔‘‘
اس نام نہاد ’فتح‘سےدو نتائج اخذ کیے گئے: اوّل، ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سامنے آنے والا ’’بے لگام سرمایہ داری نظام انسانیت کی معراج ہے‘‘ جس میں بہتری کی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ امریکی دانش ور فرانسس فوکویاما نے اپنی کتابوں End of Historyاور Last Man میں بڑھ چڑھ کر ان خیالات کا اظہار کیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادی اب لا محدود طاقت کے مالک ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پوری دنیا میں تھانیداری اور داداگیری کر سکتے ہیں۔ ان کے اس غرور اور احساس برتری کا نتیجہ یونانی رزمیوں کے ہیرو کی طرح زوال کی صورت میں نکلا۔
۷۰ کے عشرے میں امریکی طاقت کو شدید دھچکا پہنچا تھا، جب دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ویت نام جنگ میں شکست کے بعد سائیگاؤن میں امریکی نمایندے افراتفری کے عالم میں ہیلی کاپٹروں پر چڑھ کر بھاگ رہے تھے۔ تاہم، اس کا مرکزی حریف سوویت یونین (اشتراکی روس) اس سے بھی زیادہ بُرے حالوں میں تھا اور کچھ عرصے بعد اس کی شکست و ریخت نے مغرب کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع دے دیا۔ اسی تناظر میں پہلی خلیجی جنگ (۱۹۹۱ء) اور سابقہ یوگوسلاویہ میں عسکری دخل اندازی کو ’لبرل دخل اندازی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے بعد ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کا المیہ ہوگیا اور انسانی کرب اور شرمندگیوں میں ڈوبی شکستوں کی ایک نئی داستان شروع ہوئی۔
افغانستان میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے بعد اگست ۲۰۲۱ء میں طالبان نے اپنی شرائط پر اس طویل جنگ کو ختم کیا، جس سے اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئے، جتنے وہ جنگ سے پہلے تھے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ۲۰۰۳ء میں کہا تھا کہ ’’عراق پر حملہ سارے شرق اوسط کو جہنم میں دھکیل دے گا‘‘ اور دنیا نے دیکھا کہ پھر یہی ہوا۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں نیٹو کی شمولیت سے یہ فتح تو حاصل ہوئی کہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کا تختہ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں اُلٹ دیا گیا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج یہ ملک خانہ جنگی سے تباہ حال ، ناکام ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس ساری مہم جوئی کے نتیجے میں صرف مغرب کی عسکری بالادستی کا ہی دھڑن تختہ نہیں ہوا ہے، بلکہ اس دوران عالمی قوانین اور ضابطوں کو جس طرح روندا گیا، اس نے دوسری ریاستوں کو بھی ایک عالمی بدنظمی کی راہ دکھا دی ہے۔ براؤن یونی ورسٹی، امریکا کی تحقیق کے مطابق: ’’نائن الیون کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگوں میں تقریباً ۴۵لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ان جنگوںمیں ہونے والی خون ریزی اور گوانتانامو بے یا ابو غریب میں ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں نے دنیا بھر میں مغرب کے اخلاقی برتری کے دعوے کو بہت نقصان پہنچایا‘‘۔ اس نقصان کو روسی صدر ولادی میرپیوٹن جیسے کچھ لوگوں نے اپنی جارحیت کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ میں جاری قتل عام میں اپنے کردار کے ساتھ ساتھ مغرب کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس نے کیونکر وہ حالات پیدا کیے، جن سے پیوٹن جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوکرین پر جارحانہ حملے کی ذمہ داری پیوٹن حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ امریکا بہرحال واحد ریاست نہیں ہے، جو دنیا میں بدامنی اور تباہی برپا کر سکتی ہے۔ لیکن کیا بات یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ کیا امریکا اور مغربی دنیا کی جانب سے روس کو برآمد کیا گیا ’نیو لبرل معاشی نظریہ‘ اس تباہی میں حصہ دار نہیں ہے؟ بلاشبہہ پیوٹن ازم نے سرد جنگ کے خاتمے پر روس میں پیدا ہونے والی مایوسی سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک نے ’’Economic Shock Therapy‘‘ کے نام پر روسی معاشی نظام سے بے جا چھیڑچھاڑ کی ہے، جس کا نتیجہ ’’عظیم معاشی بحران‘‘ سے بھی بڑے بحران کی صورت میں نکلا، اور ناقابل برداشت مہنگائی، اوسط عمر میںاچانک کمی اوراشرافیہ کی لُوٹ مار نے روس کو اس حال تک پہنچا دیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک مستحکم روس، پیوٹن جیسے ڈکٹیٹر کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا تھا۔
اس تباہ کن معاشی نظام نے نہ صرف روس کو غیر مستحکم کیا بلکہ مغربی لبرل جمہوریتوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس بے لگام سرمایہ داری نے براہ راست ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کی بنیاد رکھی، جس سے مغرب آج تک نکل نہیں سکا۔ بہت سے مغربی ممالک نے کفایت شعاری کے ایسے منصوبے شروع کیے، جن کا نتیجہ معاشی جمود اور زوال کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ صورتِ حال دائیں بازو کی آمریت کے لیے موزوں ترین سمجھی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دائیں بازو کی تحریک شروع ہوئی، جو خود امریکی جمہوریت کے لیے ہی چیلنج بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں لبرل جمہوریت زوال پذیر ہے اور آمریت اس کی جگہ لے رہی ہے۔ ایک مثال ہنگری کی بھی ہے جس پر یورپی یونین بہت چیں بہ جبیں ہوتا ہے، لیکن کچھ کر نہیں پاتا۔ یورپ کے اکثریتی ممالک میں انتہائی دایاں بازو واپس آ رہا ہے، جو اس براعظم کے لیے نیک شگون نہیں سمجھا جا سکتا۔
دیوار برلن کے انہدام پر مغربی اشرافیہ کا جشن منانا درست نہیں تھا۔ آج تین عشرے گزرنے کے بعد ان کے غرور کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور دنیا خاک و خون میں غرق ہورہی ہے۔ غزہ کی صورتِ حال مغربی ساکھ کی تباہی کا بدترین خونی استعارہ ہے۔ زیادہ تر دنیا پہلے ہی مغرب کی اخلاقی برتری کے دعوؤں کی حقیقت جان چکی تھی، لیکن اب کی بار واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارا اخلاقی زوال مکمل ہو چکا ہے، کیونکہ ساری مشرقی دنیا اب اسرائیل کو بچانے والوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔
صورتِ حال اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ مغرب کی سابقہ ناکام مہم جوئیوں کا حساب ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ حکومتی وزرا سے لے کر جنگ پر اُکسانے والے تجزیہ کاروں تک، تمام لوگ ہر قسم کے خونی ایڈونچر کے بعد بھی نہ جانے کس طرح اپنی پوزیشن پر موجود رہے ہیں۔ دوسری طرف ان تباہ کن فیصلوں کی مخالفت کرنے والے معاملہ فہم لوگوں کو عزّت کے بجائے رسوائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ اگرچہ تاریخ نے انھیں ہر دفعہ درست ثابت کیا،لیکن آج بھی ایسے لوگوں کو بڑی آسانی سے ’شدت پسند‘ یا ’غدار‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہم چاہتے تو ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دے سکتے تھے، جو صرف چند لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں دنیا کی ساری دولت اکٹھی کرنے کے بجائے اس کی عادلانہ تقسیم کا ضامن ہوتا۔ اسی طرح ہم چاہتے تو اسرائیل کے ظالمانہ حملے کی حمایت نہ کر کے اپنی ساکھ کو بچا سکتے تھے۔ صدافسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ یہ گذشتہ چند برس ہمارے لیے بڑے تکلیف دہ اور تھکا دینے والے ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن انتظار کیجیے، زوالِ مغرب کے کئی مرحلے ابھی آنا باقی ہیں۔
۱۹۹۰ء سے بھارتی مسلح افواج نے کشمیر کے آزادی پسند عوام کے خلاف دہشت گردی کا راج مسلط کر رکھا ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ ۱۶ سے زیادہ بنیادی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس جائز، قانونی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ مطالبے کے جواب میں بھارتی قابض فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے نوجوانوں سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کشمیری مسلمان خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ غیرجانب دار اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق ۱۰ہزار سے زائد افراد لاپتا ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں ہندستانی دانش وروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بڑی تگ و دو کے بعد اجتماعی قبریں دریافت کیں، لیکن مزید تلاش ترک کردی گئی ہے کیونکہ ان اجتماعی قبروں کی تلاش میں ملوث افراد کو ہندستانی حکام نے گرفتار یا ملک بدر کر دیا۔
