پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔
فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔
اسی دوران دوسری جنگ ِعظیم میں۱۹۴۳ء میں ہٹلر کی فوجیں بلغاریہ تک آپہنچیں، تو یونی ورسٹی طویل عرصے کے لیے بند ہوگئی۔ ان چھٹیوں میں فواد نے عربی سیکھنے کے ساتھ تفسیرطبری کو براہِ راست عربی سے پڑھنا اور قرآن پر غوروفکر شروع کیا۔ چھے ماہ بعد جب یونی ورسٹی کھلی تو استاد نے عربی میں استعداد جانچنے کے لیے امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء-۱۱۱۱ء)کی احْیَاء عُلُومُ الدِّین سامنے رکھی۔ فواد نے اس کے مقامات پر اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی روزنامہ پڑھ رہے ہوں۔ اس چیز سے متاثر ہوکر استاد نے ایک اور پہاڑ لاسامنے کھڑا کیا: ’’اگر علم اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ساتھ ہرسال ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کرو اور کم از کم ۳۰زبانیں تو ضرور سیکھو۔ یہ لسانی علم تمھیں فکر، دانش اور معلومات کی ان دُنیائوں تک لے جائےگا، جس کا کوئی شمار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس توجہ پر بھی فواد نے عملی طور پر کام شروع کر دیا۔یوں ترکی کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، عربی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور انگریزی سیکھ لی، البتہ لکھنے کا زیادہ تر کام جرمنی زبان میں کیا۔
انجینیرنگ کا سابق طالب علم اب پوری دل جمعی سے دینی اور عربی علوم کے ہفت خواں طے کر رہا تھا۔ جب ۱۹۵۰ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تحقیق کا مرحلہ آیا تو فواد اس نتیجے پر پہنچے کہ مستشرقین اور پادری حضرات، دین اسلام پر حملہ کرتے وقت بنیادی ہدف ذخیرۂ حدیث کو بناتے اور کہتے ہیں: ’سنی سنائی باتوں کا علم‘، اور بخاری ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ فواد نے بدنیتی پر مبنی اس حملے کا جواب علمی سطح پردینے کا عزم کیا۔ پروفیسر ہیلمیٹ کی رہنمائی میں تحقیق کرتے ہوئے البخاری کے ماخذ کے موضوع پر ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جب ۱۹۵۶ء میں استنبول سے یہ تحقیقی مقالہ شائع ہوا تو علمی حلقوں کی توجہ کا موضوع بنا۔
ڈاکٹر فواد نے ذخیرئہ حدیث کی تدوین پر ’محض زبانی سنے سنائے‘ علم کے تاثر کا جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ: ’’مجموعہ ہاے حدیث میں ابتدائی زمانوں ہی سے لفظ کتاب بطوراصطلاح مکاتبت کے معنوں میں استعمال ہواہے، جس سے مراد روایت ِ حدیث کو زبانی سنے سنائے بغیر تحریری شکل میں منتقل کرنا ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے اسناد میں کتب الی یا من کتاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ یوں اسناد بظاہر زبانی روایت کا حوالہ رکھنے کے باوجود بسااوقات باقاعدہ تصانیف سے حرف بہ حرف نقل اور اقتباس کی جاتی تھیں‘‘۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : ’’ڈاکٹر سیزگین کی شہرت کا ایک خصوصی حوالہ علمِ حدیث میں اسناد کے طریق کار اور اس کی حقیقت و اہمیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے، جس نے مغرب کے علمی حلقوں میں بازگشت پیدا کی اور گولڈ زیہر [۱۸۵۰ء-۱۹۲۱ء] کے گمراہ کن نتیجۂ فکر اور دیگر مغربی تحقیق کاروں کے تصورات پر سنجیدہ تجزیے اور محاکمے کی ضرورت کا احساس دلایا‘‘۔
اس دوران ڈاکٹر فواد اورینٹل فیکلٹی، استنبول یونی ورسٹی میں بطورِ استاد خدمات انجام دیتے رہے کہ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ترک جرنیل جنرل جمال گرسل (۱۸۹۵ء-۱۹۶۶ء)نے فوجی انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب سخت گیر لادینی نظریات کا علَم بردار تھا۔ یہ وہی جنرل گرسل ہیں، جنھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک دومرتبہ منتخب ترک وزیراعظم عدنان میندریس (پ:۱۸۹۹ء) کو برطرف کیا اور ۱۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو، عدنان کابینہ کے وزیرخارجہ فطین رشدی زورلو (پ:۱۹۱۰ء) کے ہمراہ پھانسی دے دی تھی۔ عدنان میندریس شہید کا ایک ’جرم‘ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں ۱۷جون ۱۹۵۰ء کو عربی میں اذان پر پابندی ختم کی، پھر مسجد یں کثرت سے تعمیر کیں، حج پر عائد پابندیاں ختم کیں اور محکمہ مذہبی امور قائم کیا۔ اس محکمے نے نئی اور پرانی اسلامی کتب کی اشاعت کے ساتھ، مولانا مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء)اور سیّد قطبؒ (شہادت:۱۹۶۶ء)کی بھی چند کتب ترکی زبان میں شائع کیں۔
’ترک فوجی حکومت‘ نے ۱۴۷ پروفیسروں کو ترکی یونی ورسیٹیوں سے نظریاتی اختلاف بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کی پاداش میں برطرف کردیا، جن میں فواد سیزگین بھی شامل تھے۔ مارشل لا حکومت سے انصاف مل نہیں سکتا تھا، اس لیے فواد نے جلاوطنی اختیار کی۔ جرمنی چلے گئے اور فرینکفرٹ یونی ورسٹی میں استاد مقررہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے فلسفی، ریاضی دان اور کیمیا دان جابر بن حیان [۷۲۱ء-۸۱۵ء]پر دوسری ڈاکٹریٹ حاصل کی، تو پروفیسر کے درجے میں ترقی مل گئی۔پھر ۱۹۶۷ء میں ایک ذہین اور محنتی نومسلم جرمن مستشرقہ ارسل سے شادی کی۔ ان کے ہاں ۱۹۷۰ء میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام ’ہلال‘ رکھا۔ (مغربی دنیا میں ’ہلال‘ [کریسنٹ] اسلام کی علامت ہے اور نام رکھتے وقت یہی پہلو پیش نظر تھا)۔
پروفیسر سیزگین کا یادگار کارنامہ عربی زبان میں علمی ذخیرے کی کیفیت کی تدوین ہے۔ جس میں ہر کتاب کے بارے اشاعت، عدم اشاعت کے ساتھ تفصیل مذکور ہے کہ یہ مخطوطہ کہاں موجود ہے۔ اس کام کی ابتدا محمد بن اسحاق الندیم (م:۹۹۵ء ) نے الفہرست کے نام سے کی تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر فواد کا کام جرمن محقق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann: ۱۸۶۸ء- ۱۹۵۶ء) کی اسی نام سے کتاب Geschichte der Arabischen Litteratur کی تکمیل ہے، جو ۱۸۹۸ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کتب خانوں کی فہرستیں تیار اور شائع شدہ نہیں تھیں، اس لیے بروکلمان کی کتاب میں بہت سی کمیاں رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ استنبول میں موجود قیمتی مخطوطات کا بھی ذکر نہیں تھا۔
اس بھاری بھرکم کام کی ابتدا فواد سیزگین نے ۱۹۵۴ء میں پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کی خواہش پر کی تھی۔ انھوں نے مجوزہ کتاب Geschichte des Arabischen Shrifttums [تاریخ التراث العربی، عربی ورثے کی تاریخ) پر ۱۹۶۱ء میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں اور ۱۷ویں جلد فروری ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ اب وہ ۱۸ویں جلد کی اشاعت پر کام کر رہے تھے کہ زندگی کی ساعتیں ختم ہوگئیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھے جانے والے ایک بڑے علمی ورثے کا احاطہ کرتی ہے، جس میں: قرآن پاک،تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، علم حیوان، کیمیا، زراعت، نباتیات، ریاضیات، فلکیات، موسمیات، تصوف، نفسیات، فلسفہ، اجتماعیات، نحو، بلاغت، لغت، کائناتی مطالعہ، منطق، ارضیات، موسیقی، ادویہ سازی، حیوانیات، نجوم، عربی زبان، جغرافیہ، نقشوں جیسے گوناگوں علوم پر عربی مخطوطات و کتب کا تذکرہ شامل ہے۔
پروفیسر فواد سیزگین نے ۱۹۸۲ء میں جرمنی کی گوئٹے یونی ورسٹی میں ’عربی واسلامی تاریخ انسٹی ٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۴ء میں تحقیقی مجلّے Journal of Arab and Islamic Sciences کا اجرا کیا اور مدت تک ادارت کی۔ سائنسی علوم کے بارے میں مسلمان علما و فضلا کے لکھے چار لاکھ قدیم مخطوطوں کے آثار اور قدیم کتب کو، ۳۰سال کی مدت میں، یورپ، افریقہ، بھارت، ترکی، ایران، مصر، روس اور مشرق وسطیٰ کی لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں اور دیہات تک میں پہنچ کر اکٹھا کیا یا معلومات لیں۔ جمع شدہ کتب کی تعداد ۴۵ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ ۱۳ سو اصل مخطوطے اور ۷ہزار مخطوطات کے عکس شامل ہیں۔پھر ان مخطوطات و معلومات کو ایک ہزار مطبوعات کی صورت میں شائع کیا۔
ایک مشہور جرمن ماہر طبیعیات اور سائنسی علوم کے مؤرخ ڈاکٹر ایلہارڈ ویڈمین (۱۸۵۳ء-۱۹۲۸ء) نے ۱۸۹۹ء میں طے کیا کہ:’ ’میں مسلمانوں کے ایجاد کردہ ان سائنسی آلات کو جن کا تذکرہ کتب میں پڑھا ہے، عملی شکل اور نمونوں (ماڈلوں) کی صورت دوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ایلہارڈ نے ۱۹۲۸ء تک ۳۰برسوں کی شبانہ روز کاوش سے ایسے پانچ ماڈل تیار کیے۔ اس مثال کوسامنے رکھ کر پروفیسر فواد نے دوستوں سے کہا : ’’میں کوشش کروں گا کہ کم از کم ۳۰ ماڈل اور آلات کے نمونے بناکر اس کمرے کی خالی جگہ کو پُر کروں‘‘۔ پھر اسی انسٹی ٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم قائم کیا، جس میں مسلمانوں کے سنہرے دور میں ایجاد اور استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنسی آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔
جرمن حکومت نے پروفیسر سیزگین کے ذاتی کتب خانے کو قومیا لیا تھا اور بدلے میں معقول مالی معاوضہ دیا تھا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سیزگین نے دوبارہ ایک ایک کتاب اکٹھی کر کے استنبول میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا۔ ترکی کی موجودہ حکومت اس لائبریری کے لیے استنبول میں ایک خصوصی بلڈنگ تعمیر کر رہی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۸ء میں ایک میوزیم بھی قائم کیا۔ اس میوزیم میں انھوں نے اسی طرح کے ۷۰۰ماڈل اور آلات تیار کر کے رکھوائے جیسے جرمن میوزیم میں رکھے تھے۔ پھر ۲۰۱۰ء میں استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔
پروفیسر فواد نے متعین کیا ہے کہ :’’ کرسٹوفر کولمبس [م: ۱۵۰۶ء]سے بہت پہلے عربوں نے شمالی امریکا دریافت کیا تھا اور ۱۸ویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں ہی کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے‘‘… پھر بتایا کہ: ’’عباسی خلیفہ مامون الرشید [م: ۸۳۳ء] نے تقریباً ستّر جغرافیا دانوں کو پوری دنیا کے مطالعے کے لیے بھیجا، جنھوں نے کئی برس گھوڑوں، اُونٹوں اور سمندری جہازوں پر گھوم پھر کر دنیا بھر کے بارے معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے‘‘۔
پروفیسر سیزگین کہا کرتے تھے: ’’ مجھے اتنی سی بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج ہم محض انھی پر فخر کریں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ ان کے آباء کتنے عظیم لوگ تھے، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرکے اتنی زیادہ ترقی کرگئے۔ ہم ان سے اور دوسروں سے بہت کچھ سیکھ کر خوداعتمادی سے اپنی مشکلات پر قابوپا سکتے ہیں۔ ہم کو ان علما سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جنھوں نے ہم سے کہیں زیادہ محنت کی اور لکھا۔ اتنی مشقت کے باوجود وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔
پروفیسر سیزگین نے لکھا ہے: ’’مسلمانوں میں نتیجہ خیز فکری و عملی سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا۔ علم کے بارے میں اہلِ اسلام کا رویہ بڑا فراخ دلانہ تھا۔ انھوں نے بغیر کسی نفسیاتی رکاوٹ کے، اپنے پیش روؤں کے علوم کو قبول کیا۔ اس طرح اسلامی تہذیب، مختلف قوموں کی ثقافتوں ، زبانوں اور علمی میراث کا نقطۂ اتصال ثابت ہوئی، جس سے انسانی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان اپنے پیش روؤں کے مقلّد محض نہ تھے بلکہ جانچ پرکھ اور تنقید کے صحت مند معیارات کے قائل تھے۔ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی فیض حاصل کرنے کا آغاز ان قوموںسے کیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،اس لیے ان کے استفادے میں تعصب کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس لاطینیوں[اہل مغرب] نے عربوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے علوم سے استفادہ کیا، جس نے ان میں نفسیاتی اُلجھائو، تعصب اور سرقے کی روایت پیدا کی۔ اس طرح اعتراف کے بجاے دانستہ طور پر مسلمانوں کی دریافتوں کا سہرا بھی مغربیوں کے سر باندھنے کا رویہ شامل ہوگیا‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین کے کارناموں کو دُنیا بھر کے اہل علم نے سراہا۔ ۱۹۷۹ء میں جب ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا تو پہلے ہی سال سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلام کے لیے خدمات پر اور پروفیسر فواد سیزگین کو ان کی کتاب تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح جرمن حکومت نے اعلیٰ ترین اعزاز ’آرڈر آف میرٹ آف جرمنی‘ دیا۔ ’اسلام میں سائنسی اور تکنیکی علوم‘ (پانچ جلدوں) پر ایک خوب صورت کتاب پر ایران نے ۲۰۰۶ء میں ’کتاب کا عالمی ایوارڈ‘ دیا۔ یہ کتاب علمی تفصیلات کے ساتھ تصویروں اور خاکوں سے مرصع ہے، اور جرمن، ترکی، انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۷۹ء میں امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی ، ریاض کی دعوت پر ڈاکٹر فواد نے سات خطبے دیے، جو محاضرات فی تاریخ العلوم کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان خطبات کا اُردو ترجمہ تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام کے نام سے کیا، جسے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ہے۔
پروفیسر فواد نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’علومِ اسلامیہ کے مطالعے اورعربی فہمی کے لیے یکسوئی عطا کرنے میں میرے استاد پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کا مجھ پر بے حد احسان ہے۔ جن علمی کاموں کے لیےمیں نے قدم اُٹھایا، ان راہوں کی مشکلات کو دیکھ کر ممکن ہے دوسروں کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے باطن کی دنیا میں گہری طمانیت اور تشکر کے جذبات رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خوش نصیب ترین بندوں میں سےہوں، کہ جس کی توفیق اور مدد سے یہ کام کر رہا ہوں‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو ۹۵ برس کی عمر میں استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ جامع سلیمانیہ میں ان کی نمازِ جنازہ میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے، جنھوں نے حاضرینِ جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم محسن پروفیسر فواد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے ہمیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے بیداری کی بہترین دولت دی۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے سائنسی علوم میں، زمانوں پر پھیلی ہوئی اسلامیانِ عالم کی خدمات کو وضاحت سے پیش کیا۔ میں ۲۰۱۹ء کو فواد سیزگین کے سال سے منسوب کرتا ہوں کہ : جب ہم اپنی نسل کو اسلامی علوم کی واقفیت دینے اور شوق پیدا کرنے کے لیے کانفرنسیں، سیمی نار، نمایشیں اور علمی پروگرام کریں گے‘‘۔
ایمان، عزم ، ارادے، محنت اور اَن تھک جستجو کے زادِراہ سے سفر کا آغاز کرنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو بسترمرگ پر بھی علمی فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس اکیلے فرد نے حالیہ زمانے میں وہ کارنامہ انجام دیا، جو کئی ادارے بھی مل کر انجام نہ دے سکے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، عشق و جنوں کی اس وادی میں قدم رکھنے کے لیےتیار ہے؟
جب کوئی ہم نفس، ہم مقصد ساتھی زندگی کا سفر مکمل کر کے چلاجاتا ہے تو بہت کچھ کھونے کے صدمے، تنہائی اور اجنبیت کے احساس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوستی کی نعمت تو۳۰برس کی عمر سے پہلے ہی ملتی ہے، بعد میں ممکن ہے بہت سے اچھے لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہوں، لیکن دوستی کی تعریف پہ کم ہی پورے اُترتے ہیں۔ انسانی زندگی، دوستی کی خوشبو سے معطر نہ ہو تو وہ بجاے خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے، او ر بے بسی کا پہاڑ اپنی ہیبت طاری کرتا دکھائی دینے لگتاہے۔
صفدر علی چودھری اپنے منصب اور مصروفیات کے اعتبار سے جماعت اسلامی پاکستان کے ناظمِ نشرواشاعت تھے، لیکن مزاجاً وہ دوستیاں بنانے اور پالنے والے شخص تھے__ سب کے دوست اور سب سے دوستی۔ ہرفرد کا اپنا تجربہ ہوگا۔ راقم کے سامنے مشاہدات و تعلقات کی ایک کہکشاں ہے، اور اس ’منوہر‘ بھائی کے طرزِ تعلقات، مقصد کی لگن اور ایثار و قربانی کے پہلو اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ انھیں بیان کرنا مشکل اور ان کی شدت و گہرائی کو لفظوں میں سمونا مشکل ترین عمل ہے۔
صفدر چودھری صاحب فی الحقیقت کارکن تھے اور ایسا کارکن کہ جس میں قیادت کی صلاحیت تو موجود ہو مگر وہ کارکن کی حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھنا نہ چاہے۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’میں نہ صاحب ِ قلم ہوں، نہ عالم ہوں، نہ کچھ صحافتی تجربہ رکھتا ہوں، اور نہ مکالمے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود نعیم صدیقی صاحب اور مصباح الاسلام فاروقی صاحب کی نشست پر دھکا دے کر بٹھا دیا گیا ہوں‘‘۔
’’جب یہ ذمہ داری پڑگئی ہے تو پھر اسے نبھانے کا ڈھنگ کیسے اپنایا ہے؟‘‘ جواب میں کہنے لگے: ’’اس زیادتی کا ایک ہی حل سوچا ہے کہ اس میدان میں بھاگ بھاگ کر لکھنے والوں کی خدمت کروں، اگر کوئی میرے مقصد ِ زندگی کی تائید میں ایک جملہ بھی لکھے تو اس کا خادم بن جائوں اور اگر وہ سنگ زنی کرے تو اس کے پتھر کو چُوم کر ایک طرف رکھ دوں اور کہوں: میرے بھائی! مزا نہیں آیا، ایک اور مگر ذرا زور سے۔ ممکن ہے وہ اس صبر کے نتیجے میں شرمندہ ہوکر دوسرا پتھر نہ مارے اور مارے تو زیادہ شدت سے نہ مارے‘‘۔
یہ گفتگو ۱۹۷۲ء کے نومبر میں ہوئی تھی، جب میں سالِ سوم کا طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا کارکن تھا۔ تب وہاں سے البدر کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ مولانا مودودیؒ کو لکھا کہ رسالے کے لیے پیغام عنایت کریں۔ جوابی پیغام ڈاک کے ذریعے نہیں آیا، بلکہ دستی طور پر دینے کے لیے صفدر صاحب بس کا سفر کرکے تشریف لائے۔ میری حیرانی و ندامت دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’بھائی، میں نے رضاکارانہ طور پر یہ اپنی ذمہ داری سمجھ رکھی ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے ساتھی کی موجودگی دیکھوں تو اُس سے جاکر ملوں‘‘۔ یہ سن کر مَیں مزید زیربار ہوگیا کیوں کہ یہاں لکھنے پڑھنے والی تو کوئی بات نہیں تھی، مگر وہ سراب کو دیکھ کر نکل پڑے تھے۔ بہرحال، اُس روز سے دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ آخر دم تک برقرار رہا اور اس سارے عرصے میں کبھی دُوری محسوس نہ ہوئی۔
جب مَیں لاہور آگیا تو دیکھا کہ مولانا مودودی اُن سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ صفدرصاحب دبے دبے لفظوں میں بے تکلفی سے باتیں کرتے اور انتہا درجے کی برخورداریت سے خدمت کرتے۔ کتنی ہی بار وہ مولانا کے پاس مجھے لے کر گئے اور ان کے ساتھ مولانا کی شفقت ِپدری دیکھ کر رشک آتا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت [۱۹۷۲ء- ۱۹۷۷ء] سخت تکلیف دہ اور خوف و دہشت کی علامت بلکہ سراپا دَورِ فسطائیت تھا۔ یہ زمانہ صحافت کے لیے بڑی کٹھن بلکہ تاریک رات کا ہم معنی تھا۔ آزمایش میں گھِرے صحافیوں کی دل جوئی کے لیے صفدر صاحب اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر جیلوں، حوالاتوں اور ان کے اہلِ خانہ تک پہنچتے۔ اس ضمن میں ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے حامی یا مخالف کی کوئی تفریق نہ تھی، وہ سبھی کے لیے سراپا خدمت ہوتے۔
صفدر صاحب کی ذمہ داری تو نشرواشاعت کی تھی، لیکن وہ بہ یک وقت غیراعلان شدہ ناظم تنظیم اور سیاسی و سماجی رابطہ کار بھی تھے، بلکہ درست لفظوں میں وہ ناظم خدمت ِ خلق اور ناظم مہمان داری بھی تھے۔ منصورہ میں ان کا گھر اسلامی جمعیت طلبہ کے دُور دراز سے آنے والے کارکنوں کے لیے ’نعمت کدہ‘، اسلامی جمعیت طالبات کے لیے ’اپنا گھر‘، صحافیوں کی بے تکلفانہ گفتگو کے لیے ’پریس کلب‘، بیماروں کے لواحقین کی رہنمائی کے لیے ’پڑائو‘، حتیٰ کہ جماعت کے کارکنوں کا تعاقب کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ٹھنڈا پانی پلانے کی ’سبیل‘ تھا!
وہ صحافی برادری کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے اور اس مقصد کے لیے ذاتی سطح پہ مالی طور پر زیربار ہونے سے بھی نہ گھبراتے۔ کئی بار ناظمِ مالیات (پہلے شیخ فقیر حسین صاحب ، پھر مسعود احمد خاں صاحب اور ابراہیم صاحب) کو خبردار کرتے دیکھا اور سنا: ’’صفدرصاحب، آپ پر قرض چڑ ھ گیا ہے اور آپ اگلے مہینے کا اعزاز یہ بھی لے چکے ہیں، کیسے اُتاریں گے یہ قرض؟‘‘
قصّہ دراصل یہ ہوتا کہ کسی صحافی بھائی کے والدین کی عیادت کرنے جاتے تو صفدربھائی علاج کے لیے کچھ رقم دے آتے، کسی کی شادی پر جاتے تو کوئی تحفہ پیش کردیتے۔ ایسے تحفے وصول کرنے والے صحافی سمجھتے تھے یا سمجھتے ہوں گے کہ یہ ’جماعت کے کسی فنڈ‘ سے ہورہا ہے، لاریب، جماعت نے اپنے بجٹ میں ایسا کوئی فنڈ نہیں رکھا تھا۔ صفدر صاحب یہ سب کچھ اپنے بیوی بچوں کے حق اور اپنی ضروریاتِ زندگی کی قربانی دے کر ایسا بار بار کرتے تھے۔ وہ اس خدمت کا کہیں تذکرہ بھی نہ کرتے کہ کسی کی عزتِ نفس زیربار نہ ہو، مگر قربت کے سبب ہم کبھی کبھی معاملہ جان لیتے۔
یہ منظر میرے مشاہدے میں کئی مرتبہ آیا کہ صحافی بھائیوں کا ایک حلقہ تو بے تکلفانہ احترام سے انھیں پکارتا اور دوسرا گاہے بے تکلفانہ بدتمیزی سے مخاطب ہوتا۔ ایک روز میں نے جل کر کہا: ’’صفدر صاحب، فلاں صاحب نے جس توہین آمیز طریقے سے آپ کو پکارا ہے، میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہے‘‘۔ ایک دم میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور سینے سے لگاکر کہنے لگے:’ایک بات ذہن میں رکھیں، یہ شہر ہے۔ جب میں نے مولانا کی ہدایت پر اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو اسی وقت خوب سوچ سمجھ لیا تھا کہ: ’’عزّت، نامی چیز تو ایک اضافی شے ہے، جو آپ کو اپنے گائوں برادری ہی میں مل سکتی ہے۔ یہاں تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ہوگا، اس لیے یہ دونوں کھانے پڑیں گے۔ مجھے عزّت عزیز ہوتی تو اپنے گائوں میں، اپنی برادری ہی میں رہتا۔ اس لیے عزّت کی توقع کسی سے نہیں رکھتا۔ کوئی عزّت کرے تو اس کی مہربانی، نہ کرے تو جہاں رہے خوش رہے۔ آپ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے پلے بھی اسی بات کو باندھ رکھیں، زندگی کا سفر اچھا کٹے گا‘‘۔ اور پھر اپنا روایتی گھٹاگھٹا قہقہہ فضا میں بکھیر دیا۔
ان کا گھر، وقت بے وقت، اِکا دُکا یا بڑی تعداد میں، تحریکی دوستوں کی مہمان نوازی کا مرکز بنا رہتا۔ ایک روز بے چین ہوکر میں نے پوچھا: ’’چلیے، آپ تو یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، مگر آپ کے بیوی بچوں کا کیا قصور کہ انھیں رات دن چولھے کچن میں جھونکے رکھتے ہیں اور ان کے حقِ زندگی کی زبردستی قربانی لیتے ہیں؟ گھر والے دوپہر یا رات گئے آرام کر رہے ہوتے ہیں تو چائے روٹیاں پکانے کے لیے اُٹھا دیتے ہیں، بچے کمرے میں سوئے ہوتے ہیں تو انھیں بے آرام کرکے اندر دھکیل دیتے ہیں۔ یہ بڑی نامناسب بات ہے‘‘۔
کہنے لگے: ’’اس گھر میں ہم سب ایک ہیں، جس میٹھی آگ میں مَیں جلوں گا، اس کی تپش سے بھلا وہ کس طرح الگ رہ سکتے ہیں؟‘‘ پھر مسکرا کر کہنے لگے: ’’وہ بھی خوش رہتے ہیں کہ میں خوش ہوں، اور آپ بھی آکرخوش ہوا کریں‘‘۔ اسی بناپر قاضی حسین احمد مرحوم ، صفدرصاحب کے گھر کو ’خوش حال گھرانا‘ کہا کرتے تھے۔
شعبہ نشرواشاعت میں ہم نے کئی پوسٹر تیار کیے، بہت سے پمفلٹ اور کئی بیانات لکھے۔ پوسٹر کی تیاری اور کتابت کے لیے وہ کاتب اور ڈیزائنر کو اپنی جیب سے اضافی طور پر بھی ہدیہ دیا کرتے تھے کہ: ’’تخلیق کار کی تالیف ِ قلب ضروری ہے‘‘۔ البتہ کاغذ کے تاجروں سے رقم کم کرانے کے لیے متعدد دکانوں پر جاکر باقاعدہ بحث کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے اجتماعِ ارکان کے موقعے پر ایک پوسٹر تیار کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپتے ہوئے کہا: ’’اس پر کیا خاص بات لکھی جائے؟‘‘ عرض کیا:’’اس بار پوسٹر پر آیت دیتے ہیں: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً‘‘۔ صفدرصاحب نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے کے لیے کوئی آئیڈیا ہمارے ذہن میں نہیں تھا، بس پوسٹر کی تیاری پیش نظر تھی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علم اور محترم دوست سیّد مبین الرحمٰن صاحب کے پاس حاضر ہوا، اور مدعا بیان کیا۔ مبین صاحب نے دو تین روز بعد پوسٹر تیار کیا۔ چاند اور خانہ کعبہ کے ساتھ آیت ِ مقدسہ کو ایک خاص اسلوب میں نقش کیا۔ میں جب پوسٹر کا یہ ڈیزائن لے کر منصورہ آیا ، تو اسے دیکھ کر صفدرصاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کھینچ کر گھر لے گئے، بڑے جوش سے کھانا کھلایا اور ڈیزائن کو دیکھ کر بار بار کہتے رہے: ’’سبحان اللہ! سبحان اللہ!‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا ہوگیا ہے؟ ڈیزائن ہی تو ہے‘‘۔ کہنے لگے: ’’جماعت اسلامی کا مونوگرام نہیں تھا۔ آج جماعت کو اپنا مونوگرام (طغرا) مل گیا ہے۔ میں اسے چلا دوں گا‘‘۔ صفدر صاحب نے اسے بڑے تسلسل کے ساتھ جماعت اسلامی کی مطبوعات پر شائع کرنا شروع کر دیا۔ ایک سال میں یہ ڈیزائن اتنا استعمال کیا کہ اس کے بعد سے یہ جماعت اسلامی پاکستان کی پہچان اور جماعت کا پارٹی مونوگرام بن گیا ہے___ سیّد مبین الرحمٰن کا ڈیزائن اور صفدر صاحب کا انتخاب۔
صفدر صاحب کی شخصیت جہاں خلوص سے سرشار تھی، وہیں ان کے چہرے پر ہرآن موجِ تبسم کھیلتی تھی۔۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ان کا جوانِ رعنا، دوسرا بیٹا مظفرنعیم، جہادِ کشمیر میں حصہ لیتے ہوئے سوپور میں شہید ہوگیا۔ وہ ہمارے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوا تھا۔ سروقامت، سدابہار مسکراہٹ اور اپنی پیاری شخصیت کے باعث جدائی کا گہرا گھائو لگاگیا۔ ہم احباب گریۂ جدائی پر قابو نہ رکھ سکے، مگر صفدر صاحب سب کو اس وقار سے دلاسہ دے رہے تھے کہ نہ آنسو اور نہ آہیں بلکہ خلوصِ نظر کا وقا ر انھیں تھامے رہا۔
تحریکیں اور خاص طور پر نظریاتی تحریکیں ایسے ہی کارکنوں کے دم سے آباد، شاداب اور ثمربار بنتی ہیں۔ صفدر صاحب پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد، ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ناظم نشرواشاعت رہے (ازاں بعد ناظم تعلقاتِ عامہ اور پھر جنوری ۱۹۹۰ء سے جولائی ۱۹۹۶ء تک ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے)۔ ۱۹برس کی نظامت میں، بطور ناظم نشرواشاعت اُن کے زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھے محض چند سطری وضاحتی سے بیان آئے۔ اس گریزپائی و بے نیازی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’کارکن بیان نہیں دیا کرتا، یہ کام قیادت کا ہے‘‘۔ خلوص و محبت کی یہ گھنگھور گھٹا جو ۱۹۴۱ء میں ضلع جالندھر کے گائوں کرتارپور (بابا گورونانک کا مقامِ وفات) سے اُٹھی تھی، برستے برستے ۱۳جنوری ۲۰۱۸ء کو لاہور میں چھٹ گئی۔ لیکن یہ گھٹا جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا زندگی بھر اپنی جان گھلانے، دوسروں کی عزت کرنے اور احترام بانٹنے والے کارکن دمِ واپسیں اور زمانۂ معذوری میں محبت، توجہ اور احترام کا بھی کچھ حق رکھتے ہیں؟
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاOجو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا‘‘۔(۱۹:۹۶)
دنیا میں اللہ کے لاتعداد بندے ایسے آئے اور آتے رہیں گے کہ اخلاص اور صبر و محنت سے اپنا فرض انجام دیتے رہے۔ انھیں نہ کسی ستایش کی فکر تھی اور نہ کسی ملامت کی۔ فکرمندی تھی تو بس یہ کہ آپؐ کا اُمتی ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا ہو، آخرت سنور جائے، اور اپنے بعد علم و عمل صالح کا صدقۂ جاریہ چھوڑ جائیں۔ رب کی جناب میں جن بندوں کی یہ ادا قبول ہوگئی، وہ پھانسی کے پھندے پر بھی یہی پکارتے سنائی دیے کہ: فُزتُ بِرَبِّ الکَعبَۃ، ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘۔ ان کی دشمنی میںاندھے ہوجانے والوں کے دل بھی بالآخر گواہی دیتے رہے کہ وہ حق پر تھے اور ہم غلطی پر۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اس ابدی حقیقت کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بلاکر کہتا ہے: جبریلؑ! میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اہل آسمان میں منادی کرکے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، آپ لوگ بھی اس سے محبت کریں۔ اہل آسمان بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین پر بھی اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے‘‘۔ (مسند احمد)
۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو بھی اللہ کا ایک ایسا ہی بندہ، اللہ کے حضور حاضر ہوگیا۔ محمد مصطفےٰ الاعظمی دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے نمایاں ترین اہلِ علم نے ان کے فراق کا دُکھ محسوس کیا۔ ۱۹۳۲ء میں اعظم گڑھ، ہندستان میں پیدا ہونے والے کے والدین نے محمد مصطفےٰ نام رکھتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا، کہ اس نومولود کی ساری زندگی دامنِ مصطفےٰ سے وابستہ ہوجائے گی۔ دورِ جدید کی سہولیات اور ٹکنالوجی کو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے جناب اعظمی نے اس طور وقف کیا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے خیر کے وسیع ابواب کھل گئے۔
قطر میں دوران تعلیم اعظمی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا، لیکن بہتر ہے کہ خود کچھ عرض کرنے کے بجاے ان کے بارے میں دو جلیل القدر ہستیوں کی تحریریں من و عن پیش کردی جائیں۔ ان میں سے ایک تو ہیں ان کے ہم عصر اور رفیق و ہم دم علامہ یوسف القرضاوی اور دوسرے ہیں ان کے براہِ راست شاگرد اور گذشتہ ۳۵ سال سے امام کعبہ جناب شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمید۔
’اعظمی‘ کا نام ان کی جاے ولادت ہندستان کے اعظم گڑھ سے منسوب ہے۔ اس شہر سے کئی علماے ہند منسوب ہیں۔ واضح رہے کہ اعظمی کہلانے والی کئی شخصیات بغداد کے علاقے ’اعظمیہ‘ سے بھی منسوب ہیں۔یہ بغداد کا وہ علاقہ ہے جہاں امام ابو حنیفہ کی جامع مسجد ہے۔ اس علاقے اور جامع مسجد کو ان کے جلیل القدر شاگرد علماے کرام نے اپنے امام اعظم سے منسوب کرتے ہوئے ’اعظمیہ‘ کا نام دے دیا۔ اس کے مقابل ایک دوسرا علاقہ ہے، جہاں امام موسیٰ کاظم کی قبر ہے، وہ علاقہ ان کی نسبت سے ’کاظمیہ‘ کہلاتا ہے۔
اپنے بھائی ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی سے جامعہ ازہر میں میرا تعارف وہاں ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔ ان کی گرفتاری پر ہم سب کو حیرت ہوئی۔ اس گرفتاری کا اصل ماجرا یہ تھا کہ وہ جامعہ ازہر میں احمد العسال اور الصفطاوی، ہم اخوانی طلبہ سے اکثر ملا کرتے تھے۔ اس وقت وہاں موسم سرما کا آغاز تھا۔ اعظمی صاحب، ہندستانی علما کا معروف لباس شیروانی اور جناح کیپ پہنتے تھے۔ لمبی سیاہ شیروانی، سیاہ ٹوپی اور سیاہ داڑھی، حکومت کے شکاری کتوں نے سمجھا کہ یہ کوئی عیسائی پادری ہیں۔ وہ اخوان کے طلبہ اور کارکنان کو گرفتار کررہے تھے۔ ایک روز گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’کسی … کے بچو! تم مسلم نوجوانوں کو تو اخوان میں شامل کرہی رہے تھے اب عیسائیوں کو بھی نہیں بخشا؟ انھیں بھی اخوان میں شامل کرلیا ہے؟ انھوں نے اعظمی صاحب کو اُٹھا کر جیل میں بند کردیا۔ یاد نہیں وہ کتنا عرصہ گرفتار رہے، لیکن مختلف وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے وہ ہم سے پہلے رہا ہوگئے تھے۔
اس دور کے بعد اللہ نے ہمیں ایک خلیجی ریاست قطر میں اکٹھا کردیا۔ انھیں اس وقت قطر کے حکمران علی بن عبد اللہ آل ثانی کی ذاتی لائبریریوں کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں قطر کی ’نیشنل لائبریری دارالکتب‘ تعمیر ہوئی تو یہ سابق الذکر تمام لائبریریاں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔ اعظمی صاحب اس کے نگران اعلیٰ اور جناب عبدالبدیع صقر اس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔
میں جب دوحہ پہنچا تو اعظمی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں ہماری مستقل مجالس منعقد ہونے لگیں۔ جن میں جناب عبدالحلیم ابوشقہ، احمد العسال، ڈاکٹر حسن المعایرجی جیسے احباب شریک ہوتے تھے۔ ہم سب کا تعلق مصر سے تھا، جب کہ ازہر میں رہنے اور اخوان کے ساتھ جیل میں رہنے کے باعث، اعظمی صاحب بھی مصری ہوگئے تھے۔
ہمارے اہل خانہ بھی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آتے تو کہتے ’’آپ کا کھانا مزیدار تو ہے، لیکن ہے بے جان، بے روح‘‘۔ ہم نے پوچھا کہ اسے زندہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے صرف ایک چیز سے، اور وہ ہے مرچ مصالحہ، مرچوں کے بغیر کھانے کا بھلا کیا فائدہ۔ ہم نے کہا: بس ٹھیک ہے، کھانا ہم بنایا کریں گے، مرچ مصالحہ آپ لایا کریں گے۔ ایک قہقہہ لگا اور پھر یہ معمول ہوگیا کہ وہ آتے تو اپنے لیے بیگ میں سرخ مرچیں ہمراہ لاتے۔ برعظیم کے ہمارے بھائی اتنی مرچیں کھاتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے میٹھے میں بھی مرچیں ہوتی ہیں۔
مصر سے آنے والے ہم سب دوست اور اعظمی صاحب اکثر کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے، مختلف اُمور پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوتا۔ لندن سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے ڈاکٹر عزالدین ابراہیم ان مجالس کو ’راہِ سلوک‘ کی ابتدائی مجالس کہا کرتے تھے۔ پھر عبدالحلیم ابوشقہ صاحب تالیف و تصنیف میں مصروف ہوگئے اور جناب اعظمی صاحب سعودی جامعات میں تدریس کے لیے چلے گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
قطر میں مرکز بحث سنت و سیرت قائم کیا گیا اور امیر قطر نے مجھے اس کی ذمہ داری دے دی، تو میں نے کئی اُمور میں ڈاکٹر اعظمی صاحب سے مشورہ کیا۔ ان کے تعاون سے ہم نے دارالکتب اور دیگر لائبریریوں سے کئی اہم کتب اور ان کی کاپیاں حاصل کیں۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی نے ندوۃ العلما کی ۸۵ سالہ تقریبات منعقد کیں تو اس موقعے پر بھی ان سے مفصل ملاقاتیں رہیں۔
ہمارے بھائی ڈاکٹر عبدالعظیم الدیب نے ایک بار ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا: ’کمپیوٹر دورِ حاضر کا حافظ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دور گذشتہ کے طلبہ اپنے اساتذہ او رمشائخ کو ’حافظ‘ کا لقب دیا کرتے تھے، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ سیوطی .. تو آج کے دور میں یہ لقب کمپیوٹر کو دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اس ٹکنالوجی اور سہولت کو علوم حدیث و فقہ کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اعظمی صاحب اس میدان کے سرخیل تھے۔ ہم نے تقریباً ۳۰ سال قبل قطر میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس کا عنوان تھا: ’حدیث نبویؐ کا جامع انسائی کلوپیڈیا‘۔ اس وقت اعظمی صاحب نے ہمیں بتایا کہ انھوںنے سنت نبویؐ کی ۱۷ کتب جن میں ۳ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے، ایک مختصر ڈِسک میں محفوظ کرلی ہیں، اور وہ اس پر مزید کام کررہے ہیں۔
اعظمی صاحب کا زیادہ تر علمی کام حدیث ہی پر تھا۔ اگرچہ قرآن کریم کے دفاع اور ترویج کے لیے بھی انھوں نے اہم خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ان کے مقالے کو بھی اہل زبان نے بہت پسند کیا ہے۔ لیکن جس دور میں انھوں نے حدیث نبویؐ کو کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کا کام کیا، اس وقت ان کا کوئی اور ثانی نہ تھا۔
مجھے ذاتی طور پر کئی بار ان کی خدمات سے استفادے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے امام احمد کی بیان کردہ بعض احادیث پر بات کی جو مطبوعہ مسند احمد میں شامل نہیں ہیں۔ حافظ المنذری نے الترغیب و الترھیب میں ان کا حوالہ بھی دیا ہے اور ان کے بارے میں ائمہ حدیث کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے وہ احادیث کمپیوٹر پر موجود مسند سے نکال دیں۔ پھر ہم نے کئی بار تجربہ کیا اور ہر بار نتائج بالکل درست برآمد ہوئے۔ انھوں نے چار جلدوں میں سنن ابن ماجہ کی تخریج کی۔ اغلاط کی نشان دہی کی اور بحث و تمحیص کے بعد علما و مفکرین کے سامنے اپنی راے پیش کی۔ ان کی ایک اور عظیم خدمت یہ ہے کہ انھوں نے احادیث کا وہ مجموعہ دریافت کیا، جو بعض علما کے نزدیک کئی صدیوں سے مفقود ہوچکاتھا۔ یہ مجموعہ تھا:صحیح ابن خزیمہ۔ اس کتاب کا شمار حدیث کی معروف اور صحیح کتب میں ہوتا ہے۔ کئی اہل اختصاص علما کے نزدیک وہ صحیح ابن حِبَّان سے زیادہ بہتر سند و منہج کی حامل ہے۔ علامہ اعظمی صاحب صحیح ابن خزیمہ کا ایک حصہ دریافت کرگئے۔ اللہ کرے کوئی اور اللہ کا بندہ اس کا باقی حصہ بھی ڈھونڈ نکالے اور وہ مکمل صورت میں شائع کردی جائے۔
کئی سال قبل و ہ قطر کے دورے پر آئے، ملاقاتوں کی تجدید ہوئی، لیکن اب طویل عرصے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ یا ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ اچانک ان کی رحلت کی اطلاع ملی تو ہم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ ان کی تمام نیکیاں قبول فرمائے، ان کا بہترین صلہ عطا فرمائے، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ اُمید ہے کہ ان کے صاحبزادے بالخصوص عزیزم ڈاکٹر عقیل محمد الاعظمی اپنے والد کے علمی ذخیرے کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور ان کے چھوڑے ہوئے علم سے سب کو مستفید کرنے کی عملی سبیل نکالیں گے، کیونکہ علم نافع ہی دنیا سے جانے والوں کے لیے سب سے عظیم ورثہ ہوسکتا ہے۔
سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم علم کے عظیم ترین میدانوں میں سے اہم ترین میدان ہے۔ قدیم ہی نہیں اس بارے میں جدید ابحاث بھی بہت اہم ہیں۔ اس میدان کی اہم علمی شخصیات میں جلیل القدر عالم دین، ہر حوالے سے قابل اعتماد محقق و محدث ہمارے شیخ اور ہمارے استاد علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کا شمار ہوتا ہے۔ تمام تر علمی رعنائی کے باوجود وہ خود کو نمایاں و مشتہر کرنے سے بچتے تھے۔ انھوں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم دی، اور سنت نبویؐ کا دفاع کیا۔ ان کا شمار دورِ حاضر میں علم حدیث کے بلند پایہ علما میں ہوتا ہے۔ وہ اسلاف کے بعد آنے والے ان علما میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے مدون احادیث کو نیا جمال بخشا۔ اس ضمن میں ان کی نمایاں ترین خدمت صحیح ابن خزیمۃ کے مخطوطے کی تلاش و تحقیق اور اشاعت و تعلیق تھی۔
آپ ہندستان کے صوبہ اترپردیش کے علاقے میو میں ۱۳۵۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۷۰ ہجری میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں جامعہ ازہر سے تدریس کی اجازت ملی اور ۱۹۶۶ء میں کیمبرج سےپی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۸ء تک قطر کے دارالکتب کے ذمہ دار رہے اور اس دوران کئی قیمتی مخطوطات حاصل کیے۔ ۱۳۸۸ھ ہجری میں مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے جہاں۱۳۸۸ھ سے ۱۳۹۳ھ ہجری تک کلیہ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۳۹۳ ہجری میں ریاض منتقل ہوگئے۔ ۱۴۱۲ ہجری تک شاہ سعود یونی ورسٹی میں مصطلحات حدیث کی تعلیم دی۔ اس دوران وہ حدیث فیکلٹی کے سربراہ بھی بنادیے گئے اور انھوں نے مکہ مکرمہ اور ریاض میں پی ایچ ڈی کے کئی مقالوں کی نگرانی کی۔ ۱۹۸۱ء میں ایک سال کے لیے امریکا کی مشی گن کی یونی ورسٹی میں تدریس کے لیے چلے گئے۔ ۱۹۹۱ء میں کولو راڈو یونی ورسٹی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔
اپنے موضوع پر انھوں نے کئی اہم کتب سپرد قلم کیں۔ دراسات فی الحدیث النبویؐ، تاریخ تدوین حدیث اور معاصر محدثین کی منہج پر تنقید ان کی معروف کتاب ہے۔ موطأ امام مالک بروایت یحییٰ بن یحییٰ اللیثی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ کے ایک حصے کی تحقیق و تخریج بھی اہم ہے۔ انھوں نے انگریزی میں تاریخ تدوین قرآن پر ایک شاہکار کتاب لکھی، جس کے ذریعے مستشرقین کے ان الزامات کا مسکت جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نعوذ باللہ تحریف ہوچکی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین حدیث کے بارے میں اور معروف مستشرق شاخت کی کتاب شریعت محمدی کے اصول پر بھی انھوں نے اہم تنقیدی کتاب لکھی۔ عروہ بن الزبیر کی غزوات الرسولؐ جیسی کئی اہم کتب پر ان کا مطالعہ بحث و تحقیق کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان تمام علمی خدمات کے نتیجے میں ۱۴۰۰ ہجری میں انھیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، جس کی خطیر رقم انھوںنے مستحق اور ذہین مسلم طلبہ کے لیے وقف کردی۔
علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی اسلامی آداب اور شرعی اصولوں کی کڑی پابندی کرتے تھے۔ جو بھی ان کے ساتھ رہا، اسے ان کی ان عادات کا بخوبی علم ہے۔ آخری عمر میں وہ مختلف امراض کا شکار رہے۔ یقینا یہ بھی ان کی بلندیِ درجات کاسبب بنا ہوگا۔ لیکن بیماری و کمزوری کے باوجود وہ اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیاں اور اپنے معمولات جاری رکھے رہے۔ آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میں نے ان کے محلے کی مسجد میں نماز پڑھی، وہ بھی مسجد میں تھے اور نماز کے بعد اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے انتہائی مشقت سے چل رہے تھے۔ بیماری کے باعث ان کے لیے لکھنا ممکن نہ رہا تو بیٹے کو املا کروانا شروع کردیا۔ جب ان کے لیے بولنا بھی ممکن نہ رہا، تب بھی وہ اشاروں اور کمپیوٹر کی جدید صلاحیتوں کے ذریعے کام کرتے رہے۔ قرآن و سنت کے بارے میں مستشرقین کے مغالطوں کا جواب دینا ان کی اولین ترجیح رہی۔
رہا ان سے میرا ذاتی تعلق، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مکہ مکرمہ میں کلیۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ کے تیسرے سال میں لائبریری سائنس کا مضمون ان سے پڑھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں یہ ایک نیا مضمون تھا۔ طلبہ بھی اس سے زیادہ متعارف نہیں تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک بہترین استاد ثابت ہوئے۔ انھوںنے ہمارے لیے بحث و تحقیق اور علمی مصادر سے براہِ راست استفادے کے نئے دروازے کھول دیے۔ انھوں نے کارڈوں اور مختصر نوٹسز کے ذریعے تحقیق کرنے کا جدید طریقہ سکھایا ۔ استاذ مرحوم نظم و ضبط اور دوران تعلیم سنجیدگی کا بے مثال نمونہ تھے۔ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے اور غیر مفید کاموں میں ان کا وقت ضائع ہونے سے انھیں بچانے میں، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے اپنے طلبہ کو تصنیف و ترتیب اور براہِ راست علمی مصادر بلکہ ثانوی ذرائع سے استفادہ کرنے کا گر سکھادیا۔ اللہ ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔
مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ ایک عرصے سے میں ان کے ساتھ وہ ملاقاتیں نہیں کرسکا، جو ایک شاگرد کو اپنے استاذ سے کرتے رہنا چاہییں۔ شاید اس کی ایک وجہ خود ان کا زہد اور شہرت سے دُور رہنے کی عادت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی اس وجہ سے بعض اوقات ان سے غافل ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اب انھیں بہترین اجر و جزا سے نوازے اور درجات بلند فرمائے، آمین!
یہاں ان کے بچوں کا ذکر کرنا بھی مفید ہوگا۔ استاذ محترم کی حسن تربیت، حصولِ علم کی تڑپ اور نظم و ضبط کی پابندی کا عکس ان کے تینوں بچوں پر بھی واضح ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے کمپیوٹر میں تخصص کیا ہے اور اس وقت شاہ سعود یونی ورسٹی میں کمپیوٹر کی تدریس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ریاضیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ پہلے شاہ سعود یونی ورسٹی ریاض اور پھر دبئی کی زاید یونی ورسٹی میں پڑھاتی رہیں، جب کہ ڈاکٹر انس کا تخصص جینیاتی سائنس ہے اور وہ شاہ فیصل ہسپتال کے تحقیقاتی سنٹر میں کلیدی ذمہ داری پر ہیں۔ پروردگار ہمارے استاد جلیل علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ نبیوں، صدیقین شہدا اور صالحین کا بہترین ساتھ نصیب فرمائے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاO (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا۔
پروردگار! ہم سب کو بھی اپنے ان بندوں میں شامل فرما، آمین!
سیّد محمدحسنین(۲۳مارچ۱۹۱۷ء-۱۴جنوری۲۰۰۵ء)اکتوبر۱۹۴۱ء سے جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے اور تادمِ مرگ یہ وابستگی قائم رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہوتی گئی۔ اس دوران انھوں نے مختلف جماعتی ذمہ داریاں اداکیں۔مشرقی ہند کے قیم،شمالی بہارکے امیرحلقہ اور کُل ہندجماعت مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔مزیدبرآںدرس گاہِ اسلامی دربھنگاکے ناظم بھی رہے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے سبب کئی بارپابندسلاسل بھی ہوئے۔بقول اے یو آصف: ’’ان کی پوری زندگی جماعت کے کازکے لیے وقف تھی‘‘۔ (دعوت دہلی، ۷مارچ۲۰۰۵ء)
ان کا آبائی تعلق صوبہ بہار(کورونی،بھپوڑا،دربھنگا)سے تھا۔ابتدائی تعلیم سوری ہائی اسکول مدھوبنی سے حاصل کی۔ حصولِ علم کا شوق انھیں کشاںکشاں دہلی لے آیا۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھروالوں کو بتائے بغیر پڑھنے کے لیے آئے تھے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی توجہ سے محمدحسنین کو اگست۱۹۳۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ثانوی سوم میں داخلہ مل گیا۔مئی۱۹۴۰ء میں جامعہ سے بی اے کیا۔ زمانۂ طالب علمی میںوہ ہمیشہ ہرکلاس میںاوّل رہے۔مزیدبرآںجامعہ کالج کے طلبہ کی تنظیم انجمن اتحادکے ناظم اورانجمن اتحاد کے ترجمان قلمی رسالے کے اڈیٹربھی رہے۔ علامہ اقبال پررسالے کاخاص نمبرجوہراقبال کے نام سے شائع ہوا۔ جامعہ میںاُن کاقیام بورڈنگ ہاؤس (اقبال ہال)میں تھا۔ وہ اس ہاؤس کے سینئرمانیٹرتھے۔روایت ہے کہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکسی موقعے پرجامعہ ملیہ گئے توسیّد محمد حسنین کے کمرے میں بھی تشریف لے گئے۔
ڈاکٹر ذاکرحسین سے طالب علمی کے زمانے میں حسنین صاحب کا جو تعلق قائم ہوا، اسے اوّل الذکر نے ٹوٹنے نہیں دیا، عمر بھر قائم رکھااورآفرین ہے مؤخرالذکر پرکہ انھوں نے (باوجود گورنر صوبہ بہار اور صدر جمہوریہ ہند ہو جانے کے) حسنین صاحب کویاد رکھا، بھلایانہیں۔ ذاکرصاحب فوت ہوئے تو حسنین صاحب نے حسب ذیل مضمون میں ذاکرصاحب سے اپنے تعلق کی ابتدا اور ان تعلقات میںنشیب وفراز کی تفصیل قلم بند کی۔یہ مضمون پٹنہ کے خدا بخش لائبریری جرنل میں شائع ہوا تھا۔
اس مضمون سے جہاں خود حسنین صاحب کے مزاج اوران کی شخصیت کااندازہ ہوتا ہے،خصوصاً ان کی دعوتی سرگرمیوںاوردعوتِ دین کے طریق کار کا پتا چلتاہے،وہیں ڈاکٹرذاکرحسین کی دل نواز مگر مصلحت پسند شخصیت کی جھلکیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کی دعوت کو سمجھتے تھے اور کانگریسی ہونے کے باوجود جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے جیسا کہ زیرِ نظر مضمون سے اندازہ ہوتا ہے۔(مرتب)
[اے یوآصف راوی ہیں کہ ڈاکٹرذاکرحسین نے ان کے شوقِ تعلیم اورجستجو کو دیکھ کر داخلے کی منظوری تو دے دی لیکن وطن واپس جا کروالد سے اجازت لے کرآنے کاکہا۔ ان کے حکم کے مطابق وہ واپس آگئے اورپھراجازت حاصل کی۔]
ہاں، یہ بتا دوں کہ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہواتوایک نہایت حسین ووجیہ پُروقار شخصیت سے سامناہواتھا۔اس وقت ان کی عمر۳۵-۴۰ کے قریب رہی ہوگی۔ سرخ،سفید چہرہ اور اس پر بھر پورسیاہ داڑھی،بقول حفیظ جالندھری: ع جلال بھی ہے جمال بھی ہے،یہ شخصیت کاکمال بھی ہے۔
انھوں نے ہنستے ہوئے گرمجوشی سے میرا استقبال کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ ایک نہایت سفیدفرش پربیٹھے تھے۔ فرش کے اوپرناریل کی چٹائی تھی۔ سامنے فرشی میز تھی جس پرہرچیزاپنی جگہ انتہائی سلیقے سے سجی ہوئی رکھی تھی۔ ان کی بائیں طرف دیوار پرشیشے کاایک فریم آویزاں تھا جس پریہ شعرخوش خطی کا بہترین نمونہ پیش کررہاتھا ؎
آسایش دوگیتی تفسیر ایں دوحرف است
بادوستاں تلطّف ، بادشمناں مدارا
جب انھوں نے میرے فارم پر دستخط کردیے توان سے الوداعی مصافحہ کرکے کمرے سے باہر آیااوربہت خوش اورمسرورتھا۔
چند دنوں کے بعد جامعہ کے احاطے میں ان سے آمناسامناہوا۔انھوں نے مجھے روک کر فرمایا:’’تعلیم ختم ہوجانے کے بعددوگھنٹے صدرمدرس کے دفترمیں آپ کام کیاکریں گے۔ اس کے عوض آپ کو۸روپے ماہانہ ملا کریں گے جس سے آپ اپناجامعہ کا خرچ پورا کرنے کی کوشش کریں‘‘۔اس پرمیں نے ان کا شکریہ اداکیا۔
میں نے اپناداخلہ جامعہ میں غیرمقیم طالب علم(Day Scholar) کی حیثیت سے کرایا، کیوںکہ اس وقت جامعہ میں دارالاقامہ میں قیام وطعام کے مصارف۱۶ روپے ماہانہ تھے۔ اس وقت مَیں جامعہ ملیہ قرول باغ دہلی سے اُتر کی جانب سبزی منڈی کے ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں ایک مسجد میں رہتاتھاجس کی دوری جامعہ قرول باغ سے دو (۲) میل سے کم نہ تھی۔ ایک روزپھر جامعہ میں میرا اُن سے آمناسامنا ہوااوریہ پوچھاکہ ’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ سبزی منڈی،ریلوے اسٹیشن کی مسجدمیں۔یہ سن کرخاموش ہوگئے۔ چنددنوں کے بعدپھر اسی طرح سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے فرمایا:’’قرول باغ میںجامعہ سے متصل ہی ان کے عزیز، احمد خاں رہتے ہیں،جوطبیہ کالج میں پڑھتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھاہے،ان کے کمرے میں گنجایش ہے،آپ ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیااورچنددنوں میںسبزی منڈی سے قرول باغ منتقل ہوگیا۔ احمدخاںصاحب نے اپنے کمرے میںجگہ دی لیکن کرایہ قبول نہ کیا۔
ایک سال تک ان کے ساتھ رہا۔ نہایت مخلص اورشریف آدمی ثابت ہوئے۔۸ روپے جامعہ سے جو بطور معاوضہ کے ملتے تھے ،اس میں سوادوروپے میں نے جامعہ کی فیس تعلیم اداکی اورچارروپے میں جامعہ کے مطبخ سے دونمبرکھاناجاری کرالیاجس میں صرف دال اور چپاتیاں ملاکرتی تھیں۔ باقی پونے دوروپے ناشتہ اوراوپرکے خرچ کے لیے کافی ہوجایاکرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ایک روز جامعہ میں سرِ راہ ملاقات ہوئی تواستاد علیہ الرحمہ نے مجھے روک کر فرمایا: ’’ڈاکٹرسلیم الزماں صاحب کے چھوٹے بچے کو شام کوایک گھنٹہ ان کی کوٹھی پر جاکر پڑھا دیاکریں۔دس روپے ماہانہ معاوضے کے طورپروہ دیاکریں گے‘‘۔ اس طرح جامعہ میں بہ سہولت تعلیم حاصل کرنے کا موقع میرے لیے پیداکرادیااورجب تک جامعہ میںقیام رہا، ان کی نوازشوں اورکرم فرمائیوں کاسلسلہ جاری رہا۔
ان ساری نوازشوں کا تذکرہ اس وقت نامناسب ہے لیکن ایک واقعے کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک روز جامعہ لائبریری کے برآمدے میں اسٹینڈ پر جہاںروزنامہ اخبارلگے رہتے تھے، لوگ کھڑے ہو کر اخبارپڑھ رہے تھے،میں بھی اخبار دیکھ رہا تھا۔ بائیں طرف کے راستے سے استاد علیہ الرحمہ گزررہے تھے۔میں نے اپنی آنکھیں اٹھائیں توان سے آنکھیں چار ہوئیں اوربغیران کو سلام کیے میں دوبارہ اخبارپڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ استادعلیہ الرحمہ چلتے چلتے رُک گئے اور پھرجب میں نے نظراُٹھا کر ان کو دیکھا توانھوں نے جھک کرمجھ کو فرشی سلام کیااورآگے بڑھ گئے۔ میں نے جواب تو دیالیکن سلام نہ کرنے کی کوتاہی پربڑی ندامت محسوس کی___ یہ تھا ان کا ایک اندازِ تربیت!