بھارت نے پیلٹ گن کا بے دردی سے استعمال کیا ہے اور اس وحشت کاری میں ۹ سال کی عمر کے کمسن کشمیری بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ ایسے متاثرین میں سے سیکڑوں بچّے نابینا ہو چکے ہیں۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے، نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو نسل پرست حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور اے-۳۵ کو منسوخ کردیا ہے۔ اس کے بعد غیر کشمیریوں کو ملازمتیں حاصل کرنے اور مقبوضہ وادی میں جائیداد خریدنے میں سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد سے، لاکھوں آرایس ایس کے عسکریت پسند ہندوؤں کو کشمیر پہنچایا گیا ہے اور انھیں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔
مقدس مقامات کی زیارت کے بہانے روزانہ ہزاروں ہندوؤں کو کشمیر لے جایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں سے (سیکورٹی ایشوز کی آڑ میں) بہت بڑی اراضی ضبط کی جا رہی ہے، تاکہ باہر سے آنے والے ہندوؤں کے لیے بستیاں بنائی جا سکیں۔ اصل کھیل اور منصوبہ تو یہاں پر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور انھیں روزگار، جائیداد اور عزّت و احترام اور تحفظ سے محروم کرنا ہے۔
نوجوانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور فوج کے سرچ آپریشن کے دوران انھیں گرفتار کر کے فوجی کیمپوں میں لے جاکر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، معذور کیا جاتا ہے یا پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان کے لواحقین اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اگر وہ ان کی لاشیں حاصل کرسکیں۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں مظالم میں اضافے کا حوصلہ ملا ہے۔ کشمیر کے بے بس عوام آزادی پسند لوگوں سے التجا کررہے ہیں کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کے حق میں آواز بلند کریں، چاہے وہ واشنگٹن ہو، لندن ہو، برسلز ہو، پیرس ہو، ٹوکیو ہو یا کوئی اور۔
کشمیر کا المیہ فلسطینیوں کے المیے کے مترادف ہے اور کئی صورتوں میں اُن سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال پیش کرتا ہے۔ کشمیری اور فلسطینی اپنے حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کرانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں او ر انتہائی جارحیت پسند ریاستوں کے ہاتھوں کچلے جارہے ہیں۔ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جب اسرائیل غزہ پر بے دردی سے مسلسل فضائی حملے کر رہا تھا، ہندستان میں اسرائیل کے سفیر، نور گیلن نے ایشین نیوز انٹرنیشنل کو بتایا کہ انھیں ہندستان میں لوگوں کی طرف سے اتنی زیادہ حمایت ملی کہ وہ صرف ہندستانی رضاکاروں سے ایک اور اسرائیلی فوج کو بھرتی کرسکتے ہیں: ’’ہر کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ 'میں رضاکارانہ طور پر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں، میں اسرائیل کے لیے لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس نے کہا: ’’ہندو قوم پرست کھلے عام اور زوروشور سے اس بات پر جشن مناتے ہیں کہ جو کچھ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے‘‘۔ نسل پرست بی جے پی کے کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل ہمیں نسلی تطہیر کا سبق دے رہا ہے کیونکہ ہم کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ہندو جنونیوں کو بھارتی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے، خواتین کی عصمت دری کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے بھیجیں گے کیونکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ یہی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔(دی یروشلم پوسٹ، ۲۱جنوری ۲۰۲۴ء)
قانون کے پروفیسر ڈاکٹر خالد ابو الفضل نے Usuli انسٹی ٹیوٹ چینل پر یو ٹیوب لائیو سٹریم میں کہا کہ ’’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین قتل عام میں سے کچھ حملے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے ہندستانی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے ہیں‘‘۔ اس بات کا انکشاف میموری ٹی وی نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔معروف اخبار ہارٹز (Haarretz) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل، بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے‘‘۔ ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے اداروں کے مطابق، بھارت اسرائیلی ساختہ اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، جو ہرسال ایک بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جس میں آنے والے برسوں میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کشمیر اور فلسطین کے لیے شدید خطرہ ہے۔ یہ دونوں ممالک توسیع پسندی اور اپنی مقبوضہ سرزمین کی مسلم آبادی کو ختم کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جیو اسٹرےٹیجک مفاد ہے۔ ہندستان اور اسرائیل کا اتحاد ان کے غیراخلاقی اسلاموفوبیا نظریہ کی بنیاد پر بڑے عالمی تنازعات کا ایک مضبوط نسخہ ہے، اور دونوں ممالک بین الاقوامی معاہدوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ دونوں ممالک کی طرف سے عالمی سطح پر پروپیگنڈا ایجنسیوں کو وافر مقدار میں فنڈز فراہم کیے گئے ہیں، جن کا واحد کام اسلام کی تصویر کو مسخ کرکے دُنیا کے لیے اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنا اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردانہ تحریکوں کے طور پر پیش کرنا ہے۔
بہ بات بہت تشویش کا باعث ہے کہ بار بار یہ خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ اسرائیلی ایجنٹ اکثر کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں اور مغربی کنارے کی طرز کی بستیوں کو بڑھانے اور خطے کے اکثریتی کردار کو تبدیل کرنے کے بارے میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے بھارت جارحانہ انداز میں اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور لاکھوں ہندو شدت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ ان دونوں غاصب اور جارح ملکوں کی ڈھٹائی پر مبنی اور کھلم کھلا مجرمانہ سرگرمیاں، اقوام متحدہ کی عالمی طاقتوں کے زیراثر کمزور پالیسی اور جانب دارانہ روش کا نتیجہ ہے، کہ جو اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔اس وقت اسرائیل فلسطینیوں کی بے دریغ نسل کشی میں ملوث ہے۔ بالکل اسی انداز سے انڈیا بھی کشمیر میں اقدامات کرتا آرہا ہے۔
مسلم دنیا اور دیگر تمام امن پسند یہودی اور عیسائی ان وحشیانہ اقدامات کے خلاف احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ بڑے مسلم ممالک کے حکمران اپنے عیش و عشرت یا ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے میں الجھے ہوئے ہیں اور فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ اس موقعے پر، امن پسند شہریوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی عوام کا ساتھ دینا بالکل جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مشکلات کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، ہندستانی مسلح افواج کے ہاتھوں کشمیر میں ہزاروں افراد کا قتل عام، عصمت دری اور بڑی تعداد میں لوگوں کو معذوری سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور بھارتی فوج سزا سے بریت اور کسی پکڑ دھکڑ کے خوف سے بے نیاز ہوکر قتل، عصمت دری، لُوٹ مار اور املاک کو تباہ کر سکتی ہے۔ غزہ کے معصوم لوگوں کی آہیں اور چیخ پکار کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد دلانا چاہیے کہ کشمیری بھی انڈین قبضے کے ہاتھوں اسی طرح کی اذیتوں سے گزر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ غزہ میں عالمی میڈیا کی محدود رسائی کے باوجود کچھ نہ کچھ خبریں باہر نکلتی رہتی ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو میڈیا کی صورتِ حال اس قدر مخدوش ہے کہ نیویارک میں قائم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق کشمیر میں نیوز میڈیا ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔
بلاشبہہ ہمیں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی غیر متزلزل اور بے دریغ حمایت کرنی چاہیے۔ ہم کشمیر پر اپنی آواز کو پست نہیں کر سکتے کہ جہاں مسلم آبادی کو نیست و نابود ہونے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ آئیے ہم جنوری ۲۰۲۲ء میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنی گواہی کے دوران ’جینوسائیڈواچ‘ کے چیئرمین ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی جانب سے دی گئی اس وارننگ پر توجہ دیں کہ ’’کشمیر نسل کشی کے دہانے پر ہے‘‘۔
یہ ۲۰۱۴ء کی بات ہے، انڈیا کے عام انتخابات کو کورکرنے کے لیے مَیں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی منیجر کے کمرے میں قصبے کے سیاسی کارکن اور دانش ور شام کو جمع ہوتے ہیں، جہاں ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول جاننے کے لیے میں بھی ان کے کلب میں پہنچا۔
نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو یا نہ ہو، مگر دارلحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اس کا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ اس کلب نما کمرے میں، پُرتپاک انداز سے میرا استقبال ہوا۔ ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ ’’اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں، تو بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں آیندہ انتخابات کے لڑنے کا طریق کار ہی بدل جائے گا‘‘۔ مزید کہا: ’’یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے‘‘۔ دراصل ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، مودی نے بہت سی افواہیں اور آدھا سچ پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس نئی انتخابی حکمت عملی کے خالق تو بی جے پی کے لیڈر اور مودی کے گورو کیشو بائی پٹیل ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۵ءمیں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا، جس کے لیے برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بڑی تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے۔ انتخابی مہم کے دوران وہ کیم کارڈرز ہاتھ میں لیے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ ان کارڈوں نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی انتخابی مہم میں بھنگ پڑگئی اور تب سے اب تک اس صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
اسی طرح انتخابات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک شہری پرشانت کشور نے ایک انتہا تک پہنچادیا۔ موصوف اقوام متحدہ کے صحت عامہ پراجیکٹ میں کام کرنے کے بعد ملک میں واپس آئے تھے۔ انھوں نے سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلاکر براہِ راست عوامی ذہنوں کو متاثر کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ ان کی پہلی محدود مہم ۲۰۱۲ء میں اس وقت رُوبہ عمل آئی تھی، جب مودی، گجرات صوبہ کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ ایک بار کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مجھے بتایا تھا: کشور میری دریافت تھی جنھیں بھارت واپس آکر اپنے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
کشور نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر مودی کے لیے کام کرکے قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد الگ ہوکر بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کے لیے کام کرکے بی جے پی کو ہروا دیا۔
پرشانت کشور کے دوست شیوم شنکر سنگھ نے کتاب How to Win an Indian Election? میں ایسے طور طریقوں کو بیان کیا ہے،جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بنایا گیا تھا۔ پھر آن گراؤنڈ اور آن لائن مہم کے مؤثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف ایک بھرپور منفی فضا پیدا کی گئی۔ ایسی فضا شاید ہی خودبخود بنتی ہو۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بڑی محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے، جسے جدید ٹکنالوجی نے آسان بنا دیا ہے۔
شیوم سنگھ نے پرشانت کشور سے الگ ہوکر اپنی تمام مہارت بی جے پی کے سپرد کردی۔ سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۱۸ء میں شمال مشرقی صوبہ تری پورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا قرار دیا گیا، جو اس صوبہ پر ۲۵برسوں سے بر سر اقتدار تھے۔ ۲۰۱۳ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض ۱ء۵۴ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار نے ایک سادہ آدمی کی حیثیت سے صاف ستھرے اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنا رکھی تھی۔ یہ انتخابات دو مخالف نظریاتی دھڑوں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی، نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دیے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر ایک موبائل ایپ پر بھی کام کیا، جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ صوبہ کے قبائلی، کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ اس ناراضی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ حرکت میں لایا گیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کردیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے اُٹھا کر ۳۶ فی صد تک پہنچا دیا۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے سے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کیڈر کی طاقت موجود ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں ووٹر لسٹ کے ایک ایک صفحے پر انچارج تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ انچارج ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں درج کرادیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس سے دستیاب رہتا، جنھوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کررکھا ہوتا ہے۔
بھارت میں اس وقت ۵۳۵ملین واٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کے مطابق مغربی ممالک کے برعکس بھارت میں دیہات کے سفر میں احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انھیں کسی قسم کی اندرونی معلومات یا طاقت کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، تو اس سے ان کو لگتا ہے کہ وہ مؤثر لوگوں کے قریب ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں کسی معروف سیاسی لیڈر یا ورکر کے خلاف غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اس کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جھوٹے پراپیگنڈا کو پھیلانے کا یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ۲ستمبر ۲۰۱۸ء کو، ایک ٹویٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی ، جس میں لکھا کہ ’اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے‘۔ ایک اداکارہ نے ۹۸ لاکھ فالوورز کے ساتھ اس خبر کو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ ’’جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوؤں کے ایک طبقہ کے لیے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں‘‘۔اس کے بعد خدا کی پناہ، سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بدترین بازار گرم ہوگیا۔ ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ ’’یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا ، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی نے اس کی پٹائی کی‘‘۔یعنی اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو کلپ نے اُس وقت تک اپنا کام کر دیا تھا، تردید پڑھنے کی بھلا کسے فرصت؟
سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’علاقائی پارٹیوں کو شکست دینے کے لیے ، بی جے پی نے ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے لیے بابری مسجد ، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ کتاب کے مطابق: ’’بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے، جو ہندو مقاصدکی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے‘‘۔ یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا انتخابی اور نسل پرستانہ برانڈ ہے۔
۲۰۱۷ء کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر ۴۰۰ میں سے ۳۲۵ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے، جو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیراعظم نریندرا مودی نے خود ان کے لیے ’اربن نکسل‘ اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈے پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے عملی مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی ’گائے‘ اور ’پاکستان‘ کو وہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں کیش کرا چکی ہے ۔ اب لے دے کے ۲۰۲۴ء کے لیے ’مسلمان‘ بچا ہے۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈے کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو کرناٹک کے حالیہ صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا،جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا ۔ یاد رہے مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے ، تاکہ خلیجی مسلم ممالک میں اپنی پارٹی کی شبیہہ کو تبدیل کرنے میں کامیابی ہو۔
تاہم، ابھی اچانک راجستھان میں نریندرا مودی نے جیسی زبان استعمال کی ہے، اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، وہ سارے اندیشوں کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ نفرت انگیز جملے بولتے ہوئے موصوف نے کہا ہے :’’اگرکانگریس اقتدار میں آئی تو وہ بھارت کی دولت ’دراندازوں‘ میں تقسیم کردے گی، جو زیادہ سے زیادہ بچّے پیدا کرتے ہیں‘‘۔ مودی کی اس بات پر جلسے میں زوردار نعرے بلند ہوئے، تو نریندرا مودی نے جوش میں آکر یہ کہا:’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی محنت کا کمایا ہوا پیسہ دراندازوں کو دے دیا جائے، کیا آپ یہ قبول کرو گے؟‘‘کہنے کو تو یہ ایک دو جملے ہیں، لیکن زہر کی تلخی بڑھانے کا بڑا مؤثر ہتھیار بھی ہیں۔ اس چیز نے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں انڈیا کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جارہا ہے۔ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ بی جے پی کی توقعات کے برعکس نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ اس لیے اب ان کو لگتا ہے کہ لازمی طور پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔