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی اورمیں اس سے وابستہ ہوگیا۔ جماعت اسلامی کا مرکزلاہورسے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ ۱۹۴۴ء میں آل انڈیاجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں رکن بنایاگیا۔ مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے پٹھان کوٹ آتے جاتے میں دہلی میں رک کر احباب سے ملاقات اوراپنے اساتذۂ کرام کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھا۔ استاد علیہ الرحمہ جب علی گڑھ کے وائس چانسلرہوئے تب بھی دہلی آتے جاتے،ان کی خدمت میں حاضرہوتاتھا۔ جماعت کا لٹریچر ان کی خدمت میںپیش کرتااورجماعت کی سرگرمیوں سے ان کوواقف کراتاتھا۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تاآنکہ وہ۱۹۵۷ء میںبہارکے گورنرہوکے پٹنہ تشریف لائے۔ ان کاگورنری کاعہدہ قبول کرنامجھ کو پسند نہ آیا۔ میرے خیال میںیہ منصب ان کے مقام سے بہت فروترتھا۔ نہ میں اُن سے ملنے گیااورنہ ان کی خدمت میںخیرمقدم کاکوئی خط ارسال کیا۔ تقریباًچھے مہینے کے بعد انھوں نے پٹنہ کے کسی صاحب سے میرے متعلق تذکرہ کیاکہ’’یہاں بہار میں میرے ایک شاگردہیںحسنین۔وہ اب تک ملاقات کے لیے نہیں آئے،پتانہیں کیابات ہے۔کبھی کبھی وہ میراایمان تازہ کردیاکرتے تھے‘‘۔ ان صاحب نے پٹنہ میں محبی شبیراحمد (جو ان دنوں پٹنہ میں ایک سوڈافیکٹری کے منیجرتھے)سے میرے بارے میں استادعلیہ الرحمہ کی گفتگو دہرائی۔ ایمان تازہ کرنے کی بات یہ ہے کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھاتوجماعت کی کوئی نہ کوئی کتاب ان کی خدمت میں پیش کیاکرتاتھا۔ محبی بشیر احمدصاحب نے مجھ کو پٹنہ سے ایک کارڈ لکھاکہ تم اب تک اپنے استادسے کیوں نہیں مل سکے اور استاد علیہ الرحمہ کی گفتگونقل کی۔ اُن کا خط ملنے پر میں نے استادؒکی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا،بعد القاب وآداب میں نے عرض کیاتھا:
’’گورنر کی حیثیت سے آپ کو پٹنہ تشریف لائے ہوئے کافی دن ہو گئے،لیکن افسوس ہے کہ میں نہ تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکا اور نہ خیر مقدم کا کوئی خط ہی ارسال کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس الجھن میں ہوں کہ آپ کے لیے گورنری ،قلندری سے کیسے افضل ہو گئی؟اور آپ نے اسے کیسے پسند فرما لیا؟ اخبارات میں یہ پڑھ کر خوشی ہو ئی کہ آپ اس ریاست کو نمونے کی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جس کے کار پردازوں کا طرزِعمل ظلم و جور کا ہو،اس کو نمونے کی ریاست بنانے میں آپ کو بہت دشواری پیش آئے گی۔جماعتِ اسلامی ہند سے توآپ بہت حد تک واقف ہیں ۔جماعت اسلامی کے سلسلے میں حکومتِ بہار کا جو رویہ ہے ،اس کے متعلق دعوت، اخبار میں میرا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا تراشا ارسالِ خدمت ہے‘‘۔(ان دنوں حکومتِ بہار نے جماعت اسلامی پرsubversive activities [تخریبی سرگرمیوں]کا الزام لگایا تھا اور ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ لوگ جماعت کی سرگرمیوں سے دور رہیں ورنہ Conduct Rule دفعہ ۳۳ کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی)۔ دوسری بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ ’’اب مجھ جیسا معمولی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہونابھی چاہے تو کیسے حاضر ہو سکتا ہے؟اور جماعت کا کچھ تازہ لٹریچر بھی خط کے ساتھ رجسٹرڈ ڈاک سے استاد علیہ الر حمہ کی خدمت میں ارسال کر دیا لیکن پندرہ دنوں تک ان کی طرف سے نہ کوئی جوب آیا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اس پر میں نے ڈاک سے دوسرا عریضہ ان کی خدمت میں ارسال کیااور اس میں عرض کیا کہ دو ہفتوں سے زائد ہوگئے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ اور اور چند کتابیں ارسال کی تھیں۔ تعجب ہے کہ اس کے جواب میں نہ تو آپ کا کوئی گرامی نا مہ ملا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں ورنہ آپ سے ایسی توقع نہیں ہے کہ آپ میرے عریضے کا جواب نہ دیں گے۔میرے اس عریضے کے جواب میں رانچی سے ان کا گرامی نامہ ملا۔اس خط کا مضمون یہ ہے:
راج بھون -رانچی کیمپ ، ۱۰ستمبر ۱۹۵۷ء
عزیزم حسنین صاحب،السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
آپ کے دونوں محبت نامے ملے۔آپ کا بھیجا ہوا لٹریچر بھی ملا ۔معافی چاہتا ہوں کہ پہلے خط کے جواب میں اتنی دیر ہوئی کہ آپ کو یاد دہانی کرنی پڑی۔شاید آپ کو غلط فہمی ہو، اس لیے وجہ لکھے دیتا ہوں ۔میں ذاتی خطوط کے جواب لکھنے میں بہت کاہل ہوں۔ پھر اگر کوئی دوست یا عزیز اپنے خط میں کوئی ایسا سوال کر دیتا ہے،جو میری شخصی داخلی زندگی سے متعلق ہو تو مجھے اس کا جواب لکھنا اور دشوار ہو جاتا ہے۔آپ نے اپنے پہلے خط میں الجھن یہ بتائی کہ قلندری سے گورنری کیسے اور کب سے افضل ہو گئی اور میں نے گورنری کو قلندری پر کیسے ترجیح دی؟
پہلے تو عزیز ِمن !میں قلندر کب تھا ؟لیکن سوال کو اپنی ذات سے الگ کر کے ایک اصولی سوال سمجھوں تو اس کا بہت اچھا جواب حضرت مخدوم سیدّعلی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش ؒنے اپنی کتاب کشف المحجوبمیں ایک جگہ دیا ہے___ اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا :
[وہ فرماتے ہیں ]:استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے سنا،فرمایا:فقیری اور مال داری کے سلسلے میں لوگوں نے بات کہی ہے اور ا س کو اختیار کیاہے، میں اس کو اختیار کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور مجھ کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اگر مال داری کی حالت میں رہوں تو اللہ سے غافل نہ ہونے پاؤں اور اگر غربت کی حالت میں رہوں تو حریص اور لالچی نہ بنوں۔ لہٰذا مال داری نعمت ہے اوراس حال میں اللہ سے غفلت آفت ہے۔ غریبی اور فقیری بھی نعمت ہے اوراس حال میں حرص آفت ہے۔
دوسری الجھن کا جواب سہل ہے۔ میں ابھی کوئی تین چارہفتہ یہاں ہوں۔ وسط اکتوبرسے ان شاء اللہ پٹنہ میںرہوں گا۔ آپ ایک کارڈ میرے سیکرٹری کو لکھ دیں ،وہ مجھ سے پوچھ کرآپ کے لیے وقت مقرر کردیں گے۔ ضرور تشریف لائیے۔ مفصل گفتگو کو بہت جی چاہتاہے۔خداکرے کہ آپ خیریت سے ہوں اورخوش بھی۔خیرطلب:ذاکرحسین
میں نے استادؒ کی ہدایت کے مطابق ان کے سیکرٹری کوخط لکھااوران سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے وقت مقررکرکے مجھ کو مطلع کیا۔ مقررہ وقت پر میں راج بھون پہنچا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے میرااستقبال کیااوران کے کمرے تک میری رہ نمائی کی۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوگیاتوانھوںنے دروازہ بند کردیا۔ استادؒ کو میں نے سلام کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے کھڑے ہوکرمعانقے کے لیے کھینچ لیااور اسی حال میں ہنستے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگ حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں‘‘۔ پھر اپنے قریب کی کرسی پربیٹھنے کی ہدایت کی۔
میں نے جواب میں عرض کیا:’’جب ہم مجبور ہوتے ہیںتبھی حکومت پرتنقید کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد دوسراسوال انھوں نے یہ کیا:’’کیا ابھی مولاناابواللیث صاحب امیرجماعت اسلامی ہندنے کہیں یہ کہا ہے کہ’’جماعت اسلامی پاکستان نہیں چاہتی تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کہاہوگا۔ جماعت اسلامی تو پوری دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،لیکن کچھ لوگوں نے ہندستان کے دوٹکڑوں پرہی قناعت کرلی ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایاکہ’’حسنین صاحب! آپ لوگ حکومت الٰہیہ قائم کرناچاہتے ہیں لیکن عام طورسے ہندستان کے مسلمان حکومتِ الٰہیہ نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے کہا: یہ کم حوصلگی اور پست ہمتی ہے ورنہ مسلمان کی حیثیت سے:’’ہر ملک، ملکِ ماست کہ ملکِ خداماست‘‘۔ ہرملک میں حکومت الٰہیہ یا اللہ کا دین قائم ہوناچاہیے‘‘۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا:’’آپ کی حکومت نے جماعت اسلامی کو subversive [تخریبی]کیسے قراردے دیا، ہم لوگ توپُرامن طریقے پرلوگوں کو اللہ کے راستے پربلاتے ہیں ،کوئی توڑ پھوڑ، قتل وغارت گری کا طریقہ نہیں اپناتے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا:’’subversive ہونے کے لیے اتنا کافی ہوسکتاہے کہ حکومت کے دستور کوتسلیم نہ کیا جائے اور غیر پارلیمانی طریقے سے حکومت کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھیے! کمیونسٹوں نے ملک کے دستور کو مان کرکیرالا میں الیکشن میں حصہ لیااورالیکشن میں کامیاب ہونے پر وہاں حکومت بنائی۔ آپ لوگ بھی دستورکو مان کرپارلیمانی طریقے سے حکومت کو بدل سکتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ اگرsubversive سے یہ مطلب ہے توہم اقراری مجرم ہیں۔ یہ فرمائیے کہ کیا ہم آپ کی ریاست میں اللہ کا نام لے سکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایاکہ اس سے آپ کو کون روک سکتاہے۔ میں نے عرض کیاکہ جب ہم لاالٰہ الا اللہ کی تشریح کریں گے تو پھر subversive آجائے گا۔اس پر آپ نے فرمایاکہ ایک چیز پھل ہے اور ایک چیزدرخت ہے۔ پھل سے اگر لوگوں کواختلاف ہے، قبل از وقت پھل کا تذکرہ مت کیجیے۔ درخت لگانے کی کوشش کیجیے۔ جب لوگ آپ کے میٹھے پھل کو چکھیں گے تومخالفت ترک کردیں گے۔ میں نے بہ ادب عرض کیا:درخت لگانے کا عمل چپکے سے اور اکیلے تو نہیں ہوگا،اس کی خوبیوںکو بتا کرکچھ لوگوں کو تواپنے ساتھ لینا ہی ہوگااوران کے تعاون ہی سے یہ کام انجام پاسکتاہے۔ میں نے جماعت اسلامی کی دعوت اورطریقۂ کار کا مختصراً تعارف کرایا۔ آپ نے توجہ اورصبرسے میری باتوں کو سنا اور فرمایا: ’’ٹھیک ہے جس بات کوآدمی حق سمجھے،اس کے لیے جدوجہدکرے‘‘۔ا س کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کی حکومت میری ہمہ وقت نگرانی کیوں کرتی ہے؟ سی آئی ڈی کے دوآدمی سایے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں؟‘‘ جواب میں انھوں نے فرمایا:’’یہ آپ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوگا، تمام سیاسی ورکروں کی نگرانی کی جاتی ہے،آپ کی بھی کی جاتی ہوگی۔ اس میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیںہے۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں،آپ اپنا کام کیجیے۔راہِ حق میں دشواریاں توپیش آتی ہی ہیں‘‘۔
جب میں استادؒ سے ملاقات کے لیے پٹنہ پہنچاتوبرادرم سیدوسیم اللہ صاحب کے یہاں قیام کیا تھا،جو ان دنوںسیکرٹیریٹ میںملازم تھے اور کسی اونچے منصب پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق’ہمدردی‘کاتھالیکن اس تعلق کی بنا پران کے خلاف کارروائی چل رہی تھی۔ استاد محترم سے پہلے جو گورنرصاحب تھے،انھوں نے کوئی آرڈیننس جاری کیاتھاکہ جو سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمیوں میںملوث پایاجائے گا،اس کا compulsory retirement [جبری سبک دوشی] ہوسکتی ہے۔ اسی آرڈی ننس کے تحت وسیم اللہ صاحب کے خلاف کارروائی ہورہی تھی۔ حالاںکہ اس آرڈی ننس کی مدت ختم ہوچکی تھی اورگورنرصاحب بھی تشریف لے جا چکے تھے۔میں نے وسیم اللہ صاحب سے اس آرڈی ننس کا نام اورنمبروغیرہ لے کر اسے استادؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوںنے چشمہ بدل کربغوراس کو پڑھا اور پوچھاکہ’’اس طرح کے کتنے آدمیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے‘‘؟ میں نے عرض کیا: ’’بہار میں تقریباً ۲۰اشخاص کو جوجماعت اسلامی کے رکن تھے اور سرکاری ملازم بھی تھے،پرائمری سکول کے ٹیچرسے لے کرگزیٹیڈآفیسر تک کوجماعت اسلامی کی رکنیت کے جرم میں برطرف کیا جاچکاہے۔ ان لوگوں نے ملازمت سے برطرفی کو گوارا کیا اور جماعت سے تعلق کوبرقرار رکھا۔ لیکن وسیم اللہ صاحب جماعت کے رکن نہیں ہیں۔ ان پر جماعت کی رکنیت کاغلط الزام لگا کران کو پریشان کیاجارہاہے‘‘۔استادؒ نے اس پرزے کورکھ لیا۔
ہماری یہ ملاقات بہت زیادہ طویل ہوگئی تھی اوران کے پاس یاددہانی کی گھنٹی بار بار بجتی رہی۔ جب ہماری گفتگوختم ہوئی تووہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایاکہ مقررہ وقت سے زیادہ ہی وقت صرف ہوچکاہے اورلوگ انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔باقی ان شاء اللہ آیندہ۔اس طرح ان سے مصافحہ کرکے رخصت ہوااوروہ دروازے تک پہنچاگئے۔
کچھ دنوں کے بعد جب وسیم اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوںنے بتایاکہ ان کے خلاف کارروائی ختم ہوچکی ہے اوران کی ترقی کے ساتھ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیاگیاہے اورمیرے ساتھ جوسی آئی ڈی کی نگرانی تھی،وہ بھی ختم ہوگئی۔ دربھنگا میں سی آئی ڈی کے ایک افسرنے آکراطلاع دی کہ ہمارے پاس آرڈرآگیاہے کہ اب آپ کی نگرانی نہ کی جائے۔
اس کے کچھ ہی دنوںکے بعدگوہاٹی میں استاد کے پرائیویٹ سیکرٹری اورملٹری سیکرٹری کے خطوط ملے۔ جس میں درج تھاکہ استادؒ۲۵؍اپریل کو گوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ اس شام کوساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس میں مجھ سے مل کروہ خوش ہوں گے۔ اس کے بعد دوسرے دن سی آئی ڈی کے ایک افسر میرے پاس آئے اور بتایاکہ پریسیڈنٹ ۲۵؍اپریل کوگوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ ان کے پروگرام میں آپ سے ملاقات بھی شامل ہے۔ مہربانی کرکے سی آئی ڈی آفس آیئے،آپ کو ایک پاس دیاجائے گا۔اس کولے کر ہی آپ ان سے مل سکتے ہیں۔چنانچہ میںسی آئی ڈی دفترپہنچ گیا۔سی آئی ڈی افسرنے مجھ سے پوچھاکہ صدرجمہوریہ ہند کس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں اوران کاآپ سے کیاتعلق ہے؟ میں نے ان کو بتایاکہ وہ میرے استاد رہ چکے ہیں۔میں نے جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۰ء تک میں وہاں رہا۔ وہ ہمارے استاد بھی رہے اوروائس چانسلر بھی رہے۔ اسی تعلق سے اُن سے ملناہے۔چنانچہ مجھ کو ایک پاس دیاگیا،اس کولے کرمیں ان سے ملا۔ میری ملاقات سے پہلے گوہاٹی کے ایک بڑے میدان میںان کی تقریرتھی۔ پہلے میں جلسے میں شریک ہوا اوراُن کی تقریر سنی۔اس کے بعد مقررہ وقت سے چندمنٹ پہلے سرکٹ ہاؤس پہنچ گیا۔
مجھے ویٹنگ روم میں بٹھایاگیا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اوربتایاکہ سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہے اور آپ کی ملاقات کے لیے۵منٹ کاوقت دیا گیا ہے۔جب آپ کی طلبی ہوگی تومیںآپ کو کمرئہ ملاقات میں پہنچا دوں گااورکمرہ بند ہوجائے گا۔جب آپ کا وقت ختم ہوجائے تو میںدروازہ کھول کرکھڑاہوجاؤں گاتو مہربانی کرکے آپ اٹھ جائیے گا،ورنہ جب تک آپ بیٹھے رہیں گے،وہ بھی آپ سے باتیںکرتے رہیں گے اورآپ کے بعدآنے والوں کو موقع نہیں مل سکے گا۔ اس لیے کہ اس کے بعد نماز کا وقت ہوجائے گااوروہ نماز پڑھیں گے۔میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ،مجھے کوئی عرض داشت نہیں پیش کرنی ہے اور نہ کوئی لمبی چوڑی گفتگو ہی کرنی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی خیروعافیت دریافت کریں گے اوروقت ختم ہونے پر اُٹھ آئیں گے۔ ہماری یہ گفتگوملٹری سیکرٹری سے ہورہی تھی کہ استادؒ بی کے نہروکے ساتھ،جو اس وقت آسام کے گورنر تھے،سامنے آئے اور اُن سے جداہوکرملاقات کے کمرے میں گئے اور گھنٹی بجائی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی مجھے طلب کرلیا۔ میں اندر داخل ہوااورسلام عرض کیا۔وہ اٹھے،بڑھ کر گلے لگایا۔ خیریت دریافت کی اورپوچھاکہ’’ آپ آسام کیسے آگئے؟‘‘میں نے عرض کیاکہ’’آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگوں نے جماعت اسلامی ہند بنائی ہے اور کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں جماعتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردی ہیں۔میںبھی اُن میں سے ایک ہوں۔۲۲سالوں تک بہار، اڑیسہ، بنگال میں جماعت اسلامی ہند کی دعوت پیش کرتا رہا۔اللہ کے فضل وکرم سے وہاں کچھ کارکن تیار ہوگئے تو اب جماعت نے مجھ کو آسام بھیجا ہے تاکہ یہاں بھی جماعت اسلامی کی دعوت پیش کروں۔ساتھ ہی ساتھ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچر تیار کرانے کا کام میرے سپرد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچرکی بڑی کمی ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایا کہ ’’آپ نے بڑے استقلال سے کام کیا‘‘۔میں نے عرض کیاکہ محض اللہ کی توفیق اور آپ لوگوں کی تعلیم وتربیت ہے کہ اس کام کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ نے فرمایاکہ ’’آسامی زبان میںاسلامی لٹریچر کے تیار کرنے کرانے کاکام بھی بہت اہم ہے‘‘۔ انھوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالااورایک سوروپے کا نوٹ نکال کرآسامی زبان میں اسلامی لٹریچر کے لیے دیا۔میں نے قبول کرنے میں تامّل کیاکہ آپ سفر کی حالت میں ہیں،فوری طور پر دیناکیا ضروری ہے۔انھوں نے میری جیب میںنوٹ ڈال دیا۔اس کے بعد فرمایاکہ:’’پچھلے دنوںآپ نے محسن انسانیت بھیجی تھی،سیرت پریہ کتاب مجھ کوبہت پسندآئی۔ سیرت پرمیں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں،حتیٰ کہ مولانا شبلی کی سیرت النبی ؐ بھی دیکھی ہے مگرمحسن انسانیت مجھ کو بہت پسند آئی۔
اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔میں نے سوچاکہ اس مختصر ملاقات میں زیادہ ترانھی کے ارشادات سنوں گا اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں پوچھوں گالیکن وہ خاموش ہوگئے تو میں نے عرض کی کہ آج جمعہ کا دن ہے،اگرگوہاٹی کی کسی مسجد میںجمعہ کی نماز بھی آپ کے پروگرام میںشامل ہوتی تو اچھاہوتا۔ یہاں کے مسلمانوں کو توقع تھی کہ مسلمان صدرجمہوریہ ہند یہاں کی کسی مسجد میں نماز اداکریں گے توقریب سے انھیں دیکھنے کاموقع ملے گا۔اس سلسلے میں گوہاٹی کے مسلمانوں کو مایوسی ہوگی۔
انھوں نے فرمایاکہ’’میرے دونوں گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے اور فرش پرنمازاداکرنے میں تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے۔میں چوکی پربیٹھ کرپاؤں لٹکا کے نمازپڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی عید، بقرعیدکے موقعے پردہلی کی عیدگاہ میں چلا جاتاہوںتو بڑی تکلیف کے ساتھ نماز اداکرپاتاہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا:یہ عذرمعقول ہے لیکن لوگوںکو اس کی خبرنہ ہوگی۔
اس کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کے جوبھی ہوم منسٹر ہوتے ہیں،جماعت اسلامی کے خلاف غلط الزامات لگایاکرتے ہیں اور ہم لوگ ان کی صفائی میں جو کچھ کہتے ہیں،ان کا وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ایک طرح کے الزامات بارباردہراتے رہتے ہیں‘‘۔
انھوں نے فرمایاکہ’’وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ آپ اپناکام کیجیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کواورسب جماعتوں کوخوش رکھنے کے لیے اورتوازن برقرار رکھنے کے لیے سیاسی لوگ ایسی بات کہتے ہیں اورایسی حرکتیں کرتے ہیں جو حقیقت اورصداقت کے خلاف ہوتی ہیں۔ پتا نہیںکہ خودچوہان جی کی(جو اس وقت ہوم منسٹرتھے) جماعت کے بارے میں اپنی رائے کیاہے۔ لیکن عام طورسے ایساہوتاہے کہ الیکشن میں کامیابی کی خاطر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے الیکشن کا موجودہ طریقہ غلط ہے‘‘۔
اس موقعے پر میں نے عرض کیاکہ’’تب تو الیکشن میںجماعت اسلامی کا حصہ نہ لینا حق بجانب ہے‘‘۔ اس کاانھوں نے خاموش مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ بھارت میں فسادات کا سلسلہ آخرکب ختم ہوگا؟ میرے اس سوال پروہ افسردہ ہوگئے اور کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا:’’ہم لوگ مسلمان ہیں اور فسادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا فسادات کوزیادہ محسوس کرتے ہیں،ورنہ حکومت کی کون سی کل سیدھی ہے؟ دیکھیے تلنگانہ میں کیا ہورہا ہے؟(اس وقت آندھراپردیش میں تلنگانہ کی پُرتشدد تحریک زوروں پرتھی)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری لیڈرشپ بہت کمزورہے‘‘۔
یہ سن کرمیں حیرت میں مبتلا ہوگیاکہ اپنی ہی حکومت کے سلسلے میں صدرجمہوریہ کیا فرما رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ صدرکے ملٹری سیکرٹری دروازہ کھول کرنمودارہوئے اور میں ان کی ہدایت کے مطابق اُٹھ کھڑاہوا۔ استاد محترم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں الوداعی سلام کرکے ہاتھ ملاکردروازے کی طرف بڑھا۔ وہ بھی میرے کاندھوں پرشفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے دروازے تک یہ کہتے ہوئے آئے:’’اللہ آپ لوگوں کوکامیاب کرے،آپ لوگوں کی میرے دل میں بڑی قدرہے‘‘۔ اس آخری ملاقات کے بعد جب میں باہر نکلاتومیں بہت خوش اور مسرورتھاکہ انھوں نے میری سرگرمیوں کی تائید فرمائی اور دعادی۔ ان کی حوصلہ افزائی اوردعائیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں اوراب تک گونج رہی ہیں،مگرافسوس کہ میری خوشی اورمسرت کے لمحات بہت عارضی ثابت ہوئے۔
ایک ہفتہ بعد۳ مئی ۱۹۶۹ء کو میرے ایک دوست نے آکرخبر دی کہ صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکرحسین انتقال کرگئے ہیں،اِنَّـالِلّٰہِ وَاِنَّـااِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ یہ خبر سن کرمیں اس درجہ متاثر ہواکہ بستر پر جاکرلیٹ گیااوردیرتک روتارہا۔ جب کچھ سکون ملاتووہاں سے اپنے ایک عزیزکے یہاں چلا گیاجن کے پاس ریڈیو سیٹ تھا۔ بستر پرلیٹے لیٹے،اس وقت تک ریڈیو سنتارہاجب تک ان کی تجہیزوتکفین نہ ہوگئی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوراپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے___ آمین۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی ان دوحرفوں کی تفسیرتھی:’’بادوستاں تلطّف، بادشمناں مدارا‘‘ یااقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھے:’’مروت حسنِ عالم گیرہے مردانِ غازی کا‘‘___ یااللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق تھے:’’تم میں سے اچھا انسان وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھاہو۔ اور اللہ نے مجھ کو اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا‘‘۔ اورارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’تم میں سب سے محترم ومکرم بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرکرزندگی گزارنے والا پرہیز گارہو‘‘۔
نوٹ: ڈاکٹر ذاکر حسین برعظیم کی سیاست ، دانش وَری اور تعلیم کے شعبوں میں ایک بڑا نام ہے۔ صدر جمہوریۂ ہند کے منصب پر فائز ہوکر وہ ترقی اور عروج کی انتہا کو پہنچ گئے۔ برعظیم میں کوئی شخص، خصوصاً ایک بھارتی مسلمان، اس سے بڑے عہدے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر ذاکرحسین کا سیاسی گراف تو بہت اُونچا چلا گیا مگر تعلیم (جو اُن کا اصل میدان تھا) یا دانش وَری کے بارے میں ان کی آدرشیں کیا ہوئیں؟