فرانسیسی سیکولرزم کے تحت ۲۰۰۰ء کے اوائل میں، میں نے تحریک آزادئ نسواں سے وابستگی کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے حقوقِ نسواں کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت سیکولرزم کے نام پر ایک قومی بحث چل رہی تھی کہ ’’کیا سیکولر سرکاری اسکولوں میں مسلم طالبات کو سر ڈھانپنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟‘‘ مہینوں کی بحث کے بعد، مارچ ۲۰۰۴ میں، فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کرکے ’ہیڈ اسکارف‘ پر پابندی عائد کر دی۔ اسکولوں میں ’’ایسی علامتیں یا ملبوسات جو طالب علموں کی مذہبی وابستگی کو واضح کرتی ہوں‘‘ کا پہننا غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
اس وقت میں نے محسوس کیا کہ یہ فیصلہ تحریکِ حقوقِ نسواں کے حلقوں میں کافی مقبول ہے، بشمول اس سفید فام گروہ کے، جس کا میں حصہ تھی۔ بہت سے سفید فام حقوقِ نسواں (Patriarchy) کی علَم برداروں (Feminists)کا خیال تھا کہ ان کا مشن مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو اسلام سے جڑے اس خاص قسم کے پدرانہ برتری کے نظام سے نجات دلانا ہے ۔ اگر مسلم خواتین اس پدرانہ جبر کو برداشت کر رہی ہیں، اور حجاب پہننے کے معاملے میں ان کی اپنی کوئی مرضی یا آزادی نہیں ہے ،جس سے میں اختلاف کرتی ہوں، تو انھیں اسکولوں سے دور رکھنا کس طرح انھیں بنیادی حقوق تک رسائی دینے میں مدد کرے گا؟ میں نے یہ نقطۂ نظر اپنایا کہ ان کے تجربے کی وضاحت ثقافتی تسلط (cultural domination) کی عینک سے کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خواتین اور لڑکیاں اپنے لیے خود کیا چاہتی ہیں؟
۱۹۰۵ء کا قانون، جس نے سب سے پہلے فرانس میں لادینیت /سیکولرزم کا اصول قائم کیا، آزادی کی ضمانت کے بارے میں تھا۔ اس نے بلا کسی عقیدے کی تفریق کے چرچ اور ریاست کی علیحدگی، فرانسیسی شہریوں کی مذہبی آزادی، اور قانون کے سامنے تمام شہریوں کے احترام کے نظام کو قائم کیا۔ سیکولرزم نے فرانسیسی ریاست اور قومی اداروں پر غیر جانب داری نافذ کی، لیکن شہریوں سے ذاتی غیر جانب داری کا مطالبہ نہیں کیا۔ مگر پھر ایک سو سال بعد ۲۰۰۴ءمیں سیکولرزم کے اصول کی تفہیم میں ایک اہم موڑ دیکھا گیا، جس میں ریاستی اسکولوں میں جانے والوں سے مذہب کے بارے میں غیر جانب دار رہنے، یا کم از کم اپنے عقائد کے بارے میں محتاط رہنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تعلیم ہی وہ واحد عوامی محکمہ تھا، جس پر ۲۰۰۴ء کا یہ قاعدہ لاگو ہوا۔
نائن الیون کے بعد، بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے تناظر میں، فرانس کے عوام کی اور میڈیا اور سیاسی طبقے کی یہ رائے بن گئی کہ مسلمانوں کے شناختی وجود (visibility) پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ طالب علموں کو ان قومی تعلیمی اداروں کی طرف سے تحفظ حاصل ہونا چاہیے، جس میں وہ شرکت کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انھوں نے خود کو کس طرح پیش کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے اصول نے ترقی کر کے یہ مطالبہ بھی شامل کر لیا کہ لوگ مذہبی عقیدے کو مکمل طور پر نجی رکھیں، جب کہ ۲۰۰۴ءکا قانون تمام ’نمایاں‘ مذہبی علامتوں پر پابندی کے لیے بنایا گیا تھا، جس میں عیسائی صلیب بھی شامل تھی۔ لیکن یہ تو محض ایک حوالہ تھا، جب کہ عملی طور پر اس نے اسلام کے اظہار کو ہی نشانہ بنایا۔ اس طرح اس قانون نے پچھلے ۲۰ برسوں میں بے لگام اسلاموفوبیا کے تعاقب کے دروازے کھولے، جس کی علامتی اور متعین شناخت مسلم خواتین اور لڑکیوں کی ظاہری شکل میں کی گئی۔
۲۰۲۳ءمیں میکرون کی فرانسیسی حکومت نے ریاستی اسکولوں میں ’عبایا‘ (لمبے بازو والا لباس) پر ایک اور پابندی، وضاحت کیے بغیر، شامل کر دی، جس سے اسکولوں کو من مانے احکامات صادر کرنے کی گنجایش ملی۔ لمبے لباس اور عبایہ میں فرق بتانا مشکل ہے۔ بہت سی مسلمان لڑکیاں اور خواتین عام دکانوں پر بکنے والے ملبوسات سے جسم کو ڈھانپتی ہیں۔ لہٰذا، یہی لباس ایک مسلمان لڑکی کے لیے مذہبی سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک غیر مسلم کے لیے آزادانہ طور پر قابلِ قبول تصور کیا جاتا۔ یہ نسلی امتیاز (Racial Profiling)نہیں تو کیا ہے؟
۲۰۱۱ءمیں عوامی و سرکاری مقامات پر اپنے چہرے کو ڈھانپنا غیرقانونی قرار دیا گیا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ اس عمل سے صرف برقعوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۶ء میں میونسپلٹیوں نے عوامی تالابوں اور ساحلوں میں ’برکینی‘ (burkini: یعنی پیراکی کے وقت پورے جسم کو ڈھانپنے والا لباس) پہننے پر پابندی لگانا شروع کی۔ اس حکم کے خلاف درخواست بھی عدالت میں ۲۰۲۲ء میں مسترد ہوگئی۔
حجاب پہننے والی خواتین کھلاڑیوں کو ٹیموں سے خارج کر دیا گیا،اور ان کے کھیلنے پر پابندی لگادی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں فرانسیسی کھلاڑی اپنے ملک میں حجاب نہیں پہن سکیں گی، وہیں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے قوانین دوسرے ممالک کی خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت دیں گے۔
سرکاری محکموں کے برعکس، نجی ملکیت کے کاروبارسیکولرزم کے قوانین کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن بہت سےاُلجھن کے شکار لوگ ان کو بھی ان قوانین کا پابند سمجھتے ہیں، جس کا مظہر اسٹراسبرگ شہر میں جوتوں کی دکان پر کام کرنے والی ایک با حجاب عارضی ملازمہ کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک میں یہ رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سیکولرزم، جو آزادی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، وہی ہراساں کرنے، ذلیل کرنے اور متعصبانہ سلوک کرنےکا ذریعہ بن گیا ہے۔
غیر یورپی خواتین کے ساتھ اس طرح کا سرپرستانہ سلوک (Patronising) اور ان کے ’تسلیم کرنے‘ (Submission) کے بارے فرضی گمان کی نفسیات فرانسیسی نوآبادیاتی دور سے جا ملتی ہے۔ نوآبادیاتی الجزائر کی خواتین کی عوامی نقاب کشائی کی تقریبات، فوج نے ۱۹۵۰ کے عشرے میں اس لیے کی تھیں تاکہ ’یکسانیت‘ (Assimilation) ’تسلیم‘ (Submission) اور ’تہذیب‘ (Civilisation) کو وہاں فروغ دیں۔ عورتوں کی نقاب کشائی کا عمل نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کے جسموں پر کنٹرول جمائے رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔
MeToo [’میں بھی نشانہ بنی‘]کے دورکے بعد، ایسے اقدامات جو خواتین کی ’جسمانی خودمختاری‘ پر حاوی نظر آتے ہیں، کھلی مذمت کے مستحق ہیں۔ خواتین کو یہ انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جسم کو کس طرح ڈھانپنے کا انتخاب کریں یا نہ کریں۔
مگر مذہبی نشانات کی کھوج کی خواہش نے مسلمانوں کے لیے عدم برداشت کی فضا پیدا کردی ہے، جو خواتین کو نشانہ بنانے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ داڑھیوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اور ایک مسلمان شخص کی پولیس میں بھرتی کی درخواست اس لیے مسترد کی گئی کیونکہ اس کی پیشانی پر کثرتِ سجود سے نشان بنا ہوا تھا۔ ابھی حال ہی میں، فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو رمضان میں روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ وہ ثقافتی طور پر ’ضم‘ (assimilate) ہوجائیں یا عوامی حلقوں سے دُور رہیں۔ یہ کوئی بڑی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مسلم افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد فرانس چھوڑ کر جا رہی ہے۔
حال ہی میں پیرس کے ایک ہائی اسکول کے پرنسپل نے آن لائن، دھمکیاں موصول ہونے پر ملازمت چھوڑ دی جب ایک طالبہ کے ساتھ اس بات پر چپقلش ہوئی کہ وہ نقاب اتار دے۔ طالبہ جس کی عمر ۱۸سال سے زیادہ تھی، نے یہ الزام لگایا کہ اس پر جسمانی حملہ کیا گیا، مگر عدالت نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اس معاملے میں وزیراعظم گیبریل اٹل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست پرنسپل پر بدسلوکی کا جھوٹا الزام لگانے پر طالبہ پر مقدمہ دائر کرے گی‘‘۔
۲۰ سال گزرنے کے باوجود نقاب پر پابندی اور مسلم لباس کے لیے عدم برداشت کی شکل میں فردِ جرم عائد کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اسکولوں کو ابھی تک اس قانون کے نفاذ میں مشکل پیش آرہی ہے۔ بہت سے مسلمان اسے امتیازی سلوک سے تعبیر کرتے ہیں جو اکثر اس حد تک تناؤ کی شکل اختیار کرجاتا ہے کہ اکثر حکومتی مداخلت کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اپنی جگہ یہ قانون ایک صریح ناکامی ہے۔
مثبت خبر یہ ہے کہ مسلمان اور خاص طور پر مسلم خواتین نے گذشتہ ۲۰ برسوں میں نت نئے مزاحمتی طریقے تلاش کیے ہیں۔ انھوں نے مختلف تنظیمیں بنائی ہیں جیسا کہ:’Lallab‘ ، جو مسلم خواتین کے بارے میں بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے۔ پھر ’Mums are All Equal‘ ،جو حجاب پہننے والی ماؤں کو اپنے بچوں کی سکول کی زندگیوں میں شامل ہونے کی حمایت کرتی ہے، اور Les Hijabeuses ، حجاب پہننے والی خواتین کی فٹ بال ٹیم۔
خوش قسمتی سے، نوجوان نسل سیکولرزم کے مسخ شدہ تصور کو مسترد کر رہی ہے۔ اُمید ہے کہ وہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کر پائیں گے جو ہر شہری کے لیے خوش آیند اور اسے خوش آمدید کہنے والا ہو، چاہے وہ کچھ بھی اپنا سر ڈھانپنے کے لیے انتخاب کرتے ہوں۔ جب یہ ہدف حاصل ہو جائے، تب ہی یہ ملک ایک مستند آزاد فرانسیسی معاشرہ سمجھا جائے گا۔
محترم صدر بائیڈن! میں آپ کو دوسری بار خط لکھ رہی ہوں۔ پہلی بار آپ کو ۴نومبر کو خط لکھا تھا، جب میری قوم کے ۴۷؍ افراد بشمول میرے اپنے خاندان کے ۳۶؍ افراد کو اسرائیلی قابض افواج کے ایک ہی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل عام غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں واقع خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ہوا، جہاں آپ کے اتحادی اسرائیل کے دعوے کے مطابق لوگ ’محفوظ‘ تھے۔
مجھے یقین نہیں کہ میرا پہلا خط آپ تک پہنچا، یا آپ کی میڈیا ٹیم نے آپ کو اس کے مندرجات سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے آپ کی واضح حمایت، بشمول بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد سے آپ کی مدد سے اس طرح کے بہت سے قتل عام کیے جا چکے ہیں۔اس خط کو لکھنے کے بعد، میں نے اپنے ہی خاندان کے مزید ۲۲۰؍ افراد کو کھو دیا ہے۔
صرف ایک ماہ قبل، ۳۱ جنوری [۲۰۲۴ء]کو، میرے والد کے کزن، ۴۰ سالہ خالد عمار، جو خان یونس میں بے گھر ہو گئے تھے، اپنے پورے خاندان کے ساتھ جس جگہ پر مقیم تھے، اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں خالد کی اہلیہ ۳۸ سالہ مجدولین، ان کی چار بیٹیاں، ۱۷ سالہ ملک، ۱۶ سالہ سارہ، ۹سالہ آیا اور ۷ سالہ رفیف اور ان کے دو بیٹے، ۱۴سالہ اسامہ اور دو سالہ انس سب کے سب اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں خالد کا معذور بھائی ۴۲ سالہ محمد اور ان کی والدہ ۶۰سالہ فتیہ بھی شامل ہیں۔ ان کی لاشیں ایک ہفتے سے زائد عرصے تک بے گوروکفن پڑی رہیں۔ خالد کے زندہ بچ جانے والے بھائی، ۳۵ سالہ بلال نے فلسطینی ریڈ کراس سوسائٹی کو مدد کے لیے بار بار فون کیے، لیکن وہ بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیم روانہ نہیں کر سکے کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے انھیں جانے کی اجازت نہیں دی۔
مجدولین اور اس کی دو جوان بیٹیاں، رفیف اور آیا، گذشتہ موسم گرما میں مجھ سے ملنے آئیں، جب میں غزہ گئی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ رفیف میری سب سے چھوٹی بھانجی راشا کی موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ وہ سڑک پر دوڑتے ہوئے، وہ کینڈی کھاتے تھے جو انھوں نے میرے کزن، اسد کی دکان سے خریدی تھی۔ ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
لیکن جناب صدر!آج کوئی آیا، کوئی رفیف، کوئی اسد نہیں، جسے اسرائیلی فوج نے اس کے بیوی بچوں، ماں، دو بہنوں، بھابھی اور ان کے بچوں سمیت مارا تھا۔ یہاں اب سڑکیں نہیں، گھر نہیں، دکانیں نہیں، قہقہے نہیں۔ صرف تباہی کی بازگشت اور تباہی و بربادی کی بہری خاموشی ہے۔
خان یونس پناہ گزین کیمپ کا رہایشی علاقہ جس میں مَیں پلی بڑھی، آج ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ دسیوں ہزار پناہ گزین، بشمول میرے خاندان کے باقی زندہ بچ جانے والے افراد، اب المواسی اور رفح میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ وہ خیموں میں رہتے ہوئے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
صدرصاحب! ان سے میری کوئی بات چیت نہیں ہوئی، اس لیے کہ اسرائیل نے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔ ۱۰فروری کو میرا بھتیجا ۲۳سالہ عزیز، خطرے کے باوجود تین کلومیٹر پیدل چل کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے رفح کے کنارے پہنچا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کئی بار موت ان کے پاس سے گزر چکی ہے، لیکن ابھی تک وہ زندہ ہیں۔ وہ بھوکے، پیاسے اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے باوجود کہ اسرائیل کو غزہ تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، وہاں نہ کوئی طاقت ہے، نہ صفائی، نہ ادویات، نہ مواصلات، اور نہ کوئی انسانی خدمات انھیں میسر ہیں۔
اگر لوگ اسرائیلی بموں سے بچ جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری سے زخموں کی تاب نہ لاکر اور متعدی اور غیر متعدی بیماریوں کا شکار ہوکر موت سے نہ بچ سکیں گے۔ اسرائیلی حملے کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
فروری میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی خان یونس میں واقع دوسرے بڑے ہسپتال نصیر کا محاصرہ کرلیا۔ ہسپتال میں ۳۰۰ کی تعداد میں طبّی عملہ ۴۵۰ مریضوں کے ساتھ پھنسا ہوا تھا اور تقریباً ۱۰ہزار اندرونی طور پر بے گھر افراد ہسپتال کے اندر یا اس کے آس پاس پناہ کی تلاش میں تھے۔
کئی دنوں تک اسرائیلی فوج نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی ریسکیو ٹیم کو مریضوں اور عملے کو نکالنے، خوراک اور انتہائی ضروری، طبّی سامان اور ایندھن کی فراہمی نہیں کرنے دی۔ اس پورے عرصے میں، طبّی عملے نے مریضوں کے لیے غیر معمولی ہمت اور لگن کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیلی حملوں کے باوجود انھیں زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈاکٹر امیرہ السولی، جو ہسپتال کے صحن میں زخمیوں میں سے ایک کی مدد کے لیے اسرائیلی فائرنگ کی زد میں آئیں، اس کی ایک روشن مثال ہے۔ہسپتال کے احاطے میں پناہ لینے والے لاتعداد لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد کے قتل کے واقعہ کی ریکارڈنگ کیمرے میں محفوظ ہے۔
۱۳ فروری کو، اسرائیلی فوج نے جمال ابو الا اولا نامی ایک نوجوان کو، جسے اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، ہسپتال بھیجا تاکہ وہاں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کے لیے کہے۔ سفید پی پی ای کا لباس پہنے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اس نے پیغام دیا اور پھر – جیسا کہ ہدایت کی گئی – ہسپتال کے گیٹ کی طرف بڑھا، لیکن گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی موت کی دستاویزی فلم ہسپتال کے ایک صحافی نے بنائی اور اسے عوام کے لیے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔
کیا آپ تحقیقات کا حکم دیں گے جناب صدر؟ کیا آپ نصیر ہسپتال میں جمال اور دیگر بہت سے لوگوں کے قتل کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں گے یا پھر اسرائیلی فوج کے سفاکانہ مظالم کو فخر سے قبول کریں گے؟
۱۵ فروری کو، اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر چھاپہ مارا، شدید بمباری کے دوران ہزاروں لوگوں کو نکال دیا اور سیکڑوں کو جبری طور پر غائب کر دیا، – جن میں سے کم از کم ۷۰ افرادطبّی شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکن تھے۔ یہ غزہ میں شروع ہونے والے مظالم اور جنگی جرائم کا ایک نمونہ ہے۔ جب اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال پر چھاپہ مارا تو اس نے اس کے کچھ عملے کو حراست میں لے لیا۔ ان میں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ بھی شامل ہیں، جو اسرائیلی جیل میں ہیں۔ اس وقت بہانہ یہ پیش کیا گیا اور جیساکہ اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے کمانڈ سینٹر کو تلاش کررہے تھے جو کہ ایک جھوٹی داستان ہے۔ جنابِ صدر! آپ نے اس جھوٹی داستان کو بآسانی قبول کرلیا۔
نصیر ہسپتال پر چھاپے کے دوران بجلی اور آکسیجن منقطع ہونے سے کم از کم آٹھ مریض جاں بحق ہو گئے۔ جب آخر کار ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تو اس کے عملے نے اسے ایک ’قتل گاہ‘ قرار دیا۔ سیکڑوں مریضوں کے انخلا کے بعد، طبّی عملہ کے تقریباً ۲۵؍ارکان ہسپتال میں بقیہ ۱۲۰ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہ گئے جس میں خوراک، پانی یا ادویات کی محفوظ فراہمی نہیں تھی۔
نصیر ہسپتال کے مریضوں میں میری رشتہ دار انشیرہ بھی تھی جس کے گردے فیل ہوگئے تھے اور اسے ہر ہفتے ڈائیلاسز کی ضرورت تھی۔ وہ خان یونس کے مشرق میں القرارہ کے علاقے میں رہتی تھی۔جب اسرائیلی فوج نے اس کے علاقے پر بمباری کی تو وہ بے گھر لوگوں کے لیے ایک کیمپ میں چلی گئی۔ جب اسرائیلی فوج نے وہاں بھی کیمپ پر حملہ کیا تو وہ ایک اور کیمپ میں چلی گئی۔ جب وہاں بھی بمباری کی گئی تو اس کے بچوں نے اسے نصیر ہسپتال کے قریب منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے جیسے ہسپتال میں حالات خراب ہوتے گئے، اس کے ڈائیلاسز ہر دوہفتوں میں ایک بار اور پھر ہرتین ہفتوں میں ایک بار کر دیئے گئے، جس کی وجہ سے اسے کافی تکلیف ہوئی۔ جب اسرائیلی فوج نے ہسپتال کا محاصرہ کیا تو انشیرہ کو وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ پھر ہمارا اس سے اور اس کے بچوں سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں!