اُن کے قریبی رفیق اور دانش ور پروفیسر محمد مجیب نے ان کی سوانح عمری میں ان کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ان کی مصلحت اندیشی کا ذکر بھی کیا ہے۔ علی گڑھ کے پروفیسر اور نامور ادبی شخصیت اسلوب احمد انصاری نے ذاکرصاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حکمت عملی اور مصلحت اندیشی ان کی زندگی کے دو بنیادی تشکیلی اصول تھے۔ اس کا نتیجہ ہمیشہ مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح کے تعہّد (commitment) کی نفی کرتا ہے۔ مصلحت اندیشی، حق شناسی اور حق گوئی کے راستے میں، ان کے لیے عمربھر زنجیرپا بنی رہی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے بڑے قابلِ قدر کام کیے [مگر] بعض اوقات صاحبانِ جاہ و منصب کے زیراثر اور ان کے دبائو میں آکر نامنصفانہ طورپر اور جانب داری کے ساتھ ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا جو اس اعزازاور ترقی کے کسی طرح مستحق نہیں تھے۔ ذاکرصاحب کے ذہین اور فطین اور اعلیٰ فن کار ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے‘‘۔
ذاکرصاحب کی اس مثال سے یہ واضح ہے کہ انسان کی ذہانت و فطانت، اگر مصلحت کوشی کو راہ نما بنالے تو حاصلِ حیات کیا ہوتا ہے۔ (مرتب)
’زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے ‘___ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے باربار سنا اور سوچا، مگر اس امر کے اعتراف سے بھی چارہ نہیں کہ ہر صدمے کے موقعے پر ایک عالمِ استعجاب (shock) میں اسے ایک نئی بات ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ موت جو ہرلمحے ہمارے تعاقب میں ہے، ہم اسے بھولے رہتے ہیں۔ خود اپنی غفلت کا یہ حال ہے کہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلم کو بھی ’مسلم مرحوم‘ کہنا اور لکھنا پڑے گا۔ جنوری ۱۹۵۰ء میں خرم بھائی کے پیرالٰہی بخش کالونی والے گھر میں مسلم کے ہاتھوں پانی پینے سے تعلقات کا جو باب شروع ہوا تھا، وہ محسوسات کی دنیا کی حد تک ۲۸؍اگست ۲۰۱۶ء کو عزیزی سلیم منصور خالد کے دل و دماغ کو شل کر دینے والے پیغام کے ذریعے کہ ’’مسلم بھائی بھی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں‘‘ بند ہوگیا___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
اللہ کا حکم ہر چیز پر غالب ہے اور اپنی حکمتوں کو وہ ہی خوب سمجھتا ہے، لیکن میرے لیے یہ صدمہ بہت بڑی آزمایش ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میرا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ہو ؎
مصائب اور تھے، پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق دے، اور مسلم بھائی کو مغفرت، ابدی راحت اور جنّت کے اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین۔
مسلم، تحریکِ اسلامی کا ایک بڑا قیمتی سرمایہ تھے اور خصوصیت سے گذشتہ ۲۲برسوں میں ترجمان القرآن کے نائب مدیر اور خرم بھائی اور میرے دست ِ راست کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انھوں نے انجام دی ہیں، وہ علمی، دعوتی اور تحریکی ہر اعتبار سے بڑی قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ لیکن میرے ساتھ ان کا تعلق اس سے بہت پرانا اور گہرا ہے۔ میرے لیے وہ سگے چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس [ڈاکٹر انیس احمد]کے بعد وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب رہے۔ مقامِ شکرہے کہ پوری زندگی ہم ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح ایک دوسرے سے رشتہ نبھاتے رہے اور کبھی ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں پڑی، بلکہ خفگی اور بدمزگی کی کیفیت بھی کبھی رُونما نہیں ہوئی۔ الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔
یہ تو تعلق کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک نہایت ہونہار، ذہین اور شوخ و شریر شاگرد، بڑے مخلص، روشن دماغ اور صاحب الراے تحریکی ساتھی اور رفیق کار اور ادب و احترام کے رشتے کا پاس کرتے ہوئے بے باک ناقد اور نہ بخشنے والے محتسب بھی تھے۔
مسلم کی شخصیت اور خود میرے ساتھ ۶۶برسوں پر پھیلے ہوئے تعلقات کی نوعیت ان چار رنگوں کی ایک قوسِ قزح کے مانند ہے، اور مَیں ہی نہیں شاید اپنے اپنے انداز میں بہت سے افراد نے ان کی شخصیت سے ان متنوع پہلوئوں کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہوگا۔
مسلم سے تعلقِ خاطر کا آغاز خرم بھائی سے تعلق کا پرتو تھا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنے بڑے بھائی احمد ضمیر مرحوم، جو خرم بھائی کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور خود خرم اور ظفراسحاق انصاری کے ذریعے روشناس ہوا، اور ان دونوں کی محبت اور رفاقت اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی دل و دماغ کو مسخر کرنے کی لازوال قوت کے سیلاب میں بہتا ہوا چند ہی مہینے میں جمعیت کا رکن بن گیا۔
رکن بننے کے چند مہینے کے بعد ہی مجھے کراچی جمعیت کا ناظم منتخب کرلیا گیا اور اس طرح جنوری ۱۹۵۰ء سے جون ۱۹۵۶ء تک جمعیت کا رکن اور مختلف ذمہ داریوں کا امین رہا۔ پہلے دو ڈھائی برس ہم گھروں ہی میں کام کرتے رہے۔ کوئی باقاعدہ دفتر نہیں تھا۔ پہلا اور شاید سب سے متحرک اور مصروف دفتر ۲۳-اسٹریچن روڈ ۱۹۵۲ء میں حاصل کیا گیا۔ یہ جگہ حاصل تو کی گئی تھی مجلّہ Student's Voice اور اسٹوڈنٹس سوشل سروس کے دفتر کے طور پر، لیکن پھر وہ جمعیت ہی کا دفتر بن گیا۔ اس سے پہلے ہمارے تین گھر بطور دفتر، اجتماع گاہ اور تحریکی دسترخوان کے طور پر استعمال ہوتے تھے، یعنی ہمارا فریر روڈ کا فلیٹ، خرم بھائی کا پیرالٰہی بخش کالونی کا کمرہ، اور ظفراسحاق انصاری کا بندر روڈ پر سعیدمنزل کے سامنے والا فلیٹ۔
خرم بھائی کا کمرہ ان کی کراچی کی نظامت اور مرکزی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ جہاں چائے اور پانی کی فراہمی کی خدمت ان کے چھوٹے بھائی حسن قاسم اور مسلم سجاد انجام دیتے تھے۔ ہمارے تعلقات کا آغاز اس مہمان داری کے دل نواز ربط سے ہوا۔ پھر پہلے حسن قاسم اور پھر مسلم سجاد فکری، تحریکی اور تنظیمی اعتبار سے قریب آتے گئے۔ قاسم میری نظامتِ اعلیٰ کے دوران میرے ہمراہ بطور معاون خصوصی رہے اور برادرم ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ جو قلمی معرکے ہوئے، ان میں میری معاونت کرتے رہے۔
خرم کے تینوں چھوٹے بھائی جمعیت میں سرگرم رہے اور مجھے ذاتی طور پر قاسم اور مسلم سے زیادہ قربت رہی۔ پھر قاسم، راجا بھائی (ظفراسحاق انصاری) سے زیادہ قریب رہے۔ اس طرح قاسم کے تمام تر نظریاتی نشیب و فراز کے باوجود رفاقت اور دوستی کی گرم جوشی آخری وقت تک برقرار رہی۔ مسلم کا زیادہ تعلق خرم سے اور مجھ سے رہا اور الحمدللہ مکمل طور پر نظریاتی استقلال اور وفاداری کے ساتھ یہ رشتہ قائم رہا۔ جیسا میں نے عرض کیا، شروع میں تو مسلم سے صرف مہمان داری والا تعارف تھا۔ پھر اسکولوں کے طلبہ کے لیے جمعیت کا ’حلقہ مدارس‘ منظم ہوا اور اس کی قیادت اور مرکزی شخصیت ہمارے بڑےعزیز ساتھی عبداللہ جعفر صدیقی تھے، جن کی حکمت اور محبت سے بھرپور قیادت میں کراچی جمعیت کے حلقہ مدارس نے غیرمعمولی ترقی کی، اور واقعہ یہ ہے کہ جمعیت کے دامن میں بہت سے ہیرے جمع کرنے کا وسیلہ بنا۔
۵۲-۱۹۵۱ء میں اس حلقے کے ذہین ترین طلبہ کے اسٹڈی سرکل کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوئی۔ مسلم سجاد، ظفرآفاق انصاری، انیس احمد، محبوب علی، محمود علی، تنظیم واسطی، سیّد محمود، یہ سب اسی سرکل کے گل ہاے سرسبد تھے۔ میں نے تین مراحل پر مبنی اسٹڈی سرکل کئی سال چلایا، اور یہی وہ دور تھا جس میں مسلم مجھ سے بے حد قریب ہوگئے۔ ان کا سب سے پہلا ادبی کارنامہ میرے ساتھ جمعیت کے دفتر پر ایک وال پیپر کی شکل میں ایک رسالے کا اجرا تھا، جسے ہم ہرہفتے تبدیل کرتے تھے اور جس میں دعوتی نکات کے علاوہ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ تاہم، اسٹوڈنٹس وائس میں مسلم کوئی کردار ادا نہیںکرسکے۔ اس رسالے میں راجا بھائی اور مَیں مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور زبیرفاروقی، جمیل احمد خان، منظور احمد، انصار اعظمی اور جمیل احمد ہمارے قابلِ قدر معاونین تھے۔ حسین خاں اور محبوب الٰہی نے بھی کچھ عرصے کردار ادا کیا۔
مسلم کی فکری، اخلاقی اور تحریکی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ان کی والدہ ماجدہ کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خرم بھائی کی والدہ ایک مثالی والدہ تھیں۔ جماعت کی اوّلین ارکان میں سے تھیں اور انھوں نے اپنے سبھی بیٹے، بیٹیوں کی تربیت گہرے دینی شعور، بڑے شوق اور سلیقے سے کی۔ اس کے ساتھ گھر کی زندگی اور تحریکی زندگی میں بڑا حسین توازن قائم کیا۔ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ مجھے اپنی اولاد ہی طرح سمجھتی تھیں۔ مشورے اور نصیحت میں کوئی فرق نہ کرتی تھیں اور زبانی ہی نہیں خطوں کے ذریعے بھی میری رہنمائی فرماتیں۔ اس زمانے میں میرا کردار صرف ان اسٹڈی سرکلز ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ان تمام نوجوان ساتھیوں کے ساتھ علمی اورتحریکی دونوں ہی دائروں میں بڑا گہرا inter-action رہا۔ ہمارے درمیان ’استاد‘ اور ’شاگرد‘ کے رشتے کے ساتھ ساتھ رفاقت اور دوستی کا تعلق بھی پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں باہم افہام و تفہیم زیادہ کھلے طور پر ہوتی تھی۔ اس ضمن میں سوال، اعتراض، تنقید اور احتساب سبھی کا کچھ نہ کچھ کردار تھا، مگر تعلقات کا حُسن یہ تھا کہ ان میں برادرانہ محبت، پدرانہ شفقت، احترامِ استاد کے ساتھ دوستانہ رفاقت اور تحریکی نقدواحتساب کا ایک صحت مند امتزاج نہ صرف موجود تھا، بلکہ محسوس کیا جاسکتا تھا___ اور یہ الحمدللہ، تحریک اسلامی کی نعمتوں میں سے ایک بیش قیمت نعمت ہے۔
مسلم کے ساتھ جو رشتہ اور تعلق اسٹڈی سرکل سے شروع ہوا تھا، وہ ماہ نامہ چراغِ راہ میں ان کے ادارتی تعاون سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ ۱۹۵۸ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۰سال چراغِ راہ کے دور میں اور پھر ۲۰سال ترجمان القرآن کے زیرسایہ یہ تعلق مستحکم تر ہوتا گیا۔ مَیں بے حد خوش نصیب ہوں کہ زندگی کے ہر دور میں مجھے بڑے لائق، مخلص اور تعاون کرنے والے ساتھی ملے۔ Student's Voice، New Era اور Voice of Islam کے دور میں ظفراسحاق انصاری کا بھرپور تعاون ملا، اور یہ تعلق باقی زندگی میں بھی دسیوں شکلوں میں جاری و ساری رہا۔ چراغِ راہ میں محمود فاروقی، مسلم سجاد، ممتاز احمد، نثاراحمد کا تعاون، ماہ نامہ The Criterion میں سیّدمنور حسن اور کوکب صدیق کا تعاون، اور ترجمان القرآن میں مسلم سجاد، سلیم منصور خالد، رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغفار عزیز کی رفاقت۔ ان تمام ساتھیوں کی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے بغیر وہ خدمت انجام نہیں دی جاسکتی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے ان اداروں سے لی۔ اس پر ہرلمحے اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ترجمان القرآن کی ادارتی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ مسلم ہی پر تھا۔ خرم بھائی کی طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی اور دسمبر ۱۹۹۵ء کے بعد انھیں خاصا وقت انگلستان میں گزارنا پڑا، تو ہم دونوں کی نگاہ مسلم ہی پر پڑی کہ ان کو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر لاہور منتقل ہونے اور پرچے کی روزمرہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی ترغیب دیں اور مسلم نے کسی تامل کے بغیر یہ ذمہ داری قبول کرلی۔خرم بھائی نے پانچ سال ترجمان کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی ہے، یعنی ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک۔ ان کے آخری سال ادارتی امور کی عملاً ذمہ داری مسلم ہی پر تھی اور اس زمانے میں ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ کس خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
خرم بھائی دسمبر۱۹۹۶ء میں ہم سے رخصت ہوئے اور جنوری ۱۹۹۷ء میں یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ اس پورے عرصے میں مضامین کا حصول، ان کی ترتیب و تدوین، اہلِ قلم سے ربط و تعلق، انتظامی عملے سے رابطہ، یہ سب کام مسلم ہی بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اہم اُمور پر وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے، کہیں شک یا اضطراب ہوتا تو معاملہ میری طرف بڑھا دیتے، لیکن عملاً سارا کام وہی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اس میں عزیزی سلیم منصور خالد، برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا عبدالمالک، عزیزی عبدالغفار عزیز ، حافظ محمد ادریس، برادرم ظفرحجازی، امجدعباسی اور دیگر مجلس ادارت کے ارکان کا تعاون بھی شامل ہے، لیکن شدید بیماری کے چند مہینوں کو چھوڑ کر بنیادی ذمہ داری مسلم ہی نے انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گراں قدر خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اپنی بیش بہا نعمتیں اور انعامات ان پر نچھاور فرمائے۔
اداراتی اُمور میں اتنے انہماک اور کارکردگی کے ساتھ وہ پرچے کی اشاعت میں اضافے کے لیے بھی ہرلمحہ سرگرم رہتے تھے۔ جس وقت خرم بھائی نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی ترجمان القرآن کی اشاعت چھے ہزار تھی۔ خرم بھائی اور مسلم کی ہمہ جہتی کوششوں سے یہ ۱۹۹۶ء تک ۲۲ہزار پر پہنچ گئی، جو الحمدللہ اِس وقت ۳۴ہزار سے زیادہ ہے۔ لیکن ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۹ءکے درمیان یہ اشاعت ۳۸ سے ۵۰ہزار تک بھی رہ چکی ہے۔ اشاعت کے فروغ میں تحریکی ساتھیوں اور حلقوں کا تعاون تو اصل چیز ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مسلسل کوششوں میں مسلم بھائی کا بڑا حصہ ہے۔
مسلم کے علمی ذوق اور ادبی صلاحیتوں کا ادراک تومجھے اسٹڈی سرکل کے زمانے سے تھا، لیکن ان کی تنظیمی صلاحیتوں کی دریافت کراچی میں ’سمع و بصر‘ کے ادارے کے قیام کے زمانے میں ہوئی۔ اس میں برادرم شاہد شمسی کا بھی حصہ تھا لیکن ان میدانوں میں کام اور نئے نئے تجربات کے سلسلے میں جس ندرت اور creativity [خلّاقیت]کا مظاہرہ مسلم نے کیا، وہ ان کی شخصیت کے اس پوشیدہ پہلو کو آشکارا کرنے کا ذریعہ بنا۔ اسی زمانے میں ان کا ایک منفرد کارنامہ تفہیم القرآن کو صفحۂ قرطاس کے ساتھ ویڈیو اور دوسرے برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے حق کے متلاشیوں تک پہنچانے کے پراجیکٹ کو سوچنے اور عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔ جس کے لیے پوری تفہیم القرآن برادرم عبدالقدیر سلیم، سیّد سفیرحسن اور عظیم سرور نے دل کش آواز میں ریکارڈ کرائی۔ اسی طرح انھوں نے خود ترجمان القرآن کے تمام شماروں کو ۱۹۳۲ء سے آج تک الیکٹرانک ریکارڈ کی شکل میں فراہم کرنے کی خدمت انجام دی جو ’محفوظات‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کے ساتھ ’منشورات‘ کی شکل میں ایک کامیاب طباعتی ادارہ قائم کیا اور بڑے اچھے معیار پر، اچھی کتابوں اور دعوتی کتابچوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ مسلم نے ادارتی اور تنظیمی دونوں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہم سب کو بے حد متاثر کیا اور ان کی کوشش ہمیشہ رہی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں۔
اس سلسلے میں وہ دوسروں کی لاپروائی اور بے اعتنائی کا شکوہ بھی کرتے رہتے تھے اور کبھی کبھی اس تنقید و احتساب میں اپنے کھرے پن کو کھردرے پن تک لے جاتے تھے۔ لیکن ان کی تنقید کا مقصد دوسروں کی تحقیر نہیں بلکہ اصلاح کا جذبہ اور معیار کے معاملے میں دوسروں کی سہل انگاری پر گرفت ہوتا تھا۔ میں نے اس ۶۶سالہ تعلق کے دوران ان کی تنقید میں دوسروں کی تحقیر کا پہلو نہیں دیکھا، اگرچہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق وہ حسبِ توفیق آزادی (Liberty) لینے میں تکلف نہیں برتتے تھے(بعض اصحاب اس ’آزادی‘ کو پسند نہیں کرتے تھے)۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے بھی مسلم کا تعلق تعاون اور خیرخواہی کا تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی کئی علمی کاوشیں آئی پی ایس کے زیراہتمام شائع ہوئیں۔ مجلّہ تعلیم کے بھی کئی شمارے انھوں نے اور برادرم سلیم منصور خالد نے مرتب کیے۔
ان کی علمی اور تحریکی خدمات میں خرم بھائی کی چیزوںکی تلاش، حفاظت اور طباعت سرفہرست ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ خرم بھائی کی اُردو میں جو چیزیں آج موجود ہیں، ان کا نصف سے زیادہ اثاثہ مسلم کی محنت اور خرم بھائی سے وفاداری کا تحفہ ہے، جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
مسلم کا قرآن سے تعلق بچپن ہی سے گہرا رہا ہے۔ نماز اور نمازِ باجماعت کے باب میں بھی انھوں نے غیرمعمولی شوق اور اہتمام کی مثال قائم کی ہے۔ افراد اور خصوصیت سے اپنے قریبی ساتھیوں کے مسائل میں دل چسپی اور خاموشی سے ان کی مدد اور تعاون بھی ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا۔ بارہا مجھ سے بڑے دُکھ اور کرب کے ساتھ اپنے کسی ساتھی کی مشکل کے علم میں آنے کا ذکر کیا، اور اس مشکل میں ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے مَیں نے حسبِ توفیق کردار ادا کیا، اور یہ سب بڑی خاموشی اور حقیقی انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کیا۔
نام و نمود اور ظاہرداری سے مسلم کی زندگی بالکل پاک تھی۔ سادگی، قناعت اور خیرخواہی ان کا شعار تھا۔ بس زبان کے معاملے میں تھوڑے سے بے باک تھے۔ خرابی اور بُرائی جہاں نظر آتی اور جہاں تضاد اور رخصت کی فراوانی نظر آتی، اس پر تنقید اور احتساب سے وہ اپنے کو روکنے پر قادر نہیں پاتے تھے اور اس سلسلے میں زبان اور قلم دونوں ہی کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ یہ تنقید و احتساب: نہ خودپسندی اور خودپرستی کی پیداوار تھے اور نہ دوسروں کی تحقیر یا ان کو اذیت دینے کے جذبے اور محرک کا نتیجہ تھے۔ یہ ان کے خلوص اور اصول پرستی اور تحریک کے سلسلے میں معیارِ مطلوب کے شوق اور لگن کی پیداوار تھے۔ گو الفاظ کے انتخاب میں کبھی کبھار ان کی شوخی اپنی حدود سے بڑھ جاتی تھی اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بھی ہوجاتی تھی، لیکن میں نے ان کی بات میں malice (بدخواہی یا عناد)کا کوئی شائبہ نہیں دیکھا۔ کئی بار دوسروں کے ردعمل پر انھوں نے اپنے اضطراب کا اظہار بھی کیا اور تلافیِ مافات کی بات بھی کی، جس سے ان کے خلوص اور دیانت کی خوشبو آتی ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے مسلم کی پہلی کتاب مخلوط تعلیم پر تھی، جو اسلامی جمعیت طلبہ نے شائع کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کی تحریک مَیں نے ہی کی تھی اور اس کی تیاری، تحقیق اور تسوید میں میرا تعاون اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک حصہ تھا۔ لیکن اس کتاب نے ان میں اعتماد پیدا کیا اور اس طرح یہ کتاب ان کی علمی، تحقیقی، تجزیاتی اور ادبی زندگی کا ایک نیا باب کھولنے کا ذریعہ بنی۔
مسلم کو دمے کی بیماری لڑکپن ہی سے تھی اور پھر یہ ان کی جیون ساتھی بن گئی۔ گذشتہ چند برسوں سے ذیابیطس اور دل کی بیماری نے بھی ڈیرے ڈال لیے تھے۔ دو تین بار ہسپتال میں کچھ دن گزارنے کی نوبت بھی آئی۔ گذشتہ برس طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی تھی، جس کے بعد کراچی چلے گئے اور چار مہینے وہاں گزارے۔ لاہور اور کراچی میں مسلم بھائی کی تیمارداری اور علاج معالجے کے لیے، جس محبت، توجہ اور مثالی انداز سے ان کے بیٹے عزیزم انس حماد نے خدمت کی، اس پر اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے___لاہور واپسی پر مسلم خوش تھے اور باربار مجھے یقین دلایا کہ اب میں بہت بہتر ہوں۔ ۲۷؍اگست کو پائوں پھسل گیا تھا، جس سے کچھ چوٹ آئی۔ میں نے ان کے بڑے بیٹے انس سے اصرار کیا کہ ایکسرے کرائیں، جو ۲۸کو کرایا اور مجھے فون پر اطلاع دی کہ: ’’کوئی فریکچر نہیں ہے اور مَیں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ پاکستانی وقت کے مطابق چار ساڑھے چار بجے سہ پہر ان سے میری آخری بات تھی۔ مگر اس کے چار گھنٹے کے بعد یہ اَلم ناک اطلاع آئی کہ مسلم بھائی، اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ مسلم نے اللہ سے وفاداری کا جو عہدکیا تھا، اسے مقدور بھر پورا کرنے میں پوری زندگی کوشش کی اور اسی کوشش کے دوران جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور جنّت کے اعلیٰ مقامات سے ان کو نوازے!
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔
ڈاکٹر حسن الترابی کا شمار عالمِ عرب اور اُمت مسلمہ کے مردانِ جری میں ہوتا ہے۔ وہ فکروتربیت اور میدانِ سیاست کے بھی ممتاز فرد تھے۔ وہ سیاسی و دینی رہنما اور صاحب ِ دانش انسان تھے۔ اُن کا شمار اسلامی سیاست کے قائدینِ تجدید میں بھی ہوتا ہے۔ عالم، مفکر، داعی، مجاہد اور عزم و جزم سے لبریز یہ شخصیت ۵مارچ ۲۰۱۶ء کو ۸۴برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
وہ سوڈان اور عالمِ اسلام کی چند بڑی اور نمایاں فکری و سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔ ۱۹۹۶ء میں نجات انقلاب کے زمانے میں سوڈانی پارلیمنٹ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں حکمران جماعت قومی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل چُنے گئے۔ خرطوم یونی ورسٹی میں پہلے بحیثیت استاد اور پھر انسانی حقوق کالج کے پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ جولائی ۱۹۷۹ء میں دستور پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بنے۔ پھر وزیرعدل بنائے گئے۔ ۱۹۸۸ء میں سوڈان کے نائب وزیراعظم اور صادق المہدی کی حکومت میں وزیرخارجہ مقرر ہوئے۔ بعدازاں ان کے اور صدر عمرالبشیر کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ ۱۹۹۹ء میں حکومت میں دراڑیں پڑگئیں۔ حسن الترابی حکومتی اور جماعتی مناصب سے برطرف کر دیے گئے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے اپنی جماعت قومی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔
حسن الترابی اخوانی تاریخ کے تیسرے ’حسن‘ ہیں۔ حسنِ اوّل: حسن البنا شہید، حسنِ ثانی: حسن الہضیبی اور حسنِ ثالث: حسن الترابی ہیں، یعنی خالص اور اصل سوڈانی حسن الترابی!
ڈاکٹر حسن الترابی نے قرآنِ مجید بچپن ہی میں حفظ کرلیا تھا۔ انھوں نے عربی زبان اور شرعی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مغرب میں اعلیٰ تعلیم پائی مگر اس کے باوجود اُن کی اصل اسلامی فکر اپنی نہاد پر قائم رہی۔ انھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ پھر سوربون یونی ورسٹی فرانس سے ڈاکٹریٹ کی۔ انگریزی ، فرانسیسی، جرمن اور عربی زبانوں پر انھیں کامل عبور حاصل تھا۔ اس جدت کے باوجود وہ عمربھر سوڈانی عرب مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہے۔
حسن الترابی متحرک شخصیت تھے۔ سُستی و کاہلی اور تھکان کا اُن کی زندگی میں گزر نہیں تھا۔ وہ طویل نیند اور آرام کے عادی نہ تھے۔ وہ آزاد مرد تھے۔ اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کے ارادے آزاد تھے۔ اُن کے فیصلے آزاد ہوتے تھے۔ وہ روشن عقل کے مالک تھے۔ اُن کی زبان فصیح تھی۔ اُن کا چہرہ اصل سوڈانی چہرہ تھا۔ کسی تکلف کے بغیر ہمیشہ، مسکراتا چہرہ!
صادق المہدی کی ہمشیرہ سے اُن کی شادی ہوئی۔ وہ اُن کی بہترین شریکِ حیات ثابت ہوئیں۔ اخوان کے ساتھ حکمت عملی کی سطح پر اُن کا اختلاف رہا۔ دراصل حسن الترابی کا تحریک کے مقابلے میں اپنا ایک فلسفہ تھا جو اخوان کی تحریک کے عمومی لائحہ عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ انھوں نے اخوان کی عالمی تنظیم سے کہا کہ ہمیں ہمارے اُن بعض اقدامات اور فیصلوں میں معذور سمجھا جائے جو بسااوقات مقامی، علاقائی اور سیاسی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم طے شدہ پالیسی کے مطابق اُن کو قائم رکھیں، اُس پالیسی کے پابند ہوں، یا اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر برسوں اسی طرز پر معاملات چلتے رہے۔
حسن الترابی نے سوڈانی جماعت کی قیادت اچھے وقتوں میں بھی کی اور مشکل حالات میں بھی وہی سرخیل رہے۔ اُن کے ساتھ بس ایک گروہ تھا۔ اگرچہ اُن میں سے بھی بعض لوگ اُن مخالفتوں کا سامنا نہ کرسکے جن کا اخوان کی روایات پر چلنے کے معاملے میں حسن الترابی کو اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کرنا پڑا۔ دراصل ان معاملات میں لوگوں کی طبائع اور رجحانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض لوگ سیاست اور فکر میں روایت سے ہٹنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔
شیخ الترابی کو میں نے فہم وفراست میں نہایت باریک بین پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نہایت حساس طبیعت عطا کی تھی۔ اُن کا ایمان گہرا اور علم پختہ تھا۔ ہماری گفتگو کا موضوع اُمت کے حالات، مسائل اور اُن کا سدباب ہوتا۔ مسلمانوں کے حالات، اُن کی بیداری اور اُن کی دعوت میں ترقی اور بہتری کے طریقوں اور راستوں پر بحث و تمحیص ہوتی۔
۱۹۸۵ء میں پہلی مرتبہ مَیں ترابی صاحب سے بیروت میں ملا۔ اُس وقت وہ بھرپور جوان تھے۔ اس سے پہلے وہ قومی تحریک کی قیادت کرچکے تھے جس کے نتیجے میں عبود کی صدارت میں قائم فوجی حکوت کا خاتمہ ہوا تھا اور سوڈان میں سول حکومت قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کے متعدد ساتھیوں کو النمیری کے دورِ حکومت میں ایک عرصہ پابند سلاسل رکھا گیا۔ پھر حکومت کی اُن کے ساتھ یہ بات چیت طے پائی کہ حکومت اور وہ مل کر کام کریں تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ ممکن ہوسکے۔ حکومت نے انھیں بعض مناصب قبول کرنے کی تجویز پیش کی جو انھوں نے مان لی۔ دراصل وہ مرحلہ وار کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
ہم سوڈان کے اُس قومی اجتماع میں شریک تھے جس کا اعلان النمیری نے اسلامی قانون سازی کی غرض سے کیا تھا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کی جماعت پوری قوت کے ساتھ اس بہت بڑے مارچ میں شریک تھے۔ اس اجتماع کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ میں اور شیخ صلاح ابواسماعیلؒ ایک بلندعمارت سے اس مارچ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ لوگ شریعت، اسلام اور قرآن کے لیے پوری طاقت اور گرم جوشی کے ساتھ نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے آنسو جاری تھے اور ہم کہہ رہے تھے: کیا ہمارے لیے بھی قاہرہ میں ایسا دن آئے گا؟
پھر سوڈان میں حالات بہت جلد بدل گئے۔ دراصل عسکری انقلاب کے پاس کوئی فکری، تربیتی اور اخلاقی لائحہ عمل نہیں تھا، لہٰذا تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس کے جواب میں پھر ایک عسکری انقلاب آیا لیکن یہ صاف شفاف اور پُرامن انقلاب تھا۔ اس کی قیادت جنرل عبدالرحمن سوارالذہب کررہے تھے۔ وہ صاحب ِ اخلاق اور امن پسند انسان تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور حکومت و سلطنت میں ایثار و قربانی میں ضرب المثل تھے۔ وہ ایک سال بعد ہی مشترک حکومت کے قیام پر اُتر آئے۔
سیاسی بساط لپیٹ دیے جانے کے بعد ضروری تھا کہ اب ملک میں حکومتی اُمور پر مضبوط گرفت رکھنے والا کوئی طاقت ور فرد سامنے آتا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اپنے وژن اور دُوراندیشی کے اعتبار سے ایسی صفات کے حامل لوگوں میں سرفہرست تھے۔ لہٰذا انھوں نے قد م آگے بڑھایا اور فوجیوں کے ایک گروہ کو منتخب کیا جن میں عمرالبشیر سب سے نمایاں تھے۔ اس نازک موقعے پر اگر حسن الترابی قدم نہ اُٹھاتے تو اشتراکی اور بعثی پہل کر جاتے۔ آغاز میں ان لوگوں نے مسلح انقلاب کی کوشش کی تھی لیکن اُن کی یہ کوشش کچل دی گئی تھی۔
حسن الترابی ماضی جیسی عزیمت کے حامل مرد تھے۔ وہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ کی عملی تصویر تھے۔ انھیں کسی شاعر کا یہ قول بہت پسند تھا:
اِذَا کُنْتَ ذَا رَأیٍ فَکُنْ ذَا عَزِیْمَۃٍ
فَاِنَّ فَسَادَ الرَّأْیِ أَنْ تَتَرَدَّدَا
وَاِنْ کُنْتَ ذَا عَزْمٍ فَانْفِذْہُ عَاجِلًا
فَاِنَّ فَسَادَ الْعَزْمِ أَنْ یَتَقَیَّدَا
(اگر تم صاحب راے ہو تو صاحب ِ عزم بھی بنو، کیونکہ تمھارا متردد رہنا تمھاری راے کو تباہ کردے گا۔ اگر تم صاحب ِ عزم ہو تو جتنا جلد ہوسکے اسے نافذ کرو، کیونکہ التوا عزم کو تباہ کردیتا ہے)۔
سوڈان کے مسلم نوجوان حسن الترابی کے گرد جمع ہوئے اور پورے سوڈان میں اُن کو اسلامی تحریک کے لیے اپنا قائد منتخب کرلیا۔ جب وہ انقلاب برپا ہوا جس کے اسباب اسی شخص نے پیدا کیے تھے اور خود ہی پوری حکمت کے ساتھ اس کی قیادت کی تھی اور اس میں سرخ روئی بھی نصیب ہوگئی تھی، اس وقت انھوں نے جیل جانا گوارا کرلیا اور جیل کے اندر سے ہی تحریری ذریعے سے معاملات چلاتے رہے۔ اس کے بعد ترابی صاحب نمودار ہوئے اور جیل سے باہر آگئے۔ یہی وہ موقع ہے جب ترابی صاحب، عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ انھوں نے باہر کے لوگوں کو سوڈان بلایا۔ میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔
۱- اس بات پر پختہ ایمان کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ شریعت اور تربیت ہمارا عمومی منہج ہے۔
۲- یہ یقین کہ ’قوموں کی آزادی‘ اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جس کے لیے ہم مصروفِ جہاد ہیں۔
۳- فکروتعبیر کی آزادی اور ظلم و استبداد کی مزاحمت بنیادی فرائض ہیں۔
۴- مسئلۂ فلسطین اصل مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کمزوری کا مظاہرہ جائز نہیں۔ اس کا دفاع فرض ہے۔
۵- عدلِ اجتماعی کے قیام اور بدعنوانی اور مظالم کے خاتمے کے لیے لڑنا اسلام کا جزولاینفک ہے۔
۶- مشرق و مغرب میں پھیلی اُمت مسلمہ اُمت واحدہ ہے۔ اس کا انتشار جائز نہیں۔
۷- ہر امن پسند کے لیے ہم امن پسند ہیں۔ ہمارا ہاتھ اُس کے ہاتھوں میں ہوگا، مگر اُس کے ہم دشمن ہیں جو ہم سے دشمنی کرے۔
۸- تمام تر انسانیت اولادِ آدم ہے۔ سب کے سب بھائی بھائی ہیں۔ ان کے اُوپر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کریں۔
ڈاکٹر حسن الترابی وہ شخصیت ہیں جن کے مقام و مرتبے اور احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ صہیونی اور صلیبی ریشہ دوانیوں کے خلاف اُن کی مزاحمت قابلِ ذکر ہے۔ سیکولرزم اور لادینیت کے خلاف اُن کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اس تمام تر کے باوجود وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ بعض مسائل میں اُن کے تفردات ضرور تھے ؎
وَمَنْ ذَا الَّذِیْ تُرضٰی سَجَایَاہُ کُلُّھَا
کَفَی الْمَرْئُ فَضْلًا أَنْ تُعَدَّ مَعَائِبُہُ
(کون ہے جس کی تمام صفات و عادات قابلِ قبول ہوں۔ کسی آدمی کے بلند مقام و مرتبے کے لیے یہی کافی ہے کہ اُس کے معائب گنے جاسکتے ہوں، بے شمار نہ ہوں)۔
میں نے متعدد مسائل میں ترابی صاحب سے اختلاف کیا۔ اپنے فتاویٰ کی پانچویں جلد میں اُن مسائل کو میں نے شامل کیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈاکٹر ترابی کو کوئی وقعت نہ دی جائے اور اُن کے اجتہادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ وہ مسلمانوں اور عربوں کے بطلِ حُریت رہے۔ لوگ اُن کے حلقے میں آتے جاتے رہے مگر وہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے فکری، دعوتی، تربیتی اور جہادی و سیاسی سطح پر صفِ اوّل کی قیادت میں شامل تھے۔ اُن کی وہ تالیفات، افکار و معارف اور توجیہات جن سے اُن کے شاگردوں اور ساتھیوں نے استفادہ کیا وہ مرتب و مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اسی کے لیے وہ مصروفِ عمل تھے۔ اُسی کے لیے اجتہاد کیا اور مجتہد کے لیے تو درستی پر دو اجر ہیں، اور غلطی پر ایک۔ اُن کی رحلت اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہرحال ایک نقصان ہے۔
حسن الترابی کے اندر ایک خوبی اور خصوصیت تھی جو اُن کے علاوہ کسی اور سیاست دان میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ محض سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ فقہ و دعوت کے غیرمعمولی عالم بھی تھے۔ اُن کے تمام اعمال اور نقطہ ہاے نظر میں ایک فکر نظر آتی تھی۔ اُن کی فکر کا سرچشمہ اسلام تھا، یعنی قرآن و سنت اور انھی دو سرچشموں سے بننے والے اصول، مقاصد اور قواعد ان کی فکر کا ماخذ اور مصدر ہوتے تھے۔
حسن الترابی کی متعدد تصانیف، مقالات اور مختلف موضوعات پر لیکچر موجود ہیں۔ اُن کی چند تصانیف کے نام:m قضایا الوحدۃ والحریۃ (۱۹۸۰ئ) m تجدید اُصول الفقہ (۱۹۸۱ئ) m تجدید الفکر الاسلامی (۱۹۸۲ئ) m الاشکال الناظمۃ لدولۃ اسلامیۃ معاصرۃ (۱۹۸۲ئ) m تجدید الدین(۱۹۸۴ئ) m منھجیۃ التشریع (۱۹۸۷ئ) mالمصطلحات السیاسیۃ فی الاسلام (۲۰۰۰ئ)
ڈاکٹر حسن الترابی علم و ایمان سے لبریز شخصیت، فساد و بدعنوانی اور سرکشی کے خلاف مزاحمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ صلیبی اور مادی جابروں اور متکبروں کے سامنے ڈٹ جانے کے عزم و ہمت کا نام تھے۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم و استبداد سے ٹکر لی خواہ وہ اشتراکیت کی صورت میں تھا یا سرمایہ داری کے رنگ میں۔ ان بڑے بڑے ظالم اور استبدادی نظاموں اور قوتوں کی مزاحمت انھوں نے معمول کی زندگی کے ذریعے کرنا پسند کی۔ بلندوبالا محلات میں رہنا انھوں نے گوارا نہ کیا، نہ شاہانہ اور امیرانہ گاڑیوں میں گھومنا ان کی خواہش رہی۔ وہ سہولتوں بھری زندگی گزارنے کے بھی متمنی نہ رہے۔ وہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ نرم گرم سے اسی طرح متاثر ہونا پسند کرتے تھے جس طرح عام لوگ ہوتے ہیں۔
اسی بنا پر تو کش مکش کو انھوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور جس بات کو حق سمجھا بلاخوف و خطر کہہ دیا۔ باطل سے صرف تصادم اُن کا ہدف نہ تھا بلکہ اُسے مغلوب کرنا اُن کا عزم ہوتا تھا۔ اُن کی اس خاصیت نے انھیں اپنے اُن ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ بھی متصادم رکھا جن کو اُنھوں نے کٹیا سے محلات تک اور فرش سے عرش پر پہنچایا۔وہ زندگی بھر حراست سے جیل اور جیل سے حراست میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ اُنھیں اپنے گھر میں زندگی گزارنے کی فرصت ہی نہ دی گئی۔ اُن کی عمر ۸۰سال ہوچکی تھی اور وہ مسلسل جیل میں بند تھے۔
ڈاکٹر حسن الترابی دل کے غنی تھے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرْضِ ، اِنَّمَا الغِنَی غِنَی النَّفْسِ’’امیری مال و دولت کی کثرت کا نام نہیں، یہ تو دل کی بے نیازی کا نام ہے‘‘۔ میں نے دوحہ میں سوڈان کے سفیر سے سنا کہ خرطوم میں حسن الترابی کا اپنا مکان نہیں تھا۔ اللہ اکبر! ___رہنما، عالم، متعدد کتب کا مصنف حسن الترابی سادہ سے مکان کا بھی مالک نہیں۔ انھوں نے کئی بار ہمیں اپنے گھر بلایا اور ہم نے وہاں سوڈان کے مشہور و معروف کھانے کھائے۔ اُن کے نمکین و شیریں ماکولات سے ہم شکم سیر ہوئے۔ اس کے باوجود واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ بنک میں رکھواتے۔ شہر سے باہر بھی کوئی زمینی جایداد نہ تھی حالانکہ یہ چیزیں تو عموماً لوگوں کے پاس ہوتی ہیں۔
برادرم حسن! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو۔ اس سرزمین کو سلام جس نے تجھے جنم دیا۔ اللہ تمھیں، تمھارے بیٹوں، بھائیوں اور ساتھیوں کو بھی برکت سے نوازے۔ زندگی میں انھوں نے تمھارے ساتھ اتفاق کیا ہو یا تمھاری مخالفت کی ہو، یہ سب تمھارے ساتھ شاہراہِ مستقیم پر تھے۔ اللہ برادرم ابراہیم السنوسی کا بھی حامی و ناصر ہو جو اَب جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔
ہم اپنے عزیز بھائی حسن الترابی کے لیے دعاگو ہیں کہ انھوں نے اللہ کے دین اور اُمت محمدی کے لیے جو جدوجہد کی اُس پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین جزا عطا فرمائے۔ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن پر رحم فرمائے۔ انھیں اپنے پاس صالحین میں قبول فرما لے۔ اُن کی اجتہادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ اللہ اُن کی آل اولاد اور رفقا کے اندر سے اُن کا بہترین جانشین اُٹھائے۔
(ماخذ: www.qaradawi.net)
۱۹۴۲ء کا زمانہ تھا، میں زمیندارہ کالج گجرات (پنجاب) میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ ایک روز اعلان ہوا کہ ہندستان کے ایک بہت بڑے مسلمان اسکالر کالج کے سر فضل علی ہال میں طلبہ سے خطاب کریں گے۔ اسکالر آئے، تعارف جناب ڈاکٹر محمد جہانگیر خان صاحب پرنسپل (مشہور کرکٹر) نے کرایا اور نام علامہ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ بتایا۔ نام عجیب سا محسوس ہوا اور خطاب اس سے بھی زیادہ عجیب۔ مقرر نے طلبہ سے کہا کہ آپ میرے کچھ سوالوں کے جواب دیں گے؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کیا ہیں؟ دنیا میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا آپ خودمختار ہیں کہ جو چاہیں کریں یا آپ کے پیدا کرنے والے نے آپ کو کسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے؟ وہ مقصد کیا ہے؟ اگر انسان اپنے مقصد ِ زندگی سے واقف نہ ہو تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے؟ وغیرہ۔ یہ اور ایسے ہی تھے وہ سوالات جن کا جواب د یے بغیر مقرر نے اپنی تقریر ختم کر دی، اور کہا کہ آپ ان سوالات کے جوابات سوچ رکھیں، میں پھر کبھی آیا تو آپ سے ان کے جوابات معلوم کروں گا۔
اِس مقرر کی سب سے پہلی تحریر جو میری نظر سے گزری وہ ایک پمفلٹ تھا ’کلمۂ طیبہ کے معنی‘ جسے پڑھ کر میرے دماغ میں مذہب کا جو ڈھانچا عام مذہبی ماحول کو دیکھ کر بنا تھا وہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ مجھے کچھ ایسے سوالوں کا جواب ملا جو اکثر میرے ذہن میں بے چینی پیدا کیے رکھتے تھے ۔ میں نے یہ پمفلٹ واپس کرنے کے بجاے اس کی قیمت ادا کردی۔ جس دوست نے یہ پمفلٹ لاکر دیا تھا اس سے اس حقیقتِ اسلام سیٹ کے دوسرے حصے طلب کیے جن کا مطالعہ کرنے سے دل ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ مدلل طرزِ بیان، سلیس و نفیس زبان اور سائنٹفک اپروچ نے مجھ جیسے گرے پڑے انسان کو اُٹھا کر کھڑا کر دیا اور دعوتِ دین کے کام پر لگادیا۔
o پاکستان بننے کے بعد بالکل ابتدائی ایام میں آپ راولپنڈی تشریف لائے تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ میرے ایک دوست کانگرسی ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ مودودیؒ نے کون سا تیر مارا ہے۔ وہی باتیں ہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد کئی بار اِس سے اچھے انداز میں کہہ چکے ہیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ:
آپ کے دوست ٹھیک کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم سب سو رہے تھے تو اِسی شخص نے ہمیں جگایا تھا لیکن آپ اُس شخص کو کیا کہیں گے جو صبح سویرے اُٹھ کر مسجد میں اذان دے اور جب لوگ اس کی اذان سن کر نماز کے لیے مسجد میں آئیں تو وہ خود گھر جاکر سو رہے۔ اب ہم تو جیسی کیسی نماز ہمیں آتی ہے پڑھیں گے۔ اگر جگانے والا گھر جاکر سوگیا ہے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگے ہم انھی کی اذان سے تھے۔
o ایک دفعہ آپ سیالکوٹ ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم (ہومیو) کے پاس دوا لینے کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہومیوپیتھی طریق علاجِ طب کا تصوف ہے۔ لگ جائے تو چودہ طبق روشن اور نہ لگے تو کوئی نقصان نہیں‘‘۔
اس تبصرے کا لطف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جنھیں اس طریقۂ علاج کی خصوصیات سے کچھ واقفیت ہے۔
o جس زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی گروپ کی وجہ سے جماعت کے اندر سخت قسم کا خلفشار برپا تھا اور مولانا کی ہدایت کے خلاف جائزہ کمیٹی کے ارکان نے مرکزی شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جماعت کی اکثریت موجودہ پالیسی سے غیرمطمئن ہے، مولانا مودودیؒ نے جماعت کی امارت سے استعفا دے دیا۔ اُس وقت تحریک ِ اسلامی کے بہی خواہ سخت اضطراب اور پریشانی کے عالم میں تھے۔ مولانا کے امارت سے مستعفی ہوجانے کے بعد حالات اور سنگین صورت اختیار کرگئے تھے۔ چنانچہ ایک رفیق نے سخت پریشانی کے عالم میں مولانا مغفور سے کہا کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سربراہِ حکومت یا جماعت کے امیر نے محض چند افراد کے دبائو پر اپنے منصب سے استعفا دے دیا ہو، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے تو شہادت قبول کرلی مگر خلافت سے مستعفی نہیں ہوئے! مولانا نے مسکراتے ہوئے برجستہ یہ فقرہ کہا:
’’اچھا تو آپ مجھے شہید کروانا چاہتے ہیں؟‘‘ اور ساری محفل کشت ِ زعفران بن گئی۔
o خاندانی منصوبہ بندی پر اظہار راے کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ: آج کے مغرب زدہ انسان کی مثال تھرڈ کلاس کے اُس مسافر کی سی ہے جو خود تو ریل گاڑی کے اندر داخل ہوجاتاہے مگر دوسرے مسافروں کے لیے دروازہ بند کردیتا ہے کہ اب اور کسی کی یہاں گنجایش نہیں ہے‘‘۔
o ماچھی گوٹھ کے پانچ روزہ اجتماع میں جماعتی پالیسی پر کھلے عام بحث کے بعد جب ارکان کو دوبارہ اپنی پسند کا امیر منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو مولانا کو ۹۸ فی صد ووٹ ملے۔ صرف ۱۵؍افراد نے متفرق حضرات کے حق میں اپنی راے کا استعمال کیا۔ ارکان نے ایک زبردست اضطراب اور ذہنی کوفت سے نجات حاصل کی۔ سیالکوت کے شیخ محمد فاضل صاحب مجھے ساتھ لے کر مولانا محترم کے پاس پہنچے اور بے تکلفی سے کہا: ’’مولانا ایک بہت بڑی کوفت سے ہم سب کو نجات ملی ہے، میری درخواست یہ ہے کہ آپ ایک دن کے لیے سیالکوٹ تشریف لائیں، صرف پکنک کا پروگرام ہوگا، کوئی جلسہ وغیرہ نہیں رکھا جائے گا‘‘۔ مولانا نے ہاں کردی۔ ہم نے سیالکوٹ پہنچ کر مولانا محترم کو مقررہ تاریخ سے آگاہ کردیا۔پکنک کے موقعے پر ہم ہیڈمرالہ گئے۔ بہت پُرلطف موسم تھا اور مولانا کی ہمراہی میں یہ لطف دوبالا ہوگیا۔ مولانا سے ہرموضوع پر کھل کر گفتگو رہی۔ ایک صاحب نے سوال کیا: مولانا آپ کی والدہ محترمہ زندہ ہیں؟ مولانا نے فرمایا:
خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور فرماتی ہیں کہ میرے منّے کو جماعت والوں نے خراب کر دیا ہے۔ گویا کوئی ماں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوسکتی کہ اُس کا اپنا بچہ بھی خراب ہوسکتا ہے، جب کہ حال یہ ہے کہ جماعت والوں کی مائیں مجھے روتی ہیں کہ مودودی نے ہمارے بچوں کا ستیاناس مار دیا ہے۔
o مولانا ایک دفعہ راولپنڈی تشریف لائے۔ سوال و جواب کی محفل میں ایک صاحب نے دریافت کیا: مولانا کیا آپ نے کبھی ولی اللہ دیکھا ہے؟ ولی اللہ کی پہچان کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: میں نے تو کل ہی ایک ولی اللہ کو دیکھاہے، فرمانے لگے:
جب مَیں ریل کے ذریعے راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچا، گاڑی رُکی اور مسافر اُترنا شروع ہوگئے تو قُلی مسافروں کا سامان اُٹھانے کے لیے چھیناجھپٹی کر رہے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ ایک قُلی نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔ اس نے سکون کے ساتھ نماز ختم کی اور کسی سامان والے مسافر کی تلاش میں ہمارے ڈبے میں آگیا۔ اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ سامان اُٹھوائیں گے؟ میں نے ہاں کہا اور وہ میرے سامان کے دو نگ اُٹھا کر اسٹیشن سے باہر لے آیا۔ میں نے اُسے ایک روپیہ دیا۔ اُس نے مجھے اٹھنّی واپس کردی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ رکھ لیں۔ مگر اُس نے کہا کہ میرا حق فی نگ چار آنے ہے، وہ میں نے لے لیا ہے۔ مزید اٹھنّی مجھے نہیں چاہیے۔
o فرقہ پرستی سے بالا تر شخصیت:ایک دفعہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے۔ اُن دنوں جماعت اسلامی کا دفتر دو بڑی جامع مسجد کے درمیان واقع تھا۔ شمال میں دو مکانات چھوڑ کر جامعہ ابراہیمیہ تھی جہاں مشہور اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا محمد ابراہیم میر خطیب تھے اور جنوب میں بالکل متصل عمارت جامعہ حنفیہ کی تھی جہاں اُس وقت کے سیالکوٹ کے بریلوی مکتب ِ فکر کے ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف صاحب خطبۂ جمعہ دیتے تھے۔ ہم نے یہ طے کیا کہ ظہر کی نماز مولانا کو اہلِ حدیث مسجد میں اور عصر کی مسجد حنفیہ میں پڑھوائیں گے۔ چنانچہ مولانا سے اس فیصلے کا ذکر کیا تو آپ نے کمال خندہ پیشانی سے فرمایا کہ آپ مجھے جس مسجد میں چاہیں لے جائیں میری نماز ہرمسجد میں ہوجاتی ہے۔
o بے ریا انسان: ایک اور مرتبہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے تو آپ کو ایک ایسے مکان میں ٹھیرایا گیا جس سے ۲۰۰گز کے فاصلے پر سڑک سے پار مسجد تھی۔مولانا کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ نماز اپنی رہایش گاہ پر ہی پڑھتے تھے۔ کارکنوں نے عرض کیا: مولانا مسجد قریب ہی ہے اور اس مسجد کے خطیب تو پہلے ہی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر آپ نے مسجد میں جاکر نماز نہ پڑھی تو یہ ہمارا ناک میں دم کردیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ شریعت نے مجھے مسجد جانے کا مکلّف نہیں کیا ہے۔ مجھے نماز خدا کی پڑھنی ہے کسی انسان کو دکھانے کے لیے نہیں۔
o صبرو استقامت:شیریں خان صاحب مرحوم ایک بڑے پُرجوش پٹھان تھے۔ کچھ عرصہ وہ مرکز میں مولانا کے ہاں دفتر کے قاصد کے طور پر رہے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ مولانا محترم جمعہ کی نماز عام طور پر جامعہ اشرفیہ میں جاکر ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ جب کبھی کسی وجہ سے دیر ہوجاتی تو اچھرہ میں مولانا محمدعمرصاحب اچھروی مرحوم کی مسجد میں بھی چلے جاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہی اتفاق ہوا۔ مولانا محمد عمر، مولانا مودودی کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ انھوں نے جونہی مودودی صاحب کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا خطبہ کا رُخ فوراً ان کی طرف پھیر دیا اور نہایت تندوتیز لہجے میں مولانا مودودی صاحب پر برسنے لگے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اِدھر مولانا مودودی صاحب کے چہرے پر نظر ڈالتا تو وہ بالکل پُرسکون تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے خطیب صاحب مودودی صاحب کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں کف در دہان ہیں۔ میں پٹھان آدمی تھا غصے کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر مودودی صاحب کو دیکھ کر چپکا ہو رہا۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تو میں نے مولانا سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں، اطمینان سے بیٹھے گالیاں سنتے رہے۔ آپ کو فوراً اُٹھ کر چلے جانا چاہیے تھا۔
مولانا نے ارشاد فرمایا: خان صاحب کیا ہم جمعہ کی نماز ضائع کر دیتے، ہمارا کیا گیا ہے، مولانا محمدعمر صاحب کے دل کا غبار تو نکل گیا۔