اسرائیل کی طرف سے غزہ میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کے بعد انشیرہ جیسے دائمی طور پر بیمار لوگوں کی اکثریت مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ان کے لیے ’سزائے موت‘ کے مترادف ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تباہ کرنا ایک جنگی جرم ہے، کیا واقعی آپ یہ بات جانتے ہیں جناب صدر؟
جنابِ صدر! غزہ میں ۲۳ لاکھ لوگ ایک حراستی کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ وہ بھوک اور بے دردی سے مارے جاتے ہیں۔ ان کے گھروں میں، سڑکوں پر، پانی لاتے ہوئے، خیموں میں سوتے ہوئے، امداد وصول کرتے ہوئے، اور کھانا پکانے کے دوران بھی بمباری کی جاتی ہے۔ غزہ میں لوگ مجھے کہتے ہیں کہ پینے کے لیے پانی کی قیمت خون سے چکائی جاتی ہے، روٹی کا ایک لقمہ خون میں ڈوبا ہوتا ہے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا مطلب خون کا دریا پار کرنا ہے۔
یہاں تک کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کھانا تلاش کرنے کا عمل بھی آپ کی جان لے سکتا ہے، جیسا کہ ۲۸ فروری کو بہت سے والدین کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا۔ تقریباً ۱۱۲فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے اس وقت قتل کر دیا، جب وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کو کھانا کھلانے کے لیے آٹا لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کی دردناک موت ایک تلخ حقیقت ہے۔ جیسا کہ انس جیسے چھوٹے بچوں، آیا جیسے بچے، مجدولین جیسی مائیں، اور فتیہ جیسے بوڑھے کی موت واقع ہوئی۔ یہ ان ۳۰ہزار سے زیادہ افراد میں شامل ہیں جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موت کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مزید ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن ’لاپتا‘ کے طور پر درج ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں تقریباً ۱۳ہزار بچّے ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک گھنٹے میں چھ بچوں کو مار رہا ہے۔ ان بچوں میں سے ہر ایک کا ایک نام، ایک کہانی اور ایک خواب تھا، جو کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ کیا غزہ کے بچے زندگی کے مستحق نہیں؟جناب صدر!
فلسطینیوں کا شمار مشرق وسطیٰ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوموں میں ہوتا ہے۔ آج سب سے ان کا سلگتا ہوا سوال ہے:’کیوں‘؟ فلسطینی عوام کو آپ کے اتحادیوں کے ہاتھوں نسل کشی کیوں برداشت کرنی پڑ رہی ہے، جو آپ کے ہتھیاروں اور پیسوں سے کی گئی ہے، جب کہ آپ جنگ بندی کے مطالبے سے انکار کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کیوں جناب صدر!
صدربائیڈن! آپ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟
(الجزیرہ انگلش،۳مارچ ۲۰۲۴ء)
بین الاقوامی برادری کئی مہینوں سے اسرائیل سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف بھوک کا شکار کرنے والے ہتھیار کا استعمال بند کرے۔ مگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی عوام کو تکلیف پہنچا کر وہ حماس کے ساتھ ایک بہتر مذاکراتی معاہدہ کر سکتا ہے۔
درحقیقت اس طرح کی اسرائیلی کارروائی ایک جنگی جرم ہے، جس کا بدترین مظاہرہ جمعرات کو اس وقت ہوا، جب اسرائیلی فوجیوں نے غزہ شہر کے باہر امدادی ٹرکوں کے قافلے سے خوراک کے لیے بھاگنے والے بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے ان میں سے ۱۰۰ سے زائد افراد شہید کردیئے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون اور جنگی قوانین یہ واضح کرتے ہیں کہ جنگی ہتھیار کے طور پر شہریوں کو بھوکا مارنا ممنوع ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر شہریوں کو ’’ان کی بقا کے لیے ناگزیر چیزوں سے محروم رکھنا، بشمول جان بوجھ کر امدادی سامان میں رکاوٹ ڈالنا‘‘ ایک جنگی جرم ہے‘‘۔ غزہ کے معاملے میں ارادے اور عمل دونوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیردفاع نے جنگ کے پہلے دن سے علانیہ کہا کہ کسی بھی قسم کی خوراک، پانی یا بجلی کو محصور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’اسرائیل کا غزہ کی مسلسل ناکہ بندی، اور ۱۶ سال سے زیادہ مدت پر پھیلی بندش، شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے، جو ایک جنگی جرم ہے۔ غزہ میں قابض طاقت کے طور پر، چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شہری آبادی کو خوراک اور طبّی سامان ملے‘‘، ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں یہ مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، مارچ ۲۰۲۴ء کے آخر تک صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی۔
اسرائیلیوں نے نہ صرف غزہ کے شمالی علاقوں میں، جہاں اسرائیل کے ساتھ سرحد ہے، خوراک اور طبّی امداد کے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے، بلکہ انھوں نے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر بھی ایسا کیا ہے۔ اسرائیل نے مصر سے امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں پر بمباری کی، تاکہ مصریوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اسرائیلی کنٹرول کو قبول کریں کہ کب اور کیسے غزہ میں کسی بھی چیز کو عبور کرنے کی اجازت دی جائے۔ نتیجے کے طور پر، کھانے پینے کا سامان لے جانے والے ہر ٹرک کو سب سے پہلے اسرائیلی سرحدی مقام تک جانا پڑتا ہے، جہاں اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اس جانچ پڑتال میں کافی وقت لگتا ہے اور پھر ان ٹرکوں کو، اسرائیل کے ساتھ، رفح راہداری کے ذریعے غزہ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ خوراک کے ٹرکوں کی قلیل تعداد جو بالآخر رفح تک پہنچتی ہے قدرتی طور پر بھوک سے مرنے والی آبادی کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔
امدادی سامان پہنچانے میں مصروف کارکن بتاتے ہیں کہ بھوک سے مرنے والی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں خوراک کے ٹرک غزہ میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ خوراک کی عدم دستیابی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ۳ کلو گندم کا تھیلا ۱۰۰ ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے جسے غزہ کا کوئی بھی خاندان برداشت نہیں کر سکتا۔
غزہ کے جنوب میں صورتِ حال اس وقت اور بھی سنگین ہوگئی، جب اسرائیلی فوج شمال سے جنوبی مرکز کی طرف منتقل ہو گئی۔ انھوں نے غزہ شہر پر قبضہ کر لیا، پھر فلسطینیوں کو جنوب میں رفح کی طرف دھکیلتے ہوئے خان یونس پر بھی قبضہ کرلیا، جہاں پہلے سے تقریباً ۱۵لاکھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر شمال کی طرف واپس نہیں جا سکتے، اور مصری کسی کو بھی اس خوف سے سینا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے کہ اسرائیل انھیں کبھی واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس طرح نسل کشی کرنا ایک اور جنگی جرم ہے۔
غزہ میں خوراک کی وافر مقدار میں عام داخلے کی اجازت دینے کے بجائے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اسرائیلی کوشش نے بھوک سے مرتے فلسطینیوں کو ’مُردہ فلسطینیوں‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنوبی غزہ کی صورتِ حال تشویشناک ہے، تو وہیں شمال میں غذائی قلت کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ اسرائیل مٹھی بھر نسل پرست یہودی اسرائیلی مظاہرین کی وجہ سے گندم کے ٹرکوں کو شمال میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے۔ اگر وہ فلسطینی ہوتے تو یقیناً انھیں فوراً گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ لیکن چونکہ وہ اسرائیلی ہیں، اس لیے فوج دباؤ کو برقرار رکھنے میں مستعد ہے۔ اس نے گندم کے ٹرکوں کو فلسطین میں داخلے کی بہت کم اجازت دی ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے اپنے اتحادی امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ تک گندم کے ٹرک جانے کی اجازت دے گا۔
شمالی غزہ کی سنگین صورتِ حال نے اُردن کی فضائیہ کو روزانہ خوراک کے پیکٹ پھینکنے پر مجبور کیا ہے، حالانکہ قابض فوجیں بین الاقوامی قانون کے تحت لوگوں کی تمام انسانی ضروریات کو اپنے براہ راست فوجی کنٹرول میں فراہم کرنے کی پابند ہیں۔
جمعرات کے قتل عام میں اسرائیلیوں نے نہ صرف ان لوگوں پر گولیاں چلائیں جن سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تھا،بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ زیادہ تر مرنے والے کھانے کے لیے افراتفری اور بھگدڑ میں کچلے گئے۔ لیکن جیسا کہ صحافی گیڈون لیوی جیسے روشن خیال اسرائیلیوں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اسرائیل حقیقی متاثر فلسطینیوں کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف، امریکا سمیت اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں اور پوری دنیا سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل بھوک کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنا بند کرے۔ اس سفاکیت میں لازم ہے کہ دنیا اسرائیل پر پابندیاں لگانا شروع کر دے۔ کوئی بھی ملک جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے وہ بھی جنگی جرائم اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہے۔