oایک بھادر انسان:۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ چھڑی تو مولانا محترم راولپنڈی میں تھے۔ مولانا جنگ کی خبر سنتے ہی واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ ہوائی سروس بھی بند ہوگئی تھی اور لاہور کا سارا راستہ مخدوش تھا۔ لاہور پر حملے کا بھی خطرہ یقینی تھا۔ راولپنڈی کے رفقا نے مولانا سے گزارش کی کہ آپ راولپنڈی ہی میں ٹھیریں، ہم آپ کے اہل و عیال کو یہاں بلوا لیتے ہیں، لاہور اس وقت سخت خطرے کی زد میں ہے۔ مولانا نے فرمایا: مجھے جلد از جلد لاہور میں موجود ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ دشمن لاہور کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ چنانچہ مولانا کی واپسی کے لیے دو گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا اور آپ لاہور روانہ ہوگئے۔ لیکن ابھی گوجرانوالہ کے قریب پہنچے تھے کہ صدرایوب نے ملاقات کے لیے راستے ہی سے واپس راولپنڈی بلالیا، جہاں سے آپ واپس لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔
o مالی ایثار کی مثال:مولانا مودودیؒ نے جہاں اپنی ساری صلاحیتیں تحریک کے حوالے کر دی تھیں وہاں مالی طور پر بھی زبردست ایثار کیا۔ اس پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے اگرچہ میری معلومات براہِ راست نہیں ہیں لیکن مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہاں جماعت اسلامی کی رُودادوں سے فراہم شدہ چند معلومات پیش کی جاتی ہیں جن سے مولانا کے اس پہلو کی تابناکی کا ایک ہلکا سا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے نہ صرف اپنی ساری تصانیف کے حقوق بلکہ مکتبے میں موجود مبلغ ۶ہزار ۷۴ روپے کی کتب اور واجب الوصول رقم مبلغ ۱۷۲۰ روپے جماعت اسلامی کے بیت المال کے حوالے کردیں، اور اپنے گزارے کے لیے صرف الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات دو کتابیں اپنے پاس رکھیں یا رسالہ ترجمان القرآن آپ کی ملکیت میں رہا۔ قیامِ پاکستان تک بیت المال کے اکثر اخراجات مولانا کی کتابوں کی آمدن سے پورے ہوتے رہے۔ فروری ۱۹۴۷ء تک کتب کی فروخت سے ایک لاکھ ۱۶ہزار روپے کی آمدن ہوئی اور اس وقت مبلغ ۴ہزار ۳سو روپے کی کتب کا اسٹاک مکتبہ میں موجود تھا اور تقریباً ۱۴ہزار ۷سو روپے کی رقم واجب الوصول تھی۔ یہ سلسلہ ۱۹۵۸ء تک چلتا رہا۔ جب جماعت مالی طور پر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی تو مولانا نے یہ کتابیں اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ کو دے دیں جن کی رائلٹی ادارہ معارف اسلامی کراچی کو منتقل کردی گئی۔ یہ ادارہ مولانا محترم نے اسلام کی تحقیق کے لیے قائم کیا تھا۔ مولانا نے یہ ایثار اس حال میں کیا کہ آپ کے پاس رہایش کے لیے اپنا مکان تک نہیں تھا اور آپ کے بچے عام کارپوریشنوں کے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ گھر کے اخراجات انتہائی سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ چلاتے، حتیٰ کہ قید کے ایام میں جو پانچ سال کے قریب ہوتے ہیں جماعت کی طرف سے آپ کے گھر میں اخراجات کے لیے جو رقم دی جاتی باہر آکر آپ اُسے بھی اپنے قرض کے کھاتہ میں ڈال کر لوٹا دیتے۔
oعظمت اور بے نفسی کا امتزاج:مولانا محترم کی عظیم شخصیت کا لوہا اُن کی اوائلِ عمر ہی میں مانا جاچکا تھا۔ ۱۹۱۹ء میں، جب کہ آپ کی عمر ابھی صرف ۱۶برس تھی۔ آپ نے ہفت روزہ تاج، جبل پورکی ادارت سنبھالی اور دو سال تک اُسے چلایا تاآنکہ آ پ کے ایک مضمون پر انگریز سرکار برہم ہوگئی اور یہ اخبار بند کرنا پڑا۔ ۱۹۲۱ء میں جناب مفتی کفایت اللہ مرحوم صدر جمعیت العلما ہند اور مولانا احمد سعید ناظم جماعت العلما ہند کے ایما پر آپ نے جمعیت العلما ہند کے آرگن مسلم اور الجمعیت کی ادارت سنبھالی اور کئی سال تک اِس سے منسلک رہے۔ ۱۹۲۷ء میں آپ کی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام منظرعام پر آئی جسے مسلم دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور راہنمائوں نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ۱۹۲۹ء میں آپ نے حیدرآباد دکن میں ابومحمدمصلح مرحوم کے جریدہ ترجمان القرآن میں لکھنا شروع کیا۔
ڈاکٹر احمد توفیق جو فخر یار جنگ مرحوم سابق وزیرمالیات حیدرآباد دکن کے صاحب زادے ہیں، اپنے مضمون مطبوعہ نواے وقت میں لکھتے ہیں: یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب قرآن پڑھنا پڑھانا تو ضروری خیال کیا جاتا تھا مگر تفسیر قرآن پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا تھا۔ تفاسیر موجود ضرور تھیں مگر وہ عام لوگوں کے لیے نہیں تھیں۔ مولانا نے جس آسان اور سلیس طریقے سے ترجمان القرآن میں استشہاد کیا، وہ باتیں لوگوں کے دل کو لگیں اور اِن کا جریدہ بہت مقبول ہوا۔ حیدرآباد تو خیر ایک طرف، پورے ہندستان میں تہلکہ مچ گیا اور اس کی مانگ بڑھ گئی۔
۱۹۳۶ء میں آپ کے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں زیرتعلیم طلبہ میں بے دینی کے رجحانات پر دو مضامین چھپے۔ جس کے بعد یونی ورسٹی نے اِن کی روشنی میں بہت سے اصلاحی اقدامات کیے۔ ۱۹۳۷ء میں لاہور میں آپ کی علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوئی اور حیدرآباد دکن سے پنجاب منتقل ہونے کا پروگرام بنا۔ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں آپ نے متحدہ قومیت کے فتنے کے خلاف اور مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنے رسالے ترجمان القرآن میں پُرجوش اور انتہائی مدلل مضامین سپردِ قلم کیے جن کے زبردست اثر سے مسلمانانِ ہند کے تمام علمی اور سیاسی حلقوں میں آپ کے زورِ قلم اور طریق استدلال کی دھوم مچ گئی۔ یوں مولانا مودودیؒ کی شخصیت نہایت خاموشی اور وقار کے ساتھ پورے ہندستان کی دینی اور سیاسی فضا پر چھاتی چلی گئی۔ پورے ملک کے مسلم تعلیمی اداروں کی طرف سے آپ کو خطاب کرنے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انٹرکالجیٹ برادرہڈ لاہور ، انجمن تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ ملّیہ دہلی، اسلامیہ کالج لاہور، ایم اے او کالج امرتسر، اسلامیہ کالج پشاور اور زمیندارہ کالج گجرات میں آپ نے جو خطبے دیے وہ آج بھی اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہیں۔ ۱۹۴۰ء میں ایم اے او کالج امرتسر کی تقریب تقسیم اسناد سے آپ کے خطاب کا پس منظر آپ کے مقام پر روشنی ڈالتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ ادارہ پنجابن میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا متبادل خیال کیا جاتا تھا اور اس کی مجلس انتظامیہ میں اُس وقت کے ہندستان کے متمول اور اہلِ علم مسلمان شریک تھے۔ تقسیمِ اسناد کے موقعہ پر مہمانِ خصوصی کے مسئلے پر بحث ہوئی، جس میں دو نقطۂ نظر سامنے آئے ۔ بعض حضرات کا کہنا یہ تھا کہ اس موقعے پر مسلمانوں کے سیاسی لحاظ سے اہم ترین فرد کو مدعو کیا جانا چاہیے۔چنانچہ اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعظم سردار سکندر حیات کا نام لیا گیا۔ دوسرے حضرات کی راے یہ تھی کہ ہمیں مسلمانوں کی کسی نمایاں ترین علمی شخصیت کو بلانا چاہیے اور اس کے لیے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیاگیا اور بالآخر فیصلہ انھی کے حق میں ہوا۔
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ کی تمام سرگرمیاں جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے اور اس کے لیے نئے نئے راستے نکالنے پر صرف ہونے لگیں، اور پاکستان بننے کے بعد اسلامی ریاست کے مقتضیات اور تفصیلات اور اسلامی دستور کی تدوین اور اسلامی قانون کے نفاذ کی طرف مڑگئیں۔ آپ نے جس میدان کا رُخ کیاوہاںاپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔ خطابت کے میدان میں آئے تو ایک منفرد آہنگ تھا۔ تنظیم و تربیت کی وادی میں پہنچے تو وہاں بھی نرالی شان تھی۔ بین الاقوامی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں سے بھی خراجِ تحسین حاصل کیا۔ لیکن اتنی عظیم شخصیت اور اتنی ہی سادہ، نہ فخر کا شائبہ نہ علم کا غرور، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو___ حال یہ تھا کہ مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا کارکن نہایت بے تکلفی کے ساتھ ان سے مخاطب ہوسکتا تھا۔ وہ میرے ہرقسم کے الّم غلّم سوالات کا جواب بغیر کسی ناگواری کے دیتے۔ آپ کے اندر کبھی بڑاپن محسوس نہ ہوا۔ ایسا عظمت اور بے نفسی کا حسین امتزاج کہیں ڈھونڈے مل سکتا ہے؟(تذکرہ سیّد مودودی، جلداوّل، ص ۴۶۹-۴۷۹)
دنیا ان کو پروفیسر ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری کے نام سے جانتی ہے، مگر میرے لیے وہ صرف راجا بھائی تھے اور رہیں گے۔ مئی ۱۹۴۹ء میں بھائی ضمیر اور خرم بھائی کی معیت میں پہلی ملاقات ہوئی اور آخری اگست ۲۰۱۵ء میں، جب اپنی صحت اور ذاتی حالات کے باعث مَیں یہاں لسٹر آنے پر مجبور ہوا۔ ایک ہی ہفتہ قبل ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی اور پھر ۲۴؍اپریل کی صبح انیس میاں کے ٹیلی فون سے یہ اندوہناک خبر ملی کہ راجا بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے___ انا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ سے ان کا رشتہ پیارے رب کا رشتہ تھا اور اپنی ۶۷سالہ رفاقت کی بنیاد پر گواہی دیتا ہوں کہ ان کو ہمیشہ رب کا بندہ اور اس کی رضا کا طالب پایا۔ اب کئی سال کی بیماری اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ بیماری اور ہرتکلیف پر اللہ کا شکر ادا کرنے والا میرا پیارا بھائی اپنے رب کے حضور چلا گیا۔ گویا ع
اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت ِ خاص کے آغوش میں جگہ دے۔ ۷۰سے زیادہ برسوں پر پھیلی ان کی یہ علمی اور دینی خدمات، خصوصیت سے قرآن کی خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے، ان کو جنت کے منفرد مقام پر ہمیشہ کے لیے راحت کی زندگی سے سرفراز فرمائے اور جب تک زمین پر انسان بستے ہیں، آسمان ان کی لحد پر مسلسل شبنم افشانی کرتا رہے___ آمین!
میرے لیے یہ دو ماہ بڑی آزمایش کے مہینے رہے ہیں۔ فروری میں میرے ہم زلف سیّدجلال الدین احمد کا اچانک انتقال ہوا۔ ابھی ان کے غم سے آنکھیں اَشک بار تھیں کہ عزیزی ممتازاحمد جنھیں سب ڈاکٹر ممتاز کہتے تھے لیکن میرے لیے وہ انیس اور مسلم کی طرح چھوٹے بھائی یا بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے، کا غم سہنا پڑا۔ معاً بعد یہاں گلاسگو میں ینگ مسلم کے پہلے گروپ کے روحِ رواں اور عزیزی فاروق مراد کا ہم ساز اور ہم زاد عمران کھنڈ ۵۰برس کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوا ،اور اب ۲۴؍اپریل کو راجابھائی سے دنیوی جدائی کا زخم سہنا پڑا۔ افسوس کہ ان میں سے کسی کی نہ آخری زیارت کرسکا اور نہ جنازے میں شرکت___ ہاں، ان کے لیے دعائوں کی سوغات ہے جو ان کی زندگی میں بھی بھیجتا رہا، اور اب اور بھی رقت کے ساتھ اپنے مالک کے حضور بھیج رہا ہوں۔ اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے اور اپنے پیاروں کی موت زندگی کی ناپاے داری اور موت کے محکم ہونے کی مؤثر ترین یاد دہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین حق پر قائم رکھے، اپنے سوا کسی کا محتاج نہ بنائے، اور ایمان پر خاتمہ کرے، آمین، ثم آمین۔ طالب علمی کے زمانے میں انگریزی ادب اور شاعری کا بھی کچھ رشتہ تھا۔ نہ معلوم کیوں شیکسپیئر کے یہ اشعار ذہن کے اُفق پر اُبھر آئے، جو ان چند ہفتوں کے حادثات کے عکاس ہیں:
When sorrows come,
They come not single spies
They come in battallions
One woe treads, the others heal,
So soon they follow
ہر آزمایش اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور اسی سے ہر غم اور آزمایش پر صبر و استقامت کی التجا ہے۔
برادرم ظفراسحاق الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی اسناد پر ان کی پیدایش دسمبر۱۹۳۲ء کی ہے، لیکن ہمارے بچپن میں انگریزی دور کی ’برکات‘ میں ایک یہ بھی تھی کہ اسکول میں داخلے کے وقت عمرکم لکھوائی جاتی تھی، تاکہ آئی سی ایس کے داخلہ امتحان کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کی جو قید ہے، اس میں کچھ وسعت آجائے۔ میری پیدایش بھی اسکول کے ریکارڈ میں ۱۹۳۴ء ہے جو حقیقت میں ۱۹۳۲ء تھی اور راجا بھائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ مجھ سے دو سال بڑے تھے، عمر میں بھی اور تعلیم کے میدان میں بھی۔ میں نے جس سال انٹرکامرس کیا ،انھوں نے اسی سال بی اے کیا تھا۔
مئی ۱۹۴۹ء میں ہماری شناسائی کا آغاز ہوا۔ میرے بڑے بھائی احمدضمیر مرحوم اور خرم بھائی مرحوم ڈی جے کالج میں کلاس فیلو تھے اور راجا بھائی ان کے اوّلین احباب میں سے تھے اور اسلامیہ کالج میں پڑھ رہے تھے۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا کُل انسانی سرمایہ سات آٹھ افراد تھے۔ خرم اور راجا ان کا محور تھے۔ مَیں فروری ۱۹۴۸ء میں دلّی سے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ایک سال لاہور میں زیرتعلیم رہا اور پھر مئی ۱۹۴۹ء میں کراچی منتقل ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہے، جب مجھے جمعیت سے شناسائی حاصل ہوئی اور اس کا ذریعہ بھائی ضمیر کے ساتھ خرم اور راجا بنے۔
خرم اور راجا سے پہلی ہی ملاقات میں ایک ایسا تعلق قائم ہوگیا، جو زمانے کے تمام نشیب و فراز کے باوجود ہر آلایش سے پاک اور گہرائی اور گیرائی ہراعتبار سے روز افزوں رہا۔ راے کا اختلاف کن انسانوں کے درمیان نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ ہم تینوں کے درمیان زندگی کے مقاصد کے اشتراک کے ساتھ ہمارے درمیان: باہمی اعتماد اور محبت، خیرخواہی اور عملی تعاون کا رشتہ قائم رہا اور سب سے بڑھ کر موجودگی اور عدم موجودگی دونوں میں ہمیں ہم رنگ اور ہم زبان ہونے کی نعمت و سعادت حاصل رہی ہے۔ میرے لیے ایمان کی سعادت اور خاندان کی نعمت کے ساتھ، یہ دوستی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ رہی ہے اور اس پر رب کا جتنا بھی شکرادا کروں کم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان دونوں سے ملنے اور ان کے ساتھ شیروشکر ہوجانے نے زندگی کا رُخ متعین کر دیا، اور نہ صرف یہ کہ ’ایک ہی بار ہوئی وجہ گرفتاریِ دل‘، بلکہ الحمدللہ زندگی بھر ان کی نگاہوں کے التفات کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ہمارا یہ رشتہ اس دنیا تک محدود نہ رہے اور آنے والی اور ابدی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ صرف اپنے رحم اور فضلِ خاص سے ہمیں یہاں سے بہتر زندگی ساتھ گزارنے کی سعادت سے نوازیں، آمین!
راجا بھائی کا ذکر چچا مرحوم کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما مولانا ظفراحمد انصاری ان کے والد تھے۔ وہ علم و فضل، اخلاق و مروت، محبت و شفقت، سیاسی بصیرت اور حُسنِ عمل کا مرقع تھے۔ فلسفہ میں ایم اے امتیازی شان سے کرنے کے بعد ساری زندگی برعظیم کی سیاست کے میدان میں مسلم اُمت کے خاموش معمار کی حیثیت سے بسر کردی اور اس شان سے بسرکی کہ کبھی کسی عہدے یا ذاتی فائدے کا تصور بھی نہیں کیا۔ مقصد صرف اللہ کی رضا،اُمت کی خدمت، پاکستان کی تعمیروترقی، نئی نسلوں کی دینی، اخلاقی اور سیاسی تربیت و رہنمائی تھا اور جو عہد اپنے رب سے کیا، اسے آخری سانس تک سچ کردکھایا۔
راجا بھائی سے جمعیت کے دور میں جو تعلق قائم ہوا، وہ ان کی ذات تک محدود نہیں تھا۔ ان کے تمام بھائیوں اور سب سے بڑھ کر ان کے والد محترم کے ساتھ بھی بالکل باپ کا سا رشتہ قائم ہوگیا تھا اور ان کی شفقت اور رہنمائی بھی الحمدللہ ان کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہی۔ یہ بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان گھرانوں کی روایت تھی کہ خاندان کے تمام بزرگوں سے ان کے رُتبے اور مقام کی مناسبت سے تعلق استوار ہوتا تھا۔ راجا بھائی اپنے تایا کو ابّا کہتے تھے اور اپنے والد کو چچا۔ اور ہم نے بھی بچپن ہی سے ان کو چچا کہا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہم ہی نہیں، سبھی ان کو چچا ہی کہتے اور ان کی پدرانہ شفقت ہم سب پر اس طرح تھی کہ یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ رشتے میں کون سگا ہے اور کون اعزازی؟
راجا بھائی اور خرم بھائی دونوں تحریک میں میرے پیش رو ہی نہیں، مجھے یہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔ خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُردو اور انگریزی دونوں پر راجا کو عبور تھا۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت بھی کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ میں نے جمعیت کی رکنیت جنوری ۱۹۵۰ء میں اختیار کی۔ خرم اور راجا پہلے سے رکن تھے بلکہ راجا (اور ایک رکن) نجمی صاحب وہ دو حضرات تھے، جن کو دسمبر ۱۹۴۷ء جمعیت کے تاسیسی اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل تھی۔ میں نے ستمبر ۱۹۵۰ء کے سالانہ اجتماع (لاہور) میں پہلی بار شرکت کی۔ ۴نومبر۱۹۵۱ء کو خرم بھائی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اسی سال جمعیت کے دستور کی تدوینِ نو ہوئی۔ اولیں دستور ’قواعد و ضوابط‘ کے عنوان سے محترم نعیم صدیقی کا لکھا ہوا تھا اور جمعیت کا پہلا باقاعدہ دستور جو ابھی تک دستورِعمل ہے، ۱۹۵۲ء میں مرتب ہوا اور اس کی تدوین جس کمیٹی نے کی اس میں خرم بھائی کے علاوہ راجا اور مَیں تھے۔ اس دستور کی بنیادی تسوید (drafting) کا کام زیادہ تر ظفراسحاق نے کیا، اگرچہ نوک پلک درست کرنے میں ہم سب نے حصہ لیا تھا۔
مَیں نے اپنی مرتب کردہ پہلی کتاب Maududi on Islamic Law and Constitution کے ’پیش لفظ‘ میں راجا بھائی کے بارے میں لکھا تھا کہ: یہ کتاب ہماری قلمی رفاقت کا ثمرہ ہے اور میری خواہش تھی کہ ان کا نام میرے ساتھ شریکِ مدیر کی حیثیت سے دیا جائے، جس کو انھوں نے سختی سے ویٹو کر دیا۔ عملاً ہماری اس رفاقت کا آغاز Students's Voiceکی اشاعت سے ہوا، جو ۱۹۵۱ء میں ہم نے مل کر نکالا اور جمعیت ہی نہیں پاکستان میں طالب علم دنیا میں طلبہ کا پہلا پرچہ تھا۔ ایک سال تک اسے سائیکلواسٹایل کرکے ہرماہ لایا جاتا تھا۔ ہم خود اسے لکھتے تھے، قاضی عبدالقادر ٹائپ کرتے تھے اور اسٹنسل کاٹتے تھے۔ محمدمیاں سائیکلواسٹایل کرتے تھے اور پھر سب کارکن مل کر فروخت کرتے اور پھیلاتے تھے۔ ایک سال میں اس کے ایک ہزار خریدار بن گئے تھے، جس سے متاثر ہوکر ہم نے ۱۹۵۲ء میں اسے ۱۵ روزہ مطبوعہ پرچے کی حیثیت سے شائع کیا۔ پہلاشمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور پھر صرف چھے مہینے میں ۷ہزار تک پہنچ گیا۔ راجا اور مَیں اس کے ایڈیٹر تھے۔ اس طرح ہماری ادبی رفاقت کا آغاز اسٹوڈنٹس وائس سے ہوا، اور اس کے بعد New Era ، Voice of Islam اور دوسری شکلوں میں زندگی بھر یہ سفر جاری و ساری رہا، الحمدلِلّٰہِ علٰی ذٰلک۔
اس امر کاکھلے دل سے اعتراف کرتا ہوںکہ مجھے اُردو میں لکھنے کی ترغیب دینے میں سب سے اہم کردار راجابھائی ہی کا تھا۔ میں اس زمانے میں انگریزی کے سحر میں کچھ زیادہ ہی مبتلا تھا اور اُردو میں لکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، گو اُردو تقریر میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔
کالج لائف کی ابتدا ہی سے لکھنے کا شوق تھا۔ ۱۹۴۹ء میں نصف صفحے کا ایک مضمون لاہور کے ایک رسالے میں شائع ہوا، جب میں انٹر آرٹس کر رہا تھا۔ ۵۱-۱۹۵۰ء گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی (جہاں مَیں زیرتعلیم تھا) کے سالانہ انگریزی میگزین کا مَیں ایڈیٹر تھا۔ رسالہ دو حصوں میں تھا۔ انگریزی حصے کا مَیں ایڈیٹر تھا اور اُردو حصے کا میرا ایک کلاس فیلو۔ اس کا اصرار تھا کہ مَیں اُردو میں بھی مضمون لکھوں اور میری ہمت نہیں ہورہی تھی۔ راجا بھائی نے مجھے مجبور کیا کہ لکھوں ۔ تب میں نے جمعیت کے نئے نئے اثرات کے تحت نظامِ تعلیم کی اصلاح کے موضوع پر چند صفحے لکھے، جن کی نوک پلک راجا بھائی نے درست کرکے قابلِ اشاعت بنایا اور اس طرح اُردو میں میرے لکھنے کا آغاز ہوا، جسے پھر اصل مہمیز چراغِ راہ کی ادارت کے ذریعے ملی، جو محترم چودھری غلام محمدصاحب مرحوم کے اصرار بلکہ حکم پر سنبھالی۔ مسلم، ممتاز اور نثار صاحبان چراغِ راہ میں میرے دست و بازو تھے۔
راجا اور مَیں ۱۹۵۵ء تک اسٹوڈنٹس وائس مل کر نکالتے رہے۔راجا بھائی نے ایم اے معاشیات میں کیا تھا، اور پھر اس مضمون کی تدریس اختیار کر کے بحیثیت استاد کیریئر کا آغاز کیا۔ اسلامک اسٹڈیز میں وہ ۱۹۵۸ء کے بعد آئے، جب کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی کے وظیفے پر وہ ایم اے کے لیے وہاں گئے۔ وہاں انھوں نے مشہور مستشرق پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ کی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پھر معاشیات سے ان کارشتہ عملاً کٹ گیا، اور اسلامک اسٹڈیز ، خصوصیت سے اسلامی قانون ان کا میدان بن گیا۔
اسلامی قانون میں تخصص کے باوجود علومِ اسلامی کے ہر شعبے میں انھوں نے دادِ تحقیق دی ہے اور مشرق و مغرب کی نام وَر یونی ورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں۔ جن میں امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی، شکاگو یونی ورسٹی، کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی، آسٹریلیا کی میلبورن یونی ورسٹی، سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ اور یونی ورسٹی آف پٹرولیم اینڈ منرلز دہران شامل ہیں۔ ۱۹۸۶ء میں اسلام آباد منتقل ہوگئے اور پھر انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد میں پروفیسر، نائب صدر اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ تدریس کے ساتھ تحقیق اور تصنیف و تالیف ان کا وظیفہ زندگی تھا۔ راجا بھائی کوئی خشک کتابی شخصیت نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی پُربہار اور شگفتہ شخصیت عطا کی تھی۔ وہ اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے درمیان گھنٹوں صرف کرتے تھے اور ہمیشہ رونق محفل رہتے تھے۔
راجا بھائی نے اپنی ۷۰سالہ علمی زندگی میں تصنیف و تالیف اور تعلیم و تعلّم کے ایسے چراغ روشن کیے ہیں، جو مدتوں ضوفشانی کرتے رہیں گے۔ میری نگاہ میں ان کا سب سے اہم علمی کارنامہ مولانا مودودیؒ کی تالیف تفہیم القرآن اور ترجمۂ قرآن کا انگریزی ترجمہ ہے، جس کے ’پیش لفظ‘ کے چند جملوں میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں:
ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، میرے بھائی، زندگی بھر کے ساتھی اور ہم دم دیرینہ نے بڑی مہارت، مشاقی اور قدرتِ کلام سے اسے انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں قطعاً جھجک نہیں ہے کہ ڈاکٹر انصاری نے اظہار و بیان کے اس معیار کو برقرار رکھاہے، جس کا اُردو میں اہتمام و انصرام سیّدابوالاعلیٰ مودودی کیا کرتے تھے۔ یہ ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن کی زبان کو ’اُردوے مبین‘ کہا تھا اور ظفراسحاق نے اسے ’انگریزی مبین‘ میں ڈھال دیا، وما توفیقی الا باللّٰہ۔
راجا بھائی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکنِ رکین تھے۔ مرکزی شوریٰ کے رکن رہے، البتہ نظامت وغیرہ کی ذمہ داریوں سے بچتے رہے۔ لیکن کراچی جمعیت کے مزاج اور پھر اس کی روشنی میں پورے پاکستان کی جمعیت کے مزاج اور کردار کی تشکیل میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ الحمدللہ جمعیت کے بے شمار پہلو ہیں، لیکن اس کا اصل تاریخی کارنامہ ،تعلیمی دنیا میں دین کے اس وسیع اور ہمہ گیر تصور کا فروغ ہے، جو تحریکِ اسلامی نے اس دور میں دیا ہے اور جس کے نتیجے میں اسلام انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کے صورت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پھر جمعیت کا تربیتی نظام اور ایک مخصوص کلچر ہے جس کا طرئہ امتیاز فکری اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ایک ہمدردانہ، مشفقانہ اور برادرانہ فضا کا قیام ہے، جسے رحماء بینھم کے قرآنی مطالبے کے حصول کی ایک کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی برادرانہ کلچر اسلامی تحریک میں بھی ایک امتیازی مقام رکھتا ہے اور خدانخواستہ جس کی کمی تحریک کی مضبوطی کو ضعف پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔
رفقاکے درمیان ذاتی تعلق، بھائی چارہ، ایک خاندان اور ایک برادری بن جانے کی روح وہ چیز ہے، جس نے جمعیت کو ایک منفرد اسلامی تحریک بنادیا ہے۔ الحمدللہ بہت سے نشیب و فراز کے باوجود یہ روح اور یہ فضا قائم و دائم ہے۔ اس فضا اور برادرانہ تعلق کو جمعیت کی پہچان بنانے میں خرم بھائی اور راجا بھائی کا بڑا دخل ہے اور مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ان دونوں کی رفاقت میں اس عمل میں ایک ادنیٰ شریک کار کی حیثیت سے مددگار رہا ہوں۔ نیز اس امر کے اعتراف میں بھی کوئی باک نہیں کہ اس پہلو کو اُجاگر کرنے میں ہم نے اخوان کے رہنما ڈاکٹر سعید رمضان سے بہت کچھ سیکھا اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا گیا۔
راجا بھائی کے علمی مقام اور خدمات پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے اور ان کی کتابوں اور مضامین کا صرف انٹرنیٹ پر موجود ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کی حفاظت، طباعت اور تشہیر پر توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس تحریر میں راجا بھائی کی زندگی کے جن پہلوئوں کے بارے میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور ان میں سب سے اہم ان کا اسلام سے کمٹمنٹ، اسے صرف ایک نظریے اور عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے نصب العین کے طور پر اختیار کرنا اور اس پر جم جانا ہے۔ جمعیت کے دستور کی تدوین کے وقت، زندگی کے مقصد کے اظہارواعلان کے لیے جس آیت قرآنی کا انتخاب کیا گیا، وہ خرم بھائی اور راجا بھائی ہی کی تجویز کردہ تھی اور اپنی کم علمی کے باوجود میری زبان سے بھی بے ساختہ نکلا ع
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ (انعام ۶:۱۶۱-۱۶۲)
کم از کم میں نے اس زمانے میں یہ تازہ تازہ رُوداد جماعت اسلامی میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمۃ کے خطبۂ جمعہ میں پڑھی تھی، جو دل و دماغ کو مسحور کیے ہوئے تھی۔
راجا بھائی کی پوری زندگی کھلی کتاب کے مانند ہے۔ ہزاروں افراد نے ان سے استفادہ کیا ہے اور سیکڑوں نے ان کو قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھا ہے۔ ان کی اولیں اور آخری وفاداری اپنے اللہ سے اور اللہ کے دین سے تھی۔ جو کچھ انھوں نے کیا، لکھا اور کہا، وہ اپنے مالک کی رضا کے حصول کے لیے اور اس دین کی خدمت کے جذبے سے اور بڑے شوق اور ولولے سے کیا، جسے انھوں نے زندگی کا مقصد اور حاصل بنایا تھا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے اور ان شاء اللہ ، اللہ کے فرشتے بھی گواہی دیں گے کہ وہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے، جنھوں نے رب سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے میں اپنی حد تک ہرکوشش کی اور جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوگئے: ذَاقَ طَعَمَ الْاِیْمَانُ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالِاسْلَامِ دِیْنًا۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (احزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وقت آنے کا منتظر۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
راجا بھائی نے جماعت اسلامی سے باقاعدہ رکنیت کا تعلق قائم نہیں کیا اور اس کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں، جن میں ان کا مزاج، علمی مصروفیات، ۱۹۵۸ء میں ملک سے باہر چلے جانا اور ایک طویل مدت تک باہر ہی رہنا اور پھر تعلیمی کیریئر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا شامل ہیں۔ خود یونی ورسٹی کیریئر اور علمی کام، اور خصوصیت سے تخصص کے آداب اور تقاضے شامل ہیں۔ سیاسی امور پر کہیں کہیں اختلاف راے بھی رہا ہے اور ہم بارہا اس پر بات کرتے رہے ہیں، لیکن جہاں تک جماعت کے مقصد، طریق کار اور مجموعی خدمات کا تعلق ہے، جماعت سے ان کی محبت اور تعلق کسی رکن سے کم نہیں تھی۔
ایک بار میں نے راجا بھائی سے کہا کہ ’’دل چاہتا ہے کہ خرم کی طرح تم بھی جماعت کے اندر ہوتے‘‘ تو اپنے مخصوص انداز میں تبسم اور آنکھوں کی چمک کے ساتھ جواب میں کہا: ’’جماعت میرے اندر ہے، میرے جماعت کے اندر ہونے سے کیا فرق پڑے گا، میں تو اپنے کو اس کا اہل نہیں سمجھتا‘‘۔ اس پر مَیں نے ان کو مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا واقعہ سنایا۔ وہ جماعت سے نکل گئے تھے، مگر الحمدللہ میرا ان سے تعلق ہمیشہ ویسا ہی رہا اور وہ بھی ہم پر اسی طرح شفقت فرماتے رہے۔ ایک بار بڑے پیارے انداز میں مولانا اصلاحی صاحب نے فرمایا:’’میں جماعت سے نکل گیا ہوں، لیکن وہ جماعت جو میرے اندر ہے، وہ کبھی نہیں نکلتی۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت کوئی اچھا کام کرتی ہے یا اسے کوئی کامیابی ہوتی ہے تو مَیں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اور جب بھی جماعت کوئی غلطی کرتی ہے یا اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مجھے اس پر دُکھ ہوتا ہے‘‘۔
میرے خیال میں جماعت سے تعلق کے سلسلے میں یہ ایک بڑا سچا پیمانہ ہے اور راجا بھائی رکن نہ ہوتے ہوئے بھی اس پر ہمیشہ پورے اُترے۔ جمعیت کے دور کے بھائی چارے اور برادرانہ کلچر کی جو بات مَیں نے کی ہے، وہ کلچر راجا بھائی کی پوری زندگی میں دیکھا جاسکتاتھا۔ ان کی زندگی کا میرے لیے بہت ہی پیارا پہلو ان کی ذاتی رفاقت، محبت، خیرخواہی، اپنائیت، بے ساختگی ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا ہی دل آویز پہلو تھا، جو ان کی نیت کی پاکی اور حُسنِ سلوک کا مظہر تھا۔ ان کی زندگی میں دو رنگی نہیں تھی۔ مفاد پر مبنی تعلق کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نہیں پڑا تھا۔ ان کا گھر ہی نہیں، ان کا دل بھی ہر ایک کے لیے کھلا تھا اور یہ تعلق بے لوث تھا جس نے ان سے رشتے کو ایک مقدس رشتہ بنا دیا تھا۔ پھر وہ دوسرے کی بات بڑے سکون سے سنتے تھے اور اختلاف بھی اس طرح کرتے تھے کہ دل نہ ٹوٹنے پائے۔ خوش کلامی ہی نہیں، خلوص اور خیرخواہی وہ عناصر تھے، جو ان سے اختلاف کو ایک رحمت بنادیتے تھے اور خودپسندی، غرور اور من آنم کہ من دانم کا ان کی زندگی میں کوئی مقام نہیں تھا۔
پھر یہ بھی واضح رہے کہ راجا بھائی بڑے مجلسی انسان تھے۔ وہ بولتے آہستہ آہستہ تھے، کبھی تو یہ احساس ہوتا تھا کہ الفاظ کے باب میں بخل سے کام لے رہے، یا سوچ سوچ کر ، ٹھیرٹھیر کر بول رہے ہیں، حالانکہ خیالات کو حُسن و خوبی سے ادا کرنے میں کوئی ان کی ٹکر کا نہیں تھا، بس یوں سمجھ لیں کہ ان کا اسٹائل تھا۔ ان کے الفاظ میں جو شیرینی، ان کے انداز میں جو اپنائیت، ان کے لہجے میں جو خلوص اور ان کے احساسات میں جو خیرخواہی اور دردمندی بلکہ قدرافزائی ہوتی تھی، وہ دل و جان کو مسحور کردیتی تھی ،گویا ؎
ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
راجا بھائی کا رویہ بڑوں کے ساتھ، ہم عمروں کے ساتھ، اپنے سے کم عمر کے ساتھیوں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ بڑا خوش گوار اور اپنائیت سے بھرپور ہوتا تھا۔ نیز ان کے مزاج میں خوش گوار مزاح کا ایک رنگ بھی تھا، جسے ان کی مسکراہٹ جو کبھی کبھی ہنسی کی شکل اختیار کرلیتی تھی کچھ اور بھی دل آویز بنادیتی تھی ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
راجا بھائی کئی سال سے شدید بیمار تھے، لیکن مجال ہے کہ کبھی حرفِ شکایت ان کی زبان پر آیا ہو۔ صبر اور شکر کا وہ پیکر تھے۔ الحمدللہ، ان کے بیٹے یاسر اور ان کی بہو سمیرا نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا، خصوصیت سے سمیرابیٹی نے جس لگن اور محنت سے اپنے سُسر کی خدمت کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تعالیٰ، یاسر، سمیرا اور تمام اہلِ خانہ کو بہترین اجر سے نوازے اور ان کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت بخش کر ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہترین اجر کا سامان فرمائے۔ سمیرا بیٹی نے بتایا کہ انتقال سے چند دن قبل ہسپتال میں بار بار میرے بارے میں پوچھتے رہے، حالانکہ ہسپتال جانے سے ایک دن پہلے ہی مجھ سے بات ہوئی تھی۔ ہفتہ کو ہسپتال سے گھر واپس آئے، طبیعت خوش گوار محسوس کر رہے تھے۔ سمیرابیٹی سے فرمایش کرکے تھوڑی سی مٹھاس کھائی اور پھر ہمیشہ کی نیند سوگئے۔ الحمدللہ، خرم بھائی اور راجا بھائی سے تعلقات ان کی ذات تک محدود نہیں رہے۔ ہماری اولادیں بھی ایک دوسرے سے قریب ہیں اور ہر ایک کی اولاد نے ہم تینوں کو خاندان کے بڑے کا درجہ دیا ہے۔ خرم بھائی اور راجا بھائی دونوں کے بچے مجھے خورشید چچا ہی کہتے ہیں اور میرے بیٹے اور بیٹیاں اُن کو باپ کا سا احترام دیتے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
ان ۷۰برسوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو خرم ہوں یا راجا، ان کو اپنے سے جدا اور دُور محسوس نہیں کرتا، اور یہی احساس ہے جو دونوں کے بچھڑ جانے کے باوجود ان کو مجھ سے جدا نہیں ہونے دیتا:
من تو شدم ، تو من شدی
من تن شدم ، تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں
من دیگرم ، تو دیگری
میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں محترم ملک نصراللہ خان عزیز، مدیر ایشیا کی وساطت سے ہوئی۔ ملک صاحب اور ہم پارک لین لاہور میں ہمسایے تھے۔ ایک دن میاں طفیل محمد صاحب، ملک صاحب کے گھر آئے ہوئے تھے۔ جب وہ میاں صاحب کو الوداع کرنے گھر سے باہر سڑک پر آئے تو میں بھی وکالت کی وردی پہنے سائیکل پکڑے اپنے گھر سے باہر نکل رہا تھا۔ ملک صاحب نے محترم میاں طفیل محمد صاحب سے میرا تعارف کرواتے ہوئے جہاں مجھے ’ہونہار وکیل‘ کہا، وہاں میرے والدمحترم کشفی شاہ نظام کا خصوصی ذکر کیا کہ: ’’ان کا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے بذریعہ خط کتابت رابطہ رہا ہے‘‘۔ نہ معلوم میری وکالت کی ’وردی‘ نے (یاد رہے ابتدائی زندگی میں میاں صاحب بھی پیشۂ وکالت سے منسلک تھے)یا پھر میرے والد صاحب اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے درمیان رابطے کے حوالے نے ان کو میری جانب متوجہ کیا اور نہایت مشفقانہ انداز میں دریافت کیا : ’’وکالت کیسی چل رہی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’محنت کر رہا ہوں‘‘۔
ایک مسکراہٹ کے ساتھ میاں صاحب کہنے لگے: ’’کبھی کبھار مل لیا کریں‘‘۔
یہ خوب صورت ابتدا تھی۔ اس کے بعد مجھے ان سے کئی بار مختصر اور طویل ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ میاں صاحب سے ایک طویل ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب میں شاہ جمال کالونی میں رہایش پذیر ہوا، اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی رہایش گاہ بھی میرے گھر کے قریب واقع تھی۔ میں ان سے ملنے اور ان کے خیالات سے مستفید ہونے کے لیے چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں اکثر میاں صاحب کو تشریف فرما دیکھا کرتا تھا۔ اب میرا شمار اچھے وکلا میں ہونے لگا تھا اور میاں صاحب نے مولانامودودی سے ایک بار کہا: ’’آج تو یہ بڑے کامیاب وکیل بن گئے ہیں، لیکن میں نے ان کو اس وقت دیکھا تھا، جب یہ سائیکل پر سوار قانون کی کتابیں اُٹھائے عدالت کے لیے روانہ ہو رہے تھے‘‘۔
ان ملاقاتوں کے دوران میں میرے ذہن میں یہ تاثر اُبھرا کہ میاں طفیل محمد صاحب نہ صرف جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، بلکہ وہ مولانا مودودی سے اتنی قربت اور عقیدت رکھتے ہیں کہ کئی بار ان کے درمیان مرشد اور مرید والی کیفیت دکھائی دیتی۔ یہ تاثر کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ جیسا انھوں نے خود کہا ہے کہ: ’’میرا یہ غالب احساس رہا کہ جماعت اسلامی میں آیا نہیں بلکہ مجھے کوئی قوت گھسیٹ کر اس طرف لائی ہے‘‘۔ وہ جماعت کی طرف کیا آئے، جماعت کی خدمت میں ساری زندگی صرف کردی۔ انھیں جماعت کے مختلف مناصب تفویض ہوئے، تین بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر [۱۹۷۲ئ-۱۹۸۷ئ] بنے اور پھر خرابی صحت کی وجہ سے ازخود دست بردار ہوکر جماعت کے ایک معزز رکن بن کر زندگی [۱۹۸۷ئ-۲۰۰۹ء ] بسر کی۔
مولانا مودودی کی وفات پر حسرت سے، لیکن اپنے عزم کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا: ’’مولانا آپ ہی مجھے چھوڑ گئے ہیں، میں نے آپ کو نہیں چھوڑا‘‘۔
یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، جب [صدر ایوب خاں مرحوم کی حکومت نے] جماعت اسلامی کو ’غیرقانونی جماعت‘ قرار دے کر اس کی کارروائیوں پر انتظامیہ کی جانب سے پابندی عائد کردی تھی۔ مجھے محترم چودھری رحمت الٰہی نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا پیغام دیا کہ میں بطور وکیل اپنی راے دوں کہ:’’ کیا ہم عدالت سے داد رسی لے سکتے ہیں؟‘‘
میں نے ایک رٹ درخواست تیار کر کے چودھری رحمت الٰہی صاحب کے حوالے کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی جماعت کے بطور جماعت حقوق پر انتظامیہ اپنے حکم سے پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ کیونکہ کوئی سیاسی جماعت سیاسی جماعت نہیں رہتی، اگر اسے اپنی پالیسی کے مطابق فعال رہنے سے روک دیا جائے۔ معاملہ آخرکار سپریم کورٹ میں گیا اور ہم سرخرو ہوئے۔ وکلا کی ٹیم جوڈھاکہ، مشرقی پاکستان مقدمے کے سلسلے میں گئی ہوئی تھی، جب واپس لاہور ایئرپورٹ پر اُتری تو میاں طفیل محمدصاحب مع دیگر کارکنانِ جماعت اسلامی وہاں موجود تھے۔ان کی خوشی ان کے چہرے اور آنکھوں کی چمک سے عیاں تھی۔
میاں طفیل محمد صاحب کی محنت نے جماعت کو نظم و ضبط اور ڈسپلن مہیا کر دیا۔ اگر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی کے بانی اور رہبر تھے، تو میاں طفیل محمد اس جماعت کے کامیاب کمانڈر تھے۔ میاں طفیل محمدکی وفات کے بعد بین الاقوامی طور پر ایک مشترکہ راے تسلیم کی گئی کہ وہ ایک ایمان دار کارکن، ایمان دار قائد، سچائی اور ایمان داری کے ساتھ مشورہ دینے والے انسان تھے۔ وہ اپنی پارٹی اور ملک و قوم کے ساتھ ایمان دار ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مالی طور پر ایمان دار تھے بلکہ ہمیشہ اپنے مؤقف کے ساتھ بھی honest رہے۔
میاں صاحب کی ثابت قدمی، لگائو اور اجتماعی نظم و ضبط کی نشان دہی سے سیاسی کارکنوں کو یہ علم [ہوتا ہے] کہ کارکن کیسے کام کرتے ہیں اور سیاسی جماعت میں ان کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، بلکہ سیاسی جماعت بنتی ہی تب ہے کہ اس میں میاں طفیل محمد جیسے کارکن موجود ہوں، جو بغیر کسی خواہش کے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے امیر جماعت بھی منتخب ہوں اور پھر ازخود مزید قیادت سے معذرت کرکے بطورِ کارکن جماعت کی خدمت میں مصروف ہوجائیں
۱۶؍اگست ۲۰۱۵ء کو نمازِ فجر کے بعد خبریں سننے کے لیے ٹی وی کھولا تو پہلی خبر ہی جنرل حمیدگل کے انتقال کی تھی___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
موت برحق ہے۔ ہم سے رخصت ہونے والا یاددہانی کراتا ہے کہ آنے والی اصل زندگی کے لیے کچھ کر رکھنے کی فکر ہماری ہر فکرمندی پر غالب ہونی چاہیے۔ نیز رخصت ہونے والا جتنا عزیز، جتنا قریب اور جتنا عظیم ہوتا ہے اس سے جدائی کا دُکھ بھی اتنا ہی شدید، اتنا ہی گہرا اور قلب کو تڑپانے والا ہوتا ہے۔ جنرل حمیدگل عزیز ہی نہیں، عزیز جہاں بھی تھے۔ ان کا انتقال بلاشبہہ میرے لیے ایک بڑا ذاتی نقصان ہے لیکن مجھے علم ہے کہ یہ نقصان میرے جیسے ہزاروں انسانوں کا نقصان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور عالمِ اسلام کا نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ان کو اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے،ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ یہ بھی دُعا ہے کہ ان کی وفات سے پاکستان بلکہ عالمِ اسلام میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے بھرنے کا انتظام فرمائے اور اس قوم کو وہ قیادت میسر آئے جس کا وژن ہر آلودگی سے پاک ہو، جس کی سیرت بے داغ ہو، جو عزم و ہمت کا پیکر ہو، جس کی منزل اور مشن اسلام کی سربلندی، پاکستان کے نظریاتی، سیاسی ، معاشی اور تہذیبی وجود کا استحکام ہو، اور جو ملت اسلامیہ کے لیے ایک روشن مستقبل کی تعمیروتشکیل کے لیے سرگرم ہو۔
جنرل حمیدگل سے میرا پہلا تعارف اس دن ہوا جب مارچ ۱۹۸۸ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں، جس میں جنیوا معاہدے پر بحث ہو رہی تھی، ان کو ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے افغان جہاد اور جنیوا معاہدے کے بارے میں بریفنگ کی دعوت دی گئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاہدہ ہوجائے، اور وزارتِ خارجہ نے ایسی بریفنگ دی تھی جو تصویر کا ایک خاص رُخ پیش کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی کے چیف کی حیثیت سے جنرل حمیدگل کو بریفنگ کی دعوت دی گئی اور وزیراعظم صاحب کی توقعات کے برعکس انھوں نے بڑے مضبوط دلائل سے اور بڑے اعتماد اور بڑی جرأت کے ساتھ اس معاہدے کا پوسٹ مارٹم کرڈالا اور تصویر کا وہ رُخ پیش کیا جسے چھپایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم اور ان کے وزیروں خصوصیت سے زین نورانی کے چہروں پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ بالآخر جونیجو صاحب سے نہ رہا گیا اور بیچ میں مداخلت کر کے انھوں نے جنرل حمیدگل کو بات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ جنرل حمیدگل نے کسی ناراضی کے بغیر بات کو ختم کردیا، لیکن ارکان پارلیمنٹ نے صاف محسوس کرلیا کہ ان کی زبان بندی کی گئی ہے۔ محترمہ سیّدہ عابدہ حسین میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان سے بھی رہا نہ گیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا کہ حالات کی یہ تصویر تو ہمارے سامنے آئی ہی نہ تھی! پارلیمنٹ میں مَیں نے اور حزبِ اختلاف کے دوسرے ارکان نے جنیوا معاہدے کی بھرپور مخالفت کی، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی راہداری میں سابق وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب علی نے بھی اپنے اضطراب کا اظہار کیا (وہ رکن نہ تھے اس لیے بحث میں شرکت نہیں کرسکتے تھے)۔ لیکن جونیجو صاحب نے وہ کیا جو امریکا چاہتا تھا اور اس طرح جہاد افغانستان کو de-rail کرنے (پٹڑی سے اُتارنے) اور افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک جیتی ہوئی بازی کو ہار کی طرف دھکیلنے کا عمل شروع ہو گیا جس کے نتائج آج تک ہم اور پورا خطہ بھگت رہا ہے۔
جنرل حمیدگل نے سرکاری افسر ہوتے ہوئے وزیراعظم کی لائن سے ہٹ کر صحیح صحیح صورتِ حال پیش کر کے ایک تابناک مثال قائم کی___ اوریہیں سے میرے اور ان کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ میں نے ان کی راے کی تائید کی، ان کی زبان بندی پر احتجاج کیا اور جنیوا معاہدے کو رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ پہلی ملاقات ایک اجتماع میں ہوئی تھی، جس میں مَیں نے سرعام ان کے تجزیے اور ان کی جرأت دونوں کو سراہا۔ جو تعلق ۱۹۸۸ء کی اس ملاقات میں بنا تھا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا اور ذاتی دوستی اور اعتماد کے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ الحمدللہ، ہمارے تعلقات ۲۷سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بارہا میرے گھر اور میرے دفتر میں تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ کم از کم دو بار مَیں بھی ان کے گھر گیا او ان کے دیوان خانہ میں سجا ’دیوارِبرلن‘ کا ٹکڑا آج بھی یاد ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر ایک ماہ ہم ۱۹۹۳ء میں کابل میں تقریباً ساتھ رہے۔ گو ہمارا قیام دو مختلف جگہوں پر تھا، مگر ہم روزانہ ہی ملتے رہے اور مجاہدین کے متحارب گروہوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے رفیق کار رہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ گو ہم (یعنی جماعت اسلامی کا وفد جس کی قیادت محترم قاضی حسین احمد کر رہے تھے اور جس میں مولانا جان محمد عباسی، مولانا عبدالحق بلوچ، پروفیسر ابراہیم، برادرم خلیل حامدی اور مَیں شامل تھے) افغانستان کے صدر پروفیسر ربانی کے مہمان تھے اور جنرل حمیدگل ایک دوسرے مہمان خانے میں ٹھیرے ہوئے تھے، لیکن دن کا بڑا حصہ ہمارے ہی ساتھ گزرتا تھا، جس میں بار بار پروفیسر ربانی، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور حکمت یار (جن کا کیمپ (base) کوئی ۲۱ کلومیٹر دُور تھا) سے مشترکہ اور الگ الگ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنرل حمیدگل کے پسندیدہ مجاہد گلبدین حکمت یار تھے اور یہی بات جماعت اسلامی کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے، اس میں اتنی صداقت تو ضرور ہے کہ وہ اور ہم سب گلبدین حکمت یار کی دل سے قدر کرتے تھے اور کرتے ہیں اور حزبِ اسلامی کے جو حقیقی اثرات تھے ان کا ادراک رکھتے تھے، مگر اس بات میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ جنرل صاحب یا ہم کسی ایک کے ساتھ بریکٹ (bracket) تھے۔ پروفیسر ربانی کے تو ہم مہمان ہی تھے، احمد شاہ مسعود سے بھی بڑے اچھے تعلقات تھے اور ہر روز ہی بات چیت ہوتی تھی۔ میں شاہد ہوں کہ جنرل حمیدگل کو سب کا اعتماد حاصل تھا۔ اُس پورے مہینے میں مَیں نے خود دیکھا کہ سب مجاہد رہنما ان کی عزت کرتے تھے ، ان کی بات کو وزن دیتے تھے اور ان سے تعلقات میں کوئی شائبہ بھی اس کا نہیں تھا کہ وہ انھیں کسی ایک کا سرپرست سمجھتے ہوں۔ جب بھی حکمت یار صاحب کے بارے میں میری ان سے بات ہوئی تو انھوں نے ہمیشہ اپنے اتفاق اور اختلاف دونوں کا اظہار کیا، البتہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں زمینی حقائق سے واقف ہوں کہ کس کی کتنی قوت ہے اور کس کے کیا اہداف ہیں!
جنرل حمیدگل ۲۰نومبر ۱۹۳۶ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان سوات سے کوئی ۱۰۰برس پہلے پنجاب منتقل ہوا تھا لیکن ان کے گھرانے میں پشتون اور پنجابی دونوں روایات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ۱۹۵۶ء میں فوج میں ان کا کمیشن ہوا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور غیرمعمولی فکری اور پروفیشنل خدمات کی بنا پر تیزی سے بلندی کے مراحل طے کرتے ہوئے کورکمانڈر، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی، آئی ایس آئی کے مناصب پر فائز ہوئے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دورِ حکومت میں ان کو ۱۹۸۹ء میں آئی ایس آئی سے ملتان کور کی کمانڈ کے لیے منتقل کردیا گیا اور پھر ۱۹۹۲ء میں اس وقت کے چیف آف اسٹاف نے ان کو ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں منتقل کرنے کی کوشش کی، مگر جنرل گل نے معذرت کی اور فوج سے رخصت ہوگئے۔ بلاشبہہ انھوں نے اس وقت کی سیاسی قیادت کی ناقدری کے باعث ۱۹۹۲ء میں وردی اُتار دی لیکن جو حلف فوج میں داخل ہوتے وقت لیا تھا، اسے زندگی کے آخری لمحے تک نبھایا۔ پاکستان اور اسلام ان کی زندگی کا محور اور ان کے عشق کا مرکز تھے۔ اپنے ۲۷سالہ تعلق کی بنیاد پر مَیں شہادت دے سکتا ہوں کہ انھوں نے جو عہد اپنے اللہ سے کیا تھا اسے پورا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جنرل حمیدگل کو میں نے ایک بہت باخبر فرد پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کی فکر بہت بیدار تھی۔ اقبال کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ مولانا مودودی کی بھی بیش تر کتب کا مطالعہ وہ کرچکے تھے۔ مغربی فکر اور خصوصیت سے عسکری اور بین الاقوامی اُمور پر ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر تھے۔ پھر ان کے روابط اتنے وسیع اور اتنے کثیرالجہت تھے کہ تعجب ہوتا ہے کہ ایک انسان ۲۴گھنٹے میں اتنا کچھ کیسے کرلیتا ہے۔ اہلِ خانہ کو بھی وہ وقت دیتے تھے، اہلِ محلہ سے بھی ان کے روابط گہرے تھے، فوجیوں اور سابق فوجیوں میں بھی بڑے متحرک تھے۔ دوستوں کے وہ دوست تھے لیکن مخالفین سے بھی میل ملاپ رکھتے تھے۔ میڈیا سے بھی ان کی راہ و رسم معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ دینی اور سیاسی حلقوں میں بھی ان کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ سفارت کاروں اور غیرملکی صحافیوں اور سیاست کاروں کا بھی ان کی طرف رجوع رہتا تھا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ؎
ایک دل ہے اور ہنگامہ حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں مَیں
میں نے جنرل حمیدگل کو ایک اچھا انسان، ایک محب ِ وطن پاکستانی، اسلام کا ایک شیدائی اُمتی، ایک پیشہ ور فوجی اور کامیاب جرنیل اور ایک بالغ نظر دانش ور پایا۔ ان کو اپنی بات پر بڑا اعتماد ہوتا تھااور انھیں اپنی بات کہنے کا بڑا سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ان کو اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا کرتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی بات بڑے محکم انداز میں اور بڑی جرأت کے ساتھ بیان کرتے تھے لیکن دوسرے کی بات کو اختلاف کے باوجود سننے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے اور سلیقے سے رد کرنے کا بھی۔ میں نے انھیں دوسروں کی تحقیر کرتے نہیں دیکھا۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا دل فریب پہلو تھا۔
الحمدللہ، جنرل حمیدگل نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ متحرک رہے اور اُس مقصد کی خدمت میں مصروف رہے جسے انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا۔ بلاشبہہ پاکستان کی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے اور کم ظرفی کے اس سارے مظاہرے کے باوجود جو اُن کے ناقدین نے ان کی زندگی ہی میں نہیں ان کے انتقال کے بعد بھی کیا ہے، ان کی خدمات اَنمٹ ہیں اور مدتوں یاد رہیں گی۔ ان کی وفات سے جہاں ہرکسی نے کچھ نہ کچھ کھویا ہے، مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک مخلص دوست اور ساتھی سے محروم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، آمین!