اب تک۳۲ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں دو تہائی تعداد میں فلسطینی خواتین اور بچے شامل ہیں۔اسرائیل کو مغربی دنیا میں ہونے والے مظاہروں کی پروا ہے نہ ۵۷رکنی ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا کوئی دبائو۔ وہ پوری طرح دولت و ثروت اور قوت و سلطنت کے حاملین سے بےنیاز ہے۔ اسی سبب رمضان المبارک کے دوران بھی اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کرنے سے انکار اور رفح پر جنگی یلغار کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں غزہ کے ۲۳لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے رمضان المبارک میں بھی خوراک اور ادویات تک کی فراہمی میں حائل بے رحمانہ رکاوٹوں کو ہٹانے تک کے لیے تیار نہیں ہوا۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس حد تک کہہ کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ ’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،‘ مگر تاحال سلامتی کونسل کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے۔
نہ صرف یہ کہ غزہ میں اسرائیل نے اشیائے خورد و نوش کی ترسیل رمضان المبارک میں بھی روکے رکھی بلکہ فلسطینیوں کو سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران کسی بھی وقت بمباری کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی میزائل اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور سنائپرز کا استعمال بھی جاری رکھا اور غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بناکر رکھ دیا ہے۔ واضح طور پر اسرائیل کا اعلان ہے ’کر لو جو کرنا ہے، میں اسرائیل ہوں! جو چاہوں گا کروں گا‘۔اس بہیمانہ طرزِ ریاست نے پورے خطے ہی نہیں عرب و عجم میں پھیلی مسلم دُنیا کو ایک سانپ کی طرح سونگھ کر چھوڑ دیا ہے۔
بات غزہ میں ملبے کے ڈھیراور چند بچے کھچے بے چراغ گھروں کی ہو رہی تھی۔ یہ درمیان میں ’راکھ کے پرانے چلے آ رہے ڈھیر‘ کا ذکر آ گیا۔ واپس اسی بےچراغ اور تاراج غزہ کی گلیوں کی طرف چلتے ہیں جہاں موت و حیات کی کش مکش جاری ہے، مگر اہل غزہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ رہیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ نہ ان کے عزم کو کمزور کر سکی ہے اور نہ اُمید کو مایوسی میں بدل سکی ہے۔اس عزم اور امید کا تازہ اظہار رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ غزہ اور اس سے جڑے فلسطینی علاقوں، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس بشمول مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جبر کے سائے گہرے اور سنگین پہرے ہیں، اس کے باوجود غزہ میں گھروں کے ملبے پر بھی اہل غزہ نے علامتی طور پر ہی سہی رمضان المبارک کا استقبال کیا۔
روایتی انداز میں غزہ کے فلسطینیوں نے رمضان کی آمد پر اپنے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیروں پر بھی سجاوٹی جھنڈیاں لگائیں اور چراغاں کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہہ یہ جھنڈیاں اور یہ چراغاں وسیع پیمانے پر نہیں، مگر یہ ان کی اللّٰہ کی رحمت و نصرت اور برکت سے اُمید کا غیر معمولی اظہار ضرور ہے۔
ایک ایسا اظہار جس سے صاف لگ رہا ہے کہ جس طرح فلسطینی روایتی طور پر اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ’حق وطن واپسی‘ کی علامت کے طور پر ’کنجیاں‘ منتقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر بھی اپنے پُرجوش جذبے کا حتی المقدور اور روایتی اظہار کرکے انھوں نے اپنی اگلی نسلوں کو رحمتِ خداوندی سے جڑے رہنے کا سبق اور بےرحم دنیا کو پیغام دیا ہے: ’مایوس نہیں، پُرامید اور پرعزم ہیں ہم‘۔
غزہ کے فلسطینی بدترین جنگ میں اپنے بہت سے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ چھتوں سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیا تک سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ امید اور حوصلے کا دامن چھوڑ دینا ان کا شعار نہیں ہے۔
ان فلسطینیوں کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے قبلہ اول کے امین اور متولی ہونے کے ناتے وہ مسجد اقصیٰ کے لیے بھی تمام تر مشکلات کے باوجود بلا کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ آج بھی ارضِ فلسطین کو معراج کی سرزمین کے طور پر عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس کے تحفظ اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے اپنی زندگیوں کی ہی نہیں بچوں کی جانیں تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے گرد لگے اسرائیلی فوجی پہروں کو بار بار توڑتے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں یہاں جوق در جوق پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ خود آتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کو ساتھ لاتے ہیں۔ فلسطینی خواتین اس سلسلے میں مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے رہنے والی نہیں ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے غزہ کی چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں جانیں پیش کر کے بھی ثابت کیا ہے۔
یہ فلسطینی خواتین ’المرابطات‘ کی صورت رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ آ کر تلاوت و نوافل کا اہتمام کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ افطاری کے اوقات میں حرمِ اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے لیے سامان افطار کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔گویا تمام تر اسرائیلی پابندیوں کے باوجود رمضان المبارک میں بطور خاص مسجد اقصیٰ کا آنگن رحمتوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ فلسطینیوں کے پورے پورے گھرانے رحمت و برکت اور اسرائیلی عذاب سے نجات کی تمناؤں کے ساتھ اپنی جانوں پر کھیل کر یہاں پہنچ کر تلاوت و تراویح اور اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام اپنی اس روایت کو اس رمضان المبارک میں بھی تمام تر اسرائیلی رکاوٹوں اور جنگی قہر سامانیوں کے باوجود جاری رکھنے کے لیے تیار رہے۔ وہ مسجد اقصیٰ جسے اسرائیل کھنڈر میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے، آباد رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس پر چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں۔
اسرائیل ایک عرصے سے مسجد اقصیٰ میں ۴۰ سال سے کم عمر کے فلسطینیوں کے داخل ہونے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں کو اجازت بھی انتہائی محدود تعداد میں دی جاتی ہے۔ جگہ جگہ ناکے، چوکیاں، جامہ تلاشیاں اور پہرے اسرائیلی ریاست کی سالہا سال سے امتیازی شناخت بن چکے ہیں تاکہ مسلمان مسجد اقصیٰ میں نہ جا سکیں۔
رمضان المبارک سے پہلے بھی یہ پابندیاں اور رکاوٹیں پورا سال موجود رہتی ہیں، لیکن رمضان المبارک میں مزید سخت کر دی جاتی ہیں۔ یہودی بستیوں میں گھرے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج، پولیس اور یہودی آبادکاروں کو مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لیے بےرحمی سے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سال نتن یاہو کے انتہا پسند اتحادی بن گویر نے بیان دیا ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دینے کا رسک نہیں لے سکتے۔لیکن حقائق نے بتایا یہ سوچ غلط ہے کہ اہل فلسطین بھی ہماری طرح کے دیگر مسلمانوں کی طرح تذبذب میں پڑ کر رُک جائیں گے، چپ ہو کر بیٹھ جائیں گے، خوفزدہ ہو جائیں گے یا سمجھوتہ کر لیں گے۔ صیہونیوں کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا، اور مسلمان مردوزن پروانوں کی طرح، مسجد اقصیٰ کی طرف کھچے چلے آئے۔
غزہ میں اتنی وسیع پیمانے پر تباہی اور بڑے پیمانے پر اموات کے بعد بھی اگر فلسطینی بھائی رمضان المبارک کی آمد پر اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر جھنڈیاں لگاتے اور چراغاں کرتے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ مسجد اقصیٰ کے لیے اسرائیلی ایجنڈے کی راہ ہموار کرنے میں وہ بھی دوسروں کی طرح سہولت کار اور معاون بننے کے الزام کی کالک اپنے منہ پر ملیں؟ رمضان المبارک تو رحمت، برکت و نصرت کا مہینہ ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا تھا۔ اس میں تو اللّٰہ کے فرشتوں اور روح الامین کی آمد ہوتی ہے۔ فرشتے نصرت لے لے کر آتے ہیں، اس لیے کوئی تیل بھیجے نہ بھیجے، وہ تو اپنے خون سے بھی مسجد اقصیٰ کے چراغوں کو روشن رکھیں گے۔
خواہ ان کے سحر وافطار کے دستر خوان، ان کے اڑوس پڑوس اور دور و نزدیک کے آسودہ حال مسلمانوں کے دستر خوان انواع واقسام کے کھانوں سے محروم رہیں، کہ وہ اب پرندوں کی خوراک اور جانوروں کے چارے یا درختوں کے پتوں پر گزارا کرنے کے عادی ہورہے ہیں۔
جنگ بندی کا نہ ہونا اور ناکہ بندیوں کا ہونا، اب ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ انھیں یقین کی دولت مل چکی ہے کہ اصل روشنی تو خونِ جگر سے جلائے جانے والے چراغوں سے ہوتی ہے، کہ جنھیں حق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ!
بھارت میں عام انتخابات ۱۹؍اپریل سے شروع ہوں گے اور سات مرحلوں میں مکمل ہونے کے بعد ۴جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ حکمران پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنوبی ہند میں اپنی پوزیشن محفوظ بنانا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف ’شمالی انڈیا‘ کا لیڈر ہونے کا داغ مٹانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ جنوبی ہند بنیادی طور پر انڈیا کی معاشی قوت کا مرکز ہے۔ اگرچہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہروقت ہی انتخابی مہم کی حالت میں رہتی ہے، مگر اس بار ۷مارچ کو سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریند را مودی نے یہ عندیہ دے دیا کہ اس بار ہندستان میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے ’کشمیر کارڈ‘ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ یاد رہے ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ ماضی میں بھی بھارت کے وزرائے اعظم سرینگر آتے رہے ہیں۔ مودی کے پیش رو من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دو رِ اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔
مودی نے اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، جن کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انھوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کے ہمراہ سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔مگر اب کی بار خصوصیت یہ تھی، کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ پھر یہ خالصتاً بی جے پی کی اپنی ریلی تھی۔
بھارت کی ملک گیر پارٹیوں میں ماضی میں اس طرح کی ریلیاں صرف کانگریس پارٹی ہی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے اپنے بل بوتے پر کشمیر میں منعقد کراتی تھی۔ ان کے بعد راجیو گاندھی سے لے کر ڈاکٹر من موہن سنگھ تک ، جن وزرائے اعظم نے سرینگر میں کسی ریلی سے خطاب کیا ہے، ان کومقامی پارٹیوں: نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کے لیے منعقد کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے ہمارے قصبے سوپور میں بھی دو بارعوامی جلسے سے خطاب کیا ہے۔۱۹۸۳ء میں کانگریس نے جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی تھی، تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی، اور ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گذر کر جلسہ گاہ میں پہنچی تھیں۔
نریندرا مودی کی ریلی کے بارے جموں و کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدے دار نے اعتراف کیا کہ ’’شرکا کو لے جانے کے لیے ۹۰۰ سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا‘‘۔ اس سے قبل، یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ’’تقریباً ۷ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جموں اینڈ کشمیر کے بینک کے عملے کو ریلی میں لازمی شرکت کا حکم دیا گیا تھا۔ انھیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر اسٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے ۱۴۵بسیں بارہمولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔
جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کو یہ شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ وادیٔ کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، اسی راستے پر مودی چل رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں جگہ بنانے کے لیے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیےپر تول رہی ہے۔
۱۹۸۷ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد یہاں کے عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور ووٹر ٹرن آوٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ سے بہت ہی کم ہوتا آیا ہے ۔ مگر پھر بھی ماضی میں حکومتی عہدوں پر جو افراد براجمان ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ لیکن ۲۰۱۸ءکے بعد سے یعنی پچھلے سات سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیور کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت ۲۰ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے ۱۱۲؍اعلیٰ پولیس افسران میں صرف ۲۴مقامی ہیں۔
جموں و کشمیر کی چھ پارلیمانی نشستوں میں تین وادیٔ کشمیر ، دو جموں اور ایک لداخ کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میںہونے والے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم سے دفعہ۳۷۰ ، اور ۳۵-اے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرکے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرلی، جو اب ان کو چیلنج دے رہے ہیں، گو کہ ان میںسے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔
اس وقت دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی ’اپنی پارٹی‘، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینئر رشید، جو پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں، کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابات میں اُترنے کا عزم رکھتی ہے۔ گویا بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔
چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اس لیے حدبندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں،توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔ ریاسی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح شوپیاں کو جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کا سرینگر حلقہ کے ساتھ زمینی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اننت ناگ کو راجوری پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیاں کے راستے مغل روڈ ہے اور یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے ۔ کسی بھی امیدوار کو اس انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف انتخابی مہم کے لیے جانا ہو، تو پہلے ڈوڈہ، پھر ادھم پور او ر پھر جموں یعنی تین اضلاع کو عبور کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔
جنوبی کشمیر واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتاً کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے وسطی کشمیر ہو یا شمالی کشمیر ، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب پونچھ ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیری آبادی کے اثر و رسوخ پر روک لگائی جاسکے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقے کی کُل ۲۶لاکھ ۳۱ہزار کی آبادی میں ۱۴لاکھ ۸۰ہزار کشمیری یعنی ۵۶ء۲۵فی صد، گوجرو بکروال ۸۱ فی صد، پہاڑی ۸۴ فی صد، ڈوگرہ۴۷ فی صد اور پنجابی ۴۹ فی صد ہوں گے۔
بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو شیڈول ٹرائب (ST) کی فہرست میںشامل کرنے سے یہ آبادی یکمشت اس کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ پہلے یہ سہولت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پس ماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی ، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا ۷فی صد یعنی کل ۷ء۹ لاکھ ہیں، کے لیے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعوےدار تھی۔
مگر اس سب کے باوجود اور جموں و کشمیر میں ’امن و امان کی بحالی‘ کے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کا کہنا ہے: ’’اگرچہ سب سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کے ساتھ ہی یہاں کی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی ہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’’نئی حدبندی کے مطابق جموں و کشمیر کی ۹۰نشستوں کے لیے تقریباً ایک ہزار اُمیدوار ہوں گے، اور سیکورٹی فورسز کی اضافی ۵۰۰ کمپنیوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔
کشمیر میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے اور کشمیر میں واقعی قبرستان کی سی خاموشی کا ماحول مسلط کردیا گیا ہے۔ اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے، تو اس کے لیے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی، اور مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے بین الاقوامی کوششیںبھی کرنا پڑیں گی۔