جنرل حمیدگل ان لوگوں میں سے تھے جو فکری یکسوئی کی اعلیٰ ترین مثال ہوتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بھی بڑی ہم آہنگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات، سیاسی رجحانات اور ان کی تزویراتی فکر کے بارے میں تو اختلافی آرا کا اظہار ہوا ہے، لیکن ان کی دیانت اور ان کے کردار کے بارے میں کسی کو انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوئی۔ انھوں نے ایک صاف زندگی گزاری جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں۔ امریکا کی نگاہ میں وہ ایک کانٹا تھے اور امریکی سیاست دان، سفارت کار اور صحافی ان پر تیراندازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے لیکن ان کی وفات پر جو اطلاعاتی شذرہ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز (۱۶؍اگست ۲۰۱۵ئ) میں شائع ہوا ہے اور جس میں ان کی تزویراتی فکر پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور انھیں سیاسی طور پر ایک متنازع فیہ شخصیت کہا گیا ہے ،مگر وہاں بھی وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ :
ان کے گرد سیاسی اور دہشت گردی سے متعلق تنازعات کی کثرت کے باوجود ان پر کبھی بھی معمولی سی اخلاقی یا مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا گیا۔
جنرل حمیدگل اپنی وفات کے بعد بھی ان شاء اللہ زندہ رہیں گے اور پاکستان اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو جدوجہد انھوں نے کی وہ جاری و ساری رہے گی اور ظلمت کی یہ شام ان شاء اللہ ختم ہوگی۔
۱۹۸۴ء میں جناب الیف الدین ترابی سے پہلی ملاقات منصورہ، لاہور میںہوئی تھی، جب میں ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھا۔ پروفیسر ترابی ان دنوں سعودی عرب سے آئے تھے۔ ان کے علم و فضل اور ان کے مزاج کے عجزو انکسار نے متاثر کیا تھا۔ منصورہ میںخاصے عرصے تک ہم دونوں اپنے گھرانوں کے ساتھ بطور ہمسایے مقیم رہے۔ ان دنوں کی یادیں آج بھی میرے حافظے میں ان کے حسن ِخلق کے پھول بن کر مہکتی ہیں۔
۸۵- ۱۹۸۴ء میں افغان جہاد کامیابی کی طرف گامزن تھا، اور میںافغان جہاد کے ابلاغی محاذ سے منسلک تھا۔ ادھر فکری سطح پر ترابی صاحب کشمیر کی آزادی کی جد و جہد سے وابستہ تھے۔ ہماری گفتگو کا موضوع اکثر کشمیر رہتا تھا۔ انھی دنوںایک دن ترابی صاحب کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے ایک وجیہ نوجوان ادارئہ معارف اسلامی میں تشریف لائے۔ ترابی صاحب نے انھیں ادارے کے سارے کارکنوں سے ملایا۔ ہم نے ان سے مقبوضہ کشمیر کے حالات پوچھے اورمیں نے کچھ نوٹس بھی لیے ۔ ترابی صاحب نے اصرار کرکے مجھ سے ’’مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے‘‘کے عنوان سے مضمون لکھوا کر چھوڑا۔
ترابی صاحب کے ذہن میں کوئی منصوبہ آتا تو مجھے مشاورت میں شریک کرلیتے۔ایک روز ہم نے طے کیا کہ عربی، اُردو اور انگریزی میں ایک ایسا اخبار شائع کیا جائے جو بین الاقوامی ہو اور اس کے لیے ــــ’اُمت‘نام بھی پسند کر لیا تھا۔ وسائل کی عدم موجودگی کے سبب یہ شائع نہ ہوسکا۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں ۱۵روزہ جہاد کشمیر جاری کیا اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی اشاعت ۳۰ہزار تک پہنچ گئی۔ مرحوم ترابی صاحب کا تعاون شروع ہی سے اس جریدے کو حاصل رہا ۔ اس کے چندسال بعد انھوں نے بھی کشمیر کی تحریک کو عالمِ عرب میں متعارف کرنے کے لیے عربی زبان میں کشمیر المسلمہ جاری کیا۔
الیف الدین ترابیؒ ۱۹۴۱ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میںکشمیر یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ وہ ضلع بھر میں چوتھے مسلم گریجویٹ تھے۔۱۹۶۵ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے اسلامیات اور پھر عربی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک کالج کے استاد کے طور پر تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۷ء میں اُم القریٰ یونی ورسٹی مکہ مکرمہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ قیام مکہ کے عرصے میں ترابی صاحب نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت سے رابطے استوار کیے۔ ۸۰ کے عشرے کے آخیر میں تحریک آزادی کو جو نئی اٹھان ملی، اس میںجناب الیف الدین ترابی کا اہم کردار تھا۔ سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچ کر اپنے آپ کو مکمل طور پر تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا۔
۱۹۸۶ ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نائب امیر بنا ئے گئے۔ وہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مہمانوں،مہاجرین اور مجاہدین کو تحریک آزادی کی ناقابل تسخیر قوت میں ڈھالنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد خطے میں آنے والے بے سروسامان سرفروشانِ آزادی کو محبت سے گلے لگانے اوران کے لیے روحانی و جسمانی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنے اور ان کو تحریکِ آزادی کا ہر اول دستہ بنانے میں جنھوں نے مرکزی کردار ادا کیا، ان میں مولانا عبدالباری مرحوم ،رشید عبا سی مرحوم، جناب عبدالرشید ترابی اورالیف الدین ترابی مرحوم شامل تھے۔
وہ اول و آخر اسلامی تحریک کے ایک منفرد کارکن تھے۔ گوناں گوں بیماریوں میں مبتلاہونے کے باوجود ان کے بدن میں روح بہت صحت مند اور اُجلی تھی۔ وہ اتنے عوارض کے ساتھ بھی حلیم الطبع، متواضع مزاج، شگفتہ رو اور کشادہ فطرت تھے۔ زندگی کے آخری بیس پچیس سال انھوں نے مختلف بیماریوں کے نرغے میںگزارے، مگر وہ اپنے کام کے راستے میں کسی رکاوٹ کو حائل کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دل مضطرب اور جانِ پر سوز کو کسی دم قرار نہ تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ جس تحریک کا پرچم لے کر اٹھے تھے، ان کابڑھاپا بھی اسی کے لیے وقف رہا۔ ان کے سراپے کو تصور میں لائیں تو ان کی مجموعی شخصیت طبعی شرافت، حسن خلق اور علم وعمل کا مجموعہ نظرآتی ہے۔
وہ نہ صرف تحریک آزادیِ کشمیر کے پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے مددگار تھے، بلکہ نظریۂ پاکستان کے سچے مبلغ اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے عظیم داعی بھی تھے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے موقف پروہ زندگی کے آخری سانس تک قائم رہے۔ الیف الدین ترابی صاحب نے تحریک آزادیِ کشمیر کے لیے کسی صلے اور ستایش کی خواہش کے بغیرعظیم خدمات سرانجام دیں۔ ہمیں یہ حقیقت یقیناًغم زدہ کر دیتی ہے کہ تحریک آزادیِ کشمیر اور مہاجرین و مجاہدین ِکشمیرکے حق میں بلند ہونے والی وہ مؤثر آواز اب خاموش ہو گئی ہے۔۔۔آئیے ہم سب دست دعا اٹھائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس نقصان کی تلافی فرمادے۔
ان کے جذب وسوز، اخلاص وایقان اور تعلق باللہ کی کیفیات کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے، لیکن اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی اپنی باز پرس کرتے ہیں۔ ایک سفر میں ان کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی سے مظفر آباد جانا ہوا۔ سارے راستے میں کشمیر کی جہادی سرگرمیاں زیر بحث موضوع رہیں۔ میں نے ایک موقعے پر جیسے ہی یہ کہا: ’’ترابی صاحب یہ بہت بڑاا کام ہم جیسے کم صلاحیت لوگوں پر آن پڑا ہے، میں ڈرتا ہوں،خدا نخواستہ ہماری بے تدبیری اور بصیرت کی کمی سے اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو ہمارا انجام کیا ہو گا۔۔۔!!‘‘ یہ بات سنتے ہی ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور پھر وہ ایسے روے کہ مجھے اس بات پر ندامت ہونے لگی کہ یہ تذکرہ کیوں چھیڑا، اور پھر اگلے کم و بیش ۲۵کلومیٹر کے سفر کے دوران ان پر رقت طاری رہی اور ان کے آنسو نہیں تھمے۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنما جناب الیف الدین ترابی کی وفات سے کشمیر کی تحریک آزادی ایک ان تھک مجاہد اورمخلص ترین انسان سے محروم ہوگئی۔ ان کی پوری زندگی وطن عزیز کشمیر کی آزادی کی جد وجہد میں گزری ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک باوفا شخص تھے۔۔۔ نوجوان تھے تواپنے کاز سے وفا نبھاتے ہوئے گھر بار، مال و منال اوروطن عزیز کو قربان کر دیا۔ بڑھاپا آیا تو ان کی بہت پاکیزہ صفت بیٹی عذرا اورعزیز ترین داماد احسن عزیز شہید ہوگئے۔
کشمیر کی تحریک کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بھی قائم کیے۔ ترابی صاحب کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۲۲ ہے، جن میں تحریک آزادیِ کشمیر منزل بہ منزل اور مسئلۂ کشمیر:نظریاتی و آئینی بنیادیں اور بھارتی دعویٰ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔بلاشبہہ وہ عرب دنیا میں کشمیر اور پاکستان کی پہچان بن گئے تھے۔ میں۲۰۱۲ء میں حج کے لیے گیا، تومنیٰ میں الشیخ یوسف قرضاوی سے ملاقات اور علیک سلیک ہوئی۔ جب انھیں جہادِکشمیر سے میری نسبت معلوم ہوئی تو پہلا سوال یہ کیا: کیف اخینا السیدالیف الدین الترابی؟ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ محسن ترکی نے بھی کشمیر کے حالات پر گفتگو سے پہلے ترابی صاحب کی خیریت معلوم کی اور عربوں کے مخصوص انداز میں ان کے حق میں دعائیں کیں۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے ساتھ اْن کی غیرمتزلزل وابستگی مرتے دم تک کم نہیں ہوئی اور اسلامی ممالک میں ان کی اس مقبولیت کا رازبھی یہی تھا کہ اپنے آپ کوہمہ تن اور ہمہ وقت اپنے کازکے لیے وقف کیے رہے۔ چند ایک بشری کمزوریوں کے سوا وہ نجابت اور استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ عمر ِ مستعار کے تقریباً۳۰ برس تک وہ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے نائب امیر رہے۔ علامہ محمد اقبال نے جن تین اوصاف ’نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جانِ پُرسوز‘ کو میرکارواں کے لیے رخت ِسفر کہا ہے، ترابی صاحب ان تینوں اوصاف سے متصف تھے۔ خصوصاً اپنے کاز پر اپنے آرام اور عیش و مسرت کو قربان کرنا ان کی شخصیت کا مابہ الامتیاز وصف تھا، مگر انھوں نے کبھی میر کاررواں ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔
صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؐ نے فرمایا: مَن طَالَ عُمرُہُ وَ حَسُنَ عَمَلُہُ،’’ جسے لمبی عمر ملی اور اس کے عمل نیک رہے‘‘۔ الحمدللہ ۳۵سے زائد شان دار کتابوں کے مصنف محمد قطب بھی انھی خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں۔ ۹۵برس کی عمر پائی اور آخری لمحہ تک اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزرا۔ ۴جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ، ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء کو رخصت بھی ہوئے تو یہ جمعۃ المبارک کی قیمتی گھڑیاں تھیں اور اللہ نے حرم مکہ میں لاکھوں نمازیوں کو ان کی نماز جنازہ میں شریک کردیا۔
محمد قطب، مفسر قرآن اور شہید ِاسلام سید قطب کے بھائی تھے۔ ان کی تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی بہن نفیسہ، سیّد قطب سے تین برس بڑی تھیں، پھر خود ان کا نمبر تھا۔ دوسری بہن امینہ ان سے چھوٹی تھیں اور پھر محمد قطب کا نمبر تھا، جو سیّد قطب سے ۱۳ سال چھوٹے تھے، اور ان کے بعد سب سے چھوٹی بہن حمیدہ تھیں۔ والد جناب قطب ابراہیم پورے خاندان کے بڑے سمجھے جاتے تھے، جنھیں خاندانی وجاہت اور دین داری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ بچپن سے ہی بچوں کو خوفِ آخرت کی گھٹی دی اور عبادات و فرائض کا خوگر بنایا۔ والدہ بھی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے دو بھائیوں نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی تھی۔
سیّد قطب سے ۱۳ برس چھوٹا ہونے کے باعث محمد قطب کو بھائی کی صورت میں والد کا پیار ملا اور اُستاد کی تربیت بھی۔ اپنی پہلی کتاب سخریات صغیرۃ کا انتساب انھوں نے سیّد بھائی ہی کے نام کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اپنے بھائی کے نام، جنھوں نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا، جنھوں نے بچپن سے ہی مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وہ میرے لیے والد کا مقام بھی رکھتے تھے، میرے بھائی بھی تھے اور انتہائی عزیز دوست بھی۔ میں اپنی کتاب انھی کے نام کرتا ہوں، شاید کہ مجھ پر عائد ان کے گراں قدر قرض میں سے کچھ ادا ہوجائے‘‘۔
سیّد قطب نے بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بہت اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ انھوں نے اپنا شعری دیوان الشاطئ المجہول (نامعلوم ساحل) شائع کیا تو اسے ان اشعار کے ساتھ بھائی سے وابستہ کیا:
أَخِی ذٰلِکَ اللَّفظُ الَّذِي فِی حُرُوفِہٖ
رُمُوزٌ وَ أَلغَازٌ لِشَتّٰی العَوَاطِفِ
أَخِي ذٰلِکَ اللَّحنُ الَّذِي فِی رَنِینِہٖ
تَرَانِیمُ اِخلَاصٍ وِ رَیَّا تَآلُفِ
(’میرا بھائی‘ ایک ایسا لفظ کہ جس کے حروف میں محبتوں کی تمام راز و رموز پنہاں ہیں۔ ’’میرا بھائی‘‘ لفظ ہی ایک ایسا نغمہ ہے کہ جس میں اخلاص و محبت کے تمام تر نم پوشیدہ ہیں۔ )
اسی منظوم انتساب میں سیّد قطب کہتے ہیں:
فَأَنتَ عَزَائِي فِي حَیَاۃٍ قَصِیرَۃٍ
وَ أَنتَ امتِدَادِي فِي الحَیَاۃِ وَ خَالِفِي
(تم میری اس مختصر زندگی کی ڈھارس ہو.. تم زندگی میں میرا تسلسل اور میرے بعد میرے اصل وارث ہو۔)
گویا سیّد قطب، بھائی میں صفات و خوبیاں ہی نہیںدیکھ رہے تھے، ان کی لمبی عمر کے لیے بھی دُعاگو تھے۔ مفسرِ قرآن کے دونوں اندازے درست نکلے۔ محمدقطب نے نہ صرف ۹۵ سالہ بابرکت زندگی پائی، بلکہ سیّد قطب کی حیات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک علم و تحقیق کے معرکے سر کرتے رہے۔
محمد پر بڑے بھائی سیّد کا اثر انتہائی گہرا تھا۔ وہ ایف اے کے بعد عربی ادب پڑھنا چاہتے تھے، لیکن خود کہتے ہیں کہ : ’’سیّد بھائی نے مشورہ دیا کہ انگریزی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرو اور میں نے ان کی بات مان لی‘‘۔ شاید ذہن میں ہوگا : ’’تاکہ تم اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں اور تشکیک و شبہات، کا جواب دے سکو‘‘۔ محمد قطب ۱۹۴۹ء میں تعلیم سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۱ئمیں ان کی پہلی اور انتہائی شان دار کتاب منظر عام پر آئی: الإنسان بین المادیۃ والإسلام (انسان مادیت اور اسلام کے مابین)۔ اس میں انھوں نے فرائڈ جیسے کٹر منکرین حق کے نام نہاد فلسفوں کا مسکت جواب دیا۔ اسی طرح اُنھوں نے اپنی کتاب مذاہب فکریۃ معاصرۃ (معاصر نظریاتی رحجانات)میں بھی مغربی فلسفیوں کا بخوبی محاکمہ کیا۔ اسی طرح جاھلیۃ القرن العشرین (بیسویں صدی کی جاہلیت) کے نام سے اُنھوں نے مغربی تہذیب کے تار وپود بکھیر کر رکھ دیے۔ اپنی کتاب التطور و الثبات فی حیاۃ البشریۃ (انسانی زندگی میں ترقی و ثبات) میں انھوں نے کارل مارکس اور سوشلسٹ نظریات کی حقیقت واضح کی۔
محمد قطب نے اپنے بھائی کی طرح ایک طرف تو باطل نظریات کا ابطال کیا اور دوسری جانب اسلامی تعلیمات کا روشن چہرہ اُجاگر کیا۔ اس دوسرے پہلو کے ضمن میں ان کی کتاب منہج التربیۃ الإسلامیۃ (اسلامی تربیت) بھی شہرہ آفاق کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اسی کتاب کی وجہ سے سعودی عرب نے انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اپنی کتاب منہج الفن الإسلامی میں اُنھوں نے واضح کیا کہ فن اسلامی کسی جامد فلسفے یا وعظ اور پندو ارشاد کا نہیں بلکہ وجود کائنات اور اس میں بکھرے حقائق، تلخیوں اور مظاہر جمال کو اسلامی تصورات کے آئینے میں دیکھنے کا نام ہے۔ مفاھیم ینبغی أن تصحح (بعض خیالات جن کی درستی ناگزیر ہے)۔ دراسات قرآنیۃ (قرآنی مطالعہ)، التفسیر الإسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تشریح)، واقعنا المعاصر (ہمارے موجودہ حالات)، ھل نحن مسلمون (کیا ہم مسلمان ہیں؟) شبہات حول الإسلام (اسلام کے بارے میں بعض شبہات)، لا الٰہ الا اللّٰہ، عقیدۃ وشریعۃ ومنھاج حیاۃ (لا الٰہ الا اللہ عقیدہ بھی ہے، شریعت بھی اور نظام حیات بھی) ، العلمانیون و الإسلام (سیکولر حضرات اور اسلام)، کیف ندعو الناس (دعوت کیسے دیں؟)، رکائز الإیمان (ایمان کی بنیادیں) بھی مرحوم کی وہ شان دار کتب ہیں جن سے ایک دنیا نے استفادہ کیا ہے اور رہتی دنیا تک یہ کتب زندہ رہیں گی۔
دونوں بھائیوں سیّد قطب شہید اور محمدقطب کی طرح تینوں بہنوں کو بھی علم و ادب سے گہرا شغف تھا اور سب ہی نے بہت سخت آزمایشیں جھیلیں۔ سبحان اللہ... پانچوں بھائی بہنوں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا گیا... پانچوں کا جرم صرف ایک کہ رب ذو الجلال کے سوا ہر خدا کا انکار کرتے تھے۔ پانچوں مبارک نفوس قرآن کریم کی دعوت لے کر اُٹھے اور اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے مرتکب پائے گئے۔ سیّد قطب کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تو کچھ عرصے بعد سب سے بڑی بہن نفیسہ کے جواں سال بیٹے رفعت کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے گرفتار ماموں اور اخوان کے مابین رابطہ کاری کرتا ہے۔ پھر اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ناتواں جسم تاب نہ لاسکا اور ماموں سے پہلے ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ پھر دوسرے بیٹے عزمی کو گرفتار کرلیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قریب المرگ ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔
دوسری بہن امینہ، سیّد قطب سے چھوٹی اور محمد قطب سے بڑی تھیں۔ انھوں نے عربی ادب کی شان دار خدمت انجام دی۔ اسلامی تحریک سے وابستگی کی پاداش میں ان کے شوہر کمال السنانیری پر تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے جیل ہی میں شہید کردیا گیا۔ راقم نے کمال السنانیری صاحب کا نام سب سے پہلے مرحوم و مغفور محترم قاضی حسین احمد صاحب سے سنا تھا۔ پشاور آکر رہنے والے مختلف عرب رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کمال السنانیری کا نام خصوصی عقیدت و محبت سے لیا کرتے تھے۔ دیگر اُمور کے علاوہ ایک بات یہ بھی بتاتے کہ سنانیری مرحوم کافی عرصہ پشاور میں ہمارے گھر رہے، لیکن ہمیں ایک روز کے لیے بھی ان کی مہمان داری بوجھ نہیں لگی۔ وہ اکثر روزے سے ہوتے۔ ہمیں بھی اچانک معلوم ہوتا کہ وہ روزے سے ہیں۔ ہمیشہ تلاوت و نوافل ان کا معمول ہوتا۔ امینہ قطب سے ان کی نسبت ۱۹۵۴ء میں طے ہوئی تھی۔ سنانیری صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ گرفتاری کا عرصہ طویل ہوگیا تو انھوں نے پیش کش کی کہ نہ جانے کب تک جیل میں رہنا پڑے، آپ اور آپ کے اہل خانہ چاہیں تو یہ نسبت ختم کردیتے ہیں۔ لیکن امینہ امانت دار ہی نہیں، وفا شعار بھی تھیں۔ انھوں نے اس موقعے پر ایک نظم کہی، جو ان کی ادبی زندگی کی پہلی نظم تھی۔ اپنے پہلے قصیدے میں، شان دار انداز سے، اپنے منگیتر کا حوصلہ بڑھایا۔ ۷۰کی دہائی میں کمال السنانیری کی رہائی ہوئی اور ۱۹۷۳ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس وقت اس باوفا ’دلہن‘کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔ ۱۹۸۱ء میں انور السادات نے دوبارہ اخوان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ سنانیری بھی ابتدائی اسیروں میں سے تھے۔ اس بار اس اللہ والے کے نصیب میں قید ہی نہیں شہادت کا رُتبہ بھی لکھا تھا۔ نومبر ۱۹۸۱ء میں جیل ہی میں تشدد کے نتیجے میں جان، جانِ آفریں کے سُپرد کردی۔ امینہ ہی نہیں محمد قطب سمیت تمام اہل خانہ نے اس شہادت کا صدمہ صبر و ثبات سے برداشت کیا۔
سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب بھی اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر افراد خانہ کی طرح جلادوں کے مظالم کا نشانہ بنیں۔ ۱۹۶۵ء میںسیّد قطب کے ہمراہ وہ بھی گرفتار ہوئیں، تو چھے سال چار ماہ جیل میں بند رہیں اور اس دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔
محمد قطب جیسی نابغہء روزگار علمی شخصیت کو بھی سیّد قطب کی طرح اسلام سے وابستگی کی سزائیں دی گئیں۔ پہلی بار ۱۹۵۴ئمیں اخوان کے ہزاروں کارکنان سمیت گرفتار کیے گئے اور بلا مقدمہ کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۶۵ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے، اس بار وہ سیّد قطب سے بھی پہلے گرفتار ہوئے۔ سیّد قطب نے اعلیٰ حکومتی ذمہ داران کے نام خط لکھ کر احتجاج کیا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ ہم اہلِ خانہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ برطانوی غلامی کے شکار حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ برطانوی دانش ور اور مفکر برٹرینڈ رسل کو بھی ان کے خیالات کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا تھا، لیکن اہلِ خانہ ان کے بارے میں پوری طرح باخبر رہتے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ رسّل بھی ایک دانش ور تھا اور میرا بھائی محمد بھی ایک دانش ور ہے۔ اس احتجاجی مراسلے کا جواب یہ ملا کہ ایک ہفتے بعد سیّد قطب بھی گرفتار کرلیے گئے۔ سیّد اور ان کے ساتھیوں پر تو ایک بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا اور ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ء کو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا، لیکن محمد قطب پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی انھیں سات برس تک قید رکھا گیا۔ اس دوران انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار تو جیل کے اندر باہر یہ افواہ پھیل گئی کہ محمد قطب تشدد کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے ہیں، لیکن بعد میں یہ خبر غلط نکلی۔ رہائی ملی تو دوست احباب نے ’زندہ شہید‘ کے لقب سے یاد کرنا شروع کردیا۔
سات سال قید کے بعد رہائی ملی تو ۱۹۷۲ء میں انھیں ملک عبد العزیز یونی ورسٹی مکہ مکرمہ، حالیہ ’اُم القریٰ‘ یونی ورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آخری سانس تک وہ جوار کعبہ ہی میں رہے۔ کئی بار انھیں دیگر کئی ممالک سے ملازمت اور شہریت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوںنے بیت اللہ کی قربت اور مصری شہریت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف تعلیم و تربیت اور بحث و تحقیق کی سرگرمی جاری رکھی بلکہ متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔ ان کے ایک یادگار سفر میں خاکسار بھی ان کا ہم رکاب رہا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار افغان مجاہدین کو باہم متحد کرنے کی درجنوں کوششوں میں شرکت کرنے کے لیے وہ بھی دیگر عرب زعما کے ساتھ پشاور آئے۔ کئی عرب مجاہدین سے ملاقات کی، کئی ایک سے وائرلیس پر رابطہ ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ تمام کاوشیں بے سود رہیں۔
دھیما مزاج رکھنے والے محمد قطب، اپنی تحریروں اور نظریات میں کامل یکسو اور مضبوط استدلال رکھتے تھے۔ حلقۂ یاراں میں اگر آرا کا اختلاف سامنے آتا تب بھی بریشم کی طرح نرم رہتے، لیکن رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن، کا حقیقی مصداق تھے۔ علامہ یوسف القرضاوی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سیّد قطب کے بعض خیالات سے علمی اختلاف کیا اور اس کے بارے میں مسلسل لکھا، لیکن کبھی نہیں ہوا کہ محمد قطب سے ملاقات ہونے پر انھوں نے اس اختلاف کا ذکر ہی کردیا ہو ... ہمیشہ اخوت کی حلاوت ہی گھولی۔
رب ذو الجلال ہمیشہ اپنی قدرت و حکمت دنیا کو دکھاتا ہے لیکن کم ہی لوگ عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ امام حسن البناء، سیّد قطب، محمد قطب اور ان کے ہزاروں ساتھیوں پر جن فرعون حکمرانوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے، وہ انھیں اور ان کی دعوت کو فنا کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے۔ اللہ نے ان جلاد حکمرانوں کو یوں فنا کیا کہ آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں بچا، جب کہ ان مخلص مصلحین کے افکار، دنیا کے چپے چپے میں اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اسلامی تحریک عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے ہر کونے میں کامل قوت کے ساتھ موجود ہے۔ سچی دعوت کی علم بردار اس تحریک کو آج بھی کئی فرعون اور ان کے حواری کچلنا چاہتے ہیں، لیکن کون ہے جو اللہ کے دین اور اسے غالب و کار فرما کرنے والی تحریکوں کو شکست دے سکے۔ قدرت ان ظالموں پر خنداں ہے ...پکار پکار کر کہہ رہی ہے: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ (الشعراء ۲۶: ۲۲۷)، عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!